الرسالہ

(مئی-جون 2022)

 

 

 

 

مولانا وحید الدین خاں

عید الاضحی اسپرٹ

عید الاضحی کی مناسبت سے مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اپنی ڈائری میں تاثرات درج کیے ہیں، يهاں دو تاثرات نقل کیے جاتے ہیں—’’آج (5 اگست کو)دہلی میں عید الاضحی ہے۔ میں فجر سے پہلے اٹھا۔ ’’صلوۃ مغفرت‘‘ کی نیت کر کے دو رکعت نماز پڑھی۔ اب جب کہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں، قریب کی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز آرہی ہے۔ آج کل میں بہت کمزور ہو گیا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اب میری موت قریب آ گئی ہے۔چنانچہ فجر سے پہلے جب دو رکعت نماز کے لیے کھڑا ہوا تو اپنے آپ یہ نیت دل میں آ گئی کہ خدایا تو میری اس نماز کو میری مغفرت کے لیے قبول کر لے۔ اگرچہ میرے کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ مگر تو اسی کو اپنی رحمت کے لیے بہانہ بنا لے اور مجھے بخش دے۔ نماز پڑھتے ہوئے بے اختیار آنسو نکلنے لگے۔ یہاں تک کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ میری زبان سے یہ دعا نکلی کہ خدایا حضرت سلیمان نے تجھ سے کہا تھا  — هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي (38:35)۔یعنی، مجھ کو ایسی سلطنت دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو ۔

 میرے مالک، میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے ساتھ ایسی رحمت کر جو تونے کسی کے ساتھ نہ کی ہو، وہ یہ کہ تو مجھ کو بلا استحقاق بخش دے۔خدایا! میری مغفرت فرما، میرے والدین کی، میرے بیوی بچوں کی مغفرت فرما۔ خدایا! ان لوگوں کی مغفرت فرما جنھوں نے اس مشن میں میرا ساتھ دیا۔ یا اللہ، یا اللہ، یا اللہ!‘‘ ۔(ڈائری 1987)

 22 مئی 1994 کو عید الاضحی کا دن تھا۔اس دن کے تعلق سے مولانا لکھتے ہیں کہ’’ نماز کے بعد دہلی میں ایک صاحب کے یہاں ملنے گیا۔ گھر کے ایک لڑکے نے کہا کہ آج یہاں پانی نہیں آیا۔ لڑکے کے والد نے پُرفخر انداز میں کہا کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے یہاں پانی کا بہت انتظام ہے۔ میں نے سوچا کہ میرا حال تو یہ ہے کہ پانی موجود ہو تب بھی میں اپنے کو بے پانی سمجھتا ہوں (کیوں کہ یہ ایک خدائی عطیہ ہے، نہ کہ میری کوئی ذاتی تخلیق)، اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ پانی کے بغیر بھی اپنے کو پانی والا سمجھ رہے ہیں۔ کتنا فرق ہے ایک انسان اور دوسرے انسان میں‘‘۔  (ڈائری 1994)

عمرہ کا سبق

 بعد کے زمانے کے لیے حدیث رسول میں بہت سی پیشین گوئیاں ہیں۔ ایک پیشین گوئی کے مطابق، بعد کے زمانے میں امت کے پاس مال کی فراوانی ہوجائے گی۔ وہ تفریح کے لیےحج اور عمرہ کا سفر کرنے لگیں گے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَحُجُّ أَغْنِيَاءُ ‌أُمَّتِي ‌لِلنُّزْهَةِ، وَأَوْسَاطُهُمْ لِلتِّجَارَةِ، وَقُرَّاؤُهُمْ لِلرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ، وَفُقَرَاؤُهُمْ لِلْمَسْأَلَةِ (تاریخ بغداد للخطیب بغدادی، حدیث نمبر 5433)۔ یعنی ،لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا، جب کہ میری امت کے مالدار تفریح کے لیے حج کریں گے، ان کا مڈل کلاس تجارت کےلیے، اور ان کے علما دکھاوا کے لیے اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے۔

آج کل مسلمانوں میں عمرہ کی دھوم ہے۔ عمرہ کے لیے لوگ اتنا زیادہ مکہ جانے لگے ہیں، جو تقریباً حج کے برابر ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ کا عمرہ کے بارے میں اسوہ کیا تھا۔ ہجرت کے بعد 6ہجری میں رسول اللہ نے مدینہ میں اعلان کیا تھا کہ عمرہ کے لیے مکہ جانا ہے۔پھر مدینہ سے آپ تقریباً چودہ سوا صحاب کے ساتھ نکلے تاکہ مکہ پہنچ کر عمرہ کریں۔ لیکن حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر حالات بدل گئے۔ اب آپ نے نیا فیصلہ لیا۔ وہ یہ کہ درمیان سفر سے مدینہ واپس چلے جائیں، اور اگلے سال ، 7ھ میں دوبارہ مکہ جاکر عمرہ کریں۔ اس عمرہ کو اسلامی تاریخ میں عمرۃُ القضاء کے نام سے جانا جاتا ہے۔    

رسول اللہ کے اس عمل سے ایک اصول ملتا ہے۔ وہ یہ کہ زندگی کا منصوبہ ناقابلِ تبدیل (unchangeable) منصوبہ نہیں ہے، بلکہ حالات کے تحت ہے۔ اگر حالات بدل جائیں تو منصوبہ بھی بدل سکتا ہے۔ خواہ وہ عمرہ جیسے مقدس عبادت کا منصوبہ هي کیوں نہ ہو۔ لیکن موجودہ زمانے میں عمرہ اور حج کے لیے بھیڑ لگانے والے اس پیغمبرانہ اصول کو نہیں جانتے۔ وہ کسی کو اپنا دشمن سمجھ لیں تو برابر دشمن ہی سمجھتے رہیں گے۔ اگر کسی سے لڑائی چھیڑ دیں، تو لڑائی کو برابر جاری رکھیں گے۔ وہ عمرہ تو جانتے ہیں، لیکن عمرہ کا سبق کیا ہے، اس سے وہ بے خبر ہیں۔ 

رَمی جمار کا سبق

رمی جمار کا لفظی مطلب ہے، کنکری سے مارنا۔ رمی جمار یا رمی، حج سے متعلق ایک اسلامی عمل ہے۔ حج کرنے والادورانِ حج جمرات کے مقام پر تین علامتی شیطانوں کو کنکر مارتا ہے۔ یہ حج کا ایک رکن ہے۔ حج کے دنوں میں ذوالحجہ کی دس، گیارہ اور بارہ تاریخ کو یہ عمل کیا جاتا ہے، اس میں ہر حاجی پر لازم ہے کہ تین شیطانوں کو سات سات کنکر ترتیب وار مارے۔ یہ عمل اسلام میں پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر جاری ہے۔

رمی جمار کی حیثیت پہلے بھی علامتی تھی، اور آج بھی ا س کی حیثیت علامتی ہے۔ رمی جمار کی حقیقت یہ ہے کہ جب کسی اسلامی عمل کے وقت شیطان آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالے ، شیطان آدمی کو اسلامی عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو انسان اس وسوسے کو جان لے۔ وہ نئے ارادے کے ساتھ اپنے اسلامی عمل کو جاری رکھنے کا عزم کرے۔ رمی جمار کوئی مادی واقعہ نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ارادے کو زیادہ قوی کرنے کا ایک علامتی طریقہ ہے۔

رمی جمار کے وقت بظاہر حاجی علامتی شیطان کو کنکری مارتا ہے۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خود اپنے لیے فیصلے کا ایک اعلان ہے۔یہ فیصلہ کہ میں شیطان کو اپنے سے دور رکھوں گا۔ میں بری خواہش کو اپنے پاس آنے نہیں دوں گا۔ میں قول و عمل کی ہر برائی سے اپنے آپ کو پاک بناؤں گا۔ میں سماج کا ایک اچھا انسان بنوں گا۔ گھر کے اندر اور گھر کے باہر میں کسی کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ میں سماج میں ایک بے مسئلہ انسان (no problem person) بن کر رہوں گا، اور اگر کوئی برا عمل ہوجائے، تو فوراًتوبہ کروں گا۔

میں سماج میں ایک نافع انسان (giver person) بن کر رہوں گا۔ مجھ سے دوسروں کو فائدہ پہنچے گا، نقصان نہیں۔ مجھ سے دوسروں کو خیر ملے گا، شر نہیں۔ میری زندگی خدا کی نسبت سے خدا رخی ہوگی، اورانسان کی نسبت سے انسان دوست ۔

حج بدل کا مسئلہ

جمہور فقہاء کی رائے ہے کہ جو شخص مر جائے اور اس پر حج فرض رہا ہو تو اس کے وارث پر واجب ہے کہ میت کی طرف سے حج کرے یا اس کی طرف سے کسی کو حج کروائے، خواہ مرےہوئے شخص نے حج کی وصیت کی ہو یا وصیت نہ کی ہو۔ امام مالک کا قول ہے کہ میت کی طرف سے حج اس وقت ضروری ہے جب کہ اس نے وصیت کی ہو، ورنہ نہیں۔ کیوں کہ حج ان کے نزدیک بدنی عبادت ہے، اس میں نیابت نہیں ( جمھور الفقھاء یریٰ ان من مات و علیہ حجۃ الاسلام وجب علیٰ ولیہ ان یحج عنہ او یجھز من یحج عنہ من مالہ، سواء اوصیٰ المیت بالحج ام لم یوص۔ وقال الامام مالک، یجب الحج عن المیت ان کان قد اوصیٰ بذٰلک۔ اما اذا لم یوص بالحج فلا یجب الحج عنہ۔ لان الحج عندہ عبادۃ بدنیۃ لا تقبل النیابۃ

اس مسئلہ کی بنیاد صحیح البخاری کی ایک روایت پر ہے، جس میں ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ میری ماں نے حج کی نذر کی تھی۔ مگر وہ حج کیے بغیر مرگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں۔ آپ نے فرمایا :ہاں (إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّى مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، حُجِّي عَنْهَا)صحیح البخاری، حدیث نمبر 1852۔ اس حدیث میں اس آدمی کا ذکر ہے جس نے اُس اعتبار سےحج کی نیت کر رکھی ہو، جس میں حج فرض ہوجاتا ہے، مثلاً نذر ماننا، وغیرہ۔ مگر ادائیگی سے پہلے اس کی وفات ہو گئی۔ دوسری ایسی کوئی روایت نہیں جس میں میت کی طرف سے عمومی طور پر حج کی ادائیگی کی ہدایت کی گئی ہو۔

میرے نزدیک اس معاملہ میں امام مالک کا مسلک صحیح ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ صرف مالی قرض ایک ایسی چیز ہے جس میں استثنائی طور پر یہ حکم ہے کہ میت کی طرف سے ہر حال میں اس کو ادا کیا جائے۔ عبادتی امور میں صرف نیت کا اعتبار کیا جائے گا۔ بخاری کی مذکورہ روایت میں دَین (قرض) کا لفظ ہے، مگر وہ مجازی معنی میں ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں۔ اس سے مالی قرض پر قیاس نہیں کیا جا سکتا (ڈائری، 22 ستمبر 1983)۔

  آیتِ امید

قرآن کی ایک آیت کو آیت ِ امید کہا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔

قرآن کی یہ آیت دوسری آیتوں سے بظاہر ایک ڈفرنٹ آیت ہے۔ اس قسم کی دوسری آیتوں میں عام طو رپر یہ ہوتا ہے کہ آدمی اگر اپنے گناہ سے توبہ کرے اور اللہ سے معافی مانگے تو امید ہے کہ اس کی بخشش ہوجائے گی۔ مگر اس آیت میں اس قسم کے الفاظ نہیں ہیں۔ قرآن کی اس آیت میں صرف یہ ہے کہ گناہ گار آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ کیوں کہ اللہ اتنا زیادہ رحیم و کریم ہے کہ وہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔

اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تمام گناہوں کو معاف کرسکتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس عام معافی کے ساتھ توبہ اور طلبِ عفو کا کوئی ذکر نہیں۔ گویا کہ اگر آدمی کے اندر اللہ کی رحمت پر سچا یقین ہو تو اللہ کی رحمت خود ہی متحرک ہوجائے گی، اور وہ بندے کے تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنے گی۔ اللہ کی رحمت پر اگر بندے کے اندر کامل یقین ہے تو اس کا یقین اپنے آپ معافی کی سفارش بن جائے گا۔ اور بندے کے تمام گناہوں کو معاف کرکے اس کے لیے جنت مقدر کردی جائے گی۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عدم قنوط(مایوس نہ ہونا) ایک ایسا عمل ہے، جس کی وجہ سے انسان کو خدا کی رحمت مل سکتی ہے۔یعنی انسان کے اندر کامل معنی میں عدم قنوط ہو تو اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوگا کہ لفظی اظہار کے بغیر اس کے لیے گناہ سے معافی کا ذریعہ بن جائے۔آیت کا یہ انداز اتنا زیادہ رحمت سے بھرا ہوا ہے کہ اکثر علما نے یہ مانا ہے کہ قرآن کی یہ آیت سب سے زیادہ پرامید آیت ہے (‌‌‌أَرْجَى ‌آيَةٍ ‌فِي ‌الْقُرْآنِ )۔ گویا اللہ کی رحمت سے مایوسی سب سے بڑی خطا ہے، اور اللہ کی رحمت پر یقین سب سے بڑا عمل۔

خدا امید کا خزانہ

موجودہ دور میں مسلمان مختلف قسم کی پریشانیوں کی شکایت کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں خدا سے امید رکھنے کے حوالے سے متعدد واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر مشکلات میں خدا پراپنےاعتماد کو مضبوط رکھے تو اس کی پریشانیاں حل ہوسکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ صبر اورتقویٰ کا طریقہ اختیار کرے اور مثبت سوچ کی بنیاد پر اپنی پلاننگ کرے، جیسا کہ ذیل کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور 175 سال کی عمر پا کر اُن کی وفات ہوئی۔ان کا واقعہ ہے۔ جب وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس مقام پر چھوڑ کر جانے لگے جہاں آج مکہ آباد ہے تو ہاجرہ نے کہا کہ اے ابراہیم! ہم کو اس صحرا میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز؟" پھرہاجرہ نے ابراہیم سے پوچھا کہ "کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟" ابراہیم نے کہا کہ "ہاں"۔ ہاجرہ نے کہا "پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا" (إذن لا یُضَیِّعُنَا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3364۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ مکہ آباد ہو، اور وہ نسل ظہور میں آئے جس میں رسول اور اصحابِ رسول پیدا ہوئے،جن کے ذریعہ دنیا میں اسلام کا انقلاب برپا ہوا۔

 حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تیرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ وہ قدیم مصر میں آئے۔ اس وقت وہاں فرعون (Pharaoh) کی حکومت تھی۔ بنی اسرائیل کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا۔ جب پیغمبر موسیٰ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ ایسے مقام پر پہنچے جہاں سامنے بحر احمر تھا، اور پیچھےفرعون کا لشکر۔ یہ انتہائی خطرناک صورتِ حال تھی۔ اس نازک موقع پر بنی اسرائیل اور موسیٰ کی جو کیفیت تھی، اس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:فَلَمَّا تَرَٰٓءَا ٱلۡجَمۡعَانِ قَالَ أَصۡحَٰبُ مُوسَىٰٓ إِنَّا لَمُدۡرَكُونَ ۔ قَالَ كَلَّآۖ إِنَّ ‌مَعِيَ ‌رَبِّي سَيَهۡدِينِ(26:61-62)۔ یعنی، پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ نے کہا کہ ہرگز نہیں، بےشک میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھ کو راہ بتائے گا۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مدد کی، اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہوگیا۔       

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ہے۔ 622ء میں آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ ایک بے حد خطرناک سفر تھا۔ اس سفر کے دوران آپ کوغار ثور میں چھپنا پڑا ۔ آپ کے مخالفین جو آپ کی تلاش میں نکلے تھے ، وہ تلوار لیے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ کے واحد ساتھی ابوبکر صدیق تھے۔انہوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ اے خدا کے رسول، وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے۔ اس کے جواب میں آپ نے جو کہا، اس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:لَا ‌تَحْزَنْ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَا(9:40) ۔یعنی غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس واقعے کو حضرت ابوبکر صدیق نے اس طرح روایت کیا ہے ۔ آپ نے کہا: ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے، جس کا تیسرا اللہ ہو (‌مَا ‌ظَنُّك ‌بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِثُهُمَا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 4663۔اس ایمان و یقین کے سفر کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ مدینہ کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام پھیلے— خدا پر یقین آدمی کی داخلی قوتوں کو متحرک کر کے ایک بے حوصلہ انسان کو تخلیقی انسان بنا دیتا ہے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)

—————

4 جولائی (1990) کو عید الاضحی کی نماز میں نے تبلیغی جماعت کی مسجد میں پڑھی۔ وہاں انسانوں کا ہجوم تھا۔وہاں کے ماحول کو دیکھ کر ایک بات ذہن میں آئی۔دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک معنیٰ کے اعتبار سے، اور دوسرا شکل کے اعتبار سے۔ دین کے ان دونوں پہلوؤں کا تسلسل امت میں جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ میرا احساس یہ ہے کہ تبلیغی تحریک، موجودہ زمانہ میں، دین کے شکلی پہلو کا تسلسل ہے، اور الرسالہ کا مشن دین کے معنوی پہلو کا تسلسل۔ تبلیغ کے لوگ اس تقسیم کو ہرگز نہیں مانیں گے۔ مگر میرے نزدیک حقیقت واقعہ یہی ہے (مولانا وحیدالدین خاں، ڈائری، 6جولائی 1990)۔

آدم اور ابلیس کا سبق

آدم و ابلیس کا قصہ قرآن میں کئی بار بیان کیا گیا ہے۔مثلاً سوره البقرة ، 2:30-38، سورہ الاعراف، 7:11-25، سورہ الحجر، 15:26-43وغیرہ۔ اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو پیدا کرکے فرشتہ اور ابلیس کو اسے سجدہ کرنے کے لیے کہا۔فرشتوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ وہ نقصان میں رہا۔

 ابلیس کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک فرمانبردار مخلوق تھا، لیکن ایک موقع آیا جب کہ اس کے لیے پریکٹکل وزڈم یہ تھا کہ وہ ایک نئی مخلوق ،آدم کے سامنے خدا کے حکم کے مطابق جھک جائے۔ مگر وہ اپنے ماضی کی عظمت میں گم رہا کہ وہ نئی مخلوق کے مقابلے میں ایک برتر مخلوق ہے (الاعراف، 7:12)۔ اس نے اپنے مفروضہ عظمت کی بنا پر سرکشی (stubbornness) کا طریقہ اختیار کیا، اور پریکٹکل وزڈم کو قبول نہ کرسکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لیے خدا کی نظر میں ناپسندیدہ قرار پایا۔اس کے برعکس، فرشتوں نے پریکٹکل وزڈم کو دو مرتبہ قبول کر لیا۔ ایک بار جب کہ انھوں نے یہ کہا کہ نئی مخلوق زمین میں فساد پیدا کرے گی۔ اللہ نے جب وضاحت کی تو انھوں نے اس کو قبول کرلیا۔ دوسری مرتبہ جب اللہ نے ان سے کہا کہ وہ آدم کے آگے سجدہ کریں۔ اس مرتبہ بھی انھوں نے خدا کی بات مان لی۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے بدلے ہوئے حالات کو ایکسپٹ (accept) کیا، انھوں نے ابلیس کی مانند عذر (excuse)کا طریقہ اختیار کرکے خدا کے پیدا کیے ہوئے حالات سے ٹکراؤ کا راستہ نہیں چنا۔  

یہ حقیقت میں اللہ کی جانب سے انسان کو سبق ہے کہ نئی صورت حال پیش آنے پر تمھارا رویہ ابلیس کی طرح کٹر پن (rigidity) اور تنگ نظری (narrow-mindedness) کا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے رویے میں لچک (flexibility) رکھو، صورت حال کو سمجھو، اور اسے قبول کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو تم ابلیس کی طرح نقصان میں رہوگے۔ دوسرے  الفاظ میں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ مت دیکھو کہ ماضی میں تم کیا تھے، بلکہ یہ دیکھو کہ وقت کا پریکٹکل وزڈم کیا ہے، اور اس کو اختیار کرو۔

وقت کا ضیاع

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (4:114)۔ یعنی ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں۔ بھلائی والی سرگوشی صرف اس کی ہے جو صدقہ کرنے کو کہے یا کسی نیک کام کے لیے کہے یا لوگوں میں صلح کرانے کے لیے کہے۔ جو شخص اللہ کی خوشی کے لیے ایسا کرے تو ہم اس کو بڑا اجر عطا کریں گے۔

نجویٰ کا مطلب ہے سرگوشی (whisper) کے انداز میں بات کرنا۔ لیکن یہ آیت اپنے عمومی اطلاق کے اعتبار سے ہر قسم کی گفتگو پر محیط ہے۔ عمومی اطلاق کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ بیشتر لوگ غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں، ان کی بات تقویٰ پر مبنی نہیں ہوتی۔ وہ سوچنے سے پہلے بولتے ہیں۔ وہ احساسِ ذمے داری کے بغیر کلام کرتے ہیں۔ ان کے سامنے صرف دنیا کے تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ آخرت کے تقاضے کے تحت نہ سوچتے ہیں، اور نہ بولتے ہیں۔

خیر یا بھلائی صرف اس کلام میں ہے، جو ذمے داری (accountability)کے احساس سے بولاجائے۔ وہی کلام خیر کا کلام ہے، جس میں آدمی اس طرح بولے کہ وہ خدا کے اِس قانون کو یاد رکھے ہوئے ہو: إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ۔ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (50:17-18)۔یعنی، جب دو لینے والے لیتے رہتے ہیں جو کہ دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔ کوئی لفظ وہ نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگراں موجود ہے۔ 

کلام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے ذمہ دارانہ کلام، اور دوسرا ہے غیر ذمہ دارانہ کلام۔ غیر ذمہ دارانہ کلام، بولنے والے کے لیے ایک وبال کی حیثیت رکھتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ زیادہ سوچے اور کم بولے۔ وہ انسان کے سامنے سوچنے سے پہلے یہ یاد کرے کہ وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ اللہ رب العالمین کے سامنے وہ اپنے آپ کو کھڑا ہوا پائے گا۔ اس کو بتانا ہوگا کہ وہ جب بولا تو کیوں بولا، جو بات اس نے کہی، تو اس بات کو کہنے کے لیے اس کے پاس جواز (justification) کیا تھا۔    

وقت کی اہمیت

قرآن میں نماز کا حکم ان الفاظ میں آیا ہے: إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (4:103)۔ یعنی   بیشک نماز مومنوں پر فرض ہے وقت کی پابندی کے ساتھ :

Verily, the prayer is enjoined on the believers at fixed hours.

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پانچ وقت کی نماز تو اوقات کی پابندی کے ساتھ انجام دینا ہے، لیکن دوسرے کاموں میں اوقات کی پابندی ضروری نہیں۔ اس آیت کامطلب یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے ، جس کی زندگی میں وقت کی پابندی ایک جزءِ حیات کے طور پر شامل ہوجائے،وہ ہر کام کو وقت کی پابندی کے ساتھ انجام دینے لگے، اور اسی اصول عام کے مطابق، نماز بھی وقت کے پورے اہتمام کے ساتھ وہ ادا کرے۔

وقت کی پابندی کوئی سادہ بات نہیں۔ وقت کی پابندی کا تعلق زندگی کے نظم و ضبط سے ہے۔ ذمے دار انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام کو نظم و ضبط کے ساتھ انجام دے۔ وقت کی پابندی کا مطلب صرف اپنے اوقات کو منظم انداز میںانجام دینا نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک اجتماعی پہلو بھی ہے۔ کیوں کہ آدمی سماجی حیوان (social animal) ہے۔ ایک آدمی جب اپنا کام منظم انداز میں انجام دیتا ہے، تو وہ دوسروں کے ساتھ یہ تعاون کرتا ہے کہ وہ بھی کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے کام کو منظم انداز میں انجام دے۔

وقت کی پابندی کا گہرا تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ خیرخواہی سے ہے۔ وقت کی پابندی ذمے دار انسان کی علامت ہے۔ ذمے دار انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ وقت کے معاملے میں فرض شناس نہ ہو۔حقیقت یہ ہے کہ جب آپ وقت ضائع کرتے ہیں تو یہ سادہ بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ڈبل غلطی کا ارتکاب ہوتا ہے، یعنی وہ اپنے وقت کے ساتھ ساتھ دوسروں کے وقت کو ضائع (swallow) کرنا بھی ہوتا ہے۔ وقت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کو گھٹا کر بیان کرنا ممکن نہیں۔        

کمزور پوائنٹ

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَمَّا صَوَّرَ اللهُ آدَمَ فِي الْجَنَّةِ تَرَكَهُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَتْرُكَهُ، فَجَعَلَ إِبْلِيسُ يُطِيفُ بِهِ، يَنْظُرُ مَا هُوَ، فَلَمَّا رَآهُ أَجْوَفَ عَرَفَ أَنَّهُ خُلِقَ خَلْقًا لَا يَتَمَالَكُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 6815)۔ یعنی جب اللہ نے جنت میں انسان کی ساخت بنائی تو اللہ نے اس کو ایک مدت کے لیے وہاں باقی رکھا۔ پھر ابلیس آیا۔ وہ آدم کے چاروں طرف گھومنے لگا ، یعنی دیکھنے لگا کہ وہ کیا ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ اجوف (hollow) ہے۔ اس نے جان لیا کہ آدم کی تخلیق اِس طرح ہوئی ہے کہ اس کے اندر تمالک کی صفت نہیں۔

 لَا يَتَمَالَكُ کا مطلب ہے اپنی خواہشات اور جذبات پر کنٹرول نہ کرپانا (لَا يَمْلِكُ نَفْسَهُ وَيَحْبِسُهَا عَنِ الشَّهَوَاتِ)۔انسان کے اندر تمالک کی صفت کیوں نہیں ہے۔ کیوں کہ انسان کے اندر انا(ego)کا جذبہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ انسان کا ایک ویک پوائنٹ ہے۔یہ جذبہ انسان کی ساری سرگرمیوں میں کام کرتا ہے۔ایگو کے فتنے کا سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کا ایک جواز (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرتا ہے تو اس کا ایک مبرر (justified reason) اس کے پاس ہوتا ہے۔ وہ غلط کام کو اس یقین کے ساتھ کرتا ہےکہ وہ ایک درست کام ہے۔ یہ ایک خود فریبی کی بدترین صورت ہے۔ یہ اَنا کا جذبہ ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خلاف بات پر بھڑک اٹھتا ہے، اور انتقام (revenge) کے درپے ہو جاتا ہے۔

 آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت کے واقعات سے ہمیشہ پازیٹیو سبق لے،یعنی مبنی بر معرفت سبق۔ منفی سبق لینا فطرت کے نظام کے مطابق نہیں۔ بلاشبہ انسان کے لیے سب سے بڑی تباہ کن بات یہ ہے کہ وہ انا(ego) کا شکار ہوجائے۔ خدا کی معرفت اپنی صحیح صورت میں اس کا روک ہے۔ خدا کی معرفت واحد طاقت ور محرک ہے، جو انسان کو ایگوئسٹ بننے سے بچاتا ہے۔ خدا کی معرفت کے بغیر کوئی انسان ایگو کے فتنے سے بچ نہیں سکتا۔ایگو ئسٹ آدمی ضمیر کی بات نہیں سنے گا، لیکن جو آدمی معرفت کے معاملے میں سنجیدہ ہو، وہ ضروراس کو سنے گا۔

اچھی اولاد

ہر شادی شدہ آدمی کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس کے یہاں اچھی اولاد پیدا ہو۔ اس معاملے میں غور وفکر کے بعد میں نے یہ سمجھا ہے کہ اچھی اولاد کی خواہش دراصل اللہ سے اچھی اولاد کی تمنا کرنا ہے۔ اللہ کا قانون یہ ہے :  لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (14:7)۔یعنی، اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔

اس پر غور کرنے سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ کسی آدمی کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی شادی کو شکر کا موضوع بنائے۔ شادی خواہ بظاہر آدمی کی پسند کے مطابق ہو یا اس کے خلاف۔ ہر حال میں وہ شادی کو شکر کے آئٹم کے طور پر لے، وہ اپنے لائف پارٹنر کو شکر کے آئٹم کے طور پر قبول کرے،ہر حال میں وہ اس سے شکر کا آئٹم دریافت کرے۔ انسان اگر ایسا کرے تو یہ اس کے لیے اللہ سے شکر کے ہم معنی بنے گا۔ اس کے حق میں قرآن کی مذکورہ آیت صادق آئے گی ۔

 اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ شادی سے ملنے والی خاتون کو و ہ شکر کے طور پر قبول کرے۔ تو اس کے بعد اس کے ساتھ شکر کا ایک اضافی جز ءاس کو حاصل ہوگا، یعنی اچھی اولاد۔اچھی اولاد بلاشبہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ اچھی اولاد کسی انسان کے لیے اچھی زندگی کا آغاز ہے۔ اچھی اولاد کسی انسان کے لیے زندگی کی اچھی تعمیر کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اچھی اولاد گویا عملی معنوں میں اچھی زندگی کا آغاز ہے، وغیرہ۔

ہر آدمی کو عملی معنوں میں اچھی زندگی کے آغاز کے لیے اچھی اولاد کی ضرورت ہے۔ اور یہ ضرورت ہر انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے— پہلی نعمت یعنی بیوی کو شکر کے ساتھ قبول کرو تو اس کے بعد اللہ کی توفیق سے تم کو اچھی اولاد حاصل ہوگی۔حاصل شدہ بیوی پر راضی ہونا اپنے آپ میں دعا کی ایک صورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے نے رب سے یہ کہا کہ خدایا، پہلی چیز جو مجھے آپ نے دیا، یہ بظاہر مجھے ناپسند ہے،مگر اس کو میں نے قبول کیا، اب دوسری پسندیدہ چیز مجھے دے دے۔ یہ گویا شکر کے ایک آئٹم پر شکر کے دوسرے آئٹم کا اضافہ ہے۔

دور کو جانیے

 قدیم زمانے میں قبائلی حالات کی بنا پر دنیا میں جنگ کلچر کارواج تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ امن کے ذریعے آسانی کے ساتھ چیزوں کو حاصل کیا جاسکے۔قدیم زمانے میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ اس کو جو کچھ بھی ملے گا، وہ "تلوار" کے ذریعے ملے گا۔ چنانچہ کہا جاتا تھا— ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند (جو تلوار کا ماہر ہوتا ہے، اسی کے نام کا سکہ چلتا ہے)۔موجودہ زمانہ اس کے برعکس ہے، موجودہ زمانہ ٹکراؤ کے بجائے گفتگو کی میز پر نزاع کو حل کرنے کا زمانہ ہے۔ قدیم زمانےمیں جنگ کلچر کو فروغ حاصل تھا، موجودہ زمانے میں امن کو خیر اعلیٰ (summum bonum) کی حیثیت حاصل ہے۔ جدیددور میں گفت و شنید (negotiation) کے ذریعے چیزوں کو حاصل کرنا ممکن ہوگیا ہے۔

جو ممالک اس فرق کو سمجھتے ہیں، انھوں نے عملاً اپنے یہاں جنگ کلچر کو ترک کرکے امن کلچر کو فروغ دیا ۔ اس فرق کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک دورِ جنگ سے نکل کر دورِ امن میں داخل ہو گئے ہیں۔ جن قوموں کو ترقی یافتہ قومیں کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تعلیم یافتہ قومیں ہیں۔ چنانچہ ان قوموں نے اپنی تمام سرگرمیوں کو تعلیم رخی سرگرمی بنا دیا ہے۔ اب ترقی یافتہ دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کو دی جاتی ہے۔ تعلیم سے مراد ہے جدید تعلیم، نہ کہ روایتی تعلیم۔

اس معاملے میں غالباً ایک ہی استثنا ہے، اور یہ استثنا مسلم قوم کا ہے۔ مسلمان آج بھی مسلح ٹکراؤ کی بات کرتے ہیں۔ حالاں کہ اب اس کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب یہ کرنا ہے کہ تعلیم اور تجارت کے مواقع کو تلاش کیا جائے، اور اس کو منصوبہ بندی کے ذریعے اویل کیا جائے۔ آج کل مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے ایک لفظ بہت بولتے ہیں۔ وہ لفظ ہے، مسلم ایمپاورمنٹ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں پہلا کام یہ ہے کہ مسلمان قدیم روایتی طرز فکر کو چھوڑیں، اور جدید تہذیب سے سبق لے کر نئے حالات کے مطابق ،اپنے قومی نشانے کی از سرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ مسلمانوں کی کامیابی جدید دور کی دریافت پر موقوف ہے، نہ کہ جدید دور کو اپنا حریف سمجھ کر اس سے ٹکراؤ کرنے پر۔

دور ِ مواقع

راقم الحروف نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ دوسری قوموں سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائےصبر کا طریقہ اختیار کریں۔ اس بنا پر بہت سے لوگ ہمارے بارے میں یہ کہتے تھے کہ وہ تو بزدلی کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ ہمارے بارے میں یہ الزام تراشی کرتے تھے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ مخالفین کے سامنے سر کو جھکا دو۔ اس طرح کی باتیں ایک عرصے تک کہی جاتی رہیں، مگر ہم نے اس طرح کے پروپیگنڈے کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ ہم نے وہی طریقہ اختیار کیا، جو مشہور اردو شاعر حالی (1837-1915)نے کہا ہے:

کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چپ         سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا

یہاں تک کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے اوپر سچائی واضح ہوئی، انھوں نے اپنے جرائد میں ہماری باتیں چھاپنا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی صبر ہے۔ صبر حکمت ہے، صبر مثبت نفسیات ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں،قدیم دور کے برعکس، جنگ کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس دور میں اختلاف کو ختم کرنے کا ذریعہ ڈائلاگ ہے، ٹکراؤ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم دور میں مواقع پر صرف حکمراں طبقےکی اجارہ داری (monopoly)ہوا کرتی تھی۔ اس کے برعکس، موجودہ زمانہ مواقع کے انفجار (opportunity explosion)کا زمانہ ہے۔ جدید دور کا نارم (norm) ہے —  ہر موقع ہر ایک کے لیے ۔

اس دوسرےدور میں دعوتِ اسلامی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ مواقع کے انفجار کا یہ دور ایک داعی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ٹکراؤ کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کرکے لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچائے۔ قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا میںپرابلم بھی ہیں، اور اسی کے ساتھ مواقع بھی (94:5)۔ مسائل انسان کی پیداوار ہیں۔ اس کے مقابلے میں مواقع خالق کا عطیہ ہیں۔ آپ اس معاملے میں مثبت ذہن پیدا کیجیے، آپ مسائل کو نظر انداز کیجیے،اور صبر کا طریقہ اختیار کرکے مواقع کو تلاش کیجیے ، اوران کو اویل کیجیے۔

صبر کا فائدہ

قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَجَعَلۡنَا بَعۡضَكُمۡ لِبَعۡضٖ فِتۡنَةً أَتَصۡبِرُونَ(25:20)۔ یعنی، اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرتے ہو۔دوسرے الفاظ میں، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ناپسندیدہ صورتِ حال پیش آنے پر اپنے جذبات پر کنٹرول رکھو تاکہ تمھارے لیےمواقع کواویل کرنا ممکن ہو ۔ جذبات سے مغلوب ہوکر عمل کرنے کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی ہوتا ہے، اور جذبات کو قابو میں رکھ کر عمل کرنے کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی۔ ابن عباس نے اس آیت کی تفسیراس طرح کی ہے: میں نے تم سب کو ایک دوسرے کےلیے آزمائش بنایا ہے تاکہ تم جو بھی ناپسندیدہ بات سنو،یا اختلاف دیکھو تو صبر کرو (لِتَصْبِرُوا عَلَى مَا تَسْمَعُونَ مِنْهُمْ وَتَرَوْنَ مِنْ خِلَافِهِمِ)، اور درست راستہ اختیار کرو ( تفسیر البغوی، جلد6، صفحہ77)۔

اصل یہ ہے کہ منصوبۂ تخلیق کے مطابق،موجودہ دنیا میں ہر انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ اِس بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ہر انسان اپنے مصالح کے تحت اقدامات کرتا ہے۔ یہ اقدام مکمل معنوں میں دوسروں کےمطابق نہیں رہتا۔ بظاہراس کا کچھ حصہ آپ خلاف ہوگا تو کچھ آپ کے موافق ہوگا۔ اِس دنیا کے لیے فطرت کا قانون یہی ہے کہ یہاں کسی شخص یا گروہ کو جزئی مواقع (partial opportunities)  ملیں، کسی کو بھی یہاں کلّی مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اِس لیے دانش مندی یہ ہے کہ ناموافق پہلوؤں کو نظر انداز کیا جائے اور موافق پہلوؤں کو دریافت کرکے اُنھیں استعمال کیا جائے۔

یہ حقیقت ایک حدیثِ رسول سے مزید واضح ہوتی ہے:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا همْ مِنْ أَهلِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔یعنی اللہ اسلام کی تائید ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔اِس حدیث میں بتایا گیا ہےکہ ایک انسان ، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اپنے ذاتی انٹرسٹ کے لیےا قدام کرتا ہے۔ اِس اقدام کا مقصد اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرنا ہوتاہے۔ لیکن اِسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ایک نئی صورت حال پیداہوتی ہے۔ یہ نئی صورت حال نئے مواقع کھولتی ہے۔ اگر اہل اسلام مذکورہ انسان کے مذہب اور فکر کو نظر انداز کریں تو وہ نئے مواقع کو استعمال کرکے اپنے دین اور دنیا دونوں کی تائید کا کام لے سکتے ہیں۔

پولیٹکل ایکٹوزم، دعوہ ایکٹوزم

اہل اسلام کے لیے اجتماعی زندگی میں کام کرنے کے دو طریقے ہیں— پولیٹیکل ایکٹوزم (political activism)، اور دعوہ ایکٹوزم(dawah activism)۔پولیٹیکل ایکٹوزم کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ پولیٹکل پاور پر قبضہ کیا جائے، اور اپنی حکومت قائم کی جائے۔ اس کے مقابلے میں دعوہ ایکٹوزم مکمل طورپر ایک غیر سیاسی ایکٹوزم ہے۔ دعوہ ایکٹوزم اپنے طریقِ کار کے اعتبار سے شروع سے آخر تک پرامن ایکٹوزم ہوتی ہے۔ پولیٹیکل ایکٹوزم کا نشانہ سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنا ہوتا ہے، اور دعوہ ایکٹوزم کا نشانہ لوگوں کے دلوں کو بدلنا ، اور ان کو اپنے خالق کا سچا بندہ بنانا ہے۔

پولیٹیکل ایکٹوزم کا نشانہ دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، دعوہ ایکٹوزم کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ جنتی معاشرے کےلیے  افراد تیار کیے جائیں، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (4:69)۔ یعنی وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت:

 Whoever obeys God and the Messenger will be among those He has blessed: the messengers, the truthful, the witnesses, and the righteous. What excellent companions these are!

 پولیٹکل ایکٹوزم کا نشانہ سیاسی اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، دعوہ ایکٹوزم کا نشانہ جنت کا حصول ہوتا ہے۔ یہی دونوں قسم کی تحریکوں کی پہچان ہے۔ دعوہ ایکٹوزم میں سارا نشانہ اللہ رب العالمین کی رضا ہوتی ہے۔ دعوہ ایکٹوزم مکمل طور پر خدا رخی ایکٹوزم (God-oriented activism)ہے۔ اس کے برعکس، پولیٹکل ایکٹوزم اول سے آخر تک سیاست رخی (politics oriented) تحریک ہے۔دعوہ ایکٹوزم میں فرشتے انسان کے معاون ہوتے ہیں، اور خیر پھیلتا ہے۔ اس کے برعکس، پولیٹکل ایکٹوزم سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، اس سے شر پھیلتا ہے۔

دورِ جدید

پنڈت جواہر لال نہرو انڈیا کی ایک معروف شخصیت تھے۔ وہ 1947ء سے 1964ء تک انڈیا کے پرائم منسٹررہے۔جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ انڈیا میں سب سے زیادہ کمی جس چیز کی ہے، وہ ہے سائنٹفک ٹمپر(scientific temper)۔سائنٹفک ٹمپر کا مفہوم جواہر لال نہرو کے نزدیک یہ ہے کہ چیزوں میں غور و فکر کرنا، اور ان کو سوچ سمجھ کر دلیل کی بنیاد پر ماننا، نہ کہ صرف سن کر مان لینا:

The refusal to accept anything without testing and trial, the capacity to change previous conclusions in the face of new evidence, the reliance on observed fact and not on pre-conceived theory. (The Discovery of India, by Jawaharlal Nehru, Oxford, 1994, p. 512)

 دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب ہے ریشنل اور منطقی طرز فکر ڈیولپ کرنا: 

Scientific temper refers to an attitude of logical and rational thinking.

موجودہ زمانے کو ایج آف ریزن (age of reason)کہا جاتا ہے۔ ایج آف ریزن کا مطلب ہےآزاد یٔ فکر (free thought) کا دور یا فری انکوائری کا دور۔ ایج آف ریزن نے تاریخ میں پہلی بار سوچنے کی راہ میں تمام رکاوٹوں کاخاتمہ کردیا ۔ فری انکوائری میں ہر چیز جو رکاوٹ بنتی تھی، وہ سب ہٹ گئی۔ اس حقیقت کی طرف اس حدیث رسول میں اشارہ ہے:إِنَّ اللهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بیشک اللہ اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ دور جدید کے اعتبار سے اس حدیثِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم، بشمول فاجر انسان (including the irreligious)کے ذریعے برپا کیے ہوئے سائنسی اور فکری انقلاب سے دین کی مدد ہوگی۔

سائنس اور تعقل پسندی (rationalism) دونوں اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ سائنس نے دراصل پہلی بار علمی غور وفکر کے لیے ایک ریلائبل فریم ورک (reliable framework)دیا، یعنی عقلی فریم ورک(rational framework)۔ سائنس کے دور سے پہلے انسان کے پاس آزادانہ فریم ورک (independent framework) نہیں تھا۔ علم کے ہر شعبے میں مذہبی اعتقاد کا غلبہ تھا، یعنی چیزوں کو صرف سن کرعقیدہ کے نام پر مان لینا۔ سائنس یا تعقل پسندی کا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے انسان کو یہ راستہ دیا کہ وہ کسی چیز کو صرف سن کر نہ مان لے، بلکہ وہ اس کی تحقیق کرے، اور جب تحقیق میں وہ بات ثابت ہوجائے، تو دلیل کی بنیاد پر وہ اس کو مانے۔ اسلام اسی کی تعلیم دیتا ہے (الحجرات،49:6)۔ 

قدیم دور، جدید دور

 راکیش شرما (پیدائش 1949)پہلے ہندستانی خلاباز تھے، جنھوں نے 1984 میں چاند پر قدم رکھا تھا۔ اُن دنوں ہندستان میں یہ گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا۔ چنانچہ اس حوالے سےانڈیا کے انگریزی روزنامہ دی ٹائمس آف انڈیا (20اپریل 1984) میں ایک دلچسپ لطیفہ نقل کیا گیا تھا:

"Rakesh's journey into space" says the narrator, was tabled for discussion in our house. Every member of the family was expressing his or her opinion on the subject. Then my youngest daughter asked: "Dad, can I become the first Indian spacewoman?" "Yes dear" replied the grandmother, "you will be the first Indian spacewoman. I will consult Pandit Girdhar Vyas and see what is in store for you in your kundali." My eldest son, Arun, interjected. "Mom, you should consult the Russian leader, not astrologers."

 "خلا میں راکیش (شرما) کا سفر" گھر میں بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔گھر کا ہر فرد اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا۔ ایک دن کھانے کی ٹیبل پر، جب کہ گھر کے سب لوگ جمع تھے، میری چھوٹی بیٹی نے پوچھا: "پاپا، کیا میں پہلی ہندوستانی خلاباز خاتون بن سکتی ہوں؟"

 دادی نے پیار سے جواب دیا، "یقیناًتم پہلی ہندوستانی خلابازخاتون بن سکتی ہو۔ اس سلسلہ میں میں پنڈت گرددھر ویاس کو تمھاری جنم پتری دکھا کر ان سے پوچھوں گی کہ تمھاری کنڈلی میں کیا لکھا ہوا ہے۔" یہ سن کر میرے بڑے بیٹے ارون نے مداخلت کرتے ہوئے کہا "دادی ماں، آپ کو روسی لیڈر سے مشورہ کرنا چاہیے، جوتشیوں سے نہیں۔"

یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ وہ کیا فرق ہے، جو دورِ قدیم اور دورِ جدید کے درمیان ہے۔ قدیم زمانے میں علم نام تھا قیاسات کا، مگر موجودہ زمانے میں علم نام ہے مطالعہ اورتجربہ کے ذریعے دریافت شدہ حقیقت کا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا ایک تعلیم یافتہ نوجوان خلا (space) کے سفر کے معاملے کو جوتشی سے پوچھنے کے بجائے خلائی سائنس کے ماہرین سے پوچھنے پر زور دیتا ہے۔

جدید انسان کے سامنے اسلام کو پیش کرنے کے لیے اس فکری تبدیلی کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔ اسلام اگرچہ پوری طرح ایک سائنٹفک مذہب (scientific religion) ہے۔ مگر اس کو پیش کرنے والے، مذکورہ دادی ماں(grandmother) کی طرح، غیر سائنسی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جوالزام حقیقۃً داعی کے سر آنا چاہیے تھا، وہ غیرضروری طور پر اسلام کے سر آجاتا ہے۔ 

فری انکوائری  

 اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں انسان پہلے مذہب یا سماجی روایت کے ٹریپ میں پھنسا ہوا تھا۔ ہر چیز مذہب کی چانچ پڑتال (scrutiny) میں چلی جاتی تھی۔جہاں ہر چیز کو جائز ناجائز، حلال و حرام کے فریم ورک میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کوئی فکری ترقی (intellectual development) نہیں ہوپاتا تھا۔ مگرسائنس نے ہر چیز کو فری انکوائری کا سبجکٹ بنا دیا۔مثلاً قدیم زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کچھ اہل علم بیٹھیں، جن میں کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں شراب کی بوتل ہو، مگر مجلس کے لوگ اس کو نظر انداز کرکے کسی موضوع پر ڈسکشن کریں۔ مذہب میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سائنسی دور نے یہ کیا کہ ذاتی چیزیں انسان کا اپنا فعل ہے، اورحقائق (facts) ایک الگ چیز ہے۔اس کو کوئی بھی ڈسکور کرسکتا ہے، خواہ وہ ذاتی اعتبار سے کیسا بھی انسان ہو۔ 

مثلاً پہلے کوئی معیار(criterion) نہیں تھا ، جس کی بنیاد پر لڑائی کو بند کیا جائے۔ کیوں کہ قدیم زمانے میں لڑائیاں مذہب کے نام پر لڑی جاتی تھیں۔ اس وجہ سے وہ مقدس بنی ہوئی تھیں۔ اس تقدس کی وجہ سے مسلمانوں میں وہ جہاد بن گئی، اور عیسائیت میں اس کو کروسیڈس کا نام دیا گیا۔ اورجو آدمی اس کے لیےلڑ کر مرجائے، اس کو شہید کہتے تھے۔ تقدس کےاس تصور کی وجہ سے جنگ کی روک تھام نہیں ہوپاتی تھی۔

ریشنل ایج میں یہ ممکن ہوگیا کہ کسی بھی قسم کی پابندی کے بغیرچیزوں کی فری انکوائری کی جائے۔ ریشنل ایج کی وجہ سے یہ سوچ کمزور ہوگئی ہے کہ عقیدہ کی بنیاد پرکسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کا فیصلہ کیا جائےگا۔ ریشنل ایج میں جو بات ہوئی، وہ یہی تھی کہ فری انکوائری کا حق انسا ن کو مل گیا۔ مثال کے طور پر قدیم دور میں مذہب کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی، پھر مذہب کے نام پر بادشاہ اور مذہبی پیشوا کو فیصلہ کن حیثیت مل گئی۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ قانون تھا۔اس وجہ سے جو بھی اختلاف کرتا، اس کی سزا موت تھی۔اس قسم کا محاورہ اسی دور کی ترجمانی کرتا ہے— جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔

دور جدید نے اس اجارہ داری (monopoly) کو ختم کردیاہے۔ اب ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اب فری انکوائری ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔

دورِ جدید کا ایک عطیہ

 یہ دور کیسے پیدا ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ قدیم حجری دور (stone age) میں ایک بار دو آدمیوں کے درمیان کسی بات پر شدید اختلاف پیدا ہوگیا۔اختلاف یہاں تک بڑھا کہ دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوںایک دوسرے کو پتھر مارنےلگے۔اسی سنگ باری کے درمیان ایک واقعہ پیش آیا۔ وہ یہ کہ ایک آدمی کا پتھر دوسرے آدمی کے پتھر سے ٹکرا گیا۔ اس وقت دونوں پتھروں کے درمیان چمک دکھائی دی۔ چمک دیکھ کر دونوں اپنی لڑائی بھول گئے، اور دونوں نے اپنے اپنے پتھروں کو لے کر سوچنا شروع کردیا کہ کہاں سے روشنی آئی۔ ابتدائی طور پر یہ دریافت ہوا کہ عام معنوںمیں یہ روشنی نہیں تھی، بلکہ دونوں پتھروں کے درمیان سے نکلنے والی وقتی چنگاری تھی۔

 اس سوچ کو بغیر کسی قید کے آگے بڑھنے کے لیے جس چیز کی ضرورت تھی، وہ فری انکوائری کا ماحول تھا۔ یہ فری انکوائری کا ماحول قدیم دور میں ممکن نہیں تھا، بلکہ اس کا آغاز جدید دور میں ہوا ہے۔ اس دور کو جمہوریت کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے دوسروں کو قبول کرنا:

Democracy means acceptance of others.

اختلاف کا مسئلہ

دور جدید میں جن مثبت باتوں کا آغاز ہوا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اب بذریعہ تلوار اختلاف کو دور کرنے کا زمانہ ختم ہوچکاہے ، اور رائے کے اختلاف (dissent) کو رائے تک محدود رکھ کر نزاع (conflict) کو ختم کرنے کے دور کاآغاز ہوا ہے۔قدیم زمانے میں جب اختلاف پیدا ہوتا تھا، تواس کا خاتمہ صرف تلوار کے ذریعے ہوا کرتا تھا۔ قدیم عرب کا یہ محاورہ اسی حقیقت کی ترجمانی ہے— القَتْلُ اَنْفَی لِلْقَتْلِ (قتل، قتل کے لیے سب سےبڑاروک ہے)۔ مگر اب یہ فریم ورک (framework)بدل چکا ہے۔

 موجودہ دور میں اختلاف کے خاتمہ کا سپورٹنگ اسٹرکچر (supporting structure) بدل گیا ہے۔  اب عمومی تباہی کے ہتھیاروں (weapons of mass destruction) نے دونوں فریقوں کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ دونوں فریق اختلاف کا خاتمہ گفتگو کی میز پر کریں۔دو عالمی جنگ خصوصاً جاپان کی تباہی نے تمام دنیا کو اس سے روک دیا ہے کہ وہ اختلاف کا خاتمہ بذریعہ جنگ کریں:

 Weapons of Mass Destruction (WMD) do serve as a deterrent to global conflict. The destructive capabilities of the WMD were on full display over Japan at the end of World War II, and no one wants to go through something like that again.

 اختلاف بذریعہ جنگ کا دوراب ختم ہوگیا ہے، اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کو "تلوار" کی بنیاد پر فیصلےکا بدل مل گیا ہے، اور وہ ہے ڈسنٹ(dissent)، یعنی اختلافِ رائے کو اعتدال کے دائرے میں رکھنا،اس کونفرت اور نزاع تک نہ پہنچنے دینا۔ انسان کی عقل نے یہ ریلائز (realize) کرلیا ہے کہ اختلافِ رائے کی بنیاد پرپیدا ہونے والے نزاع کوریزن کی سطح پرمینج کیا جاسکتا ہے۔ پہلے زمانے میںحالت یہ تھی کہ اختلاف کو بزور طاقت سختی کے ساتھ دبایا جاتا تھا۔یورپ کے حوالے سے اس کی تفصیل ڈریپر (وفات 1882ء)کی کتاب" معرکہ مذہب وسائنس" میں دیکھی جاسکتی ہے:

History of the Conflict Between Religion and Science, 1875, London, pp. 373

 مگر یہ صرف یورپ کا مسئلہ نہیں تھا، ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج تھا۔ اس کے برعکس، موجودہ دورمیں بات چیت کی سطح پر اختلاف کا خاتمہ کیاجاتا ہے۔ یہ وہی دور ہے، جس کو ایک حدیثِ رسول میں "لا الہ الا اللہ کے ذریعہ قلعہ فتح کرنا" کہا گیا ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2920)۔ یعنی پیس فل انداز میں ڈائلاگ کے ذریعہ اختلاف کو مینج کرکے مقصد حاصل کرنا۔

آج کا نوجوان

 موجودہ زمانے کو ایج آف ریزن (age of reason) کہاجاتا ہے۔مگر آج کےمسلم نوجوان دین کے بارے میں کنفیوزن میں جیتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کےذہن میں مذہب کے بارے میں جدید دور کی نسبت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کےسوالوں کے جوابات روایتی انداز میں فراہم کیے جاتے ہیں،یعنی وہ جوابات "یہ کرو، اور وہ نہ کرو (do's and don'ts)" کے اصول پر مبنی ہوتے ہیں۔اس طرح کے جواب سے ان نوجوانوں کا ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے آج کے نوجوانوں کوعملاً مذہب سے دور کردیا ہے۔ اور دن بدن مذہب سے دوری اختیار کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔

قرآن میں کہا گیا ہے : وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا (4:63)۔ یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔ قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بات ایسے اسلوب میںکہو جس سے مخاطب کا ذہن ایڈریس ہو۔اس قرآنی ہدایت کے مطابق ظاہری اعتبار سے دعوت کے مختلف اسلوب ہوسکتے ہیں۔ اسلوب ہمیشہ مخاطب کے اعتبار سے متعین ہوگا۔ پہلے مخاطب کا مطالعہ کیا جائے گا، اور پھر اس کے ذہن کے اعتبار سے ایسا اسلوب اختیار کیا جائے گا جواس کے ذہن کو اپیل کرنے والا ہو۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس اعتبار سے تیار کرے کہ وہ مدعو کو وقت کے اسلوب میں خدا کا پیغام پہنچا سکے، جس سے اس کا ذہن ایڈریس ہو۔جس دعوتی کلام میں یہ صفت نہ ہو، وہ گویا ایسی دعوت ہے، جس میں دعوتی تقاضے موجود نہیں ۔

ماڈرن مائنڈ کو ایڈریس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو بات کہی جائے، وہ عقل پر مبنی (reason-based) ہو۔ یعنی ایسا اسلوب اختیار کرنا ، جو لوگوں کے لیے عقلی سطح پر دین کو قابل فہم بنائے۔ یہ زمانہ عقلی تفہیم و تبیین کا زمانہ ہے۔ کوئی اور اسلوب آج کے انسان کے لیے مؤثر نہیں ہوسکتا۔ عقلی دلائل کی روشنی میںباتوں کو سمجھانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے، اسکی تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب اظہارِ دین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

اظہارِ آیات کا دور

قرآن کے نزول کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول کا زمانہ ہے۔ یہ وہ دور ہے جب کہ انسانی ترقی ابھی سائنس کی دریافتوں تک نہیں پہنچی تھی۔ دنیا میں ابھی امن کا زمانہ نہیں آیا تھا، دنیا میں ابھی دورِ شمشیر باقی تھا۔ اس وقت قرآن میں مستقبل کے بارے میں ایک تاریخی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ 

 قرآن کی ایک متعلق آیت کے الفاظ یہ ہیں: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔

یہ آیت ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔  اس پیشین گوئی پر ہزار سال سے زیادہ کی مدت گزرچکی ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کی یہ پیشین گوئی ساتویں صدی کے بعد کے زمانے میں یقینی طور پر ظہور میں آنی چاہیے۔ اس لیے اب یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ تبیینِِ حق کا یہ دور کب آیا۔ تبیین حق کا معاملہ تبیینِ آیات(کائناتی نشانیوں کے ظہور) سے پہلے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ آیات کی تبیین کے بعد کا معاملہ ہے۔اور ماڈرن سائنس نے کائناتی نشانیوں کو ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔

قرآن کی مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر کائناتی سطح پر وقوع میں آنے والا تبیین حق، یعنی حق کے اظہار کا ایک درجہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں باقی تھا، یہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا۔ اور یقینی طو رپر کہا جاسکتا ہے کہ اب ، سائنسی دور میں وہ ظاہر ہوچکا ہے۔دوسرے الفاظ میں، قرآن کی ایک تبیین وہ ہے جونزول قرآن کے زمانےمیں ہوئی۔ لیکن ایک اور تبیین باقی تھی، جو بعد کے زمانے میں پوری ہوئی۔یعنی سائنسی ڈسکوریز کی بنیاد پر ہونے والی تبیین (manifestation

 راقم الحروف کے مطالعے کے مطابق،آیت میں جس تبیینِ حق کا اعلان ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں کیا گیا تھا، وہ اب یقینی طو رپر ایک واقعہ بن چکا ہے۔اس لیے اب یہ دریافت کرنے کا وقت ہے کہ اس تبیین حق سے مراد کیا ہےتا کہ اس کو اپنے علم کا حصہ بنایا جائے۔ اور ایسی تفسیرِ قرآن لکھی جائے، جو سلف کے استنباط اور تشریحات پر مبنی نہ ہو، بلکہ دورِ حاضر کی دریافت شدہ معلومات پر مبنی ہو۔

 جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا، مسلمانوں کے لیے دورِ حاضر میں قرآن کے تقاضوں کا جاننا ممکن نہ ہوگا۔دورِ حاضر کے سوالوں کا جواب علمائے سلف کی کتابوں میں نہیں ملےگا، بلکہ اس کا جواب جب بھی ملےگا، وہ دورِ حاضر کےاہل علم کی کتابوں میں ملے گا۔ قیاساً اس میں وہ غیر مسلم افراد یا اقوام شامل ہیں، جن کے بارے میں حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ دین کی تائید کریں گے(إِنَّ اللهَ جَلَّ وعَزَّ لَيُؤَيِّدُ الإِسْلَامَ بِرِجَالٍ ‌مَا ‌هُمْ ‌مِنْ ‌أَهْلِهِ)المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640۔ اس روایت کے مطابق، جو لوگ اس حقیقت کو کھولیں گے، وہ غیر اہل ایمان ہوسکتے ہیں۔

 مثال کے طور پر سائنسی اندازے کے مطابق،تقریبا13.8 بلین سال پہلے ایک عظیم کائناتی دھماکہ ہوا۔ اس عظیم دھماکے کو بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ بگ بینگ کی ڈسکوری سیکولر اہل علم نے کی ہے۔ ان کے مطابق، یہ عظیم دھماکہ ہماری کائنات کا آغاز تھا۔ غالباً یہی کائناتی واقعہ ہے، جس کا قرآن میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے:أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا(21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان رتق کی شکل میں تھے۔ رتق کا مطلب ہےمنضم الاجزاء(joined together)یعنی انتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے۔ پھراللہ نے ان کا فتق کیا، یعنی یہ تمام اجزاء ایک دوسرے سے الگ الگ کردیےگئے۔

اب اس سے غافل ہونا، مجرمانہ فعل ہوگا، اور یہ بھی کہ جن ایشوز کو لے کر ساری دنیا کے مسلمان بڑے بڑے مظاہرے کررہے ہیں، وہ سب نہ صرف بے سود بلکہ غیر متعلق ہیں۔  اب کرنے کا صرف ایک کام ہے۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تبیینِ حق کاجو موقع دیا ہے، اس کو استعمال کیا جائے۔

دورِ حاضر کی تفسیر

موجودہ زمانے میں بہت سے لوگوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے دورِ حاضر کے اعتبار سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ مگر یہ سب لوگ صرف دعویٰ کی زبان میں کلام کرتے رہے ہیں، واقعہ کی زبان میں کوئی شخص اپنی بات کا ثبوت نہ دے سکا۔ قرآن میں خودایسے اشارے موجود ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ دورِ حاضر کی تفسیر کس نے بیان کی۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت اس بارے میں پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی ہے۔وہ آیت یہ ہے:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (47:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔

 اس آیت کے مطابق، آفاق و انفس میں آیات کی دریافت کے بعد قرآن کی ایک تفسیر مقدر تھی۔ اسی طرح قرآن میں ایسے کچھ اور بھی اشارے موجود ہیں، جس کے مطابق، دورِ مابعد میں کوئی تفسیر سامنے آنے والی ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، کوئی ایسی تفسیر نہیں، جو اس معیار پر فٹ بیٹھتی ہو۔ کچھ لوگوں نے دعوی کی زبان میں اس کا انطباق بتایا ، لیکن صراحت کے ساتھ اس سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔

مطالعے کے ذریعے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی تہذیب نے ایک نیا علمی دور پیدا کیا ہے۔ یہ مبنی بر سائنس دور ہے۔ اس نئے علمی دورکا وجود بلاشبہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ مثلاً اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی ایسا علمی دور ظہور میں نہیں آیا، جس نے دنیا کو کمپیوٹراور ہوائی جہاز جیسی چیز یں دی ہو۔ ایسی حالت میں یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ جس مفسر نے علم جدید کا مطالعہ کیا ہو، وہی وہ عالم ہوسکتا ہے، جو عصر حاضر کا مفسر قرآن قرار پائے۔ میرے علم کے مطابق، بہت سے لوگ ایسا گمان کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے تو وہ صرف دعوی کی زبان میں ہے، اور صرف دعوی کی زبان میں کسی چیز کو بیان کردینے سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔ 

  واضح تقریر یا تحریر

تقریر یا تحریر کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ اس میں وضوح (clarity) ہو۔ تجربہ بتاتا ہے کہ لوگوں کی تقریر یا تحریر میں جو چیز سب سے کم پائی جاتی ہے، وہ وضوح ہے۔ ایسے لوگ بہت ملیں گے، جو بظاہر علمی تقریر یا گفتگو کرسکیں۔ لیکن ایسے لوگ بہت کمیاب ہیں، جن کی گفتگو اور تقریر میں وضوح پایا جائے۔

کلام میں وضوح کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ لکھنے یا بولنے والا متعلق (relevant) اور غیرمتعلق (irrelevant) کا فرق جانتا ہو۔ وہ جب لکھے یا بولے تو اس سے پہلے وہ خود اپنی سوچ میں اس اعتبار سے وضوح پیدا کرچکا ہو۔ جو آدمی پیشگی طور پر اپنی سوچ میں وضوح پیدا کرلے، اسی کے کلام میں وضوح (clarity) کی صفت پائی جائے گی، ورنہ نہیں۔ مثلاً آپ ترکی کی عثمانی خلافت کے خاتمہ پر مضمون لکھیں، اور اس کے خاتمہ کا واحد سبب یہ بتائیں کہ کمال اتاترک نے 1921 میں فوجی کمانڈر بننے کے بعد عثمانی خلافت (Ottoman Empire) کی منسوخی کا اعلان کردیا۔

مگر یہ پوری بات نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس کے اِلغا (abolish)سے پہلے دنیا میں نیشن اسٹیٹ کا تصور آچکا تھا، اور اس کے زیر اثر ترکی خلافت کے ماتحت عرب ملکوں میں طاقت ور انداز میں عرب نیشنلزم کی تحریک پیدا ہوچکی تھی۔ اس کے بعد جب 1922 میں کمال اتاترک (1881-1938ء) نے عثمانی خلافت کا الغا کیا تو یہ در اصل ایک ہونے والے واقعہ کا اعلان تھا، نہ کہ خود ہونے والے واقعہ کو وجود میں لانا۔ ایسی حالت میں لکھنے یا بولنے والا آدمی اگر کمال اتاترک کے ذریعہ کیے جانے والے الغائے خلافت کو صرف اتاترک کی طرف منسوب کرے، تو اس کاکلام غیر واضح ہوکر رہ جائے گا۔

  کلام میں وضوح نام ہے اس بات کا کہ لکھنے یا بولنے والا کلام کے متعلق اجزاء اور کلام کے غیر متعلق اجزاء کو ایک دوسرے سے الگ کرکے اپنی بات کہے۔

حکمت کا طریقہ

17 جو ن 2019 کو مصر کے سابق منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا۔ بوقت وفات ان کی عمر67سال تھی۔ میڈیا کے مطابق محمد مرسی ایک کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت کے کمرہ میں موجود تھے، جیسے ہی عدالتی کارروائی ختم ہوئی وہ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ اُنہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ راستہ ہی میں انتقال کرگئے۔

ڈاکٹر محمد مرسی 30 جون 2012کو مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ پھر فوج سے ان کا اختلاف پیدا ہوا۔اسکائی نیوز عربیہ کی 26 جون 2013 کی رپورٹ کے مطابق ، انھوں نے ایک تقریر میں خود یہ کہا تھا: اصبت احیانا، و اخطات احیانا اخریٰ (کبھی میں نے درست کام کیا، اور کبھی میں نے غلطی کی)۔

 یہ تقریریوٹیوب پر ڈاکٹر محمد مرسی کی اپنی آواز میں عربی زبان میں موجود ہے، جب کہ وہ صدارت کی کرسی پر موجود تھے۔اس کے بعدصدر محمد مرسی اور ان کے مخالفین کے درمیان ٹکراؤ کےواقعات پیش آئے، اس کا کلمینیشن(culmination) اس طرح ہوا کہ 3 جولائی 2013 کو فوج نےان کی حکومت ختم کردی۔ ڈاکٹرمحمد مرسی کے خلاف اس کے بعد لمبے عرصے تک عدالت میں مقدمہ چلتا رہا۔اسی مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں وہ حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے۔

اس معاملے میں حکمت کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے یہ دریافت کیا جائے کہ وہ غلطی کیا تھی، جو خود اپنے اعتراف کے مطابق، صدر ڈاکٹر محمد مرسی سے سرزد ہوئی ۔ اس لیے کہ ڈاکٹر مرسی جمہوری نظام کے صدر تھے۔ جمہوری نظام میں ایک رولنگ پارٹی ہوتی ہے، اور دوسری اپوزیشن پارٹی۔ جمہوری نظام میں غلطی کرنا بے حد نازک (risky) ہوتا ہے۔ کیوں کہ اپوزیشن پارٹی فوراً اس کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہے۔ جمہوری نظام میں غلطی کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ جمہوری نظام میں اگر حکومت کا کوئی فرد غلطی کرے تو یہ ناممکن ہوتا ہے کہ اس کےانجام سے وہ اپنے کو بچا سکے۔ اسی لیے جمہوری نظام میں صاحبِ اقتدار غلطی کرنے کے بعد اکثر استعفیٰ دے کر حکومت سے الگ ہوجاتا ہے۔ اس قسم کا استعفیٰ گویا صاحبِ اقتدار کے لیےچھوٹی برائی (lesser evil) کو اختیار کرنےکے ہم معنی ہوتا ہے۔

اس معاملے میں غلطی کا اعتراف کرنے کے بعد ڈاکٹر مرسی کو جو پہلا کام کرنا تھا، وہ یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کے انجام سے بچنے کی تدبیر کریں۔ جمہوری نظام میں اس طرح کی غلطی کرنے کے بعد صرف دوسرے کو الزام دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ غلطی کی نوعیت کو سمجھا جائے، اور جمہوری روایات، اور قانونی تقاضے کی روشنی میں اس کا حل دریافت کیا جائے۔

اب جب کہ یہ واقعہ ہوچکا ہے تو ڈاکٹر محمد مرسی کے حامیوں کو یہ کام انجام دینا چاہیے۔ دوبارہ ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ فوجیوں کو بُرا بھلا کہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے، تو وہ یہ دریافت نہ کرپائیں گے کہ غلطی کہاں ہوئی، اور جمہوری نظام یا قانونی نظام کے دائرے میں اس کا حل کیا ہے۔

—————

خدا کی کنٹری میں

 انگلینڈ کے ایک صاحب اپنی کار سے سوئزرلینڈ گئے ۔ اُن کے اپنے ملک میں بائیں چلو (left-hand drive) کا  ٹریفک رول تھا، مگر وہ اِس دوسرے ملک میں بھی ’’بائیں چلو‘‘ کے اصول پر اپنی گاڑی دوڑارہے تھے، جب کہ وہاں دائیں چلو (right-hand drive) کا اصول رائج تھا۔ مخالف سائڈ میں کار چلاتے دیکھ کر وہاں کی ٹریفک پولس نے ان کو روکا۔ کار کا نمبر دیکھ کر پولس مین سمجھ گیا کہ یہ آدمی کس ملک سے آرہا ہے۔ اُس نے مذکورہ شخص سے کہا— جناب، آپ اِس وقت سوئزرلینڈ میں ہیں، جہاں دائیں چلو کا اصول ہے، نہ کہ انگلینڈ میں جہاں بائیں چلو کا اصول ہے۔

 یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر خدا کے تخلیقی پلان کا ہے۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اِس دنیا میں خدا کے حکموں پر چلے۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ خدا کی دنیا میں خدا کے اصول کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے دن بطورِ سزا ابدی کوڑاخانےکے مستحق قرار پائیں گے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ پورے معنوں میں ایک بامعنیٰ کائنات ہے۔ ایسی ایک با معنیٰ کائنات، بے معنی انجام پر ختم نہیں ہوسکتی۔ ضروری ہے کہ اِس دنیا کا ایک تخلیقی منصوبہ ہو، اور اس تخلیقی منصوبے کے مطابق، دنیا کا خالق اس کے بارے میں ایک منصفانہ فیصلہ کرے۔

ڈائری 1986

1 جنوری1986

آج جناب دانیال لطیفی صاحب ایڈوکیٹ (پیدائش 1917) ہمارے دفتر(نظام الدین ویسٹ ،نئی دہلی )میں آئے۔ان سے بہت ہی دلچسپ قانونی باتیں معلوم ہوئیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ کوئی اچھے سے اچھا وکیل بھی ایک سچے گواہ کو توڑ نہیں سکتا۔بشرطیکہ وہ صرف وہی کہے جو اس نے دیکھا ہے۔ وہ اس پر نہ ایک لفظ بڑھائے اور نہ ایک لفظ گھٹائے۔اس سلسلے میں کچھ واقعات بھی انہوں نے بتائے۔

پھر انہوں نے ایک لطیفہ بتایا کہ برطانیہ کورٹ نے ایک مجرم کے لیے سولی کا فیصلہ کیا۔ اس کے بارے میں کورٹ کے الفاظ یہ تھے:

He shall be hanged.

مجسٹریٹ نے فیصلہ دیکھا تو اس نے کہا کہ میں اس کو سولی نہیں دے سکتا۔کیونکہ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ’’ اس کو لٹکا دیا جائے‘‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ کیسے۔اب میں اس کو سر کی طرف سے لٹکاؤں یا پاؤں کی طرف سے۔اس طرح کے واقعات مختلف ملکوں کی عدالتوں میں پیش آئے۔چنانچہ قانون کے الفاظ زیادہ مکمل کیے گئے۔دانیال لطیفی صاحب سے میں نے کہا کہ ان الفاظ کو لکھ دیجیے۔

دانیال لطیفی صاحب کو ایک کیسٹ ’’جدید امکانات‘‘ دیا گیا تھا۔ آج شام کو ان کا ٹیلی فون آیا کہ انہوں نے اس کیسٹ کو دوبار سنا۔ان کو یہ کیسٹ بہت پسند آیا۔اس بار ان کو ’’حل یہاں ہے‘‘ پڑھنے کے لیے دی گئی ہے۔

2جنوری1986

ابو الطیب احمد بن الحسین المتنبی (وفات 965ء)عربی زبان کا ایک نامور شاعرہے۔ اس کے اشعار حکمت اور فلسفۂ حیات کے لیے مشہور ہیں۔آج دہلی میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ان سے میں نے یہ کہا کہ زندہ قوم کے افراد میں ا عتراف کی صفت ہوتی ہے، اور زوال یافتہ قوم کے افراد میں اعتراف کی صفت کا فقدان ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں میں نے کچھ مثالیں دیں۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے۔اس کے بعد انہوں نے متنبی کا ایک شعر پڑھا جو یہ تھا— اگر تم شریف کو عزت دو تو تم اس کو اپنا غلام بنا لوگے۔ اور اگر تم کمینہ آدمی کو عزت دو تو وہ سرکشی کرے گا:

إِذَا أَنْتَ أَكْرَمْتَ ‌الكَرِيْمَ مَلَكْتَهُ                             وَإِنْ أَنْتَ أَكرَمْتَ ‌اللَّئِيْمَ ‌تَمَرَّدَا

3جنوری1986

مسٹر بھیکا رام (پیدائش1942ء) یو پی اسمبلی میں ایم ایل اے ہیں۔ وہ آج صبح کو ہمارے دفتر میں آئے۔ ان کے ہمراہ ان کے ساتھی نذرالاسلام صاحب بھی تھے۔ان سے بڑی مفید باتیں ہوئیں۔

مسٹربھیکا رام نے کہا کہ میرے نزدیک مذہب کی اصل تعلیم یہ ہے کہ سب انسان برابر ہوں۔ہر قسم کی اونچ نیچ ختم ہو اور ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان نفرت نہ رہے۔انھوں نے کہا کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے اور اگر اس ملک میں سچا اسلام پیش کیا گیا ہوتاتو آج ہمارا ملک مسلمان ہوتا۔یہاں وہ سب جھگڑے موجود ہی نہ ہوتے جو اب دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ ہندی زبان میں اسلام کا مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔میں نے ان کو ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ کا ہندی ترجمہ بطور تحفہ دیا۔

میں نے مسٹر بھیکا رام سے مزید پوچھا کہ اپنا کوئی خاص تجربہ (انوبھو) بتایئے۔انہوں نے کہا کہ لالچ اور ذاتی فائدہ کو چھوڑ کر سبھی لوگوں کے بارے میں سوچنا،سب کے فائدے کو سامنے رکھ کر سوچنا یہی کامیابی کا راز ہے۔آپ لالچ کو تیاگ دیں، تبھی آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔

4جنوری 1986

ایک مسلمان لیڈر دہلی آئے اور مجھ سے ملے(نام بتانا مناسب نہیں) ۔ ان کے پاس انگریزی زبان میں تیار شدہ ایک میمورنڈم تھا۔اس کی ایک نقل انہوں نے مجھے دی۔یہ میمورنڈم وہ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے تھے۔اس میمورنڈم میں مسلمانو ں کی معاشی پسماندگی کا تذکرہ تھا۔اس کے بعد حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلمان چونکہ معاشی دوڑ میں ملک کے اکثریتی فرقہ سے پیچھے ہو گئے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو اس وقت تک خصوصی رعایت دی جائے جب تک کہ وہ معاش کے میدان میں اکثریتی فرقہ کے برابر نہ ہو جائیں۔

مذکورہ لیڈر صاحب کو میں پہلے سے جانتا تھا۔مجھ کو معلوم ہے کہ ان کا اپنا بزنس ہے اور ان کےپاس کرائے کے مکانات ہیں۔ان سب سے انھیں (1986ء میں )کم از کم دس ہزار روپے ماہوار آمدنی ہوتی ہے۔جب کہ انھیں لیڈر صاحب کے ایک سگے بھائی ہیں جو مہینہ میں بمشکل پانچ سو روپے کماتے ہوں گے۔میں نے لیڈر صاحب سے کہا کہ آپ کے فلاں سگے بھائی معاش کے اعتبار سے آپ سے پیچھے ہو گئے ہیں۔اس لیے آپ ایسا کریں کہ اپنی آمدنی کا نصف حصہ ہر ماہ اپنے بھائی کو دیتے رہیں،یہاں تک کہ وہ معاشی اعتبار سے آپ کے برابر ہو جائیں۔

یہ سن کر مذکورہ لیڈر ہنسنے لگے۔ ان کی ہنسی کو دیکھ کر میرا دل تڑپ اٹھا۔میں نے کہا: آپ پر تعجب ہے کہ جو رعایت آپ اپنے سگے بھائی کے ساتھ نہیں کر سکتے ہیں، جو کہ مسلمان بھی ہے، اسی رعایت کا مطالبہ آپ مسلمانوں کے لیے ایک نان مسلم وزیر اعظم سے کرنے جا رہے ہیں۔

ہماری مسلم قیادت آج سب سےزیادہ جس چیز سے بے خبر ہے وہ یہ کہ موجودہ دنیا رعایتوں کی دنیا نہیں،بلکہ مقابلے کی دنیا ہے۔رعایتوں کو تلاش کرنے والا اس دنیا میں اپنے لیے کچھ نہیں پاسکتا۔ ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں کو مذکورہ قسم کے جھوٹے نعروں میں نہ الجھائیں ،بلکہ انھیں صاف طور پر بتائیں کہ تم مقابلہ کی دنیا میں ہو۔یہاں تم اہلیت کا ثبوت دے کر پا سکتے ہو۔ اگر تم اہلیت کا ثبوت نہ دے سکو تو یہاں تم کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔

5جنوری1986

شاہ واصف امام صاحب (پٹنہ) اپنے کسی کام سے دہلی آئے تھے۔وہ آج مجھ سے ملنے کے لیے ہمارے مرکز (نظام الدین ویسٹ،نئی دہلی) میں آئے۔وہ دو سال سے الرسالہ پڑھ رہے ہیں اور اردو اور انگریزی دونوں رسالوں کی ایجنسی بھی چلا رہے ہیں۔ان کو میں نے دو کتابیں ہدیۃً دیں—  ’’حقیقت کی تلاش ‘‘اور ’’حل یہاں ہے‘‘۔

ان سے میں نے پوچھا کہ ’’الرسالہ‘‘ سے آپ کو کیا ملا۔انہوں نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ انھیں کے الفاظ میں یہ تھا:’’الرسالہ کے مطالعہ سے پہلے میں کسی شہر کو دیکھ کر اس کے بنانے والے انسانوں کی عظمت میں گم ہو جاتا تھا۔لیکن الرسالہ کے مطالعہ کے بعد یہ حال ہے کہ میں شہر بنانے والے انسانوں کے خالق کی عظمت میں گم رہتا ہوں۔میں سوچنے لگتا ہوں کہ وہ خدا بھی کیسا عظیم ہے جس نے انسان کو یہ صلاحیت دی‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ میں شاہ واصف امام ہوں۔اب میں سمجھتا ہوں کہ میں رب کا بندہ ہوں۔

یہ اللہ کا فضل خاص ہے کہ آج ہزاروں لوگ ہیں جن کے اندر الرسالہ پڑھنے کے بعد اس قسم کا ذہن بنا ہے۔اللہ تعالیٰ الرسالہ کی آواز کو مزید پھیلائے اور اس کو دنیا کی ہر زبان میں پہنچانے کا انتظام فرمائے۔

تقریباً روزانہ ایسے خطوط آتے ہیں یا ایسے افراد سے ملاقات ہوتی ہے جو اس قسم کے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں۔مسلمانوں کے قائدین نے اگرچہ ابھی الرسالہ کی آواز کو اہمیت نہیں دی ہے۔مگر غیرقائدین میں الرسالہ کی آواز بہت بڑے پیمانے پر پھیلی ہے اور روزانہ پھیل رہی ہے۔تاہم اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔حق کی بے آمیز دعوت کے ساتھ ہمیشہ یہی صورت حال پیش آئی ہے۔

6جنوری1986

ایک مسلمان بزرگ ملاقات کے لیے تشریف لائے۔انہوں نے بیٹھتے ہی کہا:’’مطلقہ عورت کے نفقہ کے سلسلے میں ہندوستان کی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ شریعت میں جارحانہ مداخلت ہے۔ آپ اس کے خلاف کیوں نہیں لکھتے‘‘۔موصوف کی مراد شاہ بانو بیگم-محمد احمد اندوری کے مقدمہ سے تھی۔

میںنے کہا کہ آپ سب سے پہلے اپنے جملے کو صحیح کیجیے۔یہ جملہ میرے نزدیک صحیح نہیں۔اصل بات جو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان خاتون(شاہ بانو بیگم) ہندوستانی عدالت میں گئیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے فلاںملکی قانون کے تحت میرے شوہر سے گزارہ (maintenance) دلوایا جائے۔عدالت نے معاملے کی تفصیلی سماعت کے بعد مسلم خاتون کے دعویٰ کو تسلیم کیا اور خاتون کے اپنے مطالبے کے مطابق فیصلہ دیا کہ مدعا علیہ ان کو 180 روپے ماہوار ادا کرے۔

اس کو آپ عدالت کی جارحیت نہیں کہہ سکتے، کیونکہ جارحیت کرنے والا وہ ہوتا ہے جو اقدام کرے۔اس معاملے میں عدالت نے اپنی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ وہ کوئی اقدام کر سکتی تھی۔اس معاملے میں اگر جارحیت ہوئی ہے تو وہ سراسر مسلم خاتون کی طرف سے ہوئی ہے۔یہ مسلم خاتون(شاہ بانو بیگم) تھیں جنہوں نے بطور خود عدالت میں جاکر مقدمہ پیش کیا اور عدالت سے کہا کہ وہ ان کو ملکی قانون کے تحت مذکورہ رقم دلوائے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں عدالت کو جارح قرار دینا اپنی غلطی کو دوسرے کے اوپر ڈالنا ہے۔اگر آپ کو اسلام کا درد ہے تو آپ مسلم مردوں اور مسلم عورتوں کی اصلاح کیجیے۔ان کے اندر یہ ذہن بنایئے کہ وہ اپنے ذاتی جھگڑوں کو عدالت میں نہ لے جائیں، بلکہ کسی کو ثالث (mediator) بناکر آپس میں بیٹھ کر سلجھائیں۔مدینہ کے منافقین اپنے جھگڑے یہودیوں کی عدالت میں لے جاتے تھے تو قرآن نے خود منافقین کو ملزم ٹھہرایا، نہ کہ یہودی عدالت کو(4:60)۔

7جنوری1986

پاکستان کے ایک صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے۔وہ مکتبہ اسحاقیہ(کراچی) کے مالک ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں نے انڈین ایئر لائنز میں سفر کیا۔میں نے دیکھا کہ پاکستانی لوگ فیاضی کے ساتھ جہاز کے اندر شراب خرید رہے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان میں شراب پر پابندی ہے۔

یہی حال ان تمام مسلم ملکوں کا ہے جہاں اسلامائزیشن کی نام نہاد تحریک چل رہی ہے۔کاغذ پر اور تقریروں میں اسلام کی دھوم ہے، مگر عملاً پورا معاشرہ اسلام کے خلاف چل رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک معاشرے کے افراد میں آمادگی پیدا نہ ہو جائے اسلامی قانون کا نفاذ ایک بے نتیجہ کام ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق، اسلامی کام کا آغاز قلب ودماغ پر اسلام کے نفاذ سے ہوتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4993)، نہ کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے ذریعہ نفاذِاسلام کا قانون بنا کر اسے بزور نافذ کرنے کی کوشش کرنا۔

8جنوری1986

ایک صاحب ملنے کے لیے آئے۔انہوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں ایک عالم آئے تھے۔ انہوں نے سورہ العصر کی تفسیر بیان کی۔اس میں انہوںنے کہا کہ اللہ نے اس سورہ میں یہ فرمایا ہے:

’’اے نبی! لوگوں کو بتا دو کہ میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے محمد کو دے دیا۔اب جس کو لینا ہے وہ تمہارے پاس آ کر لے۔ میرے پاس اب کچھ نہیں‘‘۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے خدا کی کتاب میں کیا کیا تحریفات کی ہیں۔وہ قرآن کے’’متن‘‘ میں تو کوئی اضافہ نہ کر سکے،مگر انہوں نے قرآن کے حاشیے میں وہ سب کچھ لکھ دیا جو پچھلی امتوں نے’’متن‘‘ میں لکھا تھا۔

مسلمانوں نے اگر قرآن کے متن میں کوئی تحریف نہیں کی تو اس کا انھیں کوئی انعام ملنے والا نہیں۔کیونکہ متن میں تحریف سے تو ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔پھر وہ متن میں تحریف کرتے تو کیسے کرتے۔وہ صرف حاشیے میں تحریف کر سکتے تھے اور یہ کام انہوںنے اتنے ہی بڑے پیمانے پر کیا ہے جتنا پچھلی قوموں نے اس سے پہلے متن میں کیا تھا۔

9جنوری 1986

ایک مسلمان بزرگ نے ایک ہندی کتاب کا ذکر کیا۔جو بچوں کے نصاب میں داخل ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس میں تغلق بادشاہ پر ایک مضمون ہے۔ اس مضمون میں یہ الفاظ ہیں:

’’تغلق تھا تو مسلمان، مگر تھا بڑا دیالو‘‘

مذکورہ مسلمان بزرگ نے شکایت کی کہ نصاب کی کتاب میں اس طرح کی باتیں شامل کرکے نہایت منصوبہ بند طریقے سے بچوں کا ذہن بگاڑا جا رہا ہے کہ مسلمان وحشی اور خونخوار ہوتے ہیں۔

میں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر نہیں بلکہ خود مسلم قوم پر ہے۔مسلمانوں نے اپنی یہی تصویر بنائی ہے تو دوسرے لوگ اس کے سوا مسلمانوں کو اور کیا سمجھیں۔میں نے کہا کہ آپ کے ایک بڑے ملی شاعر نے فخر کے ساتھ کہا ہے:

تیغوں کے سایہ میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں               خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

پھر جب خود آپ کا نمائندہ یہی کہہ رہا ہو تو دوسرے لوگ اس کے سوا کچھ اور کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ایک اور صاحب ان کے ساتھ تھے۔انہوں نے کہا کہ انگریز مؤرخین نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ذہنوں کو بگاڑا ہے۔مثلاً ہندوستان کی ایک انگریزی تاریخ میں تین دور کے لیے اس طرح مختلف الفاظ لکھے گئے ہیں:

Advent of Aryans

Invasion of Muslims

Influence of the British

 یعنی آریہ کی آمد، مسلمانوں کا حملہ اور برطانیہ کے اثرات۔

10جنوری1986

کہا جاتا ہے کہ خدا کے 99 نام ہیں۔لوگ ان ناموں کو یاد کرکے ان کا ورد کرتے ہیں۔مگر یہ نام محض نام نہیں،وہ دراصل خدا کی صفتیں ہیں۔خدا ایک ہے، اس لیے اس کا نام بھی حقیقتاً ایک ہے۔مگر اس کی صفتیں بے شمار ہیں۔ایک حدیثِ رسول کے مطابق، اللہ کے 99 سے زیادہ نام ہیں (مسند احمد، حدیث نمبر 3712)۔

میرا اپنے بارے میں خیال ہے کہ میں نے خدا کی بعض ایسی صفتیں دریافت کی ہیں جو میری اپنی دریافت ہیں، جن کو میں نے اس سے پہلے کتابوں میں نہیں پڑھا تھا۔

مثلاً میں ایک باروسیع خلا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میں خدا کی ایک نئی صفت دریافت کر رہا ہوں۔اس صفت کو self-confidenceکہہ سکتے ہیں۔یعنی خوداعتمادی۔ وسیع خلا میں اتنے بے شمار اجرام کو متحرک کرنا ایک بے حد نازک کام تھا۔خدا نے اتنی بڑی کائنات بنائی اور دوسری طرف انسان کو آنکھ دے دی کہ وہ دیکھے کہ کیا وہ اس میں کوئی بدنظمی یا انتشار پاتا ہے؟غیر معمولی سیلف کانفیڈنس کے بغیر اتنا بڑا اقدام نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح میں نے ایک روز خدا کی ایک اور صفت دریافت کی۔اور وہ ہے:پرفکشنسٹ ہونے کے باوجود امپرفکشن سے ڈسٹرب نہ ہونا۔

میرا اپنا یہ خیال ہے کہ مجھے دھوئیں سے چکر آ جاتا ہے۔شور سے میرا ذہن منتشر ہو جاتا ہے۔گندگی کا دیکھنا میں برداشت نہیں کر پاتا۔اسی لیے موجودہ دنیا مجھے وحشت خیز چیز معلوم ہونے لگی ہے۔مگر خدا کامل اختیار کے باوجود انسانوں کی تمام خرافات کو گوارا کیے ہوئے ہے۔خدا حددرجہ معیار پسند ہونے کے باوجود مسلسل طور پرغیر معیاری چیز کو دیکھتا ہے اور وہ ڈسٹرب نہیں ہوتا۔کیسا عجیب قدرت والا ہے خدا۔

11جنوری1986

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انھیں الرسالہ کے بارے میں یہ شکایت تھی کہ اس میں مسلمانوں پر تنقید ہوتی ہے۔انہوںنے کہا کہ مسلمانوں پر تنقید کرنا اغیار کو خوش ہونے کا موقع دینا ہے۔اس لیے ان کا مشورہ تھا کہ مسلمانوں پرکھلی تنقید نہ کی جائے۔میں نے کہا کہ یہ بات جو آپ فرما رہے ہیں کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کو قوم پرستی کہا جاتا ہے۔یہ اصولی معاملہ میں حساس ہونے کے بجائے قومی معاملہ میں حساس ہونا ہے۔حقیقت کامجروح ہونا آپ کو نہیں تڑپاتا۔البتہ قومی فخر مجروح ہو تو آپ تڑپ اٹھتے ہیں۔مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے اس مشورے کو قبول نہیں کر سکتا۔

12جنوری1986

تبلیغی جماعت کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے ایک عالم سے اپنی گفتگو نقل کی۔مذکورہ عالم نے ان سے یہ شکایت کی کہ تبلیغی جماعت کے لوگ جہاد کو چھوڑے ہوئے ہیں۔

انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے جہاد کو نہیں چھوڑا ہے۔البتہ قتال سے ہم الگ رہتے ہیں۔آپ نےخود کتاب’’نورالانوار‘‘ (جلد 1، صفحہ 170-172)میں ہم کو یہ پڑھایا ہے کہ:

جہاد حسن لذاتہ ہے،  قتال حسن لغیرہ ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ دین میں اصلاً جو چیز مطلوب ہے وہ جہاد ہے، نہ کہ قتال۔چنانچہ دعوت کا جو کام ہم کر رہے ہیں وہ عین جہاد ہے،اگرچہ وہ قتال نہیں۔پھر آپ کو ہمارے اوپر کیا اعتراض ہے۔

13جنوری 1986

پچھلی ڈائری دیکھ رہا تھا۔اس میں2نومبر1979 کی تاریخ کے ساتھ حسب ذیل تحریر ملی۔یہ میں نے جمعیۃ بلڈنگ(پرانی دہلی) میں لکھی تھی:

آج مولانا محمد شعیب کوٹی اور مسٹرغلام نبی شاہین کشمیری سے گفتگو ہوئی۔یہ دونوں جماعت اسلامی کے سیاسی فکر سے اتفاق رکھتے تھے۔میں نے کہا کہ اس وقت بظاہر لوگوں کو دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم دنیا میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کافکر غالب ہے۔مگر بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ یہ فکر مغلوب ہو جائے گا اور الرسالہ کا فکر مسلم دنیا میں غالب فکر کی حیثیت حاصل کر لے گا۔آپ لوگوں کو آج میری یہ بات بہت عجیب معلوم ہوگی۔مگر،ان شاءاللہ، آپ لوگ یہ دیکھنے کے لیے زندہ رہیں گے۔اگرچہ میں شاید اس وقت مر چکا ہوںگا۔

پھر میں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا جو فکر ہے اس کے اندر صرف وقتی قدر ہے۔وہ دائمی قدر  کا حامل نہیں ہے۔انیسویں صدی عیسوی کی دنیا میں جو سیاسی افکار اٹھے اور مسلمانوں کے اندر نوآبادیاتی غلبہ کےنتیجے میں دوسرے اسباب سے جو رد عمل پیدا ہوا، اس کے ماحول میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کا فکر بنا۔یہ فکر مخصوص سیاسی دور کی پیداوار ہے، نہ کہ حقیقتاً اسلام کی پیداوار۔ چنانچہ انہوں نے اسلام کو سیاسی انقلاب کے روپ میں پیش کردیا۔

اسلام کی سیاسی تعبیر بنیادی طور پر اپنے زمانے کے سیاسی حالات کا رد عمل ہے۔ اوریہ زمانہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔آج کا انسان فطرت کی زمین پر کھڑا ہونا چاہتا ہے۔اسلام کي سیاسی تعبیر کی ساری اہمیت سیاسی حالات کی زمین پر ہے۔آنے والا انسان جو فطرت کی زمین پرکھڑا رہنا چاہے گا، اس کے لیے فکری تسکین صرف الرسالہ کے پیغام میں ہوگی اور اس وقت کے آنے میں شاید دس سال سے زیادہ نہیں لگیں گے۔

14جنوری 1986

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مجھ پر بعض لمحاتی تجربے گزرتے ہیں۔یہ تجربے انتہائی لطیف اور انتہائی حد تک ناقابل بیان ہوتے ہیں۔ان کو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔مگر یہ الفاظ صرف اصل تجربہ کی علامت ہوں گے، نہ کہ اصل تجربہ کا بیان۔ مثلاً میری سابقہ ڈائری میں22 مارچ،1980 کی تاریخ کے ساتھ ایک تجربہ ان الفاظ میں لکھا ہوا ہے:

آج میں اپنی کتاب ’’عظمت قرآن‘‘ کا دیباچہ لکھ رہا تھا۔اچانک مجھ پر ایک لمحاتی تجربہ گزرا۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اس کو لکھ رہا ہوں اور خدا کی خصوصی تائید اترر ہی ہے، جس کو حدیث میں سکینت کہا گیا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3614) ۔

اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرے اندر کا غم کچھ الفاظ کی صورت میں ٹپک پڑتا ہے۔یہ سارا عمل بالکل بے اختیارانہ ہوتا ہے۔یعنی میں سوچ سمجھ کر یہ الفاظ نہیں بولتا۔بلکہ یہ الفاظ اپنے آپ ایک بے حد درد انگیز کیفیت کے ساتھ زبان پر آ جاتے ہیں۔مثلاً ایک مرتبہ یہ فقرہ میری زبان پر آ گیا:

’’لوگ جنت کا نام لیتے ہیں ۔حالانکہ ان کے اعمال بتاتے ہیں کہ انھیں جنت سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔

22فروری 1985 کا ایک لمحاتی تجربہ میری ڈائری میں ان الفاظ میں لکھا ہوا ہے:

’’آج دن میں ایک عجیب تجربہ گزرا۔مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ہر آن ختم ہو رہا ہوں اور ہرآن دوبارہ زندہ ہو رہا ہوں۔جیسے کہ ہرآن میں اپنے موجودہ لمحہ میں ختم ہو رہا ہوں اور ہر آن اپنے اگلے لمحہ میں دوبارہ موجود ہو رہا ہوں‘‘۔

15جنوری1986

ایک بزرگ نےقرآن کی تفسیر لکھی۔اس کے بعد انہوں نے یہ شعر کہا:

روز قیامت ہر کسے با خویش دارد نا مۂ            من نیز حاضر می شوم تفسیرقرآں در بغل

ایک معروف عالم دین نے اپنی سیرت کی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے:

’’...سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ (کتاب) خدا کے یہاں قبول اورمصنف کے لیے ذریعۂ مغفرت اور وسیلۂ شفاعت ہو تو وہ سمجھے گا کہ اس کی محنت ٹھکانے لگی اور اسی کو یہ کہنے کا حق ہوگا:

شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم

میرا مزاج اس معاملے میں سراسر مختلف ہے۔میرے ذہن میں کبھی بھی یہ خیال نہیں آتا کہ قیامت کے دن جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا تو میں کہہ دوں گا کہ فلاں کتاب لکھ کر لایا ہوں۔

اس قسم کی باتیں مجھے خدا کاکمتر اندازہ(underestimation)معلوم ہوتی ہے۔خدا اس سے بہت برترہے کہ اس کے یہاں ہم اپنی کتاب پیش کریں۔درخت کی ایک پتی بھی انسانوں کی لکھی ہوئی تمام کتابوں سے زیادہ عظیم ہے۔اسی طرح آخرت کی غیر فانی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی فانی عمل اس کی قیمت دلا سکے۔

میری زبان سے تو جب بھی دعا نکلتی ہے یہی نکلتی ہے کہ خدایا میرے پاس کچھ بھی نہیں۔میں اکثر یہ دعا کرتا ہوں کہ خدایا میرے نامۂ اعمال سے میرے تمام کاموں کو حذف کر دے اور صرف اپنی رحمت کو اس میں لکھ دے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کے سوا اور کوئی چیز نہیں جو آدمی کو نجات دینے والی ہو۔

16جنوری 1986

مولانا رومی کا شعر ہے:

دین حق را چار مذہب ساختند         رخنہ در دین نبی انداختند

(خدا کے سچے دین کو لوگوں نے چار دین بنا دیا اور اس طرح پیغمبر کے دین میں رخنہ ڈال دیا)

اسی طرح کے اشعار اقبال کے یہاں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔مثلاً ان کا یہ شعر:

حقیقت خرافات میں کھو گئی         یہ امت روایات میں کھو گئی

اس طرح کی سخت باتوں کے باوجود مسلمان کے یہاں رومی اور اقبال بہت زیادہ مقبول ہیں۔ اس کے مقابلے میں راقم الحروف نے اپنی کتاب’’ تجدید دین‘‘ اور بعض دوسری تحریروں میں اس طرح کی باتیں کہیں تو مسلمان بے حد خفا ہو گئے۔

اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ رومی اور اقبال اس بات کو شعر کی زبان میں کہتے ہیں اور میں اس کو علمی تجزیہ کی زبان میں کہتا ہوں۔ شعر کے اسلوب میں کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔شعر کے ردیف و قافیہ میںکوئی بات نہ فی الواقع غلط ثابت ہوتی ہے اور نہ صحیح۔وہ تو صرف ردیف و قافیہ ہوتا ہے اور بس۔

اس کے برعکس، میرے تجزیاتی مضامین ان باتوں کو ثابت شدہ حقیقت بنا رہے ہیں۔اس میں صحیح صحیح ہو جاتا ہے اور غلط غلط۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کو پڑھ کر ناراض جاتے ہیں۔رومی اور اقبال کے اشعار کو گنگنانے سے ان کے عقیدے متزلزل نہیں ہوتے۔جبکہ میرے مضامین پڑھ کر ان کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے روایتی عقیدے کی دیوار منہدم ہو رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں رومی اور اقبال پسند کیے جاتے ہیں اور ٹھیک اسی قسم کی بات میں کہتا ہوں تو مجھ سے ناراض جاتے ہیں۔

17جنوری1986

’’دور جدید‘‘ میں مسلمان سب سے زیادہ پچھڑی ہوئی قوم ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر پٹرو ڈالر کی طاقت ظاہر نہ ہوئی ہوتی تو آج مسلمان ایک قسم کے بین الاقوامی اچھوت بن چکے ہوتے۔

اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری لیڈروں پر ہے۔19ویں صدی عیسوی میں جب مغربی اقوام نے مسلم قوتوں پر غلبہ حاصل کیا تو مسلمانوں نے اس اعتبار سے کچھ بھی نہ سوچا کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس سے مسلح ہو کر مغرب کی قومیں دنیا پر چھا گئی ہیں۔مسلم لیڈر نفرت اور منفی رد عمل کے سوا اس وقت کسی اور چیز کا ثبوت نہ دے سکے۔

اس زمانے میں ایسے شعرا اور خطبا پیدا ہوئے جن کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ وہ مغرب اور مغربی تہذیب کا مذاق اڑاتے ہیں۔اسی میں ایک مثال اکبر الہ آبادی (1846-1921ء) کی ہے۔ان کے اشعار کی کثیر تعداد ایسی ہے، جو مغرب سے نفرت اور استہزا پر مبنی ہیں۔حتیٰ کہ انہوں نے مغرب کی انتہائی مفید چیزوں کا بھی مذاق اڑایا۔مثلاً ان کا ایک شعر ہے:

حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا          پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

اسی طرح ان کا ایک شعرہے:

بچوں کے کبھی قتل سے بدنام نہ ہوتا                افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

اسی قسم کی منفی باتیں تھیں جنھوںنے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے دو سو سال دور کر دیا۔وہ مغرب کی ہر چیز کو نفرت کی نظر سے دیکھتے رہے۔یہاں تک کہ جاگے تو اس وقت جاگے جب کہ دنیا ان سے بہت آگے جا چکی تھی۔ ایک فارسی شاعر کے الفاظ میں— میں ایک لمحہ کے لیے غافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا:

یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد

آغاز کے بغیر

اس دنیا کا ایک فطری قانون یہ ہے کہ یہاں ابتدائی تیاریوں کے بغیر آگے کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ابتدائی تیاری کی حقیقت کو نوبل انعام یافتہ مشہورانگریزی ادیب اور مفکر جارج برنارڈشا (وفات1950ء) کے قول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس نے سولہویں صدی کے انگریز مصنف اور شاعر ولیم شیکسپیئر سے اپنا مقابلہ کرتے ہوئے کہا ہے— میرا قد شیکسپیئر سےبہت چھوٹا ہے، مگر میں اس کے کندھے پر کھڑا ہوا ہوں:

"He was much taller than me, but I stand on his shoulders." (George Bernard Shaw, by Gilbert K. Chesterton, 1909 Edition)

 برنارڈشا،ولیم شیکسپیئر (وفات1616ء)کے تقریباً ڈھائی سو سال بعد 1856ء میں پیدا ہوا۔ شیکسپیئر نے اپنے زمانہ میں انگریزی زبان کو جہاں پایا تھا، اس پر اس نے اپنی کوششوں سے مزید اضافہ کیا۔ حتیٰ کہ اس کو ترقی کے ایک نئے مرحلہ میں پہنچا دیا۔ شیکسپیئر کے بعد سیکڑوں اہل قلم پیدا ہوئے جو اس کو مزید آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں تک کہ انگریزی زبان اس اعلیٰ ترقی یافتہ مرحلہ تک پہنچ گئی جہاں سے برنارڈشا کو موقع ملا کہ وہ اپنی قلمی سفر کا آغاز کر سکے۔

اگر پچھلے لوگوں نےبرنارڈشا کے لیےآغاز فراہم نہ کیا ہوتا تو برنارڈشا کے لیے ناممکن تھا کہ وہ ادبی ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچے جہاں وہ اپنی کوششوں سے پہنچا۔یہی فطری اصول زندگی کے تمام معاملات میں جاری ہے۔جب قوم کے پچھلے لوگ ابتدائی منزلیں طے کر چکے ہوں، اسی وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ قوم کے بعد کے لوگ آگے کی منزلوں پر اپنا سفر جاری کریں۔ 

 اگر پچھلے لوگوں نے اپنے حصہ کا کام نہ کیا ہوتو بعد والوں کو سب سے پہلےابتدائی تیاری کا کام کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ قانونِ فطرت کے مطابق، سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے آپ کو آغاز کرنا ہے، نہ کہ وہاں سے جہاں آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ جس مکان کی زمینی بنیادیں اوردیواریں ابھی تیار نہ ہوئی ہوں اس مکان کی چھت اور اوپری منزلیں کس چیز کے اوپر کھڑی کی جائیں گی۔

اسلام کا فکری انقلاب دیگر ادیان پر آج بھی غالب ہے

مسلمان تصادم اور ٹکراؤ کا راستہ ترک کر دیں: مولانا وحید الدین خاں

بمبئی، 10 نومبر(جاوید جمال الدین)۔اسلامی اسکالر اورماہنامہ ’’الرسالہ‘‘ دہلی کے مدیر اعلیٰ مولانا وحید الدین خاں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تصادم اور ٹکراؤ کے طریقے کو ترک کر دیں اور شر انگیزی کی جانب توجہ نہ دیں۔ مولانا آج (10 نومبر کو)جنوبی بمبئی میں واقع پاٹکر ہال میں اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت منعقد کیے گئے ایک جلسے میں ’’حضرت محمد: پیغمبر انقلاب‘‘ کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے۔ (تقریر کی چند باتیں درج ذیل ہیں):

ث   نیا مسئلہ:انہوں نےخطاب کرتے ہوئےکہا کہ اگر کسی عبادت گاہ کے سامنے سے کسی دوسرے فرقے کا جلوس گزرتا ہے اور جلوس میں اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں تو اس وقت مشتعل نہ ہوں اور ایسی باتوں کو نظر انداز کر دیں۔ کیوں کہ ٹکراؤ سے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔

ث   کامیاب انقلاب: حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق مولانا نےکہا کہ آپ نے جو فکری انقلاب پیدا کیا وہ تمام ادیان پر غالب ہو گیا اور آج بھی اس کا غلبہ ہے۔ اس کے برخلاف دنیا میں جتنے بھی سیاسی انقلاب برپا ہوئے سب کے سب ناکام ہوئے۔

ث   توحید کی تعلیم: مولانا موصوف نے کہا کہ حضرت محمد نے تمام پیغمبروں کی طرح توحید کی تعلیم دی اور مشرکین کو بتایا کہ تم جن چیزوں کی عبادت کرتے ہو وہ بذات خود مخلوق ہیں۔

ث   محمد اور تاریخ: اپنی تقریر کے دوران مولانا نے ایک شخص کا ذکر کیا، جس نے ایک عرصہ قبل گفتگو کے دوران کہا تھا کہ اگر محمد کو تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔ اور مولانا نے اس کے جواب میں برملا کہا تھا ’’ وہی کمی رہ جائے گی جو محمدسے پہلے موجود تھی‘‘۔

ث    مستقبل روشن: مولانا کے مطابق،ہندستان میں مسلمانوں کا مستقبل کافی روشن ہے، بشرطیکہ وہ جذباتی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے مثبت تعمیری سوچ اپنائیں۔

( روزنامہ انقلاب، 11 نومبر 1991)

جنت کا شوق

قرآن کے مطالعہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کے یونیورسل پیغام کو پرسنلائز کرکے قرآن سے سبق حاصل کریں۔ میں نے قرآن کا مطالعہ کیا تو مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ قرآن میں جنت کو حاصل کرنے کے لیے بار بار ابھارا گیا ہے۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے:(ترجمہ)دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے (3:133)۔

اس آیت کو میں نے اپنے ایک تجربہ سے سمجھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے۔ میں صبح کے وقت کام کررہی تھی تو مجھے تکان کا احساس ہوا۔ پھر میں نے یہ سوچا کہ اب میری عمر 60 سال سے زیادہ ہوچکی ہے، جو کہ عمومی طور پر زندگی کے آخری مرحلہ کی ابتداسمجھا جاتا ہے۔ گویا اب میری زندگی بہت مختصر ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ موت کے بعد لامحدود زندگی ملنے والی ہے۔پھر میں نے سوچا کہ اگر میری زندگی کے صرف دس سال ہیں تو مجھے ان دس سالوں تک بہت زیادہ متحرک رہنا چاہیے تاکہ ابدی جنت کے لیے مزید سرمایہ اکٹھا کرسکوں۔ مجھے ابدی جنت کے تصور سے ایک محرکِ عمل ( incentive) ملا اور میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ مجھے وقت کو غنیمت جاننا ہے اور مرنے سے پہلےاس ربانی مشن کے سارے کام مکمل کرنے ہیں۔ اس سوچ نے مجھےایک نئی توانائی دی،اور میری تکان ختم ہوگئی۔ میری سمجھ میں آیا کہ یہی ہے جنت کی طرف مسارعت (دوڑنا)۔ یعنی جنت کی یاد آپ کو دنیا کی مشکلات بھلادے، اور آپ دوبارہ ایک نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ خدائی مشن میں مصروف ہوجائیں۔

 مولانا وحید الدین خاں صاحب نے لکھا ہے کہ جنت انسان کے لیے بنائی گئی ہے، اور انسان جنت کے لیے۔ مگر جنت اس انسان کو ملے گی، جو اپنے آپ کو اس دنیا کے اندر جنت کے لیے جینےوالا انسان بنائے۔ خدا اُس انسان کے زندہ شعور کا حصہ بن جائے۔ دنیا کی ہر چیز اس کو خدا کی یاد دلانے والی بن جائے، اور وہ انسانوں کے درمیان خدا کا داعی بن جائے۔جنت اس انسان کے لیے ہے جو صرف ایک خدا کو اپنا سپریم کنسرن بنالے (ماخوذ، ماہنامہ الرسالہ، ستمبر 2019)۔ڈاکٹر فریدہ خانم 

بیماری معرفت کا ذریعہ

ہمارے مشن کے ایک ساتھی بیمار ہوگئے۔ جب ان سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے کہا کہ بیماری سے مجھے بہت بڑا سبق ملا ہے۔ وہ یہ کہ  بیماری سے پہلے مجھے کبھی کبھی یہ احساس ہوتا تھا کہ میں مشن میں پرسنل طور پرشامل (involve) ہوں تو مشن کا کام انجام پارہا ہے، یعنی میرے بغیر مشن نہیں چل سکتا۔ مگر بیماری نے میرے اوپر یہ واضح کیا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ خدا کی توفیق اور اس کی مدد سے ہورہا ہے، نہ کہ ہماری ذات سے، ہم تو صرف ہیومن فیس ہیں۔یہ احساس اتنا شدید تھا کہ اس نے مجھے کٹ ٹو سائز کردیا۔ میں نے یہ جان لیا کہ میرے کرنےسے نہیں بلکہ خدا کی مدد سے سارے کام چل رہے ہیں۔

یہ واقعہ میں نے سنا تو مجھے ایک حدیثِ رسول یاد آئی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایک مومن بندہ بیمار ہوتا ہےتو وہ اس کے آگے کے لیے نصیحت کا سامان ہوتا ہے (وَمَوْعِظَةً لَهُ فِيمَا يَسْتَقْبِلُ)سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 3089۔ایک اور روایت میں ہے کہ جب آپ کسی مریض کی عیادت کے لیےجاتے تو یہ کہا کرتے تھے:لاَ بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللهُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3616)۔ یعنی کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ(روحانی)پاکی کا ذریعہ ہے۔

انسان کے اندر ایک خصوصی صفت پائی جاتی ہے جس کو حساسیت کہاجاتا ہے۔ حساسیت (sensitivity) خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر حساسیت نہ ہو تو آدمی کے اندر سے بُرائی کو برائی سمجھنے کا مزاج ختم ہوجائے گا۔ اگر آدمی صحت مند جسم کا مالک ہو تو وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر غرور و تکبر  اور بے نیازی کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ اس طرح وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جب ایک مومن انسان بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر ماڈسٹی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ بیماری اُس کو مادی چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ اُس کے دل سے درد مندی کے ساتھ دعائیں نکلنے لگتی ہیں۔ 

بیماری بظاہر ایک ناپسندیدہ واقعہ ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)

خبرنامہ اسلامی مرکز- 276

…      ڈاکٹر جیوانندن (پیدائش 1945ء)شہر ایروڑ (Erode)، تامل ناڈو کے رہنے والے تھے۔ وہ کمیونسٹ فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود احتجاجی نفسیات سے دور تھے اور تعمیری سوچ رکھتے تھے ۔وہ بہت سے رفاہی اداروں کےذمہ دار بھی تھے ۔وہ ہمیشہ مسلمانوں کی فکری اور علمی پچھڑے پن (backwardness) کو لے کر متفکر رہتے تھے۔ 2017 میں جب مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی انگریزی کتاب Peace Building and Non-Violence in Islam  پر ایک تبصرہ دوماہی تامل میگزین Sarvodaya  میں چھپا تو اسے پڑھ کر ڈاکٹر جیوا بہت متاثر ہوئے اور گڈورڈوبکس چینائی سے رابطہ کرکے انھوں نے وہ کتاب مانگی ،اور یہ بھی کہا کہ "میں اس کتاب کو تامل زبان میں ترجمہ کرکے شائع کرنا چاہتا ہوں" (ڈاکٹر جیوا بہت اچھے مترجم بھی تھے اور ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں)۔ گڈورڈ بکس چینائی نے ڈاکٹر جیوا کو مطلوب کتاب فوراً بھیج دی ، اور انھوں نے ایک ہفتے کے اندر اس کتاب کا ترجمہ بھی مکمل کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مولانا کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:"پوری مسلم قوم میں میں نے مولانا کی طرح  انٹلکچول نہیں دیکھا۔ یقیناً مسلم قوم نے نہ ہی ان کو سمجھا ہوگا  اور نہ ہی ان کے اندر مولانا کی تعمیری فکر کو سمجھنے کی صلاحیت ہے"۔ فروری 2021 میں جب مولانا وحید الدین خان صاحب کے لیے حکومت ہند کی جانب سے پدم وبھوشن ایوارڈ کا اعلان کیا گیا تو چینائی کے آئی پی ایس آفیسر مسٹر نجم الہدیٰ نے اس مناسبت سے ایک مضمون لکھا تھا جو ہندستان کے معروف انگریزی روزنامہ The Hindu  میں شائع ہوا، اس مضمون کو روزنامہ Tamil Hindu  میں فوراً شائع کرنے کے لیے مترجم کی ضرورت درپیش تھی۔حسنِ اتفاق سے اسی وقت ڈاکٹر جیوا کا فون آگیا، انہوں نے اس کی ذمہ داری لے لی اور چند گھنٹوں کے اندر ہی ترجمہ کرکےوہ مضمون ہمیں بھیج دیا۔ یہ مضمون 18 فروری 2021 کو مذکورہ روز نامہ میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر جیوا کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سی پی ایس( تامل ناڈو) کی طرف سے ہم تین افراد،مولانا خطیب اسرارالحسن عمری، فیض قادری اور میں نے ایروڈ کا سفر کیا، اور 20 فروری 2021 کو ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں، ان سے مولانا کی فکر کو لے کر گفتگو ہوئی، اور یہ بات بھی ہوئی کہ الرسالہ مشن کو تامل زبان میں کیسےمنتقل کیا جائے۔ لیکن یہ ان سے ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ 2 مارچ 2021 کو ہمیں خبر ملی کہ ڈاکٹر جیوا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ خبر سنتے ہی ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے تامل ناڈو میں سی پی ایس کا ایک خیرخواہ ہم سے جدا ہو گیا ہے۔  (مولاناسید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)

…      اسپوٹی فائی (Spotify)ایک انٹرنیشنل آڈیو شیرنگ پلیٹ فارم ہے۔ اس پر سی پی ایس (یوایس) کے مسٹر اسد پرویز نےاپریل 2021 میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اپلوڈ کیا، تاکہ ساری دنیا میں لوگ اس کو سن کر خدا کے منصوبہ تخلیق سے با خبر ہوسکیں۔اپریل 2022 تک 240,409 لوگوں نے قرآن کا یہ ترجمہ سننے کے لیے ڈاؤن لوڈ کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا قرآن کے پیغام کو جاننا چاہتی ہے، ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم مدعو تک پیس فل انداز میں جدید ٹکنالوجی کی مدد سے اس کو پہنچائیں۔  

…      السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، آپ کا ارسال کردہ قیمتی ہدیہ الرسالہ کے خصوصی شمارے کی شکل میں مل گیا ہے، سرسری نظر ڈالنے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس خاص شمارے میں حضرت مولانا مرحوم پر انتہائی قیمتی مضامین شامل ہیں، پیش لفظ تو پڑھ لیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ دہلی میں آپ کی آمد 1967 میں ہوئی۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب مولانا مرحوم الجمعية ویکلی کے مدیر ہوا کرتے تھے۔ میں ان کا لکھا ہوا اداریہ بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا، الله تعالى مرحوم كی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔بہت شکریہ جزاكم الله خيراً۔ ماریہ سلمہا کے ویڈیوز ماشاء الله بہت معلوماتی اور مفید ہوتے ہیں، الله ان کو جزائے خیر دے۔(بدرالزمان کیرانوی)

†   Subject: Al-Risala, MAN OF MISSION, REMEMBERING MAULANA WAHIDUDDIN KHAN. Many thanks to you for sending me the book, special number on MAULANA WAHIDUDDIN KHAN. I am really studying Al-Risala since the year 1985, that is from my school days. Since then I have been a regular reader and have studied approximately all his books in Urdu. Please tell me if anyone is associated with the CPS team in Dhanbad. Now it is our duty to spread the message of Maulana to all human beings, that is the message of Allah. Thanks and Regards Yours Sincerely — Asif Mazhar, Dhanbad, [email protected]

†      Mr Sajid Ahmed Khan, Nagpur, gave Mr Infaq of Sri Lanka the address of the CPS  website: www.cpsglobal.org and Spirit of Islam magazine at his request. Mr Infaq responded as follows: "Now that I have access to the website, I can download many books authored by Maulana Wahiduddin Khan. I have already one of his books: The Age of Peace. I loved that book. I found it when I was in college. After that, I began to search the website and the books where I can get his books as in our country in Sri Lanka I could not find many of his books in shops. Now Alhamdulillah, I am happy to have found this website where I can find all English books. I can only read and speak English. I do not know Hindi and Urdu. And I want to learn about Islam. I wanted to ask many things from an Islamic scholar. Now I can. I love it. Thank you very much.žž

†      These are some things that I had learnt from Maulana Wahiduddin Khan: ŸDeconditioning ŸIntrospection ŸObjectivity ŸFollow one, Hate none  ŸPatience ŸPositivity  Ÿ   Extensive Study ŸBeing ever ready to accept one’s mistakes ŸSincerity ŸEarly Rising ŸTime Management ŸPlanning, Planning and Planning again ŸPeace ŸThinking, Thinking and Thinking again ŸAvoidance with Trivial Issues ŸNo Reaction ŸRemembrance of the Almighty ŸDua, Dua and  Dua (prayer) Every Time ŸDiscover Yourself   ŸContinuous Effort ŸAvail all the Available Opportunities ŸNo Excuse, No Complaint     ŸTaking Responsibility ŸLiving with God ŸReminding Yourself of the Scenes of the Doomsday ŸDon't Involve Yourself with Anything without Necessary Competence ŸLearn, Learn and Learn again ŸPromoting Dialogue ŸAdopting the Realistic Approach ŸPractical Wisdom ŸKhuda ki Yaad me Rona ŸUltimate Courage for Standing for the Truth ŸCalling People to God — Mr Azhar Mobarak,  Jharkhand

†      My life changed after I met Maulana. He connected me with God and tought me many things. One of my most significant learning is simple living high thinking — Mr Navdeep Kapur, New Delhi

†   The teachings of Maulana are the driving force that keeps all of us together and going. Not a moment passes when we do not miss him. Maulana dedicated his life to the mission and guided people on the path of God. May Allah keep him closest to His throne — Ms. Stuti Malhotra, New Delhi)

†      Maulana Sahab for me is still in Delhi. His guidance is around me as usual in the form of his lectures. Every time I listen to his talks, I realize that every word comes from heaven. The only difference now is that Farhad Sahab does not call me anymore to say Maulana Sahab aap say baat Karna chahtay hain. Talking to Maulana Sahab and taking notes from his calls was my routine; I still read those notes to seek guidance. May Allah reward him with the highest level of Jannah — Mr Tariq Badar, Lahore

†      My first interaction with Maulana Wahiduddin Khan, in 2001, is still fresh in my mind. I did not know anything about religion or spirituality back then. He encouraged me to write a paper on, "I want to live in a world with this brave spirit that I will influence others rather than getting influenced by them." This quote marked the start of my relationship with Maulana. I had never had a proper understanding of religion until Maulana and CPS instilled it in my mind. I swear to God that I will dedicate myself to this mission for the rest of my life. I pray to God to protect all CPS members from distractions and to assist us in realizing Maulana's vision. May Allah bless Maulana, give him a special place in His neighborhood, and shower him with his limitless mercy and rewards — Mr. Amir Mori, Kashmir

†      Maulana, you are missed, loved, and remembered. You have shown us the path of truth and made us understand the meaning of life and death and beyond. This statement of yours will always be a beacon for me.

زندگی کیا ہے؟ موجودہ دنیا میں امتحان کی مہلت۔ موت کیا ہے؟ آخرت کی دنیا میں بالجبر داخلہ

May Allah grant you the highest place in Jannah. Ameen — Ms. Shabina Ali, Kolkata

Author
Maulana Wahiduddin Khan
Language
Urdu