الرسالہ
(اردو-ہندی،جولائی-اگست 2023)
مولانا وحید الدین خاں
قربانی
درخت کیا ہے۔ ایک بیج کی قربانی۔ ایک بیج جب اپنے کو فنا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے تو اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک سرسبز و شاداب درخت زمین پر کھڑا ہو ۔ اینٹوں سے اگر آپ پوچھیں کہ مکان کس طرح بنتا ہے تو وہ زبان حال سے کہیں گی کہ کچھ اینٹیں جب اس بات کے لیے تیار ہوتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے زمین میں دفن کر دیں ، اس کے بعدوہ چیز ابھرتی ہے جس کو مکان کہتے ہیں۔
یہی حال انسانی سماج کی تعمیر کا ہے ۔ انسانیت کے مستقبل کی تعمیر اس وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ کچھ لوگ اپنے کو بے مستقبل دیکھنے پر راضی ہو جائیں۔ ملت کی ترقی اس وقت ہوتی ہے جب کہ کچھ لوگ شعوری فیصلہ کے تحت اپنے آپ کو بے ترقی کر لیں— قربانی کے ذریعہ تعمیر، یہ قدرت کا ایک عالمگیر قانون ہے۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ قدرت کا یہی اصول مادی دنیا کے لیے بھی ہے اور قدرت کا یہی اصول انسانی دنیا کے لیے بھی۔
عمارت میں ایک اس کا گنبد ہوتا ہے ، اور ایک اس کی بنیا د۔ گنبد ہر ایک کو دکھائی دیتا ہے ،مگر بنیاد کسی کو دکھائی نہیں دیتی ۔ کیوں کہ وہ زمین کے اندر دفن رہتی ہے۔ مگر یہی نہ دکھائی دینے والی بنیاد ہے،جس پر پوری عمارت اور اس کا گنبد کھڑا ہوتا ہے ۔ قومی تعمیر کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ قربانی یہ ہےکہ آدمی قومی تعمیر میں اس کی بنیا د بننے پر راضی ہو جائے ۔
قربانی یہ نہیں ہے کہ آدمی جوش میں آکر لڑ جائے اور اپنی جان دے دے۔ قربانی یہ ہے کہ آدمی ایک نتیجہ خیز عمل کے غیر مشہور حصہ میں اپنے کو دفن کر دے۔ وہ ایسے کام میں اپنی کوشش صرف کرے جس میں دولت یا شہرت کی شکل میں کوئی قیمت ملنے والی نہ ہو ۔ جو مستقبل کے لیے عمل کرے، نہ کہ حال کے لیے ۔ کسی قوم کی ترقی اور کامیابی کا انحصار ہمیشہ اسی قسم کے افراد پر ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کسی قوم کے مستقبل کی بنیاد بنتے ہیں۔ وہ اپنے کو دفن کر کے قوم کے لیے ز ند گی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
دین کے اعتبار سےقربانی کا مقصد ہے— اپنے وجود کے حیوانی حصہ کو قربان کرنا، اور اپنے وجود کے ربانی حصہ کو جنت کی ابدی دنیا کےلیے زندہ کرنا ۔
حج کا سبق
قرآن میں اسلام کےایک رکن حج کا بیان ہے۔ اس کے تحت ایک بات یہ بیان کی گئی ہے:لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ (22:28)۔ یعنی تاکہ وہ اپنے فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں:
So that they may witness its benefit for them.
تفاسیر میں منافع کا مختلف مطلب بیان کیا گیا ہے:التجارۃ، منافع الآخرۃ، منافع الدارَین، مناسک، مغفرت، خیر و برکت، وغیرہ۔ اس کا ایک اور معنی بھی ہوسکتا ہے— تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے زندگی کے مختلف میدانوں میں کام آنے والے مفید طریقے کا مشاہدہ کریں۔
مکہ میں وہ مفید طریقہ کیا ہے۔ رسول اللہ نے جب مکہ فتح کیا تو اس وقت کعبہ ابراہیمی تعمیر کے بجائے مشرکین مکہ کی بنیاد پر قائم تھا۔ سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کعبہ کی عمارت میں مشرکین کی تعمیر کوباقی رکھا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1507)۔ اور یہ عمارت آج تک اسی طرح حطیم اور کعبہ کی چوکور عمارت کی شکل میں قائم ہے۔ اس طریقِ کار کو موجودہ دور کی اصطلاح میں پریکٹکل وزڈم کہا جاسکتا ہے، یعنی کوئی چیز عملی طور پر ناممکن ہو تو اس کو ترک کرکے ممکن طرزِ عمل کو اختیار کرنا:
If some principle is not practical or workable, it should be modified as per the situation’s circumstances.
یہ صرف حج یا کعبہ کی بات نہیں ہے۔ یہ زندگی کا اصول ہے۔مثلا ً اکثرعورت و مرد شادی کے معاملے میں معیار پسند ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایسا زوج ملے جو ان کاآئڈیل ہو۔ مگر اس دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔اگر ایک اعتبار سےآئڈیل ہو گاتو دوسرے اعتبار سے وہ مس میچ ہوگا۔ اس مسئلہ کا حل امریکن رائٹر مزسائمن ایلکلیز ( Simone Elkeles, b. 1970)نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ہم سب مس میچ جوڑے ہیں، جو حقیقت میں ایڈجسٹ کرتے ہیں:
We're all a bunch of mismatched couples — that keep adjusting to the situation.
زندگی کے ہر معاملے میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز جزئی اعتبار سے ہمارے مطابق ہوتی ہے، لیکن کچھ دوسرے پہلوؤں سے وہ نا موافق ہوتی ۔ ایسے موقع پر پریکٹکل وزڈم یہ ہے کہ ناموافق پہلوؤں کے ساتھ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ایڈجسٹمنٹ کا راستہ اختیار کیا جائے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
رسول کا نمونہ
موجودہ زمانہ تحریکوں کا زمانہ ہے۔ چنانچہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر بڑی تعداد میں تحریکیں اٹھیں۔ ان مسلم تحریکوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ وہ یہ کہ ہر تحریک یہ کہتی ہے کہ الرَّسُولُ قُدوَتُنَا(رسول اللہ ہمارے لیے نمونۂ عمل ہیں)۔ الفاظ مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن ہر تحریک کا یہ ماننا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے قدوہ یا نمونہ(model) ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ تقریباً ہر ایک نےپیغمبر کا ماڈل مستقبل کے لحاظ سے بنا رکھا ہے۔ شاید کسی نے بھی حال کے اعتبار سے پیغمبر کو اپنا ماڈل نہیں بنایا ۔
مثلاً ہر تحریک کا نشانہ یہ ہے کہ وہ موجودہ سسٹم کو اسلامائز کرے، اور اِس کو اس نمونے کے مطابق بنائے جس کو وہ پیغمبر اسلام کا نمونہ سمجھتا ہے۔ ا س کا نتیجہ یہ ہے کہ ہرتحریک اپنے آغاز ہی سے ٹکراؤ کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ کیوں کہ وہ دیکھتی ہے کہ سسٹم پر کسی اور کا قبضہ ہے، اس لیے وہ پہلا کام یہ سمجھتی ہےکہ موجود سسٹم کو بدلیں، تاکہ دوسرے مطلوب سسٹم کو قائم کیا جاسکے۔
مگر پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے اس کے برعکس، یہ پالیسی اختیار کی کہ مسائل کو اوائڈ کرو، اور مواقع (opportunities)کو استعمال کرو۔ مثلاً آپ نے قدیم مکہ میں کعبہ کے اندر بتوں کی موجودگی کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی، بلکہ یہ کیا کہ ان بتوںکی وجہ سے کعبہ کے پاس زائرین کا جو مجمع (audience) اکٹھا ہوتا تھا، اس کو اپنی پر امن دعوت کےلیے بطور ِ موقع استعمال کیا۔
موجودہ زمانے کی مسلم تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے یہاں قدوہ اور اسوہ کی باتیں تو بہت ملیں گی، لیکن ان کی پالیسی میں عملا ًیہ ملے گا — مسائل سے ٹکرانا اورمواقع کو نظر انداز کرنا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کو قدوہ یا اسوہ کی خبر تو ہے، مگر انھیں حکمتِ رسول (prophetic wisdom) کی کوئی خبر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تحریکوں میں ٹکراؤ تو ملتا ہے، لیکن کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملتا۔
آپ کی زندگی کیسی گزر رہی ہے
مز سہگل ہمارے پڑوس میں رہتی ہیں۔ آج، 4 فروری 2020 کو میں اپنے آفس کے پاس پارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہ آگئیں۔ بہت دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ چنانچہ انھوں نے مختلف باتیں پوچھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ کی زندگی کیسی گزررہی ہے؟
میں نے جواب دیا کہ میں ایک ایسا انسان ہوں ، جو اللہ رب العالمین کی یاد میں جیتا ہے۔ یہی میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ لوگ بوڑھے ہوکر ریٹائرڈ لائف کا کوئی پیٹرن اختیار کرلیتے ہیں۔ میرا پیٹرن یہ نہیں ہے۔ میرا پیٹرن ہے — ا للہ کی یاد میں جینا۔ اللہ کی یاد میں جینے والے کے لیے کوئی بریک نہیں۔ میں جیسے پہلے اللہ کی یاد میں جیتا تھا، اسی طرح اب بھی اللہ کی یاد میں جیتا ہوں۔
مثال کے طور پر میں اس وقت ایک پارک میں بیٹھا ہوا ہوں۔ یہاں خدا کی طرف سے مجھ کو کئی چیزیں سپلائی ہورہی ہیں۔ مثلاً دھوپ اور آکسیجن، وغیرہ۔ یہ سب مجھ کو نہایت رائٹ پروپورشن میں سپلائی کی جارہی ہیں۔ اگر یہی چیزیں مجھ کو رائٹ پروپورشن(right proportion) میں نہ ملیں تو میری ساری زندگی اپسٹ (upset) ہوجائے گی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ خدا کتنا عظیم ہے۔ اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کے لیے کیا چیزیں درکار ہیں، اور ہر چیز میں اس کے لیے رائٹ پروپورشن کیا ہے۔
مثلاً، زمین کے اوپر سبزہ اور ہریالی ہے لیکن اس میں کانٹے نہیں ہیں،تاکہ مَیں آسانی کے ساتھ زمین پر چل پھر سکوں۔ اسی طرح خالق نے یہاں میرے لیے پانی کی سپلائی کا انتظام کیا۔ مگر اس کا نظام یہ ہے کہ پانی کی سپلائی زمین کے اوپر ندی اور نہر وغیرہ سے کی جارہی ہے، اور تیل کی سپلائی زمین کے اندر سے۔ یہ دونوں چیزیں ہم کو ہماری ضرورت کے عین مطابق مل رہی ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو ، یعنی پٹرول کی سپلائی اوپر سے ہو، اور پانی کی سپلائی نیچے سے، تو سارا نظام اپسٹ (upset) ہوجائے۔ اس طرح یہاں بہت سی چیزیں اپنے آپ سپلائی ہورہی ہیں، لیکن ہر چیز رائٹ پروپورشن میں عین انسان کی ضرورت کے مطابق اس کو مل رہی ہے۔ اگر پروپورشن بگڑ جائے تو ہر چیز انسان کے لیے مسئلہ بن جائے گی۔
ایک سوال
ایک مرتبہ اپنے والد محترم سے میری گفتگو ہوئی، جو کہ جامعہ دارالسلام عمر آباد میں معہد ثانویہ کے مدیر ہیں ۔ میری ان سے گفتگو ہوئی تو میں نے کہا کہ مولانا وحیدالدین خان صاحب أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ(اللہ سے شدید محبت)کی اہمیت بتاتے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟میں نے کہاکہ خدا کی نعمتوں کے تذکرے سے اور ملی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے ۔ دوسری بات میں نے یہ بتائی کہ عام طور پر امت کے بہت سے علما اور عوام اپنے اکابر کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں،وہ ان کے خلاف ذرا بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ اس کے بر خلاف مولانا کا یہ حال ہے کہ مولانا خدا کے معاملے میں ہمیشہ حساس رہتے ہیں۔والد محترم نے کہا کہ یہی تو اصل چیز ہے کہ آدمی خدا کے بارے زیادہ حساس ہو جائے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک انسان خدا کے بارے میں حساس کیسے بن سکتا ہے (حافظ سید اقبال احمد عمری،عمرآباد، تامل ناڈو)۔
اللہ رب العالمین سے گہرے تعلق کا راز صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ بندہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو دریافت کرے، جو ہر آن اس کو پہنچ رہی ہے۔ مثلاً پانی کی سپلائی، ہوا کی موجودگی، آکسیجن کا نظام، سورج کی روشنی ، زمین میں اشیائے خوراک کا پیدا ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی ان گنت نعمتیں ہیں، جو ہر وقت انسان کو پہنچ رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان کا وجود قائم ہے۔ اس قسم کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کے بارے میں درست طور پر قرآن میں آیا ہے :إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا (14:34)۔ یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم گن نہیں سکتے"۔آدمی اگر ان حیات بخش نعمتوںکو صبح و شام یاد کرتا رہے تو ان نعمتوں کی یاد سے وہ ہر وقت سرشار رہے گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ محبت، نعمت کے جواب (response) کے طور پر کسی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان اللہ کو اپنے سب سے بڑے محسن اور منعم کی حیثیت سے دریافت کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سینے میں اللہ کے لیے محبت کا سمندر موجزن ہوجاتا ہے۔اِسی کا نام حبِّ شدید ہے۔ محبت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دریافت (discovery) کا نتیجہ ہے، وہ محض ایک حکم کی رسمی تعمیل نہیں۔
وقت ضائع نہ کیجیے
انسان دنیا میں کس لیے آیا ہے— وہ اِس لیے نہیں آیا ہے کہ یہاں اپنی پسند کی جنت قائم کرے۔وہ یہاں صرف اِس لیے آیا ہے کہ اپنے آپ کو خالق کی پسند کے مطابق بنائے (البقرۃ، 2:38)۔ انسان کو موجودہ دنیا میں صرف چند سال کی عمر ملی ہے۔ چند سال کی اِس مدت میں کوئی دوسرا کام کرنا، اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے ضائع کرلینا ہے۔ صحیح استعمال صرف وہ ہے جو موت کے بعد کام آئے۔ موت کے بعد صرف وہ انسان کامیاب قرار دیا جائے گا جس نے موت سے پہلے کی زندگی میں اپنے آپ کو خالق کی پسند کے مطابق بنایا ہو۔
خالق کی پسند کیاہے،زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی فطری نشانیاں اس کا زندہ نمونہ ہیں (آل عمران، 3:190)۔ فطرت کی وادیوں میں جاری چشمے خالق کی پسند کا اعلان کررہے ہیں۔ ہرے بھرے درخت اپنی خاموش زبان میںخالق کی پسند کو بتارہے ہیں، یہاں کی فضاؤں میں اڑتے ہوئے پرندے خالق کی پسند کا چرچا کررہے ہیں، یہاں کے خوب صورت پہاڑوں میں خالق کی پسند کا نغمہ گونج رہا ہے۔ یہاں کی مسحور کُن فضاؤں میں ہرطرف خالق کی پسند کا جلوہ دکھائی دیتاہے۔فطرت کے ماحول میں انسان خالق کے پڑوس کا تجربہ کرتاہے۔یہ گویا فطرت کی زبان میں خالق کا کلام ہے۔
اس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر انسان کا پہلا فرض ہے کہ وہ قرآن کی روشنی میں خالق کی اِس زندہ کتاب کو پڑھے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ جو لوگ یہ کام نہ کریں، اُن کے لیے موت کے بعد صرف یہ انجام سامنے آئے گا کہ وہ ابد تک حسرت میں جیتے رہیں۔ اُن کے حصے میں صرف یہ مایوسانہ سوچ آئے کہ اُن کا کیس صرف مواقع کے استعمال سے محرومی کا کیس تھا:
Mine was a case of missed opportunities.
اس دنیا میں کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ آدمی یہاں اپنی شخصیت کو جنتی شخصیت بنائے، تاکہ آخرت میں اس کو اللہ کی ابدی جنت میں داخلہ ملے۔ موجودہ دنیا جنت کی تعمیر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ وہ جنتی شخصیت کی تعمیر کی جگہ ہے۔ اِس دنیا میں جنتی شخصیت کی تعمیر ہی وہ کام ہے جس میں انسان کی حقیقی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
اذنِ خداوندی کے بغیر
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (42:21)۔ یعنی کیا ان کے کچھ شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔
شرک یہ ہے کہ کسی غیرِ خدا کو وہ درجہ دیا جائے، جو صرف اللہ رب العالمین کا حق ہے۔ مثلاً کسی سے بے انتہا محبت کرنا، کسی اور کو اپنا سول کنسرن بنانا، کسی اور سے وہ امید رکھنا جو امید صرف اللہ سے رکھنا چاہیے، وغیرہ۔ اللہ رب العالمین ہر انسان کا خالق اور رازق ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑائی کا درجہ صرف اللہ رب العالمین کو دے، نہ کہ کسی اور کو۔
مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی) کا تعلق صرف معروف شرک سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسان کے تمام قول اور عمل سے ہے۔ خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، انسان کو وہی بولنا ہے، جس کی اجازت خدا نے دی ہے۔ انسان کو وہی کرنا ہے، جس کا اِذن (اجازت) اس کو اللہ رب العالمین کی طرف سے حاصل ہو۔
مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی) کا تعلق ہر انسانی معاملے سے ہے۔ مثلاً جھوٹ بولنا مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ میں شامل ہے، خواہ وہ براہ راست جھوٹ ہو یا بالواسطہ جھوٹ۔ اسی طرح انسان سے بدخواہی کرنا بھی مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ میں شامل ہے۔ انسانی سماج میں منفی جذبات کے ساتھ جینا بھی مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُُ میں شامل ہے۔یعنی خدا کی زمین پر ایسا کام کرنا، جس کی اجازت اللہ نے نہ دی ہو :
That is not sanctioned by Allah.
یہ کسی مرد یا عورت کے لیے ناقابل معافی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی سے ایسا کوئی عمل سرزد ہوتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ وہ کھلے طو رپر اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اور اللہ رب العالمین سے کھلے دل کے ساتھ معافی مانگے۔
دو قسم کے انسان
دنیا میں دو قسم کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو زیادہ بولتے ہیں، لیکن کام میں پیچھے رہتے ہیں۔ اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو بقدرِ ضرورت بولتے ہیں، ورنہ چپ رہتے ہیں۔انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جو لوگ زیادہ بولتے ہیں،وہ کم سوچتے ہیں۔ اور جولوگ کم بولتے ہیں وہ زیادہ سوچتے ہیں، اورجو بات بھی کرتےہیں، سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے انسان کو غیر سنجیدہ انسان کا نام دیا جاسکتا ہے، اور دوسری قسم کے انسان کو سنجیدہ انسان۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ زیادہ بولنے والا انسان کرنے کے معاملے میں کم ہوگا۔ اس کے برعکس، جو انسان کم بولے گا، وہ کرنے کے معاملے میں زیادہ ہوگا۔ عقل مندآدمی وہ ہے، جو کسی کے بولنے کو نہ دیکھے، بلکہ یہ دیکھے کہ وہ عمل کے معاملے میں کیسا ہے۔ قاسم بن محمدتابعی (وفات107ھ) بیان کرتے ہیں کہ میں نےدیکھا ہےکہ اصحابِ رسول عمل سے خالی باتوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ امام مالک نے بتایا کہ اصحابِ رسول انسان کے عمل کو دیکھتے تھے، وہ انسان کے بولنے کو نہیں دیکھتے تھے)الجامع لابن وہب: (406
اس سلسلے میں قرآن میں دو متعلق آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بات بہت ناراضی کی ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرو نہیں (61:2-3)۔مفسر ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ ان لوگوں پر تنقید ہے، جو کہتے ہیں، لیکن کرتے نہیں، وعدہ کرتے ہیں، لیکن اس کو پورا نہیں کرتے۔ بعض علما نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے ، خواہ جس سے وعدہ کیا ہے وہ اس کی تاکید کرے یا نہ کرے(تفسیر ابن کثیر، جلد8، صفحہ105)۔
حقیقی انسان وہ ہے، جس کے کہنے اور کرنے میں مطابقت ہو، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ آدمی کو اپنے کہنے کی قیمت دینی پڑے ۔جب ایک انسان کے اندر یہ صفت پیدا ہوجائے تو وہ بولنے سے پہلے بہت زیادہ سوچے گا۔وہ کوئی ایسی بات بولنے سے بچے گا، جو وہ پورا نہ کرسکتا ہو۔ اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ ایمان والے کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات کرے یا چپ رہے( صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018 ) ۔
جنت کی قیمت
انسان سے جو اعلیٰ عمل مطلوب ہے، وہ اصلاً صرف ایک ہے، اور وہ ہے ٹوٹل فریڈم کے ساتھ ٹوٹل سرینڈر۔ یہ ایک بہت نادر شرط تھی۔ اللہ رب العالمین جو عالِم کُل ہے، اس کو معلوم تھا کہ انسان کے لیے اس پر قائم ہونا، بہت ہی مشکل کام ہوگا۔ اس کمی کی تلافی کے لیے انسان کو ایک نادر رعایت دے دی گئی، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:(ترجمہ) کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے (39:53)۔
اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل اسلام کی گاڑی بہت کم رائٹ ٹریک (right track)پر قائم رہی۔ مسلم تاریخ میں انفرادی طور پر لوگ رائٹ ٹریک پر قائم ملتےہیں، لیکن عمومی سطح پر ایسے لوگ نہیں ملتےہیں جو اس شرط پر پورے اتریں ۔یعنی اسلام کی تاریخ میں صرف کچھ افراد رائٹ ٹریک پر پوری طرح قائم رہ سکے۔ جماعت کے اعتبار سے اس کی مثال شاید دورِ اول کے بعد نہیں ملتی۔ کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام کی گاڑی بہت کم رائٹ ٹریک پر قائم رہی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ منصوبۂ تخلیق کے مطابق، انسان کو ٹوٹل فریڈم دیا گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس سے یہ مطلوب ہے کہ خدا کے آگے وہ ٹوٹل سرینڈر کا طریقہ اختیار کرے۔
عام طور پر انسان رائٹ ٹریک پر کمپلشن کی صورت حال میں قائم رہتا ہے، یعنی جبر کا موقع ہو تو انسان رائٹ ٹریک پر رہتا ہے،لیکن آزادانہ ماحول ملتے ہی وہ رائٹ ٹریک سے ڈی ریل (derail) ہوجاتا ہے(الاعراف، 7:171)۔صرف وہی لوگ سیلف ڈسپلن کی زندگی گزارتے ہیں، جو کامل معنوں میں بااصول انسان ہوں۔ سیلف ڈسپلن، یعنی اختیارانہ طور پر سچائی کے آگے سرینڈر کرنا۔
جنت کو اہل تقویٰ، انتہائی اعلیٰ کردار کے لوگوں کا مسکن بتایا گیا ہے (النساء، 4:69)۔یعنی وہ لوگ جو اللہ رب العالمین کی قربت چاہتے ہیں(التحریم، 66:11)۔ اہل جنت کے ان اوصاف کو ایک لفظ میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجے میں قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کے حامل ہوں گے، یعنی کامل معنوں میں بااصول انسان۔
فطری تربیت
راقم الحروف کی زندگی کو پڑھنے کے بعد ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ "آپ کی اکثر عادتیں خدائی عطیہ (God gifted) ہیں، یا آپ نے نیچر سے یہ سیکھا ہے"۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ میں کبھی مروجہ سوسائٹی سے زیادہ قریب نہیں ہوا۔ چنانچہ اپنے بارے میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ:
I am a man with difference.
اور یہ کہ:
I am a self-made man.
مجھے یاد آتا ہے کہ میں گائوں میں رہتا تھا۔ لیکن میں نے گائوں والوں کی کوئی عادت نہیں سیکھی۔ مثلا ًمیرے بچپن کا واقعہ ہے۔میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوا تھا۔ اسی وقت ایک لڑکا مجھے گالی کے الفاظ بولتا ہوا چلا گیا۔ اس کو سن کر میرے اندر کوئی ردّعمل پیدا نہیں ہوا۔ میں نے صرف یہ کہا کہ تم خود۔ اور یہ کہتے ہوئے میں گھر کے اندر چلا گیا۔ اسی طرح ایک واقعہ یہ ہے کہ میرے پڑوس میں ایک صاحب رہتے تھے۔ ان کے یہاں ایک بار چوری ہوگئی۔ چور گھر کا باکس کھول کر زیور نکال لے گیا۔ یہ بات اس وقت کی ہے، جب میں چھوٹا تھا، اور پڑوسی کے گھر آیا جایا کرتا تھا۔ چنانچہ پڑوسی کی خاتون نے چوری کا الزام میرے اوپر لگا دیا۔ یہ بات سن کر مجھے ہنسی آگئی۔ مجھے پڑوسی کی بات پر غصہ نہیں آیا۔ بلکہ ہنس کر اس کی بات کو نظر انداز کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ تو بالکل مضحکہ خیز بات ہے۔ ان لوگوں نے مجھ پر ایک ایسی بات کا الزام لگایا ہے، جو کبھی میں نے نہیں کیا ہے۔
یہ میری عادت کا معاملہ تھا ۔ اپنی اس عادت کی بنا پر میں آس پاس کے لوگوں کی باتوں سے کبھی متاثر نہیں ہوا۔ میری یہ عادت ہمیشہ جاری رہی۔ اس بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری فطرت ہمیشہ انٹیکٹ (intact) رہی۔ میں نے کبھی گائوں کے ماحول کا اثر قبول نہیں کیا۔ میں ہمیشہ فطرت پر قائم رہا۔ اور فطرت بلاشبہ انسان کو سچائی کی طرف گائڈ کرتی ہے۔
ایک خطرناک صفت
انسان کو استثنائی طورپر یہ صفت دی گئی ہے کہ اس کو ہر چیز میں ایک لذت (taste) کا احساس ہوتا ہے۔ اس لذت کو ابتدائی درجے میں رکھا جائے تو فطرت کے عین مطابق ہوگا، اور اگر اس لذت کو لامحدود طور پر حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے ہر قسم کی برائیاں وجود میں آئیں گی۔
اِس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز جب آدمی کی زندگی میں داخل ہوتی ہے تو ابتداء ً وہ صرف لذت (taste) کے درجے میں ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے وہ عادت (habit)کی صورت اختیار کرتی ہے۔ پھر مزید ترقی کرکے وہ ایڈکشن (addiction) بن جاتی ہے۔ اس کے بعد جو اگلا مرحلہ آتا ہے، وہ ہے پوائنٹ آف نو ریٹرن (point of no return) ۔ جب یہ آخری مرحلہ آجائے تو آدمی کی اصلاح عملاً ناممکن ہوجاتی ہے۔
اسی حقیقت کو قرآن میں توبۂ قریب ( 4:17) سے تعبیر کیاگیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ جب اس سے کوئی خطا سرزد ہوتو وہ بلا تاخیر توبہ قریب (speedy repentance) کا طریقہ اختیار کرے، وہ فوراً اپنا محاسبہ کرے، اپنے آپ کو بدلے، اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر نو کرے۔
غلطی کرنے کے بعد آدمی کو چاہیے کہ وہ کل کا انتظار نہ کرے، بلکہ وہ آج ہی پہلی فرصت میں اس کی تلافی کرے۔ فطرت کے قانون کے مطابق یہی طریقہ صحیح طریقہ ہے۔
آدمی کو کبھی بھی توبۂ بعید کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ غلطی کے پیچھے ہمیشہ کوئی لذت شامل رہتی ہے، مادی لذت یا ذہنی لذت۔ اگر آدمی غلطی کے بعد فوراً اس کی اصلاح نہ کرے تو اس کے بعد اس کے اندر اِس لذت پسندی کی بناپر ایک نفسیاتی عمل شروع ہوجائے گا۔ لذت دھیرے دھیرے عادت بنےگی، اس کے بعد وہ ایڈکشن (addiction)بن جائے گی، اور پھر وہ وقت آجائے گا، جب کہ آدمی کے لیے ابتدائی حالت کی طرف واپسی ناممکن ہوجائے۔
ڈبل اسٹینڈرڈ
یہ ایکسپر یس ٹرین کا فرسٹ کلاس تھا۔ ایک مرداور عورت اپنے بچہ کے ساتھ کمپارٹمنٹ میں داخل ہوئے۔ وہاں پہلے سے ایک آدمی تھا، جو سگریٹ پی رہا تھا۔ مرد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے انگریزی میں کہا کہ میرا خیال ہے کہ کمپارٹمنٹ کے اندر سگریٹ پینے کی اجازت نہیں:
I think smoking is not allowed inside the compartment.
اس کے بعد میاں بیوی دونوں ایک طرف بیٹھ گئے اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ بچہ سے مل کر زور زور سے باتیں کرنے اور قہقہہ لگانے میں مشغول ہو گئے۔ ان کے نزدیک کمپارٹمنٹ کے اندر "دھواں" کرنا نا جائز تھا، مگر اسی کمپارٹمنٹ کے اندر شور کرنا ان کے نزدیک عین درست تھا۔
یہی آج کل تمام انسانوں کا حال ہے۔ ایک آدمی اتفاق سے جس چیز کا عادی نہیں ہے یا جو چیز اتفاق سے اس کی عادت میں شامل نہیں ہوئی ہے، اس کا برا ہونا اس کو معلوم ہے ۔ وہ کسی شخص کو اس میں مشغول دیکھتا ہے تو بہت زور و شور کے ساتھ اس کے غلط ہونے کا اعلان کرتا ہے ۔ مگر اسی درجہ کی دوسری برائی جس میں وہ آدمی خود مبتلا ہے، وہ اس کو نظر نہیں آتی ، حتی کہ اس کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ غلط ہے۔ وہ دوسرے کی برائی کا خوب ذکر کرتا ہے مگر وہ اپنی برائی کے بارے میں خاموش رہتا ہے۔
برائی کی ایک قسم اور ہے جو اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ اور وہ ہے— خود را فضیحت دیگراں را نصیحت ۔ یعنی دوسروں کو برا کہنا اور خود اُسی برائی میں مبتلا ہونا۔ ایک آدمی دوسرے کو دورُخا (double standard) ہونے کا الزام دے گا، حالاں کہ وہ خود دورُخا ہو گا۔ ایک آدمی دوسرے کی اقر با نوازی کے خلاف جھنڈا اٹھائے گا، حالاں کہ اپنے دائرہ میں وہ خود اقربا نوازی کر رہا ہوگا۔ ایک آدمی دوسرے کو اتحا دد شمن بتائے گا، حالاں کہ وہ خود اتحاد د شمنی کے عمل میں مبتلا ہو گا ۔ ایک آدمی دوسرے کی مصلحت پرستی کا انکشاف کرے گا، حالاں کہ وہ اپنے مفاد کے معاملہ میں خود بھی مصلحت پرست بناہوا ہو گا ۔ لوگ تضاد میں جی رہے ہیں ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ خدا کی دنیا ہے۔ اور خدا کی بے تضاد دنیا میں تضاد کا رویہ اتنا بڑا جرم ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔
دینی تقاضے
1۔ دین میں پہلی چیز ایمان ہے۔ ایمان خدا کی معرفت کا نام ہے۔ ایک انسان پر جب یہ حقیقت کھلتی ہے کہ خدا اس کا رب ہے اور وہ اس کا بندہ، اور یہ کہ خدا نے اس کی ہدایت کے لیے محمد بن عبد اللہ کو اپنا رسول بنا کر اس کے پاس بھیجا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ یہی ایمان ہے اور اسی کو کلمہ ٔ اسلام کہا جاتا ہے۔
2 ۔ایمان کی دریافت کے فوراًبعد یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے خالق و مالک کے آگے مکمل طور پر جھک جاتا ہے۔ وہ اپنے تمام بہترین احساسات کو خدا کی طرف موڑتے ہوئے اس کا پرستار بن جاتا ہے۔ اسی کا نام شریعت میں عبادت ہے۔
3۔ایسے انسان کا سابقہ جب خدا کےبندوں سے پڑتا ہے تو وہ اپنے مزاج کے تحت ہر ایک سے تواضع کے ساتھ پیش آتا ہے۔ وہ ہر ایک کا خیر خواہ بن جاتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ ہمیشہ انصاف کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اس سے کسی کو غیر انسانی سلوک کا تجربہ نہیں ہوتا۔ یہی وہ روش ہے جس کا نام اسلامی اخلاق ہے۔ اسلامی اخلاق کے اصول پر قائم رہنے کے لیے صبر انتہائی طور پر ضروری ہے۔ جو آدمی صبر کرنے کےلیے تیار نہ ہو وہ لوگوں کے ساتھ اسلامی اخلاق برتنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
4۔ جس آدمی کے اندر ایمان کی کیفیت پیدا ہو جائے وہ اپنے قریبی ماحول کے بارے میںغیرجانبدار بن کر نہیں رہ سکتا۔ اس کا احساس مجبور کرتا ہے کہ وہ برا کرنے والوں کو برائی کرنے سے روکے اور لوگوں کو بھلائی کا طریقہ اختیار کرنے کی ترغیب دے۔ اس کا نام شریعت میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔
5۔ آخری چیز دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی تمام انسانوں کو یک طرفہ خیرخواہی کےساتھ خدا کے تخلیقی نقشہ سے باخبر کرنا، انسان کو اس کے رب سے جوڑنا، اس کو خدا پر ستانہ زندگی سے آگاہ کرنا۔
دعوت کے حدود
قرآن میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو نصیحت کرو ، کیوں کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ہو۔ تم لوگوں کے اوپر داروغہ نہیں ہو (88:21-22)۔ اسی طرح دوسرے مقام پر کہا گیا ہے کہ تم لوگوں کے اوپر زبردستی کرنے والے نہیں ہو، پس تم قرآن کے ذریعہ اس شخص کو نصیحت کرو جو میرے پیغام کو سننے کے لیے راضی ہو (50:45)۔ حضرت ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو کسی کام پر بھیجتے تو فرماتے:بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1732)۔یعنی، خوش خبری دو اور متنفر نہ کرو، آسانی پیدا کرو اور لوگوں کو مشکل میں نہ ڈالو ۔
اس طرح کی آیتیں اور حدیثیں گویا دعوت کے عمل کی حد بندی کر رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی کو ابلاغ کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے ، اس کو اجبار(زور زبردستی) کے دائرے میں داخل نہیں ہونا ہے۔ اس کے لیے یہ مناسب طریقہ ہے کہ وہ سمجھانے بجھانے کے تمام ذرائع کو استعمال کرے۔ مگر اس کو یہ حق نہیں کہ وہ دین کے نام پر دھرنا یا احتجاج ،وغیرہ کاراستہ اختیار کر کےعام لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب بنے(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2629)۔ مثال کے طور پر شتم رسول کو لیجیے۔شتم رسول کا واقعہ پیش آنےپر مسلمانوں کا مروجہ احتجاجی ردعمل اسلامی تعلیمات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ یہاں ایک داعی کو یہ کرنا ہے کہ وہ دلائل کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی سیرت اور ان کے پیغام کو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ ’’شتم رسول‘‘کا واقعہ آپ کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے پیغمبر کی تعلیمات کو پرامن انداز میں پیش کریں۔
لیکن اگر کچھ لوگ ’’اینٹی شتم رسول مہم‘‘ چلائیں ۔ وہ شتم رسول کے خلاف سڑکوں پردھرنا دیں ، مفروضہ شاتم کا پتلا (effigy)بناکر اس کو جلائیں اور دکانوں کو بند کرائیں ، وغیرہ تو اس قسم کی مہم درست نہ ہوگی۔ یہ گویا ابلاغ کی حد کو پار کر کے اجبار کی حد میں داخل ہونا ہے۔ ایسا طریقہ عام انسانوں کو اللہ اور اس کے دین سے دورکرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس قسم کی ’’ اینٹی‘‘ مہم چلانا گویا دعوتی مواقع کو قتل کرنا ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تخریب کاری ہے، نہ کہ دین کی خدمت۔
مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
47
معاذ بن جبل كهتے هيں كه انھوں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے افضل ايمان كي بابت سوال كيا۔ آپ نے فرمايا: يه كه تم الله كے لیے محبت كرو اور تم الله كے لیےناپسند كرو۔ اور اپني زبان كو الله كے ذكر ميں مشغول ركھو، انهوں نے كها كه اور كيا ۔اے خدا كے رسول۔ آپ نے فرمايا كه تم دوسروں كے لیے وهي پسند كرو جو تم خود اپنے لیے پسند كرتے هو اور تم دوسروں كے لیے بھي اس چيز كو ناپسند كرو جس كو تم اپنے لیےناپسند كرتے هو (مسنداحمد، حدیث نمبر 22130)۔
افضل ايمان سے مراد اعليٰ ايمان هے۔ يه اعلىٰ ايمان اس وقت پيدا هوتاهے جب كه آدمي كا ايمان صرف لفظي اقرار كے هم معني نه هو۔ بلكه وه شعوري دريافت اور داخلي انقلاب كي حيثيت ركھتا هو۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا آغاز کلمۂ ایمان کے اقرار سے شروع ہوتا ہے، مگر اللہ کے نزدیک اتنا ہی کافی نہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس لسانی سطح کے ایمان کو عقلی سطح کا ایمان بنائے۔ یہ گویا کلمہ گوئی کے بعد اس کی تکمیل ہے۔ اسی تکمیلی ایمان کو قرآن میں داخل القلب ایمان (49:14)کہا گیاہے۔ اس قسم كا ايمان جب كسي كو ملتا هے تو وہ اپنے محبت و نفرت کے جذبات کو اپنی خواہش کے تابع کرنے کے بجائے وہ اس کومکمل طور پر حق کے تابع کردیتا ہے۔ اس كےاندر وهي روحاني اور اخلاقي صفات پيدا هوجاتي هيں جن كا اس حديث ميں ذكر كياگيا هے۔
48
عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه ايك آدمي نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے كها كه اے خدا كے رسول الله كے نزديك سب سے بڑا گناه كيا هے۔ آپ نے فرمايا كه تم كسي كو الله كے برابر ٹھهراؤ حالاں كه الله نے تم كو پيدا كيا هے۔ اس نے كها كه اس كے بعد كيا۔ آپ نے فرمايا كه تم اپني اولاد كو اس انديشه سے قتل كرو كه وه تمهارے ساتھ كھائیں گے۔ اس نے كها اس كے بعد كيا۔ آپ نے فرمايا كه تم اپنے پڑوسي كي بيوي كے ساتھ زنا كرو۔ پھر الله نے اس كي تصديق میں قرآن کی یہ آیت (25:68)نازل فرمائي: اور جو لوگ اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ہیں۔ اور وہ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو قتل نہیں کرتے مگر حق پر۔ اور وہ بدکاری نہیں کرتے۔ اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو وہ سزا سے دو چار ہوگا(متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر6861؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر86)۔
خدا كے معامله ميں كسي انسان كا سب سے بڑا جرم يه هے كه وه كسي كو عظمت كا وه درجه دے جو صرف ايك خدا كا حق هے۔ انسان كے معاملے ميں سب سے بڑا جرم يه هے كه كسي خود ساخته سبب كي بنا پر اس كو قتل كرديا جائے۔ عورت كے معاملے ميں سب سے بڑا جرم يه هے كه ايك آدمي اس كے ساتھ زنا كا فعل كرے۔ حالاں كه عورت كے ساتھ آخری حد تك احترام كا معامله كرنا فرض هے۔
49
عبد الله بن عمرو رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه بڑے گناه يه هيں: الله كے ساتھ كسي كو شريك ٹھهرانا، ماں باپ كي نافرماني، انسان كو قتل كرنا اور جھوٹي قسم (صحیح البخاري، حدیث نمبر6675)۔
گناه كي دو قسميں هيں۔ ايك غلطي، اور دوسرے سركشي۔ غلطي وه هے جو نفس سے مغلوب هو كر سرزد هو اور سركشي وه هے جو انانيت اور تکبركے جذبے كے تحت كي جائے۔ غلطي قابل معافي هوسكتي هے ليكن سركشي الله كے نزديك قابل معافي نهيں۔
50
انس بن مالك رضي الله عنه كي روايت ميں يه فرق هے كه اس ميں جھوٹي قسم (الْيَمِينُ الْغمُوس) كي جگه پر جھوٹي گواهي (شَهَادَةُ الزُّورِ) كے الفاظ آئے هيں (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر2654؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر88)
جھوٹی قسم اور جھوٹی گواہی دونوں اسپرٹ کے اعتبار سے ایک ہیں۔ یعنی خلافِ واقعہ بات کو سچ ثابت کرنا۔ جھوٹي گواهي دينا بلا شبه ايك عظيم گناه هے۔ جھوٹي گواهي دينے والا ايك آدمي كو جانتے بوجھتے اس كے جائز حق سے محروم كرنے كي كوشش كرتا هے۔ اس قسم كا فعل بلاشبه ايك ناقابل معافي جرم هے۔
51
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تم لوگ سات مهلك چيزوں سے بچو۔ لوگوں نے كها كه اے خدا كے رسول وه كيا هيں۔ آپ نے فرمايا: الله كے ساتھ شريك ٹھهرا نا اور جادو ا ور ايسي جان كو ناحق قتل كرنا جس كو الله نے حرام كيا هے۔ اور سود كھانا۔ اور يتيم كا مال كھانا۔اور ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر بھاگنا۔ اور پاك دامن ، سیدھی سادی مومن عورتوں پر جھوٹا الزام لگانا(متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر2766؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر89)۔
گناه كے مختلف درجے هيں۔ سب سے زياده بڑا گناه وه هے جو پستي اور كمينگي كي سطح پر كياجائے۔ مذكوره ساتوں گناه كي نوعيت يهي هے۔ ان كاموں كو كرنے والا اپنے آپ كو پست انسانيت كي سطح پر گرا ليتا هے۔ اس لیے ان كو مهلكات(برباد کرنے والے اعمال) كهاگيا هے۔
52
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جب كوئي زاني زنا كرتا هے تو اس وقت وه مومن نهيں هوتا۔ اور جب كوئي چور چوري كرتا هے تو اس وقت وه مومن نهيں هوتا۔ اور جب كوئي شراب پينے والا شراب پيتاهے تو اس وقت وه مومن نهيں هوتا۔ اور كوئي مال چھيننے والا اس وقت مومن نهيں هوتا جب كه وه مال چھين رها هو اور لوگ اس كو بے بسي كي نظروں سے ديكھ رهے هوں۔ اور جب كوئي خيانت كرنے والا خيانت كرتا هے تو اس وقت وه مومن نهيں هوتا۔ پس تم ان سے بچو، تم ان سے بچو(متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر2475؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر57)۔
ايك انگاره كو ديكھ كر يه كهنا كه يه آگ هے، اپنے آپ يه مفهوم ركھتاهے كه آدمي اس كو نهيں چھوئے گا۔ اسي طرح جب ايك آدمي ايمان لاكر خدا كي خدائي كا اقرار كرے تو اس كا لازمي مفهوم يه هے كه اقرار كرنےوالا ان تمام چيزوں كو چھوڑ دے گا جو خدا كي مرضي كے سراسر خلاف هيں۔ايسي حالت ميں جب ايك آدمي اس قسم كا كوئي كھلاهوا خلافِ ايمان فعل كرے تو اس نے عملاً اپنے آپ كو ايمان سے دور كرليا۔ وه دوباره صاحب ايمان اس وقت بن سكتا هے جب كه وه اپني غلطي كا سچا اعتراف كركے لوٹے اور از سرِ نو ايمان پر قائم هوجائے۔
53
عبد الله بن عباس رضي الله عنه كي روايت ميں اس طرح هے: جب كوئي قتل كرنے والا قتل كرتا هے تو وه مومن نهيں هوتا۔ عكرمه كهتے هيں كه ميں نے عبد الله بن عباس سے كها كه مومن سے ايمان كيسے نكل جاتا هے۔ انهوں نے كها كه اس طرح۔ اور پھر انھوں نے اپنے دونوں هاتھ كي انگليوں كو ايك دوسرے ميں داخل كيااور پھر ان كو نكال ليا۔ پھر كها كه اگر اس نے توبه كرلي تو ايمان اس طرح واپس آجاتا هے۔ پھر يه كهتےهوئے انھوں نے اپني انگليوں كو دوباره اس ميں داخل كرليا۔ ابوعبدالله البخاري كهتے هيں كه ايسا آدمي اس وقت مکمل مومن نهيں هوتا۔ اور نه اس كو ايمان كي روشني حاصل رهتي هے (صحیح البخاري، حدیث نمبر6809)۔
ايمان آدمي كے جسم کا مادی جزء نهيں هے، جس طرح هاتھ اور پاؤں انسانی جسم کے مادی اجزاء هيں۔ ايمان دراصل علم ومعرفت کی مانند ايك نفسیاتی حقیقت هے۔ آدمي خود اپنے ارادے سے ايمان كو اپنے اندر داخل كرتا هے۔ اور اپنے ارادے كے تحت اپنے آپ كو اس سے جزئي يا كلي طورپر دور كرسكتا هے۔
ايمان سے جدائي كي انتهائي صورت وه هے جس كو ارتداد (apostasy)كهاجاتا هے۔ ليكن جو شخص وقتي محرك كے تحت خلافِ ايمان فعل كرے اور پھر سچے دل كے ساتھ توبه كرلے، وه گويا وقتي طورپر اپنے ايمان سے جدا هوا تھا اور پھر دوباره اس كي طرف لوٹ آيا۔
54
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: منافق كي نشانياں تين هيں— اس پر مسلم كي روايت ميں اضافه هے : اگرچه وه روزه ركھے اور نماز پڑھے اور گمان كرے كه وه مومن هے— اس كے بعد دونوں روايت كے الفاظ يه هيں: يه كه وه بات كرے تو وه جھوٹ بولے۔ اور جب وه وعده كرے تووه اس كي خلاف ورزي كرے۔ اورجب اس كو امانت سونپي جائے تو وه خيانت كرے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر33؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر59)۔
جو آدمي زبان سے ايمان كا اقرار كرے مگر ايمان اس كے دل ودماغ كي گهرائيوں ميں اترا هوا نه هو تو يهي وه انسان هے جو منافقت كي روش اختيار كرتاهے۔ وه اپني زندگي كے معاملات كو اصول كي بنياد پر قائم كرنے كے بجائے دنيوي مصلحتوں كي بنياد پر چلانے لگتا هے۔
55
عبد الله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: چار چيزیں جن كے اندر هوں، وه خالص منافق هے۔ اور جس كے اندر ان ميں سےكوئي ايك خصلت هو تو اس كےاندر نفاق كي ايك صفت هوگي۔ يهاں تك كه وه اس كو چھوڑ دے: جب اس كو امانت دي جائے تو اس ميں وه خيانت كرے۔ اور جب وه بات كرے تووه جھوٹ بولے اور جب وه وعده كرےتو اس كي وه خلاف ورزي كرے اور جب وه جھگڑا كرے تو وه گالي دينے لگے(متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر 34؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر59)۔
منافق آدمي اگر چه بظاهر ايمان كا دعوی کرتا هے مگر وه ايمان كو اپني زندگي میں ایک اصول كي حيثيت سے اختيار نهيں كرتا۔ اس كي اس بےاصولي اور بے حسي كا نتيجه يه هوتا هے كه جب اس كو كوئي معامله پيش آتا هے تو وه فوراً ايسي روش ميں مبتلا هوجاتا هے جو ايمان سے مطابقت نهيں ركھتي۔ حساسيت برائي كے خلاف روك هے۔ جو آدمي ايمان کی حساسيت سے خالي هو وه اپنے دنیوی مفاد کی خاطر کھلے طور پر بےاصولی کا طریقہ اپنائے گا، مگر اس كو اپني غلطي كا احساس تك نه هوگا۔
56
عبدالله ابن عمر رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: منافق كي مثال اس بكري جيسي هے جو دو گلّوں (herds)كے درميان حيران پھر رهي هو، كبھي اِس طرف جاتي هو اور كبھي اُس طرف (صحیح مسلم، حدیث نمبر17)۔
منافق انسان اپنے مزاج كي بنا پر كسي مستقل اصول كا پابند نهيں هوتا۔ وه صرف وقتي مفاد كا پابند هوتا هے۔ يهي وجه هے كه اس كي وفاداري هميشه بدلتي رهتي هے۔ مادي مفاد كي بنياد پر وه كبھي ايك طرف ہو جاتاهے اور كبھي دوسري طرف۔
57
صفوان بن عسال رضي الله عنه كهتے هيں كه ايك يهودي نے اپنے ايك ساتھي سےكها كه آؤ هم اس نبي كے پاس چليں۔اس كے ساتھي نے اس سےكها: تم ان كو نبي مت كهو۔ اس لیے كه اگر انھوں نے تم سے يه سن ليا تو ان كي آنكھيں چار هوجائيں گي۔پھروه دونوں رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس آئے۔ پھر ان دونوں نے نو واضح نشانیوںکے بارے ميں آپ سے پوچھا۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تم الله كے ساتھ كسي چيز كو شريك نه كرو۔ اور تم چوري نه كرو اور تم زنا نه كرو۔ اور تم ناحق كسي جان كو قتل نه كرو جس كو خدا نے حرام ٹھهرايا هے،اور تم كسي بے گناه كو حاكم كے پاس نه لے جاؤ تاكه وه اس كوقتل كردے،اور تم جادو نہ كرو۔ اور تم سود نه كھاؤ۔اور تم پاك دامن عورت پر تهمت نه لگاؤ۔اور تم ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر نه بھاگو۔اور تم يهود پر يه خاص حكم هے كه تم لوگ سبت كے قانون كي خلاف ورزي نه كرو۔ راوي كهتے هيں كه پھر ان دونوں نے آپ كے دونوں هاتھ ا ور دونوں پاؤں چوم ليے۔ اور كها كه هم يه گواهي ديتے هيں كه آپ نبي هيں۔ آپ نے فرمايا كه پھر تم كو ميري اتباع سے كيا چيز روك رهي هے۔ ان دونوں نے كها كه داؤد عليه السلام نےاپنے رب سے كها كه ان كي اولاد ميں هميشه نبي آتے رهيں۔ اور هم ڈرتے هيں كه اگر هم نے آپ كي اتباع كي تو يهود هم كو قتل كرديں گے(سنن الترمذي،حدیث نمبر2733؛ سنن النسائی، حدیث نمبر 4078 )۔
يهودي عالم نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے توريت كے مخصوص احكام كي بابت دريافت كيا۔ دور پريس سے پهلے تورات كا علم صرف كچھ علما كو هوتا تھا۔ عام لوگ اس سے بے خبر رهتے تھے۔ يهودي عالم كو معلوم تھا كه رسول يا اصحاب رسول كو تورات كا علم نهيں۔ مگر جب آپ نے يهودي عالم كے سوال كا ٹھيك ٹھيك جواب دے ديا تو اس كو يقين هوگيا كه آپ خداكے پيغمبر هيں۔ اس كھلي دليل كے باجود وه دونوں يهودي ايمان نهيں لائے۔ اس كا سبب اپني قوم كا ڈر تھا۔ تاريخ كے هر دور ميں يهي هوا هے كه حق كي وضاحت كے باوجود مادي مصالح كي بنا پر لوگ حق كو قبول كرنے سے باز رهے۔
58
انس بن مالك رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: تين باتيں ايمان كي اصل هيں— اس شخص سے رُك جانا جو يه كهے كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں۔ تم كسي گناه كي بنا پر اس كو كافر نه كهو اور نه تم كسي عمل كي بنياد پر اس كو اسلام سے خارج كرو۔ اور جهادجاري رهے گا، ميري بعثت سے لے كر اس وقت تك جب كه اس امت كا آخري حصه دجال سے جنگ كرے گا۔ اس كو نه ظالم كا ظلم روكے گا اور نه عادل كا عدل۔ اور تقدير كے اوپر ايمان لانا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر2532)۔
الله كے يهاں هر آدمي كا فيصله اس كي نيت كے بنياد پر كيا جائے گا۔ مگر انسان كسي كي داخلي نيت كو نهيں جان سكتا۔ اس لیے انسان كو چاهیے كه وه لوگوں كے ظاهر كي بنياد پر ان كے ساتھ معامله كرے۔ وه ان كے باطن کی بنیاد پر كوئي حكم نه لگائے۔
جہادسے مراد جہاد بالقرآن ہے، یعنی پرامن دعوتی عمل۔عادل حاکم کا زمانہ ہو تب بھی جہاد کا عمل جاری رہے گا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد مسلح جہاد نہیں ہوسکتا، کیوں کہ عادل حاکم کے خلاف مسلح جہاد ایک فساد کا عمل ہوگا، نہ کہ جہاد کا۔پرامن دعوتی عمل ایک ایسا کام ہے، جس کا تعلق ظالم حکمراں یا عادل حکمراں سے نہیں ہے۔یہ ہر دور میں بلا انقطاع جاری رہنے والا عمل ہے۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنيا جدوجهد كي دنيا هے۔ يهاں اسلامي مقاصد كے لیے فکری جهاد كا عمل هميشه جاري رهتا هے۔ يه عمل دورِ آخر ميں دجال كے ظهور تك جاري رهے گا۔ دجّال سے مراد غالباً كوئي فرد نهيں هے، بلكه ايك عظيم فتنه هے۔ دجال سے قتال کا مطلب غالباً مسلح جنگ نهيں هے بلكه فتنهٔ دجال كے خاتمہ کے لیے متواتر فكري جدوجهد هے۔
اسلام كي ايك بنيادي تعليم تقدير هے۔ تقدير كے عقيده كا مطلب انسان كي مجبوري كو بتانا نهيں هے، بلكه خدا كي قدرت كامله كو بتانا هے۔ خدانے اپني قدرت كامله كے تحت آزمائش كي مصلحت كي بنا پر انسان كو آزادي عطا فرمائي هے۔ آزادي كا يه ماحول قيامت تك باقي رهے گا۔
59
ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: جب بنده زنا كرتا هے تو اس وقت ايمان اس سے نكل جاتا هے ۔ وه اس كے سر كے اوپر سائبان كي طرح رهتاهے۔ پھر جب وه اس بُرے عمل سے باهر آتا هے تو اس كا ايمان اس كي طرف واپس آجاتا هے (سنن الترمذي ، حدیث نمبر 2625 ؛سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4690)۔
زنا ايك بداخلاقی کا عمل هے اور ايمان ايك پاکیزہ حقیقت۔ دونوں ايك دوسرے كے ساتھ جمع نهيں هوسكتے۔ يهي وجه هے كه زنا كے وقت زاني كا ايمان اس سے جدا هوجاتا هے۔ تاهم اگر اس كے زنا كي حيثيت ايك وقتي فعل كي هو اور اس كے بعد وه حقيقي معنوں ميں ندامت كا ثبوت دے تو اس كا ايمان الله كي رحمت سے دوباره اسے حاصل هوجائے گا۔
60
معاذ بن جبل رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے مجھے دس باتوں كي نصيحت فرمائي۔ آپ نے فرمايا كه الله كے ساتھ كسي چيز كو شريك نه ٹھهراؤ، اگر چه تم كو قتل كرديا جائے اور تم كو جلا ديا جائے۔ اور تم اپنے والدين كي نافرماني نه كرو، اگرچه وه تم كو حكم ديں كه تم اپنے اهل كو اور اپنے مال كو چھوڑ دو۔ اور تم هر گز جان بوجھ كر فرض نمازوں كو نه چھوڑو۔ كيوں كه جس نے جان بوجھ كر فرض نماز كو چھوڑا تو الله كا ذمه اس سے جاتا رهتا هے۔ اور تم هر گز شراب نه پيو كيوں كه وه هر برائي كي جڑ هے۔ اور تم الله كي نافرماني سے پوري طرح بچو۔ كيوں كه نافرماني سے الله كا غضب نازل هوتا هے۔ اور تم هرگز ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر نه بھاگو، اگرچه لوگ هلاك هوجائيں اور اگر لوگوں پر موت (وبا) آجائے اور تم ان ميں موجود هو تو تم اپني جگه ٹھهرے رهو۔ اور اپنے گھر والوں پر اپني استطاعت كے مطابق خرچ كرو اور تاديب كا عصا ان كے اوپر سے نه هٹاؤ۔ اور الله كے معامله ميں انھيں ڈراتے رهو (مسنداحمد، حدیث نمبر 22075)۔
اس حديث ميں وه ذمه دارياں بتائي گئي هيں جو ايك مومن پر انفرادي حيثيت سے عايد هوتي هيں۔ ان ميں سے بعض احكام كا تعلق روزانه كي زندگي سے هے، مثلاً شرك سے پرهيز اور نماز كا اهتمام۔ اور بعض احكام كا تعلق حالات كي نسبت سے هے۔ يعني وه اس وقت مطلوب هيں جب كه عملي طور پر ان كے مطابق صورتِ حال پيش آجائے۔ مثلاً مقابله کے ميدان سے كسي بھي حال ميں نه هٹنا۔
’’تاديب كا عصا نه هٹاؤ‘‘ كا مطلب مارنا پيٹنا نهيں هے،اس سےمراد اصلاً وه اخلاقي دباؤ هے جو گھر كے اندر نظم برقرار رکھنے كے لیے ضروري هوتاهے، تاکہ گھر میں انارکی کا ماحول قائم نہ ہو۔
61
حذيفه بن اليمان رضي الله عنه كهتے هيں كه نفاق رسول الله صلى الله عليه وسلم كے زمانے ميں تھا۔ اب آج يا تو كفر هے يا ايمان (صحیح البخاري، حدیث نمبر7114)۔
اس روايت ميں نفاق يا منافقت سے مراد وه كردار هے جو شبه كي نفسيات ميں مبتلا هو۔ اور اس بنا پر وه مخلصانه ايمان كے درجه تك نه پهنچ سكے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم كےزمانے ميں اسلام اپنے ابتدائي دو رميں تھا۔ نظريه وعمل كے اعتبار سے وه اس طرح مستحكم نهيں هوا تھا جس طرح وه آپ كے برپا كرده انقلاب كے بعد هوا۔ اس لیے ابتدائي دور ميں كمزور افراد كے لیے اس شبه كي گنجائش هوسكتي تھي كه يه واقعي صداقت هے يا نهيں۔ مگر بعد كےزمانے ميں جب اسلام نظري اور عملي دونوں اعتبار سے قائم اور مستحكم هوگيا تو اس كے بعد يه گنجائش نه رهي كه كوئي شخص اس كي صداقت كے بارےميں شبه كرسكے۔ اب انسان كے لیے شبه كا امكان ختم هوگيا۔ اب اس كے لیے صرف دو ميں سے ايك كا انتخاب باقي رها — پوري طرح انكار يا پوري طرح اقرار۔
اس روايت ميں منافق كا قانونی حكم نهيں بتايا گيا هے۔ بلكه اس كي وه حيثيت بتائي گئي هے جو اس كي الله كے نزديك هے۔ اس روايت كامقصد صرف يه هے كه اسلام كے ابتدائي دور ميں كسي شخص كو شبه كا فائده (benefit of doubt)مل سكتاتھا۔ مگر جب اسلام هر اعتبار سے ايك واضح اور ثابت شده حقيقت بن گيا تو اب الله كے يهاں كسي كو شبه كي رعايت نهيں ملے گي۔ اب اگر كوئي شخص اسلام كي صداقت پر شبه كرے تو وه الله كے نزديك ايك ايسا انسان قرار پائے گاجس نے تمام دلائل وحقائق سامنے آنے كے باوجود خداکے دين كے ساتھ مخلصانه تعلق قائم نهيں كيا۔
62
ابو هريره رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: الله نے ميري امت سے ان وسوسوں كو معاف كرديا هے جو ان كے دلوں ميں گزريں۔ جب تك وه اس پر عمل نه كرے يا اس كو زبان پر نه لائے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر2528؛ صحیح مسلم،حدیث نمبر127)۔
اس حديث كا مطلب يه نهيں هے كه امت محمدي پر وسوسوں كي پكڑ نهيں هے، جب كه اس سے پهلے كي امتوں كا معامله ايسا نه تھا۔ حقيقت يه هے كه وسوسه پر پكڑ نه هونا بلكه عمل پر پكڑ هونا، يه الله كا عام قانون هے۔ اس كا تعلق هر دوركے تمام انسانوں سے هے۔ حديث كے مذكوره الفاظ كي نوعيت اسلوب كلام كي هے جو مخاطب كي نسبت سے اختيار كيا گياہے۔ اس ميں يه بات اپنے آپ مفهوم (understood) هے كه جس طرح پچھلي امتوں كے لیے وسوسه پر پكڑ نهيں تھي اسي طرح ميري امت كے لیے بھي وسوسه پر پكڑ نهيں۔
63
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه صحابه ميں سے كچھ لوگ رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس آئے۔ انھوں نے پوچھا كه هم اپنے دلوں ميں ايسي بات پاتے هيں جس كو زبان پر لانا هميں بهت زياده سنگين معلوم هوتا هے۔ آپ نے فرمايا كه كيا تم ايسا پاتے هو۔انھوں نے كها كه هاں۔ آپ نے فرمايا كه يه تو كھلا هوا ايمان هے (صحیح مسلم، حدیث نمبر132)۔
ايمان ، نفساني وسوسوں كے ساتھ ايك مسلسل جنگ هے۔مومن وه هے جو وسوسوں كو دبائے، نه كه خود اس سے دب جائے۔ نفساني وسوسوں كو اس حد تك برا سمجھناكه ان كو زبان پر لانا بھي آدمي كو گواره نه هو، يه خود ايمان كي ايك يقيني حالت هے۔
64
ابو هريره رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: شيطان تم ميں سے كسي شخص كے پاس آتا هے، اور(اس کےذہن میں) یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چيز كو كس نے پيداكيا، فلاں چيز كو كس نے پيدا كيا۔ يهاں تك كه وه كهتا هے كه تمهارے رب كو كس نے پيدا كيا۔ جب ايسا هو تو آدمي كو چاهیے كه وه الله سے پناه مانگےاور اس سے رك جائے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر3276؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر134)۔
يه بھي علم هے كه آدمي علم كي حد كو جانے۔ یعنی وه اس حقیقت کو جانے كه ميں كيا جان سكتاهوں، اور وه كيا چيز هے جس كو اپني محدوديت كي بنا پر ميں نهيں جان سكتا۔مثلاً آدمي يه جان سكتا هے كه درخت بيج سے نكلا اور پاني دو گيسوں كے ملنے سے بنا۔ مگر خود بيج اور گيس كي ابتداكيسے هوئي، اس كو جاننا انسان كے لیے ممكن نهيں۔ انسانی تاریخ اپنی تمام تر علمی دریافتوں کے باوجود جہاں تک پہنچی ہے یا پہنچ سکتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر صرف جزئی علم دے سکے۔ ماڈرن سائنس کے حوالے سےاِس واقعہ کو جے این سلیون (J. W. N. Sullivan) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے — سائنس سے انسان کوحقیقت کا صرف جزئی علم حاصل ہوتا ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality. (Limitations of Science, London, 1983, p. 182)
يه ايك حقيقت هے كه علم كلي تك پهنچنے كي راه ميں انسان كي ذاتي محدوديت فيصله كن طور پر حائل هے۔ اپني اسي محدوديت كي بنا پر انسان خدا كے تخليقي مظاهر كو تو جان سكتا هے مگر خدا كے وجود كي وسعتوں كا احاطه كرنا انسان كے لیے هر گز ممكن نهيں۔
65
ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: لوگ ايك دوسرے سے سوال كرتے رهيں گے يهاں تك كه يه كها جائے گا كه يه مخلوق هے جس كو خدا نے پيدا كيا۔ پھر خدا كو كس نے پيدا كيا۔ پس جو شخص اپنے دل ميں اس قسم كا كوئي خيال پائے تو وه كهے كه ميں ايمان لايا الله پر اور اس كے رسولوں پر (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر7296؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر134)۔
انساني غور وفكر كا ايك معلوم دائره هے اور دوسرا اس كا نامعلوم دائره۔ دانش مند وه هے جو اپنے معلوم دائرے ميں تو وہ كلي علم تك پهنچنے كي پوري كوشش كرے۔ مگر اس كا نامعلوم دائره آجائے تو وه جزئي علم پر راضي هوجائے۔ معلوم دائرے ميں براهِ راست علم تك پهنچنے كي كوشش كرنا ايك مستحسن فعل هے۔ مگر نامعلوم دائرے كے لیے يه مطلوب هے كه آدمي بالواسطه علم پر قناعت كرے۔ يهي اس دنيا ميں عملي نقطهٔ نظر هے، اور يهي وه نقطهٔ نظر هے جس كو موجوده زمانے ميں سائنٹفك نقطهٔ نظر كهاجاتا هے۔
66
عبد الله ابن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تم ميں سے هر شخص كے اوپر اس كا ايك ساتھي مقرر كرديا جاتا هے جنات ميں سے، اور فرشتوں ميں سے۔ لوگوں نے كها كه اے خدا كے رسول، كيا آپ كے ساتھ بھي۔ آپ نے فرمايا كه هاں ميرے ساتھ بھي۔ ليكن خدا نے مجھے اس كے اوپر مدد دي ۔ تو اس نے اسلام قبول كرليا، پس وه مجھ كو هميشه بھلائي كا مشوره ديتا هے (صحیح مسلم، حدیث نمبر69)۔
اس حقيقت كو قرآن ميں نفس اماره(12:53) اور نفس لوّامه (75:2)كے الفاظ ميں بيان كيا گيا هے۔ هر آدمي كے اندر بيك وقت دو مختلف قوتيں موجود هيں۔ ايك نفساني قوت، جو هر موقع پر آدمي كےاندر منفي نفسيات جگاتي هے اور اس كو برے كام پر ابھارتي هے۔ اسي كے ساتھ هر آدمي كے اندر ضمير كي طاقت هے جو هر موقع پر اس كے اندر مثبت احساسات جگاتي هے۔ آدمي اگر ايسا كرے كه جب اس كے اندر نفساني محركات جاگيں تو وه اپني سوچ كو بھي اسي کے مطابق چلانے لگے ايسي حالت ميں دھيرے دھيرے اس كا ذهن اس کےنفس كے تابع هوجائے گا۔ اس كے برعكس، اگر وه ضمير كي آواز پر دھيان دے اور اپنے ذهن كو اس كے تابع بنائے تو اس كا ضمير اس كا رهنما بن جائے گا جو هر موقع پر اس كو خير كا مشوره دے۔
67
انس بن مالك رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: شيطان آدمي كے اندر اس طرح دوڑتا هے جيسے خون اس كے اندر دوڑتا هے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر3281؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر23)۔
اس حديث ميں خون كي مثال سے بتايا گيا هے كه شيطان كسي آدمي كے اندر كس طرح تيزي كے ساتھ اپنا عمل كرتا هے۔ يه معامله خدا نے انسان كے امتحان كے لیے كيا هے۔ انسان كو شيطان كے ساتھ مسلسل فكري مقابله كرنا هے۔ اسي فكري مقابله كے دوران يه ثابت هوتاهے كه كون شخص اس دنياميں حق پر قائم رها اور كون حق كے راستے سے هٹ گيا۔
68
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: بنی آدم كے يهاں جب بھي كوئي بچه هوتا هے شيطان اس كو ضرور چھوتا هے۔ شيطان كےاسي چھونے كي وجه سے پيدائش كے وقت بچه چيختا هے، سوا مريم اوران كے فرزند كے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر3431؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر146)۔
اس حديث ميں ايك فطري حقيقت كو تمثيل كي زبان ميں بيان كيا گيا هے۔ اس كا مطلب يه هے كه انسان پيدا هوتے هي شيطان كي زدميں آجاتا هے اور پھر اپني ساري عمر وه اس كے زير اثر رهتا هے۔ اس معاملے ميں آدمي كو اتنا زياده چوكنا رهنا چاهیے كه پيدائش كے وقت اگر وه بچه كے چيخنے كي آواز سنے تو اس كو ياد آئے كه اس دنيا ميں انسان كو شيطان سے بچنے كے لیے كتنا زياده اهتمام كرنا هے۔
69
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: پيدائش كے وقت بچے كي چيخ شيطان كي چھيڑ سے هوتي هے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2367)۔
يه حديث تمثيل كي زبان (symbolic language)ميں هے۔اس حديث كا رُخ بچے سے زياده بڑوں كي طرف هے۔ اس كا مقصد يه هے كه پيدائش كے وقت جب آدمي بچے كي چيخ كو سنے تووه شيطان كے معامله كو ياد كرے اور شيطان سے بچاؤ كے لیے مزيد شدت كے ساتھ سرگرم هوجائے۔
70
جابر بن عبد الله رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ابليس اپنا تخت پاني كے اوپر ركھتا هے۔پھر وه اپنے دستوں كو بھيجتا هے تاكه وه لوگوں كو فتنوں ميں مبتلا كريں۔ پھر درجه كے اعتبار سے شيطان كا سب سے زياده مقرب وه هوتا هے جس نے سب سے زياده بڑا فتنه برپا كيا هو۔ ان ميں سے ايك واپس آتا هے اور شيطان سے كهتا هے كه ميں نے ايسا كيا، ميں نے ايسا كيا۔ تو شيطان كهتا هے كه تم نے كچھ نهيں كيا۔ آپ نے فرمايا كه پھر ان ميں سے ايك آتا هے اور كهتا هے كه ميں نے فلاں شخص كو نهيں چھوڑا جب تك كه ميں نے اس كے اور اس كي بيوي كے درميان جدائي ڈال دي۔ آپ نے فرمايا كه شیطان اس كو اپنے قريب كرتاهے۔ پھر وه اس سے كهتا هے كه هاں، تم ۔اعمش(راوی) كهتے هيں كه ميرا خيال هے كه روایت کرنے والے نے يه كها تھا كه "وه اس كو اپنے سے چمٹا ليتا هے" (صحیح مسلم، حدیث نمبر67)۔
يه حديث بھي غالباً تمثيل كي زبان ميں هے۔ يه ايك اسلوب كلام هے جس كے ذريعے آدمي كو شيطاني فتنوں سے متنبه كياگيا هے۔ جو شخص دو فرد يا دو گروه كے درميان تفريق ڈالے وه گويا شيطان كا كام كررها هے۔ اور جو لوگ تفريق ميں مبتلا هوں، انھيں جاننا چاہیے كه وه شيطان كي سب سے زياده تباه كن سازش كا شكار هوگئے۔
ڈائری 1986
17فروری 1986
اجودھیا میں32ہزار ہندوآبادی ہے اور مسلمان تقریباً ساڑھے سات ہزار ہیں۔یہ مندروں کا شہر ہے۔چنانچہ یہاں4932 مندر پائے جاتے ہیں۔یہاں ایک قدیم مسجد ہے جو مسلمانوں کے درمیان بابری مسجد کے نام سے مشہور ہے۔تاہم ہندوؤں کا کہنا ہے کہ یہ ’’رام جنم بھومی ‘‘ ہے۔
یہ عمارت انگریزی دور سے متنازعہ رہی ہے۔1949ء میں ایک فساد ہوا اور اس کے بعد بابری مسجد بند کر دی گئی۔اس کے بعد مقدمہ چلتا رہا اور اب بھی اس کا کیس عدالت میں موجود ہے۔ تاہم تالابندی کے 37 سال بعد جنوری 1986ءمیںڈسٹرکٹ جج کے ایم پانڈے کے ایک فیصلے کے تحت اس کا تالاتوڑ دیا گیا اور یہ عمارت ہندوؤں کے حوالے کر دی گئی۔(مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے 9 نومبر 2019ء کو انڈین سپریم کورٹ نے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیا، اس طرح اب یہ مسئلہ عملاً ختم ہو چکا ہے)۔
ہندوؤں کی طرف سے مقدمہ مسٹر امیش چند پانڈے نے لڑا جو ایک غیر معروف وکیل تھے۔ مگر اس کامیابی نے انھیں اچانک غیر معمولی شہرت دے دی۔ ہندوستان ٹائمس (16فروری1986ء) نے اس موضوع پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے۔تبصرہ نگار مذکورہ وکیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
......and virtually overnight this quite obscure advocate made headlines and became the darling of Ayodhya's hindu majority.
بابری مسجد کی اہمیت یہ تھی کہ وہ دو حریف قوموں کے لیے پرسٹیج اشو بن گئی۔اس قسم کی چیزوں میں جو لوگ حصہ لیتے ہیں وہ خواہ کامیاب ہوں یا ناکام ،ہر حال میں اچانک شہرت حاصل کر لیتے ہیں۔ان چیزوں میں حصہ لینے کا محرک شخصی ترقی ہوتی ہے، نہ کہ قومی ترقی۔
18فروری 1986
کلیم اللہ خاں ایم ایس سی(سری نگر) اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ملنے کے لیے آئے۔انہوں نے بتایا کہ جمعہ(14فروری1986) کی نماز انہوں نے چاندنی چوک کی سنہری مسجد میں پڑھی۔یہ بابری مسجد کے سلسلے میں احتجاج کا دن تھا۔مسجد میں ایک صاحب تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے نہایت پرجوش انداز میں کہا کہ ہماری مسجدوں پر قبضہ کیا جا رہاہے۔اس وقت مسلمانوں کوسر بکف ہو کر نکل پڑناچاہیے،مگر مجھے تعجب ہے کہ مسلمان بے حس بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مسجد کے نمازیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ ’’یوم احتجاج‘‘ کی رعایت سے آج آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنے ہاتھوں پر کالی پٹی باندھ لیں۔اتنے سارے مسلمان یہاں جمع ہیں مگر کوئی کالی پٹی باندھے ہوئے نظر نہیں آتا۔آپ لوگوں کی غیرت آخر کہاں چلی گئی۔
کلیم اللہ صاحب نے کہا کہ موصوف کی پرجوش تقریر کے بعد میں نے یہ جاننا چاہا کہ مقرر صاحب نے خود کالی پٹی باندھی ہے یا نہیں۔میں نے بہت غور سے دیکھا،مگر ان کے ہاتھ پر یا جسم پر کہیں کالی پٹی نظر نہیں آئی۔
کلیم اللہ صاحب نے اپنے پاس بیٹھے ایک صاحب سے کہا کہ مقرر صاحب کے ہاتھ پر کالی پٹی تلاش کر رہا ہوں مگرکہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔اس آدمی نے جواب دیا کہ وہ کالی پٹی کیا باندھیں گے وہ ہندوؤں کے خلاف تقریر کر رہے ہیں کہ انہوں نے بابری مسجد پر قبضہ کر لیا ہے اور خود یہ حال ہے کہ اسی سنہری مسجد کے ایک حصہ پر وہ قبضہ کیے ہوئے ہیں اور کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
موجودہ زمانہ میں اکثر مسلم لیڈروں کا یہی حال ہے۔وہ جھوٹی تقریریں کرنے میں مشغول ہیں۔وہ دوسروں سے ایسا مطالبہ کررہے ہیں جس پر وہ خود عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طرف لیڈری کی دھوم مچی ہوئی ہے مگر کہیں بھی کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا۔
19فروری 1986
الرسالہ کے ایک قاری نے کہا کہ الرسالہ میں اسلامی مرکز کاجو خبرنامہ ہوتاہے وہ میرے نزدیک اسلامی مرکز کا تعریف نامہ ہے۔یہ اپنی تعریف آپ(self-praise)کے ہم معنیٰ ہے۔ میں نے کہا کہ خبرنامہ میں جو باتیں درج ہوتی ہیں ان کو آپ حقیقی واقعہ سمجھتے ہیں یا فرضی خبر؟ انہوں نے کہا کہ میں ان کوحقیقی واقعہ سمجھتا ہوں۔میں نے کہا کہ جب یہ باتیں حقیقی واقعہ ہیں تو پھر ان کے ذکر کرنے پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟
پھر میں نے کہا کہ آپ کی تنقید کی وجہ وہ نہیں ہے جو آپ اپنے لفظوں میں ظاہر کر رہے ہیں۔ آپ اس کو ایک اصولی تنقید سمجھ رہے ہیں۔مگر یہ صرف ایک غیر ذمہ دارانہ اظہار رائے ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کو ’’اسلامی مرکز‘‘ کے ساتھ مشن والی وابستگی نہیں۔آپ الرسالہ کے قاری ہیں، مگرآپ الرسالہ کی تحریک کے ہمدرد نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ اس طرح کی باتیں فرما رہے ہیں۔اگر آپ کو اس مشن سے فی الواقع قلبی لگاؤ ہوتا تو آپ خبرنامہ کو ’’رفتار کار‘‘( الرسالہ مشن کی سرگرمیوں) کے معنیٰ میں لیتے ،اور پھر جب آپ اس کو پڑھتے تو آپ کو یہ معلوم کرکے خوشی ہوتی کہ اس مشن کا دائرہ پھیل رہا ہے۔اور وہ لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔مگر چونکہ آپ کو اس سے کوئی تحریکی دلچسپی نہیں، اس لیے آپ اس کو رفتار کار کے انداز میں نہ دیکھ سکے۔آپ نے اس کو صرف تعریف کے انداز میں دیکھا۔یہی وجہ ہے کہ جو چیز محض حقیقتِ واقعہ کا اظہار تھی وہ آپ کو غیر ضروری طور پر قابل اعتراض دکھائی دینے لگی۔یہی حال تمام معاملات کا ہے۔اکثر غلط فہمیاں یا اعتراض محض زاویۂ نظر کے فرق کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اگر زاویۂ نظر بدل جائے تو آدمی کی رائے بھی یقینی طور پر دوسری ہو جائے گی۔
20فروری 1986
آج کی ڈاک سے ایک کتاب موصول ہوئی۔اس کا نام ہے:
’’التربیۃ فی الیابان المعاصرۃ ‘‘(مترجم: محمد عبد العليم موسى،1985، صفحات 68)
یہ ایڈورڈ ،ر، بوشامب کی ایک کتاب کا عربی ترجمہ ہے جس کا اصل نام یہ ہے:
Education in Contemporary Japan
اس کتاب کاعربی ترجمہ ریاض(سعودی عرب) کے ایک ادارہ نے شائع کیا ہے۔
کتاب میںبتایا گیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے موقع پر جاپانیوں میں زبردست فوجی ذہن پایا جاتا تھا۔وہ اپنے قومی مسائل کا حل فوجی کارروائیوں میں سمجھتے تھے۔مگر جب امریکہ نے جاپان کے اوپر دو ایٹم بم گرائے اور جاپان کی طاقت بالکل تہس نہس ہو گئی تو اچانک جاپانیوں نے اپنی سوچ کو بدل لیا۔پوری قوم اس بدلے ہوئے رخ پر چل پڑی جس کو اس کے مفکرین نے الاتجاہ المعاکس (reverse course) کا نام دیا ہے۔یعنی متشددانہ طریقہ کو چھوڑ کر پر امن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔
یہی موجودہ دنیا میں ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔فرد ہو یا قوم ہر ایک کی زندگی میںباربار ایسے لمحات آتے ہیں کہ اس کا سابقہ طریقہ بدلے ہوئے حالات کے اعتبار سے بے فائدہ ہو جاتا ہے۔یہ لمحہ کسی شخص یا قوم کے لیے سب سے زیادہ نازک امتحان ہوتا ہے۔مردہ لوگ اپنے سابقہ طریقے پر باقی رہتے ہیں،یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔اور جو زندہ لوگ ہیںوہ فوراً اپنا راستہ تبدیل کر دیتے ہیں۔وہ نئے راستے سے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں وہ پچھلے راستے سے پہنچنے میںکامیاب نہیں ہوئے۔
21فروری 1986
پچھلے جمعہ(14فروری1986) کو ایک مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ایک صاحب نے جمعہ سے پہلےنہایت پرجوش تقریر کی اورجمعہ میں قنوت نازلہ بھی پڑھی گئی ۔مقررنے گرجدار آواز میں کہا تھا کہ بابری مسجد(اجودھیا) کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ہم کسی حال میں بھی اس کو برداشت نہیں کر سکتے۔خواہ ہماری گردنیں کاٹی جائیں یا ہمارے جسموں پر ٹینک چلا دیے جائیں،وغیرہ وغیرہ۔
مگر پچھلے جمعہ کو بھی اس پرجوش تقریر کے بعد اور کچھ نہ ہو سکا۔مقرر نے اعلان کیا تھا کہ تمام نمازی نماز کے بعد مسجد کے باہر میدان میں جمع ہو جائیں اور جلوس کی شکل میں بوٹ کلب چلیں۔نماز کے بعد مقرر صاحب کو قریب کے تھانہ میں بلایا گیا اور تھانے دار نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ بوٹ کلب کے علاقہ میں دفعہ144 لگی ہوئی ہے۔پھر آپ کیسے وہاں جلوس لے جائیں گے؟آپ صرف یہ کر سکتے ہیں کہ چند آدمی اپنا مطالبہ لکھ کر لے جائیں اور وہاں پولس افسر کو دے دیں۔اس کے بعد مقرر صاحب کی ہدایت پرتمام نمازی منتشر ہو گئے اور مطالبہ اس لیے پیش نہ کیا جا سکا کہ وہ سارے جوش وخروش کے باوجود تحریری طور پر مرتب ہی نہیں کیا گیا تھا۔
آج کے جمعہ میںبھی نمازیوں کی تعداد معمول سے زیادہ تھی۔تاہم نہ مجاہد نوجوانوں کے ہاتھ پر کالی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور نہ کوئی پرجوش تقریر ہوئی۔سابق مقرر نے دوبارہ اعلان کیا کہ آپ لوگ نماز سے فارغ ہونے کے بعد خاموشی سے اپنے اپنے گھروں کوچلے جائیں اور بس اللہ سے دعا کرتے رہیں۔آج پچھلے جمعہ کے برعکس قنوت نازلہ بھی نہیں پڑھی گئی۔
یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی عام حالت ہے۔وہ پرجوش تقریریں کرتے ہیں،جب کہ عمل کا کوئی واقعی منصوبہ ان کے ذہن میں نہیں ہوتا۔وہ بڑے بڑے اقدام کی باتیں کرتے ہیں،جب کہ وہ اپنے مدعا کو ایسے انداز میں قلم بند کیے ہوئے نہیں ہوتے جس کو وہ کسی ذمہ دار کے سامنے پیش کر سکیں۔ اسی قسم کی روش کی طرف صحابی رسول ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: سَيَأْتِي مِنْ بَعْدِكُمْ زَمَانٌ قَلِيلٌ فُقَهَاؤُهُ كَثِيرٌ خُطَبَاؤُهُ (الادب المفردللبخاری، حدیث نمبر 789)۔ یعنی، عنقریب تمھارے بعد وہ زمانہ آئے گا، جب کہ سمجھ بوجھ رکھنے والے کم ہوں گے اور تقریر کرنے والے زیادہ۔
22فروری 1986
ایک سخت تجربہ گزرا۔اس کے بعد میری زبان پر یہ الفاظ تھے— اس دنیا میں کبھی اپنے جائز حق سے دست بردار ہونا پڑتا ہے تاکہ اپنا حق زیادہ طاقت کے ساتھ ثابت کیا جا سکے۔اس دنیا میں کبھی برائی کے آگے جھکنا پڑتا ہے تاکہ برائی کو ختم کرنے کے لیے راہ کھولی جا سکے۔
یہ دنیا صبر کا امتحان ہے۔اس دنیا میں آدمی کو مستقبل کی خاطر ماضی اور حال کو بھولنا پڑتا ہے۔یہاں آدمی کو چھوڑنا پڑتا ہے تاکہ وہ دوبارہ پانے والا بن سکے۔یہاں رکنا پڑتا ہے تاکہ ازسرنو آگے بڑھنے کا راستہ کھلے۔یہاں چپ ہونا پڑتا ہے تاکہ آدمی کو بولنے کے لیے الفاظ مل سکیں۔یہ دنیا کھو کر پانے کی جگہ ہے۔یہاں اعراض کرکے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔یہاں دینا پڑتا ہے تاکہ دوبارہ اضافہ کے ساتھ وصول کیا جا سکے۔
23فروری 1986
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمس(23فروری 1986) میں’’بھگوان رجنیش‘‘ پر ایک نوٹ چھپا ہے، جس کا عنوان ہے:
A Quiet Departure
رجنیش امریکا سے بھاگ کر ہندوستان آئے۔پھر وہ کاٹھ مانڈو (نیپال)گئے۔اس کے بعد وہ چپکے سے اٹلی کے لیے روانہ ہو گئے۔اخبار نویس نے ان کے شاگردوں سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہمیںاس کی بہت زیادہ فکرنہیں، کیوں کہ’’بھگوان‘‘ ہم کو self realization کا سبق دیتے ہیں۔
We are not followers. The bhagwan has only been helping in to be ourself. In their words, to free us from following anything.
اچاریہ رجنیش کے ایک شاگرد نے کہا— حتیٰ کہ جب بھگوان مر جائیں گےتب بھی ہمیں کسی گرو کی ضرورت نہیں۔کیوں کہ ہم نے ان کو ٹیپ اور ویڈیو ٹیپ پر ریکارڈ کر لیا ہے:
Even when bhagwan is gone, we won't need any priests, for we have him on tapes and the video tapes.
اچاریہ رجنیش کے خیالات سے قطع نظر ان کے شاگرد کا یہ جواب زمانہ کے فرق کو بتاتا ہے۔ قدیم زمانہ کی شخصیتوں میں پیغمبر اسلام کی شخصیت کے سوا ،کسی بھی شخص کا کامل ریکارڈ محفوظ نہیں۔مگر موجودہ زمانہ میں یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کسی آدمی کی آواز اور اس کی شخصیت اس طرح محفوظ کر لی جائے کہ کسی بھی وقت اس کو دہرایا جا سکے۔
25فروری 1986
دوسری جنگ عظیم تک جاپان کے اندر زبردست عسکری مزاج تھا۔مگر دوسری جنگ عظیم (اگست 1945ء) میں جب جاپان کو شکست ہوئی تو وہاں کے مفکرین نے فوراً جاپان کو دوسرا نعرہ دیا، جس کا نام تھا برعکس طریقہ(reverse course)۔یہ برعکس طریقہ اتنا زبردست کامیاب ہوا کہ چالیس برس کے بعد جاپان کی تاریخ بدل گئی۔
میں نے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے سفر میں یہ ایک بے حد فیصلہ کن چیز ہے۔زندگی کے سفر میں کبھی اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے رخ کو بالکل تبدیل کر دیا جائے۔جنگ کرنے والا صلح کر لے۔آگے بڑھنے والا پیچھے ہٹ جائے۔جو اب تک بول رہا تھا وہ خاموشی اختیار کرلے۔مذکورہ مسلمان نے یہ سن کر کہا کہ جاپان نے جو کچھ کیا اس کی مجبوری تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپان اس کے سوا اور کیا کر سکتاتھا جو وہ کرتا۔
مذکورہ مسلمان کے یہ الفاظ گرامر کے لحاظ سے صحیح ہیں۔مگر معنیٰ کے اعتبار سے وہ سراسر غلط ہیں۔موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو ہرمحاذ پر شکست ہوتی ہے۔اس کے باوجود وہ ریورس کورس کی تدبیر نہ اختیار کر سکے۔مسلمان جہاں براہ راست نہیں لڑ سکتے وہاں بالواسطہ لڑ رہے ہیں اور جہاں کسی قسم کی لڑائی ان کے لیے ممکن نہیں ہے ،وہاں لفظی طوفان مچا رہے ہیں۔یہ طریقہ جاپان بھی اختیار کر سکتا تھا،مگر اس نے نہیں کیا۔
26فروری 1986
ڈاکٹر عبدالاحدصاحب(بنگلور) ملنے کے لیے تشریف لائے۔ وہ الرسالہ کے قاری بھی ہیں اور دس پرچہ منگا کرتقسیم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ الرسالہ کے بعض قارئین کا کہنا ہے کہ الرسالہ میںتنقید نہیں رہنا چاہیے۔
میں نے کہا کہ تنقید تو کسی قوم کی زندگی کی علامت ہے۔صحابہ کرام عام طور پر ایک دوسرے کے خلاف سخت تنقید کرتے تھے۔مثلاً حضرت ابن عمر نے ایک بار حضرت ابو ہریرہ کے بارے میں کہا:كَذَبَ أَبُو هُرَيْرَةَ( قبول الاخبار لابی القاسم بلخي، جلد 1، صفحہ 183)۔ یعنی، ابوہریرہ نے جھوٹ کہا۔ اس جملے کو اگر خالص لفظی معنیٰ میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ابو ہریرہ ساقط الروایۃ ہیں۔کیوںکہ جو شخص جھوٹ بولے اس سے روایت نہیں کی جاتی۔مگر یہ صرف شدت کلام ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کے خلاف تنقید کرنے میں کتنے شدید الفاظ استعمال کرتے تھے۔
حدیث میں آیا ہے:اخْتِلافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ(المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر39)۔اس حدیث میں لوگ اختلاف کو انتشار کے معنیٰ میں لے لیتے ہیں۔اس لیے انھیں اس کی تاویل میں سخت مشکل پیش آتی ہے۔حتیٰ کہ کچھ لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سند کے اعتبار سے یہ روایت لینے کے قابل نہیں ہے۔مگر اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔کیوں کہ اس حدیث میں اختلاف کا لفظ انتشار کے معنیٰ میں نہیں ہے۔بلکہ اختلافِ رائے(dissent) کے معنی میں ہے۔اس کا مطلب ہے، ایک رائے کی جگہ دوسری رائے کو دلیل کے ذریعے پیش کرنا ہے، نہ کہ مختلف گروہوں میں بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اختلاف رائے کی فضا کا ہونا کسی قوم کے لیے رحمت ہے۔جس قوم میں اختلاف رائے ہوگا اس کے اندر جمود نہیں ہوگا۔اگر ان کے اندرکوئی غلطی واقع ہوگی تو وہ بذریعہ تنقید اپنی اصلاح کرتی رہے گی۔ کسی غلط روش کا برقرار رہنا اس کے اندر ناممکن ہو جائے گا۔اس کے اندر یہ ذہن ہوگا کہ چیزوں کو ان کے جوہر (merit)کی بنیاد پر اہمیت دی جائے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔موجودہ دور میں سائنس کی ترقی اسی اختلاف کی بنیاد پر ہوئی ہے۔سائنس دانوں کے درمیان اختلاف رائے اگر ممنوع ہوتا تو کبھی سائنس ترقی نہ کرتی۔
27فروری 1986
ڈاک سے رسالہ معارف(فروری1986) ملا۔ اس میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کا ایک خط چھپا ہے۔اس خط میں وہ لکھتے ہیں:
’’گوٹن برگ(فوت1468ھ) کوفن طباعت کاموجد مانا جاتا ہے۔حال میں مجھے پتہ چلا کہ ویانا(آسٹریا) کے کتب خانۂ عام میں ایک ٹکڑا قرآن مجید کا موجود ہے جو گوٹن برگ سے پانچ سو سال قبل سلجوقی دور میں(غالباً مصرمیں) چھپا ہے۔اور یہ تاریخ فرنگی محققوں نے بیان کی ہے۔آسٹریا کو فوراً خط لکھ کر اس کا فوٹو منگایا۔واقعی قابل دید اور قابل ذکر چیز ہے۔ میں اسے اپنے فرانسیسی مقالہ’’تاریخ خط عربی‘‘ میں چھاپ رہا ہوں‘‘(5جنوری1986)۔
اس طرح کی کتنی چیزیں ہوںگی جو مسلم عہد میں پیدا ہوئیں مگر آج ان کا کہیں نشان نہیں ملتا۔
مسلمانوں کو جب عروج حاصل ہوا تو انہوں نے کہیںبھی قوموں کے نشانات کو نہیں مٹایا۔حتیٰ کہ انہوں نے یونان کے طریق علاج کو لیا تو اس کا نام’’یونانی علاج‘‘ رکھا، اس کو اسلامی علاج نہیں کہا۔مگر بعد کے زمانہ میں جب دوسری قوموں کو غلبہ حاصل ہوا تو انہوں نے بے دردی کے ساتھ اسلامی آثار کو مٹایا۔
اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جو لوگ فی الواقع حق کے حامل ہوں ان کے اندر فیاضی کا مزاج ہوتا ہے اور جو لوگ ناحق پر ہوں وہ نسبتاً غیر فیاض ہو جاتے ہیں۔حق پرست کو اس کی ضرورت محسوس نہیں رہتی کہ وہ دوسروں کو مٹا کر عظمت حاصل کرے۔جبکہ غیر حق پرستوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ دوسروں کو منظر سے ہٹائے بغیر انھیں عظمت حاصل نہیں ہو سکتی۔
28فروری 1986
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب (لاہور) فروری 1980 ءمیں دہلی آئے اور ہمارے یہاں ٹھہرے۔ میں نے گفتگو کے دوران کہا کہ ہندوستانی مسلمانوںکے بارے میں اقبال کا اندازہ بہت غلط تھا۔ان کا شعر ہے:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اگر اقبال کا یہ اندازہ صحیح ہوتا تو اب تک اس ’’مٹی‘‘ کو زرخیز ہو جانا چاہیے تھا۔کیوں کہ اقبال اور دوسرے بہت سے اکابر پچھلے سو برس سے اس کو صرف نم ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس پر فیض کی موسلادھار بارش بھی برسا رہے ہیں،اس کے باوجود آج تک وہ زرخیز ثابت نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر اسرار احمد اقبال کے بہت معتقد ہیں۔انہوں نے اقبال کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اقبال نے یہ بھی تو کہا ہے:
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عقیدت مندی حقیقت سے کس قدر بے خبر رہتی ہے، اس کی یہ ایک دلچسپ مثال ہے۔اگر اقبال کے پہلے شعر کو لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ اقبال اپنی قوم کا صحیح اندازہ نہ کر سکے۔اور اگر ان کے دونوں شعر بیک وقت لیے جائیں تو ان کی شخصیت اور زیادہ مجروح ہوتی ہے۔کیوں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال تضاد بیانی کے شکار تھے۔کبھی کچھ کہتے تھے اور کبھی کچھ۔جو کلام اقبال کی تضاد فکری کو ثابت کر رہا تھا وہ عقیدت مند کے نزدیک ان کے مشکل ہونے کا ثبوت بن گیا۔
مگر عقیدت کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔وہ جب مسلم قوم کو زرخیز ثابت کرنا چاہے گا تو وہ اقبال کا پہلا شعر پڑھ دے گا۔ اور جب مسلم قوم کو بے گوہر بتانے کی ضرورت ہوگی تو وہ دوسرا شعر پڑھ دے گا۔حکیم اور مفکر کی تعریف علم کی دنیا میںکچھ اور ہے اور عقیدت مندی کی دنیا میں کچھ اور۔
1مارچ،1986
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے اسلام کا کافی مطالعہ کیا ہے۔میں نے کہا کہ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ اسلام کا خلاصہ کیا ہے تو آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ submission۔میں نے کہا کہ آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔اب اس کی تفصیل بتایئے۔ انہوں نے کہا کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر شعبہ میںsubmission،یہی کامل اسلام ہے۔
میں نے کہا کہ آپ نے شروع میں صحیح جواب دیا،مگر اس کے بعد آپ منحرف ہو گئے۔یہ صحیح ہے کہ اسلام کی اصل submissionہے،مگر اس سے مراد آپ کا اپناsubmission ہے، نہ کہ سیاست اور نظام کا submission۔اسلام کا اصل مخاطب فرد ہے۔فرد کوsubmissive بنانا اصل کام ہے۔مگر آپ کی تشریح نے اسلام کو دین کے بجائے سیاست بنا دیا۔
2مارچ،1986
آج جناب انور علی بیگ(لکھنؤ) ملنے کے لیے آئے۔وہ انجینئر ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ اسلامیات میں آپ نے کیا کیا چیزیں پڑھی ہیں؟۔انہوں نے بتایا کہ وہ مولانا مودودی کا بیشتر لٹریچر پڑھ چکے ہیں۔’’تفہیم القرآن‘‘ کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ مولانا مودودی کی فکر سے متاثر ہیں۔اقبال کی بھی وہ کافی تعریف کر رہے تھے۔اقبال کو انہوں نے اپنا مینٹر(mentor) بتایا۔
گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ آپ کے صبر کی پالیسی سے کچھ نہیں ہو سکتا۔اسلام کے احیاء کے لیے ہمیشہ’’کربلا‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔میں نے کہا کہ کربلا کا رزلٹ(نتیجہ) بتایئے کہ کیا تھا؟اس کے جواب میں وہ لمبی چوڑی تقریر کرتے رہے جو اصل سوال سے غیر متعلق تھی۔میں نے انھیں یاد دلایا کہ میں نے آپ سے کربلا کا رزلٹ دریافت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کربلا کا رزلٹ ہے:پرنسپل (اصول) پر سمجھوتہ نہ کرنا۔میں نے کہا کہ تاریخ سے یہ رزلٹ ثابت نہیں ہوتا۔یہ تو محض شاعری ہے کہ ’’سر داد مگر نداددست در دست یزید‘‘ ۔ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ امام حسین نے آخری لمحہ میں بیعت کی پیشکش کر دی تھی۔چنانچہ تاریخ میں اس قسم کے الفاظ امام حسین کی طرف منسوب کیے گئے — وَإِمَّا أَنْ أَضَعَ يَدِي فِي يَدِ يَزِيدَ( انساب الاشراف للبلَاذُري، جلد 3، صفحہ182)۔ یعنی، میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں رکھ دوں۔
اس کے جواب میں وہ تاریخ کے غیر معتبر ہونے پر تقریر کرنے لگے۔میں نے کہا کہ کربلا کے نہ آپ عینی شاہد ہیں اور نہ اقبال۔ایسی حالت میں ہم کو تاریخ ہی پر تو بھروسہ کرناپڑے گا۔میرا تجربہ یہ ہے کہ بیشتر لوگوں کی بات میںconsistency نہیں ہوتی۔وہ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ۔جب کہ علمی گفتگو اس کا نام ہے کہ آدمی اصل پوائنٹ پر قائم رہ کر بولے،وہ اس سے اِدھر اُدھر نہ ہٹے۔
3مارچ،1986
جناب محمد مخدوم صاحب(کشن گنج، دہلی) ملنے کے لیے آئے۔انھوں نےتبلیغی جماعت میں چلہ دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مولانا محمد الیاس صاحب کہا کرتے تھے:
نیچی نظر،دل میں فکر،زبان پر ذکراور قدم ملا کر چلو گے تو منزلیں آسان ہو جائیں گی۔
یہ بہت مومنانہ بات ہے۔ایمان اللہ کی عظمتوں کے احساس کا نام ہے۔جو شخص اللہ کی عظمتوں کے احساس سے بوجھل ہو رہا ہو، اس کی نگاہ جھک جائے گی۔اس کا دل سوچ میں ڈوب جائے گا۔اس کی زبان اللہ کو پکارے گی اور اللہ کو یاد کرنے لگے گی۔
جن لوگوں کے اندر یہ گہرے اوصاف پیدا ہو جائیں وہ اس کے بعد لازمی طور پر متحد ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں سے انانیت اور سرکشی کاجذبہ چھن جاتا ہے۔اور جو لوگ انانیت اور سرکشی سےخالی ہو جائیں ان کے باہمی اتحاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔جو لوگ اس قسم کے ایمان ویقین سے سرشار ہوں اور پھر وہ باہم مل کر متحد ہو جائیں ، ان کےلیے ہر منزل آسان ہے۔کوئی طاقت ان کو زیر نہیں کرسکتی،کوئی مشکل ان کو کامیابی تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔
4مارچ،1986
افضال احمد ایم اے(اٹاوہ) ملاقات کے لیے تشریف لائے۔وہ اٹاوہ میں بزنس کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ وہ مقامی بک سیلر کے یہا ں سے الرسالہ خرید کر پڑھتے ہیں اور 1978 سے پڑھ رہے ہیں۔انہوں نے الرسالہ کی کافی تعریف کی۔
میں نے کہا کہ الرسالہ صرف ایک ماہانہ میگزین نہیں، وہ ایک مشن ہے۔اور مشن کا حق صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ آپ اس کی تعریف کر دیں۔مشن چاہتا ہے کہ آپ خود کواس میں شامل (involve) کریں۔یہی وجہ ہے کہ جب تک کوئی شخص ایجنسی نہ لے ہمارے نزدیک اس کی تعریف قابل لحاظ نہیں۔وہ فوراً ایجنسی لینے کے لیے راضی ہو گئے۔
ایسے بھی لوگ ہیں جنہوںنے الرسالہ کی تعریف کی اور میں نے ان سے مذکورہ بات کہی،مگر وہ ایجنسی لینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
انسانوںمیںطرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔کسی مشن کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اس کو جاندار افراد مل جائیں۔جاندار افراد وہ ہیں جو بات کو فوراً سمجھ لیں اور جو کچھ سمجھیں ان پر بلا تاخیر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔
جدید فکر
ایک مشہور عالم نے ایک مختصر کتاب لکھی ہے۔ اس کا عنوان ہے: ردة ولا أبا بكر لها (ارتداد ہے، لیکن اس کے لیے کوئی ابوبکر نہیں)۔اس کتاب میں جدید مغربی فکر کے نتیجے میں مذہب کے خلاف پیدا ہونے والی بے اطمینانی کو ارتداد کہا گیا ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے میں نے مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا، اوراس قسم کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جدید دور کا کیس ارتداد کا کیس نہیں ہے، بلکہ وہ غلط فہمی یا عدم اطمینان کا کیس ہے۔
مولانا موصوف نے یہ بات دورِ جدید کے تعلیم گاہوں کے بارے میں کہی ہے۔ دور جدید کی تعلیم گاہوں میں کیا سکھایا جاتا ہے۔ مثلاًمشرقی اقوام میں اختلاف کا مطلب ہوتا ہے ایک رائے کا صحیح ہونااور دوسری رائے کا باطل ہونا۔ اس کی وجہ سے مشرقی قوموں میں اختلاف رائے افکار کے ارتقا کا ذریعہ نہ بن سکا۔
اس کے برعکس، مغربی اقوام میں اختلاف رائے کے لیے ڈیسنٹ (dissent) کا تصور پایا جاتا ہے۔یعنی کسی رائے کو حق اور باطل کے معیار پر چانچنے کے بجائے مجر د رائے کے اعتبار سے دیکھنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے ہر چیز پر سوال قائم کیا۔ مثلاً بادل کیوں برستے ہیں، زمین کیوں گھومتی ہے، وغیرہ۔ اسی طرح انھوں نےمذہب کے اوپر بھی سوال قائم کیا۔مثلاً یہ کہ خدا کا وجود کیسے ممکن ہے۔ مذہب پر سوال اٹھانے کو اہل مذہب نے پسند نہیں کیا۔ اس وجہ سے انھوں نے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے اُس قسم کے الفاظ استعمال کیے، جن کو اوپر بیان کیا گیا ہے۔
یہ صورتِ حال کا درست تجزیہ نہیں تھا۔ مذہب پر سوال اٹھانے کا مطلب یہ تھا کہ دورِ جدید کے اعتبار سے مذہب کے لیے دلائل فراہم کیے جائیں۔ علما نے ایسا نہیں کیا۔ مگر راقم الحروف نے اللہ کے فضل سے اس اعتبار سے مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ جوعلم حقیقۃً ایمانیات کا علم تھا، وہ اہل مذہب کے نزدیک غلط فہمی کی بنا پر ارتداد کا علم ہوگیا۔ چنانچہ راقم الحروف نے جدید سائنسی علوم کی روشنی میں کثیر تعداد میں مقالے اور کتابیں لکھیں۔ ان میں سے ایک مشہور کتاب مذہب اور جدید چیلنج ہے۔
محاسبۂ نفس کیا ہے
میمون بن مہران تابعی (وفات117ھ) کا قول ہے:لَا يَكُونُ الرَّجُلُ تَقِيًّا حَتَّى يَكُونَ لِنَفْسِهِ أَشَدَّ مُحَاسَبَةً مِنَ الشَّرِيكِ لِشَرِيكِه)محاسبة النفس لابن ابي الدنيا:(7۔ یعنی کوئی انسان متقی نہیں ہوسکتا ، یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا اُس سے زیادہ شدت کے ساتھ محاسبہ کرنے والا نہ ہوجائے، جتنا کہ کوئی انسان اپنے بزنس پارٹنر کا محاسبہ کرتاہے۔
محاسبہ کیا ہے۔ مثلاً جب بھی کسی کو ایسا لگے کہ اس کے اندر منفی احساس ( negativity) کی زیادتی ہو رہی ہے ، اس کی ربانیت ( spirituality) میں کمی محسوس ہو رہی ہے یا اس کے اندر خدا سے تعلق (connection) کا احساس نہیں ہو رہا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ فوراً اپنا جائزہ لے ۔ آخر اس سے کیا کمی ہو گئی ہے، کیا غلطی ہو گئی ہے۔ کیا بات ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ سے کنکشن قائم نہیں ہو پارہا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے کنکشن فرشتوں کے ذریعہ قائم ہوتا ہے۔ ذرا بھی آدمی اگر نگیٹو ہو جائے تو فرشتے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ایک آدمی آیا اور ابوبکر کو برا بھلا کہنے لگا۔ جب وہ برا بھلا کہہ رہا تھا تو آپ مسکرا رہے تھے۔ جب وہ بہت زیادہ برا بھلا کہنے لگا تو ابوبکر نے بھی اس کو کچھ جواب دے دیا۔ رسول اللہ نے جب ابوبکر کا ری ایکشن دیکھا تو آپ وہاں سے جانے لگے۔یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر آپ کی طرف بڑھے، اور پوچھا: اے خدا کے رسول، جب اس آدمی نے مجھے برا بھلا کہا تو آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکن جب میں نے اس کا جواب دیا تو آپ ناراض ہوگئے اوروہاں سے اٹھ کر جانے لگے۔ ایسا کیوں؟ آپ نے کہا، جب وہ برا بھلا کہہ رہا تھا تو فرشتے اس کا جواب دے رہے تھے۔ لیکن جب تم نے اس کا جواب دیا تو فرشتے وہاں سے چلے گئے، اور شیطان وہاں آگیا۔ اور جہاں شیطان ہو، وہاں پر میں نہیں بیٹھ سکتا (مسند احمد، حدیث نمبر 9624)۔
جب بھی آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو تو فوراً توبہ کیجیے۔فوراً اپنی اصلاح کیجیے۔ان شاء اللہ، دوبارہ پھر خدا سے کنکشن قائم ہو جائے گا۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)
پیغمبر اسلام کا نمونہ
عطاء بن یسار تابعی (وفات 103 ھ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے صحابیٔ رسول عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ نے تورات کا مطالعہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات تورات میں آئی ہیں ان میں سے کچھ بتائیے۔ عبداللہ بن عمرو نے جو کچھ کہا، اس کا ایک جزءیہ ہے— خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات آئی ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں ۔ جیسے کہ اے نبی! بیشک ہم نے تم کو شاہد اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے (شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا)،اور اُمی (اَن پڑھ) قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو ۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بداخلاق ہو ، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور وغل مچانے والے (لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ)،وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا ۔ بلکہ معاف اور درگزر کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2125)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ کے مشن کو جاننے کے لیے یہ ایک اہم حدیث ہے۔ اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بنیادی صفات معلوم ہوتی ہیں۔ ایک، آپ داعی الی اللہ ہیں، دوسرے، آپ آخری حد تک نو پرابلم پرسن ہیں۔ اس حدیث میں بظاہر رسول کی صفات بیان کی گئی ہیں ،مگر وہ ہر انسان کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ہر انسان کو اعلیٰ انسان بننے کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
حنفی عالم احمد بن اسماعيل الكورانی (وفات 893 ھ) نےاس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں اشارہ ہے کہ آپ دین، انسانیت اور اخلاق کے اعتبار سے کامل تھے ( وإشارة إلى أنه كامل ديانة ومروءة، وأخلاقًا) الكوثر الجاری الى رياض احاديث البخاری، جلد 8، صفحہ 274۔
مذکورہ حدیث میں رسول اللہ کی سب سے پہلی صفت یہ ہے کہ" اے نبی ! بیشک ہم نے تم کو شاہد اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے" ۔ قرآن میں یہ حقیقت دو مقامات (33:54,48:8) پر بیان کی گئی ہے۔ مولانا وحید الدین خاں صاحب اس کے تحت لکھتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے شاہد کا ترجمہ اظہار حق کنندہ (حق کا اظہار کرنے والا) کیا ہے۔ یہی اس لفظ کا صحیح ترین مفہوم ہے۔ پیغمبر کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کا اعلان و اظہار کردے۔ وہ واضح طور پر بتا دے کہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں کن لوگوں کے لیے خدا کا انعام ہے۔ ایسے ایک شاہد ِحق کا کھڑا ہونا اس کے مخاطبین کے لیے سب سے زیادہ سخت امتحان ہوتا ہے۔ ان کو ایک بشر کی آواز میں خدا کی آواز کو سننا پڑتا ہے۔ ایک عام انسان کو خدا کے نمائندہ کے روپ میں دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک انسان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے ہوئے یہ سمجھنا پڑتا ہے کہ وہ اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس اعلیٰ معرفت کا ثبوت دیں ان کے لیے خدا کے یہاں بہت بڑا اجر ہے (ماخوذ،تذکیرالقرآن، 48:8)۔
"اُمی قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے" ۔حفاظت کا مطلب سیاسی حفاظت نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہی حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (62:2) ۔ یعنی، وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول انھیں میں سے اٹھایا، وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے۔ اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ دوسرے الفاظ میں، تزکیہ ، تعلیم اور حکمت کے راستہ سے افرادِ عرب کی تربیت کرنا۔
"میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے" کی شرح ابن حجر نے ان الفاظ میں کی ہے— أَيْ عَلَى اللّهِ لِقَنَاعَتِهِ بِالْيَسِيرِ وَالصَّبْرِ عَلَى مَا كَانَ يَكْرَهُ (یعنی اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہیں، کیوں کہ وہ تھوڑی چیز پر قناعت کرتے ہیں، اور ناپسندیدہ چیز کے مقابلے میں صبر کرتے ہیں) فتح الباری، جلد8، صفحہ 586 ۔
"تم نہ بداخلاق ہو ، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور وغل مچانے والے" ۔اس کے تحت ایک شارح حدیث لکھتے ہیں کہ وہ نرم رو، شریف النفس ہیں، وہ بداخلاق نہیں کہ لوگوں پر چلّائیں، نہ غیر مہذب ہیں کہ بازار میں شور مچائیں، بلکہ لوگوں کے لیے نرم اور خیرخواہ ہیں (هو لين الجانب شريف النفس لا يرفع الصوت على الناس لسوء خلقه، ولا يكثر الصياح عليهم في السوق لدناءته، بل يلين جانبه لهم ويرفق بهم) شرح الطيبی، جلد 11، صفحہ 3639۔
"وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا" —اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ ایک دوسری حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ، وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ، إِنَّ الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيثَ (مسند احمد، حدیث نمبر 3672)۔ یعنی ' بیشک اللہ تعالی برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہے، لیکن برائی کو اچھائی سے مٹاتا ہے، بیشک برائی برائی کو ختم نہیں کرتی ہے' ۔اسی لیے قرآن میں کئی مقام پر برائی کو بھلائی سےختم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثلاً دیکھیے یہ آیتیں— 13:22, 23:96, 28:54, 41:34۔
اس حدیث سے جو سبق ملتا ہے، وہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کے الفاظ میں یہ ہے— یہ تمام حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک با اصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کے ردّعمل کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ اعلیٰ ربانی اصول کی پیداوار تھی۔ آپ کا اعلی اخلاقی صفات کا حامل ہونا ،آپ کے اس دعوی کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ کسی بھی سماج کے لیے اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ افراد کے اندر اچھے اخلاق کا ہونا کسی سماج کو اچھا سماج بناتا ہے۔ اور افراد کے اندر برے اخلاق کا ہونا کسی سماج کو برا سماج بنا دیتا ہے۔
معروف اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (وفات101 ھ) نے ایک مرتبہ لوگوں کو یہ نصیحت کی تھی: أَيُّهَا النَّاسُ أَصْلِحُوا سَرَائِرَكُمْ تَصْلُحْ عَلَانِيَتُكُمْ(الطبقات الکبری لابن سعد، جلد7، صفحہ386)۔ یعنی، لوگو، اپنے اندرون کو درست کرو، تمھارا ظاہر درست ہوجائے گا۔ اخلاق دراصل، داخلی احساس کا خارجی اظہار ہے۔ داخلی سطح پر ایک انسان جیسا ہوگا، اُس کا اثر اس کے خارجی برتاؤ سے ظاہر ہوگا۔اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویے سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کا جواب برائی سے دے اور بھلائی کا جواب بھلائی سے، بلکہ اس کا طریقہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کا ہو۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے جسے آپ کاامتی ہونے کی حیثیت سے ہر مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے۔( مولانا فرہاد احمد)
دعوت کا کام کیسے کریں؟
)مسٹر شاہ خالد سی پی ایس مشن کے ایک نوجوان ممبرہیں۔ انھوں نے روزمرہ کے دعوتی تجربات کی روشنی میں عام لوگوں کے لیے ایک مفید مضمون لکھا ہے۔یہ گویا اس مہینہ کا خبرنامہ ہے۔ امید ہے کہ اللہ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ دعوت ِدین کی توفیق عطا فرمائے، آمین(۔
سی پی ایس مشن سے وابستہ افراد کے سامنے ہمیشہ دو چیزیں رہتی ہیں۔ پہلے کا تعلق تزکیۂ نفس سے ہے ۔ یعنی کیسے وہ اپنے وجود کی فکری یا روحانی تطہیر کریں؟ کیسے وہ خود کوڈسٹریکشن سے بچائیں اور کیسے اپنےلیے ازدیادِ ایمان کا سامان کرسکیں؟ ایک ربانی انسان اس معاملے میں انتہائی حساس ہوتا ہے اور یہ اس کا ہمہ وقتی وظیفہ بن جاتا ہے کہ وہ بار بار اپنا محاسبہ کرے، بار بار رجوع الی اللہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنے عجزِ کامل کا اعتراف کرے۔
اس کے مقابلے میں دوسری چیز کا تعلق دعوتِ دین سے ہے۔ کوئی انسان جب سچائی کو دریافت کرلیتا ہے تو یہ اس کے لیے کسی ذاتی تجربے کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے اور وہ بے تابانہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ جو چیز اس نے پائی ہے دوسرے لوگ بھی اس کو پا سکیں۔ جس درجہ میں انسان معرفت خداوندی پاتا ہے اسی درجے میں اس کے اوپر یہ ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے کہ وہ سچائی سے دوسرے لوگوں کو آگاہ کرے۔ یہ داعی کا اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ محبت کا عملی ظہور ہوتا ہے۔ یعنی جو سچائی اس کی زندگی میں ربانی انقلاب کا سبب بنی ہے، اس کو وہ دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
لیکن اب ایک عام آدمی کی حیثیت سے سوال یہ پیدا ہوتا ُہے کہ ہم دعوت کا کام کیسے کریں؟ کیوں کہ جہاں تک خواص کا تعلق ہے وہ تو اپنے دینی علم کی روشنی میں مختلف طریقوں سے یہ کا م کرتے رہتے ہیں۔ ایک عام مسلمان— خواہ وہ طالب علم ہو یا ملازمت پیشہ یا تجارت پيشه ،وغیرہ— اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ کیسے دعوت کا کام کرے؟
میرے خیال میں عام مسلمانوں کے لیے دعوتی کام کے درج ذیل طریقے ہوسکتے ہیں۔وہ ان طریقوں کو اپنا کر اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو متاثر کیے بغیر دعوت کا کام انجام دے سکتے ہیں۔
1۔ واٹس ایپ گروپ بنانا: آج کل واٹس ایپ ہر کسی کے موبائل فون میں ہوتا ہے۔ آدمی اپنے سرکل میں (اہل و عیال، فیملی ممبرز، کالج یونیورسٹی فیلوز، کلیگزاور دیگر ملنے جلنے والے، وغیرہ) جن کو وہ seeker سمجھتا ہو، جو لکھنے پڑھنے سے دلچسپی رکھتے ہوں یا کم از کم اسے یہ اندازہ ہو کہ اس شخص کو گروپ میں ایڈ کرنے پر وہ اعتراض نہیں کرے گا؟ ایسے لوگوں کو لے کر واٹس ایپ گروپس بنانے چاہئیں۔ ان میں روزانہ دو تین پوسٹ جو مرکز کی طرف سے آتی ہیں، وہ شیئر کردی جائیں۔ اسی طرح کوئی شارٹ پوسٹ یا ویڈیو کلپ شام میں بھی ۔ مناسب ہے کہ مرد وخواتین کے لیے الگ الگ گروپ بنائے جائیں۔
2۔ واٹس ایپ اسٹیٹس اور فیس بک پوسٹ: واٹس ایپ پر روزانہ سٹیٹس لگائيںاور فیس بک پر روزانہ کم از کم دو پوسٹ ضرور كريں۔ بعض اوقات ایک چھوٹی سی بات بھی کسی کی زندگی کا رخ موڑنے کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
3۔ واٹس ایپ براڈ کاسٹ:یہ واٹس ایپ کا وہ فیچر ہے جس سے آپ بیک وقت سینکڑوں لوگوں کو انفرادی حیثیت سے میسج بھیج سکتے ہیں۔گروپ کی بنسبت براڈ کاسٹنگ کے ذریعے بھیجے جانے والے میسج کو زیادہ اہمیت ملتی ہے۔ کیوں کہ وہ آپ کے نام سے جاتی ہے اور لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ چیز فلاں شخص نے شیئرکی ہے تو ضرور پڑھنے والی ہوگی۔ کوشش کیجیے کہ تحریر مختصر اورمعیاری ہو۔ میں کبھی عام تحریر اس میں شیئر نہیں کرتا،صرف معیاری تحریر ہی شیئر کرتا ہوں۔
4۔ گھر کا ماحول: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کیجیے (26:214)۔اس لیے گھر کے افراد کو اپنے دعوتی پیغام سے مانوس کرنا انتہائی ضروری ہے۔ گھر والوں کو اپنے عمل سے یہ اچھی طرح باور کرائیں کہ ہمارا گھرانہ دعوتی گھرانہ ہے اور اس وجہ سے ہم دوسروں سے مختلف ہیں۔ ہم عام لوگوں کی طرح بے مقصدیت، اور ظاہری نمود و نمائش میں زندگی نہیں گزاریں گے۔ اس سےممکن ہے کہ گھر کے ماحول میں تبدیلی آئے ۔ پھر آپ اکیلے نہیں ہوں گے بلکہ آپ کے بیوی بچے بھی آپ کے ہم خیال ہوں گے۔
5۔ رشتہ داروں کی لسٹ مرتب کرنا:رشتہ داروں اور جاننے والوں کی باقاعدہ لسٹ مرتب کرنی چاہیے جس میں ان کی تعلیمی استعداد اور دلچسپیوں کو مد نظر رکھ کر انھیں اپنے ماہانہ بجٹ سے کتابیں ہدیہ دی جانی چاہئیں۔ اس طرح کتابوں کا تبادلہ بھی شروع ہوگا۔ تعلقات میں بھی بہتری آئے گی، آپ کے خاندان کا شعوری معیار بلند ہوگا، تہذیبی روایات میں عمدہ ذوق دکھائی دینے لگے گا۔ خاندان کے افراد میں ہم آہنگی پیدا ہوگی اور باہمی ملاقاتوں میں مادی چیزوں کو زیر بحث لانے کے بجائے آپ تعمیری گفتگو کرسکیں گے۔
6۔ گھر اور آفس میں لائبریری:گھر اور آفس میں لائبریری ضرور بنائیں۔ اس سے گھر کا ماحول سنجیدہ بنے گا۔ بچے بوڑھے جوان اور آنے جانے والے سب اس شجر ثمر بار سے استفادہ کرسکیں گے۔
7۔ خوشی کے مواقع پر کتاب کا ہدیہ:جب بھی عزیز و اقارب میں کوئی خوشی کا موقع آئے۔ شادی بیاہ ہو، کسی بچے کا رزلٹ اچھا آجائے، کسی کی سالگرہ ہو آپ ایسے مواقع پر کتاب یا کہانیوں کا کوئی سیٹ گفٹ کیجیے اس سے کم از کم پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا۔ کتاب سے شناسائی پیدا ہوگی۔ آج بصارت آگئی تو کل بصیرت بھی پیدا ہوجائے گی۔
8۔ بیگ میں دعوۃ مٹیریل ضرور رکھیں: یہ وہ مرحلہ ہے جس میں آپ عملی دعوت کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ انبیاء کرام کی دعوت کا منہج ہے کہ وہ فرداً فرداً لوگوں سے ملاقات کركے انھیں اپنا پیغام پہنچاتےتھے۔ دعوۃمٹیریل بیگ میں رکھ کر آپ جہاں کہیں بھی ہوں، گلی کوچے آفس،پبلک مقامات، بازار، سفرو حضر، خوشي و غم ہر جگہ آپ بطور داعی چل پھر رہے ہوں۔ اس کا اتنا بڑا فائدہ ہے کہ آپ اپنے کام سے جارہے ہوں گے لیکن آپ محسوس کریں گے کہ میرے اوپر تو دعوت کی ذمہ داری بھی ہے۔ یہ ذمہ داری آدمي کے اندر یہ جذبہ پیدا کردیتی ہے کہ کب اسے کوئی انسان ملے اور وہ اسے کوئی دعوتی کتاب، رسالہ، پمفلٹ یا قرآن ہدیہ کرے۔ دعوت کا مٹیریل بیگ میں رکھنے سے جہاں آپ کے عمل میں بطور داعی اخلاص آئے گا وہاں پر مدعو کی تلاش میں رہنا بھی آپ کی عادت ثانیہ بن جائے گی۔
یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ داعی تمام لوگوں کے ساتھ انتہائی کریمانہ اخلاق سے پیش آئے، خواہ وہ کسی مذہب یا علاقے کا انسان ہو، تاکہ وہ مدعو کا دل جیت سکے۔ چاهے اس کے لیے اسے اپنے حق سے کم پر راضی ہونا پڑے۔ وہ مدعو سے اپنائيت كے ساتھ بات کرے، پھر مختصراً اپنا تعارف كرائےتاکہ دعوۃ لٹریچر یا قرآن پاک ہدیہ کرنے کے لیے ماحول سازگار ہوسکے۔
9۔ پبلک مقامات پر دعوتی مٹیریل رکھنا: جہاں بھی عوامی اجتماع ہو، جیسے كوئي جلسہ، سیمینار یا کانفرنس ، وہاں جانا اور دعوتی مٹيريل تقسیم کرنا۔ اسی طرح مساجد،ا سکولس، کالجز، ہسپتالوں،پارکوں اور ریلوے اسٹیشنز وغیرہ میں دعوۃ مٹیریل رکھنا۔ واضح رہے کہ کچھ جگہوں پر اسکول یا کالج وغیرہ میں دعوتی کام کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ہے، یا حکومتی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ہے تو ایسی جگہوں پر دعوتی کام سے دور رہنا چاہیے۔
10۔ اہل علم کو کتابیں گفٹ کرنا: مثلاًاپنے محلے کی مسجد کے امام کو، اسکول کے استاد، پرنسپل یا دوسرے پڑھے لکھے لوگوں کو کتابیں گفٹ کرنا، وغیرہ۔
11۔ مخصوص اجتماع: ہرا سکول، کالج ،یونیورسٹی اور مدرسے میں کتاب میلہ، ریزلٹ ڈے یا پھر اینول ڈے منایا جاتا ہے۔ اس سے با خبر رہیں اور کوشش کریں کہ دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر وہاں پر دعوۃ اسٹال ضرور لگائیں۔
12۔ کم سے کم دعوت: سوشل میڈیا پر جب کوئی حکمت و معرفت کی بات دیکھیں، اس کو پڑھیں، اورپھر شیئر کریں،یہ نہ دیکھیں کہ کس نے یہ شیئرکی ہے۔ بلکہ یہ دیکھیں کہ جس طرح اس پوسٹ سے آپ کو فائدہ ہوا ہے، آپ كے شیئر کرنے سے کسی اور کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس لیے یہ کم سے کم دعوت ہے کہ آپ ہر اچھی بات کو شیئر کریں۔ اسی طرح جو بھی فرینڈ ریکویسٹ آئے اسے ضرور قبول کریں ۔
13۔ اسٹڈی سرکل:یعنی کتابوں کے مطالعہ کا حلقہ قائم کیجیے۔ اس میں خاص طور پر اپنے خاندان کے لڑکے لڑکیوں کو شامل ہونے کے لیے دعوت دیجیے،تاکہ وہ مباحثے میں آئیں، ان کے شبہات دور ہوں اور وہ یقین کے ساتھ دین پر چلنے والے بنیں۔ اس طرح دیے سے دیا جلے گا۔
14۔ کارِ دعوت کے لیے دعائیں:بقول مولانا وحیدالدین خاں صاحب ، دعوت کا کام دعاؤں کے سائے میں چلتا ہے۔ ہر نماز میں دعوت کی توفیق اور داعیوں کی نصرت کے لیے اہتمام کے ساتھ دعائیں مانگیں۔ جب آپ کسی کو کتاب دیں اس کے لیے خصوصی دعا کریں۔ دعا عمل کے لحاظ سے بظاہر ایک چھوٹاعمل لگتا ہے، مگر نتیجے کے اعتبار سے دعا ایک اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ دعا سے آپ کے اندر کے داعی کو مہمیز ملتی ہے۔ داعیانہ ذمہ داریوں کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ بے قراری میں اضافہ ہوتا ہے، اور آپ تڑپ اٹھتے ہیں اور لرزتے ہونٹوں سے آرزو کرتے ہیں کہ خدایا مجھے توفیق دے کہ میں تمام انسانوں کو تیرے منصوبہ تخلیق سے آگاہ کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت کی دعا کرنے سے خدا خصوصی طور پر داعی کی نصرت کے لیے آجاتا ہے۔ (شاہ خالد، پاکستان)
ईमान की हक़ीक़त, ग़ैबी हक़ीक़तों को देखना है
हज़रत मालिक बिन अनस कहते हैं कि हज़रत मुआज़ बिन जबल रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आए। आपने पूछा कि ऐ मुआज़, तुमने कैसे सुबह की? उन्होंने कहा कि मैंने अल्लाह पर ईमान के साथ सुबह की। आपने फ़रमाया कि हर बात का एक मिस्दाक़ (चरितार्थ) होता है और हर बात की एक हक़ीक़त होती है। फिर जो कुछ तुम कहते हो उसका मिस्दाक़ क्या है। उन्होंने कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल, मैंने कभी कोई ऐसी सुबह नहीं की जिसमें मुझे यह ख़याल न लगा हुआ हो कि अब मैं शाम न कर सकूंगा। और मैंने कोई क़दम ऐसा नहीं उठाया जिसमें मुझे यह ख़याल न हो कि मैं दूसरा क़दम न उठा सकूंगा। और जैसे कि मैं घुटनों के बल गिरी हुई उन तमाम उम्मतों को देख रहा हूं, जिनको अपने आमालनामे (कर्मपत्र) की तरफ़ बुलाया जा रहा है और उनके साथ उनका पैग़म्बर है। और उनके साथ वे बुत भी हैं जिनको वे ख़ुदा के सिवा पूजती थीं। और जैसे मैं दोज़ख़ वालों की सज़ा को और जन्नत वालों के सवाब को देख रहा हूं। यह सुन कर रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमायाः तुम मग़्फ़िरत को पहुंच गए। अब इसी पर जमे रहो।
ख़ुदा का सबूत
अगर एक इन्सान का वजूद है तो ख़ुदा का वजूद क्यों नहीं? अगर हवा और पानी, दरख़्त और पत्थर, चांद और सितारे मौजूद हैं तो उनको वजूद देने वाले का वजूद संदिग्ध क्यों? हक़ीक़त यह है कि रचना की मौजूदगी रचना-प्रक्रिया का सबूत है। और इन्सान की मौजूदगी इस बात का सबूत है कि यहां एक ऐसा सृष्टा मौजूद है, जो देखे और सुने, जो सोचे और घटनाओं को प्रकट रूप दे।
इसमें शक नहीं कि ख़ुदा ज़ाहिरी आंखों से दिखाई नहीं देता। मगर इसमें भी शक नहीं कि इस दुनिया की कोई भी चीज़ ज़ाहिरी आंखों से दिखाई नहीं देती। फिर किसी चीज़ को मानने के लिए देखने की शर्त क्यों ज़रूरी हो।
आसमान पर सितारे जगमगाते हैं। आम आदमी समझता है कि वह सितारों को देख रहा है, हालांकि ख़ालिस वैज्ञानिक नज़रिए से यह सही नहीं है। जब हम सितारों को देखते हैं तो हम सितारों को सीधे नहीं देख रहे होते हैं, बल्कि उनके उन प्रभावों को देख रहे होते हैं, जो सितारों से निकल कर करोड़ों साल के बाद हमारी आंखों तक पहुंचे हैं।
यही तमाम चीज़ों का हाल है। इस दुनिया की हर चीज़ जिसको इन्सान ‘देख’ रहा है, वह सिर्फ़ अप्रत्यक्ष तौर पर उसे देख रहा है। सीधे तौर पर इन्सान किसी चीज़ को नहीं देखता; और न अपनी मौजूदा सीमाओं के रहते हुए वह उसे देख सकता है।
फिर जब दूसरी तमाम चीज़ों के वजूद को अप्रत्यक्ष दलील की बुनियाद पर माना जाता है तो ख़ुदा के वजूद को अप्रत्यक्ष और बिलवास्ता दलील की बुनियाद पर क्यों न माना जाए?
हक़ीक़त यह है कि ख़ुदा उतना ही साबितशुदा है, जितनी इस दुनिया की कोई दूसरी चीज़। इस दुनिया की हर चीज़ अप्रत्यक्ष दलील से साबित होती है। इस दुनिया में हर चीज़ अपने प्रभाव से पहचानी जाती है। ठीक यही हालत ख़ुदा के वजूद की भी है।
ख़ुदा यक़ीनन सीधे तौर पर हमारी आंखों को दिखाई नहीं देता, मगर ख़ुदा अपनी निशानियों के ज़रिए यक़ीनन दिखाई देता है। और बेशक ख़ुदा के इल्मी सबूत के लिए यही काफ़ी है।
ख़ामोशी
एक रिवायत के मुताबिक़, रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया कि हया (लज्जा) और कम बोलना ईमान में से है। सूफ़ियों ने भी कहा है कि जिस शख़्स को अल्लाह की पहचान हो जाए, उसकी ज़ुबान बोलने से थक जाएगी।
जिस तरह ख़ाली बर्तन ज़्यादा आवाज़ करता है, और जो बर्तन भरा हुआ हो उसमें आवाज़ कम हो जाती है, कम पानी में पत्थर फेंकें तो बहुत ज़्यादा लहरें पैदा होंगी, मगर समुन्दर में पत्थर फेंकिए तो उसमें पत्थर की वजह से लहरें नहीं उठेंगी। यही मामला इन्सान का है। ख़ाली इन्सान ज़्यादा बोलता है और भरा हुआ इन्सान हमेशा कम बोलता है।
अल्लाह की पहचान सबसे बड़ी हक़ीक़त की पहचान है। आदमी जब अल्लाह को उसकी अथाह महानताओं के साथ पाता है, तो अपना वजूद उसको बिल्कुल तुच्छ मालूम होने लगता है। उसको महसूस होने लगता है कि अल्लाह सब कुछ है और उसके मुक़ाबले में मैं कुछ नहीं। यह एहसास उसकी ज़ुबान को बन्द कर देता है। वह हैरानी की हालत में गुम होकर रह जाता है।
फिर यह कि अल्लाह की पहचान आदमी के अन्दर ज़िम्मेदारी और जवाबदेही की चेतना को जगाती है। वह महसूस करने लगता है कि हर-हर काम और हर-हर बोल का मुझे उस सर्वशक्तिमान के सामने हिसाब देना है। यह एहसास उसको मजबूर करता है कि वह नापतौल कर बोले। वह कहने से पहले सोचे और अपनी बात को जांच-परख ले। ख़ुदा की पहचान आदमी के अन्दर संजीदगी पैदा करती है और संजीदगी, ठीक अपने स्वभाव के मुताबिक़, आदमी को ख़ामोश कर देती है।
ख़ामोश आदमी यह बता रहा होता है कि वह गहरा आदमी है। वह ऊंची हक़ीक़तों को पाए हुए है। ख़ामोशी इस बात की अलामत है कि आदमी बोलने से पहले सोचता है। वह करने से पहले अपने करने को तौलता है। ख़ामोशी फ़रिश्तों का चरित्र है। फ़रिश्ते ख़ामोश ज़ुबान में बोलते हैं। जिस आदमी को फ़रिश्तों का चरित्र हासिल हो जाए वह ख़ामोश ज़्यादा दिखाई देगा और बोलता हुआ कम।
पत्थर खिसक गया
बनी इसराईल के इतिहास की एक घटना रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपने सहाबियों को सुनाई। सुनने वालों में अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हु भी थे। वह इस घटना को इस तरह बताते हैं :
तुम से पहले जो लोग गुज़रे हैं उनमें से तीन आदमी एक सफ़र पर निकले। चलते-चलते रात हो गई तो रात बिताने के लिए वे एक गुफ़ा में रुके। पहाड़ों पर अक्सर पत्थर गिरने (land slide) की घटनाएं होती रहती हैं। रात के वक़्त ऊपर से एक बड़ा सा पत्थर लुढ़क कर गिरा और इसकी वजह से गुफ़ा का मुंह बन्द हो गया। उन्होंने कहा कि इस चट्टान को हटाने का हमारे पास कोई उपाय नहीं है, सिवा इसके के हम अपने नेक कामों का हवाला देकर अल्लाह से दुआ करें।
अब एक आदमी दुआ करने बैठा। उसने कहा, “ऐ ख़ुदा, मेरे मां-बाप बहुत बूढ़े हो चुके थे। मेरा नियम था कि रोज़ाना शाम को जब मैं अपने जानवर चरा कर लौटता तो जब तक मैं उन दोनों को दूध न पिला लेता न ख़ुद दूध पीता और न किसी और को पिलाता। एक दिन मैं चारे की तलाश में दूर निकल गया। शाम को वापसी में इतनी देर हुई कि मेरे मां-बाप सो गए। मैंने उन दोनों के लिए दूध निकाल कर तैयार किया। जब उनके पास दूध लेकर पहुंचा तो दोनों को सोता हुआ पाया। मुझे यह अच्छा न लगा कि मैं उनको जगाऊं और मुझको यह भी गवारा न था कि मैं उनसे पहले दूध पिऊं और अपने बच्चों को पिलाऊं। मैं उनके पास खड़ा हो गया। मेरे हाथ में प्याला था और मैं इस इतिज़ार में था कि जब वे जागें तो मैं उनको दूध पेश करूं। इसी हाल में सुबह हो गई। बच्चे मेरे पांव के पास बिलबिला रहे थे। सुबह मेरे मां-बाप उठे और उन्होंने दूध पिया। उसके बाद हम सब लोगों ने दूध पिया। मेरे अल्लाह, यह नेक अमल मैंने तेरी खुशी के लिए किया है तो इस चट्टान की मुसीबत से तू हमको छुटकारा दे दे।” इसके बाद चट्टान थोड़ी-सी खिसक गई, पर इतनी नहीं कि वे तीनों निकल सकें।
अब दूसरे आदमी ने दुआ शुरू की। उसने कहा, “ऐ ख़ुदा, मेरे चाचा की एक लड़की थी। वह मुझे बहुत प्रिय थी। उससे मुझे इतनी ज़्यादा मुहब्बत थी जो मर्दों को औरतों से होती है। मैंने उससे अपनी काम-वासना तृप्त करनी चाही पर वह मना करती रही। कुछ अर्से बाद अकाल पड़ा और वह मुसीबत में फंस गई। वह मदद के लिए मेरे पास आई। मैंने उसको 120 दीनार इस शर्त पर दिए कि वह मुझको अपने ऊपर क़ाबू दे दे। वह इसके लिए तैयार हो गई। यहां तक कि जब मैं उसके ऊपर पूरी तरह हावी हो गया और उसके दोनों पैरों के बीच बैठ गया तो उसने कहा, ‘ख़ुदा से डर और मुहर को उसके हक़ के बिना न तोड़।’ तो मैंने उसे छोड़ दिया हालांकि वह मुझको तमाम लोगों में सबसे ज़्यादा प्रिय थी। और जो दीनार मैंने उसको दिए थे वे भी उससे वापस नहीं लिए। ऐ ख़ुदा, अगर मैंने यह काम तेरी खुशी के लिए किया है तो उस मुसीबत से तू हमको निकाल जिसमें हम इस वक़्त फंसे हुए हैं। “तो चट्टान थोड़ी-सी हट गई, पर इतनी नहीं कि वे निकल सकें।
अब तीसरे आदमी ने दुआ की। उसने कहा, “ऐ ख़ुदा, मैंने कुछ मज़दूरों से काम कराया। काम के बाद मैंने सबको मज़दूरी दे दी। पर एक मज़दूर अपनी मज़दूरी छोड़ कर चला गया। मैंने उसकी छोड़ी हुई रक़म को कारोबार में लगा दिया। उससे मुझको बहुत ज़्यादा फायदा हुआ। कुछ अर्से बाद वह आदमी वापस आया और कहा, ‘ऐ अल्लाह के बन्दे! मेरी मज़दूरी मुझे दे दे।’ मैंने उससे कहा, ‘ये ऊंट, ये गायें, ये बकरियां और ये गुलाम जो तुम देख रहे हो, यह सब तुम्हारी मज़दूरी है।’ उसने कहा, ‘ऐ ख़ुदा के बन्दे! मुझसे मज़ाक़ न कर। मैंने उससे कहा कि मैं तुमसे मज़ाक़ नहीं कर रहा हूं। यह सब तुम्हारा ही है। उसके बाद उसने सब चीजें लीं और उनको इस तरह हंका ले गया कि उनमें से कुछ भी न छोड़ा। ऐ ख़ुदा, अगर मैंने यह तेरी खुशी के लिए किया तो इस मुसीबत से तू हमको छुटकारा दे दे।” इसके बाद चट्टान हट गई और वे तीनों बाहर निकल कर रवाना हो गए (बुख़ारी, मुस्लिम)।
यह रिवायत सहीह हदीसों में आई है और इसके सच होने में कोई शक नहीं। इससे साबित होता है कि दुआ ऐसी चीज़ है जो पत्थर की चट्टान को भी अपनी जगह से खिसका देती है। पर यह वह दुआ नहीं है जो मुंह से सिर्फ शब्दों के रूप में निकलती है और आदमी की वास्तविक ज़िन्दगी से उसका कोई ताल्लुक नहीं होता।
उपरोक्त मिसाल बताती है कि दुआ से चट्टान खिसकाना उन लोगों के लिए संभव होता है जो अपने आपको पूरी तरह ख़ुदा के हवाले कर दें, जो पूरी तरह ख़ुदा को अपने ऊपर संरक्षक बना लें। यहां तक कि भूख की मार और बीवी बच्चों की मुहब्बत भी उनको ख़ुदा की पसंदीदा राह से न हटा सके।
बेहद नाजुक और भावुक घड़ियों में भी ख़ुदा की याद दिलाना उनको चौंका देने के लिए काफ़ी हो। चिन्ता के क्षणों में भी जब ख़ुदा का नाम लिया जाए तो उनके चलते हुए क़दम रुक जाएं और उनके उठे हुए हाथ अपनी हरकत बन्द कर दें। आख़िरत के हिसाब का अन्देशा उन पर इतना ज़्यादा छाया हो कि एक हक़दार का हक़ चुकाने की ख़ातिर अगर उनको अपनी सारी पूंजी देना पड़े तो इससे भी वे हिचकिचाएं नहीं। एक आदमी अगर अपना हक मांगने के लिए खड़ा हो जाए तो वे फ़ौरन उसको मान लें, चाहे मांग करने वाला कितना ही कमज़ोर हो और उसके मुकाबले में उनको कितनी ही ज़्यादा ताक़त हासिल हो।
ख़ुदा के बन्दे वे हैं जो अपनी वासनाओं और इच्छाओं को कुचल कर और अपने फ़ायदों की बलि देकर ख़ुदा को अपनाते हैं। और जो लोग इस तरह ख़ुदा को अपना लें वे अगर कहें कि ऐ ख़ुदा, तू इस पत्थर की चट्टान को खिसका दे तो ख़ुदा पत्थर की चट्टान को भी उनके लिए खिसका देता है।
बामक़्सद ज़िन्दगी
दोस्तो, हम मुसलमान हैं, इसका मतलब यह है कि हम अपने बारे में दावा रखते हैं कि हम बामक़्सद लोग हैं, क्योंकि इस्लाम ज़िन्दगी का एक मक़्सद है। मगर मैं आपको याद दिलाना चाहता हूं कि बामक़्सद होने का मतलब सिर्फ़ यह नहीं है कि एक मक़्सदी या एक उद्देश्यपूर्ण कल्पना आपके ज़ेहन में पाई जा रही हो। कुछ तक़रीरों को सुन कर या कुछ तहरीरों को देख कर एक मक़्सदी नज़रिया किसी के दिमाग़ में पहुंच जाए तो सिर्फ़ इस बिना पर उसको बामक़्सद इन्सान नहीं कहा जा सकता। बामक़्सद इन्सान तो वही होता है जो अपने पूरे वजूद के साथ बामक़्सद बन गया हो, जिसकी ज़िन्दगी उसके मक़्सद में इस तरह ढल जाए कि दोनों के बीच कोई दूरी बाक़ी न रहे।
आप इस वक़्त एक मस्जिद में बैठे हैं, जिसके ऊपर ऊंचे-ऊंचे मीनार खड़े हैं। अगर हवा के ज़रिए कुछ आम के पत्ते उड़ कर आएं और इन मीनारों पर अटक जाएं तो इससे आप इन मीनारों को आम दरख़्त नहीं कहने लगेंगे। आम का दरख़्त तो वही है, जो अपनी जड़ में भी आम हो, अपने तने में भी आम हो, अपनी शाखों में भी आम हो, अपने पत्तों में भी आम हो और वह आम ही के फल दें। आम का दरख़्त आप उसको कहते हैं, जो इस तरह ऊपर से नीचे तक आम हो। महज़ किसी लम्बी खड़ी हुई चीज़ पर आम जैसी लगने वाली चीज़ों का इत्तिफ़ाक़ से जमा हो जाना उसको हरगिज़ आम नहीं बना देता। इसी तरह आपको भी बामक़सद इन्सान उसी वक़्त कहा जा सकता है जब आप सिर से पांव तक अपने पूरे वजूद में बामक़्सद बन गए हों। महज़ कुछ नज़रियों का कहीं से आकर आपके जेहन में अटक जाना आपको बामक़्सद नहीं बना देता। इस्लाम ज़िन्दगी का एक मक़्सद है और हम उसी वक़्त मुसलमान कहे जाने का हक़ रखते हैं जब हमने वाक़ई एक मक़्सद की तरह इस्लाम को अपनी ज़िन्दगी में शामिल कर लिया हो।
बामक़्सद इन्सान की पहचान क्या है? इसको दर्जनों पहलुओं से बयान किया जा सकता है। इस वक़्त मैं इसकी चन्द खूबियों का संक्षेप में ज़िक्र करूंगा।
1. बामक़्सद आदमी की पहली पहचान वह है, जिसको मैं ‘इरतिकाज़’ (एकाग्रता) का लफ़्ज़ देना चाहूंगा। इसका मतलब यह है कि आपकी तमाम वैचारिक और ज़ेहनी ताकतें आपके मक़्सद में पूरी तरह लग जाएं। आपका सोचना, आपका मुहब्बत करना, आपका नफ़रत करना, सब कुछ आपके मक़्सद के साथ बावस्ता हो गया हो। आपकी कोई चीज़ दूसरी तरफ़ बिखरी हुई न हो। जूता बनाने वालों के यहां आपने देखा होगा, काम करते-करते उनके पास बहुत-सी कीलें फैल जाती हैं। उस वक़्त वे यह करते हैं कि चुम्बक का एक टुकड़ा लेकर वहां फेरते हैं, जिससे तमाम बिखरी हुई कीलें खिंच खिंच कर उससे चिमट जाती हैं और फिर वे उसे उठा कर ख़ाने में रख लेते हैं। इस मिसाल में अगर चुम्बक की जगह आप अपने मक़्सद को रखें और कीलों के बजाए अपनी सोच, खयालात और जज़्बात और एहसासात को रखें तो ज़िन्दगी और मक़्सद के बीच ताल्लुक़ को आप समझ सकते हैं। इसका मतलब यह है कि चुम्बक के आसपास लोहे के टुकड़े जिस तरह एक-एक करके इकट्ठा हो जाते हैं और आसपास का कोई टुकड़ा ऐसा नहीं होता, जो उससे चिमट न गया हो, इसी तरह आदमी के मक़्सद के आसपास उसके सारे दिल और सारे दिमाग को इकट्ठा हो जाना चाहिए।
यहां एक घटना मुझे याद आती है। एक बार एक साहब मेरे यहां आए। उनको बाज़ार का कुछ काम था। बाज़ार जाकर जब वह लौटे तो उन्होंने एक वाकिआ बताया, जिससे मुझे बड़ा सबक़ मिला। वाक़िआ बहुत छोटा-सा है, मगर उसमें हमारे लिए बड़ी नसीहत है। उन्होंने कहा कि मैं एक जगह पहुंचा, जहां सड़क के किनारे बहुत से मोची अपनी-अपनी दुकान लिए बैठे थे। जब मैं उनके पास से गुज़रा तो मैंने देखा कि उनमें से हरेक शख़्स मेरे जूते की तरफ़ देख रहा है। जिस मोची की नज़र उठती है वह बस मेरे जूते पर आकर रुक जाती है। मैंने सोचा कि ये मोची भी अपने मक़्सद में किस क़दर गुम हैं उनको इन्सान सिर्फ़ जूते की शक्ल में नज़र आता है। भरे हुए बाज़ार में सैकड़ों इन्सान उनके सामने से आते जाते हैं। मगर उन्हें इन्सानों से कोई दिलचस्पी नहीं। वे उनको नज़र उठा कर देखते भी नहीं। वे सिर्फ़ यह जानते हैं कि ये आने जाने वाले लोग अपने पांव में एक ऐसी चीज़ पहनते हुए हैं, जिसकी पालिश करके या जिसकी मरम्मत करके वे कुछ पैसे हासिल कर सकते हैं। जैसे इन्सान उनकी नज़र में सिर्फ़ एक ‘जूता’ है और बस।
इसी तरह बामक़्सद आदमी अपने मक़्सद में गुम रहता है। उसको हर चीज़ में सिर्फ़ अपना मक़्सद नज़र आता है। वह हर घटना को, हर मसले को, हर बात को अपने मक़्सद की रोशनी में देखता है। यहां तक कि वह अपने मक़्सद के खयालों में इतना खो जाता है कि दूसरी चीज़ें उसे भूलने लगती हैं। एक साहब हैं जो बहुत सक्रिय, आदमी हैं जो काम भी करते हैं, उसको पूरी तरह लग कर करते हैं। एक बार मैं एक ऐसे ज़माने में उनसे मिलने गया जब वह अपना नया मकान बनवाने में लगे हुए थे। मैंने देखा कि उनके पायजामे में एक जगह बहुत से लाल- लाल धब्बे पड़े हुए है। पूछा यह क्या है। उन्होंने देख कर कहा, मुझे खुद भी नहीं मालूम। इसके बाद उन्होंने पायजामा उठाया तो मालूम हुआ किसी सख़्त चीज़ से टकराने की वजह से टांग में एक जगह चोट लग गई है। चोट लग कर खून बहा, कपड़े में लगा, फिर अपने आप सूख कर बंद हो गया और उन्हें बिल्कुल पता नहीं चला। जब आदमी के सामने कोई मक़्सद हो तो वह इसी तरह उसमें खो जाता है, उस वक़्त वह एक और ही दुनिया में पहुंच जाता है, जहाँ दूसरी चीज़ें उसका साथ छोड़ देती हैं, जहाँ दूसरी चीज़ें उसे महसूस नहीं होतीं। यहां तक कि खुद अपने जिस्मानी तक़ाज़े भी उसे याद नहीं रहते।
यह वह बात है, जिसको मैंने ‘इरतिकाज़’ कहा है। बामक़सद आदमी वही है जो अपने मक़्सद में इतना ही खो जाए, गुम हो जाए, समर्पित हो जाए। इसके बगै़र अपने आपको बामक़्सद आदमियों की फेहरिस्त में लिखना मक़्सद के लफ़्ज़ से एक तरह का मज़ाक़ करना है।
2. बामक़्सद आदमी की दूसरी पहचान यह है कि वह अपने मक़्सद के मुताबिक़ ज़िन्दगी गुज़ारता हो। ‘मक़्सद के मुताबिक़ अमल’ से मैं एक खास चीज़ की तरफ़ इशारा करना चाहता हूं। जिसको आप एक मिसाल से समझ सकते हैं। एक हकीम साहब हैं जो एक देहात में दवा इलाज का काम करते हैं। उनके पास कोई सनद या डिग्री नहीं है, न वह पढ़े लिखे आदमी हैं। बस लोगों की सोहबत और तजुर्बा की वजह से कुछ बातें जान गए हैं। और उसके मुताबिक काम कर रहे हैं, बल्कि अपनी मेहनत और लगन की वजह से अपने इलाके में मशहूर हो गए हैं। उनके घर पर कुछ खेती बाड़ी का काम होता है। एक बार उन्होंने कहा कि मैं खेती के मोटे काम मसलन खोदना, हल चलाना वग़ैरह अपने हाथ से नहीं करता। आप समझेंगे कि वह शायद कोई शेरवानीपोश आदमी होंगे। और अपनी शेरवानी की इज़्ज़त रखने के लिए ऐसे कामों से बचते होंगे। मगर उनको ‘शेरवानी’ और ‘पतलून’ की ज़िन्दगी से कोई दिलचस्पी नहीं। वह बिलकुल सीधे-सादे देहाती हकीम है। खेती के सख़्त कामों से अलग रहने की वजह उन्होंने यह बताई कि अगर मैं इस तरह के काम करूं तो मेरा हाथ सख़्त हो जाएगा। उंगलियों की खाल मोटी हो जाएगी। इसका नतीजा यह होगा कि मरीज की नब्ज़ मैं ठीक तरह से देख न सकूंगा। नब्ज़ की धड़कनें बहुत हल्की होती हैं और उनमें बहुत नाजुक फ़र्क होते हैं। उनको महसूस करने के लिए उंगलियों का नर्म होना बहुत ज़रूरी है। अगर उंगलियां हल और कुदाल पकड़ते-पकड़ते सख़्त हो जाएं, जैसा कि इस तरह का काम करने वालों की होती हैं, तो वे नब्ज़ की धड़कनें महसूस करने के क़ाबिल नहीं रहेंगी।
हर मक़्सद अपने इख़्तियार करने वाले से इसी का तक़ाज़ा करता है। जो शख़्स भी किसी मक़्सद को अपनाए, ज़रूरी है कि वह अपनी अमली ज़िन्दगी और अपनी रोज़ाना की सरगर्मियों का अपने मक़्सद के साथ तालमेल रखे, वह दोनों में कोई विरोधाभास पैदा न होने दे। बामक़सद आदमी एक जागा हुआ आदमी होता है। अगर उसके अन्दर हक़ीक़त में एक मक़्सद उतरा हुआ है तो इसका लाज़िमी नतीजा यह होना चाहिए कि वह अपने आपको ऐसे हालात और ऐसे कामों की तरफ़ न ले जाए जहां वह और उसका मक़्सद अलग-अलग हो जाएं, जब वह वैसा बन कर न रह सके जैसा अपने मक़्सद के लिए बन कर उसे रहना चाहिए।
मैं एक ऐसे मुस्लिम ख़ानदान को जानता हूं, जिसकी आमदनी इतनी थी कि वह ठीक-ठाक ढंग से एक सादा ज़िन्दगी गुज़ार रहा था और उसी के साथ दीन के तक़ाजे भी पूरे कर रहा था। इसके बाद उसके यहां एक लड़की और एक लड़के की शादी हुई। उसके मक़्सद का तकाज़ा तो यह था कि वह शादी को इस तरह करे कि उसकी वजह से उसके घर में जो सामान्य ज़िन्दगी चल रही है, उसमें कोई ख़लल पैदा न हो। मगर उसने पहली ग़लती यह की कि शादी के लिए एक ऐसे ख़ानदान को चुना, जिसका स्टैंडर्ड उसके मुकाबले में बढ़ा हुआ था, फिर शादी भी इस तरह की जैसे आम दुनियादार लोग अपनी शादियां करते हैं। इसका नतीजा यह हुआ कि न सिर्फ़ उसके घर की सारी पूंजी शादी में लग गई, बल्कि वह काफ़ी क़र्ज़दार भी हो गया। उसका सारा कारोबार उजड़ गया। अगर सिर्फ़ इतना ही नुक़सान हुआ होता तब भी ग़नीमत था, क्योंकि जिस तरह कई तरह के वक़्ती हादिसे आदमी के ऊपर पड़ते हैं और फिर वह संभल जाता है, उसी तरह दोबारा संभल जाता, मगर शादी ने उसको एक नई मुसीबत में डाल दिया, जिसके बारे में पहले उसने सोचा भी न था। अपनी लड़की को उसने जो कपड़े और सामान दिए और सुसराल से उसके लिए जो कपड़े वग़ैरह आए, उसकी वजह से शादीशुदा लड़की का रहन-सहन का स्तर यकायक बहुत बढ़ गया। और अब घर की एक लड़की का स्तर बढ़ा तो उसी के साथ दूसरों का लिहाज़ करना ज़रूरी था, फिर इसी के साथ नए-नए फर्नीचर से लदी हुई पूरी एक गाड़ी भी उसके घर उतरी। इन चीज़ों के नतीजे में उसकी घरेलू ज़िन्दगी का स्तर बिल्कुल बनावटी तौर पर यकायक बदल गया। अब हर चीज़ में पहले से ज़्यादा खर्च होने लगा। इस तरह एक तरफ़ पिछले क़र्ज़ों की अदायगी और दूसरी तरफ़ बढ़े हुए खर्चों को पूरा करना, ऐसे दो पाट बन गए जिन के बीच में उसकी ज़िन्दगी पिस कर रह गई। उसका घर देखते-देखते एक दीनदार घराने से एक दुनियादार घराने में बदल गया।
यह सिर्फ़ एक घटना नहीं है, बल्कि मैंने कितने लोगों को देखा है कि इसी तरह वे अपने दुन्यवी मामलों में ऐसा रवैया अपनाते हैं कि आख़िरकार वह उन्हें घसीटकर तबाही के गढ़े में पहुंचा देता है।
जो शख़्स किसी मक़्सद के लिए दुनिया में जीना चाहता हो, उसके लिए ज़रूरी है कि वह होश की ज़िन्दगी गुज़ारे, वह अपनी सरगर्मियों पर नज़र रखे। अगर उसने ऐसा नहीं किया तो इस भौतिक दुनिया में हर वक़्त इस बात की संभावना है कि आदमी ऐसे बन्धनों में अपने आपको फंसा ले जिसके बाद वह ऊपर से ज़िन्दा तो नज़र आता हो, मगर मक़्सद के लिहाज़ से उसने खुदकशी कर ली हो। दुनिया की नुमाइशी चीज़ों में दिलचस्पी, भौतिक साज़ो-सामान की बहुतायत, सतही कामों में पड़ना, गै़रज़रूरी आदतों में अपने को डालना, घटिया लिट्रेचर पढ़ना—ये चीज़ें आदमी को मक़्सद से दूर कर देती हैं। उसके वक़्त को गै़रज़रूरी चीज़ों में लगा देती हैं। उसके जज़्बात और एहसास को मक़्सद के बारे में कमज़ोर करके दूसरी चीज़ों के बारे में तीव्र कर देती हैं। उसको ऐसे सम्बन्धों और ऐसे तक़ाजों में उलझा देती हैं कि वह न चाहने के बावजूद दूसरी तरफ़ खिंचता चला जाता है। यहां तक कि अपने मक़्सद से दूर हो जाता है।
अगर आपको इस्लाम से लगाव है और आप इसको अपना मक़्सद बना कर इसी के लिए जीना और इसी के लिए मरना चाहते हैं तो आपके लिए ज़रूरी है कि अपनी अमली ज़िन्दगी, अपने ताल्लुक़ात और अपनी रोज़ाना की मसरूफ़ियतों का इसके साथ तालमेल रखें, आप दोनों में कोई विरोधाभास पैदा न होने दें। इस मामले में आपको उस हकीम की तरह बन जाना चाहिए जो अपनी उंगलियों तक की इस हैसियत से हिफ़ाज़त करता है कि वे ऐसे हालात से दो-चार न हों कि वे नब्ज़ देखने की सलाहियत को खो दें। फिर एक मुलसमान का मक़्सद इससे ज़्यादा नाजुक और इससे ज़्यादा मुश्किल है। इसलिए आपको इससे ज़्यादा होशियारी के साथ अपने कामों पर नज़र रखनी चाहिए।
3. तीसरी चीज़ बामक़्सद आदमी को पहचानने की यह है कि उसके अमल में मक़्सद की रूह मौजूद हो। यहां ‘अमल’ से मेरा मतलब आम अमल नहीं है, बल्कि वह अमल है जो मक़्सद के ताल्लुक़ से जाहिर होता है। आप ताज्जुब न करें। मक़्सद से जुड़ा अमल भी कभी बेमक़्सद होता है। ऊपर से देखने में आदमी मक़्सद का सा अमल कर रहा होता है, मगर हक़ीक़त में उसके अमल का मक़्सद से कोई ताल्लुक़ नहीं होता।
एक मिसाल लीजिए। हमारे यहां जो मज़हबी फ़िरक़े हैं उनकी शुरुआत भी अस्ल में एक मक़्सदी गिरोह की हैसियत से हुई थी। वे एक ख़ास मिशन लेकर उठे थे, मगर हर शख़्स जानता है कि आज वे अपनी मक़्सदी हैसियत को खो चुके हैं। वह एक तहरीक के बजाए एक ठोस क़िस्म की रिवायती अंजुमन बन कर रह गए है। इसका मतलब यह नहीं कि उनकी मक़्सदी धारणा उनके ज़ेहन से निकल गई और न ऐसा है कि मक़्सद के लिए काम करना उन्होंने छोड़ दिया है। ये सब चीज़ें आज भी किसी न किसी शक्ल में उनके अन्दर पाई जाती हैं। मगर उनमें अब वह स्प्रिट बाक़ी न रही, जो एक मिशन के अलमबरदार के अन्दर होती है। अब उनका मक़्सद महज़ एक बहस और बातचीत का विषय है, जिस पर वह कभी आपस में, कभी दूसरों से बातें कर लेते हैं। उनके रिसाले और अख़बार निकलते हैं। मगर इन रिसालों और अख़बारों की हैसियत मक़्सदी परचों से ज़्यादा कारोबारी संस्थाओं की है। उनके इज्तिमे और सभा सम्मेलन भी होते हैं, मगर उन इज्तिमों की हैसियत किसी मक़्सदी सरगर्मी की नहीं, बल्कि वह बीते हुए वक़्त की पड़ी हुई एक लकीर है, जिस पर वे रस्मी तौर पर चले जा रहे हैं। उनके जमाअती फंड भी हैं, जिनमें वे अपनी आमदनी का एक हिस्सा देते हैं। मगर यह देना ज़्यादातर एक जमाअती तक़ाज़े के तहत होता है न कि हक़ीक़त में अल्लाह के रास्ते में देने के जज़्बे के तहत। वे अपने ख़्यालात को फैलाने के लिए दौरे और तक़रीरें करते हैं, मगर यह सब किसी मक़्सदी बेताबी का नतीजा नहीं होता, बल्कि या तो सिर्फ़ पारम्परिक अभिरुचि का इज़हार होता है या उसी क़िस्म के जज़्बे के तहत होता है जैसे किसी फर्म की पब्लिसिटी ब्रांच का अफ़सर अपनी ड्यूटी निभाने के लिए किया करता है। वे अपने मख़सूस (आरक्षित) विषयों पर किताबें और पैम्फलेट छापते हैं। मगर इसकी हक़ीक़त इसके सिवा और कुछ नहीं होती कि एक बने हुए हल्के की मांग पूरी कर दी जाए।
वह अमल जो हक़ीक़त में ‘दाईयाना’ जज़्बे के तहत निकलता है और वह अमल जो पारम्परिक तौर पर या महज़ ड्यूटी अंजाम देने के लिए किया जाता है, दोनों में बड़ा फ़र्क है। एक हक़ीक़त है और दूसरा हक़ीक़त की नक़ल। एक जगह बात सिर्फ़ मुंह से निकलती है और दूसरी सूरत में जब आदमी बोलता है तो ऐसा महसूस होता है कि उसने अपने कलाम में अपनी पूरी शख़्सियत को उंडेल दिया है। एक सूरत में आदमी का अमल सिर्फ़ एक लगी-बंधी कार्रवाई नज़र आता है और दूसरी सूरत में उसका अमल उसके बेताब जज़्बात का इज़हार होता है। एक सूरत में आदमी की तमाम ज़िन्दगी उसके मक़्सद में डूबी हुई होती है और दूसरी सूरत में कुछ मक़्सदनुमा हिस्से उसकी ज़िन्दगी के साथ इस तरह इधर-उधर अटके हुए होते हैं जैसे किसी मीनार में आम के कुछ पत्ते।
यह ख़तरा हर उस गिरोह को है जो एक मक़्सद को लेकर उठे और उस पर उसको पच्चीस-पचास साल गुज़र जाएं। लेकिन याद रखिए कोई गिरोह उसी वक़्त तक मक़्सदी गिरोह है जब तक हक़ीक़त में वह मक़्सदी तड़प के तहत काम कर रहा हो। उसके बाद जब उसकी गाड़ी उससे उतर कर पारंपरिक डगर पर चल पड़े, जब उसकी सरगर्मियां बेताब जज़्बात के इज़हार के बजाए घिसी-पिटी कार्रवाई बन कर रह जाएं तो वह तहरीक के बजाए रस्म और जमाअत के बजाए अंजुमन बन जाती है, इसके बाद भी हालंकि वह एक बामक़्सद गिरोह दिखाई देता है। मगर मक़्सदी हैसियत से अब वह मर चुका होता है।
वह बामक़्सद इन्सान नहीं होता बल्कि गुज़रे हुए बामक़्सद इन्सानों की लाश होती है, जो देखने में तो पिछले इन्सान की तरह नज़र आती है, मगर हक़ीक़त में इन्सान नहीं होती। अल्लाह जो चीज़ चाहता है वह कोई रस्मी ढांचा या कोई संगठनात्मक कारगुज़ारी नहीं है। ऐसे ढांचे या कारगुज़ारी का नमूना तो मशीनी इन्सान भी पेश कर सकते हैं। अल्लाह को हमारी ज़िंदा चेतना और हमारे जागे हुए इरादे का नज़राना चाहिए। अल्लाह को हमारे अमल का ‘तक़्वा’ पहुंचता है न कि अमल के ज़ाहिरी हंगामे। अमल के दौरान हम अपनी चेतना को जिस तरह ‘एक्टिव’ करते हैं, हमारी भावना में जो अन्दरुनी हलचल पैदा होती है। अमल करते हुए हमारी रूह को एहसास की जो खुराक मिलती है, वही हमारा अस्ल हासिल है। जब मक़्सदियत ज़िन्दा हो तो आदमी का अमल एक ज़िन्दा अमल होता और जब मक़्सदियत मर जाती है तो अमल एक बेजान कार्रवाई बन कर रह जाता है। आदमी हरकत करता है मगर उसकी रूह पर जड़ता छाई रहती है। आदमी ज़ाहिरी कारनामे दिखाता है मगर आदमी का अन्दरूनी वजूद इस तरह सोया रहता है जैसे उस पर नींद छाई हुई हो। आदमी ऊपर से जिन्दा दिखाई देता है, मगर अन्दर से वह एक मरा हुआ इन्सान होता है।
अब मैं एक आखिरी बात कह कर अपनी बात ख़त्म करूंगा। इस तरह की बातें जब कही जाती हैं तो कुछ लोग जवाब देते हैं, “आपकी बातें तो ठीक हैं, हम खुद भी अपने अन्दर यही चीज़ पैदा करना चाहते हैं। मगर समझ में नहीं आता कि यह चीज़ कैसे पैदा हो?’
वैसे तो यह महज़ एक सवाल है मगर दरअस्ल इसके ज़रिए से अपने इल्ज़ाम को अपने से हटा कर दूसरे के सिर डालने की कोशिश की गई है। मगर सोचिए कि वह ‘दूसरा’ कौन है, जिसके ऊपर आप अपना इल्ज़ाम डालना चाहते हैं। ज़ाहिर है कि वह इस दुनिया का मालिक ख़ुदा है। उसने सारी चीज़ों को बनाया है। इसलिए दूसरे को इल्ज़ाम देने का मतलब यह है कि ख़ुदा ने यह दुनिया इस ढंग से बनाई है कि हम वहां अपने ईमानी तक़ाज़ों को हासिल करना चाहें तो हासिल न कर सकें। ज़ाहिर है कि यह बिल्कुल ग़लत बात है। ख़ुदा इससे पाक है कि उस पर या उसके सृजन पर इस किस्म का इल्ज़ाम लग सके। इसलिए दूसरे पर इल्ज़ाम डाला नहीं जा सकता, वह अपनी तरफ़ ही लौटेगा।
हक़ीक़त यह है कि हमारी अपनी ज़ात के सिवा और कोई नहीं है जो हमारी तरक्की की राह में रुकावट डालने वाला हो। अच्छी तरह समझ लीजिए कि प्रकृति और सच्चाई में टकराव नहीं हो सकता। अगर यह हक़ीक़त है कि हमको ऐसा ही बनना चाहिए तो लाज़िमी तौर पर प्रकृति और जगत को ऐसा ही होना चाहिए कि हम ऐसे बन सकें।
इसलिए हर ख़राबी का कारण अपने अन्दर ढूंढिए, क्योंकि आपके बाहर हक़ीक़त में कोई चीज़ ही नहीं है, जहां ये कारण पाए जा रहे हों।
(आजमगढ़ के एक इज्तिमा में की गई तक़रीर 1963)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
कलिम-ए-इस्लाम की हक़ीक़त इख़्लास और तक़्वा है हज़रत उस्मान बिन अफ्फ़ान कहते हैं कि मैंने रसूलुल्लाह सल्लल्लाह अलैहि वसल्लम को यह कहते सुना कि मैं एक ऐसा कलिमा जानता हूं कि जो बन्दा भी इसको अपने दिल से कहे वह आग पर हराम हो जाएगा। हज़रत उमर फ़ारूक़ ने कहा कि मैं तुमको बताऊं कि वह कलिमा क्या है? वह ‘इख़्लास’ का कलिमा है, जिसको अल्लाह तआला ने मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम और आपके असहाब पर लाज़िम किया था। वह तक़्वा का कलिमा है, जिसकी तल्क़ीन अल्लाह के रसूल सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपने चचा अबू तालिब को मौत के वक़्त की की थी। वह इस बात की गवाही देना है कि अल्लाह के सिवा कोई मा’बूद नहीं।
मेहनत की कमाई सबसे बेहतर
रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से किसी ने पूछा, “ऐ ख़ुदा के रसूल, सबसे बेहतर कमाई कौन-सी है? आपने जवाब दिया, “हाथ की कमाई”।