Content List
عظیم معافی
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ(39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو ! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ اس آیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کی سب سے زیادہ پرامید آیت ہے(الاتقان للسیوطی،جلد6، صفحہ2161)۔ علی بن ابی طالب کا قول ہے:مَا فِي الْقُرْآن أوسع آيَة من هذه (تفسیرالدرالمنثور، جلد7، صفحہ238)۔ یعنی قرآن میں اس سے زیادہ وسعت والی آیت نہیں۔ عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے:أَكْبَرُ آيَةٍ فِي الْقُرْآنِ فَرَجًا (مصنف عبد الرزاق، اثر نمبر6002)۔ یعنی قرآن میں سب سے کشادگی والی آیت۔
قرآن کی یہ آیت مجھ کو بے حد عجیب معلوم ہوتی ہے۔ انسان کے تمام گناہوں کو بخش دینا بلاشبہ اللہ کی اتنی بڑی عنایت ہے کہ اس سے بڑی کوئی عنایت نہیں ہوسکتی۔ میں اس آیت پر سوچ رہا تھا ۔ میرے دل نے کہا کہ شاید ایسا ہو اکہ اللہ کی رحمت نے چاہا کہ وہ اس انسان کو اپنی سب سے بڑی عنایت دے، جس کو اس نے، قرآن کے مطابق، اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے (38:75)۔مگر اللہ نےدیکھا کہ انسان کا کوئی عمل ایسا نہیں، جس کو وہ اس عظیم عنایت کا ریزن بنائے۔ تو اللہ نے یہ کیا کہ اس کو یک طرفہ طور پر اپنی رحمت کے خانے میں ڈال دیا، اور کہا کہ میں اپنی رحمت سے انسان کے لیے اس بڑی عنایت کا اعلان کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ ’’بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے‘‘ ۔
انسان اپنے کسی عمل کی بنیاد پر اتنی بڑی عنایت کا مستحق نہیں ہوسکتا تھا کہ اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں۔ تو گويا اللہ نے کہا کہ میں انسان کے لیے اپنی خصوصی رحمت اور خصوصی فضل کا اعلان کرتا ہوں، یعنی میں انسان کے تمام گناہوں کو بخش دوں گا۔اس اعلانِ عام کے ذریعہ اللہ تعالی یہ کہہ رہا ہے کہ اے انسان! تونے خواہ کوئی بھی غلطی کی ہو، تو میرے پاس مغفرت کا طالب بن کر آجا، میں اپنی رحمتِ خاص سے تیرے سب گناہوں کو بخش دوں گا۔ اور میں بخشش کوتجھے بطور تحفہ دے دوں گا۔
اسم اعظم کی دعا
حدیث کی کتابوں میں اسم اعظم کے ذریعے کی جانے والی دعا کا بہت بڑا درجہ بتایا گیا ہے۔ اس کے متعلق رسولِ خدا نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ضرور مقبول ہوتی ہے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3544)۔ احادیث میں مذکور اسم اعظم سے مراد معروف معنوں میں ’’اسم‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہی چیز ہے، جس کو پوائنٹ آف ریفرنس کہا جاتا ہے۔ مثلا ًایک بندہ دعا کرتا ہے ، اور یہ کہتا ہے کہ خدایا! تونے مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے (ص، 38:75)۔ اب کیا تیری رحمت کا تقاضا ہوگا کہ تو مجھے آگ میں ڈال دے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ خدایا! میرے گناہوں کو معاف فرما۔ خدایا! میں تیری رحمت کے حوالے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ فیصلے کے دن تو مجھ کو جنت میں داخل فرما۔
اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے حوالے کے ساتھ دعا کرنا، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والا ہو۔ ایسی دعا ،جس میں بندہ اپنی غلطی کا آخری حد تک اعتراف کرے، اسی کے ساتھ اللہ کی رحمت کا آخری حد تک طلب گار بن جائے۔ ایسی دعا جو اپنے کسی عمل کے واسطہ کو ذریعہ بنا کر اللہ سے دعا نہ کی گئی ہو، بلکہ اللہ کی رحمت بے پایاں کو واسطہ بنا کر اپنے جائز مدعا کو پیش کیا گیا ہو۔
اسم اعظم کی دعا وہ ہے، جو اللہ رب العالمین کی صفت کو حوالہ بناکر دعا کی گئی ہو۔ ایسی دعا کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پورے معنوں میں عاجز بن جائے۔ جو اللہ کی کمال قدرت کے مقابلے میں اپنے کامل عجز کا نمونہ ہو۔ اس قسم کی دعا بلاشبہ اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس اسمِ اعظم کے حوالے سے دعا کرنے کی توفیق پائیں۔اسم اعظم کے ساتھ دعاکرنے کے مطلب ہے اللہ رب العالمین کی صفت اعظم کے ساتھ طالب دعا ہونا۔ جب آدمی اللہ رب العالمین کی کسی صفت کو شعوری طور پر دریافت کرے، اور اس کے حوالے سے اللہ سے اس کی رحمت کا طالب بنے تو ایسی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
بعد حین
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الإِمَامُ العَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ، وَدَعْوَةُ المَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2526) ۔ یعنی تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔ عادل امام، روزہ دار جب کہ وہ افطار کرے، اور مظلوم کی دعا۔ وہ اس کو بادلوں کے اوپر اٹھاتا ہے، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عزت کی قسم ! میں ضرور تمہاری مدد کروں گا اگرچہ کچھ عرصے کے بعد کروں۔
اس حدیث رسول سے دعا کی قبولیت کا اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ دعا خواہ بالکل درست ہو، مگر اس کی قبولیت میں ہمیشہ وقت لگتاہے۔کسی فرد کی دعا جب قبول کی جاتی ہے، تو وہ صرف ایک دعا کا معاملہ نہیں ہوتا ہے۔ اللہ رب العالمین پورے عالم کو مینج (manage)کررہا ہے۔ کوئی ایک دعا جب بھی قبول کی جاتی ہے تو وہ اس وقت اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے جب کہ تمام متعلق تقاضے پورے ہوچکے ہوں۔
مثلاًاللہ رب العالمین کا یہ فیصلہ تھا کہ مکہ میں رسول اللہ بعثت کے بارے میں پیغمبر ابراہیم کی دعا قبول کی جائے (البقرۃ، 2:129)۔ لیکن اس دعا کی قبولیت میں وقت لگا۔ پیغمبر اسلام کا ظہور عملاً دعا کے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد پیش آیا۔کیوں کہ یہ ضروری تھا کہ اس سے پہلے تمام متعلق تقاضے پورے ہوچکے ہوں۔ تاریخ کے بڑے بڑے واقعات ہمیشہ اسی طرح لمبی مدت کے بعد ظہور میں آتے ہیں۔ بڑی بڑی دعاؤں کے لیے پوری انسانی تاریخ کو مینج کرنا پڑتا ہے۔
ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی خوب دعائیں کرے، لیکن دعا کی قبولیت کے معاملے کو وہ اللہ کے حوالے کر دے۔ اگر بظاہر کسی آدمی کی دعا کی قبولیت میں دیری ہورہی ہے تو اس کو یقین کرنا چاہیے کہ اللہ اس کے لیے کچھ بہتر کرنا چاہتا ہے۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کسی بندے کے لیے خیر کیا ہے (البقرۃ، 2:216)۔ انسان صرف اپنی خواہشوں کو جانتا ہے، نہ یہ کہ اس کے ليے خیر کس چیز میں ہے۔
عقل کی اہمیت
وہب بن منبہ (34-114ہجری)مشہور تابعی ہیں۔ان کا شمار اسلام کے ابتدائی مور خین اور قدیم آسمانی کتابوں کے عالموں میں ہوتا ہے۔ ان کاایک قول ان الفاظ میں آیا ہے:مَا عُبِدَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِشَيْءٍ أَفْضَلَ مِنَ الْعَقْلِ(العقل و فضلہ لابن ابی الدنیا، اثر نمبر21)۔ یعنی اللہ کی عبادت کا سب سے بہتر ذریعہ عقل ہے۔ یہاں عقل سے مراد شعور ہے۔ یعنی سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ انسان کو سچائی کی شعوری دریافت ہو، اور وہ شعور کی سطح پر اللہ کی عبادت کرے۔
ایک عبادت وہ ہے کہ آدمی ایک فارم کا اپنے آپ کو عادی بنالے، اور اس فارم کو دہرا کر اللہ کی عبادت کرے۔ یہ فارم کی سطح پر اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ مبنی بر فارم عبادت بھی عبادت کا ایک درجہ ہے۔ لیکن زیادہ بڑی عبادت یہ ہے کہ آدمی قرآن اور سنت کی تعلیمات پر غور کرے۔ وہ شعور کی سطح پر اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ پھرشعوری دریافت کی سطح پر اللہ کے وجود پر یقین کرے، اور اس کا عبادت گزار بن جائے۔
جب آدمی فارم کی سطح پر عبادت کرتا ہے، تو وہ ایک ایسی عبادت ہوتی ہے، جو اس کے شعور کو نہیں چھوتی۔ اس کا شعور الگ ہوتاہے، اور اس کی عبادت الگ۔ مگر جو عبادت دریافت کی سطح پر ادا کی جائے، وہ انسان کے پورے وجود کا اظہار بن جاتی ہے۔ فارم کی عبادت میں عبادت الگ ہوتی ہے، اور انسان کی شخصیت الگ۔ لیکن جو عبادت شعوری دریافت کےتحت کی جائے، وہ عبادت فرشتوں کے درجے کی عبادت ہوتی ہے۔ ایسی عبادت میں انسان کا احساس انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ انسان بظاہر اعضا و جوارح (body organs)کا مجموعہ ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان کی شخصیت شعوری دریافت کے نتیجہ میں بنتی ہے۔ ایسی عبادت میں انسان کی ہستی اور اس کا شعور دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ عبادت ہے، جب کہ انسان خدا کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے لیے قرآن میں واسجد واقترب کے الفاظ آئے ہیں(96:19)۔ یعنی، سجدہ کر اور خدا سےقریب ہوجا۔
با اصول انسان
زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی فطرت کے قانون کو سمجھے، اور اس کی پیروی کرتا ہوا زندگی گزارے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کسی اصول کا پابند نہ ہو، جو اس کے جی میں آئے، اس کو وہ کرے۔ اس کو نہ جھوٹ اور سچ کی تمیز ہو، اور نہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کرے۔
یہ دونوں روش اپنے انجام کے اعتبار سے یکساں نہیں ہے۔ جو آدمی اصول کا پابند ہو، وہ اصول کے مطابق زندگی گزارے، وہ اللہ کے یہاں کامیاب انسان قرار پائے گا۔اس حقیقت کو قرآن میں اہل جنت کے حوالے سےان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (79:40)۔ یعنی اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ اس کے لیے اللہ کے یہاں جنت ہے ۔ اس کے برعکس، جو انسان صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کرے۔ وہ صرف اپنی خواہش کو جانے، اور اس کی پیروی میں زندگی گزارے، ایسا آدمی اللہ کی نظر میں ناکام انسان ہے۔ اللہ کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی( 79:37-39)۔
با اصول انسان ہونا کیا ہے۔ اللہ نےانسان کو پیداکرکے اس دنیامیں رکھا،اور اس کو کامل آزادی دی ۔ یہ کامل آزادی ایک انتہائی انوکھا اختیار ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کامل آزادی کے باوجود اپنی آزادی کو ڈسپلن کے اندر استعمال کرے۔یعنی کسی جبر کے بغیر خود اپنے اختیار سے وہی کرنا، جو خدا انسان سے کروانا چاہتا ہے۔ انسان کو اپنے اختیار سے وہی کرنا ہے، جو دوسری مخلوق جبلی فطرت (instinct)کی بنا پر کررہی ہے۔ اس کو خود اختیار کردہ اخلاقیات (self-imposed ethics) کہاجاسکتا ہے۔
قرآن(67:2) میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا تاکہ وہ دیکھے کہ کون لوگ احسن العمل (best in conduct)ہیں۔ احسن العمل کا مطلب ہے با اصول زندگی گزارنے والے افراد۔ مثلاًوہ آدمی جو غصہ دلائے جانے کے باوجود غصہ کو قابو میں رکھے، وغیرہ۔
بے ہمتی نہیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (3:139)۔ یعنی اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو، تم ہی کامیاب رہو گے اگر تم مومن ہو۔’ وھن ‘ کے معنی ضُعف کے ہیں۔خواہ یہ ضعف عمل کا ہو یا ارادے کا۔ یہ آیت جنگ و قتال کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ زندگی کی جدو جہد کے بارے میںہے۔ اس جدو جہد کے لیے مومنانہ اصول کیا ہیں۔ اس کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خالق کی اس دنیا میں ہمیشہ عسر کے ساتھ یسر موجود رہتا ہے۔ یعنی مسئلے کے ساتھ اس کا حل۔زندگی کی جدوجہد میں ہمیشہ ایسے لمحات پیش آتے ہیں، جو مومن کو وقتی طور پر بے ہمت کرنے والے ہوں، لیکن مومن کا اعتماد اللہ رب العالمین کی نصرت پر ہوتا ہے۔ وہ ہر حال میں یہ امید رکھتا ہے کہ اگر وہ سچائی کے راستے پر ہے تو اللہ ضرور ا س کی مدد کرے گا، اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچائے گا۔ بندے کی طرف سے جدو جہد کے مرحلے میں یہ شرط ہے کہ وہ ہمت نہ ہارے۔
’’ اگر تم مومن ہو‘‘ ا مطلب یہ ہے کہ مومن کو اپنی طرف سے یہ ثابت کرنا پڑتاہے کہ وہ اللہ پر بھروسہ کرنے والا ہے۔ وہ اللہ پر ہرحال میں یقین رکھے ہوئے ہے۔ اللہ کی مدد پر یہ یقین اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کردیتا ہے۔ وہ اللہ کی مدد کو یقینی بناتا ہے۔
ایک مومن بندہ کا طریقہ کیا ہونا چاہیے، اس سلسلے میں ایک رہنما حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999)۔ یعنی،مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ بیشک اس کے تمام معاملے میں خیر ہے۔ اور یہ کسی اور کے لیے نہیں ہے، سوائے مومن کے۔ اگر اس کو خوشی پہنچی تو اس نے شکر کیا، یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اوراگر اس کو مصیبت پہنچی تواس نے صبر کیا۔ یہ اس کے لیے بہتر ہے ۔
آرٹ آف ڈفرینس مینجمنٹ
طلاق کے بارے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر2178)۔ یعنی اللہ کے نزدیک حلال میں سب سے ناپسندیدہ عمل طلاق ہے۔ طلاق ایک ابغض (سب سے نا پسندیدہ) عمل کیوں ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح کا طریقہ اس لیے رکھا گیا تھا کہ انسان نکاح کے ذریعے اپنی تربیت کا کورس مکمل کرے۔ وہ کورس یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے بارے میں خالق کا نقشۂ تخلیق یہ ہے کہ آدمی اس راز کو جانے کہ اختلاف کو مینج کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ زندگی میں لازمی طور پر اختلافات پیش آتے ہیں۔ یہ اختلافات اس لیے نہیں ہیں کہ آدمی لڑنا بھڑنا شروع کردے۔ بلکہ اس لیے ہیں کہ آدمی پرامن انداز میں ان کو مینج (manage)کرے۔
یہ اختلافات کسی کی سازش کی وجہ سے نہیں ہیں، بلکہ وہ نظامِ فطرت کا لازمی نتیجہ ہیں۔ ان اختلافات کے بارے میں یہ مطلوب نہیں ہے کہ آدمی ان سے لڑنا شروع کردے یا ان کو برائی (evil) سمجھ کر شادی کے بارے میں منفی رائے قائم کر لے۔ بلکہ آدمی کی ساری پلاننگ اس بنیاد پر ہونا چاہیےکہ جو شادی ہوگئی ، اس کے ساتھ اس کو نباہ کرنا ہے۔ کوئی دوسرا آپشن اس کے لیے ممکن نہیں۔
شادی کا مقصد زندگی کی خوشی حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندگی کو سمجھ کر انسان مثبت انداز میں اس کی تعمیر کرے۔ ایسی تعمیر جو پوری انسانیت کے لیے مفید ہو۔ شادی دو انسانوں کے درمیان اجتماع کا نام نہیں ہے، بلکہ شادی ایک سماجی ذمے داری ہے۔ شادی سماج کے عمومی عمل کا ایک حصہ ہے۔ شادی مستقبل کی منصوبہ بندی ہے، نہ کہ وقتی طور پر خوشیوں کی ایک دنیا بنانا۔ خوشیوں کی دنیا بنانے کا نظریہ ایک ایسا نظریہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے:
Prima facie it stands rejected.
چنانچہ دنیا میں کوئی شادی اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔ ہر شادی اس معیار پر قابلِ رد قرار پاتی ہے۔
عظیم خوش خبری
یوسف بن یعقوب ایک اسرائیلی پیغمبر ہیں۔ ان کی زندگی کی کہانی کو قرآن کی سورہ یوسف میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور اس کو قرآن میں احسن القصص (12:3)کا ٹائٹل دیا گیا ہے، یعنی ایک بہترین سرگزشت (best story) ۔یہ ایک واقعہ ہے کہ حضرت یوسف کی کہانی انسان کے لیے بہترین سبق والی کہانی ہے۔اس کہانی کے سبق آموز پہلو کو راقم الحروف نے اپنی تفسیر تذکیر القرآن میں کسی قدر تفصیل سے بیان کیا ہے۔
سورہ یوسف کے آخر میں اس احسن القصص کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَنْ نَشَاءُ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ (12:110)۔ یعنی یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہوگئے اور وہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کو ہماری مدد آپہنچی۔ پس نجات ملی جس کو ہم نے چاہا اور مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ حد آجائے کہ بندے پر انتظار کی گھڑیاں شاق گزریں تو بلاتاخیر اللہ کی نصرت آجاتی ہے ۔اللہ رب العالمین کی طرف سے یہ عظیم خوش خبری صرف پیغمبروں کے لیے نہیں ہے، صرف پیغمبر کے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے، جو قرآن کی اس سورہ کا مطالعہ کریں، اور اس میں جو سبق (takeaway) ہے، اس کو دریافت کرکے اپنی زندگی میں اپنائیں۔ غالباً اس پیغمبرانہ قصے کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اور نصرت اس کے سچے طالب کے اوپر ضرور آتی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ سچے طالب کی طرف نہ آئے۔ البتہ یہ شرط ہے کہ طالب کو چاہیے کہ وہ پورے یقین اور صبر کے ساتھ خدا کی نصرت کا انتظار کرے، وہ کسی بھی حال میں مایوسی کا شکار نہ ہو، وہ ہر حال میں اللہ رب العالمین کی رحمت کا امید وار بنا رہے۔ اللہ نے آغازِ تخلیق میں یہ اعلان کردیا تھا:إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194) ۔ یعنی بیشک میری رحمت میرے غضب کے اوپر غالب ہے۔
اللہ کی نصرت کا یہ قانون کیوں ہے کہ بندے کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے، جب کہ بندے کے اوپر مایوسی کی آخری حد آجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت تو یقینی طور پر بندے کے لیےاللہ کا عطا کیا ہوا ایک حق ہے، وہ ضرور پورا ہوکر رہتا ہے، کبھی ایک شکل میں اور کبھی دوسری شکل میں۔ مثلاً پیغمبر سلیمان پر اللہ کی رحمت کسی شدید امتحان کے بغیر آئی۔ اس کے برعکس ، کئی دوسرے پیغمبروں پر اللہ رب العالمین کی رحمت شدید امتحان کے بعد آئی۔ یہاں تک کہ اس وقت جب کہ پیغمبر اور ان کے ساتھی مایوسی کی حالت کو پہنچ گئے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر اچھی چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور اللہ کی رحمت سب سے زیادہ عظیم نعمت ہے۔ اس لیے اس کا استحقاق بھی عظیم قیمت کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے، اور وہ قیمت یہ ہے کہ بندے کو اللہ کی قدرت اور اس کی رحمت پر اتنا زیادہ یقین ہو کہ شدید حالات کے باوجود وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، وہ آخری حد تک اللہ کی رحمت کا امیدوار بنا رہے۔
مذکورہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مایوسی کی آخری حد پر پہنچنے کے بعد اللہ کی نصرت آتی ہے۔ اس مایوسی کا مطلب کیا ہے۔ اس میں دراصل اللہ کے قانونِ فطرت کو بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ کی نصرت داعی کو ضرور پہنچتی ہے۔ لیکن اس کا پراسس یہ ہے کہ دوسرے انسانوں کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک عمل جاری کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں داعی کو مطلوب نصرت کبھی تاخیر سے حاصل ہوتی ہے۔ خالق کی طرف سے اس عمل کی تکمیل میں ہمیشہ وقت درکار ہوتا ہے۔ داعی کو چاہیے کہ اس وقت کو وہ انتظار کے خانے میں ڈالے۔ یہ انتظار اگر مایوسی کی آخری حد تک پہنچ جائے، تب بھی داعی کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس کا رب اس کو تباہی سے بچائے گا، اور اپنے وقت پر وہ ضرور اپنی نصرت کو نازل فرمائے گا، جو داعی کے لیے منزل تک پہنچنے کا سبب بن جائے گا۔ صبر دراصل داعی کی طرف سےانتظار کی مدت کا نام ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنی امید کو برقرار رکھے۔ رب کی طرف سے نصرت کی نزول سے وہ مایوس نہ ہو۔
تکرار
’’گیتان جلی‘‘ رابندر ناتھ ٹیگور (1861-1941ء)کی مشہور کتاب ہے ۔ اس کتاب کے انگریزی ترجمہ پر ان کو نوبل انعام ملا تھا۔ یہ کتاب اصلاً بنگلہ زبان میں لکھی گئی تھی، اس کے بعد اس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوا۔ اس کی ایک نظم (نمبر 38)کا ابتدائی مصرعہ یہ ہے :
That I want thee, only thee—let my heart repeat without end.
میں تجھ کو چاہتا ہوں ، صرف تجھ کو اور کسی کو نہیں ،میرے دل کو اس کی تکرار بے انتہا کرنے دے۔
کسی چیز سے جب آدمی کا تعلق دل چسپی اور محبت کے درجہ کا ہو جائے تو وہاں تکرار (repetition) کا تصورختم ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی ہر تکرار آدمی کو نیا لطف دیتی ہے۔ اس کی تکرار سے آدمی کبھی نہیں اکتا تا۔ اس کی ایک عام مثال سگرٹ ہے۔ آدمی سگرٹ کو بار بار پیتا ہے اور روزانہ پیتا رہتا ہے۔ مگر اس کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ ایک چیز کی تکرار کر رہا ہے۔ حالاں کہ اسی شخص کو اگر کوئی غیر مرغوب چیز دی جائے تو چند بار کے استعمال کے بعد وہ اس سے اکتا جائے گا اور اس کو تکرار کہہ کر چھوڑ دے گا۔
میں نے کئی بار ایسے نوجوان دیکھے ہیں جنھوں نے ابھی کوئی پکچر(movie) دیکھی تھی ۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک اس پکچر (movie)کو دیکھے ہوئے تھا مگر وہ اس کی کہانی اور اس کے مکالمے اس طرح ایک دوسرے کو سنا ر ہے تھے جیسے کہ وہ کوئی نئی بات کہہ رہے ہوں اور سننے والے اس کو اس طرح سن رہے تھے جیسے وہ بالکل نئی بات سن رہے ہوں۔پکچر (movie)کے ساتھ ان کی بڑھی ہوئی دل چسپی نے ان کے لیے تکرار کا تصور حذف کر دیا تھا۔
جب کسی کے سامنے کوئی بات کہی جائے اور وہ اس کو ’’ تکرار‘‘ کہہ کر بے لطف ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ یہ بات اس کی زندگی میں دل چسپی بن کر داخل نہیں ہوئی ہے۔ اگر وہ اس کے لیے حقیقی دل چسپی کی چیز ہوتی تو اس کی ہر تکرار اس کو نیا لطف دیتی ،نہ یہ کہ وہ اس کو بے لطف بنا دے۔
مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
(حدیث نمبر72-85)
72
عبد الله بن جابر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:شيطان اس سے مايوس هوچكا هے كه جزيرهٔ عرب ميں نمازي لوگ اس كي پرستش كريں۔ ليكن وه ان كو ايك دوسرے كے خلاف بھڑكانے سے مايوس نهيں (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2812)۔
رسول اور اصحاب رسول كے ذريعےجو انقلاب آيا اس نے مذهبي بت پرستي كو اتنا زياده بےبنياد ثابت كرديا كه اب اس قسم كي مشركانه روش ميں نه سماجي عزت كا پهلو باقي رها اور نه مادي مفاد كا۔ اس لیےامت كے بعد كي نسلوں ميں گمراهي كھلي بت پرستي كے راستے سے نهيں آئے گي۔بلكه وه نفس پرستي اور مفاد پرستي كے راستے سے آئے گي۔ اس دوسري گمراهي كا اظهار اس طرح هوگا كه لوگ ذاتي مصلحتوں كے لیے آپس ميں ايك دوسرے سے لڑيں گے۔
73
عبد الله بن عباس رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس ايك آدمي آيا۔ اس نے كها كه ميں اپنے دل ميں ايسي بات پاتا هوں كه زبان سے اس كو بولنے سے زياده مجھ كو پسند هے كه ميں جل كر كوئله هو جاؤں۔ آپ نے فرمايا كه اس خدا كا شكر جس نے اس طرح كے معامله كو وسوسه قرار ديا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر5112)۔
موجوده دنيا ميں آدمي فتنوں اور آزمائشوں كے درميان جيتا هے۔ اس لیے كوئي آدمي اس سے نهيں بچ سكتا كه اس كے دل ميں غلط قسم كے خيالات آئيں۔ ليكن انسان كي پكڑ بولے هوئے قول اور كیے هوئے عمل پر هے، دل كے اندر گزرے هوئے خيالات پر نهيں۔
74
عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:انسان كے اوپرايك اثر شيطان كا هے اور ايك اثر فرشتےكا۔ پس شيطان كا اثر تو شر سے ڈرانا اور حق كو جھٹلانا هے۔ اور فرشتے كا اثر نيكي پر ابھارنا اور حق كي تصديق كرنا هے۔ پس جو آدمي اس كو پائے تو اس كو جاننا چاهیے كه يه الله كي طرف سے هے۔ اور پھر وه الله كا شكر ادا كرے۔اور جو شخص دوسري كيفيت اپنے اندر پائے تو وه شيطان كےمقابلے ميں الله سے پناه مانگے۔ پھر آپ نے قرآن (2:268)كي يه آيت پڑھي:اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ ( شیطان تم کو محتاجی سے ڈراتا ہے اور بری بات کی تلقین کرتا ہے) سنن الترمذي، حدیث نمبر2988۔
انسان كے اندر دو مختلف قسم كے محركات كي خبر اس لیے دي گئي هے تاكه جب وه اپني زندگي ميں ان ميں سے كسي كي علامت ديكھے تووه اس كي حقيقت كو پهچان لے۔ ايك علامت پر وه شيطان سے بچنے كي كوشش كرے اور دوسري علامت پر وه خدا كا شكر ادا كرتےهوئے اس سے قريب هوجائے۔
75
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسو ل الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: لوگ پوچھ گچھ كرتے رهيں گے يهاں تك كه كها جائے گا كه مخلوق كو خدا نے پيدا كيا تو خدا كو كس نے پيدا كيا۔ پھر جب لوگ ايسا كهيں تو تم كهو : اللّٰهُ اَحَدٌ۔اَللّٰهُ الصَّمَدُ۔لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ۔وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ( اللہ ایک ہے۔اللہ بےنیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اس کے برابر کا نہیں)۔ پھر وه اپنے بائيں طرف تين بار تُھتکارے، اور شيطان كے مقابلے ميں الله كي پناه مانگے (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4722)۔
يه حديث موجوده دور ميں پيدا هونے والي عقليت پسندي كي پيشين گوئي هے۔ مگر اس ميں يه بھي بتادياگياكه اس قسم كا سوال خود وقت كے عقلي نقطه نظر سے سراسر بے بنياد هوگا۔ خدا كا وجود اتنا زياده واضح هے كه وه جس طرح پچھلے زمانے ميں ثابت شده تھا اسي طرح وه بعد كے زمانے ميں بھی ہے۔ اس بحث كے ضمن ميں يه سوال بالكل غير متعلق هے كه خدا كو كس نے پيدا كيا۔ خدا اگر پيدا كرنے سے وجود ميں آئے تو وه كائنات كو پيدا كرنے والا نهيں بن سكتا۔ خدا اپنے آپ ميں موجود هے اسي لیے وه اس كائنات كو وجود ميں لاسكا۔ كائنات كي موجودگي خداکي موجودگي كا ثبوت هے۔ اگر هم خدا كے وجود كا انكار كريں تو هميں كائنات كے وجود كا بھي انكار كرنا پڑے گا۔ چونكه هم كائنات كے وجود كا اقرار كرنے پر مجبور هيں اس لیے هم خدا كے وجود كا اقرار كرنے پر بھي مجبور هيں۔
اس معاملےميں خود عقلي سائنس كي رو سے كوئي دوسرا انتخاب همارے لیے سر ے سے ممكن نهيں۔ جديد سائنس نے كائنات كے ظهو ركے بارے ميں جو حقائق دريافت كیے هيں اس كے بعد اب انسان كے لیے انتخاب (choice) بے خدا كائنات اور باخدا كائنات كے درميان نهيں هے۔ بلكه با خدا كائنات اور غير موجود كائنات كے درميان هے۔ اگر هم خدا كے وجود كو نه مانيں تو هميں كائنات كے وجود كا بھي انكار كرنا پڑے گا۔ چونكه هم كائنات كے وجود كا انكار نهيں كرسكتے اس لیے هم خدا كے وجود كا بھي انكار نهيں كرسكتے۔ جديد سائنسي دريافتوں كے بعد خدا كے وجود كو ماننا اتناهي لازمي بن چكا هے جتنا كه كائنات كے وجود كو ماننا۔(تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتابوں کو دیکھیے: مذہب اور جدید چیلنج، خدا کی دریافت، وغیرہ)
76
انس بن مالك رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: لوگ برابر سوال كرتے رهيں گے۔ يهاں تك كه وه كهيں گے كه اگر خدا نے تمام چيزوں كو پيدا كيا هے تو خدا كو كس نے پيدا كيا۔ يه بخاري كي روايت هے۔ اور مسلم كي روايت ميں اس طرح هے۔ الله تعالي نے فرمايا تمهاري امت كے لوگ برابر كهتے رهيں گے۔ يه كيا اور يه كيا۔ يهاں تك كه وه كهيں گے كه خدا نے مخلوقات كو پيدا كيا تو خدا كو كس نے پيدا كيا (متفق عليه:صحیح البخاري، حدیث نمبر 7296 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 136)۔
اس حديث سے معلوم هوتا هے كه بعد كے زمانے ميں جب عقلي بحثوں كا زور بڑھے گا تو خود امت مسلمه كے لوگ بھي ذهني طورپر اس سے متاثر هوجائيں گے۔ اور وه بھي وقت كي بولي بولنے لگيں گے۔ اس زمانے ميں اس قسم كي گمراهي كا مقابله كرنے كے لیے جو فكري جدوجهد دوسرے لوگوں پر كي جائے گي۔ وهي خود امت كي فكري اصلاح كے لیے بھي ضروري هوگي۔
77
عثمان بن ابي العاص رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں نے كها كه اے الله كے رسول شيطان ميرے اور ميري نماز اور ميري قرأت كے درميان حائل هوجاتا هے اور مجھ پر نماز میں شبہ ڈالتا ہے ۔ رسو ل الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:يه وه شيطان هےجس كو خِنزَب كهاجاتا هے۔ پس جب تم اس كو محسوس كرو تو تم اس سے الله كي پناه مانگو۔ اور اپنے بائيں طرف تين بار تھتکا رو۔ پس ميں نے ايسے هي كيا تو الله نے اس كو مجھ سے دور كرديا (صحیح مسلم، حدیث نمبر68)۔
اس حديث ميں جومخصوص طريقه بتايا گيا هے اس كي حيثيت اضافي هے۔ اس كا اصل مدعا يه هے كه جب بھي كسي آدمي كو يه محسوس هو كه شيطان اس كو خدا كي ياد سے هٹا رها هے تو وه فوراً تعوذ كے كلمات زبان سے ادا كركے شيطان سے پناه مانگے۔ يه گويا اپنے آپ كو غفلت سے نكال كر شعور كي حالت ميں لانا هے۔ يه خدا كي مدد سے شيطان كے اوپر قابو پانا هے۔قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے : جو لوگ ڈر رکھتے ہیں جب کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انھیں چھو جاتا ہے تو وہ فوراً(اللہ کو) یاد کرتے ہیں اور پھر اسی وقت ان کو سوجھ آجاتی ہے (7:201)۔
78
قاسم بن محمد تابعي سے ايك آدمي نے سوا ل كيا۔ اس نے كها كه مجھے اپني نماز ميں وهم پيش آتا هے۔اور يه مجھ پر بهت گراں گزرتا هے۔ انھوں نے اس آدمي سے كها كه تم اپني نماز جاري ركھو۔ كيوں كه يه چيز تم سے جانے والي نهيں، يهاں تك كه تم اپني نماز پوري كرو اور كهو كه ميں نے اپنی نماز پوري نهيں کی (موطا امام مالك، حدیث نمبر3)۔
اس معاملے كا تعلق جس طرح نماز سے هے اسي طرح اس كا تعلق دوسرے ديني اعمال سے بھي هے۔ اس دنيا ميں يه مطلوب نهيں كه آدمي كا احساس يه هو كه ميں نے معياري عمل كرليا۔ اس كے برعكس، آدمي كا احساس يه هونا چاهیے كه مجھ سے معياري عمل نه هوسكا۔ اپنے عمل كو كامل سمجھنا، منافقت كي علامت هے، اور اپنے عمل كو ناقص سمجھنا اخلاص كي علامت۔
79
عبد الله بن عمرو رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: الله نے مخلوق كي تقديروں كو لكھ ديا هے، زمين وآسمان كي پيدائش سے پچاس هزار سال پهلے۔ آپ نے فرمايا كه اس وقت الله كا تخت پاني كے اوپر تھا (صحیح مسلم، حدیث نمبر16)۔
يهاں تقدير سے مراد منصوبهٔ الٰهي هے۔ خدا كي پيدا كي هوئي زمين ميں پهلے پاني كا دور آيا، اس كے بعدسطح زمين پر زندگي كا دور شروع هوا۔ هزاروں سال پهلے تقدير كو لكھنے كا مطلب يه هے كه خدا نے پيشگي طورپر اُس كورس كو متعين كرديا جس كے تحت انساني قافلے كو اپنا سفر كرنا تھا۔ اور اس فطري قانون كو طے فرماديا جس كے دائرے ميں هر فرد كو اپنا عمل انجام دینا تھا۔
جدیدسائنس کی روشنی میں جب ہم اِس معاملے پر غور کرتے ہیں تو تقدیر کا ایک اہم سُراغ (clue) ڈی این اے (DNA) کی شکل میں ملتا ہے۔جدید سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ ہر انسان کا ڈی این اے اس کی شخصیت کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔ ہر انسان کے ڈی این اے میں اس کی شخصیت کی تمام خصوصیات کوڈ کی شکل میں درج ہیں، جن کی مسلسل طور پر ڈی کوڈنگ (de-coding) ہوتی رہتی ہے۔ آدمی کے بیشتر عادات و افعال اسی ڈی این اے کے زیر اثر واقع ہوتے ہیں۔
80
عبد الله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: هر چيز مقرر اندازه پر هے، يهاں تك كه عاجزي اور دانش مندي بھي (صحیح مسلم،حدیث نمبر 18)۔
انسانوں كي صلاحيتيں يكساں نهيں۔ اس دنيا ميں هر انسان كو الگ الگ استعداد كے ساتھ پيدا كيا گيا هے۔ دنيا كے نظام كو كاميابي كے ساتھ چلانے كے لیے ايسے لوگ بھي دركار هيں جو جسماني طاقت ميں زياده هوں اور ايسے لوگ بھي جن كے اندر ذهني طاقت زياده پائي جائے۔ يه مقدرات هيں، اور وه اس لیے هيں تاكه اس دنيا ميں زندگي كا نظام مجموعي طورپر كاميابي كے ساتھ چلتا رهے۔
81
ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: آدم اور موسي نے اپنے رب كے سامنے حجت كي تو آدم اس بحث ميں موسي پر غالب آگئے۔ موسي نے كها كیا آپ وه آدم هيں جن كو الله نے اپنے هاتھ سے پيدا كيا اور آپ کے اندر اپني روح پھونكي۔ اور اپنے فرشتوں سے آپ كو سجده كرايا۔ اور آپ كو اپني جنت ميں ٹھهرايا۔ پھر آپ نے اپني لغزش كي وجه سے لوگوں كو نيچے اتارديا۔ آدم نے كها كه آپ وه موسي هيں جس كو الله نے اپني پيغمبري كے لیے اور اپني هم كلامي كے لیے چنا۔ اور آپ كو تختياں ديں، جس ميں هر چيز كا بيان هے۔ اور آپ كو هم كلامي كے ذريعے قربت دي۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ نے میری پیدائش سے کتنے عرصہ پہلے توراۃ کو لکھ دیا تھا ؟ موسي نے كها كه چاليس سال پهلے۔ آدم نے كها كه کیا آپ نے اس میں لکھا ہوا پایا کہ آدم نے اپنے رب كي نافرماني كي، پھر وه راستہ سے دور ہو گئے(طه، 20:121)۔ موسي نے كها كه هاں۔ آدم نے كها كه كيا آپ مجھے ايك ايسے فعل كي ملامت كرتے هيں، جو الله نے لكھ دياتھا كه ميں اس كو كروں، اور يه ميري پيدائش سے چاليس سال پهلے هوچكاتھا۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه پھر آدم موسي پر غالب آگئے (صحیح مسلم، حدیث نمبر2652)۔
انسان آزاد ہے یا مجبور۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے۔اس حديث كا مطلب انسان كو يه بتانا هے كه وه دو چيزوں كے درميان هے۔ ايك تقدير الٰهي، اور دوسرے ذاتي اختيار۔ انسان ایک اعتبار سے آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہر عورت اور مرد آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ بار بار محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ذات کے باہر بھی کچھ طاقتیں ہیں جن کو نظر انداز کر کے وہ اس دنیا میں اپنا کام نہیں کر سکتے۔
یہ دو طرفہ تقاضے کیا ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایک ہے خود انسان کی شخصیت، اور دوسری چیز ہے وہ حالات جن کے درمیان کسی آدمی کو اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ اِن حالات کو فطرت کا قائم کیا ہوا انفراسٹرکچر (infrastructure) کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تک انسان کی ذات کا تعلق ہے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جو بات چاہے بولے، جس رخ پر چاہے اپنی زندگی کا سفر طے کرے۔ اس اعتبار سے انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔
دوسری چیز وہ ہے جس کو انفراسٹرکچر کہا جاسکتا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر مکمل طور پر فطرت کا قائم کیا ہوا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر دنیا میں اپنے آپ قائم ہے۔ انسان کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ اس انفراسٹرکچر کو بدل ڈالے یا اس کو نظر انداز کر کے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
مثال کے طور پر ایک انسان زمین پر چلتا ہے۔ یہ چلنا انسان کی اپنی آزادی کا معاملہ ہے۔ لیکن اس چلنے کے لیے ضرورت ہے کہ آدمی کے قدموں کے نیچے ایک زمین ہو ۔ اس زمین کے اندر قوتِ کشش ہو، اور پھر انسان کے اوپر ہوا کا دباؤ ہو، وغیرہ۔ یہ چیزیں خارجی انفراسٹرکچر کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اس خارجی انفراسٹرکچر کے بغیر چلنے کا عمل ممکن نہیں، نہ کسی عورت کے لئے اور نہ کسی مرد کے لئے۔ یہی معاملہ دوسری ان تمام چیزوں کا ہے جن کے درمیان انسان اپنا عمل کرتا ہے۔
اسی طرح انسان سانس لیتا ہے۔ سانس لینا یا نہ لینا انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے۔ لیکن درست طور پر سانس لینے کے لیے ضروری ہے کہ باہر کی دنیا میں آکسیجن کی سپلائی کا نظام موجود ہو۔ آکسیجن کی مسلسل سپلائی کے بغیر کوئی آدمی سانس نہیں لے سکتا۔ جب کہ سانس کے بغیر انسان کے لئے اس دنیا میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔
یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان دو طرفہ تقاضوں کے درمیان ہے۔ ایک اعتبار سے وہ آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنے ارادے کے استعمال کے اعتبار سے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ لیکن اس اعتبار سے وہ مجبور ہے کہ اپنے ارادے کا آزادانہ استعمال وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے انفراسٹرکچر کے بغیر نہیں کر سکتا۔جبر و اختیار کی اس درمیانی صورتِ حال کو علم العقائد میں وَسَطِیّہ کہا جاتا ہے۔ یہی وسطیہ کا نظریہ اس معاملے میں صحیح نظریہ ہے۔
آدمي اگر صرف پهلي چيز كو ياد ركھے تو اس كےاندر بےعملي پيدا هوگي۔ اور اگر وه صرف دوسري چيز كو ياد ركھے تو اس كے اندر غير حقيقت پسندانه اعتماد پيدا هوگا۔ متوازن شخصيت كي تعمير كے لیے ضروري هے كه آدمي كي نگاه دونوں حقيقتوں كے اوپريكساں طور پر رهے۔
82
عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے هم سے فرمايا— اور آپ صادق ومصدوق هيں— تم ميں سے هر ايك كا وجود اس كي ماں كے پيٹ ميں چاليس دن تك نطفه كي صورت ميں رهتا هے۔ پھر وه اتنے هي دنوں تك علقه كي صورت ميں رهتا هے۔ پھر وه اتنے هي دنوں تك گوشت كے ٹكڑے كي صورت ميں رهتا هے، پھر الله ايك فرشته كو چار باتوں كے ساتھ بھيجتا هے۔ پھر وه لكھتا هے اس كا كام ا ور اس كي موت اور اس كا رزق اور يه كه وه شقي هے يا سعيد۔ پھر اس كے اندر روح پھونكي جاتي هے۔ پس اس ذات كي قسم جس كے سوا كوئي معبود نهيں تم ميں سے ايك شخص اهل جنت والا كام كرتا رهتا هے۔ يهاں تك كه اس كے اور جنت كے درميان صرف ايك هاتھ كا فاصله ره جاتا هے۔ پھر تقدير كا لكھا هوا اس پر غالب آجاتا هے۔ پھر وه اہلِ دوزخ كا كام كرتا هے۔ اور وه دوزخ ميں جاگرتا هے۔ اسي طرح تم ميں كا ايك شخص دوزخيوں كا عمل كرتا رهتاهے۔ يهاں تك كه اس كے اور دوزخ كے درميان صرف ايك هاتھ كا فاصله باقي رهتا هے۔ پھر تقدير كا لكھا هوا اس پر غالب آجاتا ہے۔ اور وه اهل جنت كا عمل كرتا هے پھر وه جنت ميں داخل هوجاتا هے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر3208؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1)۔
اس حديث ميں ايك مثال كي صورت ميں فطرت كے ايك قانون كو بتايا گيا هے۔ اور وه يه كه آدمي كے انجام كا دارومدار اس كے آخري عمل پر هے۔ آدمي كو چاهیے كه اگر اس كو نيك عمل كي توفيق مل رهي هے تو وه اس پر گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا نه هو۔ عين ممكن هے كه بعد كو پيش آنے والي كسي آزمائش ميں وه پورا نه اترے اور اس كي زندگي كا رخ بدل جائے۔اسي طرح اگر كوئي شخص برائي ميں مبتلا هو تو لوگوں كو اس سے نفرت نهيں كرنا چاهیے۔ كيا معلوم اس پر كوئي ايسا تجربه گزرے جو اس كي اصلاح كردے اور اس كي زندگي كا رخ برائي سے نيكي كي طرف مڑ جائے۔
83
سهل بن سعد رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ايك بنده اهل دوزخ كا عمل كرتا هے۔ حالانكه وه اهلِ جنت ميں سے هوتا هے۔اور ايك بنده اهل جنت كا عمل كرتا هے۔ حالانكه وه اهلِ دوزخ ميں سے هوتا هے۔ اور اعمال كا اعتبار آخري عمل پر هے(متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر6607، صحیح مسلم، حدیث نمبر112)۔
اس حديث كا مطلب يه هے كه آدمي كے انجام كا فيصله خصوصي امتحان كے وقت هوتا هے۔ یہ روایت کنڈیشننگ (conditioning) کے اصول سے اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ہر پیدا ہونے والالازمی طور پر اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385) ۔ ایسی حالت میں ایمان قبول کرنا، اس کے ذہن کے لیے ایک ایسی حقیقت کوقبول کرنا ہے جو اس کے لیے بالکل نئی ہے۔اس لیے ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی نئی چیز کو متاثر ذہن (conditioned mind) کے ساتھ دیکھے، اور اس کو درست طور پر سمجھ نہ سکے۔ ایسی حالت میں ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان لانے سے پہلے پیشگی طور پر ایک کام کرے۔ یعنی اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) تاکہ وہ ایمان و معرفت کے آئٹم کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھے، اور بے آمیز صورت میں اس کو لے سکے۔ایمان گویا تطہیر ذہن (purification of the mind) کا معاملہ ہے۔ اس تطہیر (purification) کے بغیر کوئی بھی شخص ایمان کو حقیقی طور پر نہیں پا سکتا۔ اس کے بغیر اگر وہ ایمان قبول کرتا ہے تو اس کا ایمان، قرآن کے مطابق، داخل القلب ایمان (49:14) نہ ہوگا، بلکہ وہ ایمان لپ سروس (lip service) کے طور پر ہوگا، اور لپ سروس والا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں ۔
ايك آدمي بظاهر اچھا عمل كرتا هے مگر کنڈیشننگ کی وجہ سے اس كے دل ميں كھوٹ رہتا هے۔ امتحان كے وقت يه كھوٹ سامنے آجاتا هے ۔اور وه اس كو برے انجام كا مستحق بنا ديتاهے۔ اسي طرح ايك آدمي بظاهر برا عمل كرتا هے مگر اس كے دل كے اندر سچائي كي تلاش کا جذبہ موجود ہوتا هے، پھر كوئي واقعه پيش آتا هے اس كے بعد يه چنگاري بھڑك اٹھتي هے اور اس كي زندگي برائي سے هٹ كر نيكي كے رخ پر چلنے لگتي هے۔ اس طرح ايك بظاهر برا شخص متلاشیٔ حق ہونے کی بنا پر آخرميں جنتي بن جاتاهے۔اور اس كے برعكس ايك بظاهر اچھا شخص اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے ابدی طور پر ناکام لوگوں كي فهرست ميں شامل ہو جاتا هے۔
84
عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كو ايك انصاري بچه كے جنازه ميں بلايا گيا ۔ ميں نے كها:اے خدا كے رسول، اسے خوش خبري هو كه وه جنت كي چڑيوں ميں سے ايك چڑيا هے جس نے نه تو گناه كيا اور نه گناه كا وقت پايا۔ آپ نے کہا: اے عائشه، اس كے سوا بھي هوسكتا هے۔ الله نے كچھ جنت والے پيدا کیے جنھيں ان كے باپ كي پيٹھوں ميں جنت كے لیے بنايا۔ كچھ آگ والے پيدا كیے جنھيں ان كے باپ كي پيٹھوں ميں دوزخ كے لیے بنايا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2662)۔
اس حديث ميں غالباً اس بات پر زور ديا گيا هے كه جنت ميں داخله كا تعلق عمر سے يا كسي اور نسبت سے نهيں هے۔ جنت ايك بے حد قيمتي جگه هے۔ قرآن کے مطابق، جنت وہ جگہ ہے جہاں تاریخِ انسانی کی ربّانی شخصیات سچائی کی دنیا میں ابدی جگہ پائیں گے (54:55)۔ جنت خدا کے پڑوس (66:11)میں رہنے کا نام ہے۔ اس ميں داخله كا استحقاق كسي كو صرف اللہ رب العالمین كی رحمت سے ملے گا۔ كوئي اور چيز آدمي كے لیے جنت كي قيمت نهيں بن سكتي۔
85
علي ابن ابي طالب رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:تم ميں سے هر شخص كا ٹھكانا لكھا جاچكا هے، يا جهنم ميں يا جنت ميں۔ لوگوں نے كها كه اے خدا كے رسول، كيا هم اپنے لكھے هوئے پر بھروسه كرليں اور عمل كرنا چھوڑ ديں۔ آپ نے فرمايا كه تم لوگ عمل كرتے رهو۔ هر شخص كے لیے اُسي كو آسان كيا جائے گا جس طرف وہ بڑھے گا۔ چنانچہ جو شخص حق کا متلاشی هو اس كو حق كے راستہ كي توفیق دي جاتي ہے۔ اور جو آدمي اهل شقاوت ميں سے هو تو اس کے لیے ضلالت کا راستہ آسان ہوجاتاہے۔ اس كے بعد آپ نے قرآن كي سوره الليل سےیہ آیتیں (5-10) تلاوت فرمائي— پس جس نے مال خرچ کیا اور تقوی کا طریقہ اختیار کیا۔ اور اس نے بھلائی کو سچ مانا۔ تو اس کو ہم آسان راستہ کے لیے سہولت دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور بے پروا رہا۔ اور بھلائی کو جھٹلایا۔ تو ہم اس کو مشکل راستہ کے لیے سہولت دیں گے(متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر 1362؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2039)۔
’’آسان راستہ‘‘ یعنی فطری راستہ یا جنت کا راستہ۔ ’’مشکل راستہ‘‘ یعنی ابدی ناکامی کا راستہ۔ قرآن كي سوره الليل كي مذكوره آيتوں كي روشني ميں اس حديث كي تشريح كي جائے تو اس كا مطلب يه هوگا كه جنت يا جهنم كسي كو اتفاقي ا سباب سے نهيں ملتي۔ جس آدمي كے اندر سعادت كي چنگاري هو،یعنی جو سچائی کا متلاشی ہو، اس كو الله تعالي قبوليت دے كر اس كے لیےجنت كا راسته آسان كرديتا هے۔ اور جس كے اندر شقاوت كا مرض هو اس كو ايسے راستے كي طرف ڈھيل دے دي جاتي هے جو جهنم كي طرف جانے والا هو۔
ڈائری 1986
5مارچ1986
آج کل میرے یہاں دہلی کے دو انگریزی اخبار روزانہ آتے ہیں۔ایک ہندوستان ٹائمس اور دوسرا ٹائمس آف انڈیا۔ٹائمس آف انڈیا میں صفحہ8 پر ہر روز کسی کا قول نقل کیا جاتا ہے۔اس کی اشاعت(4مارچ1986)میں ولیم لا(William Law) کا یہ قول نقل کیا گیا تھا— برائی کا آغاز ہمیشہ گھمنڈ سے ہوتا ہے اور اس کا خاتمہ ہمیشہ تواضع سے:
Evil can have no beginning, but from
pride, nor any end but from humility.
اس کو پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اسلام(بالفاظ دیگر سچا مذہب) آفاقی صداقتوں کا ہی آسمانی زبان میں اظہار ہے۔جو آدمی ایک کو جانتا ہو اس کے لیے دوسرے کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔مثلاً ولیم لا نے اپنے مذکورہ مقولہ میں جو بات نفسیات کی زبان میں کہی ہے وہی حدیث میں مذہبی زبان میں اس طرح بیان کی گئی ہے:لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ(مسند احمد، حدیث نمبر 4310)۔ یعنی، وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فخروغرور سب سے بڑی برائی ہے اور انکساری اور تواضع سب سے بڑی نیکی۔اسی سے تمام دوسری چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ دنیا کی ترقی اور آخرت کی نجات دونوں کا انحصار اسی پر ہے۔یہاں میں اضافہ کروں گا کہ غرور یا تواضع کا صحیح پتہ عام حالات میں نہیں چلتا ۔اس کا صحیح پتہ اس وقت چلتا ہے جب کہ آدمی کے ساتھ غیر معمولی حالات پیش آئیں۔جب آدمی کی انا پر چوٹ پڑے اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ وہ متکبر تھا یا نہیں۔اور جب حق کی خاطردوسرے کے آگے جھکنے کی ضرورت پیش آئے اس وقت اندازہ ہوگا کہ آدمی متواضع تھا یا وہ تواضع کا جھوٹا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا۔
6مارچ1986
میری لڑکی فریدہ خانم آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں گئی تھی۔واپس آکر اس نے بتایا کہ میں لائبریری کے ریڈنگ روم میں بیٹھ کر کچھ پڑھ رہی تھی،مگر پڑھنا مشکل ہو گیا۔میں پڑھتی جاتی تھی مگر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ قریب کی میز پر ایک لڑکی چند لڑکوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔وہ لوگ بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے۔خاص طور پر لڑکی کا یہ حال تھا کہ مسلسل زور زور سے بول رہی تھی اور قہقہے لگا رہی تھی۔ اس کی وجہ سے ریڈنگ روم میں سکون کا ماحول بالکل ختم ہوگیاتھا۔
یہ واقعہ سن کر مجھے وہ بات یاد آئی جو ایک سیاح نے لکھی ہے۔اس نے لکھا ہے کہ میں امریکا گیا۔وہاں ایک لائبریری میں بھی گیا اور اس کے ریڈنگ روم میں کچھ دیر بیٹھا۔وہاں ریڈنگ روم میںنوجوان لڑکیاں آتی جاتی تھیں،مگر وہ حد درجہ محتاط تھیں۔وہ چلنے میں اس کا بھی لحاظ کرتی تھیں کہ ان کے کپڑوں کی سرسراہٹ سے خلل نہ ہو۔اسی طرح جو لڑکے اورلڑکیاں میزوں پر جھکے ہوئے مطالعہ کر رہے تھے وہ مطلق کوئی گفتگو نہیں کرتے تھے۔حتیٰ کہ جب انہیں اپنی زیر مطالعہ کتاب کا ورق الٹنا ہوتا تھا تو اس کو بھی نہایت آہستگی سے الٹتے تھے تاکہ کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ نہ پیدا ہو۔ریڈنگ روم کا ہر شخص حد درجہ اس کا خیال کر رہا تھا کہ اس کا کوئی فعل دوسرے لوگوں کے لیے خلل اندازی کا باعث نہ ہو۔
کتنا فرق ہے ایک انسان میں اور دوسرے انسان میں۔کتنا فرق ہے ایک معاشرے میں اور دوسرے معاشرہ میں۔
7مارچ1986
قرآن مجید میں ہے:وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر (7:188) ۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا۔
یہ بہت بامعنی الفاظ ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا کے فوائد کا بہت گہرا تعلق غیب سے ہے۔اکثر ناپسندیدہ حالات صرف اس لیے پیش آتے ہیں کہ آدمی پیشگی طور پر ان کا اندازہ نہ کر سکا تھا۔
بعض اوقات آدمی غیر متوقع طور پر انتہائی شدید حالات میں گھر جاتا ہے۔وہ اس سے اتنا زیادہ پریشان ہوتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حوصلہ کھو دے گا۔مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ناخوش گوار صورت حال اکثر اس سے بہت کم ناخوش گوار ہوتی ہے جتنا آدمی اس کے بارے میں سمجھ لیتا ہے۔
آدمی پر جب کوئی افتاد پیش آتی ہے تو پریشانی میں وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ ایک بھیانک مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔حتیٰ کہ بعض لوگ آنے والے قیاسی خطرات سے گھبرا کر خودکشی کر لیتے ہیں یا کم از کم اپنی صحت برباد کر لیتے ہیں۔مگر میرا تجربہ یہ ہے کہ اس طرح کے مواقع پرعموماً ایسا ہوتا ہے کہ مستقبل اس سے کم خطرناک نکلتا ہے جیسا کہ آدمی نے متاثر ذہن کے تحت اس کو سمجھ لیا تھا۔جب کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشکل میں ایک آسانی نکل آتی ہے۔کھونا اپنے انجام کے اعتبار سے پانا بن جاتا ہے۔
8مارچ1986
آج میری کتاب ’’پیغمبر انقلاب‘‘ کا انگریزی ترجمہ پہلی بار چھپ کر آیا۔اس کا نام ہے:
Mohammad: The Prophet of Revolution
(Presently available as The Life of Muhammad)
میں نے اس کو دیکھا توا للہ کا شکر ادا کیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ صرف اللہ کا فضل خاص ہے کہ اسلامی مرکز کا کام اس طرح چل رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ورنہ میرے اپنے بس میں تو کچھ بھی نہ تھا۔
غالباً 1970ءکی بات ہے۔مجھے یہ خیال آیا کہ میں اپنی بعض کتابوں کا انگریزی ترجمہ شائع کروں۔اس سلسلے میں مختلف مترجمین سے رابطہ کیا۔مگر کوئی مجھے پسند نہ آ سکا۔آخرکار معلوم ہوا کہ اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے سب سے بہتر شخص ڈاکٹر آصف قدوائی ہیں۔وہ مولانا علی میاں اور دوسرے حضرات کی دینی کتابوں کا ترجمہ کر رہے تھے۔اس طرح اس میدان کا خصوصی تجربہ رکھتے تھے۔میں نے ان کو خط لکھا۔ان کا چند سطور کا جواب آیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میرے پاس ترجمے کے لیے اتنے کام جمع ہیں کہ اگر میں مزید15سال زندہ رہوں تو صرف موجودہ کتابوں کے ترجموں کو مکمل کرپاؤں گا۔جب کہ مزید کتابوں کی آمد بدستور جاری ہے۔
بظاہر ایسا محسوس ہوا کہ مجھے یہ خوش قسمتی کبھی حاصل نہ ہوگی کہ میری کوئی کتاب انگریزی میں عمدہ زبان میں شائع ہو۔مگر اس کے بعد حالات میں تبدیلی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انگریزی کے لیے ایسے اعلیٰ انتظامات فراہم کر دیے کہ یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر انقلاب جیسی عمدہ انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر چھپی ہے ویسی عمدہ انگریزی زبان میں ابھی تک کسی بھی اسلامی ادارے کی کوئی کتاب شائع نہ ہو سکی۔الحمدللہ علی ذالک۔
9مارچ1986
آج ہندستان ٹائمس کے سنڈے میگزین میں ایک کتاب پر تبصرہ شائع ہوا ہے:
The Viceroys of India by Mark Bence-Jones, pp. 343, 1982
یہ کتاب ہندستان کے برٹش راج کا تفصیلی ریکارڈ ہے۔ ہندستان میں برٹش راج 175سال تک رہا۔اس مدت میں کل 29 گورنر جنرل (وائسرائے) مقرر ہوئے۔پہلے برٹش گورنر جنرل وارن ہیسٹنگر(Warren Hastings, 1732-1818)تھے جو 1774ء میں کلکتہ آئے اور آخری برٹش وائسرائے لوئی ماؤنٹ بیٹن(Louis Mountbatten, 1900-1979)تھے جو جون 1948ء میں شاندار الوداعی پارٹی کے بعد دہلی سے واپس ہو کر انگلستان گئے۔
انگریزوں نے ایک طرف قومی شعور کا زبردست ثبوت دیا۔اپنے مرکز سے غیر معمولی دوری کی بنا پر ہر وائسرائے کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ بغاوت کرکے ہندستان میں اپنی آزاد حکومت قائم کر لے۔مگر29 وائسرائے میں سے کسی نے بھی اس قسم کا باغیانہ منصوبہ نہیں بنایا۔مگر یہی لوگ جو آپس میں لڑنے کو حد درجہ غلط سمجھتے تھے انہوں نے ہندستان میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کا جو سب سے بڑا راز دریافت کیا وہ یہ تھا: ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘(Divide and Rule)۔
لارڈ ڈفرن(Lord Dufferin, 1826-1902)نے 1885ءمیں ہندو مسلم جھگڑے شروع کروائے۔اس کے بعد وہ بڑھتے ہی رہے۔انگریزی حکومت1947ءمیں ختم ہو گئی،مگر ہندو مسلم جھگڑےآج بھی ختم ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔شاید ہمالیہ کی سرزمین فرقہ وارانہ جھگڑوں کے لیے بہت زرخیز ہے۔
10مارچ1986
تقریباً روزانہ میری نیند فجر سے پہلے کھل جاتی ہے۔ابھی میں بستر ہی پر ہوتا ہوں کہ دل سے دعا کے کلمات نکلنے لگتے ہیں،اور یہ بالکل بے ساختہ طورپر ہوتا ہے۔یہ گویاقرآن کے الفاظ ’’ وَعَلٰي جُنُوْبِھِمْ‘‘( 3:191) کا ایک تجربہ ہوتا ہے، اور یہ روزانہ مجھ پر گزرتا ہے۔یعنی، اوروہ اپنے پہلوؤں پر لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔
آج فجر سے پہلے نیند کھلی۔میں ابھی بستر پر لیٹا ہوا تھا۔کمرہ میں،میں بالکل تنہا تھا اور کمرہ میں اندھیرا تھا۔مگر دل سے مسلسل دعائیں نکلنے لگیں، بالکل ویسے ہی جیسے کسی مادہ سے اس کی فطری خاصیت اپنے آپ ظاہر ہو۔خدایا مجھے بخش دے،خدایا مجھ پر رحم فرما،خدایا تو دنیا و آخرت میں میرا مددگار ہو جا۔
میں ان دعاؤں میں مشغول تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ دعا کائنات کا ایک انوکھا مظہر ہے۔ جس طرح مادہ سے ایک خاصیت کا ظاہر ہونا ،اس مادہ کے اندر ایک متعین خاصیت کی موجودگی کا ثبوت ہوتا ہے ،اسی طرح انسان کے اندر دعا کا نکلنا خدا کی موجودگی کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے۔
دعا کیا ہے؟ دعا ایک ہستی کو دیکھے بغیر پکارنا ہے۔ایک ہستی جو آس پاس کہیں نظر نہ آ رہی ہو، اس سے اس طرح ہم کلام ہونا جیسے کہ وہ ہمارے بالکل قریب موجود ہے۔اس طرح انسان کسی اور کو نہیں پکارتا۔نہ اپنے دوستوں کو، نہ کسی حکمراں کو،نہ سورج اور چاند کو۔کسی کی غیر موجودگی میں اس کو پکارنا اور اس سے ہم کلام ہونا خاص الخاص صرف خدا کے لیے ہوتا ہے۔حتیٰ کہ مشرک اور ملحد بھی نازک وقتوں میں اپنی مزعومہ ہستیوں کونہیںپکارتے۔ایسے موقع پر ان کے دل سے بھی جب پکار نکلتی ہے تو خدا ہی کے لیے نکلتی ہے۔
یہ اس بات کا نفسیاتی ثبوت ہے کہ یہاں ایک عظیم ہستی ہے جو سنتی اور جانتی ہے اور جس کو ہر قسم کا اختیار حاصل ہے۔
11مارچ1986
علی گڑھ سے ایک نوجوان آئے۔وہ مسلم یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے فائنل ایئر میں ہیں۔ گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ علی گڑھ کے مسلمان طلبا اپنی تحریک ہمیشہ اسلام کے نام پر چلاتے ہیں۔حالاں کہ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیںہوتا۔انہوں نے علی گڑھ کے مسلم طلبا کی حمایت کی اور کہا کہ آپ کی یہ بات درست نہیں۔ہمارے یہاں کے طلبا میں زبردست اسلامی جذبہ ہے۔اس ملک میںوہ اسلامی زندگی کا نشان ہیں،وغیرہ وغیرہ۔
میں نے کہا کہ علی گڑھ کے مسلم طلبا اسلام کا نام تو ضرور لیتے ہیں مگر ان کی سرگرمیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کی مثال دیجیے۔میں نے کہا کہ ہاں میں آپ کو ایک متعین مثال دیتا ہوں۔
اس کے بعد میں نے کہا کہ پروفیسر عرفان حبیب (پیدائش 1931ء)کے مسئلے کو لیجیے۔ جن کے خلاف مسلم لڑکوں نے اتنے ہنگامے کیے کہ یونیورسٹی بند کر دینی پڑی۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اخبار انڈین اکسپریس(3جنوری،1981) میں پروفیسر عرفان حبیب کا ایک انٹرویو چھپا۔اس انٹرویو پر علی گڑھ کے مسلم طلبا کو سخت اعتراض ہوا۔میں پور ے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اس انٹرویو میں خالص حقیقت کے اعتبار سے کوئی قابل اعتراض بات نہ تھی۔تاہم اس سے قطع نظر اس انٹرویو کے خلاف مسلم طلبا نے جو کچھ کیا وہ سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا۔مثلاً مسلم طلبا نے پروفیسر عرفان حبیب پر اسٹک سے حملہ کیا۔اگرچہ اتفاقی طور پر وہ بچ گئے۔
اب میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر تم بدلہ لینا چاہو تو اس کے مثل بدلہ ہو جو تمہارے ساتھ کیاگیا ہے۔اس قرآنی حکم کے مطابق اسلامی طریقہ یہ تھا کہ آپ پروفیسر عرفان حبیب کے مضمون کے جواب میں خود بھی ایک مضمون شائع کر دیتے۔مگر قلم کا جواب ڈنڈے سے دینا اس قرآنی حکم کے سراسر خلاف ہے۔پھر ایسی تحریک کو آپ کس طرح اسلامی تحریک کہہ سکتے ہیں۔اس کے جواب میں وہ خاموش ہو گئے۔
12مارچ1986
اخبار ٹائمس آف انڈیا کا ایک سپلیمنٹWomanکے نام سے نکلا۔یہ 8مارچ 1986 کے اخبار کے ساتھ مجھے ملا تھا۔مگر فوراً میں اس کو نہ پڑھ سکا تھا۔اب آج اس کو دیکھا۔اس میں ایک طویل مضمون مدھو کشور(پیدائش 1951ء) کا ہے۔یہ ایک ہندو خاتون ہیں جو منوشی (Manushi) نامی فیمینزم میگزین کی ایڈیٹر ہیں۔اس مضمون کا عنوان ہے:
Another Look at the Shah Bano Controversy
محترمہ مدھو کشور کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کافی آزاد خیال ہیں۔حتیٰ کہ جناب توقیر صاحب کے بیان کے مطابق وہ میرج کے انسٹی ٹیوشن میں یقین نہیں رکھتیں۔ان کے اس مضمون میںجو بات سب سے زیادہ ابھری ہوئی ہے وہ ان کے الفاظ میں عورت پر مرد کے تسلط کے خلاف احتجاج ہے۔اس مضمون میں گویا انہوں نے مرد کے خلاف اپنا بخار نکالا ہے۔ان کا ایک جملہ یہ ہے:
Through centuries, most men have used religion to legitimise their unjust domination of women in most parts of the world.
غور کرنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ہر گروہ ایک ہی مقام پر ہے۔مدھو کشور شاہ بانو کے معاملہ کو آڑ بنا کر مرد کے خلاف اپنا بخار نکال رہی ہیں۔ہندو عناصر اس معاملہ کو لے کر مسلمانوں کے خلاف اپنا بخار نکال رہے ہیں اور مسلم پرسنل لا کا تحفظ کرنے والے لوگ شاہ بانو کیس کو بہانہ بنا کر ہندوؤں کے خلاف اپنا بخار نکال رہے ہیں۔
ہرآدمی اپنے دل کا بخار نکالنے میں مصروف ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کے خلاف اپنا بخار نکال رہا ہے اور کوئی شخص دوسرے کے خلاف۔
13مارچ1986
احمداللہ بختیاری (رائچوٹی)ایک نوجوان ہیں۔وہ آج ملنے کے لیے آئے۔وہ ریاض (سعودی عرب) کی جامعہ الامام سے فارغ ہیں۔وہاں انہوں نے سات سال رہ کر عربی ادب کی تکمیل کی ہے۔انہوں نے بتایاکہ وہاں ان کے ایک استاد ڈاکٹر محمد علی الہاشمی تھے جو کہ ڈاکٹر طہٰ حسین کے شاگرد ہیں۔ڈاکٹر محمد علی الہاشمی نے ادیب کی تعریف ان الفاظ میں کی:الادیب ما یلعب بالالفاظ( ادیب وہ ہے جو الفاظ کے ساتھ کھیلے)۔اس کو الفاظ پر اتنا قابو ہو کہ جس لفظ کو جہاں چاہے رکھے اور جہاں سے چاہے ہٹائے۔
میں نے کہا کہ ادب کی یہ تعریف ادب کے قدیم تصور پر مبنی ہے۔ادب کا ایک تصور وہ ہے جس کی نمائندگی مقامات حریری جیسی کتابیں کرتی ہیں۔ان میں سارا زور الفاظ پر ہوتا ہے۔اس کے مطابق ادب کا کمال یہ ہے کہ وہ مسجع اور مقفیٰ عبارت لکھ سکے۔ پہلا جملہ جس لفظ پر ختم ہوا ہے دوسرے جملے کے خاتمے کے لیے بھی اس کو ویسا ہی لفظ مل جائے۔مثلاً قدیم عرب کے مشہور مقرر قس بن ساعدہ ایادی کی تقریر کا ایک جملہ یہ ہے:طَحَنَهُمُ الثَّرَى بِكَلْكَلِهِ، وَمَزَّقَهُمْ بِتَطَاوُلِهِ(دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد2، صفحہ 109)۔
قدیم زمانہ میں شاعری کا زور تھا۔اس لیے قدیم زمانہ میں الفاظ کی موزونیت باعتبار آہنگ پر زور دیا جاتا تھا۔موجودہ زمانے میں سائنس کا زور ہے۔اس لیے اب الفاظ کی موزونیت باعتبار معنی پر زور دیا جاتا ہے۔قدیم تصور کے مطابق ذخیرۂ الفاظ کی زیادہ اہمیت تھی ،مگر اب ادراک معنیٰ کی زیادہ اہمیت ہے۔قدیم تصور ادب کے مطابق آدمی کے پاس الفاظ کا ڈھیر جتنا زیادہ ہو اتنا ہی زیادہ وہ موزوں جملے بنا سکتا تھا۔مگر جدید تصور ادب کے مطابق جس شخص کا ادراک جتنا زیادہ بڑھا ہوا ہو اتنا ہی زیادہ موزوں الفاظ(appropriate words) اس کی زبان وقلم سے ظاہر ہوں گے۔
14مارچ1986
میں تذکیرالقرآن(سورہ العنکبوت) کے کتابت شدہ صفحات برائے تصحیح دیکھ رہا تھا۔ درمیان میں اس کے ایک صفحہ کی نقل لینے کی ضرورت پیش آئی۔ہمارے دفتر میں فوٹو کاپی مشین ہے۔میں نے انٹرکام (intercom)پر نیچے بتایا۔نیچے کے دفتر سے ایک آدمی آیا۔اس کو میں نے مذکورہ صفحہ دیا۔وہ صفحہ کو لے گیا اور اسی وقت اصل اور کاپی لا کر مجھے دے دی۔
مذکورہ صفحہ کی نقل ایک منٹ بعد میرے سامنے موجود تھی۔عین وہی صفحہ بالکل صاف اور صحیح شکل میں چھپا ہوا تھا۔اس کو دیکھ کر مجھ پر عجیب تاثر ہوا۔میں نے کہا— قدیم زمانہ میں کسی صفحہ کی ایسی ایک نقل حاصل کرنا کس قدر دشوار اور کتنا دیر طلب کام تھا۔آج یہ حال ہے کہ آدمی اس کو ایک منٹ میں حاصل کر لیتا ہے۔یہ بلا شبہ خدا کا معجزہ ہے۔ان واقعات کی موجودگی میں جو لوگ معجزہ طلب کریں وہ اندھے ہیں۔اگر وہ بینا ہوتے تو یقیناً انہیں واقعات میں وہ معجزۂ خدا وندی کو دیکھ لیتے۔
پھر میں نے سوچا کہ نزول قرآن سے پہلے خدا کی طرف سے برابر معجزے آتے رہے۔مگر نزول قرآن کے بعد معجزات کی آمد بند ہو گئی۔اس کی وجہ غالباًنزول قرآن کے بعد دور سائنس کا آنا اور اس کے ذریعے قدرت کے بے شمار عجائبات ظہور میں آنا ہے۔قرآن کے بعد سائنس کا زمانہ آ رہا تھا،اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بعد معجزات کو بھیجنا بند کردیا۔
15مارچ1986
جماعت اسلامی کے دو صاحبان ملنے کے لیے آئے۔گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے تقسیم ہند کے وقت مدراس میں ایک تقریر کی تھی،جس میں انہوں نے ہندستان میں تحریک اسلامی کا لائحہ عمل بتایا تھا۔اس میں انہوں نے کہا تھا کہ آزاد ہندستان میں سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قومی کشمکش کو ختم کیا جائے،اس کے بغیر ہندستان میں اسلامی دعوت کا کام نہیں کیا جا سکتا۔
میں نے کہا کہ یہ ایک نہایت اہم اور بنیادی بات تھی مگر جماعت اسلامی ہند اس پر نہ چل سکی۔ جماعت اسلامی ہند اگرچہ اسلامی دعوت کا نام لیتی ہے،مگر اس کے ساتھ وہ مسلمانوں کی ان نام نہاد ملّی سرگرمیوں میں بھی شریک ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قومی کشمکش پیدا کرنے والے ہیں۔مولانا مودودی کی رہنمائی اگرچہ بذات خود صحیح تھی،مگر وہ پوری بات نہ کہہ سکے۔معاملہ کے نصف تک ان کی نظر پہنچی،مگر معاملہ کا دوسرا نصف ان کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا۔
ہندوستان میں قومی کشمکش کا ختم ہونا بلاشبہ انتہائی ضروری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کو کون ختم کرے۔ہمارے تمام مسلم قائدین قومی کشمکش کے خاتمہ کا نام لیتے ہیں،مگر وہ چاہتے ہیں کہ دونوں قومیں اس کو ختم کریں،اور یہ یقینی طور پر ناممکن ہے۔اس طرح کی چیزیں جب بھی ختم ہوتی ہیں، یک طرفہ طور پر ختم ہوتی ہیں۔مسلمان اگر یک طرفہ طور پر اپنے تمام جھگڑے ختم کر دیں تو قومی کشمکش بھی ختم ہو جائے گی اور اسلامی دعوت کے لیے موافق ماحول پیدا ہو جائے گا۔لیکن اگر مسلمان یک طرفہ طور پر اس کشمکش کو ختم نہ کریں تو وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔اور نہ یہ ممکن ہے کہ اس ملک میں کبھی اسلامی دعوت کے لیےوسیع موافق میدان پیدا ہو۔
17مارچ1986
پروفیسرکارل سگن(Carl Sagan, b. 1934) ایک ممتاز امریکی فلکیات داں ہیں۔وہ اس وقت نیویارک کی کارنیل یونیورسٹی میں خلائی مطالعہ کے استاد ہیں۔ کارل سگن کا ایک مضمون ہندوستان ٹائمس 15مارچ1986 میں شائع ہوا ہے ،جس کاعنوان ہے:
Are there other planetary systems?
اس مضمون میں انہوں نے دکھایا ہے کہ کائنات کی ساری وسعتوں کے باوجود ابھی تک اس میں ہمارے شمسی نظام کے سوا کسی اور شمسی نظام کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔زبردست زمینی اور خلائی مشاہدات کے باجود ابھی تک سائنس داں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری زمین جیسا کوئی کرہ یا شمسی نظام جیسا کوئی نظام وسیع کائنات میں موجود ہے بھی یا نہیں۔زمین جیسا سیارہ(Earth like Planet) ہماری کائنات کا انتہائی نادر واقعہ ہے۔وہ لکھتے ہیں:
If other planetary systems are absent, we might have to reconcile ourself to a long cosmic loneliness.
اگر دوسرے سیاراتی نظام موجود نہیں ہیں تو ہمیں ایک طویل کائناتی تنہائی پر راضی ہو جانا چاہیے۔
زمین یا سیاراتی نظام کا کائنات میں ایک مستثنیٰ واقعہ ہونا واضح طور پر ارتقائی پیدائش کی تردید ہے۔کوئی استثنائی واقعہ شعوری تخلیق کا نتیجہ ہوتا ہے، نہ کہ اندھے ارتقائی عمل کا نتیجہ۔اندھا ارتقائی عمل لازماً یکسا نیت چاہتا ہے۔اندھے ارتقائی عمل میں اس طرح کا بامعنیٰ استثناء ہر گز ممکن نہیں جیسا بامعنی استثناء ہماری زمین ہے۔
18مارچ1986
مولانا محمدرفیق کانپوری ایم اے،ایل ایل بی، ملنے کے لیے آئے۔وہ آج کل سعودی عرب میں رہتے ہیں۔وہ عجیب وغریب صلاحیتوں کے آدمی ہیں۔وہ کئی زبانیں جانتے ہیں اور بیک وقت روانی کے ساتھ بول سکتے ہیں۔
وہ اپنی زندگی کے مختلف واقعات سناتے رہے۔کبھی اپنا کوئی واقعہ سناتے ہوئے اپنی کوئی گفتگو انگریزی میں دہرانے لگے۔کبھی کسی دوسرے واقعہ کا ذکر ہوا جس میں انہوں نے عربی میں کلام کیا تھا اور وہ اس کو عربی میں نقل کرنے لگے۔پھر انہوں نے اپنی ایک ہندی تقریر کا قصہ بتایا اور اس کے بعد وہ بے تکلف ہندی میں بولنے لگے۔
اسی طرح وہ کبھی اردو میں،کبھی انگریزی میں،کبھی عربی میں اورکبھی ہندی میں بولتے رہے۔ میں نے سوچا کہ انسان کو بھی اللہ تعالیٰ نے کیسی عجیب صلاحیت دی ہے۔ریڈیو پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ہندی نشریات سن رہا تھا اور پھر سوئچ گھما کر انگریزی نشریات سننے لگا۔دوبارہ سوئچ گھمائی تو عربی نشریات سنائی دینے لگیں۔انسانی دماغ بھی گویا اسی قسم کا زیادہ اعلیٰ(superior) ریڈیو ٹیپ ہے۔وہ ایک زبان سے دوسری زبان،دوسری سے تیسری زبان اور تیسری زبان سے چوتھی زبان کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے بغیر اس کے کہ اس میں کوئی تاخیر ہوئی ہو۔
ریڈیو تو بولی ہوئی آواز کو دہراتا ہے،مگر انسان کا دماغ خود اپنے شعور کے تحت مختلف زبانوںمیں کلام کی تخلیق کرتا ہے اور اس کو زبان کے ذریعہ سامنے لاتا ہے۔کیسا عجیب ہے یہ دماغ اور کیسا عجیب ہے وہ خالق جس نے اس دماغ کو خلق کیا۔
19مارچ1986
19مارچ1986 کو میں نے انڈین ایئر لائنز کے ذریعہ دہلی سے پونے کا سفر کیا۔میرا ٹکٹ نمبر0582/8736912تھا۔ یہ ٹکٹ دہلی کے دفتر سے2128 روپیہ میں لیا گیا تھا۔مگر اس کے چند دن بعد انڈین ایئر لائنز نے اعلان کیا کہ 18مارچ سے اس نے اپنی تمام پروازو ں کے کرائے بڑھا دیے ہیں۔یہ ٹکٹ یکم مارچ کو خریدا گیا تھا۔مگر سفر چونکہ 19مارچ کو ہوا اس لیے ہم کو اضافہ شدہ کرایہ مزید ادا کرنا پڑا۔
میں نے سوچا، اگر میں انڈین ایئر لائنز سے شکایت کروں کہ آپ نے ٹکٹ کی خریداری کے وقت مزید رقم کیوں نہ لی تو یہ ایک احمقانہ بحث ہوگی۔کیونکہ کرایہ سفر کی قیمت ہے۔اس لیے کرایہ کا اعتبار وقت سفر کے لحاظ سے ہوگا، نہ کہ وقت خریداری کےلحاظ سے۔
’’یکم مارچ‘‘ کو میں اس ٹکٹ کے ذریعے سفر کرنے کا مجاز تھا۔مگر’’19مارچ‘‘ کو میں اس ٹکٹ کے ذریعے سفر کرنے کا مجاز نہ رہا،الاّ یہ کہ میں اضافہ شدہ رقم ادا کروں۔اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے،چنانچہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میںباربارغلطیاں کرتے ہیں۔وہ پرانے ٹکٹ پر نیا سفر کرنا چاہتے ہیں۔اور جب انہیں سفر کی اجازت نہیں ملتی تو وہ دوسروںکی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔حالاں کہ یہ ظلم نہیں،یہ زندگی کا ایک اصول ہے۔جو لوگ اس کو ظلم کہیں وہ صرف یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت کو نہیں جان سکے۔
20مارچ1986
آج(20مارچ1986) کو مجھے حسب پروگرام پونہ میں درس قرآن دینا تھا۔کئی روز سے میں اس سوچ میں تھا کہ قرآن کے کس حصہ کا درس دیا جائے۔پچھلی رات کو دہلی میں خواب دیکھا کہ بہت سے لوگ کسی مقام پر جمع ہیں اور میں ان کے درمیان قرآن کا درس دے رہا ہوں۔یہ درس سورہ آل عمران کے آخری رکوع(آیات 190-200)کا تھا۔
یہ گویا غیبی اشارہ کے تحت اس بات کا تعین تھا کہ کس حصہ قرآن کا درس دیا جائے۔چنانچہ میں نے مذکورہ رکوع کو عربی تفسیر وںمیں دیکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے تحت صحابہ وتابعین کے بڑے قیمتی اقوال اور واقعات موجود ہیں۔چنانچہ میں نے ان کو نوٹ کر لیا اور ان کے مطابق درس کی تیاری کی۔
جدید نظریہ یہ ہے کہ اس قسم کا خواب لاشعور کا کرشمہ ہوتا ہے۔مگر ایمانی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ خدائی بشارت ہے۔میرے اس طرح خواب کے ذریعہ نہ صرف درس کے لیے رکوع کا تعین آسان ہو گیا،بلکہ خود میرے لیے معرفت کا نیا دروازہ کھلا۔خاص طور پر’’تفسیر ابن کثیر‘‘میں اتنے قیمتی اقوال ملے کہ اس کو پڑھتے ہوئے آنکھیں تر ہو گئیں۔
21مارچ1986
21مارچ کو میں پونا میں تھا۔ایک مجلس میںکچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔گفتگو کے دوران ایک صاحب بولے،جن کا نام آفتاب احمد تھا۔انہوں نے میرے بارے میں اپنی معلومات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’مولانا وحیدالدین صاحب وہ شخصیت ہیں جن کو آج ساری دنیا جانتی ہے۔وہ ایک سفر کے دوران افریقہ کےایک ہوائی اڈہ پر پلین کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔اس ہوائی اڈہ سے لیبیا کے صدر معمر قذافی کا گزر ہوا۔ان کو معلوم ہوا کہ مولانا یہاں ہوائی اڈہ پر ہیں تو ہوائی جہاز سے اتر کر مولانا کے پاس آئے اور عقیدت مندی کے ساتھ ملاقات کی‘‘۔
جناب آفتاب صاحب نے مذکورہ بات عین میری موجودگی میں کہی۔انہیں اپنے اس بیان پر صد فیصد یقین تھا۔حالاں کہ یہ سراسر بے بنیاد واقعہ ہے۔اس قسم کا کوئی واقعہ میرے ساتھ کبھی پیش نہیں آیا۔اس بیان میں کوئی ادنیٰ صداقت بھی نہیں ہے۔
میرے ساتھ اس طرح کےدوسرے بہت سے واقعات گزرے ہیں جن سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوںکہ بزرگوں کی بابت جو قصے کہانیاں عام طور پر مشہور ہیں یا کتابوں میں درج ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔یہ وہی بات ہے جس کو کسی نے اپنے فارسی مقولہ میں اس طرح بیان کیا ہے:
پیراں نمی پرند مریداں می پرانند
یعنی، پیر نہیں اڑتے بلکہ مرید ان کو اڑاتے ہیں۔ عقیدت مند لوگ اپنی صاحب عقیدت شخصیت کے بارے میں بطور خود افسانے بنا لیتے ہیں اور اس کو لوگوں سے بیان کرنے لگتے ہیں۔یہ افسانے بعد کے زمانہ میں مقدس ہو کر اس طرح مان لیے جاتے ہیں جیسے کہ وہ واقعہ ہوں۔
22مارچ1986
پونا میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔وہ انگریزی تعلیم یافتہ ہیں اور سائنس سے دلچسپی رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں قرآنی تفسیر کے بارے میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔میری بہت سی تحقیقات ہیں جو میں نے قرآن اور سائنس کے بارے میں کی ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ اس کو قلم بند کروں۔
میں نے پوچھا کہ کوئی تحقیق بطور مثال بتائیے۔انہوں نے قرآن کی سورۃ الہمزہ کی یہ آیت پڑھی:كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ(104:4)۔اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے:ہرگز نہیں، وہ ضرور پھینکا جائے گا روندنے والی جگہ میں۔
انہوں نے کہاکہ لوگ اس آیت کو سمجھ نہیں سکے۔یہاں حطمہ سے مراد ایٹم ہے۔’’وہ حطمۃ میں پھینکا جائے گا‘‘ کا مطلب ہے وہ ایٹم میں پھینک دیا جائے گا۔یعنی ایٹمی بھٹی میں۔چونکہ حطمۃ اور ایٹم میں صوتی مشابہت ہے اس لیے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ حطمۃ سے مراد ایٹم ہے۔
انہوں نے بڑے جوش اور یقین کے ساتھ اپنی یہ تفسیر بیان کی اور میں یہ سوچتا رہا کہ جوش اور یقین بھی کیسی عجیب چیز ہے،وہ ایسی باتوں پر بھی پیدا ہو سکتا ہے جس کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہ ہو۔
موجودہ زمانہ میں اس قسم کے بہت سے نام نہاد مفسرین پیدا ہو گئے ہیں جو بزعم خود قرآن کی سائنسی تفسیر کر رہے ہیں۔ان کی اسی قسم کی بے معنی باتوں کی وجہ سے دینی طبقہ کو سائنسی تشریح کے لفظ سے چڑھ ہو گئی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ سائنسی تشریح مذکورہ قسم کی باتوں کا نام ہے۔حالاں کہ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے جاہلانہ تشریح ہے، نہ کہ سائنسی تشریح۔
23مارچ1986
آج ایک صاحب ملنے کے لیے تشریف لائے۔وہ جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔نیز جماعت اسلامی کے شعبہ تصنیف وتالیف سے وابستہ ہیں۔ اسلام کے موضوع پر ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے امت مسلمہ کا نصب العین حکومت الٰہیہ کا قیام بتایا ہے۔مگر یہ نصب العین کسی بھی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں ہوتا ۔
میں نے کہا، اس میں شک نہیں کہ آپ حضرات نے اس کے حق میں بہت سی دلیلیں دی ہیں،مگر وہ سب کی سب استنباطی ہیں اور استنباطی دلیل اس معاملہ میں قابل اعتبار نہیں۔
میں نے کہا کہ فقہاءنے استدلال کے چار طریقے بتائے ہیںعبارت النص،اشارۃ النص، دلالۃ النص اور اقتضاء النص۔مگر یہ چار حقیقتاً صرف دو ہیں۔ایک براہ راست استدلال (direct argument) اور دوسرا بالواسطہ استدلال(indirect/inferential argument)۔اب دینی امور کے دو حصے ہیں۔ایک کلیاتِ دین (basics of religion) اور دوسرا جزئیاتِ دین (nonbasics of religion)۔ بالواسطہ استدلال یا بالفاظ دیگر استنباطی استدلال صرف جزئیاتی امور میں کارآمد ہے۔جہاں تک کلیات دین کا تعلق ہے اس میں صرف براہ راست استدلال ہی قابل اعتبار ہے۔کلیاتِ دین (مثلاً خدا ایک ہے) کو براہ راست استدلال سے ثابت ہونا چاہیے۔ اگر وہ استنباطی استدلال سے ثابت ہو تو وہ ثابت ہی نہیں ہوا۔
میں نے کہا کہ آپ حضرات کے تمام استدلالات استنباطی ہیں۔مگر نصب العین جیسے معاملہ میں استنباطی استدلال معتبر نہیں۔مثلاً مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے’’تفہیم القرآن‘‘ میں ’’ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ‘‘ کی آیت کے تحت کئی صفحات لکھے ہیں۔مگر وہ سب کے سب استنباطی نوعیت سے تعلق رکھتے ہیں۔میں نے کہا کہ اگر آپ کو اس سے اتفاق نہ ہو تو مجھے کوئی ایک ایسی کتاب یا مضمون بتائیے جس میں اس معاملہ کو براہ راست استدلال سے ثابت کیا گیا ہو۔مگر وہ کسی ایسی کتاب یا مضمون کا حوالہ نہ دے سکے۔تعجب ہے کہ اس علمی افلاس کے باوجود لوگوں کایقین برہم نہیں ہوتا۔
24مارچ1986
ممبئی سے شائع ہونے والے مرہٹی اخبار ’’ترون بھارت‘‘ میں شیو سینا کے لیڈر مسٹر بال ٹھاکرے کا ایک بیان شائع ہوا ہے۔اس کا اردو ترجمہ پندرہ روزہ ’’حالات‘‘(بھیونڈی) نظر سے گزرا۔
مسٹر بال ٹھاکرے نے کہا کہ مسلمان مطلقہ عورت کے معاملہ میں اسلامی شریعت کے قانون کا نفاذ چاہتے ہیں۔ہماری رائے ہے کہ ان پر ہر معاملہ میں اسلامی شریعت نافذ کر دی جائے۔پاکستان اور عرب ملکوں میں جرائم کے اوپر اسلامی سزائیں دی جاتی ہیں۔مسٹر بال ٹھاکرے نے مشورہ دیا کہ یہی ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے لیے کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ شریعت کے مطابق وہ مسلمان چوروں کے ہاتھ کاٹ دے،مسلمان زانی کو سنگسار کرے اور مسلمان شرابی کوکوڑے مارے، وغیرہ۔مسلمانوں کے لیے اس قسم کے جرائم پر وہی سزا مقرر کی جائے جو ان کی شریعت میں مقرر ہے۔
مسٹر بال ٹھاکرے کی یہ بات تجویز نہیں بلکہ طنز ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ واقعتاً یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان مطلقہ عورت کو گزارہ نہ دینے کے لیے زبردست مطالبہ کر رہے ہیں اور اس کے لیے بہت بڑے پیمانے پر متحد ہو گئے ہیں۔لیکن یہی مسلمان اس وقت بھاگ کھڑے ہوں گے جب یہ کہا جائے کہ آئندہ سے مسلم مجرمین کو شریعت کے مطابق کوڑا مارا جائے گا اور سنگسار کیا جائے گا اور ان کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔مسلمانوں کا موجودہ متحدہ مطالبہ صرف اس لیے ہے کہ خود ان کے اوپر اس کی زد نہیں پڑ رہی ہے لیکن اگر ان کو اپنی پیٹھ کے لیے بھی کوڑے کا خطرہ ہو اور ہاتھ کٹنے اور سنگسار کیے جانے کا اندیشہ ہو تو یہ متحدہ مطالبہ اچانک ختم ہو جائے گا۔
کیسے عجیب ہیں وہ مسلمان جنہوں نے اپنی نادان سیاست سے اسلام کو دوسروں کی نظر میں مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔
26مارچ1986
ڈاکٹر این ۔جے۔خان(پیدائش 1932ء) انگلینڈ میں میڈیکل پریکٹس کرتے ہیں۔آج وہ ملاقات کے لیے آئے۔ان سے بہت سی دلچسپ اور مفید باتیں معلوم ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان میں ان کے والد صاحب کے زمانہ سے خاندانی اجتماع کا نظام قائم ہے۔خاندان کے افراد وقفہ وقفہ سے ایک گھریلو اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اجتماع کا صدر وہ شخص ہوتا ہے جو عمر میں سب سے زیادہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے گھر میں کوئی جھگڑا نہیں۔ہمارے یہاں بھی خاندان کے ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان وقتی شکایتیں ہوتی ہیں مگر وہ بڑھنے سے پہلے ختم ہو جاتی ہیں۔کیوں کہ خاندانی اجتماع میں لوگ اپنی ہر بات کو کھلے طور پر بیان کرتے ہیں۔اس کے بعد اجتماع کا صدر (گھرکا بڑا) جو فیصلہ کرتا ہے،اس کو سب لوگ بلا بحث مان لیتے ہیں۔
مزید سوالات کے بعد انہوں نے بتایا کہ اس نظام کو کامیابی کے ساتھ چلانے کا خاص راز ہے— ریزن کے سامنے سر جھکا دینا اوراپنی غلطی کو فوراً مان لینا۔
انہوں نے کہا کہ میں اس کو سب سے بڑا انسانی کیریکٹر سمجھتا ہوں۔مجھے ڈاکٹر خان صاحب کی یہ بات بہت پسند آئی۔حقیقت یہ ہے کہ اگر ہر خاندان میں اس قسم کا نظام قائم ہو جائے تو تمام خاندانی جھگڑے اپنے آپ مٹ جائیں گے۔
ڈاکٹر خان صاحب کی شادی1959ء میں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میرے والد نے ایک روز 11بجے رات کو مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔انہوں نے کہا کہ میں تمہارا نکاح کرنا چاہتا ہوں۔یہ بتاؤ کہ تم گھر کا چراغ چاہتے ہو یا شمع محفل۔انہوں نے جواب دیا کہ میں شمع محفل لے کر کیا کروں گا۔مجھ کو تو گھر کا چراغ چاہیے۔اس کے بعد ان کے والد صاحب نے اپنے انتخاب سے ایک خاتون کے ساتھ ان کا نکاح کر دیا۔کاش یہی اسپرٹ ہمارے تمام نوجوانوں میں پیدا ہو جائے۔
27مارچ1986
آج دو صاحبان ملنے کے لیے آئے۔دونوں وکیل ہیںاور دینی مزاج رکھتے ہیں۔انہوں نے مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کی کتاب’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ کا ذکر کیا۔میں نے کہا کہ یہ کتاب مولانا مودودی کے فکر کی تردید میںلکھی گئی ہے۔مگر عملاً وہ اس فکر کی تردید نہیں، بلکہ تصدیق بن گئی ہے۔یہ کتاب ایک مضبوط کیس کی کمزور وکالت ہے۔
میں نے کہا کہ اس وقت عالم اسلام میں بنیادی طور پر دو قسم کے دینی فکر پائے جاتے ہیں۔ایک تبلیغی جماعت کا دینی فکر اور دوسرا ابوالاعلیٰ مودودی کا دینی فکر۔جس میں،میں مولانا علی میاں کوبھی شامل سمجھتا ہوں۔مولانا علی میاں کا فکر بدلے ہوئے الفاظ میں مولانا مودودی ہی کا فکر ہے۔
میں نے کہا کہ سوچنے کے دو طریقے ہیں— ایک انقلاب فرد اور دوسرا انقلاب نظام۔تبلیغی فکر کے مطابق دینی دعوت کا اصل نشانہ یہ ہے کہ فرد کے اندر انقلاب پیدا کیا جائے گا۔مودودی فکر کے مطابق دینی دعوت کا نشانہ یہ ہے کہ نظام کےاندر انقلاب لایا جائے۔
انقلابِ نظام کا فکر سراسر غیر دینی ہے۔مگر بدقسمتی سے مولانا علی میاں کا فکر بھی بنیادی طور پر یہی ہے۔اور اگر یہ نہ ہو تو وہ یقینی طور پر غیر واضح ہے۔دین کا اصل کام یہ ہے کہ فرد کے اندر فکریانقلاب پیدا کیا جائے۔فرد کے اندر خدا پر یقین اور آخرت کی فکر پیدا کیا جائے۔تبلیغی جماعت اصلاً یہی کام کر رہی ہے اور بلاشبہ یہی کرنے کا اصل کام ہے۔
انفارمل ایجوکیشن
موجودہ زمانے میں مختلف رہ نماؤں نے فارمل ایجوکیشن کے بڑے بڑے تعلیمی ادارے بنائے۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ اِن اداروں میںملّت کے نوجوانوں کو تربیت دے کر ایک ترقی یافتہ نسل بنا سکیں گے۔ مگر یہ تمام خواب منتشر ہو کر رہ گئے۔ کوئی بھی ادارہ مطلوب نئی نسل کو وجود میں لانے کا ذریعہ نہ بن سکا۔ ایسا صرف اِس لیے ہوا کہ یہ منصوبہ غیر فطری تھا، اور کوئی بھی غیر فطری منصوبہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب ہونے والا نہیں۔
ایجوکیشن کی دو قسمیں ہیں، فارمل ایجوکیشن اورانفارمل ایجوکیشن۔میرا تجربہ ہے کہ صرف فارمل تعلیم ، علم کے حصول کے لیے کافی نہیں۔ خواہ وہ سیکولر تعلیم ہو یا دینی مدرسے کی تعلیم۔ جو فارمل تعلیم اداروں میں ہوتی ہے،اس میں آدمی کسی دوسرے کی بتائی ہوئی باتوں کا علم حاصل کرتا ہے۔ مگر علم کا خزانہ اس سے بہت زیادہ ہے، جتنا کہ کسی بتانے والے نے آپ کو بتایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی فارمل ایجوکیشن کے بعد خود مطالعہ کرے۔ خود مطالعے سے آدمی ، خود دریافت کردہ علم کو حاصل کرے گا۔ اور خود دریافت کردہ علم ہی سے آدمی کو حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اس سے انسان مسائل پر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے۔یہ لوگ معاملات کو گہرے انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں۔فکروفہم ان کی غذاہوتی ہے۔وہ کسی بات کو اسی وقت مانتے ہیں جب کہ اس کو ان کی فکری سطح پر قابل فہم بنا دیا گیا ہو۔
الرسالہ مشن کی حیثیت انفارمل ایجوکیشن کی ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن پائے ہوئے لوگوں کو انفارمل ایجوکیشن مہیا کی جائے، تاکہ ان کے اندر آرٹ آف تھنکنگ پیدا ہو۔ دونوں طریقوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ دونوں تعلیمی طریقے ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصہ (complementary part) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں طریقوں کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔مثلاً مدرسے کی تعلیم سے اگر دین کا روایتی علم حاصل ہوتا ہے تو انفارمل ایجوکیشن کے ذریعہ آدمی دور جدید سے واقفیت حاصل کرتا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ کسی انسان کے لیے دونوں ہی ضروری ہے۔
کیسا عجیب اسلام
ایک مسلم ملک کا واقعہ ہے۔وہاں’’ اسلامی انقلاب‘‘ آیا۔ اس کے بعد اس ملک میں جو نئی تبدیلیاں آئیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں کے پبلک مقامات کی سیٹرھیوں پر امریکا، روس اور اسرائیل کے جھنڈوں کی تصویریں بنائی گئیں ، تاکہ لوگ ان کو روند کر عمارتوں میں داخل ہوں۔ (کوثر، بنگلور، رمضان 1404ھ)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کون سا دین ہے جس کو موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے دریافت کیا ہے۔ وہ نفرت کا دین ہے۔ ان کے نز دیک اسلام کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مفروضہ دشمنان اسلام کی انا (ego) کو ٹھیس پہنچائی جائے۔اگرابتدائی اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو رسول اللہ کا طریقہ اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو کسی کام سے بھیجتے تو یہ نصیحت کرتے تھے:بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1732)۔ یعنی، لوگوں کو بشارت دو،ان کو ناگواري میں نہ ڈالو، ان کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرو، سختی کا نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا اسلام یہ تھا کہ انھوں نے لوگوں کی خیر خواہی میں ان کے لیے دعائیں کیں۔ وہ اس لیے تڑپے کہ لوگ ہدایت کو قبول کر کےاللہ کی جنت میں داخل ہوں ۔ انھوں نے اپنے دشمنوں سے بھی محبت کا سلوک کیا تاکہ ان کا دل اسلام کے لیے نرم ہو۔انھوں نے بگڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ تالیف قلب کا معاملہ کیا تاکہ ان کی فطرت کو جگایا جاسکے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم قائدین نے ایک ایسا اسلام دریافت کر رکھا ہے جو انسانوں کو اسلام سے مزید دور کردیتا ہے۔
آج کی دنیا میں اسلام کے نام پر دوسروں سے نفرت کرنے والے بہت ہیں مگر اسلام کے لیے دوسروں سے محبت کرنے والا کوئی نہیں۔ اسلام کے نام پر جھنڈا اٹھانے والے بے شمار ہیں مگر کوئی اللہ کا بندہ ایسا نہیں جو اسلام کے لیے اپنے جھنڈے کو نیچا کر لے۔ اسلام کے نام پر دوسروں سے لڑنے والے ہر طرف دکھائی دیتے ہیں مگر اسلام کے لیے صلح کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اسلام کے نام پر بولنے والوں سے خدا کی زمین بھر گئی ہے مگر وہ انسان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا جو اسلام کی خاطر چپ ہو گیا ہو۔اسلام کے نام پر لوگوں کو پیروں سے روندنے والے بہت ہیں مگر خدا کا وہ بندہ کہیں دکھائی نہیں دیتا جو اسلام کی خاطر لوگوں کو اپنےسینہ سےلگا لے۔
بے خبری کا مسئلہ
قدیم زمانے میں ملکی اعتبار سے کوئی مسلّمہ سرحدی حد بندی موجود نہ تھی۔ اس کی وجہ سے دنیا میں وہ کلچر رائج تھا، جس کو ایک قدیم فارسی شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:ہَر کِہ شَمشیر زَنَد سِکَّہ بَنَامَش خَوَانَندْ (جو شخص تلوار چلاتا ہے، اُسی کے نام کا دنیا میں سکہ چلتا ہے)۔ اس کلچر نے عملاً دنیا میں ایک قسم کی انارکی قائم کررکھی تھی۔ دنیا میں مسلّمہ اصول کی بنیاد پر قائم شدہ سرحدیں موجود نہ تھیں۔اس بنا پر قدیم دنیا میں کبھی کوئی بڑی ترقی نہ ہوسکی۔ کیوں کہ دنیا میں جغرافی استحکام (stabiliy) موجود نہ تھا، اور استحکام کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔
پهلي جنگِ عظیم (1914-1918ء) کے بعد دنیا کے مدبرین نے اس مسئلے پر سوچنا شروع کیا۔ اس سوچ کا یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا میں جغرافی حدبندی کا تصور رائج ہوا، جس کو مبنی بر وطن قومیت (Nation State) کہا جاتا ہے۔ اس اصول کو عملاً تمام ملکوں میں تسلیم کرلیا گیا۔ لیکن اس معاملے میں مسلم لیڈروں کا استثنا ہے، جو اس معاملے میں عدم وضوح کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ مثلاً جمال الدین افغانی، امیر شکیب ارسلان، محمد اقبال، اور سید ابوالاعلیٰ مودودی، وغیرہ۔ اس لیے وطنی قومیت کا تصور مسلمانوں میں ڈیولپ نہ ہوسکا۔
راقم الحروف کے نزدیک پهلي جنگ عظیم نے ایک جبر (compulsion) پیدا کیا۔ اس کی وجہ سے مبنی بر وطن قومیت کا تصور رائج ہوا۔ یہ بلاشبہ ایک جغرافی نعمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر اس زمانے میں مسلم لیڈروں میں اینٹی برٹش سوچ کا غلبہ تھا۔ اس منفی سوچ کی بنا پر مسلم لیڈر وطنی قومیت کے بارے میں بھی بروقت کوئی فیصلہ نہ لے سکے۔اور مسلمانوں میں وطنی قومیت کا مسئلہ ایک ناپسندیدہ تصور کی حیثیت سے رائج ہو گیا۔ آج مسلمان اسی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ان کی قومی وفاداری آج کل ہر جگہ مشکوک سمجھی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں غالباً مولانا حسین احمد مدنی تھے، جنھوں نے کہا تھا کہ فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ لیکن ان کے شاگردوں نے ان کی وفات کے بعد یہ اعلان کرکے ان کی بات کو غیر موثر بنا دیا کہ حضرت نے یہ بات بطور خبر کہی تھی، بطور انشاء نہیں ۔
جغرافی حد بندی کے بعد ایک اور مسئلہ باقی تھا۔ وہ تھا ، عالمی امن (world peace) کا مسلّمہ اصول۔ یہ مسئلہ دوسری جنگ عظیم کے ذریعے طے ہوا۔ دوسری جنگ عظیم (1939-1945ء) نے ہتھیار کا نیا تصور قائم کیا۔وہ تھا ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن(weapons of mass destruction)۔ یعنی دنیا میں جو ہتھیار رائج ہوئے، وہ عمومی تباہی کے ہتھیار تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب ایسے ہتھیار بن گئے، جو دو طرفہ تباہی کرتے تھے۔ یعنی آپ دشمن کو ماریں، تو آپ خود بھی اس کا شکارہوتے ہیں۔
اس صورتِ حال نے دوبارہ لوگوں کے اندر یہ سوچ پیدا کی کہ اب جنگ ایک ایسی چیز ہے، جس میں کسی فریق کو کوئی فائدہ نہیں۔ اس صورتِ حال نے یہ عالمی ذہن پیدا کیا کہ اب جنگ کا دور ختم ہوچکا ہے۔ کیوں کہ جنگ کسی کے لیے مفید نہیں ہے۔ برطانیہ کے سابق پرائم منسٹر چمبرلین (1869-1940ء) نے کہا تھا کہ جنگ میں کوئی بھی سائڈ اپنے آپ کو فاتح کہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگ میں کوئی جیتنے والا نہیں ہے ، تمام لوگ ہارنے والے ہیں:
In war, whichever side may call itself the victor, there are no winners, but all are losers.
سابق امریکی صدر لنڈن بی جانسن (1908-1973ء)نے اس سنگین حقیقت کو اس طرح بیان کیا تھاکہ جدید جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے، صرف بچ جانے والے ہیں:
In modern warfare there are no victors; there are only survivors.
اس طرح عالمی جنگ اول اور عالمی جنگ ثانی دونوں نے ایسا کمپلشن (compulsion)پیدا کیا، جس نے لوگوں کو اس اصول کو ماننے پر مجبور کیا کہ اب جنگ بند کرو۔ کیوں کہ جنگ میں کوئی جیتنے والا نہیں ہوگا۔ سب ہارنے والے ہوں گے۔ اس طرح پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں ٹریویل ڈکومنٹ کا اصول رائج ہوا۔ یعنی جس کے پاس پاسپورٹ اور ویزا ہو، اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ یہ دونوں اصول دعوت الی اللہ کے مشن کے لیے بے حد مفید تھے۔ اس اصول کے رواج نے پہلی بار دنیا میں عالمی دعوت کے امکان کو واقعہ بنایا۔ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے اس اصول کو اپنے انٹرسٹ کے لیے جانا، لیکن دعوت الی اللہ کے لیے اس کی اہمیت کو وہ نہ سمجھ سکے۔ یہ بلاشبہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی بے خبری ہے۔
گرین لینڈ، ایک وارننگ
اٹلانٹک اور آرکٹک کے درمیان واقع گرین لینڈ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ اس کے نزدیک ترین ممالک کینیڈا اور آئس لینڈ ہیں۔ یہ جغرافی طور پر شمالی امریکہ کے براعظم کا حصہ ہے۔ تاہم ، سیاسی لحاظ سے یہ جزیرہ ڈنمارک کا حصہ ہے۔یہ دنیا میں برف پرمشتمل دنیا کی دوسری سب سے بڑی برفانی شیٹ بھی ہے۔اس کے کل رقبے کا 81 فیصد برف کی چادروں سے ڈھکاہوا ہے۔ مگر اب یہاں کی صورتِ حال تبدیل ہورہی ہے۔ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر چھپی ایک رپورٹ (26 جنوری 2019ء) کے مطابق، گذشتہ دو دہائیوں کے درمیان گرین لینڈ میں برف کی چادر میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ 2003ء سے 2013ء تک گرین لینڈ کی برفانی چادر میں چار گنا کمی واقع ہوئی ہے۔ 2004ء سے سن 2013ء کی دہائی میں یہ عمل مسلسل اور شدید تھا جس کی مثال پچھلے 350 برسوں میں کسی ایک دہائی میں نہیں ملتی ہے...تحقیق سے حاصل شدہ نتائج کے مطابق گرین لینڈ کا جنوب مغربی حصہ جو اب تک اس حوالے سے بڑا خطرہ تصور نہیں کیا جا رہا تھا اس کے بارے میں اب یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں سمندر کی سطح بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
کچھ دنوں پہلے ایک اور تشویشناک رپورٹ سامنے آئی ہے۔ گرین لینڈ میں برف کا پگھلنا نہ صرف اوپر سے جاری ہے، بلکہ اندرونی طور پر بھی یہ پگھلاؤ جاری ہے۔ نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گرین لینڈ کی برفانی پرتیں نیچے سے تیزی سے پگھل رہی ہیں اوروہاں پانی جمع ہونے سے پوری آئس شیٹ کا پگھلاؤ تیزی سے بڑھے گا اور اس سے عالمی سمندروں کی سطح مزید اونچی ہوگی۔گرین لینڈ کی برفیلی چادروں کا مجموعی رقبہ 50 ہزار مربع کلومیٹر ہے لیکن ان کی گہرائی معلوم کرنا اب بھی ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کی ماڈلنگ اور نقشہ سازی نہیں کی گئی تھی۔
اب کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں، پال کرسٹوفرسن اور ان کے ساتھیوں نے گرین لینڈ کی برف کی جڑوں کا پگھلاؤ معلوم کرنے کا ایک طریقہ ڈھونڈا ہے۔ انھوں نے لیزر کے ذریعہ اس کی گہرائی اور کیفیت معلوم کی ہے۔پال نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ نیچے جو برف پگھل کر پانی بہہ رہا ہے وہ پرانے اندازہ سے بھی 100 گنا زائد ہے،اور اس کی رفتار براہِ راست دھوپ سے پگھلنے والی برف سے زیادہ تھی۔ اس کی دو وجوہات ہیں ۔ اول، اوپر کا گرم پانی نیچے جمع ہوکر مزید برف پگھلا رہا ہے۔ دوم، قوت کشش سے بھی برف گھل رہی ہے۔ اس تحقیق سے يه نتيجه نكالا گيا هے كه جہاں جہاں آئس لینڈ جیسی برفانی پرتیں ہیں وہاں بھی برف پگھلنے کی رفتار اتنی ہی تیز ہوسکتی ہے۔ (urlty.co/mJTW)
مولانا وحید الدین خاں صاحب گلوبل وارمنگ کے تعلق سے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:’’ یہ صورت حال زمین کے اوپر ہر قسم کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ہوگی۔ کوئی بھی انسانی تدبیر ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گی۔ بالواسطہ یا براہِ راست طورپر اس کا اثر تمام انسانی آبادیوں تک پہنچ جائے گا۔حالات بتاتے ہیں کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے۔‘‘ (الرسالہ، مئی 2008)، اور وہ دن آجائے جب کہ تمام لوگ اپنی زندگی کا حساب دینے کے لیے، قرآن کے الفاظ میں ،خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے (83:6)۔
اس لیے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ انسان اس دن کے آنے سے پہلے اپنے لیے ضروری تیاری کرلے تاکہ وہاں کسی قسم کی ناکامی کا سامنا نہ پیش آئے۔مولانا وحید الدین خاں صاحب لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی عیسوی میں کہا تھا کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ انسان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے ( صحیح البخاری،حدیث نمبر 6505)۔ گلوبل وارمنگ کا ظاہرہ بتاتا ہے کہ یہ فاصلہ اب ختم ہوچکا ہے۔ جدید سائنس جس موسمیاتی تبدیلی (clamatic change) کی خبر دے رہی ہے، وہ تبدیلی سائنس دانوں کے بیان کے مطابق، اب اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس کو دوبارہ الٹی طرف لوٹانا ممکن نہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان اپنے آپ کو بدلے۔حالات کی یہ خاموش پکار ہے کہ انسان اپنے آپ کو درست کرلے، اِس سے پہلے کہ اپنے آپ کو درست کرنے کا موقع اس کے لیے باقی نہ رہے (دیکھیے:الرسالہ جولائی 2008) ۔ ڈاکٹر فریدہ خانم، نئی دہلی
استطاعت کا اصول
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جو احکام ہیں ، وہ سب کے سب ’’استطاعت‘‘ پر مبنی ہیں۔ یعنی خدا کے دین میں عمل بقدر استطاعت کا اصول ہے۔ استطاعت سے زیادہ کا مکلف بنانا اللہ کا طریقہ نہیں(البقرہ،2:286 ؛ التغابن،64:16)۔ یہ اصول فرد (individual) کے لیے بھی ہے، اورسوسائٹی کے لیے بھی۔
فقہاء کا اتفاق ہے کہ دینی عمل کی ادائیگی کی شرط استطاعت ہے(اتفق الفقهاء على أن الاستطاعة شرط للتكليف)۔ لہٰذا جو انسان کسی عمل کو انجام دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اس کے اوپراس عمل کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ اصول قرآن و سنت کے بہت سارے نصوص سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن (2:286) میں اللہ تعالی کا فرمان ہے اللہ کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت کے مطابق (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، جلد 3، صفحہ 330)۔
استطاعت کا مطلب ہے— کسی خاص عمل کی انجام دہی کےلیے انسان میں جسمانی یا ذہنی کام کو کرنے کی صلاحیت یا قوت یا طاقت کا موجود ہونا:
An aptitude or ability for a particular activity,
capacity or power to do a physical or mental thing.
مسلم علما کے نزدیک استطاعت کا مطلب ہے کہ انسان کسی چیز کو جان یا مال کے ذریعے سے کرنے پر قادر ہو۔ یہ حالت بدلتی رہتی ہے، لوگوں کے حالات کے بدلنے سے، اور نتائج کے بدلنے سے ( المستطيعُ هو القادِرُ في مالِه وبَدَنِه، وذلك يختلِفُ باختلافِ أحوالِ النَّاسِ، واختلافِ عوائِدِهم)الموسوعة الفقهية للسقاف، جلد2، صفحہ44۔
’’عمل بقدر استطاعت‘‘ کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ زندگی کا یہی واحد فطری اصول ہے۔ انسان جب دنیا میں کوئی عمل کرنا چاہتا ہے تو یہ ہمیشہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہوتاہے۔انسان اتنا ہی کرسکتاہے، جتنا خارجی حالات اس سے موافقت کریں۔ خارجی حالات کی موافقت کے بغیر انسان کوئی کام نہیں کرسکتا۔
اسی طرح فرد اور اجتماع کا معاملہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں تک فرد کا تعلق ہے، اس کے ذاتی معاملات پر اس کو پورا اختیار ہوتا ہے۔ ایک فرد کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے جس چیز کو درست سمجھے، اس کو مکمل طور پر اختیار کرے۔ مثلاً اپنی حیثیت کے مطابق عادل بننا ہر آدمی کے اپنے اختیار کی چیز ہے۔ اس کے برعکس، سماجی سطح پر عدل کا نظام قائم کرنا پورے سماج کا معاملہ ہے۔ پہلی چیز فرد کے ذاتی اختیار پر منحصر ہے، اور دوسری چیز سماج کے مجموعی اختیار پر۔
ایک شخص کی ذمہ داری صرف اسی قدر ہے جو اس کے بس میں ہو۔ جو چیز اس کے بس میں نہ ہو، اس کی ذمہ داری بھی اس پر نہیں۔انسان کسی عمل کے وقت جتنی استطاعت رکھے گا،خدا کے نزدیک اتنا ہی وہ اس عمل کا مکلف ہوگا۔ مثلاً عام حالات میں وضو کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے، مگر آدمی جب بیمار ہو یا وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔
اجتماع کا معاملہ فرد کے برعکس ہے۔ اجتماعی یا سماجی معاملہ ہمیشہ کئی لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ سماج کے معاملے میں وہی طریقہ چل سکتا ہے، جس پر سب کا اتفاق ہو۔ اس کے برعکس کوئی طریقہ اگر خارجی طور پر کسی کی طرف سے سماج کے اوپر نافذ کیا جائے تو لازماً لوگوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوجائے گا۔ ایسے موقع پر سماج کے اندر پہلے اختلاف آئے گا، پھر ٹکراؤ آئے گا، پھر نفرتیں بڑھیں گی، اور پھر آخر میں تشدد (violence) کی نوبت آجائے گی۔ گویا مطلوب چیز تو حاصل نہ ہوگی، البتہ اس کا برعکس نتیجہ فساد کی صورت میں سامنے آجائے گا۔ یہ حقیقت ایک حدیث رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے:مِنْ حُسْنِ إِسْلامِ الْمَرْءِ، تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (مسند احمد، حدیث نمبر 1737)۔ یعنی آدمی کا حسنِ اسلام یہ ہے کہ وہ اُس عمل کو ترک کردے جو بے نتیجہ ثابت ہونے والا ہو۔
اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ فرد اور اجتماع دونوں کے تقاضے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔ فرد کے لیے اس کے ذاتی دائرہ میں معیار کا اصول ہو، اور اجتماع کے لیےاستطاعت (قابلِ عمل) کا اصول۔ اس فارمولے کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Idealism at the individual level, pragmatism at the social level.
استطاعت کے اصول کو آج کی زبان میں نتیجہ رخی عمل (result-oriented action) كها جاسکتا ہے۔ (مولانا فرہاد احمد)
خبرنامہ اسلامی مرکز– 280
1۔ 29-30اپریل 2023 کو نئی دہلی کے ہوٹل دی لیلا امبینس میں سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی کے زیر اہتمام پیس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ تمام سی پی ایس ممبران اسلام کی پرامن تعلیم کو دنیا کے ہر حصے میں پہنچائیں۔مولانا وحید الدین خاں صاحب کے بعد سی پی ایس انٹرنیشنل کی یہ پہلی کانفرنس تھی۔اس میں الرسالہ مشن کے تحت کام کرنے والے نیشنل اور انٹرنیشنل چیپٹرز کے داعیوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حصہ لیا، اور کانفرنس کے بعد ایک نئی انرجی کے ساتھ واپس ہوئے۔ تمام لوگوں نے یہ عہد کیا کہ وہ مولانا صاحب کے بعد امن اور اسپریچولٹی کے اس مشن کو نئی اسپرٹ کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔کانفرنس کی کارگزاریوں کو جاننے کے لیے سی پی ایس انٹرنیشنل کے آفیشل یوٹیوب اور فیس بک پیج کو وزٹ کیا جاسکتا ہے۔
2۔ مولانا وحیدالدین خاں صاحب کے ذریعہ دنیا کے بے شمار لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے۔ ذیل میں ایسے کچھ تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
=2015ءسے میں نے مولانا وحیدالدین خاں کو سننا شروع کیا، ان کی ہفتہ وار کلاسوں کو جوائن کیا۔کیوں کہ مولانا کی کلاس مجھے سب سے منفرد نظر آئی۔ مولانا کا مشن ایک الگ مشن تھا۔ آج کے دور میں ہر کوئی اپنے آپ کو درست ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے لیکن مولانا نے ہمیں یہ سکھایا کہ سب سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنی غلطی کو مانے۔مولانا ایک انقلابی اور ایک روحانی انسان تھے۔ آپ نے خدا شناسی اور تزکیہ نفس پر بہت زور دیا۔یہ بتایا کہ موت کے بعد کی زندگی اور اللہ تعالی سے ملاقات کا شوق ہمیں معرفت سے قریب کرتا ہے۔ہم لوگ اندھیروں میں تھے۔ یہ کہہ لیجیے کہ فضول کاموں میں مصروف تھے۔ لیکن مولانا سے جڑنے کے بعد ہمیں حقیقی معنوں میں خدا کی پہچان کا موقع ملا۔ مولانا نے ہمیشہ انسان کو غور و فکر کا حکم دیا اور کائناتی نشانیوں کے ذریعہ خدا کو سمجھنے اور اس کو تلاش کرنے کے بارے میں بتایا۔ مولانا کی آواز ایک منفرد آواز تھی جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی، مولانا کا کام ہمیشہ انسان کو غور و فکر کی طرف لے جاتا رہے گا ۔ ( سید محمد حسیب شاہ نقوی، سرگودھا)
= It was the month of Ramadan 2019, I was a first year student. I watched one of Maulana Wahiduddin Khan's videos on Facebook. This gave me a kind of inner inspiration and peace. Since then I am following and supporting the work of Maulana Wahiduddin Khan. Maulana Wahiduddin Khan was a mentor for me as well as for the world. He has taught me the real meaning of life. Through his books and videos, I have learnt many things, such as spiritual development, the art of life management, peace, right way of thinking, modesty and patience. He has rendered a great service in the form of Islamic literature. May Almighty Allah rest his soul in peace and grant us the strength to follow him and be a part of his Dawah mission. (Sami Khan, Quetta, 21st April, 2023)
3۔ کتاب ’’اسباق تاریخ‘‘ پر تبصرہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتاب ’’اسباق تاریخ ‘‘ اُن متفرق مضامین کا مجموعہ ہے جو ماہ نامہ الرسالہ میں چھپتے رہے ہیں۔اس کتاب میں بیان کردہ تاریخی واقعات مختلف زمانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا کی اس تصنیف کا مقصد تاریخ سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنا ہے۔ عموما ً ہم تاریخ کا مطالعہ جذبۂ فخر کی تسکین کے لیے کرتے ہیں۔ جب کہ ایام گزشتہ کا مطالعہ عبرت پذیری اورسبق آموزی کے لیے ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں تاریخی واقعات سبق آموزی کے لیے بیان ہوئے ہیں۔ زیر نظرکتاب میں مصنف نے تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ انداز فکر زندگی کی تعمیر کا موثر ترین ذریعہ ہے۔
آغازِ اسلام سے لے کر آج تک اسلامی تاریخ پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔اِن کتابوں میں جنگوں کے واقعات اور کامیابیوں کی داستانیں ہیں۔جب کہ اسلام کی تاریخ صرف کشور کشائی تک محدود نہیں ہے۔ اسلام کی تاریخ حقیقی معنوں میں انسانی فکر کے انقلاب کی تاریخ ہے۔اسلام نے اپنی گزشتہ پندرہ صدیوں میں کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بدلیں، زندگی کے ہر شعبہ میں انقلاب برپا کیا۔ ایسی ہمہ گیر تبدیلی شمشیر وسنان سے واقع نہیں ہوسکتی ہے۔یہ تبدیلیاں فرد فرد پرفکری محنت کرکے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔مگرزیادہ تر مورخین نےجنگ و فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ جب کہ اسلام کی اصل طاقت اس کی تلوار نہیں ،بلکہ اس کا امن و محبت کا پیغام ہے۔ اسلامی تعلیمات نے ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی۔ عدل کے پرچم کو بلند کیا۔ انسانیت کو محترم ٹھہرایا۔خالق و مخلوق کے تعلق کو واضح کیا۔ لیکن جنگ و فتوحات کے ذکر میں یہ مثبت تعلیمات ثانوی درجہ میں چلی گئیں۔مولانا وحید الدین خاں نے مذکورہ کتاب میں اسلامی تاریخ کو درست زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کووسیع النظر بناتا ہے اور وہ تاریخ سے جذبۂ فخر حاصل کرنے کے بجائے دانش کشید کرتا ہے۔موجودہ ملکی اور سماجی حالات میں اس کتاب کا مطالعہ بہت سود مند ہے۔ (محمد فاروق، لاہور)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
भविष्यवाणी योग्य चरित्र
क़ुरआन में पसंदीदा बन्दों की विशेषता यह बताई गई है कि वे अपने वादे को पूरा करने वाले लोग हैं, कि वे किसी से वादा कर लें तो उसे ज़रूर पूरा करते हैं. यह बिल्कुल वही नैतिक गुण है, जिसको हमने भविष्यवाणी के योग्य चरित्र (predictable character) कहा है.
जिस तरह लोहे के ऊपर किसी छत को खड़ा किया जाए तो पहले से यह यकीन होता है कि वह छत के बोझ को संभाल लेगा. इसी तरह जब एक इन्सान दूसरे इन्सान से कोई वादा करे तो पहले से यह विश्वास होना चाहिए कि वह ज़रूर उस वादे को पूरा करेगा, वह किसी हाल में भी उससे नहीं हटेगा.
इसी बात को एक हदीस में इस तरह बयान किया गया है कि मुनाफ़िक़ (कपटी झूठा, पाखंडी) आदमी की तीन निशानियां हैं— जब वह बात करे तो झूठ बोले, जब वह वादा करे तो उससे फिर जाए जब उसको अमानत सौंपी जाए तो वह अमानत में खयानत करे.
उपरोक्त तीनों बातें भविष्यवाणी के योग्य चरित्र के ख़िलाफ़ हैं. जब किसी इन्सान से बात की जाती है तो इस विश्वास पर की जाती है कि वह सही बात कहेगा, वह झूठ और ग़लत बयानी से काम नहीं लेगा. अब अगर वह सत्य के विपरीत बोलने लगे तो उसने पूर्वानुमान के विरुद्ध कार्य किया. इसी तरह जब किसी से वचन लिया जाता है तो इस विश्वास पर लिया जाता है कि वह इस वचन पर अडिग रहेगा. अब अगर आदमी अपने वचन से फिर जाए या उसके विरुद्ध काम करने लगे तो उसने अपने बारे में पूर्वानुमान को पूरा नहीं किया. इसी तरह जब कोई अमानत (धरोहर) किसी को सौंपी जाती है तो इसी भरोसे पर सौंपी जाती है कि वह वक़्त पर इसे पूरी तरह लौटा देगा. अब अगर वह समय पर अमानत उसके हक़दार को न लौटाए तो इसका मतलब यह है कि वह भविष्यवाणी के योग्य (या विश्वसनीय) चरित्र का आदमी नहीं है.
क़ायनात अपने भविष्यवाणी के योग्य चरित्र के कारण कामिल (सही प्रामाणिक और सम्पूर्ण) है. इसी तरह इन्सान भी उसी हालत में ‘कामिल’ हो सकता है जब वह भविष्यवाणी के योग्य चरित्र वाला बन जाए.
एक आज़माइश
क़ुरआन में बताया गया है कि अल्लाह ने किसी के सीने में दो दिल नहीं बनाए। (अल-अहज़ाब 4) इससे इन्सान की एक पैदाइशी कमज़ोरी मालूम होती है। वह कमज़ोरी यह है कि इन्सान एक वक़्त में दो चीज़ों पर ध्यान नहीं दे सकता। आदमी सिर्फ़ एक चीज़ को अपने ध्यान का केन्द्र बना सकता है। जब भी वह एक चीज़ पर फोकस ध्यान केन्द्र) करेगा तो दूसरी चीज़ें निश्चित रूप से उसके फोकस से बाहर (out of focus) हो जाएंगी।
इन्सान का यह गुण इन्सान के लिए एक बेहद नाजुक आज़माइश है। अपने हालात या अपनी रूचि के लिहाज़ से वह एक चीज़ को अपनाता है। ‘एक दिल’ वाले स्वभाव की वजह से उसे एक चीज़ सारी चीज़ नज़र आने लगती हैं। बाकी चीज़ें बाहरी तौर पर मौजूद होते हुए भी उसके लिए गैर-मौजूद हो जाती हैं। वह अपनी इस सोच में दृढ़ होता रहता है, यहां तक कि उसी एक चीज़ को वह सब से बड़ी चीज़ समझ लेता है, जिस पर शुरू में उसने अपनी नज़रों को जमाया था।
यह नाजुक और गंभीर स्थिति है, जिसमें हर इन्सान फंसा हुआ है। अपने प्राकृतिक स्वभाव की वजह से चूंकि दूसरी चीज़ें आदमी के फ़ोकस में नहीं होतीं इसलिए बाक़ी चीज़ों की हैसियत उसके लिए ऐसी हो जाती है जैसे उनकी कोई अहमियत नहीं, बल्कि शायद उनका कोई अस्तित्व ही नहीं।
इन्सान की इसी पैदायशी बनावट की वजह से इन्सान के अन्दर वह कमज़ोरी पैदा होती है, जिसके बारे में क़ुरआन में कहा गया है कि शैतान ने लोगों के लिए उनके कामों को उनकी नज़र में खूबसूरत बना दिया है (अन्-नहल 23)। इसी तरह क़ुरआन में है कि लोग नापसंदीदा काम में व्यस्त होते हैं और समझते हैं कि वे बहुत अच्छा काम कर रहे हैं (अल-कहफ़ 104)। दूसरी वजह है कि लोग दीन को टुकड़े-टुकड़े कर देते हैं और फिर अपने आप उसके एक हिस्से को लेकर खुश होते हैं कि वे असली दीन को पकड़े हुए हैं (अर-रूम 32)।
किसी इन्सान के लिए इस तरह की तबाहकुन स्थिति क्यों आती है? इसका कारण उसका यही स्वभाव है। वह जब एक बार किसी चीज़ को अपना लेता है तो इसके बाद ऐसा होता है कि उस एक चीज़ के अलावा दूसरी तमाम चीज़ें अपने आप उसके लिए ओझल (आउट ऑफ फ़ोकस) हो जाती हैं। वह मौजूद होते हुए भी उसके अपने लिए ऐसी बन जाती हैं जैसे कि वे मौजूद ही न हों।
अब आदमी की सारी दिलचस्पी उसकी अपनी अपनाई हुई चीज़ से हो जाती है। अपने विशिष्ट प्रनोविज्ञान के कारण वह इस बनावटी विश्वास में पड़ जाता है कि वह मामले का सिरा पकड़े हुए है। हालांकि उसके हाथ में सिर्फ़ एक ऐसा बेक़ीमत तिनका होता है, जो तूफ़ान के पहले ही झटके में उससे अलग हो जाए।
इसी लिए क़ुरआन में कहा गया है कि हर इन्सान अपने ढंग (तरीके) पर अमल करता है और अल्लाह ही बेहतर जानता है कि कौन शख्स ज़्यादा सही रास्ते पर है (बनी इसराईल 84)। इस आयत से यह बात मालूम होती है कि ऐसा हो सकता है कि एक शख़्स अपने निजी तौर-तरीक़े में अपने आपको पूरी तरह सच्चा समझे पर वह अल्लाह की नज़र में सच्चा न हो। ऐसे लोग आख़िरत में बेक़ीमत हो कर रह जाएंगे।
इन्सान की यह पैदायशी कमज़ोरी जिस तरह आम इन्सान के लिए घातक है उसी तरह वह मुस्लिम समाज के लोगों के लिए भी ‘फ़ित्ना’ है। इस आम आज़माइश के मामले में मुसलमान अपवाद नहीं। मुसलमानों के बीच भी ऐसा हो सकता है कि कुछ लोग दीन के एक पहलू को लेकर उसको अपने ध्यान का केन्द्र बना लें और फिर दीन के दूसरे तमाम तक़ाज़े उनके फ़ोकस से बाहर निकल जाएं। ऐसे लोगों का सारा ध्यान बस एक चीज़ पर जम कर रह जाएगा।
क़ुरआन और हदीस के मापदंड के मुताबिक वह अपने बनाए हुए दीन पर होंगे, पर अपने निजी ज़ेहन के लिहाज़ से वह यही समझेंगे कि वे सच्चाई पर हैं, क्योंकि उनका ज़ेहन उन्हें बता रहा होगा कि उन्होंने दीन के सबसे अहम हिस्से को पकड़ रखा है।
यह एक बेहद नाजुक आज़माइश है, जिसमें हर आदमी फंसा हुआ है। यही वह स्थिति है, जिसके बारे में क़ुरआन हरेक को चेतावनी दे रहा है- कहो, क्या मैं तुमको आगाह करूं कि अपने कर्मों के लिहाज़ से सबसे ज़्यादा घाटे में कौन हैं। वे लोग जिनकी कोशिश दुनिया की ज़िन्दगी में अकारथ हो गई। और वे समझते रहे कि वे बहुत अच्छा काम कर रहे हैं। (अल-कहफ़)।
इस इम्तिहान से बचने का एकमात्र ज़रिआ अपने आपको जांचना (आत्मविश्लेषण) है। यानी अपने स्वभाव को कसौटी न समझना, बल्कि क़ुरआन और सुन्नत को दीन की कसौटी बना कर अपने आपको उस पर जांचते रहना।
एक आयत
रज़ीन ने ज़ैद बिन असलम से रिवायत किया है। वह कहते हैं कि दूसरे ख़लीफ़ा हज़रत उमर बिन खत्ताब रज़ियल्लाहु अन्हु ने एक रोज़ पानी मांगा। उनके पास एक प्याले में पानी लाया गया, जिसमें शहद मिला हुआ था। हज़रत उमर ने कहा कि यह अच्छा है। मगर मुझे क़ुरआन की आयत (अल-अहकाफ़ 20) याद आती है जिसमें बताया गया है कि क़ियामत में कुछ लोगों से कहा जाएगा कि तुम अपनी अच्छी चीज़ें दुनिया में ले चुके। अब आख़िरत की अच्छी चीज़ों में तुम्हारा कोई हिस्सा नहीं। मुझे डर है कि यह वही न हो। हज़रत उमर ने कहा और प्याला पिए बग़ैर वापस कर दिया।
ऊपर वाली आयत के तहत अक्सर ‘तफ़्सीरों में इस तरह के वाक़ियात दर्ज होते हैं। इससे कुछ लोगों ने यह असर ले लिया गोया दुनिया की अच्छी चीज़ों को इस्तेमाल करने का यक़ीनी मतलब है आख़िरत की अच्छी चीज़ों से वंचित हो जाना। मगर यह सही नहीं। हज़रत उमर का एक ख़ास मौके पर शहद का शर्बत न पीना महज़ शिद्दते-तास्सुर (तीव्र प्रभावशीलता) की वजह से था वह ‘शरई हुक्म’ के तौर पर न था, बल्कि तक़वा (संयम) के एहसास के तहत था।
हदीस में आया है कि कोई बन्दा उस वक़्त तक ‘मुत्तक़ी’ (संयमी) के दर्जे तक नहीं पहुंच सकता, जब तक उसका यह हाल न हो जाए कि वह (कभी कभी ऐसी चीज़ों को भी छोड़ दे, जिसमें हर्ज नहीं है, इस अन्देशे की वजह से कि शायद इसमें हर्ज हो।
हज़रत उमर के उस मामले को भी इसी हदीस के तहत देखना चाहिए। अगर दुनिया की अच्छी चीज़ों को ज़रूरी तौर पर क़ाबिले तर्क समझा जाए तो यह नज़रिया क़ुरआन की उन आयतों से टकरा जाएगा, जिनमें अच्छी और पाक चीज़ों को साफ़ तौर पर ईमान वालों के लिए जायज़ बताया गया है। यहां तक कि कहा गया है कि कहो, अल्लाह की ‘ज़ीनत’ (शोभा) को किसने हराम ठहराया है, जो उसने अपने बन्दों के लिए पैदा की हैं और खाने की तय्यब (पाक) चीज़ें। कहो कि वे दुनिया की ज़िन्दगी में भी ईमान वालों के लिए हैं और आख़िरत में तो वे ख़ास उन्हीं के लिए होंगी (अल-आराफ़ 32)।
मानवीय गुण
क़ुरआन में मामूली लफ्ज़ी फ़र्क के साथ दो जगहों पर यह बात कही गई है कि अल्लाह किसी क़ौम की हालत को उस वक़्त तक नहीं बदलता जब तक कि वह उसको न बदल डाले जो उसके जी में है (अर रअद)।
इस ख़ुदाई सुन्नत से मालूम होता है कि किसी गिरोह के क़ौमी और इज्तिमाई हालात उसके वैयक्तिक हालात पर निर्भर हैं। इसको दूसरे लफ़्ज़ों में इस तरह कहा जा सकता है कि क़ौमी हैसियत का दारोमदार मानवीय गुणों पर है। किसी क़ौम के लोगों में इन्सानी या अख़्लाक़ी या नैतिक खूबियां जैसी होंगी, उसी के मुताबिक उसको दुनिया में सामूहिक मुक़ाम हासिल होगा, न उससे कम और न उससे ज़्यादा।
इस मामले को समझने के लिए मौजूदा ज़माने की एक मिसाल लीजिए। यह बात सभी लोग मानते हैं कि जापान ने दूसरे विश्व युद्ध के बाद बहुत ग़ैरमामूली तरक्की की है। इस तरक्क़ी का एक खास राज़ उनकी एकता है। जापानी हर काम को एकजुट होकर करते हैं। एकता को आखिरी वक़्त तक बरकरार रखते हैं। इसकी वजह से उनकी ताक़त बहुत बढ़ जाती है। वे हर मामले में गै़रमामूली तौर पर कामयाब रहते हैं।
जापान की इस एकता का राज़ वहां के लोगों का वैयक्तिक स्वभाव है, जो तक़रीबन तमाम जापानियों के अन्दर पाया जाता है। प्रोफ़ेसर ची नकानी (Chie Nakane) की जापानी भाषा में एक किताब है, जिसका तर्जुमा अंग्रेजी में जापानी समाज (Japanese Society) के नाम से छपा है। इस किताब में जापानी प्रोफ़ेसर ने लिखा है कि जापानी का वैयक्तिक मिज़ाज यह होता है कि वह समझता है कि मैं किसी के मातहत हूं
I am under someone.
दूसरे लफ़्ज़ों में यह कि हर जापानी अधीनता-भाव में जीता है। इसलिए जब भी कोई सामूहिकता कायम होती है तो वह फ़ौरन उससे जुड़ जाता है। वह तन्ज़ीम यानी संगठन के नेता को फ़ौरन अपना नेता मान लेता है, क्योंकि वह पहले ही से यह माने हुए था कि मैं किसी के मातहत हूं — यह है जापानियों की उस एकता का राज़ जिसके नतीजे में उन्होंने मौजूदा ज़माने में अप्रत्याशित तरक्की की है।
अब मौजूदा ज़माने के मुसलमानों को देखिए। मुसलमानों का मामला जापानियों के बिल्कुल बरअक्स है। मसजिद से लेकर सियासत तक कोई मामला ऐसा नहीं, जिसमें मुसलमान मुत्तहिद या एक हों। मौजूदा मुसलमान दुनिया की सबसे ज़्यादा बरबाद क़ौम हैं, और इसकी सबसे बड़ी वजह बेशक उनमें इत्तिहाद और एकता का न होना है। इस ‘बेइत्तिहादी’ ने एक अरब इन्सानों की महान् क़ौम को दुनिया की सबसे कमज़ोर क़ौम बना दिया है।
मौजूदा मुसलमानों की इस ‘बेइत्तिहादी’ का सबब क्या है? इसका सबब, दोबारा, उनके लोगों का वह ग़लत मिज़ाज है जो किसी भी इत्तिहाद की राह में एक स्थायी रुकावट बन गया है।
मौजूदा ज़माने में जब मुसलमान पस्ती, मग़लूबियत और पतन का शिकार हुए तो उनके रहनुमाओं की तश्ख़ीस (मर्ज़ की जांच) यह थी कि पश्चिम के प्रभाव में आ जाने से उनको पस्ती से दो-चार किया। इसलिए तमाम रहनुमाओं ने एक या दूसरी सूरत में यह किया कि इस्लाम को गर्वपूर्ण अन्दाज़ में पेश करना शुरू कर में दिया, ताकि उनके प्रभुत्व को ख़त्म कर सकें। इसका नतीजा यह है कि मुसलमानों की पूरी नस्ल गर्व और हाकिमियत (शासकत्व) के एहसास पर परवरिश पा कर उठी है। हर आदमी नज़रिए और आस्था के लिहाज़ से अपने अन्दर बरतरी और बढ़प्पन का जज़्बा लिए हुए है। क्योंकि यही जज़्बा उसके अन्दर उभारा गया था।
यह मानसिकता एकता की क़ातिल है। एकता उस वक़्त क़ायम होती है जबकि एक शख़्स को बड़ा बना कर बाक़ी तमाम लोग उसके मुक़ाबले में छोटे बनने पर राज़ी हो जाएं। मगर मुसलमानों की गर्व की मानसिकता इसमें रुकावट है। इसका नतीजा यह है कि अब हर आदमी सरदार बनना चाहता है। हर आदमी चाहता है कि उसकी बात चले। हर आदमी चाहता है कि हाकिमाना सीट पर बैठे। ऐसी हालत में एकता कायम होना मुमकिन नहीं। और मुसलमानों की यही वह मानसिकता है, जिसने आज उनके दरमयान किसी भी एकता को सरासर नामुमकिन बना दिया है।
मौजूदा ज़माने के मुसलमानों का अस्ल मसला सत्ता को खोना नहीं, बल्कि इन्सानी गुणों को खोना है। मौजूदा मुसलमान अपने रहनुमाओं और लीडरों की ग़लत रहनुमाई के नतीजे में ऊंचे मानवीय गुणों से खाली हो गए हैं। अब सबसे पहला ज़रूरी काम यह है कि मुसलमानों के अन्दर वे गुण पैदा किए जाएं जो आला इन्सानियत का निर्माण करते हैं। जब तक यह काम नहीं किया जाएगा मुसलमानों के हालात तब्दील नहीं हो सकते। कोई दूसरी कोशिश चाहे वह कितने ही बड़े पैमाने पर की जाए, मुसलमानों के लिए किसी नए भविष्य का निर्माण नहीं कर सकती।
अनोखी विशेषता
क़ुरआन में बहुत विस्तार के साथ जन्नत का ज़िक्र किया गया है। उन सबका खुलासा इस संक्षिप्त आयत में है कि जन्नत में वह तमाम चीज़ें होंगी जिनको आदमी का जी चाहेगा और जिनसे उसकी आंखों को लज्ज़त हासिल होगी (अज्-ज़ुख़रुफ़ 71)।
इन्सान तमाम मालूम सृष्टि में एक अनोखी सृष्टि है, जो लज़्ज़त (आनंद) चाहता है जो लज़्ज़त का बोध कर सकता है। इस अजीब इन्सान के लिए अल्लाह तआला ने यह बेहद अजीब संभावना रखी है कि उसके लिए श्रेष्ठतम लज्ज़तों से भरी हुई एक जन्नत बना दी, जहां वह हमेशा-हमेशा रह सके।
लज्ज़त (pleasure) की सृष्टि बेशक सृजनहार का एक हैरतनाक रचनात्मक करिश्मा है। एक इंजीनियर ख़ुदा की दी हुई अक़्ल और ख़ुदा की दी हुई चीज़ों को काम में लाकर मशीनी इन्सान (रोबोट) बनाता है। वह सारे इन्सानी काम करता है। पर किसी मशीनी इन्सान के अन्दर आनन्द बोध नहीं। कोई मशीन किसी भी चीज़ से आनंदित होना नहीं जानती। यह सिर्फ़ इन्सान है जो आनन्द और लज़्ज़त का बोध करता है, जो अपनी पसंदीदा चीज़ों से आनंदित हो सकता है।
आनन्द या लज़्ज़त कोई सीमित चीज़ नहीं। यह एक निहायत व्यापक बल्कि असीमित अर्थ रखने वाला शब्द है। इन्सान सिर्फ़ खाने-पीने जैसी लज़्ज़तों ही से आनंदित नहीं होता, बल्कि हर स्तरीय चीज़ में उसके लिए लज़्ज़त है। मसलन एक कम्प्यूटर सौ हज़ार सवालों का निहायत सही जवाब देगा। मगर वह अपने काम पर खुश होना नहीं जानता। पर इन्सान जब एक सूक्ष्म काम करता है, जब वह एक मसले का निहायत उम्दा जवाब देता है तो उसकी रूह को बेपनाह खुशी हासिल होती है। यही बात दूसरे तमाम कामों के बारे में लागू होती है।
जन्नत में हर चीज़ अपने चरम स्तर पर होगी। जन्नत में जो आदमी दाख़िल किया जाएगा वह भी चरम स्तरीय शख़्सियत में ढाल कर दाखिल किया जाएगा। इसलिए जन्नत का हर काम असीमित आनन्द देने वाला बन
जाएगा। वहां बोलना, छूना, देखना, सुनना, उठना, बैठना और चलना-फिरना हर क्रिया अपने अन्दर अनन्त, असीमित आनंन्द से भरी होगी।
क़ुरआन और साइंस
1984 के आखिर में एक ख़बर कई अख़बारों में छपी। कनाडा के अख़बार सिटीज़न (22 नवम्बर 1984) ने उसकी सुर्ख़ी इस तरह लगाई: प्राचीन पवित्र किताब अपने वक़्त से सौ साल आगे।
नई दिल्ली के अख़बार टाइम्स ऑफ इंडिया में (10 दिसम्बर 1984) यह ख़बर इस सुर्ख़ी के साथ छपी:
क़ुरआन आधुनिक साइंस पर बाज़ी ले जाता है।
भ्रूण विज्ञान के एक विद्वान जिनका ताल्लुक़ कनाडा की टोरोंटो यूनिवर्सिटी से है, उन्होंने सऊदी अरब के कई सफर किए हैं, ताकि क़ुरआन की कुछ आयतों की व्याख्या करने में मदद करें। ये आयतें वे हैं जिनमें मानव-भ्रूण के विकास का ज़िक्र है।
यह डाक्टर कैथमूर हैं। इनकी खोजों से, जो टेस्ट ट्यूब बेबी की ईजाद करने वाले डाक्टर राबर्ट एडवर्ड्स से सम्बद्धता रखती हैं, ज़ाहिर होता है कि क़ुरआन की सम्बद्ध आयतें इन्सानी भ्रूण के क्रमिक विकास का निहायत सही बयान हैं। यह चीज़ वह है, जिसका ज़िक्र पश्चिमी विशेषज्ञों ने पहली बार 1940 में किया था और इस सिलसिले की ज़्यादातर तफ़सीलात सिर्फ़ पिछले पन्द्रह वर्षों में अमली तौर पर साबित की जा सकी हैं। डाक्टर मूर ने लिखा है कि 13 सौ साल पुराने क़ुरआन में भ्रूण विकास के बारे में इस क़दर दुरुस्त बयान मौजूद है कि मुसलमान यक़ीन कर सकते हैं कि वह ख़ुदा की तरफ़ से उतारी हुई किताब है।
यह सात वर्ष पहले की बात है, टोरांटो यूनिवर्सिटी के एक भ्रूण-वैज्ञानिक एक गै़रमामूली वैज्ञानिक अभियान पर सऊदी अरब गए। उनसे क़ुरआन की कुछ आयतों की व्याख्या में मदद चाही गई थी। यह डाक्टर कीथ मूर थे। पहली टेस्ट ट्यूब बेबी के आविष्कारक डा. एडवर्ड ने भी उनकी व्याख्याओं की पुष्टि कर दी थी। उन दिनों वैज्ञानिकों ने मुस्लिम ‘उल्मा’ को क़ुरआनी आयतों के बारे में अपनी खोज से हैरान कर दिया था। वही क़ुरआन जिसको मुसलमान तेरह सौ वर्ष से ‘हिफ़्ज़’ व ‘तिलावत’ करते चले आ रहे हैं।
जो उन्होंने खोज की थी वह यह थी कि क़ुरआन में मानव भ्रूण का जो नज़रिया बयान किया गया है वह अब एक निर्विवाद सच्चाई बन कर सामने आया है। और यह कि पश्चिमी खोजकर्ताओं को यह हक़ीक़त 1940 में पता चली और इस सिलसिले में ज़्यादातर मालूमात तो महज़ पिछले पन्द्रह वर्ष में सामने आई हैं। डाक्टर कीथ मूर टोरोंटो यूनिवर्सिटी के एम्ब्रियोलॉजी विभाग के चैयरमेन हैं। इन्सान की तख़्लीक़ और सृजन से ताल्लुक़ रखने वाली कुरआनी आयतों पर अपना ख़ास पेपर पेश करते हुए उन्होंने कहा:
“मुझे इस बात ने हैरत में डाल दिया, जब मुझे यह पता चला कि क़ुरआन ने सातवीं सदी ईस्वी में जो तथ्य पेश किए वे किस क़दर दुरुस्त और वैज्ञानिक सच्चाइयों से पूर्ण हैं और उनमें कितनी वैज्ञानिक सटीकता है।”
मुसलमानों की आस्था है कि क़ुरआन सातवीं सदी ईस्वी में ख़ुदा की तरफ़ से अपने पैग़म्बर हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम पर उतारा गया। उसके बाद उन्होंने इस्लाम दुनिया के सामने पेश किया। आज इस्लाम ईसाईयत के बाद दूसरा बड़ा मज़हब है। याद रहे कि डाक्टर मूर यूनाइटेड चर्च के मेम्बर और एक बड़े पादरी के बेटे हैं। वह अपनी आस्था पर संतुष्ट हैं और एक मुलाकात में बता चुके हैं कि इस्लाम कबूल करने का उनका कोई इरादा नहीं। डा. मूर कहते हैं कि मैंने बाइबिल के ओल्ड टेस्टामेंट और न्यू टेस्टामेंट का अध्ययन भी किया है, लेकिन कुरआनी आयतों से उनकी कोई समानता नज़र नहीं आई। भ्रूण विज्ञान पर उनकी दो किताबें हैं। और दुनिया की भाषाओं में उनके अनुवाद छप चुके हैं। डाक्टर मूर कहते हैं कि भ्रूण के शुरुआती 28 दिनों में विकास के बारे में कुरआनी आयतों ने जो के तथ्य बयान किए हैं वे इतने सही हैं कि इन्सानी अक़्ल को ताज्जुब में डाल देते हैं। डा. मूर को यक़ीन है: क़ुरआन की आयतें और पैग़म्बरे इस्लाम के कुछ कथन मज़हब और साइंस के बीच मुद्दतों की खाई को पाटने में मदद कर सकते हैं।
जब उनसे पूछा गया कि कहीं ऐसा तो नहीं कि कहीं अधकचरी चीर-फाड़ के नतीजे में यह मालूमात सामने आ गई हों, तो उन्होंने कहा कि इस चरण में भ्रूण का आकार एक मिली लीटर के दसवें हिस्से से ज़्यादा नहीं होता। यह इन्सानी आंख को एक छोटे से नुक्ते की शक्ल में नज़र आता है। इसकी शिनाख्त एक ताक़तवर सूक्ष्मदर्शी के बग़ैर मुमकिन नहीं और यह बात अपनी जगह साबित है कि सत्तरहवीं सदी ईस्वी से पहले सूक्ष्मदर्शी ईजाद नहीं हुई थी।
डाक्टर मूर ने जब अपनी तहक़ीक़ पेश की, उससे दो वर्ष पहले उन्हें जद्दा की शाह अब्दुल अज़ीज़ यूनिवर्सिटी ने बुलाया था। उनके अलावा डाक्टर राबर्ट एडवर्ड्स को भी बुलाया था। यह वही डाक्टर राबर्ट हैं, जिनके कैम्ब्रिज यूनिर्सिटी में किए गए प्रयोग की बदौलत पहले टेस्ट ट्यूब बच्चे की पैदाइश अमल में आई।
उनके अलावा डाक्टर टी.वी.एन. प्रसाद और डाक्टर मार्शल जान्सन भी आमंत्रित किए गए। डाक्टर मूर कहते हैं कि इस मौके पर होने वाली कान्फ्रेंस के उल्मा ने इन चारों विशेषज्ञों को क़ुरआन की बहुत सी आयतों के अंग्रेज़ी तर्जुमे पेश किए और उनसे राय मांगी कि क्या इनकी कोई वैज्ञानिक व्याख्या हो सकती है? एक आयत जो पेश की गई वह यह थी:
“वह तुम्हें तुम्हारी मांओं के पेटों में तीन-तीन अंधेरे पदों के अन्दर
तुम्हें एक के बाद एक शक्ल देता चला जाता है।” (अल-जुमर)
डा. मूर कहते हैं कि इन तीन अंधरों के बारे में साफ़ तौर पर कहा जा सकता है कि इनसे तात्पर्य पेट की दीवार, गर्भाशय का पर्दा और बच्चेदानी की अन्दरूनी झिल्ली है। एक दूसरी आयत में बताया गया है कि बाद में बूंद को खून के लोथड़े (मुज़ग़ा) में तब्दील कर दिया जाता है। अरबी में मुज़ग़ा का लफ़्ज़ जोंक के लिए आया है। डा. मूर और दूसरे विशेषज्ञों का ख़याल है कि अरब में पाई जाने वाली जोंक और 24 दिन के भ्रूण में हैरतअंगेज़ तौर पर समरूपता पाई जाती है। फिर यह कि इस चरण पर भ्रूण गर्भाशय की दीवार से जौंक की तरह लिपट जाता है।
आगे की एक आयत कहती है कि यह जोंकनुमा लोथड़ा बाद में चबाई हुई चीज़ की शक्ल इख़्तियार कर लेता है। इस चरण में भ्रूण की शक्ल को समझाने के लिए डा. मूर ने प्लास्टिक की एक छोटी-सी चीज़ तैयार की और फिर उसे अपने दांतों से चबाया और फिर उसे दिखाते हुए कहा कि 28 दिन के भ्रूण की शक्ल हूबहू ऐसी होती है और उस पर जो निशान पाए जाते हैं वे भी दांतों के निशानों जैसे होते हैं। इस आयत से यह भी मालूम होता है कि इस अवस्था में जिस्म के चंद ही अंगों की शनाख्त हो सकती है और हक़ीक़त भी यही है कि सिर्फ दिल और आंखों की पहचान मुमकिन होती है।
डा. मूर ने कहा कि क़ुरआन की आयतें कहती हैं कि तेज़ी से निकलने वाले वीर्य के एक बेहद छोटे हिस्से में जनन क्षमता रखने वाले शुक्राणु पाए जाते हैं। डा. मूर ने बताया कि जिस हक़ीक़त को स्पैलिनज़ैनी ने अठारहवीं सदी ईस्वी में पहचाना, जब उसने प्रयोगात्मक तरीके से साबित किया कि जब तक नर और मादा के प्रजनन तत्वों का आपसी मेल न हो तो जैवीय अस्तित्व प्रकट नहीं हो सकता। क़ुरआन ने इससे ग्यारह सदियों पहले ‘मख़्लूत क़तरे’ के बारे में बताया और कहा कि मर्द और औरत के ‘नुत्फ़ों’ के आपसी मिलाप से इन्सान की सृष्टि होती है।
पैग़म्बर का तरीक़ा
इमाम मुस्लिम अपनी सहीह में कहते हैं कि मुझसे इब्ने अबी उमर ने कहा, उन से मर्वान फ़ज़ारी ने बयान किया, उनसे यज़ीद बिन कयसान ने, उनसे इब्ने अबी हाज़िम ने और उन से अबू हुरैरा ने कहा कि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से कहा गया कि आप मुश्रिकों के ख़िलाफ़ बद्दुआ करें। आपने फ़रमाया कि मुझको ला’नत करने वाला बना कर नहीं भेजा गया है, बल्कि मुझको रहमत बना कर भेजा गया है।
रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम पर और आपके सहाबियों और साथियों पर उनके दुश्मनों ने जो मुसीबतें डालीं और ज़ुल्म किया वह आज के ज़ुल्म और मुसीबत से बहुत ज़्यादा था। यहां तक कि मुक़द्दस सहाबा इन जुल्मों को देख कर कह उठे कि उनके ख़िलाफ़ बद्दुआ की जाए। मगर रसूलुल्लह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने उनके ज़ेहन को सही किया। उन्होंने फ़रमाया कि हमारा काम दुनिया को ख़ुदा की रहमतों के साये में दाख़िल करना है न कि उनकी हलाकत और बरबादी का सामान करना।
यह रसूलुल्लह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की सुन्नत है। आपके ख़िलाफ़ लोगों ने ज़ुल्म किया, इसके बावजूद आपने उनके साथ ख़ैरख़्वाही की। लोगों ने आपके ऊपर मुसीबतें डालीं, इसके बावजूद आप उनके लिए अल्लाह तआला से दुआ करते रहे। रसूलुल्लह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के इसी आला और बेहतर सुलूक का नतीजा था कि आपको दुनिया में आलातरीन कामयाबी हासिल हुई। क़ौमें आपके आगे झुक गईं। ज़ुल्म और सरकशी करने वाले आपके हाथ पर बैअत करके यानी आपसे दीक्षा लेकर आपके साथी और सहयोगी बन गए।
मुलसमानों को भी अपने पैग़म्बर के इसी नमूने पर अमल करना है। हमको दुनिया की क़ौमों का ख़ैरख़्वाह और उनकी भलाई चाहने वाला बनना है, चाहे वे हमारे साथ बदख़्वाही और बुराई करें।
हमें लोगों के हक़ में हिदायत की दुआ करना है, चाहे वे हमारे साथ ज़ुल्म और ज़्यादती का मामला करें। हमें दूसरे से मुहब्बत करना है, चाहे हमें दूसरों की तरफ़ से नफ़रत, घृणा और वैर मिले।
यही पैग़म्बर का तरीक़ा है। और पैग़म्बर का तरीक़ा इख़्तियार करने के बाद ही मुसलमान ख़ुदा की उन नुसरतों और मदद के हक़दार बन सकते हैं जिनका वा’दा ख़ुदा ने अपने पैग़म्बर के ज़रिए उनके लिए किया है।
अल्लाह की मदद
पैग़म्बरे इस्लाम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के ज़माने में और उसके बाद मुसलमानों को जो ग़ैरमामूली फत्हें हासिल हुईं; उनकी वजहें बताते हुए इतिहासकारों ने बहुत कुछ लिखा है। इन्सायक्लोपीडिया ब्रिटैनिका (1984) में है:
At least three aspects of the contemporary situation of Byzantium and Persia account for the phenomenal ease with which the Arabs overcame their enemies; first, both empires, exhausted by wars, had demobilized before 632. (vol. 3. p. 557)
उस ज़माने की कुछ बेज़ैन्तीनी और ईरानी शहन्शाहियत के कम से कम तीन पहलू हैं, जो यह बताते हैं कि उनके ऊपर अरबों को इतनी आसानी से इतनी बड़ी कामयाबियां कैसे हासिल हुईं। उनमें से पहली वजह तो यह है कि दोनों शहन्शाहियतें आपस की जंग के नतीजे में इतनी बरबाद हो गई थीं कि वे 632 ई. से पहले ही फौजी एतिबार से ख़त्म हो चुकी थीं।
तारीख़ के लिहाज़ से इस बात में बहुत कम (आंशिक) सच्चाई है। क्योंकि यह हक़ीकत है कि दोनों शहन्शाहियतों ने ग़ैरमामूली फौजी ताक़त से मुसलमानों का मुक़ाबला किया। फिर भी यह सच है कि मुसलमानों के साथ मुक़ाबला होने से ठीक पहले दोनों शहन्शाहियतों में लम्बी खूनी जंग होना, इस्लाम के हक़ में सीधी ख़ुदाई मदद था। मौजूदा दुनिया में ख़ुदा की मदद अस्बाब के पर्दे में आती है। और रोम और ईरान की आपसी जंग की सूरत में अल्लाह तआला ने इस्लाम के दुश्मनों को इतना कमज़ोर कर दिया कि वे इस्लाम के लिए कोई ताक़तवर ख़तरा न बन सकें।
आज भी ख़ुदा की यह मदद ज़ाहिर हो सकती है, बशर्ते मुसलमान अपने अमल से उसका वही इस्तेहक़ाक़ (उपादेयता, पात्रता) साबित कर सकें जो पहले दौर के मुसलमानों ने अपने अमल से साबित किया था।
अल्लाह की मदद की बेशुमार सूरतें हैं। यह अल्लाह ही को मालूम है कि वह किस सूरत में किसके लिए अपनी मदद भेजेगा। फिर भी यह यक़ीनी है कि जो लोग अल्लाह पर सच्चा ईमान लाएं और उसकी मर्जी पर चलें, उनके हक़ में अल्लाह की मदद ज़रूर आती है, चाहे वह एक सूरत में आए या दूसरी सूरत में।
कम पर राज़ी होना
रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मदीना में थे। आपने ख़्वाब देखा कि अपने सहाबियों के साथ मक्का में दाखिल हुए। आपने वहां तवाफ़ (प्ररिक्रमा) और सअइ किया। क़ुर्बानी और सर मुंडाया। आपने अपना ख़्वाब सहाबियों को बताया तो वे बहुत ख़ुश हुए। उन्होंने समझा कि यह अल्लाह की तरफ़ से उमरा की बशारत (ख़ुशख़बरी) है।
आप और आपके सहाबी मक्का से 9 मील फ़ासिले हुदैबिया पंहुचे थे कि क़ुरैश ने आगे बढ़ कर आपको रोक दिया। और कहा कि हम आप लोगों को मक्का में दाख़िल होने नहीं देंगे। इसके बाद दोनों के दरमियान बातचीत शुरू हुई। आख़िकार यह तय हुआ कि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम सहाबियों के साथ मदीना वापस चले जाएं। अलबत्ता अगले साल ख़ामोशी के साथ आकर उमरा कर सकते हैं।
इस समझौते के मुताबिक़ आपने फ़ैसला किया कि उमरा न करें और हुदैबिया से वापस होकर मदीना चले जाएं। फिर भी क़ुर्बानी के जानवर आपके साथ मौजूद थे। आपने फ़रमाया कि हम तवाफ़ और सअइ नहीं कर सके फिर भी क़ुर्बानी और हल्क़ हम कर सकते हैं। उठो अपने जानवरों को ज़ब्ह करो और सर बाल मुंडा लो।
यह गोया कम पर राज़ी होना था। हांलाकि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के ख़्वाब की बिना पर लोगों को पूरा यक़ीन हो गया था कि मक्का में दाख़िल होंगे। तवाफ़ और सअइ करेंगे। और फिर क़ुर्बानी और हल्क़ करेंगे। मगर जब ऐसे हालात सामने आए कि तवाफ़ और सअइ बज़ाहिर नामुमकिन हो गया और सिर्फ़ क़ुर्बानी और हल्क़ मुमकिन रह गया तो उन्होंने मक्का में दाख़िल होने और तवाफ़ और सअइ करने का इरादा छोड़ दिया और क़ुर्बानी और हल्क़ पर राज़ी हो गए।
यही ज़िन्दगी का राज़ है। इस दुनिया में आदमी को कम पर राज़ी होना पड़ता है, उसके बाद वह ज़्यादा को पाता है। जो शख़्स पहले मरहले में कम पर राज़ी न हो वह न कम पाता और न ज़्यादा को। उसके हिस्से में जो चीज़ आती है वह सिर्फ़ यह कि वह निज़ाअ और झगड़े को छेड़ कर ग़ैर ज़रूरी तौर पर अपने को बरबाद करता है। और जब बरबाद होकर टकराव के क़ाबिल न रहे तो यह कह कर अपने दिल को तस्कीन देने की कोशिश करे कि मैं कामयाबी के बिल्कुल क़रीब पहुंच गया था, मगर दुश्मनों की साज़िश ने मुझको नाकाम बना दिया।
कम पर राज़ी होना भी रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की सुन्नतों में से एक सुन्नत है।
ख़ादिम की कोताहियों पर उसे माफ़ करना
अब्दुल्लाह विन उमर कहते हैं कि एक देहाती रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आया और आपसे पूछा, “ऐ ख़ुदा के रसूल, मैं अपने ख़ादिम (सेवक) को कितनी बार माफ़ करूं?” आपने फ़रमायाः सत्तर बार माफ़ करो (तिरमिज़ी, अबूदाऊद)