الرسالہ
(مارچ-اپریل 2022)
مولانا وحید الدین خاں
Contents
ايك حديث قدسي میں روزہ کی اہمیت اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے ہر عمل میں اسپرٹ كنٹنٹ (spirit content)كے اعتبار سے 10 گنا سے 700 گنا تك اضافه هوتاهے۔ ليكن الله نے فرمايا هے كه روزه ميرے ليے هے اور ميں هي اس كا اجر دوں گا ( كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ:إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ) صحیح مسلم، حدیث نمبر 1151۔
اس حديث قدسي کو دوسرے قرآنی حوالوں كے ساتھ ملا کرغور كیا جائے تو یہ ٹیک اوے ملتا هے— رمضان قرآن كا مهينه هے(2:185)۔ قرآن تدبر وتفكر كي كتاب (book of contemplation) هے( 39:29)۔ دوسرے الفاظ میں، رمضان اسپریچول سرگرمیوں میں اضافہ کا مہینہ ہے۔
قرآن میں بسم اللہ کے بعد سب سے پہلی آیت یہ ہے:ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ (1:2) ۔ یعنی، سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ یہ آیت قرآن كا خلاصه هے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآنی ہدایت كي روشني ميں الله كي نعمتوں پر غور و فکرکرنا،اور زياده سے زياده كوشش كرکے الله كے شكر ميں جينے والا بننا۔
اس لحاظ سے حديث قدسي پر غور کیا جائے تو اس كا یہ مفهوم نکلتا هے كه رمضان غوروفكر كا مهينه (month of contemplation) هے۔ رمضان ميں روزه ركھنے كا مقصد يه هے كه انسان اپنی فزيكل سرگرمی كو كم كرےاور انٹلیکچول سرگرمی كو بڑھائے۔ وہ اپنے خالق ومالك کے انعامات اور نشانیوںکے اندر غوروفكر ميں زياده سے زياده وقت گزارے۔
مثلاً یہ کہ غذا (food)انسانی زندگی کے لیے بنيادي جزء کی حیثیت رکھتی ہے۔غذا انسان كے ليے مزيد اضافه كے ساتھ وهي حیثیت ركھتي هے جو حیثیت مشين كے ليے ايندھن (fuel)كي هے۔ روزه كا مقصد يه هے كه محدود اوقات میں اس پر پابندي لگا كر انسان کے اندر یہ احساس جگایا جائے كه غذا انسان كے ليے كتني اهم خدائی نعمت هے۔
حقيقت يه هے كه اگر انسان تیار شدہ ذہن رکھتا ہو تو اس کے لیے روزه، نيوٹن كے ايپل شاك (apple shock) كي طرح، فاسٹنگ شاك (fasting shock) بنتا هے ،تاكه انسان كي تھنكنگ فيكلٹي طاقتور انداز ميں ٹرگر (trigger) هو اور وه الله رب العالمين كي نعمتوں كي دريافت نو (rediscovery)كرے اور اس كي معرفت ميں جينے والا بن جائے۔
جب فاسٹنگ شاك سے ایک روزہ دار کامائنڈ ٹرگر هوگا تو وه زياده گهرے انداز ميں حقيقتوں پر غور كرنے لگے گا۔ وه سوچے گا كه ميرے خالق كي کيسي عجيب رحمت هےكه اس نے ميرے ليے پيشگي طورپر سولر سسٹم كي ايك دنيا بنائي۔ يه دنيا پوري طرح ميرے ليے ايك كسٹم ميڈ دنيا تھي۔ پھر اس دنيا ميں مجھ كو ركھا۔ يهاں ايسا هوا كه ميرے خالق نے ميري هر فطري ضرورت كو پيشگي طورپر جانا اور پيشگي طورپر اس كو ميرے لیے زمین ميں فراہم كر ديا۔
مثلاً يهاں زمين كے كره كے اندرونی حصه ميں تيل (oil) كا ذخيره بڑي تعداد ميں ركھ ديا جو ميري تمام سرگرميوں كے ليے ايندھن كي ضرورت كو پورا كرتاهے۔ پھر اس نے زمين كے اوپر میٹھے اور کھاری پاني كے چھوٹے بڑےرزروائر (reservoir) بنائے اور ان كو پانی سے بھر ديا۔ اسي طرح اس نے زمين كے اوپر نباتات اگائے اور ان كو آكسيجن كي پيداوار كے ليے ايك عظيم فيكٹري كارول مقدر كرديا۔ اسي طرح اس نے زمين كي اوپري سطح كو soil كي حيثيت سے ڈیولپ كيا اور اس پر ميرے ليے هر قسم كي حيات بخش غذائيں اگائیں، وغيره وغيره۔
روزه دار كي اسپرٹ يه هوتي هے كه وه روزه ركھ كر اپنے آپ كوتیار ( prepared)انسان بناتا هے تاكه وه الله كي بے پاياں نعمتوں (blessings)كا شدت کے ساتھ احساس كركےان ميں غرق هوجائے۔ اگر روزه دار ايسا كرے تو اس كا روزه اللہ کے لیے ( for the sake of God) بن جائے گا۔ اور پھر وه اس انعام كا مستحق بن جائے گا جس كو حدیث میںلا محدود اجر (unlimited reward) کہا گیا ہے۔
اسلام میں پانچ اعمال ستون (pillars) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں: بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ:شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 8؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 16)۔ یعنی،آپ نے کہا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
جس طرح عمارت کچھ ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، اسی طرح اسلامی زندگی پانچ ارکان پر قائم ہوتی ہے۔ یہ پانچ ارکان بظاہر پانچ ریچولس (rituals)ہیں۔ یعنی کلمۂ ایمان کے الفاظ کو زبان سے بول دینا، صلاۃ کے متعین طریقہ کو دہرا دینا، زکوٰۃ کی مقررہ رقم نکالنا، حج کے مراسم کو ادا کرنا، رمضان کے صوم کا اہتمام کرنا۔ مگر اس کا مطلب شکل برائے شکل نہیں، بلکہ شکل برائے اسپرٹ ہے۔ یعنی ان احکام کی ایک روحانی حقیقت ہے اور ان کی وہی ادائیگی معتبر ہے جس میں اس کی حقیقت پائی جائے۔
یہ ارکان اسی وقت ارکان اسلام ہیں جب کہ ان کو اس طرح اختیار کیا جائے کہ ان کی شکل کے ساتھ ان کی معنوی روح بھی آدمی کے اندر پائی جا رہی ہو۔ روح کو جدا کرنے کے بعد شکل کا موجود ہونا ایسا ہی ہے جیسے اس کا موجود نہ ہونا۔اسلام کا ایک رکن صوم( روزہ) ہے۔صوم کی ظاہری صورت رمضان کے مہینہ کا روزہ ہے، یعنی صبح سے شام تک بھوکا اور پیاسا رہنا، لیکن اس کی معنوی اسپرٹ صبر اور تواضع ہے۔ صبر و تواضع بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی تمام کامیابیوں کا راز ہے۔ حقیقی روزہ صبر اور تواضع کی صفت پیدا کرتا ہے، اور انسان کے اندر اعلی انسانی کردار پیدا کرتا ہے۔
حدیث میں ہے :وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر 1887)۔ یعنی رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ ’’صبر کا مہینہ‘‘ کا مطلب ہے — مشقت کا مہینہ۔ رمضان کے مہینے میں آدمی کو اپنے معمولات کو توڑنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیاس کے باوجود پانی نہ پئے، اور بھوک کے باوجود کھانا نہ کھائے، وہ اپنی خواہشات (desires) کو کنٹرول میں رکھے۔ رمضان کو اگر درست طور پر گزارا جائے توپورا کا پورا مہینہ مشقتوں کا مہینہ بن جائے گا۔
سچے روزہ دار کے لیے رمضان کا مہینہ مسلسل صبر کا مہینہ ہے، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے اوقات میں بھی۔ جو آدمی پوری اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھے، اس کے اندر یہ عمومی مزاج پیدا ہو جائے گا کہ وہ ناخوش گوار باتوں کو برداشت کرے، وہ لوگوں کی قابل شکایت باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی گزارے، وہ متواضع انسان، یعنی مین کٹ ٹو سائز (man cut to size) بن جائے گا۔اس کے برعکس، جو لوگ صوم کو محض ان کی شکل کے اعتبار سے اختیار کریں، وہ مخصوص شکل کی حد تک تو اس کو اپنائیں گے۔ مگر اس شکل کے باہر ان کی زندگی اس سے بالکل آزاد اور غیر متعلق ہوگی۔
مثلاً رمضان کا مہینہ آئے گا تو ایسے لوگ کسی سیزنل رسم (seasonal ceremony) کی طرح ایک مہینے کا روزہ رکھ لیں گے۔ مگر وہ صبر کے موقع پر صبر نہیں کریں گے۔ وہ ہر اشتعال دلانے والے موقع پر مشتعل ہو کر ٹکراؤ کا راستہ اختیار کریں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ظاہری طور پر انھوں نے روزہ تو رکھ لیا، مگر ان کے دل و دماغ میں روزہ کی اسپرٹ پیدا نہ ہو سکی۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں مثبت نفسیات کے ساتھ دنیا میں رہنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو صبر کے ساتھ دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہو۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت ہے۔ سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ ناخوش گوار واقعات سے غیرمتاثر رہ کر زندگی گزارے، وہ منفی تجربات کے باوجود مثبت سوچ (positive thinking)پر قائم رہے۔ صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔ اور روزہ اِسی قسم کی حوصلہ مندانہ زندگی کی تربیت ہے۔
جو آدمی اسلام کے پانچ ارکان کو اختیار کر لے وہ مومن و مسلم ہو گیا۔ وہ اس کا مستحق ہو گیا کہ دنیا میں اس کو اللہ کی رحمت ملے اور آخرت میں اس کو جنت میں داخل کیا جائے۔ مگر اسلام کے پانچ ارکان اپنی شکل اور روح دونوں کے اعتبار سے مطلوب ہیں۔ ان کی ادائیگی پر جن انعامات کا وعدہ ہے اس کا تعلق کامل ادائیگی پر ہے، نہ کہ ادھوری ادائیگی پر۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جدید معیار کے مطابق، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ اُن کا کمرہ انگریزی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ ان کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ وہ زیادہ تر انگریزی ناولیں پڑھتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ سنجیدہ موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے سیکڑوں ناولیں اور کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس مطالعے کے دوران آپ نے بہت سی بامعنی باتیں پڑھی ہوں گی۔ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بتائیے۔ وہ بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ میں نے ایسی بہت سی باتیں پڑھی ہیں، مگر وہ کوئی ایک بامعنی بات نہ بتا سکے۔ میں نے کئی مثالیں دے کر بتایا کہ بامعنی بات سے میری مراد کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگ کتابوں کو تفریح (entertainment) کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ کتابوں کو اِس لیے نہیں پڑھتے کہ اس سے حکمت (wisdom) اور نصیحت کی چیزیں دریافت کریں اور مطالعے کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں۔ اور جب مطالعے کا مقصد تفریح ہو، تو وہ حکمت کے حصول کا ذریعہ کیسے بن جائے گا۔یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ موجودہ دور کے مسلمان قرآن کوصرف برکت اور فضیلت کےلیے پڑھتے ہیں۔ اس لیےانھیں قرآن سے حکمت اور نصیحت کا کوئی آئٹم حاصل نہیں ہوپاتا ہے۔
قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں احکام کی آیتیں بہت کم ملیں گی۔ بعض علما کے مطابق، قرآن کی کل آیات 6236 میں سے احکام کی آیتیں صرف200 ہیں۔ اس کے مقابلے میں ان آیتوں کی تعداد زیادہ ہے جن میں حکمت یا نصیحت کی باتیں ہیں۔کیوں کہ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر تفکر اور تدبر کی صلاحیت کو زندہ کیا جائےتاکہ وہ اپنے آپ کو ایک ارتقا یافتہ شخصیت کی صورت میں تعمیر کرے۔ وہ ہر تجربہ کو اپنے ایمان کی غذا بنالے، وہ ہر کرائسس کو مینیج(manage)کرکے اس کو بے اثر کردے، وہ ہر منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرلے۔
قرآن فہمی کی کلید (key)کیا ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق اس کا جواب تلاش کریں۔جیسے امریکا کے سابق کمیونسٹ ہاورڈ فاسٹ (Howard Fast)نے کہا تھا کہ میں خود اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق کمیونسٹ بنا۔ مگر اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ خود قرآن سے اس کا جواب معلوم کیا جائے۔ اس اعتبار سے اگر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن میں اس کا جواب متعین طور پر صرف ایک ملے گا، اور وہ ہے تقویٰ۔ یعنی قرآن کے مطابق، تقویٰ فہم قرآن کی کلید ہے۔
اس سلسلے میں قرآن کی تین آیتیں یہ ہیں: ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (2:2)۔ یعنی یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اس میںہدایت ہےاہل تقویٰ کے لیے۔ دوسری آیت یہ ہے: وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ (2:282)۔ یعنی اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو علم دے گا۔ایک اور آیت یہ ہے: إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا (8:29)۔ یعنی اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تم کو فرقان عطا کرے گا۔
قرآن کی ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے معانی کا ادراک کرنے کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت پائی جاتی ہو۔تقویٰ کا مادہ وقَی يَقِيِ ہے۔راغب اصفہانی نے اس کا لغوی مطلب اس طرح لکھا ہے:جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف (المفردات ، راغب الاصفہانی،صفحہ 881) ۔یعنی آدمی جس چیز سے ڈرے،اس سے اپنابچاؤ کرنا۔
تقویٰ آدمی کو محتاط (cautious) انسان بناتا ہے۔ جو آدمی محتاط ذہن رکھتا ہو، وہ کسی معاملے میں غیر ذمہ دارانہ رائے قائم نہیں کرسکتا، وہ رائے بنانے سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ غور کرے گا۔ اس کی یہ محتاط روش اس کو بھٹکنے سے بچالے گی۔ اس کی روش اس بات کی ضامن بن جائے گی کہ وہ غیرذمہ دارانہ رائے قائم کرنے سے بچے۔ وہ جو رائے بھی قائم کرے، ہر پہلو پر بے لاگ انداز میں غور کرکے قائم کرے۔
قرآن کے اسلوب کے بارے میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (54:17)۔یعنی اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وضوح (clarity) کی زبان میں ہے، قرآن باعتبار اسلوب ایسی زبان میں نہیں ہے، جس کا مفہوم سمجھنا انسان کے لیے مشکل ہو۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ رب العالمین کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (112:1) ۔ یعنی کہو ، اللہ ایک ہے۔ یہ وضوح کی ایک مثال ہے۔ یہ آیت کوئی شخص سنے تو وہ فوراً اس کا مطلب سمجھ لے گا۔
اس کے برعکس، اگرخدا کے بارے میںقرآن کی تعلیم تثلیث (trinity) کے تصور پر مبنی ہو تو سننے والے کو اس کا مطلب فوراً سمجھ میں نہیں آئے گا۔ مثلاً قرآن میں خدا کا تصور بتاتے ہوئے یہ کہا جائے کہ خدا کا تصورالتثلیث فی التوحید، والتوحید فی التثلیث پرمبنی ہے— جس کو انگریزی زبان میں تھری اِن ون، اینڈ ون اِن تھری (three in one, and one in three)کہا جاتا ہے — تو اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کے قاری کو ایک مدت تک غور کرنا پڑے گا۔
اسی طرح عباسی دور میں مسلمانوں کے درمیان میں جو علم کلام پیدا ہوا، وہ پورا کا پورا ایسی زبان میں ہے، جس کے اندر کوئی وضوح (clarity) نہیں۔ مثلاً اللہ کے تعلق سے علم کلام کا ایک جملہ یہ ہے:القَوْل بِوُجُوب وجود مَوْجُود وجوده لَهُ لذاته غير مفتقر إِلَى مَا يسند وجوده إِلَيْهِ (غاية المرام في علم الكلام للآمدي، صفحہ 1)۔ یعنی اس کے وجود کے موجود ہونے کے وجود کا وجوب اس کی ذات ہے،کسی کی احتیاج کے بغیر، جس کی طرف اس کے وجود کا انحصار ہو۔
حقیقت یہ ہےکہ قرآن کا متن جب تیسیر (وضوح)کی زبان میں ہے، تو آپ کو اس کی تفسیر بھی تیسیر (وضوح) کی زبان میں کرنا چاہیے۔ یہ بات صحیح نہ ہوگی کہ اصل کلام تو تیسیر کی زبان میں ہو، اور اس کی تفسیر عدم وضوح کی زبان میں لکھی جائے۔وضوح (clarity) کی زبان سے مراد فطری اسلوب ہے، یعنی غیر پیچیدہ اسلوب یا مغلق اسلوب (complex style)۔
Stress Management
زندگی میں بار بار مسائل اورمصائب آتے ہیں۔ ایساہر مرد اور عورت کے ساتھ پیش آتا ہے ۔ اس سے کس طرح کامیابی کے ساتھ نپٹاجائے ۔ اس کاجواب قرآن کی سورہ البقرہ میں ملتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ۔ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (2:155-156)۔ یعنی،اور ہم ضرورتم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے ۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دوجن کاحال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں— ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
مسائل اور مصائب کے وقت کوئی شخص ذہنی تناؤ کاشکار کیوں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اس کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جس کو نہ ہونا چاہیے تھا۔ آدمی اگر یہ سمجھ لے کہ جو کچھ پیش آیاہے وہ خودفطرت کے قانون کے تحت پیش آیاہے تو وہ کبھی ذہنی تناؤ کاشکارنہ ہو۔ مثلاً اگر آندھی اور بارش آئے تو وہ بھی انسان کے لیے مسئلہ پیدا کرتی ہے۔مگر آندھی اور بارش کے وقت آدمی ذہنی تناؤ کا شکارنہیں ہوتا ۔ وہ اس کوفطرت کے قانون کے تحت ہونے والا ایک واقعہ سمجھتا ہے اورمعتدل انداز میں اس کا سامنا کرتاہے۔
یہی معاملہ زندگی کے مسائل اور مصائب کا بھی ہے۔ یہ چیزیں خالق کے تخلیقی منصوبہ کے تحت پیش آتی ہیں۔ وہ انسان کے لیے زحمت میں رحمت(blessing in disguise) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آدمی اگر پیش آنے والے مصائب کواس حیثیت سے لے تو وہ کبھی ذہنی تناؤ کا شکار نہ ہو۔
مصائب یا مسائل کاسامنا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ،صبر کا طریقہ، اور دوسرا بے صبری کا طریقہ ۔ بے صبری کا طریقہ، دوسرے لفظوںمیں، منفی ردعمل(negative reaction) کا طریقہ ہے ۔ اس کے برعکس، صبرکا طریقہ مثبت ردعمل(positive response) کا طریقہ ہے۔ ذہنی تناؤ ہمیشہ بے صبری کانتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں صبرکا طریقہ آدمی کوذہنی تناؤ کا شکار ہونے سے بچالیتا ہے۔
اس دنیا میں ہر آدمی قانونِ خداوندی، بالفاظ دیگر قانونِ فطرت کے تابع ہے۔ وہ اپنے آغاز میں بھی اسی قانون کے ماتحت ہے اور اپنے آخر میں بھی اسی قانون کے ماتحت ۔ ایسی حالت میں حقیقت پسندی کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت جب بھی کسی مسئلہ سے دو چار ہو تو وہ معتدل انداز میں اس کا سامنا کرے۔ وہ اس کو اپنے حق میں خیر سمجھ کر اس کوقبول کرے۔
اس آیت میں مصیبتوںکامقصد ابتلاء(وَلَنَبْلُوَنَّكُم)بتایا گیا ہے ۔ ابتلا ء کے معنی امتحان یا آزمائش ہے۔ انسانی زندگی میں اس قسم کے امتحان کامقصد یہ ہے کہ اس کو حوادث کے درمیان تربیت دے کر زیادہ بہتر انسان بنایا جائے۔ حوادث کسی آدمی کے لیے ترقی کازینہ ہیں۔ حوادث کے ذریعہ آدمی کاذہن بیدار ہوتا ہے ۔ حوادث کے ذریعہ آدمی کے اندر پختگی (maturity)آتی ہے ۔ حوادث آدمی کو متحرک کرنے کا ذریعہ ہیں۔ حوادث آدمی کے لیے زندگی کے سفر میں مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ حوادث کے بغیر آدمی نامکمل ہے۔ یہ حوادث ہی ہیں جوآدمی کی شخصیت کومکمل شخصیت بناتے ہیں۔
اس سےمعلوم ہواکہ حوادث کاصحیح مقابلہ یہ نہیں ہے کہ اپنے ذہنی عمل کودبانے (suppress)کی کوشش کی جائے۔ بہت سے لوگ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ سگریٹ یاشراب کے ذریعہ اس کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مخصوص ورزشوں کے ذریعہ اپنے اندرذہنی عمل کو معطل کردینا چاہتے ہیں۔ وہ حقیقی زندگی سے فرار (escape)کا کوئی طریقہ تلاش کرتے ہیں۔ وہ میڈیٹیشن(meditation) کے ذریعہ اپنے ذہن کو ایک ایسی حالت میں لے جاتے ہیں جس کو ذہنی تخدیر(intellectual anaesthesia) کہا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے تمام طریقے فطرت کے خلاف ہیں اورجو چیز فطرت کے خلاف ہووہ کبھی انسان کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ ذہنی پریشانی کا حل ذہنی عمل کودبانا نہیں ہے بلکہ اس کو مینج (manage) کرنا ہے۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں ایک قدیم واقعہ کاذکر ہے ۔ اس کے تحت فطرت کے ایک ابدی قانون کوبتایا گیا ہے، ایک ایسا قانون جو کبھی بدلنے والانہیں۔ا س سلسلہ میں قرآن کی مذکورہ آیت کا ایک حصہ یہ ہے: كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (2:249)۔ یعنی، کتنے ہی چھوٹے گروہ اللہ کے حکم سے بڑے گروہ پر غالب آئے ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
قرآن کی اس آیت میں چھوٹے گروہ اور بڑے گروہ کے درمیان پیش آنے والے جس واقعہ کو بتایا گیا ہے وہ کوئی پراسرار بات نہیں، وہ مکمل طور پر ایک فطری واقعہ ہے جو معلوم قانون کے تحت پیش آتا ہے ۔مزید یہ کہ اس کا تعلق ہر گروہ سے ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ۔ خواہ وہ ایک ملک کا رہنے والا ہو یا کسی دوسرے ملک کارہنے والا۔ خواہ وہ ایک زمانہ میں رہنے والا ہو یا کسی دوسرے زمانہ میں رہنے والا ۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر اتھاہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ مگر ابتدائی طور پر یہ صلاحیت سوئی ہوئی ہوتی ہے۔ جو چیز اس صلاحیت کو جگاتی ہے وہ صرف ایک ہے ، اور وہ چیلنج کی حالت ہے، یعنی ایک دوسرے سے مسابقت (competition) کا چیلنج۔ اسی حالت کوقرآن میں عداوت(البقرۃ، 2:30؛الا عراف،7:24) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چیلنج( یا عداوت) کے حالات آدمی کے اندر سوئی ہو ئی صلاحیتوںکوجگا تے ہیں۔ اور جن لوگوں کو چیلنج والے حالات پیش نہ آئیں ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بیدارنہیں ہوتیں۔ وہ ایک کمترانسان کی مانند جیتے ہیں اور کمتر انسان کی مانند مرجاتے ہیں۔
چھوٹے گروہ اور بڑے گروہ کے درمیان فرق اسی فطری قانون کی بناپرپیش آتا ہے۔ کسی سماج میں جب ایک گروہ کم تعداد میں ہو اور دوسراگروہ زیادہ تعداد میں تو اس فرق کی بناپر دونوں کو الگ الگ حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ ایک کو صبر کی مشقت سے گذرنا پڑتا ہے اوردوسراصبر کی مشقت سے بچارہتاہے۔ چھوٹا گروہ مسلسل طور پر بڑے گروہ کے مقابلہ میں چیلنج کی حالت میں رہتا ہے۔ اس دباؤ کی بناپر چھوٹے گروہ کے لوگوں کی صلاحیتیں مسلسل بیدار ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں دوسراگروہ اپنی برترپوزیشن کی بنا پر چیلنج یادباؤ کی صورت حال سے بچاہوا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس کی صلاحیتیں زیادہ بیدارنہیں ہوتیں۔
اس فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹے یا کمزور گروہ کی تخلیقیت(creativity) بڑھتی رہتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسراگروہ مسلسل طور پر غیر تخلیقیت(uncreativity) کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ عمل خاموشی کے ساتھ اور مسلسل طورپرجاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے، جب کہ ایک گروہ پورے معنوں میں تخلیقی گروہ(creative group) بن جاتا ہے، اور دوسراگروہ پورے معنوں میں غیر تخلیقی گروہ (uncreative group) کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
قرآن کی یہ آیت ایک فطری حقیقت کو بتاتی ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ فئۃ قلیلۃ (غیر محفوظ گروہ) مسلسل اپنی اہلیت کو بڑھا تا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ تعداد کی قلت کے باوجود اپنی برترصفات کی بنا پر عملاً غالب حیثیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے برعکس، فئۃ کثیرۃ( محفوظ گروہ) مسلسل طور پر انحطاط کا شکار ہوتا رہتاہے۔ وہ باہمی اتحاد، گہر ی سوچ اور دور رس عمل جیسی صلاحیتیوں سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ آخر کار اپنی ہی دنیا میں عملا ًمغلوب ہو کررہ جاتاہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
﴿ روزہ اس بات کا سبق ہے کہ کبھی ایک جائز چیز بھی ناجائز ہو جاتی ہے اور ایک مطلوب چیز بھی غیر مطلوب بن جاتی ہے ﴾
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
﴿ اسلام یہ ہے کہ انسان خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے رک جائے۔روزہ ہر سال یہی سبق دینے کے لیے فرض کیا گیا ہے ﴾
قرآن میں زندگی کا ایک قانون بتایا گیا ہے ۔ اس قانون کا تعلق ہر فرد سے ہے، مرد سے بھی اور عورت سے بھی ۔ عام انسان سے بھی اور خاص انسان سے بھی ۔ا س سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے:إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ ( 11:114) یعنی، بے شک نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو۔ یہ یاددہانی ہے یاددہانی حاصل کرنے والوں کے لیے۔
انسان پتھرنہیں ہے ۔ انسان سے مختلف قسم کی غلطیاں پیش آتی ہیں۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرد یا ایک عورت سے ایک واقعہ سرزد ہوگیا۔ بعد کو انہیں احساس ہوا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس غلطی کی تلافی کس طرح کی جائے ۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں غلطی کی تلافی کے اسی اصول کو بتایا گیا ہے۔
آدمی جب کوئی غلطی کرتاہے تو اس کا سب سے پہلا اثریہ ہوتا ہے کہ اس کے دل کے اندر اچھے اور برے کے بارے میں حسّاسیت (sensitivity) کم ہوجاتی ہے ۔ اور اگر آدمی بار بار وہی برائی کرتا رہے تو اس کی حساسیت پوری طرح ختم ہوجائے گی ۔ جب کہ یہی حساسیت برائی کے خلاف سب سے بڑا چِک (check)ہے۔ ایسی حالت میں حساسیت کاختم ہونا انسان کا گویا حیوان بن جانا ہے۔ اس مسئلہ کاحل صرف یہ ہے کہ آدمی برائی کرنے کے بعد بھلائی کرے۔ وہ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرے۔ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔ جو آدمی ایسا کرے وہ اپنے د ل کو دوبارہ پاک کرلے گا۔ اس کے دل کی حساسیت دوبارہ اس کی طرف لوٹ آئے گی۔
برائی کا دوسرااثر وہ ہے جس کا تعلق سماج سے ہے۔ سماج کے ایک فرد کا برائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے پر سکون پانی میں پتھر پھینکنا ۔ چنانچہ ایک فرد کا برائی کرنا پورے سماج کومتاثر کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ا یسی حالت میں اپنی برائی کی تلافی کرنا گویا پورے سماج کو بگاڑ سے بچانا ہے۔ یہ فرد کے اوپر ایک سماجی فرض ہے کہ وہ اپنی برائی کے انجام سے سماج کو بچائے۔
قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام مکہ میں 570 عیسوی میں پیداہوئے۔ 610 عیسوی میں آپ نے مکہ میں توحید کا مشن شروع کیا۔وہاں ان کی سخت مخالفت ہوئی ۔ چنانچہ 622 عیسوی میں وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ کیوں کہ مکہ کی قبائلی پارلیمنٹ ، دار الندوہ میں آپ کے قتل کا فیصلہ کیا جاچکا تھا۔یہ ایک بے حد خطرناک سفر تھا۔ دو ہفتہ کے اس سفر کے دوران ایک بار وہ ایک غار (ثور) میں چھپے ہوئے تھے ۔ آپ کے مخالفین جو آپ کی تلاش میں نکلے تھے ، وہ تلوار لیے ہوئے غار کے منھ تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ کے واحد ساتھی ابوبکر صدیق تھے۔انہوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ اے خدا کے رسول، وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے۔ اس کے جواب میں پیغمبر اسلام نے جو کہا، اس کوقرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (9:40)۔ یعنی، غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
موجودہ زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی ایسی صورت حال میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو بے یارومدد گار سمجھنے لگتا ہے ۔ اس حالت میں اس کو ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جس پر وہ یقین کر سکے۔ جو اس کے عجز کی تلافی بن جائے۔
خدا تمام طاقتوں کاسرچشمہ ہے۔ خدا کی ذات پر یقین آدمی کو اتھا ہ سہارادیتا ہے۔ خدا پر یقین آدمی کو ایک ایسی ہمت دیتا ہے جو کبھی نہ ٹوٹے ۔ خدا کا عقیدہ کسی آدمی کے لیے حوصلہ کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ جس آدمی کو خدا کی ذات پر پورایقین ہوجائے وہ کسی بھی حال میں بے حوصلہ نہیں ہوگا۔ وہ کسی بھی حال میں اس احساس سے دو چارنہیں ہوگا کہ اس کا راستہ بند ہے۔ وہ ہر حال میں آگے بڑھتا چلاجائے گا۔ زندگی کی آخری منزل تک پہنچنے میں کوئی بھی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی— خدا کا عقیدہ انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو جگا دیتا ہے۔ وہ انسان کے اندر ایک نیا عزم پیدا کر دیتا ہے۔ وہ اس کی داخلی قوتوں کو متحرک کر کے ایک بے حوصلہ انسان کو باحوصلہ انسان بنا دیتا ہے۔
سورہ الحجر میں بعض تاریخی واقعات کاذکر کیا گیا ہے۔ یہ واقعات قوموں کے عروج وزوال کی داستان کو بتاتے ہیں۔ ان تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے: إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ(15:75)۔ یعنی، بے شک اس میں نشانیاں ہیں متوسمین کے لیے۔
عربی زبان میں وسم کے معنی علامت کے ہوتے ہیں ۔ تو سم کے معنی ہیں ، کسی چیز کی حقیقت کواس کی علامت اور قرینہ (clue)سے معلوم کرنا، اپنی عقل و فراست سے اصل بات کو جان لینا۔ مثلاً آپ کسی کو دیکھ کرکہیں:تَوَسَّمْتُ فِيهِ الْخَيْرَ یا تَوَسَّمْتُ فِيهِ الشَّرّ۔یعنی اس کی ظاہری حالت کو دیکھ کر میں نے اندازہ کیا کہ اس کے اندر خیر کا مادہ ہے یا یہ کہ اس کے اندر شرکا مادہ ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو اس کو متوسِّم کہاجاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ہیں، ان سب کی تخلیق اس طرح کی گئی ہے کہ ہر چیز انسان کے لیے عملاً ایک سبق بن گئی ہے۔ تمام چیزیں روحانی حقیقتوں (spiritual realities) کی مادی تمثیلات (material illustrations) ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان سے نصیحت لے۔
یہی وہ صلاحیت ہے جو کسی آدمی کو صاحب بصیرت بناتی ہے۔جن لوگوں کے اندر یہ نصیحت لینے کی صلاحیت ہو وہ ہر مشاہدہ اور ہر تجربہ سے سبق لیتے رہیں گے۔ وہ سطور میں بین السطور کو پڑھیں گے ۔ وہ ظاہری واقعات میں اس کے معنوی پہلوؤں کو دریافت کریں گے ۔ وہ کسی چیز کو صرف اس کے ظاہر (face-value) پر نہ لیں گے ۔بلکہ وہ اس کی گہرائی تک اتر کر اس کی اصل حقیقت کو معلوم کریں گے۔
یہ صلاحیت آدمی کو اس قابل بنا تی ہے کہ وہ محرومی کے واقعہ کو تجربہ میں ڈھال لے۔ وہ معلومات کو سبق بنا سکے ۔وہ حال میں مستقبل کو دیکھ لے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جو کسی آدمی کو مفکر (thinker) بناتی ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جو کسی آدمی کومدبرکادرجہ عطا کر تی ہے۔ اس صلاحیت کے بغیر ایک آدمی صرف عالم ہے ، مگر اس صلاحیت کے ساتھ وہ ایک تخلیقی عالم بن جاتا ہے۔
سورہ آل عمران میں بتا یاگیا ہے کہ سازش کا سب سے زیادہ موثر توڑ کیا ہے۔ وہ ہے — صبر اور تقویٰ۔ صبر اور تقویٰ بظاہر کوئی مادی طاقت نہیں ، مگر صبر وتقویٰ کے ذریعہ سازش کا کامیاب دفاع کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (3:120)۔ یعنی، اگر تم صبر کرو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچائے گی۔ جو کچھ وہ کررہے ہیں خدا اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے ۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں اصل مسئلہ سازش کی موجود گی نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سازش کے فطری توڑ کے لیے صبر اور تقویٰ موجود نہ ہو۔ موجودہ دنیا کو چیلنج اورمسابقت کے اصول پربنایا گیا ہے ۔ اس لیے یہاں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق سے آگے بڑھنے کے لیے سازش کرتاہے۔ لیکن اگر زیرِ سازش فریق کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود ہو تو وہ اس کے لیے حفاظت کی گارنٹی بن جائے گا۔
صبر کامطلب یہ ہے کہ جو کارروائی کی جائے وہ ردعمل کے تحت نہ کی جائے بلکہ مثبت غور وفکر کے بعد ٹھنڈے ذہن کے تحت کی جائے۔تقویٰ یعنی گاڈ کانشس نس (God consciousness)اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی کسی بھی حال میں جسٹس سے نہ ہٹے، وہ جو کارروائی کرے وہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کرے۔ وہ خدا کے احکام کاپابند ہو ، نہ کہ خود اپنی خواہشات وترغیبات کاپابند۔
سازش یا تشدد کے مقابلہ میں اگر جوابی سازش اورتشدد کاطریقہ اختیار کیاجائے تو اس سے فریقین کے درمیان ضد بڑھتی ہے۔ نفرت اور انتقام کی نفسیات جاگتی ہے۔ ایک دوسرے کے درمیان وہ منفی جذبہ پیداہوتا ہے جس کوعام طور پر’’ سبق سکھانا‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں اصل مسئلہ مزید بڑھتا ہے ۔ انتقام درانتقام کے نتیجہ میں وہ ایک ایسی برائی کی صورت اختیار کرلیتا ہے جوکبھی ختم ہونے والا نہیں۔
سورہ آل عمران میں ایک صورت حال پر تبصرہ ہے۔پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کو بدر کے مقابلہ میں اپنے مخالفین پرفتح حاصل ہوئی تھی ۔ اس کے بعد احد میں انہیں اپنے مخالفین سے شکست ہو گئی ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے:إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (3:140)۔ یعنی، اگر تم کوکوئی زخم پہنچاہے تو دشمن کو بھی ویسا ہی زخم پہنچ چکا ہے۔ اور ہم ان ایا م کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں قو موں کے بارے میںایک تاریخی قانون کو بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی قوم ہمیشہ غالب رہے یا ہمیشہ فتح حاصل کرتی رہے ۔ اس بنا پر حالات ہمیشہ کسی ایک قوم کے موافق نہیں ہوتے ۔ حالات کافیصلہ کبھی ایک گروہ کے حق میں ہوتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کے حق میں ۔ ایسی حالت میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ تاریخ کے فیصلہ کو قبول کریں۔ وہ شکایت اور احتجاج کے بجائے ازسر نواپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا کو مسابقت کے اصول پر بنا یا گیا ہے ۔ اس دنیا میں ہمیشہ ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان مقابلہ جاری رہتا ہے۔ اس مقابلہ میں کبھی ایک گروہ کو جیت حاصل ہوتی ہے اور کبھی دوسرے گروہ کو۔ مقابلہ آرائی کایہ ماحول قوموں کو مسلسل طور پر بیداررکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے ترقی کاعمل برابر جاری رہتا ہے۔
ایسی حالت میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ ہارنے والے اور جیتنے والے دونوں اپنی ہار اور جیت کو وقتی سمجھیں ۔ نہ ہارنے والا پست ہمت ہو اور نہ جیتنے والا فخر وناز کی نفسیات میں مبتلا ہو جائے۔ اس معاملہ میں معتدل رویہ پرقائم رہنا گو یا قدرت کے فیصلہ کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے برعکس، معتدل رویہ سے ہٹنا گو یا قدرت کے فیصلہ پرراضی نہ ہونا ہے۔ مگر جو لوگ اس معاملہ میں قدرت کے فیصلہ پرراضی نہ ہوں وہ خود اپنا ہی نقصان کریں گے ، نہ کہ کسی اور کا۔
یہ معاملہ پوری طرح فطرت کے قانون کامعاملہ ہے۔ وہ کسی کے لیے اور کسی کی وجہ سے بدلنے والانہیں۔ ایسی حالت میں کوئی فریق اگر اس کو قبول نہ کرے تو اس کا یہ عدم قبول ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے مجھے پھول کے ساتھ کانٹا مطلوب نہیں یا کوئی شخص اس بات پر احتجاجی مہم چلائے کہ دنیا کے نظام کو اس طرح بدل جانا چاہیے کہ یہاں صرف میرے لیے موافق موسم ہو، اور جو موسم میرے خلاف ہو وہ کبھی زمین پر نہ آئے۔
عالمی نظام کے بارے میں اس قسم کی شکایت واحتجاج جتنی بے معنی ہے اتنا ہی بے معنی وہ شکایت واحتجاج بھی ہے جو سیاسی تبدیلی یاقوموں کے عروج وزوال پر کی جائے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رمضان کا روزہ اس کے لیے روزہ ہے جو اس سے پہلے ’’روزہ‘‘ کی حقیقت سے آشنا رہا ہو، اور اس کے بعد بھی روزے کی اسپرٹ اس کے اوپر طاری رہے۔ باقی جو لوگ روزہ کو صرف بھوک پیاس سمجھتے ہیں ان کا روزہ بھی بس تیس دن کی بھوک پیاس ہے ، اس سے زیادہ ان کے روزے کی کوئی حقیقت نہیں۔روزہ دار سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ناجائز چیزوں سے ہمیشہ کے لیے روزہ رکھ لے۔ رمضان اسی قسم کی روزہ دارانہ زندگی کی ایک خصوصی تیاری ہے۔
اہل ایمان کو اس دنیا میں طرح طرح کے ’’روزوں ‘‘کا سامنا کرنا ہے۔ کہیں خواہشات پر کنٹرول کی ضرورت ہے ، کہیں ضروریات کو محدود کرنے کا سوال ہے، کہیں آرزوؤں کو قربان کرنے کا مسئلہ ہے ۔ غرض اس دنیا کی امتحان گاہ سے صحیح سلامت گزرنے کے لیے بہت سی چیزوں کو چھوڑنا ہے ۔ ایک مہینہ کا روزہ اسی بات کی تربیت ہے کہ انسان سال بھر ممنوعات سے کیسے ’’روزہ‘‘ رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزہ کا مطلب اللہ کے لیے خواہشوں پر روک لگانا ہے۔ خواہ روک لگانے کی فہرست کھانے پینے جیسی چیزوں تک پہنچ جائے۔
قرآن میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا گیا ہے، وہ تدبر اور تفکر ہے۔ قرآن کے مطابق، ہماری گر دوپیش کی دنیا حقائق کاخزانہ ہے۔ اس میں غور وفکر کے ذریعہ آدمی زندگی کی حقیقتوں کو دریافت کر سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی کچھ آیتیں یہ ہیں:إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (3:190-191)۔ یعنی، آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں ااور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصدنہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کوآگ کے عذاب سے بچا۔
قرآن کی ان آیتوں میں جوبات کہی گئی ہے اس کو سائنس آف ٹروتھ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کے سائنسی مطالعہ کامقصد صرف ٹیکنکل ترقی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کا ایک اور مقصد ہے، اور وہ ہے خالق کی تخلیقات میں خالق کو دریافت کرنا۔ تخلیقات کا گہرا مطالعہ کرکے زندگی کے راز کو معلوم کرنا۔ مادی کائنات کی تحقیق کرکے یہ جاننا کہ اس کے نقشہ کے مطابق، انسانی ترقی کاقانون کیا ہے۔
قرآن ( الملک، 67:3) بتاتا ہے کہ کائنات میں کوئی خلل (flaw)نہیں ۔ اس طرح کائنات کامطالعہ انسان کے لیے اس میں مدد گار ہے کہ وہ اپنی زندگی کی تعمیر وتشکیل بھی کامیابی کے ساتھ انجام دے سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے اپنی زندگی میں جو نقشہ مطلوب ہے وہ وہی ہے جو بقیہ کائنات میں بالفعل قائم ہے۔ چنانچہ آدمی جب کائنات کامطالعہ کرتا ہے تو وہ اس میں ایک طرف خالق کی تجلیات کو پالیتا ہے اور دوسری طرف اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کی کامیاب تعمیر کن خطوط پر کرنا چاہیے۔
سورہ النساء میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ شوہر اور بیوی میں اگر اختلاف ہوجائے اور وہ ایک دوسرے کو ناپسند کرنے لگیں تو دونوں کوٹکراؤکے بجائے موافقت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں کہا گیا ہے: فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا (4:19)۔ یعنی، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
میاں اور بیوی کے تعلقات میں جب بھی اختلاف پیدا ہو تا ہے تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک دوسرے کے ناپسند یدہ پہلو کو مبالغہ آمیز انداز میں دیکھنے لگتا ہے ۔ حالانکہ اسی وقت اس کے اندر کسی اور اعتبار سے پسند یدہ پہلو موجود ہوتا ہے۔مگر غصہ کی وجہ سے دونوں پسندیدہ پہلو کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی آدمی صرف برانہیں ہوتا۔ ہر آدمی کی زندگی کاکوئی مثبت پہلو ہو تا ہے اور کوئی منفی پہلو۔ اگر منفی پہلو کو نظرانداز کرکے معاملہ کیا جائے تو اس کے زبردست فائدے دونوں فریق کو حاصل ہوں گے۔
از دواجی زندگی میں جب ایک مرداور عورت دونوں اپنے آپ کو شامل کرتے ہیں تو یہ دونوں کے لیے سب سے زیادہ قریبی تعلق کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس قسم کا قریبی تعلق بے حد مفید ہے۔مگر اسی کے ساتھ اس قسم کے قریبی تعلق میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان فرق کی بنا پر اختلافات پیدا ہو جائیں اور پھر کسی ایک فرق کی بنا پر دونوں ایک دوسرے کو مطلوب سے کم سمجھنے لگیں۔مگر یہ سرتا سر نادانی ہے۔ عقلمندی یہ ہے کہ قریبی تعلق کے تعمیری پہلوؤں کو دھیان میں رکھا جائے اور ان سے بھرپور طور پر فائدہ اٹھایاجائے۔ جہاں تک ناپسند یدہ پہلوؤں کی بات ہے تو اس معاملہ میں حقیقت پسندانہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس کو نظرانداز کر دینا چاہیے ،یہی مرد کو بھی کرنا ہے اور یہی عورت کو بھی— کسی خاندان یا معاشرہ کی ترقی و استحکام کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کی کمیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی خوبیوں کو بروئے کار آنے کا موقع دیں۔
قرآن کی سورہ النساء میںکامیاب کلام کاذکر کیا گیا ہے۔ پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جولوگ بظاہر انکار کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں ان کو کس طرح اقرار کی روش پر لایا جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا (4:63)۔ یعنی، پس تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہوجو ان کے دلوں تک پہنچنے والی ہو۔
قول بلیغ سے مراد وہ کلام ہے، جو آدمی کے ذہن کو ایڈریس (address) کرنے والا ہو۔ جوآدمی کو نئی سوچ میں ڈال دے۔اس کلام سے انسان کو ٹیک اوے (takeaway)ملے۔ اس سےانسان کی غفلت ٹوٹے۔ اس کے اندر نیا تفکیری عمل (thinking process) جاری ہوجائے۔ وہ چیزوں پر ازسر نو غور کرنے لگے۔اس کے اندر محاسبہ خویش کا مزاج پیدا ہوجائے۔ اس کا رائے قائم کرنے کا طریقہ بدل جائے، وہ ایک سنسیر (sincere)انسان بن جائے۔
جب کوئی شخص کسی بات کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اس کا یہ انکار سادہ طور پر محض انکار نہیں ہوتا، بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ذہنی کنڈیشننگ کی بنا پر وہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ لمبی مدت تک ایک خاص فکری ماحول میں رہنے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو ایک خاص زاویہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس لیے وہ چیزوں کو کسی اور زاویہ سے دیکھ نہیں پاتا۔ اکثر حالات میں کسی انسان کاانکار اس کی فکری مجبوری کی بنا پر ہوتا ہے ، نہ کہ دانستہ سرکشی کی بنا پر۔
ایسی حالت میں ضرورت ہوتی ہے کہ صبر آزما کوشش کے ذریعہ اس کے اندرنئی سوچ لائی جائے۔ اس کے ذہن کے اوپر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹادیا جائے۔ مصلح کاکام یہ ہے کہ وہ لوگوں کی منفی روش کو نظرانداز کرتے ہوئے خیر خواہانہ طور پر ان کو سمجھا نے بجھا نے کا طریقہ جاری رکھے۔ وہ ان کے ذہن پر پڑے ہوئے پردوں کو اس طرح ہٹائے کہ سچائی کی بات کسی رکاوٹ کے بغیر اس کے ذہن تک پہنچ جائے۔ جب ایسا ہو گا تو اس کے لیے سچائی کااعتراف اسی طرح آسان بن جائے گا جس طرح کسی باپ کے لیے اپنے بیٹے کو پہچاننا آسان ہوتا ہے۔
قرآن کی سورہ النساء میں نماز کا حکم بتایا گیا ہے جو اسلام میں اہم ترین عبادت ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے : إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (4:103)۔ یعنی، بے شک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقرر وقتوں میں۔
یہ صرف نماز کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں اہل ایمان سے وقت کی پابندی مطلوب ہے۔ وسیع تر اپلیکیشن کےاعتبار سے آیت کا مطلب ہے:إِنَّ الحَيَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ( یعنی زندگی کواس کے مقرر وقتوں میں استعمال کرنا مسلمانوں پر فرض ہے)۔
نماز اسلام کی ایک بنیادی عبادت ہے۔ اس کا روزانہ ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ وہ رات اور دن کے درمیان پانچ بار مقرر اوقات پر ادا کی جاتی ہے۔ جس طرح نماز کی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح اس کے اوقات کی پابندی بھی ضروری ہے۔
نماز اصلاً ایک عبادت ہے۔ مگر اس کی ادائیگی میں اوقات کی پابندی کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح نماز گو یا وقت کی پابندی کاایک سبق ہے جو ہر دن لازمی طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ نماز عبادت کے ساتھ ٹائم مینجمنٹ (time management) کی ایک لازمی تربیت ہے۔ اس طرح نمازی کے رات اور دن کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ( 1) فجر سے لے کر ظہر تک( 2) ظہر سے لے کر عصرتک( 3)عصر سے لے کر مغرب تک(4) مغرب سے لے کر عشاء تک( 5) عشاء سے لے کر فجر تک۔
انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز وقت ہے۔ وقت کے صحیح استعمال کاانجام کامیابی ہے اور وقت کے غلط استعمال کاانجام ناکامی ہے۔ نماز کی صورت میں ٹائم مینجمنٹ کا سبق جو ہر روز دیا جاتا ہے وہ اس دنیا میں کامیاب زندگی کو یقینی بناتا ہے۔ آدمی اگر اپنے رات اور دن کے اوقات کو اس طرح پانچ خانوں میں تقسیم کرلے اور روزانہ اس کی پابندی کرے تووہ اپنی پوری زندگی کو بھر پور طورپر استعمال کر سکتا ہے۔ اور اس دنیا میں جو آدمی اپنے ملے ہوئے اوقات کو منظم طور پر اور بھر پور طورپر استعمال کرے اس کوکوئی بھی چیز اعلیٰ کامیابی تک پہنچنے سے روکنے والی نہیں۔
ٹائم مینجمنٹ کا مطلب ، دوسرے لفظوں میں لائف مینجمنٹ ہے ۔ زندگی کو درست طو رپر کیسے گذار اجائے ، اس کابہت گہرا تعلق اس سے ہے کہ آدمی اپنے اوقات کو کس طرح استعمال کرے۔ جس آدمی کے اندر وقت کے درست استعمال کامزاج پیدا ہو جائے وہ اسی کے ساتھ دوسری بہت سی برائیوں سے بچ جائے گا۔ وقت کا صحیح استعمال آدمی کو اس قابل بنا ئے گا کہ وہ اپنے حاصل شدہ ذرائع کو درست طور پر استعمال کرے۔
مثلاً ٹائم مینجمنٹ کامزاج آدمی کو سادہ زندگی پر مجبور کر دیتا ہے۔ کیوں کہ سادہ زندگی اختیار نہ کرنے کامطلب یہ ہے کہ ایک معاملہ میں ضرورت سے زیادہ توجہ دینا، دوسرے معاملہ میں کمی کے ہم معنی بن جا تا ہے۔ اسی طرح تفریح کامزاج آدمی کویہ نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کے پاس دوسرے زیادہ ضروری کاموں کے لیے وقت ہی نہ رہے ۔ اسی طرح لذیذکھانوں کاشوق آدمی کے لیے اس نقصان کا سبب بنتا ہے کہ وہ زندگی کے دوسرے ضروری پہلوؤں کے بارے میں غافل ہوجائے۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹائم مینجمنٹ اپنے اوقات کی درست تقسیم کادوسرانام ہے۔ جب آدمی کے اندر صحیح معنوں میں ٹائم مینجمنٹ کا احساس پیدا ہوجائے تو اس کالازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ بہت سی غیرضروری یاغیر اہم چیزوں سے بچ جائے گا۔ مثلاً فضول خرچی، مصنوعی تکلفات، غیر حقیقی مشاغل، وقتی تفریحات ،وغیرہ۔
زندگی میں سادگی کی بے حداہمیت ہے۔ سادگی بامقصد انسان کاکلچر ہے۔ تاہم ساد گی کے اصول پر وہی شخص قائم رہ سکتاہے جو ٹائم مینجمنٹ کی اہمیت کو سمجھ لے، وہ اپنے اوقات کے بارے میں پوری طرح حسّاس ہو جائے۔ ایسا آدمی جب بھی ساد گی کے خلاف کوئی کام کرے گا تو اس کی یہ حساسیت اس کو فور اًروک دے گی ۔ وہ محسوس کرے گا کہ وہ ساد گی کے خلاف طریقہ استعمال کرکے اپنے آپ کو اس ہلاکت میں ڈال رہاہے کہ اس کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے نہ پیسہ رہے اور نہ وقت۔
سورہ النساء میں زندگی کا ایک اصول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ، وَأُحْضِرَتِ ٱلأَنفُسُ ٱلشُّحَّۚ ( 4:128)۔ یعنی، اس میں کوئی حرج نہیںکہ دونوں آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے۔ اور حرص انسان کی طبیعت میں بسی ہوئی ہے۔
قرآن کی اس آیت میں صلح کو بہتر بتایا گیا ہے۔ یہ بات بظاہر میاں بیوی کی نزاع کے بارے میں ہے مگر اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ صلح ایک ا علیٰ تدبیر ہے جوہر نزاعی مسئلہ کا واحد کامیاب حل ہے، خواہ و ہ نزاعی مسئلہ انفرادی ہو یا اجتماعی، خواہ وہ قومی ہو یا بین اقوامی۔
جب بھی دوآدمیوں یا دوفریقوں کے درمیان کوئی نزاع پیش آتی ہے تو اس کےحل تک نہ پہنچنے کا سبب صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ حرص ہے۔ یعنی عملاً جو کچھ مل رہا ہے اس پر راضی نہ ہو نا اور اس سے زیادہ چاہنا۔ یہی حرص یازیادہ چاہنے کا مزاج نزاع کو ختم نہیں ہونے دیتا ۔ وہ آخر کار بڑھ کر باقاعدہ ٹکراؤ کا سبب بن جاتا ہے۔اس کے مقابلہ میں صلح یہ ہے کہ بروقت جو کچھ عملی طور پر مل رہا ہے اس پر راضی ہو کرنزاع کو ختم کر دینا۔ جب ایک شخص صلح کے اس طریقہ کو اختیار کرے تو اپنے آپ نزاع کی حالت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد یہ نوبت ہی نہیں آتی کہ نزاع بڑھ کر ٹکراؤ بن جائے۔ نتیجہ کے اعتبار سے دیکھیے تو حرص کا طریقہ ہمیشہ مزید نقصان کا سبب بنتا ہے، اور صلح کا طریقہ کام کے مواقع کھو لتا ہے جس کو اویل (avail)کرکے مزید ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔
صلح کوئی سادہ بات نہیں۔ صلح اپنے آپ میں سب سے بڑاعمل ہے۔ صلح بظاہر میدان مقابلہ سے واپسی ہے۔ مگر عملاً وہ اقدام کی سب سے بڑی تدبیر ہے۔ جب کہ کوئی فردیا گروہ صلح کرلے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے لیے ایک ایسا ماحول پالیا جس کے اندر وہ ٹکراؤ میں وقت ضائع کیے بغیر اپنے پورے وقت اور طاقت کو اپنے تعمیری منصوبہ میں لگائے— غیر مصالحانہ طریقہ، زندگی کے سفر کو روک دیتا ہے ۔ اس کے برعکس، مصالحانہ طریقہ زندگی کے سفر کوروکے بغیر دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ جاری کر دیتاہے۔
سورہ النساءمیں جو احکام دیے گئے ہیں ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ لوگ غلویا انتہاپسندی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ غلویا انتہاپسندی ہر حال میں بری چیز ہے۔ چنانچہ قرآن میں اہل کتاب کے حوالے سےارشاد ہواہے: يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ (4:171)۔یعنی، اے اہل کتاب، تم اپنے دین میں غلونہ کرو اور اللہ کے بارے میں تم کوئی بات حق کے سوانہ کہو۔
اس آیت میں جس روش کو غلو کہا گیاہے وہ وہی ہے جس کو انتہاپسندی( extremism) کہا جاتا ہے۔ انتہاپسندی بظاہر اچھی نیت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے یہ جذبہ ہوتا ہے کہ کسی مقصد کو مزید قوت کے ساتھ حاصل کیاجائے۔ انتہاپسندی دراصل اعتدال پسندی کی ضد ہے۔
انتہاپسندی کی روش بظاہر اچھی نیت کے ساتھ کی جاتی ہے مگرعملی نتیجہ کے اعتبار سے وہ سخت نقصان دہ ہے۔ اس دنیا میں کوئی صحیح یا مثبت نتیجہ ہمیشہ اعتدال کی روش کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ انتہاپسندی کی روش صرف نقصان پہنچاتی ہے وہ کسی فائدہ کا سبب نہیں بن سکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کام خارجی اسباب کی رعایت کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ خارجی اسباب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے جو اقدام کیاجائے گا وہ صرف تباہی کا سبب بنے گا۔
انتہاپسندی اور اعتدال پسندی میں یہی فرق ہے۔انتہاپسند لوگ صرف اپنی خواہش کوجانتے ہیں ،وہ خارجی اسباب سے بے خبر رہتے ہیں۔اس کے برعکس، اعتدال پسندآدمی اپنی خواہش کے ساتھ خارجی اسباب کو بھی اپنے دھیان میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہاپسند آدمی ہمیشہ ناکام ہوتاہے اور اعتدال پسند آدمی ہمیشہ کا میاب رہتا ہے۔
غلویا انتہاپسندی ( extremism)ایک ایسی روش ہے جو فطرت کے قوانین کے خلاف ہے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ فطرت ہمیشہ اعتدال اور تدریج کے اصول پر کام کرتی ہے۔یہ اصول جو خارجی دنیا میں عملاً قائم ہے وہی اصول انسان کے لیے بھی مفید ہے۔ فطرت کانظام عمل کی زبان سے انسان کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ تم اپنی زندگی کوکامیاب بنانا چاہتے ہو تو غلو کو چھوڑ دو اور اعتدال کا طریقہ اختیار کرو۔
سورہ المائدہ میں ایک واقعہ کاذکر اس طرح کیا گیا ہے: وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقّ ( 5:83)۔ یعنی، اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتار اگیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ا س سبب سے کہ ان کو حق کاعرفان حاصل ہو گیا ۔
ایک اور موقع پر اسی قسم کی بات اس طرح کہی گئی ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا(8:2)۔ یعنی، ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کاذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کاایمان بڑھا دیتی ہیں۔
ان آیتوں سے ایک اہم حقیقت واضح ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ سچائی سب سے بڑی طاقت ہے۔ کوئی انسان جب سچائی کو دریافت کرتاہے تو اس کی پوری شخصیت ہل جاتی ہے۔ اس کے اندر ایک ذہنی انقلاب پیداہوجاتا ہے۔ وہ روحانیت کے سمندر میں نہااٹھتا ہے ۔ اس کو ایک نئی روشنی حاصل ہوتی ہے جو اس کی اندرونی شخصیت کو آخری حد تک منور کر دیتی ہے۔ سچائی کی دریافت کسی انسان کے لیے سب سے بڑا تجربہ ہے، اس سے زیادہ بڑاتجربہ اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔
اس معاملہ کا دوسراپہلو یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس سچائی ہو وہ سب سے زیادہ طاقتور انسان ہے۔ وہ ایک تسخیری طاقت کامالک ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں کو جیت سکتا ہے۔ وہ ہتھیار کے بغیر فاتح بن سکتا ہے۔ بظاہر کوئی مادی طاقت نہ رکھتے ہوئے بھی وہ سب سے بڑی طاقت کامالک ہے۔ سچائی پانے والے کے لیے سچائی ایک انقلاب ہے۔ اور سچائی رکھنے والے کے لیے سچائی ایک طاقت کا خزانہ ہے۔
کسی شخص کی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ ہلچل پیدا کرنے والی ہے وہ سچائی کی دریافت ہے۔ کسی آدمی کا یہ احساس کہ میں نے سچائی کو اس کی بے آمیز صورت میں دریافت کرلیا ہے، اس کے اندر فکر وخیال کا طوفان برپاکردیتا ہے۔ اس قسم کا واقعہ کسی آدمی کے پورے اندرونی وجود کو متحرک کر دیتا ہے۔ وہ اس کو معمولی انسان کے درجہ سے اٹھاکر غیر معمولی انسان بنا دیتا ہے۔
خدا کا کلام صرف یہ نہیں کرتا کہ وہ انسان کو کچھ باتوںکی خبر دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ انسان کی سوئی ہوئی فطرت کو جگاتا ہے۔ وہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود چراغ کو روشن کر دیتا ہے۔ وہ انسان کے داخلی شعور کو خارجی حقیقت سے جوڑ دیتاہے۔
انسان کی فطرت میںپیدائشی طورپر معرفت کا احساس رکھ دیا گیا ہے ۔ مگر اس پوٹنشل احساس کو متحرک(activate) کرنے کے لیے خارجی مدد کی ضرورت ہے۔ خدا کا کلام یہی خارجی روحانی مدد فراہم کرتا ہے۔ خدا کے کلام سے رہنمائی پانے کے بعد انسان کاحال یہ ہوتا ہے کہ گویا اندھیرا گھرروشن ہوجائے یا سو کھا ہواباغ لہلہااٹھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عید آغازِ حیات کا دن ہے۔ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی دنیا سے اور دنیا کی چیزوں سے ایک محدود مدت کے لیے کٹ کر بالکل اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے۔ عید ایک خوش خبری ہے۔ اس بات کی خوش خبری کہ ہم خدا کو پا سکتے ہیں، ہم جنت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تزکیۂ نفس اور صبر اور تعلق باللہ کی جو دولت ہم نے رمضان کے دنوں میں پائی ہے، اس کو ساری زندگی میں پھیلاسکتےہیں۔
جس طرح روزہ محض بھوک پیاس کا نام نہیں ہے۔ اسی طرح عید محض کھیل تماشے کا نام نہیں ہے۔ روزہ کا مہینہ اللہ سے قربت حاصل کرنے کی خصوصی کوشش اور تربیت کا مہینہ ہے اور عید اس دور کا آغاز ہے جو روزہ کی تربیت کی بنیاد پرجاری ہونا چاہیے۔ کسی بزرگ کا قول ہے— عید اس کی نہیں ہے، جو نیا کپڑا پہنے، بلکہ حقیقی عید اس کی ہے، جو قیامت کے دن خدا کی گرفت سے محفوظ ہو:
لَيْسَ الْعِيدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِيدَ إِنَّمَا الْعِيدُ لِمَنْ أَمِنَ الْوَعِيدَ
عید کا دن چاہتا ہے کہ ہم نئی ایمانی قوت اور نئے ذوقِ یقین کے ساتھ زندگی کی جدو جہد میں داخل ہوں۔ ہمارے دل خدا کے نور سے منور ہوں— روزہ نے صبر اور تعلق باللہ کی جو طاقت دی ہے اس کو بھرپور طور پر استعمال کیجیے ، تاکہ آخرت کی ابدی خوشی آپ کی منزل ہو ۔
سورہ الاعراف میں انسان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی زمین میںخدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق رہے، وہ اس سے انحراف نہ کرے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں:فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا (7:85)۔ یعنی، پس ناپ اور تول پوری کرو۔ اور مت گھٹا کر دو لوگوں کو ان کی چیزیں۔ اور فساد نہ ڈالوزمین میں اس کی اصلاح کے بعد۔
خدانے اس زمین کو ایک اصلاح یافتہ زمین کے طورپر پیدا کیا ہے ۔ یہاں ہر چیز اپنی معیاری صورت میں ہے۔ مثال کے طور پر انسان کے سوا جو دنیا ہے وہاں عدل اور پوری ادائیگی کا اصول قائم ہے۔ یہ گو یا ایک اصلاحی نظام ہے جو خدا کی زمین پر قانون فطرت کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ انسان کو بھی اپنی زندگی میں اسی اصلاحی اصول کو اختیار کرنا ہے۔ اس کے خلاف چلنا گویازمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ بناؤ میں بگاڑ کو داخل کرنا ہے۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ زمین میں ہر چیز کو نہایت متناسب انداز (right proportion) میں رکھا گیا ہے۔ سورج کی روشنی ، بارش اور ہوا ہر چیز میں ایک خاص تنا سب قائم ہے۔ زمین کی سطح پر سبزہ اور جنگلات سوچے سمجھے اندازہ کے مطابق اگا ئے گئے ہیں۔ انسان کے لیے بقا اور ترقی کاراز یہ ہے کہ وہ فطرت کے اس اصلاحی نقشہ کو برقرار رکھے۔
زمین کے اندر فطرت کاجو نظام ہے وہ گویا ایک ماڈل ہے۔ انسان کو بھی اسی ماڈل پر اپنی زندگی کی تشکیل کرنی ہے۔ انسان اگر ایسا کرے کہ وہ فطرت کے اس ماڈل کو اپنی زندگی میں اختیا رنہ کرے، اسی کے ساتھ وہ مزید یہ سرکشی کرے کہ وہ فطرت کے نظام کو بدل دے، مثلاً ہوا میں گیسوں کے فطری تناسب کو بگاڑ دے تو گویا وہ دو ہراجرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ خدا کے غضب کا شکار ہوکررہ جائیں گے، وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
﴿ اسلام پرہیز گاری کا نام ہے۔اور روزہ اسی پرہیزگارانہ زندگی کا تربیتی کورس ﴾
سورہ الاعراف میں اہل ایمان کو چند اخلاقی نصیحتیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ باہمی معاملات میں اعراض کا طریقہ اختیار کیاجائے۔ آیت کےالفاظ یہ ہیں: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (7:199)۔ یعنی، درگزر کرو، نیکی کاحکم دو اور نادانوں سے اعراض کرو۔
اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے درمیان بحث اور تکرار شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے موقع پر درست طریقہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر فریق ثانی سنجیدہ ہو، وہ مسئلہ کو حقیقی طور پر سمجھنا چاہتا ہو تو ایسی صورت میں دلیل کے ذریعہ اس کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہیے۔ اور اگر وہ سنجیدہ نہ ہو تو ایسی حالت میں دلیل اور منطق اس کو متاثر نہ کر سکے گی ۔ وہ ہر دلیل کے جواب میں کچھ خود ساختہ الفاظ بول دے گا اور پھر یہ سمجھے گا کہ اس نے پیش کردہ دلیل کورد کر دیاہے۔
اس دوسری صورت میں درست طریقہ یہ ہے کہ اعراض(avoidance) کے اصول پر عمل کیا جائے۔ اعراض کامقصد دراصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے ضمیر کے حوالہ کر دیاجائے۔ عین ممکن ہے کہ جو مقصد دلیل کے ذریعہ پورانہیں ہوا وہ ضمیر کی خاموش آواز کے ذریعہ پورا ہو جائے۔
عملی نزاع کوختم کرنے کے لیے بھی سب سے زیادہ موثر ذریعہ اعراض ہے۔ عملی نزاع کے وقت اگر اعراض کاطریقہ اختیار کیاجائے تو نزاع اپنے پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہوجائے گی۔ جب کہ اعراض نہ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ نزاع بڑھتی رہے، یہاں تک کہ چھوٹی برائی(lesser evil) کی جگہ بڑی برائی(greater evil) کاسامنا کرنا پڑے۔
اعراض کوئی سادہ چیز نہیں، وہ ایک اعلیٰ اخلاقی روش ہے۔ وہ ایک اعلیٰ انسانی طریقہ ہے ۔ کوئی شخص جب اشتعال کی صورت پیش آنے پر بھڑک اٹھے تو وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک پست انسان ہے۔ اس کے برعکس، جوآدمی اشتعال کی صورت پیش آنے پر نہ بھڑ کے۔ وہ ایسا کرکے یہ ثابت کررہا ہے کہ وہ ایک بلند انسانی مرتبہ پر ہے۔ وہ صحیح معنوں میں اعلیٰ انسان کہے جانے کا مستحق ہے۔
سورہ یوسف میں پیغمبریوسف کاواقعہ بیان ہوا ہے۔حضرت یوسف کا زمانہ انیسویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ ان کے اوپر بہت سے سخت حالات پیش آئے۔ مگر وہ تقویٰ اور صبر پر قائم رہے۔ یہاں تک کہ خدا نے ان کو سر فرازی عطا فرمائی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد قرآن میں ارشاد ہوا ہے:إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (12:90)۔ یعنی، جو شخص ڈرے اور صبر کرے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کا ایک قانون بتایاگیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ حضرت یوسف کے ساتھ نصرت خداوندی کا جو معاملہ ہوا وہ دوسرےلوگوں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیامیں ہر شام کے بعدصبح آتی ہے ۔ ایسا ہونا لازمی ہے ۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے اوپرجب اندھیری رات آئے تو انسان بے صبری اور گھبراہٹ کا شکار نہ ہو، بلکہ خدا پر بھروسہ کرکے انتظار کی پالیسی اختیار کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے تو جلد ہی وہ دیکھے گاکہ اس کے اوپر سورج طلوع ہو ااورہر طرف اجالاپھیل گیا۔تقویٰ یہ ہے کہ آدمی خدا کے مقرر کیے ہوئے نظام پر راضی رہے ۔ اور صبر کامطلب یہ ہے کہ وہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے ۔ اس کے سواکوئی اور راستہ نہیں جس پر چل کرآدمی اپنی منزل پرپہنچ سکتا ہو۔
قانون فطرت کے مطابق، اس دنیا میں کوئی ناکامی ابدی ناکامی نہیں۔ ہر ناکام "حال" کے ساتھ ایک کامیاب" مستقبل" جڑا ہوا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ بے صبری کر کے اس نظام کو نہ بگاڑے ۔ وہ صبر کی پالیسی اختیار کرکے قدرت کے اگلے فیصلہ کا انتظار کرتا رہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کے لیے یہی پالیسی مفید بھی ہے اور یہی پالیسی ممکن بھی۔
فطرت کے اسی اصول کو ایک مشہور مقولہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے— انتظار کرو اور دیکھو (wait and see) ۔یہ ایک عالمی تجربہ ہے جو اس مقولہ کی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ اس معاملہ میں یہی مذہبی تعلیم بھی ہے اور یہی فطرت کاتقاضا بھی ۔
قرآن کی سورہ الرعد میں بتایا گیا ہے کہ قوموں کے عروج وزوال کا قانون کیا ہے۔ یہ فطرت کے ایک اصول پر مبنی ہے جس کاذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (13:11)۔ یعنی، بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس کو نہ بدل ڈالیں جو ان کے جی میں ہے۔
قرآن کی اس آیت میں مَا بِقَوْم سے مراد کسی قوم کی اجتماعی حالت ہے اورمَا بِأَنْفُس سے مراد کسی قوم کی انفرادی حالت ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ کسی قوم کی اجتماعی ترقی کاراز یہ ہے کہ اس کے افراد کے اندر انسانی صفات(human qualities) اعلیٰ درجہ میں موجود ہوں۔ اس کے برعکس، کسی قوم کا اجتماعی زوال اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے افراد کے اندر اعلیٰ انسانی صفات باقی نہ رہیں۔ فرد کی حالت ہی پرترقی کا انحصار بھی ہے اور تنزل کا بھی ۔ کوئی گروہ اگر اجتماعی سطح پر ترقی کرناچاہتا ہے تو اس کو اپنے افراد کی اصلاح پر اپنی پوری طاقت کو صرف کرنا چاہیے۔
فطرت کایہ قانون بتا تا ہے کہ کوئی قوم اگر گراوٹ کا شکار ہو جائے تو اس کو دوبارہ اٹھانے کا عمل کہاں سے شروع کرنا چاہیے ۔ اس کاواحد کار گر طریقہ یہ ہے کہ افراد کے اندر پھر سے شعوری بیداری لائی جائے ۔ افراد کے سیرت وکردار کو بلندکیا جائے۔ افراد کے اندراتحاد اور انسانیت کی روح کو جگا یا جائے۔
قومی اصلاح کایہی واحد طریقہ ہے ۔ اس کے برعکس، اگر قومی اصلاح کے نام پر عمومی تحریک (mass movement) چلائی جائے، جلسوں اور عوامی تقریروں کے ذریعہ بھیڑ کو مخاطب کیاجائے تو ایسے عمل کاکوئی مطلوب نتیجہ ہر گز نکلنے والانہیں۔ اس قانون کے مطابق، کسی قوم کی خارجی حالت ہمیشہ اس کی داخلی حالت کانتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں کسی قوم کے زوال کے وقت اس کی اصلاح کاآغاز داخلی محنت سے ہوگا، نہ کہ خارجی کارروائیوں سے ۔
سورہ الرعد میں اس قانون فطرت کو بتایا گیا ہے جس کے تحت اس دنیا میں کسی کو قیام اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔ یہ نفع بخشی(giving spirit) کا قانون ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے:أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی، اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدا رکے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھالیا اورا سی طرح کاجھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جس کولوگ زیور یا اسباب بنانے کے لیے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
اس آیت میں فطرت کی دو مثالوں کے ذریعہ ایک حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اور قومی زندگی میں ایک کے مقابلہ میں دوسرے کے لیے قیام اور استحکام کا راز کیا ہے۔ وہ راز صرف ایک ہے اور وہ نفع بخشی ہے۔ اس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہو تا ہے کہ جو گروہ دینے والا گروہ (giver group) ہوا س کو دوسروں کے مقابلہ میں جماؤاور ترقی حاصل ہو اور جو گروہ لینے والا گروہ(taker group) بن جائے وہ دوسروں کے مقابلہ میں مغلوب ہو کررہ جائے۔
اس قانون کی روشنی میں دیکھا جائے تو محرومی کے وقت مطالبہ کی مہم سراسر بے معنی ہے ۔ کیوںکہ اس دنیا میں کسی کو مطالبہ سے کچھ نہیں مل سکتا ۔ اس دنیا میں جب بھی کسی کو کچھ ملے گا تو وہ صرف دینے کی قیمت پر ملے گا۔ اس معاملہ میں موجودہ دنیا کا قانون ایک لفظ میں یہ ہے— جتنا دینا اتنا پانا۔
﴿روزہ بھوک پیاس کی سالانہ رسم نہیں، روزہ اخلاقی ڈسپلن کی سالانہ تربیت ہے﴾
سورہ ابراہیم میں فطرت کاایک قانون بتایا گیا ہے ۔ وہ یہ کہ خدا کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق، اس دنیا میں شکر کرنے سے اضافہ ہوتا ہے۔ یہ قانون قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (14:7)۔ یعنی، اور جب تمہارے رب نے تم کو آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میراعذاب بڑاسخت ہے۔
قرآن کی اس آیت میںجو بات کہی گئی ہے وہ کوئی پراسرار بات نہیں۔ وہ معلوم اسباب کے تحت پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے ، فرد کے لیے فرد کی حیثیت سے اور گروہ کے لیے گروہ کی حیثیت سے۔
شکر دراصل اعتراف (acknowledgement) کانام ہے۔ انسان کی نسبت سے جس چیز کو اعتراف کہا جاتا ہے اسی کو خدا کی نسبت سے شکر کہا گیا ہے۔ شکر یہ ہے کہ خدا نے آدمی کو جو کچھ دیا ہے، دل کی گہرائیوں کے ساتھ وہ اس کااعتراف کرے۔
یہ شکر یا اعتراف کوئی سادہ چیز نہیں۔ اس کا رشتہ نہایت گہرائی کے ساتھ آدمی کی نفسیات سے جڑاہوا ہے۔ شکر کرنے والے آدمی کے اندر تو اضع ،حقیقت پسندی، اعتراف حق، سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس پیداہوتا ہے۔ یہ احساسات اس کے کردار میں نمایاں ہوتے ہیں جو اس کو ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس، معاملہ ناشکری کا ہے۔ ناشکری سے آدمی کے اندر سرکشی، حقیقت سے اعراض، بے اعترافی ، غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری جیسی پست صفات پیداہوتی ہیں ۔ اور جس آدمی کے اندر اس قسم کی پست صفات پائی جائیں اس کی ترقی یقینی طور پر رک جائے گی ۔ حتیٰ کہ ممکن ہے کہ وہ ملے ہوئے کو بھی کھو دے۔
قرآن میں دوآیتیں ان الفاظ میں آئی ہیں:وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ۔ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (17:26-27)۔ یعنی، اور رشتہ دار کوا س کا حق دو اور مسکین کو اور مسافر کو اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔
یہاں جو حکم دیا گیا ہے اس کو منی مینجمنٹ (money management)کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اپنی کمائی کو حقیقی ضرورت کے مطابق بااصول انداز میں خرچ کرنا اور بے فائدہ کاموں میں اپنا پیسہ خرچ کرنے سے بچنا۔ فضول خرچی کے معاملہ میں قرآن اتنازیادہ سنجیدہ ہے کہ اس نے فضول خرچی کو تبذیر ( پیسہ کو غیرذمہ دارانہ طور پر بکھیرنا) کہا ہے،اوراسے ایک شیطانی فعل قرار دیا ہے۔پیسہ کمانا جس طرح ایک کام ہے اسی طرح پیسہ کوخرچ کرنا بھی ایک کام ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے پیسے کو درست طور پر خرچ کرے ۔وہ اپنے پیسہ کو ضائع نہ کرے ۔ پیسہ کو درست طور پر خرچ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خرچ کی ضروری مد (necessary expense)اور غیر ضروری مد (unnecessary expense) میں فرق کیا جائے ۔ پیسہ کو صرف ضروری مد میں خرچ کیاجائے اور غیر ضروری مدوں میں پیسہ کوخرچ کرنے سے مکمل طور پر پرہیز کیاجائے۔
قرآن ( 4:5) میںمال کو قیام کہا گیا ہے ۔ یعنی دنیا میں انسان کے قیام و بقا کا سامان ۔ حقیقت یہ ہے کہ مال زندگی کی تعمیر کے سلسلہ میں بے حد اہمیت رکھتا ہے ۔ مال ہر انسان کے پاس خدا کی ایک امانت ہے ۔ پیسہ کسی کو اس لیے ملتا ہے کہ وہ اس سے اپنی حقیقی ضرورتوں کو پورا کرے اور جو پیسہ اپنی حقیقی ضرورت سے زیادہ ہو اس کو سماج کی تعمیرکے لیے خرچ کرے ۔ یہی خرچ کی صحیح صورت ہے اور اسی میں فرد اور سماج کی ترقی کاراز چھپا ہوا ہے۔جو لوگ مال کو غیر ذمہ دارانہ طور پر خرچ کریں وہ بیک وقت دوسنگین برائیوں میں مبتلا ہیں۔ ایک اعتبار سے وہ ایک مقدس امانت میں خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں اور دوسرے اعتبار سے وہ خودا پنی ذاتی تعمیر کے معاملہ میں بدترین ناعاقبت اندیشی کاشکار ہیں۔
سورہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگوں کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے ایک فطری انسانی حقیقت کااعلان کیا گیا ہے۔اس سلسلہ میں قرآن کامتعلقہ بیان یہ ہے:وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (17:85)۔ یعنی، اور وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے ۔ اور تم کو صرف علم قلیل دیا گیا ہے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی محدود یت(limitations) کی بنا پر علم کلی تک نہیں پہنچ سکتا ۔ علم کلی بطور واقعہ موجو دہے۔ مگر انسان کی ذاتی محدود یت کی بنا پر وہاں تک اس کی رسائی ممکن نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لے ۔ وہ جزئی علم کی بنیاد پر کلی علم کے بارے میں استنباط کرے۔ اگر انسان نے یہ اصرار کیا کہ ہر چیز کو براہ راست میرے مشاہدہ میں آنا چاہیے تو وہ صرف کنفیوژن کاشکار ہو کررہ جائے گا ۔ کیوں کہ کلی حقیقت کا بطور مشاہدہ علم میں آنا اس دنیا میں ممکن ہی نہیں۔
یہ ایک اہم تعلیم ہے۔ یہی واحد چیز ہے جو آدمی کو کنفیوژن سے بچانے والی ہے۔ جو لوگ یہ چاہیں کہ ہر چیزان کے براہ راست مشاہدہ میں آئے ، اسی وقت وہ اس کو مانیں گے تو ایسے لوگ ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہیں گے ۔ اس دنیا میں یقین کے درجہ تک پہنچنا صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایسا کرے ۔ یعنی وہ جزئی علم تک براہ راست رسائی حاصل کرنے کے بعد یہ اعتراف کرلے کہ اس کے بعد براہ راست علم کی حد ختم ہو گئی اور بالواسطہ علم کی حد آگئی ۔ یہی واحد طریقہ ہے جو کسی آدمی کو یقین کادرجہ عطا کر سکتا ہے۔
یہ عین وہی اصول ہے جس کو موجودہ سائنس میں اب ایک حقیقت کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اب اہل علم کے درمیان یہ ایک مسلمہ اصول بن چکا ہے کہ سائنس ہم کو سچائی کاصرف ایک حصہ عطا کرتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
قرآن میں باہمی ملاقات کے آداب بتاتے ہوئے ایک تعلیم یہ دی گئی ہے کہ ملاقات کے لیے پیشگی اجازت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ مذکورہ قرآنی آیت یہ ہے:يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (24:27)۔ یعنی، اے ایمان والو، تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور گھروالوں کو سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے تا کہ تم یاد رکھو ۔
قرآن کی اس آیت میں ملاقات سے پہلے اپائنٹمنٹ(appointment) لینے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ یعنی ایک شخص جب دوسرے شخص سے ملنا چاہے تو اس کے یہاں جانے سے پہلے پیشگی طور پر وہ باقاعدہ اس سے اجازت حاصل کرے اور پھر اس کے یہاں ملنے کے لیے جائے۔ آدمی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی کے یہاں ملاقات کے لیے اچانک پہنچ جائے۔ اس سے سماجی زندگی میں مختلف قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ حتی کہ خود ملاقات کامقصد بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ اگر بالفرض کوئی شخص پیشگی اجازت نامہ کے بغیر کسی کے ہاں ملنے کے لیے پہنچ جائے تو اس کے اندر یہ حوصلہ ہونا چاہیے کہ اگر متعلقہ شخص اپنے کسی عذر کی بنا پر ملاقات نہ کر سکے یا ملاقات کے لیے بہت کم وقت دے تو فریقِ اول کو اس پر کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اگلی ملاقات کے لیے دوبارہ وقت لے کر بلا شکایت واپس چلاجائے ۔ یہ انسانیت کااعلیٰ طریقہ ہے اورا علیٰ طریقہ کے بغیر کبھی انسانیت کی اعلیٰ ترقی نہیں ہو سکتی ۔
جس طرح ہر چیز کے آداب ہیں اسی طرح ملاقات کے بھی آداب ہیں۔ ملاقات کے آداب میں سے یہ ہے کہ متعلقہ شخص سے اس کی پیشگی اجازت لی جائے۔ گفتگو کے وقت سنا نے کے ساتھ سننے کا بھی مزاج ہو۔ غیر ضروری سوال یا بے فائدہ تفصیل سے بچاجائے۔ تنقید اور تعریف سے بلند ہو کر بات کو سنا جائے۔ اپنی رعایت کے ساتھ دوسرے کی رعایت کا بھی پورا لحاظ رکھاجائے۔ گفتگو آہستہ انداز میں کی جائے۔ گفتگو کے وقت زور زور سے بولنا آداب کلام کے خلاف ہے۔
قرآن کی سورہ النمل میں قدیم قوم سبا کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ سے اجتماعی زندگی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ اس کی متعلقہ آیتیں یہ ہیں:
قَالَتْ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ ۔ إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۔ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ۔ قَالَتْ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنْتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ۔ قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانْظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ ۔ قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ ( 27:29-34)۔ یعنی، ملکہ سبا نے کہا کہ اے دربار والو، مجھے ایک بہت اہم خط پہنچایاگیا ہے۔ وہ سلیمان کی طرف سے ہے۔ اور وہ ہے۔ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ تم میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس آجاؤ۔ ملکہ نے کہا کہ اے دربار والو، میرے معاملہ میں مجھے رائے دو۔ میں کسی معاملہ کافیصلہ نہیں کرتی جب تک تم لوگ حاضرنہ ہو۔ انہوں نے کہا ، ہم لوگ زور آور ہیں اور سخت لڑائی والے ہیں۔ اور فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ پس آپ دیکھ لیں کہ آپ کیا حکم دیتی ہیں۔ ملکہ نے کہا کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو خراب کر دیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور یہی یہ لوگ کریں گے۔
اس آیت میں ملکہ سبا کے حوالہ سے زندگی کا ایک اصول بتایا گیا ہے ۔ وہ یہ کہ اقدام ہمیشہ نتیجہ کو دیکھ کر کرنا چاہیے ، نہ کہ محض خواہش کی بنیاد پر۔ کسی کے خلاف اقدام کرنا اگر مثبت نتیجہ پیدا کرنے والا ہو تو ایسے اقدام کو درست کہا جا سکتا ہے مگر جو اقدام الٹانتیجہ پیدا کرنے والا(counter productive) ہو، اس سے بچنا لازمی طور پر ضروری ہے۔
عملی اقدام آئڈیلزم کے تحت نہیں ہو تا بلکہ پریکٹکل وزڈم کے تحت ہوتا ہے۔ اپنا ذاتی معاملہ ہو تو آدمی آئڈیل بن سکتا ہے مگر اجتماعی معاملہ میں ہر ایک کو پریکٹکل ہی بننا ہے، خواہ وہ کوئی عام آدمی ہو یا کوئی حکمراں ہو۔
سورہ السجدہ میں ایک گروہ کا ذکر کیاگیا ہے جس کو خدا نے لیڈر شپ عطا کی۔ وہ اس سرفرازی کے مستحق کیسے قرار پائے اس کا راز صبر تھا۔ قرآن کی مذکورہ آیت یہ ہے:وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (32:24)۔ یعنی،اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے جب کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کامیاب قیادت کا راز صبر ہے۔ صبر کسی آدمی کو سوچ اور کردار کے اعتبار سے دوسروں سے بلندکرتا ہے، اور بلند سوچ اور بلند کردارہی وہ صفتیں ہیں جو کسی آدمی کو دوسروں کے اوپرسر داری کامقام دیتی ہیں۔صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔صبر قائدانہ زندگی کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص لیڈر شپ کا رول کامیابی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا۔ کامیاب لیڈر وہ ہے، جو نفس کی خواہشوں کے مقابلے میں صبر کرے، ناخوش گوار تجربات پیش آنے پر جذبات سے کام لینے کے بجائے صبر کرے اور درست فیصلہ کو اپنائے، وہ محرومی کے واقعات کو ایگو کا مسئلہ بنانے کے بجائے صبر کے ساتھ دانش مندانہ انداز میں اپنا منصوبہ بنائے، مصیبتوں کا موقع آئے تو پریشان ہونے کے بجائے صبرکرکے اس کا حل تلاش کرے، وغیرہ۔ قوم کو کامیابی کے راستے پرچلانے کے لیے صبر وتحمل کی لازمی طورپر ضرورت ہے۔
لوگ اسی شخص یا گروہ کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں جو انہیں اپنے سے بلند دکھائی دے ۔ جو اس وقت اصول کے لیے جئے، جب کہ لوگ مفاد کے لیے جیتے ہیں ۔ جو اس وقت انصاف کی حمایت کرے جب کہ لوگ قوم کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔ جو اس وقت برداشت کرے جب کہ لوگ انتقام لیتے ہیں۔ جو اس وقت اپنے کومحرومی پرراضی کرلے جب کہ لوگ پانے کے لیے دوڑتے ہیں۔ جو اس وقت حق کے لیے قربان ہوجائے جب کہ لوگ صرف اپنی ذات کے لیے قربان ہونا جانتے ہیں۔یہی صبر ہے اور جو لوگ اس صبر کاثبوت دیں وہی قوموں کے امام بنتے ہیں۔
قرآن میں ایک اہم اخلاقی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اجتماعی زندگی میں جب ایک آدمی کو دوسرے کے اوپر غصہ آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ غصہ کو پی جائے اور اس کو معاف کردے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے:وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (42:37)۔ اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ کچھ لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے اس کو بار بار ناخوش گوار قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن ناخوش گوار تجربات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر بطور ردّ عمل طرح طرح کے غیر حقیقی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غصہ، وغیرہ۔
غصہ ایک غیر فطری حالت ہے، اور غصہ پرکنٹرول کرنا، زندگی کی شاہ کلید (master key) ہے۔ جس انسان نے غصہ کو کنٹرول کرنے کا آرٹ سیکھ لیا، اس نےکامیاب زندگی کا راز پالیا۔جب آدمی کوغصہ آتا ہے تو اس کادماغ اپنی فطری حالت پر باقی نہیں رہتا۔ وہ معتدل انداز میں سوچنے پر قادرنہیں رہتا۔ غصہ میں مبتلا انسان نہ درست طور پر سوچ پاتا اور نہ درست طور پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کر سکتا ۔ غصہ کسی آدمی کااعتدال چھین لیتا ہے۔ وہ اس کو غیر معتدل انسان بنا دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غصہ کو پی جانا خود اپنے آپ کی حفاظت کرنا ہے۔ غصہ کو پی جانا اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی حقیقت پسندانہ انداز میں سوچے۔ وہ زیادہ نتیجہ خیز انداز میں اپنی کارروائی کی منصوبہ بندی کرے ۔ غصہ کو پی جانا خارجی اعتبار سے ایک اخلاقی سلوک ہے۔ مگر داخلی اعتبار سے وہ اپنی تعمیر کے ہم معنی ہے۔ جب کوئی آدمی غصہ کے حالات میں غصہ نہ کرے تو وہ اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ وہ اپنی قوت کو منفی رخ پر جانے سے روکتا ہے اور اس طرح اپنے آپ کو اس قابل بنا تا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو بھر پور طور پر صرف اپنی تعمیر میں لگائے ۔ دوسرے کی تخریب میں غیر ضروری طور پر وہ اپنے وسائل کا کوئی حصہ ضائع نہ کرے۔
قرآن میں اہل ایمان کو جو تعلیمات دی گئی ہیں ان میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو مشورہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں اہل حق کی جن صفات کو اختیار کرنے پر ابھارا گیا ہے، ان میں سے ایک صفت مشورہ ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے:وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ(42:38)۔ یعنی، اور وہ اپنا کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں۔مشورہ کامطلب یہ ہے کہ کسی معاملہ میں حل تلاش کرنے کے کام کو اجتماعی کام بنا دیا جائے۔ اپنے تجربہ کے ساتھ دوسروں کے تجربات کو اس میں شامل کرلیا جائے ۔مشورہ کامطلب گویا انفراد ی عقل کو اجتماعی عقل بنا دینا ہے۔مشورہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔
زندگی کے بارے میں خالق کی اسکیم (scheme of things) یہ ہے کہ ہر فرد کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی شخصیت کا ارتقا کر کے اپنے آپ کو جنتی انسان بنائے۔اسی نشانے کی بنا پر اسلام میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ سماجی معاملات کو شوریٰ کے اصول پر مبنی قرار دیا گیا، یعنی سماجی حقائق (social realities) کی بنیاد پر ۔
مشورہ میں یہ ہوتا ہے کہ کئی آدمی کسی موضوع پر ڈسکشن کرتے ہیں۔ اس طرح کے ڈسکشن کے فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ معاملہ کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ مشورہ اگر کھلے ذہن کے ساتھ کیاجائے اور تنقید اور تعریف کے جذبہ سے بلند ہو کر اس کو سنا جائے تو مشورہ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ مشورہ میں جوفائدے ہیں ان کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ لوگ تحفظ ذہنی کے ساتھ نہ بولیں بلکہ وہ جو کچھ کہیں کھلے ذہن کے ساتھ کہیں اور سننے والے بھی اس کو کھلے ذہن کے ساتھ سنیں۔
یہ سب مشورہ کے آداب ہیں۔ جس مشورہ میں ان آداب کو ملحوظ رکھاجائے وہ مشورہ بے حد بابرکت بن جاتا ہے۔ مشورہ کو اگر حسن نیت کے ساتھ کیا جائے تو وہ ایک عبادت ہے۔مشورہ کوئی سادہ بات نہیں۔ مشورہ دین اور دنیا دونوں میں فائدہ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے ساتھ کھلے دل سےمشورہ کرتے تھے اور لوگ کسی پابندی کے بغیر اپنی رائے دیتے تھے(سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 192)۔
مئی 2004 میں عرب امارات کے لیے میرا ایک سفر ہوا تھا۔وہاں میں نے دبئی کا انگریزی اخبار، خلیج ٹائمس کا شمارہ6 مئی2004 دیکھا۔ اس میں ایک خبر تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ شارجہ کی حکومت ایسے اقدامات کررہی ہے جو ماحولیات کو بگڑنے سے بچانے والے ہوں۔ اس خبر کا عنوان یہ تھا— شارجہ ایکو فرینڈلی پروجکٹ چلانے والا ہے:
Sharjah to launch eco-friendly project.
آج کل ایکو فرینڈلی منصوبوں کا بہت چرچا ہے۔ خود مسلم ملکوں میں بھی اس کی کافی دھوم ہے۔ میں نے سوچا کہ منصوبۂ تخلیق کی نسبت دیکھا جائے توایک اور نہایت ضروری کام یہ ہے کہ مدعو فرینڈلی منصوبے جاری کیے جائیں۔ مگر ساری دنیا میں مسلمان اس قسم کی بات سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ مسلمانوں نے برعکس طور پرایسے ہنگامے جاری کر رکھے ہیں جو مدعو کو دشمن بنائے ہوئے ہیں۔ مگر مدعو کو دوست بنانے کی شعوری کوشش پوری مسلم دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔حقیقت یہ ہے کہ مدعو فرینڈلی منصوبہ نہ چلانے کی صورت میں یہ شدید تر اندیشہ موجود ہے کہ ان کی آخرت خطرے میں پڑ جائے۔
اسلامک ورک حقیقۃً وہ ہے جو دعوہ ورک ہو۔ یعنی انسانوں کو خداکے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنا۔ دعوہ ورک کوئی سادہ چیز نہیں۔دعوت دراصل انسان سےمحبت اور خیر خواہی کا اظہار ہے۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ دوسری قوموں سے نفرت کرتے ہیں، وہ ان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ اس قابل ہی نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے درمیان دعوت کا کام کرسکیں۔
دعوہ ورک کے لیے کچھ لازمی شرطیں ہیں۔ اس میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو کا مکمل طور پر خیر خواہ ہو۔ وہ یک طرفہ طور پر مدعو کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرے۔ داعی اور مدعو کا رشتہ اسی قسم کا ایک رشتہ ہے جیسا کہ تاجر اور کسٹمرکا ہوتاہے۔ ہر تاجر جانتا ہے کہ اس کو اپنے کسٹمر کے ساتھ آخری حدتک خیر خواہی کا معاملہ کرناہے۔ داعی کا فارمولا تاجر کی طرح یہ ہونا چاہیے:
We are always Mad‘u friendly.
ایک صاحب نے کہا کہ آپ نے بعض قومی اور ملی مسائل کے بارے میں ایسے بیانات دیے ہیں جن کی وجہ سے آپ ملت سے الگ تھلگ ہوگئے ہیں۔ یہ چیز آپ کے مشن کے لیے مفید نہیں۔ آپ کو ملت کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔ اپنی قوم کو نظر انداز کرکے کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔میں نے کہا کہ آپ پر غالباً یہ بات واضح نہیں کہ میرا نشانہ کیا ہے۔ آپ دوسروں کے نشانے کو جانتے ہیں اور ان کو میرے اوپر چسپاں کرنا چاہتے ہیں۔ میرے نشانے اور دوسرے لوگوں کے نشانے میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسروں کا نشانہ عملی نتیجہ ہوتا ہے اور ہمارا نشانہ ابلاغ ہے۔دوسروں کی کامیابی اس میں ہے کہ قوم اُن کا ساتھ دے، تاکہ وہ اپنے مطلوب نتیجے کو حاصل کرسکیں۔ اِس نشانے کی بنا پر وہ اِس کو ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جو قوم کے مزاج کے خلاف ہو اور قوم ان سے کٹ جائے۔
اس کے برعکس، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم خالصتاً دعوت الی اللہ کے لیے اٹھے ہیں۔ اِس مقصد کی بنا پر ہمارا نشانہ صرف ابلاغ (یس،36:17)ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو لوگوں تک ایز اٹ از پہنچا دینا۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ناصح اور امین کی حیثیت سے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ اِس کے بعد یہ دوسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عملاً اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم ملت میں دو قسم کے لوگ ہیں— ایک وہ جو مسلم مفاد کے نام پر ہنگامے کی سیاست چلاتے ہیں۔ اِس گروہ میں کچھ لوگ سوچ کی سطح پر ایسے ہیں اور کچھ لوگ عملی سطح پر۔ اُن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملت آج دشمنوں سے اور سازش کرنے والوں سے گھری ہوئی ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ اُن لوگوں سے مقابلہ کیا جائے۔ میں بلاشبہ اِس طبقے سے کٹا ہوا ہوں۔ لیکن اِسی کے ساتھ ملت میں دوسرا طبقہ بھی ہے جو سنجیدہ ہے، جو دوسروں کے خلاف منفی ہنگامے کے بجائے خود اپنی اصلاح کو اہمیت دیتا ہے، جو جہاد کے نام پر تشدد کے بجائے پُر امن دعوت الی اللہ میں یقین رکھتا ہے۔ ملت کا یہ دوسرا طبقہ ساری دنیا میں میرے ساتھ ہے، اور اِس طبقے کے تعاون سے آج ہمارا مشن ہر جگہ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ پھر میں نے ایک عرب شاعر کا یہ شعر پڑھا:
فـإنْ أ ك فـي شرارِكُم قليلاً فـإنّـي فـي خـيـاركُـم كـثـيرُ
رمضان کے مہینہ میں جو اعمال کیے جاتے ہیں ان میں ایک اہم عمل اعتکاف ہے۔ اعتکاف کے سلسلے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ: هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1781)۔ یعنی ابن عباس نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے انسان کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے اعتکاف کرتا ہے ۔
اصطلاحی طور پر اعتکاف وہی ہے جو رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں کیا جاتا ہے۔ یہ جسمانی اعتکاف ہے، اوریہ اعتکاف چند دنوں کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن اعتکاف کی ایک اور قسم ہے۔ اس کو فکری اعتکاف (intellectual seclusion) کہا جاسکتا ہے۔ فکری اعتکاف پوری زندگی کا عمل ہے۔ یہ اعتکاف ہر وقت اور ہر جگہ جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف میں آدمی اپنا زیادہ وقت تفکر اور تدبر میں گزارتا ہے۔ وہ دین کی باتوں میں غور کرتا ہے، اور اپنے آس پاس کی دنیا سے دینی سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ روحانی اعتکاف میں مشغول رہتا ہے۔
روزہ ايسا عمل هے جس کا فائده هر روزه دار كو ملتا ہے۔ اعتکاف ، روزہ داروں کو تربيتِ مزید كا موقع دینا ہے۔ اعتکاف سے يه مطلوب ہے کہ انسان دنیا کے ڈسٹریکشن سے دور ہو کر اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ذکر و شکر میں مشغول کرے۔اس درميان روزہ دار اپنےآپ کوپوري طرح صرف خدا کی عبادت كرنے اور معرفت حاصل كرنے كے ليے مخصوص كرديتا هے، وہ قرآن میں تدبر کرتا هے اور ان روحاني فوائد کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا هے جن کے لیے روزہ فرض کیا گیا ہے۔
اعتکاف دنیا سے دور بھاگنا نہیں ہے بلکہ وہ ایک تربیتی عمل ہے جس کے ذریعہ آدمی دنیا میں رہ کر دنیا کے ڈسٹریکشن سے بچ سکے۔ یہ دنیا سے الگ ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ دس دنوں كا ايك ايسا تربيتي مرحله ہے جس کے بعد آدمی اعلي معرفت كے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے،وه زیادہ سے زیادہ اپنا انٹلکچول ڈولپمنٹ کرے تاکہ تزكيهٔ نفس کا جذبہ اس کےاندر پہلے سے زیادہ پیدا ہو جائے۔
آتش فشاں کا سبق
آتش فشاں زمین یا کسی دوسرے سیارے یا سیارچہ کی پرت سے نکلنے والاگرم مادہ ہے۔ اس سے پگھلی ہوئی چٹان، چٹان کے گرم ٹکڑے، اور گرم گیسیں نکلتی ہیں۔امریکا کے خلائی ادارہ ناسا کی ویب سائٹ پر آتش فشاں (volcano)کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
A volcano is an opening on the surface of a planet or moon that allows material warmer than its surroundings to escape from its interior. When this material escapes, it causes an eruption. An eruption can be explosive, sending material high into the sky. (accessed on 15.11.21)
آتش فشاں کسی سیارے یا چاند کی سطح پر ایک ایسا دہانہ ہے جو آس پاس سے زیادہ گرم مواد کو اپنے اندر سےخارج ہونے دیتا ہے۔ جب یہ مواد خارج ہوتا ہے تو پھٹنے کا سبب بنتا ہے۔ پھٹنا دھماکہ خیز ہو سکتا ہے، یہ مواد کو آسمان کی جانب اونچا پھینکتا ہے۔انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ، آتش فشاں کاپھٹنا زمین کی طاقت کا ایک ہیبت ناک ظاہرہ ہے:
A volcanic eruption is an awesome display of Earth’s power.
آتش فشاں قدرتی آفات (natural disasters)میں سے ہے۔اس کے علاوہ چند دوسرے قدرتی آفات یہ ہیں— جنگل کی آگ، ڈَسٹ اسٹارم، سیلاب، ٹارنیڈو، سمندری طوفان، آتش فشاں، زلزلے یا لینڈ سلائڈ، سونامی، وغیرہ:
forest fire, duststorms, floods, hurricanes, tornadoes, volcanic eruptions, earthquakes, tsunamis, etc.
یہ قدرتی آفات ماحول پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ قدرتی وسائل، مالی اور جانی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔اس کے سامنے انسان اور اس کی ساری ترقیاں بے بس ہوجاتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ان قدرتی تجربات سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان اس دنیا کا ماسٹرنہیں ہے ۔اس دنیا میں انسان کو متواضع (modest) بن کر رہنا چاہیے تاکہ وہ ان تجربات سےسبق حاصل کرنے والا بنے۔
(ڈاکٹر فریدہ خانم)
ٹوئٹر مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ہے۔ نومبر 2021 میں انڈین امریکن مسٹر پراگ اگروال (پیدائش 1984) کو ٹوئٹر کا نیا سی ای او منتخب کیا گیا ہے۔اس بات کا اعلان وداع ہونے والےسی ای او مسٹر جیک ڈورسی (پیدائش 1975) نے اپنے ٹوئٹر بلاگ کے ذریعہ کیا۔ اس کے بقول مسٹر پراگ کمپنی اور اس کی ضرورتوں کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ کمپنی کو آگے بڑھانے کے ہر اہم فیصلے کے پیچھے پراگ کا رول ہوتا تھا ۔ وہ متجسس، تحقیق کا شوق رکھنے والے، ریشنل، کریٹیو، محنتی، خودآگاہ، اور متواضع انسان ہیں۔ وہ پورے دل و جان سے قیادت کا فرض نبھاتے ہیں، اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے میں ہر دن کچھ سیکھتا ہوں:
He (Parag) understands the company and its needs. Parag has been behind every critical decision that helped turn this company around. He's curious, probing, rational, creative, demanding, self-aware, and humble. He leads with heart and soul; and is someone I learn from daily.
کسی بھی میدان میں ترقی کا راز کیا ہے۔ وہ وہی ہے جس کا ذکر مسٹر جیک نے مسٹر پراگ کے ریفرینس میں کیا ہے۔ کامیابی کا یہ اصول نہ صرف سیکولر فیلڈ کے لیے ہے، بلکہ مذہبی فیلڈ کے لیے بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی دراصل انسان کے پوٹنشل کو ایکچول بنانے کا نام ہے۔ اور اپنے پوٹنشل کو ایکچول وہی انسان بناسکتا ہے، جو اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرے۔ یہی کسی مقصد میں کامیاب ہونے کا راز ہے۔ اس قسم کی گہری وابستگی کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا ہے، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔
ایک حدیث رسول میں کامیابی کے راز کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ، وَإِنَّمَا الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ، مَنْ يَتَحَرَّى الْخَيْرَ يُعْطَهُ، وَمَنْ يَتَّقِ الشَّرَّ يُوقَهُ ( المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 2663)۔ یعنی ، علم آتا ہے لرننگ سے، بردباری آتی ہےبرداشت پیدا کرنے سے۔ جو خیر تلاش کرتا ہے اس کو خیر ملتا ہے، اورجو شر سے بچنا چاہتا ہے اس کو بچالیا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے:وَالْفِقْهُ بِالتَّفَقُّهِ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر929)۔ یعنی، فہم و فراست کی کوشش کرنے سےگہری سمجھ پیدا ہوتی ہے ۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)
ث ہندوستان ہو یا عربستان سب کے لیے پر امن ترقی اور پر امن دعوت کے علاوہ کوئی دوسراآپشن نہیں ہے ۔مولانا کی زندگی ہی سے مولانا کے مشورے اور پلاننگ پر عمل ہونے لگا ہے۔ خواہ نیشن بلڈنگ کی بات ہو یانائیبر فرینڈلی بیہیویر کی بات ۔ مثال کے طور پر عربوں کے لیے اسرائیل ایک دوست ملک بن رہا ہے، اور ہندوستانی مسلمان آر ایس ایس،وغیرہ کے ساتھ رہنا بھی سیکھ گئے ہیں۔ نفرت کی جگہ سماجی رواداری کی بات آگے بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے الرسالہ مشن کی رہنمائی کو ہمارے لیے قابل فہم بنادیا۔ حالانکہ لوگ حالات کےکمپلشن کے تحت اس حقیقت کو مانتے ہیں، مگر اللہ نے ہم کو قرآن وحدیث کی بنیاد پر مشن کو اپنانے کی توفیق عطا کی ہے ۔ (سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
ث مولانا وحید الدین خان میرے لیے روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ہر وہ بات جو والدین اپنی اولاد کو سکھاتے ہیں، میں نے مولانا کی تحریروں اور بیانات سے سیکھنے کی کوشش کی ہے۔خدا سے بندے کا تعلق اور بندے سے بندے کا تعلق میں نے مولانا کی اس کاوشوں میں محسوس کیا ۔پہلی کتاب "راز حیات" الہدی اسلامک انسٹیٹیوٹ میں پڑھی تھی۔لیکن تب میں مولانا کو نہیں جانتی تھی۔ایک دن یوٹیوب پر مولانا کو امن کے بارے گفتگو کرتے سنا۔میں سمجھتی ہوں کہ وہ لمحہ میری اب تک کی زندگی کا بہترین لمحہ تھا۔بس پھر کیا تھا۔مولانا کو بلاناغہ ہر دن سننا اور ان کے پر حکمت تقریروں کا نوٹس تیار کرنا میرے روٹین میں شامل ہو گیا، اور رفتہ رفتہ ان کے لکچرس میری زندگی پر اثر انداز ہوتےگئے۔ مولانا کی ہر کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ مولانا وحید الدین خاں صاحب نے توحید کو جس طرح واضح انداز میں بیان کیا ہے، اس کو سن کر مجھے تھرل ہوتا ہے۔ ایک دن مولانا کے بارےمیں میں اپنی بہن سے بات کر رہی تھی تو اس نے بڑی پیاری بات کہی کہ آپو "ایک صدی سے خدا کی کھوج میں ہیں مولانا ،اور میں نےبھی اپنی زندگی میں پہلے انسان کو پہلی بار اس شدت کے ساتھ ،خدا سےصرف خدا کو مانگتے دیکھا، خدا ہم سب کو اس کھوج میں ان کا سچا ساتھی بنا دیں"۔ہم سب اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ مولانا کی تحریر یں انسان کو اپنی ہر کمی ہر محرومی کو طاقت میں بدلنے کا ہنر سکھاتی ہیں ۔اس سلسلے میں مولانا صاحب کے مشن کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ(1) اپنے گھر خاندان میں سب کو مولانا کے بارے میں بتائیں ۔( 2)تمام فیملی ممبر کو تذکیرالقران اوردوسری کتابیں گفٹ کریں۔ ( 3)گھر میںلائبریری بنائیں ،اور مولانا کا تمام لٹریچر اس میں رکھیں۔ (4) اپنے علاقے میں لائبریری بنائیں،علاقے کے اسکول اورکالجز کی لائبریریوں میں مولانا کی کتابیںرکھوائیں۔ (5)اپنی صلاحیت کو اس مشن کے لیے بہترین انداز میں استعمال کریں۔ (شمائلہ عاشق ،شیخوپورہ، پنجاب، پاکستان)
ث مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتابوں اور آرٹیکلز سے خدا ایک جامد عقیدے کے بجائے ایک زندہ ہستی کے طور پر سامنے آیا، اللہ کی معرفت، عظمت، ربوبیت اور قدرت کو سمجھنے اور خدا کی یاد میں جینے کا مطلب صحیح طرح سمجھ میں آیا،اور زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو لے کر سوچنے اور ان سے عبرت و نصیحت لینے کا ذہن بنا۔اپنا محاسبہ کرنا، اپنی غلطی کو ڈھونڈنا، اور لوگوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھنا اور دعوت کا مزاج پیدا ہوا۔خاص طور پر مولانا نے جس طرح خدا کے تخلیقی منصوبے، ناخوشگوار واقعات اور اختلافات کو مینیج کرنے، اور آخرت اور جنت کے تصور کو واضح کیا ہے، اس سے بہت ہی انوکھا تجربہ ہوا، دنیا کو دیکھنے اور زندگی کو سمجھنے کا زاویہ ہی بدل گیا۔سر میں CPS کے مشن میں شامل ہونا چاہتا ہوں، پلیز گائیڈ می(شاہد علی، عمرکوٹ ،سندھ)
ث میں نے اپنی ابتدائی تعلیم مردان سے حاصل کی۔ پھرجامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی سے حفظ کیا۔ کچھ عرصہ بھیرہ شریف میں تعلیم حاصل کی، اس کے بعد تنظیم المدارس سے درس نظامی مکمل کیا۔ سال 2016 میں اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے LLB کیا۔ ابھی میں ہائی کورٹ لیول کا وکیل ہوں۔جاوید احمد غامدی صاحب، ابو یحییٰ اور حال ہی میں وحید الدین خان صاحب کے کام سے واقفیت ہوئی،جس نے میرازاویۂ نظر یکسر بدل دیا۔ اور روایتی مذہبی اور گروہی تعصبات سے اللہ کے فضل و کرم اور ان حضرات کی کاوشوں کی بدولت جاں خلاصی نصیب ہوئی۔خان صاحب کا لٹریچر روح کی غذا اور پاکیزگی کا بہترین انتظام کرتی ہے۔ تذکیر القرآن ایسا خوبصورت ترجمہ اور تفسیر ہے جو قرآن کی ہر آیت کو قاری سے متعلق کردیتی ہے۔ حال ہی میں اخوان رسول کے نام سے خان صاحب کی ویڈیو دیکھی۔ دل میں شوق پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس گروہ میں اور ان خُدّام دین متین کی صف میں خود کو شامل کر لیا جائے، چاہے ادنیٰ درجے میں کیوں نہ ہو۔ دعا ہے اللہ پاک ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق اور اس کے بعد اپنی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔اور جو مشن یہ ضعیف العمر شخص اس پیرانہ سالی میں چلا رہا ہے ہم اس کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔ (شاہ خالد، مردان، پاکستان)
ث حضرت مرحوم کے سلسلے میں جو الرسالہ خصوصی شمارہ (اگست ستمبر 2021)شائع ہوا ہے، اس وقت میںاس کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔میں حنفی المسلک،دیوبندی ہوں۔دارالعلوم دیوبند نے مولانا مرحوم کے سلسلے میں ان عقائد،افکار سے متعلق جو فتویٰ دیا تھا میں نے اس کو بھی پڑھا ہے،لیکن میں ان سے ہٹ کر بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں مولانا کو شروع شروع میں بالکل نہیں جانتا تھا۔ مگر میرے چچازاد بھائی مولانا مظہر جمیل رشیدی صاحب (مقیم حال علی گڑھ) مولانا کو بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ پڑھتے تھے،اور ان کے ذریعہ ہی میں نےبھی مولانا کی کچھ کتابیں پڑھیں ۔مثلاً مطالعہ قرآن، ہندوستانی مسلمان، روشن مستقبل، یکساں سول کوڈ، وغیرہ۔ اس کے بعد میں نے خود مولانا کی کئی کتابیں خریدیں، اور باضابطہ طور پر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ میں نے ابھی حال ہی میں مولانا کی ایک کتاب، خاتون اسلام ختم کی ہے۔ جب میں خاتون اسلام پڑھ رہا تھا تو میرا حال یہ تھا کہ دورانِ مطالعہ میں اتنا غرق ہوجاتا تھا کہ کھانا،پینا بھی مجھے یاد نہیں رہتا تھا۔اس وقت الرسالہ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔اس کو پڑھتے ہوئے مجھےیہ احساس ہورہا ہے کہ ہم نے کس قدر عظیم ہستی کو کھودیا ہے۔ وہ ہستی جس کی امت کو سخت ضرورت تھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ بے کار ہی مولاناکے اوپر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ جب میں خاتون اسلام نام کی کتاب پڑھ رہا تھا، اس و قت دل سے مولانا کے لیے دعائیں نکل رہی تھیں۔ مولانا کا یہ احسان ہے کہ انھوں نے آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کو عصری اسلوب میں آسان بناکر پیش کردیا ہے۔علما کے اوپر نئی نسل کا یہ قرض تھا، جس کو مولانا نےادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا نے قرآن وحدیث کو لوجیکلی ، اور سائنسی طورپر قابل فہم بنایا ہے، اور جن لوگوں نےاسلام پر جدید سائنسی ڈسکوری کی روشنی میں اعتراض کیا تھا، مولانا نے ان کا عقلی اور نقلی طورپر جواب دیا۔ دورِ حاضر میں اسلام کا جودفاع کیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ (مولانانبیل احمد رشیدی، ممبر جمعیت علماء ضلع بجنور)
ث الرسالہ (خصوصی شمارہ داعی اسلام مولانا وحید الدین خاں)جب بھی پڑھا اس میں گم ہوگیا۔ خصوصی شمارہ میرے ہاتھ سے الگ نہیں ہو پا رہاہے۔جہاں بھی میں جاتا ہوں، اس کو ساتھ رکھتا ہوں۔ ایک کاپی تو آفس میں بھی رکھ لی ہے۔رسالہ پر جب بھی مولانا کی تصویر دیکھتا ہوں ایک خوشی ہو تی ہے اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔خصوصی شمارہ بھی آج تک چھپنے والے تمام الرسالوں کی طرح حکمت سے بھرپور ہے۔ مولانا کی شخصیت کے بہت سے نئے پہلو نظر آئے۔ یہ الرسالہ بھی فل آف وزڈم ہے۔اس میں لکھے گئے تمام مضامین دل کی گہرائیوں سے گزر کر آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں آتے ہیں۔مولانا ایک عظیم ہستی ہیں۔میں بہت شکر گزار ہوں کہ فریدہ آپا، فرہاد صاحب اور انڈیا ٹیم نے اس کو مرتب کیا۔(طارق بدر، لاہور ،پاکستان)
ث مولاناوحیدالدین خاں کی کتابوں کا قیمتی تحفہ: دو روز قبل (18 اکتوبر 2021)مولانا وحید الدین خاں کی 155 تصانیف ادارہ کو موصول ہوئی ہیں۔بلاشبہ مولانا وحید الدین خاں کا اسلوب ، استدلال کی قوت اور تجزیہ کی صلاحیت قابل تقلید ہے ۔اسی خصوصیت کی وجہ سے مولانا وحید الدین خاں کو دور جدید کے مصنفین میں منفرد اور نمایاں مقام حاصل ہے ۔مولانا مرحوم کی کتابیں دیر تک اور دور تک اسلام پر ایمان، اعتقاد اور اعتماد کا درس دیتی رہیں گی۔ خدا ان کی تصانیف کو صدقہ جاریہ بنائے، آمین ۔ادارہ اس موقع پر جناب ثانی اثنین صاحب، ٹرسٹی سی پی ایس انٹرنیشنل ، نئی دہلی کا بے حد ممنون ومشکور ہے کہ انھوں نے ادارہ کی طلب پر مولانا وحید الدین خاں کی گراں قدر تصانیف لائبریری کے لیے ارسال کیں ( ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی ، علی گڑھ)۔