ذريعه: مئي 2020، صفحه 43
جو آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ سو سال سے کم مدت میں اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس محدود مدت کے بدلے انسان کو جنت دی جائے گی،یعنی انسان محدود مدت کے عمل کے بدلے لامحدود جنت کا انعام پائے گا۔یہاں یہ سوال ہے کہ یہ انعام انسان کو کس عمل کے بدلے دیا جائے گا۔ یہ بلاشبہ ایک عجیب معاملہ ہے۔ انسان کا وہ کون سا عمل ہے، جو اس کو ابدی جنت کا مستحق بنائے گا۔
وہ انسان جو اللہ کی رحمتوں کو اس شدت کے ساتھ دریافت کرے کہ اللہ اس کا محبوب ترین بن جائے، بلکہ تمام محبوب چیزوں سے زیادہ محبوب بن جائے۔ یہ صفت بلاشبہ ایک انوکھی صفت ہوگی، اور اللہ اس صفت کی قدردانی کرتے ہوئے، انسان کو ابدی جنت کا مستحق قرار دے گا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کو ان کے محدودعمل کی بنا پر لامحدود جنت کا انعام دیا جائے گا۔ لیکن یہ انعام اس لیے نہیں ہوگا کہ خود انسان کا کوئی عمل ابدی انعام کے قابل ہے۔ بلکہ اللہ کی رضامندی اس کو ابدی انعام کا مستحق بنائے گی۔ انسان اپنے عمل کے اعتبار سے محدود انعام کے قابل ہوگا۔ لیکن اللہ رب العالمین کی نسبت سے اس کے اندر ابدیت کی صفت پیدا ہوجائے گی۔ اسی حقیقت کو حدیث میں رحمتِ الٰہی کا نام دیا گیا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5673) وہ کیا چیز ہے، جو کسی کے عمل کو اللہ رب العالمین کی ابدی رحمت کا مستحق بنائے گی۔ وہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:اَلَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ یعنی اللہ رب العالمین کے ساتھ حُبِّ شدید کا ہونا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کے ابدی انعام کا مستحق وہ انسان قرار پائے گا، جو اللہ رب العالمین کی نعمتوں کو اس کی تمام عظمتوں کے ساتھ دریافت کرے ۔ یہ بلاشبہ ایک نہایت انوکھی صفت ہے۔ [Highlight2] وہ انسان جو اللہ کی رحمتوں کو اس شدت کے ساتھ دریافت کرے کہ اللہ اس کا محبوب ترین بن جائے، بلکہ تمام محبوب چیزوں سے زیادہ محبوب بن جائے۔ یہ صفت بلاشبہ ایک انوکھی صفت ہوگی، اور اللہ اس صفت کی قدردانی کرتے ہوئے، انسان کو ابدی جنت کا مستحق قرار دے گا۔ جو انسان اللہ کو دیکھے بغیر اللہ سے حُبّ شدید کا حامل بن جائے، یہ اللہ کے نزدیک اتنا زیادہ قابل قبول صفت ہوگی ، جو ان کو ابدی جنت کا مستحق بنادے گی۔