روزہ کی حقیقت (Roza ki Haqiqat)
روزہ کی حقیقت
(Leaflet)
مولانا وحید الدین خاں
رمضان میں ایک مہینے کے لیے روزہ رکھا جاتا ہے، یعنی دن کے اوقات میں کھانے اور پینے کو پوری طرح چھوڑ دینا۔ دوسرے لفظوں میں، آدمی سال کے گیارہ مہینے تک کھانے اور پینے کا تجربہ کرتا ہے اور سال کے ایک مہینے میں وہ یہ تجربہ کرتا ہے کہ نہ کھانا کیا ہے اور نہ پینا کیا۔ یہ گویا خوراک زندگی کے بعد بے خوراک زندگی کا تجربہ ہے، یہ آزاد زندگی کے بعد پابند زندگی کا تجربہ ہے۔
غذا کی حیثیت ایک علامت (symbol) کی ہے۔ غذا علامتی طورپر یہ بتاتی ہے کہ خدا نے اِس دنیا میں استثنائی طورپر انسان کے لیے وہ عظیم سسٹم بنایا ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ وسیع کائنات میں اَن گنت ستارے (stars) اور سیّارے (planets) ہیں، لیکن کہیں بھی وہ لائف سپورٹ سسٹم موجود نہیں جو صرف ہماری زمین میں خصوصی طورپر پایا جاتا ہے۔
روزے کا مہینہ دراصل اِسی عظیم نعمت کے لئے ایک یاد دہانی (reminder) کی حیثیت رکھتاہے۔ روزے کا مہینہ یہ یاد دلاتا ہے کہ اگر زمین پر لائف سپورٹ سسٹم موجود نہ ہو تو انسان کا کیا حال ہوگا۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر انسان بے یارومددگار ہو کر رہ جائے گا۔ وہ عجز کے آخری مقام پر پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد زمین پر پانی نہ ہوگا جس کو وہ پئے، خوراک نہ ہوگی جس کو وہ کھائے، آکسیجن نہ ہوگا جس میں وہ سانس لے، سورج کی روشنی نہ ہوگی جس میں وہ چلے پھرے، زمین میں قوتِ کشش نہ ہوگی جس کے اوپر وہ اپنے تمدّن کی تعمیر کرے،وغیرہ۔
قرآن میں روزے کے فائدے کو بتانے کے لیے دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں:لعلکم تتقون )البقرۃ (183 اور:لعلکم تشکرون )البقرۃ (183 اِس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان، آدمی کو لائف سپورٹ سسٹم کی اہمیت یاد دلاتا ہے، تاکہ وہ شکرِخداوندی کے احساس میں غرق ہوجائے۔ اِسی طرح، روزہ آدمي کو یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ اگر یہ لائف سپورٹ سسٹم نہ ہو تو اس کی پوری زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ روزہ، ایک اعتبار سے، تقویٰ کا مزاج پیدا کرتا ہے، اور دوسرے اعتبار سے شکر کا مزاج۔ اور بلا شبہہ اِنھیں دونوں قسم کے احساسات میں جینے کا نام اسلام ہے۔
روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ایک، شکر اور دوسر ے، تقویٰ۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں، مگر عام حالات میں آدمی کو اِس کا احساس نہیں ہوتا۔ روزے میں جب آدمی دن بھر اِن چیزوں سے رُکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک، پیاس کی حالت میں وہ کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے، تو اُس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی، اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اِس تجربے سے آدمی کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
دو سری طرف، روزہ آدمی کے لیے تقویٰ کی تربیت ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے، وہ اُن چیزوں سے رکا رہے جن سے خدا نے اُس کو روکا ہے اور وہ وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اس کو اجازت دی ہے۔ روزے میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا، پینا چھوڑ دینا، گویا اللہ کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔ مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دارانہ زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طور پر چند چیزوں کو چھڑا کر، آدمی کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر کے لیے اُن چیزوں کو چھوڑ دے جو اُس کے رب کو ناپسند ہیں۔
نزولِ قرآن کا مہینہ
رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اور قرآن کے درمیان گہرا تعلق ہے، وہ تعلق یہ ہے کہ قرآن اپنے ماننے والوںکو ایک مشن دیتا ہے، دعوت الی اللہ کا مشن ۔ اِس دعوتی مشن کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے صبر وتحمل کی لازمی طورپر ضرورت ہے۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ—رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے:ھو شہر الصبر( البیہقی، رقم الحدیث(3608دعوت الی اللہ کا مشن صرف وہی لوگ کامیابی کے ساتھ چلاسکتے ہیں جواس کو یک طرفہ صبر کے ساتھ چلانے کے لیے تیار ہوں۔ روزہ آدمی کے اندر اِسی یک طرفہ صبر کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اِس طرح، روزے کا تربیتی مہینہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ صبر وتحمل کے ساتھ دعوت الی اللہ کے مشن کو چلائے اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکے۔