ذريعه: الرساله مئي، صفحه 32
قرآن میں آیا ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185)۔ یعنی ہرنفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ذائقہ سے مراد تجربہ (experience) ہے، یعنی ہر انسان جو پیدا ہوا ہے، اس کو لازماً موت کا تجربہ پیش آنے والا ہے۔ پیدائش بھی ایک تجربہ ہے، اور موت بھی ایک تجربہ۔ کامیاب انسان وہ ہے، جو ان دونوں تجربات سے سبق لے۔ جو ان تجربات کو اپنے لیے سبق میں ڈھال سکے۔
زندگی کو جاننے والا شخص وہ ہے، جو زندگی کو ایک موقع کی صورت میں دریافت کرے، اور پھر منصوبہ بند انداز میں اس موقع کو استعمال کرے۔زندگی کو جاننے والا شخص وہ ہے، جو زندگی کو ایک موقع کی صورت میں دریافت کرے، اور پھر منصوبہ بند انداز میں اس موقع کو استعمال کرے۔ یہی انسان کامیاب انسان ہے۔ ایسے انسان کے لیے زندگی بھی بامعنی ہے، اور موت بھی بامعنی۔ اس کے برعکس کیس، اس انسان کا کیس ہے، جو دنیا میں اس طرح جیے کہ وہ زندگی کی حقیقت سے بے خبر ہو، اور موت کی حقیقت سے بھی بے خبر رہے۔ جو بے خبری میں جیے، اور بے خبری کی حالت میں مر جائے۔ایسے انسان کو نہ زندگی سے کچھ ملا، اور نہ وہ موت سے کچھ پانے والا ہے۔ ایسے انسان کے لیے زندگی بھی محرومی ہے، اور موت بھی محرومی۔ زندگی ایک آغاز ہے۔ تاہم موت اس آغاز کا خاتمہ نہیں۔ زندگی ایک کتاب کی مانند ہے۔ ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ گویا کہ اپنی کتاب کو لکھنا شروع کرتا ہے۔ لکھنے کا یہ کام آدمی خود کرتا ہے۔ آدمی کی سوچ ، اس کا عمل ، اس کامنصوبہ، اس کی آرزوئیں، اس کی تمنائیں، اس کی ناکامی، اور اس کی کامیابی، یہ تمام چیزیں انسان کی خود نوشت سوانح عمری کے ابواب ہیں۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَکُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنْشُورًا۔ اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَى بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا (17:13-14)۔ یعنی ہم نے ہر انسان کی قسمت اس کے گلے کے ساتھ باندھ دی ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جس کو وہ بالکل کھلا ہوا پائے گا۔ پڑھ اپنی کتاب۔ آج اپنا حساب لینے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔ [Highlight2]