الرسالہ
(اردو-ہندی،مئی-جون 2023)
مولانا وحید الدین خاں
Contents
روزہ اور عید
روزہ کیا ہے؟ روزہ ہماری دنیا کی زندگی کی علامت ہے اور عید ہماری آخرت کی زندگی کی علامت۔ روزہ گویا امتحان ہے اور عید اس کا انجام ۔ روزہ مشقت اور محنت کا دور ہے اور عید آرام اور خوشی کا دور ۔ روزہ دنیا کی محدودیت کی یادہانی ہے اور عیدلا محدود زندگی (جنت) کی نشانی۔
روزہ میں صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک کی ساری زندگی طرح طرح کی پابندیوں میں گزرتی ہے— یہ کرو اور وہ نہ کرو، اس وقت کھاؤ اور اُس وقت نہ کھاؤ ، کب سوؤ اور کب بستر سے اٹھ جاؤ۔ غرض پورا ایک مہینہ اس طرح گزارا جاتا ہے گویا کہ آدمی کی پوری زندگی دوسرے کے قبضہ میں ہے۔ آدمی کو اپنی مرضی پر نہیں بلکہ دوسرے کی مرضی پر چلنا ہے۔ اس طرح روزہ آدمی کو یہ سبق دیتا ہے کہ وہ دنیا میں اس طرح رہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح خدا کی نگرانی میں دیے ہوئے ہو ، وہ ہر معاملہ میں خدا کے حکموں کی پابندی کر رہا ہو۔
اس طرح کے ایک پُر مشقت مہینہ کے بعد عید کا دن آتا ہے ۔ عید کے دن اچانک تمام احکام بدل جاتے ہیں — پہلے روزہ رکھنا فرض تھا، عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ پہلے لازمی ضرورتوں تک پر پابندی لگی ہوئی تھی، اب کہہ دیا گیا کہ آزادی سے گھو مو پھرو اور خوشیاں مناؤ ۔ حتی کہ غریبوں کے لیے صاحب حیثیت لوگوں پر صدقہ فطر مقرر کیا گیا ،تا کہ وہ بھی آج کے دن کی خوشیوں سے محروم نہ رہیں ۔ یہ گویا آخرت کی زندگی کی ایک تصویر ہے۔ یہ اس دن کو یاد دلانا ہے جب کہ خدا کے سچے بندوں پر سے ہر قسم کی پابندیاں اٹھالی جائیں گی۔ وہ ابدی آرام اور ابدی خوشی کی جنتوں میں داخل کر دیے جائیں گے ، خواہ آج وہ ظاہر بینوں کو کمزور اور بے قیمت کیوں نہ نظر آتے ہوں ۔
حقیقت یہ ہے کہ روزہ اور عید ہماری زندگی کے دو مرحلوں کی یاد دلانے کے لیے ہیں ۔ روزہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا کے مرحلہ میں ہمیں کس طرح رہنا ہے۔ اور عید ہم کو بتاتی ہے کہ آخرت کے آنے والے مرحلہ میں ہماری زندگی کیسی زندگی ہوگی۔ ایک دنیا کی زندگی کی ابتدائی علامت ہے اور دوسری آخرت کی زندگی کی ابتدائی علامت ۔
مقدمہ
رابرٹ گرین (Robert Greene) ایک امریکن رائٹر ہے۔ اس کی پیدائش 1959ء میں ہوئی۔ وہ دنیا کی پانچ بیسٹ سیلنگ (best selling)کتابوں کا مصنف ہے۔ ایک مختصر ویڈیو میں اس نےاپنی کتاب The Laws of Human Natureکا تعارف کراتے ہوئے اعلیٰ شخصیت کی پہچان یہ بتائی ہے :
I want you to focus not on people’s charming exterior, on their funny words, on their wit, on their charisma. Instead, focus on that deep inner quality, that core, character, because that’s who they really are. Your character is creating what happens to you in life. There’s the famous quote of the ancient philosopher Heraclitus ‘‘Character is Fate’’.
لوگوں کی ظاہری جاذبیت، ان کی لطیفہ گوئی، ان کی ظرافت ، ان کے کرشماتی انداز پر آپ توجہ نہ دیں ۔ اس کے بجائے، آپ یہ دیکھیں کہ وہ انسان اندرونی خوبی اور اخلاقی کردار کے اعتبار سے کیسا ہے۔ کیوں کہ یہی ایک انسان کے اچھے یا برے ہونے کی حقیقی اور اصل بنیاد ہے ۔ آپ جو کچھ اچھا یا برا عمل کر رہے ہیں ، یہ آپ کے کردار کا نتیجہ ہے۔ اس معاملے میں قدیم یونانی فلسفی ہیرکلیٹس کا ایک قول کافی مشہور ہے— کریکٹر قسمت ہے۔
یعنی نتیجہ کے اعتبار سے آپ کا انجام کیا ہوگا، اس کا دار ومدار آپ کےذاتی کردار پر ہے۔ حقیقی انسان وہ نہیں ہے، جو ظاہر میں اچھا ہو، مگر باطن میں برا۔ حقیقی انسان وہ ہے، جس کا باطن اس کے ظاہر سے بہتر ہو۔ وہ ڈبل اسٹینڈرڈ کا حامل انسان نہ ہو۔ کیوں کہ ڈبل اسٹینڈرڈ ہی کا مذہبی نام منافقت ہے۔ اس دنیا میں منافقت سے بری کوئی اور چیز نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو یہ دعا سکھائی تھی :اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي، وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3586)۔ یعنی اے اللہ، میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر کردے، اور میرے ظاہر کو بھی اچھابنا۔
زیر نظر کتاب (تعمیر شخصیت)، جیسا کہ نام سے واضح ہے،مولانا وحید الدین خاں صاحب کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انسانی شخصیت کی تعمیر کے رہنما اصول بتائے گئے ہیں ۔
ڈاکٹر فریدہ خانم
11 مارچ 2023، نئی دہلی
انسان کی شخصیت
انسان فطرت کا ایک اعلیٰ عطیہ ہے۔انسان کے اندر ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیت فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔ لیکن انسان کے اندر جو صلاحیت ہے، وہ پوٹنشل (potential) کے روپ میں ہے۔ اس پوٹنشل کو ایکچول (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان کی اس پیدائشی نوعیت کو سمجھنے کے لیے قرآن کی ان دو آیتوں کا مطالعہ کیجیے:أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ۔ تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (24-25:14) ۔ یعنی، کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمۂ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ۔ وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔
قرآن کی یہ آیت تمثیل کی زبان میں بتارہی ہے کہ انسانی شخصیت کی تعمیر کا اصول کیا ہے۔ اس آیت میں شجرۂ طیبہ سے مراد صحت مند پودا (healthy plant) ہے۔ صحت مند پودے کو جب زمین میں نصب کردیا جائے تو وہ فوراً زمین اور فضا سے اپنی غذا لینا شروع کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک پورا درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ ایک انسانی وجود کا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، وہ ایک بالقوۃ انسان کی مانند ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنے ماحول سے ہر قسم کی غذا لینا شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے ایک پورا انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر وہ تمام عملی اور اخلاقی صفات پیدا ہوجاتی ہیں ، جو اس کو اس زمین پر ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے درکار ہیں ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ زمین پر موجود تمام امکانات کو اپنے لیے استعمال کرے، اور اپنے آپ کو اللہ کا مطلوب انسان بنائے۔ وہ یہ ہےکہ عملی زندگی میں ہر موقعے پر وہ مطلوب رسپانس (required response) دے، جس کے لیے اس کے خالق نے اس کو موجودہ دنیا میں بھیجا ہے۔
شخصیت کی تعمیر
خدا، انسان کا خالق ہے۔ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے انسان جو کچھ ہے، وہ تمام تر خدائی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، وہ انسان کی خود اپنی تعمیر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان پچاس فی صد، خدا کی تخلیق ہے اور پچاس فی صدخود اپنی تعمیر :
Every human being is fifty percent God-made, and fifty percent self-made.
انسان فطری طور پر ہر قسم کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ صلاحیتیں اس کے اندر بالقوہ (potential) طورپر ہوتی ہیں ۔اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہ ایک عظیم موقع ہے جو ہر عورت اورہر مرد کو ملا ہوا ہے۔ یہ تمام تر انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے بالقوہ کو بالفعل بنائے، یا اس کے بغیر ہی ایک ناکام انسان کے طورپر اس دنیا سے چلا جائے۔
بالقوہ کو بالفعل بنانا ایک مسلسل عمل ہے جو تاحیات جاری رہتا ہے۔ اِس عمل کا آغاز سنجیدہ غور وفکر سے ہوتاہے۔ سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے آدمی سچائی کی دریافت تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ہر دن اپنا محاسبہ (introspection) کرنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرے اور ان کی اصلاح کرکے اپنے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کے عمل کوجاری رکھے۔
شخصیت کی تعمیر (personality building)کا یہ عمل آدمی خود کرتا ہے، لیکن اِس عمل کو درست طورپر جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کو مسلسل طورپر خدا کی مدد حاصل رہے۔ اِس مدد کے حصول کا ذریعہ دعا ہے۔ دعا میں جینے والا آدمی ہی اپنی شخصیت کی تعمیر میں کامیاب ہوتا ہے۔ دعا کے بغیر یہ کام اپنی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا کی مانند ہوتا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے خام لوہے کوترقی دے کر اسٹیل بنائے۔ یہ کام ہر ایک کو کرنا ہے۔ اِس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں ۔
مومن کا کنسرن
ایک مومن کا سب سے بڑا کنسرن (concern) یہ ہوتاہے کہ آخرت میں اس کو جنت میں داخلہ ملے، وہ اپنی ابدی زندگی میں جنت کا باشندہ بن کر رہ سکے۔ جنت میں داخلہ کس کو ملے گا، اِس سوال کا جواب قرآن میں اِن الفاظ میں دیاگیا ہے:ذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى (20:76)۔یعنی، جنت اس کے لیے ہے جو اپنا تزکیہ کرے۔
تزکیہ کوئی پراسرار چیز نہیں ۔ تزکیہ کے حصول کا اصل ذریعہ مثبت طرزِ فکر ہے۔ مثبت طرزِ فکر سے آدمی کے اندر مثبت شخصیت بنتی ہے، اور مثبت شخصیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کو فرشتوں کی صحبت حاصل ہو۔ اِس طرح کسی آدمی کے اندر تزکیہ کا پراسس (process) شروع ہوتا ہے۔ وہ فرشتوں کی صحبت میں تزکیہ کا سفر کرتا رہتا ہے، یہی سفر اس کے اندر مزکیّٰ شخصیت (purified soul) کی تعمیر کرتا ہے، اور یہی مزکیّٰ شخصیت ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے۔ موت سے پہلے جنتی شخصیت کی تیاری ہے اور موت کے بعد اس تیار شدہ شخصیت کا جنت میں داخلہ۔
نفرت اور تشدد کا ماحول تزکیہ کے عمل کے لیے قاتل (killer) کی حیثیت رکھتا ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول میں شخصیت کے تزکیہ کے عمل کا جاری ہونا ممکن نہیں ۔ جس آدمی کے اندر جنت کی طلب ہو، اس کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفرت کومٹائے، وہ تشدد کو ہر قیمت پر ختم کرے۔ جہاں نفرت اور تشدد سے پاک یہ ماحول بنے گا، وہیں یہ ممکن ہوگا کہ تزکیہ کا مثبت عمل جاری ہو، اور اُس مثبت شخصیت کی تعمیر ہو جو جنت میں داخلے کی مستحق قرار پائے۔
جنت، خدا کے پڑوس کا دوسرا نام ہے۔ خدا کے پڑوس میں ایسا انسان کبھی نہیں بسایا جائے گا جس کے اندر نفرت اور تشدد کا مزاج پایا جاتا ہو۔ جو آدمی جنت کا حریص ہو، جو آدمی خدا کے پڑوس میں جینے کی تمنا رکھتا ہو، اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفرت اور تشدد کا مکمل خاتمہ کرے۔ موجودہ دنیا میں تشدد جہنم کا نمائندہ ہے اور امن جنت کا نمائندہ۔
زندگی کی تعمیر
ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے، وہ خالق کی طرف سے ایک منفرد صلاحیت (unique quality) لے کر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہر انسان ایک غیر معمولی دماغ (mind)لے کر آتا ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہو تا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال کرکے اپنی صلاحیت کو دریافت کرے، اور دانش مندانہ پلاننگ کے تحت اپنے پوٹنشل (potential)کو واقعہ (actual) بنائے۔ہر آدمی کامیابی کے ساتھ اس کو انجام دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے ذہن کو استعمال کرے۔
اس معاملہ کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کوسپورٹنگ سسٹم کہا جاسکتا ہے۔ فطرت کے مطابق یہ ہونا چاہیے کہ سماج کا نظام مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ مبنی بر میرٹ سماج (merit based society)کے اندر فطری طور پر ایک موافق عمل قائم ہو جاتاہے، جس کو آٹو میٹک چینلائزیشن (automatic channelization) کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل (process)کے دوران اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی آخر کار اپنی اس استثنائی خصوصیت کو دریافت کر لیتا ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر اس بات کا طاقت ور محرک پا یا جاتا ہے کہ وہ اپنے سماج میں امتیازی درجہ حاصل کرے۔ یہ داخلی اسپرٹ اپنا کام کرتی ہے۔ آدمی نے اگر غلط چوائس (choice) لے لیا ہے تو وہ اس کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے چوائس کو بدلے، اور اس چوائس کو لے جس میں وہ بہتر (excel)کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس داخلی اسپرٹ کے ساتھ سماج کے اندر مبنی بر میرٹ نظام شامل ہو جائے تو اس کے بعد لازمی طور پر ایسا ہو تا ہے کہ ہر آدمی اپنے اس خصوصی رول کو پا لیتا ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا۔ یہی زندگی کی تعمیرکافطری طریقہ ہے۔ کسی خود ساختہ طریقے سے اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی زیادہ خوش نما معلوم ہوتا ہو۔
صبر کی تعلیم
ایک مغربی مبصّرولیم پیٹن(William Paton) نے لکھا ہے کہ اسلام کا ایک پھل انسانیت کے لیے یہ رہا ہے کہ اس نے لوگوں میں شدید اور مستقل صبر پیدا کیا ۔ صبر کی یہ کیفیت ان میں اللہ کی کامل اطاعت سے پیدا ہوئی:
One of the fruits of Islam has been that stubborn, durable patience which comes of the submission to the absolute will of Allah.
یہ تبصرہ نہایت درست ہے۔ اسلام میں صبر کی بے حداہمیت ہے۔ قرآن کی بیشتر آیتیں ،براہِ راست یا بالواسطہ طور پر، صبر ہی سے متعلق ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر کی صفت ایک ایسی صفت ہے جس کے بغیر ایمان واسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
موجود ہ دنیا اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں بار بار آدمی کوناخوشگوار تجربات سے سابقہ پیش آتا ہے ،گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی ۔ اب اگر آدمی ہر ایسے موقع پر لوگوں سے اُلجھ جائے تو وہ انسانی ترقی کی طرف زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ اس لیے اسلام میں صبر کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ تاکہ آدمی ناخوش گوار یوں کونظرانداز کرتے ہوئے مقصد ِاعلیٰ کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھ سکے۔
قرآن میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی ہے۔مثلاً فرمایا کہ جو مصیبتیں تمہارے اُوپر پڑیں ان پر صبر کرو (31:17) صبر کرو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (8:46)۔ فرمایا کہ گھاٹے سے محفوظ رہنے والے لوگ وہ ہیں جو ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کریں اور ایک دوسرے کوصبر کی نصیحت کریں ( 103:3)۔
اسی طرح حدیث میں کثرت سے صبر کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سنواور مانو اور صبر کرو(مسنداحمد، حدیث نمبر10008)۔ ایک صحابی کہتے ہیں :رسول اور اصحاب ِرسول مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کرتے تھے، جیسا کہ اللہ نے ان کو حکم دیا تھا۔ اور ان کی ایذاؤں پر ہمیشہ صبر کرتے تھے(صحیح البخاری ،حدیث نمبر4566 )۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر اسلامی عمل کی بنیاد ہے۔ فتنوں اور آزمائشوں کی اس دنیا میں صبر کے بغیر کوئی آدمی اسلامی کردار پرقائم نہیں رہ سکتا۔
صبر
صبر کا مطلب ہے رکنا، اپنے آپ کو تھا منا۔ انسان کا مقصد یہ ہے کہ وہ اونچے آدرشوں کے مطابق دنیا میں زندگی گزارے۔ مگر دنیا میں قدم قدم پر ایسی ناپسندیدہ باتیں سامنے آتی ہیں جو آدمی کو بھڑکا دیں جو آدمی کے نشانہ کو اصل مقصد سے ہٹا کر دوسری طرف کر دیں ۔
ایسی حالت میں آدمی اگر ایسا کرے کہ وہ ہر بھڑکنے والی بات پر بھڑک اٹھے، وہ ہر نا موافق چیز سے الجھ جائے تو وہ اپنے مقصد کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ وہ غیرمتعلق چیزوں میں الجھ کر رہ جائے گا۔
اس مسئلہ کا واحد حل صبر ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو جب کسی کڑوے تجربہ سے سابقہ پیش آئے تو وہ بھڑک اٹھنے کے بجائے برداشت کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ جھٹکے کوسہتے ہوئے سچائی کے راستہ پر آگے بڑھ جائے ۔
یہ صبر ایک طرف باہر کی دنیا میں پیش آنے والے مسائل کا عملی حل ہے۔ دوسری طرف وہ آدمی کے لیے اپنی شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ ہے۔ صبر نہ کرنے والے کی شخصیت منفی رحجانات کے درمیان پرورش پاتی ہے، اور جو آدمی صبر کر لے اس کی شخصیت مثبت رجحانات کے درمیان پرورش پانے لگتی ہے ۔
صبر پسپائی نہیں ہے۔ صبر کا مطلب جوش والے راستہ کو چھوڑ کر ہوش والے راستہ کی طرف اقدام کرنا ہے۔ صبر یہ ہے کہ آدمی نازک مواقع پر اپنے جذبات کو تھا مے۔ وہ اپنی عقل کو استعمال کر کے زیادہ مفید سمت میں اپنے عمل کا میدان تلاش کرلے ۔
موجودہ دنیا اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں ہر شخص کو لازماً نا خوش گوار باتوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ناقابل مشاہدہ مناظر اس کے سامنے آتے ہیں ۔ اس کو ناقابل سماعت آوازیں سننی پڑتی ہیں ۔ ایسی حالت میں الجھاؤ کا طریقہ اختیار کرنے کا نام بے صبری ہے اور اعراض کا طریقہ اختیار کرنے کا نام صبر۔ موجودہ دنیا میں کامیابی صرف ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو نا خوش گوار مواقع پر صبر کا طریقہ اختیار کریں ۔
صبر خدا کے لیے
قرآن میں بار بار صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک جگہ پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ:وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ (16:127)۔یعنی، تم صبر کرو اور تمہارا صبر صرف خدا کے لیے ہے۔ تم جو صبر کررہے ہو وہ بظاہر انسان کے مقابلہ میں صبر کرنا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمہارا صبر صرف اللہ کے لیے ہے۔
خدا کے لیے صبر کرنے کا مطلب اس دینی اور دعوتی مقصد کے لیے صبر کرنا ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو اس میں ایک طرف داعی ہوتا ہے اور دوسری طرف مدعو۔ دعوت کے نتیجہ میں مدعو کی طرف سے منفی ردّ عمل پیش آتا ہے۔ اس بنا پر داعی اور مدعو کے درمیان طرح طرح کے مسائل ابھر آتے ہیں ۔ ایسے موقع پر داعی اگر جوابی رد عمل کا طریقہ اختیار کرے تو داعی اور مدعو کے درمیان تعلقات بگڑ جائیں گے اور دعوتی عمل کو جاری رکھنے کے لیے ضروری معتدل حالت قائم نہیں رہے گی۔
خدا کے لیے صبر کا مطلب یہ ہے کہ یک طرفہ برداشت کے ذریعہ یہ کوشش کی جائے کہ معتدل حالات قائم رہیں ۔ تاکہ خدا کی یاد اور خدا کی عبادت کا ماحول برقرار رہے، تاکہ دعوت کا عمل بلا روک ٹوک جاری رہے، تاکہ مدعو کے اندرضد اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہو سکے، تاکہ تعلیم اور تعمیر کا کا م کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
صبر فطرت کا ایک قانون ہے۔ ہر منصوبہ بند تعمیری عمل کے لیے صبر ضروری ہے۔ صبر کوئی منفعل روش نہیں ، صبر خدائی تعلیمات کا مرکزی اصول ہے۔ خدا کا ایک سچا بندہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ صبر کی روش کوچھوڑ دے۔ کیوں کہ صبر کی روش سے ہٹنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے تواضع کی صفت چھن جاتی ہے۔ وہ نفرت اور انتقام کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ وہ انسانی مجموعہ کو اپنے اور غیر میں بانٹ دیتا ہے۔ اس کے اندر سے انسانی ہمدردی کا وہ جذبہ نکل جاتا ہے جو دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔ وہ ماحول ختم ہوجاتا ہے جس میں شکر خدا وندی کے جذبات پرورش پائیں ۔
صبر دین کا خلاصہ
صبر دین کا خلاصہ ہے۔ صبرہرقسم کی نیکیوں کی بنیاد ہے۔ صبر دنیا میں کامیابی کا زینہ ہے اور آخرت میں وہ جنت کی کنجی ہے۔ قرآن میں صبر کے بارے میں ایک ایسی آیت ہے جو کسی بھی دوسرے عمل کے بارے میں نہیں ۔ فرمایا کہ بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا (39:10)۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر1469)۔ یعنی، صبر سے بہتر اورصبر سے بڑا کوئی عطیہ انسان کو نہیں دیا گیا ۔ ابن حجر العسقلانی نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:الصَّبْرُ جَامع لمكارم الْأَخْلَاق(فتح الباری لابن حجر، جلد11، صفحہ 305)۔ یعنی، صبر تمام اعلیٰ اخلاقیات کا جامع ہے ۔
احادیث و آثار میں کثرت سے صبر کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ صبرکی حیثیت ایمان میں وہی ہے جو حیثیت انسانی جسم میں سر کی ہے:الصَّبْرُ مِنَ الْإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ(الزہدلوکیع بن الجراح، حدیث نمبر 199)۔ابن جوزی نے لکھا ہے کہ:عَاقِبَةِ الصَّبْرِ الْجَمِيل جَمِيلَة(صيد الخاطر، جلد1، صفحہ 402)۔ یعنی، صبر جمیل کا انجام بھی جمیل ہے۔
ابن منظور نے لکھا ہے کہ:أَصل الصَّبْر الحَبْس،والصَّبْرُ نقِيض الجَزَع(لسان العرب، جلد4، صفحہ 438)۔یعنی، صبر کی اصل رُکناہے، صبر بے چین اور بے برداشت ہونےکا الٹا ہے۔ راغب الاصفہانی نے لکھا ہے کہ:الصبر الإمساك والصبر حبس النفس على ما يقتضيه العقل والشرع (المفردات للراغب الاصفہانی، جلد1، صفحہ 273)۔یعنی، صبر کی حقیقت امساک (پوری قوت سے کنٹرول کرنا)ہے۔ صبر یہ ہے کہ آدمی عقل اور شریعت کے تقاضے کے مطابق اپنے آپ کو روکے۔
صبر کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ہے ۔ اس کی وجہ موجودہ دنیا کی صورت حال ہے۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اسی امتحان یا آزمائش کی مصلحت کی بنا پر یہاں ہرشخص کو پوری آزادی دی گئی ہے۔ یہ انسانی آزادی خود خدا کے منصوبہ کے تحت ہے، اس لیے کوئی بھی اس کو بدلنے پرقادر نہیں ۔
قرآنی طریقہ
موجودہ دنیا میں آدمی امتحان کی حالت میں ہے۔ اور جب وہ امتحان کی حالت میں ہے تو اس کو آزادی بھی دی گئی ہے۔ اب کچھ لوگ آزادی کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ آزادی کے غلط استعمال ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ دنیا میں فساد ہوتا ہے۔ باہمی مقابلے پیش آتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے خلاف عداوتیں جاگتی ہیں ۔ اجتماعی زندگی میں تلخی اور شکایت کے لمحات پیش آتے ہیں ۔ یہ سب عین قانون قدرت کے تحت ہوتا ہے۔ اور جو چیز خود قدرت کے منصوبہ کے تحت پیش آئے اس کو ختم کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ۔
اب اس کا حل کیا ہے۔ قرآن میں واضح طور پر اس کا حل بتایا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ لوگ رد عمل کا طریقہ نہ اختیار کریں ، بلکہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے حکمت اور تدبیر کے ساتھ معاملہ کریں :
جہالت کے مقابلہ میں اعراض کرنا (7:199)۔
عمل سوء کے مقابلہ میں عمل حسن (41:34)۔
ایذا رسانی کے مقابلہ میں صبر (14:12)۔
حمیت جاہلیہ کے مقابلہ میں سکینہ( 48:26)۔
قرآن کی ان ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کر کے دوسرے شخص کو اذیت پہنچائے تو دوسرے شخص کو جوابی طریقہ نہیں اختیار کرنا ہے، بلکہ برداشت کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ اس کو اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہیں ہونا ہے۔ اس کو نفرت کے جواب میں محبت کا تحفہ پیش کرنا ہے۔ اگر وہ ایسا کرے تو قدرت کا قانون حرکت میں آجائے گا اور وہ زیادہ بہتر طور پر اس کے مسئلہ کو حل کر دے گا۔
صبر و اعراض انسان کا معاملہ نہیں ، وہ حقیقتاً خدا کا معاملہ ہے۔ یہ خود خدا کی مرضی ہے کہ لوگ صبر کریں ۔ کیونکہ اس کے بغیر خدا کا منصوبۂ امتحان مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ثواب بہت ہے۔ بلکہ اس کا ثواب تمام دوسرے اعمال سے زیادہ ہے۔ قرآن میں خصوصی طور پر وعدہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے لیے صبر کریں ، ان کو ان کا اجر بے حساب مقدار میں دیا جائے گا۔
حکمت اور صبر
موجودہ دنیا میں کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے حکمت اور صبر لازمی طور پر ضروری ہیں ۔ حکمت اور صبر کے بغیر نہ دین کا کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا اور نہ دنیا کا ۔
حکمت کی جڑ یہ ہے کہ آدمی ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہر قسم کے ظلم کے باوجود ظالموں سے نہیں لڑے ۔ مگر مدینہ میں حسب ضرورت آپ نے ظالموں کا مقابلہ کیا ۔ غزوۂ حمراء الاسد کا سفر بآواز بلند کیا گیا۔ مگر فتح ِمکہ کے سفر میں آپ نے بلند آوازی سے منع فرما دیا ۔ معاہدۂ حدیبیہ کے وقت آپ نے مکہ والوں کی یک طرفہ شرائط پر صلح کر لی۔ مگر بنو بکر اور بنو خزاعہ کا واقعہ پیش آنے کے بعد آپ نے مکہ کے سردار(ابوسفیان) کی تجدید صلح کی پیش کش کو قبول نہیں فرمایا، وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کبھی بولنا ضروری ہوتا ہے اور کبھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے منہ میں زبان رکھتے ہوئے چپ ہو جائے ۔ کبھی حالات اقدام کرنے کا تقاضا کرتے ہیں اور کبھی اقدام نہ کرنے کا۔ کبھی آگے بڑھنا افضل ہوتا ہے اور کبھی یہ افضل ہوتا ہے کہ آدمی پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے اپنے آپ کو راضی کرلے ۔ اسی فرق کو جاننے کا نام حکمت ہے۔
صبر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی رد عمل سے رکے اور غیر متاثر ذہن کے تحت سوچ سمجھ کر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ آپ سڑک پر اپنی گاڑی دوڑار ہے ہیں اور سامنے اچانک دوسری گاڑی آگئی۔ اب گاڑی کو روک کر اپنے لیے راستہ نکالنے کا نام صبر ہے، اور رو کے بغیر گاڑی دوڑانے کا نام بے صبری ۔
صبر کا طریقہ موجودہ دنیا میں کوئی حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی حد تک ضروری ہے ۔ جو ڈرائیور بے صبری کے ساتھ سڑک پر گاڑی چلائے، وہ خود بھی تباہ ہوگا اور اپنی گاڑی کو بھی تباہ کرے گا۔ اسی طرح جو لوگ صبر کی شرط کو پورا کیے بغیر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں ، وہ صرف بر بادی کی تاریخ بنائیں گے، ترقی اور کامیابی کی تاریخ بنانا ان کے لیے مقدر نہیں ۔
صبر منسوخ نہیں
ایک فلسطینی نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران میں نے دین میں صبر کی اہمیت کاذکر کیا اور صبرسےمتعلق قرآن کی آیتیں ان کے سامنے پیش کیں ۔ انھوں نے فوراً کہا:صبر کی آیتیں تومکی دور میں اتری تھیں ۔ ہجرت کے بعد صبر کا حکم منسوخ کر دیا گیا اور جہاد و قتال کی آیتیں اتاری گئیں ۔ اب ہم دور صبر میں نہیں ہیں ، اب ہم دور جہاد میں ہیں ۔ اب ہمارے تمام معاملات جہاد کے ذریعہ درست ہوں گے اور یہی کام ہمیں کرنا ہے۔
یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے، جس میں بے شمار لوگ مبتلا ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر ایک ابدی حکم ہے۔ اس کا تعلق ہر دور اور ہر زمانہ سے ہے ۔ صبر تمام دینی اعمال کا خلاصہ ہے۔ آدمی کوئی دینی عمل صحیح طور پر اسی وقت کر سکتا ہے جب کہ اس کے اندرصبر کا مادہ ہو۔ جس آدمی سے صبر رخصت ہو جائے ، وہ کوئی بھی دینی کام صحیح ڈھنگ سے انجام نہیں دے سکتا ، خواہ وہ کلمۂ توحید پر استقامت کا معاملہ ہو یا میدان مقابلہ میں شجاعت کا معاملہ ،یا اور کوئی معاملہ ۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی ہے ، اور علی الاطلاق طور پر اس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں صبر کا مادہ ایک سوسے زیادہ بار استعمال کیا گیا ہے۔ سورہ البقرہ ایک مدنی سورت ہے، اس میں کہا گیاہے کہ تم لوگ صبر اور نماز سے مددلو،اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے:اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (2:153) ۔
حدیث میں صبر کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے اور مختلف پہلوؤں سے اس کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے صبرسے زیادہ اچھا اور بڑا عطیہ کسی شخص کو نہیں دیا :وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ مِنْ عَطَاءٍ أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْر (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر1644)۔
صبر کے لغوی معنیٰ رکنے کے ہیں ۔ امام راغب نے صبر کی حقیقت ان لفظوں میں بیان کی ہے:الصَّبْرُ حَبْسُ النَّفْسِ عَلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْعَقْلُ(المفردات للراغب الاصفہانی، صفحہ474)۔ یعنی،صبر اس چیز سے نفس کو روکنے کا نام ہے جس کا عقل تقاضا کرے۔ عربی میں کہا جاتا ہے:صَبَرْتُ نَفْسِي عَلَى ذَلِكَ الْأَمْرِ، أَيْ حَبَسْتُهَا(مقاییس اللغۃ، جلد3، صفحہ 329)۔ یعنی، میں نے اپنے نفس کو فلاں چیز سے روک دیا۔
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں موافق پہلوؤں کے ساتھ ناموافق پہلو بھی موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کسی کام کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے لیے صبر لازمی طور پر ضروری ہے۔ یہاں اپنی خواہش کو دبا کر اپنی عقل کو رہنما بنانا پڑتا ہے۔ یہاں ایک چیز کو لینے کے لیے دوسری چیز کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہاں آج پر توجہ دینے کے لیے کل کو مستقبل کے خانہ میں ڈالنا پڑتا ہے۔ یہاں خلاف مزاج باتوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنا پڑتا ہے۔ یہاں رد عمل کی نفسیات سے آزاد رہ کر مثبت سوچ کے تحت اپنا منصوبہ بنانا پڑتا ہے۔ ان تمام چیزوں کا تعلق صبر سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں صبر کے بغیر کبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔
دنیوی کاموں کی طرح، دینی کام کے لیے بھی صبر لازمی طور پر ضروری ہے۔ جس زمین پر اور جس انسانی ماحول میں ایک دنیا دار کام کرتا ہے، اسی زمین پر اور اسی انسانی ماحول میں دیندار بھی اپنا عمل کرتا ہے۔ اس لیے یہاں دینی مقصد کو پانے کے لیے بھی صبر کا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ صبر کے بغیر کوئی بھی دینی کام نتیجہ خیز طور پر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام کی تاریخ وسیع تقسیم کے مطابق، تین قسم کے حالات سے گزری ہے — دعوت، خلافت، ملوکیت ۔ دعوتی دور کی معیاری مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا23 ساله زمانه ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جس کے مطالعہ سے دعوت کے آداب اور اس کے طریقے صحیح طورپر معلوم کیے جاسکتے ہیں ۔ اس کے بعد خلافت کا زمانہ آتا ہے، جو گویا صحیح معنی میں نائبین رسول کا زمانہ ہے۔ یہ زمانہ حضرت ابو بکر بن ابی قحافہ سے شروع ہوتا ہے اور حضرت علی ابن ابی طالب پر ختم ہوتا ہے ۔ اس کے بعد، مورخین ِاسلام کے مطابق، ملوکیت کا دور ہے۔ یہ زمانہ حضرت امیر معاویہ سے شروع ہوا اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ان تینوں دوروں میں جو اسلامی کردار مطلوب ہے، اس پر قائم ہونے کے لیے یکساں طور پر صبر کی اہمیت ہے۔
صبر کیوں
قرآن و حدیث میں صبر (patience) پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن میں صبر کو سب سے زیادہ قابل انعام (most rewardable) عمل بتایا گیا ہے (10:39)۔ صبر کیا ہے۔ صبر یہ ہے کہ آدمی اجتماعی زندگی میں ردعمل (reaction) سے بچے، اور ہر حال میں مثبت رویہ (positive behaviour ) پر قائم رہے۔اجتماعی زندگی میں اس کا رسپانس ہمیشہ مثبت رسپانس ہو، نہ کہ جوابی انداز کا رسپانس۔
صبر کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسانی سماج میں صبر واحد قابل عمل فارمولا (only workable formula) ہے۔ یعنی انسان کے خالق نے اس کو کامل آزادی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انسان آزاد ہے کہ وہ اپنی آزادی کو درست طور پر استعمال کرے یا غلط طور پر۔ وہ اپنے عمل کی پلاننگ دوسروں کے ساتھ رعایت کرتے ہوئے کرے یا دوسروں کی رعایت کیے بغیر۔ ایسی حالت میں اجتماعی زندگی میں ضروری ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے ہوئے اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں ۔ ایسا ہی منصوبہ اس دنیا میں قابل عمل منصوبہ ہے۔ اس کے برعکس، جس منصوبہ میں دوسروں کی رعایت شامل نہ ہو، وہ کبھی اس دنیا میں تکمیل تک پہنچنے والا نہیں ۔
صبر بظاہر دوسروں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ خود صبر کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو صبر واحد نتیجہ خیز عمل ہے۔ اس کے برعکس، بے صبری مثبت نتیجہ پیدا کرنے والا عمل نہیں ۔ صبر کو دوسرے الفاظ میں نتیجہ خیز منصوبہ بندی کہا جاسکتا ہے۔ صبر کسی کے لیے دانش مندانہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، بے صبری ایک بے دانشی کا عمل ہے۔ حیوان کے لیے بے صبری کا جواز ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ حیوان کے پاس عقل نہیں ۔ مگر انسان کے لیے بےصبری کا کوئی جواز نہیں ۔ کیوں کہ انسان کو عقل دی گئی ہے، جس کے ذریعہ وہ صبر کی اہمیت کو پیشگی طور پر سمجھ سکتا ہے۔
صبر کی اہمیت
قرآن و حدیث میں صبر کی بہت زیادہ اہمیت بتائی گئی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا:إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (39:10)۔صبر کی یہ اہمیت کیوں ہے۔ صبر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صبر آدمی کو حقیقت پسند بنانے والاہے۔ صبر آدمی کو منفی سوچ سے بچاتی ہے، اور مثبت سوچ والا انسان بناتی ہے۔ مثبت سوچ والا آدمی ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، اور منفی سوچ والا آدمی ہمیشہ ناکامیاب۔ کیوں کہ منفی سوچ والا آدمی قدر ت کے قانون کی پیروی نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، مثبت سوچ والا انسان ہمیشہ فطرت کے قانون کی پیروی کرکے ہمیشہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جس آدمی کے اندر بے صبری کا مادہ ہے، وہ اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کرے گا۔ اس کا مزاج یہ ہوگا کہ جب وہ چاہے، اسی وقت اس کی مطلوب چیز مل جائے۔ اس کے برعکس، صبر والا آدمی اپنے کو دوسرے تقاضوں کے مطابق بنانے کی کوشش کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ اس وقت تک انتظار کرے جب کہ اصول کے مطابق، اس کا مقرر وقت آجائے۔ وہ جانے گا کہ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں ہے۔اس کا بنانے والا اللہ رب العالمین ہے۔ اس طرح وہ اپنی خواہش کو کنٹرول کرے گا، اور وہ اللہ کے مقرر قانون کی پیروی کرے گا۔ کیوں کہ وہ جانے گا کہ اللہ کے مقرر قانون کی تعمیل کیے بغیر پورا کام بننے والا نہیں ۔
صبر کا اصول فریقِ اوّل کو اِس سے بچاتا ہے کہ اس کا ذہن فریقِ ثانی کے بارے میں غیر معتدل ہو جائے۔ پُرامن طریقِ کار(peaceful activism) معتدل ذہن کا اظہار ہے۔ غیر معتدل یا منفی ذہن کبھی پُر امن طریقِ کار کو کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ صبر کا اصول در اصل اِسی اعتدال یا مثبت مزاج کی برقراری کی ایک یقینی گارنٹی ہے۔ جو لوگ ناموافق حالات سامنے آنے کے باوجود نہ بدکیں ،اور قانون فطرت کے ساتھ اپنے کو باندھے رہیں ، وہی وہ لوگ ہیں جو سنت الٰہی کے مطابق کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔
حکمتِ صبر
ایمانی زندگی بااصول زندگی کا نام ہے۔ مومن انسان ایک بامقصد انسان ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جذباتی ردعمل کے تحت کوئی اقدام نہیں کرسکتا۔ اس کے سامنے جب کوئی صورت حال آئے گی تو وہ رک کر سوچے گا کہ اس معاملے میں کون سا ردّ عمل میرے اصول اور مقصد کے مطابق ہے اور کون سا رد عمل میرے اصول اور مقصد کے خلاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیش آمدہ معاملات میں عاجلانہ جواب (hasty response) کا نام بے صبری ہے، اور سوچے سمجھے جواب (considered response) کا نام صبر۔
اس صبر کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ آپ پر ایک خواہش کا غلبہ ہوتا ہے، مگر آپ ایسا نہیں کرتے کہ خواہش پیدا ہوتے ہی اس کو کر گزریں بلکہ آپ اپنے کو تھام کر سوچتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو شریعت خداوندی کا تقاضا ہے تو یہ صبر ہے۔ کسی شخص سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے۔ آپ کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ مگرآپ اپنے کو روکتے ہیں اور پھر وہ کرتے ہیں جو ایمان کا تقاضا ہے، تو یہ صبر ہے۔ آپ اسلامی دعوت لے کر اٹھتے ہیں ، آپ کے راستے میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں ، اب آپ اندھا دھند اقدام نہیں کرتے، بلکہ سارے پہلوؤں کو شریعت کی روشنی میں جانچتے ہیں اور اس کے بعد وہی کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق کرنا چاہیے تو یہ صبر ہے۔ آپ ایسے حالات میں گھِر جاتے ہیں جو آپ کی مرضی کے خلاف ہیں ۔ اب آپ فوری جذبے کے تحت اٹھ کر حالات سے لڑنے نہیں لگتے، بلکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں پورے معاملے کو جانچتے ہیں اور اس کے بعد وہ کرتے ہیں جو قرآن اورسنت کی منشا ہے، نہ کہ وہ جو آپ کی ذاتی منشا ہے، تو اس کا نام صبر ہے۔ صبرمومن کا دستورہے، صبر مومن کا اصولِ حیات ہے۔ صبر وہ حکیمانہ طریق ِ عمل ہے جو مومن اس دنیامیں اختیار کرتا ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کی صفت نہ ہو، اس کے متعلق یہ امر مشتبہ ہے کہ اس کو ایمان کی معرفت ملی ہے، یا ابھی تک اس کو ایمان کی معرفت نہیں ملی۔
بااصول زندگی
دنیا کا نظام اِس طرح بناہے کہ یہاں ہمیشہ ایک کو دوسرے سے اختلاف پیش آتا ہے۔ یہ اختلاف مبنی بر فطرت ہے۔ اِس لیے اُس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں ، کامیاب زندگی کا اصول صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ (adjust)کرکے زندگی گزاری جائے۔ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہمی مفاد (mutual interest) کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کیا جائے۔ اِس دنیا میں اِس کے سوا، کوئی انتخاب (option) کسی کے لیے ممکن نہیں ۔
اِس معاملے میں ، مسلمانوں کا معاملہ دوسروں سے الگ نہیں ہے۔ البتہ مسلمان کو اِس معاملے میں ایک امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ دوسروں کے لیے ایڈجسٹ مینٹ (adjustment)صرف مفاد(interest)کا ایک معاملہ ہے، مگر مسلمان کے لیے یہ معاملہ ایک اعلیٰ عبادت کا معاملہ بن جاتا ہے۔
اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک اصول کے تحت ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف دنیوی مفاد کے تحت پیش آتا ہے۔ مسلمان اپنی حیثیت کے اعتبار سے، ایک خدائی مشن کے حامل ہیں ، یعنی خدا کے ابدی پیغام کو دوسرے تمام انسانوں تک پہنچانا۔پیغام رسانی کا یہ کام صرف اُس وقت درست طورپر انجام پاسکتا ہے، جب کہ مسلمانوں اور غیر مسلم قوموں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں ۔ مسلمان جب دوسری قوموں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے تو اُس کا محرّک (incentive) اُس کا یہی دعوتی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ذاتی مفاد کے لیے ایڈجسٹ مینٹ نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اِس لیے ایڈجسٹ مینٹ کرتا ہے، تاکہ اُس کا دعوتی مشن کسی رکاوٹ کے بغیر پُر امن انداز میں جاری رہے۔ محرک کا یہ فرق بہت اہم ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک ایسا عبادتی عمل بن جاتا ہے جو اُس کو آخرت میں اجر ِ عظیم کا مستحق بنادے۔ اِس کے برعکس، دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی اور حیثیت نہیں ۔
مذکورہ قسم کا ایڈجسٹ مینٹ موجودہ دنیا کا ایک لازمی قانون ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص یا گروہ کا کوئی استثنا (exception) نہیں ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر اصولی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُن کو مفاد کی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرنا ہوگا۔ مگر ایسی صورت میں ان کا ایڈجسٹ مینٹ عبادت کا عمل نہ ہوگا، بلکہ وہ صرف موقع پرستی (expediency)کا ایک معاملہ ہوگا، یعنی وہی چیز جس کو شریعت کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہاجاتا ہے۔ اصول پسندی، ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے، اِس کے مقابلے میں ، موقع پرستی ایک انتہائی بُری صفت ۔
اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option)ہے— اخلاص، یا منافقت۔ مخلصانہ زندگی میں منافقت کا کوئی مقام نہیں ۔ اِسی طرح منافقانہ زندگی میں اخلاص کا کوئی درجہ نہیں ۔ دعوتی مشن واحد مشن ہے جو آدمی کو اِس معاملے میں منافقانہ روش سے بچاتا ہے۔ دعوتی مشن آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ ربانی مشن کی خاطر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ داعی بھی ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے، مگر اُس کا ایڈجسٹ مینٹ، اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر ۔
یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر دعوتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُنھیں ذاتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنا پڑے گا۔ گویا کہ اگروہ دوسروں کے درمیان مخلص بن کر نہ رہیں تو اُنھیں دوسروں کے درمیان منافق بن کر رہنا ہوگا، اور بلاشبہ منافقانہ زندگی سے زیادہ بُری کوئی چیز اِس دنیا میں نہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حقیقت یہ ہے کہ صبر بھی شکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ناخوش گوار صورت حال کو رضامندی کے ساتھ قبول کرنا اور اس کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مان کر مثبت ذہن کے تحت اس کا استقبال کرنا یہی صبر ہے۔ اور یہ صبر ہمیشہ شاکرانہ قلب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ناشکری سے بھرا ہوا دل کبھی صبر کا ثبوت نہیں دے سکتا۔
سیلف ڈسپلن
مارکسی لیڈر جوزف اسٹالن (Joseph Stalin) نے اشتراکی انقلاب (1917ء) سے پہلے اپنی ایک تقریر میں کہا تھاکہ ہم کو انقلاب کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہے:اول ہتھیار، دوم ہتھیار، سوم ہتھیار، آخر میں پھر ہتھیار۔ یہ جھوٹے انقلاب کا فارمولا تھا۔ سچے انقلاب کا فارمولا یہ ہے— اول صبر، دوم صبر، سوم صبر، آخر میں پھر صبر۔
صبر کیا ہے، صبر دراصل امن پر مبنی دانش مندانہ منصوبہ بندی (planning) کا نام ہے۔ صبر یہ ہے کہ وقت اور طاقت کا کوئی معمولی حصہ بھی بے فائدہ ٹکراؤ میں ضائع نہ کیا جائے، بلکہ ساری حاصل شدہ توانائی کو صرف ایک مقصد کے لیے استعمال کیا جائے، یعنی ٹکراؤ کو نظر انداز کرنا او ردستیاب مواقع کو بھرپور طور پر استعمال کرنا۔
صبر دراصل یہ ہے کہ آدمی رد عمل(reaction) سے اپنے آپ کو بچائے، وہ دانش مندانہ تدبیر کے ذریعے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ صابرانہ منصوبہ بندی صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو حالات سے اوپر اٹھ کر سوچے، جو حالات کا عامل بن جائے، نہ کہ حالات کا معمول۔
تاریخ کے تمام تجربات بتاتے ہیں کہ ہتھیار یا جنگ صرف تخریب کاری کا سبب ہے۔ جب بھی کسی نے حقیقی معنوں میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو وہ پرامن جدوجہد کے ذریعے حاصل کی ہے۔ اگر نتیجے کی بنیاد پر منصوبہ بنایا جائے تو کوئی بھی شخص مسلح عمل کا منصوبہ نہیں بنا سکتا۔ ہر شخص لازمی طورپر پرامن عمل کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بنائے گا۔
صبر کا طریقہ ثابت شدہ طورپر بہتر طریقہ ہے۔ پھر کیوں ایسا ہے کہ لوگ صبر کا طریقہ اختیارنہیں کرتے۔ اِس کا واحد سبب یہ ہے کہ صبر اپنے آپ پر سیلف کنٹرول کا تقاضا کرتا ہے۔ صبرکا طریقہ اختیار کرنے کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھنا ضروری ہوتاہے۔ صبر دراصل سیلف ڈسپلن کا نام ہے، اور بلاشبہ سیلف ڈسپلن سے زیادہ مشکل کوئی کام انسان کے لیے نہیں ۔
ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا
مرد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایگوئسٹ(egoist) ہوتا ہے۔ عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اموشنل (emotional) ہوتی ہے۔ یہ دونوں صفتیں پیدائشی صفتیں ہیں ۔ اِن کو بدلنا کسی بھی حال میں ممکن نہیں ۔ اگر آپ اِس حقیقت کو جان لیں تو آپ کے لیے عورت اور مرد دونوں کے ساتھ معاملہ(deal) کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس کا مختصر فارمولا یہ ہے کہ مرد کے ایگو کو ٹچ (touch) نہ کیجیے، اور عورت کے اموشن (emotion) سے نہ ٹکرائیے۔ یہی فارمولا خاندانی زندگی میں بھی کار آمد ہے اور سماجی زندگی میں بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں معاملات ہمیشہ ٹکراؤ کی بنا پر بگڑتے ہیں ۔ ٹکراؤ سے اعراض کرنا ہی پُرعافیت زندگی کا واحد کامیاب فارمولا ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور فارمولا عملی طورپر اِس دنیا میں ممکن نہیں ۔ اِس فارمولے کو ایک لفظ میں ٹکراؤ مینج مینٹ (conflict management) کہاجاسکتا ہے۔
ٹکراؤ سے اعراض کرنا، صرف ایک اخلاقی معاملہ نہیں ، یہ خود اپنی تعمیر (self-development) کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جب آپ ٹکراؤ سے بچتے ہیں تو نتیجے کے اعتبار سے اِس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا وقت بچایا، آپ نے اپنی توانائی بچائی، آپ نے اپنا مال بچایا، آپ نے اپنے آپ کو اِس قابل بنایا کہ کسی وقفے کے بغیر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھیں ۔ آپ غیرضروری طورپر ذہنی تناؤ (tension) کا شکار نہیں ہوئے، آپ نے اپنے ذہن کو کامل طور پر مثبت سوچ کے لیے فارغ رکھا، وغیرہ۔
کامیاب زندگی پچاس فی صد خود اپنے استعمال کا نام ہے، اورپچاس فی صد دوسروں سے موافقت (adjustment) کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک اٹل فطری قانون ہے، اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں ۔ کامیابی کے لیے دونوں ہی چیزیں یکساں طورپر ضروری ہیں ۔
جو انسان اِس تقسیم پر راضی نہ ہو، اس کو اپنے لیے ایک اور دنیا کی تخلیق کرنا چاہیے۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں اِس کے سوا زندگی کی کوئی اور صورت ممکن نہیں ۔
تواصی بالحق ، تواصی بالصبر
27 اگست 2007ء کو میں نے رات میں ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آواز آئی۔ اُس نے کہا کہ اٹھو۔ میں نے کہا کہ میں تو اٹھا ہوا ہوں ۔ اُس نے کہا ’تواصی بالحق‘ کو جانو، ’تواصی بالحق ‘ کو جانو، ’تواصی بالحق‘ کو جانو، میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا ہے۔ اُس نے کہا، ’تواصی بالحق‘ کوجانو، میں نے کہا کہ آپ مجھے بتائیے۔ اُس نے کچھ دیر تک مجھے سمجھایا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جو کہا، میں اس کو سمجھ نہیں پایا۔ اُس نے کہا کہ اِسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ تواصی بالحق کو سمجھو۔ اِس کے بعد میری آنکھ کُھل گئی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ لفظ نہ میرے مطالعے میں تھا اور نہ مجھے اُس کا مفہوم معلوم تھا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں ’تواصی بالحق‘ کو کیسے سمجھوں ۔ اِس میں آپ میری مدد فرمائیں (حبیب محمد، حیدر آباد)۔
’تواصی‘کا لفظ قرآن کی سورہ نمبر 103 میں آیا ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے : زمانہ گواہ ہے کہ بے شک، انسان گھاٹے میں ہے۔ سوااُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی :
History is a witness that man is in loss. Except those who believe and do good, and exhort on each other truth, and exhort on each other patience.
قرآن کی اِس سورہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ دو صحابی جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو وہ یاددہانی کے لیے آپس میں اِس سورہ کا تذکرہ کرتے تھے (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 5124)۔
قرآن کی اِس سورہ میں مومنانہ زندگی کا کورس بتایا گیا ہے۔ یہ کورس بنیادی طورپر تین اجزا پر مشتمل ہے — ایمان اور عمل اور تواصی۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی کو شعور کی سطح پر خدا کی معرفت حاصل ہو۔ یہ معرفت ایک انسان کے لیے ذہنی انقلاب کے ہم معنیٰ ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی نے اپنی تلاش کا جواب پالیا۔ آدمی کو اپنی فکری سرگرمیوں کے لیے صحیح فریم ورک مل گیا ۔ آدمی کو ظاہری بصارت کے ساتھ، داخلی بصیرت کی روشنی حاصل ہوگئی۔ آدمی کو اپنی ذہنی تگ و دَو کا مرکز حاصل ہوگیا۔ آدمی کے اندر اُس ہستی کا شعور پیداہوگیا، جس سے وہ سب سے زیادہ ڈرے اور جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرے۔
اِس کورس کا دوسرا جُزء عملِ صالح ہے۔ عملِ صالح سے مراد وہ عمل ہے جو عین حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ عملِ صالح کی اِس فہرست میں ذکر و دعا، عبادات، اخلاق اور معاملات، وغیرہ سب شامل ہیں ۔ ہر وہ کام جس میں انسان کا جسمانی وجود شامل ہوتا ہے، وہ سب اُس کا عمل ہے اور یہ مطلوب ہے کہ اِن تمام اعمال کو صالحیت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی عمل کی دو قسمیں ہیں :ایک، خود رُخی(self-oriented) عمل اور دوسرا، خدا رُخی (God-oriented)عمل۔ اسلامی شریعت میں خود رخی عمل کا دوسرا نام غیر صالح عمل ہے اور خدا رخی عمل کا دوسرا نام صالح عمل۔
اِس کورس کا تیسرا جُزو تواصی ہے۔ تواصی میں مشارکت پائی جاتی ہے۔اِس کا مطلب ہے ایک دوسرے کو نصیحت کرنا۔ دو آدمی ایک دوسرے کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت، سنجیدہ موضوعات پر ایک دوسرے کے ساتھ جو گفتگو کریں ، اُس کانام تواصی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ تواصی نام ہے باہمی تبادلۂ خیال(mutual discussion) کا۔ دینی موضوعات پر باہمی ڈسکشن کسی مومن کی زندگی کا اُسی طرح ایک ناگزیر حصہ ہے، جس طرح ایمان اور عملِ صالح۔
یہ باہمی تبادلۂ خیال، یا انٹلکچول ایکسچینج (intellectual exchange) ذہنی ترقی کے لیے بےحد ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹلکچول ایکسچینج کے بغیر ذہنی ترقی بالکل ممکن نہیں ۔ جب دو آدمی سنجیدگی کے ساتھ ایک موضوع پر تبادلۂ خیال کریں تو دو آدمیوں کی گفتگو کے دوران ایک تیسرا تصور ایمرج (emerge)کرتا ہے، جس طرح دو پتھروں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز نکلتی ہے، یعنی چنگاری۔ اِسی طرح باہمی تبادلۂ خیال دونوں کے لیے ذہنی ارتقاکا ذریعہ بنتا ہے۔
اہلِ ایمان کے لیے تواصی کے اِس عمل کا موضوع صرف دو ہے، اور وہ ہے— حق اور صبر۔ حق میں تمام مثبت موضوعات شامل ہیں ۔ مثلاً قرآن اورحدیث کے گہرے معانی کو سمجھنے کے لیے باہمی تبادلۂ خیال کرنا۔
ڈسپلن کی اہمیت
ڈسپلن (discipline) کا مطلب انضباط ہے۔ ڈسپلن کو ایک لفظ میں انضباطی کردار (controlled behaviour)کہہ سکتے ہیں ۔اِس کا تعلق دراصل اجتماعی زندگی سے ہے۔ سادہ طورپر کہہ سکتے ہیں کہ ڈسپلن کا مطلب ہےعملی زندگی میں دوسروں کی رعایت کرنا۔
زندگی کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی صرف اپنے آپ کو جانے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق، زندگی گزارے۔ اُس کے اندر دوسروں کی پروا کرنے کا مزاج نہ ہو۔ ایسی زندگی ڈسپلن کے خلاف زندگی ہے۔اِس کے برعکس، دوسرا انسان وہ ہے جو دوسروں کی رعایت کرنا جانتا ہو، جو اپنی گفتگو اور اپنے سلوک میں ہمیشہ یہ دھیان رکھے کہ دوسروں کے اوپر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ اس کی کسی بات پر دوسرا شخص ناگواری کا اظہار کرے تو وہ فوراً اپنی غلطی کو مانتے ہوئے اپنی اصلاح کرے— یہ ڈسپلن کے ساتھ زندگی گزارنا ہے۔
ڈسپلن کوئی سادہ چیز نہیں ۔ ڈسپلن دراصل کائناتی اخلاق کا دوسرا نام ہے۔ وسیع خلا میں سیارے اور ستارے مسلسل طورپر حرکت کرتے ہیں ، لیکن اُن میں کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا، جنگل میں مختلف قسم کے جانور رہتے ہیں ، لیکن ہر ایک اپنی جبلّت (instinct)کی کامل طور پر پابندی کرتا ہے۔ یہی وہ پابند کردار ہے جس کو انسانی زندگی کے اعتبار سے ڈسپلن کہا جاتا ہے۔
یہ ڈسپلن بے حد ضرور ی ہے۔ یہ آدمی کی شرافت کی پہچان ہے۔ یہ کسی آدمی کی بلند اخلاقی کو بتاتا ہے۔ ڈسپلن کے ساتھ جینے والا انسان ہی دراصل کامل معنوں میں انسان ہے۔ جو شخص ڈسپلن سے خالی ہو، وہ گویا کہ اعلیٰ انسانی اخلاق سے خالی ہے۔ یہ ڈسپلن کسی کے اندر خا رجی ضوابط سے نہیں پیدا ہوتا، وہ آدمی کے داخلی احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ ڈسپلن کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے معاون بنے، اور ڈسپلن کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے لیے زحمت (nuisance) پیدا کرنے کاباعث نہ بنے۔
رات اور دن
قرآن کی سورہ الاسراء میں ارشاد ہوا ہے— اور انسان برائی مانگتا ہے، جس طرح اس کو بھلائی مانگنا چاہیے۔ اور انسان بڑا جلد باز ہے۔ اور ہم نے رات اور دن کو دونشانیاں بنایا۔ پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹا دیا اور دن کی نشانی کو ہم نے روشن کر دیا۔ تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔ اور ہم نے ہر چیز کو خوب کھول کر بیان کیا ہے(17:11-12)۔
رات اور دن کا نظام بتاتا ہے کہ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے تاریکی ہو اور اس کے بعد روشنی آئے ۔ خدائی نقشہ میں دونوں یکساں طور پر ضروری ہیں ۔ جس طرح روشنی میں فائدے ہیں ، اسی طرح تاریکی میں بھی فائدے ہیں ۔ دنیا میں اگر رات اور دن کا فرق نہ ہو تو آدمی اپنے اوقات کی تقسیم کس طرح کرے۔ وہ اپنے کام اور آرام کا نظام کس طرح بنائے ۔
آدمی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ تاریکی سے گھبرائے اور صرف’’ روشنی‘‘ کا طالب بن جائے ۔ کیوں کہ خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ جو آدمی ایسا چاہتا ہو اس کو خدا کی دنیا چھوڑکر اپنے لیے دوسری دنیا تلاش کرنی پڑے گی۔
مگر یہی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ وہ ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ اس کو تاریکی کا مرحلہ پیش نہ آئے اور فوراً ہی اس کو روشنی حاصل ہو جائے۔ اسی کمزوری کا نتیجہ وہ چیز ہے جس کو عجلت کہا جاتاہے ۔عجلت در اصل خداوندی منصوبہ پر راضی نہ ہونے کا دوسرا نام ہے ۔ اور خداوندی منصوبہ پر راضی نہ ہونا ہی تمام انسانی بربادیوں کا اصل سبب ہے ۔
خدا چاہتا ہے کہ انسان دنیا کی فوری لذتوں پر صبر کرے، تاکہ وہ آخرت کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھ سکے۔ مگر انسان اپنی عجلت کی وجہ سے دنیا کی وقتی لذتوں پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ آگے کی طرف اپنا سفر طے نہیں کر پاتا ۔ آدمی کی عاجلہ پسندی اس کو آخرت کی نعمتوں سے محروم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔یہی دنیا کا معاملہ بھی ہے۔ دنیا میں حقیقی کامیابی صبر سے ملتی ہے، نہ کہ جلد بازی ہے ۔
صبر، محاسبہ، توسم
ایمان کے بعد مطلوب زندگی کی تعمیر کے لیے تین بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ اِن تینوں چیزوں کو اختیار کیے بغیر کوئی شخص سچا مومن نہیں بن سکتا۔ وہ تین چیزیں یہ ہیں :صبر، محاسبہ، توسم۔
ایمان لانے کے بعد ہر مومن کے لیے سب سے پہلا مرحلہ یہ پیش آتا ہے کہ اپنے ماحول کے اندر وہ کس طرح مومنانہ زندگی گزارے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، یہاں ہر لمحہ غیر موافق باتیں پیش آتی ہیں ، ایسی باتیں جو آدمی کو بے برداشت کردیں ۔ ایسے تمام مواقع پر آدمی کو صبر کرنا پڑتا ہے، تاکہ انحراف کے بغیر وہ مسلسل طورپر ایمان کے راستے پر قائم رہے۔
دوسری چیز محاسبہ (introspection)ہے۔ امتحان کی اِس دنیا میں آدمی بار بار غلطی کرتاہے۔ اُس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ بے لاگ محاسبہ کرکے اپنی اصلاح کی جاتی رہے۔ فوری محاسبہ کے اِس عمل کے بغیریہ ہوگا کہ غلطیاں آدمی کی شخصیت کا حصہ بن جائیں گی اور پھر وہ کبھی اس سے جدا نہ ہوں گی۔
اِس سلسلے میں تیسری چیز توسم ہے۔ توسم کا مطلب ہے۔ غور وفکر کی زندگی گزارنا، اپنے تجربات اور اپنے آس پاس کی دنیا سے مسلسل طور پرنصیحت اور سبق لیتے رہنا۔ یہ توسم مومن کے لیے اس کی ایمانی غذا ہے۔ مسلسل توسم کے بغیر کوئی شخص اپنے آپ کو ایمانی ترقی کے راستے کا مسافر نہیں بنا سکتا۔
اسلامی زندگی، ایمان سے شروع ہوتی ہے۔ مگر ایمان، اسلامی زندگی کا صرف آغاز ہے، وہ اس کی آخری منزل نہیں ۔ اِس آغاز کے بعد آدمی کو مسلسل طورپر ایک کورس سے گزرنا پڑتا ہے۔ اِس کورس کی تکمیل کے بغیر حقیقی معنوں میں کوئی شخص مومن ومسلم کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا۔ اِس کورس کے اجزا بنیادی طورپر یہی تین ہیں — صبر اور محاسبہ اور توسم۔ یہ کورس کسی قسم کے رسمی اعمال کے ذریعے انجام نہیں پاتا۔ یہ مکمل طورپر ایک شعوری سفر ہے۔ اپنے شعور کو متحرک کرکے ہی آدمی اس امتحان میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
اعراض
اسلام کا ایک اہم معاشرتی اصول اعراض ( اوائڈنس) ہے۔ یعنی شکایت اور اختلاف کے موقع پر ٹکراؤ سے پر ہیز کرنا۔ اشتعال کے موقع پر رد عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو مثبت رویہ پر قائم رکھنا۔ ہر مرد و عورت کا مزاج دوسرے مرد و عورت سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اور دوسرے کے درمیان اور بہت سے فرق ہیں جس کی بنا پر بار بار ایک کو دوسرے سے ناخوش گواری کا تجربہ پیش آتا ہے۔ ایک اور دوسرے کے درمیان اختلاف کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اجتماعی زندگی میں خواہ وہ گھر کے اندر کی ہو یا گھر کے باہر کی، اس طرح کی ناپسندیدہ صورت حال کا پیش آنا بالکل فطری ہے۔ اس کو روکنا کسی حال میں ممکن نہیں ۔
اب ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر اختلاف سے ٹکراؤ کیا جائے۔ ہرنا خوش گواری سے براہ راست مقابلہ کر کے اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح کی کوشش غیر فطری ہے ۔ اس لیے کہ وہ مسئلہ کو صرف بڑھانے والی ہے ۔ وہ ہر گز اس کو گھٹانے والی نہیں ۔
اسلام میں ایسے مواقع پر اعراض کی تعلیم دی گئی ہے۔ یعنی ناخوش گوار صورت حال کو مٹانے کے بجائے اس کو برداشت کرنا ، اشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کو نظر انداز کرنا، اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ متحد ہو کر رہنا۔
اسلام کے مطابق یہ صرف ایک معاشرتی طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک عظیم ثواب بھی ہے۔ لوگوں کے درمیان اچھے طریقے سے رہنا عام حالات میں بھی ایک ثواب ہے ۔ مگر جب کوئی شخص شکایت اور اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ اچھے رویہ پر قائم رہے ، وہ اپنے منفی جذبات کو دبا کر مثبت روش کا ثبوت دے تو اس کا ثواب بہت بڑھ جاتا ہے۔ خدا کے یہاں ایسے لوگوں کا شمار محسنین میں کیا جائے گا، یعنی وہ لوگ جنھوں نے دنیا کی زندگی میں بہتر اخلاق اور اعلیٰ انسانیت کا ثبوت دیا۔ اعراض کے بغیر اعلیٰ انسانی کردار پر قائم رہنا ممکن نہیں ۔
اعراض کی حکمت
اعراض (avoidance) زندگی کا ایک اہم اصول ہے۔ اعراض کا تعلق دعوتی مشن سے بھی ہے اور زندگی کے دوسرے معاملات سے بھی۔ اعراض کے اصول کو اختیار کیے بغیر اس دنیا میں کوئی بھی کام درست طور پر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر فرد اور ہر قوم کو خالق کی طرف سے آزادی حاصل ہے۔ ہر آدمی کو یہ موقع ہے کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق اپنی آزادی کا استعمال کرے۔ زندگی کا یہی وہ معاملہ ہے جس کی بنا پر لوگوں کے درمیان اختلافات (differences) پیدا ہوتے ہیں ۔ اختلاف اجتماعی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
ایک شخص جس کی زندگی کا ایک مشن ہو، اس کو جاننا چاہیے کہ مشن کا لازمی اصول یہ ہے کہ آدمی اختلافی امور کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا مشن چلائے۔ وہ دوسرے لوگوں سے الجھے بغیر مثبت ذہن کے ساتھ اپنے منصوبے کی تکمیل میں لگا رہے۔
اعراض کے اصول کی اہمیت جتنی دوسرے معاملات میں ہے، اس سے بہت زیادہ دعوت کے معاملے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام اعراض کے بغیر عملاً ممکن نہیں ۔ دعوت کا نشانہ لوگوں کو آخرت سے باخبر کرنا ہے۔ اس مشن کو درست طور پر انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ داعی کے اندر یکسوئی کا مزاج ہو۔اس کےاندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ اہل دنیا کی طرف سے چھیڑے ہوئے مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز (ignore) کرے۔ اور پوری یکسوئی کے ساتھ لوگوں کو آخرت کی طرف پکارتا رہے۔جو لوگ دعوت کانام لیں لیکن وہ اہل دنیا کی طرف سے چھیڑے ہوئے مسائل میں الجھے رہیں ، وہ کبھی خدا کے یہاں داعی کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگوں کی کوششیں ، قرآن کے مطابق، دنیا میں حبطِ اعمال (18:104) کا شکار ہوجائیں گی، وہ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃ (22:11) کا مصداق ہوکر رہ جائیں گي، یعنی دنیا اور آخرت میں خسارہ۔
مثبت تجربہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کئی غزوات پیش آئے، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو احد کہا جاتا ہے۔ اس غزوہ میں مسلمانوں میں سے ستر آدمی مارے گئے تھے، اور ستر زخمی ہوئے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ بھی زخمی ہوگئے تھے۔ اس مناسبت سے یہ آیت نازل ہوئی:فَأَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أَصَابَکُمْ (3:153)۔ یعنی، پھر اللہ نے تم کو غم پر غم دیا تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے کھوئی گئی اور نہ اس مصیبت پر جو تم پر پڑے۔ اس موقع پر قرآن میں یہ نصیحت کی گئی— تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے کھوئی گئی :
so that you might not grieve for what you lost,
یہاں رنجیدہ برائے رنجیدہ نہیں ہوسکتا۔ ضرور ہے کہ رنجیدہ نہ ہونے کا کوئی مثبت مقصد ہو۔ وہ مقصد یہ ہے کہ غزوہ ٔاحد کے موقع پر جو کچھ پیش آیا، وہ بظاہر ایک منفی واقعہ تھا، لیکن تم کو چاہیے کہ اس منفی واقعہ کو مثبت تجربہ میں بدلو۔ ایسا کس طرح ہوسکتا ہے۔ ایسا اس طرح ہوسکتا ہے کہ لوگ خالص غیر متاثر ذہن کے تحت پورے معاملے پر سوچیں ، اور خالص سوچ کے ذریعے اس نتیجے تک پہنچیں کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ، بلکہ وہ نئی زندگی کا آغاز ہے۔
مصیبت پر رنجیدہ نہ ہونا، کوئی سادہ بات نہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی اپنی جسمانی مصیبت کو ذہنی مصیبت نہ بنائے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ اس سے جو کچھ کھویا گیا، اس کے غم میں اپنا یہ حال کرلے کہ جو کچھ اب بھی اس کے پاس باقی ہے، اس سے غافل ہوجائے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کھوئے ہوئے کو فراموشی کے خانے میں ڈالے، اور جو کچھ اب بھی اس کے پاس بچا ہوا ہے، اس کو لے کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔ اس دنیا میں ہر ایک کو نقصان کا تجربہ ہوتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو بچے ہوئے کو جانے ، اور اس کی بنیاد پر اپنے لیے نئی زندگی کی تعمیر کرے۔ اسی کا نام دانش مندی ہے، اور یہی دانش مندی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔
منفی سوچ کا مزاج
قرآن میں ایک کردار کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے۔ یہ دو آیتیں ہیں ، ان کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے— اور ان کو اس شخص کا حال سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں تو وہ ان سے نکل بھاگا۔ پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین کا ہو رہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا۔ پس اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر بوجھ لادے تب بھی ہانپے اور اگر چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔ یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا۔ پس تم یہ احوال ان کو سناؤ تاکہ وہ سوچیں (7:175-176)۔
یہاں آیت سے مراد ربانی رہنمائی ہے اور ہانپنے سے مراد شکایت کا مزاج (complaining mentality)ہے۔جو شخص یا گروہ ربانی رہنمائی سے سبق نہ لے ، وہ ہر حال میں شیطان کا پیرو بن جائے گا۔ ایک صورتِ حال میں ایک قسم کی منفی بات کہے گا اور اگر صورتِ حال بدل جائے تو وہ دوسری قسم کی منفی بات بولنا شروع کردے گا۔مثلاً ایک شخص اگر شیطان کے زیر اثر منفی انداز میں سوچنے کا عادی بن جائے ۔تواس کا حال یہ ہوگا کہ اگر اس کو ایک اعتبار سے اچھے حالات ملیں تو وہ غلط تقابل کرکے اس میں شکایت کا ایک پہلو نکال لے گا۔اور اگر حالات بدل جائیں تو وہ دوبارہ اپنی بےاعترافی کے مزاج کی بنا پر ایک اور پہلو شکایت کا نکال لے گا۔ وہ دونوں حالتوں میں منفی بولی بولے گا۔ ایک نوعیت کے حالات ہوں تب بھی، اور دوسری نوعیت کے حالات ہوں تب بھی۔
اصل یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، زندگی کسی کے لیے بھی مکمل طور پر بے مسئلہ نہیں ہوتی۔ کبھی ایک مسئلہ تو کبھی دوسرا مسئلہ۔ اس معاملے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اپنی منفی سوچ کو بدلے۔ وہ بظاہر شکایت کے حالات میں بھی مثبت ذہن سے سوچنے کا طریقہ اپنائے،وہ مکمل طور پر مثبت انداز میں سوچنے والا بن جائے۔
اپنی تعمیر آپ
قرآن میں ایک نفسیاتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15)۔ یعنی، انسان (صحیح اور غلط کے معاملے میں ) اپنے آپ سے خوب باخبر ہے۔ چاہے وہ کتنے ہی عذرات پیش کرے۔
قرآن کی اس آیت میں ایک نفسیاتی حقیقت، ضمیر ،کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یعنی اس بات کا اندرونی احساس کہ کسی طرزِ عمل یا سوچ میں کیا غلط ہے اور کیا صحیح ۔ یہ نفسیاتی حقیقت ہر انسان کے لیے ایک حجت داخلی کی حیثیت رکھتی ہے۔انسان بظاہر دوسرے حیوانات کی طرح ایک حیوان ہے۔ مگرانسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر ایک ایسی صفت پائی جاتی ہے، جو کسی اور حیوان کے اندر نہیں ہے۔ یہ ضمیر (conscience) کی صفت ہے۔
خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کو اِس بات کی کامل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہے، سوچے او ر جس طرح چاہے، بولے اور لکھے۔مگر انسان کے اندر پیدائشی طور پر یہ شعور موجود ہے کہ وہ برائی اور بھلائی میں تمیز کرے۔ انسان کا ضمیر صحیح عمل کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔یہ فرق بتاتا ہے کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایک سیلف میڈمین (self-made man) بنے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنی نگرانی خود کرے۔ وہ اپنے اندر سیلف کرکشن (self-correction) کا پراسس جاری کرے۔وہ تعمیر خویش کا نمونہ بن جائے۔
انسان کو اس کے خالق نے مکسچر آف اپوزٹس (mixture of opposites) بنایا ہے۔ یہ انسان کے اوپر اس کے خالق کا احسانِ عظیم ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ انسان سیلف ڈسکوری (self-discovery) کی سطح پر کھڑا ہو۔ وہ اپنی غلطی کو خود دریافت کرکے اس کی اصلاح کرتا رہے۔ خدا کی کتاب اور کائنات کی نشانیاں بلاشبہ انسان کے لیے مددگار ہیں ۔ اسی کے ساتھ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کوخود اپنے عمل سے جنت کے لیے ایک مستحق امیدوار (deserving candidate)بنائے۔
انسان کے لیے اللہ نے جنت کو مقدر کیا ہے۔ جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوں گی، جہاں انسان کو مکمل معنوں میں فل فلمنٹ (fulfilment)حاصل ہوگا۔ اس قسم کی جنت بلاشبہ انسان کے لیے خالق کا سب سے بڑا عطیہ ہے۔
انسا ن کےاوپر خالق کا مزید احسان یہ ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان کو جنت یہ کہہ کر دی جائے کہ تم کو جنت بطور استحقاق دی جارہی ہے۔ اگر چہ دینے والا پھر بھی خالق ہوگا۔ خالق کے بغیر انسان اس دنیا میں کوئی بھی چیز حاصل نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ خالق کی خصوصی عنایت ہے کہ وہ انسان کو جنت یہ کہہ کر دے کہ تم نے اپنے عمل سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کیا ہے، اس لیے تم کو جنت دی جارہی ہے۔ اب تم اس میں ابدی طور پر خوف اور حزن سے محفوظ ہوکر قیام کرو۔
اس سلسلے میں ایک حدیث کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ وہ حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ، فَيَسْتَغْفِرُونَ اللهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2749)۔ یعنی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تم کو ہٹا دے گا اور ایسی قوم کو لائے گا جو گناہ کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ انہیں معاف فرما دے گا۔
اس حدیث میں گناہ اور مغفرت کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں زیادہ اہم بات کیا ہے۔ وہ گناہ اور مغفرت کے درمیان جاری ہونے والا نفسیاتی عمل (psychological process) ہے۔ جب انسان کو ئی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے ایگو (ego)کا فعل ہوتا ہے۔ مگر عین اسی وقت انسان کی دوسری صفت، ضمیر جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے اندر شدید ندامت کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔ اس طرح انسان کے اندر ایک داخلی اسٹرگل (struggle)جاری ہوجاتا ہے۔ یعنی ایگو اور ضمیر یا سیلف اور اینٹی سیلف کے درمیان داخلی اسٹرگل۔ اس داخلی اسٹرگل کے ذریعہ انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج کرتی ہے۔ یہ شخصیت احساسِ خطا کے بغیر بن نہیں سکتی۔
انسان کی رعایت
نفرت کے جواب میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور محبت کے جواب میں محبت ۔ اسی لیے اسلام نے یہ طریقہ سکھایا ہے کہ کسی کو غلطی کرتے دیکھو تو اس کو حکمت و محبت کے ساتھ سمجھاؤ جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا ہے۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:یَسِّروا ولا تعسِّرُوا، وبشِّروا ولاتُنَفِّرُوا (صحیح البخاری، حدیث نمبر69)۔ یعنی تم لوگوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرو،تم لوگوں کے ساتھ سختی کا معاملہ نہ کرو۔ تم لوگوں کو خوش خبری دو، تم لوگوں کو متنفر نہ کرو۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں فجر کی جماعت میں اس لیے پیچھے رہ جاتا ہوں کہ فلاں صاحب ہماری مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں اور وہ اس کو بہت لمبا کر دیتے ہیں ۔ آپ یہ سن کر غضبناک ہو گئے ۔ حتی کہ اس سے زیادہ غضبناک میں نے آپ کوکبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ نے تقریرکرتے ہوئے فرمایا:يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ خَلْفَهُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ(صحیح البخاري، حدیث نمبر704)۔ یعنی، اےلوگو! تم میں کچھ ایسے ہیں جو لوگوں کو دین سے دورکر دیتے ہیں ۔ تم میں سے جو شخص لوگوں کی امامت کرے ، اس کو چاہیے کہ مختصر نماز پڑھائے ۔ کیونکہ اس کے پیچھے کوئی کمزور ہے، کوئی بوڑھا ، کوئی ضرورت مند۔
حضرت جابررضی اللہ عنہ ایک روایت میں بتاتے ہیں کہ معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے ۔ یہاں سے واپس ہو کر جاتے اور اپنے محلہ والوں کی امامت کرتے ۔ ایک دن انھوں نے عشاء کی نماز پڑھائی اور اس میں سورہ البقرہ پڑھی ۔ ایک آدمی لمبی قرأت سے گھبرا کر نماز سے الگ ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت معاذ اس سے کھنچے کھنچے رہنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے اس آدمی کو کچھ نہیں کہا۔ البتہ حضرت معاذ کی بابت فرمایا:فَتَّانٌ، فَتَّانٌ، فَتَّانٌ(صحیح البخاری، حدیث نمبر701)۔ یعنی،فتنه انگیز،فتنه انگیز ، فتنه انگیز۔
اس سلسلے کا سب سے زیادہ حیرت انگیز و اقعہ وہ ہے جب کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور مسجد نبوی میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگ اس کی طرف دوڑے تو آپ نے لوگوں کو روکا۔ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو چکا تو آپ نے گندگی کی صفائی کرائی اور صحابہ سے فرمایا:فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر6128)۔ یعنی، تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو،سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ۔
قدیم زمانہ میں کعبہ کی عمارت ایک بار بارش کی زیادتی سے گرگئی تھی۔ قریش نے دوبارہ بنایا تو سامان کی کمی کی وجہ سے اصل بنائے ابراہیمی پرنہیں بنایا ، بلکہ چھوٹا کر کے بنایا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس کو دوبارہ بنا ئے ابراہیم کے مطابق بنوا دیں ، مگر اس اندیشہ سے کہ کعبہ کی عمارت کے ساتھ جو تقدس شامل ہے، اس کی وجہ سے لوگ شاید اس کے انہدام کا تحمل نہ کرسکیں ، آپ اس سے بازرہے۔ آپ نے ایک بار حضرت عائشہ سے فرمایا:لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَجَعَلْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1585؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1333)۔ یعنی، اگر تمہاری قوم نئی نئی کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں بیت اللہ کو توڑ کر پھر سے ابراہیم کی بنیاد کے مطابق بنا دیتا ۔
اِن احادیثِ رسول میں دراصل انسانی رعایت کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیثوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ انسان کے ساتھ آخری حد تک رعایت کا معاملہ کیا جائے۔قول یا عمل ، کسی میں بھی شدت کا انداز اختیار نہ کیا جائے۔
اِس رعایت کا مطلب لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاح کے عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز (starting point)اختیار کیا جائے۔ اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعمال کے ظاہری پہلوؤں کے بارے میں رعایت کا معاملہ کیا جائے اور زیادہ زور اور تاکید اعمال کے داخلی پہلوؤں پر دیا جائے۔ کیوں کہ ظواہر کی اصلاح سے داخلی اصلاح نہیں ہوتی۔ بلکہ اِس کے برعکس، داخلی اصلاح سے ظواہر کی اصلاح ہوتی ہے۔
رعایت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو دین پر عمل کرنا، زیادہ مشکل نہیں معلوم ہوتا ۔ وہ متوحش ہوئے بغیر دینی اعمال کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے آدمی کے داخل کی اصلاح ہوتی ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کے ظواہر بھی دین کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔ رعایت دراصل حکیمانہ طریقِ کار کا دوسرا نام ہے، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ حقیقی اصلاح ہمیشہ حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ غیر حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے۔مُصلح کا طریقہ ہمیشہ رعایت کا ہونا چاہیے۔ مصلح کا سارا زور اِس پر ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر جذبۂ عمل پیدا کرے۔ عمل کا جذبہ پیدا ہوتے ہی آدمی وہ کام خود کرنے لگتا ہے جس کو شدت پسند مصلح ناکام طورپر انجام دینا چاہتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک ہندستانی کو پہلی بار جاپان جانے کا موقع ملا۔ ایک روز انھوں نے اپنے جاپانی میزبان سے ازراہِ ہمدردی کہا :’’آپ لوگوں کے ساتھ امریکا نے بڑا ظلم کیا۔ اس نے تاریخ کے پہلے ایٹم بم آپ کے ملک پر گرائے اور آپ کے دو شہروں کو کھنڈر بنادیا۔‘‘
’’نہیں کوئی ظلم نہیں ‘‘ جاپانی نے کہا۔ ’’یہ بم تو ہمارے لیے رحمت ثابت ہوئے۔ ہمارے یہ شہر قدیم طرز پر آباد تھے۔ تنگ اور خم دار سڑکیں ، فرسودہ مکانات، گندے محلّے، ان کا نام تھا ہیرو شیما اور ناگاساکی۔ معمولی حالات میں ہم نئے طرز پر ان کی تعمیر نہیں کرسکتے تھے۔ مگر جب جنگ نے اچانک ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا تو ہم کو موقع مل گیا اور ہم نے قدیم ملبہ پر انتہائی جدید قسم کے منصوبہ بند شہر آباد کردیے‘‘— مثبت سوچ اسی طرح کام کرتی ہے۔ وہ ہر بربادی میں اپنے لیے نئی تعمیر کے امکانات ڈھونڈ لیتی ہے۔
مثبت سوچ کی ضرورت
مثبت سوچ (positive thinking) کا مطلب کیا ہے۔ اس سے مراد وہ سوچ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جس میں شکایت اور احتجاج کے بجائے، مکمل طور پر حقیقتِ واقعہ کی بنا پر رائے قائم کی جائے۔ مثبت سوچ وہ ہے جو ہر قسم کے فخر اور تعصب سے خالی ہو۔ مثبت سوچ دوسرے الفاظ میں مبنی بر حقیقت سوچ کا نام ہے۔
مثبت سوچ کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ منفی سوچ سے منفی شخصیت بنتی ہے، اور مثبت سوچ سے مثبت شخصیت۔ مثبت سوچ فطرت کی آواز ہوتی ہے، اور منفی سوچ ابلیس کی آواز۔ مثبت سوچ انسان کو پاکیزہ شخصیت بناتی ہے، اور منفی سوچ اس کی شخصیت کو آلودہ شخصیت بنادیتی ہے۔ مثبت سوچ والے آدمی کو جنت میں بسانے کے لیے منتخب کیا جائے گا، اور منفی سوچ والا آدمی ہمیشہ کے لیے جنت میں داخلے سے محروم رہے گا۔
منفی سوچ سے بچنا ، اور مثبت سوچ کا طریقہ اختیارکرنا، اتفاق سے نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیت آدمی کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ باشعور ہو، جب وہ شعوری طور پر اپنے آپ کو ایسا بنانے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی برابر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔
مثبت سوچ کا معاملہ، مثبت سوچ برائے مثبت سوچ نہیں ہے۔ یعنی مثبت سوچ بذاتِ خود اصل مقصود نہیں ہے، بلکہ مثبت سوچ کا فائدہ یہ ہے کہ مثبت سوچ والا آدمی ہر قسم کے ڈسٹریکشن (distraction)سے بچ جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کوصرف ضروری باتوں میں مشغول کرے، وہ غیر ضروری باتوں میں اپنے وقت کو ضائع نہ کرے۔ مثبت سوچ آدمی کو بامقصد انسان بناتی ہے۔ مثبت سوچ آدمی کو ایسی مصروفیت سے بچاتی ہے جس کا کوئی فائدہ ، نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں ۔
منفی سوچ کا نقصان
تمام ناکامیوں کا سبب منفی سوچ ہے اور تمام کامیابیوں کا سبب مثبت سوچ— یہی ایک لفظ میں زندگی کا خلاصہ ہے۔ منفی سوچ والا آدمی اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور اگر وہ بظاہر کامیاب دکھائی دے تو اس کی کامیابی وقتی ہوگی۔ اس کے برعکس مثبت سوچ والے آدمی کے لیے کامیابی پائیدار بھی ہے اور یقینی بھی۔
منفی سوچ کیا ہے اور مثبت سوچ کیا۔ منفی سوچ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جانے مگر وہ دوسروں کو نہ جانے۔ وہ مسائل کو جانے مگر وہ مواقع کو نہ جانے۔ وہ حال کو جانے مگر وہ مستقبل سے بے خبر ہو۔ وہ اپنے قریبی حالات کو جانے مگر وہ دور کے حالات سے باخبر نہ ہو۔
منفی سوچ والے آدمی کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے ذہنی خول میں جیتا ہے۔ اُس کے ذہن کے اندر جو خیال آجائے اُسی کو وہ اصل حقیقت سمجھ لیتا ہے۔ وہ اپنی نفسیاتی پیچیدگی کی بنا پر اس قابل نہیں ہوتا کہ اُس کے ذہن کے باہر جو حقیقتیں ہیں اُن کو جانے اور ان کی روشنی میں زیادہ درست رائے قائم کرے۔ منفی سوچ دراصل بند سوچ کا دوسرا نام ہے۔
اس کے مقابلہ میں مثبت سوچ وہ ہے جو کھُلی سوچ ہو۔ مثبت سوچ والا آدمی تعصبات سے آزاد ہوکر سوچتا ہے۔ وہ معاملات میں بے لاگ رائے قائم کرتا ہے۔ اس کی رائے ہمیشہ انصاف پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ وہی سوچتا ہے جو ازروئے واقعہ اس کو سوچنا چاہیے اور وہی بولتا ہے جو ازروئے واقعہ اس کو بولنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مثبت سوچ والے آدمی کی راہیں کبھی بند نہیں ہوتیں ، جب کہ منفی سوچ والے آدمی کو ہر طرف اپنی راہیں بند دکھائی دیتی ہیں ۔
منفی سوچ مایوسی کی سوچ ہے اور مثبت سوچ امید کی سوچ۔ منفی سوچ راستہ کو بند حالت میں دیکھتی ہے، جب کہ مثبت سوچ والے آدمی کو ہر طرف راستے کھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ مثبت سوچ بصیرت ہے اور منفی سوچ بے بصیرتی۔
نفرت کا بم
ہر آدمی کے اندر ایک شیطان چھپا ہوا ہے۔ یہ شیطان، نفرت کا بم (hate bomb)ہے۔ ہر آدمی امکانی طورپر نفرت کا بم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ نفرت کا یہ بم عام حالات میں ، انسان کے اندر سویا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی طرح اُس کو جگا دیا جائے تو اچانک وہ بے پناہ ہو کر بھڑک اٹھتا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اِس معاملے میں کسی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں ۔
اِس صورتِ حال کا مطلب، دوسرے لفظوں میں ، یہ ہے کہ ہر انسان ایک انتہائی آتش گیر (highly inflammable) مادّہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی سماج میں اگر دس ہزار آدمی ہیں ، تو وہ گویا کہ دس ہزار چلتے پھرتے آتش گیر مادّے کا مجموعہ ہیں ۔ یہ دراصل ذاتی مفاد (personal interest) ہے جو لوگوں کو مزاجاً متشدد ہونے کے باوجود، مجبورانہ طور پر امن پسند بنائے رہتا ہے۔ ایسی صورت میں قیادت (leadership) کا کام ایک بے حد مشکل کام ہے۔ جس قائد کے پاس صرف شکایت اور احتجاج کا نعرہ ہو، اُس کو ہر گز میدان میں نہیں آنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا منفی نعرہ لوگوں کو بھڑکائے گا اور آخرکار، سماج کا وہ حال ہوجائے گا، جیسے ایک مقام پر بہت سے آتش گیر مادّے ہوں اور وہ اچانک بھڑک اٹھیں ۔
قائد پر لازم ہے کہ اگر اس کے پاس محبت کا نعرہ ہے، تب تو وہ اپنی تحریک لے کر سماج میں آئے۔ اور اگر اُس کے پاس صرف نفرت اور شکایت کی باتیں ہوں ، تو اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اجتماعی تحریک ہر گز نہ شرو ع کرے۔ اس کے بجائے، وہ اپنے آپ کو اپنے گھر کے اندر محصور کرلے۔ یہی اس کے لیے نجات کی واحد صورت ہے۔
اجتماعی تحریکیں دو قسم کی ہوتی ہیں — مثبت تحریک، اور منفی تحریک۔ مثبت تحریک وہ ہے جو ذاتی ذمّے داری (duty) کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک صالح تحریک ہے۔ منفی تحریک وہ ہے جو حقوق طلبی اور احتجاج کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک غیر صالح تحریک ہے۔ صالح تحریک کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے، اور غیر صالح تحریک ہمیشہ بُرے انجام پر ختم ہوتی ہے۔
ری ایکشن کا طریقہ
زندگی کے معاملے میں اصولی بات یہ ہے کہ تشدد کا طریقہ دراصل ری ایکشن کا طریقہ ہے، اور ری ایکشن کا طریقہ کبھی بھی کسی مثبت نتیجہ تک نہیں پہنچتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمیشہ ایک ری ایکشن کے بعد دوسرا ری ایکشن پیدا ہوتا ہے، اور اس طریق کار کے نتیجہ میں جو چیز وجود میں آتی ہے، وہ چین ری ایکشن (chain reaction)ہے، نہ کہ ری ایکشن کا خاتمہ۔ قدیم زمانے میں ٹرائبل ایج میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لوگ برابر لڑتے رہتے تھے۔ اسلام نے یہ کیا کہ یک طرفہ طور پر امن کا طریقہ اختیار کرکے چین ری ایکشن کو ختم کردیا۔ اس کے بعد دنیا میں امن کا دور آیا۔
اس سلسلے میں قرآن کی ایک متعلق آیت یہ ہے:وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (41:34)۔ یعنی، اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ قرآن کی اس آیت میں جس طریقِ کا ر کا ذکر کیا گیا ہے، اس کو دوبارہ اختیار کیا جائے تو دوبارہ وہی نتیجہ حاصل ہوگا، جس کا مذکورہ آیت میں ذکر کیا گیا ہے، یعنی جو بظاہر دشمن نظر آتا ہے ا س کا دوست بن جانا۔
لوگ اکثر اپنے حریف کی شکایت کرتے ہیں ۔ لیکن غور کیجیے تو یہ ظلم نہیں ہوتا، بلکہ وہ چین ری ایکشن کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے حریف کو پتھر مارا، اس کے بعد اس نے آپ کو بم مارا۔ آپ نے دوبارہ حریف کے خلاف کوئی کارروائی کی، اس کے جواب میں اس نے بھی کوئی کارروائی کی۔ اس طرح ایک چین ری ایکشن شروع ہوگیا، جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
تشدد کا خاتمہ جوابی تشددسے نہیں ہوتا۔ تشدد کے خاتمہ کی صرف ایک صورت ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ یک طرفہ طور پر تشدد کی کارروائی کرنا چھوڑدیں ، آپ یک طرفہ طور پر خاموش ہوجائیں ، آپ یک طرفہ طور پر امن کا طریقہ اختیار کرلیں ۔
صحیح طرزِ فکر
صحیح طرزِ فکر (right thinking) حکیمانہ طرزِ فکر کی ایک اعلیٰ قسم ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں جیتے ہیں ، یا صبح و شام گزارتے ہیں ، اس میں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں ، بلکہ مخلوط (mixed) حالت میں ہیں ۔ اس بنا پر بظاہر چیزوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چیزوں کے بارے میں صحیح رائے اس وقت قائم ہوتی ہے، جب کہ آپ چیزوں کو الگ الگ کرکے دیکھ سکیں ۔ اس طرح تجزیاتی مطالعے کے بغیر آدمی کے اندر صحتِ فکر پیدا نہیں ہوسکتی، وہ مبنی بر واقعہ سوچ کا حامل نہیں بن سکتا۔
مثلاً ایک شخص اپنے بارے میں یا اپنی کمیونٹی کے بارے میں یہی کہے گا کہ ہمارے اوپر ظلم ہورہا ہے۔ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ تمھارے باپ دادا کا جو اسٹینڈرڈ تھا، کیا تمھارا اسٹینڈرڈ اس سے کم ہے۔ وہ جواب دے گا کہ نہیں اس سے تو بہت اچھا ہے۔ مثلاً میرے باپ دادا بائیسکل پر سفر کرتے تھے، آج میں کار پر سفر کرتا ہوں ۔ میرے دادا کے زمانے میں بچے معمولی مدرسے میں پڑھتے تھے، آج وہ شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں ۔ میرے دادا کچے گھر میں رہتے تھے، آج میں اور میرے بچے پکے گھر میں رہ رہے ہیں ، وغیرہ۔ اب اگر آپ اس سے پوچھیں کہ جب تمھاری فیملی کا اسٹینڈرڈ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے، تو ظلم کہاں ہورہا ہے۔ اب وہ حیران ہوجائے گا، اور کہے گاکہ میں نے اس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ اصل مسئلہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ اس لیے لوگ شکایت میں جی رہے ہیں ، حالاں کہ انھیں شکر میں جینا چاہیے۔ صحیح طرزِ فکر تجزیاتی فکر کا نام ہے۔ اگر آپ کے اندر ڈی ٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking)ہو، اگر آپ تجزیاتی انداز میں سوچنا جانتے ہوں ، تو آپ درست طرزِ فکرکے حامل بن سکتے ہیں ۔
تاريخ سے سبق
سبق كا سب سے بڑا ذريعه تاريخ هے۔ مگر تاريخ سے سبق لينے كے ليے ضروري هے كه آدمي منفي واقعات سے مثبت سبق لينے كا آرٹ جانتا هو۔ تاريخ منفي واقعات سے بھري هوئي هے۔ اس ليے تاريخ كے معامله ميں كبھي ايسا نهيں هوسكتا هے كه پازيٹيو سے پازيٹيو سبق لينے كا موقع ملے۔تاريخ ميں هميشه يه كرنا پڑتاهے كه منفي سے پازيٹيو سبق حاصل كيا جائے۔ مگر اكثر لوگ ايسا نهيں كرپاتے۔ اس ليے تاريخ ميں ايسي مثاليں بهت كم هيں جب كه كسي نے تاريخ سے كوئي بڑا سبق ليا هو۔
تاهم تاريخ ميں كچھ استثنائي واقعات هيں ۔مثلاً مغرب كي صليبي قوموں كي زندگي ميں يه انوكھا واقعه ملتاهے كه انھوں نے 200ساله صليبي جنگوں كے دوران ذلت آميز شكست (humiliating defeat)كا تجربه كيا ۔ليكن اس كے بعد ان كےاندرری پلاننگ آئی۔ انھوں نے اپني كوششوں كا ميدان جنگ كے بجائے سائنس كے ميدان كو بنا ليا۔ پھر دنيا نےيه حيرت انگیز واقعه ديكھاكه صليبي جنگوں كي ناكامي كے بعدانھوں نے ويسٹرن سویلا ئز یشن كا مينار كھڑا كرليا۔
دوسري مثال جرمني كي هے۔ جرمني كو دوسري عالمي جنگ ميں ٹوٹل شكست هوئي۔ يهاں تك كه ان كے ملك كا تهائي حصه كٹ كر الگ هوگيا۔ مگر جرمني كے ليڈروں نے دوسرے عالمي جنگ كے بعد ايك انوكھي پلاننگ (planning on the remaining part of land) کی،اور دنيا نے ديكھا كه جرمنی اپنے كھوئے هوئے ملك كو دوباره حاصل كرليا۔ جديد صنعت كے ميدان ميں اتني زياده ترقي كي كه پهلے سے بھي زياده ترقي كا درجه حاصل كرليا۔
یہ طریقہ جس کے ذریعے ان قوموں نے کامیابی حاصل کی۔ اس کو ایک لفظ میں ری پلاننگ کہا جاسکتا ہے۔ جب بھی آپ کو آپ کے پہلے منصوبے میں ناکامی ہوجائے تو کبھی مایوسی کا راستہ مت اختیار کیجیے، بلکہ ایک تجارتی فارمولے کے مطابق، ایسا کیجیے :
think, think, there must be better way.
یہ فارمولا عملاً یہی ہے کہ آپ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کیجیے۔
تجربہ سے سبق سیکھیے
تجربہ (experience) ہمیشہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں ، جو اپنے تجربے کو سبق بنا سکیں ۔ تجربہ ہر انسان کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ ہوتا ہے۔ تجربہ انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔ لیکن عام طور پر لوگ تجربہ سے مثبت فائدہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اس لیے کہ وہ تجربہ کو شکایت کے خانے میں ڈال دیتے ہیں ۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ صرف دوسرے کی غلطی کی بنا پر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایسے کسی واقعے میں دونوں فریق کا حصہ ہوتا ہے، کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جب کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کو یک طرفہ طور پر دیکھتے ہیں ۔ وہ اپنی غلطی کو حذف کرکے سارے معاملے کو دوسرے کی غلطی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں ۔ یہی تقریباً ننانوے فیصد مثالوں (cases) میں پیش آتا ہے۔
مگر اس طرح یک طرفہ رائے قائم کرنا،قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اصحابِ رسول جیسے سارے لوگ ہوں ، تب بھی ناخوش گوار واقعات میں کچھ نہ کچھ اپنا حصہ شامل رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غزوۂ احد کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ میں اصحاب رسول کو ابتداءاً کامیابی ہوئی، لیکن بعد کو خود اپنی ایک غلطی سے سخت نقصان اٹھانا پڑا (آل عمران،3:152-153) ۔
تجربے کو سبق بنائیے، تجربے کو شکایت نہ بنائیے۔ تجربے کو سبق بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے ایک منفی واقعہ کو مثبت واقعہ میں تبدیل کردیا، آدمی نے اپنے نقصان کو دوبارہ اپنے لیے فائدہ بنالیا۔ اس کے برعکس، جو لوگ تجربے کو شکایت اور نفرت کا ذریعہ بنا لیں ، انھوں نے گویا نقصان کے بعد ملنے والے فائدہ سے بھی اپنے کو محروم کرلیا۔ انھوں نے پہلے موقع کو بھی کھویا، اور دوسرے موقع کو بھی کھو دیا۔
ایک لفظ کا فرق
ایک صاحب جن کی تعلیم ایک مدرسہ میں ہوئی ہے۔ 12 دسمبر 2017ء کوان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے 2005ء میں میں آپ سے ملا تھا۔ اس وقت میں نے کہا تھا کہ میرے اندر احساسِ کمتری (inferiority complex)بہت زیادہ ہے۔ اس کا کوئی حل بتائیے ۔ میں نے کہا کہ آپ صرف ایک لفظ بدل دیجیے۔ ابھی تک آپ احساسِ کمتری کا لفظ بولتے ہیں ۔ آج سے آپ احساسِ غلطی کا لفظ بولنا شروع کردیجیے۔ اس کے بعد، ان شاء اللہ، آپ کا سارا معاملہ درست ہوجائے گا۔
آج کی ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ یہ بات آپ نے ایک ڈائری میں لکھی اور وہ ڈائری مجھ کو دے دی۔ اسی وقت سے میں نے اس نصیحت کو پکڑلیا ہے۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی غلطی کو دریافت کرتا ہوں ، اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے سارے معاملات درست ہوگئے۔ گھر کے معاملات بھی، پڑوسیوں کے معاملات بھی، اور مسجد اور مدرسے کے معاملات بھی۔ پہلے میں برابر ٹینشن میں رہتا تھا، اب مجھے کوئی ٹینشن نہیں ۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں ۔ کسی سےکوئی جھگڑا نہیں ۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو میں خود ہی سوچ کر اس کو درست کرلیتا ہوں ۔ اب سب لوگ مجھ سے خوش رہتے ہیں ۔ جب کہ پہلے ہر شخص کو مجھ سے شکایت ہوتی تھی۔
یہ کرشمہ صرف ایک پُر حکمت بات کا تھا ۔ وہ یہ کہ اس سے پہلے و ہ غلط تقابل (wrong comparison)کا شکار تھے۔ اب انھوں نے احساس کمتری کے جملے کو بدل کر احساسِ غلطی بنا لیا۔ پہلے وہ دوسروں کے خلاف سوچا کرتے تھے، اب وہ اپنی اصلاح آپ کے انداز میں سوچنے لگے۔ بظاہر یہ ایک لفظ کا فرق تھا، لیکن یہ لفظ اتنا زیادہ پرحکمت تھا کہ اس نے ان کی پوری زندگی کو بدل دیا۔ ان کو منفی شخصیت سے نکال کر مثبت شخصیت بنا دیا۔
مثبت اثر
مشہور نحوی عمرو بن عثمان سیبویہ(وفات 180ھ)ایران میں پیدا ہوا اور بصرہ میں پرورش پائی ۔ اس کی نوجوانی کا واقعہ ہے جب کہ وہ حدیث وفقہ کا طالب علم تھا۔ ایک دن وہ محدث حماد بن سلمہ(وفات167ھ)کی مجلس میں تھا۔ انھوں نے ایک حدیث کا املا کراتے ہوئے کہا:لَيسَ مِنْ أَصْحَابِي إلَّا مَنْ شِئْتُ لأخَذْتُ عَلَيهِ لَيسَ أبَا الدَّرْدَاءِ۔ سیبویہ یہ سن کر بول اٹھا:لَيسَأبُوالدَّرْدَاءِ۔ اس پر حماد نے چلا کر کہا :سیبویہ تم غلطی پر ہو۔ یہ( عربی گریمر کے لحاظ سے) استثناء ہے (اس لیے ’’ابُو‘‘کے بجائے’’ابا‘‘ہوگا)۔ سیبویہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے جی میں کہا کہ میری نحو کمزور ہے اور مجھے اس میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔ اب اس نے نحو سیکھنا شروع کر دیا (طبقات النحویین و اللغویین لابی بكر الزبيدي، صفحہ66)۔
وه بصرہ وکوفہ کے نحوی علماء خلیل، یونس اور عیسیٰ بن عمر کی مجلسوں میں جانے لگا۔ اس نے اس فن میں اتنی محنت کی کہ بالآخر وہ اس کا امام بن گیا۔عربی نحو و ادب کے شاذ مسائل میں اس کا کوئی ثانی نہ رہا۔ اس کے بعد اس نے نحوپر ایک ایسی کتاب لکھی جو اپنی اہمیت اور بلندی کی وجہ سے’’الکتاب‘‘کے نام سے مشہور ہے ۔ اس فن کے علماء کا کہنا ہے کہ فن نحو پر اس کے برابر کی کوئی کتاب آج تک لکھی نہ جاسکی— جس شخص کی نحو کمزور تھی، وہ تاریخ کا سب سے بڑا نحوی بن گیا ۔
ہر شخص کی زندگی میں ایسے واقعات آتے ہیں جب کہ اسے ٹھیس لگتی ہے ۔ جب اس کو دوسروں کی طرف سے بے اعترافی کی ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ جب وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان بے جگہ ہو گیا ہے۔ ایسے مواقع پر اثر لینے کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی ان تجربات کے بعد بے ہمتی اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے ۔ ایسے آدمی نے گویا اپنے آپ کو مار لیا۔ دوسرا شخص وہ ہے جس کے لیے ایسا تجربہ ایک مہمیز بن جائے ۔ ایسے آدمی کے لیے اس کاتجر بہ اس کی صلاحیتوں کو جگانے کا باعث بن جاتا ہے۔ وہ از سر نو محنت اور عمل کے رخ پر چل پڑتا ہے، یہاں تک کہ ماضی کا نا کام انسان مستقبل کا کامیاب انسان بن جاتا ہے۔ مثبت تاثر آدمی کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے اور منفی تاثر نا کامی اور بربادی کی طرف ۔
اپنی سوچ درست کیجیے
ایک مغربی سفر میں میری ملاقات ایک مسیحی خاتون سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ میرا شوہر سخت (stubborn) ہے۔ مجھے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں ، یہ صرف سوچ کا مسئلہ ہے۔ آپ اپنی سوچ درست کر لیجیے اور پھر یہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ آپ یہ نہ سوچئے کہ آپ کا شوہر سخت ہے۔ سخت ایک منفی لفظ ہے۔ منفی الفاظ میں آپ کسی بات کو سوچیں تو اس کے بارے میں معتدل انداز میں سوچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے آپ کو اِس بارے میں مثبت الفاظ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ آپ جو کچھ سوچیں ، وہ مثبت ذہن کے تحت سوچیں ، نہ کہ منفی ذہن کے تحت۔
میں نے کہا کہ آپ یہ کہیے کہ آپ کے شوہر کے اندر عزم (determination)کا مادّہ ہے۔ وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں تو اَٹل انداز میں سوچتے ہیں ۔ یہ ایک مردانہ صفت ہے اور وہ بلاشبہ ایک اچھی صفت ہے۔ اگر یہ صفت نہ ہو تو آدمی ہمت کے ساتھ زندگی کے چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتا۔ اور جو آدمی چیلنج کا سامنا نہ کرسکے، وہ کبھی زندگی میں کامیاب بھی نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ خاتون کئی زبان جانتی تھیں اور وہ پروفیشن کے اعتبار سے ترجمان (interpreter) تھیں ۔ میں نے کہا کہ آپ کا پروفیشن چیلنجنگ پروفیشن نہیں ہے۔ اِس پروفیشن میں نرم ہونا ایک اچھی بات ہے۔ آپ کا نرمی کا مزاج آپ کے پروفیشن کے عین مطابق ہے، مگر آپ کے شوہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں منیجر ہیں ۔اس کام میں ان کو ہر وقت چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔ خدا نے آپ کو نرم بنایا، تاکہ آپ اپنے پروفیشن کو کامیابی کے ساتھ کرسکیں ۔ اِس کے برعکس، خدا نے آپ کے شوہر کو سختی کا مزاج دیا جو کہ اُن کے پروفیشن کے اعتبار سے ضروری تھا۔ آپ کو چاہیے کہ اِس تقسیم پر آپ شکر کریں ، نہ کہ شکایت۔
معاملات میں مثبت رخ پر سوچنا آدمی کو مثبت نتیجے تک پہنچاتا ہے، اور منفی رخ پر سوچنا اُس کو منفی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔اِس اصول کا تعلق جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات سے ہے، اِسی طرح اس کا تعلق ازدواجی زندگی سے بھی ہے۔ اِس اصول کو جاننا بلا شبہ اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی کلید ہے۔
ایک واقعہ
ستمبر 1992ءمیں میرا ایک سفر لندن کے لیے ہوا۔ اس سفر میں لندن میں میرا قیام پروفیسر انیس قاری کی رہائش گاہ پر تھا۔ یہاں 26 ستمبر کو جناب جاویدحسن صاحب (Tel.5581523) سے ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے بتایا کہ میں ایک یہودی فرم میں کام کرتا ہوں ۔ وہاں ایک کٹر قسم کا یہودی تھا ۔ میں جب اس کے پاس سے گزرتا تو ہمیشہ اس کوگڈ مارننگ کہتا۔ مگر وہ مجھ کو جواب نہ دیتا، بلکہ منہ پھیر لیتا۔ آخر کار ایک روز اس نے کہہ دیا کہ تم کیوں مجھ کوگڈمارننگ کہتے ہو ۔ تم جانتے ہو کہ میں تم سے نفرت کرتا ہوں :
''Why you say good morning to me. You know, I hate you''.
اس کے جواب میں جاوید صاحب نے کہا کہ آپ کا شکریہ۔ مگر میں تو آپ سے نفرت نہیں کرتا :
But I do not hate you.
یہ جواب سن کر یہودی تعجب میں پڑ گیا۔ اس نے کہا میں تو سمجھتا تھا کہ سارے مسلمان یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور تم ان سے الگ نہیں ہو ،کیوں کہ میں ایک یہودی ہوں ۔
اس دن کی گفتگو کے بعد وہ کافی نرم پڑگیا۔ یہاں تک کہ چند دن کے بعد وہ نارمل ہوگیا۔ اس کا حال یہ ہو گیا کہ جا وید صاحب کو دیکھتا تو دور ہی سے ہیلو ہیلو کرنے لگتا۔ لوگوں کوتعجب تھاکہ اتناکٹر یہودی ایک مسلمان سے اتنا قریب کیسے ہوگیا۔ اس کا جواب ایک لفظ میں یہ ہے کہ:یک طرفہ حسن اخلاق سے۔
زیر نظر شمارہ، نئي کتاب، تعمیر ِ شخصیت کے منتخب مضامین پر مشتمل ہے، اس كتاب كو ڈاؤنلوڈ كرنے كے لیے اس QR codeكو اسكين كريں :
اسمارٹ اسپیکر
جدید انفارمیشن ٹکنالوجی نے قرآن کے پیغام کو عام کرنے کےلیے نہایت وسیع میدان کھول دیے ہیں ۔ ان میں نہایت اہم اور مشہور ٹکنالوجی وہ ہے جسے اسمارٹ اسپیکر کہا جاتا ہے:
Smart Speaker, an internet-enabled speaker that is controlled by spoken commands and is capable of streaming audio content, relaying information, and communicating with other devices.
اسمارٹ اسپیکر انسانی آواز کی بنیاد پر کام انجام دینے والا ڈیوائس ہے۔ اس کے ذریعے آپ بول کر انٹرنیٹ کےمتعدد کام انجام دے سکتے ہیں ۔جیسے کسی سوال کا جواب معلوم کرنا ، الارم اور یاددہانی کا عمل، آڈیو یا ویڈیو یا کتابیں سننا ، وغیرہ ۔ ایک سروے کے مطابق2022 میں امریکہ بھر میں 94 ملین اسمارٹ اسپیکر استعمال میں ہیں ۔اس وقت تین کمپنیوں کےاسمارٹ اسپیکرز عام ہیں :امیزون الیکسا، ایپل ہوم پاڈ اور گوگل اسسٹنٹ ۔
اب آپ اپنے اسمارٹ اسپیکر کے ذریعہ ترجمۂ قرآن بھی سن سکتے ہیں ۔ اللہ کے فضل و کرم سے سی پی ایس ٹیم نے اس عظیم موقع کو دعوت کے لیے استعمال کیا ہے۔ یعنی امیزون الیکسا اور گوگل اسسٹنٹ کے ذریعے مولانا وحید الدین خاں صاحب کا انگریزی ترجمۂ قرآن پیش کیا ہے۔ یہ پروجیکٹ ممبئی اور امریکہ کی سی پی ایس ٹیموں کی باہمی کوشش کا نتیجہ ہے ۔اسمارٹ اسپیکر کےاستعمال کا طریقہ معلوم کرنے کے لیےنیچے موجود یوٹیوب کیو آر کوڈ کو اسکین کریں ۔اس کے علاوہ اگر آپ اپنے گوگل اسسٹنٹ کو "وِزڈم آف دی ڈے" (wisdom of the day)کہیں گے تو مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی انگریزی کتاب قرآنک وزڈم کے ایک مضمون کا آڈیو اسٹارٹ ہوجائے گا۔ ایمیزون الیکسا (Amazon Alexa) اور گوگل اسسٹنٹ پر قرآن کا آڈیو سننے کے لیے درج ذیل لنک استعمال کریں :
(مولانا فرهاد احمد)
क़ुरआन का मार्गदर्शन
क़ुरआन से इंसानों को क्या रहनुमाई (मार्गदर्शन) मिलती है। यह रहनुमाई एक वाक्य में यह है कि इन्सान के सिवा बाक़ी क़ायनात जिस क़ानून पर चल रही है उसी को इन्सान भी अपना ले। क़ायनात (सृष्टि) निर्विवाद (सहज) रूप से विभिन्न और परस्पर विरोधी तत्वों का संकलन है। इसमें आग भी है और पानी भी। इसमें नाज़ुक पौधे भी हैं और सख़्त पत्थर भी। इसमें दिन की रोशनी भी है और रात का अंधेरा भी। लेकिन इन तमाम विरोधाभासों के बावजूद पूरी क़ायनात एक सुव्यवस्थित इकाई की तरह काम करती है। जैसे यह एक ईश्वरीय माडल है। इन्सान को चाहिए कि वह भी इसी माडल को अपने लिए मार्गदर्शक बना ले।
क़ुरआन के अध्ययन से पता चलता है कि इन्सान और बाक़ी क़ायनात दोनों एक ही इकाई के दो हिस्से हैं। दोनों में जो फ़र्क़ है वह यह है कि इन्सान अपना निजी विवेक और निजी इरादा रखता है। जबकि क़ायनात की अन्य चीज़ें निजी विवेक (शऊर) और निजी इरादा नहीं रखतीं। जड़ पदार्थ प्राकृतिक नियम (law of nature) से कंट्रोल होते हैं और जीवित चीज़ें अपने अन्दर छुपी हुई प्रेरणा या सहज-बोध (Instinct) से।
क़ुरआन के अनुसार, क़ायनात का जो धर्म (कार्य-पद्धति या निज़ामें-अमल) है, वही इन्सान का धर्म (दीन) भी है। दोनों की कामयाबी का रहस्य एक ही प्राकृतिक नक्शे (समीकरण) में छुपा हुआ है। क़ुरआन में कहा गया है: “क्या वे अल्लाह के दीन के सिवा कोई और दीन चाहते हैं, हालांकि उसी के वश में है वह सब कुछ जो ज़मीन और आसमान में है, ख़ुशी से या नाख़ुशी से।”
क़ुरआन में दूसरी जगह कहा गया है: “ज़मीन में फ़साद न करो उसकी दुरुस्ती (या संशुद्धि) के बाद।” इससे पता चलता है कि जिस ज़मीन पर इन्सानों को बसाया गया है वह एक दुरुस्त, सटीक और संशुद्ध ज़मीन है। इसके तमाम अंग सही-सही कार्य प्रणाली पर क़ायम हैं। उनमें किसी तरह का कोई नुक़्स या कमी नहीं। अब इन्सान को चाहिए कि वह इस क़ायम की हुई दुरुस्त व सटीक व्यवस्था से तालमेल रख कर ज़मीन पर ज़िन्दगी गुज़ारे। अगर वह इस नक्शे से तालमेल न करेगा तो यह ज़मीन पर फ़साद बरपा करने जैसा होगा। किसी एकीकृत समूह या इकाई का एक अंश अगर समूह से तालमेल करके रहे तो व्यवस्था दुरुस्त रहेगी और अगर समूह का कोई अंश मूल इकाई से असंबद्ध या अलग हो जाए तो पूरी व्यवस्था बिगड़ जाएगी। यह सटीक और दुरुस्त नक़्शे में बिगाड़ पैदा करने वाली बात होगी। इसको एक शब्द में ‘क़ायनाती पैटर्न’ कहा जा सकता है। जो क़ायनाती पैटर्न (ढांचा) क़ायनात को सफलता के साथ चला रहा है, वही इन्सान के लिए भी हितकर है।
जन्नत, जहन्नम
हज़रत अबू हुरैरा कहते हैं कि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमायाः मैंने जहन्नम जैसी चीज़ नहीं देखी, जिससे भागने वाला सो गया हो। और मैंने जन्नत जैसी चीज़ नहीं देखी जिसका चाहने वाला सो गया हो (तिरमिज़ी)।
आदमी को सबसे ज़्यादा जहन्नम से भागना चाहिए। मगर आदमी जहन्नम के मसले को बिल्कुल भूला हुआ है। आदमी को सबसे ज़्यादा जन्नत का चाहने वाला बनना चाहिए, लेकिन उसके अन्दर जन्नत को हासिल करने का कोई शौक़ नहीं। इन्हीं दो शब्दों में सारे इन्सानों की कहानी है।
इन्सानों का यह हाल कैसा अजीब है। लोगों में जहन्नम का कोई अन्देशा नहीं और जन्नत की कोई चाह नहीं। ऐसी हालत में यह कैसे हो सकता है कि वे जहन्नम की आग से निजात पाएं और उनके लिए जन्नत की नेमतों के दरवाज़े खोले जाएं।
लोगों के अन्देशे किसी और चीज़ के लिए हैं। उनके जज़्बात किसी और बात पर भड़कते हैं। उनके छुपे हुए ख़ौफ़ और उम्मीद के जज़्बात किसी और चीज़ के लिए हैं। ऐसी हालत में यह कैसे हो सकता है कि वे ख़ुदा की रहमतों के योग्य ठहराए जाएं।
दुनिया के मसले को लोगों ने अपना मसला बना रखा है। आख़िरत के मसले को किसी ने अपना मसला नहीं बनाया। दुनिया की दौलत, दुनिया की लीडरशिप, दुनिया की शोहरत, दुनिया की नेकनामी, यही सब चीज़ें लोगों के ध्यान का केन्द्र हैं। आज की दुनिया में कोई नहीं जो आख़िरत की बख़्शिश और आख़िरत की निजात के मामले में चिंतित हो। आख़िरत के अज़ाब का डर और आख़िरत की जन्नत की लालसा जिसको परेशान कर दे।
आह, वह दुनिया, जहां सब कुछ हो, पर वही चीज़ न हो जिसको सबसे ज़्यादा होना चाहिए। आह, वह इन्सान जो सब कुछ जाने मगर वही बात न जाने जिसको उसे सबसे ज़्यादा जानना चाहिए। यह बेशक सबसे बड़ी भूल है। एक वक़्त आएगा कि आदमी अपनी इस भूल को जानेगा। पर वह जानना सिर्फ़ हसरत के लिए होगा न कि खोए हुए को पाने के लिए।
क़ियामत का तूफ़ान
29 मई 1990 को दिल्ली में एक सख़्त आंधी आई। उसकी रफ्तार 75 किलोमीटर प्रति घंटा थी। यह आंधी 45 मिनट तक चलती रही। कितने ही दरख़्त उखड़ गए। बेशुमार शाख़ें टूट कर गिर पड़ीं। एक भारी दरख़्त टूट कर एक मोटरकार के ऊपर गिर पड़ा। उसके नीचे कार की बाडी कुचल गई।
आंधी कुदरत की एक आम अभिव्यक्ति है, जिसका दर्शन लोगों को बार-बार होता रहता है। फिर भी आम तौर पर ये आंधियाँ एक ख़ास हद के अन्दर रहती हैं। इसकी वजह से कुछ वक्ती नुकसान तो होता है, मगर उसका नुकसान सम्पूर्ण विनाश तक नहीं पहुंचता।
जो आंधी 75 किलोमीटर प्रति घंटा की रफ्तार से चलती है, वह 75 सौ या 75 हज़ार किलोमीटर प्रति घंटा की रफ्तार से भी चल सकती है। इसी तरह जो आधी हमारी ज़मीन पर 45 मिनट तक चलती रहती है, उसके लिए यह भी मुमकिन है कि वह 45 सौ दिन तक लगातार अपनी तबाहियों के साथ जारी रहे।
A heavy dust storm uprooted trees in the Capital on Tuesday. A car in Connaught Place was quashed under the impact.
इस तरह यह आंधी क़ियामत की संभावना को बताती है। यह क़ियामत के तूफ़ान की पूर्व सूचना है। पिछले ज़मानों में जो क़ौमें हक़ से इन्कार करने के नतीजे में हलाक हो गईं, उनकी सूरत यही थी कि आंधी या बारिश या भूकंप जो आम हालत में कम तीव्रता के साथ आते हैं, उनको ज़मीन के किसी हिस्से में ज़्यादा तीव्रता के साथ भेज दिया गया।
क़ियामत मानो भयंकर दर्जे की सार्वभौमिक आंधी होगी। उसकी रफ़्तार और मुद्दत ज़्यादा होगी कि दरख़्त और मकानात तो दरकिनार, पहाड़ भी उसके आगे ठहर न सकेंगे। तमाम ज़िन्दा और ग़ैर-ज़िन्दा चीज़ें उसकी लपेट में आ जाएंगी। उसकी बेपनाह तीव्रता ज़मीन की सतह की हर चीज़ को उलट-पुलट कर रख देगी। इन्सानी सभ्यता के तमाम निशान इस तरह मिट जाएंगे जैसे वे तिनकों से भी ज़्यादा बेक़ीमत थे।
आज की आंधी एक मोटर कार को कुचलती है, क़ियामत की आंधी पूरी इन्सानी सभ्यता को कुचल डालेगी। आज का भूचाल एक शहर को तलपट करता है, क़ियामत का भूचाल पूरी सृष्टि को तलपट कर देगा। आज की मौत एक आदमी की जान लेती है। क़ियामत की मौत तमाम इन्सानों को मौत की हलाकत से दोचार होने पर मजबूर कर देगी। आज ख़ुदा का फ़ैसला आंशिक रूप में ज़ाहिर हो रहा है, कल ख़ुदा का फ़ैसला अपनी मुकम्मल सूरत में जाहिर हो जाएगा।
यह क़ियामत जब आएगी तो वह इस बात का ऐलान होगी कि मौजूदा दुनिया के इम्तिहान की मुद्दत पूरी हो गई। अब दुनिया का मालिक इम्तिहान की दुनिया को तोड़ कर दूसरी सम्पूर्ण दुनिया बनाएगा जहां नेक लोगों को उनकी नेकी का इनाम मिले और बुरे लोगों को उनकी बुराई का बदला दिया जाए।
आज के छोटे तूफ़ान आइन्दा आने वाले बड़े तूफ़ान की पूर्व सूचना दे रहे हैं। जो लोग इस चेतावनी से जाग उठेंगे वही आंख और कान वाले हैं। और जो लोग कुदरत की इस चेतावनी के बावजूद न जागें वे अंधे और बहरे हैं। उनके लिए हमेशा की बरबादी के सिवा कोई और अंजाम नहीं।
इबादत
क़ुरआन में है कि अल्लाह ने इन्सान और जिन्न को सिर्फ़ इसलिए पैदा किया है कि वे उसकी इबादत (उपासना) करें। यह आयत सत्य के इतने क़रीब है कि अगर सिर्फ़ इसी एक आयत पर ग़ौर किया जाए तो वह किसी आदमी के अन्दर यह यक़ीन पैदा करने के लिए काफी होगी कि क़ुरआन ख़ुदा की किताब है, इन्सान जैसा जीव इस क़िस्म की किताब को वजूद में नहीं ला सकता।
इन्सान के अस्तित्व के दो पहलू हैं। एक मानसिक (या रूहानी) और दूसरा शारीरिक। इन दोनों पहलुओं से इन्सान की तरकीब ऐसी है कि जैसे वह ख़ुदा की इबादत के लिए ही पैदा किया गया है।
इबादत का सबसे कामिल रूप नमाज़ है। इस आयत की रोशनी में नमाज़ और इन्सानी शख़्सियत का जायज़ा लीजिए।
इन्सान की मानसिक रचना का जायज़ा बताता है कि इन्सान ठीक अपनी रचना के लिहाज़ से यह चाहता है कि कोई हो, जिसके आगे वह अपने आपको झुका दे। यही वजह है कि ज़्यादातर इन्सान किसी न किसी के आगे अपने आपको झुकाए हुए हैं, और इस झुकाव से उन्हें खास संतुष्टि हासिल होती है। मगर ग़ैर-ख़ुदा के आगे झुकना इस जज़्बे का ग़लत इस्तेमाल है। इस तरह आदमी ग़ैर-ख़ुदा को वह चीज़ दे देता है जो उसे सिर्फ़ ख़ुदा को देनी चाहिए।
नमाज़ में जब आदमी ख़ुदा के आगे झुकता है तो उसको अपने इस जज़्बे की पूरी तस्कीन (तुष्टि) हासिल होती है। नमाज़ में ख़ुदा के आगे झुक कर वह अपने वजूद के उस पूरे तक़ाज़े का जवाब पा लेता है, जो उसके अन्दर रचा-बसा हुआ था कि वह उसको निकालना चाहे तब भी वह उसको निकाल न सके। यह एक हक़ीक़त है कि इन्सान के स्वाभाविक जज़्बे का मर्जअ (पनाहगाह) हक़ीक़त में ख़ुदा के सिवा और कोई नहीं हो सकता।
इसके बाद इन्सान के जिस्म को लीजिए। आप किसी आदमी को नमाज़ पढ़ते हुए शुरू से आख़िर तक देखें। आप महसूस करेंगे कि नमाज़ आदमी के पूरे जिस्म का मुकम्मल इस्तेमाल है। आपको ऐसा मालूम होगा जैसे आदमी इसीलिए बनाया गया है कि वह नमाज़ पढ़े।
नमाज़ के लिए आदमी का अपने दोनों पैरों पर खड़ा होना। क़िब्ले की तरफ़ रुख़ करके उसी तरफ़ ध्यान लगाना। फिर हाथ बांधना। ज़बान से नमाज़ के कलमात अदा करना और इमाम की आवाज़ सुन कर एक हालत से दूसरी हालत की तरफ़ जाना; दोनों हाथ घुटनों पर रख कर रुक करना, हाथ और पेशानी और बाक़ी पूरे जिस्म को इस्तेमाल करते हुए सज्दा करना, फिर चेहरे को दाएं-बाएं घुमा कर सलाम करना, दोनों हाथ उठा कर अल्लाह से दुआ करना, वगै़रह।
ये सारी चीज़ें इन्सान के जिस्म से इतना ज़्यादा अनुकूलता रखतीं हैं, और इन हरकतों में इन्सान के तमाम हिस्से इस तरह शामिल हो जाते हैं कि ऐसा मालूम होता है जैसे इन्सान का पूरा जिस्म इसीलिए बनाया गया था कि वह नमाज़ की शक्ल में रब की इबादत करे।
तमाम इन्सान अल्लाह की फ़ितरत पर पैदा किए गए हैं। ख़ुदाई फितरत यह है कि आदमी अल्लाह की तरफ़ ध्यान लगाए और नमाज़ की सूरत में उसकी इबादत करे। क़ुरआन में कहा गया है:
तो फिर तुम एकाग्र होकर अपना रुख इस दीन की तरफ़ सीधा रखो। अल्लाह की फ़ितरत जिस पर उसने लोगों को बनाया है। उसके बनाए हुए को बदलना नहीं। यही सीधा दीन है। लेकिन अक्सर लोग नहीं जानते। उसी की तरफ़ लौ लगाओ और उसी से डरो और नमाज़ कायम करो और मुश्रिकों में से न बनो।
नमाज़ की यही ख़ास ख़ूबी है, जिसकी बदौलत इतिहास में इस तरह की मिसालें मिलती हैं कि बहुत से लोगों ने सिर्फ़ मुसलमानों को नमाज़ पढ़ते हुए देख कर इस्लाम क़ुबूल कर लिया।
आदमी के अन्दर जो फ़ितरत (प्रकृति) है वह इबादत की फितरत है। आदमी का पूरा वजूद इबादत का तलबगार है। दूसरे लफ़्ज़ों में कहा जा सकता है कि हर आदमी पैदाइशी तौर पर नमाज़ पढ़ने का जज़्बा लिए हुए है। आदमी का पूरा जिस्म और उसके तमाम हिस्से नमाज़ की सूरत में ढल जाने की ख़ामोश आकांक्षा (desire) लिए हुए हैं।
जब एक आदमी किसी नमाज़ी को नमाज़ पढ़ते हुए देखता है तो उसका पूरा वजूद कह उठता है कि यही वह अमल है जिसकी तलब और लालसा वह अपने अन्दर लिए हुए था। नमाज़ उसको ख़ुद अपनी तलाश का जवाब मालूम होने लगती है। उसकी फितरत की यह तड़प उसको मजबूर करती है और वह नमाज़ियों के साथ नमाज़ में झुक जाता है।
इस्लाम के अरकान (स्तंभ)
हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर कहते हैं कि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमायाः इस्लाम की बुनियाद पांच चीज़ों पर रखी गई है। इस बात की गवाही देना कि अल्लाह के सिवा कोई माबूद (पूज्य) नहीं और यह कि मुहम्मद उसके बंदे और रसूल हैं। और नमाज़ क़ायम करना और ज़कात देना और हज करना और रमज़ान के रोज़े रखना।
इस हदीस के मुताबिक़ इस्लाम में पांच चीजें स्तंभ (pillars) की हैसियत रखती हैं। जिस तरह इमारत कुछ स्तंभों पर खड़ी होती है, उसी तरह इस्लामी ज़िंदगी पांच अरकान पर क़ायम होती है। ये पांच अरकान वैसे तो पांच शक्ली चीजों के नाम हैं। यानी ईमान के कलिमे के लफ़्ज़ों को दोहराना। नमाज़ के ढांचे को कायम करना, ज़कात की तयशुदा रक़म निकालना, हज के मरासिम/रस्मों को अदा करना, रमज़ान के रोज़े रखना। यानी इन शक्ली अहकाम का एक अर्थ है और उनकी वही अदायगी विश्वसनीय है, जिसमें उसका मर्म (हक़ीक़त) पाया जाए।
इस दुनिया में हर चीज़ का मामला यही है। मसलन टेलीफोन को लीजिए। जैसा कि मालूम है, टेलीफोन का एक ऊपरी रूप होता है। पर यही ऊपरी रूप वह चीज़ नहीं है, जो टेलीफोन से वांछित (desirable) है। टेलीफोन के लिए टेलीफोन वांछित नहीं होता, बल्कि ‘संपर्क के लिए टेलिफोन वांछित होता है। अगर आप कहें कि मेरे पास टेलीफोन है तो इसका मतलब यह नहीं होगा कि टेलीफोन की आकृति की एक चीज़ आपके पास मौजूद है। इसका मतलब यह होगा कि ‘टेलीफोन की हकीकत’ आपके पास मौजूद है। यानी एक ऐसी मशीन जिसके ज़रिए दुनिया के हर हिस्से से संपर्क स्थापित किया जा सके, जिसके जरिए दूर के लोगों से बातचीत की जा सके।
यही मामला इस्लाम के उपरोक्त पांच अरकान का भी है। ये अरकान उसी वक़्त इस्लाम के अरकान हैं, जबकि उनको इस तरह अपनाया जाए कि उनकी शक्ल के साथ-साथ उनकी रूह भी आदमी के अंदर पाई जा रही हो। रूह को जुदा करने के बाद शक्ल का मौजूद होना ऐसा ही है जैसे उसका मौजूद न होना।
ईमान स्पिरिट: यह इस्लाम का सबसे पहला रुक्न है। इसका ज़ाहिरी रूप इस्लाम के कलिमे को जुबान से कहना है। और इसकी अस्ल स्पिरिट इसे मानना है। इस कलिमे के जरिए एक इन्सान ख़ुदा को उसकी तमाम विशेषताओं और शक्तियों के साथ मानता है। वह मुहम्मद (सल्ल.) की इस हैसियत को स्वीकार करता है कि ख़ुदा ने उनको मेरे लिए और तमाम इन्सानों के लिए रहती दुनिया तक रहनुमा बनाया। यह हक़ीक़त जिसके दिल में उतर जाए वह उसकी पूरी मानसिकता में शामिल हो जाती है। ऐसे आदमी का सीना सच्चाई को स्वीकार करने के लिए खुल जाता है। वह एक ऐसा इन्सान बन जाता है, जिसके लिए कोई भी चीज़ कभी सच्चाई को मानने में रुकावट न बन सके।
नमाज़ स्प्रिटः नमाज़ की ऊपरी सूरत पांच वक़्त की इबादत है और उसकी असली स्पिरिट विनम्रता और समर्पण है। नमाज़ पढ़ने वाला आदमी अपने रब के आगे झुकता है। इस तरह वह अपने अंदर विनम्रता और समर्पण की मनःस्थिति पैदा करता है। जिस आदमी के अंदर नमाज़ स्पिरिट पैदा हो जाए वह घमंड और अहंकार जैसी चीज़ों से खाली हो जाएगा। उसका रवैया हर मामले में विनम्रता का रवैया बन जाएगा न कि गर्व और बड़ाई का रवैया।
ज़कात स्पिरिट: ज़कात की ज़ाहिरी सूरत हर साल एक ख़ास रक़म अदा करना है। और इसकी अस्ल स्पिरिट ख़िदमत है। जो आदमी ज़कात का अमल करे उसके अंदर लोगों के लिए ख़िदमत और ख़ैरख़्वाही की सामान्य भावना पैदा हो जाएगी। वह चाहेगा कि वह दुनिया में इस तरह रहे कि वह दूसरों के लिए ज़्यादा से ज़्यादा फायदेमंद बन सके।
हज स्पिरिटः हज ऊपरी तौर पर सालाना मरासिम की अदायगी है और उसकी अस्ल स्पिरिट इत्तिहाद और एकता है। जो आदमी सच्चे भाव से हज के फराइज़ अदा कर ले उसके अंदर विरोध की मानसिकता ख़त्म हो जाएगी। वह इत्तिहाद और इत्तिफ़ाक़ के मिज़ाज के साथ लोगों के बीच रहने लगेगा, यहां तक कि उस वक़्त भी जबकि दूसरों के साथ उसके मतभेद पैदा हो जाएं।
रोज़ा स्पिरिटः रोज़े की ज़ाहिरी सूरत रमज़ान के महीने का रोज़ा है। और इसकी अस्ल स्पिरिट सब्र है। रोज़े का मक़सद यह है कि आदमी के अंदर सब्र की स्पिरिट पैदा हो। जो आदमी रोज़ा रखता है उसके अंदर यह मिज़ाज पैदा हो जाता है कि वह नाख़ुशगवार बातों को बर्दाश्त करे, शिकायत करने के बजाय नज़र अंदाज करते हुए ज़िन्दगी गुज़ारे।
जो लोग इस्लाम के इन पांच अरकान को महज़ उनकी शक्ल के लिहाज़ से इख़्तियार करें, वे महज़ शक्ल की हद तक तो उनको अपनाएंगे, लेकिन इन शक्लों के बाहर उनकी जिंदगी इन अरकान से बिल्कुल आज़ाद और असंबद्ध होगी।
मसलन, वे ईमान के कलिमे के शब्दों को अपनी ज़ुबान से दोहराएंगे, पर उन ख़ास शब्दों के बाहर उनके सामने कोई सच्चाई आएगी तो वे उसको स्वीकार न कर सकेंगे। क्योंकि उनकी रूह कलिमे की स्पिरिट से ख़ाली है। वे नमाज़ की शक्ल को मस्जिद में खड़े होकर दोहराएंगे, लेकिन मस्जिद के बाहर लोगों के साथ उनका वास्ता पड़ेगा तो वहां वे विनम्रता का अंदाज़ अपना न सकेंगे और इसकी वजह यह होगी कि नमाज़ की जो स्पिरिट है वह उनके अंदर मौजूद नहीं।
इसी तरह वह ज़कात के नाम पर एक रकम निकाल कर किसी को दे देंगे, पर इसके बाद जब लोगों के साथ मामला करेंगे तो उसमें वे खैरख्वाही का सबूत न दे सकेंगे, क्योंकि ज़कात स्पिरिट से उनका सीना खाली था। वे पूरे सम्मान से हज का सफर करेंगे और उसके मरासिम अदा करके वापस आ जाएंगे पर वे इसके लिए तैयार न होंगे कि लोगों की तरफ़ से पेश आने वाली शिकायतों को नज़रअंदाज़ करते हुए उनके साथ मेल-मिलाप और एकता का बर्ताव करें। क्योंकि उन्होंने हज के बावजूद हज-स्पिरिट अपने अंदर पैदा नहीं की। रमज़ान का महीना आएगा तो वे मौसमी इबादत के तौर पर एक महीने का रोज़ा रख लेंगे, पर वे सब्र के मौके पर सब्र नहीं करेंगे। वह हर भड़कावे पर उत्तेजित होकर लड़ने लगेंगे। और इसकी वजह यह होगी कि जाहिरी तौर पर उन्होंने रोज़ा तो रख लिया मगर उनके दिल और दिमाग में रोजे की स्पिरिट पैदा न हो सकी।
जो आदमी इस्लाम के पांच अरकान को अपना ले वह मोमिन और मुस्लिम हो गया। वह इस बात का पात्र हो गया कि दुनिया में उसको अल्लाह की रहमत मिले और आख़िरत में उसको जन्नत में दाख़िल किया जाए। लेकिन इस्लाम के पांच अरकान अपनी शक्ल और रूह दोनों के लिहाज़ से होने चाहिए। उनके अदा होने पर जिन इनामों का वादा है उसका ताल्लुक़ पूरी अदायगी पर है न कि अधूरी अदायगी पर।
तक़वा और शुक्र
हज़रत अबू उमामा कहते हैं कि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया कि मेरे रब ने मेरे सामने यह पेशकश की कि मक्का की घाटी को तुम्हारे लिए सोना बना दिया जाए। मैंने कहा कि मेरे रब, नहीं बल्कि मुझे यह पसंद है कि मैं एक दिन खाऊं और एक दिन भूखा रहूं। बस जब मुझे भूख लगे तो मैं तेरी तरफ़बेबसी ज़ाहिर करूं और तुझको याद करूं और जब मुझे सेरी (तृप्ति) हासिल हो तो मैं तेरी तारीफ़ करूं और तेरा शुक्र अदा करूं।
अल्लाह तआला अपने बन्दों से दो चीज़ें चाहता है। एक यह कि वह अल्लाह की क़ुदरत को स्वीकार करके उसके आगे अपने इज्ज़ (बेबसी), विनम्रता का इज़हार करें। दूसरे यह कि वह अल्लाह की नेमतों को महसूस करके उस पर शुक्र करने वाले बन जाएं। ये दोनों बातें निहायत साफ़ तौर पर क़ुरआन और हदीस में बताई गई हैं। मगर इसका सबसे बड़ा अमली तजुर्बा वह है जो भूख और तृप्ति की सूरत में इन्सान के साथ पेश आता है। जब आदमी को भूख लगती है, जब उसको प्यास लगती है, उस वक़्त उसको आख़िरी हद तक इस हक़ीक़त का एहसास होता है कि वह कितना कमज़ोर और मोहताज है। इसी तरह जब भूख और प्यास की शिद्दत के बाद उसको खाना और पानी मिलता है। तो उस वक़्त उसको आख़िरी तौर पर महसूस होता है कि खाना और पानी कितनी क़ीमती चीज़ें हैं।
इस दुनिया में आदमी को भूख का तजुर्बा भी होना चाहिए और तृप्ति का भी। उसे इस हालत से भी गुज़रना चाहिए कि उसका हल्क़ प्यास की वजह से सूख गया हो और इसी के साथ यह कैफियत भी कि उसने ठंडा पानी पिया और उसके बाद उसका वह हाल हो गया, जिसको हदीस में इन अल्फ़ाज़ में बयान किया गया है: प्यास चली गई और रगें तर हो गईं।
ऊपर वाली हदीस से मालूम होता है कि हालात के बग़ैर कैफियत (अनुभूतियां) पैदा नहीं होतीं। रोज़ा इसी क़िस्म के हालात पैदा करने की एक सालाना तदबीर है। रोज़े के ज़रिए आदमी को भूख और तृप्ति दोनों का तजुर्बां कराया जाता है, ताकि वह ख़ुदा के आगे आजिज़ी करने वाला, विनम्रता दिखाने वाला और गिड़गिड़ाने वाला भी बने और इसी के साथ उसका शुक्र करने वाला भी।
क़ुरआन में रोज़े का हुक्म देते हुए कहा गया है कि ईमान वालो, तुम पर रोज़ा फ़र्ज किया गया जिस तरह तुमसे पहले के लोगों पर फ़र्ज़ किया गया था, ताकि तुम परहेज़गार बनो... रमज़ान का महीना जिसमें क़ुरआन उतारा गया... पस तुम में से जो शख़्स इस महीने को पाए, वह इसके रोज़े रखे...और अल्लाह की बड़ाई करे। इस पर कि उसने तुमको राह बताई, और ताकि तुम उसके शुक्रगुज़ार बनो (अल-बकर: 183-85)।
इन आयतों में रोज़े के दो ख़ास फ़ायदे बताए गए हैं। एक यह कि रोज़ा आदमी के अन्दर तक़्वा (संयम) पैदा करने का ज़रीआ है। दूसरे यह कि इससे आदमी के अन्दर यह सलाहियत पैदा होती है कि वह अपने रब का शुक्र करने वाला बने।
क़ुरआन में जिस दीनी कैफियत के लिए तक़्वा और शुक्र का लफ़्ज़ इस्तेमाल हुआ है, उसी को हदीस में ‘तज़र्रु’(मिन्नत) और शुक्र कहा गया है। यही दोनों कैफियतें बन्दगी की जान हैं। अल्लाह के मुक़ाबले अपने इज्ज़ और छोटेपन का एहसास आदमी के अन्दर तज़र्रु और तक़वा का एहसास उभारता है। और अल्लाह की दी हुई चीज़ों का एहसास उसके अन्दर हम्द, अनुशंसा और शुक्र के जज़्बात पैदा करता है।
अगर आदमी की चेतना जागी हुई हो, ये दोनों कैफियतें हर रोज़ हर तजुर्बे से आदमी के अन्दर पैदा होती रहेंगी। वह हर घटना से दोनों रब्बानी ग़िज़ाएं हासिल करता रहेगा। फिर इन्हीं दोनों कैफ़ियतों को और भी ज़्यादा और गहराई से हासिल करने के लिए रमज़ान के महीने का रोज़ा मुक़र्रर किया गया है। रमज़ान का रोज़ा गोया अमूमी (सामान्य) तरबियत का ख़ुसूसी (विशेष) कोर्स है।
चुप रहिए
क़ुरआन में है कि कान और आँख और दिल, हर चीज़ के बारे में इन्सान से पूछ होगी (बनी इस्राईल 36)। हदीस में आया है कि तुम में जो शख़्स फ़तवा देने में ज़्यादा जरी (दुस्साहसी) है वह जहन्नम के ऊपर ज़्यादा जरी है।
इसलिए फ़त्वा देने के मामले में सहाबी बेहद एहतियात बरतते थे। हज़रत अब्दुल्लाह बिन मसऊद के बारे में हदीस में आया है कि अब्दुल्लाह तराज़ू में उहुद पहाड़ से भी ज़्यादा वज़नी हैं। इसके बावजूद उनका यह हाल था कि वह कूफ़ा में थे। उन से एक मामले में पूछा गया तो उन्होंने जवाब नहीं दिया। लोग उनसे महीने भर पूछते रहे। यहां तक कहा कि अगर आप ही फ़त्वा न देंगे तो हम किस से पूछें? फिर भी उन्होंने कोई जवाब नहीं दिया।
हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर हमेशा फ़त्वा देने से परहेज़ करते थे। लोग जब ज़ोर डालते तो कहते कि हमारी पीठ को जहन्नम के लिए सवारी न बनाओ।
इन रिवायतों में फ़त्वे से मुराद कोई सीमित फ़त्वा नहीं है। इसका तअल्लुक़ उन तमाम बातों से है जो मुसलमानों के साथ होती हैं और जिनमें वे अपने आलिमों और अपने रहनुमाओं से राय पूछते हैं। ऐसे मामलों में आलिमों और रहनुमाओं का फ़र्ज़ है कि वे बोलने से ज़्यादा सोचें। वे उस वक़्त तक कोई बयान न दें जब तक इस मामले में मश्वरा, और ग़ौरो-फ़िक्र की तमाम शर्तों को आख़िरी हद तक पूरा न कर चुके हों। ऐसे मामलों में न बोलना इससे बेहतर है कि आदमी ग़ैरज़िम्मेदाराना तौर पर बोलने लगे।
सामूहिक मामलों में राय देना बेहद नाज़ुक ज़िम्मेदारी है, क्योंकि अगर राय ग़लत हो तो लोगों को नामालूम मुद्दत तक उसका नुक़सान भुगतना पड़ता है। इसलिए आदमी को चाहिए कि अगर वह बोलना चाहता है तो पहले उसकी तमाम शर्तों को पूरा करे, उसके बाद अपनी राय ज़ाहिर करे।
सादा हल
एक साहब ने अपना वाक़िया लिखा है। वह एक रेगिस्तानी इलाक़े में गए। वह तांगे पर सफ़र कर रहे थे। इतने में आंधी के आसार दिखाई दिए। तांगे वाले ने अपना तांगा रोक दिया। उसने बताया कि इस इलाक़े में बड़ी ख़तरनाक आंधी आती है, वह इतनी तेज़ होती है कि बड़ी-बड़ी चीज़ों को उड़ा ले जाती है। और आसार बता रहे हैं कि इस वक़्त उसी तरह की आंधी आ रही है। इसलिए आप लोग तांगे से उतर कर अपने बचाव की तदबीर करें।
आंधी क़रीब आ गई तो हम लोग एक पेड़ की तरफ़ बढ़े कि उसकी आड़ में पनाह ले सकें। तांगे वाले ने हमें दरख़्त की तरफ़ जाते हुए देखा तो व चीख़ पड़ा। उसने कहा कि पेड़ के नीचे हरगिज़ न जाना। इस आंधी में बड़े-बड़े पेड़ गिर जाते हैं। इसलिए इस मौक़े पर पेड़ के नीचे छुपना बहुत ख़तरनाक है, उसने कहा कि इस आंधी के मुक़ाबले में बचाव का एक ही तरीक़ा है। वह यह कि आप लोग खुली ज़मीन पर औंधे लेट जाएं।
हमने तांगे वाले के कहने पर अमल किया और ज़मीन पर मुंह नीचे करके लेट गए। आंधी आई और बहुत ज़ोर के साथ आई। वह बहुत से पेड़ों और टीलों को उड़ा ले गई। लेकिन यह सारा तूफ़ान हमारे ऊपर से गुज़रता रहा। ज़मीन की सतह पर हम महफ़ूज़ पड़े रहे। कुछ देर के बाद जब आंधी का ज़ोर ख़त्म हुआ तो हम उठ गए। हमने महसूस किया कि तांगे वाले की बात बिल्कुल ठीक थी। (ज़िकरा, नवम्बर 1989)
आंधियां उठती हैं तो उनका ज़ोर हमेशा ऊपर-ऊपर रहता है। ज़मीन की नीचे की सतह उसके सीधे ज़ोर से बची रहती है। यही वजह है कि आंधी में खड़े हुए पेड़ तो उखड़ जाते हैं पर ज़मीन पर फैली हुई घास बदस्तूर क़ायम रहती है। ऐसी हालत में आंधी से बचाव की सबसे ज़्यादा कामयाब तरकीब यह है कि अपने आपको वक़्ती तौर पर नीचा कर लिया जाए।
यह क़ुदरत का सबक़ है, जो बताता है कि ज़िन्दगी के तूफानों से बचने का तरीक़ा क्या है, इसका सादा तरीक़ा यह है कि जब आंधी उठे तो वक़्ती तौर पर अपना झंडा नीचा कर लो। कोई शख़्स भड़काने वाली बात कहे तो तुम उसकी तरफ़ से अपने कान बंद कर लो। कोई तुम्हारी दीवार पर कीचड़ फेंक दे तो उसके ऊपर पानी बहा कर उसे साफ़ कर दो। कोई तुम्हारे ख़िलाफ़ नारेबाज़ी करे तो तुम उसके लिए दुआ करने में लग जाओ।
बेहतरीन गिरोह
तुम बेहतरीन गिरोह हो जिसको लोगों के वास्ते निकाला गया है। तुम भलाई का हुक्म देते हो और बुराई से रोकते हो और अल्लाह पर ईमान रखते हो (आले- इमरान 110)।
क़ुरान की इस आयत में बेहतरीन गिरोह का मतलब सहाबियों का गिरोह है। यानी इस गिरोह को ख़ास तौर से निकाल कर मैदान में लाया गया है। यह उस रेगिस्तानी मन्सूबे की तरफ़ इशारा है, जिसके ज़रिए सहाबियों की वह अनोखी जमाअत तैयार की गई, जिसको प्रोफेसर डी. एस. मार्गोलेथ (1858-1940) ने हीरोओं की एक क़ौम (a nation of heroes) का नाम दिया है।
रसूल के साथी या सहाबी कौन थे? ये इस्माईल की संतान की नस्ल से ताल्लुक रखते थे। इस नस्ल के पूर्वज इस्माईल बिन इब्राहीम हैं। चार हज़ार साल पहले हज़रत इब्राहीम ने अपने छोटे बेटे इस्माईल और उनकी मां हाजरा को इराक़ से निकाला और उनको ले जाकर अरब के रेगिस्तान में छोड़ दिया।
उस वक़्त यह इलाक़ा एक दुर्गम और बंजर इलाक़ा था। वहां कोई इन्सानी आबादी न थी। यह पूरी तरह प्रकृति की एक दुनिया थी। रेगिस्तान और पहाड़, ज़मीन और आसमान, सूरज और चांद बस इस क़िस्म की चीज़ें थीं, जिनके बीच किसी शख़्स को अपने रात और दिन को गुज़ारना था। यहां शहरियत और सभ्यता का कोई निशान न था। चारों तरफ़ सिर्फ़ प्रकृति की डरावनी निशानियां फैली हुई दिखाई देती थीं। फिर यहां आराम और ऐश नाम की कोई चीज़ मौजूद न थी। यहां ज़िन्दगी सीधे तोर पर चुनौती थी। आदमी मजबूर था कि लगातार चुनौतियों का सामना करते हुए वह इस कठिन माहौल में ज़िन्दा रहने की कोशिश करे।
सभ्यता की ख़राबियों से दूर इस सादा माहौल में एक नस्ल बनना शुरू हुई। ये ऐसे लोग थे, जिनके हालात ने उन्हें मानवीय औपचारिकताओं से दूर कर रखा था। वे बनावटी नैतिकता से अपरिचित थे। वे एक ही मार्गदशन को जानते थे और वह प्रकृति का मार्गदर्शन था। प्रकृति बेशक बेहतरीन शिक्षक है, और रेगिस्तान की यह नस्ल इसी शिक्षक के तहत तैयार हुई।
सूरह आले-इमरान की उपरोक्त आयत में बेहतरीन उम्मत की दो विशेषताएं बताई गई हैं। एक यह कि वे ‘मारूफ़’ का हुक्म देने वाले और ‘मुन्कर’ से रोकने वाले हैं। यानी असत्य को बर्दाश्त न करना और सत्य से कम किसी चीज़ पर राज़ी न होना, यह उनका स्थायी स्वभाव है। वे उन लोगों में से नहीं जो अपने आसपास से ग़ैर ज़िम्मेदार रह कर ज़िन्दगी गुज़ारते हैं या जिनका रवैया केवल निजी स्वार्थ से जुड़ा होता है। बल्कि वे पूर्ण रूप से सत्यवादी और हक़पसन्द हैं। हक़ और नाहक की बहस में न पड़ना, या नाहक से समझौता करके ज़िन्दा रहना उनके लिए संभव नहीं।
उनकी दूसरी विशेषता यह बताई गई है कि वे अल्लाह पर ईमान रखते हैं। दूसरे शब्दों में यह कि उन्होंने ख़ुदा की पहचान या ‘बोध’ को पाया है। वे ऊपरी सतह पर जीने वाले लोग नहीं हैं। उन्होंने सर्वोच्च सच को खोजा है। उनकी चेतना पाए हुए इन्सान की चेतना है। उन्होंने सृष्टि के पीछे सृष्टा का साक्षात्कार किया है।
ये दोनों गुण बेहद दुर्लभ गुण हैं। सत्य और बोध को उपलब्ध वही लोग हो सकते हैं जो बेहद संजीदा हों। जो उसूल की बुनियाद पर राय क़ायम करते हों न कि इच्छाओं के आधार पर। जो भौतिक तथ्यों के बजाए आत्मिक तथ्यों को अपने ध्यान का केन्द्र बनाएं हुए हों। जो स्वार्थ के बजाए सच्चाई के लिए जीने वाले हों। जो दबाव के बिना अपने स्वतंत्र फ़ैसले के तहत सही रवैया इख़्तियार कर लें। जो दलील से चुप हो जाएं, बगैर इसके कि उनको चुप करने के लिए कोई ताक़त इस्तेमाल की गई हो।
इस दुनिया में सबसे बड़ा बोल सत्य को स्वीकार करना है और इस दुनिया में सबसे बड़ा अमल सत्य से सामंजस्य स्थापित करना है। और रसूल के सहाबी बेशक उन दुर्लभ इन्सानों में से थे जो इन्सानियत के इस पैमाने पर आख़िरी हद तक खरे उतरे।
यह वह पूर्ण इन्सान है, जिसकी इन्सानियत पूरी तरह सुरक्षित होती है, जो अपने रचनात्मक स्वभाव पर क़ायम रहता है। यही वह ज़िन्दा प्रकृति वाला इन्सान है जो अरब के रेगिस्तानी माहौल में ढाई हज़ार साल तक चली प्रक्रिया में तैयार किया गया। और सहाबियों का गिरोह वह चुना हुआ इन्सानी गिरोह है, जिसको इस ख़ास इन्सानी नस्ल से चुन कर निकाला गया।
सहाबा वे लोग थे जो दूसरों की भलाई के लिए जिए, जिनकी सारी कोशिश यह थी कि वे लोगों को जहन्नम से बचा कर जन्नत में पहुंचा दें। इसीलिए वे बेहतरीन गिरोह ठहराए गए।
दाई लोगों का ख़ैरख्वाह होता है, चाहे वे सरकशी करें
रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने 20 दिन से ज़्यादा मुद्दत तक तायफ़ का मुहासिरा (घेराबंदी) किया। जब मुसलमानों के लिए वह मुश्किल हो गया तो आपने वापसी का हुक्म दिया। एक शख़्स ने आपसे कहाः ऐ ख़ुदा के रसूल, सक़ीफ़ (क़बीले) को बद्दुआ कीजिए। रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपने दोनों हाथ उठाए और कहाः ऐ अल्लाह सक़ीफ़ को हिदायत दे और उनको मुसलमान कर के वापस ला। इसी तरह आप से कहा गया कि क़बीला दौस सरकश और मुन्कर (निरंकुश और इंकार करने वाला) हो गया है। उसके ख़िलाफ़ बददुआ कीजिए। आपने फ़रमायाः ऐ अल्लाह, क़बीला दौस को हिदायत दे और उनको मोमिन बना कर ला।