تزکیۂ نفس (Tazkiya-e-Nafs)
تزکیۂ نفس
ربّانی اصولوں پر انسانی شخصیت کی تعمیر
مولانا وحید الدین خاں
Contents
تزکیہ اسلام میں
قرآن میں پیغمبر کے چار کام بتائے گئے ہیں، اُن میں سے ایک کام تزکیہ نفس ہے (2: 129)۔ اس سے تزکیہ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس کو اپنی زندگی میں خصوصی حیثیت دیں۔ اِسی طرح داعی اور مصلح کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جدوجہد میں تزکیہ کے عمل کو خصوصی اہمیت کے ساتھ شامل کرے۔
تزکیہ کے معنی تطہیر (purification) کے ہیں، یعنی پاک کرنا، نفس کی ترغیبات اور شیطان کے وساوس سے اپنے آپ کو بچانا، لوگوں کی طرف سے پیش آنے والے ناخوش گوار تجربات کے موقع پر اپنے آپ کو منفی رد عمل سے محفوظ رکھنا، اُن محرکات سے غیر متاثر رہ کر زندگی گزارنا جو آدمی کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے والے ہیں، وغیرہ۔
اصل یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے، مگر دنیا کی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ مختلف خارجی اسباب کے تحت اِس صحیح فطرت پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے خارجی اثرات کو پہچانے اور اپنے آپ کو مسلسل طورپر اُس سے بچاتا رہے۔
پیغمبر کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اِس تزکیہ کے اصول سے باخبر کرے، وہ اِس اعتبار سے مسلسل طورپر لوگوں کی رہنمائی کرے۔ اِسی کے ساتھ وہ اِس پہلو سے لوگوں کے لیے ایک عملی نمونہ بن جائے۔
پیغمبر نے تزکیہ کے اِس کام کو اپنے معاصرین کے درمیان براہِ راست طورپر انجام دیا۔ بعد کی نسلوں کے لیے پیغمبر کا یہ کام بالواسطہ انداز میں جاری ہے۔ پیغمبر کے قول وعمل کا مکمل ریکارڈ حدیث اور سیرت کی کتابوں نیز آثارِ صحابہ میں موجود ہے۔ بعد کے لوگوں کا کام یہ ہے کہ وہ اِس تحریری ریکارڈ کو پڑھ کر اُس سے رہنمائی حاصل کریں۔ جو لوگ خود مطالعہ کرسکتے ہیں، وہ براہِ راست طورپر اس کا مطالعہ کریں اور جو لوگ خود مطالعہ نہیں کرسکتے، اُن کو مصلحین ِ امت نصیحت اور تلقین کے ذریعے تزکیہ کے اِس کورس کو اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی ترغیب دیتے رہیں۔
تزکیہ کی حقیقت
پیغمبر کے فرائض میں سے ایک فریضہ وہ ہے جس کے لیے قرآن میں تزکیہ (2: 129) کا لفظ آیا ہے۔ ہر مومن کی یہ لازمی ضرورت ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کرے۔ تزکیہ کے بغیر وہ اعلیٰ شخصیت نہیں بنتی جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (3: 79) کہا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ہی کسی انسان کے لیے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گا (20: 76)۔
تزکیہ کا لفظی مطلب نمو یا افزائش (growth) ہے۔ اِس نمو کی ایک مادّی مثال درخت ہے۔ درخت ایک بیج کی نمو پذیری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک بیج موافق ماحول پاکر بڑھنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک ہرا بھرا درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی تزکیہ کا بھی ہے۔ اِس اعتبار سے،تزکیہ کو روحانی ارتقا یا ذہنی ارتقا (intellectual development) بھی کہا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سے امکانات (potentials) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انسانی شخصیت کے اِن امکانات کو واقعہ(actual) بنانے کا نام تزکیہ ہے۔ اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ تزکیہ کا مطلب ہے — ربانی بنیادوں پر انسانی شخصیت کی تعمیر ۔
آدمی جب ایمان لاتا ہے تو وہ دراصل تزکیہ کے سفر کا آغاز کرتا ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہ ایک مُزکیّٰ انسان، یا ذہنی اور روحانی اعتبار سے ایک ارتقا یافتہ شخصیت (developed personality) بن جاتا ہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو آخرت کی ابدی جنت (eternal paradise)میں داخلہ ملے گا۔
تزکیہ کسی پُراسرار چیزکا نام نہیں۔ تزکیہ کا ذریعہ مراقبہ (meditation)نہیں ہے،بلکہ تزکیہ کا ذریعہ غوروفکر (contemplation) ہے۔ اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں غور وفکر کرنا اور اُن سے معرفت کا ذہنی یا فکری رزق حاصل کرنا، یہی وہ عمل (process) ہے جس سے آدمی کے اندر مزکّٰی شخصیت بنتی ہے۔ تزکیہ ایک معلوم حقیقت ہے، نہ کہ کوئی مجہول حقیقت۔ یہ تزکیہ انسان کی اپنی کوشش سے حاصل ہوتا ہے، کسی مفروضہ بزرگ کے پُراسرار فیض سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
تزکیہ کی اہمیت
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں:إذا دخل أہل الجنۃ الجنۃَ، وأہل النار النارَ، یُجاء بالموت یوم القیامۃ کأنہ کبش أملح، فیوقف بین الجنۃ والنار، فیقال: یا أہل الجنۃ، ہل تعرفون ہٰذا، فیشرئبون وینظرون ویقولون نعم، ہٰذا الموت۔ قال:ثم یُقال: یا أہل النار، ہل تعرفون ہذا، فیشرئبون وینظرون ویقولون نعم، ہذا الموت۔ قال : فیؤمربہ فیُذبح، ثم یقال:یا أہلَ الجنۃ، خلود فلا موتَ، ویا أہل النار خلود فلا موت)صحیح مسلم، رقم الحدیث (2849 ۔
یعنی قیامت میں جب جنت والے جنت میں داخل ہوجائیں گے اور جہنم والے جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو وہاں موت کو لایا جائے گا۔ وہ ایک سفید مینڈھے کی صورت میں ہوگی۔ اس کو جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اے جنت والو، کیا تم لوگ اس کو پہچانتے ہو، پھر وہ اس کو گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہاں، یہ موت ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اِس کے بعد جہنم والوں سے کہا جائے گا کہ اے جہنم والو، کیا تم لوگ اِس کو پہچانتے ہو، پھر وہ سر اٹھا کر اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہاں، یہ موت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد حکم دیا جائے گا اور موت کو ذبح کردیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اے جنت والو، اب تمھارے لیے ہمیشگی ہے، اب تمھارے لیے موت نہیں۔ اور اے جہنم والو، اب تمھارے لیے ہمیشگی ہے، اب تمھارے لیے موت نہیں۔
تزکیہ کیا ہے، تزکیہ کا مطلب ہے اپنے آپ کو وہ مزکیّٰ شخصیت (purified personality) بنانا جو جنت کے اعلیٰ ماحول میں بسائے جانے کے قابل ہو۔ قیامت میں یہ واقعہ پیش آئے گا کہ جب مزکیّٰ افراد جنت میں اور غیرمزکیّٰ افراد جہنم میں داخل کردئے جائیں گے تو اس کے بعد یہ اعلان کیا جائے گا کہ اب موت کا قانون ختم کردیا گیا ہے، اب دونوں گروہوں کو ابدی طور پر اپنی اپنی دنیا میں رہنا ہے۔
یہ بڑا عجیب لمحہ ہوگا۔ جنت والے مسرور ہوں گے کہ انھیں ابدی طورپر خوشیوں کی دنیا حاصل ہوگئی۔ دوسری طرف، جہنم والے ناقابلِ بیان حسرت میں مبتلا ہوجائیں گے۔ یہ سوچ ان کے لیے ایک دائمی عذاب بن جائے گی کہ اپنا تزکیہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ کتنی بڑی محرومی میں مبتلا ہوگئے۔
یہ احساس تزکیہ کے عمل کے لیے بلا شبہہ ایک طاقت ور محرک ہے۔ اُس وقت یہ آخری امید بھی ان کا ساتھ چھوڑ دے گی کہ شاید کبھی ہماری موت آجائے اور وہ ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے دے۔ یہ اہلِ جنت کے لیے ابدی فرحت کا لمحہ ہوگا، اور اہلِ جہنم کے لیے ابدی حسرت کا لمحہ۔
جنت مزکیّٰ شخصیت کے لیے
قرآن کی سورہ طہٰ میں جنت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ—ذلک جزاء من تزکیّٰ (20: 76) یعنی جنت اُس شخص کے لیے ہے جو اپنا تزکیہ کرے:
Paradise is for one who purifies himself.
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، جنت صرف اُس شخص کے لیے ہے جو موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ کرے اور ایک مزکیّٰ شخصیت کے ساتھ آخرت کی دنیا میں پہنچے۔ یہ حقیقت قرآن کی مختلف آیتوں میں واضح طورپر بیان کی گئی ہے۔ جنت میں داخلے کا فیصلہ انفرادی صفت کی بنیاد پر کیاجائے گا، نہ کہ گروہی تعلق کی بنیاد پر۔
جنت اُس شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو پاک کرے۔ پاک کرنا یہ ہے کہ آدمی غفلت کی زندگی کو ترک کرے اور شعور کی زندگی کو اپنائے، وہ اپنے آپ کو اُن چیزوں سے بچائے جو حق سے روکنے والی ہیں، مصلحت کی رکاوٹ سامنے آئے تو وہ اُس کو نظر انداز کردے، نفس کی خواہش ابھرے تو وہ اس کو کچل دے، ظلم اور گھمنڈ کی نفسیات جاگے تو وہ اُس کو اپنے اندر ہی اندر دفن کردے، وغیرہ۔
تزکیہ کا مطلب ہے — کسی چیز کو غیر موافق عناصر سے پاک کردینا، تاکہ وہ موافق فضا میں اپنے فطری کمال کو پہنچ سکے۔ پیغمبر کا ایک اہم کام تزکیہ ہے۔
پیغمبر کی آخری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے انسان تیار ہوں جن کے سینے اللہ کی محبت کے سوا ہر محبت سے خالی ہوں، ایسی روحیں وجود میں آئیں جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہوں، ایسے افراد پیدا ہوں جو کائنات سے وہ ربانی رزق پاسکیں جو اللہ نے اپنے مومن بندوں کے لیے رکھ دیا ہے۔
جنت کا معاملہ تزکیہ سے جڑا ہوا ہے۔ تزکیہ ہی جنت میں داخلہ کی واحد شرط ہے۔ تزکیہ کے بغیر ہر گز کسی شخص کو جنت میں داخلہ ملنے والا نہیں۔
حدیث تزکیہ کا ذریعہ
ایک عالم نے کہا ہے:مَن کان فی بیتہ مجموعۃ من الأحادیث، فکأنما فیہ نبیٌ یتکلم (جس آدمی کے گھر میں حدیثِ رسول کا ایک مجموعہ ہو، گویاکہ اس کے گھر میں خود پیغمبر کلام کرتا ہوا موجود ہے)۔ مذکورہ عالم نے جو بات کہی، وہ صرف کلامِ رسول کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ توسیعی اعتبار سے وہ گویا صحبتِ رسول کے معنی میں بھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اقوال حدیث کی کتابوں میں آئے ہیں، وہ مجرد اقوال نہیں ہیں، بلکہ ہر قول کا ایک پس منظر (background)ہے، یعنی رسول اللہ کسی مقام پر تھے، وہاں ایک صورتِ حال پیدا ہوئی، اس صورتِ حال کے تقاضے کے طور پر آپ نے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے کلام کیا۔اِس طرح آپ کا ہر قول کسی نہ کسی پس منظر سے جڑا ہوا ہے۔ آپ کا ہر قول کسی نہ کسی صورتِ حال کو بتاتا ہے۔
اگر آدمی اپنے شعورِ حدیث کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ حدیث کے ساتھ اس کے بیک گراؤنڈ کو اپنے تصور میں لاسکے، تویہ واقعہ اس کے لیے گویا صحبتِ رسول میں پہنچنے کے ہم معنیٰ بن جائے گا۔ وہ محسوس کرے گا کہ میںنہ صرف کلامِ رسول کو کتاب میں پڑھ رہا ہوں، بلکہ کلام کے بین السطور (between the lines) میں اس کے بیک گراؤنڈ کو بھی اپنے ذہن میں تازہ کر رہا ہوں۔ یہ احساس اگر آدمی کے اندر شدت کے ساتھ ابھر آئے تو مطالعۂ حدیث اس کے لیے صحبتِ رسول میں بیٹھنے کے مانند ہو جائے گا۔اِس طرح حدیث کے بارے میں اس کا تاثر ہزار گنا زیادہ بڑھ جائے گا۔
اِس پہلو سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ حدیث کو پڑھنے والا صرف حدیث کو پڑھنے والا نہیں ہے، بلکہ وہ گویا صحابہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والا ہے۔ حدیث کے مطالعے کا یہ ایک تخلیقی (creative) اسلوب ہے، اور تخلیقی اسلوب میں حدیثِ رسول کا مطالعہ بلا شبہہ تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
تزکیہ ایک مسلسل عمل
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتی ہیں:کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ علی کلّ أحیانہ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز) یعنی رسول اللہ ﷺ ہر موقع (occasion) پر اللہ کو یاد کرتے تھے۔اِس روایت سے تزکیہ کا مسنون طریقہ معلوم ہوتا ہے۔معمولی لفظی فرق کے ساتھ، اِس روایت کا مطلب یہ ہے : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزکّي نفسَہ علی کلّ أحیانہ ( رسول اللہ ہر موقع پر اپنا تزکیہ کرتے تھے)۔
اِس سے معلوم ہوا کہ تزکیہ کسی وقتی تربیتی کورس کا نام نہیں، تزکیہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ جب ایک مومن سچائی کو دریافت کرتا ہے، تو شعوری بیداری کی بنا پر اُس کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ ہر واقعہ اور تجربہ اس کے لیے تزکیہ کا پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بن جاتا ہے۔ اِس طرح وہ ہر لمحہ اور ہر صبح وشام تزکیہ کی خوراک حاصل کرتا رہتاہے۔
تزکیہ کا یہ عمل تادمِ مرگ جاری رہتا ہے۔ جس طرح جسمانی توانائی مسلسل تغذیہ کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اسی طرح تزکیہ ایک مسلسل عمل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وقتی نوعیت کا تربیتی کورس (training course) تزکیہ کا ذریعہ ہے، یعنی جس طرح مدرسے میںایک متعین اور محدود کورس کے ذریعے دینی تعلیم حاصل کی جاتی ہے، اُسی طرح تزکیہ بھی ایک محدود مدت میں ایک متعین کورس کے ذریعے حاصل ہوتاہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تزکیہ کی تصغیر (underestimation) ہے۔
تزکیہ ایک مسلسل ذہنی عمل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ کسی قسم کے وقتی کورس کے ذریعے۔ تزکیہ کے لیے ایک بیدار ذہن (awakened mind) درکار ہے۔ تزکیہ ایک اضافہ پذیر عمل ہے، وہ کسی جامد قسم کی مشق (excercise) کا نتیجہ نہیں۔
ڈی کنڈیشننگ کا عمل
تزکیہ ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ ہر صبح و شام جاری رہتا ہے۔ اِس معاملے کو حدیث میں ایک مثال کے ذریعے اِس طرح بتایا گیا ہے:إنّ ہٰذہ القلوبَ تصدأ کما یصدأ الحدید إذا أصابہ الماء۔ قیل:یا رسول اللہ، وما جِلاؤہا۔ قال:کثرۃ ذکر الموت، وتلاوۃُ القرآن )البیہقی، بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث (2168۔یعنی دلوں میں زنگ لگتا ہے، جیسے کہ لوہے میں زنگ لگتا ہے جب کہ اس پر پانی پڑ جائے۔ پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، اس کو صاف کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ موت کو بہت زیادہ یاد کرنا اور قرآن کا مطالعہ کرنا۔
اِس حدیثِ رسول میں تمثیل کے ذریعے ایک نفسیاتی حقیقت کو بتایا گیا ہے، وہ یہ کہ سماج کے اندر رہتے ہوئے انسان بار بار ایسے حالات سے گزرتا ہے جو اُس کے اندر منفی جذبات پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً غصہ، نفرت، تشدد، انتقام، وغیرہ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اِن جذبات کو فوراً ختم کرے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ منفی جذبات انسانی ذہن کا مستقل حصہ بن جائیں گے، یہاں تک کہ اُن کو دور کرنا عملاً ناممکن ہوجائے گا۔
انسانی دماغ کے دو بڑے حصے ہیں — شعور (conscious mind) ، اور لاشعور (unconscious mind) ۔فطری نظام کے تحت، کوئی منفی احساس پہلے ذہن کے شعوری حصے میں داخل ہوتاہے۔ اگر اس کو فوراً ذہن سے نکالا نہ جائے تو وہ دھیرے دھیرے ذہن کے لاشعوری حصہ میں پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اس کو نکالنا سخت مشکل ہوجاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنا نگراں بنا رہے، وہ ہر لمحہ اپنے منفی احساس کو پراسس (process)کرکے مثبت احساس میں تبدیل کرتا رہے، یعنی وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرے، وہ اپنے ذہن کی تطہیر کرکے اس کی آلودگی کو ختم کرتا رہے۔ اِس تطہیر یا ڈی کنڈیشننگ کا ذریعہ ہے — اپنی موت کو بار بار یاد کرنا اور قرآن کی روشنی میں زندگی کے انجام پر غوروفکر کرتے رہنا۔
تزکیہ:روحانی خوراک
جسم کی ایک خوراک ہے۔ یہ خوراک جسم کو پہنچائی جائے تو جسم صحت مند ہوجائے گا۔ اِسی طرح روح کی ایک خوراک ہے۔ یہ خوراک جب روح کو پہنچائی جاتی ہے تو روح صحت مند ہو جاتی ہے۔ اِسی عمل کا نام تزکیۂ نفس ہے اور اِسی صحت مند روح کو مصفّیٰ اور مزکیّٰ روح کہا جاتا ہے۔
قرآن کے مطابق، روح کی یہ خوراک تفکیر (3: 191) ہے۔ آدمی کے اردگرد ہر وقت کچھ واقعات پیش آرہے ہیں۔ سماجی، تاریخی، کائناتی، ہر سطح پر اور ہر آن ان واقعات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ اِن واقعات کو لے کر سوچنا اور اُن سے عبرت اور نصیحت لینا، یہی روح کی خوراک ہے۔
جو شخص اپنے شعور کو اتنا ترقی دے کہ اُس کو گرد وپیش کے واقعات میں خدائی کرشمے دکھائی دیں، جو اُس کے لیے خدا کو یاد دلانے کا ذریعہ بن جائیں تو ایسے شخص نے گویااپنی روح کے لیے رزقِ ربانی کا ایک دسترخوان حاصل کرلیا۔ اس کی روح اِس دستر خوان سے اپنی صحت مندی کی خوراک حاصل کرتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے جاملے۔
تزکیہ کا اہم ترین ذریعہ یہ ہے کہ اپنے اندر عبرت پذیری کے مزاج کو جگایا جائے۔ عبرت پذیری گویا تزکیہ کی زمین ہے۔ یہی وہ زمین ہے جس پر تزکیہ کی فصل اگتی ہے۔ کسی اور جگہ اس کو اگانا ایسا ہی ہے جیسے پتھر کی چٹان پر ایک ہرا بھرا درخت اگانے کی کوشش کرنا۔
تزکیہ کا ذریعہ رزقِ رب ہے، نہ کہ رزقِ شیخ۔ تزکیہ اُس عمل کا نتیجہ ہے جو بندہ اور خدا کے درمیان نفسیاتی تعلق کے ذریعے براہِ راست قائم ہوتا ہے، تزکیہ کسی واسطے کے ذریعے نہیں ملتا۔ تزکیہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی عطیہ ہے، نہ کہ ایک انسانی عطیہ۔
تزکیہ وہ نعمت ہے جو کسی انسان کو براہِ راست خدا سے ملتی ہے۔ کسی انسان کے واسطے سے جو تزکیہ ملے، وہ کچھ اور ہوسکتا ہے، لیکن وہ تزکیہ نہیں ہوسکتا۔
عبادت میں اجتہاد نہیں
ایک عالم ایک مشہور صوفی بزرگ کی خانقاہ میں گئے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ لوگ ذکر بالجہر اور دوسرے متصوفانہ اعمال میں مشغول ہیں۔ مذکورہ عالم نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے:مَن أحدث فی أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد)صحیح البخاری، رقم الحدیث (2697 ۔
یعنی جوشخص ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالے، جو اس میں نہ ہو، تو وہ قابلِ رد ہے۔ عالم نے کہا کہ یہ متصوفانہ اعمال جو آپ کے یہاں رائج ہیں، وہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں نہیں تھے، اِس لیے وہ اِحداث(innovation) کا درجہ رکھتے ہیں۔ مذکورہ بزرگ نے جواب دیا کہ حدیث میں ’’إحداث فی الأمر‘‘ (دین میں بدعت) کی ممانعت ہے، اُس میں ’’إحداث للأمر‘‘ (دین کے لیے بدعت) کی ممانعت نہیں ہے اور تصوف کے یہ طریقے احداث للامر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مذکورہ حدیثِ رسول کی یہ توجیہہ غیر علمی توجیہہ ہے، وہ حدیث کے الفاظ سے ہر گز نہیں نکلتی۔ حدیث میں یہ لفظ آیا ہے کہ—ما لیس منہ (جو اُس میں نہ ہو)، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین چھوڑا ہے، اُس دین میں وہ موجود نہ ہو۔
ایسی حالت میں اصل مسئلہ فی یا لام کے صلہ (preposition) کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دین ہم کو ملا ہے، اس میں بعد کا یہ اضافہ موجودتھا یا موجود نہیں تھا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ذکر بالجہر جیسی چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوڑے ہوئے دین میں موجود نہیں، اور جب وہ رسول اللہ کے چھوڑے ہوئے دین میں موجود نہیں ہیں، تو فی اور لام جیسے نکتوں کے ذریعے اس کو دینِ محمدی میں شامل کرنا، صرف ایک مبتدعانہ جسارت ہے۔ اِس قسم کا نکتہ ایسے اضافوں کے لیے کوئی قابلِ قبول وجہِ جواز نہیں۔
علماء کا اتفاقی مسلک ہے کہ — عبادت میں قیاس نہیں (لا قیاسَ في العبادات)، یعنی تعبّدی امور میں صرف تقلید ہے، اس میں کوئی اجتہاد نہیں۔ تعبدی امور میں کوئی استدلال صرف صریح نص پر قائم ہوسکتا ہے، اُس کو لفظی نکتوں کی بنیاد پر قائم نہیں کیا جاسکتا۔ تعبدی امور میں لفظی نکتوں کی بنیاد پر اجتہاد کرنا عقلی اعتبار سے غیرعلمی ہے اور دینی اعتبار سے ناقابلِ قبول جسارت۔
تزکیہ ہر وقت
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تزکیہ کا ایک وقتی کورس ہے، یا کچھ اَذکار و اَوراد ہیں جن کو متعین اوقات میں پڑھ لیا جائے، مگر یہ تزکیہ کا رسمی یا غیر فطری طریقہ ہے اور کوئی بھی چیز اِس طرح کے وقتی طریقوں کے ذریعے حاصل نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح آدمی ہر وقت سانس لیتا ہے، سانس لینے کا کوئی وقتی طریقہ نہیں، اسی طرح تزکیہ بھی ایک مسلسل عمل ہے۔ حقیقی تزکیہ صرف وہی ہے جو ہر وقت جاری رہے۔ مثال کے طورپر ایک فارسی شاعر کا شعر ہے کہ — مجھ غریب کی قبر پرنہ کوئی چراغ ہے اور نہ کوئی پھول، اِس لیے میری قبر پر نہ پروانہ رقص کرتا اور نہ کسی بلبل کے چہکنے کی آواز آتی:
برمزارِ ما غریباں، نے چراغے، نے گُلے نے پرِپروانہ رقصد، نے صدائے بلبلے
یہ شعر آپ کو یاد آیا تو آپ سوچنے لگے کہ شاعر کتنی زیادہ بڑی بھول میں مبتلا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر کوئی چر اغ اور کوئی پھول نہیں، اس لیے وہاں نہ کوئی پروانہ آتا اور نہ کوئی بلبل۔ حالاں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی ایک اور دنیا میں پہنچ گیا، جہاں کے تقاضے موجودہ دنیا سے مختلف ہیں، جہاں کامیابی کے لیے اُس سے مختلف ایک اور اہلیت (ability) درکار ہے جو موجودہ دنیا میں اس کے کام آرہی تھی۔ مزید یہ کہ اگلی دنیا میں دوبارہ تیاری کا موقع نہیں۔ اگلی دنیا میں صرف آج کے عمل کا انجام پانا ہے، نہ کہ دوبارہ کوئی عمل کرنا۔
اِس سوچ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو شعر صرف مشاعرے کا ایک آئٹم تھا، وہ آدمی کی زندگی کے لیے ایک بھونچال بن جائے گا۔ وہ اِس تیاری میں لگ جائے گا کہ وہ اپنے اندر ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کرے جو موت کے بعد آنے والے مرحلۂ حیات میں اس کے کام آئے، جو آخرت کی دنیا میں اس کو کامیابی دلانے والی ہو۔ یہ سوچ کر وہ خود اپنے آپ پر گزرنے والے احوال کے بارے میں سوچنے لگے گا، نہ کہ قبر پر گزرنے والے احوال کے بارے میں۔
غلطی کے بعد محاسبہ
تزکیہ کا ایک بہت بڑا ذریعہ محاسبہ (introspection) ہے۔ محاسبہ کے ذریعے آدمی کا ذہن بیدار ہوتاہے، اس کی شخصیت میں ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ اس کے اندر اپنی اصلاح کا داعیہ (incentive) جاگتا ہے۔ اِس طرح محاسبہ آدمی کو ذہنی اور روحانی ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔
مثال کے طورپر ایک شخص نے آپ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہہ دی جو آپ کو ناگوار ہوئی۔ آپ کے جذبات بھڑک اٹھے، آپ نے منفی رد عمل کے انداز میں اس کا جواب دیا۔ بعد کو آپ کے اندر ندامت (repentance) پیدا ہوئی۔ آپ نے اپنی روش پر نظر ثانی کی۔ آپ نے سوچا کہ اِس طرح میں اپنے اندر ایک منفی شخصیت بنا رہا ہوں۔ ایسی منفی شخصیت موت کے بعد کی زندگی میں میرے لیے سخت تباہ کن ثابت ہوگی، ایسی منفی شخصیت مجھ کو جنت میں داخلے کے لیے نا اہل بنادے گی۔
آپ نے سوچا کہ قرآن کے مطابق، جنت والوں کا کلچر امن کلچر ہوگا۔ وہاں ایسے لوگ آباد کئے جائیں گے جو باہمی زندگی میں امن اور محبت کے ساتھ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسی حالت میں اگر میں نے اپنے اندر ایسی شخصیت بنائی جس کے اندر ٹالرنس (tolerance)نہ ہو، جو مشتعل ہوجانے والی ہو، جس کے اندر دوستانہ روش (friendly-behaviour) کی صلاحیت نہ پائی جاتی ہو، ایسا شخص جنت میں داخلے کے لیے نا اہل قرار پائے گا، وہ ابدی طورپر مسرت اور کامیابی سے محروم رہے گا۔یہ سوچ آپ کے لیے ایک تعمیری دھماکہ ثابت ہوگی۔ آپ خود اپنے نگراں بن جائیں گے۔ آپ کے اندر اپنی اصلاح کا شدید جذبہ پیدا ہوجائے گا۔
خود احتسابی کا یہی مزاج تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تزکیہ ہمیشہ داخلی سوچ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، نہ کہ خارجی نوعیت کی کسی کارروائی کے ذریعے۔ تزکیہ وہ عمل ہے جس میںآدمی خود اپنا مُزکّی ہوتا ہے، وہ خود ہی طالب علم ہوتا ہے اور خود ہی اپنا استاد بھی۔
مبنی بر قلب، مبنی بردماغ
قرآن کی سورہ آل عمران کے آخری رکوع کو پڑھیے۔ اِس رکوع میںاولو الالباب (اہل عقل) کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے زمین و آسمان (کائنات) پر غور کرو۔ اس میں تم اللہ کی نشانیاں دیکھو گے۔ اس کے ذریعہ تم اپنے رب کو پہچانوگے۔ اس کے ذریعہ تم کو خداکے تخلیقی منصوبہ کا علم حاصل ہوگا۔ اس کے ذریعہ تم جنت اور جہنم کو دریافت کروگے۔ اس کے ذریعہ تم کو پیغمبر کی اہمیت معلوم ہوگی۔ غرض وہ تمام چیزیں جس کا تعلق براہِ راست یا بالواسطہ طور پر تزکیہ سے ہے، اُن سب کو اس رکوع میں کائناتی تفکرسے وابستہ کیاگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کا تزکیہ مبنی برعقل تزکیہ ہے، نہ کہ مبنی بر قلب تزکیہ۔اِس سلسلے میں ’’قلب‘‘ کا لفظ قرآن اور حدیث میں لٹریری معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، نہ کہ سائنسی معنوں میں۔
بعد کے زمانے میں، صوفیا کے اثر سے مسلمانوں میں مبنی بر قلب تزکیہ کا تصور رائج ہوگیا۔ اس تصور کے تحت یہ سمجھ لیا گیا کہ انسان کا قلب تمام ربانی حقیقتوں کا خزانہ ہے۔ مراقبہ (meditation) کے ذریعہ اس خزانہ تک پہنچو، اور پھر تم کو وہ چیز حاصل ہوجائے گی جس کو اسلام میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ مگر مبنی بر قلب (heart-based) تزکیہ کا یہ تصور قرآن سے ماخوذ نہ تھا، بلکہ اس کا ماخذ تاریخ تھا۔ قدیم زمانے سے چوںکہ مبنی برقلب روحانیت (heart-based spirituality)کا تصور لوگوں کے درمیان چلا آرہا تھا، اس کے زیر اثر مضاہات (9:30) کے طور پر لوگوں نے اس کو اسلام میں داخل کردیا۔
جدید سائنس نے وہ علمی بنیاد فراہم کردی ہے جس کے تحت اسلامی تزکیہ کو دوبارہ مبنی بر دماغ تزکیہ کے طورپر زندہ کیا جائے۔جدیدتحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کا قلب خون کی گردش (circulation of blood) کے لیے صرف ایک پمپ (pump) کا کام کرتا ہے، قلب کے اندر سوچنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ سوچنے کی صلاحیت تمام تر صرف دماغ میں ہے۔ انسان کی زندگی کے تمام افعال سوچنے کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں۔ تزکیہ کا معاملہ کوئی مستثنیٰ معاملہ نہیں۔ تزکیہ کا مقصد بھی دماغ کی سطح پر سوچنے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ قلب پر مفروضہ توجہ دینے سے۔ قلب پر توجہ دینا، اتنا ہی زیادہ بے بنیاد ہے، جتنا کہ حصولِ تزکیہ کے لیے ناخن یا بال پر توجہ دینا۔
رہنما کی ضرورت
تزکیہ کا ذریعہ اصولاً یہ ہے کہ آدمی قرآن میں غور کرے، وہ حدیث کا مطالعہ کرے، وہ اصحابِ رسول کی زندگیوں سے رہنمائی حاصل کرے۔ یہ تزکیہ کا اصولی ماخذ ہے۔ اس کی یہ حیثیت ابدی طورپر باقی رہے گی۔ اس کے علاوہ، تزکیہ کے حصول کی ایک عملی شرط بھی ہے، اور وہ ہے اپنے زمانے کے کسی رہنما یا مرشد کو تلاش کرنا اور اس کے علم اور اس کے تجربے سے فائدہ اٹھانا۔ آدمی کو جب کوئی مرشد مل جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ بلا شرط اس کو اپنا مرشد بنالے۔ مرشد کو مشروط طورپر ماننا تزکیہ کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے، نہ کہ مددگار۔
جب ایک شخص یہ کہے کہ میں نے فلاں انسان کو اپنا غیرمشروط رہنما مان لیا، تو اِس کا مطلب اندھا مقلد بننا نہیں ہوتا، اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ شعوری ارتقا کے نتیجے میں دو انسانوں کا ویو لینتھ (wavelength) ایک ہوگیا۔ یہ ذہنی ہم آہنگی کا واقعہ ہے، نہ کہ ذہنی تقلید کا واقعہ۔
اصل یہ ہے کہ حقیقتِ نفس الامری میں تعدّد نہیںہوتا، اِس لیے جب دو انسان اصل حقیقت تک پہنچ جائیں تو فطری طورپر ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے فکری تَواَم (intellectual twin) بن جاتے ہیں۔
تزکیہ کے لیے رہنما یا مرشد لازمی طورپر ضروری ہے، لیکن مرشد کی اہمیت عملی ہے، نہ کہ اعتقادی۔مرشد کی اہمیت دراصل ایک عمومی سنت اللہ کے تحت ہے۔ اِس سنت اللہ کو سورہ الزخرف کی ایک آیت میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے:ورفعنا بعضَہم فوق بعض درجات، لیتخذ بعضُہم بعضاً سُخریًّا (43: 32) یعنی ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے، تا کہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔
اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی یہ سنت نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کو قائدانہ صفات کے ساتھ پیدا کرے۔ خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ ایک شخص کو قائد بناتا ہے اور دوسروں سے یہ مطلوب ہوتا ہے کہ وہ اس کی پیروی کریں۔ خدا کی سنت کے مطابق، یہی زندگی کا فطری نظام ہے۔
مرشد کا معاملہ بھی اِسی سنت اللہ کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ خصوصی اہتمام کے ذریعے کسی کو مرشد کے مقام پر کھڑا کرتا ہے۔ دوسروں کا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو پہچانیں اور اُس سے استفادہ کرتے ہوئے تزکیہ کا مقصد حاصل کریں۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ گویا کہ فطرت کی ایک آزمائش میں ناکام ہوگئے۔
مرشد کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں۔ یہ ایک معلوم عقلی معاملہ ہے۔ غوروفکر کے ذریعے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مرشد سے جو چیز ملتی ہے، وہ پراسرار ’’فیض‘‘ نہیں ہے، وہ وہی چیز ہے جس کو عام طورپر تربیتی استفادہ کہاجاتا ہے۔ مرشد ایک زندہ رہنما ہوتا ہے، نہ کہ پراسرار طورپر کوئی مقدس شخصیت۔
تزکیہ کے لیے ربط کی اہمیت
تزکیہ لیے صحبت (companionship) ایک مددگار ذریعہ ہے۔ قدیم زمانے میں صحبت کا ذریعہ صرف ایک تھا، اور وہ ہے براہِ راست ملاقات۔ موجودہ زمانہ مواصلات (communication) کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کوئی شخص دور رہتے ہوئے بھی اپنے مزکی یا مربی سے صحبت کا فائدہ حاصل کرسکے۔
اِس ربط کا ذریعہ خط وکتاب اور انٹرنیٹ اور ٹیلی فون، وغیرہ ہیں۔ اِسی کا ایک ذریعہ ٹیلی کاؤنسلنگ (tele-counselling) بھی ہے۔ اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں تزکیہ کا طالب ہو تو یہ چیزیں اس کے لیے صحبت کا بدل بن جائیں گی۔
اِنھیں جدید ذرائع میں سے ایک پرنٹنگ پریس ہے۔ پرنٹنگ پریس نے اِس کو ممکن بنادیا ہے کہ ماہانہ یا غیر ماہانہ میگزین کے ذریعے مسلسل طور پر تزکیہ کا مواد حاصل کیا جاتا رہے۔ موضوع سے متعلق مطبوعہ کتابوں کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔ اِس طریقے کی اہمیت خود قرآن سے معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:علّم بالقلم (96: 4) یعنی قلم کے ذریعہ لکھی ہوئی کتابوں سے دین کو اخذ کرنا۔
مطالعہ کی اہمیت ایک پہلو سے، صحبت سے بھی زیادہ ہے۔ صحبت میں آدمی کسی بات کو اپنے مرشد سے ایک بار سنتا ہے، لیکن کتاب کی صورت میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ بار بار اس کا مطالعہ کرے، وہ بار بار اس کو سامنے رکھتے ہوئے اُس پر غور وفکر کرے، وہ اس کو لے کر دوسروں سے اُس پر مذاکرہ (exchange) کرے۔ یہ ایک ایسا فائدہ ہے جو صرف کتابوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
تزکیہ کے لیے رابطہ انتہائی حد تک ضروری ہے، یعنی مرشد سے مسلسل طورپر استفادہ کرتے رہنا، اپنے مسائل مرشد کو بتا کر اُس سے رہنمائی حاصل کرنا۔ یہ ربط براہِ راست صحبت کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے اور مواصلات کے ذریعے بھی۔ یہ ربط مسلسل طورپر مطلوب ہے۔ وقتی ربط سے تزکیہ کا فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔
واسطہ کے بغیر
شعوری یا غیر شعوری طور پر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ تزکیہ کے لیے ایک پر اسرار واسطہ یا وسیلہ درکار ہے— اسلاف کا واسطہ، اکابر کا واسطہ، شیخ کا واسطہ،بزرگوں کا واسطہ اہل اللہ کا واسطہ، وغیرہ۔ واسطے کے اِس پراسرار تصور میں شیخ بذاتِ خود مطلوب بن جاتا ہے، جب کہ رہنما کے تصور میںاصل مقصود خدا ہوتا ہے اور رہنما کی حیثیت صرف ذریعہ کی۔ واسطہ کا یہ تصور یقینی طور پر بے بنیاد ہے۔ تزکیہ بلا واسطہ اللہ سے تعلق کے ذریعے حاصل ہوتاہے، کوئی واسطہ اِس معاملے میں ہر گز کار آمد نہیں۔
حقیقی تزکیہ ہمیشہ اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے۔ اللہ کی توفیق کے لیے کسی واسطہ کی ضرورت نہیں۔ اللہ کی توفیق ہر بندہ تک براہِ راست پہنچتی ہے۔ اس کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ ہے حقیقی معنوں میں تزکیہ کا طالب بن جانا۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے:وإذا سألک عبادی عنّی فإنی قریب، أجیب دعوۃَ الداعِ إذا دعانِ، فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی، لعلہم یرشدون (2: 186) یعنی جب میرے بندے تم سے میری بابت دریافت کریں تو (کہہ دوکہ) میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہیے کہ میرے بندے میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ راہ یاب ہوں۔
قرآن کی اِس آیت میں ’’قریب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ تزکیہ کا ذریعہ حصولِ قربت ہے، نہ کہ حصول وسیلہ۔ جو آدمی اپنا تزکیہ چاہتا ہو، اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو بیدار کرکے زیادہ سے زیادہ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کرے۔
اِس مقصد کے حصول کے لیے کوئی بھی وسیلہ ہر گز مددگار نہیںہوسکتا۔ تزکیہ یا تو براہِ راست تعلق باللہ کے ذریعے ملتا ہے، یا وہ سرے سے نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ واسطہ کا تصور تزکیہ کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ خدا جب انسان سے حبل الورید (50: 16) سے بھی زیادہ قریب ہے تو اس سے قریب ہونے کے لیے کسی واسطے کی کیا ضرورت— واسطہ یاوسیلہ کا تصور پراسرار نسبت کے عقیدہ پر قائم ہے، جب کہ رہنما یا مرشد کا تصور شعوری تعلق کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
تزکیہ سے پہلے
تزکیہ کا اصل محرک احتیاج (destitution) ہے۔ جو آدمی جتنا زیادہ اپنے احتیاج کو جانے گا، اتنا ہی زیادہ وہ تزکیہ کی طرف راغب ہوگا۔ ایسا انسان فطری طورپر اپنے احتیاج کی تکمیل تلاش کرے گا، اور اِسی تلاش کے نتیجے کا نام تزکیہ ہے۔
اِس دریافت کا آغاز خود اپنے وجود سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے انسان شعوری طور پر خود اپنی موجودگی (existence) کو دریافت کرتا ہے۔ یہ دریافت اس کے اندر یہ تجسس (curiosity) پیدا کرتی ہے کہ مجھ کو وجود بخشنے والا کون ہے۔ اِس طرح وہ اپنے خالق کو دریافت کرتاہے۔ اِس کے نتیجے میں اس کے اندر اپنے خالق کے لیے بے پناہ عظمت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
پھر وہ سوچتا ہے کہ میں مکمل طورپر ایک ضرورت مند شخص ہوں۔ میں خود اپنی طاقت سے اپنی کوئی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اِس کے باوجود میری ضرورت کی تمام چیزیں یہاں پیشگی طورپر موجود ہیں— زمین، پانی، ہوا، آکسیجن، روشنی، خوراک اور دوسری بے شمار چیزیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے، وہ سب یہاں یک طرفہ عطیہ کے طور پر میرے لیے موجود ہیں۔ اِس دریافت کے بعد وہ یہ جاننے کی کوشش کرتاہے کہ اِن تمام عطیات کا مُعطی (giver) کون ہے۔ اِس طرح وہ اپنے رب کو دریافت کرتا ہے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں اس کے اندر اپنے رب سے بے پناہ محبت پیدا ہوجاتی ہے۔
اِس طرح آدمی کی جستجو اُس کو اِس سوال تک پہنچاتی ہے کہ میری منزل (goal) کیا ہے۔ پھر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں وہ اپنی مطلوب منزل کو نہیں پاسکتا۔ یہ دریافت اس کو آخر کار جنت کا طالب بنا دیتی ہے، جہاں وہ اپنی منزل کو پالے اور اپنے تمام تقاضوں کی تکمیل کرسکے۔
اِسی طرح آدمی جب سوچتا ہے تو وہ دریافت کرتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کے لیے ایک مستند رہنمائی درکار ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام تر تلاش کے باوجود خود اپنی بنیاد پر اپنے لیے مستند رہنمائی معلوم نہیں کرسکتا۔ اِس دریافت کے بعد مزید تجسس اس کو اِس حقیقت تک پہنچاتا ہے کہ مستند رہنمائی کا واحد ذریعہ پیغمبر (prophet) ہے۔ اِس طرح وہ اپنے دل کی پوری آمادگی کے ساتھ پیغمبر کو اپنا رہنمابنا لیتا ہے۔
اِن دریافتوں کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے اندر تواضع (modesty) پیدا ہوتی ہے۔ وہ خالق کی عظمتوں میں جینے لگتا ہے۔ خدا کا تخلیقی نظام اس کے لیے خدا کی مسلسل یاد کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جنت اس کے لیے اس کے سب سے بڑے مطلوب کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ پیغمبر کو وہ اپنے رہبرِ کامل کے طورپر قبول کرلیتا ہے— یہی وہ تمام عارفانہ تجربات ہیں جن کے مجموعے کا نام تزکیہ ہے۔
تزکیہ اور محاسبہ
تزکیہ کوئی ایک بار کا عمل نہیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک بار کوئی کورس کرے اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے ایک مزکیّٰ انسان بن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ایک مسلسل عمل ہے۔ یہ عمل (process) آدمی کی زندگی میں ساری عمر جاری رہتا ہے، موت سے پہلے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
تزکیہ ایک خود احتسابی کا عمل ہے۔ اِس عمل میں آدمی کو خود اپنا نگراں بننا پڑتا ہے۔ جو آدمی تزکیہ کا طالب ہو، اس کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنے قول وعمل کی نگرانی کرتا رہے، وہ انتہائی بے لاگ انداز میں بار بار اپنا جائزہ لیتا رہے۔ خود احتسابی کا یہ عمل صرف اُس شخص کے اندر جاری ہوتا ہے جس کے اندر ندامت (repentance) اور محاسبہ (introspection) کی صلاحیت پائی جائے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔اِس دنیا کو بنانے والے نے اس کو اِس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر لمحہ آدمی کے لیے آزمائش کی صورتیں پیش آئیں، بار بار وہ نفس کے تقاضوں سے متاثر ہو، شیطان کی ترغیبات اس کو کسی غیر مطلوب چیز میںملوث کردیں، ماحول کے اثر سے وہ کسی غلط چیز کاشکار ہوجائے، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام چیزیں تزکیہ کی ضد ہیں۔
آدمی کو اتنا زیادہ حساس ہونا چاہیے کہ وہ ہر ایسے موقع پر جاگ اٹھے، وہ ہر موقع پر اپنی تطہیر کی کوشش میں لگ جائے، وہ ہر ایسی آلودگی کے موقع پر دوبارہ اپنے آپ کو پاکیزہ بنائے۔ یہی تزکیہ ہے۔ اِس قسم کی خود احتسابی کے بغیر کوئی شخص مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا۔محاسبہ سے ذہنی ارتقا (intellectual development)حاصل ہوتا ہے، اور ذہنی ارتقا اِس بات کا ضامن ہے کہ تزکیہ کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر آدمی کے اندر جاری رہے۔
تزکیہ اور تواضع
فصل کے لیے موافق زمین درکا رہے۔ فصل ہمیشہ زرخیز زمین پر اگتی ہے، بنجر زمین پر کبھی فصل نہیں اگتی۔ اِسی طرح تزکیہ کے لیے بھی موافق زمین درکار ہے۔ تواضع (modesty) تزکیہ کے لیے موافق زمین ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع کی صفت ہوگی، اس کے لیے تزکیہ کا حصول آسان ہوجائے گا۔ اِس کے برعکس، کبر (arrogance) تزکیہ کے لیے ایک غیر موافق زمین ہے۔ جس آدمی کے اندر کبر کا مزاج ہو، وہ کبھی تزکیہ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ تواضع (modesty) سے آدمی کے اندر کمی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔متواضع انسان کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ مجھے کچھ اور پانا ہے جو میرے اندر نہیں ہے۔ اِس احساس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے سامنے جب سچائی آتی ہے تو وہ کسی تحفظِ ذہنی (reservation) کے بغیر اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ وہ بے لاگ انداز میں اس کا جائزہ لیتا ہے ۔ وہ بہت جلد دریافت کرلیتا ہے کہ سچائی اس کے لیے اس کی کمی کی تلافی ہے۔ وہ سچائی کو خود اپنی چیز سمجھ کر اس کو قبول کرلیتا ہے۔
یہی صفت تزکیہ کی روح ہے۔اِس کے برعکس معاملہ متکبر انسان کا ہے۔ متکبر انسان کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میرے پاس پہلے ہی سے سب کچھ موجود ہے، مجھے کسی سے کچھ اور لینے کی ضرورت نہیں۔ اِس نفسیات کی بنا پر وہ باہر کی کسی چیز کو لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ مصلح کی بات کوآسانی کے ساتھ رد کردیتا ہے۔ اس کا یہ مزاج اس کے لیے تزکیہ کے حصول میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ایک مسلسل عمل ہے۔ تزکیہ کا یہ عمل صرف اُس شخص کے اندر جاری ہوتا ہے جو تواضع کا مزاج رکھتا ہو۔ تواضع کا مزاج آدمی کے اندر قبولیت کامزاج پیدا کرتا ہے۔ ایسا آدمی نفسیاتی پیچیدگی (complex) سے آزاد ہوگا اور جو آدمی نفسیاتی پیچیدگی سے آزاد ہو، وہی تزکیہ کے درجے تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔
مسنون اذکار
حدیث کی کتابوں میں ایسی روایتیںآئی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اوقات میںکچھ کلمات ادا کرتے تھے، جن کو ذکر ودعا کے کلمات کہاجاتا ہے۔ یہ کلمات عام طورپر مسنون ذکر یا مسنون دعا کے نام سے مشہور ہیں۔ عام تصور یہ ہے کہ یہ مسنون اذکار تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور تزکیہ یہ ہے کہ آدمی ان اذکار کو یاد کرلے، اور مختلف موقع پر ان کو دُہراتا رہے۔
مسنون اذکار کا یہ تصور ایک ناقص تصور ہے۔ مسنون اذکار دراصل مسنون کیفیات ہیں، نہ کہ سادہ معنوں میں صرف مسنون الفاظ۔ اِس معاملے میں اصل حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اعلیٰ معرفت کی بنا پر ربّانی کیفیات سے معمور رہتے تھے، آپ کی یہ داخلی حالت مختلف مواقع پر آپ کی زبان سے نکل پڑتی تھی۔
آج جو لوگ حدیث کی کتابوں کو پڑھتے ہیں، وہ صرف الفاظِ نبوی سے واقف ہوتے ہیں، وہ کیفیاتِ نبوی سے واقف نہیںہوپاتے۔ اِس بنا پر وہ الفاظ کو اصل سمجھ لیتے ہیں،کیوں کہ وہ کتا ب میں درج نہیں۔ مسنون اذکار کا یہ تصور مسنون اذکار کی تصغیر ہے، وہ مسنون اذکار کا صحیح تعارف نہیں۔
حقیقت کے اعتبار سے مسنون اذکار کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے شعور کو جگائے، وہ مسلسل تفکیری عمل کے ذریعے اپنے اندر ایسی شخصیت کی تعمیر کرے جو ربّانی کیفیات میں جینے والی ہو، یہ گویا کہ مسنون اذکار سے پہلے کی سنت ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مسنون اذکار سے پہلے کی سنت کو اپنے اندر زندہ کرے، اس کے بعد اس کی زبان سے ذکر ودعا کے جو کلمات نکلیں گے، وہی اس کے لیے مسنون اذکار ہوں گے۔ اس طرح کی ربّانی شخصیت تیار کیے بغیر جو آدمی مسنون اذکار کو دہرائے، وہ صرف الفاظ کی تکرار ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں مسنون اذکار پر عمل۔
لوگ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ مسنون اذکار ذکر کے مقدّس الفاظ ہیں، ان الفاظ میں پراسرار طورپر کچھ خواص چھپے ہوئے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسنون اذکار دراصل مسنون کیفیات کو بتانے والے الفاظ ہیں، نہ کہ مجرد طورپر صرف مسنون الفاظ۔
تزکیہ اور دعا
دعا کیا ہے، دعا اُس کیفیت کے لفظی اظہار کا نام ہے جو ایک طرف اپنی عبدیت اور دوسری طرف خدا کی ربوبیت کو دریافت کرنے کے بعد ایک انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ مسنون دعاؤں کا معاملہ بھی اِس سے مختلف نہیں۔ مسنون دعا، معروف معنوں میں، مسنون الفاظِ دعا کا نام نہیں۔ مسنون دعا اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اکتشافی دعا کا نام ہے۔ ایک ربانی دریافت جب الفاظ میں ڈھل جائے تو یہی وہ دعا ہے جس کو مسنون دعا یا اکتشافی دعا کہا جاسکتا ہے۔
ایک حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ:أنا عند ظَنِّ عبدی بی، فلیظن بی خیر ما أحبّ (ذخیرۃ الحفاظ لابن القیسراني، 5/2793)۔ یعنی میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، تو اس کو چاہیے کہ وہ میرے بارے میں اچھا گمان کرے۔ یہ گمان کیا ہے، یہ دراصل خدا کی صفات میں سے کسی ایک صفت کو دریافت کرنے کا نام ہے، جو آدمی کو یہ موقع دے کہ وہ خدا کے بارے میں اچھا گمان کرے، وہ اُس سے خیر طلب کرے۔
مثال کے طورپر قرآن میں بتایاگیا ہے کہ—وآتاکم من کلّ ما سألتموہ (14: 34) یہ آیت کسی بندے کو دعا کا ایک پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) دیتی ہے جس کے حوالے سے وہ خدا کی رحمت کو انووک (invoke) کرسکے۔ وہ یہ کہے کہ خدایا، دنیا کی زندگی میں اپنی ضرورتوں سے واقف بھی نہ تھا کہ میں تجھ سے اُ س کا سوال کروں۔ تو نے میری فطرت کے تقاضوں کو سوال کا درجہ دے کر میری تمام دنیوی ضرورتوں کا انتظام کردیا۔ آخرت کے معاملے میں بار بار میں تجھ سے سوال کررہا ہوں، اب تو میرے سوال کو لازم کا درجہ دے کر آخرت میں بھی مجھے میری تمام مطلوب چیزیں عطا کردے۔
اِس قسم کی ایک دعا ہمیشہ ایک نفسیاتی طوفان کے بعد کسی آدمی کی زبان سے نکلتی ہے۔ اِسی نفسیاتی واقعہ کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔ تزکیہ اور دعا دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ جہاں تزکیہ کا واقعہ ہوگا، وہاں دعا بھی لازماً ظاہر ہوگی، اور جب دعا کا ظہور ہو تو وہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ اِس سے پہلے آدمی کے اندر تزکیہ کا واقعہ پیش آچکا ہے۔ تزکیہ کے بغیر دعا نہیں، اور دعا کے بغیر تزکیہ نہیں۔
تزکیہ کا ظاہری فارم
تزکیہ کا کوئی ظاہری فارم نہیں۔ اگر تزکیہ کا ظاہری فارم ہو تو اس کو پورا کرکے آدمی شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لے گا کہ میں نے اپنا تزکیہ کرلیا۔ اِس طرح اس کے اندر قناعت (contentment) کا مزاج پیدا ہوجائے گا۔ حالاں کہ اس معاملے میں قناعت کا مزاج تزکیہ کے لیے ایک قاتل جذبہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر مسلسل طورپر عدم قناعت (discontent)کا احساس پایا جاتا ہو۔ عدم قناعت کا جذبہ تزکیہ کے عمل کو مسلسل طورپر جاری رکھنے کا باعث ہے، جب کہ قناعت کی نفسیات میں اِس قسم کے تسلسل کا محرک ہی ختم ہوجاتا ہے۔
تزکیہ کا گہرا تعلق عبادات کے مقرر نظام سے ہے۔ تزکیہ اور اسلامی عبادات دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا تزکیہ مکمل ہوچکا ہے اور اب مجھے عبادات کی ضرورت نہیں۔
مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ عبادات کی ظاہری ادائیگی سے اپنے آپ تزکیہ کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ ایسا سمجھنا ایک غیر فطری بات ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عبادات روحِ تزکیہ کا خارجی ظہور ہیں، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، تزکیہ کا وسیلہ نہیں۔ اگر کسی شخص کے اندر تزکیہ کی روح حقیقی طورپر پیدا ہوجائے تو لازمی طورپر ایسا ہوگا کہ وہ خدا کا عبادت گزار بن جائے گا۔
عبادت گزاری کو تزکیہ سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اِس لیے سارا زور روحِ تزکیہ کے تحقق پر دینا چاہیے، نہ کہ صرف عبادات کے ظاہری فارم پر۔ یہ درست ہے کہ عبادات کے بغیر تزکیہ کا دعویٰ صرف ایک جھوٹا دعویٰ ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ عبادات کا ظاہری فارم آٹو میٹک طورپر تزکیہ کی روح پیدا نہیں کرسکتا۔
ضمیر رہبرِ تزکیہ
انسان کے اندر فطری طورپر ایک فیکلٹی (faculty) ہے جس کو ضمیر (conscience) کہاجاتا ہے۔ یہ ضمیر ایک خدائی معلم ہے۔ وہ انسان کے لیے رہبرِ تزکیہ (tazkia guide) کا کام کرتا ہے۔ ضمیر ہر موقع پر خاموش زبان میں انسان کو بتاتا ہے— یہ کرو اور وہ نہ کرو، یہ تزکیہ کے موافق روش ہے اور وہ تزکیہ کے خلاف روش ہے۔یہ پاکیزہ شخصیت بنانے والی روش ہے اور وہ غیرپاکیزہ شخصیت بنانے والی روش ، وغیرہ۔
لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ بیشتر لوگوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ضمیر ان کے لیے رہبر تزکیہ کاکام نہیںکرتا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر ضمیر کے ساتھ ایک اور برعکس فیکلٹی موجود ہے۔ یہ ایگو (ego) ہے۔ آدمی اکثر نفس اور شیطان کے زیر اثر آجاتا ہے۔ وہ ضمیر کو اپنا کام کرنے نہیں دیتا۔ ضمیرکی خاموش آواز ہر موقع پر ابھرتی ہے، لیکن ایگو (ego) اس آواز کو دبا کر اس کو بے اثر بنا دیتا ہے۔
طالبِ تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس حقیقت سے باخبر ہو۔ وہ اپنی قوتِ فکر کو بیدار کرے۔ وہ ہر موقع پر اپنے ایگو کو زیرو کرتا رہے۔ ایگو کو زیر و کرتے ہی یہ ہوگا کہ ضمیر اپنا فطری رول ادا کرنے لگے گا اور تزکیہ کے راستے پر آدمی کا سفر بھٹکے بغیر جاری رہے گا۔
ایگو کو زیرو کرنے کا یہ کام اس معاملے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن یہ کام کوئی دوسرا شخص انجام نہیں دے سکتا۔ ہر آدمی کو خود یہ کام کرنا ہے کہ جیسے ہی اس کا ایگو جاگے، وہ فوراً متنبہ ہوجائے اور اپنی قوتِ ارادی (will power) کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ایگو کو زیرو کردے۔
تزکیہ کا طریقہ
کچھ لوگوں نے تزکیہ کے مختلف طریقے بیان کرنے کی کوشش کی۔اِس ذیل میں انھوں نے تزکیہ کے طریقوں کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ کے طریقوں کی کوئی فہرست نہیں۔ آپ خواہ کتنی ہی لمبی فہرست بنالیں، مگر کوئی بھی فہرست تزکیہ کے طریقوں کی جامع نہیں بن سکتی، کوئی بھی فہرست تزکیہ کے طریقوں کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ طویل ترین فہرست کے بعد بھی کچھ ایسے اجزا باقی رہیں گے جو تجربہ کے بعد یہ ثابت کریں گے کہ یہ فہرست ایک ناقص فہرست تھی۔
اصل یہ ہے کہ تزکیہ کا تعلق کسی فہرست سے نہیں ہے، بلکہ انسان کے اپنے ارادے سے ہے۔ اگر انسان فی الواقع تزکیہ کے معاملے میں سنجیدہ ہو اور وہ دیانت دارانہ طورپر اپنا تزکیہ کرنا چاہتا ہو تو وہ ضرور اپنا تزکیہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا، لیکن اگر آدمی اِس معاملے میں پوری طرح سنجیدہ نہ ہو اور وہ اپنا تزکیہ کرنے کے لیے حریص نہ ہو تو کوئی بھی تحریر یا تقریر اس کا تزکیہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔
انسان کی ایک انوکھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی ہر غلطی کی توجیہہ (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ اپنی ہر غلطی کو درست ظاہر کرنے کے لیے خوب صورت الفاظ پالیتا ہے۔ ایسی حالت میں کوئی بھی مصلح یا مربی اس کا تزکیہ نہیں کرسکتا۔ تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خوداپنے بارے میں ایک باشعور فیصلہ کرے۔ اس کا یہ فیصلہ اتنا زیادہ محکم ہو کہ وہ ہر حال میں اس پر قائم رہے،اِس معاملے میں کسی بھی عذر (excuse) کو وہ اپنے لیے عذر نہ بنائے۔
تزکیہ کے معاملے میں اصل چیز تزکیہ کا ارادہ ہے۔ یہ ارادہ اتنازیادہ قوی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی چیز آدمی کواس سے ہٹا نہ سکے۔ کوئی بھی اندیشہ اس کے ارادے کو کمزور نہ کرسکے۔ اِس معاملے میں وہ کسی بھی دباؤ کو قبول کرنے پر راضی نہ ہو۔ اس کا یہ قول ہو کہ — مجھے لازمی طورپر اپناتزکیہ کرنا ہے، خواہ مجھے اس کی کوئی بھی عملی یا نفسیاتی قیمت دینا پڑے۔
تزکیہ کا زیادہ موثر طریقہ
تزکیہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مجرد (abstract) طورپر اس کے کچھ اصول مقرر کر دئے جائیں اور اس کو لکھ کر لوگوں کو پڑھنے کے لیے دے دیا جائے۔ یہ بھی تزکیہ کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے، لیکن تزکیہ کا زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ اس کو کسی پیش آمدہ صورتِ حال سے وابستہ(relate) کرکے بتایا جائے۔ اس دوسرے طریقے کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کے لیے ایک زندہ مربی یا مزکی موجود ہو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی خود اپنے شعور کو اتنا زیادہ ترقی یافتہ بنائے کہ وہ خود ہی ہر تجربہ اور ہر مشاہدہ میں تزکیہ کا پہلو دریافت کرے اور اس کو اپنے ذہن کا جزو بنالے۔
حضرت ابو ذر ایک صحابی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اگر ایک چڑیا کو ہوا میں اپنے پروں سے اڑتے ہوئے دیکھتے تو اس سے آپ ہمیں کوئی معرفت کی یاد دہانی کراتے:وما یقلب طا ئر جناحیہ فی السماء إلا ذکر لنا منہ علماً ) الطبقات لابن سعد، رقم الحدیث (2354۔ یہ پیش آمدہ صورت حال کے حوالے سے تزکیہ کی تعلیم دینے کی ایک مثا ل ہے۔
تزکیہ کا کوئی مجرد طریقہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی مجرد طریقہ تزکیہ کا موثر ذریعہ نہیں بن سکتا۔ تزکیہ کا موثر طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اتنا زیادہ باشعور بنائے کہ اس کے اندر توسم (15: 75) کی صفت پیدا ہوجائے۔ وہ پیش آمدہ واقعات کو تزکیہ سے وابستہ (relate) کرکے اُس سے ربانی سبق لے سکے۔ تزکیہ کا مواد روزمرہ کے تجربات میں ہوتا ہے۔ روز مرہ کے تجربات کو تزکیہ کی نظر سے دیکھنا سیکھ لیجئے، اِس کے بعد ہر تجربہ اورہر مشاہدہ آپ کے لیے تزکیہ کا ذریعہ بن جائے گا۔
تزکیہ کا وسیلہ
تزکیہ کا وسیلہ کیا ہے۔ روایتی طورپر کچھ چیزوں کو تزکیہ کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے — نوافل، تلاوت، مسنون اذکار، مراقبہ، صحبت، بزرگوں کے واقعات، وغیرہ۔ اِس سوچ کا مطلب تزکیہ کو ایک مقرر کورس یا مینول (manual) جیسا معاملہ سمجھنا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ کا کوئی متعین کورس نہیں۔ تزکیہ ایک زندہ واقعہ ہے، اور زندہ عمل ہی کے ذریعے اس کو حقیقی طورپر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
تزکیہ کے مقصد کو حاصل کرنے کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ آدمی خدائی باتوں میں تدبر کرے، وہ اپنی سوچ کو متحرک کرے، وہ مسلسل غور وفکر کے ذریعے ہر ظاہر میں اس کے باطن کو دریافت کرے۔ یہی دریافت تزکیہ پسند آدمی کی غذا ہے۔ مثلاً آپ نے ایک چڑیا کو دیکھا۔ چڑیا کو دیکھ کر آپ کو یہ حدیثِ رسول یاد آئی کہ اہلِ جنت کے دل چڑیا کے مانند ہوں گے (أفئدتہم مثل أفئدۃ الطیر)۔
اِس کے بعد آپ اپنے بارے میں غور کرنے لگے کہ کیا میرا دل بھی چڑیا کے مانند ہے، کیا میں بھی اُسی طرح منفی سوچ سے خالی ہوں جس طرح چڑیا کا دل منفی سوچ سے خالی ہوتا ہے، کیا میں بھی اُسی طرح حرص سے پاک ہوں جس طرح چڑیا حرص سے پاک ہوتی، کیا میں بھی اُسی طرح بے ضرر (harmless) ہوں جس طرح چڑیا بے ضرر ہوتی ہے، کیا میں بھی اُسی طرح قانونِ فطرت کی پیروی کرتا ہوں جس طرح چڑیا قانونِ فطرت کی پیروی کرتی ہے۔ یہی سوچ، تزکیہ کی اصل روح ہے۔ اِس قسم کی احتسابی سوچ کے بغیر کسی شخص کا تزکیہ نہیں ہوسکتا۔
تزکیہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اپنی تعمیر آپ کا ایک عمل ہے۔ تزکیہ میںآدمی کو خود اپنا مزکیّ اور معلم بننا پڑتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کی صحبت یا کسی دوسرے شخص کی تبلیغ بذاتِ خود کسی کے لیے موثر نہیں بن سکتی۔ دوسرا کوئی شخص آپ کو ابتدائی رہنمائی دے سکتا ہے، لیکن اِس رہنمائی کو تکمیل تک پہنچانا، آپ کا اپنا کام ہے۔ تزکیہ کے عمل میں کسی دوسرے شخص کا حصہ اگر ایک فی صد ہے تو آپ کا اپنا حصہ ننانوے فی صد۔
تزکیہ ذہنی ارتقا
تزکیہ کے اصل معنی تطہیر (purification) کے ہیں۔ اِسی سے اس میں ایک اور مفہوم شامل ہوا ہے اور وہ بڑھنا یانُموہے۔ اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ تزکیہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو ذہنی ارتقا (intellectual development) یا روحانی ارتقا کہاجاتا ہے۔
ذہن (mind) کوئی جامد چیز نہیں، وہ ایک نمو پذیر چیز ہے۔ وہ درخت کی طرح مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ اسی عمل کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (48: 4) کہـاگیا ہے۔ ازدیادِ ایمان سے مراد ازدیادِ شعور ہے، اور ازدیادِ شعور ہی کا دوسرا نام ذہنی ارتقا ہے۔ حقیقی ایمان وہی ہے جو کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہ ہو، جو یقین اور ایمان باللہ کے اعتبار سے مسلسل بڑھتا رہے۔
یہ تزکیہ یا شعوری اضافہ کس طرح ہوتا ہے۔ اس کا ذریعہ غوروفکر (contemplation) ہے۔ یہ غور وفکر اپنے آپ میں ایک مسلسل عمل ہے— قرآن اور حدیث میں غوروفکر،سیرتِ رسول میں غوروفکر، صحابہ کی زندگی میں غوروفکر، دوسرے موضوعاتِ انسانی پر غور وفکر، کائنات پر غور وفکر، غرض ذرہ سے لے کر آفتاب تک ہرچیز پر غور وفکر۔ اِس کے علاوہ، سنجیدہ مذاکرات کے دوران غور وفکر۔
اِس غور وفکر کے درمیان ایسا ہوتا ہے کہ ذہن میں نئے نئے خیالات آتے ہیں، معلوم باتوں کی نئی نئی توجیہات سمجھ میں آتی ہیں، واقعات وحقائق کے نئے نئے رخ علم میں آتے ہیں، وغیرہ۔
جس آدمی کو سچا ایمان حاصل ہو، اس کا حال یہ ہوگا کہ ہر مطالعہ اور مشاہدہ اس کے لیے ربانی دریافت کا سبب بنتا رہے گا، ہر تجربہ اس کے لیے خدا سے قربت کا ذریعہ بن جائے گا۔ اُس کا ایمان ابتداء ً اگر ایک بیج تھا تو اِس طرح بڑھتے بڑھتے وہ ایک پورا درخت بن جائے گا۔ اِسی فکری اور روحانی عمل کا اسلامی نام تزکیہ ہے— ایمان اگر اسلام میں داخلے کا عنوان ہے، تو تزکیہ ایمان کے ارتقا کا عنوان۔
تزکیہ اور علم
تزکیہ کے لیے ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی صاحبِ کمال کی صحبت حاصل کی جائے، کیوں کہ صاحبِ کمال کی ایک نظر انسان کو بدلنے کے لیے کافی ہوتی ہے، لیکن یہ نقطۂ نظر قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، تزکیہ کا مقصد آدمی کے خود اپنے غور وفکر سے حاصل ہوتا ہے۔ آدمی کے اندر صحیح مزاج ہو اور وہ کتابوں کا، نیز فطرت کا مطالعہ کرے تو اُس سے وہ ایسے معانی اخذ کرے گا جو اس کی شخصیت کا تزکیہ کرنے والے ہوں۔
قرآن کی سورہ فاطر میں پہاڑوں کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ آیت آئی ہے:إنما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (35: 28) ۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ پہاڑوں کا علم یا واقعاتِ فطرت کا علم آدمی کے اندر اللہ کا خوف پیدا کرتا ہے، یعنی خوف کا ماخذ علم (learning) ہے۔ آدمی کے اندر جتنا زیادہ علم ہوگا، اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کی تخلیقی حکمتوں کو سمجھے گا اور اِس طرح وہ اپنی معرفت میں اضافہ کرے گا۔ تزکیہ کسی آدمی کو ذاتی علم کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، نہ کہ مفر وضہ باکمال کی نظر اور توجہ سے۔
مطالعہ آدمی کے اندر سوچنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ مطالعہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ زیادہ گہرے انداز میں چیزوں سے معرفت کی غذا لے سکے۔ مثلاً ہر آدمی ہوا میں سانس لیتا ہے۔ ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اِس پر اللہ کا شکر ادا کرے، لیکن جو شخص نظامِ تنفس (respiratory system) کے بارے میں دریافت کردہ جدید معلومات کو جانتا ہو، اس کا شکر ہزاروں گنا زیادہ بڑھ جائے گا، اور اسی کے اعتبار سے اس کا تزکیہ بھی بہت زیادہ ترقی کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ علم آدمی کے تزکیہ کو زیادہ بڑا فریم ورک (framework) دیتا ہے۔ علم سے آدمی کو اپنے تزکیہ میںاضافے کے نئے گوشے معلوم ہوتے ہیں۔ تزکیہ کے لیے علم ایک قسم کے بوسٹر(booster) کا درجہ رکھتا ہے۔
ڈسٹریکشن سے بچئے
اِس دنیا میں کامیابی کا ایک اصول یہ ہے — ایک کام کو کرنے کے لیے دوسرے کام کوچھوڑنا۔ یہ انسانی نفسیات کا ایک خاصہ ہے کہ آدمی ایک ہی وقت میں دو چیزوں پر یکساں فوکس (focus) نہیں کرسکتا۔ وہ ایک چیز پر فوکس کرے گا تو دوسری چیز سے اس کا ذہن ہٹ جائے گا۔ یہی اصول تزکیہ کے لیے بھی درست ہے۔ جو آدمی اپنا تزکیہ کرنا چاہتا ہو، اس کو لازمی طور پر یہ بھی کرنا ہوگا کہ وہ تزکیہ کی نسبت سے غیرمتعلق (irrelevant) چیزوں کو مکمل طور پر چھوڑ دے۔
تزکیہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈسٹریکشن (distraction) ہے۔ تزکیہ کے طالب کے لیے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ کو اپنا واحد نشانہ (supreme goal) بنائے، وہ ڈسٹریکشن کی تمام چیزوں سے مکمل طورپر اپنے آپ کو دور رکھے۔ تزکیہ کے لیے ذہنی یکسوئی یا ترکیز (concentration) لازمی طور پر ضروری ہے۔ جس آدمی کے اندر ترکیز کی صلاحیت نہ ہو، وہ یقینی طورپر تزکیہ کے حصول سے محروم رہے گا۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور تزکیہ کی بھی ایک قیمت ہے۔ وہ قیمت ہے— ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے اپنے آپ کو دور رکھنا۔ مثلاً خاندانی رسومات، دوستی کا کلچر، کھانے اور کپڑے کا شوق، دولت اور شہرت (fame) کی رغبت، زندگی کے تکلفات، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام چیزیں تزکیہ کے طالب کے لیے ڈسٹریکشن (distraction) کا درجہ رکھتی ہیں۔ جو آدمی اپنا تزکیہ چاہتا ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ اِس قسم کی تمام چیزوں سے مکمل طورپر دور رہے۔
تزکیہ کسی انسان کو اعلیٰ انسان بناتا ہے۔ تزکیہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ اس کوفرشتوں کی صحبت مل جائے۔ تزکیہ کے ذریعہ آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ خدا کے پڑوس میں جینے لگے۔
تزکیہ کے بغیر آدمی سوکھی لکڑی کے مانند ہے، تزکیہ کے بعد آدمی ایک شاداب درخت بن جاتا ہے۔ تزکیہ کسی پُراسرار چیز کا نام نہیں، وہ وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میں ایمانی شعور کی بیداری کہا جاسکتا ہے۔
تزکیہ اور عصری تقاضا
ہر زمانے کا ایک طرزِ فکر ہوتا ہے۔ آدمی کسی بات کو صرف اُس وقت قبول کرتاہے جب کہ وہ اس کے طرزِ فکر کے مطابق ہو۔ اِسی کو مائنڈ کا ایڈریس ہونا کہتے ہیں۔ انسانی ذہن کی رعایت جس طرح دوسرے معاملات میں ضروری ہے، اُسی طرح وہ تزکیہ کے معاملے میں بھی ضروری ہے۔
قدیم زمانہ روایتی طرزِ فکر کا زمانہ تھا، مگر موجودہ زمانہ سائنسی طرزِ فکر کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بات کو اِس طرح کہا جائے جس سے اُن کا ذہن ایڈریس (address) ہوسکے۔
تزکیہ کی اصل موجودہ زمانے میں بھی عین وہی ہے جو کہ قدیم زمانے میں تھی، البتہ دونوں میں ایک فرق ہے او ر وہ اسلوب کلام اور طرزِ استدلال (reasoning) کا فرق ہے۔ قدیم زمانے میں روایتی اسلوب لوگوں کے لیے موثر ہوسکتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں موثر تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ اسلوبِ کلام کو بدلا جائے۔ صرف اِسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ آج کا انسان تزکیہ کی اہمیت کو سمجھے اور اس کو اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
مثال کے طورپر قدیم زمانے میں ’’اصلاحِ نفس‘‘ کا لفظ بولا جاتا تھا۔ یہ لفظ قدیم روایتی ذہن کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھا، لیکن آج کا انسان اِس حقیقت کو اُس وقت زیادہ سمجھ پاتا ہے جب کہ اِس بات کو بتانے کے لیے لفظ بدل دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ ہر انسان مختلف اسباب سے متاثر ذہن (conditioned mind) کا کیس بن جاتا ہے۔ اس کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ڈی کنڈیشننگ کی جائے، اس کے ذہن کی تشکیلِ نو (re-engineering) کرکے اس کو اِس قابل بنایا جائے کہ وہ چیزوں کو اُن کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھے اور زیادہ درست طورپر ان کے بارے میں رائے قائم کرے۔ اِس اسلوبِ تزکیہ پر لوگوں کو مخاطب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مزکیّ کا مطالعہ وسیع ہو، وہ قدیم کے ساتھ جدید باتوں سے واقفیت رکھتا ہو۔ اِس کے بغیر موثر انداز میں جدید انسان کا تزکیہ نہیں کیا جاسکتا۔
تزکیہ کی شرط
تزکیہ کوئی فنّی علم نہیں۔ فنی علم کو لفظوں میں پوری طرح بیان کیا جاسکتا ہے، لیکن تزکیہ معرفت کا علم ہے اور معرفت کے علم کو الفاظ میں صرف جزئی طورپر بیان کرنا ممکن ہے، نہ کہ کلی طورپر۔ تزکیہ کی ہر تقریر یا تحریر ایک اور اضافہ چاہتی ہے، اور یہ اضافہ صرف وہ شخص کرسکتا ہے جوتزکیہ کا طالب ہو۔
تزکیہ کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ طالب تزکیہ اِس معاملے میں انتہائی حد تک سنجیدہ ہو، وہ ایک تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت رکھتا ہو، اُس کے اندر کامل آمادگی پائی جاتی ہو، وہ ہرقسم کے تعصبات (prejudice) سے خالی ہو، وہ ایک کامپلکس فری (complex free) انسان ہو، وہ چیزوں کو اُسی طرح دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جیسا کہ وہ واقعۃً ہیں۔ وہ ذاتی رجحانات کو الگ کرکے چیزوں کو دیکھ سکے، وہ اپنے خلاف باتوں کو بھی اُسی طرح سنے، جس طرح وہ اپنے موافق باتوں کو سنتا ہے، وہ کسی شرط کے بغیر حق کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو، وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج رکھتا ہو، وہ درست زاویہ نظر (right angle of vision) سے چیزوں کو دیکھ سکے، وغیرہ۔
تزکیہ کے عمل میں دو افراد شامل ہوتے ہیں — معلمِ تزکیہ، اور طالبِ تزکیہ۔ دونوں میں سے کسی کا رول بھی صد فی صد نہیں، اِس معاملے میں دونوں کا رول ففٹی ففٹی ہے۔ معلمِ تزکیہ کا رول یہ ہے کہ وہ تزکیہ کو حقیقی طورپر جانتا ہو، اس نے قرآن اور حدیث کے گہرے مطالعے کے ذریعے تزکیہ کو درست طورپر سمجھا ہو اور پھر وہ اس کو اس کے خالص انداز میں بیان کرسکے۔
اِس معاملے میں دوسرا نصف رول طالبِ تزکیہ کا ہے۔ تزکیہ کے طالب کے اندر یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ بھر پور طور پر قبولیت کی استعداد رکھتا ہو۔ وہ اپنے مانوس ذہن سے باہر آکر تزکیہ کے کلام کو سنے اور اس کو سمجھے۔ وہ پیشگی طور پر قائم کردہ معیار سے آزاد ہو، وہ یہ صلاحیت رکھتا ہو کہ وہ کلام کی نسبت سے اپنی رائے قائم کرے، نہ کہ متکلم کی نسبت سے۔ جس آدمی کے اندر یہ صفات موجود ہوں، وہی وہ شخص ہے جو تزکیہ کے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
اعترافِ حقیقت
اعلیٰ انسانیت یہ ہے کہ آدمی حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرے۔ کسی انسان کے لیے اصل چیز یہی ہے۔ اکتشافِ حقیقت (discovery of reality) کا نتیجہ اعتراف (acknowledgement) ہے۔ آدمی اگر حقیقتِ واقعہ سے بے خبر ہو تو وہ ایک جاہل (ignorant) انسان شمار ہوگا۔ حقیقتِ واقعہ کی دریافت کے بعد اگر کسی شخص کا حال یہ ہو کہ وہ اس کو دل کے اندر تو محسوس کرے، لیکن زبان سے بول کر وہ اس کا اعلان نہ کرے تو یہ روش منافقت کی روش ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ حقیقت واقعہ کی دریافت کے بعد وہ اس کو اصل ہستی کے بجائے کسی اور سے منسوب کردے، یا وہ خود اس کا کریڈٹ لینے لگے تو ایسا آدمی جھوٹ (falsehood) پر کھڑا ہوا ہے۔
یہ عمل کو ئی سادہ عمل نہیں۔ یہ دراصل صحیح رخ پر انسانی شخصیت کا ارتقا ہے اور اِسی کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔ تزکیہ کسی پراسرار چیز کا نام نہیں ہے۔ تزکیہ اِس شعوری بیداری کا نتیجہ ہے کہ آدمی ہر چیز کو خدا کے خانے میں ڈال سکے، ہر تجربہ اس کے لیے خدا سے تعلق بڑھانے کا ذریعہ بن جائے۔ اِنھیں تجربات کے دوران وہ اعلیٰ شخصیت بنتی ہے جس کو مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ صحیح انتساب (right attribution)اور غلط انتساب (wrong attribution) کا معاملہ ہے۔ واقعات کو غلط طورپر کسی سے منسوب کرنا، اپنی روح کو آلودہ کرنا ہے، یہ تزکیہ کے موقع پر اپنے آپ کو تزکیہ سے محروم کرلینا ہے۔
اِس کے برعکس، جب آدمی واقعات کو خالقِ حقیقی کی طرف منسوب کرے تو اُس نے اپنی روح کو اوپر اٹھایا۔ تزکیہ کے موقع کو استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو وہ انسان بنایا جس کو تزکیہ یافتہ انسان کہاجاتا ہے۔ تزکیہ کسی خلا میں نہیں ہوتا، تزکیہ ہمیشہ حقیقی زندگی میں ہوتا ہے۔ تزکیہ کے لیے جو چیز مطلوب ہے، وہ بیدار ذہن (awakened mind) ہے، نہ کہ تخلیہ میں کئے ہوئے کسی قسم کے پُراسرار اعمال۔
تزکیہ اور قربانی
تزکیہ کا حصول کوئی سادہ بات نہیں۔ تزکیہ کے حصول کے لیے ہمیشہ ایک قربانی درکار ہوتی ہے، جسمانی قربانی نہیں، بلکہ نفسیاتی قربانی۔وہ قربانی ہے — تزکیہ کے حصول کی خاطر خلافِ تزکیہ باتوں کومکمل طور پر چھوڑ دینا۔ یہ فطرت کا ایک اصول ہے کہ ایک چیز کو پانے کے لیے دوسری چیز کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ اصول تزکیہ کے معاملے میں بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ دوسرے معاملات میں۔
اِنھیں میں سے ایک چیز ہے غلط عادتوں (bad habits)کو چھوڑنا۔ ہرعورت اور مرد اپنے ماحول کے اثر سے ایسی چیز کے عادی ہوجاتے ہیںجو تزکیہ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تزکیہ کے طالب کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی عادتوں کو مکمل طورپر چھوڑ دے۔
مثلاً زیادہ بولنا اور کم سوچنا، خاندانی تقاضوں میں مشغول رہنا، کھانے اور کپڑے کا شوقین ہونا، تفریحی مجلسوں میں بیٹھنا، دوسروں کی کمیوں کا چرچا کرنا، شاپنگ اور آؤٹنگ، کفایت شعاری کے بجائے فضول خرچی، سطحی اور نمائشی ذوق، تنقید کو برا ماننا اور تعریف پر خوش ہونا، دنیوی چیزوں کا حریص ہونا، ضرورت پر قناعت نہ کرنا، سادگی (simplicity)کے بجائے تکلف کو پسند کرنا، وغیرہ۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور تزکیہ کو پانے کی بھی ایک قیمت ہے، اور وہ قیمت ہے— خلافِ تزکیہ باتوں کو چھوڑنا۔ جو آدمی تزکیہ کی باتیں کرے، لیکن وہ خلافِ تزکیہ باتوں کو چھوڑنے پر راضی نہ ہو، ایسا آدمی بلاشبہہ ایک غیر سنجیدہ انسان ہے، اور غیرسنجیدہ مزاج کے ساتھ کبھی تزکیہ جمع نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی تزکیہ کی طلب میں سنجیدہ ہو، وہ خود ہی یہ جان لے گا کہ کیا چیزیں تزکیہ کے موافق ہیں اور کیا چیزیں تزکیہ کے خلاف۔ اس کی سنجیدگی لازمی طورپر اس کو مجبور کرے گی کہ وہ موافقِ تزکیہ باتوں کو اپنائے اور خلافِ تزکیہ باتوں کو مکمل طور پر چھوڑدے۔ سنجیدگی اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی ضرور تزکیہ کے درجے تک پہنچ جائے، وہ ہرگز تزکیہ سے محروم نہ رہے۔
تزکیہ ایک نفسیاتی عمل
تزکیہ کا حصول کسی قسم کی لسانی تکرار یا کسی قسم کی جسمانی ورزش کے ذریعہ ممکن نہیں۔تزکیہ تمام تر ایک نفسیاتی عمل ہے اور نفسیات کی سطح پر ہی اس کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
نفسیاتی عمل سے مراد ذہنی عمل ہے۔ انسان کا ذہن ہر قسم کی سوچ کا مرکز ہے۔ یہ دراصل ذہن ہے جو کسی انسان کی شخصیت کی تشکیل کرتا ہے۔ غیر مزکیّٰ شخصیت کو بھی اس کا ذہن بناتا ہے اور مزکیّٰ شخصیت کو جو چیز بناتی ہے، وہ بھی اس کا ذہن ہے۔
تزکیہ کے لیے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ ذہنی ارتقا ہے، یعنی شعور کو اِس طرح ترقی دینا کہ وہ چیزوں کو سارٹ آؤٹ (sortout) کرسکے، وہ منفی احساس کو مثبت احساس میں کنورٹ کرسکے، وہ چیزوں میں خالق کے جلوے کا مشاہدہ کرسکے، وہ مادی واقعات میں روحانی پہلو کو دریافت کرسکے، وہ خارجی اثرات سے محفوظ رہ کر سوچ سکے، وہ شیطان کی تزئین کو پہچان کر اُسے رد کرسکے، وہ نفس کی ترغیبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے، اس کو مستقبل بینی کی نظر حاصل ہوجائے، وہ بے نتیجہ کام سے اپنے آپ کو دور رکھے، وہ اپنے حقیقی خیر خواہ کو پہچاننے والا ہو، وہ نصیحت کو قبول کرے، خواہ وہ اس کے مزاج کے خلاف ہو، وہ اپنے خلاف سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ مادیات سے گزر کر روحانیات کو اپنا نشانہ بنائے، اس کی سوچ آخرت رُخی سوچ بن جائے، وغیرہ۔
یہ تمام کام نفسیات کی سطح پر انجام پاتے ہیں، وہ انسان کی گہری سوچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس آدمی کے اندر گہری سوچ نہ ہو، وہ کبھی تزکیہ کے اعلیٰ درجے تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس آدمی کے اندر گہری سوچ ہو، اُسی کے اندر تزکیہ کا عمل جاری ہوگا۔ تزکیہ دراصل نفسیاتی تزکیہ کا دوسرا نام ہے۔ تزکیہ اولاً نفسیات کی سطح پر ہوتا ہے۔ اِس کے بعد یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان کے پورے وجودکی سطح پر تزکیہ کا اظہار ہو۔
مثبت نفسیات کی اہمیت
چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں بسا دیا اور خود شام واپس چلے گئے ۔ بعد کو اسماعیل بڑے ہوئے تو انھوں نے قبیلہ جرہم کی ایک خاتون سے نکاح کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم دوبارہ وہاں آئے۔ اُس وقت ان کی ملاقات اسماعیل کی بیوی سے ہوئی۔ انھوں نے سخت حالات کی شکایت کی۔ حضرت ابراہیم اُن سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ جب اسماعیل واپس آئیں تو اُن کو میرا یہ پیغام دینا:غیِّر عتَبۃَ بابک (اپنے گھر کی چوکھٹ کو بدل دو)۔ اس کے بعد اسماعیل نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا اور ایک دوسری خاتون سے نکاح کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم دوبارہ پھر وہاں آئے۔دوسری خاتون سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کوئی شکایت نہیں کی، بلکہ حالات پر شکر کا اظہار کیا۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم نے کہا کہ اسماعیل آئیں تو اُن کو میرا یہ پیغام دے دینا:ثبّت عتبۃ بابک(یعنی اپنے گھر کی چوکھٹ کو باقی رکھو)۔ صحیح البخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء
حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کو صحرا میں بسا دیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ فطرت کے سادہ ماحول میں ایک نئی نسل پیدا ہو جو توحید کے مشن کو لے کر اٹھے اور اس کو دنیا میں پھیلائے۔ حضرت ابراہیم کے مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اعلیٰ کام کے لیے جو افراد مطلوب ہیں، اُن کے اندر سب سے زیادہ یہ صفت ہونا چاہیے کہ وہ مثبت نفسیات میں جینے والے ہوں، وہ شکایات کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہوں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ تزکیہ کے عمل میں سب سے زیادہ اہمیت کس بات کی ہے، وہ یہ کہ آدمی مکمل طورپر اپنے آپ کو بے شکایت بنالے، شکایت کے اسباب ہوتے ہوئے وہ پوری طرح مثبت سوچ والا انسان بن جائے۔
منفی سوچ تزکیہ کی قاتل ہے، جب کہ مثبت سوچ تزکیہ کے لیے سب سے ضروری شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ منفی سوچ والا آدمی شیطان کا معمول (subject) بن جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، مثبت سوچ والا آدمی فرشتوں کی صحبت میں جینے لگتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تزکیہ کاحصول فرشتوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
تزکیہ کی اصل محاسبہ
حضرت عمر فاروق کا ایک قول ہے:حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا (مسند الفاروق 2/618) یعنی اپنا محاسبہ کرلو، اِس سے پہلے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے۔ یہی محاسبہ تزکیہ کی اصل ہے۔ تزکیہ کسی تربیتی کیمپ کے ذریعے نہیں ہوتا۔ تزکیہ درس وتدریس کے ذریعے نہیں ہوتا۔ تزکیہ کسی قسم کے اعمال واشغال کے ذریعے بھی نہیں ہوتا۔ تزکیہ کا واحد ذریعہ محاسبہ ہے، یعنی اپنا احتساب (introspection) کرنا، خود اپنا نگراں بن جانا، اپنے بارے میں سوچ سوچ کر خود اپنی اصلاح کرنا۔
انسان واحد مخلوق ہے جو سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسان کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ انسان تصوراتی فکر (conceptual thought) رکھنے والا حیوان ہے۔ آپ ایک لکڑی کو گڑھ سکتے ہیں، آپ لوہے کو مولڈ کرسکتے ہیں، لیکن انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا مالک آپ ہے۔ وہ اپنی تشکیل آپ کرتا ہے۔ انسان اگر خود نہ چاہیے تو کوئی دوسرا شخص اس کی شخصیت سازی نہیں کرسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ انسان کے تزکیہ یا اس کی شخصیت سازی میں تمام تر دخل ذاتی محاسبہ کا ہے۔ مربی یا مزکّی کا کام صرف یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر ذاتی محاسبہ کا طاقت ور محرک(incentive) کردے، وہ انسان کے اندر یہ طرزِ فکر پیدا کردے کہ اگر میں نے اپنا تزکیہ نہ کیا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا، اگر میں نے اپنی اصلاح نہ کی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ میں ہمیشہ کے لیے برباد ہو کررہ جاؤں گا۔ مجھے اپنا تزکیہ خود کرنا ہے اور مجھے جو کچھ کرنا ہے وہ آج کرنا ہے، کیوں کہ کل کبھی آنے والا نہیں۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ اپنی ہر غلطی کی توجیہہ (justification)تلاش کرلیتا ہے، اس کو ہمیشہ اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے لیے کچھ الفاظ مل جاتے ہیں۔ تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے اِس مزاج کو مکمل طورپر ختم کردیا جائے۔ مگر اِس مزاج کا خاتمہ انسان کے خود اپنے اختیار میں ہے، وہ کسی بھی دوسرے شخص کے اختیار میں نہیں۔
محاسبہ کیسے
تزکیہ کا اصل ذریعہ ذاتی محاسبہ (self-introspection) ہے، یعنی اپنے بارے میں سوچنا، اپنے قول وعمل کا تجزیہ (analysis) کرنا، دوسرے لفظوں میں، محاسبہ یہ ہے کہ آدمی اپنا جج آپ بن جائے، وہ اپنے خلاف سوچے اور اپنے بارے میں انتہائی بے لاگ انداز میں رائے قائم کرے۔ اِسی کا نام احتساب یا محاسبہ ہے، اور اِس قسم کے محاسبہ کے بغیر کسی کا تزکیہ نہیں ہوسکتا۔
انسان کے اندر سب سے زیادہ طاقت ور جذبہ انا (ego) کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ اتنا زیادہ شدید ہے کہ ہر آدمی شعوری یا غیر شعوری طور پر أنا ولا غیری (میں، میرے سوا کوئی نہیں) کی نفسیات میں جیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر بہت جلد خود فکری (self-thinking) کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے، یعنی خود پسندی کی نفسیات۔ اِس قسم کی نفسیات تزکیہ کی قاتل ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی کے اندر اینٹی سیلف سوچ (anti-self-thinking)پیدا ہو۔وہ اپنے خلاف سوچے اور اپنے خلاف سن سکے۔ عمر بن الخطاب کے اندر یہ جذبہ اتنا زیادہ شدید تھاکہ انھوں نے کہا — خدا اُس انسان پر رحم کرے جو مجھے میرے عیب کا تحفہ بھیجے (رحم اللہ امرء اً أہدیٰ إليّ عیوبي)
محاسبہ کا یہ مزاج ایک دریافت سے پیدا ہوتا ہے، اور وہ ہے اپنے عجز (helplessness) کی دریافت۔ تزکیہ کے طالب کو چاہیے کہ وہ دریافت کے درجے میں اِس حقیقت کو جانے کہ اس کا احساسِ میں (sense of I) صرف احساس کی حد تک محدود ہے۔ اپنے احساس کے باہر کسی بھی چیز پر اس کو کوئی اختیار نہیں — اپنے وجود کو باقی رکھنے پر اس کو کوئی اختیار نہیں، موت کے معاملے میں اس کو کوئی اختیار نہیں، لائف سپورٹ سسٹم (life support system) پر اس کو کوئی اختیار نہیں، آخرت کی عدالت میں اس کو کوئی اختیار نہیں، وغیرہ۔
جب کوئی آدمی اپنی اِس کامل بے اختیاری کو دریافت کرتا ہے تو اس کے اندر لازمی طورپر عجز کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور یہی عجز کا احساس آدمی کو اپنا محاسبہ آپ کرنے پر مجبور کردیتا ہے— اِسی دریافت میں تزکیہ کا اصل راز چھپا ہوا ہے۔
پرچہ آؤٹ
تزکیہ کے سچے طالب کے لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کو خدا کی طرف سے خواب دکھایا جاتا ہے۔ اِس خواب میںاس کو واضح رہنمائی دی جاتی ہے کہ اس کو آگے مزید کیا کرنا چاہیے۔ اِس طرح طالب کو یقین کے ساتھ اپنا چوائس (choice) لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ تزکیہ کے ایک طالب کے لیے اس طرح کا خواب آنا اُسی طرح کی ایک خصوصی مہربانی ہے جیسے کسی اسٹوڈنٹ کے لیے اس کے امتحان کا پرچہ پیشگی طورپر آؤٹ کردیا جائے۔جو شخص تزکیہ کا طالب ہو، اس کے سامنے کئی بار مختلف قسم کے سوالات آتے ہیں۔ اس کو دو میں سے ایک کا فیصلہ لیناہوتا ہے۔ طالب اگر اِس طرح کے مواقع پر خدا سے دعا کرے تو عین ممکن ہے کہ خدا اس کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اُس کو ایک ایسا خواب دکھا دے جس میں اس کے لیے رہنمائی موجود ہو، جو اس کو شبہہ اور تردد سے نکال کر یقین کی طرف لے جانے والا ہو۔
اس قسم کا خواب بلاشبہہ خدا کی ایک خصوصی رحمت ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص خواب دیکھنے کے باوجود اس سے رہنمائی حاصل نہ کرے تو اس کا معاملہ اُس طالب علم جیسا ہوجائے گا جس کا پرچہ آؤٹ کردیا جائے، اِس کے باوجود وہ امتحان میں ناکام رہے۔
تزکیہ پچاس فی صد بندے کا معاملہ ہے اور پچاس فی صد خدا کا معاملہ۔ تزکیہ کے طالب کو چاہیے کہ وہ مسلسل خدا سے دعا کرے۔ یہ دعا اس کے لیے خدا سے جوڑنے کا ذریعہ بنے گی۔ وہ اپنے معاملات میں خدا سے استخارہ کرے۔ استخارہ گویا کہ اپنے معاملات میں خدا کے ساتھ کاؤنسلنگ (counselling) کرنا ہے، اور خدا کے ساتھ کاؤنسلنگ کرنے والا کبھی بے راہ نہیں ہوتا۔
خدا اگر اس کو اس کے معاملے میں کوئی خواب دکھا دے تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ خدا نے اس کے پرچے کو اس کے لیے آؤٹ کردیا ہے، اب اس کے لیے کوئی دوسرا چوائس باقی نہیں رہا ہے۔ جس شخص کو خدا اِس حد تک رہنمائی دے دے، اور پھر بھی وہ اس رہنمائی کو قبول نہ کرے تو یہ اس کے لیے اتنا بڑا جرم ہوگا جو کسی بھی حال میں قابلِ معافی نہیں۔ خدا ایسے انسان سے کوئی عذر (excuse) قبول نہیں کرے گا، وہ اس کو ہمیشہ کے لیے اپنی قربت سے محروم کردے گا۔
تزکیہ اور ترکِ دنیا
بعد کے زمانہ میں کچھ لوگوں نے تزکیہ کے لیے ترکِ دنیا کا طریقہ اختیار کیا۔ لیکن تزکیہ کے لیے نفسیاتی معنوں میں دنیا سے بے رغبتی مطلوب ہے، نہ کہ عملی معنوں میں دنیا کو چھوڑ دینا۔ دنیا کو چھوڑنے کا نظریہ دراصل غیر داعیانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ دنیا میں لازمی طورپر انسان بھی شامل ہیں۔ اِس لیے دنیا کو چھوڑنے کا مطلب انسان کو چھوڑنا بھی بن جاتا ہے۔
داعی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بھی عذر کی بنا پر انسان کو چھوڑ دے۔دوسرے لوگ انسان کو کسی اور نظر سے دیکھ سکتے ہیں، لیکن داعی انسان کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہے۔ داعی کی نظر میں ہر انسان مدعو ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ عام ہو یا خاص، خواہ وہ حاکم ہو یا غیر حاکم، حتی کہ بظاہر وہ مخالف اور ظالم کیوں نہ ہو، داعی کی نظر میں ہر ایک صرف انسان ہے۔ داعی کی اولین خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر انسان تک سچائی کا پیغام پہنچائے۔
داعی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ یہ کہے کہ فلاں شخص ایک دروازے سے آئے گا تو میں دوسرے دروازے سے نکل جاؤںگا۔ وہ یہ کہے گا کہ آنے والا شخص میرے لیے مدعو ہے، اس لیے میں آگے بڑھ کر اس سے ملوں گا اور حکمت کے ساتھ سچائی کا پیغام اس کو پہنچاؤںگا۔
ترکِ دنیا عملاً ترکِ مدعو ہے۔ ترکِ دنیا عملاً ان لوگوں سے دور جانا ہے جو ایک داعی کے لیے مطلوب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک تاجر ہر چیز کو چھوڑ سکتا ہے، لیکن وہ اپنے گاہک(customer) کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اِس طرح ایک داعی ہر دوسری چیز کو برداشت کرسکتا ہے، لیکن وہ اس کو برداشت نہیں کرسکتا کہ وہ مدعو کو چھوڑ کر کسی الگ تھلگ مقام پر چلا جائے۔ مدعو کے درمیان رہتے ہوئے اگر اس کو کوئی مصیبت پیش آتی ہے، اگر اس کے دامن پر کیچڑ کے دھبے لگ جاتے ہیں، تب بھی وہ کیچڑ کو نظر انداز کرے گا، لیکن وہ مدعو سے بے تعلقی کو برداشت نہیں کرسکتا۔
ایک مومن کا مطلوب جس طرح تزکیہ ہے، اسی طرح اس کا مطلوب دعوت بھی ہے، اور ایک سچے مومن کے لیے ممکن نہیں کہ وہ تزکیہ کو چھوڑ دے یا وہ دعوت سے دست بردار ہوجائے۔
تزکیہ کا محرک
اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کا نشانہ (goal) صالح نظام قائم کرنا ہے۔ اِس صالح نظام کے لیے صالح افراد درکار ہیں۔ تزکیہ کا مقصد یہ ہے کہ ایسے صالح افراد تیار کئے جائیں جو صالح نظام بنا سکیں۔ یہ بات کہنے میں بظاہر بے ضرر معلوم ہوتی ہے، لیکن وہ تزکیہ کے پراسس کے لیے بلاشبہہ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس قسم کے تصورِ اسلام کے تحت کبھی تزکیہ کاعمل موثر طورپر جاری نہیں ہوسکتا۔
اِس امتحان کی دنیامیں انسان کو ایسے حالات کے درمیان رہنا پڑتا ہے جہاں ہر طرف تزکیہ کے خلاف اسباب موجود ہیں۔ ایسی حالت میں تزکیہ کا عمل جاری کرنے کے لیے نہایت طاقت ور محرک(strong incentive) درکار ہے۔ اور طاقت ور محرک وہی ہوسکتا ہے جس میں سارا فوکس اپنی ذات پر ہو، نہ کہ کسی خارجی نظام پر۔
حقیقی تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ آدمی یہ محسوس کرے کہ تزکیہ کے بغیر وہ ہر گز کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ تزکیہ نہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے ابدی محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِس قسم کے طاقت ور محرک کے بغیر کبھی کوئی شخص تزکیہ پر کار بند نہیں ہوسکتا۔ حقیقی تزکیہ کے لیے شدید محاسبہ درکار ہوتا ہے اور شدید محاسبہ کبھی کسی خارجی نظام کی نسبت سے پیدا نہیں ہوسکتا۔
اگر میں نے اپنا تزکیہ نہ کیا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا — اِس قسم کا گہرا محرک کسی شخص کے اندر صرف اُسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب کہ تزکیہ اس کے لیے ایک انتہائی ذاتی مسئلہ ہو، نہ کہ کوئی خارجی مصلحت یا دُور کی کوئی ضرورت۔ نظام ایک خارجی چیز ہے جس کا تعلق پورے معاشرے سے ہوتا ہے۔ اِس قسم کا حوالہ کسی آدمی کے اندر طاقت ور محرک بن کر داخل نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ہمیشہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی کی زندگی میں شامل ہوتاہے، نہ کہ کسی خارجی نظام کے حوالے سے۔
تزکیہ تیاری کا عمل
موجودہ مادی دنیا میں ہر آدمی کو روزگار کی ضرورت ہوتی ہے جس کو جاب (job) کہاجاتا ہے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کو ایک اچھا جاب ملے۔ اس کے لیے ہر آدمی اپنے آپ کو جاب مارکیٹ کے تقاضے کے مطابق، ایک تیار انسان (professionally prepared person) بناتا ہے۔ جو آدمی اِس اعتبار سے اپنے آپ کو تیار نہ کرسکے، وہ ساری عمر کے لیے ایک ناکام انسان بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی معاملہ شدید تر انداز میں آخرت کی دنیا کا ہے۔ آخرت کی دنیا نہایت اعلیٰ قسم کی ربانی سرگرمیوں کی دنیا ہے۔ آخرت کی دنیا میں وہی شخص کامیاب ہوگا جو موجودہ دنیا میں اس کے مطابق تیاری کرے، جو موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو روحانی اعتبار سے ایک تیار انسان (spiritually prepared person) بنائے۔ جوآدمی موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو اِس پہلو سے تیار نہ کرسکے، وہ آخرت میں ایک ناکام انسان بن کر رہ جائے گا۔
یہ سارا معاملہ لیاقت (competence) کا معاملہ ہے۔ ایک قسم کی لیاقت دنیا میں کام آتی ہے اور دوسری قسم کی لیاقت آخرت میں کام آئے گی— دنیا میں بظاہر شرک کام آتا ہے۔ آخرت میں توحید کام آئے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کنسرن (concern) بنانا کام آتا ہے، آخرت میں خدا کو کنسرن بنانا کام آئے گا۔ دنیا میں چیزوں کو مادی اینگل (material angle) سے دیکھنا کام آتا ہے، آخرت میں چیزوں کو اسپریچول اینگل سے دیکھنا کام آئے گا۔ دنیا میں مفاد پرستی کام آتی ہے، آخرت میں وہ شخص کامیاب ہوگا جو اپنے آپ کو ایک اصول پسند انسان ثابت کرے۔ دنیا میں بظاہر بددیانتی (dishonesty) کام آتی ہے، آخرت میں دیانت داری (honesty) کام آئے گی۔ دنیا میں حُبِّ عاجلہ (immediate interest) کا مزاج کام آتا ہے، آخرت میں وہ شخص کامیاب ہوگا جس نے حُبِّ آخرت کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کی ہو۔
تزکیہ کا مطلب اپنے آپ کو آخرت کے اعتبار سے تیار کرنا ہے، یعنی اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنا جو موت کے بعد آنے والی دنیا میں آدمی کے کام آئیں۔
تزکیہ کا آئٹم تلاش کرنا
تزکیہ کا وسیلہ اپنی سوچ کو متحرک کرنا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے اُن واقعات کو یاد کریں جب کہ آپ کسی بڑی مصیبت میں پھنسنے والے تھے، مگر اللہ نے اپنی خصوصی مدد سے آپ کو اُس سے بچا لیا۔ ایسے حادثات اور واقعات ہر آدمی کی زندگی میں ہوتے ہیں، مگر بعد کو آدمی ان حادثات اور واقعات کو بھول جاتا ہے۔
تزکیہ کے طالب کو چاہیے کہ وہ بار بار سوچ کر ایسے واقعات کو اپنے ذہن میںتازہ کرے جب کہ وہ تباہی کے عین کنارے پر پہنچ چکا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے خصوصی مداخلت کرکے اس کو بچالیا۔ ان واقعات کو وہ شدت کے ساتھ یاد کرے اور پھر کہے کہ خدایا، تو نے مجھے دنیا کی زندگی میں بار بار بھیانک انجام سے بچالیا۔ اسی طرح تو مجھے آخرت میں جہنم کے ہولناک عذاب سے بچالے۔
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ اپنی کوتاہیوں کو یاد کرکے اپنے اندر احساسِ خطا کو بیدار کریں۔ کسی معاملے میں اگر آپ محسوس کریں کہ آپ 99 فی صد درست تھے، صرف ایک فی صد آپ غلط تھے، تو ایسے موقع پر آپ یہ کریں کہ 99 فی صد کو بھلا دیں اور ایک فی صد کو اتنا زیادہ بڑھائیں کہ آپ کو محسوس ہو کہ گویا ساری غلطی آپ ہی کی تھی۔ اس طرح آپ کے اندر احساسِ خطا جاگے گا۔ آپ خوفِ خدا سے کانپ اٹھیں گے، آپ شدتِ انابت کے ساتھ اللہ سے توبہ کی درخواست کرنے لگیں گے۔
تزکیہ کوئی پراسرار چیز نہیں، تزکیہ کا ایک معلوم پراسس ہے، اور وہ ہے بار بار تزکیہ سے تعلق رکھنے والے پہلوؤں پر سوچنا۔ تزکیہ ہمیشہ شعوری بیداری کا نتیجہ ہوتا ہے، نہ کہ کسی پراسرار کرشمہ کا نتیجہ۔ کوئی شخص جتنا زیادہ اِس معاملے میں سوچے گا، اتنا ہی زیادہ اس کا تزکیہ ہوگا۔ تزکیہ پورے معنوں میں ایک شعوری عمل ہے۔ اِس شعوری عمل کے بغیر تزکیہ کو پانے کی امید رکھنا صرف ایک خوش خیالی (wishful thinking) ہے جو کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔
تزکیہ ذریعہ ٔ قربت
انسان مخلوق ہے اور خدا اس کا خالق ہے۔ اِس لحاظ سے انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق سے آخری حدتک قریب ہو، مگر مختلف چیزیں انسان کو خدا سے دور کردیتی ہیں۔ مثلاً فخر، منفی سوچ، وغیرہ۔ تزکیہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اِس قسم کے منفی جذبات سے مکمل طورپر پاک کیا جائے۔ آدمی جیسے ہی اپنے آپ کو اس قسم کے غیر ربانی جذبات سے پاک کرتا ہے، اچانک وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے خالق سے آخری حد تک قریب ہوگیا ہے۔ وہ اپنے آس پاس خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ کرنے لگتا ہے۔
خدا سے گہری قربت صرف اُس وقت ہوسکتی ہے جب کہ انسان خدا کو اس کے اعلیٰ ترین اوصاف کے ساتھ دریافت کرے۔ مثلاً ہر انسان دنیا میں رہنے کے لیے بے شمار چیزوں کا محتاج ہے۔ یہ چیزیں اس نے خود نہیں پیدا کی ہیں، اس کا ایک دینے والا ہے اور وہ دینے والا بلاشبہہ خدا ہے۔ خدا ہی وہ ہستی ہے جو اس کا واحد منعم اور معطی (giver) ہے۔ یہ بلاشبہہ خدا کے یک طرفہ انعامات ہیں جن کی بنا پر وہ اِس دنیا میں زندہ اور قائم ہے۔ ایک لمحہ کے لیے اگر اِس یک طرفہ عطیہ کا سلسلہ ٹوٹ جائے تو انسان اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا۔
جب ایک انسان اِس طرح خدا کو اپنے منعم کی حیثیت سے دریافت کرتاہے تو اس کے فطری نتیجہ کے طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی روح کے اندر خدا سے محبت کا چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ وہ اُس حقیقت کی تصویر بن جاتا ہے جس کو قرآن میں:والذین آمنوا أشدّ حبًّا للہ (2: 165) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں سجدۂ قربت (96: 19) کا ذکر ہے۔ یہ سجدہ قربت کیا ہے۔ یہ سجدہ قربت دراصل اُس انسان کا سجدہ ہے جو اپنے رب کے لیے محبت اور خشیت سے سرشار ہو اور اِس سرشاری کے تحت وہ اپنے رب کے سامنے سجدہ میں گر پڑے — اِس قسم کا سجدہ ایک مومن کے لیے گویا کہ تزکیہ کی معراج ہے۔
تزکیہ اور موت کی یاد
تزکیہ کے عمل کے لیے موت کی یاد بہت طاقت ور ذریعہ ہے۔ موت کی یاد تزکیہ کو فی الفور کرنے کے ایک کام کی حیثیت دے دیتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کے اندر اِس پہلو سے ایک سینس آف ارجینسی (sense of urgency) پیدا کرتی ہے۔ موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ تزکیہ کے عمل میں تاخیر کا تم تحمل نہیں کرسکتے، تزکیہ کا کام آج کر ڈالو، کیوں کہ کل کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ تمھارے لیے موت کا دن ہوگا یا زندگی کا دن۔
موت کا تصور آدمی کو یاد دلاتا ہے کہ تم پر کسی بھی لمحہ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ تم مرجاؤ گے۔ اس کے بعد تم کو اُس سنگین صورتِ حال کا سامنا پیش آنے والا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یومَ یقوم الناسُ لربّ العالمین (83: 6) یعنی مالکِ کائنات کے سامنے انسان کا کھڑا کیا جانا۔ یہ وہ دن ہوگا جب کہ فرشتے انسان کو لے جاکر خدا کے سامنے پیش کردیں گے۔ خدا جو ہر کھلے اور چھپے کو جانتا ہے، وہ انسان سے اُس کے قول وعمل کا حساب لے گا۔ ایک حدیث کے مطابق، انسان کے قدم اُس وقت تک اللہ کے سامنے سے نہیں ہٹیں گے جب تک وہ اللہ کے سوالات کا جواب نہ دے دے (لاتزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یُسأل عن أربع)۔
موت کو یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے اِس نازک ترین لمحہ کو یاد کرے۔ وہ اُس آنے والے وقت کے بارے میں سوچتا رہے جو بہر حال اُس پر آئے گا۔ اُس دن اُس کے ابدی مستقبل (eternal future) کا فیصلہ کیا جائے گا۔
یہ سوچ بلا شبہہ ایک ایسی سوچ ہے جو آدمی کے اندر زلزلہ پیدا کردے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص اِس طرح موت کے بارے میں سوچے، وہ اپنے تزکیہ کے بارے میں بے حد فکر مند ہوجائے گا۔ وہ آخری حد تک یہ کوشش کرے گا کہ وہ ہر پہلو سے اپنا تزکیہ کر ڈالے، اِس سے پہلے کہ اُس پر موت آئے اور اس کے لیے اپنی اصلاح کا وقت باقی نہ رہے ۔
تزکیہ کا مقصد
قرآن کی سورہ الزمر میں اہل جنت کے معاملہ کو اِس طرح بتایا گیا ہے’’اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرے، وہ گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو جنت کے دروازے کھول دئے جائیں گے اور جنت کے محافظ اُن سے کہیں گے کہ سلام ہو تم پر، خوش حال رہو، پس تم جنت میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ کے لیے۔ اور وہ کہیں گے کہ شکر ہے اُس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور اُس نے ہم کو اِس زمین کا وارث بنا دیا۔ ہم جنت میں جہاں چاہیں، مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا۔ اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ وہ عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کرتے ہوں گے۔ اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ساری حمد اللہ کے لیے ہے، عالم کا خداوند‘‘۔ (39: 73-75)
الحمدللہ رب العالمین کی آیت سورہ الفاتحہ میں موجود دنیا کی نسبت سے آئی ہے۔ سورہ الزمر کے مذکورہ اقتباس میں یہ آیت دوبارہ آخرت کی دنیا کے لیے آئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمدِ خداوندی ہے۔ یہی چیز موجودہ دنیا میں بھی مطلوب ہے اور آخرت میں بھی یہی چیزمطلوب ہوگی— تزکیہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایسی پاک روحیں (purified souls) وجود میں آئیں جو آخرت میں مبنی بر حمد نظامِ حیات کا حصہ بن سکیں۔
موجودہ دنیا میں انسان کا ایک کام یہ تھا کہ وہ ایک تہذیب (civilization) کو وجود میں لائے۔ انسان نے بڑے پیمانے پر یہ کام انجام دیا، حجری دور (stone age) سے آغاز کرکے اُس نے اس کو الیکٹرانک د ور (electronic age) تک پہنچا دیا۔ یہ کام فطرت کے قوانین کو دریافت کرنے کے ذریعہ انجام پایا، لیکن عملاً یہ ہوا کہ انسان نے ایک صحیح کام میںغلط کام کو ملادیا۔ فطرت کی طاقتوں پر قابو پانے کے بعد وہ سرکش بن گیا، اس نے استبدادی نظام (despotic system) قائم کیا، اس نے آزادی کے نام پر انارکی (anarchy)پھیلائی، اس نے فیشن کے نام پر عریانیت (nudity) کو رواج دیا، وغیرہ۔
اِس لیے قیامت میں یہ ہوگا کہ صالح لوگوں کو منتخب کرکے ان کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ ربانی تہذیب کو زیادہ بہتر طورپر قائم کریں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے:أن الأرض یر ثہا عبادي الصالحون (22: 105)
حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی معرفت کا ایک سفر ہے۔ یہ سفر دنیا سے لے کر آخرت تک چلا جارہا ہے۔ دنیا میں معرفت کا سفر محدود طورپر انجام پاتا ہے، آخرت میں معرفت کا سفر لامحدود طورپر جاری رہے گا۔ اِس سفر کو کامیابی کے ساتھ وہی شخص طے کرسکتا ہے جو اپنا تزکیہ کرکے اپنے آپ کو اس کا اہل بنائے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے کلمات اتنے زیادہ ہیں کہ اگر دنیا کے تمام سمندروں کو اور ان کے برابر مزید سمندروں کو سیاہی (ink) بنادیا جائے اور دنیا کے تمام درختوں کو قلم بنادیا جائے اور پھر اللہ کے کلمات کو لکھنا شروع کیا جائے تو تمام سمندروں کی سیاہی ختم ہوجائے گی ، مگر اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (31: 27) ۔
یہ بات جو قرآن میں کہی گئی ہے، وہ خبر نہیں ہے بلکہ وہ انشاء ہے، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ان کلمات کو دریافت کریں اور اِس طرح وہ اپنی معرفت کو مسلسل بڑھاتے رہیں۔ قرآن کی پہلی آیت یہ ہے:الحمد للہ رب العالمین (1:1) یہ آیت بھی خبر نہیں ہے، بلکہ وہ انشاء ہے۔ یہ آیت دریافتِ معرفت کے دنیوی آغاز کو بتاتی ہے۔ دوسری جگہ قرآن میں آخرت کے حوالے سے یہی آیت اِس طرح آئی ہے:وقیل الحمد للہ رب العالمین (39: 75)۔ یہ دوسری آیت دریافتِ معرفت کے اگلے مرحلے کو بتاتی ہے جوآخرت کے زیادہ بہتر ماحول میں ابد تک جاری رہے گا۔
ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ :إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری) اِس حدیث میں جس دینی تائید کا ذکر ہے، اس کا سب سے بڑا مصداق غالباً انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے سائنس دانوں کا عمل ہے۔ انھوںنے معرفت کے حصول کے لیے ایک سائنٹفک فریم ورک دیا۔ آخرت میں اِس سفرِ معرفت کو جاری رکھنے کے لیے اہلِ ایمان کو زیادہ اعلیٰ درجے کے مؤیدین حاصل ہوں گے۔ یہ ملائکہ ہوں گے، جیساکہ قرآن میں آیا ہے:نحن أولیائکم فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرۃ (41: 31) ۔
تزکیہ کا معیار
تزکیہ کا معیار(criterion)کیا ہے۔ تزکیہ کا معیار یہ ہے کہ آدمی کو اسلامی طرز فکر اور اسلامی طرزِ عمل سے اتنی زیادہ مناسبت پیدا ہوجائے کہ وہ اس کو اپنے دل کی آواز محسوس کرنے لگے۔ وہ کسی گرانی کے بغیر اس کو فوراً قبول کرلے، خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف۔
تزکیہ کا اصل مقصد تعلق باللہ بتایا گیاہے۔ یہ بالکل درست ہے۔ اِس کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تزکیہ کی پہچان یہ ہے کہ بندے کا سول کنسرن (sole concern) صرف ایک ہستی بن جائے، اور وہ خدا کی ہستی ہے۔ اِسی کا اصطلاحی نام توحید ہے، یعنی شرک سے مکمل طورپر پاک ہونا اور اللہ کو مکمل طورپر اپنا مرکزِ توجہ بنالینا۔
خدا کو اپنا سول کنسرن بنانا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ آدمی کی ذات میں کامل انقلاب کے ہم معنیٰ ہے۔ ایسے انسان کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ پورے معنوں میں خدا کو، دینے والا (giver) سمجھنے لگتا ہے، اور اپنے آپ کو پورے معنوں میں پانے والا (taker)۔ اس کی سوچ خدا رخی سوچ بن جاتی ہے۔اس کے جذبات کا مرکز خدا بن جاتا ہے، اس کی بات اور اس کے کردار میں خدا کا رنگ دکھائی دینے لگتا ہے، اس کے اندر کامل معنوں میں تواضع (modesty) پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ ایک کٹ ٹو سائز انسان(man cut to size) بن جاتا ہے، دوسروں کے لیے اس کے دل میں نفرت کے بجائے خیر خواہی پیدا ہوجاتی ہے، اس سے لوگوں کو اکڑ کے بجائے اعتراف کا تجربہ ہونے لگتا ہے، وہ ہر معاملے میں اپنی غلطی ڈھونڈنے لگتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے، وہ بولنے سے زیادہ خاموشی کو پسند کرنے لگتا ہے، آگے کی سیٹ حاصل کرنے کے بجائے پیچھے کی سیٹ اس کے لیے محبوب بن جاتی ہے، وہ بولنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ میری بات خدا کے یہاں قابلِ قبول ہوگی یا وہ خدا کے یہاں رد کردی جائے گی، وہ تنہائی میں بھی اُسی طرح محتاط ہو جاتا ہے جس طرح کوئی شخص مجمع کے درمیان محتاط ہوتا ہے۔