إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (35:10)۔ یعنی اس کی طرف پا کیزہ کلام چڑھتا ہے اور عمل صالح اس کو اوپراٹھاتا ہے۔اسی طرح حدیث میں ذکر اسم اعظم کسی "لفظ" کا نام نہیں ہے، بلکہ "کیفیت" کا نام ہے، یعنی وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے کیفیت اعظم ہے۔ اس کیفیت اعظم کے ساتھ جو دعا کی جائے وہی اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا ہے۔ یہ دراصل آپ کی اپنی قلبی کیفیت ہے جو کسی دعا کواسم اعظم کی دعا ءبتاتی ہے- کسی انسانی لفظ میں یہ طاقت نہیں کہ وہ خدا کا اسم اعظم بن جائے، وہ خدا کی لامحد ودہستی کا احاطہ کر لے۔