پیغمبر انقلاب (Paighambar-e-Inqilab)
پیغمبراسلام کو خدا کی طرف سے یہ مشن دیا گیا کہ وہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچائیں۔ یعنی یہ کہ خدا صرف ایک ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ ہر اعتبار سے خدا رُخی زندگی گزارے۔ یہی انسان کی نجات کا راستہ ہے۔قرآن میں اس مشن کو تزکیۂ نفس کا مشن بتایا گیا ہے۔ اس کے حصول کا ذریعہ سیاسی انقلاب نہیں ہے، بلکہ ذہنی انقلاب ہے۔ یہ مقصد صرف انسان کی فكري قوت کو بیدار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے ميں پیغمبر اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ دوسرے پيغمبروں كے برعكس، آپ کے ذریعے توحید کا مشن انقلاب كے درجے تک پہنچا۔ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے وہ تمام انفرادی، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں وقوع میں آئیں، جن کے مجموعے کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ مؤرخين نے عام طور پر اس كا اعتراف كيا هے۔ یہاں یہ سوال ہے کہ پیغمبر اسلام کے اس عظیم انقلاب کا راز کیا تھا۔ زیرِ نظر کتاب پیغمبر اسلام کے اِسی پہلو کا تعارف ہے۔
پیغمبر انقلاب
سیرتِ رسول کا علمی اور تاریخی مطالعہ
مولانا وحید الدین خاں
Contents
غیر متعلق مسائل سے تعرض نہ کرنا
دین ان کے لیے محبوب چیز بن گیاتھا
پیغمبر کو آغاز تاریخ میں پہچاننا
غیر قائم شدہ صداقت کے لیے مال لٹانا
قانونی حد سے آگے بڑھ کر ساتھ دینا
اختلاف سے بچ کر اصل نشانہ پر لگے رہنا
پچھلی نشست پر بیٹھنے کے لیے راضی ہو جانا
دیباچہ
امریکا سے ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے ’’ایک سو ‘‘ ۔اس کتاب میں ساری انسانی تاریخ کے ایک سو ایسے آدمیوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے، مصنف کے نزدیک، انسانی تاریخ پر سب سے زیادہ اثرات ڈالے۔ کتاب کا مصنف مذہبی طور پر عیسائی اور تعلیمی طور پر سائنس داں ہے۔ مگر اپنی فہرست میں اس نے نمبر ایک پر نہ حضرت مسیح کا نام رکھا ہے اور نہ نیوٹن کا۔ اس کے نزدیک وہ شخصیت جس کو اپنے غیر معمولی کار ناموں کی وجہ سے نمبر ایک پر رکھا جانا چاهيے، وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ آپ نے انسانی تاریخ پر جو اثرات ڈالے وہ کسی بھی دوسری شخصیت، خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، نے نہیں ڈالے۔
مصنف نے آپ کے کمالات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے :
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
Dr. Michael H. Hart, The 100, New York 1978
آپ تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کا میاب رہے۔ مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی۔
انگریز مورخ ٹامس کا رلائل (Thomas Cralyle, 1795-1881)نے پیغمبر اسلام کو نبیوں کا ہیرو قرار دیاتھا۔ امریکن رائٹر مائیکل ہارٹ (Dr. Michael H. Hart, b. 1932) نے آپ کو ساری انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انسان قرار دیا ہے۔ پیغمبر اسلام کی عظمت اتنی واضح ہے کہ وہ صرف آپ کے پیروؤں کے ایک ’’ عقیدہ‘‘ کی حیثیت نهيں رکھتی۔ وہ ایک مسلّمہ تاریخی واقعہ ہے اور ہر آدمی جو تاریخ کو جانتا ہے وہ مجبور ہے کہ اس کوبطور واقعہ تسلیم کرے۔
کوئی شخص اوپر نظر ڈالے تو اس کو ہرطرف آسمان چھایا ہو ا نظر آئے گا۔ اسی طرح انسانی زندگی میں جس طرف بھی دیکھا جائے، پیغمبر اسلام کے اثرات نمایاں طور پر اپنا کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ ساری بہترین قدریں اور تمام اعلیٰ کامیابیاں جن کو آج اہمیت دی جاتی ہے وہ سب آپ کے لائے ہوئے انقلاب کے براہ راست یا بالواسطہ نتائج ہیں۔
مذہبی اداروں میں شخصیت پرستی کے بجائے خدا پرستی کس نے قائم کی۔ اعتقادیات کو توہمات کے بجائے حق کی بنیاد کس نے عطا کی۔ سائنس میں فطرت کی پرستش کے بجائے فطرت کو مسخر کرنے کا سبق کس نے دیا۔ سیاسیات میں نسلی شہنشاہیت کے بجائے عوامی حکومت کا راستہ کس نے دکھایا۔ علم کی دنیا میں خیال آرائی کے بجائے حقیقت نگاری کی طرح کس نے ڈالی۔ سماج کی تنظیم کے لیے ظلم کے بجائے عدل کی بنیاد کس نے فراہم کی۔ جواب یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں انسان کو پیغمبر اسلام سے ملیں۔ آپ کے سوا کوئی نہیں ہے جس کی طرف حقیقی طور پر ان کا رناموں کو منسوب کیا جاسکے۔ دوسرے تمام افراد آپ کے انقلابی دھارے کو استعمال کر نے والے ہیں نہ کہ اس کو وجود میں لانے والے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تاریخ کا سب سے بڑا انسان بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا ہے۔ اس طرح آپ كو معلوم تاریخ میں ایک ایسا بلند ترین مینار بنا كر کھڑا کر دیاگیا ہے کہ آدمی جس طرف بھی نظر ڈالے وہ آپ کو دیکھ لے۔ جب وہ اپنے رہنما کی تلاش میں نکلے تو اس کی نظر سب سے پہلے آپ پر پڑے۔ جب وہ حق کا راستہ جاننا چاہے تو آپ کا بلند و بالا وجود اس کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرے۔ آپ ساری انسانیت کے لیے ہادیِ اعظم کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی لیے آپ کو اتنے بلند تاریخی مقام پر کھڑا کیاگیا ہے کہ کوئی آنکھ والا جب آنکھ اٹھائے تو آپ کو دیکھے بغیر نہ رہ سکے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خدا کے ایک پیغمبر تھے جس طرح دوسرے بہت سے پیغمبر ہوئے ہیں۔ قرآن کی صراحت کے مطابق، آپ کے مشن اور دوسرے پیغمبروں کے مشن میں اصلاً کوئی فرق نہ تھا، تاہم آپ کی ایک حیثیت مزید تھی۔ اور وہ یہ کہ آپ نبیوں کے خاتم تھے۔ دوسرے لوگ صرف رسول اللہ تھے، اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی تھے (وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ) 33:40۔
یہ دنیا چونکہ دارالا متحان ہے اور یہاں ہر ایک کو عمل کی آزادی دی گئی ہے، اس لیے یہاں پیغمبروں پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی گئی کہ وہ لوگوں کو بد لیں۔ ان پر صرف یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ خدا کی طرف سے ملے ہوئے پیغام کو لوگوں تک واضح طور پر پہنچا دیں (فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ) 16:35۔
مگر نبیوں کے خاتم کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ عملی انقلاب پیدا کر کے زمین کے بڑے رقبہ میں اپنی ایک امت بر پا کر ے تاکہ اس کی لائی ہوئی آسمانی کتاب کی مستقل حفاظت کا انتظام ہو سکے۔ اس عالم اسباب میں کتاب کی حفاظت کی کوئی دوسری صورت ممکن نہیں۔ اور اگر کتاب اِلٰہی محفوظ نہ ہو تو پیغمبروں کی آمد ختم نہیں ہو سکتی۔ گو یا دوسرے انبیاء صرف پیغمبر دعوت تھے اور آپ پیغمبر دعوت کے ساتھ پیغمبر انقلاب بھی۔
انسان کو اپنے عمل پر پورا اختیار حاصل ہے، مگر اس کو عمل کے انجام پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہ ایک نہایت سنگین صورت حال ہے جس سے انسان موجودہ دنیا میں دو چار ہے۔ اسی لیے خدا نے انسان کی رہنمائی کے لیے انتہائی حد تک کامل انتظام کیا ہے تاکہ دنیا کی عدالت میں کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔
اولاً انسان کو انتہائی درست ساخت پر پیدا کیاگیا اور اس کی فطرت میں صحیح اور غلط کی تمیز پیوست کر دی گئی۔ اس کے بعد اس کو ایک ایسی دنیا میں رکھا گیا جو کامل عدل کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے، تاکہ انسان جد ھر دیکھے ہر طرف اس کو خدا کا پیغام خاموش زبان میں سنائی دیتا رہے۔ اسی کے سا تھ مزید خصوصی انتظام یہ کیاگیا کہ ہر زمانہ میں اور ہر قوم میں خدا کے رسول آئے اور ہر ایک کو اس کی اپنی قابل فہم زبان میں حقیقت واقعہ سے باخبر کرتے رہے۔
آخری تد بیر کے طور پر اللہ تعالیٰ کا یہ منصوبہ ہوا کہ خود انسانی زندگی کی صورت میں ایک کامل مثال کھڑی کرے جو تمام انسانوں کے لیے ایک زندہ نمونہ کا کام دیتی رہے۔ مگر حضرت نوح سے لے کر حضرت مسیح تک پیغمبروں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی وجہ سے یہ کامل انسانی نمونہ تاریخ میں قائم نہ ہو سکا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اس قسم کے ایک نبی کی بعثت کی دعا کی تھی۔ آپ کی دعا کے ڈھائی ہزار سال بعد پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم، خصوصی خدائی تائید کے ساتھ، اسی منصوبہ کی تکمیل کے لیے بھیجے گئے۔
آپ نے نہ صرف شخصی زندگی کے اعتبار سے مطلوب انسان کا نمونہ دنیا میں قائم کیا۔ بلکہ اسی کے ساتھ خدا کے منصوبہ کے مطابق ہر قسم کے اجتماعی احوال بھی آپ پر گزرے، اورہر حال میں آپ نے ربانی ہدایت پر قائم رہ کر بطور نمونہ دکھا دیا کہ كيسا انسان خدا کا مطلوب انسان ہے۔
آپ کے ذریعہ صرف یہی نہیں ہوا کہ خدا پر ستی کا انسانی نمو نہ دنیا میں قائم ہوا۔ بلکہ اسی کے ساتھ یہ نمونہ بھی قائم ہوا کہ حقیقی خدا پرستی کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد کس طرح ایسا ہوتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔خدا سے خوف کس طرح دوسرے خو فوں سے آدمی کو نجات دیتا ہے۔ اشتعال انگیز مواقع پر خدا کی خاطر صبر کر لینا کس طرح کا میابی کا زینہ بنتا ہے۔ آخرت کے لیے دنیوی فائدوں کو چھوڑنا کس طرح بالآخر آدمی کو دنیا بھی دے دیتا ہے اور آخرت بھی۔ منفی نفسیات سے بلند ہو کر کام کرنا کس طرح اس فتح مبین تک پہنچاتا ہے کہ دشمن بھی حامی اور دوست بن کر آپ کے ساتھی بن گئے۔ پیغمبر آخر الزماں سے پہلے جو انبیاء آئے ان کی زندگی مدوّن تاریخ کا جز نہ بن سکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خالص علمی اور تاریخی اعتبار سے ان کی نبو تیں ثابت شدہ نبو تیں نہیں۔ حضرت مسیح قدیم رسولوں میں سب سے آخری رسول ہیں۔ مگر آپ کا معاملہ بھی تاریخی اعتبار سے یہ ہے کہ ایک مغربی مفکر کو یہ کہنے کا موقع ملا— تاریخی اعتبار سے خود یہ امر سخت مشتبہ ہے کہ مسیح کا اس دنیا میں کبھی وجود بھی تھا:
Historically, it is quite doubtful whether Christ ever existed at all. (Bertrand Russell, Why I am not a Christian, London, 2004, p. 12)
مگر پیغمبر آخر الزماں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کی حیثیت تاریخی طور پر اس قدر مسلّم ہے کہ آپ کے بارے میں جب ایک ہسٹورین قلم اٹھاتا ہے تو اس کو یہ الفاظ لکھنے پڑتے ہیں— محمد تاریخ کی پوری روشنی میں پیدا ہوئے:
(Muhammad is) the only one of the world prophets to be born within the full light of history. (Philip K. Hitti, The Arabs: A Short History, London, 1960, p. 23)
آپ کے زندہ پیغمبر ہونے ہی کا یہ پہلو بھی ہے کہ آپ کو جو معجزہ دیا گیا وہ ایک زندہ اور قائم رہنے والا معجزہ تھا، یعنی قرآن۔ اگر آپ کو عام قسم کے معجزے دیے جاتے تو وہ آپ کی وفات کے بعد ختم ہو جاتے۔ جب کہ آپ کی نبوت آپ کی وفات کے بعد بھی پوری طرح باقی رہنے والی تھی۔ اسی خاص مصلحت کی بنا پر آپ کے لیے آپ کی لائی ہوئی کتاب کو معجزہ بنا دیا گیا۔ معجزہ اس حیران کن واقعہ کا نام ہے جس کی نقل کسی انسان کے بس میں نہ ہو۔ قرآن کی نقل کسی فرد یا کسی گروہ کے بس میں نہیں۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن ایک خدائی معجزہ ہے۔
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو نسبتِ اظہار دی گئی تھی، یعنی دین کا آئڈیولوجیکل اظہار (ideological manifestation)۔ یہی نسبت آپ کے بعد آپ کے امتیوں کو بھی حاصل ہے۔ مگر یہ نسبت بلا تشبیہ، ویسی ہی ہے جیسے کسان کے بارے میں کہا جائے کہ اس کو نسبت زراعت حاصل ہے۔ کسان کو نسبتِ زراعت حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے وہ اسباب کا مل طور پر مہیا کر دیے ہیں جن کو صحیح طور پر استعمال کر کے کوئی کسان اپنے لیے لہلہاتی ہوئی فصل اگا سکتا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اور آپ کی امت کے لیے نسبتِ اظہار یا نسبتِ غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے لیے خدانے وہ تمام حالات بہترین طور پر مہیا کر دیے ہیں جو دین کے غلبہ کے لیے اس عالم اسباب میں مطلوب ہیں۔ جب بھی ان کو استعمال کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یقینی طور پر مثبت شکل میں بر آمد ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت ابراہیم سے لے کر آپ کی بعثت تک ڈھائی ہزار سال کے اندر تمام موافق حالات بہترین طور پر جمع کر دیے گئے۔ آپ نے ہدایتِ خدا وندی کی پیروی کرتے ہوئے ان موافق حالات کو اویل (avail) کیا۔ اس کا نتیجہ عظیم الشان کامیابی کی صورت میں بر آمد ہوا۔
اب دوبارہ پچھلے چودہ سو سال کے عرصہ میں مختلف تاریخی تبدیلیوں اور علمی ارتقاء کے ذریعہ ہر قسم کے موافق حالات ہمارے حق میں جمع کر دیے گئے ہیں۔ آج بھی پوری طرح یہ ممکن ہے کہ پیغمبر آخر الزماں کے لائے ہوئے دین کو غالب و سر بلند کیا جائے۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب کہ اس کے لیے وہ جدو جہد کی جائے جو قانون خداوندی کے مطابق کسی حقیقی نتیجہ کے ظہور کے لیے ضروری ہے۔ یہ شرط نہ پیغمبر کے لیے ساقط کی گئی اور نہ آپ کے امتیوں کے لیے وہ کبھی ساقط ہو سکتی ہے۔
حصّہ اول
آدم سے مسیح تک
خدا کی طرف سے جتنے رسول آئے، سب اس لیے آئے کہ انسان کو زندگی کی حقیقت سے باخبر کریں، یہ حقیقت کہ موجودہ دنیا کی زندگی، انسان کی ابدی زندگی کا صرف ایک امتحانی وقفہ ہے۔ کم و بیش سو سال یہاں زندگی گزار کر ہم اپنی مستقل دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں خدا کے وفا دار بندوں کے لیے جنت ہے اور اس کے نا فر مان بندوں کے لیے جہنم۔
آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے رسول بھی۔ اس کے بعد حضرت مسیح تک مسلسل خدا کے پیغمبر آتے رہے۔ ابو امامہ کی روایت میں آیا ہے کہ ابو ذر غفاری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انبیاء کی تعداد کے بارے میں سوال کیا آپ نے فرمایا، ایک لاکھ 24ہزار۔ ان میں تین سو پندرہ رسول ہوئے (مسند احمد، حدیث نمبر 22288)۔ خدا کے ان نمائندوں نے مختلف قوموں اور آبادیوں کوخدا کے منصوبۂ تخلیق (creation plan of God) سے باخبر کیا اور خدا سے ڈر کر زندگی گزارنے کی تلقین کی۔ مگر انسانوں میں بہت کم ایسے لوگ نکلے جو اپنی آزادیٔ عمل کو خدا کے حوالے کرنے کے لیے تیار هوئے ہوں۔ حضرت یحییٰ کو کوئی ساتھی نہیں ملا اور وہ قتل کر دیے گئے۔ حضرت لوط نے اپنی قوم کو چھوڑا تو ان کے ساتھ ان کی صرف دو لڑ کیاں تھیں۔ حضرت نوح کے ساتھ، ان کی کشتی کا قافلہ، تو ریت کے بیان کے مطابق، صرف آٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ حضرت ابراہیم اپنے وطن عراق سے نکلے تو ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ تھیں اور ان کے بھتیجے لوط۔ بعد کو اس قافلہ میں ان کے دو بیٹے اسماعیل اور اسحاق شامل ہوئے۔ حضرت مسیح کو ساری کوشش کے بعد بارہ آدمی ملے، وہ بھی آخر وقت میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے (متی، 26:56)۔
بیشتر انبیاء کا حال یہی رہا ہے۔ کوئی تنہا رہ گیا۔ کسی کو چند ساتھ دینے والے ملے۔ ان چند میں بھی زیادہ تران کے اپنے اہل خاندان تھے جن سے رشتے کا تعلق نبی کا ساتھ دینے کے لیے ایک اضافی محرک بن گیا۔ قرآن کی یہ آیت اس پوری تاریخ پر ایک تبصرہ ہے:
يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ(36:30)۔ يعني افسوس ہے بندوں کے حال پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کی ہنسی اڑائی۔
انسانی نسل میں خدا کے نزدیک سب سےاہم ہستیاں وہ ہیں جن کو پیغمبر کہا جاتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ساری انسانی تاریخ میں یہی لوگ سب سے زیادہ غیر اہم رہے ہیں۔ بادشاہوں اور سپہ سالاروں کے واقعات تاریخ نے مکمل طور پر ضبط کیے۔ مگر آدم سے مسیح تک کوئی نبی ایسا نہیں جس کو با قاعدہ طور پر مدوّن تاریخ میں جگہ ملی ہو۔
ارسطو (384-322 ق م ) حضرت موسیٰ کے ہزار برس بعد پیدا ہوا۔ مگر وہ موسیٰ کے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر انبیاء کو ان کی قوم نے رَدکر دیا۔ ان کے گھروں کو اجاڑا گیا، ان کو معاشرہ میں بے قیمت کر کے رکھ دیاگیا، ان کو ایسا بنا دیا گیا گو یا وہ اتنے غیر اہم لوگ ہیں جن کا ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
نبیوں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیاگیا۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے اپنی مخاطب قوموں کی روش پر تنقید۔ انسان کو سب سے زیادہ جو چیز محبوب ہے، وہ ہے اپنی تعریف، اور جو چیز سب سے زیادہ مبغوض ہے، وہ ہے اپنے خلاف تنقید۔ انبیاءچونکہ صحیح اور غلط کو بتانے کے لیے آتے ہیں، وہ اپنے ہم قوموں سے مصالحت نہیں کرتے۔ وہ ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس لیے قوم ان کی مخالف بلکہ دشمن ہو جاتی ہے۔ انبیاء اگر لوگوں کی دل پسند تقریریں کرتے تو کبھی ان کو اس صورت حال سے دو چار ہونا نہ پڑتا۔
اس عمومی انجام میں صرف چند نبیوں کا استثناہے۔ مثلاً حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت یوسف علیہم السلام۔ مگر ان حضرات کو جو عروج و اقتدار ملا، وہ ان کے نظریات کی عوامی مقبولیت کا نتیجہ نہ تھا۔ اس کے اسباب بالکل دوسرے تھے۔
حضرت داؤد اسرائیلی بادشاہ ساؤل کی فوج میں ایک نوجوان سپاہی تھے۔ ان کے زمانہ میں اسرائیلیوں اور فلسطیوں میںجنگ ہوئی۔ فلسطی فوج میں جالوت نام کا ایک دیو ہیکل پہلوان تھاجس سے مقابلہ کرتے ہوئے تمام لوگ ڈرتے تھے۔ بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو شخص اس کو قتل کر ے گا میں اپنی لڑکی کی شادی اس سے کردوں گا۔ حضرت داؤد نے مقابلہ کیااور اس کو مار ڈالا۔ اس طرح وہ اسرائیلی بادشاہ کے داماد بن گئے۔ اس کےبعد جب ایک جنگ میں بادشاہ اور اس کا ولی عہد دونوں ہلاک ہوگئے تو تخت حضرت داؤدکے حصہ میں آگیا۔ حضرت سلیمان آپ کے بیٹے تھے اور ان کو حکومت اپنے باپ سے وراثت میں ملی۔ حضرت یوسف کو خواب کی تعبیر کا علم دیاگیا۔ اس سے مصر کا مشرک بادشاہ متاثر ہو گیا، اور اپنے اقتدار اعلیٰ کے تحت حکومتی انتظامات آپ کے سپرد کر دیے۔ تاہم بادشاہ اور عام مصری باشندے بد ستور اپنے مشرکا نہ دین پر قائم رہے۔
اس صورت حال کا نقصان صرف یہی نہیں ہوا کہ ہر دور کی بیشتر آبادی خدا کی نعمت ہدایت سے محروم رہی۔ اس سےبڑا نقصان یہ ہوا کہ کوئی پیغمبر خدا کی طرف سے جو کتاب اور پیغامات لے کر آتا تھا، اس کے بعد اس کو محفوظ رکھنے کا سامان نہ ہوسکا۔ کیونکہ پیغمبر کے بعد اس کے متبعین ہی اس کو محفوظ رکھ سکتے تھے۔ مگر وہ یا تو حاصل نہیں ہوئے یا اتنے کم تھے کہ سماج کے علی الرغم کلام اِلٰہی کی حفاظت نہ کر سکے۔
خدا جس کا علم ازل سے ابد تک پھیلا ہوا ہے، جو آنے والے مستقبل کو بھی اسی طرح دیکھ رہا ہے جس طرح گزر ے ہوئے ماضی کو، اسے انسانیت کا یہ انجام معلوم تھا۔ اس لیے اس نے پہلے ہی یہ مقدر کر دیاتھا کہ پیغمبر ا نہ دور کے آخری مرحلہ میں وہ اپنا ایک خاص نمائندہ بھیجے گا۔ اس پیغمبر کو دعوت دین کے ساتھ اظہار دین کی نسبت بھی حاصل ہوگی۔ اس کو یہ نصرتِ خاص دی جائے گی کہ وہ ہر حال میں اپنے مدعوین پر غلبہ حاصل کرے اور ان کو حق کے آگے جھکنے پر مجبور کرے (لَنْ يَقْبِضَهُ اللهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ المِلَّةَ العَوْجَاءَ)صحیح البخاری، حدیث نمبر 2125۔ خدا کی فوج اس کا ساتھ دے کر اس کے مخالفوں کو زیر کرے گی، تاکہ خدا کا دین ہمیشہ کے لیے مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے۔ اور خدا کی کتاب کی حفاظت کا مستقل انتظام ہو سکے۔ بائبل کے الفاظ میں ’’ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہواہے، اسی طرح زمین خد ا وند کے جلال کے عرفان سے معمور ہو (حبقوق 2: 14)۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس منصوبہ کو، بائبل کی شہادت کے مطابق، ہزاروں برس پہلے سے مختلف ابنیاء کے ذریعہ ظاہر کرنا شروع کر دیاتھا، چنانچہ بتا دیا گیا تھا کہ وہ نبی عرب کے صحرائی جغرافیہ سے اٹھے گا۔ وہ بنی اسرائیل کے بقیہ گھرانے یعنی ان کے بھائیوں (بنی اسماعیل) کی اولاد سے ہوگا۔ وہ حضرت مسیح کے بعد آئے گا۔ اس کے ساتھی خدا کے خریدے ہوئے کہلائیں گے۔ جو قومیں ان سے ٹکرائیں گی پاش پاش ہو جائیں گی۔ ازلی پہاڑ (ایران و روم) جھک جائیں گے۔ اس کی سلطنت خشکی سے لے کر بحری ممالک تک پھیلی ہوئی ہوگی۔ وغیرہ
موجودہ بائبل اگر چہ ترجمہ اور الحاقات کے نتیجہ میں اصل بائبل سے بہت کچھ مختلف ہو چکی ہے۔ تاہم آج بھی کثیر تعداد میں اس کے اندر ایسے بیانات موجود ہیں جو ایک غیر جانب دار آدمی کے لیے آنے والے آخری نبی کے سوا کسی اور ذات پر صادق نہیں آتے۔ خاص طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کی تشریف آوری کا تو مشن ہی یہ تھا کہ وہ دنیا کو، اور خاص طور پر یہود کو، آنے والے نبی سے آخری طور پر آگاہ کردیں۔ آپ نے جس ’’نئے عہد نامہ ‘‘ کی بشارت دی وہ حقیقۃً اسلام تھا جو یہود کی معزولی کے بعدبنی اسماعیل کے ذریعہ باندھا گیا۔ انجیل نئے عہد نامہ کی بشارت ہے، نہ کہ خود نیا عہد نامہ۔
حضرت مسیح علیہ السلام، نبی آخرالزماں سے چھ سو سال قبل تشریف لائے۔ قرآن کی سورہ الصف میں آیا ہے کہ حضرت مسیح نے فلسطین کے یہو دیوں سے کہا کہ اللہ نے مجھے ایک آنے والے نبی سے پہلے اس کا مبشر بنا کر بھیجا ہے جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا (وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ) 61:6۔
احمد اور محمد دونوں ہم معنی الفاظ ہیں جن کے معنی ہیں ’’تعریف کیاہوا ‘‘۔ انجیل بر ناباس میں صاف صاف لفظ ’’محمد‘‘ آیا ہے۔ تاہم چونکہ مسیحی حضرات انجیل برناباس کو جعلی انجیل کہتے ہیں، اس لیے ہم اس کا حوالہ مناسب نہیں سمجھتے۔ نیز ہمیں اس میں شبہ ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی پیشین گوئی میں لفظ احمد یا محمد کہا ہوگا۔ زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ آپ نے احمد یا محمد کے ہم معنی کوئی لفظ استعمال فرمایا۔
محمد بن اسحاق ( م152 ھ ) کی ایک روایت جو ابن ہشام نے نقل کی ہے، اس کے مطابق یہ لفظ غالباً مُنْحَمنَّا تھا۔ ابن اسحاق سیرت کے موضوع پر سب سے زیادہ اہم ماخذ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی روایت ہے کہ مجھے بتانے والوں نے بتایا کہ یحنس (یوحنا) کی انجیل میں آنے والے رسول کی جو پیشین گوئی ہے، اس میں اس کا نام مُنْحَمنَّا بتایا گیا ہے (تہذیب سیرۃ ابن ہشام جلد اول، صفحہ 50)۔اغلباً یہ روایت انہیں اپنے زمانہ کے فلسطینی عیسائیوں کی معرفت پہنچی جو اس وقت اسلام کے زیر اقتدار آچکا تھا۔مُنْحَمنَّا سر یانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’تعریف کیاہوا ‘‘ ماضی کے اثر سے اُس وقت تک فلسطین کے با شندوں کی زبان سریانی تھی۔ غالب قیاس یہ ہے کہ حضرت مسیح کی مادری زبان میں بولا ہو ا اصل لفظ "مُنْحَمنّا" ان کی روایات میں چلا آرہا تھا، جو بعد کے یونانی ترجموں میں فار قلیط بن گیا۔
نبوت محمدی کا ظہور
ایک طرف افریقہ اور دوسری طرف ایشیا اور یورپ کے وسط میں عرب کا جزیرہ نما قدیم آباد دنیا کا جغرافی قلب معلوم ہوتا ہے۔ مگر قدیم زمانہ کے سیاسی حوصلہ آزماؤں میں کوئی نہیں ملتا جس نے اس علاقہ کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کی کوشش کی ہو۔ تمام فوجی مہمیںعرب کے سرحدی علاقوں— عراق، شام، فلسطین، لبنان اور یمن پر آکر ٹھہرگئیں۔ اس سے آگے نجد و حجاز کے علاقہ کو اپنی حکومت میں شامل کرنے کی ضرورت انہوں نے نہیں سمجھی۔ کیوں کہ تین طرف سے سمندروں سے گھرا ہونے کے باوجود یہاں ان کے لیے خشک پہاڑ اور اڑتی ہوئی ریت کے سوا اورکچھ موجود نہ تھا۔
اسی ’’بےآب و گیاہ ‘‘ وادی کی مرکزی بستی مکہ میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ آپ کے والد عبد اللہ بن عبدالمطلب آپ کی پیدائش سے چند ماہ پہلے انتقال کر گئے۔ والدہ کا انتقال بھی اس وقت ہو گیا جب کہ آپ کی عمر ابھی صرف چھ سال تھی۔ اب آپ کے سر پرست آپ کے دادا عبد المطلب بن ہاشم تھے تاہم دو سال بعد وہ بھی اس دنیا سے چلے گئے۔اس کے بعد آپ کی سر پرستی آپ کے چچا ابو طالب بن عبد المطلب کے حصہ میں آئی۔ مگر ہجرت کےتین سال پہلے، آپ کی زندگی کےمشکل ترین مرحلہ میں، ان کے لیے بھی موت کا پیغام آگیا۔
اگر چہ فطرت سے آپ نے بڑی شان دار شخصیت پائی تھی۔ بچپن میں آپ کودیکھنے والے کہہ اٹھتے: إن لهَذَا الْغُلَام لشأناً ( الوفالابن الجوزي، صفحہ 57)۔ اس لڑکے کا مستقبل عظیم ہے۔ جب بڑے ہوئے تو آپ کے شخصی رعب و وقار کا حال یہ تھا کہ حضرت علی کے الفاظ میں :مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3638)۔ جو آپ کو پہلی بار دیکھتا مرعوب ہو جاتا، جو ساتھ بیٹھتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا۔ مگر چالیس سال کی عمر میں جب آپ نے دعوت نبوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو آپ کا دعویٰ اتنا حقیر معلوم ہوا کہ انہوں نے كها:هذا ابن أبي كبشة يكلم من السماء(منار القاري، شرح مختصر صحيح البخاري، جلد 1، صفحه 66)۔اس كا مطلب تھا ديكھو يه فلاں ديهاتي كا لڑكا، وه سمجھتا هے كه آسمان سے اس كو وحي آتي هے۔
آپ کی دعوتی جدو جہد کی کل مدت صرف 23سال ہے۔ مگر اس انتہائی مختصر مدت میں عرب کے قبائل میں آپ نے ایسا انقلاب بر پا کر دیا جس کی کوئی دوسری مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس انقلاب نے سو سال سے بھی کم عرصہ میں دنیا کی دو بڑی شہنشاهيتوں، ساسانی سلطنت اور باز نطینی سلطنت کو زیر کر لیا اور ایک طرف عراق و ایران سے لے کر بخار ا تک، دوسری طرف شام و فلسطین سے لے کر مصر اور پورے شمالی افریقہ تک کو فتح کر لیا۔ پھر یہ سیلاب مغربی سمت بڑھا اور 711ء میں جبر الٹر (Gibraltar)سے گزر کر اسپین اور پر تگال میں داخل ہو گیا۔ مغربی یورپ میں قافلۂ اسلام کی پیش قدمی 732ء میں شاہ فرانس چارلس (Charles Martel)نے فرانس میں تورز(Tours)کے مقام پر روک دی۔ تاہم دو صدیوں تک یورپ کی صلیبی جنگوں اور اس کے بعد تا تاریوں کے بے پناہ حملوں کے با وجود پندر ھویں صدی تک اس کو کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچا۔ باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنے اندرونی اختلاف کی وجہ سے اسپین کو کھو دیا۔
اس کے بعد اسلام کی اندرونی طاقت نے تر کوں اور مغلوں کو کھڑا کیا۔ ترکوں نے 1453 میں قسطنطنیہ کو فتح کیا اور مشرقی یورپ میں یوگو سلاویہ تک پہنچ گئے۔ وياناکے سامنے 1683تک ایک ترک فوج موجود تھی۔ سو لھویں صدی میں مغلوں نے بر صغیر ہند اور افغانستان کے علاقہ میں اسلام کا اقتدار قائم کیا۔ تیرہ صدیوں کے بعد اس تو سیع کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں مسلمان موجود ہیں۔ ایشیا اور افریقہ سے لے کر یورپ تک تقریباً چار درجن ممالک کا ایک مسلم علاقہ بن چکاہے۔ موتمر عالم اسلامی کے شائع کر دہ عالمی مسلم گزیٹیر ( World Muslim Gazetteer 1975)کے مطابق آج دنیا بھر میں اہل اسلام کی تعداد 90 کرور ہے۔
یہ سب جو ہوا، اسی 23سالہ عمل کا نتیجہ تھا جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں عرب میں انجام دیا گیا تھا۔ 23سال کی مدت میں ایک ایسا انقلاب آنا جو نہ صرف تاریخ انسانی میں دائمی طور پر ثبت ہو جائے بلکہ خود اپنی ایک مستقل تاریخ پیدا کرے، کسی انسان کے بس کی چیز نہیں۔ یہ ایک خدائی معاملہ تھا اور اسی نے اس کو انجام دیا۔ بد ر کی فتح کے بعد جب مسلمان واپس ہوئے تو روحاء کے مقام پر کچھ لوگ ملے جنہوں نے ان کو فتح کی مبارک باددی۔ سلمہ بن سلامہ نے جواب دیا تم لوگ کس چیز کی مبارک باد دے رہے ہو۔ خدا کی قسم یہ تو گو یا بندھے ہوئے اونٹ تھے جن کو ہم نے ذبح کر دیا (كَالْبُدْنِ الْمُعَقَّلَةِ فَنَحَرْنَاهَا)۔ سیرۃ ابن ہشام، جلد1، صفحہ644
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی اہتمام سے پیشگی اس کے اسباب فراہم کر دیے تھے۔ عرب کے خشک جغرافیہ میں ایک ایسی قوم جمع کر دی گئی جس میں صحرائی زندگی کے نتیجہ میں کردار کی صلابت غیر معمولی حد تک پائی جاتی تھی۔ وہ اقرار اور انکار کے درمیان کسی تیسری چیز کو نہ جانتے تھے، ان کے اندر وہ تمام فطری خصائص پوری طرح محفوظ تھے جو کسی تحریک کا مجاہد بننے کے لیے ضروری ہیں۔ پھر عرب کےجزیرہ نما کے گرد اس وقت کی دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتیں قائم کر دی گئی تھیں، بالکل فطری تھا کہ وہ اپنے پڑوس میں ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت کو بر داشت نہ کریں اور اس کے خلاف جار حیت کا آغاز کر دیں۔ اس طرح ان کی جا ر حیت اہل اسلام کے لیے جو از فراہم کر دے کہ وہ دنیا کے اِس سرے سے اُس سرے تک ملکوں کو فتح کرتے چلے جائیں۔ کیونکہ عملاً اس وقت کی تقریباً تمام دنیا انهي دونوں جارح قوموں کا علاقہ تھی۔ یہ ایک حقیقت ہےکہ اسلام کی لڑائیاں دوسروں کے خلاف جار حیت نہیں تھیں۔ بلکہ یہ دوسروں کی جار حیت کا جواب تھا جو ہمیشہ تمام دنیا میں جائز سمجھا گیا ہے۔
اس طرح جو واقعات ظہور میں آئے۔ ان کی اہمیت صرف سیاسی نہ تھی۔ اس سے زیادہ بڑی بات یہ تھی کہ اس انقلاب کے ذریعہ انسانی تاریخ کے بند دروازے کو کھول دینا مقصود تھا۔ اس کے ذریعہ وہ انقلاب آنا تھا جو دین حق کو ایک تاریخی حقیقت بنا دے، جو اس سے پہلے تاریخی واقعہ کی حیثیت حاصل کرنے سے محروم تھا۔ وہ پریس کا دورلے آئے جس کے بعد قرآن کی دائمی حفاظت کا انتظام ہو جائے۔ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ آئے جو داعیان حق کے لیے حق کی اشاعت کی راہ سے تمام مصنوعی رکاوٹوں کو ہٹا دے۔ اس سے طبیعیاتی علوم کی وہ دریا فتیں ظاہر ہوں جو دین کی صداقت کو عقلیاتی سطح پر مد لل و مبرہن کردیں۔
اس انقلاب کا اس سے بھی اہم پہلو یہ ہے کہ نبی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر دکھا دیا۔ سچے لوگوں کو آپ کے ذریعہ غالب کر دیا گیا جو آخرت میں دائمی برتری حاصل کریں گے، اور بر ے لوگوں کو آپ کے ذریعہ مغلوب کر دیا گیا جو آخرت میں دائمی پستی اور مغلوبیت کا شکار رہیں گے۔
تاریخ کا یہ اندو ہناک منظر ہے کہ خدا کے سچے پرستار یہاں ہمیشہ دبے اور پسے ہوئے نظر آتے ہیں، اور دولت اور اقتدار کو پوجنے والوں کویہاں تفوق حاصل رہتا ہے۔ تمام انبیاء اور صلحاء کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ یہ صورت حال حقیقی صورت حال کے بالکل بر عکس ہے۔ کیونکہ بالآخر جو ہونے والا ہے، وہ تو یہ ہے کہ خدا اپنے پرستاروں کو دائمی عزت اور بر تری عطا فرمائے گا اور جو لوگ اپنے نفس کی اوردنیا کی پو جا میں لگے رہے، ان کو ہمیشہ کے لیےذلت اور رسوائی میں دھکیل دے گا۔
یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں لوگوں کو موقع ہے کہ وہ جو چا ہیں کریں۔ اس لیے یہاں خدا کسی کا ہاتھ نہیں پکڑتا۔ تا ہم پیغمبر اسلام کے ذریعہ، کم از کم ایک بار، اس زمین پر وہ منظر ابتدائی شکل میں دکھا دیا گیا ہے جو کامل اور دائمی صورت میں آخرت میں سامنے آنے والا ہے۔ آپ کے ساتھی— جن کا حال یہ تھا کہ ان کے گھروں کو اجاڑ دیا گیا، جن کے لیے زمین تنگ كر دي گئي، جن کی معا شیات تباہ کر دی گئیں، جن کو اس قدر خوف وہراس میں مبتلا کیا گیا کہ ان کو ہر وقت یہ اندیشہ لگا رہتا کہ لوگ انہیں اچک لیںگے،ان کو عزت اور اقتدار کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ دوسری طرف قریش اور یہود، رومی اور ایرانی، یمنی اور غسانی، جو دولت اور اقتدار کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، ان کو ذلیل کر کے پستی کے گڑھے میں ڈال دیا گیا۔
ہر نبی جو خدا کی طرف سے آتا ہے، وہ زمین پر خدا کی عدالت ہوتا ہے۔ اس کی معرفت خدا اپنےان فیصلوں سے لوگوں کو باخبر کرتا ہے جس کو وہ آخرت میں براہ راست خود سنانے ولا ہے۔ مگر پیغمبر اسلام کے ذریعہ یہ عدالت اِلٰہی ایسی خصوصی شکل میں ظاہر ہوئی کہ وہ خود تاریخ انسانی کا جز بن گئی۔ جس طرح بہت سے دوسرے انسانی تجربات تاریخی حقیقت کا درجہ اختیار کر چکے ہیں، اسی طرح یہ واقعہ بھی ایک تاریخی حقیقت کی حیثیت سے انسانی معلومات میں ثبت ہو چکا ہے کہ خدا اپنے متقی بندوں کو سر فراز کرتا ہے اور جو لوگ سر کشی اختیار کریں، ان کوذلّت و بر بادی کے دائمی عذاب میں دھکیل دیتا ہے۔ جنت اور جہنم اگر چہ دوسری دنیا میں قائم ہو نے والی حقیقتیں ہیں، مگر انسان کی نصیحت کے لیے اللہ نے اس کا ایک ابتدائی منظر اسی دنیا میں لوگوں کو دکھا دیاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نبوت محمدی کا ظہور، خدا کی خدائی کا ظہور تھا، اسی لیے انجیل میں اس کو ’’خدا کی باد شاہت ‘‘ سے تعبیر کیاگیاہے۔ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کی بلاشبہ سیاسی اور عمرانی اہمیت بھی ہے اور دوسری بہت سی اہمیتیں بھی۔ مگر اس کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ وہ انسان کو خدا کے جلال کا مشاہدہ کراتاہے۔ وہ خدا کی عدالت کا منظر دکھارہا ہے، اس نے ان حقیقتوں کو آخرت سے پہلے انسان کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے جن کو انسان آخرت میں اپنی کلّی شکل میں دیکھے گا۔
مثالی کردار
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 22، اپریل 571ء کو عرب میں پیدا ہوئے اور 8، جون 632ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ آپ نہایت تندرست اور طاقت ور تھے۔ بچپن سے یہ حال تھا کہ جو دیکھتا، کہہ اٹھتا:إن لهَذَا الْغُلَام لشأناً ( الوفالابن الجوزي، صفحہ 57)۔ بڑے ہوئے تو آپ کی شخصیت اور زیادہ نمایاں ہوگئی۔ آپ کو دیکھنے والے آپ سے مرعوب ہوجاتے۔ اسی کے ساتھ اتنے نرم اور شیریں زبان تھے کہ تھوڑی دیر بھی جو شخص آپ کے قریب رہتا، آپ سے محبت کرنے لگتا۔ برداشت، سچائی، معاملہ فہمی، حسن سلوک آپ کے اندر کامل درجہ میں پایا جاتاتھا۔ خلاصہ یہ کہ آپ اس انسانی بلندی کی اعلیٰ ترین مثال تھے جس کو نفسیات کی اصطلاح میں متوازن شخصیت (balanced personality) کہا جا تا ہے۔ داؤ دبن حصین کا بیان ہے:قَالُوا شب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أفضل قومه مروة وَأَحْسَنهمْ خلقا وَأكْرمهمْ مُخَالطَة وَأَحْسَنهمْ جوارا وأعظمهم حلما وَأَمَانَة وأصدقهم حَدِيثا وأبعدهم من الْفُحْش والأذى مَا رُؤِيَ مماريا وَلَا ملاحيا احدا حَتَّى سَمَّاهُ قومه الْأمين (الخصائص الکبری للسیوطی، جلد 1، صفحہ 153)۔ یعنی عرب کے لوگ عام طور پر یہ کہتے سنے جاتے تھے کہ محمد بن عبد اللہ اس شان سے جوان ہوئے کہ آپ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بااخلاق، پڑو سیوں کی خبر گیری کرنے والے، حلیم و بر دبار، صادق و امین، جھگڑے سے دور رہنے والے، فحش گوئی و دشنام طرازی سے پرہیز کرنے والے تھے۔ اسی وجہ سے آپ کی قوم نے آپ کا نام ’’ الا مین‘‘ رکھا تھا۔
25سال کی عمر میں جب آپ نے شادی کی تو اس موقع پر آپ کے چچا ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھتے ہوئے کہا تھا:إِن ابْن أخي هَذَا مُحَمَّد بن عبد الله لَا يُوزن بِهِ رجل إِلَّا رجح بِهِ برا وفضلا وكرما وعقلا ومجدا ونبلا... وَهُوَ وَالله بعد هَذَا لَهُ بِنَاء عَظِيم وخطر جليل (جامع الآثار لابن ناصر الدين الدمشقي، جلد3، صفحہ460) ۔ یعنی میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ کا مقابلہ جس شخص سے بھی کیا جائے، وہ نیکی، شرافت، نجابت، بزرگی اورعقل میں اس سے بڑھ جائے گا— خد ا کی قسم اس کا مستقبل عظیم ہوگا، اور اس کا رتبہ بلند ہوگا۔
ابو طالب نے یہ الفاظ ان معنوں میں نہیں کہے تھے جن معنوں میں بعد کو تاریخ نے اسے سچا ثابت کیا۔ انہوں نے یہ بات تمام تر د نیوی معنوں میں کہی تھی۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ جو شخص فطرت سے وہ پُر کشش شخصیت لے کر پیدا ہوا ہو، جو محمد بن عبد اللہ میں نظر آتی ہے، وہ بہر حال قوم کے اندر معزز مقام حاصل کرتاہے اور دنیا کے بازار میں اس کی بڑی قیمت مل کر رہتی ہے۔ ایسے شخص کی اعلیٰ صلاحیتیں اس کی ترقی اور کامیابی کی یقینی ضمانت ہیں۔
پیغمبر اسلام کے لیے یہ امکانات، بلاشبہ، پوری طرح موجود تھے۔ آپ اپنی صلاحیتیوں کی بڑی سے بڑی دنیوی قیمت و صول کر سکتے تھے۔ آپ مکہ کے ایک اونچے خاندان میں پیدا ہوئے۔ اگر چہ آپ کو اپنے باپ سے وراثت میں صرف ایک اونٹنی اور ایک خادمہ ملی تھی۔ مگر آپ کی شاندار پیدائشی خصوصیات نے مکہ کی سب سے امیر خاتون کو متاثر کیا۔ 25سال کی عمر میں ان سےآپ کا نکاح ہو گیا۔ یہ ایک تاجر خاندان کی بیوہ تھیں۔ ان سے آپ کو نہ صرف مال اور جائداد ملی، بلکہ عرب میں اور عرب کے باہر تجارت کا زبر دست میدان بھی ہاتھ آیا۔ اب آپ کے لیے ایک پُر سکون اور کامیاب زندگی بنانے کے سارے مواقع فراہم ہو چکے تھے۔ مگر آپ نے ان کوچھوڑ کر ایک اور ہی چیز کا انتخاب کیا۔ آپ نے جانتے بو جھتے اپنے کو ایک ایسی راہ پرڈال دیا جو صرف دنیا کی بر بادی کی طرف لے جاتی تھی۔ خدیجہ سے نکاح سے پہلے آپ اپنی گزر اوقات کے لیے کچھ معاشی کا م کر لیتے تھے۔ اب وہ بھی چھوٹ گیا، اب آپ ہمہ تن اس تلاش میں لگ گئے جس کی جستجو آپ کو بچپن سے تھی۔ یہ کہ سچائی کیا ہے۔ آپ گھنٹوں بیٹھے ہوئے زمین و آسمان پر غور کرتے رہتے۔ مکہ کے شرفاء میں اپنے تعلقات بڑھانے اور وہاں کی مجلسوں میں اپنی جگہ پیدا کرنے کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ صحراؤں اور پہاڑوں کو اپنا ہم نشین بنا لیا۔ مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی سلسلہ ہے جس میں ایک کھوہ ہے جس کا نام حراہے۔ آپ ستو اور پانی لے کر وہاں چلے جاتے۔ پہاڑ کے سنسان ماحول میں زندگی کی حقیقت پرغور کرتے۔ زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے سے دعائیں مانگتے کہ میرے رب ! تو اپنے آپ کو میرے اوپر ظاہر کر دے۔ سچائی کیا ہے، مجھ کو بتا دے۔ جب پانی کی مشک خالی ہو جاتی اور ستو ختم ہو جاتا تو گھر واپس آتے تاکہ دوبارہ اسی طرح کھانے پینے کا سامان لے کر قدرت کے اس ماحول میں لوٹ جائیں جہاں صحرا اور درخت تھے۔ پہاڑ اور آسمان کی پر سکون فضائیں تھیں۔ آپ کی بے چین طبیعت انسانی ہنگا موں میں اپنے سوال کا جواب نہ پاسکی تھی۔ اب آپ نے قدرت کی خاموش دنیا کو اپنا ہم نشین بنا یا تھا کہ شاید وہ اس کا کچھ جواب دے سکے۔
جوانی کی طاقتوں سے بھر پور ایک شخص کے لیے اس قسم کی زندگی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ خوشی کے راستہ کو چھوڑ کر غم کے راستہ کو اپنا ناتھا۔ بیوی بچوں کے ساتھ آرام کی زندگی گزارنا، تجارت کو ترقی دینا اور سو سائٹی میں اپنی جگہ بنانا، یہ تمام امکانات آپ کے لیے پوری طرح کھلے ہوئے تھے۔ مگر آپ کی بے تاب اور متلاشی طبیعت ان چیزوں پر راضی ہونے کے لیے تیار نہ تھی۔ تمام چیزیں اس وقت تک آپ کو ہیچ معلوم ہوتی تھیں جب تک آپ زندگی کا راز معلوم نہ کرلیں۔ آپ جاننا چاہتے تھے کہ ان ظاہری چیزوں سے اوپر اگر کوئی حقیقت ہے تو وہ کیا ہے۔ نفع نقصان اور آرام و تکلیف کی اصطلاحوں میں سوچنے کے بجائے آپ اس سوال کو حل کرنے میں منہمک رہتے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔
پیغمبر اسلام کی زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جس کو قرآن میں ان لفظوں میںبیان کیا گیا ہے:وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى (93:7)۔ یعنی اور تم کو متلاشی (seeker)پایا تو اس نے تم کو راہ دکھائی۔ ضالّ کے معنی ہیں راہ بھولا ہوا، سر گر داں۔ جیسا کہ آپ کےپچپن کے بارے میںتفسیر میں آیا ہے:ضَلَّ فِي شِعَابِ مَكَّةَ وَهُوَ صَغِيرٌ، ثُمَّ رَجَعَ(تفسیر ابن کثیر، جلد8، صفحہ 426)۔یہ لفظ اس مسافر کے لیے بولا جاتا ہے جو راستہ سے بھٹک گیاہو اور حیران و پریشان مختلف راستوں کو دیکھ رہاہو، اس کی سمجھ میں نہ آتا ہو کہ کدھر جائے۔ اسی لیے اس درخت کو ضالّہ کہتے ہیں جو صحرا میں اکیلا کھڑا ہو اور اس کے آس پاس کوئی دوسرا درخت نہ ہو۔ اسی سے کہا جاتا ہے:ضلَّ الماءُ فِي اللَّبن، إِذا غَاب (تہذیب اللغۃ للازهري، جلد11، صفحہ 320)۔ یعنی پانی دودھ میں کھوگیا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ جاہلیت کے بیابان میں اکیلے درخت کی طرح کھڑے ہوئے تھے۔ صحراؤں اور پہاڑوں میں یہ غم لیے پھرتے تھے کہ سچائی کیا ہے جس کو میں اپناؤں۔ دنیا کے مروجہ نقشوں میں اپنی جگہ بنانے کے بجائے حیران و متفکر ہو کر الگ تھلگ جا پڑے تھے۔ سچائی سے کمتر کوئی چیز آپ کی روح کے لیے تسکین کا ذریعہ نہیں بن سکتی تھی۔ حتٰی کہ آپ کی تلاش حق کی سر گردانی اس نوبت کو پہنچ گئی تھی کہ زندگی آپ کے لیے ایک ایسا بوجھ بن گئی جو آپ کی کمر توڑے دے رہی تھی۔ (الم نشرح، 94:2-3)۔
اس وقت اللہ کی رحمت آ پ کی طرف متوجہ ہوئی۔ آپ کےلیے ہدایت اور روشنی کے دروازے کھول دیے گئے۔ 12فروری 610کو جب کہ آپ حرا میں تنہا بیٹھے ہوئے تھے، خدا کا فرشتہ انسان کی صورت میں آپ کےسامنے ظاہر ہوا اور خدا کی طرف سے آپ کو وہ کلمات سکھائے جو قرآن کی سورہ نمبر 96کی ابتدا میں درج ہیں۔ آپ کی تلاش نے بالآخر اپنا جواب پالیا۔
پیغمبر اسلام کی بے چین روح کا ربط رب العالمین سے قائم ہو گیا۔ خدا نے آپ کو نہ صرف ہدایت دی بلکہ اپنے نمائندۂ خاص کی حیثیت سے چن لیا۔ آپ کے اوپر خدا کا کلام اتر نے لگا۔ آپ کی نبوت کی یہ مدت23سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس مدت میں خدا کی کتاب (قرآن ) مکمل طور پر آپ کے اوپر اتاری گئی۔
پیغمبر اسلام نےاپنی مشکل زندگی کے چالیسویں سال میں سچائی دریافت کر لی۔ مگر یہ سچائی آپ کے لیے کوئی آسان سودا نہ تھی۔ اس سچائی کا مطلب یہ تھا کہ آدمی ایک عظیم تر خدا کی زد میں ہے۔ یہ اپنے عجز کےمقابلہ میں خدا کی کبر یائی کی دریافت تھی۔ یہ خدا کے اثبات کے مقابلہ میں اپنی نفی کا پتہ لگاناتھا۔ یہ اس راز کومعلوم کرنا تھا کہ اس دنیا میں بندۂ مومن کی صرف ذمہ داریاں ہی ذمہ داریاں ہیں، یہاں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔
سچائی کی دریافت کے بعد، پیغمبر اسلام کے لیے، زندگی کے معنی کیا تھے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہاں صرف ایک حدیث نقل کی جاتی ہے۔ آپ نے ایک بار فرمایا:
أَمَرَنِي رَبِّي بِتِسْع:خَشْيَةِ اللهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ وَكَلِمَةِ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَى وَالْقَصْدِ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِي وَأُعْطِي مَنْ حَرَمَنِي وَأَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَنِي وَأَنْ يَكُونَ صَمْتِي فِكْرًا وَنُطْقِي ذِكْرًا وَنَظَرِي عِبْرَةً(رواہ رزین، بحوالہ جامع الاصول، حدیث نمبر9317)۔ یعنی میرے رب نے مجھے نوباتوں کا حکم دیا ہے — کھلے اورچھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتا رہوں، غصہ میں ہوں یا خوشی میں، ہمیشہ انصاف کی بات کہوں، محتاجی اور امیری دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہوں، جومجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں، جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں، جومجھ پر ظلم کرے، میں اس کو معاف کردوں، اور میری خاموشی غور و فکر کی خاموشی ہو، میرا بولنا یا دالہیٰ کا بولنا ہو، میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
یہ محض تقریر یا گفتگو کے الفاظ نہ تھے۔ یہ خود آپ کی زندگی تھی جو لفظوں کی صورت میں ڈھل رہی تھی۔ یہ حیرت انگیز حدتک موثر کلمات اور اس قدر پہنچی ہوئی باتیں ایک خالی انسان کی زبان سے نکل ہی نہیں سکتیں۔ یہ الفاظ تو خود بولنے والے کا مقام بتا رہے ہیں۔ وہ کہنے والے کے اندرون کو انڈیل رہے ہیں۔ وہ بولنے والے کی روح کو الفاظ کے آئینہ میں بے نقاب کر رہے ہیں ۔
آپ کی زندگی اگر چہ نبوت ملنے سے پہلے بھی اسی قسم کی تھی۔ مگر وہ تمام تر فطرت کے زور پر تھی۔ اب سچائی کی دریافت نے اس کو شعور کا درجہ دے دیا۔ جو کر دار اب تک طبعی تقاضے کے تحت ظاہر ہوتاتھا۔ اب وہ ایک سوچے سمجھے ذہن کا ارادی جز بن گیا۔ یہ کسی بندۂ خدا کا وہ مقام ہےجہاں دنیوی تقاضے انتہائی حدتک گھٹ کر صرف بقدر حاجت رہ جاتے ہیں۔ آدمی کی جینے کی سطح عام انسانوں سے مختلف ہو جاتی ہے۔ اس کا جسم اِسی ظاہری دنیا میں ہوتا ہے مگر نفسیاتی اعتبار سے وہ ایک اور دنیا میں زندگی گزارنے لگتاہے۔
ایک روایت کے مطابق پیغمبر اسلام نے فرمایا:وَعَلَى الْعَاقِلِ مَا لَمْ يَكُنْ مَغْلُوبًا عَلَى عَقْلِهِ أَنْ تَكُونَ لَهُ سَاعَات:سَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّهُ، وَسَاعَةٌ يُحَاسِبُ فِيهَا نَفْسَهُ، وَسَاعَةٌ يَتَفَكَّرُ فِيهَا فِي صُنْعِ اللهِ، وَسَاعَةٌ يَخْلُو فِيهَا لِحَاجَتِهِ مِنَ الْمَطْعَمِ وَالْمَشْرَبِ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ يعني،عقلمند شخص کے لیے لازم ہے کہ اس پر کچھ گھڑ یا ں گزریں ایسی گھڑی جب کہ وہ اپنے رب سے باتیں کرے، ایسی گھڑی جب کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ کرے، ایسی گھڑی جب کہ وہ خدا کی تخلیق میں غور کر رہا ہو۔ اور ایسی گھڑی جب کہ وہ کھانے پینے کی ضرورتوں کے لیے وقت نکالے۔
گویا خدا کا وفاد ار بندہ وہ ہے جس کے روز و شب کے لمحات اس طرح گزریں کہ کبھی اس کی بے قراریاں اس کو خدا سے اتنا قریب کردیں کہ وہ اپنے رب سے سر گوشیاں کرنے لگے۔ کبھی یوم الحساب میں کھڑے ہونے کا خوف اس پر اس طرح طاری ہو کہ وہ دنیاہی میں اپنا حساب کرنے لگے۔ کبھی کائنات میں خدا کی کاریگری کو دیکھ کر وہ اس میں اتنا محوہو کہ اس کے اندر اس کو خالق کے جلوے نظر آنے لگیں۔ اس طرح گویا خدا سے ملاقات، اپنے آپ سے ملاقات اور کائنات سے ملاقات میں اس کے لمحات گزر رہے ہوں۔ اور بدرجۂ حاجت وہ کسی وقت کھانے پینے کے لیے بھی اپنے کو فارغ کر لیا کرے۔
یہ الفاظ دور کے کسی انسان کا تعارف نہیں ہیں ۔ اس میں خود پیغمبر اسلام کی اپنی شخصیت بول رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ظاہری جسم کے اندر جو مومنانہ روح تھی اس میں ہر وقت کس قسم کے طوفان اٹھتے رہتے تھے۔ آپ کی زندگی کس قسم کی ’’ساعات‘ ‘ کے درمیان گزررہی تھی حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خود ان گھڑیوں کا تجربہ کر رہاہو، وہ کبھی اتنے اعلیٰ الفاظ میں اس بات کو بیان ہی نہیں کرسکتا۔ یہ ایک ایسی روح سے نکلے ہوئے کلمات ہیں جس نے ان کیفیات کو خود کمال درجہ میں پایا تھا جس کو وہ لفظوں کے ذریعہ دوسروں پر کھول رہا تھا۔
پیغمبر اسلام کو وحی خدا وندی ملنے سے پہلے، موجودہ دنیا اپنی کمیوں اور محدو دیتوں کے ساتھ بے معنی معلوم ہوتی تھی۔ مگر جب آپ پر خدانے اس حقیقت کو کھولا کہ اس دنیا کے سوا ایک او ر دنیا ہے جو کامل اور ابدی ہے اور وہی انسان کی اصلی قیام گاہ ہے، تو زندگی اور کائنات دونوں آپ کے لیے بامعنی ہوگئے۔ اب آپ نے زندگی کی وہ سطح پالی جہاں آپ جی سکتے تھے، جس میں آپ اپنا دل لگا سکتے تھے۔ اب آپ کو ایسی حقیقی دنیا مل گئی جس سے اپنی امیدوں اور تمناؤں کو وابستہ کر سکیں جس کے پیش نظر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں۔
یہی مطلب ہےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس حدیث کا کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ( الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ)المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 497۔ اس احساس کے تحت جو زندگی بنتی ہے، اس کو آج کل کی اصطلاح میں آخرت رخی زندگی (Akhirat-Oriented Life)کہا جا سکتا ہے۔ ایسا آدمی، اپنے تصور حیات کے لازمی نتیجہ کے طور پر، آخرت کو اپنا اصل مسئلہ سمجھنے لگتاہے۔ وہ اس سے باخبر ہوجاتا ہے کہ دنیا ہماری منزل نہیں، وہ صرف راستہ ہے۔ وہ آخرت کے مستقبل کی تیاری کا ایک ابتدائی مرحلہ ہے۔ جس طرح ایک دنیا پر ست آدمی کی تمام سر گرمیاں دنیوی مصالح کے گرد گھومتی ہیں، اسی طرح ایک بندۂ خدا کی پوری زندگی کا رخ آخرت کی طرف ہو جاتا ہے۔ ہرمعاملہ میں اس کا رویہ اس فکر کےتحت بنتا ہے کہ آخرت میں اس کا انجام کیا ہوگا؟ خوشی ہو یا غم، کامیابی ہو یا ناکامی، محکومی کی حالت ہو یا غلبہ کی، تعریف کی جارہی ہو یا تنقید، غصہ کا موقع ہو یا محبت کا ہر حال میں آخرت کا خیال اس کا رہنما بنا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ آخرت کی فکر اس کے لاشعور کا جز ء بن جاتا ہے۔ اگرچہ اب بھی وہ بشریت سے خالی نہیں ہوتا۔ مگر اس کا ذہن ان ہی امور میں چلتا ہے جو آخرت سے تعلق رکھنے والے ہوں۔ جن باتوں میںآخرت کا کوئی پہلو نہ ہو ان سے اس کی دلچسپیاں اتنی کم ہو جاتی ہیں کہ بعض اوقات اس کو کہنا پڑتا ہے:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2363)۔ یعنی تم اپنے دنیا کے معاملے کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔
اس حقیقت کی حیثیت محض ایک علمی دریافت کی نہیں۔ اس کو پانے کے بعد آدمی کی جینے کی سطح بدل جاتی ہے آدمی کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال خود پیغمبر اسلام کی ذات ہے۔ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جب تک جینے کی سطح نہ بدلے، عمل کی سطح نہیں بدل سکتی۔
پیغمبر اسلام نے جب یہ حقیقت پائی تو وہ ان کی پوری زندگی کا سب سے بڑا کنسرن بن گئی۔ جس جنت کی خبر آپ دوسروں کو دے رہے تھے، اس کے آپ خود سب سے زیادہ حریص بن گئے اور جس جہنم سے دوسروں کو ڈرارہے تھے ،اس سے آپ خود سب سے زیادہ ڈرنے لگے۔ آپ کا یہ اندرونی طوفان بار بار دعا اور استغفار کی صورت میں آپ کی زبان سے ظاہر ہوتا رہتاتھا۔ آپ کی جینے کی سطح عام انسانوں سے کس طرح مختلف تھی اس کا اندازہ چند واقعات سے ہوگا۔
ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آیا ہے:عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَيْتِهَا، فَدَعَا وَصِيفَةً لَهُ - أَوْ لَهَا - فَأَبْطَأَتْ، فَاسْتَبَانَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، فَقَامَتْ أُمُّ سَلَمَةَ إِلَى الْحِجَابِ، فَوَجَدَتِ الْوَصِيفَةَ تَلْعَبُ، وَمَعَهُ سِوَاكٌ، فَقَال:لَوْلَا خَشْيَةُ الْقَوَدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَأَوْجَعْتُكِ بِهَذَا السِّوَاكِ(الأدب المفرد، حدیث نمبر 184)۔ يعني، ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں تھے آپ نے خادمہ کو بلایا۔ اس نے آنے میں دیر کی۔ آپ کے چہرہ پر غصہ ظاہر ہوگیا۔ ام سلمہ نے پردہ کے پاس جا کر دیکھاتو خادمہ کو کھیلتے ہوئے پایا۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک مسواک تھی۔ آپ نے خادمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر قیامت کے دن مجھے بدلہ کا ڈر نہ ہوتا تو میں تجھ کو اس مسواک سے مارتا۔
بدر کی جنگ (رمضان2ھ) کے بعد جو لوگ قیدی بن کرآئے، وہ آپ کے بد ترین دشمن تھے۔ مگر آپ نے ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ ان قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمر و تھا جو آتش بیان خطیب تھا اور تمام مجمعوں میں آپ کے خلاف بیہودہ تقریریں کیا کرتا تھا۔ عمر فاروق نے رائے دی کہ اس کے نیچے کے دو دانت اکھڑوادیے جائیں تاکہ آئندہ کے لیے اس کا تقریر کا جوش ختم ہو جائے۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا:لَا أُمَثِّلُ بِهِ فَيُمَثِّلُ اللهُ بِي وَإِنْ كُنْتُ نَبِيًّا(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ649)۔ یعنی میں اس کا چہرہ نہیں بگاڑوں گا،ورنہ خدا میرا چہرہ بگاڑ دے گا، اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں۔
پیغمبر اسلام عام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ خوشی کی بات سے آپ کو خوشی ہوتی تھی اور غم کی بات سے آپ غمگین ہوتے تھے۔ مگر آپ کی عبدیت آپ کو خدا کے مقرر کیے ہوئے دائرہ سے باہر نہیں جانے دیتی تھی۔
پیغمبر اسلام کی آخر عمر میں مار یہ قبطیہ سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ یہ لڑکا خوبصورت اور تندرست تھا۔ اس کا نام آپ نے اپنے بزرگ ترین جدا مجد کے نام پر ابراہیم رکھا۔ ابو رافع نے جب ابراہیم کی پیدائش کی خبردی تو آپ اتنا خوش ہوئے کہ ابو رافع کو ایک غلام انعام میں دے دیا۔ آپ ابراہیم کو گود میں لے کر کھلاتے اور پیار کرتے۔ عرب قاعدہ کے مطابق ابراہیم کو ایک دایہ ام بردہ بنت المنذربن زید انصاری کے حوالے کیاگیا تاکہ وہ دودھ پلائیں۔ یہ دایہ ایک لوہار کی بیوی تھیں۔ ان کے چھوٹے سے گھر میں اکثر بھٹی کا دھواں ہوتارہتا۔ آپ لڑکے کو دیکھنے کے لیے لوہار کے گھر جاتے اور وہاں دھواں آپ کی آنکھ اور ناک میں گھستا رہتا اور آپ انتہائی نازک طبع ہونے کے با وجود اس کو برداشت کرتے۔ ابراہیم ابھی ڈیڑھ سال کے ہوئےتھے کہ ہجرت کے دسویں سال (جنوری 632)ان کا انتقال ہوگیا۔ آپ بیٹے کی موت کو دیکھ کر رونے لگے۔
ان واقعات میں پیغمبر اسلام ایک عام انسان کی طرح نظر آتے ہیں۔ ان کے جذبات، ان کی حسرتیں ویسی ہی ہیں جیسی ایک عام باپ کی ہوتی ہیں۔ مگر اس کے با وجود خدا کا دامن آپ کے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پاتا۔ آپ غم زدہ ہیں مگر زبان سے نکل رہا ہے:
تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبَّنَا، وَاللهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2315)۔ یعنیآنکھ رورہی ہے، دل دکھی ہے، مگر ہم وہی بات کہیں گے جو ہمارےرب کو پسند ہو، خدا کی قسم اے ابراہیم ہم تمہاری موت سے غمگین ہیں۔
جس دن ابراہیم کا انتقال ہوا۔ اتفاق سے اسی دن سورج گرہن پڑا۔ قدیم زمانہ میں اعتقاد تھا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کسی بڑے آدمی کی موت سے ہوا کر تے ہیں۔ اس کے اثر سے مدینہ کے مسلمان کہنے لگے کہ یہ سورج گرہن پیغمبر کے بیٹے کی موت کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ کو یہ بات بہت نا پسند ہوئی۔ کیوں کہ یہ انسان کی عاجز ا نہ حیثیت کے خلاف تھی۔ آپ نے لوگوں کو جمع کر کے تقریر کی، آپ نے فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا(صحيح البخاري، حديث نمبر 1042)يعني، سورج چاند میں کسی انسان کی موت اور زندگي سے گهن نہیں لگتا۔ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو۔
آپ کا ایک واقعہ تاریخ ان لفظوں میں بتاتی ہے:وَكَانَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي بعض أَسْفَاره فَأمر بإصلاح شاه ،فَقَالَ رجل: يَا رَسُول الله عَليّ ذَبحهَا، وَقَالَ آخر :عَليّ سلخها، وَقَالَ آخر: عَليّ طبخها، فَقَالَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم :وَعلي جمع الْحَطب، فَقَالُوا، يَا رَسُول الله نَحن نكفيك، فَقَالَ :قد علمت أَنكُمْ تكفوني وَلَكِنِّي أكره أَن أتميز عَلَيْكُم فَإِن الله يكره من عَبده أَن يرَاهُ متميزا بَين أَصْحَابه(خلاصة سير سيد البشر لمحب الدين الطبري، صفحہ87)۔ یعنی، ایک بار آپ سفر میں تھے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے ایک بکری تیار کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص بولا میں اس کو ذبح کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں اس کی کھال اتاروں گا۔ تیسرے نے کہا، میں اس کو پکاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں لکڑی جمع کروں گا۔ لوگوں نے کہا، اے خدا کےرسول، ہم سب کا م کر لیں گے۔ آپ نے فرمایا، میں جانتا ہوں کہ تم لوگ کر لوگے۔ مگر میں امتیاز کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ کو یہ پسند نہیں کہ اس کا کوئی بندہ اپنے ساتھیوں کے درمیان امتیاز کے ساتھ رہے۔
آپ کی عبدیت کا یہ حال تھا کہ آپ نے فرمایا:وَاللهِ مَا أَدْرِي، وَأَنَا رَسُولُ اللهِ، مَا يُفْعَلُ بِي وَلاَ بِكُم(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7018)۔ یعنی خدا کی قسم میں نہیں جانتا، اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں، کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور کیا کیا جائے گا تمہارے ساتھ۔
ابو ذر غفاری بتاتے ہیں۔ ایک روز میں ایک مسلمان (صحابی) کے پاس بیٹھا ہواتھا۔ ان کا رنگ کا لا تھا کسی ضرورت سے میں نے ان کو خطاب کیا تو میری زبان سے نکل گیا:
یا ابن السوداء اے کالے رنگ والی عورت کے بیٹے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو سخت نا پسند کیا اور فرمایا
طف الصاع طف الصاع (پیمانہ پورا بھر، پیمانہ پورا بھر)
یعنی سب کو ایک پیمانہ سے دو۔ ایسا نہ کرو کہ کسی کو اچھے الفاظ کے ساتھ خطاب کرو اور کسی کو برے الفاظ کے ساتھ۔ انسان اور انسان کے درمیان امتیاز نہ کرو۔ پھر آپ نے فرمایا:
ليس لابن البيضاء على ابن السوداء فضل
کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔
ابو ذر غفاری کو اس تنبیہ کے بعد فی الفور اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ شدت خوف سے زمین پر لیٹ گئے اور اس شخص سے کہا:قُمْ فَطَأْ عَلَى خَدِّي(کھڑا ہو اور میرے چہرے کو اپنے پیروں سے مسل دے )۔ تخريج احاديث إحياء علوم الدين، حدیث نمبر 3226۔
ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مال دار مسلمان کو دیکھا کہ وہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک غریب مسلمان سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنے کپڑے سمیٹ رہاہے۔ آپ نے فرمایا:
أَخَشِيتَ يَا فُلَانُ أَنْ يَعْدُوَ غِنَاكَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يَعْدُوَ فَقْرَهُ عَلَيْكَ؟ (الزھد لاحمد بن حنبل، حدیث نمبر207)۔اے فلاں، کیا تم ڈر تے ہو کہ تمھاری مالداری اس کو مل جائے گی، اور اس کی غریبی تم کو لپٹ جائے گی۔
مدینہ میں با قاعدہ اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ذمہ دار اعلیٰ ہیں۔ اس زمانہ میں آپ کو ایک بار ایک یہودی سے قرض لینے کی ضرورت پیش آئی جس کا نام زید بن سعنہ تھا۔ قرض کی ادائیگی کے لیے جو مدت طے ہوئی تھی، ابھی اس میں چند دن باقی تھے کہ یہودی تقاضا کرنے کے لیے آگیا۔ اس نے آپ کے کندھے کی چادر اتارلی اور کرتا پکڑ کر سختی سے بولا’’میرا قرض ادا کرو‘‘۔ پھر کہنے لگا’’عبد المطلب کی اولاد بڑی نا دہند ہے ‘‘۔
حضرت عمر فاروق اس وقت آپ کے ساتھ تھے۔ یہودی کی بد تمیزی پر ان کو سخت غصہ آگیا۔ انہوں نے اس کو ڈانٹا۔ قریب تھا کہ اس کو مارنا شروع کردیں۔ مگر پیغمبر اسلام نے فرمایا:يَا عُمَرُ أَنَا وَهُوَ كُنَّا إِلَى غَيْرِ هَذَا مِنْكَ أَحْوَجَ، أَنْ تَأْمُرَنِي بِحُسْنِ الْقَضَاءِ، وَتَأْمُرَهُ بِحُسْنِ التَّقَاضِي(عمر! میں اور یہ یہودی تم سے ایک اور برتاؤ کے زیادہ ضرورت مند تھے، مجھ سے تم بہتر ادائیگی کے لیے کہتے اور اس سے بہتر تقاضے کے لیے )۔پھرآپ نےکہا:ابھی تو وعدہ میں تین دن باقی ہیں (أَمَا إِنَّهُ قَدْ بَقِيَ مِنْ أَجَلِهِ ثَلَاثٌ ) پھر عمر فاروق سے فرمایا کہ جاؤ اس کا قرض ادا کر دو۔ اور 30 صاع زیادہ دینا، کیونکہ تم نے اسے جھڑ کا تھا۔(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 2237)
پیغمبر اسلام کو اپنی زندگی میں اتنی کامیابی حاصل ہوئی کہ آپ عرب سے لے کر فلسطین تک کے علاقہ کے حکمراں بن گئے۔ رسول اللہ ہونے کی وجہ سے آپ کی زبان قانون کا درجہ رکھتی تھی۔ آپ ایسے لوگوں کے درمیان تھے جو آپ کی عقیدت و تعظیم اتنی زیادہ کرتے تھے جو کبھی کسی انسان کی نہیں کی گئی۔ حدیبیہ کی بات چیت کے موقع پر عر وہ بن مسعود قریش کے سفیر کی حیثیت سے آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جب آپ وضو کرتے ہیں تو لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ آپ کے وضو کا پانی زمین پر گرنے سے پہلے ہاتھ پر لے لیں اور اس کو تبرک کے طور پر جسم پر ملیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731)۔ عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ انتہائی محبت کے باوجود میں آنکھ بھر کر آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 121)۔یہی معاملہ دوسرے صحابہ کا بھی تھا۔ انس کہتے ہیں کہ کسی صحابی کو آپ کی رہائش گاہ پر دستک دینے کی ضرورت ہوتی تو وہ ناخن سے دروازہ کھٹکھٹاتا تھا (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر8436)۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سرخ چادر اوڑھ کر چاندنی رات میں سور ہے تھے۔ میں کبھی چاند کو دیکھتا، کبھی آپ کو، با لآخر میںنے یہی فیصلہ کیا کہ آپ چاند سے زیادہ خوش نما ہیں (فَإِذَا هُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ القَمَرِ)سنن الترمذي، حديث نمبر2811۔
حنین میں جب جنگ کے شروع میں مسلم فوج کو شکست ہوئی اور مخالف فوج نےآپ کے اوپر تیروں کی بارش شروع کر دی تو آپ کے ساتھیوں نےآپ کو گھیرے میں لے لیا وہ سارے تیر اپنے ہاتھ اور جسم پر اس طرح روکتے رہے جیسے وہ انسان نہیں، لکڑی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ساتھیوں کا یہ حال ہواکہ ان کے جسم پر ساہی (porcupine) کے کا نٹے کی طرح تیر لٹکنے لگے تھے۔
اس قسم کا مرتبہ اور عقیدت آدمی کے مزاج کو بگاڑ دیتا ہے۔ وہ اپنے کو دوسروں سے بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ مگر آپ لوگوں کے درمیان بالکل عام انسان کی طرح رہتے۔ کوئی تلخ تنقید یا اشتعال انگیز رویہ آپ کو آپے سے باہر کرنے والا ثابت نہ ہوتا۔ صحیحین میں حضرت انس سے منقول ہے کہ ایک دیہاتی آیا۔ اس نے آپ کی چادر کو زور سے کھینچا جس کی وجہ سے آپ کی گردن میں نشان پڑگیا۔ پھر بولا’’محمد ! میرے یہ دو اونٹ ہیں۔ ان کی لاد کا سامان مجھے دو۔ کیوں کہ جو مال تیرے پاس ہے، وہ نہ تیرا ہے، نہ تیرے باپ کا ہے۔ ‘‘آپ نے فرمایا مال تو اللہ کا ہے اور میں اس کا بنده ہوں۔ پھر دیہاتی سے پوچھا’’جو برتاؤ تم نے مجھ سے کیا ، اس پر تم ڈرتے نہیں۔‘‘ وہ بولا نہیں۔ آپ نے پوچھا کیوں۔ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تم برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے(لأنك لا تكافِىء بالسيئة السيئة)۔ آپ یہ سن کر ہنس پڑے اور حکم دیا کہ دیہاتی کو ایک اونٹ بھر جَو دیا جائے اور دوسرے پر کھجوریں دی جائیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3149،الشفا ءللقاضي عياض، جلد1، صفحہ225-26)۔
آپ پر خدا کی ہیبت اتنی طاری رہتی کہ آپ بالکل عجز اور بندگی کی تصویر بنے رہتے تھے۔ بہت کم بولتے، چلتے تو جھک کر چلتے، تنقید سے کبھی خفا نہ ہوتے۔ کپڑا پہنتے تو فرماتے کہ میں خدا کا بندہ ہوں اور بندوں کی طرح لباس پہنتا ہوں:إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ أَلْبَسُ كَمَا يَلْبَسُ الْعَبْدُ( المغني عن حمل الأسفارللعراقي، حدیث نمبر 2465(۔کھانا کھاتے تو ادب کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے اور فرماتے کہ میں عام انسان ہوں، اور عام انسانوں کی طرح کھاناکھاتاہوں (إِنَّمَا أَنَا عَبد آكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ) مسند البزار، حدیث نمبر 5752۔
اس معاملہ میں آپ کي حساسیت(sensitivity) کا عالم یہ تھا کہ آپ کے ایک ساتھی نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بار کہا:يَا رَسُولَ اللهِ مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ(اے اللہ کے رسول! جواللہ چاہے اور جو آپ چاہیں )۔یہ سنتے ہی آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ نے درشتی کے ساتھ فرمایا:جَعَلْتَنِي لِلهِ عَدْلًا ( تم نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا) تم کو اس طرح کہنا چاہیے:مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ (وہ ہوگاجو اللہ چاہے ) مسند احمد، حدیث نمبر 2561۔
اسی طرح ایک صحابی نے تقریر کرتے ہوئے کہا مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا، فَقَدْ غَوَى(جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے وہ راہ راست پر ہے اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرے وہ گمراہ ہے۔ )آپ نےیہ سن کر فرمایابِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ(تو قوم کا برا خطیب ہے ) صحيح مسلم، حدیث نمبر 870۔ آپ نے پسند نہیں فرمایا کہ اللہ اور رسول کو تثنیہ کی ایک ہی ضمیر میں جمع کر دیا جائے:
The Prophet observed, disliking a reference, which placed him in the same pronoun as the Almighty.
پیغمبر اسلام کے یہاں تین لڑکے پیدا ہوئے جو بچپن ہی میں انتقال کر گئے۔ چار صاحبزادیاں بڑی عمر کو پہنچیں۔ چاروں حضرت خدیجہ کے بطن سے تھیں۔ حضرت فاطمہ آپ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ آپ حضرت فاطمہ سے بے حد محبت کرتےتھے۔ کسی سفر سے واپس لوٹتے تو مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہ کے گھر جاتے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 595)۔ ان کے ہاتھ اور پیشانی کو چومتے (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 4753)۔ حضرت عائشہ سے جمیع بن عمیر صحابی نے پوچھا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا۔ انہوں نے جواب دیا ’’فاطمہ ‘‘ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 3874)۔
مگر پیغمبر اسلام کی پوری زندگی آخرت میں ڈھل گئی تھی۔ اس لیے اولاد سے محبت کا مفہوم بھی آپ کے یہاں دوسرا تھا۔ ایک روایت جو نسائی کے سوا دوسری تمام کتب صحاح میں نقل ہوئی ہے، یہ ہے کہ علی مرتضٰی نے ایک بار ابن عبد الواحد سے فرمایا۔ میںتجھ کو فاطمہ بنت رسول کی ایک بات سناؤں جو سارے کنبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ ابن عبد الواحد نے کہا، ہاں۔
حضرت علی نے کہا۔ فاطمہ کا یہ حال تھا کہ چکی پیستیں تو ہاتھ میں چھالے پڑ جاتے۔ پانی کی مشک اٹھانے کی وجہ سے گر دن میں نشان پڑ گیا تھا۔ جھاڑو دیتیں تو کپڑے میلے ہو جاتے۔ انہیں دنوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ خادم آئے۔ میں نے فاطمہ سے کہا، تم اپنے والد کے پاس جاؤ اور اپنے لیے ایک خادم مانگو۔ فاطمہ گئیں۔ مگر وہاں ہجوم تھا مل نہ سکیں۔ اگلے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے اور پوچھا کہ کیا ضرورت تھی۔ فاطمہ چپ ہو گئیں۔ میں نے قصہ بتایا اور یہ بھی کہا کہ میں نے ان کو کہلاکر بھیجا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سننے کے بعد فرمایا:
اتَّقِي اللهَ يَا فَاطِمَةُ، وَأَدِّي فَرِيضَةَ رَبِّكِ، وَاعْمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ فَسَبِّحِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، فَتِلْكَ مِائَةٌ، فَهِيَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ( اے فاطمہ! خدا سے ڈرو۔ اپنے رب کے فرائض ادا کرو اپنے گھر والوں کا کام کرو۔ جب بستر پر جاؤ تو 33بار خدا کی تسبیح کرو، 33بار خدا کی حمد کرو۔ 34 بار خدا کی تکبیر کرو۔ یہ پورا سو ہو گیا۔ یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے)۔ فاطمہ نے یہ سن کر کہا:رَضِيتُ عَنِ الله عَزَّ وَجَلَّ، وَعَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (میں خدا او ر اس کے رسول سےاس پر خوش ہوں )۔حضرت علی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بس یہ جواب دیا اور فاطمہ کو خادم نہیں دیا (وَلَمْ يُخْدِمْهَا)۔ سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2988-89
پیغمبر اسلام پر جو حقیقت کھولی گئی، وہ یہ تھی کہ یہ عالم بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک خدا ہے اور وہی اس کا خالق اور مالک ہے۔ سارے انسان اس کے بندے ہیں اور اسی کے سامنے بالآخر جواب دہ ہیں۔مرنے کے بعد آدمی ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ دوسری دنیا میں اپنی مستقل زندگی شروع کرنے کے لیے داخل ہو جاتا ہے۔ وہاں نیک آدمیوں کے لیے جنت کا آرام ہے اور برے لوگوں کے لیے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ۔
خدانے جب آپ کو اس حقیقت کا علم دیا تو یہ بھی حکم دیا کہ سارے انسانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر دو۔ مکہ کے کنارے صفانام کی ایک چٹان تھی جو اس زمانہ میں عوامی اجتماعات کے لیے قدرتی اسٹیج کا کام دیتی تھی۔ آپ نے صفا پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا۔ لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے تقریر کی۔ آپ نے خدا کی عظمت بیان کرنے کے بعد کہا:
وَالله، لَتَمُوتُنَّ كَمَا تَنَامُونَ، وَلَتُبْعَثُنَّ كَمَا تَسْتَيْقِظُونَ، وَلَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُونَ، وَلَتُجْزَوُنَّ بِالإِحْسَانِ إِحْسَانًا وَبِالسُّوءِ سواء. وَإِنَّهَا لَلْجَنَّةُ أَبَدًا، وَالنَّارُ أَبَدًا (انساب الاشراف للبلاذری، جلد1، صفحہ119)۔ يعني خدا کی قسم تمھیں مرنا ہے جس طرح تم سوتے ہو اور پھر تم کو اٹھنا ہے جس طرح تم جاگتے ہو اور ضرور تم سے حساب لیا جائے گا جو تم کرتے ہو اور پھرتم کو اچھے کام کا اچھا بدلہ دیا جائے گا، اور برے کام کا برا بدلہ اور اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے باغ ہے یا ہمیشہ کے لیے آگ۔
زمانہ کے خلاف کسی طریقہ کو آدمی صرف ذاتی طور پر اختیار کرے تو اس وقت بھی اگر چہ قدم قدم پر مشکلیں پیش آتی ہیں، تاہم یہ مشکلیں جا رحانہ نوعیت کی نہیں ہوتیں۔ یہ مشکلیں آدمی کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں۔مگر وہ آدمی کے جسم کو زخمی نہیں کرتیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ آدمی کے خاموش صبر کا امتحان ہوتی ہیں۔ مگر اس وقت صورت حال بالکل بدل جاتی ہے جب آدمی زمانہ کے خلاف ایک آواز کا داعی بن کر کھڑا ہو جائے، جب وہ دوسروں سے کہنے لگے کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو۔ پیغمبر اسلام صرف ایک بندۂ مومن نہ تھے بلکہ پیغام اِلٰہی کو دوسروں تک پہنچانے کا مشن بھی آپ کے سپرد کیا گیاتھا۔آپ کی اس دوسری حیثیت نے آپ کو پوری عرب قوم سے ٹکرادیا۔ فاقہ سے لے کر جنگ تک سخت ترین حالات پیش آئے۔ مگر 23سال کی پوری زندگی میں آپ مکمل طور پر انصاف اور تقویٰ پر قائم رہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ کے اندر انسانی جذبات نہیں تھے، اصل یہ ہے کہ خدا کے خوف نے آپ کو پابند بنا رکھا تھا۔
ہجرت کے تیسرے سال مکہ کے مخالفین نے مدینہ پر چڑھائی کی اور وہ معرکہ پیش آیا جس کو غزوۂ احد کہا جاتا ہے اس جنگ میں ابتداء ً مسلمانوں نے فتح پائی۔ مگر اس کے بعد آپ کے بعض ساتھیوں کی غلطی سے دشمنوں کو موقع مل گیا اور انہوں نے پیچھے سے حملہ کر کے جنگ کا نقشہ بدل دیا۔ یہ بڑا بھیانک منظر تھا۔ آپ کے اکثر ساتھی میدان جنگ سے بھاگنے لگے۔ یہاںتک کہ آپ مسلح دشمنوں کے نرغہ میں تنہا ہوگئے۔ مخالف ہجوم بھوکے بھیڑ یے کی طرح آپ کی طرف بڑھ رہاتھا۔ اس وقت آپ نے اپنے ساتھیوں کو پکارنا شروع کیا:إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ، إِلَيَّ عِبَادَ الله(سیرت ابن کثیر، جلد3، صفحہ44)،یعنی خدا کے بند و میری طرف آؤ، خدا کے بند و میری طرف آؤ۔ اور یہ کہ مَنْ رَجُلٌ يَشْرِي لَنَا بِنَفْسِهِ (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 81)۔کون ہے جو ہمارے لیے اپنی جان قربان کرے۔کون ہےجو ان ظالموں کو مجھ سے ہٹائے، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا (’’مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَلَهُ الْجَنَّةُ؟ ‘‘ أَوْ’’هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ‘‘)۔صحیح مسلم، حدیث نمبر 1789
وہ کیسا ہو لناک سماں ہوگا۔ جب خدا کے رسول کی زبان سے اس قسم کے الفاظ نکل رہےتھے۔ اگر چہ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک تعداد نے آپ کی پکار پر لبیک کہی۔ مگر اس وقت اتنا انتشار کا عالم تھا کہ آپ کے جاں نثار بھی آپ کو پوری طرح بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ عتبہ ابن ابی وقاص نے آ پ کے اوپر ایک پتھر پھینکا۔ یہ پتھر آپ کو اتنے زور سے لگا کہ ہونٹ کچل گئے اور نیچے کے دانت ٹوٹ گئے۔ عبد اللہ ابن قمیہ قریش کا مشہور پہلوان تھا۔ اس نے آپ پر شدید حملہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں لو ہے کی خود کی دو کڑیاں آپ کے رخسار میں گھس گئیں۔ یہ کڑیاں اتنی گہرائی تک گھس گئي تھیں کہ ابو عبیدہ بن الجراح نے جب ان کو نکالنے کے لیے اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا توابو عبیدہ کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ ایک اور شخص عبد اللہ بن شہاب زہری نے آپ کوپتھر مارا جس سے آپ کی پیشانی زخمی ہوگئی۔ مسلسل خون بہنے سے آپ بے حد کمزور ہوگئے۔ حتٰی کہ آپ ایک گڑھے میں گر پڑے۔ میدان میں جب آپ دیر تک نظر نہیں آئے تو مشہور ہو گیا کہ آپ شہید ہوگئے۔ اس دوران میں آپ کے ایک صحابی كعب بن مالك کی نظر گڑھے کی طرف گئی وہ آپ کو دیکھ کر خوشی میں بول پڑے ’’رسول اللہ یہاں ہیں ‘‘ آپ نے انگلی کےاشارے سے ان کو منع کیا کہ چپ رہو(فأشار إلي أن أنصت( سیرت ابن اسحاق، صفحہ 330۔ دشمنوں کو میری یہاں موجود گی کا علم نہ ہو نے دو۔
ایسے خوفناک حالات میں آپ کی زبان سے قریش کے بعض سرداروں (صفوان، سہیل، حارث) کے لیے بد دعا کے الفاظ نکل گئے۔ آپ نے کہا:كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِيَّهُمْ (وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جو اپنے نبی کو زخمی کرے )۔ آپ کی زبان سے اتنی بات بھی اللہ کو پسند نہیں آئی۔ اور جبریل خدا کی طرف سے یہ وحی لے کر آگئے:
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ(3:128)۔يعني تم کو معاملہ کا کوئی اختیار نہیں۔ خدا یا ان کو توبہ کی تو فیق دے گایا ان کو عذاب دے گا۔ کیوں کہ وہ ظالم ہیں (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1791، مسند احمد، حدیث نمبر 5674)۔
خدا کی طرف سے اتنی تنبیہ کافی تھی۔فوراً آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ آپ زخموں سے نڈھال ہیں۔ مگر ظالموں کے حق میں ہدایت کی دعا فرما رہے ہیں۔ آپ کے ایک ساتھی عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ’’اِس وقت بھی گو یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم میرے سامنے ہیں۔ آپ اپنی پیشانی سے خون صاف کرتے ہوئے یہ دعا کررہے تھے :
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ(صحیح مسلم،حدیث نمبر 1792)۔ يعني، خدایا میری قوم کو معاف کردے۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے۔
اوپر جو واقعات نقل کیے گئے، وہ اس قسم کے ان بے شمار واقعات میں سے صرف چند ہیں جو حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بھرے ہوئے ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی زندگی کس طرح انسانی کردار کا معیاری نمونہ تھی۔ یہ واقعات عمل کی زبان میں یہ سبق دیتے ہیں کہ انسان خدا کا بندہ ہے اور اس کو ہر حال میں خدا کا بندہ بن کر رہنا چاہیے خدا اور بندےکے درمیان تعلق کا تقاضا ہے کہ بندے کے دل میں ہر وقت خدا کا اور اس کی آخرت کا طوفان بر پار ہے۔ ساری کائنات اس کے لیے یا دِالٰہی کا دستر خوان بن جائے۔ وہ ہر واقعہ کو خدا کی نظر سے دیکھے اور ہر چیز میں خدا کا نشان پالے۔ دنیا میں کوئی معاملہ کرتے وقت وہ کبھی یہ نہ بھولے کہ بالآخر سارا معاملہ خدا کے ہاتھ میں جانے والا ہے۔ جہنم کا خوف اس کو انسانوں سے تواضع اختیار کرنے پر مجبور کرے اور جنت کا شوق دنیا کو اس کی نظر میں بے حقیقت بنا دے۔ خدا کی بڑائی کا خیال اس کے ذہن پر اس قدر چھا جائے کہ اپنی بڑائی کا کوئی بھی مظاہرہ اس کو مضحکہ خیز دکھائی دینے لگے۔ کوئی تنقید اس کو مشتعل نہ کرے اور کوئی تعریف اس کے ذہن کو بگاڑ نے والی ثابت نہ ہو— یہ ہے انسانی کردار کا وہ نمونہ جو خدا کے رسول نے اپنے عمل سے ہمیں بتایا ہے۔
برتر اخلاقیات
قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (تم ایک اعلیٰ کر دار پر ہو ) امام عطیہ نے خُلق عظیم کی تفسیر ادب عظیم سے کی ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد 8، صفحه 188) یہ بلند اخلاق اور اعلیٰ کردار کیا ہے، اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقوال سے ہوتی ہے :
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تَكُونُوا إِمَّعَةً، تَقُولُونَ:إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلاَ تَظْلِمُوا (سنن الترمذي، حديث نمبر 2007)۔ يعني، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اِمَّعہ نہ بنو،یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے۔ اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے۔ بلکہ اپنے آپ کو اس کا خوگر بناؤکہ لوگ اچھا سلوک کریں تب بھی تم اچھا سلوک کرو اور لوگ بر ا سلوک کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:صِلْ مَنْ قَطَعَك، وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَك، وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَك(مسند احمد، حدیث نمبر 17452)۔ یعنی جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو۔اور جو تم کو محروم کرے، تم اس کو عطا کرو۔اورجو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کر دو۔
یہ اعلیٰ اخلاق جو حدیث میں بتایا گیا ہے اس اخلاق میں آپ بلند ترین مرتبہ پر تھے۔ عام مسلمانوں سے یہ اعلیٰ اخلاق عزیمت کے درجہ میں مطلوب ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ لازم تھا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ جومجھ سے کٹے میں اس سےجڑوں، جو مجھ کو نہ دے میں اسے دوں۔ جومجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کردوں (وأن أصَلَ مَنْ قَطَعَني، وأعطي مَنْ حَرَمَني، وأعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَني)جامع الاصول لابن الاثیر الجزری، حدیث نمبر 9317۔
اخلاق کی دو سطحیں ہیں۔ ایک معمولی سطح اور دوسری بر تر سطح۔ اخلاق کی معمولی سطح یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جو ابی اخلاق ہو۔ یعنی اس کا اصول یہ ہوکہ ’’جو مجھ سے جیسا کرے گا میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی کروں گا ‘‘۔ جو شخص اس سے کٹے وہ بھی اس سے کٹ جائے۔ جو شخص اس پر ظلم کرے وہ بھی اس پر ظلم کرنے لگے۔ جو شخص اس کے ساتھ برائی کرے وہ بھی اس کے لیے بر ابن جائے۔
یہ عام اخلاق ہے۔ اس کے مقابلہ میں برتر اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویہ کی پروا کیے بغیر اپنا رویہ متعین کرے۔ اس کا اخلاق اصولی ہو نہ کہ جوابی۔ اعلیٰ اخلاقیات اس کا ایک عام اصول ہو جس کو وہ ہر جگہ برتے، خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ۔ وہ جُڑنے والا ہو حتٰی کہ اس سے بھی جو اس سے قطع تعلق کرے۔ وہ بہتر سلوک کرنے والا ہو حتٰی کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے برا سلوک کرے۔ وہ نظر انداز کرنے والا ہو حتٰی کہ اس سے بھی جو اس پر ظلم کرتا ہو۔
فرانس کے مشہور فلسفی والٹیر (1694-1778ء)نے کہا تھا کہ کوئی شخص اپنے قریبی لوگوں میں ہیرو نہیں ہوتا:
No man is a hero to his valet
کیوں کہ قریبی لوگوں کی نظر میں آدمی کی نجی زندگی ہوتی ہے اور نجی زندگی میں کوئی بھی کامل نہیں ہوتا۔ دور والوں کو ایک شخص جتنا اچھا معلوم ہوتاہے، قریب کے لوگوں کو وہ اتنا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے قریبی لوگوں کےاندر اس کے بارے میں ہیرو کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ مگر باسورتھ اسمتھ نے لکھا ہے کہ یہ کلیہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق نہیں آتا، کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ آپ سے قریب تھا، اتنا ہی زیادہ وہ آپ کی خوبیوں کا شیدائی تھا۔
زیدبن حارثہ قبیلہ کلب کے ایک شخص حارثہ بن شراحيل کےلڑکے تھے۔ ان کی ماں سُعدی بنت ثعلبہ تھیں جو قبیلہ طے کی ایک شاخ بنی معن سے تعلق رکھتی تھیں۔ زید جب آٹھ سال کے تھے، اس وقت ان کی ماں ان کو لے کر اپنے میکے گئیں۔ وہاں بنی قین بن جسر کے لوگوں نے ان کے پڑاؤ پر حملہ کیا۔وہ جو کچھ لوٹ کرلے گئے اس میں زید بھی تھے۔ اس کے بعد انہوں نےعکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا۔ ان کو حکیم بن حزام نے خریدا،جو حضرت خدیجہ کے بھیتجے تھے۔ وہ اس بچہ کو مکہ لائے اور غلام کی حیثیت سے اپنی پھوپھی کو دے دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوا تو حضرت خدیجہ نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دے دیا۔ اس وقت زید کی عمر 15سال تھی۔ کچھ عرصہ بعد زید کے باپ اور چچا کو معلوم ہوا تو وہ مکہ آئے تاکہ اپنے بچے کو حاصل کر کے اپنے ساتھ لےجائیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور کہا کہ آپ جو فدیہ لینا چاہیں ہم دینے کےلیے تیار ہیں۔ آپ ہمار ا بچہ ہم کو دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کوئی فدیہ نہیں چاہیے۔ اگر لڑکا تمہارے ساتھ جانا چاہے تو تم اس کو لے جاسکتے ہو۔ آپ نے زید کو بلایا اور کہا ان کو پہچانتے ہو۔ انہوں نے کہا ہاں، یہ میرے باپ اور چچا ہیں۔ آپ نے فرمایا:یہ لوگ تم کو لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر تم چاہو تو ان کے ساتھ اپنے گھر جاسکتے ہو۔ زید نے جواب دیا میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ یہ سن کر ان کے باپ او ر چچا بگڑ گئے۔ انہوں نے کہا:تم آزادی کو چھوڑ کر غلامی کو پسند کرتے ہو اور اپنوں کو چھوڑ کر غیروں میں رہنا چاہتے ہو(أَتَخْتَارُ العُبُّودِيَّةَ عَلَى الْحُرِّيَّةِ وَعَلَى أَبِيكَ وَعَمِّكَ وَأَهْلِ بَيْتِكَ)۔ زید نے کہا میں نے محمد کے اندر جو خوبیاں دیکھی ہیں اس کے بعد اب میں کسی کو بھی ان کے اوپرترجیح نہیں دے سکتا (إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ مِن هَذَا الرَّجُلِ شَيْئًا مَا أَنَا بِالَّذِي أَخْتَارُ عَلَيْهِ أَحَدًا أَبَدًا)۔ اس کے بعد زید کے باپ اور چچا اپنے وطن کو واپس چلے گئے(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد3، صفحہ31)۔یہ واقعہ نبوت سے پہلے کاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی خصوصیت کی طرف قرآن میں ان لفظوں میں اشارہ کیاگیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ (3:159)۔ يعني، یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان کے لیے نرم ہو۔ اگر تم درشت زبان اور سخت دل ہوتے تو وہ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے۔
پیغمبر اسلام کا یہی اعلیٰ کر دار تھا جس نے آپ کے اندر تسخیری قوت پیدا کر دی۔ جو شخص بھی آپ سے قریب ہوا وہ آپ کی عظمتوں کو دیکھ کر مفتوح ہو کر رہ گیا۔
طائف کی وہ شام بھی کس قدر بھیانک تھی جب شہر کے لڑکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مار مار کر شہر سے باہر لے جارہے تھے۔ آپ مکہ سے پچاس میل کا پیدل سفر طے کر کے حجاز کے رئیسوں کے گرمائی صدر مقام پہنچے تھے تاکہ انہیں دین اسلام کی دعوت دیں۔ مگر طائف کے رئیسوں نے آپ کے خیر خواہا نہ پیغام کو سننے کے بجائے شہر کے لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگادیا۔ یہ شریر لڑکے اس وقت تک آپ کا پیچھا کرتے رہے جب تک سورج نے غروب ہو کر آپ کے اور ان لڑکوں کے درمیان تاریکی کا پردہ نہ ڈال دیا۔ آپ کا جسم زخموں سے چور تھا۔ سر سے پاؤں تک آپ خون میں نہائے ہوئے تھے۔ اس وقت آپ نے تھک کر انگور کے ایک باغ میں پناہ لی (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 48)۔
غور کیجیے، یہ کسی آدمی کے لیے کتنا نازک وقت ہوتا ہے۔ آپ نے خود ایک بار اپنی بیوی حضرت عائشہ سے فرمایا کہ طائف کی یہ شام میری زندگی کی سخت ترین شام تھی۔ مگر آپ کی زبان سے اس انتہائی سنگین موقع پر اپنے دشمنوں کے خلاف کوئی برا کلمہ نہیں نکلا۔ بلکہ آپ نے فرمایا ’’ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان منکروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کریں گے ‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر3231)۔ اللہ کے رسول کا یہی اخلاق تھا جس نے آپ کے دشمنوں کو اس طرح زیر کیا کہ سارے عرب نے آپ کے پیغام کو قبول کر لیا۔ آپ کے اعلیٰ کردار کے آگے کوئی تعصب، کوئی عداوت او رکوئی ہٹ دھرمی ٹھہر نہ سکی۔ آپ کی بلند سیرت لوگوں کو جادو کی طرح مسخر کرتی چلی گئی۔
ایک بار آپ نے فرمایا صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ تم صلہ رحم کرنے والوں کےساتھ صلہ رحم کرو۔ بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ جو قطع رحم کرے اس کے ساتھ تم صلہ رحمی کرو (صحیح البخاری،حدیث نمبر 5991)۔ تاریخِ اسلام کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار اسلام کے کچھ دشمنوں نے حضرت عائشہ پر بدکاری کی تهمت لگائی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ اور حضرت ابوبکر کی صاحبزادی تھیں۔
یہ تہمت سراسر جھوٹ اور بے بنیاد تھی۔ اس فرضی داستان کو گھڑنے اور اس کو پھیلانے میں ایک شخص مسطح نام کا بھی شریک تھا۔ یہ شخص حضرت ابو بکر کا رشتہ دار تھا۔ اس کو ضرورت مند سمجھ کر حضرت ابو بکر اس کو ماہانہ کچھ رقم دیا کرتے تھے۔ جب حضرت ابو بکر کو معلوم ہوا کہ ان کی معصوم صاحبزادی پر جھوٹی تہمت لگانے میں مسطح بھی شریک رہا ہے تو انہوں نے مسطح کی امدادی رقم بند کردی۔ اس پر اللہ کے رسول کے پاس یہ وحی آئی کہ اگر کوئی شخص معاشی اعتبار سے ضرورت مند ہے تو اس کے اخلاقی جرم کی وجہ سے اس کی مالی امداد بند نہ کرو، بلکہ اس کے جرم سے درگزر کرتے ہوئے اس کی معاشی امداد کو جاری رکھو۔
قرآن میں کہا گیا کہ تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور کشائش والے ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ وہ اپنےرشتہ داروں، محتاجوں اور اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ نے والوں کی مدد نہ کریں گے۔ ان کو معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو معاف کردے اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے (النور،24:22) دیکھیے صحیح مسلم، حدیث نمبر 2770۔
حضرت ابو بکر ہی کا واقعہ ہے کہ ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آکر آپ کو برا بھلا کہا۔ حضرت ابوبکر پہلی بار سن کر چپ رہے۔ اس نے دوسری بار برا بھلا کہا تو اس وقت بھی آپ چپ رہے۔ مگر جب اس نے تیسری بار بد زبانی کی تو آپ خاموش نہ رہ سکے اور جواب میں بول اٹھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ فوراً وہاں سے اٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر نے پوچھا اے خدا کے رسول آپ کیوں اٹھ گئے۔ آپ نے کہا ابو بکر ! جب تک تم چپ تھے، خدا کا فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا، جب تم خود بول پڑے تو فرشتہ وہاں سے چلا گیا (نَزَلَ مَلَك مِنَ السَّمَاءِ يُكَذِّبُهُ بِمَا قَالَ لَك، فَلَمَّا انْتَصَرْتَ وَقَعَ الشَّيْطَانُ، فَلَمْ أَكُنْ لِأَجْلِسَ إِذْ وَقَعَ الشَّيْطَانُ)سنن ابو داؤد،حدیث نمبر 4896۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ برائی کے جواب میں جب آدمی اپنی طرف سے کوئی انتقامی کا ر روائی نہیں کرتا تو وہاں خدا اس کی طرف سے انتقام لینے کے لیے موجود ہوتاہے۔ مگر جب آدمی خود انتقام لینے پر اتر آئے تو خدا اس کے معاملہ کو اس کے حوالے کر دیتاہے۔ اور ظاہر ہے کہ کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خدا سے بہتر انتقام لے سکے۔
حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی عالم سے کچھ اشرفیاں قرض لیں۔ کچھ دن گزر گئے تو وہ یہودی تقاضے کے لیے پہنچا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اس وقت میرے پاس تمہارا قرض ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے ‘‘۔ یہودی نے کہا’’جب تک تم میرا قرض ادا نہ کرو گے میں تم کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ چنانچہ ظہر کےوقت سے لے کر رات تک وہ آپ کو گھیرے میں لیے ہوئے بیٹھا رہا۔ یہ زمانہ وہ تھا جب کہ مدینہ میں آپ کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ آپ اس کے خلاف کا رروائی کر نے کی طاقت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ کے ساتھیوں نے اس کو ڈانٹ کر بھگانا چاہا۔ مگر آپ نے سب کو منع کر دیا۔ کسی نے کہا’’ اے خدا کے رسول، ایک یہودی آپ کو قید کیے ہوئے ہے ‘‘۔ آپ نے کہا کہ ہاں، مگر مجھ کو ظلم کرنے سے منع کیا گیاہے (مَنَعَنِي رَبِّي أَنْ أَظْلِمَ مُعَاهَدًا وَلَا غَيْرَهُ)۔ اسی حال میں صبح ہوگئی۔ جب اگلا دن شروع ہو ا تو یہودی کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ یہ دیکھ کر بہت متاثر ہو ا کہ آپ قدرت رکھتے ہوئے بھی برداشت کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا۔ یہ یہودی مدینہ کا ایک مالدار آدمی تھا۔ کل تک اس نے چند اشرفیوں کے لیے آپ کا گھیراؤ کر رکھا تھا۔ مگر آپ کے اعلیٰ کر دار نے اس پر اتنا اثر کیا کہ اس نے اپنی ساری دولت آپ کی خدمت میں پیش کردی اور کہا کہ آپ اس کو جس طرح چاہیں خرچ کریں (دلائل النبوة للبيهقي، جلد6، صفحہ280-81)۔
عبداللہ بن ابی الحسماءبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار میں نے خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا۔ ابھی معاملہ پورا نہیں ہو ا تھا کہ مجھے کچھ ضرورت پیش آگئی۔ میں نے کہا کہ آپ ٹھہریے۔ میں گھر سے واپس آتاہوں تو بقیہ معاملہ کو مکمل کروں گا۔ گھر پہنچنے کے بعد میں بعض کاموں میں ایسا مشغول ہوا کہ اپنا وعدہ بھول گیا۔ تین دن کے بعد یاد آیا تو میں اس مقام پر پہنچا۔ دیکھا کہ وہاں رسول اللہ موجود ہیں۔ آپ نے مجھ کو دیکھنے کے بعد صرف اتنا کہا:تم نے مجھ کو بہت تکلیف دی (يَا فَتًى لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُكَ)۔ میں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں (ابوداؤد، حدیث نمبر 4996)۔ اس طرح کا عمل اپنے اندر اتنی کشش رکھتا ہے کہ انتہائی کٹر آدمی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
حضرت عائشہ بتاتی ہیں کہ یہودی عالموں کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ جب وہ لوگ آپ کےپاس پہنچے تو انہوں نے کہ: السَّامُ عَلَيْكُمْ(تباہی ہو تم پر) حضرت عائشہ نےسنا تو ان سے بر داشت نہ ہو سکا، انہوں نے کہا ’’بلکہ تم لوگ غارت ہو جاؤ اور تم پر خدا کی لعنت ہو ‘‘(وَعَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ)۔ آپ نے حضرت عائشہ کو اس قسم کے جواب سے منع فرمایا اور کہا’’خدا مہربان ہے اور وہ ہر کام میں مہربانی کو پسند کرتاہے۔ ‘‘ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6024) حقیقت یہ ہے کہ مخالف کا دل جیتنے کے لیے اس سے بڑا کوئی حربہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی بد زبانی کا جواب نرم باتوں سےدیاجائے۔ ہتھیار کے حملہ کی تاب لانا تو ممکن ہے مگر کردار کے حملہ کےمقابلہ میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ یہاںہر شخص کو اپنی ہا رماننی پڑتی ہے۔
براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کےموقع پر تین شرطوں کے ساتھ قریش سے معاہدہ کیاتھا۔ ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ کوئی غیر مسلم اسلام قبول کر کے مسلمانوں کے یہاں چلا جائے تو مسلمان اس کو واپس کر دیں گے۔ مگر جو مسلمان قریش کے پاس پہنچ جائے اس کو قریش واپس نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ ہو رہا تھا کہ ایک مسلم نوجوان ابوجندل مکہ سے بھاگ کر حدیبیہ پہنچے۔ ان کو ان کے گھر والوں نے اسلام کے جرم میں قید کر رکھا تھا۔ وہ بیڑیاں پہنے ہوئے اس حال میں حدیبیہ پہنچے کہ ان کا جسم بیڑیوں کی رگڑ سے زخمی ہو رہاتھا۔ وہ فریاد کر رہے تھے اور کہہ رہے تھےکہ مجھ کو دشمنوں کے چنگل سے بچاؤ۔ یہ بے حد نازک وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں۔ ابو جندل کے جذباتی واقعہ کو دیکھنے کے بعد لوگوں کا رجحان ہو گیا کہ معاہدہ کو توڑ کر ابو جندل کی زندگی کو بچایا جائے۔ دوسری طرف مکہ والوں نے کہا’’محمد ! ہمارے اور تمہارے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے، یہ اس کی تکمیل کاپہلا موقع ہے‘‘(هَذَا يَا مُحَمَّدُ أَوَّلُ مَا أُقَاضِيكَ عَلَيْهِ أَنْ تَرُدَّهُ إِلَيَّ)۔ بالآخر اللہ کے رسول نے فیصلہ کیا کہ جو معاہدہ طے ہو چکا ہے اب اس سے ہم پھر نہیں سکتے۔ آپ کے ساتھیوں کے لیے یہ بات بے حد تکلیف کی تھی۔ مگر آپ نے ابو جندل کو دو بارہ مکہ والوں کے حوالے کردیا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731)۔
بظاہر اس واقعہ کے معنی یہ تھے کہ مظلوم کو دوبارہ ظالم کے چنگل میں دے دیا جائے۔ مگر اس واقعہ میں اصول پسندی کا جو شان دار عملی مظاہرہ ہوا اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ ظالم اندر سے بالکل ڈھ گئے۔ اب ان کا ابو جندل کو لے جانا اور اپنے یہاں ان کو قید میں رکھنا محض ایک عام واقعہ نہ رہا بلکہ ان کی طرف سے اخلاقی گراوٹ اور اسلام کے لیے اخلاقی بلندی کی ایک مثال بن گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکہ کے لوگ اسلام کی اخلاقی بر تری سے مر عوب ہوگئے۔ وہاں کثرت سے لوگ مسلمان ہونے لگے۔ ابو جندل کا وجود مکہ میں اسلام کی زندہ تبلیغ بن گیا۔ حتٰی کہ قید و بند کی حالت میں بھی ابوجندل ان کو اپنی قومی زندگی کے لیے خطرہ معلوم ہونے لگے۔ چنانچہ انہوں نے اس میں عافیت سمجھی کہ ان کو رہا کر کے مکہ کے باہر بھیج دیا جائے۔
حضرت ابو ہریرہ مدنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کی طرف چند سوار بھیجے جو آپ کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ وہ شہر یمامہ کے حاکم ثمامہ بن اثال کو راستہ میں پا گئے اور اس کو گرفتار کر لائے۔ مدینہ پہنچ کر انہوں نے اس کو مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ رسول اللہ اس کے پاس آئے اور حال پوچھا۔ ثمامہ نے جواب دیا’’ اگر تم مجھ کو چھوڑ دو گے تو میں عمر بھر تمہارا احسان مانوں گا،اوراگر تم نے مجھ کو قتل کر دیا تو میری قوم تم سے میرے خون کا بدلہ لے گی، اور اگر مال کی خواہش ہے تو جتنا مال چاہو میں دینے کے لیے تیار ہوں (إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ)۔ ‘‘ صحیح البخاری، حدیث نمبر 4372۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔ یہ واقعہ ا س وقت کی دنیا میں بہت عجیب تھا۔ کیوں کہ قبائلی زندگی میں کسی دشمن کےہاتھ آجانے کے بعد اس کا ایک ہی انجام تھا۔ اور وہ یہ کہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ رسول اللہ نے اس کے جسم کو تو قتل نہیں کیا مگر اپنے اخلاقی سلوک سے اس کی روح کو قتل کر دیا۔ چنانچہ قید سے چھوٹنے کے بعد ثمامہ قریب کے ایک باغ میں گیا اور غسل کر کے دوبارہ مسجد میں آیا۔ لوگ حیران تھے کہ وہ دو بارہ کس لیے یہاں آیا ہے۔ مگر جب اس نے بلند آواز سےکلمۂ شہادت ادا کر کے اپنے مسلمان ہو نے کا اعلان کیا تو معلوم ہوا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چھوڑ کر دراصل ہمیشہ کے لیے اس کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس کے بعد ثمامہ عمرہ کرنے کےلیے مکہ گئے۔ جب وہ حرم میں پہنچے او ر وہاں کے لوگوں کو ثمامہ کے اسلام کا حال معلوم ہو ا تو انہوں نے کہا’’ تم بے دین ہو گئے۔ ‘‘ ثمامہ نے جواب دیا کہ میں بے دین نہیں ہوا بلکہ میں نے خدا کے رسول کے دین کو اختیار کر لیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ثمامہ اسلام کی قوت کا ذریعہ بن گئے۔ اس زمانہ میں مکہ کے لوگوں کو باہر کے جن مقامات سے گندم فراہم ہوتی تھی ان میں یمامہ ایک خاص مقام تھا۔ چنا نچہ ثمامہ نے مکہ والوں سے کہا کہ سن لو، محمد کی اجازت کے بغیر اب گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے یہاں نہیں آئے گا ( صحیح مسلم، حدیث نمبر 1764)—کر دار بظاہر ایک بے قیمت چیز ہے مگر اس کو دے کر آدمی ہر چیز خرید لیتا ہے۔
اخلاق کی بلندی یہ ہے کہ کہنے والا جو کچھ کہے اس پر وہ خود عمل کرتا ہو۔ کمزوروں کے ساتھ بھی وہ رعایت و شرافت کا وہی طریقہ اختیار کرے جو کوئی شخص طاقتور کے ساتھ کرتا ہے۔ اپنے لیے اس کے پاس جو معیار ہو وہی معیار دوسروں کے لیے بھی ہو۔ مشکل حالات میں بھی وہ اپنے اصولوں سے نہ ہٹے۔ حتٰی کہ دوسروں کی طرف سے پست کر دار کا مظاہرہ ہو تب بھی وہ اعلیٰ کردار پر قائم رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے اخلاق کے کمال درجہ پر تھے۔ آپ نے کبھی اعلیٰ اخلاق کو نہیں چھوڑا۔ کوئی مصلحت یا کوئی اختلاف آپ کو اخلاق سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آپ کے انتہائی قریبی ساتھیوں نے اس معاملہ میں جو گواہی دی ہے اس سے بڑی اور کوئی گواہی نہیں ہو سکتی۔
سعيدبن ہشام تابعی نے آپ کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ کا اخلاق کیسا تھا۔ انہوں نے جواب دیا:آپ کا اخلاق تو قرآن تھا(فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ) صحیح مسلم، حدیث نمبر 746۔ گویا قرآن کی صورت میں مطلوب زندگی کا جو نقشہ آپ نے دوسروں کے سامنے پیش کیا خود آپ اسی نقشہ میں ڈھل گئے۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ کی خدمت کی مگر کبھی آپ نے اف تک نہ کیا او رنہ کبھی میرے کسی کام کی بابت آپ نے کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور جو کام میں نے نہیں کیا،اس کی بابت بھی آ پ نے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے اس کو کیوں نہیں کیا )فَمَا قَالَ لِي:أُفٍّ، وَلاَ:لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلاَ:أَلَّا صَنَعْت)۔ وہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6038، صحیح مسلم، حدیث نمبر 2309)
امام احمد نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا نہ کسی عورت کو مارا (مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ خَادِمًا لَهُ قَطُّ، وَلَا امْرَأَةً)اور نہ کسی دوسرے کو اپنے ہاتھ سے مارا۔ البتہ آپ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے۔جب بھی آپ کو دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو لینے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے آسان کو اختیار فرمایا، الّا یہ کہ وہ گناہ ہو۔ جو چیز گناہ ہوتی اس سے آپ تمام لوگوں سے زیادہ دور رہنے والے تھے۔ آپ کو خواہ کوئی بھی تکلیف پہنچائی گئی ہو کبھی آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا، الّا یہ کہ اللہ کی حرمتوں کو توڑا گیاہو، اور آپ نے اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیاہو(مسند احمد، حدیث نمبر 24034)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی کردارتھا جس نے آپ کو دشمنوں کی نظر میں بھی قابل عزت بنا دیا۔ جن لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا وہ ہر طرح کی مصیبت اور نقصان کے باوجود آپ کے ساتھ جڑے رہے۔ اپنی مظلومی کے دور میں بھی آپ لوگوں کی نظر میں اتنے ہی محبوب تھے جتنا فتح و غلبہ کے دور میں۔ آپ کو دور سے دیکھنے والوں نے آپ کو جیسا پایا ویسا ہی ان لوگوں نے بھی پایا جو آپ کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ آپ کا کردار ایسا نمونہ بن گیا جیسا نمونہ تاریخ میں دوسرا نہیں پایا جاتا۔
آپ کا اعلیٰ کر دار آپ کی با اصول زندگی کا ایک مستقل جز ءتھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان افراد کے ساتھ بھی بد ستور باقی رہتا تھا جن سے آپ کو شکایت یا تکلیف پہنچی ہو۔
کعبہ کی دربانی (حجابہ) جا ہلیت کے زمانہ میں بھی نہایت عزت کی چیز سمجھی جاتی تھی۔ یہ دربانی قدیم ترین زمانہ سے ایک خاص خاندان میں چلی آرہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس خاندان کے ایک فرد عثمان بن طلحہ کعبہ کے دربان تھے۔ انہیں کے پاس کعبہ کی کنجیاں رہتی تھیں۔
بخاری نے روایت کیا ہے کہ ہجرت سے پہلے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ کعبہ کے اندر داخل ہو کر عبادت کریں۔ آپ نے عثمان بن طلحہ سے کنجی مانگی تاکہ اس کا دروازہ کھول سکیں۔ مگر عثمان بن طلحہ نے انکار کیا اور آپ کو برا بھلا کہا۔ آپ نے فر مایا:اے عثمان، کسی دن تم دیکھو گے کہ یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی۔ مجھے اختیار ہوگا کہ میں جس کو چاہوں اسے دوں۔ یہ سن کر عثمان بن طلحہ نے کہا:
لَقَدْ هَلَكَتْ قُرَيْشٌ يَوْمَئِذٍ إِذًا وَذَلَّتْ ( وہ دن قریش کی تباہی اور رسوائی کا دن ہوگا)۔ آپ نے فرمایا نہیں، اس دن وہ آباد اور با عزت ہوں گے(بَلْ عَزَّتْ وَعَمَرَتْ يَوْمَئِذٍ يَا عُثْمَانُ)۔
اس کےبعد وہ وقت آیا کہ مکہ فتح ہوا اور تمام اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آگیا۔ آپ مکہ میں داخل ہو تے ہی سب سے پہلے بیت اللہ گئے۔ آپ نے کعبہ کا سات بار طواف کیا۔ اس کے بعد آپ نے عثمان بن طلحہ کو بلوایا۔ ایک روایت کے مطابق وہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی زمانہ میں مسلمان ہو چکے تھے آپ نے ان سے کنجی لی اور دروازہ کھول کر کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔ آپ کچھ دیر اس کے اندر رہے اور وہاں جو بت تھا اس کو اپنے ہاتھ سے توڑ دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے باہر نکلے تو آپ کے ہاتھ میں اس کی کنجی تھی اور آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے:إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا (4:58)۔ یعنی اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں اہل امانت کے سپرد کر دو۔ اس وقت آپ کے چچا عباس بن عبد المطلب کھڑے ہو گئے اور کہا:اجْمَعْ لَنَا الْحِجَابَةَ وَالسِّقَايَةَ۔ یعنی ہم بنو ہاشم کو پہلے سے زائر ین کعبہ کو پانی پلانے کی خدمت حاصل ہے۔ اب کعبہ کی کلید بر داری بھی ہمیں کو دے دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عثمان بن طلحہ کہاں ہیں۔ ان کو بلایا گیا۔ آپ نے کعبہ کی کنجی ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اس کو لو۔ یہ تمہارے خاندان میں ہمیشہ موروثی طور پر رہے گی۔ ظالم کے سوا کوئی بھی تم سے اس کو نہیں چھینے گا (خُذُوهَا يَا بَنِي أَبِي طَلْحَةَ تَالِدَةً خَالِدَةً، لَا يَنْزِعُهَا مِنْكُمْ إِلَّا ظَالِمٌ)أخبار مكة للأزرقي، جلد1، صفحہ267-68۔
ایک دوسری روایت کے مطابق، آپ نے یہ کہا:هَاكَ مِفْتَاحَك يَا عُثْمَانُ، الْيَوْمُ يَوْمُ بِرّ وَوَفَاءٍ(الروض الانف، جلد7، صفحہ233)۔یعنی اے عثمان، اپنی کنجی لو، آج وفا اور حسنِ سلوک کا دن ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق کی ادائیگی اور امانتوں کی واپسی کے معاملہ میں مسلمانوں کو اتنا زیادہ پابند ہو نا چاہیے کہ صاحب حق کی طرف سے تلخی کا مظاہرہ ہو تب بھی جس کا جو حق ہے اس کو اس کا حق پورا پورا ادا کیا جائے۔ حقوق کی ادائیگی سے کسی حال میں بھی تجاوز نہ کیا جائے خواہ وہ اپنی طبیعت کے کتنا ہی خلاف ہو۔
دنیا پر ست لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ جب ان کو کسی قسم کا اقتدار ملتا ہے توسب سے پہلے وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے سابق مخالفین کو سزادیں اور ان کو ان کے منصب سے ہٹا کر اپنے عقیدت مندوں کو تمام مناصب پر بٹھا دیں۔ ہر صاحب اقتدار موافق اور مخالف کی اصطلاحوں میں سو چتا ہے۔ موافقین کو اٹھانا اور مخالفین کو کچلنا اس کی پالیسی کا سب سے اہم جزء ہوتا ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں اقتدار حاصل ہو ا تو آپ نے اس کے بالکل بر عکس معاملہ کیا۔ آپ نے معاملات کو ’’موافق‘‘ اور ’’مخالف‘‘ کے اعتبار سے نہیں دیکھا بلکہ حق پسندی اور امانت داری کے لحاظ سے دیکھا۔ اور تمام شکایتی باتوں کو نظر انداز کر کے ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کیاجو رحمت اور عدل کا تقاضا تھا۔
اسباق سیرت
قرآن میں اہل ایمان کو خطاب کرتےہوئے کہا گیا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا(33:21)۔ يعني تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کا اور آخرت کے دن کا امید وار ہو اوراللہ کو بہت زیادہ یا د کرے۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہر انسان کے لیے مکمل نمونہ ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ارشادہوا ہے کہ یہ نمونہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والا ہو، جو اللہ اور آخرت کا امید وار بن چکا ہو۔
گو یا رسول کی زندگی کا نمونہ، پوری طرح موجود ہو نے کے باوجود، اپنے آپ ہر آدمی کے لیے نمونہ نہیں بن جائے گا۔ وہ صرف اس بندۂ خدا کے لیے نمونہ بنے گا جس نے اللہ کو اتنی گہرائی کے ساتھ پایا ہو کہ وہ اس کی یا دوں میں سما جائے۔ اللہ جس کی تمناؤں کا سر ما یہ بن چکا ہو۔ جس کا حال یہ ہو کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈرنے لگے اور آخرت کا انعام جس کی نظر میں اتنا اہم بن جائے کہ وہ دل و جان سے اس کا آرزو مند ہو۔
رسول کے اسوۂ حسنہ کو پانے کے لیے یہ شرط کیوں لگائی گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی حقیقت کے ادراک کے لیے اس کے بارے میں سنجیدہ ہونا شرط لازم ہے۔ خدا اور آخرت سے مذکورہ قسم کا تعلق ہونا آدمی کو خدا اور آخرت کی باتوں میں سنجیدہ بناتاہے۔ یہی سنجیدگی اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو صحیح نظر سے دیکھے اور اس سے مطلوبہ سبق لے سکے۔
اس مسئلہ کی وضاحت کے لیے ایک مثال لیجیے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 1421،سنن النسائی، حدیث نمبر 4106)۔ يعني،جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے خون کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے گھر والوں کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔
جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے، یہ حدیث ’’لڑنے ‘‘ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ’’مارے جانے ‘‘ کی صورت میں مومن کے انجام کو بتا نے سے متعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ نہیں ہےکہ جب بھی کہیں کوئی مال یا خون یا دین یا اہل و عیال کا مسئلہ پیش آئے، تم فوراً لڑجاؤ، خواہ اس کے نتیجہ میں یہی کیوں نہ ہو کہ تم قتل کر دیے جاؤ۔ بلکہ اصل مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ مذکورہ اسباب سے کوئی شخص مومن کو قتل کردے تو اس کا قتل قتل نہیں بلکہ شہادت ہوگا۔ گویا یہ حدیث اصلاً لڑائی پر اکسانے کے لیے نہیں ہے بلکہ قتل کر دیے جانے کی صورت میں شہادت کا درجہ پانے سے متعلق ہے۔
اب جو شخص دین کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو، جس کو اپنے ذاتی ذوق کے لیے رسول اللہ کا جواز مطلوب ہو وہ بس حدیث کے الفاظ کو لے لے گا اور اپنے نفسانی جھگڑوں اور قومی لڑائیوں کو حق بجا نب ثابت کرنے کے لیے اس کو بطور دلیل پیش کر ے گا۔ وہ کہے گا کہ اسلام آدمی کو مردانگی کی تعلیم دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ اپنے دین و ایمان، جان و مال، زمین و جائداد، بیوی بچوں اور خویش و اقارب کی حفاظت کے لیے لڑ جاؤ۔ اگر تم جیت گئے تو تم نے اپنا مقصد پا لیا۔ اگر تم ہار گئے تو تم شہید ہوئے۔ اور شہادت و ہ بلند رتبہ ہے جو خوش قسمت انسانوں ہی کو ملتا ہے۔
مگر جو آدمی اللہ سے ڈرتا ہو وہ اس کو نہایت سنجیدہ ہو کر دیکھے گا۔ اس کی سنجیدگی اس کو اس سوال تک پہنچائے گی کہ جب مال اور خون اور دین اور خاندان کے دفاع میں لڑنا مرنا مطلوب ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس قسم کی بر عکس مثالیں کیوں ہیں کہ آپ بہت سے مواقع پر صریح ظلم کے با وجود صبر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہیں۔
1۔ مثال کے طور پر ابن ہشام نے ابو عثمان النهدی کے حوالہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے:
بَلَغَنِي أَنَّ صُهَيْبًا حَيْنَ أَرَادَ الْهِجْرَةَ قَالَ لَهُ كُفَّارُ قُرَيْشٍ:أَتَيْتنَا صُعْلُوكًا حَقِيرًا، فَكَثُرَ مَالُكَ عِنْدَنَا، وَبَلَغْتَ الَّذِي بَلَغْتَ، ثُمَّ تُرِيدُ أَنْ تَخْرُجَ بِمَالِكَ وَنَفْسِكَ، وَاَللهِ لَا يَكُونُ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُمْ صُهَيْبٌ:أَرَأَيْتُمْ إنْ جَعَلْتُ لَكُمْ مَالِي أَتُخْلُونَ سَبِيلِي؟ قَالُوا:عَمْ. قَالَ:فَإِنِّي جَعَلْتُ لَكُمْ مَالِي. قَالَ:فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:رَبِحَ صُهَيْبٌ، رَبِحَ صُهَيْبٌ(سیرۃ النبی لا بن ہشام،جلد 2، صفحہ 89) يعني،مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت صہیب نے جب مکہ سے ہجرت کا ارادہ کیا تو کفار قریش نے ان سے کہا کہ تم ہمارے یہاں آئے تو بالکل غریب تھے۔ پھر تمہارے پاس یہاں بہت مال ہو گیا اور تم اس درجہ کو پہنچے جس درجہ میں تم اب ہو۔ تم چاہتے ہو کہ اپنے جان و مال کے ساتھ یہاں سے چلے جاؤ تو خدا کی قسم ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ حضرت صہیب نے ان سے کہا، اگر میں اپنا مال تمہارے حوالے کر دوں تو تم مجھ کو جانے دوگے۔ انہوں نے کہا، ہاں۔ حضرت صہیب نے کہا پھر میں نے اپنا مال تمہارے حوالے کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:صہیب کی تجارت کامیاب رہی، صہیب کی تجارت کا میاب رہی۔
مذکورہ حدیث میں مال کےمقابلہ میں لڑکر جان دینا اگر مطلق معنوں میں ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہیے تھا کہ حضرت صہیب کو نا کامی کا الزام دیں، نہ کہ انہیں کامیابی کا کریڈٹ عطا فرمائیں۔
2۔ہجرت کے چھٹے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادہ سے مدینہ سے روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش نے آگے بڑھ کر روکا۔ اس موقع پر فریقین کے درمیان صلح کی گفت و شنید ہو رہی تھی کہ وہاں ابو جندل بن سہیل آگئے۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیاتھا۔ اس کی وجہ سے مکہ والے ان کو سخت تکلیفیں دے رہے تھے اور ان کے پیروں میں لو ہے کی زنجیریں ڈال دی تھیں۔ انہوں نے جب سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب حدیبیہ میں ہیں تو وہ کسی طرح بھاگ کر مکہ سے حدیبیہ پہنچے۔ اس وقت بھی ان کے پیروں میں بیڑیاں تھیں اور ان کا جسم خون آلود ہو رہا تھا، ان کو دیکھ کر قریش کے سردار سہیل بن عمر و (ابو جندل کے والد) نے کہا کہ ابو جندل کو ہمیں واپس کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے بہت چاہا کہ انہیں دوبارہ مکہ نہ بھیجا جائے۔ مگر سہیل بن عمر و نے کہا کہ اگر آپ نے ابو جندل کو ہمارے حوالے نہ کیا تو ہم آپ سے کسی طرح کی کوئی صلح نہیں کریں گے۔
یہ بڑا جذباتی لمحہ تھا۔ ابو جندل بیڑیوں میں خون آلود سامنے کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا:اے مسلمانو، کیا میں مشرکین کی طرف لوٹا دیا جاؤ ں گا، حالانکہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں۔ کیا تم لوگ دیکھتے نہیں کہ ان لوگوں نے مجھے کس قدر عذاب پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکہ کی طرف لوٹا دیا اور ان سےکہا:
يَا أَبَا جَنْدَلٍ، اصْبِرْ وَاحْتَسِبْ، فَإِنَّ اللهَ جَاعِلٌ لَك وَلِمَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُسْتَضْعَفِينَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا(سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 318)۔يعني،اے ابو جندل، صبر کرو، اللہ تمہارے لیے اور دوسرے کمزور مسلمانوں کے لیے گنجائش پیدا کرے گا۔
مذکورہ حدیث میں لڑنا اور شہید ہو جانا اگر مطلق معنوں میں ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پرحضرت ابو جندل کو صبر و رضا کی نصیحت نہ فرماتے۔ بلکہ انہیں شہادت کا راستہ بتاتے اور خود بھی اپنے اصحاب سمیت قریش سے لڑ جاتے۔
3۔ اسی حدیبیہ کا واقعہ ہے کہ قریش نے آپ کو روکا اور کہا کہ ہم اس سال آپ کو عمرہ کے لیے مکہ میںداخل نہیں ہونے دیں گے۔ آپ اس پر راضی ہو کر واپس مدینہ چلے آئے۔ اور عمرہ کے لیے مکہ جانے پر اصرار نہیں کیا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731)۔ حالانکہ یہ خالص دینی معاملہ تھا اور آپ خدائی بشارت کی بنیاد پر اپنے اصحاب کو لے کر زیارت حرم کے لیے جا رہے تھے۔اگر مذکورہ حدیث میں دین کے لیے لڑ کر شہید ہونا مطلق معنوں میں ہو تو آپ کو چاہیے تھا کہ اسی سال عمرہ کرنے کے لیے اصرار کریں، خواہ اس کے نتیجہ میں عمرہ ملے یا شہادت۔
4۔ مکہ میں عمار بن یا سر اور ان کے والدین بنو مخزوم کے غلام تھے۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اسلام میں داخل ہو گئے۔ بنو مخزوم کو ان کا اسلام لانا سخت نا پسند تھا۔ چنانچہ وہ ان کو عین دوپہر کے وقت صحرا میں لے جاتے اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر انہیں سخت عذاب دیتے۔ حتٰی کہ عمار کی والدہ کو انہوں نے قتل کر دیا۔ ابن ہشام اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فَيَمُرُّ بِهِمْ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ، فِيمَا بَلَغَنِي:صَبْرًا آلَ يَاسِرٍ، مَوْعِدُكُمْ الْجَنَّةُ(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 320)۔ يعني، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے اور جیسا کہ مجھے روایت پہنچی ہے ان سے کہتے:اے خاندان یا سر، صبر کرو، تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
مذکورہ حدیث اگر مطلق معنوں میں ہو تو ایسا کہنا، نعوذ با اللہ، بزدلی کی تعلیم دینا ہوگا۔ پھر تو آپ کو آل یا سر سے کہنا چاہیے تھا کہ تم لوگ لڑ کر شہید ہو جاؤ اور خود بھی اس مقدس جنگ میں ان کے ساتھ شریک ہو جاتے۔ خواہ آل یا سر کو بچا سکیں یا اسی راہ میں شہادت کا درجہ حاصل کر لیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسوۂ رسول ان چیزوں میں سے ہے جن کی ایک سے زیادہ تعبیر ممکن ہو تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسوۂ رسول کے معاملہ میں آدمی ہمیشہ صحیح تعبیر اور غلط تعبیر کے درمیان رہتا ہے۔ اور جو چیز کسی کو غلط تعبیر سے بچاتی ہے وہ صرف ایک ہے۔ یہ کہ خوف خدانے آدمی کو حقیقت پسندی کی اُس سطح پر پہنچا رکھا ہو جس کو سنجیدگی کہا جاتا ہے۔
آدمی اگر فی الواقع سنجیدہ ہو تو اس کی سنجیدگی اس کو اسوۂ رسول کے بارے میں مذکورہ سوالات سے دو چار کر ے گی۔ اس کو چونکہ صرف مفید مطلب بات نہیں لینی تھی بلکہ یہ معلوم کرناتھا کہ حقیقی طور پر اسوۂ نبوت کیا ہے۔ اس کا یہ ذہن اس کو غلط تعبیر سے بچائے گا۔ وہ بے آمیز ذہن کے تحت اس مسئلہ پر غور کرے گا اور خدا کی تو فیق سے بات کی تہ تک پہنچ جائے گا۔ اب اس کو معلوم ہوگا کہ اس کا راز ہے— بڑے فائدہ کی خاطر چھوٹے نقصان کو برداشت کرنا۔
اہل ایمان کے لیے سب سے اہم چیز دعوتی مصلحت ہے نہ کہ شخصی مصلحت۔ اگر دعوتی مصلحت اور شخصی مصلحت میں ٹکراؤ ہو تو شخصی مصلحت کو قربان کر کے دعوتی مصلحت کو حاصل کیا جائے گا۔ مذکورہ واقعات میں رسول کی طرف سے صبر کی تلقین کی وجہ یہی دعوتی مصلحت ہے۔ دعوتی کام کو مؤثر طور پر جاری رکھنے کے لیے خدا کے رسول نے جان، مال اور خاندان کی قربانیاں بر داشت کیں۔ حتٰی کہ دشمنوں کی طرف سے ’’دین میں مداخلت ‘‘ کو بھی وقتی طور پر گواراکر لیا۔ تاکہ دعوت کا کام جاری رہے جو اہل ایمان کے لیے ہر قسم کی کامیابیوں کا واحد ذریعہ ہے۔
جب آدمی کے سامنے کوئی مقصد ہو تو وہ مقصد کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ وہ دوسرے تمام نقصانات کو نظر انداز کر تا رہتا ہے تاکہ اصل مقصد ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ اور جب کوئی مقصد سامنے نہ رہے تو وہ ہر چیز میں الجھتا ہے۔ وہ ہربات کے لیے دوسروں سے لڑتاہے۔ خواہ اس کے نتیجہ میں یہی کیوں نہ ہو کہ چھوٹے نقصان کو بر داشت نہ کرنے کی بنا پر اس کو زیادہ بڑا نقصان برداشت کرنا پڑے۔داعی اس دنیا کا سب سے زیادہ با مقصد انسان ہے، اس لیے وہ ہمیشہ پہلے رویہ کو اختیار کرتا ہے نہ کہ دوسرے رویہ کو۔ اس کلیہ سے مستثنیٰ صرف وہ امور ہیں جب کہ معاملہ خالص دفاعی ہو، اس کا دعوتی مقصد سےکوئی تعلق نہ ہو۔
اس تمہید کے بعد یہاں ہم مختلف پہلوؤں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ واقعات نقل کرتے ہیں جن میں ہماری زندگی کے لیے زبر دست سبق اور نصیحت موجود ہے۔
_1_
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آغاز نبوت کا ذکر کرتے ہوئے ابن ہشام لکھتے ہیں اللہ نے جب ارادہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے منصب پر مقرر کرے تو آپ کا یہ حال ہو ا کہ جب آپ اپنی کسی ضرورت کے لیے بستی سے نکلتے تو بہت دور چلے جاتے، یہاں تک کہ مکانات نظر نہ آتے۔ آپ مکہ کی پہاڑیوں اور وادیوں میں کھو جاتے(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 234-35)۔ ابن ہشام نے عبد اللہ بن زبیر کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہر سال میں ایک مہینہ حراء پہاڑ میں چلے جاتے اور اس کے پڑوس میں رہتے(كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي حِرَاءٍ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ شَهْرًا)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ابو طالب کے کچھ اشعار ابن ہشام نے نقل کیےہیں۔ ایک مصر عہ یہ ہے:
وَرَاقٍ لِيَرْقَى فِي حِرَاءٍ وَنَازِلِ
یعنی وہ حراء پر چڑھنے والے ہیں اور پھر اس سے اتر نے والے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 235)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر جب حقیقت کی تلاش کا جذبہ ابھر ا تو آپ کا یہ حال ہوا کہ انسانی بستیوں سے نکل کر آپ پہاڑی علاقوں میں چلے جاتے۔ یہ گو یا ایک صالح روح کا انسانی سرگرمیوں کے ماحول کو چھوڑ کر خدا ئی سرگرمیوں (فطرت)کے ماحول میں جانا تھا — صحرائی جغرافیہ خصوصیت سے اس کام کے لیے مناسب ترین جگہ ہوتی ہے۔
رومانیہ کے مستشرق کو نستان ور ژیل جارج (1916-1992)) نے اسلام کے جغرافیہ کو سمجھنے کے لیے خود عرب کا سفر کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب ’’پیغمبر اسلام ‘‘ میں لکھتے ہیں :
جب تک کوئی انسان عرب اور مشرق کے جنگلوں میں ایک مدت نہ گزارے، وہ اس کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ صحرا کی وسعت او ر اس کا سکوت کس طرح فکر انسانی کی وسعت کا سبب ہوتا ہے اور خیال کو تقویت دیتا ہے۔ عرب کی گھاس اور یورپ کی گھاس میں بہت فرق ہے۔ گرم جنگلوں میں کوئی گھاس ایسی نہیں جس میں خوشبو نہ ہو۔ یہاں تک کہ عرب جنگلوں کے ببول بھی خوشبو دار ہیں۔ 30لاکھ کیلو میٹر والا مسطح جنگل اور گرم عر بستان ایسی جگہ ہے جہاں انسان گو یا بلاواسطه خدا تک پہنچ جاتا ہے۔
دوسرے ملک ایسی عمارت کےمثل ہیں جن کے درمیان بڑی بڑی دیواریں حائل ہیں۔ مگر عرب کےجنگلوں میں ایسا کوئی مانع نہیں جو دیدار حق کو رو ک سکے۔ لوگ جس طرف بھی نظر ڈالتے ہیں ، لا محدود جنگل اور بے کنار آسمان انہیں دکھائی دیتاہے۔ یہاں خدا اور فرشتوں کی شناسائی کے لیے کوئی چیز مانع نہیں ۔
_2_
زمانہ جاہلیت میں عرب کےکچھ لوگوں نے ایک باہمی معاہدہ کیا تھا جس کو حلف الفضول کہا جاتاہے۔اس معاہدہ کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور ظلم کو روکنا تھا۔ اس معاہدہ میں شریک ہونے والوں کے نام تھے فضل بن فضالہ، فضل بن وداعہ اور فضیل بن حارث۔ چنانچہ انہیں کے نام پر اس معاہدہ کا نام حلف الفضول (فضل والوں کا معاہدہ ) پڑ گیا۔ یہ معاہدہ ابتدائی بانیوں تک زندہ رہا۔ ان کے مرنے کے بعد صرف ان کا نا م رہ گیا۔ زبیر بن عبد المطلب نے اپنے بعض اشعار میں اس معاہدہ کاذکر اس طرح کیا ہے
إنّ الْفُضُولَ تَحَالَفُوا، وَتَعَاقَدُوا أَلّا يُقِيمَ بِبَطْنِ مَكّةَ ظَالِمُ
أَمْرٌ عَلَيْهِ تَعَاهَدُوا، وَتَوَاثَقُوا فَالْجَارُ وَالْمُعَتّرُ فِيهِمْ سَالِمُ
فضل نامی افراد نے باہم معاہدہ کیا اور عہد باندھا کہ مکہ میں کوئی ظالم نہ رہنے پائے گا انہوں نے اس بات پر باہم عہد باندھا اور اقرار کیا۔ پس مکہ میں پڑوسی اور ضرورت سے آنے والا سب محفوظ ہیں (الروض الانف للسهيلی، جلد2، صفحہ47)۔
واقعہ فیل کے بعد عرب میں ایک باہمی جنگ ہوئی جس کو حرب الفجار (حرام مہینوں میں کی جانے والی جنگ) کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے بعد دو بارہ عرب میں بد ا منی بڑھ گئی۔ اسی زمانہ میں یہ واقعہ ہو ا کہ یمن کے قبیلۂ زبید کا ایک شخص کچھ تجارتی سامان لے کر مکہ آیا۔ قریش کے ایک سردار عاص بن وائل سہمی نے اس کا سامان خرید ا مگر اس کی مطلوبہ قیمت نہیں اداکی۔ مذکورہ یمنی تاجر نے مکہ والوں سے فریاد کی۔ اس نے کچھ اشعار کہے اور ان کے ذریعہ عام لوگوں تک اپنی شکایت پہنچائی۔ اس واقعہ نے مکہ کے کچھ درد مند لوگوں کو چوکنا کر دیا۔ زبیر بن عبد المطلب کی تحریک پر بنو ہاشم اور بنو تمیم کے لوگ عبد اللہ بن جد عان کے مکان پر جمع ہوئے تاکہ صورت حال کے بارے میں مشورہ کریں۔ انہوں نے حلف الفضول کی ازسر نو تجدید کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے باہمی عہد کے ذریعہ اپنے کو پا بند کیا کہ وہ مظلوم کا ساتھ دیں گے، اور ظالم سے اس کا حق دلا کر رہیں گے (فَتَعَاقَدُوا وَتَعَاهَدُوا بِالله الْقَائِلِ:لَنَكُونَنَّ مَعَ الْمَظْلُومِ حَتَّى يُؤَدَّى إِلَيْهِ حَقُّهُ) الطبقات الکبریٰ، جلد1، صفحہ 103۔اس عہد کے بعد وہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے۔ اس سے مذکورہ شخص کا سامان چھینا اور اس کو اس کے مالک کے حوالے کیا۔
یہ معاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی عمر میں ہو اتھا۔ وہ اگر چہ عربو ں کا ایک معاہدہ تھا مگر آپ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ اس کی بابت آپ کے یہ الفاظ سیرت کی کتابوں میں نقل کیے گئے ہیں:
لَقَدْ شَهِدْتُ فِي دَارِ عَبْدِ الله بْنِ جُدْعَانَ حِلْفًا لَوْ دُعِيتُ بِهِ فِي الْإِسْلَامِ لَأَجَبْتُ، تَحَالَفُوا أَنْ يَرُدُّوا الْفُضُولَ عَلَى أَهْلِهَا وَأَلَّا يَعُزَّ ظَالِمٌ مَظْلُومًا (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد1، صفحہ258)۔ یعنی، میں عبد اللہ بن جد عان کے گھر میں ہونے والے معاہدہ میں شریک تھا۔ اگر اسلام کے بعد بھی مجھے اس میں بلایا جاتا تو میں ضرور اس میں شریک ہوتا۔ انہوں نے اس بات کا عہد کیاتھا کہ وہ حقدار تک اس کا حق پہنچائیں گے اور یہ کہ کوئی ظالم کسی مظلوم پر غالب نہ آسکے گا۔
ابن ہشام نے اس ذیل میں بعض واقعات نقل کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حلف الفضول کا ذہنی اثر بعد کے عربوں میںبھی باقی تھا۔ ولید بن عتبہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے بھتیجے تھے۔ حضرت معاویہ نے ان کو مدینہ کا امیر بنایاتھا۔ اسی زمانہ میں ولید بن عتبہ اور حضرت حسین بن علی کے درمیان ایک جائداد کا جھگڑا ہوا جو کہ ذو المروہ نامی گاؤں میں تھی۔ ولید نے طاقت کے زور پر اس پر قبضہ کرنا چاہا۔ حضرت حسین نے فرمایا:
أَحْلِفُ بالله لَتُنْصِفَنِّي مِنْ حَقِّي أَوْ لَآخُذَنَّ سَيْفِي، ثُمَّ لَأَقُومَنَّ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَأَدْعُوَنَّ بِحِلْفِ الْفُضُولِ۔ يعني،میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم کو میرے حق کے معاملہ میں انصاف کرنا ہوگا ورنہ میں اپنی تلوارلوںگا اور مسجد نبوی میں کھڑا ہو جاؤں گا اورحلف الفضول کے نام پر پکاروں گا۔
عبد اللہ بن زبیر جو اس وقت وہاں موجود تھے انہوں نے بھی یہی بات کہی۔ انہوں نے کہا میں بھی خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر حسین اس کے لیے پکا ریں گے تو میں اپنی تلوار لوں گا اور ان کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا یہاں تک کہ ان کا حق ان کو دیا جائے یا ہم دونوں ایک ساتھ قتل ہو جائیں۔ یہ بات مِسوَر بن مخرمہ زہری کو پہنچی تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا۔ اسی طرح یہ بات عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی کو پہنچی تو انہوں نے بھی ایساہی کہا۔ جب و لید بن عتبہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے حضرت حسین کو ان کا حق ادا کر دیا (سیرت ابن ہشام، جلد 1،صفحہ 135)۔
اوپر کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ بد امنی اور فساد کے مسئلہ کے حل کے لیے اسلام کا مصدقہ طریقہ حلف الفضول کا طریقہ ہے۔ یعنی معاشرہ کے ذمہ دار افراد کا خدا کے سامنے عہد باندھ کر اپنے آپ کو اس کا پابند کرنا کہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوگا کہ ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم کر رہا ہو تو وہ فوراً دوڑ کر موقع پر پہنچیں گے۔ مظلوم کے مسئلہ کو اپنا مسئلہ بنائیں گے۔ وہ اپنی ساری قوت اور ساری کوشش صرف کر کے ظالم کومجبور کریں گے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آئے اور مظلوم کو اس کا حق ادا کرے۔
آج ہر بستی میں یہ صورت حال ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ستاتا ہے۔ کوئی کسی کو ذلیل کرنےپر تلا ہوا ہے، کوئی کسی کے اوپر جھوٹا مقدمہ قائم کیے ہوئے ہے۔ کوئی کسی کا مال ہڑپ کر لینا چاہتا ہے۔ غرض جس کو ذرا بھی کوئی طاقت یا موقع ہاتھ آتا ہے تو وہ اس کوشش میں لگ جاتا ہے کہ کمزور کو دبائے اور ظالمانہ طریقہ پر دوسرے کےحقوق کو غصب کرے۔ اس قسم کے واقعات ہر بستی میں اور ہر محلہ میں ہو رہے ہیں۔ مگر تمام لوگ غیر جانب دار بنے رہتے ہیں۔ حتٰی کہ ذمہ دار افراد بھی ان معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتے۔ کسی کو اگر اصلاح امت یا خدمت قوم کا شوق ہوتا ہے تو وہ جلسوں اور تقریروں کا مشغلہ شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ اصل کام مظلوموں کی عملی دادر سی ہے نہ کہ مظلوموں کے نام پر جلسہ کرنا اور اس میں الفاظ کے دریا بہانا۔ مظلوموں کے نام پر جلسے کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص زخمی ہو جائے اور آپ اس کو اسپتال لے جانے کے بجائے ایک ’’شان دار زخمی کانفرنس ‘‘ منعقد کرنے کے لیے دوڑ پڑیں۔
_3_
قبائلی نظام میں آدمی قبیلہ کی حمایت کے تحت زندگی گزارتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے ابتدائی زمانہ میں اپنے چچا ابو طالب کی حمایت میں رہے جو قبیلہ بنو ہاشم کے سردار تھے۔ نبوت کے دسویں سال ابو طالب کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد قبائلی روایات کےمطابق ابو لہب قبیلہ بنو ہاشم کا سردار مقرر ہوا۔ اس نے آپ کی حمایت سے انکار کر دیا۔ اب آپ نے ارادہ کیا کہ کسی دوسرے قبیلہ کی حمایت حاصل کر کے اپنا دعوتی کام جاری رکھیں۔ اس غرض کے تحت آپ نے طائف کا سفر فرمایا۔
طائف مکہ کے جنوب مشرق میں 65میل کے فاصلہ پر ایک سر سبز و شاداب بستی تھی۔ وہاں آپ کے بعض رشتہ دار تھے۔ چنانچہ آپ اپنے خادم زید بن حارثہ کو لے کر طائف پہنچے۔ اس وقت وہاں کی آبادی میں تین ممتاز سردار تھے۔ عبد یا لیل، مسعود اور حبیب۔ آپ ان تینوں سے ملے۔ مگر ہر ایک نے آپ کا ساتھ دینے یا آپ کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا:خدا نے اگر تم کو رسول بنایا ہو تو میں کعبہ کا پردہ پھاڑ ڈالوں۔ دوسرے نے کہا:خدا کو کیا تمہارے سوا کوئی نہ ملا تھا جس کو وہ رسول بنا کر بھیجتا۔تیسرے نے کہا:خدا کی قسم میں تم سے بات نہیں کروں گا۔ اگر تم رسول ہو تو تمہارا جواب دینا گستاخی ہے اور اگر تم جھوٹے ہو تو میرے لیے مناسب نہیں کہ میں تم سے بات کرو: فَقَالَ لَهُ أَحَدُهُمْ:هُوَ يَمْرُط ثِيَابَ الْكَعْبَةِ إنْ كَانَ اللهُ أَرْسَلَكَ، وَقَالَ الْآخَرُ:أَمَا وَجَدَاللهُ أَحَدًا يُرْسِلُهُ غَيْرَكَ! وَقَالَ الثَّالِثُ:وَاللهِ لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا، لَئِنْ كُنْتَ رَسُولًا مِنْ اللهِ كَمَا تَقُولُ، لَأَنْتَ أَعْظَمُ خَطَرًا مِنْ أَنْ أَرُدَّ عَلَيْكَ الْكَلَامَ، وَلَئِنْ كُنْتَ تَكْذِبُ عَلَى اللهِ، مَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أُكَلِّمَكَ )سیرۃ ابن ہشام جلد2صفحہ 29(۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غم گین ہو کر واپس ہوئے۔ مگر ان لوگوں نے پھر بھی آپ کو نہ بخشا۔ انہوں نے بستی کے لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ گالیوں اور پتھروں سے آپ کا پیچھا کرتے رہے۔ آپ کے خادم زید بن حارثہ نے اپني چادر سے آپ کو آڑ میں لینے کی کوشش کی۔ مگروہ آپ کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور آپ کا جسم لہو لہان ہو گیا۔
بستی سے کچھ دور جاکر عتبہ اور شیبہ دو بھائیوں کا انگور کا باغ تھا۔ یہاں پہنچتے پہنچتےشام ہو گئی اور آپ نے اس باغ میں پناہ لی۔ آپ زخموں سے چور تھے اور اللہ سے دعا کر رہے تھے کہ خدا یا میری مدد فرما مجھے تنہا نہ چھوڑدے۔
عتبہ اور شیبہ دونوں مشرک تھے۔ مگر جب انہوں نے آپ کا حال دیکھا تو ان کو آپ کے اوپر رحم آگیا۔ انہوں نے اپنے نصرانی غلام کو بلایا جس کا نام عداس تھا۔ انہوں نے عداس سے کہا کہ ان انگوروں کے کچھ خوشے لو اور ان کو ایک برتن میں رکھ کر اس آدمی کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اس میں سے کھائے۔ عداس نے ایساہی کیا۔ وہ انگور لے کر آیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ یہ کھاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کو اپنے ہاتھ میں لیا تو بسم اللہ کہا اور پھر کھایا۔
عداس نے آپ کے چہرہ کی طرف دیکھا اور کہا:خدا کی قسم یہ جو آپ نے کہا، اس ملک کے لوگ ایسا نہیں کہتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:اے عداس، تم کس ملک کے رہنے والے ہو اور تمہارا دین کیا ہے۔ عداس نے کہا:میں نصرانی ہوں اور میں نینوا (عراق) کا رہنے والا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:مرد صالح یونس بن متی کے شہر کا۔ عداس نے کہا:آپ کو کیسے معلوم کہ یونس بن متی کون تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے کہا:وہ میرے بھائی ہیں۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں (ذَاكَ أَخِي، كَانَ نَبِيًّا وَأَنَا نَبِيٌّ) یہ سن کر عداس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک پڑا اور آپ کے سر اور ہاتھ اور پاؤں کو چومنے لگا۔
عتبہ اور شیبہ اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا:دیکھو اس شخص نے تمہارے غلام کو خراب کر دیا۔ عداس جب لوٹ کر آیا تو انہوں نے اس سے کہا:عداس تمہارا برا ہو۔ تم کو کیا ہوا کہ تم اس کے سر اور ہاتھ اور پاؤں کو چومنے لگے۔ عداس نے کہا اے میرے آقا، زمین پر اس سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ اس آدمی نے مجھ کو ایسی بات بتائی جس کو صرف ایک نبی ہی جان سکتاہے۔ دونوں نے کہا:اے عداس، تمہارا برا ہو۔ وہ تم کو تمہارے دین سے پھیر نہ دے۔ کیونکہ تیرا دین اس کے دین سے بہتر ہے (وَيْحَكَ يَا عَدَّاسُ، لَا يَصْرِفَنَّكَ عَنْ دِينِكَ، فَإِنَّ دِينَكَ خَيْرٌ مِنْ دِينِهِ)۔سیرۃ ابن ہشام جلد 1 صفحہ 421
خدا کے رسول کو ایک ہی سفر میں مختلف لوگوں سے تین الگ الگ قسم کے سلوک کا تجربہ ہوا:
ایک نے آپ کے اوپر پتھر پھینکے
دوسرے نے آپ کی ضیافت کی۔
تیسرے نے آپ کی نبوت کا اقرار کر لیا۔
اس واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ یہ سبق کہ اس دنیا میں امکانات کی کوئی حد نہیں۔ یہاں اگر چٹیل میدان ہیں تو وہیں سایہ دار درخت بھی کھڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کی زندگی میںکچھ لوگوں سے اگر برے سلوک کا تجربہ ہو تو آدمی کو مایوس نہیںہونا چاہیے۔ آدمی اگر خود سچائی پرقائم رہے۔ وہ اپنے دل کو منفی جذبات سے بچائے تو ضرور اس کو خدا کی مدد حاصل ہوگی۔ ایک قسم کے لوگ اگر اس کا ساتھ نہ دیں گے تو کچھ دوسرے لوگوں کے دل اس کے لیے نرم کر دیے جائیں گے۔
_4_
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں دعوت کا آغاز کيا تو آپ کی شدید ترین مخالفت کی گئی۔ آپ کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ آپ کو دبانے اور ناکام کرنے کے لیے وہ لوگ جو کچھ کر سکتے تھے وہ سب انہوں نے کیا۔ مگر آپ کا مشن بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ مدینہ کے لوگوں تک اسلام کی آواز پہنچی۔ وہاں کثرت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ آپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی مکہ والے بہت ستاتے تھے۔ آپ نے مکہ کے مسلمانوں سے کہا مدینہ میںاللہ نے تمہار ے لیے کچھ بھائی او رمدد گار مہیا کر دیے ہیں، تم لوگ وہاں چلے جاؤ۔ لوگ ایک ایک کرکے جانے لگے۔ قریش کو اس منصوبہ کا علم ہوا تو انہوں نے کوشش کی کہ لوگوں کو جانے سے روکیں۔ کچھ لوگوں کو مارا، کچھ لوگوں کو پکڑ کر گھروں میں بند کر دیا۔ تاہم بیشتر لوگ کسی نہ کسی طرح مکہ سے مدینہ پہنچ گئے۔
آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری تھی۔ قریش کو اندازہ ہو گیا کہ تمام مسلمانوں کو مدینہ بھیجنے کے بعدا ب پیغمبر اسلام خود بھی مدینہ چلے جائیں گے۔ چنانچہ بنو ہاشم کے سوا تمام قبائل قریش کے سردار دار الندو ہ (قصی بن کلاب کا مکان) میں جمع ہوئے۔ مشورہ میں مختلف تجویز سامنے آئیں۔ با لآخر اس رائے پر اتفاق ہوا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی تلوار لے اور بیک وقت حملہ آور ہو کر محمد کو قتل کر دے۔ اس طرح محمد کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہو جائے گا۔ بنو ہاشم تمام قبائل کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور قصاص کے بجائے دیت پر راضی ہو جائیں گے۔ اس کے بعدا گلی رات کو تمام سرداروں نے آپ کا مکان گھیرلیا، تاکہ صبح کو جب آپ گھر سے باہر نکلیں تو اچانک حملہ کر کے آپ کا خاتمہ کر دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام حالات کی خبر تھی اور آپ بھی خاموشی کے ساتھ اپنی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے، چنانچہ اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق آپ اسی رات کو ابو بکر صدیق کے ساتھ مکہ سے نکل گئے۔ آپ مکہ سے چل کر چار میل کے فاصلہ پر جبل ثور کے ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ آپ کو اندازہ تھا کہ قریش کو جب معلوم ہو گا کہ آپ مکہ سے چلے گئے ہیں تو وہ آپ کی تلاش میں اِدھر اُدھر نکلیں گے۔ اس لیے آپ چاہتے تھے کہ چند دن غار ثور میں گزاریں اور جب قریش کی تلاش رکے تومدینہ کا سفر کریں۔
اب قریش کے سوار چاروں طرف آپ کی تلاش میں دوڑ نے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دستہ غار ثور تک بھی پہنچ گیا۔ یہ لوگ تلواریں لیے ہوئے غارثور کے پاس اس طرح کھڑے تھے کہ ان کے پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دکھائی دے رہے تھے۔ یہ انتہائی خطر ناک لمحہ تھا۔ ابو بکر صدیق نے کہا اے خدا کے رسول، دشمن تو یہاں تک پہنچ گیا۔ آپ نے کہا:لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا(9:40)۔ یعنی، غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر اطمینان کے ساتھ فرمایا:اے ابو بکر، ان دو کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جن کا تیسرا اللہ ہو (مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِثُهُمَا)۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر 4653
_5_
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں سے ایک غزوہ ذات الرقاع ہے جو 4 ھ میں پیش آیا۔ اس غزوہ کے واقعات میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے صحیح بخاری (کتاب المغازی) میں نقل ہوا ہے۔ سیرت کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ معمولی فرق کےساتھ آیا ہے۔
بنو غطفان کا ایک شخص جس کا نام غورث ابن الحارث تھا، اس نے اپنی قوم سے کہا کیا میں تمہارے لیے محمد کو قتل کر دوں (الا اَقتل لکم محمدا )انہوں نے کہا ضرور، مگر تم کیسے ان کو قتل کرو گے۔ غورث نے کہا:میں ان کو غفلت کی حالت میں پکڑوں گا اور قتل کردوں گا۔ اس کے بعد غورث روانہ ہوا۔ وہ ایک مقام پر پہنچا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ اس مقام پر درخت اور جھاڑیاں تھیں۔ لوگ جھاڑیوں کے سایہ میںلیٹے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے نیچے آرام کر رہے تھے اور اپنی تلوار آپ نے درخت کی شاخ سے لٹکادی تھی۔ اتنے میں مذکورہ اعرابی (غورث) آپ کو تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا۔ اس نے جب دیکھا کہ آپ تنہا لیٹے ہوئےہیں اور آپ کی تلوار بھی آپ سے الگ درخت کے اوپر لٹک رہی ہے تو اس نے بڑھ کر آپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی۔ پھر تلوار کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا اور کہا:آپ کو کون مجھ سے بچائے گا(مَنْ يَمْنَعُك مِنِّي)آپ نے فرمایا اللہ عز وجل۔ اعرابی نے تلوار کو ہلاتے ہوئے کہا:اپنی اس تلوار کی طرف دیکھو جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔ کیا تم کو اس سے ڈر نہیں معلوم ہوتا۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ میں تم سے کیوں ڈروں۔ جب کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ مجھے بچائے گا (يَمْنَعُنِي اللهُ مِنْك)آپ کے پُر اعتماد جو اب کے بعد اعرابی کو اقدام کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے تلوار میان میں ڈال کر آپ کو واپس کر دی (فَشَامَ الْأَعْرَابِيُّ السَّيْفَ )اب آپ نے اعرابی کو بٹھایا اور لوگوں کو آواز دی۔ لوگ آئے تو دیکھا کہ ایک اعرابی آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ آپ نے پورا قصہ بتایا۔ اعرابی سہما ہوا تھا کہ اب شاید تلوار میری گردن پر چلے گی۔ مگر آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ اس کو کوئی سزانہ دی (سیرت ابن ہشام جلد 2،صفحہ 205، دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد3، صفحہ374، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد3، صفحہ162-64)۔
جو لوگ اللہ پر پورا بھروسہ کر لیں ان کو کسی دوسری چیز کا خوف نہیں رہتا۔ یہ عقیدہ کہ اللہ ایک زندہ اور طاقت ور ہستی کی حیثیت سے ہر وقت موجود ہے، ان کو ہر دو سری طاقت کے مقابلہ میں نڈر بنا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں کسی شخص کی سب سے بڑی طاقت بے خوفی ہے۔ دشمن کو اگر یقین ہو جائے کہ اس کا حریف اس سے نہیں ڈرتا تو وہ خود اس سے ڈرنے لگتا ہے۔
_6_
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں سے ایک غزوہ خندق ہے جو شوال 5ھ میں پیش آیا۔ اس کو غزوہ احزاب بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی فوجوں کا غزوہ۔ اس جنگ میں عرب کے مختلف قبیلوں نے مل کر مدینہ پر حملہ کر دیا تھا۔ قبائل قریش، قبائل غطفان اور قبائل یہود کے دس ہزاسے زیادہ افراد اس میں شریک تھے۔ یہ حملہ کتنا شدید تھا، اس کا اندازہ قرآن کے ان الفاظ سے ہوتا ہے’’ جب وہ اوپر سے اور نیچے سے تمہارے اوپر چڑھ آئے۔ اس وقت ڈر کی وجہ سے تمہاری آنکھیں پتھر اگئیں اور کلیجے منھ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنےلگے۔ اس وقت اہل ایمان کی بڑی جانچ ہوئی اور وہ بہت ہلا مارے گئے (هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا ) 33:11۔ مخالفین اسلام کا یہ لشکر پوری طرح ہتھیار بند تھا۔ اس میں ساڑھے چار ہزار اونٹ اور تین سو گھوڑے تھے۔
دشمنوں نے مدینہ کو اس طرح گھیرے میں لے لیا کہ باہر سے ہر قسم کی امداد آنا بند ہو گئی۔ سامان رسد کی اتنی کمی ہوئی کہ لوگ فاقے کرنے لگے۔ اسی دوران کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی نےبھوک کی شکایت کی اور کُرتا اٹھا کر دکھا یا کہ پیٹ پر ایک پتھر باندھ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اپنا کُرتا اٹھایا تو آپ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ مختلف قبائل ایک ساتھ ہو کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں تو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ سلمان فارسی کی رائے کے مطابق طے ہو ا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ اس وقت مدینہ تین طرف سے پہاڑوں، گھنے درختوں اور مکانات کی دیواروں سے گھرا ہو اتھا۔ شمال مغربی حصہ خالی تھا۔ طے ہوا کہ اس کھلے ہوئے حصہ میں دو پہاڑوں کے درمیان خندق کھودی جائے۔ چنانچہ چھ دن کی لگا تا ر محنت سے ایک خندق کھود کر تیار کی گئی۔ یہ خندق دشمنوں کی یلغار کو روکنے کے لیے اتنی کارآمد ثابت ہوئی کہ اس غزوہ کا نام غزوہ خندق پڑ گیا۔
سیرت کی کتابوں میں خندق کی تفصیلات جب ہم پڑھتے ہیں توایک سوال سامنے آتا ہے۔ ’’ایک معمولی خندق دشمنوں کی فوج کو روکنے کا سبب کیسے بن گئی ‘‘ مذکورہ تفصیلات کے مطابق یہ خندق تقریباً 6 کیلو میٹر لمبی تھی۔ اور اس کی گہرائی اورچو ڑائی ایک معمولی نہر سے زیادہ نہ تھی۔ وہ تقریباً ڈھائی میٹر گہری اورتقریباً تین میٹر چوڑی تھی۔ اِس قسم کی ایک خندق ایک مسلح فوج کے لیے ایک نالی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ وہ لوگ بآسانی اس کو عبور کر کے مدینہ میں داخل ہو سکتے تھے۔ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس خندق کے با وجود مسلمان دشمن فوج کی تیروں کی زد میںتھے۔ جیسا کہ حضرت سعد بن معاذ کو تیر لگنے سے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم کچھ لوگ خندق کے دوسری طرف پہنچنے میں کا میاب ہو گئے تھے۔ عمرو بن عبد وُد اور اس کے کچھ ساتھیوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کا جائزہ لیا اور ایک جگہ خندق کو کچھ کم چوڑی دیکھ کر وہاں ٹھہرے اور گھوڑا کداکر خندق کے دوسری طرف پہنچ گئے۔ اس کے بعد عمر و بن عبد ود کا مقابلہ حضرت علی بن ابی طالب سے ہوا جس میں عمر و بن عبد و د ماراگیا۔ تقریباً ایک مہینہ کا یہ محاصرہ اپنے آخری دنوں میں آندھی اور طوفان کے بعد ختم ہو گیا۔ آندھی نے دشمن کے لشکر میں اتنی بد حواسی پیدا کی کہ ابو سفیان نے اونٹ کی رسی کھولے بغیر اونٹ پر بیٹھ کر اس کو ہا نکنا شروع کر دیا۔ پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ 10ہزار سے زیادہ تعداد کی مسلح فوجیں خندق کو عبور کر کے مدینہ میں کیوں نہ داخل ہو ئیں جہاں تین ہزار آدمیوں کا بے سر وسامان قافلہ ان کی یلغار کو روکنے کے لیے بالکل نا کافی تھا۔
اس سوال کا جواب خدا کی ایک سنت میں ملتا ہے۔ وہ سنت یہ کہ اللہ اہل ایمان کی طاقت ان کے دشمنوں کو بڑھا کر دکھاتا ہے تاکہ وہ مرعوب اور ہیبت زدہ ہو جائیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا َ (3:151)۔ یعنی، ہم منکروں کے دلوں میں تمہارا رعب ڈال دیں گے۔ کیوں کہ انہوں نے ایسی چیزوں کو خدا کا شریک ٹھہرایا جن کے حق میں خدا نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔اللہ تعالیٰ کی یہ نصرت رعب غزوہ خندق میں اور دوسرے مواقع پر ظاہر ہوئی۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی کھودی ہوئی نالی ان کے دشمنوں کو بہت بڑی خندق کی صورت میں دکھائی دی۔ تاہم مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں کو تھکا کر ایک ’’نالی‘‘ کھو دنا ضروری ہے۔ اگر وہ نالی کھود نے میں اپنے ہاتھوں کو نہ تھکا ئیں تو خدا ان کی نالی کو خندق بنا کر کس طرح دوسروں کو دکھائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی نصرت رعب جو قرنِ اول کے مسلمانوں کو کمال درجہ میں حاصل ہوئی وہ بعد کے دور کے مسلمانوں کو بھی مل سکتی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس راستہ پر چلیں جس راستہ پر صحابہ خدا کے رسول کی رہنمائی میں چلے۔ کسی اور راستہ پر چلنے والے شیطان کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ پھر ان کو خدا کی نصرت کس طرح ملے گی۔ اللہ کی نصرت کا مستحق آدمی اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اپنے کو حق کے ساتھ اس طرح شامل کرے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس کو وہ حق کے حوالے کر دے، وہ اپنے سرکا تاج دوسرے کے سر پر رکھ دے جیسا کہ ہجرت کے بعد مدینہ کے لوگوں نے کیا۔
خدا کی نصرت کا مستحق بننے کی شرط ایک لفظ میں یہ ہے کہ ’’جب تم مدد کرو گے تو تمہاری مدد کی جائے گی ‘‘۔ خدا ہماری مدد پر اس وقت آتا ہے جب کہ ہم دوسروں کےساتھ وہی سلوک کریںجو ہم خدا سے اپنے لیے چاہتے ہیں۔ہماری ذات سے اگر دوسروں کو زحمت پہنچ رہی ہو تو خدا کے فرشتے ہمارے لیے خدا کی رحمت کا تحفہ لے کر نہیں آسکتے۔ اگر ہمارا یہ حال ہو کہ جس پر ہمارا قابو چلے اس کو ہم نا حق ستانے لگیں تو نا ممکن ہے کہ خدا وہاں ہماری مدد کرے جہاں کوئی دوسرا ہمارے اوپر قابو پاکر ہمیں ستانے لگتا ہے۔ ایک آدمی اپنی مصیبت میں ہم کو پکارے اور ہم استطاعت کے با وجود اس کی پکار پر دھیان نہ دیں تو کبھی یہ ممکن نہیں کہ خدا اس وقت ہماری پکار کو سنے جب کہ کوئی طاقت ور ہمارے اوپر چڑھ آتا ہے اور ہم خدا کو پکار نے لگتے ہیں ۔ دنیا کی زندگی میںہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ کسی کے مقابلہ میں آدمی طاقت ور ہو تا ہے اور کسی کے مقابلہ میں کمزور۔ یہی صورت حال نصرت خداوندی کے معاملہ میں آدمی کے امتحان کا پرچہ ہے۔ کوئی شخص یا قوم اپنے طاقت وروں کے مقابلہ میں خدا کی جو نصرت چاہے اس کا ثبوت اس کو اپنے کمزوروں کے معاملہ میں دینا پڑتا ہے اگر آدمی اپنےکمزوروں پر ظلم کرتا ہو تو اپنے طاقت وروں کے مقابلہ میں وہ خدا کی مدد کا مستحق نہیں بن سکتا، خواہ وہ کتنا ہی خدا کو پکارے، خواہ وہ کتنا ہی یوم دعا منائے۔
_7_
بدر کی لڑائی (2ھ ) سے کچھ پہلے60 آدمیوں پر مشتمل قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں شام بھیجا گیاتھا۔ اس تجارتی قافلہ میں مکہ کے مردوں اور عورتوں نے اپنا تمام سرمایہ لگا دیا تھا۔ بدر کی لڑائی میں قریش کو مکمل شکست ہوئی۔ تاہم ابو سفیان کو اس میں کامیابی ہوئی کہ وہ تجارتی قافلہ کو ساحلی راستہ سے چلاکر مکہ پہنچ جائیں۔ جنگ کے بعد سارامکہ جوش انتقام سے بھرا ہواتھا۔ قریش کے ذمہ دار افراد کا ایک اجتماع دار الندوہ میںہوا۔ اس اجتماع میں متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ تجارتی قافلہ کے شرکا صرف اپنا اصل سرمایہ لے لیں او رمنافع کی رقم پوری کی پوری محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف جنگ کی تیاری میں لگا دی جائے۔ منافع کی یہ رقم پچاس ہزار دینار تھی جو اس وقت کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی۔ اب قریش نے زبردست تیاری کی اور شوال 3 ھ میں مکہ سے نکل کر مدینہ پر حملہ کے لیے روانہ ہوئے۔
اسی جنگ کا نام جنگ احد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپ نے صحابہ کو جمع کرکے مشورہ کیا۔ بڑ ے صحابہ میںسے اکثر کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میںرہ کر مقابلہ کیا جائے۔ مگر نوجوان طبقہ اس کا پر جوش مخالف تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ہم یہاں ٹھہریں گے تو دشمن اس کوہماری بزدلی اور کم زوری پر محمول کرے گا۔ اس لیے ہمیں باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ عبد اللہ بن ابی کی رائے بھی وہی تھی جو اکا بر صحابہ کی تھی (سیرۃ ابن ہشام جلد 2صفحہ 64) ۔
جن لوگوں کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیاجائے، اس کی بڑی وجہ مدینہ کا جغرافیہ تھا جو ایک قدرتی حصار کا کام کرتاتھا۔ مدینہ کا جائے وقوع ایسا تھا کہ اس کے جنوب میںکھجوروں کے گھنے باغات اس کثرت سے تھے کہ ادھر سے کوئی فوج بستی کے اوپر حملہ نہیں کرسکتی تھی۔ اسی طرح مشرق اور مغرب کے بڑے حصہ میں پہاڑ یاں تھیں جو کسی فوجی پیش قدمی کے لیے قدرتی روک کا کام کررہی تھیں۔ اس لیے کوئی دشمن صرف ایک ہی سمت سے مدینہ پرحملہ کر سکتا تھا۔ اس جغرافی پوزیشن نے مدینہ کو جنگی اعتبار سے کافی محفوظ شہربنا دیا تھا۔ گویا مدینہ ایک قسم کا قلعہ تھا۔ شہر سے باہر نکل کر وہ چاروں طرف سے دشمن کی زد میں ہو جاتے تھے جب کہ مدینہ کے اندر صرف ایک طرف سے مقابلہ کا انتظام کرنا تھا۔ غزوۂ احزاب میں مدینہ کے اسی جائے وقوع سے فائدہ اٹھایا گیا اور اس کی کھلی سمت میں(شمال مغربی رخ پر) خندق کھود کر پورے شہر کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔
بڑے صحابہ کی اکثریت اور عبد اللہ بن ابی کی رائے اگر چہ یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے۔مگر آپ نے نو جوان طبقہ کی رائے کا لحاظ کیا اور ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ مدینہ سے نکل کر احد کی طرف روانہ ہوئے۔ عبد اللہ بن ابی نے جب دیکھا کہ اس کی رائے نہیں مانی گئی جو بظاہر ِحالات معقول بھی تھی تو اس کو بہت دکھ ہوا۔ وہ مدینہ سے ساتھ نکل پڑاتھا مگر دل کے اندر غصہ باقی تھا۔ چنانچہ اسلامی لشکر بھی مدینہ اور احد کے درمیان تھا کہ عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر مدینہ کی طرف واپس ہو گیا۔ عبد اللہ بن ابی نے کہا:
أَطَاعَهُمْ وَعَصَانِي، مَا نَدْرِي عَلَامَ نَقْتُلُ أَنْفُسَنَا هَاهُنَا أَيُّهَا النَّاسُ (سیرۃ ابن ہشام جلد2 صفحہ 64)۔ یعنی، رسول اللہ نے ان کی بات مان لی اور میری بات نہیں مانی۔ اے لوگو! ہم کو نہیں معلوم کہ ہم اپنی جانوں کو یہاں کیوں ہلاک کریں۔
احد کی جنگ میں شکست نے یہ ثابت کیا کہ انہیں لوگوں کی رائے درست تھی، جو مدینہ میں رہ کر مقابلہ کرنے کے لیے کہتے تھے، اور باہر نکلنے سے روکتے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد غزوۂ خندق (5ھ) میں اسی رائے کو اختیار کیا گیا اور مدینہ میں رہ کر مقابلہ کی تدبیر کی گئی۔ تاہم تمام بڑے صحابہ اپنے اختلاف رائے کو بھول کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور جنگ میں شدید نقصان اور تکلیف کے با وجود پوری بے جگری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ صرف عبد اللہ بن ابی الگ ہوا اور اس کی بنا پر رئیس المنا فقین کہلایا۔ عبد اللہ بن ابی کی رائے اصولاً درست تھی۔ تجربہ نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کی۔ مگر صحت رائے کے با وجود اطاعت سے نکلنا اس کے لیے گمراہی اور خدا کی ناراضی کا سبب بن گیا۔
اسلام میں مشورہ کی بے حد اہمیت ہے۔ ہر آدمی کو حق ہے کہ وہ اپنا مشورہ پیش کرے۔ لیکن ہر مشورہ دینے والا اگر یہ بھی چاہے کہ اس کے مشورہ پر ضرور عمل کیا جائے تو کبھی کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ مختلف رایوںمیں سے کسی ایک ہی رائے کو عملاً اختیار کیاجا سکتا ہے نہ کہ ہر رائے کو۔ سچے مسلمان وہ ہیں جو مشورہ پیش کرنے کے بعد اپنا مشورہ بھول جائیں اور ذمہ داروں کی طرف سے جو فیصلہ ہواس کو اس طرح مان لیں جیسے وہی ان کی اپنی رائے تھی۔
’’سب سے بڑی قربانی رائے کی قربانی ہے ‘‘کسی شخص کا یہ قول بہت با معنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رائے کی قربانی واحد چیز ہے جس کے اوپر کوئی مضبوط اجتماعیت کھڑی ہوتی ہے۔ کوئی عمارت صرف اس وقت بنتی ہے جب کہ کچھ اینٹیں اپنے آپ کو زمین میں دبانے کے لیے تیار ہوں۔ اسی طرح کوئی حقیقی اجتماعیت صرف اس وقت قائم ہوتی ہے جب کہ کچھ لوگ اس کے لیے تیار ہوں کہ وہ اپنی رایوں کو اپنے سینہ میں چھپالیں گے اور اختلاف رائے کے باوجود اتحاد عمل کا ثبوت دیں گے۔ اس قربانی کے بغیر کسی انسانی اجتماعیت کا وجود میں آنا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا اینٹوں کے بنیاد میں دفن ہوئے بغیر عمارت کا وجود میں آنا۔
_8_
6 ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میںخواب دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کر رہے ہیں۔ صحابہ کو آپ نے یہ خواب بتایا تو وہ بہت خوش ہو ئے کہ چھ سال کے بعد اب مکہ جانے اور حرم کی زیارت کرنے کا موقع ملے گا۔ اسی خواب کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ چودہ سوا صحاب بھی آپ کے ساتھ ہوگئے۔ غدیر اشطاط کے مقام پرپہنچ کر معلوم ہوا کہ قریش آپ کے سفر کی خبر پا کر سرگرم ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ایک لشکر جمع کیا ہے اور عہد کیا ہے کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔
کعبہ کی زیارت سے کسی کو روکنا عرب روایات کے بالکل خلاف تھا۔ مزید یہ کہ آپ اشارۂ خدا وندی کے تحت یہ سفر کر رہے تھے۔ مگر اس کے با وجود آپ اس خبر کو سن کر مشتعل نہیں ہوئے۔ آپ کے جا سوس نے بتایا کہ خالد بن ولید دو سو سواروں کو لے کر مقام غمیم تک پہنچ گئے ہیں تاکہ آپ کا راستہ روکیں۔ یہ خبر سن کر آپ نے یہ کیا کہ معروف راستہ کو چھوڑ دیا اور ایک غیرمعروف اور دشوار گزار راستہ سے چل کر حدیبیہ تک پہنچ گئے تاکہ خالد سے ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے۔ اس واقعہ کو ابن ہشام نے جن الفاظ میںنقل کیا ہے وہ یہ ہیں:
قَالَ مَنْ رَجُلٌ يَخْرَجُ بِنَا عَلَى طَرِيقٍ غَيْرِ طَرِيقِهِمْ الَّتِي هُمْ بِهَا؟...قَالَ رَجُلٌ أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:فَسَلَكَ بِهِمْ طَرِيقًا وَعْرًا أَجْرَلَ بَيْنَ شِعَابٍ، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنْهُ، وَقَدْ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَأَفْضَوْا إلَى أَرْضٍ سَهْلَةٍ عِنْدَ مُنْقَطِعِ الْوَادِي،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ:قُولُوا نَسْتَغْفِرُ اللهَ وَنَتُوبُ إلَيْهِ. فَقَالُوا ذَلِكَ، فَقَالَ:وَاَللهِ إنَّهَا لَلْحِطَّةُ الَّتِي عُرِضَتْ عَلَى بَنِي إسْرَائِيلَ. فَلَمْ يَقُولُوهَا(سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ309-10)۔يعني، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کون شخص ہے جو ہم کو ایسے راستہ سے لے جائے جو ان کے راستہ سے مختلف ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ میں اے اللہ کے رسول۔ چنانچہ وہ لوگوں کو لے کر ایسے راستہ پر چلا جو سخت دشوار اور پتھر یلا تھا اور پہاڑی راستوں سے گزرتاتھا۔ جب لوگ اس راستہ کو طے کر چکے اور مسلمانوں کو اس پر چلنا بہت شاق گزراتھا اور وہ وادی کے ختم پر ایک ہموار زمین میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ کہو ہم اللہ سے مغفرت مانگتے ہیں اور اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لوگوں نے اسی طرح کہا۔ آپ نے فرمایا:خدا کی قسم یہی حِطّہ ہے جو بنی اسرائیل کو پیش کیا گیا تھا۔ مگر انہوں نے نہیں کہا۔
حِطّہ کا مطلب تو بہ اور بخشش ہے۔ اس صبر آزما موقع پرتوبہ وا ستغفار کر انا ظاہر کرتا ہے کہ خدا کے بتائے ہوئے صابرانہ طریق کا ر کا آدمی کو اس قدر زیادہ پابند ہونا چاہیے کہ اس راہ پر چلتے ہوئے جو کمزوری یا جھنجھلاہٹ پیدا ہو اس کو بھی آدمی گناہ سمجھے اور اس کے لیے خدا سے معافی مانگے۔ اس کو خدا کے طریقہ پر راضی رہنا چاہیے نہ کہ وہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر خود ساختہ طریقے نکالنے لگے۔
حدیبیہ کا مقام مکہ سے 9میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہاں آپ ٹھہر گئے تاکہ حالات کا جائزہ لے سکیں ۔ حدیبیہ سے آپ نے خراش بن امیہ خزاعی کو ایک اونٹ پر سوار کر کے اہل مکہ کے پاس بھیجا کہ ان کو خبر کردیں کہ ہم صرف بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں، جنگ کے لیے نہیں آئے ہیں۔ جب وہ مکہ پہنچے تو اہل مکہ نے ان کے اونٹ کو ذبح کر ڈالا اور خود حضرت خراش کو بھی قتل کرنے کے لیے دوڑے۔ مگر وہ کسی طرح بچ کر واپس آگئے۔ پھر آپ نے حضرت عثمان کو یہ پیغام لے کر مکہ بھیجا کہ تم لوگ مزاحمت نہ کرو، ہم عمرہ کے مراسم ادا کر کے خاموشی سے واپس چلے جائیں گے۔ اہل مکہ نے حضرت عثمان کو بھی روک لیا۔ پھر مکر زبن حفص پچاس آدمیوں کو لے کر رات کے وقت حدیبیہ پہنچا اور مسلمانوں کے پڑاؤ پر تیر ا ور پتھر بر سانے لگا۔ مکر زکو گرفتار کر لیا گیا۔ مگر اس کے خلاف کوئی کا رروائی نہیں کی گئی۔ اس کو بلاشر ط چھوڑ دیاگیا۔ اسی طرح مقام تنعیم کی طرف سے80آدمی صبح سویرے آئے اورعین نماز کے وقت مسلمانوں پرچھا پہ مارا۔ یہ لوگ بھی پکڑلیے گئے۔ مگر آپ نے ان کو بھی غیر مشروط طور پر رہا کر دیا۔
اس کے بعد قریش سے طویل مذاکرات کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہوئی۔ مگر یہ صلح ظاہر بینوں کے لیے سراسر قریش کی فتح اور مسلمانوں کی شکست کے ہم معنی تھی۔ مسلمان یہ سمجھے ہوئےتھے کہ وہ بشارت اِلٰہی کے تحت عمرہ کرنے کے لیے مکہ جار ہے ہیں مگرجو صلح ہوئی اس میںرسول اللہ صلی اللہ علی وسلم اس شرط پر راضی ہو گئے کہ وہ عمرہ کیے بغیر حدیبیہ سے واپس چلے جائیں۔ اگلے سال وہ عمرہ کے لیے آئیں مگر صرف تین دن مکہ میں ٹھہریں اور اس کے بعد خاموشی سے واپس چلے جائیں۔ اس طرح کی ذلت آمیز دفعات مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے بالکل کافی تھیں۔ مگر آپ نے بظاہر شکست کے باوجود تمام د فعات کو منظور کر لیا۔
قریش نے اس موقع پر آپ کے ساتھ جو کچھ کیا آپ کو اشتعال دلانے کے لیے کیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح آپ کو مشتعل کر کے آپ کی طرف سے کوئی جا رحانہ اقدام کرادیں تاکہ قریش کے لیے آپ سے لڑنے کا جواز نکل آئے۔ حرم کی زیارت سے روکنایوں بھی عرب روایات کے خلاف تھا۔ مزید یہ کہ یہ ذو قعدہ کا مہینہ تھا جو عربوں میں حرام مہینہ شمار ہوتا تھا۔ اس میں جنگ ناجائز سمجھی جاتی تھی۔ اس لیے اہل مکہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے اوپر جا ر حیت کی ذمہ داری ڈال کر ان سے جنگ کی جائے۔ مسلمان اس وقت کم تعداد میں تھے۔ ان کے پاس سامان جنگ نہیں تھا۔ وہ اپنے مرکز (مدینہ) سے ڈھائی سو میل دور اور قریش کے مرکز (مکہ) کی عین سر حد پر تھے۔ قریش کے لیے بہترین موقع تھا کہ آپ کے اوپر بھر پور وار کر کے آپ کے خلاف اپنے دشمنانہ حوصلوں کو پورا کرسکیں۔ اسی لیے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح آپ مشتعل ہو کر لڑ پڑیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شرارت کو نظر انداز کرتے رہے اور کسی طرح اشتعال کی نوبت نہ آنے دی۔
یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ حضرت ابو بکر کے سوا صحابہ کرام میں سے کوئی شخص نہ تھا جو یہ محسوس نہ کر رہا ہو کہ ہم ظالم کے آگے جھک گئے ہیں اور اپنے کو تو ہین آمیز شرائط پر راضی کر لیا ہے۔ قرآن میں جب اس معاہدہ کے بارے میں آیت اتری کہ یہ فتح مبین ہے تو صحابہ نے کہا کیا یہ فتح ہے (أَوَفَتْحٌ هُوَ؟) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3182۔ ایک مسلمان نے کہا:یہ کیسی فتح ہے کہ ہم بیت اللہ جانے سے روک دیے گئے۔ ہماری قربانی کے اونٹ آگے نہ جاسکے۔ خد ا کے رسول کو حد یبیہ سے واپس آنا پڑا۔ ہمارے مظلوم بھائی (ابو جندل او ر ابو بصیر ) کو اس صلح کے تحت ظالموں کے حوالے کر دیا گیا۔ وغیرہ۔ مگر اسی ذلّت آمیز صلح کے ذریعہ خدانے فتح عظیم کا دروازہ کھول دیا۔
یہ معاہد ہ بظاہر دشمن کے آگے جھک جانا تھا۔ مگر حقیقۃً وہ اپنے کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا وقفہ حاصل کرنا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے تمام مطالبات منظور کر کے ان سےصرف ایک یقین دہانی لے لی۔ یہ کہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان دس سال تک کوئی لڑائی نہ ہوگی۔ اب تک یہ تھا کہ مسلسل حالت جنگ کی وجہ سے تبلیغ و تعمیر کا کام رکا ہوا تھا۔ آپ نے حدیبیہ سے لوٹ کو فورا ً دعوت و تبلیغ کا کام عرب اور اطراف عرب میںتیزی سے شروع کر دیا۔ ابتدائی زمین پہلے تیار ہو چکی تھی۔ پر امن حالات نے جو موقع دیا اس میں دعوت کا کام تیزی سے پھیلنے لگا۔ ہزاروں کی تعدادمیںلوگ اسلام قبول کرنے لگے۔ عرب قبائل ایک کے بعد ایک اسلام میں داخل ہونے لگے۔ عرب کے باہر ملکوں میںاسلام کی دعوت پھیلائی جانےلگی۔ مشرکین مکہ کی طرف سے مامون ہو کر آپ نے خیبر کے یہودیوں کے خلاف کا ر روائی کی اور ان کا خاتمہ کر دیا۔ دعوتی سرگرمیوں کے ساتھ داخلی استحکام اور تیاری کا کام بہت بڑے پیمانہ پر ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ صلح کے صرف دو سال بعد اسلام اتنا طاقت ور ہو گیا کہ قریش نے لڑے بھڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے ۔جس مکہ سے تو ہین آمیز واپسی پر اپنے کو راضی کر لیا گیا تھا اسی مکہ میں اس واپسی سے فاتحانہ داخلہ کا راستہ نکل آیا۔
آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ حریف کی طرف سے کوئی ناخوش گواربات پیش آئے تو فوراً بپھر اٹھتے ہیں اور اس سےلڑجاتے ہیں۔ اور جب بے فائدہ لڑائی کے نقصانات بتائے جائیں تو کہتے ہیں کہ ہم خود سے نہیں لڑے۔ ہمارے خلاف سازش کر کے ہم کو جنگ میں الجھا یا گیا۔یہ لوگ نہیں جانتے کہ نہ لڑنا حقیقۃً اس کا نام نہیں ہے کہ کوئی لڑنے نہ آئے تو آپ نہ لڑیں۔ نہ لڑنا یہ ہے کہ لوگ لڑنے آئیں پھر بھی آپ ان سے نہ لڑیں۔ لوگ آپ کو اشتعال دلائیں مگر آپ مشتعل نہ ہوں۔ لوگ آپ کے خلاف سازشیں کریں مگر اپنی خاموش تد بیروں سے آپ ان کی سازش کو ناکام بنا دیں۔ لوگ آپ کے خلاف اپنے دلوں میں دشمنی لیے ہوئے ہوںتب بھی آپ ان کی دشمنی کو عمل میں آنے نہ دیں۔
زندگی کا اصل راز حریف سے لڑنا نہیں ہے۔ زندگی کا راز یہ ہے کہ لڑائی سے بچ کر اپنے آپ کو اتنا طاقت ور بنا یا جائے کہ لڑائی کے بغیر محض دبدبہ سے حریف ہتھیار ڈال دے۔ جو لوگ مشتعل ہو کر لڑنا جانیں اور خاموش ہو کر تیاری کرنا نہ جانیں ان کے لیے یہاں صرف بربادی کا انجام ہے۔ نا ممکن ہے کہ خدا کی دنیا میں وہ کامیاب ہو سکیں۔ کیسی عجیب بات ہے، جو کامیابی پیغمبر نے نہ ٹکرانے کی پالیسی اختیار کر کے حاصل کی اس کو ہم ٹکرانے کا طریقہ اختیار کرکے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر بھی ہمارا یقین ہے کہ ہم رسول خدا کے امتی ہیں اور آپ ضرور خدا کے یہاں ہماری شفاعت فرمائیں گے۔
_9_
فتح مکہ کے بعد عرب کے قبائل کثرت سے مسلمان ہوئے۔ مگر یہ لوگ زیادہ تر اسلام کا سیاسی غلبہ دیکھ کر مسلمان ہوئے تھے۔ ان کے اندر وہ ذہنی و فکری انقلاب نہیں آیا تھا جو ابتدائی لوگوں میں آیا تھا۔ اسلام کے بعض احکام، خاص طور پر زکوٰۃ ان کی آزادانہ زندگی کے لیے نا قابل بر داشت معلوم ہونے لگی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چند ماہ پہلے یمن اور نجد کے علاقوں میں ان کے درمیان ایسے لیڈر ابھرے جو اسلام کا ایسا تصور پیش کرتے تھے جس میں زکوٰۃ کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ ان لیڈروں، مثلاً اسود اور مسیلمہ نے اپنی بات کو خدا کی بات ثابت کرنے کے لیے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ تاکہ جس الہامی زبان میں زکوٰۃ کو فرض کیا گیا ہے اسی الہامی زبان میں اس کی فر ضیت کو ساقط کیا جا سکے۔ اس قسم کی ’’نبوت‘‘ ان قبائل کی پسندکے عین مطابق ثابت ہوئی جو زکوٰۃ کو اپنے اوپر ایک بوجھ خیال کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جو ق در جوق ان جھوٹے مدعیان نبوت کا ساتھ دینا شروع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ان لوگوں کا حوصلہ اور بڑھا اور یہ فتنہ تیزی سے پھیلنے لگا۔ حتٰی کہ یہ حال ہوا کہ مکہ، مدینہ اور طائف کے سوا تمام عرب میں بیشتر لوگ باغی ہوگئے۔ اسی کے ساتھ یہ خبریں بھی پھیلنے لگیں کہ یہ لوگ منظم ہو کر مدینہ پر حملہ کی تیار یاں کر رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانہ میں جو کام کیے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے اسامہ بن زید کی قیادت میں ایک لشکر تیار کیا اور اس کو حکم دیا کہ وہ رومیوں کے مقابلہ کے لیے شام کی طرف جائے جہاں اس سے پہلے موتہ کے مقام پر رومیوں نے اسامہ کے والد حضرت زید کو شہید کیا تھا۔ یہ لشکر روانہ ہو کر ابھی مدینہ کے باہر پہنچا ہی تھا کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی او ر وہ خلیفۂ اول کے حکم کے انتظار میں وہیں ٹھہر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت صدیق اکبر نے اس لشکر کو آگے روانہ کرنا چاہا تو بیشتر صحابہ نے اختلاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ سارا عرب باغی ہو رہا ہے اور کسی بھی وقت مدینہ پر حملہ ہو سکتا ہے۔ ایسی حالت میں لشکر کو مدینہ کے دفاع کے لیے یہاں رکھنا چاہیے نہ کہ ایسے نازک موقع پر اس کو دور بھیج دیا جائے۔ مگر حضرت ابو بکر صدیق نے ایسی کسی رائے کو ماننے سے شدت کے ساتھ انکار کر دیا۔
تمام بڑے بڑے صحابہ اسامہ بن زید کی سر داری میں مدینہ کے باہر جمع تھے۔ اس وقت لوگوں کے اندر دو باتیں بحث کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔ ایک یہ کہ اتنے نازک موقع پر اسلامی لشکر کا مدینہ سے دور جانا حکمت کے خلاف ہے۔ دوسرے یہ کہ اسامہ بن زید ایک غلام کے لڑکے تھے اس لیے بہت سے لوگوں کو ان کی سرداری پر انقباض تھا۔ نیز وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اسامہ ابھی صرف سترہ سال کے نوجوان ہیں اور ان کی ماتحتی میں بڑے بڑے صحابہ ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ کسی معمر قریشی کو سردار مقرر کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو۔
عمر فاروق بھی ابتداء ً اس لشکر میں شامل تھے، وہ لوگوں کا پیغام لے کر حضرت ابو بکر کے پاس روانہ ہوئے۔ حضرت ابو بکر نے پہلی بات سن کر فرمایا:لشکر کی روانگی کے بعد اگر میں مدینہ میں تنہا رہ جاؤں اور درندے مجھ کو پھاڑ کھائیں تب بھی میں ایک ایسےلشکر کی روانگی کو روک نہیں سکتا جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا ہو۔ دوسرے پیغام کو سن کر آپ نے فرمایا ’’کیا ان کے دلوں میں ابھی تک جاہلی فخر و تکبر کا اثر باقی ہے ‘‘ یہ کہہ کر آپ اٹھے اور لشکر کو خود رخصت کرنے کے لیے پیدل چل کر لشکر گاہ تک پہنچے۔ اسامہ بن زید کو ان کے لشکر کے ساتھ روانہ کیا، جب اسامہ اپنی سواری پر چلے تو آپ ان کے ساتھ ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلنے لگے۔ اسامہ نے کہا کہ یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں، یا میں سواری سے اتر جاؤں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم کو سواری سے اتر نے کی ضرورت ہے) يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللهِ، إِمَّا أَنْ تَرْكَبَ وَإِمَّا أَنْ أَنْزِلَ، فَقَالَ: وَاللهَ لَسْتَ بِنَازِلٍ وَلَسْتُ بِرَاكِبٍ(البدایۃ و النہایۃ، جلد6، صفحہ 336۔ یہ خلیفہ اول کی طرف سے گو یا لوگوں کے سوال کا عملی جواب تھا۔ خلیفہ کو اسامہ کی رکاب میں چلتے دیکھ کر سب کا انقباض ختم ہو گیا۔
اسامہ کی سر کر دگی میں صحابہ کا لشکر رومی علاقہ کی طرف روانہ ہوا تو اس کی خبر یں چاروں طرف پھیل گئیں۔ بہت سے مخالفین کے لیے یہ مسلمانوں کے اعتماد کا مظاہرہ بن گیا۔ انہوں نے سو چا کہ مدینہ والوں کے پاس کا فی طاقت ہو گی جبھی تو وہ اس نازک وقت میں اتنا بڑا لشکر دارالسلطنت سے دور بھیج رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے سو چا کہ مدینہ پر اقدام کرنے میں ہم کو تو قف کرنا چاہیے۔ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ مسلمانوں اور رومیوں کی جنگ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگر مسلمانوں کو اس جنگ میں شکست ہوتی ہے تو وہ اور زیادہ کمزور ہو جائیں گے اور اس کے بعد ان کے اوپر اقدام کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔
اسامہ بن زید کے لشکر کو رو میوں کے خلاف مہم میں زبر دست کامیابی ہوئی۔ اس مہم میں ان کو چالیس دن لگے۔ اسامہ بن زید اس مہم کی قیادت کے لیے موزوں ترین شخص تھے۔ کیونکہ ان کے باپ زید بن حارثہ کو رومیوں نے موتہ کی جنگ میں شہید کیا تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصدپوری طرح کامیاب نہ ہوسکا تھا، یعنی مخالفین کا حوصلہ توڑنا۔
اسامہ کی رہنمائی میں اسلامی لشکر انتہائی بے جگری سے لڑا اور رومیوں کو شکست دی۔ اس کے بعد وہ کافی قیدی اور مال غنیمت لے کر مدینہ واپس آئے۔ یہ دیکھ کر باغیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ اور نسبتاً زیادہ آسانی کے ساتھ ان کو زیر کر لیا گیا— رسول کی پیروی ان کے لیے دشمنوں پر غلبہ کا ذریعہ بن گئی۔
_10_
بیہقی اور ابن عسا کرنے حضرت عروہ ابن زبیر سے روایت کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ ذات السلاسل کے لیے ایک دستہ حضرت عمر و بن العاص کی سرداری میں بھیجا۔ یہ جگہ شام کے اطراف میں تھی۔ حضرت عمر و بن العاص جب وہاں پہنچے اور حالات معلوم کیے تو دشمن کی کثرت سے ان کو خوف پیدا ہوا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیج کر مزید مدد طلب کی۔ آپ نے مہا جرین کو بلایا اور دو سو آدمیوں کا ایک دستہ تیارکیا۔ اس دستہ میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر و غیرہ بھی شامل تھے۔ آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو اس دستہ کا امیرمقرر کیا اور حکم دیا کہ فوراً روانہ ہوں اور حضرت عمر و بن العاص سے جاکر مل جائیں۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کا دستہ جب منزل پر پہنچا اور دونوں دستے ساتھ ہو گئے تو یہ سوال پید اہوا کہ دونوں کا امیر کون ہو۔ حضرت عمر و بن العاص نے کہا:میں تم سب کا امیر ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مدد کے لیے لکھا تھا تم لوگ اس کے مطابق میری مدد کے لیے بھیجے گئے ہو۔ حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ جو مہا جرین آئے تھے انہوں نے اس کو نہیں مانا۔ انہوں نے حضرت عمر و بن العاص سے کہا:تم اپنے ساتھیوں کے امیر ہو اور ابو عبیدہ ہمارے امیر ہیں ( بَلْ أَنْتَ أَمِيرُ أَصْحَابِكَ وَأَبُو عُبَيْدَةَ أَمِيرُ الْمُهَاجِرِينَ) حضرت عمر وبن العاص اس تقسیم پر راضی نہیں ہوئے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ تمہاری حیثیت امدادی فوج کی ہے اور تم لوگ میرا ساتھ دینے کے لیے بھیجے گئے ہو (إِنَّمَا أَنْتُمْ مَدَدٌ أُمْدِدْتُ)حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے جب یہ حال دیکھا تو کہا:
تَعَلَّمْ يَا عَمْرُو أَنَّ آخِرَ مَا عَهِدَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ قَالَ:’’إِذَا قَدِمْتَ عَلَى صَاحِبِكَ فَتَطَاوَعَا‘‘ وَإِنَّكَ إِنْ عَصَيْتَنِي لَأُطِيعَنَّكَ (اے عمرو !تم پر واضح ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو رخصت کرتے ہوئے جو آخری عہد لیا وہ یہ تھا کہ جب تم اپنے ساتھی کے پاس پہنچو تو دونوں اتفاق کے ساتھ مل کر کام کرنا، باہم اختلاف نہ کرنا۔پس خدا کی قسم اگر تم میری بات نہ مانو گے تب بھی میں تمہاری اطاعت کروںگا)۔
راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ابو عبیدہ نے امارت عمر و بن العاص کے حوالے کر دی اور ان کی ماتحتی میں کام کرنے پر راضی ہوگئے (فَسَلَّمَ أَبُو عُبَيْدَةَ الْإِمَارَةَ لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ)دلائل النبوة للبيهقي ، جلد 4، صفحه 399۔
اگر دونوں اپنا اپنا اصرار جاری رکھتے تو مسئلہ ختم نہ ہوتا اور جو طاقت دشمن سے مقابلہ کے لیے بھیجی گئی تھی وہ آپس میں لڑ کر فنا ہو جاتی۔ ایسے اختلافی مواقع پر ایک شخص کا جھکنا پوری جماعت کو طاقت ور بنا دیتا ہے اور ایک شخص کے نہ جھکنے سے پوری جماعت کمزور ہو جاتی ہے۔
_11_
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سب سے آخری ابراہیم تھے۔ وہ ماریہ قبطیہ کے بطن سے 9ھ میں پیدا ہوئے، اور تقریباً 18ماہ کی عمر میں ابراہیم کی وفات ہو گئی۔ جس دن ان کی وفات ہوئی اس دن سورج گرہن تھا۔ محمود پاشا فلکی (وفات 1302ھ)کی تحقیق کے مطابق یہ 29شوال 10ھ کی تاریخ تھی۔ قدیم زمانہ میں گرہن کے متعلق طرح طرح کے تو ہماتی خیالات پھیلے ہوئے تھے۔ انہیں میں سے ایک یہ تھا کہ جب کوئی بڑا آدمی مرتا ہے تو سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا ہے۔ ابراہیم کی وفات کے دن جب سورج گرہن پڑا تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ پیغمبر کے بیٹے کی موت کی وجہ سے یہ سورج گرہن ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو آپ نے بتایا کہ موت کےواقعہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ابو موسیٰ اشعری کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا:
هَذِهِ الآيَاتُ الَّتِي يُرْسِل ُاللهُ ، لاَ تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنْ يُخَوِّفُ اللهُ بِهِ عِبَادَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِه (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1059)۔ يعني،یہ نشانیاں جو اللہ بھیجتا ہے وہ نہ کسی کی موت کی وجہ سے ہوتی ہیں اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے بلکہ ان کے ذریعہ اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ پس جب تم اس قسم کی چیز دیکھو تو ڈر کے ساتھ اللہ کو یاد کرو اور اس کو پکارو اور اس سے مغفرت مانگو۔
سورج گرہن یا چاند گرہن محض اتفاقاً نہیں ہوتے بلکہ متعین فلکیاتی قانون کے تحت ہوتے ہیں۔ سورج اور چاند دونوں نہایت محکم قدرتی اصول کے مطابق حرکت کر رہے ہیں ۔ اس حرکت کے دوران کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زمین، سورج اور چاند کے درمیان آجاتی ہے، اس طرح سورج کی روشنی چاند تک نہیں پہنچ پاتی اور چاند گرہن ہو جاتاہے۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چاند، زمین اور سورج کے درمیان آجاتا ہے، اس کے نتیجہ میں سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچتی اور وہ صورت پیش آتی ہے جس کو سورج گرہن کہا جاتا ہے۔ گویا سورج گرہن کا مطلب سورج کا چاند کے اوٹ میں آجانا ہے اور چاند گرہن یہ ہے کہ زمین کے اوٹ میں آجانے کی وجہ سے سورج کی روشنی چاند تک نہ پہنچے۔ یہ جو کچھ ہوتا ہے معلوم فلکیاتی نظام کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً 16فروری 1980کو جو سورج گرہن پڑا وہ بہت پہلے سے فلکیات دانوں کو معلوم تھا اور نہایت صحت کے ساتھ اس کے اوقات متعین کیے جا چکے تھےاور انہیں متعین اوقات کے مطابق وہ شروع اور ختم ہوا۔ اس طرح کے گرہن برابر ہوتے رہتے ہیں۔ البتہ ان کے دکھائی دینے کے علاقے الگ الگ ہوتے ہیں۔ کہیں مکمل گرہن دکھائی دیتا ہے اور کہیں جزئی گرہن۔ مکمل سورج گرہن کے وقت سورج کی روشنی تقریباً ایک ہزار گنا کم ہو جاتی ہے۔
سنت یہ ہے کہ سورج گرہن او رچاند گر ہن کے موقع پر نماز پڑھی جائے۔ یہ نماز اللہ کے آگے اپنے عجز اور بے بسی کا اظہار ہوتا ہے۔ سورج اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے ذریعہ اللہ نے ہمارے لیے روشنی اور حرارت کا مستقل انتظام کیاہے۔ سورج گرہن یہ بتانے کے لیے ہوتا ہے کہ جس خدانے اس کو روشن کیا ہے وہی اس کو ماند بھی کر سکتا ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نعمت کو جب چاہے واپس لے لے۔ اس لیے جب گرہن ہو تو آدمی کو چاہیے کہ اللہ کو یاد کرے۔ اللہ کے مقابلہ میں اپنی محتاجی کا تصورکر کے اللہ کے آگے گر پڑے۔ وہ پکار اٹھے کہ ’’خدا یا اگر تو سورج کو بجھادے تو کوئی اس کو جلانے والا نہیں۔ اگر تو ہم کو روشنی اور حرارت سے محروم کر دے تو کوئی ہم کو روشنی اور حرارت دینے والا نہیں۔‘‘
’’گرہن ‘‘کا یہ معاملہ صرف چاند اور سورج کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اس قسم کے واقعات اللہ کی دوسری نعمتوں کے ساتھ بھی مختلف صورتوں میں پیش آتے ہیں ۔ صحت کے ساتھ بیماری گو یا جسم کا گرہن ہے اور اچھے موسم کے ساتھ خراب موسم گو یا فضا کا گرہن۔ اس طرح ایک ملی ہوئی نعمت کو تھوڑی دیر کے لیے روک کر اس کے نعمت ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے تاکہ آدمی کے اندر شکر کا جذبہ ابھرے اور وہ یہ سوچے کہ اگر اللہ اس کو مستقل طور پر چھین لے تو آدمی کا کیا حال ہوگا۔ اللہ کو اپنے بندوں سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ وہ اپنے رب سے ڈریں۔ انسان کو ڈرنے والا بنانے کے لیے جو اہتمام کیے گئے ہیں ان میں سے ایک قسم کا اہتمام وہ ہے جس کو ’’گرہن ‘‘ کہا جاتا ہے۔
زمین مسلسل حرکت میں ہے۔ اس کے علاوہ زمین کے گولے کا اندرونی حصہ نہایت گرم پگھلے ہوئے مادہ کی صورت میں ہے جو ہر وقت کھولتے ہوئے پانی کی طرح جوش میں رہتا ہے۔ اس کے با وجود ہمارے قدموں کے نیچے زمین کی سطح بالکل ٹھہری ہوئی حالت میں ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر عام حالات میں ہم کو اس کے نعمت ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ اس لیے کبھی کبھی بھو نچال کے ذریعہ زمین کی اوپری سطح کو ہلا دیا جاتا ہے تاکہ آدمی یہ جانے کہ خدانے اس کے لیے تباہ کن لاوا کو کس طرح بند کر رکھا ہے۔ اگر وہ اس کو آزاد کر دے تو انسان کا کیا حال ہو۔ اسی طرح بارش ایک عجیب و غریب نعمت ہے۔ سورج کے اثر سے پانی کے بخارات کا اٹھ کر اوپر جانا، ان کا بدلیوں کی صورت میں جمع ہونا اور پھر ہوا کے ذریعہ جگہ جگہ بارانِ رحمت بن کر نازل ہو نا اور پھر زمین کو سر سبز و شاداب کرنا، یہ سب رحمت خدا وندی کےعجیب و غریب کرشمے ہیں جو وہ مستقل طور پر اپنے بندوں کےلیے کرتا رہتا ہے۔ مگر خود بخود ملتے رہنے کی وجہ سے آدمی اس نعمت کی قدر بھول جاتا ہے اس لیے کبھی کبھی زمین پر خشک سالی پید ا کی جاتی ہے تاکہ آدمی کا شعور جاگے او ر وہ خدا کی نعمت کی قدر کر سکے۔ ہوا کیسی عجیب و غریب نعمت ہے۔ ہواہر آن ہم کو تازہ آکسیجن پہنچا رہی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے خدائی پنکھے کی طرح ہم کو فرحت بخشتے رہتے ہیں۔ ہوا بارش کے نظام کو درست کرتی ہے۔ ہو ا کے بے شمار فائدے ہیں۔ مگر جس طرح وہ ہماری آنکھوں کو نظر نہیں آتی اسی طرح اس کی اہمیت بھی ہمارے شعور سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اس لیے کبھی کبھی ہوا کو طوفان بنا دیا جاتا ہے تاکہ آدمی یہ جانے کہ ہوا کی صورت میں اللہ نے اس کی زندگی کے لیے کیسا حیران کن انتظام کر رکھا ہے۔ اسی طرح ہر چیز کا ایک ’’گرہن ‘‘ ہے اور وہ اس لیے آتا ہے کہ آدمی کے اندر نعمت کے احساس کو جگا ئے۔
قرآن میں ارشاد ہواہے’’اس چیز کو دیکھو جس کو تم بوتےہو تم اس سے کھیتی اگاتے ہو یا ہم ہیں اس کو کھیتی بنانے والے۔ اگرہم چاہیں تو اس کو بُھس بنا کر رکھ دیں پھر تم باتیں بناتے رہ جاؤ کہ ہم قرضدار ہوگئے۔ بلکہ ہم تو بالکل محروم ہوگئے۔ پانی کو دیکھو جس کو تم پیتے ہو۔ کیا تم نے اس کو بادل سے اتارا ہے یا ہم ہیں اتارنے والے۔ اگرہم چاہیں تو اس کو کھاری کر دیں پھر کیوں تم شکر نہیں کرتے۔ آگ کو دیکھو جس کو تم جلاتے ہو۔ کیا تم نے اس کا درخت پید ا کیا ہے یا ہم ہیں اس کے پیدا کرنے والے۔ ہم نے ہی اس کو بنایا ہے یا ددلانے کے لیے اور تمہارے برتنے کے لیے۔ پس اللہ کے نام کی پاکی بیان کرو جو سب سے بڑا ہے‘‘ ۔ (56:63-74)
ہماری پوری زندگی ایسی خدائی نعمتوں کے اوپر نر بھر ہےجو کسی بھی لمحہ واپس لی جا سکتی ہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق و مالک کا شکر گزار بنے تاکہ وہ اپنی نعمتوں سے کبھی اس کو محروم نہ کرے۔ یہ شکر گزاری ہی آدمی کو خدا کی نعمتوں کا مستحق بناتی ہے، موجودہ دنیا میں بھی اور موت کے بعد آنےوالی آخرت میں بھی۔
_12_
احمد اور طبرانی نے حضرت عائشہ کی ایک روایت مختلف الفاظ میں نقل کی ہے۔ بعد کے زمانہ میں حضرت عائشہ نے ایک شخص کو وہ احوال بتائے جو ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل خاندان پر گزر ے تھے۔ انہوں نے ایک رات کا ذکر کیا، جب انھوں نے اندھیرے میں ٹٹول کر کام کیا تھا۔ اس کے بعد روایت کے الفاظ یہ ہیں :
يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، عَلَى مِصْبَاحٍ ذَاك؟ قَالَتْ:لَوْ كَانَ عِنْدَنَا دُهْنُ مِصْبَاحٍ لَأَكْلَنْاهُ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 8872 ) ۔یعنیراوی کہتے ہیں، میں نے حضرت عائشہ سے چراغ کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا اگر ہمارے پاس چراغ جلانے کے لیے تیل ہو تا تو چراغ جلانا تو در کنا رہم اس کو بھوک کی وجہ سے پی جاتے۔
ہجرت کے بعد جس بستی کو مدینۃ الرسول اور مدینہ طیبہ کا لقب ملا، وہاں اس وقت ایک بھی پکا مکان نہ تھا۔ مسجد نبوی بس ایک بڑا سا چھپر تھی جس کو چاروں طرف سے مٹی اور کھجور کے پتوں سے گھیر دیا گیا تھا۔ مسجد میں رات کے وقت روشنی کاکوئی انتظام نہ تھا۔ مسجد نبوی میں ہجرت کے نویں سال چراغ جلایا گیا۔ پہلا شخص جس نے مدینہ کی مسجد نبوی میں رات کو چراغ جلایا وہ تمیم داری ہیں(معرفة الصحابة لابی نعيم الاصبهاني، جلد1، صفحہ 448)۔ تمیم داری نے 9ھ میں اسلام قبول کیا ، اس وقت مکہ فتح ہو چکا تھا اور تقریباً سارا عرب اسلام میں داخل ہو چکا تھا۔
جب مسلمانوں کے پاس اپنے گھروں کو روشن کرنے کے لیے چراغ نہ تھے اور مسجد میں رات کے وقت اندھیرا رہتا تھا تو اسلام اور مسلمانوں کو دنیا میں عزت و غلبہ حاصل تھا۔ آج مسلمانوں کے گھر روشن ہیں۔ ان کی مسجدیں جدید طرز کے قمقموں سے جگمگارہی ہیں مگر دنیا میں اسلام کا غلبہ نہیں، مسلمانوں کو کہیں عزت حاصل نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عزت و غلبہ کا مقام حاصل کرنے کے لیے اصل اہمیت انسان کی ہوتی ہے۔ آج مسلمانوں کے یہاں سب کچھ ہے مگر وہی چیز نہیں جس کو ـ’’انسان‘‘کہا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا مردہ روحوں کا ایک عظیم قبر ستان معلوم ہوتی ہے جہاں روشنیوں کی رونقیں اور در و دیوار کی عظمتیں تو بہت ہیں مگر وہ انسان نہیں جو خدا کے لیے تڑپے، جو سچائی کے آگے جھک جائے، جو آخرت کی خاطر اپنی دنیا کو قربان کر سکے،جو اپنی خواہشوں کو بر تر اصولوں کے تابع کر دے۔ اسلام کو سر بلند کرنے کے لیے وہ انسان درکا رہیں جن کو عظمت خدا وندی کے احساس نے متواضع بنادیاہو، جن کا خوفِ آخرت ان سے ان کی اکڑ چھین لے۔ اور یہی وہ انسان ہیں جو اسلام کے بھرے ہوئے شاندار پنڈال میں آج کہیں موجود نہیں ۔
_13_
قدیم عرب کے شمال اور جنوب کے زر خیز حصے اس زمانہ کی دو بڑی شہنشا ہیتوں ساسانی سلطنت اور باز نطینی سلطنت کے قبضہ میں تھے۔ شمال میں عمارت غسا سنہ اور امارت بُصری تھی۔ یہ دونوں بازنطینی سلطنت رومیوں کے ماتحت تھیں اور یہاں ان کی طرف سے عرب سردار حکومت کرتے تھے۔ رومی اثرات کے تحت یہاں کی اکثر آبادی مسیحی مذہب اختیار کر چکی تھی، عرب کے جنوب میں امارت بحرین، امارت عمان، امارت یمامہ تھی۔ یہ ریا ستیں ساسانی سلطنت (ایرانیوں) کے ماتحت تھیں اور ان کے اثر سے یہاں کے باشندوں میں مجوسیت پھیلی ہوئی تھی۔
6ھ میں جب حدیبیہ کے مقام پر قریش سے دس سال کا نا جنگ معاہدہ ہوا اور حالات پر امن ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے اطراف میں واقع سلطنتوں کو دعوتی مراسلے بھیجنے شروع کیے۔ اس سلسلے میں ایک مراسلہ حارث بن ابی شمر غسانی کے نام تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر شجاع بن وهب آپ کا مراسلہ لے کر اس کے پاس گئے۔ اس مراسلہ میں یہ بھی تھا کہ اللہ پر ایمان لاؤ تمہاری حکومت باقی رہے گی ( يَبْقَى لَك مُلْكُك) ۔اس نے مکتوب نبوی میںیہ جملہ پڑھا تو اس کو غصّہ آگیا۔ اس نے خط کو زمین پر پھینک دیا اور کہا:میری حکومت مجھ سے کون چھین سکتا ہے ( مَنْ يَنْزِعُ مِنِّي مُلْكِي) تاریخ الطبری، جلد2، صفحہ652۔
حاکم بُصری شر جیل بن عمر و غسانی نے اس سے بھی زیادہ بیہودہ سلوک کیا۔ اس رومی گورنر کے پاس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سفیر حارث بن عمیر ازدی آپ کا خط لےکر گئے تھے، وہ سر حد شام پر قصبہ موتہ میں داخل ہوئے تھےکہ حاکم بصری کے اشارہ پر ایک اعرابی نے آپ کے سفیر کو قتل کر دیا(الطبقات الكبرى لابن سعد، جلد4، صفحہ255)۔
بین اقوامی روایات کے مطابق یہ واقعہ ایک ملک پر دوسرے ملک کی جا رحیت کے ہم معنی تھا۔ مختلف قرائن یہ بھی ظاہر کر رہے تھے کہ شام کی فوجیں پیش قدمی کر کے مدینہ میں داخل ہونا چاہتی ہیں۔ رومی شہنشا ہیت اس کو بر داشت نہیں کر سکتی تھی کہ عرب میں کوئی آزاد حکومت قائم ہو اور ترقی کرے۔
حارث بن عمیر کے قتل کی خبر مدینہ پہنچی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فوجی جواب دینا ضروری سمجھا۔ آپ نے حکم دیا کہ مسلمان اپنے اپنے ہتھیارلے کر موضع حرق میں جمع ہو جائیں۔ چنانچہ تین ہزار کی تعداد میں اسلامی لشکر اکٹھا ہو گیا۔ آپ نے اس لشکر پر زید بن حارثہ کو سردار مقرر کیا اور ضروری نصیحتیں کرنے کے بعد ان کو شام کی طرف روانہ کیا۔
اسلامی لشکرنے معان (شام )پہنچ کر قیام کیا۔ دوسری طرف حاکم بصری بھی جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔ اس کی حوصلہ افزائی اس واقعہ سے بھی ہوئی کہ اتفاق سے ہر قل انھیںدنوں مآب (بلقاء) میں آیا ہواتھا۔ اس کے ساتھ ایک لاکھ مسلح فوج تھی۔ نیز اس علاقے کے عیسائی قبائل لخم، جذام، قین، بھراء، بلّی بھی مسیحی حمیت کے جوش میں اٹھ کھڑے ہوئے اور بنی بلی کے سردار مالک بن زافلہ کی قیادت میں لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس طرح شامی محاذ پر ایک لاکھ سے بھی زیادہ کا لشکر جمع ہو گیا جبکہ مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی۔
یہ جنگ جو جمادی الاولیٰ 8ھ میں ہوئی، اس میں زید بن حارثہ دشمنوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ اس کے بعد جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ بھی قیادت کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ مسلمانوں کا جھنڈا گر جانے سے انتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس وقت لشکر اسلام کے ایک سپاہی ثابت بن اقرم نے بڑھ کر جھنڈا اٹھا لیا اور بلند آواز سے کہا’’مسلمانو! کسی ایک شخص کو امیر بنانے پر اتفاق کرلو ‘‘ (يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ اصْطَلِحُوا عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ)۔
مسلمان فوجیوں کی طرف سے آواز آئی:رضينا بك(ہم تمہاری سرداری پر راضی ہیں) ثابت ابن اقرم نے جواب دیا:مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، فَاصْطَلَحَ النَّاسُ عَلَى خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ (میں یہ کام نہ کر سکوں گا، تو مسلمانوں نے خالد بن ولید کو اپنا سردار بنایا)۔ خالد بن ولید نے آگے بڑھ کر جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور رومی لشکر پر حملہ کر کے اس کو پیچھے دھکیل دیا (دیکھیے،تاریخ الطبری، جلد3، صفحہ36-42، الکامل فی التاریخ لابن الاثیر، جلد2، صفحہ234-238)۔
تاہم یہ جنگ فیصلہ کن طور پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ رومیوں کی مدد سے غساسنہ مدینہ پر چڑھ آئیں اور اس نو مولود ریاست کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ذی الحجہ 5ھ میں بنو قريظه کے خاتمہ کے بعد جب مدینہ میں بعض معاشی مسائل پیدا ہوئے اور ازواج رسول نے اضافہ نفقہ کا مطالبہ کیا تو آپ کو بہت رنج ہوا اور آپ نے ایک مہینہ تک گھر کے اندر نہ آنے کی قسم کھالی۔ اس سلسلے میں تاریخ میں آتا ہےکہ جب ایک صحابی عمر فاروق سے ملے اور ان سے کہا’’کچھ سنا آپ نے ‘‘تو عمر فاروق کی زبان سے فوراً نکلا’’کیا غسا سنہ آگئے ‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں غسانیوں کی طرف سے مدینے کے لیے کتنا خطرہ لاحق تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسئلہ کا شدید احساس تھا۔ چنانچہ اپنی عمر کے آخری ایام میں جن امور کے لیے آپ نے شدت سے اہتمام کیا، ان میں غساسنہ یا با لفاظ دیگر رومیوں سے مقابلہ کے لیے فوج کی تیاری بھی تھی۔ آپ نے اس مقصد کے لیے ایک فوج ترتیب دی۔ اس فوج میں اگرچہ ابو بکر و عمر جیسے بڑے بڑے اصحاب تھے مگر آپ نے انتہائی دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اس لشکر کا سردار اسامہ بن زید کو مقرر کیا۔ اسامہ ایک بہادر نوجوان تھے۔ وہ اس کام کو پورا کرسکتے تھے، جو ان کے والد کے وقت میں موتہ کی جنگ میں ادھورا رہ گیا تھا۔ موتہ کی جنگ میں مسلمانوں نےاسامہ کے والد زید بن حارثہ کی قیادت میں رومیوں کے خلاف مقابلہ کیا تھا، اورزید اس جنگ میں قتل ہوئے تھے۔ جب اہل اسلام کو انداز ہ ہوا کہ جنگ کا جاری رکھنا ان کے حق میں نہیں ہے تو حضرت خالد درمیان ہی میں واپس ہوکر مدینہ آگئے، وغیرہ۔
تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میںیہ اسامہ کالشکر روانہ نہ ہوسکا۔ کیونکہ عین وقت پر آپ کے اوپر مرض الموت کا غلبہ ہوگیا۔ آپ کی وفات کے بعد صدیق اکبر نے خلیفۂ اول کی حیثیت سے اس لشکر کو شام کی طرف روانہ کیا۔
یہ روانگی بھی اسلامی تاریخ کا حیرت انگیز واقعہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہر طرف سے ارتداد کی خبریں آنے لگیں۔ لوگوں نے خلیفۂ اول کومشورہ دیا کہ اب جب کہ مرکز اسلام خطرہ میں پڑ گیا ہے اور مدینہ پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اس لشکر کی روانگی کو ملتوی کر دیا جائے، مگر صدیق اکبر کا یہ جواب لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے کافی تھا’’اگر مجھ کو یقین ہو کہ لشکر کی روانگی کے بعد مجھ کو مدینہ میں کوئی در ندہ تنہا پاکر پھاڑ ڈالے گا، تب بھی میںاُس لشکر کی روانگی کو ملتوی نہیں کر سکتا جس کو خود رسول اللہ نے ترتیب دیاہو ‘‘ ( وَاللهِ لَا أَحُلُّ عُقْدَةً عَقَدَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ أَنَّ الطَّيْرَ تَخَطَفُنَا، وَالسِّبَاعَ مِنْ حَوْلِ الْمَدِينَةِ وَلَوْ أَنَّ الْكِلَابَ جَرَّتْ بِأَرْجُلِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ لَأُجَهِّزَنَّ جَيْشَ أُسَامَةَ ) البدایۃ و النہایۃ، جلد6، صفحہ 304۔صدیق اکبر کی یہ ایمانی جرأت کام آئی۔ اسامہ کا لشکر نہ صرف رومیوں کے مقابلہ میں کامیاب ہو ا بلکہ رومی شہنشا ہیت کے مقابلہ میں مسلمانوں کی فتح نے مرتدین کی بھی حوصلہ شکنی کی اور نسبتاً آسانی کے ساتھ وہ مغلوب کر لیے گئے۔
اس واقعہ میں ایک اور بہت بڑی حکمت شامل تھی، عرب قبائل ہمیشہ سے آپس میں لڑتے چلے آر ہے تھے۔ شدید اندیشہ تھا کہ اپنی قوتوں کے اظہار کا دوسرا میدان نہ پا کروہ دوبارہ آپس میں لڑنے لگیں گے۔ نبی نے اپنی وفات کے وقت عرب طاقت کو رومی شہنشا ہیت سے متصادم کر کے اس کا جواب فراہم کر دیا۔ اب عربوں کی جنگجو فطرت کے لیے ایک بہترین میدان مل چکا تھا۔ چنانچہ تاریخ نے دیکھا کہ وہ لوگ جو اپنے ہم وطنوں کی قتل وغا رتگری کے سوا کچھ نہ جانتے تھے انہوں نے ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں ایک پوری دنیا کو فتح کر ڈالا۔
برٹش رائٹر جان بیگٹ گلب(Sir John Bagot Glubb, 1897-1986)نے اپنی کتاب دی لائف اینڈ ٹائمز آف محمد میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے’’عرب نامعلوم زمانے سے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ و جدل میں زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ یہ جنگ و جدل کسی خاص سبب کا نتیجہ نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ ان کی طرز زندگی میں داخل تھی۔ اب جب کہ وہ بحیثیت مسلمان ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے سے روک دیے گئے تھے، یہ کیسے ممکن تھا کہ فوجی ذہنیت کے قبائلی آدمیوں کو ہمیشہ کے لیے پر امن زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جائے ؟ پیغمبر اسلام نے خود اس مہم کو روانہ کر کے جس نے موتہ میںشکست کھائی تھی اس سوال کا حل پیش کر دیا تھا۔
634 ء کے سرما میں تین عرب کا لموں نے فلسطین اور شام پر حملہ کر دیا اسی اثنا ء میں مشرقی عرب کے قبیلوں نے جو حیرہ کی لخمی ریاست کی ضبطی کے بعد سے ایران کے دشمن بنے ہوئے تھے، فرات کی طرف پیش قدمی کر کے حیرہ پر قبضہ کر لیا۔ 26اگست 636ء کو باز نطینی (رومی) قوت نے یر موک کے میدان میں مکمل شکست کھائی اور شام کا تمام علاقہ طبر یہ تک عربوں کے قبضہ میں آگیا۔ فروری 637ء میں ایرانی فوج قا دسیہ کے مقام پر جو حیرہ سے چند میل کے فاصلہ پر تھا مکمل طور پر تباہ کردی گئی اور قدیم عراق بشمول ایرانی دارا لسلطنت مدائن جو دجلہ کے جنوب میں موجودہ بغداد کے قریب واقع تھا، عربوں کے زیر تسلّط آ گیا۔ 640ء میں مصر پر حملہ ہوا اور ایک بار پھر باز نطینی حکومت شکست یاب ہوئی اور ستمبر 642ء تک پورے مصر پر عرب قبضہ مکمل ہو گیا۔ اسی سال بچی کھچی ایرانی فوج نہا وند کے مقام پر تباہ کر دی گئی اور ایرانی سلطنت کا پورے طور پر خاتمہ ہو گیا۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد پہلے خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی نازک حالات کے باوجود حضرت اسامہ کے لشکر کو رومیوں کی طرف بھیجا۔ یہ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک عظیم سبق تھا:مسلمانوں کے لیے طاقت آزمائی کا میدان خارجی دنیا ہے نہ کہ داخلی دنیا۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہ اہم ترین سبق بعد کے زمانہ میں مسلمان بھول گئے۔ خاص طور پر موجودہ زمانہ میں تو یہ حال ہے کہ مسلم ممالک دوگروہوں (ترقی پسند اور قدامت پسند ) میں بٹ کر ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ ان کی مسلح فوجیں اپنے ہی ملکوں کو ’’فتح‘‘ کرنے میں مشغول ہیں، مسلم جماعتیں خود اپنے ملکوں کی حکومتوں سے نبرد آزما ہیں۔ باہر کے حریفوں سے مقابلہ کے لیے ہر ایک عاجز ہے اور اپنے بھائیوں سے لڑنے کے لیے ہر ایک بہادر بنا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر اسلام کی توسیع و اشاعت کا کام رک جائے تو اس پر تعجب نہ کرنا چاہیے۔
_14_
مشہو ر روایات کے مطابق، کعبہ کی تعمیر چار بار ہوئی ہے۔ پہلی بار جب کہ حضرت ابراہیم نے اپنے صاحب زادہ اسمٰعیل کی مدد سے اسے بنایا۔ دوسری بار اسلام سے پہلے قریش نے بنایا جب کہ بارش کی کثرت سے وہ گر گیا تھا۔ اس تعمیر ثانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قبل ازنبوت شریک تھے۔ قریش نے اس کےطول میں چھ ہاتھ کے بقدر کمی کر دی جہاں اب حطیم واقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے بارے میں حضرت عائشہ سے فرمایا:لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَجَعَلْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ...وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ مَوْضُوعَيْنِ فِي الْأَرْضِ شَرْقِيًّا وَغَرْبِيًّا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1333)۔ یعنی، تمہاری قوم اگر جلدہی جاہلیت سے نہ نکلی ہوتی تو میں کعبہ کو دوبارہ ابراہیم کے نقشہ کے مطابق تعمیر کر دیتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک پورب میں ، دوسرا پچھم میں۔
تیسری تعمیر 36 ھ میں یز ید بن معاویہ کے زمانہ میں ہوئی۔ یزید بن معا ویہ کی شامی فوج نے حصین بن نمیر کی قیادت میں عبد اللہ بن الز بیر کا مکہ میں محاصرہ کیا اور کعبہ پر منجنیق سے پتھر پھینکے جس کی وجہ سے کعبہ میں آگ لگ گئی اور وہ گر گیا۔ اس کے بعد عبد اللہ بن زبیر نے اس کی تعمیر کرائی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مند رجہ بالا حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو دوبارہ ابراہیم کے نقشہ پر تعمیر کرایا اور اس میں دو دروازے کھول دیے کہ آدمی ایک دروازے سے داخل ہو اور دوسرے دروازے سے باہر آئے۔ عبد اللہ بن زبیر کے قتل کے بعد حجاج نے خلیفہ عبد الملک بن مر وان کو صورت حال سے باخبر کیا۔ عبد الملک بن مروان نے حکم دیا کہ ہم عبد اللہ بن زبیر کےعمل کے پابند نہیں ہیں۔ تم کعبہ کو دوبارہ سابقہ بنیاد پر تعمیر کر اؤ اور وہ دوسرا دروازہ بند کرادو جو عبد اللہ بن زبیر نے کھولا ہے۔ یہ کعبہ کی چوتھی تعمیر تھی (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1333)۔
خلیفہ ہارون الرشید کا زمانہ آیا تو اس نے ارادہ کیا کہ کعبہ کو پھر سےا س طرح تعمیر کرائے جس طرح عبد اللہ بن زبیر نے تعمیر کرایاتھا۔ اس وقت امام مالک بن انس نے خلیفہ سے کہا:
أَنْشُدُك اللهَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْ تَجْعَلَ هَذَا الْبَيْتَ مَلْعَبَةً لِلْمُلُوكِ بَعْدَك، لَا يَشَاءُ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَنْ يُغَيّرَهُ إلّا غَيّرَهُ فَتَذْهَبُ هَيْبَتُهُ مِنْ قُلُوبِ النّاسِ فَصَرَفَهُ عَنْ رَأْيِهِ (الروض الأنف للسہیلی، جلد2، صفحہ173)۔ یعنی اے امیر المومنین، میں آپ کو خدا کی قسم دلاتا ہوں کہ اس گھر کو اپنے بعد بادشاہوں کا کھیل نہ بنا دیجئے کہ جو بھی چاہے اس میں تغیر و تبدل کرتا رہے۔ پس اس کی ہیبت لوگوں کے دلوں سے جاتی رہے۔ اس طرح امام مالک نے خلیفہ ہارون رشید کو اس کی رائے پر عمل کرنے سے روک دیا۔
روایات کو توڑے بغیر خاموشی کےساتھ انقلاب لانا پیغمبر انہ طریق کا ر کا ایک اہم اصول ہے۔ سماجی زندگی میں روایات کی بے حد اہمیت ہوتی ہے۔ بیشتر لوگ روایات کے سہارے چلتے ہیں۔ روایات اگر اچانک توڑدی جائیں تو عام لوگوں کے لیے اخلاقیات کاکوئی سہارا باقی نہیں رہتا۔
کسی سماج میں روایات ہمیشہ صدیوں کی تاریخ سے بنتی ہیں۔ کسی نے بجا طور پر کہا ہے کہ ایک چھوٹی سی روایت بنانے کے لیے بہت لمبی تاریخ درکار ہوتی ہے :
It requires a lot of history to make a little tradition.
یہی وجہ ہے کہ پیغمبر تدریجی حکمت کے تحت اصلاح لے آتا ہے نہ کہ پر شور تبد یلیوں کے طریقے سے۔
سنتِ رسول
سنت عربی زبان میں طریقہ کو کہتے ہیں ۔ اس سے مراد خدا کا وہ پسندیدہ طریقہ ہے جو رسول کے ذریعہ انسان کو بتایا گیا۔ قرآن میں یہ لفظ شریعت خدا وندی کے تمام طریقوں کے لیے آیا ہے۔ اسلامی معاشرت کے احکام بیان کرتے ہوئے ارشاد ہواہے :
يُرِيْدُ اللہُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَھْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ( 4:62)۔ يعني، اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے بیان کر ے اور تم کو ان لوگوں کا طریقہ بتا دے جو تم سے پہلے تھے اور تمہارے اوپر توجہ کر ے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
اللہ نے جب دنیا بنائی تو اسی وقت یہ بھی طے کر دیا کہ اس دنیا کی کار کردگی کے لیے اس کا پسندیدہ طریقہ کیا ہوگا۔ اس طریقہ کو خدا نے بقیہ دنیا میں بزور اس طرح نا فذ کر دیا کہ کوئی چیز اس سے ذرا بھی ہٹ نہیں سکتی۔ مگر انسان کو خدا نے اس کا پابند نہیں کیا۔ انسان کو سوچنے اور کرنے کی آزادی دے کر فر مایا کہ تم میں سے جو لوگ اپنی آزادمرضی سےمیرے پسند یدہ طریقہ پر چلیں گے ان کے لیے میرے یہاں جنت کے باغ ہیں اور جو لوگ اس سے انحراف کریں گے ان کے لیے دوزخ کی آگ۔
خدا کے اسی پسندیدہ طریقہ کو انسانوں کے سامنےواضح کرنے کے لیے خد ا کے رسول آئے۔ رسول نے زبانی بھی بتایا اور برت کر عملاً بھی دکھا دیا کہ خدا کی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو رسول کی سنت کہا جاتاہے۔ رسول کی سنت کا تعلق مسواک اور غسل جیسے معاملات سے بھی ہے او رملی تعمیر اور اجتماعی اصلاح جیسے معاملات سے بھی۔ جو لوگ اللہ کے یہاں اس کے مقبول بندوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے تمام معاملات میں رسول کی سنت کی پیروی کریں۔ اپنی زندگی کےکسی معاملہ کو اس سے آزاد يا غیر متعلق نہ سمجھیں۔
رسول کی انفرادی سنتوں میں سے اہم ترین سنت دعوت الی اللہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو صبح و شام سب سے زیادہ فکر جس بات کی ہوتی تھی وہ یہ کہ آپ خدا کے بندوں کو خدا کے دین کی طر ف لے آئیں۔ اس معاملہ میں آپ اتنا زیادہ فکرمندرہتے تھے کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا شاید تم اس غم میں اپنے کو ہلاک کر ڈالو گے کہ لوگ ایمان نہیں لاتے (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ) 26:3۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو میری سنت سے بے رغبت ہو وہ مجھ میں نہیں (فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي) صحیح البخاری، حدیث نمبر 5063۔اس حدیث کا تعلق جس طرح نکاح اور اس قسم کے دوسرے معاملات سے ہے، ٹھیک اسی طرح دعوت الی اللہ سے بھی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اختیار کر نے والا وہی ہے جو دوسری چیزوں کے ساتھ اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے کے معاملہ میںبھی آپ کے طریقہ کی پیروی کرے۔
رسول کی اجتماعی سنتوں میں سے ایک سنت تدریج یا حقیقت پسندی ہے۔ یعنی نظر یاتی معیاروں کے نفاذ میں حقیقی حالات وواقعات کی رعایت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی اصلاح کے تمام معاملات میں ہمیشہ تدریجی حکمت کے مطابق عمل کیا ہے۔ آج کل کی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا طریقہ انقلابی (Revolutionary)نہیں تھا بلکہ ارتقائی (Evolutionary)تھا۔ حضرت عائشہ ایک روایت میں اسی بات کو اس طرح بتاتی ہیں
إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنَ المُفَصَّلِ، فِيهَا ذِكْرُ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الإِسْلاَمِ نَزَلَ الحَلاَلُ وَالحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَيْء:لاَ تَشْرَبُوا الخَمْرَ، لَقَالُوا:اَ نَدَعُ الخَمْرَ أَبَدًا، وَلَوْ نَزَلَ:لاَ تَزْنُوا، لَقَالُوا:لاَ نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا(صحيح البخاری،حدیث نمبر 4993)۔يعني،قرآن میں سب سے پہلے مفصل سورتیں اتریں جن میں جنت اور جہنم کا تذکرہ ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگوں کے دل اسلام کے لیے ہموار ہو گئے تو حرام و حلال کی آیتیں اتریں۔ اگر پہلے ہی یہ اتر تا کہ شراب نہ پیو تولوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے۔ اور اگر پہلے ہی اتر تا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی زنا نہ چھوڑ یں گے۔
رمضان 8ھ میں مکہ فتح ہوا۔ اس کے بعد عرب کا مرکز قیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں آگیا۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ آپ نے بیت اللہ سے متعلق شرعی احکام کا فوری نفاذ نہیں فرمایا۔ بلکہ جو کچھ کرنا تھا تدریج کے ساتھ کیا۔ فتح مکہ کے بعد اسلامی اقتدار قائم ہونے کے با وجود8ھ میں جو حج ہواوہ بد ستور قدیم جاہلی رواج کے مطابق ہوا۔ اس کے بعد 9 ھ میں اسلامی دور کا دوسرا حج اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر حج کیا اور مشرکین نے اپنے طریقہ پر۔ پھر جب 10ھ میں تیسرا حج آیا تو آپ کے حکم کے مطابق اس کو خالص اسلامی طریقہ پر انجام دیا گیا۔ یہی دورِ اسلامی کا تیسرا حج ہے جو اسلامی تاریخ میں حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔
طبعی طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات سخت نا پسند تھی کہ مشرکین بیت اللہ میں آئیں اور اپنے مشر کا نہ رواج کے مطابق حج کے مراسم ادا کریں۔ مگر اقتدار حاصل ہونے کے باوجود آپ نے شریعت کے نفاذ میں جلدی نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد دوسال تک آپ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ نہیں گئے۔ حج کا موسم آیا تو آپ نے فرمایا مشرکین بیت اللہ میں آئیں گے اور ننگے ہو کر حج کریں گے۔ مجھے پسند نہیں کہ میں حج کروں جب تک یہ چیزیں ختم نہ ہو جائیں (إِنَّمَا يَحْضُرُ الْمُشْرِكُونَ فَيَطُوفُونَ عُرَاة، فَلَا أُحِبُّ أَنْ أَحُجَّ حَتَّى لَا يَكُونَ ذَلِك) تفسیر ابن کثير، 4/103۔
فتح مکہ کے بعد پہلے سال (8ھ ) میں مسلمانوں نے حج کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لے گئے۔ دوسرے سال (9 ھ) میں آپ نے مسلمان حاجیوں کا قافلہ حضرت ابو بکر کی قیادت میں مدینہ سے مکہ روانہ کیا۔ اس کے بعد قرآن میں یہ حکم اترا کہ مشرکین نجس ہیں، اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں (التوبہ، 9:28)۔چنانچہ آپ نے حضرت علی کو مکہ بھیجا اور حکم دیا کہ حج کے اجتماع میںگھوم گھوم کر یہ اعلان کر دیں کہ اِس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے اور اب سے کوئی شخص ننگی حالت میں کعبہ کا طواف نہ کرے (لاَ يَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ وَلاَ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ)صحیح البخاری، حدیث نمبر 369۔اس طرح تیسرے سال جب دھیرے دھیرے شرک کا خاتمہ کر دیا گیا اس وقت آپ نے مکہ جاکر حج ادا فرمایا۔ یہی رسول اللہ علیہ وسلم کا آخری حج (حجۃ الوداع) تھا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام کے نفاذ میں کس طرح تدریجی حکمت کا لحاظ فرمایا ہے۔ حتٰی کہ اقتدار پر قبضہ ملنے کے باوجود آپ نے تدریج کے اصول کو ترک نہیں کیا۔ خدا کے پیغمبر نے اپنے آپ کو روک لیا مگر مشرکین کو وقت سے پہلے روکنے کے لیے اقدام نہیں فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صرف وہی نہیں ہے جس کو عام طور پر لوگ ’’سنت‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔اس کے سوا بھی رسول اللہ کی سنتیں ہیں۔ ان میںاس ایک سنت وہ ہے جس کو تدریج یا حقیقت پسندی کہا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیغمبر کی حیثیت سے 13سال رہے مگر آپ نے کبھی یہ نہ کیا کہ کعبہ کی بے حرمتی کے خلاف احتجاجی جلوس نکالیں۔ حتٰی کہ فتح و غلبہ حاصل ہونے کے بعد بھی آپ نے بیہودہ مراسم کےخاتمہ کے لیے جلد بازی نہیںکی۔ طاقت ور ہونے کے با وجود آپ نے دو سال تک انتظار فرمایا اور تیسرے حج میں وہ تمام اصلاحات نافذ کیں جو آپ ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔
تدریجی ڈھنگ پر عمل کرنے میں بہت سے فائدے ہیں جو کسی اور طریقہ سے حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
1۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مطلوبہ نتیجہ تک پہنچنا یقینی ہو جاتا ہے۔ تدریجی طور پر آگے بڑھنا دوسرے لفظوں میں ایک ایک قدم کو سنبھالتے ہوئے اور مستحکم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ ایسا آدمی صرف جوش کے تحت میدان میں نہیں کود پڑتا بلکہ خارجی اسباب کی رعایت کرتے ہوئے حسب حالات اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ اور جو شخص اپنے سفر میں اس حکمت کو ملحوظ رکھے وہ ضرور منزل پر پہنچ کر رہے گا۔
2۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آدمی بے فائدہ نقصانات سے بچ جاتا ہے۔ جو شخص اچانک چھلانگ لگا کر مقصد تک پہنچنا چاہے اس کو غیر ضروری طور پر ایسی طاقتوں سے قبل ازوقت لڑنا پڑجاتا ہے جن سے مؤثر مقابلہ کے لیے وہ ابھی تیار نہیں ہو سکا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جان و مال کے ایسے نقصانات بھگتنے پڑتے ہیں جن کی تلافی مدتوں بعد بھی نہ ہو سکے۔
حصّہ دوم
پیغمبر انقلاب
اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ اس کا دین سر بلند ہو۔ اس کو دنیا میں غالب فکر کا مقام حاصل ہو۔ مگر دین کے فکری غلبہ کے لیے عالمی حالات کی موافقت ضروری ہے۔ خدا نے ہزاروں سال کے عمل سے پیغمبر آخر الزماں کے لیے موافق حالات پیدا کیے۔ آپ نے ان حالات کو جانا اور ان کو حکیمانہ طور پر استعمال کر کے اسلام کو دنیا میں غالب فکر کا مقام عطا کیا۔
اب دوبارہ پچھلے ہزار سال کے عمل کے نتیجہ میں خدا نے وہ تمام موافق حالات جمع کر دیے ہیں جن کو استعمال کر کے ازسر نو اسلام کو دنیا کا غالب فکر بنایا جاسکے۔ اسلام کو دوبارہ وہی بر تری اور سر بلندی حاصل ہو جو ماضی میں اسے حاصل تھی۔
مگر ان امکانات کو واقعہ بنانے کے لیے ایک ایسی سنجیدہ جدو جہد درکا ر ہے جو وقت کے گہرے شعور پر ابھری ہو۔ جو رد عمل کی نفسیات سے پاک ہو کر مثبت عمل کرنا جانتی ہو۔ جو ہر دوسرے احسا س کو قربان کر کے صرف دین کی سر بلندی کے لیے کو شش کرنےوالی ہو۔ جو ربانی حکمت کی رہنمائی میں اٹھی ہو نہ کہ انسانی کج فہمیوں کی بنیاد پر۔ جس کا محرک خدا کی بڑائی قائم کرنا ہو نہ کہ قومی فخر اور مادی عظمت کا جھنڈا لہرانا۔ ایسے ہی لوگوں نے پہلے بھی خدا کے دین کو سربلند کیا تھا اور ایسے ہی لوگ آ ج بھی خدا کے دین کو سر بلند کریں گے۔ اس کے برعکس جو لوگ سطحی نعروں پر بھیڑ جمع کرنے کو کام سمجھیں، جو ہر پیش آمدہ مسئلہ پر دوڑناشروع کردیں، وہ صرف خدا کے پیدا کیے ہوئے امکانات کو بر باد کریں گے۔ وہ ان امکانا ت کو واقعہ بنانے والے ثابت نہیں ہو سکتے۔
ایک تقابل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو اسلامی انقلاب آیا اس میں تاریخی روایات کے مطابق کل 1018آدمی ہلاک ہوئے۔ اس انقلاب کی تکمیل 23سال میں ہوئی۔ ان 23سالوں میں جو غزوات پیش آئے ان کی تعداد81بتائی جاتی ہے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف 27غزوات میں شریک تھے اور عملاً با قاعدہ جنگ صرف چند ہی غزوات میں پیش آئی۔ ان لڑائیوں میں مجموعی طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس طرح ہے
مسلمان مقتولین 259
غیر مسلم مقتولین 759
ٹوٹل1018
صدرِ اول کا یہ انقلاب تاریخ کا عظیم ترین انقلاب تھا جس نے انسانی تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ اتنے بڑے انقلاب میں مقتولین کی یہ تعداد اتنی کم ہے کہ اس کو غیر خونی انقلاب (Bloodless Revolution) کہا جا سکتا ہے۔
ہمارے لکھنے اور بولنے والے اکثر پر جوش انداز میں اس انقلاب کا مقابلہ موجودہ زمانہ کے غیر اسلامی انقلابات سے کرتے ہیں۔ وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلامی انقلاب صرف ایک ہزار آدمیوں کی جان لے کر کامیاب ہو گیا۔ جب کہ فرانس میں جمہوری انقلاب لانے کے لیے اور روس میں اشترا کی انقلاب لانے کے لیے اتنے زیادہ آدمیوں کو قربان ہونا پڑا جن کی تعداد لاکھوں میںشمار ہوتی ہے۔
یہ تقابل ہم کو بہت پسند ہے کیونکہ اس میں ہماری پُر فخر نفسیات کو تسکین ملتی ہے۔ مگر یہاں تقابل کی ایک اور صورت ہے جس پر مسلمانوں نے کبھی غور نہیں کیا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ دوسر ا تقابل نصیحت کا تقابل ہے اور نصیحت آدمی کے لیے ہمیشہ بہت کڑوی ہوتی ہے۔
یہ دوسرا تقابل یہ ہے کہ آپ صدرِ اول کی اسلامی دعوت میں مرنے والے کا مقابلہ موجودہ زمانہ کی مسلم تحریکوں میں مرنے والوں سے کریں۔ با لفاظ دیگر، صدرِ اول کے انقلاب سے خود اپنی انقلابی کوششوں کا موازنہ کریں۔ مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں دینی انقلاب اور اسلامي جهاد کے نام پر بڑي بڑي تحريكيں اٹھائی ہیں۔ مسلمان جس طرح زمانهٔ رسالت کے ديني انقلاب كا تقابل غیر مسلموں کے لا دینی انقلابات سے کرتے ہیں اسی طرح انہیں چاہیے کہ وہ زمانۂ رسالت کے انقلاب کو سامنے رکھ کر خود اپنی اٹھائی ہوئی تحریکوں کو تو لیں اور ان کے نتائج کا جائزہ لیں۔
اگر مسلمان یہ تقابل کریں تو وہ حیرت انگیز طور پر پائیں گے کہ انہوں نے پیغمبر کی تحریک کے مقابلہ میں دوسری اقوام کی لا دینی تحریکوں کو جس مقام پر کھڑا کر رکھا ہے، عین اسی مقام پر خود ان کی موجودہ زمانہ کی تحریکیں بھی کھڑی ہوئی ہیں۔ الجزائر کے جہاد آزادی میں 25لاکھ مسلمان مرے، ہندستان کے جہاد آزادی میں 5لاکھ علماء اور مسلمان شہید ہوئے، اسلامی پاکستان کو وجود میں لانے کے درمیان ایک کروڑ انسان کام آگئے۔ اسی طرح شام، عراق، ایران، مصر، فلسطین اور دوسرے علاقوں میں جو لوگ اسلام کے نام پر جانیں دے رہے ہیں ان کی تعداد لاکھوں سے بھی زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ ان تمام قربانیوں کا حاصل کچھ بھی نہیں ۔ صدرِ اول کی اسلامی تحریک میں دس سو آدمی کام آئے، اور اس کے بعد ایسا دور رس انقلاب آیا جس کے اثرات ساری دنیا نے محسوس کر لیے۔
موجودہ زمانہ کی اسلامی تحریکوں میں مجموعی طور پر دس کروڑ آدمی ہلاک اور بر باد ہوگئے۔ اس کے با وجود زمین کے اوپر کوئی ایک چھوٹا ساخطہ بھی نہیں، جہاں اسلامی انقلاب حقیقی معنوں میں کامیاب اور نتیجہ خیز نظر آتا ہو۔
پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ سخت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ہماری کوششوں کا بالکل الٹا نتیجہ بر آمد ہوا ہے۔ ہمارے حق میں بائبل کے وہ الفاظ پورے ہوئے ہیں جو یہود کے بارے میں کہے گئے تھے
اور تمھارا بیج بونا فضُول ہو گا کیوں کہ تُمھارے دُشمن اُس کی فصل کھائیں گے۔اور مَیں خُود بھی تمھارا مخالِف ہو جاؤں گا اور تُم اپنے دُشمنوں کے آگے شِکست کھاؤ گے اور جِن کو تُم سے عداوت ہے وُہی تُم پر حُکمرانی کریں گے اور جب کوئی تُم کو رگیدتا بھی نہ ہو گا تب بھی تُم بھاگو گے۔اور اگر اِتنی باتوں پر بھی تُم میری نہ سُنو تو مَیں تُمھارے گُناہوں کے باعِث تُم کو سات گُنی سزا اَور دُوں گا۔ اور مَیں تُمھاری شہزوری کے فخر کو توڑ ڈالُوں گا اور تُمھارے لیے آسمان کو لوہے کی طرح اور زمِین کو پِیتل کی مانِند کر دُوں گا۔اور تُمھاری قُوّت بے فائِدہ صرف ہو گی کیونکہ تمھاری زمِین سے کُچھ پَیدا نہ ہو گا اور مَیدان کے درخت پھلنے ہی کے نہیں۔(احبار، 26:16-20)
ہماری جدید تاریخ ان الفاظ کے عین مصداق ثابت ہو رہی ہے۔ ہم نے خلافت اسلامی اور اتحاد عالمی کی دھواں دھار تحریکیں چلا ئیں اور اس کی راہ میں ان گنت قربا نیاں دیں ۔ مگر جب نتیجہ نکلا تو ساری مسلم دنیا بہت سی قومی حکومتوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ہم نے آزادیٔ وطن کے لیے جہاد کیا مگر جب وطن آزاد ہو ا تو عملاً وہ دوسرے فرقوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ ہم نے اسلامی پاکستان وجود میں لانے کے لیے قربانیاں دیں مگر جب اسلامی پاکستان بنا تو وہاں غیر اسلامی لیڈروں کی حکومت قائم تھی۔ ہم نے مصر میں اسلامی اقتدار قائم کرنے کے لیے عظیم الشان تحریک اٹھائی مگرجب مصر کی قسمت کا فیصلہ ہوا تو وہ اسلام پسندوں کے بجائے فوجی حوصلہ مندوں کے ہاتھ میں جا چکا تھا۔ تقریباً ثلث صدی سے فلسطین کی یہودی ریاست کو مٹانے کے لیے جہاد جاری ہے اور مسلمانوں کا جان و مال بے پناہ مقدار میں تباہ ہو رہا ہے مگر عملاً صر ف یہ ہوا ہے کہ یہودی ریاست کی قوت اور وسعت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں آخری دردناک خبر جو بہت جلد مسلمانوں کو سننی ہوگی وہ یہ کہ ایران میں نا قابل بیان قربانیوں کے بعد اسلامی اقتدار لایاگیا مگر یہ اسلامی اقتدار بہت جلد ملحد طاقتوں کا اقتدار قائم کرنے کا ابتدائی زینہ بن گیا۔
یہ موجودہ زمانہ کی پتھر سےبھی زیادہ سنگین حقیقتیں ہیں ۔ کوئی شخص یہ کر سکتا ہے کہ اپنے ذہن میں خوش خیالیوں کی ایک دنیا بناکر اس میں جیتا رہے مگر آئندہ آنے والا مورخ یقیناً ہماری خوش خیالیوں کی تصدیق نہیں کرے گا۔ وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ فرانس اور روس کے انقلاب میں مرنے والوں کے حصہ میں پھر بھی یہ فائدہ آیا کہ انہوں نے عالمی فکر کا دھا ر ا موڑدیا۔ اس کے بعد دنیا میں شہنشا ہی طرز فکر کے بجائے جمہوری طرز فکر رائج ہو گیا اور سرمایہ دار انہ طریق معیشت پر سوشلسٹ طریق معیشت کو فکری غلبہ حاصل ہوگیا۔ مگر اسلام کے نام پر بر باد ہونے والے اگر چہ تعداد میں ان سے بھی زیادہ تھے مگر وہ عالمی فکر پر کسی قسم کا اثر نہ ڈال سکے۔
صدر اول کا اسلامی انقلاب بتاتا ہے کہ اگر ایک ہزار آدمی بھی یہ ثبوت دے دیں کہ وہ خدا کے دین کی خاطر قربانی کی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں تو خدا ان کی قربانی کو قبول کر کے اسلام کو زمین پر غالب کر دیتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں کروڑوں آدمیوں نے قربانی کا ثبوت دیا مگر خدا کی نصرت ان کا ساتھ دینے کے لیے آسمان سے نہیں اتری۔ وہ اس کے با وجود مغلوب ہی بنے رہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں ہماری یہ تمام قربانیاں حقیقتہً اس صراطِ مستقیم کے مطابق نہ تھیں جس کی پیروی پر خدا نے نصر عزیز اور فتح مبین کا وعدہ فرمایا ہے۔ (الفتح، 48:1-3)
کوئی کسان اگر کہے کہ میں نے گیہوں کے بیج زمین میں ڈالے مگر اس سے گیہوں اُگنے کے بجائے جھاڑ جھنکاڑ اُگے تو ایسا کسان جھوٹ بولتا ہے۔ کیونکہ خدا کی اس دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ آدمی گیہوں کے بیج بوئے اور اس سے اس کے لیے جھاڑ جھنکا ڑاُ گے۔ یہ نا ممکن ہے، یہ کروڑ بار ناممکن ہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں ہماری قربانیاں اگر فی الواقع اس راہ پر ہو تیں جس راہ پر رسول اور اصحاب رسول چلے اور اپنی جانیں دیں تو نا ممکن تھا کہ اتنی غیر معمولی کوششوں کے باوجود اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلے۔ واقعات کا یہ کھلا ہوا فیصلہ ہے۔ اگر اس کے باوجود کوئی آدمی خوش فہمی کے گنبد میںرہنا چاہے تو رہے۔ بہت جلد قیامت اس کے گنبد کو توڑ دے گی۔ اس کے بعد وہ دیکھے گا کہ وہاں اس کے لیے جھوٹی خوش فہمیوں کے کھنڈر کے سوا اور کچھ نہیں۔
نصرت خدا وندی
قرآن میں ارشاد ہو اہے:يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ (47:7)۔یعنی، اے ایما ن لانے والو، اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرےگا۔ اور تمہارے قدموں کو جماد ے گا۔یہاں خدا کی نصرت کرنے سے مراد خدا کی اسکیم کے ساتھ موافقت ہے، یعنی واقعات کو ظہور میں لانے کے لیے خدا کا جو نقشہ ہے اور اس کے لیے اس نے جو موافق حالات فراہم کیے ہیں، ان کے ساتھ اپنی کو ششوں کو جوڑ دینا، جو لوگ اس طرح خدا کی نصرت کریں ان کو جما ؤ حاصل ہوتا ہے اور بالآخر وہ کامیاب رہتے ہیں۔ خدا کی اس دنیا میں خدائی منصوبہ سے مطابقت کر کے ہی کوئی نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے نہ کہ بطور خود آزادانہ عمل کر کے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے۔ ایک پادری صاحب اپنے مکان کے سامنے ایک ہر ا بھرا درخت دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر میں اس کا بیج بوؤں تو وہ دس سال میں پورا درخت بنے گا۔ انہوں نے ایسا کیا کہ کہیں سے ایک بڑا درخت کھدوایا پھر کئی آدمیوں کے ذریعہ اس کو وہاں سے اٹھوایا اور اس کو لاکر اپنے گھر کے سامنے لگا دیا۔ وہ خوش تھے کہ انہوں نے دس سال کی مدت ایک دن میں طے کر لی ہے، لیکن اگلے دن جب وہ صبح کو سو کر اٹھے تو ان کو یہ دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا کہ درخت کے پتے مر جھا چکے ہیں۔ شام تک شاخیں بھی لٹک گئیں۔ چند دن کے بعد درخت کے پتے سو کھ کر جھڑ گئے اور اس کے بعد ان کے گھر کے سامنے صرف لکڑی کا ایک ٹھنٹھ کھڑا ہواتھا۔
انہیں دنوں پادری صاحب کا ایک دوست ان سے ملنے کے لیے آیا۔ دوست نے دیکھا کہ پادری صاحب اپنے گھر کے سامنے بے چینی کے ساتھ ٹہل رہے ہیں۔ اس نے کہا، آج میں آپ کو غیر معمولی طور پر پریشان دیکھ رہا ہوں، آخر کیا بات ہے۔ پادری صاحب نے جواب دیا۔ میں جلدی میں ہوں مگر خدا جلدی نہیں چاہتا :
I am in hurry, but God doesn’t.
اس کےبعد پادری صاحب نے درخت کے مذکورہ قصہ کو بتاتے ہوئےکہا کہ دنیا میں جو واقعات ہوتے ہیں ان میں ایک حصہ خدا کاہوتا ہے اور ایک حصہ انسان کا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے دو دندانہ دارپہیوں (Cog Wheels)کے ملنے سے مشین کا چلنا۔ ایک پہیہ خدا کا ہے، دوسرا پہیہ انسان کا۔ انسان جب خدا کے پہیہ کا ساتھ دیتا ہے تو وہ کامیاب رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ خدا کے پہيے کی رفتار کا لحاظ کیے بغیر چلنا چاہے تو وہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ خدا کا پہیہ مضبوط ہے اور انسان کا پہیہ کمزور۔
خدانے کروڑوں سال کے عمل سے زمین کے اوپر زر خیز مٹی کی تہ بچھائی جس کے اوپر کوئی درخت اُگے۔ سورج کے ذریعہ اوپر سے ضروری حرارت بھیجی۔ آفاقی اہتمام کے تحت پانی مہیا فرمایا۔موسموں کی تبدیلی کے ذریعہ اس کی پرورش کا انتظام کیا۔ کھرب ہا کھرب کی تعداد میں بیکٹیریا پیدا کیے جو درخت کی جڑوں کونا ئٹر وجن کی غذا فراہم کریں۔ یہ تمام انتظام گو یا خدا کا دندانہ دار پہیہ (cogwheel) ہے۔ اب انسان کو اس میں اپنا دندانہ دار پہیہ ملانا ہے تاکہ مذکورہ مواقع اس کے لیے درخت کی صورت اختیار کر سکیں ۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ ایک بیج لے اور اس کو زمین میں دبا دے۔ اگر وہ ایسا کرے تو گو یا اس نے خدا کے پہیے میں اپنے پہیے کو ملایا۔ اس کے بعد فطرت کی مشین چلنا شروع ہو جائے گی اور وقت پر اپنا نتیجہ دکھائے گی۔ اس کے بر عکس، اگر انسان اپنا یہ بیج پتھر پر ڈال دے، یا بیج کے بجائے اس کے ہم شکل پلاسٹک کے دانے زمین میں بوئے، یا وہ ایسا کرے کہ بیج بونے کے بجائے پورا درخت اکھاڑ کر لائے اوراس کو اپنی زمین میں اچانک کھڑا کرنا چاہے تو گویا اس نے اپنا پہیہ خدا کے پہیے میں نہیں ملایا، اس نے اپنے آپ کو خدا کے منصوبے میں شامل نہیں کیا۔ ایسے آدمی کے لیے اس دنیا میں ہرے بھرے درخت کا مالک بننا مقدر نہیں ۔
یہی معاملہ اسلامی انقلاب کا بھی ہے۔ وہ بھی خدا کے پیدا کر دہ مواقع کو سمجھنے اور ان کو استعمال کرنے سے ظہور میں آتا ہے، نہ کہ خود ساختہ قسم کی اچھل کو د مچانے سے۔صدر اول میں جو انقلاب آیا وہ اس لیے آیا کہ خدا کے کچھ بندوں نے اپنا پہیہ خدا کے پہیہ میں ملادیا۔ اس کے برعکس موجودہ زمانہ میں ہماری تمام قربانیاں اس لیے رائیگاں چلی گئیں کہ ہم نے خدائی منصوبہ کے ساتھ موافقت نہیں کی بلکہ خود ساختہ راہوں میں غیر متعلق قسم کی ہنگامہ آرائیاں کرتے رہے۔
دین تو حید اور دین شرک
قرآن کے اشارات (البقرہ، 2:213) سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کے بعد جب انسان زمین پر آباد ہوا تو سب کا دین توحید تھا۔ یہ صورت چند سو سال تک جا ری رہی۔ اس کے بعد لوگوں کے اندر مظاہر پرستی کا آغاز ہوا جس کا دوسرا نام شرک ہے۔ دکھائی نہ دینے والے خدا کو اپنا مرکز تو جہ بنا نا انسان کے لیے مشکل تھا، چنانچہ اس نے عقیدۃً خدا کو مانتے ہوئے یہ کیا کہ دکھائی دینے والی چیزوں کو اپنا مر کز توجہ بنالیا۔ یہی وہ دور ہے جب کہ سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش شروع ہوئی۔ پہاڑوں اور سمندروں کو دیوتا سمجھ لیا گیا۔ حتٰی کہ انسانوں میں سے جس کے پاس عظمت و اقتدار نظر آیا اس کو بھی خدا کا شریک فرض کر لیا گیا۔ اس طرح تقریباً ایک ہزار سال بعد وہ وقت آیا جب کہ توحید کا فکری غلبہ ختم ہو گیا، اور انسانی ذہن پر دین شرک غالب آگیا۔
ابتدائی دین توحید میں اس بگاڑ کے بعد خدا نے اپنے پیغمبر بھیجنے شروع کیے۔ مگر ان پیغمبروں کو کبھی اتنی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی کہ دین شرک کو مٹا کر دوبارہ دین تو حید کو غالب اور سر بلند کرتے۔ انسانی نسل اس زمانہ میں جن جن مقامات پر پھیلی تھی، ہر مقام پر خدا کے پیغمبر لگاتار آتے رہے (المومنون، 23:44)۔ ایک حدیث کے مطابق ان پیغمبروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی(مسند احمد، حدیث نمبر22288)۔ مگر تمام پیغمبروں کا یہ حال ہو ا کہ ان کو استہزاء کا موضوع بنا لیا گیا (یس،36:30)
جب آدمی سچائی کا انکار کرتا ہے، بلکہ اس کا مذاق اڑانے پر اتر آتا ہے تو یہ خواہ مخواہ نہیں ہوتا۔ ایسا رویہ آدمی ہمیشہ کسی چیز کے بل پر اختیار کرتاہے۔ اس کے پاس کوئی ناز ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ حق سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یہ کیا ہے۔ اس کا جواب قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (40:83)۔یعنی، جب ان کے پاس ان کے رسول دلائل لے کر آئے تو وہ اس علم پر مگن رہےجو ان کے پاس تھا اور ا ن کو گھیر لیا اس چیز نے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔
یہاں ’’علم‘‘ سے مراد وہ بگڑا ہوا مذہب ہے جو زمانہ گزر نے کے بعد ان قوموں کے نزدیک مقدس بن گیا تھا۔ اس قسم کا آبائی مذہب ہمیشہ ایک قائم شدہ مذہب ہوتاہے۔ اس کے ساتھ مانے ہوئے بزرگوں کے نام وابستہ ہوتے ہیں۔ اس کے اوپر بڑے بڑے ادارے چل رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر ان کا پورا قومی ڈھانچہ کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس کو لمبی روایات کے نتیجہ میں عظمت کا سب سے اونچا مقام مل چکا ہوتا ہے۔
ان قوموں کے پاس ایک طرف ان کا یہ مسلمہ مذہب تھا جو شرک کی بنیاد پر قائم تھا۔ دوسری طرف پیغمبر ایک ایسی توحید کی آواز بلند کرتا جو وقت کے ماحول میں اجنبی ہوتی تھی۔ اس کا داعیِ حق ہوناایک ایسے دعويٰ کی حیثیت رکھتا تھا جس کی پشت پر ابھی تاریخ کی تصدیقات جمع نہیں ہوئی ہیں۔ اس کے پاس اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے لفظی دلیل کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس تقابل میں انہیں وقت کا پیغمبر واضح طور پر حقیر نظر آتا اور ان کا اپنا آبائی مذہب واضح طورپر عظیم۔ حضرت مسیح بے گھر تھے اور درخت کے نیچے سوتے تھے۔ دوسری طرف یہودیوں کا مذہبی سردار ہیکل کی عظیم عمارت میں جلوہ افروز تھا۔ پھر ہیکل کے صدر نشین کے مقابلہ میں درخت کے نیچے سونے والا لوگوں کو زیادہ بر سر حق کیسے نظر آتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قومیں اپنے معاصر پیغمبروں کو استہزاء کا موضوع بناتی رہیں۔ اس استہزاء پر جو چیز انہیں آمادہ کرتی وہ ان کا یہ احساس تھا کہ ہم تو مسلّمہ اکابر کا دامن تھامے ہوئے ہیں، پھر ان کے مقابلہ میں اس معمولی آدمی کی کیا حیثیت۔ اکابر کی اس فہرست میں اگر چہ قدیم انبیاء تک ہوتے تھے۔ مگر ان انبیاء کی حیثیت عملاً ان کے یہاں ایک قسم کے قومی ہیرو کی تھی نہ کہ فی الواقع داعیِ حق کی۔
اعلا ءِکلمۃ اللہ
آپ نے دیکھا ہوگا کہ سٹرکوں کے چورا ہے پر کھمبا لگا ہوتا ہے جس میں ہری اور لال روشنیاں ہوتی ہیں۔ جس رخ پر ہری روشنی ہو ادھر سواریوں کو جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اور جس رخ پر لال روشنی ہو رہی ہواس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ادھر سواریاں نہ جائیں۔ اگر کوئی سواری اس نشان دہی کی خلاف ورزی کرے تو وہ ٹریفک قوانین کے مطابق قابل سزا قرار پاتی ہے۔
داعیٔ حق کی حیثیت اصلاً اسی قسم کے رہنما کھمباکی ہے۔ وہ خدا کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے کہ زندگی کے راستوں پر کھڑا ہو کر لوگوں کو بتائے کہ وہ کدھر جائیں اور کدھر نہ جائیں۔ کون سا راستہ جنت کی طرف جا رہا ہے اور کون سا جہنم کی طرف۔قرآن کی اس آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے:وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا(2:143)۔ یعنی، اور اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔
ابتدائی دورِ توحید کے بعد غلبۂ شرک کے زمانے میں خدا کی طرف سے جو رسول آئے وہ اسی خاص مقصد کے لیے آئے۔ ان کو خد ا نے حقیقت کا صحیح علم دے کر کھڑا کیا کہ وہ قوموں کی رہنمائی کریں اور ان کو یہ بتائیں کہ دنیا کی زندگی میں ان کےلیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ ہر نبی نے اپنی اس ذمہ داری کو پوری طرح انجام دیا۔ انہوں نے ان کی قابلِ فہم زبان میں دلائل کی پوری قوت کے ساتھ لوگوں کےسامنے حق کو پیش کیا اور مسلسل اتنی وضاحت کی کہ ان کے مخاطبین کے سامنے اتمامِ حجت کی حدتک خدا کا پیغام پہنچ گیا۔ پھر جس نے رسول کا ساتھ دیا وہ خد ا کے نزدیک جنتی ٹھہرا ،جس نے رسول کو نہ مانا وہ سرکش اور باغی قرار دے کر جہنم میں ڈال دیا گیا۔
تاہم اللہ تعالیٰ کو حق کے اعلان کے ساتھ یہ بھی مطلوب تھا کہ دوبارہ حق کا اظہار ہو۔ حق کا اعلان تو یہ ہے کہ لوگوں کو حق کے بارے میں پوری طرح بتا دیاجائے۔ خیر خواہی اور حکمت کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کو اس طرح کھول دیا جائے کہ سننے والوں کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ ہم اس سےبے خبر تھے۔ ہم یہ جانتے ہی نہ تھے کہ زندگی میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اسی کا نام اتمام حجت ہے۔
اظہار اس سے آگے کی چیز ہے۔اظہار کا مطلب یہ ہے کہ دینی فکر دنیا کا غالب فکر بن جائے۔اس کے مقابلہ میں دوسرے افکار پست اور مغلوب ہو کر رہ جائیں۔ اس کو دوسرے لفظوں میں اعلا ء کلمۃ اللہ کہا گیا ہے۔ اظہار دین یا اعلاءِ کلمۃ اللہ سے مراد اصلاً حدود و قوانین کا نفاذ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد فکری غلبہ ہے۔ یعنی اسی قسم کا غلبہ جیسا غلبہ موجودہ زمانہ میںجدید علوم کو قدیم روایتی علوم پر حاصل ہواہے۔ مثلاً سرمایہ داری پر سو شلزم کا فکری غلبہ، شہنشا ہیت پر جمہوریت کا فکری غلبہ اور قیاسی فلسفہ پر تجرباتی سائنس کا فکری غلبہ۔ جدید سائنسی دنیا میں بعض علوم نے غالب علم کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ اور بعض دوسرے علوم نے ان کے مقابلہ میں اپنی برتری کھودی ہے۔ اسی قسم کا غلبہ دین حق کا بھی دین باطل کے اوپر مطلوب ہے۔
خدا قادر مطلق ہے۔ اس کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ حق کو دوسری باتوںپر فائق و بر تر کردے جس طرح اس نے سورج کی روشنی کو دوسری تمام زمینی روشنیوں پر فائق کر رکھا ہے۔ مگر موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں خدا اپنے مطلوب واقعات کو اسباب کے روپ میںظاہر کرتا ہے نہ کہ معجزات کے روپ میں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نےفیصلہ کیا کہ اسباب کے دائرہ میں اس مقصد کے لیے تمام ضروری حالات پیدا کیے جائیں اور اس کے بعد ایک ایسا پیغمبر بھیجا جائے جس کو خصوصی طورپر غلبہ کی نسبت دی گئی ہو۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے منصوبہ میں شامل کر کے نہ صرف حق کا اعلان کرے بلکہ حق کا اظہار بھی کردے تاکہ خدا کے بندوں پر خدا کی نعمت کا اتمام ہو اور ان پر ان برکتوں کے دروازے کھلیں جو ان کی نا دانی سے ان کے اوپر بند پڑے ہوئے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کی ان آیتوں میں کہی گئی ہے:
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ، هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ(61:8-9)۔ یعنی، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا خواہ وہ منکروں کو کتناہی ناگوا ر ہو۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دین پر غالب کر دے خواہ وہ مشرکوں کو کتنا ہی نا گوار ہو۔
ایک نئی قوم بر پا کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَنَا دَعْوَةُ إِبْرَاهِيمَ (الطبقات الکبریٰ، جلد1، صفحہ119)۔ یعنی، میں ابراہیم کی دعا ہوں۔ حضرت ابراہیم نے کعبہ کی تعمیر کے وقت یہ دعا کی تھی کہ اے خدا تو میرے لڑکے اسمٰعیل کی اولاد میں ایک نبی پیدا کر (البقرہ، 2:129)۔ تاہم حضرت ابراہیم کی دعا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے درمیان تقریباً ڈھائی ہزار سال کا فاصلہ ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ حضرت زکریا نے اپنی اولاد میں ایک پیغمبر پیدا کیے جانے کی دعا کی تو ایک سال کے اندر ہی آپ کے یہاں حضرت یحیٰ پید اہوگئے (آل عمران، 3:39) اور حضرت ابراہیم نے اسی قسم کی دعا فرمائی تو اس کی عملی قبولیت میں ڈھائی ہزارسال لگ گئے۔ اس فرق کی وجہ کیا تھی۔
اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ حضرت یحییٰ کو ایک وقتی کر دار ادا کرنا تھا۔ آپ اس لیے بھیجے گئے کہ یہود کے دینی بھرم کو کھولیں اور بالآخر ان کے ہاتھوں قتل ہو کر یہ ثابت کریں کہ یہو د اب اتنا بگڑ چکے ہیں کہ انہیں معزول کردیا جائے، اور ان کی جگہ دوسری قوم کو کتاب اِلٰہی کا حامل بنا یا جائے۔ اس کے مقابلہ میں پیغمبر اسلام کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ شرک کو مغلوب کر کے توحید کو غالب فکر کی حیثیت دے دیں۔ اس کام کو اسباب کے ڈھانچہ میں انجام دینے کے لیے ایک نئی صالح قوم اور موافق حالات درکار تھے۔ یہی وہ قوم اور یہی وہ حالات ہیں جن کو وجود میں لانے کے لیے ڈھائی ہزار سال لگ گئے۔
اِس منصوبہ کے تحت حضرت ابراہیم کو حکم ہوا کہ وہ عراق کے متمدن علاقہ سے نکلیں اور حجاز کے خشک اور غیر آباد مقام (بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ)پر اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو لاکر بسا دیں (ابراہیم، 14:37)۔یہ مقام اس وقت وادی غیر ذی زرع ہونے کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ تھا۔ یہاں تمدنی آلائشوں سے دور رہ کر خالص فطرت کی آغوش میں ایک ایسی قوم کی تعمیر کی جا سکتی تھی جس کے اندر خدا کی پیدا کی ہوئی فطری صلاحیتیں محفوظ ہوں (رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ، 2:128)۔ قبولیت دعا میں ڈھائی ہزار سالہ تاخیر کا واضح مطلب یہ تھا کہ مخصوص ماحول میں تو الد و تناسل کے ذریعہ وہ جاندار قوم وجود میں آئے جو خدا کے دین کی سچی حامل بن سکے۔ جو پورے معنوں میں ایک جان دار قوم ہو اور ان تمام مصنوعی کمیوں سے پاک ہو جن کی وجہ سے دور اول میں خدا کے دین کے اظہار کے لیے کا رآمد آدمی نہ مل سکے۔ جب منصوبہ کے مطابق مکمل اسٹیج تیار ہو گیا اس وقت بنو ہاشم کے یہاں آمنہ بنت و ہب کے پیٹ سے وہ پیغمبر ِ غلبہ پیدا کر دیا گیا جس کی دعا حضرت ابراہیم کی زبان پر جاری ہوئی تھی۔
حضرت ابراہیم نے خدا کےحکم سےہاجرہ اور اسمٰعیل کو موجودہ مکہ کے مقام پر لاکر بسا دیا جہاں اس وقت سوکھی زمین اور خشک پتھروں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ جب مشک کا پانی ختم ہو گیا اور اسماعیل پیاس کی شدت سے ہاتھ پاؤں مارنے لگے تو خشک بیابان میں زمزم کا چشمہ نکل آیا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ خد ا نے اگر چہ تم کو بڑے سخت محاذپر کھڑا کیا ہے مگر وہ ایسا نہیں کرے گا کہ تم کو بے سہارا چھوڑدے۔ تمہارا معاملہ خدا کا معاملہ ہے اور خدا ہر نازک موڑ پر تمہاری مدد کے لیے موجود رہے گا۔ اسماعیل جب نو جوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت ابراہیم نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں۔ اس خواب کو انہوںنے حکم خدا وندی سمجھا اور بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے مگر عین اس وقت جب کہ ان کی چھری اسماعیل کے گلے پر پہنچ چکی تھی خدا نے آواز دے کر انہیں روک دیااو ر اس کے بد لے انہیں ایک مینڈھا دیا جس کو وہ خدا کے نام پر ذبح کریں۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ تم سے اگر چہ ہم نے بہت بڑی قربانی مانگی ہے مگر یہ صرف جذبہ کا امتحان ہے۔ قربانی پیش تو کرنا ہوگا مگر ابھی قربان ہونے کی نوبت نہیں آئے گی کہ خدا تمہیں بچالے گا۔ کیونکہ اصل مقصد تم کو ایک بڑے کام کے لیے استعمال کرنا ہے نہ کہ خواہ مخواہ ہلاک کر دینا۔
حضرت اسماعیل بڑے ہوئےتو انہوں نے قبیلہ جرہم کی ایک لڑکی سے شادی کرلی جو زمزم نکلنے کے بعد آکر مکہ میں آباد ہو گیا تھا۔ حضرت ابراہیم جو اس وقت شام میں تھے، ایک روز گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اس وقت گھر پر اسماعیل نه تھے، صرف بیوی موجود تھیں جو اپنے خسر کو پہچا نتی نہ تھیں۔ حضرت ابراہیم نے پوچھا کہ اسماعیل كهاں گئے هيں۔ان کی بیوی نے کہا کہ شکار کرنے کے لیے۔ پھر پوچھا کہ تم لوگوں کی گزر کیسی ہوتی ہے۔ بیوی نے معاشی تنگی اور گھر کی ویرانی کی شکایت کی، اس کے بعد حضرت ابراہیم واپس چلے گئے اور خاتون سے کہا کہ جب اسماعیل آئیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام پہنچا دینا کہ اپنی چوکھٹ کو بدل دو (غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِك)حضرت اسماعیل نے واپسی کے بعد جب پورا واقعہ سنا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ میرے باپ تھے جو ہمارا حال دیکھنے آئے تھے اور ’’چوکھٹ بد ل دو ‘‘ کا مطلب استعارے کی زبان میں یہ ہے کہ اس بیوی کو چھوڑ کر دوسری بیوی کرو،کیونکہ وہ اس نسل کو پیدا کرنے کے لیے موزوں نہیں جس کا منصوبہ خدا نے بنایا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بیوی کو طلاق دے دی اور دوسری عورت سے شادی کرلی۔ اس کے کچھ دن بعد حضرت ابراہیم دوبارہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے، اب بھی اسماعیل گھر پر موجود نہ ملے۔ حضرت ابراہیم نے دوسری بیوی سے بھی وہی سوال کیا جو انہوں نے پہلی بیوی سےکیاتھا۔ اس بیوی نے اسماعیل کی تعریف کی اور کہا کہ جو کچھ ہے بہت اچھا ہے، سب خدا کا شکر ہے، اس کےبعد حضرت ابراہیم یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ اسماعیل آئیں تو ان کو میر اسلام کہنا اور یہ پیغام پہنچا دینا کہ چوکھٹ کو قائم رکھو (أَنْ تُثْبِتَ عَتَبَةَ بَابِك)۔یعنی تمہاری یہ بیوی پیش نظر منصوبہ کےلیے بالکل ٹھیک ہے، اس کے ساتھ اپنا تعلق باقی رکھو (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3364)۔
اس طرح عرب کے الگ تھلک علاقے میں اسماعیل کے ابتدائی خاندان سے ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی جس نے بالآخر اس جاندار قوم(بنو اسماعیل) کی صورت اختیار کی جو نبی آخرالزماں کا گہوارہ بن سکے اور تاریخ کی اس عظیم ترین ذمہ داری کو سنبھالےجو خدا اس کے سپرد کرنا چاہتا تھا۔
یہ قوم جو عرب کےصحراؤں اور چٹیل بیابانوں میں تیار ہوئی، اس کی خصوصیات کو ایک لفظ میں المروءۃ کہا جا سکتا ہے۔ المروءۃ کے لفظی معنی ہیں مرد انگی۔ یہ عربوں کے یہاں کسی کےجو ہر انسانیت کو بتانے کے لیے سب سے اونچالفظ سمجھا جاتا تھا۔ قدیم عربی شاعر کہتا ہے:
إِذَا المَرْءُ أَعْيَتْهُ المُرُوْءَةُ نَاشِئًا فَمَطْلَبُهَا كَهْلًا عَلَيْهِ شَدِيْدُ
(آدمی اگر اٹھتی جوانی میں مردانگی کا مقام حاصل کرنے سے عاجز رہ جائے تو بڑھا پے میں اس کو حاصل کرنا بہت مشکل ہے )
پروفیسر فلپ ہٹی نے عرب تاریخ کا گہرا مطالعہ کیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عرب کے بیابانوں میں صدیوں کے عمل سے جو قوم تیار ہوئی وہ دنیا کی ایک نرالی قوم تھی جو مندرجہ ذیل اخلاقی صفات میں کمال درجہ رکھتی تھی:
Courage, endurance in time of trouble (sabr) observance of the rights and obligations of neighbourliness (jiwar) manliness (muruah) generosity and hospitality regard for women and fulfilment of solemn promises. (p. 253)
ہمت، مشکل کے وقت برداشت، پڑوسی کے حقوق اور ذمہ داریوں کی ادائیگی، مردانگی، فیاضی اور مہمان نوازی، عورتوں کی عزت اور وعدہ کر لینے کے بعد اسے پورا کرنا۔
خیرامت
اس طرح ڈھائی ہزار سالہ عمل کے ذریعہ ایک ایسی قوم نکالی گئی جو اپنے انسانی اوصاف کے اعتبار سے تمام قوموں میں سب سے بہتر تھی۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں:كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(3:110)۔ یعنی، تم بہترین گروہ ہو جس کو لوگوں کے واسطے نکالا گیا ہے۔ صحابیٔ رسول عبد اللہ بن عباس نے خیرامت سے مہاجر ین کا گر وہ مراد لیا ہے (هُمُ الَّذِينَ هَاجَرُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَة) تفسیرالطبری، جلد5، صفحہ672۔مہاجرین دراصل اس گر وہ کی علامت تھے۔ با عتبارِ حقیقت اس سے وہ پورا عرب گروہ مراد ہے جس کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔
پیغمبروں کو ہر زمانہ میں ایک ہی سب سے بڑی رکاوٹ پیش آئی ہے۔ ان کی مخاطب قوموں کے پاس جو آبائی دین ہوتا تھا اس کےساتھ مادی رونقیں اور درودیوار کی عظمتیں شامل ہوتی تھیں۔ دوسری طرف وقت کا پیغمبر دلیلِ مجرد کی سطح پر کھڑا ہوتا تھا۔ عرب میں جو قوم تیار ہوئی اس کے اندر یہ انوکھی صفت تھی کہ وہ حق کو دلیل مجرد کی سطح پر پاسکے۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسے حق کے حوالے کر دے جس نے ابھی ظواہر کا روپ اختیار نہیں کیا ہے۔ کھلے آسمان اور وسیع صحراؤں کے درمیان جو قوم تیار ہوئی وہ حیرت انگیز طور پر اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتی تھی کہ حقیقت کو اس کے بے آمیز روپ میں دیکھ سکے، وہ ایک ایسے حق کے لیے اپنا سب کچھ سونپ دے جس سے بظاہر دنیا میںکچھ ملنے والا نہیں۔ اصحاب رسول کی اس خصوصیت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے تین لفظوں میں اس طرح ادا کیا ہے:وہ اس امت کے سب سے افضل لوگ تھے۔ وہ سب سے زیادہ نیک دل، سب سے زیادہ گہرا علم رکھنے والے اور سب سے کم تکلف والے تھے۔ اللہ نے ان کو اپنے نبی کی صحبت اور دین کے قیام کے لیے چن لیاتھا (كَانُوا خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ، أَبَرَّهَا قُلُوبًا، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا، قَوْمٌ اخْتَارَهُمُاللهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَقْلِ دِينِهِ)شرح السنۃ للبغوی، جلد1، صفحہ 214، اثر نمبر 104۔
دورِ شرک میں انسان سے سب سے اہم صفت جو کھوئی گئی تھی، وہ تھی — حقیقت کو مجرد سطح پر دیکھنے کی صلاحیت۔ اب انسان حقیقت کو محسوسات اور مظاہر کی سطح پر دیکھتا تھا، وہ حقیقت کو مجر د سطح پر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا تھا۔ یہی اصل رکاوٹ تھی جس کی وجہ سے پچھلے زمانہ میں نبیوں کا مذاق اڑایا جاتارہا۔
وہ خدا کے منکر نہ تھے مگر انہوں نے خدا کو محسوسات کے پیکر میں ڈھال لیاتھا۔ وہ غیب میں چھپے ہوئے خدا کو سمجھ نہیں پاتے تھے۔ اس لیے انہوں نے نظر آنے والی چیزوں کو خدائی کا پیکر فرض کر کے ان کو اپنا مرکز توجہ بنا لیا تھا، خواہ یہ مادی بڑائیاں ہوں یا انسانی بڑائیاں۔ ان کی یہی کمزوری پیغمبر کی پیغمبری پر یقین کرنے میں مانع تھی۔ ہر پیغمبر جب آتا ہے تو اپنے زمانہ کے لوگوں کے لیے وہ محض ایک انسان ہوتا ہے۔ ابھی اس کے نام کے ساتھ وہ تاریخی بڑائیاں شامل نہیں ہوتیں جو بعد کے دور میں اس کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔
قرآن کے مطابق، حضرت ابراہیم نے اپنی دعا میں فرمایا تھا:اے میرے رب، اس شہر (مکہ) کو تو امن والا شہر بنا دے اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کو پوجیں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے میرے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک ایسے میدان میں بسایا ہےجہاں کھیتی نہیں ، تیرے محترم گھر کے پاس، اے ہمارے رب تاکہ وہ نماز قائم کریں ( 14:35-37)۔
حضرت ابراہیم کے زمانہ میں شرک کا غلبہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ عالی شان بت خانے ہر طرف قائم تھے۔ انسان کے لیے بظاہر نا ممکن ہو گیا تھا کہ وہ اس سے ہٹ کر سوچ سکے۔ اس وقت اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے ایک چٹیل زمین میں ایک نئی نسل پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ایک محفوظ علاقہ میں ایسے افراد تیار کرنے کا منصوبہ تھا جو ظواہر سے اوپر اٹھ کر حقائق کا پرستار بن سکے۔ چنانچہ اسی انسانی مادہ سے وہ قوم تیار ہوئی، جس کے متعلق قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ( 49:7)۔یعنی، مگر اللہ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں مزین کر دیا اور تمہارے لیے کفر اور فسق اور نا فرمانی کو قابل نفرت بنادیا۔ یہی لوگ راہ راست والے ہیں۔
اس آیت کو ہم اس وقت سمجھ سکتے ہیں جب کہ اس کو ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے حالات میں رکھ کر دیکھیں جب کہ اصحاب رسول کے ایمان کا واقعہ پیش آیا۔ انہوں نےدکھائی دینے والے خداؤں کے ہجوم میں دکھائی نہ دینے والےخدا کو پایا اور اس کو اپنا سب کچھ بنالیا۔ عظمت کے مناروں کے درمیان انہوں نے عظمتوں سے خالی پیغمبر کو پہچانا اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا۔ ایک دین غریب (اجنبی دین) اپنی ساری بے سرو سامانی کے باوجود ان کی نظر میں اتنا محبوب ہو گیا کہ اس کی خاطر کوئی بھی قربانی کرنا ان کے لیے مشکل نہ رہا۔ خلاصہ یہ کہ انہوں نے ایک ایسی سچائی کو دیکھ لیا جو ابھی مجرد روپ میں تھی۔ جس کی پشت پر تاریخ کی تصدیقات ابھی جمع نہیں ہوئی تھیں۔ جو ابھی قومی فخر کا نشان نہیں بنا تھا۔ جس میں اپنا سب کچھ دے دینا تھا۔ مگر دنیا میں اس کے بدلے کچھ بھی پانا نہ تھا۔
اس معاملہ کی ایک نمائندہ مثال وہ ہے جو ہجرت سے پہلے بیعت عقبہ ثانیہ کے وقت پیش آئی۔ عین اس زمانہ میں جب کہ مکہ میں اسلام کےحالات بے حد تنگ ہو چکے تھے، مدینہ میں کچھ مسلمانوں کی تبلیغ سے اسلام پھیلنے لگا۔ حتٰی کہ ہر گھر میں داخل ہو گیا۔ اس وقت مدینہ کے کچھ لوگوں نے طے کیا کہ وہ مکہ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر نصرت کی بیعت کریں اور آپ کومکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کی دعوت دیں۔ حضرت جابر انصاری کہتے ہیں کہ جب مدینہ کے گھر گھر میں اسلام پہنچ گیا تو ہم نے مشورہ کیا کہ آخر کب تک ہم اللہ کےرسول کو اس حال میں چھوڑے رکھیں کہ آپ مکہ کے پہاڑوں میں پریشان اورڈرے سہمے پھرتے رہیں :ثُمَّ ائْتَمَرُوا جَمِيعًا، فَقُلْنَا:حَتَّى مَتَى نَتْرُك رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْرَدُ فِي جِبَالِ مَكَّةَ وَيَخَافُ) مسند احمد، حدیث نمبر 14456(۔ رسول اللہ کا بے یار و مدد گار ہونا ظاہر بینوں کے لیے اس بات کا ثبوت تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہی نہیں۔ اگر اللہ کے رسول ہوتے تو آپ کی یہ حالت کیوں ہوتی۔ مگر اہل مدینہ نے آپ کے معاملہ کو حقیقت کی نظر سے دیکھا۔ انہوں نے یہ راز پالیا کہ آپ کا معاملہ ایک خدائی معاملہ ہے اور آپ کی مدد کر کے وہ خدا کی رحمتوں اور بر کتوں کے مستحق بن سکتے ہیں۔
بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر مدینہ کے ستر سے کچھ اوپر نمائندوں نے مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بیعت کیسے نازک حالات میں ہوئی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس وفد کے ایک رکن کعب بن مالک انصاری کہتے ہیں کہ ہم مدینہ سے مکہ کے لیے اس طرح روانہ ہوئے کہ ہمارا قبیلہ جو حسب معمول زیارت کعبہ کے لیے جا رہا تھا اس کے ساتھ خاموشی سے حج کے نام پر شریک ہوگئے۔ مکہ کے قریب قبیلہ والوں نے پڑاؤ ڈالا۔ رات کے وقت ہم دوسروں کی طرح ان کے ساتھ سو گئے۔ یہاں تک کہ جب رات کا تہائی حصہ گزر گیا تو ہم رسول اللہ کی قرار داد کے مطابق اپنے بستر وں سے خاموشی کے ساتھ اٹھے، اور مقام موعود کی طرف اس طرح چلے جیسے چڑیا جھاڑیوں میں آہستہ آہستہ چھپتی ہوئی چلتی ہے (نَتَسَلَّلُ تَسَلُّلَ الْقَطَا مُسْتَخْفِينَ) سیرۃ ابن ہشام، جلد1، صفحہ441۔
وہ لمحہ بھی کیسا عجیب تھا جب کہ ایک دنیا پیغمبر کو رد کر چکی تھی، اس وقت کچھ لوگ اس کو قبول کرنے کے لیے سبقت کر رہے تھے، یہ وہ وقت تھا کہ پیغمبر سے ان کا وطن چھینا جا چکا تھا۔ طائف سے انہیں پتھر مار کر بھگا دیا گیا تھا۔ تمام قبائل نے آپ کو پناہ میں لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسے نازک وقت میں مدینہ کے لوگوں نے آپ کی صداقت کو پہچانا اور آپ کی پکار پر لبیک کہا۔ اس وقت جب کہ انصار مدینہ بیعت کے لیے بڑھے، ایک شخص نے اٹھ کر کہا، کیا تم جانتے ہو کہ تم کس چیز پر بیعت کر رہے ہو۔ یہ اپنے اموال اور اپنی اولاد کو ہلاک کرنے پر بیعت کرنا ہے۔ انہوں نے کہا ں ہاں۔ ہم عَلَى نَهْكَةِ الْأَمْوَالِ، وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ بیعت کر رہے ہیں پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہم نے اس عہد بیعت کو آخر تک پورا کر دیا تو ہمارے لیے کیا ہے۔ آپ نے فرمایا جنت )فَمَا لَنَا بِذَلِك يَا رَسُولَ اللهِ إنْ نَحْنُ وَفَّيْنَا بِذَلِكَ؟ قَالَ:الْجَنَّةُ(۔ انہوں نے کہا، اپنا ہاتھ لائیے، ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کر تے ہیں(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 446)۔ اپنے آپ کو اس طرح ایک متنازعہ صداقت کے حوالے کرنا، اپنا سب کچھ اس طرح ایک غیر قائم شدہ حق کو سونپ دینا اتنا انوکھا واقعہ ہے کہ وہ اجتماعی سطح پر تاریخ میں صر ف ایک ہی بار پیش آیا ہے، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔
غیر متعلق مسائل سے تعرض نہ کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو عرب میں وہ تمام مسائل پوری طرح موجود تھے جن کو موجودہ زمانہ میں قومی مسائل کہا جاتا ہے اور جن مسائل کے نام پر عام طور پر دنیا میں تحریکیں اٹھتی ہیں۔ یہ مسائل ذہین افراد کو متاثر کر تےہیں اور وہ ان کا نعرہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںیہ تمام مسائل موجود تھے لیکن آپ نے ان سے مطلق تعرض نہیں کیا۔ اگر آپ ان مسائل میں الجھتے تو یہ خدا کے منصوبہ میں اپنے کو شامل کرنا نہ ہوتا۔ وہ سارے مواقع جو ڈھائی ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں پیدا کیے گئے تھے بر باد ہو کر رہ جاتے۔
1۔ حبش نے 525ء میں عرب کے سرحدی علاقہ یمن پر قبضہ کر لیا تھا۔ ابر ہہ اس زمانہ میں شاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر تھا۔ ابرہہ کے حوصلے اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال (570ء) میں اس نے ہاتھیوں کی فوج سے مکہ پر حملہ کیا تاکہ کعبہ کو ڈھادے اور مکہ کی مرکزی حیثیت کو ختم کردے۔ 50سالہ قبضہ کے بعد یمن پر حبش کی حکومت ختم ہوئی اور اس پر شاہ فارس کی حکومت قائم ہو گئی جس کی طرف سے باذان یمن کا گورنر مقرر ہوا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، اور اس کی خبر کسریٰ (شاہ فارس) کو پہنچی تو اس نے با ذان کو لکھا کہ اس آدمی کے پاس جاؤ جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے کہو کہ وہ اس دعوی سے باز آئے۔ اگر وہ باز نہ آئے تو اس کا سرکاٹ کر میرے پاس بھیجو ( وَإِلَّا فَابْعَثْ إلَيَّ بِرَأْسِهِ) سیرۃ ابن ہشام، جلد1، صفحہ69۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرب میں ظاہر ہوئے تو اس وقت عرب کی سرحدوں پر غیر ملکی قبضہ نے کیسے سنگین مسائل پیدا کر رکھے تھے۔ ان حالات میں ایک صورت یہ تھی کہ آپ اپنے ہم قوموں کو غیر ملکی قبضہ کے خلاف اکساتے اور اس کے خلاف جنگ چھیڑ دیتے۔ اگر آپ ایسا کرتے تو یہ خدا کے منصوبے سے انحراف کے ہم معنی ہوتا۔ کیونکہ خدا کا منصوبہ تو یہ تھا کہ لوگوں سے غیر متعلق امور پر ٹکراؤ نہ کیا جائے بلکہ خاموشی سے دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھا جائے۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور تاریخ نے دیکھا کہ با لآخر خود باذان نے اسلام قبول کر لیا اور یمن کے عیسائی با شندوں کی اکثریت نے بھی— جو مقصد ایک قومی لیڈرنا کام طور پر سیاسی کا ر روائیوں کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا وہ آپ نے کامیاب طور پر دعوتی کا ر روائی کے ذریعہ حاصل کر لیا۔
2۔ ابو طالب کی وفات کے بعد قبائلی رسم کے مطابق بنو ہاشم کا سردار ابو لہب مقررہوا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حمایت میں لینے سے انکار کر دیا۔ اب آپ کو کسی دوسرے حمایتی قبیلہ کی ضرورت پیش آئی۔ آپ حمایتی کی تلاش میں مختلف قبائل کے پاس گئے۔ عرب کا ایک سرحدی قبیلہ بنو شیبان بن ثعلبہ تھا۔ آپ اس سے ملے تو قبیلہ کے سردار مثنیٰ بن حارثہ نے کہا کہ ہم کسریٰ (شاہ فارس) کی مملکت کے قریب رہتے ہیں۔ وہاں ہم ایک معاہدہ کے تحت مقیم ہیں جو کسریٰ نے ہم سے لیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم کوئی نئی بات نہ کریں گے اور نہ کسی نئی بات کرنے والے کو پناہ دیں گے۔ اور شاید بادشاہوں کو وہ بات نا پسند ہو جس کی طرف آپ بلاتے ہیں (أَنْ لَا نُحْدِثَ حَدَثًا، وَلَا نُؤْوِيَ مُحْدِثًا، وَلَعَلَّ هَذَا الْأَمْرَ الَّذِي تَدْعُونَا إِلَيْهِ مِمَّا تَكْرَهُهُ الْمُلُوكُ) السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد2، صفحہ 168۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اطراف عرب میں بیرونی سلطنتوں کے نفوذ نے جو مسائل پیدا کیے تھے وہ صرف سیاسی یا ملکی ہی نہ تھے بلکہ دعوت و تبلیغ کے معاملہ تک بھی پہنچ گئے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے ایسا نہیں کیا کہ یہ کہہ کر پہلے مرحلہ ہی میں ان سے لڑائی چھیڑدیں کہ جب تک یہ خارجی رکاوٹیں دور نہ ہوں کوئی دعوتی کام نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ اول مرحلہ میں ان خارجی طاقتوں سے لڑجاتے تو یہ خدائی منصوبہ کے خلاف ہوتا۔ کیونکہ خدائی منصوبہ تو یہ تھا کہ روم و فارس کو آپس میں بیس سال تک لڑا کر بالکل کمزور کر دیا جائے اور پھر خود انہیں پر جار حیت کا الزام ڈال کر مسلمانوں کے لیے ان کو فتح کرنا آسان بنا دیا جائے۔ اگر مسلمان ابتدائی مرحلہ میں روم و فارس سے لڑ جاتے تو وہ نتیجہ بالکل بر عکس صورت میں نکلتا جو بعد کے تصادم کے ذریعہ حیرت انگیز غیر ملکی فتو حات کی صورت میں بر آمد ہوا۔
خدائی منصوبہ سے مطابقت
کسان کا معاملہ قدرت کےکاگ (دندانہ) میں اپنا کاگ دینے کا معاملہ ہے۔ خدا نے ہماری زمین پر فصل اگانے کے بہترین امکانات پیدا کیے ہیں۔ مگر ان امکانات کو اپنے حق میں واقعہ بنا نے کے لیے کسان کو ایک حصہ ادا کرنا پڑتاہے۔ مثال کے طور پر زمین کی سطح پر زرخیز مٹی (Soil) کی تہ رکھی گئی ہے جو معلوم کائنات میں کسی بھی دوسرے مقام پر نہیں۔ مگر تمام زرخیزی کے با وجود اس مٹی سے فصل اسی وقت اُگتی ہےجب کہ اس میں نمی بھی ہو۔اس نمی کے نہ ہونے کی وجہ سے خشک علاقوں کے صحراچٹیل بیابان بن کر رہ گئے ہیں، اس حقیقت کو قدرت لاؤڈاسپیکر پر اعلان کر کے نہیں بتاتی بلکہ خاموش اشارہ کی زبان میں بتاتی ہے۔ کسان کو اسے خاموش اشارہ کی زبان میں جاننا پڑتاہے۔ چنانچہ کسان یہ کرتا ہے کہ وہ یا تو بارش سےنم ہونےوالی زمین میں اپنی فصل بوتا ہے یا آب پاشی کے ذریعہ پہلے اس میں نمی پہنچاتا ہے، پھر اپنا دانہ اس میں ڈالتا ہے۔ یہی معاملہ داعی کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عرب میں اگر چہ بہترین حالات پیدا کر دیے گئے تھے اس کے باوجود ضروری تھا کہ آپ ربانی حکمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے کام کو آگے بڑھائیں۔ اگر آپ کا منصوبہ خدائی منصوبہ کی رعایت کے بغیر چلتا تو آپ کو کبھی وہ کامیابی حاصل نہ ہوتی جو عملاً آپ کو حاصل ہوئی۔
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا بنیادی اصول یہ تھا کہ دعوتی عمل میں ساری اہمیت مسئلۂ آخرت کو دی جائے۔ مسئلۂ دنیا کو کسی بھی حال میں دعوت کا اِشونہ بنایا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی مسئلہ انسان کا ابدی اور حقیقی مسئلہ ہے۔ دوسرے تمام مسائل وقتی اور اضافی مسئلے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آخرت کے بغیر انسان کی کامیابی بھی اتنی ہی بے معنی ہے جتنی کہ اس کی نا کامی بے معنی۔
دوسری بات یہ کہ انسانی زندگی میں ہر قسم کی کا میابی کا تعلق افراد کے کردار سے ہے۔ اور انسان کے اندر حقیقی اور مستقل کر دار صرف آخرت پر گہرے یقین ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ عقیدۂ آخرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان آزاد اور خود مختار نہیں ہے، بلکہ وہ ہر آن خدا کی پکڑ میں ہے۔ یہ عقیدہ آدمی سے بے راہ روی کا مزاج چھین لیتا ہے اور اس کو پابند اور ذمہ دار انسان بنا دیتاہے۔ قرآن و حدیث کو اگر خالی الذہن ہو کر پڑھا جائے تو اس میں آخرت کا مسئلہ سب سے زیادہ ابھرا ہوا مسئلہ نظر آئے گا۔ دوسرے مسئلوں کا ذکر بھی اگر چہ آتا ہے مگر وہ ضمناً ہے، نہ کہ اصلاً۔
2۔ دوسری بات یہ کہ داعی اور مدعو کے درمیان کسی بھی حال میں کوئی مادی جھگڑانہ کھڑا کیا جائے۔ مدعو کو کسی بھی حال میں فریق نہ بننے دیا جائے۔ خواہ اس کی جو بھی قیمت دینی پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس حکمت کی ایک نمایاں مثال حدیبیہ کا معاہدہ ہے۔ قریش نے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ کر یہ صورت حال پیدا کر دی تھی کہ مسلم گر وہ اور غیر مسلم گروہ دونوں ایک دوسرے کے جنگی فریق بن گئے تھے۔ تمام وقت جنگ کی باتوں اور جنگ کی تیاریوں میں گزرنے لگا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ہر مطالبہ کو مانتے ہوئے ان سے دس سال کا نا جنگ معاہدہ کر لیا۔ یہ معاہدہ اس قدر یک طرفہ تھا کہ بہت سے مسلمانوں نے اس کو ذلت کا معاہدہ سمجھا، مگر خدا کے نزدیک وہ فتح مبین (الفتح، 48:1) کا دروازہ تھا۔ کیونکہ اس کے ذریعہ جنگی مقابلہ آرائی کی فضا ختم ہوتی تھی اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ بحال ہو رہاتھا۔ چنانچہ اس معاہدہ کے بعد جیسے ہی اہل عرب جنگی فریق کے بجائے مدعو کے مقام پر آئے، ان کے درمیان دعوت حق کی آواز پھیلنے لگی۔ یہاں تک کہ صرف دوسال میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً دس گنابڑھ گئی۔ جو مکہ جنگ سے فتح ہوتا نظر نہ آتا تھا وہ دعوتی عمل کے ذریعہ مسخر ہو گیا۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مدعو پر قابو پانے کے باوجود اس کے ساتھ فراخی کا سلوک کیا جائے۔ اس معاملہ کی مثالیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ فتح مکہ کے بعد قریش کے تمام وہ لوگ پوری طرح آپ کے قابو میں تھے جنہوں نے آپ کے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ بد ترین ظلم کیے تھے۔ مگر آپ نے ماضی کے جرائم کی بنیاد پر کسی کو سزا نہ دی۔ سب کو یک طرفہ طور پر معاف کر دیا۔ قریش کے لوگ جب بندھے ہوئے آپ کے سامنے حاضر کیے گئے تو آپ نے فرمایا:اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ412)۔ یعنی، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ کچھ لوگوں کے بارے میں آپ نے وقتی طور پر قتل کیے جانے کا حکم دے دیا۔ مگر اس کے بعد ان میں سے بھی ہر اس شخص کو معاف کر دیا گیا جب کہ اس نے یا اس کی طرف سے کسی نے آکر آپ سے جان بخشی کی درخواست کی۔ اس قسم کے سترہ نا مزد آدمیوں میں سے صرف پانچ کو قتل کیا گیا جنہوں نے معافی نہیں مانگی تھی۔ احد کی جنگ میں وحشی بن حرب نے حضرت حمزہ کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد ہند بنت عتبہ نےآپ کی لاش کو لے کر اس کا مثلہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو وقتی طور پر آپ کی زبان سے نکل گیا کہ اگر اللہ نے مجھے ان کے اوپر فتح دی تو میں ان کے تین آدمیوں کا مثلہ کروں گا (لَئِنْ أَظْهَرَنِي اللهُ عَلَى قُرَيْشٍ فِي مَوْطِنٍ مِنَ الْمَوَاطِنِ لَأُمَثِّلَنَّ بِثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْهُمْ)السیرۃ النبویۃ، لابن کثیر، جلد3، صفحہ79۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے جن سترہ آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا ان میں وحشی اور ہند دونوں شامل تھے۔ مگر دونوں نے جب آپ کی خدمت میں آکر معافی مانگی تو دونوں کومعاف کر دیا گیا۔ کیونکہ یہی طریقہ منصوبۂ اِلٰہی کے مطابق تھا۔
یہ اصول بے حد اہم حکمت پر مبنی ہے۔ انسان پتھر نہیں ہے کہ ایک پتھر توڑ دیا جائے تو اس کے دوسرے قریبی پتھر توڑنے والے کے بارے میں کوئی رد عمل ظاہر نہ کریں۔ انسان زندہ معاشرہ کا ایک زندہ جزء ہے۔ جب بھی ایک انسان پر جا رحانہ کا رروائی کی جاتی ہےتو اس کے قریبی لوگوں میں انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتاہے۔ اس طرح سماج میں تخریبی کارروئیاں جنم لیتی ہیں۔ فتح کے بعد جو وقت نئی تعمیر میں لگتا وہ تخریب کاروں کا مقابلہ کرنے میں صرف ہونے لگتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد پچھلے مخالفین کو عمومی معافی دے کر آئندہ کے لیے ہر قسم کی تخریبی سر گرمیوں کا در وازہ بند کر دیا۔ مزید یہ کہ ان کی اکثر یت اسلام قبول کر کے اسلام کی طاقت کا ذریعہ بن گئی، جیسے کہ عکر مہ بن ابی جہل۔
4۔ فتح و غلبہ حاصل کرنے کے بعداجتماعی معاملات کی اصلاح کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلد بازی کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا بلکہ صبر و تدریج کے ذریعہ اصلاحات کا نفاد کیا۔
مکہ کے قریش دین ابراہیمی کے وارث تھے۔ مگر انہوں نے اصل دین ابراہیمی کو بگاڑ دیا اور اس میں بہت سی بد عتیں جاری کردیں۔ مثلاً حضرت ابراہیم نے حج کو قمری مہینوں کی بنیاد پر ذی الحجہ میں قائم کیا تھا۔ قمری سال شمسی سال سے گیارہ دن کم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے قمری مہینوں کی مطابقت موسموں کے ساتھ باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ حج کبھی ایک موسم میںآتا اور کبھی دوسرے موسم میں۔ یہ صورت قریش کے تجارتی مفاد کے خلاف تھی۔ انہوں نے حج کو ہمیشہ گرمی کے موسم میں رکھنے کے لیے نسی (کبیسہ) کا طریقہ اختیار کر لیا۔ وہ قمری مہینوں میں ہر سال گیارہ دن بڑھا دیتے۔ اس طرح نام اگر چہ قمری مہینوں کا ہوتا مگر عملاً اس کا سال شمسی سال کے ساتھ چلتا۔ اس کی وجہ سے تاریخیں 33سال تک کےلیے بدل جاتیں،ایک بار مہینوں کو اپنی جگہ سے ہٹانے کے بعد دوبارہ 33سال پر ایسا ہوتا کہ حج ابراہیمی طریقہ کے مطابق اصل ذی الحجہ میں پڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مامور تھے کہ وہ قریش کی بد عتوں کو ختم کر کے حج کو دوبارہ ابراہیمی طریقہ پر قائم کریں۔ فتح مکہ (رمضان 8ھ) کے بعد آپ عرب کے حکمراں بن گئے۔ آپ ایسا کر سکتے تھے کہ نسیٔ کی بدعت کو فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیں۔ مگر آپ نے صبر سے کام لیا۔ اس وقت نسیٔ کے 33سالہ دور کو پورا ہونے میں صرف دو سال باقی تھے۔ آپ نے دو سال انتظار فرمایا۔ مکہ کے فاتح ہونے کے باوجود دو سال آپ حج کے لیے نہیں گئے۔ آپ نے صرف تیسرے سال (10ھ) حج کی عبادت میں شرکت کی جو کہ 33سالہ دو ر کو پورا کر کے ٹھیک ابراہیمی تاریخ پر ذی الحجہ میں ہو رہا تھا۔ اس وقت حجۃ الوداع میں آپ نے اعلان فرما دیا کہ اس سال حج جس طرح ہو رہا ہے اسی طرح اب ہر سال ہوگا۔ اب نسیٔ کا اصول ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ یہی بات ہے جو حجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ نے ان الفاظ میں ادا فرمائی:
أَلَا وَإِنّ الزّمَانَ قَدْ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَإِنّ عِدّةَ الشّهُورِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ (مغازی الواقدی، جلد3، صفحہ1112)۔ یعنی،اے لوگو! زمانہ گھوم گیا۔ پس آج کے دن وہ اپنی اس ہیئت پر ہے جس دن کہ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ اور مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں 12مہینے ہیں۔
اس تاخیر میں بہت گہری مصلحت تھی۔ کیونکہ مذہب میں جب کوئی طریقہ عرصہ تک رائج رہے تو وہ مقدس بن جاتا ہے۔ لوگوں کے لیے اس کے خلاف سوچنا مشکل ہو جا تا ہے۔ چونکہ دوسال بعد خود ہی حج ان تاریخوں پر آرہاتھا جو آپ چاہتے تھے۔ اس لیے آپ نے قبل ازوقت اقدام کر کے غیر ضروری مسئلہ کھڑا کرنےسے پرہیز کیا۔ جب فطری رفتار سے حج اپنی اصل تاریخ پر آگیا تو آپ نے اعلان فرما دیا کہ یہی حج کی اصل تاریخ ہے اور آئندہ اب انہیں تاریخوں میں حج ہوتا رہے گا۔
یہ چند مثالیں ہیں جن سےاندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنی پوری تحریک میں ربانی حکمت کو ملحوظ رکھا۔ آپ نے خدا کے کاگ میںاپنا کاگ ملایا، آپ نے خدائی منصوبہ سے موافقت کرتے ہوئے تمام کا رروائیاں کیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی کوششوں کے عظیم الشان نتائج بر آمد ہوئے۔
حالات سے بلند ہو کر
قدیم عرب کا تصور کیجیے۔ جنوب میں بحر عرب اور مشرق و مغرب میں خلیج فارس اور بحر احمر کے درمیان بننے والا یہ جزیرہ نما ز بردست سیاسی مسائل سے دو چار تھا۔ عرب کے مشرق میں ایران تھا جہاں طاقت ور سا سانی سلطنت قائم تھی۔ شمال میں رومی یا باز نطینی سلطنت تھی جو دور قدیم کی سب سے بڑی شہنشا ہیت مانی جاتی ہے۔ ان دونوں سلطنتوں نے عرب جغرافیہ کو اپنی سیاست کا اکھاڑہ بنا رکھا تھا۔ عرب کے بہترین زر خیز علاقے براہ راست ان کے قبضے میں تھے۔ عراق پر ایرانیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔شام اور اردن اور فلسطین اور لبنان رومی سلطنت کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ عرب کے مشرق و مغرب میں اگر چہ خلیج فارس اور بحراحمر کی قدرتی آبی دیوار یں تھیں مگر یہ حصے بھی پڑوس کی طاقت و ر شہنشاہیتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہ تھے۔ مشرق سے ایران کے بحری بیڑے خلیج عمان کو عبور کر کے نہایت آسانی سے عرب کے علاقے میں گھس آتے تھے۔ مغرب میں بحرا حمر کے اُس پار کے دونوں ممالک مصر اور حبشہ رومی شہنشا ہیت کے ماتحت تھے۔ اور وہ ان کے ذریعے سے ہروقت عرب کے بظاہر اس محفوظ حصہ میں دخل اندازی کر سکتے تھے۔
عرب کے اندرونی علاقہ میں قبائلی سرداروں کی ریاستیں قائم تھیں۔ مگر رومیوں اور ایرانیوں کے عمومی تسلط کی وجہ سے ان کے لیے بھی زندگی کی صورت یہی تھی کہ ان بیرونی شہنشا ہیتوں کی ماتحتی قبول کر کے اپنا سیاسی جزیرہ بنائیں۔ شمال میں شام کی سرحدوں سے ملی ہوئی امارت غسا سنہ عربیہ تھی جو رومی سلطنت کے تابع تھی اور بعثت نبوی کے زمانہ میں اس کا امیر حارث بن ابی شمر غسانی تھا۔ اسی طرح امارت بصری تھی۔ وہ بھی رومی شہنشا ہیت کے زیر اثر تھی۔ یہاں رومی تمدن چھا یا ہوا تھا اور ان کے اثر سے یہاں کے باشندوں کی بڑی تعداد مسیحی ہو گئی تھی۔
عراق کی سرحد پر امارت حیرہ عربیہ تھی جو ایران کے تابع تھی۔ خلیج فارس کے کنارے کنارے متعد د عرب ریاستیں تھیں۔ وہ سب ایران کے زیر اثر تھیں،مثلاً امارت بحرین، جس کا امیر منذربن ساوی تھا۔ یہاں کے باشندوں کی بڑی تعداد ایرانی تہذیب کے اثر سے مجوسی ہو چکی تھی۔ امارت عمان، جس کے امیر جلندی کے دو لڑ کے جیفر اور عبد تھے۔ امارت یمامہ، جس کا امیر ہو دہ بن علي الحنفی تھا۔ رومیوں اور ایرانیوں میں سیاسی رقابت کی وجہ سے اکثر جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان میں رومیوں کی ماتحت عرب ریاستیں (مثلا غساسنہ) روم کا ساتھ دیتی تھیں اور ایران کی ماتحت عرب ریاستیں (مثلاً حیرہ) ایران کا۔ اس طرح ایران و روم کی باہمی لڑائیوں میں عرب خون بھی خوب بہتا تھا۔
قدیم یمن، موجودہ یمن سے بہت زیادہ و سیع تھا۔ اس میں مختلف قبائل کی حکومتیں قائم تھیں۔ سب سے بڑا یمنی علاقہ وہ تھا جس کا دارالسلطنت صنعا تھا۔ نجران اسی کے اندر واقع تھا۔ یمن میں بیرونی نفوذ کا آغاز غالباً 343ء سے ہوتا ہےجب کہ سلطنت روم نے یہاں اپنے عیسائی مبلغین بھیجنے شروع کیے۔ ان عیسائی مبلغین کو نجران میں کامیابی ہوئی اور وہاں کے بیشتر لوگ عیسائی ہوگئے۔
اس مذہبی واقعہ میں روم کے حریف ایران کو سیاست کی بومحسوس ہوئی۔ انہوں نے سمجھا کہ اس طرح رومی شہنشاہ عرب کے جنوبی علاقہ میں نفوذ حاصل کرنا چاہتاہے۔ ایرانیوں نے اس کے توڑ کے لیے یمن کے یہودی قبائل کو ملایا جن کو رومی سلطنت نے 70 ء میں شام سے نکال دیا تھا اور وہ وہاں سے جلا وطن ہو کر یمن میں آئے تھے۔ عیسائیوں اور رومیوں کی ضد میں یہودی بہت جلد ایرانیوں کے ساتھ ہوگئے۔ یوسف ذو نو اس جو ایک عرب تھا اور پھر یہودی ہو گیا تھا ایرانیوں کی مددسے اس نے صنعا پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ یہ ایک نیم آزاد عرب حکومت تھی جو ایرانیوں کے ماتحت قائم ہوئی تھی۔ یوسف ذو نواس نے یمن کی بادشاہت حاصل کرنے کے بعد عیسائیوں کو یمن سے ختم کرنے کی کوشش شروع کردی۔ حتٰی کہ 534ء میں نجران کے بہت سے عیسائیوں کو زندہ جلا دیا۔
اب رومیوں کی باری تھی۔ قیصر روم نےیمن میں عیسائیت کے تحفظ کے نا م پر اور حقیقتہً اپنے نفوذ کو بحال کرنے کے لیے ایک تدبیر کی۔ اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔ نجاشی مذہباً عیسائی تھا اور رومی حکومت کے ماتحت تھا اس نے نجاشی کو ابھار ا کہ یوسف ذو نواس سے بدلہ لے۔ نجاشی نے ایک حبشی سردار اریاط کو فوج دے کر روانہ کیا۔ اس نے مختصر جنگ کے بعد صنعا پر قبضہ کر لیا۔ ذو نو اس نے سمندر میں ڈوب کر خود کشی کرلی۔ کچھ دنوں بعد اریاط کی فوج کے ایک سردارابرہہ نے بغاوت کر کے اریاط کو قتل کر ڈالا۔ اور نجاشی کو راضی کر کے صنعاء کی حکومت کا فرمان حاصل کر لیا۔ یہی ابرہہ ہے جس نے 571ء میں کعبہ پر حملہ کیا۔ ابرہہ کے بعد اس کا بیٹا یکسوم اور اس کے بعد دوسرا بیٹا مسروق حکمراں ہوا۔
سابق ملوک یمن کی اولاد میں ایک شخص سیف بن ذی یزن تھا۔ اس کو خیال ہوا کہ اپنے ملک کو غیر عربوں کے نفوذ سے پاک کرے اوراپنی آبائی سلطنت کو دوبارہ حاصل کرے۔ اس نےیمن میں آزادی کی تحریک (حرکۃ تحریریۃ)چلائی، صرف مقامی تعاون مقصد کے حصول کے لیے نا کافی تھا۔ چنانچہ وہ ایرانی بادشاہ نوشیرواں کے پاس پہنچا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اپنی فوج سےیمن کی تحریک آزادی کی مدد کرے۔ ایرانی شہنشاہ کے لیے یہ سنہرا موقع تھا۔ اس نے ایک ایرانی سپہ سالار دھرزکی سرکردگی میں ایک لشکر یمن بھیجنے پر آماد گی ظاہر کردی۔ اس درمیان میںسیف بن ذی یزن مرگیا۔ تاہم اس کا لڑکا معدی کرب ایرانی فوج کو یمن لانے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ لوگ خلیج عمان کو عبور کر کے حضرموت کے ساحل پر اتر ے۔ وہاں سے صنعا ء پہنچے۔ معدی کرب نے ایرانی لشکر کی مدد سے حبشہ کی فوج کو شکست دےدی اور حبشیوں کو یمن سے نکال دیا۔ اب معدی کرب صنعا ء کا بادشاہ تھا تاہم ایرانی فوج بھی یہاں مقیم رہی۔ معدی کرب کے مرنے کے بعد ایرانی فوج نے صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح صنعا ء ایرانی سلطنت کا ایک سمندر پا رصوبہ بن گیا۔ جب اسلام یمن میں پہنچا ہے تو صنعا ء کے ایرانی گورنر باذان تھے جو بعد کو مسلمان ہوگئے۔
مذکورہ تفصیلات سے ظاہر ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام کی بعثت ہوئی تو عرب کا علاقہ کس طرح ایرانی اور رومی استعمار کی شکار گاہ بناہوا تھا۔ ان حالات میں ایک مصلح کے لیے بیک وقت دوراستے کھلے ہوئے تھے۔ ایک یہ کہ وقت کے حالات سے متاثر ہو کر سا مراجی طاقتوں کے خلاف سیاسی لڑائی شروع کر دی جائے۔ دوسرے یہ کہ خود اپنے آپ کو اندر اندر اتنا مضبوط بنایا جائے کہ سامراج کی عمارت معمولی کوشش سے گر پڑے۔ آپ نے اپنی مہم کے لیے پہلے طریقہ کے بجائے دوسراطریقہ اختیار کیا۔ قرآن کی سورہ نمبر105(الفیل) اور سورہ نمبر 106(قریش) میں ابرہہ (حاکم یمن) کے مکہ کے خلاف جار حانہ منصوبہ کا ذکر ہے۔ مگر اس کے جواب میں جس عمل کی تلقین کی گئی ہے، وہ رب کعبہ کی عبادت (قریش، 106:3) ہے۔ گویا اسلامی مزاج یہ ہے کہ سیاسی چیلنج در پیش ہو تو اس کا جواب بھی عبادتی عمل کی سطح پر تلاش کیا جائے۔
پیغمبر انہ طریق کار
اسلام کا آغاز 610ء میںہوا جب کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم( 570-632)پر پہلی وحی اتری۔ اس وقت آپ ساری دنیا میں تنہا مومن و مسلم تھے۔ 622ء میں آپ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور وہاں پہلی اسلامی مملکت قائم کی۔ اس وقت یہ اسلامی مملکت ایک چھوٹے سے شہر کے صرف چند حصوں پر مشتمل تھی۔ کیونکہ مدینہ کا بیشتر حصّہ یہودیوں یا اب تک اسلام نہ لائے ہوئے عربوں کے قبضہ میں تھا۔ مگر اس کے گیارہ سال بعد جب پیغمبر اسلام کی وفات ہوئی تو اسلامی مملکت تقریباً دس لاکھ مربع میل (پورے عرب اور جنوبی فلسطین) پر پھیل چکی تھی۔ اس کے بعد سوبرس سے بھی کم عرصہ میں اسلام ایک طرف شمالی افریقہ کے راستے سے اسپین اور دوسری طرف ایران کے راستے سے چین کی سرحدوں تک جا پہنچا۔ مشرقی یورپ میں اسلام کی پیش قدمی کی آخری حد بوڈاپسٹ (ہنگری) تھی جہاں آج بھی دریائے وانوب کے کنارے ’’گل بابا‘‘ کا ترکی طرز کا مزار نشانی کا کام دے رہا ہے۔ فرانس کے بعض گر جاؤں کے مناروں میں ایسے پتھر لگے ہوئے ہیں جن پر عربی عبارتیں کندہ ہیں۔ یہ آٹھویں صدی عیسوی کی یادگار ہے جب کہ فرانس کا جنوبی علاقہ خلیفہ دمشق کا یورپین صوبہ تھا۔ پیغمبر عربی کی امت نے شتر بانی کے مقام سے آغاز کر کے ہجرت کے صرف دو سو برس بعد یہ حیثیت حاصل کرلی تھی کہ وہ دنیا کے امام بن گئے۔ ایران کے اصطخر، مصر کےرميسس اور یورپ کے روم کی جگہ اب دنیا کا فکری و تمدنی مرکز بغداد تھا۔
یہ شان دار کا میابی ایک انتہائی سادہ پروگرام کے ذریعہ حاصل ہوئی جو قرآن کے لفظوں میں حسب ذیل تھا :
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَأَنْذِر، وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ، وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ، وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ، وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر، وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (74:1-7)۔ یعنی، اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھ، لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بول۔ اور اپنے اخلاق کو اچھا بنا۔ اور گندی باتوں کو چھوڑدے اور ایسا نہ کر کہ احسان کرے اور بدلہ چاہے اور اپنے رب کے لیے صبر کر۔
اس پروگرام کا خلاصہ کریں تو اس کے صرف تین نکات قرار پائیں گے:
1۔ ذاتی اصلاح، اس طرح کہ خدا کی عبادت کی جائے، اپنے اخلاق کو درست کیا جائے اور ہر قسم کے برے کاموں کو چھوڑ دیا جائے۔
2۔ انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ وہ ایک خدا کا بندہ ہے اور مرنے کے بعد اسے خدا کے سامنے حاضر ہوناہے۔
3۔ اپنی اصلاح اور دوسروں کو آگاہی دینے کی اس جدو جہد میں جو مشکلات ومصائب پیش آئیں ان پر صبر کرتے ہوئے خدا کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے۔
اندرونی طاقت
اسلامی جدوجہد اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے ایک ذاتی جد وجہد ہے۔ ایک بندۂ مومن کو جو چیز متحرک کرتی ہے وہ تمام تریہ جذبہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کے یہاں نجات حاصل کر سکے۔ اسلام جب کسی کے دل میں حقیقی طور پر جگہ کرتا ہے تو اس کے تمام جذبات اس ایک سوال پر مرکوز ہو جاتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے رب کی رحمت و مغفرت میں حصہ دار بنے۔ وہ اپنے خیالات، عقائد، اخلاق، اعمال اور زندگی کی تمام سرگرمیوں کو ایسے رخ پر ڈالنے کے لیے فکر مند ہو جاتا ہے جو اس کو آخرت میں خدا کی پکڑ سے بچا سکیں ۔ وہ دوسروں کو اسلام کی طرف بلانے سے پہلے خود اول المسلمین بنتا ہے
قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ (6:14)۔ یعنی، کہو مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا اسلام لانے والا بنوں۔
اول المسلمین بننا، با عتبار محرک، ایک انتہائی انفرادی واقعہ ہے۔ مگر با عتبار نتائج وہ وسیع ترین اجتماعی واقعہ بن جاتاہے۔ یہ گویا اپنے اندر آتش فشاں کی تعمیر کرنا ہے جو بظاہر نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے مگرجب پھٹتا ہےتو سارے ماحول بلکہ سارے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ قرآن کے نزول کی یہ ترتیب کہ ابتداء ً عرصہ تک وہ سورتیں اترتی رہیں جن میں اندرونی اصلاح پر زور دیا گیا تھا، بیرونی اصلاح سے متعلق احکام بعد کو اترے، اس کی توجیہہ کرتے ہوئے محمدمارماڈیوک پکتھال (1875-1936)نے اپنے ترجمہ قرآن کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ اس کے اندر ایک گہری معنویت ہے اور وہ یہ کہ پیغمبر کا الہام اندرونی چیزوں سے شروع ہوکر بیرونی چیزوں کی طرف آتاہے :
The inspiration of the Prophet progressed from inmost things to outward things.
اکثر لوگ عمل کا مطلب یہ سمجھتے ہیںکہ خارجی دنیا کے خلاف یورش شروع کردی جائے۔ مگر زیادہ گہراعمل یہ ہے کہ خود اپنے اندرون کو اتنا طاقت ور بنایا جائے کہ جب وہ پھٹے تو کوئی چیز اس کی زدسے محفوظ نہ رہ سکے۔ اندرون کو طاقت ور بنانے سے مراد کوئی روحانی ورزش یا ’’عملیات‘‘ نہیں ہیں بلکہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں ایمان اور عمل صالح او ر صبر کہا گیا ہے۔ اپنی روح اور اپنے قلب و دماغ کی گہرائیوں میں خدائی حقیقتوں کو اتارنا، اپنے آپ کو حسیاتی طور پر زیادہ سے زیادہ عالم بالا سے جوڑنا، اپنے کومکمل طور پر اس قالب میں ڈھال لینا کہ ’’میرا کسی کے اوپر کوئی حق نہیں ، میری اس دنیا میںصرف ذمہ داریاں ہی ذمہ داریاں ہیں ، راہ خدا میں جو کچھ پیش آئے، اس کو خاموشی سے اپنے اوپر لیتے رہنا، بجائے اس کے کہ اس کو دوسروں کے اوپر لوٹانے کی کوشش کی جائے۔ بس یہی وہ چیزیں ہیں جن کا نام اپنے اندرون کو طاقت ور بنانا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کا انتہائی مکمل نمونہ بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت اتنی بے پناہ ہوگئی کہ جو آپ کی زد میں آیا مسخّر ہو کر رہ گیا۔ آپ کا یہ اندرونی طوفان جب پھٹا تووہ اتنا بے پناہ ثابت ہوا کہ تقریباً ساری آباد دنیا نے اس کے اثرات محسوس کیے۔
ہندی کے ادیب سردار پورن سنگھ (1882-1931ء) کے مقالہ کا عنوان ہے ’’ویرتا‘‘۔ اس میں انہوں نے پیغمبر اسلام کو تاریخ کا سب سے بڑا ویر (بہادر) بتایا ہے جو ’’عرب کے ریگستان میں بارود کی طرح آگ لگاگئے۔ ’’کُل پر تھوی بھے سے کانپ اٹھی ‘‘ جو لوگ ان کے سامنے آئے وے ان کے داس بن گئے۔ ‘‘ وہ ویرتا کیا ہے جو کسی کو اتنا بل والا بنا دیتی ہے، انہیں کے الفاظ میں پڑھیے
’’اپنے آپ کو ہرگھڑی ہر پل مہان سے بھی مہمان بنانے کا نام ویرتا ہے، کا یر پرش کہتے ہیں ’’آگے بڑھے چلو ‘‘ ویر کہتے ہیں ’’پیچھے ہٹ چلو ‘‘ کا یر کہتے ہیں ’’اٹھاؤ تلوار ‘‘ ویر کہتے ہیں ’’سر آگے کرو ‘‘ ۔ویروں کی پالیسی بل کو ہر طرح اکٹھا کرنے اور بڑھانے کی ہوتی ہے۔ویر تو اپنے اندر ہی اندر مارچ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہر دے آکاش کے کیندر میں کھڑے ہو کر وے کل سنسار کو ہلاسکتے ہیں ۔ ویروہ ویر کیا جو ٹِن کے برتن کی طرح جھٹ گرم اور جھٹ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ صدیوں نیچے آگ جلتی رہے تو بھی شاید ہی ویرگرم ہو اور ہزاروں ورش برف اسی پر جمتی رہےتو بھی کیا مجال جو اس کی بانی تک ٹھنڈی ہو۔ لوگ کہتے ہیں ’’کام کرو،کام کرو‘‘، پر ہمیں تو یہ باتیں نر ر تھک معلوم ہوتی ہیں۔ پہلےکام کرنے کابل پیدا کرو، اپنے اندر ہی اندر بر کچھ کی طرح بڑھو۔ دنیا کسی کوڑے کے ڈھیر پر نہیں کھڑی کہ جس مرغ نے بانگ دی وہی سدھ ہوگیا۔ دنیا دھرم اوراٹل آدھیاتمک نیموں پر کھڑی ہے، جو اپنے آپ کو ان نیموں کےساتھ ابھید کر کے کھڑا ہوا وہ وجئی ہوگیا۔ ‘‘ (نبند ھ چینیکا، مرتبہ مہندر چترویدی )
اس ’’ویرتا‘‘ یا اندرونی طاقت کا راز پر اسرار عملیات یا روحانی ورزشیں نہیں ہیں جو کونوں یا گوشوں میں بیٹھ کر کی جاتی ہیں ۔ ’’عملیات ‘ ‘ کے ذریعہ جو طاقت حاصل ہوتی ہےوہ جمادات وحیوانات کی دنیا میں کچھ چمتکار دکھاسکتی ہے۔مگر زندگی کے مقابلوں میں وہ ایک دن بھی انسان کے کام نہیںآتی۔ جب کہ حقیقی طاقت وہی ہے جو زندگی کے مقابلوں میں آدمی کو فاتح بنائے۔
اندرونی طاقت دراصل اس بات کا نام ہے کہ آدمی اپنے آپ کو نفسانی عواطف سے آزاد کر کے اس بلند تر ذہنی سطح پر پہنچادے جہاں اس کے فیصلوں میں دوسرے اعتبارات considerations))کی کار فرمائی ختم ہوجائے اور حدیث کے الفاظ میں وہ ’’أَرِنَا الْأَشْيَاءَ كَمَا هِيَ ‘‘ (تفسیر الرازی، جلد1، صفحہ119)کا مقام حاصل کر لے۔ ضد، غصّہ، طمع، نفرت، جاہ طلبی، خویش پروری، ذاتی مفاد اور اس قسم کےدوسرے میلانات کا ہالہ اس کے گرد اس کی رایوں اور اقدامات کو متاثر کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔ ایسا شخص بے پناہ قوت تسخیر کا حامل ہو جاتا ہے۔ وہ ہر جانچ میں پورا اتر تا ہے اس کے اقدامات ہر مقابلے میں لو ہےکا ہتھوڑا ثابت ہوتے ہیں ۔ اس کے فیصلوں میں مسئلہ کے تمام متوقع او ر غیر متوقع پہلوؤں کی رعایت شامل ہوتی ہے۔ مخالفتیں اس کی صداقت اورصلاحیت کو اور زیادہ نکھارنے والی بن جاتی ہیں ۔
یہاں ہم فتح مکہ کے فوراً بعد پیش آنے والی ایک صورت حال کا ذکر کریں گے جس نے بیک وقت کئی مسئلے پیدا کیے مگر پیغمبر اسلام کی ویرتا یا آپ کی اندرونی طاقت ہرایک کو حل کرتی چلی گئی۔ اس اندرونی طاقت کا اظہار کہیں عفو کی صورت میں ہوا، کہیں عالی حوصلگی اور اعتماد علی اللہ کی صورت میں ۔ کہیں آپ اس لیے کامیاب رہے کہ آپ کو وہ نگاہ حاصل ہوگئی تھی جو ہمیشہ مستقبل کو دیکھتی تھی۔ کہیں آپ کے رویہ نے یہ ثابت کیا کہ جو اپنے کو بے غرض بنا لے وہ اتنا بلند مرتبه ہوجاتا ہے کہ پھر اسےکوئی زیر نہیں کر سکتا۔
ہجرت کے آٹھویں سال جب آپ نے مکہ پر قبضہ کیا تو قریش کےکچھ لوگ بھاگ کر ہوازن و ثقیف کے قبائل میںپہنچے اور ان کو اکسا کر ایک نئی لڑائی کے لیے آمادہ کر دیا۔ وہ لوگ اپنی تمام قبائلی شاخوں کو اکٹھاکرکے 20ہزار کی تعداد میں جمع ہو گئے۔ حنین میں مقابلہ ہوا۔ جنگ کے آغاز ہی میں ہوازن کے تیر اندازوں نے جو گھاٹی میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اسلامی لشکر پر اتنی شدید تیر اندازی کی کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے اور 12ہزار لشکر میںگیارہ ہزار سے بھی زیادہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ تاہم تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ابتدائی شکست کے بعد بالآخر مسلمانوں کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کامیابی کا راز پیغمبر کا وہی اندرون تھا، جو اس نازک موقع پر سکینت قلب (التوبہ، 9:26) اور اعتماد علی اللہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور اس نے دفعتاً بازی لوٹادی۔ آپ نے دشمنوں کےعین نرغہ میں کھڑے ہوکر یہ رجز پڑھا:
أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ
آپ نےپکار کر کہا:يَا أنصار الله وأنصار رَسُولِهِ! أَنَا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ صَابِرٌ!(اے اللہ کے انصار، اور اس کے رسول کے انصار، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ثابت قدم ہوں)۔حضرت عباس کی آواز بہت بلند تھی، آپ کے حکم سے انہوں نےچلاکر کہا۔’’اےشجرۃ الرضوان کےسایہ میں بیٹھ کر موت کی بیعت کرنے والو، کہاں ہو۔ ‘‘ (مغازی الواقدی، جلد3، صفحہ897-99)۔ جب لوگوں نےدیکھا کہ ان کا سردار اپنی جگہ قائم ہے اور دشمنوں کی یلغار آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکی تو انہیں یقین ہو گیا کہ خدا کی مدد آپ کے ساتھ ہے۔ وہ نئے عزم کےساتھ میدان جنگ کی طرف لوٹ پڑے۔ حتٰی کہ جس کے اونٹ نے مڑنے میں دیر کی، وہ اپنی سواری سے کو د کر پیدل آپ کی طرف دوڑ پڑا۔ اب جنگ کا نقشہ دوسراتھا۔ فریق مخالف کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں کو فتح ہوئی اور کثیر مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا، جس میں 24ہزار اونٹ، 40 ہزار بکریاں، 4ہزار اوقیہ چاندی اور 6ہزار قیدی تھے۔
اس فتح کے باجود مسئلہ نےدوبارہ نئی شدید تر شکل اختیار کرلی۔ قبیلہ ثقیف، جو قریش کے بعد عرب کادوسرا سب سے زیادہ زور آور قبیلہ تھا اور عرب کے واحد محصور شہر کا مالک تھا۔ طائف میں قلعہ بند ہو گیا۔ تین ہفتہ کے محاصرہ میں انہوں نے مسلمانوں کو اس سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا جو حنین کی جنگ میں انہیں پہنچا تھا۔ ان کی سرکشی کا یہ عالم تھاکہ اس دوران طائف کاایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام لایا۔ یہ عر وہ بن مسعود ثقفی تھے جو اپنے قبیلہ میں ’’کنواری لڑکیوں کی طرح محبوب ‘‘تھے۔ مگر جب وہ اسلام قبول کرکےطائف گئے تو طائف والوں نے انہیں تیر مار مار کر ہلاک کر دیا۔
یہاں آپ کی اندرونی طاقت ایک اور شکل میں ظاہر ہوئی۔ جب محاصرہ شدید ہو گیا۔ تو حضرت عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ طائف والوں کے لیے ہلاکت کی دعا فرمائیں۔ مگر آپ نے ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی۔ آپ نے غصہ اور انتقام کے جذبہ کے تحت ان کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کی۔ تین ہفتہ کے بعد فوج کو حکم دیا کہ واپس چلو۔ اب آپ مقام جعرانہ پہنچے جہاں غزوہ حنین کا مال غنیمت جمع تھا۔ یہاںآپ کے لیے موقع تھا کہ ثقیف کی سرکشی کا بدلہ ان کے حلیف ہوازن سے لیں ۔ مگر اس کے برعکس آپ نے یہ کیا کہ قبیلہ ہوازن کے بعض لوگوں کی ایک درخواست پر ان کے تمام کے تمام چھ ہزار قیدی چھوڑدیے اور انہیں کپڑے اور زادراہ کےساتھ ان کے گھروں کو رخصت کیا۔ فیاضی اوروسعت ظرف کا یہ معاملہ اپنے اثرات پیدا كیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہو ازن کے لوگ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔
اس واقعہ کا اہل طائف پر گہرا اثر پڑا۔ ہوازن اور ثقیف ایک ہی بڑے قبیلہ کی شاخیں تھیں۔ ثقیف کو جب ہوازن کے اسلام کی خبر پہنچی تو ان کے لیے یہ واقعہ محاصرہ سے بھی زیادہ سنگین ثابت ہوا۔ انہیں محسوس ہوا کہ ان کا دایاں بازو ٹوٹ چکا ہے اور اب وہ مقابلہ آرائی میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
إنَّهُمْ ائْتَمَرُوا بَيْنَهُمْ، وَرَأَوْا أَنَّهُ لَا طَاقَةَ لَهُمْ بِحَرْبِ مَنْ حَوْلَهُمْ مِنْ الْعَرَبِ وَقَدْ بَايَعُوا وَأَسْلَمُوا (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ538)۔ یعنی، پھر قبیلہ ثقیف نے آپس میں مشورہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ارد گرد کے عربوں سے لڑنے کی ان میں طاقت نہیں۔ اور وہ بیعت ہو چکے اور اسلام قبول کر چکے۔
ہجرت کے نویں سال (630ء) اہل طائف کا وفد مدینہ حاضر ہوا۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کی پیش کش کی۔مگر اسی کے ساتھ اپنے لیے عجیب عجیب شرطیں تجویز کیں۔ ’’ان کی سر زمین کو فوجی گزر گاہ نہ بنایا جائے گا، وہ عشر نہ دیں گے۔ جہاد میں شرکت نہ کریں گے، نماز نہ پڑھیں گے، ان کے اوپر ان کے علاوہ کسی کو حاکم نہ بنایا جائے گا۔‘‘ آپ نے فرمایا تمہاری سب شرطیں منظور ہیں۔ مگر اس دین میں کوئی بھلائی نہیں جس میں رکوع نہ ہو (لَا خَيْرَ فِي دِينٍ لَا رُكُوعَ فِيهِ) مسند احمد، حدیث نمبر 17913۔آپ کے اصحاب کو ان تحفظات کے ساتھ کسی کو مسلمان کرنا عجیب معلوم ہوا، مگر آپ کی نظر یں دور تک مستقبل کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ نے یہ کہہ کر انہیں مطمئن کر دیا:
سَيَتَصَدَّقُونَ، وَيُجَاهِدُونَ إِذَا أَسْلَمُوا(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 3025)۔ یعنی،جب یہ لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے تو اس کے بعد صدقہ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔
امام احمد نے حضرت انس سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی قبول اسلام کےلیے کسی چیز کا سوال کیا گیا۔ آپ نے ضرور اسے وہ چیزدی(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2312)۔ آپ کےپاس ایک آدمی آیا۔ آپ نے اس کےلیے اتنی کثیر بکریوں کے دینے کا حکم فرمایا جو دو پہاڑوں کے درمیان حد نظر تک پھیلی ہوئی تھیں، وہ آدمی اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہا اے میری قوم تم لوگ اسلام قبول کرلو، کیونکہ محمد اتنا زیادہ دیتے ہیں کہ انہیں محتاجی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ راوی کہتے ہیں :
وَإِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَجِيءُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُرِيدُ إِلَّا الدُّنْيَا، فَمَا يُمْسِي حَتَّى يَكُونَ دِينُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ - أَوْ أَعَزَّ عَلَيْهِ - مِنَ الدُّنْيَا بِمَا فِيهَا (مسند احمد، حدیث نمبر 14029)۔ يعني، آدمی آپ کے پاس آتاتھا اور اس کا مقصود صرف دنیا ہوتی تھی۔ مگر اس پر شام نہیں گزرتی تھی کہ دین اس کے لیےدنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس سے زیادہ محبوب ہوجاتاتھا۔
ہوازن و ثقیف کا مسئلہ حل ہوا تھا کہ اسی درمیان ایک اور شدید تر مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہوازن کی فتح کے بعد آپ کو جو کثیر اموال غنیمت حاصل ہوئے تھے، ان کو آپ نے نہایت فیاضی کے ساتھ مکّہ کے تازہ نو مسلموں میں تقسیم کیا۔ یہ چیز انصار کے بہت سے لوگوں پرشاق گزری۔ انہوں نے سمجھا کہ مکہ پہنچ کر پیغمبر کےا وپر ’’قرشیت ‘‘ غالب آگئی اور انہوں نے اپنے بھائی بندوں کو خوش کرنے کے لیے سارا مال انہیں دے دیا۔ ایک انتہائی نازک مسئلہ تھا۔ مگر آپ نےجو کچھ کیاتھا، سطحی عواطف سے بلند ہو کر کیاتھا۔ اس لیے آپ کے پاس اس کے جواب میں کہنے کے لیے نہایت مؤثر چیز موجود تھی۔
آپ نے انصار کے تمام لوگوں کو ایک احاطہ میں جمع کیا اور تقریر کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے فرمایا’’اے انصار یہ کیا باتیں ہیں جو میرے کانوں تک پہنچ رہی ہیں ۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے، میرے ذریعہ سے اللہ نے تمہیں ہدایت دی۔ تم محتاج تھے، میرے ذریعہ اللہ نےتم کو غنی بنایا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے میرے ذریعہ تم کو متحد کیا۔ ‘‘لوگوں نے کہا ’’ہاں‘‘ آپ نے دو بارہ فرمایا :
أَمَا وَاَللهِ لَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ، فَلَصَدَقْتُمْ وَلَصُدِّقْتُمْ:أَتَيْتَنَا مُكَذَّبًا فَصَدَّقْنَاكَ، وَمَخْذُولًا فَنَصَرْنَاك، وَطَرِيدًا فَآوَيْنَاك، وَعَائِلًا فَآسَيْنَاك . أَوَجَدْتُمْ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ فِي أَنْفُسِكُمْ فِي لُعَاعَةٍ مِنْ الدُّنْيَا تَأَلَّفْتُ بِهَا قَوْمًا لِيُسْلِمُوا، وَوَكَلْتُكُمْ إلَى إسْلَامِكُمْ، أَلَا تَرْضَوْنَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ، وَتَرْجِعُوا بِرَسُولِ اللهِ إِلَى رحالكُمْ؟( خدا کی قسم تم چاہو تو کہہ سکتے ہو اور تم کہو گے تو سچ کہو گے کہ آپ ہمارے پاس نکالے ہوئے آئے تھے، ہم نے آپ کو پناہ دی۔ آپ محتاج آئے تھے، ہم نے آپ کی غم خواری کی۔ آپ خوف زدہ آئے تھے ہم نے آپ کو امن دیا۔ آپ بےیا ر و مدد گار آئےتھے ہم نے آپ کی مدد کی — اے گر وہِ انصار ! کیا تم دنیا کی معمولی چیز کے لیے بد دل ہو گئے جس سے میں نے نو مسلموں کی تالیف قلب کی ہے اور تم کو اس چیز کا وکیل بنایا ہے جس کو اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے یعنی اسلام۔ اے گر وہ انصار ! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکری لے کر اپنی منزلوں کی طرف جائیں اور تم اللہ کےرسول کو لے کر اپنی منزل کی طرف جاؤ)۔ یہ تقریر سن کر سارے لوگ رو پڑے۔ انہوں نے چیخ کر کہا:ہم اللہ کے رسول کے ساتھ راضی ہیں۔ ‘‘(سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ499-500) اس طرح آپ کی اندرونی طاقت ایک ایسی شاہ کلید بن گئی کہ جو بنددروازہ بھی اس کے سامنے آیا، اس کا قفل اس نے کھول دیا۔ آپ کی شخصیت کےسیلاب کے آگے کوئی چیز ٹھہر نہ سکی۔
خارجی نشانہ:دعوت
پیغمبر اسلام نےمکہ میں جو عملی جدو جہد شروع کی اس کی اہم بات یہ تھی کہ وہ خارجی دنیا کے خلاف رد عمل کے طور پر وجود میں نہیں آئی،جیسا کہ عام طور پر ہوتاہے۔ بلکہ خود اپنے مثبت فکر کے تحت وضع کی گئی تھی۔ آپ کی بعثت ہوئی تو آپ کے گر دو پیش وہ تمام حالات پوری شدت کے ساتھ موجود تھے جو عام طورپر سیاسی، معاشی اور سماجی تحریکوں کی بنیاد ہوا کرتے ہیں۔ مگر آپ نے ان میں سے کسی کو بھی دعوت کا عنوان نہیں بنایا۔ بلکہ انتہائی یکسوئی کے ساتھ مندرجہ بالا پر وگرام کی طر ف پُر امن جد وجہد شروع کردی۔
پیغمبر اسلام کی بعثت جس زمانہ میںہوئی، آپ کا وطن وقت کی ’’سامراجی طاقتوں ‘‘ کی شکارگاہ بنا ہواتھا۔ خاص طور پر عرب کا وہ حصّہ جو نسبتاً زیادہ زر خیز اور مالدار حیثیت رکھتا تھا، تمام تر اغیار کے ہاتھوں میں تھا۔ جزیرۂ عرب کےشمال میں شام کا علاقہ پورا کاپورا رومی سلطنت کے زیراقتدار تھا۔ اس کے اوپر روم کے ماتحت امرائے عرب کی حکومت قائم تھی۔ اسی طرح جنوب میں یمن کا علاقہ ایران کے زیر اقتدار تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہاں جو ایرانی گورنر مقیم تھا، اس کا نام باذان ہے۔ عربوں کےہاتھ میں صرف حجاز، تہامہ اور نجد کے علاقے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ چٹیل اور بے آب و گیا ہ بیابان تھے، جن میں کہیں کہیں کچھ زر خیز ٹکڑے نظر آتے تھے۔ کسریٰ (شہنشاہ فارس) نے جب آپ کے مکتوب کوپھاڑ دیا اور کہاکہ میر ا غلام ہو کر مجھ کو اس طرح لکھتا ہے (يَكْتُبُ إِلَيَّ هَذَا وَهُوَ عَبْدِي، تاریخ الطبری، جلد2، صفحہ655) تو اس کا محرک یہی سیاسی پس منظر تھا۔
پیغمبر اسلام کی پیدائش کے سال (570ء) مکہ پر ابرہہ کا حملہ بھی اسی استحصال کا ایک جزو تھا، جو عرب کے جنوبی حصہ پر قابض تھا۔ اسلام سے قبل خانہ کعبہ عرب کا ایک بہت بڑا بت خانہ تھا۔ اس میں تمام قوموں اور قبیلوں کےبت رکھے ہوئے تھے۔ اس طرح وہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس مقام بن گیا تھا۔ تمام سال لوگ مکہ آتے رہتے تاکہ اپنے بتوں کی زیارت کریں اور نذر یں چڑ ھائیں۔ اس سے مکہ کی تجارت قائم تھی۔ ابرہہ نے چاہا کہ اس تجارتی مرکز یت کو اپنی طرف منتقل کر لے۔ وہ جنوبی عرب (یمن) میں حبشی فوجوں کا سردار تھا اور حاکم حبشہ کے ماتحت تھا۔ اس نے حبشی حاکم کو قتل کر دیا اور خود حاکم بن گیا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مجبوراً اسے حاکم تسلیم کر لیا۔ ابرہہ مذہباً عیسائی تھا۔ اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑا گر جا تعمیر کیا۔ اس گرجا کے چند کاریگروں کے نام بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔ اب اس نے گرجا کے بارے میں پروپگنڈا شروع کیا تاکہ لوگ اس کی زیارت کے لیے آنے لگیں اور مکہ کی تجارتی اہمیت صنعاء کی طر ف منتقل ہو جائے۔ مگر جب ساری کوشش کے با وجود وہ زائرین کو اپنی تعمیر کردہ عبادت گاہ کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہ ہو ا تو اس نے ارادہ کیا کہ مکہ کےکعبہ کوڈھاکر ختم کر دے تاکہ لوگ مکہ کے بجائے صنعا آنے پر مجبور ہو جائیں ۔ چونکہ وہ ہاتھيوں کی فوج کے ساتھ حملہ آور ہواتھا، وہ’’ ہاتھی والے ‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔ عرب کی تاریخ میں یہ اتنا اہم واقعہ تھا کہ وہ جس راستہ سے گزر ا عربوں نے اس کا نام صراط الفیل رکھا۔ جس چشمہ پر قیام کیا اس کو عین الفیل اور جہاں سے شہر میں داخل ہوا، اس کو باب الفیل کہاگیا۔ جس سال اس نے حملہ کیا تھااس کا نام عام الفیل پڑگیا۔
ان حالات میں قیادت کے معروف تصور کا تقاضا تھا کہ آپ پڑوسی حکومتوں کی استعماری سیاست کے خلاف ایک جوابی سیاسی تحریک اٹھائیں اور وطن کو بیرونی اثرات سے پاک کرنے کےلیے لوگوں کے قومی جذبات کو بیدار کر یں۔ مگر آپ نے اس قسم کی کوئی تحریک اٹھانے سے مکمل پرہیز کیا۔
اسی طرح اس وقت کی عرب دنیا ’’غیر ذی زرع‘‘ہونے کی وجہ سے معاشیات کی کسی ذاتی بنیاد سے یکسر محروم تھی۔ یہ اس ریگستانی علاقہ کے ایک ایک شخص کا مسئلہ تھا اور نہایت آسانی سے ایک ’’انقلابی تحریک ‘‘ کا عنوان بن سکتا تھا۔ مگر آپ نے اس قسم کے کسی بھی اقتصادی نعرہ سےمکمل طور پر پرہیز کیا۔ ایک بارمکہ کے شرفاء کی ایک جماعت غرو ب آفتاب کے بعد کعبہ کے سامنے جمع ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بات چیت کے لیے بلایا۔ آپ نے جب اپنی دعوت پیش کی تو انہوں نے کہا:
يَا مُحَمَّدُ، ... فَإِنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ أَضْيَقَ بَلَدًا، وَلَا أَقَلَّ مَاءً، وَلَا أَشَدَّ عَيْشًا مِنَّا، فَسَلْ لَنَا رَبَّكَ الَّذِي بَعَثَك بِمَا بَعَثَك بِهِ، فَلْيُسَيِّرْ عَنَّا هَذِهِ الْجِبَالَ الَّتِي قَدْ ضَيَّقَتْ عَلَيْنَا، وَلْيَبْسُطْ لَنَا بِلَادَنَا، وَلْيُفَجِّرْ لَنَا فِيهَا أَنَهَارًا كَأَنْهَارِ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ296)۔يعني، اے محمد، آپ کو خوب معلوم ہے کہ ہمارا ملک سب سے زیادہ تنگ حال ہے۔ دنیا میں ہم سے زیادہ بے آب کوئی نہیں ۔ ہمارے لیے زندگی نہایت مشکل ہے۔ پس اپنے رب سے کہو کہ وہ ان خشک پہاڑوں کو ہم سے ہٹادے جنہوں نے ہمیں تنگی میںڈال رکھا ہے اور ہمارے لیے ہمارے ملک کو کشادہ کرے اور اس میں شام اور عراق جیسی ندیاں جاری کردے۔
مکہ کے سر داروں کی یہ تقریر اس پس منظر میں تھی کہ نجد و حجاز کے پہاڑوں نے اس علاقہ کو سمندری ہواؤں سے روک رکھا ہے جس کے نتیجہ میں یہاں شام و عراق کی طرح بارشیں نہیں ہوتیں اور ساراعلاقہ خشک پڑا رہتاہے۔ اس طرح یہ اقتصادی ابتلاء آپ کو زبر دست موقع دے رہا تھا کہ آپ اقتصادی مشن لے کر اٹھیں اور آنا ً فاناً لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیں ۔ مگر آپ نے اس قسم کے مسائل کی طرف کوئی براہ راست توجہ نہ دی بلکہ اپنے آپ کو تمام ترکلمۂ توحید کی تبلیغ کے لیے وقف کر دیا۔ اگر چہ بعد کی تاریخ نے ثابت کیا کہ دعوتی مہم میں ہر قسم کے سیاسی اور اقتصادی امکانات بھی چھپے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ با لواسطہ نتیجہ کے طور پر آتے ہیںنہ کہ براہ راست جدو جہد کےطور پر۔
پیغمبر اسلام کی پوری زندگی ثابت کرتی ہے کہ آپ کے نزدیک اصل اہمیت دعوت کی تھی۔ نبوت ملی تو آپ نے دوسری تمام باتوں کو چھوڑ کر ساری توجہ دعوت پر مرکو ز کردی۔ آپ نے اپنے اہل خاندان سے کہا کہ مجھے خدا نے اپنی پیغام رسانی کے کام پر مقرر کیا ہے، تم لوگ میرا ساتھ دو۔ آپ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ یہ تقریباً چالیس مرد تھے جن میں سے تیس افراد جمع ہوئے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہو چکے تو آپ نے تقریر کی مگر کوئی آپ کا ساتھ دینے کےلیے نہ اٹھا:
يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي بُعِثْتُ إِلَيْكُمْ خَاصَّةً، وَإِلَى النَّاسِ عَامَّةً (فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل،حدیث نمبر 1220)۔مَنْ يَضْمَنُ عَنِّي دَيْنِي وَمَوَاعِيدِي، وَيَكُونُ مَعِي فِي الْجَنَّةِ، وَيَكُونُ خَلِيفَتِي فِي أَهْلِي؟ (مسند احمد، حدیث نمبر 883)۔ فَأَعَادَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَنْطِقَ، فَقُلْتُ:أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:أَنْتَ يَا عَلِيُّ؟ أَنْتَ يَا عَلِيُّ (مسند البزار، حدیث نمبر 456)۔ يعني، اے بنو عبد المطلب ! میں تم لوگوں کی طرف خاص طور پر اورتمام لوگوں کی طرف عام طور پر بھیجا گیا ہوں،(دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے کہا) پس تم میںسے کون میرے قرضوں اور میرے وعدوں کی ذمہ داری میری طرف سے لیتا ہے اوروہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا اور میرے اہل میں میرا قائم مقام بنے گا۔ (ایک اور روایت میں ہے کہ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار اسی بات کو دہرایا تو حضرت علی (جو اس وقت نوجوان تھے) نے کہا ’’میں یا رسول اللہ‘‘، آپ نے فرمایا:تم اے علی ! تم اے علی!
ایک بار ابو جہل نے آپ کو پتھر کھینچ کر ما ر ا جس سے خون بہنے لگا۔ یہ خبر آ پ کے چچا حمزہ کو پہنچی، وہ اگر چہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے۔ مگر خاندانی عصبیت جوش میں آئی، ابو جہل کےیہاں جاکر اس کو مارا اور پھر آپ کے پاس آکر بولے ’’بھتیجے ! میں نے تمہارا بدلہ لے لیا ‘‘ آپ نے فرمایا ’’چچا! مجھے اس میں زیادہ خوشی ہوتی کہ آپ اسلام قبول کر لیتے ‘‘۔
قریش کے لوگ ابو طالب کے پاس آئے اور کہا:يَا أَبَا طَالِبٍ، إِنَّ ابْنَ أَخِيكَ يَأْتِينَا فِي كَعْبَتِنَا وَنَادِينَا فَيُسْمِعُنَا مَا يُؤْذِينَا بِهِ، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَكُفَّهُ عَنَّا فَافْعَلْ(اے ابو طالب ! تمہارا بھتیجا ہمارے میدانوں میں اورہماری مجلسو ں میں آتا ہے اور ہم کو وہ باتیں سناتا ہے جس سے ہم کو تکلیف ہوتی ہے۔ اگر تم سے ہوسکے تو اس کو ہمارے پاس آنے سے روک دو)۔
ابو طالب نے اپنے لڑکے عقیل کے ذریعہ آپ کو بلایا اور ان سے قریش کی بات کہی:
فَحَلَّقَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ:وَاللهِ مَا أَنَا بِأَقْدَرَ عَلَى أَنْ أَدَعَ مَا بُعِثْتُ بِهِ مِنْ أَنْ يَشْتَعِلَ أَحَدُكُمْ مِنْ هَذِهِ الشَّمْسِ شُعْلَةً مِنْ نَارٍ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 8553)۔ یعنی، آپ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا کہ خدا کی قسم میں اس پر قادر نہیں کہ جو پیغام دے کر مجھے بھیجا گیا ہے اس کو چھوڑ دوں، جیسے تم میں سے کوئی شخص اس پر قادر نہیں کہ سورج سےآگ کا ایک شعلہ جلائے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ کہہ کر آپ روپڑے (ثُمَّ اسْتَعْبَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَى ) سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 266۔
آپ کے خاندان بنو ہاشم کو چونکہ مکہ میں ہر قسم کی سیادت حاصل تھی، ابتداء ً لوگوں کو شبہ ہو ا کہ یہ ’’باحوصلہ نوجوان ‘‘ شاید بادشاہ بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ مگر آپ کے مسلسل عمل نے ثابت کر دیا کہ آپ کے سامنے آخرت کی پیغام رسانی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ایک مرتبہ آپ نے ابو جہل کو دعوت دی تو اس نے کہا:
يَا مُحَمَّدُ، هَلْ أَنْتَ مُنْتَهٍ عَنْ سَبِّ آلِهَتِنَا؟ هَلْ تُرِيدُ إِلَّا أَنْ نَشْهَدَ أَنَّك قَدْ بَلَّغْتَ؟ فَنَحْنُ نَشْهَدُ أَنَّ قَدْ بَلَّغْتَ(البدایہ والنہایہ، جلد3، صفحہ 83)۔ یعنی، اے محمد ! کیا تم ہمارے معبودوں کو برا کہنے سے رک جاؤ گے تم یہی تو چاہتے ہو کہ ہم گواہی دیں کہ تم نے پہنچا دیا تو ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم نے پہنچا دیا۔
شعب ابی طالب کی پناہ گزینی کےزمانہ میں حرام مہینوں میں پابندی ختم ہو جاتی تھی، آپ کے خاندان کے لوگ اس موقع کو خرید فروخت میں استعمال کرتے تھے۔ وہ قربانی کے جانوروں کے گوشت جمع کرتے تاکہ ان کو سکھا کر رکھ لیں اور سال کے بقیہ مہینوں میں کھاتے رہیں۔ مگرآپ اس فرصت کے موقع پر قبائل کی قیام گاہوں کی طرف نکل جاتے اور ان کو اسلام کی دعوت پہنچاتے۔ ہجر ت کا سفر انتہائی نازک سفر تھا۔ مگر اس سفر میں بھی آپ نے دعوت و تبلیغ جاری رکھی۔
سیرت کی کتابوں میں اس سلسلے میں متعدد واقعات کا ذکر ہے۔ مثلاً مقام غمیم پر بریدہ بن حصیب کو دعوت دینا (أَتَاهُ بُرَيْدَةُ بْنُ الْحُصَيْبِ فَدَعَاهُ رَسُولُ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إِلَى الإِسْلامِ فَأَسْلَمَ هُوَ وَمَنْ مَعَهُ)جس کے نتیجہ میں وہ اور ان کے 80گھروں کا قبیلہ مسلمان ہوگیا (الطبقات الکبریٰ، جلد4، صفحہ 182)۔ اسی طرح رکوبہ گھاٹی پر آپ کی ملاقات دو آدمیوں سے ہوئی۔ آپ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اوروہ ایمان لائے۔ آپ نے ان کا نام پوچھا۔ انہوں نے کہا ہم قبیلہ اسلم کے لوگ ہیں۔ ہمارا پیشہ ڈاکہ زنی تھا۔ اس لیے ہم کو الْمُهَانَانِ (دو ذلیل آدمی) کہا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا:بَلْ أَنْتُمَا الْمُكْرَمَان(مسند احمد، حدیث نمبر 16691)۔ یعنی، نہیں تم دو باعزت آدمی ہو۔
آپ نے صحابہ کا مزاج یہ بنایا کہ ملکوں کو فتح کرنا اور مال غنیمت حاصل کرنا بڑی چیز نہیں ۔ بڑی چیز یہ ہے کہ تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو ایمان کی دولت عطا فرمائے۔ غزوہ خیبر میں جب آپ نے حضرت علی کو جھنڈا عطا کیا تو ان سے فرمایا :
انْفُذْ عَلَى رِسْلِك حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ، فَوَاللهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا خَيْرٌ لَك مِنْ أَنْ يَكُونَ لَك حُمْرُ النَّعَمِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2942؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2406)۔ یعنی، نرمی کے ساتھ جاؤ۔ جب ان کے میدان میں پہنچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دو، اور ان کوبتاؤ کہ ان پر اللہ کے کیا حقوق ہیں۔ خدا کی قسم، اگر تمہارے ذریعہ سے اللہ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
آپ کی زندگی میں یہ پہلو اس قدر نمایاں ہے کہ اس کا کوئی ایک عنوان دینا ہوتو وہ ’’دعوت‘‘ کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ آ پ نے عام رواج کے مطابق سیاسی، معاشی،تمدنی مسائل کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ ساری توجہ دعوت الی اللہ پر مرکوز کردی۔ ابتدا میں بظاہر یہ ایک کام نظر آتاتھا، مگرجب آخری نتیجہ سامنے آیا تو معلوم ہو اکہ یہ وہ سرا ہے کہ اگر وہ ہاتھ آجائے تو بقیہ چیزیں خود بخود ہاتھ آتی چلی جاتی ہیں۔
صبر و استقامت
اب صبر کو لیجیے۔ صبر کا لفظ عربی زبان میں ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کہ کسی چیز میں اثر پذیری کے بجائے جماؤ کی کیفیت بتانا مقصود ہو۔ مثلاً صبّارۃ سخت بنجر زمین کو کہتے ہیں جو بیج کو قبول نہ کرے۔ اسی طرح بہادر کو صبور کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ خارجی دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی شخصیت کو قائم رکھتا ہے۔
یہ صبر اس انسان کی اعلیٰ ترین صفت ہے جس کے اندر اسلام ایک مقصد بن کر شامل ہو گیا ہو۔ اسلام اس کے اندر ایسی حرارت پید اکر دیتاہے جس کے بعد وہ سست نہیں پڑتا۔ وہ کمزوری نہیں دکھاتا۔ وہ عاجزی ظاہر نہیں کرتا (آل عمران، 3:146)۔
ایمان و اسلا م کا مطلب خدا پر اعتماد کرنا ہے،اور جو شخص خد اپر اعتماد کرلے وہ اتھاہ طاقت کا مالک ہو جاتاہے۔ اس کے لیے کسی مرحلہ پر بے صبری کا کوئی سوال نہیں رہتا۔
1۔ ایک شخص جب اسلام کا علم بر دار بن کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود تو خدا کی مقرر کی ہوئی حدود قیود میں بندھا ہواہے، جب کہ دوسرا فریق آزاد ہے کہ جو طریقہ چاہے اپنی کامیابی کے لیے اختیار کرے۔ اس کو حکم دیا گیا ہےکہ اپنی ساری قوت دعوت و تبلیغ کی مہم پر صرف کرے، جب کہ دوسرے لوگ سیاسی کا ر روائیوں اور اقتصادی تدبیروں سے اپنی پوزیشن کو مستحکم بنارہے ہیں۔ اس کو ہر حال میں اخلاقی حدود میں رہنے کا پابند کیا گیا ہے، جب کہ دوسرے لوگ اس قسم کی تمام بند شوں سے آزاد ہیں۔ا س طرح کی باتیں داعیِ اسلام کو اس حد تک متاثر کر سکتی ہیں کہ وہ اسلامی طریق کار کو ہلکا سمجھنے لگے اور اس کے دل میںیہ خیال پر ورش پانے لگے کہ اسے بھی وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو دوسرے لوگ اختیار کر رہے ہیں ۔ یہاں’’صبر ‘‘ اس کے لیے رکاوٹ بنتا ہے۔ صبر اس کو اس بات سے روکتا ہے کہ وہ اپنے طریق عمل کو ہلکا اور بے اثر سمجھنے لگے :
فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ(30:60)۔ يعني، پس تم صبر کرو۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اور تم کو بےبرداشت نہ کردیں وہ لوگ جو یقین نہیں رکھتے۔
2۔ اسلا م کی راہ میں صبر کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ فریق ثانی کی طرف سے جو مصیبتیں ڈالی جائیں،ان کو مکمل طور پر برداشت کیا جائے:
وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا(14:12)۔يعني، (نبیوں نے کہا) ہم صبر کریں گے اس پر جو ایذاتم ہم کو دیتے ہو۔
یہ صبر بذات خود دعوت حق کا ایک جزء ہے۔ کیونکہ داعی اگر مدعو کی جوابی کارروائیوں سے گھبرااٹھے یا جزع فزع کرنے لگے تو یہ بات مشتبہ ہوجاتی ہےکہ وہ اپنی دعوت میںسنجیدہ ہے، اور واقعۃً اللہ کی رضا جوئی کے لیے لوگوں کو حق کا پیغام دینے اٹھاہے۔یہ مصائب تو درحقیقت اس کی سنجیدگی کا امتحان ہیں اور کسی کے لیے اس كي دعوت اسی وقت قابل قبول ہو سکتی ہے جب کہ وہ اس کے سامنے اپنے آپ کو مکمل طور پر سنجیدہ ثابت کردے۔
3۔ مخالف کی طرف سے جب کوئی چیز ڈالی جائے تو آدمی عام طور پر یہ کوشش کرتا ہے کہ اُس کو خود مخالف کے اوپر لوٹا دے۔ اس کےمقابلہ میںصبر یہ ہےکہ خاموشی کےساتھ اس کو اپنے اوپر لے لیا جائے۔ مثال کےطور پر اگر کسی اہل اسلام کو مدعو قوم کی طرف سے اس اقتصادی تعصب کا سامنا پیش آئے کہ یکساں لیاقت رکھتے ہوئے ان کی جگہ دوسرے کا انتخاب کیا جانے لگے تو یہ مطالبہ لےکر اٹھنا صبر کے خلاف ہوگا کہ ’’ہمارے ساتھ مساویانہ سلوک کرو‘‘۔ اس کے برعکس، انہیں یہ کرنا چاہیے کہ اس وار کو اپنے اوپر لے لیں۔ یعنی اگر ماحول مساوی لیاقت کی بنیاد پر انہیں ان کاحق دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو امتیازی لیاقت پیدا کر کے اسے حاصل کریں۔ مکّی دور میں ہجرت حبشہ ایک اعتبار سے اسی قسم کا ایک عمل تھا۔ مکہ کے لوگوں نے جب مسلمانوں کے لیے مکہ میں تجارت کے دروازے بند کر دیے تو انہوں نے پڑوسی ملک میں محنت مزدوری کرکے اپنی معاش حاصل کرنا شروع کردیا۔ وہاں انہوں نے ایمان داری اور محنت کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ شاہ حبش (نجاشی) نے منادی کے ذریعہ اعلان کر ایا کہ جو شخص کسی مسلمان کو ستائے، وہ اس کے بدلے اس مسلمان کو 8درہم تاوان دے۔
صبر بظاہر ایک سلبی چیز معلوم ہوتی ہے۔ مگر اپنے نتائج کے اعتبار سے وہ ایک اعلیٰ ترین ایجابی عمل ہے جس میں آدمی اپنے حریف کے مقابلہ میں فوری جوابی کارروائی کرنے کے بجائے دُوررس عوامل (far reaching factors)پر اعتماد کرتا ہے۔ جب آپ کسی ظلم یا اشتعال انگیزی کےجواب میں فوری اقدام کرتے ہیں تو اس وقت آپ کی کارروائی ایک متاثر ذہن سے نکلی ہوئی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کا نقشہ آدمی کے ابلتے ہوئے جذبات کے زور پر بنتا ہے۔ بجائے اس کے کہ خارجی حقائق و امکانات کا بے لاگ جائزہ لے کر اس کے مطابق گہری منصوبہ بندی کی جائے، جس کا دوسرا نام صبر ہے۔
صبر کا مطلب یہ ہے کہ فریق ثانی کو فوری طورپر خود جواب دینے کے بجائے خدا کے ابدی قوانین کو اس کے خلاف کار فرما ہونے کا موقع دیا جائے۔
جب آدمی بے صبری کےساتھ حریف کےمقابلہ میں دوڑ پڑتا ہے تو اس وقت اس کے رہنما سفلی جذبات اور سطحی محرکات ہوتے ہیں۔ وہ لاز ماً ایسی غلطیاں کرتاہے جس سے اس کا مقدمہ کمزور ہو جائے۔ اس کے برعکس جب آدمی صبر سے کام لیتاہے تو اس وقت اس کے اندر کی وہ ربّانی قوت اپنا عمل کرنے کے لیے بیدار ہو جاتی ہے جس کو عقل کہتےہیں۔ انسان کی عقل ایک حیرت انگیز قوت ہے۔ وہ دیوار کے اُس پار دیکھتی ہے اور مستقبل میں جھانک کر اس میں چھپے ہوئے حقائق کو معلوم کر لیتی ہے جن کے ہاتھ آجانے کے بعد حریف کےتمام اطراف و جوانب اس طرح قابو میں آجاتے ہیں جیسے کوئی شکار کسی مضبوط جال میں پھنس جائے اور اس کے بعد اس کی ہر حرکت اس کے اوپر شکاری کی گرفت کو مضبوط کرنے والی ثابت ہو۔
ہجرت کا واقعہ اسی قسم کی ایک مثال ہے۔ جب قریش نے فیصلہ کر لیا کہ آپ کو قتل کردیں توایک صورت یہ تھی کہ آپ ان کی تلوار کے سامنے کھڑے ہو جاتے۔ اس کے برعکس آپ نے ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر یہ فیصلہ کیا کہ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلےجائیں۔ دوسرے لفظوں میں اپنا مقام عمل تبدیل کردیں۔ حضرت عائشہ بتاتی ہیں کہ ہجرت سےپہلے آپ روزانہ میرے والد (ابو بکر ) کےمکان پر آتے اور آئندہ اقدام کے بارے میںمشورہ کرتے۔ چھ مہینے تک نہایت راز داری کے ساتھ ساری تیاریاں مکمل کی گئیں۔ اس کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت آپ ایک معتمد گائڈ (هَادِيًا خِرِّيتًا)کولے کر مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد2، صفحہ246)۔ ایک پر جوش قائد جو حریف سے لڑکر شہادت کی یاد گار قائم کرنے کو سب سے بڑا کمال سمجھتا ہے، اس کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ہجرت ایک قسم کا فرار معلوم ہوگی۔ مگر نتائج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ واحد عظیم واقعہ ہے جس نے اسلامی تاریخ کا رخ موڑدیا۔
اسی طرح صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے اقدام سے رک کر فطرت کو کام کرنے کا موقع دے۔ انسانی فطرت ایک دائمی حقیقت ہے اور اگر خارجی پر دے ہٹادیے جائیں تو وہ انسانی زندگی میں انتہائی فیصلہ کن کر دار ادا کرتی ہے۔ فطرت کے اندر ہمیشہ ا س آدمی کے لیے نرم گوشہ ہوتا ہے جو گالی کے جواب میں چپ رہ گیا ہو۔ فطرت اپنی اندرونی آواز کے تحت مجبور ہے کہ ظالم کے بجائے مظلوم کو حق پر سمجھے۔ فطرت کی دنیا میں محرومیوں سے استحقاق پید اہوتاہے اور ضبط و استقامت سے اس کا بر سرِ حق ہونا ثابت ہوتاہے۔ اس کی ایک مثال پیغمبر اسلام اور آپ کے خاندان کا مقاطعہ ہے جو نبوت کے ساتویں سال پیش آیا اور جس کے نتیجہ میں ابولہب کو چھوڑ کر سارے بنو ہاشم کو ایک پہاڑی درّہ (شعب ابی طالب) میں محصور ہونا پڑا۔ ایک مقصد کی خاطر نہایت خاموشی کے ساتھ بد ترین ظلم کو سہتے رہنا فطرت انسانی میں اپنی باز گشت پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ تین سال گزرے تھے کہ خود دشمنوں کے اندر ابو البختری، ہشام بن عمر و، زبیر بن امیہ، زمعہ بن الا سود اور مطعم بن عدی جیسے متعدد لوگ پید ا ہوگئے۔ انہوں نے قریش کے لیڈروں سے لڑ کرمعاہدہ کو چاک کر ڈالا اور بنو ہاشم کو اس ظالمانہ مقاطعہ سےنجات مل گئی۔
صبر کا اہم ترین پہلو یہ ہےکہ اس سے نصرت اِلٰہی کا استحقاق پید اہوتاہے۔ جب ایک شخص صحیح مقصد کی خاطر صبر کرتا ہے تو وہ اپنے مسائل کے لیے مالک کائنات کے اوپر بھروسہ کرتاہے اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص ایک صحیح مقصد کے لیے مالک کائنات پر بھروسہ کرے اور وہ اس کے بھروسہ کو پورانہ کرے۔
اس نصرت کے بے شمار طریقے ہیں ۔ کوئی شخص نہ ان کو جان سکتا هے اور نہ ان کا احاطہ کرسکتا۔ تاہم اسلام اور غیر اسلام کےمقابلہ میں آنے والی ایک خاص نصرت یہ ہے کہ مادی حالات میں موافق کمی بیشی پیدا کر دی جائے۔ اور اہل ایمان کے دل میں اعتماد کی کیفیت ڈال دی جائے اور مخالفین کے دل میں رعب:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا (33:9)۔يعني، اے ایمان والو، اللہ کا انعام اپنے اوپر یاد کر و جب تم پر فوجیں چڑھ آئیں تو ہم نے ان پر بھیجی آندھی اور ایسا لشکر جس کو تم نےنہیں دیکھا۔
یہ آیت غزوۂ احزاب (627ء) سے متعلق ہے۔ اس میں اللہ تعاليٰ نے اہل ایمان کی مدد کے لیے دوچیزیں بھیجی تھیں— ہوا، اور فرشتوں کی فوج۔ ہوا کوئی انوکھی چیز نہیں۔ وہ ایک موٹے غلاف کی شکل میں ہر وقت کرۂ ارض کےچاروں طرف لپٹی ہوئی موجود ہے۔ مگر ایک خاص وقت میں ایک مقام پر اس کے اندر تیزی پید اکردی گئی۔ جس کے نتیجہ میں وہ اہل ایمان کے لیے نصرت بن گئی۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی گروہ کی مدد کرنا چاہتا ہے تو مادّی واقعات میں شدت پیدا کر دیتا ہے جس کا نتیجہ اس کے حق میں کامیابی کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔
فرشتوں کی فوج کا مطلب یہ نہیں ہےکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر تلوار چلاتے تھے۔ یہ درحقیقت ایک قسم کی نفسیاتی مدد تھی، نہ کہ عام معنوں میں حربی مدد۔ وہ اس لیے آتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں کے دلوں میں ثبات اور دوسری طرف مخالفین اسلام کے دلوں میں رعب پیدا کریں (الانفال،8:12)۔ وہ مسلمانوں کی نظر میں مخالفین اسلام کی فوج کو کم کرکے دکھاتے تھے اور مخالفین اسلا م کی نظر میں مسلمانوں کی فوج کو بہت زیادہ کر دیتے تھے (الانفال، 8:44)۔
عہد فاروقی میں سعد بن ابی وقاص اسلامی لشکر کو لے کر قادسیہ میں اتر ے جو عربوں کے نزدیک ایران کا دروازہ تھا۔ یہاں زیادہ دنوں تک قیام کرنا پڑا اور کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئیں۔ حضرت سعد نے کچھ لوگوں کو روانہ کیا کہ کہیں سے بکریاں اور گائیں تلاش کر کے لائیں۔ انہیں ایک ایرانی ملاجس سے انہوں نے بکریوں اور گایوں کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا مجھے کچھ علم نہیں۔ حالاں کہ وہ خود ایک چر واہا تھا اور اس نے اسلامی لشکر کی خبر سن کر اپنے مویشیوں کو قریب کے گھنے جنگل میں چھپا دیاتھا۔ اس کےبعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے الفاظ میں یہ ہے
فصاح ثور منهاكذب الراعي ها نحن في هذه الأجمة(ایک بیل چلایا، چرواہا جھوٹا ہے۔ہم یہاں اس جھاڑی میں موجود ہیں )۔
آواز سن کر وہ لوگ جنگل میں گھس گئے اور کچھ مویشیوں کوہانکتے ہوئے حضرت سعد کے پاس لے گئے۔ اسلامی لشکر کو جب یہ قصہ معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس کو خدا کی ایک کھلی ہوئی امداد سمجھا۔ مگر، جیسا کہ ایک مورخ نےلکھا ہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیل نے یہ جملہ کہا کہ ’’ہم یہاں ہیں ‘‘ (والثور إن لم يكن قد تلفظ بحروف يكذّب بها الراعي)،بلکہ یہ اس کی عام آواز میں ایک ڈکا ر تھی۔ اوراس ڈکار سے مسلمانوں نےسمجھا کہ یہاں مویشی موجود ہیں۔ (الفخري في الآداب السلطانية، صفحہ 84)۔
اللہ پر بھروسہ
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ( 8:61-62)۔ یعنی، اگر دشمن صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بلاشبہ وہ خوب سنتا اور جانتا ہے، اگر وہ تم کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تمہارے لیے کافی ہے۔ قرآن کا یہ حکم اسلامی طریق کا ر کا خلاصہ ہے۔ اسلام کا طریقہ اصلاً غیرحربی طریقہ ہے۔ حتٰی کہ فریق مخالف کی طرف سےدھو کہ کا اندیشہ ہو تب بھی اہل اسلام کو خدا کےبھروسہ پر مصالحت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس حکم کا مدعا یہ ہےکہ غیر حربی میدان، بالفاظ دیگر وہ میدان جہاں دوسروں سے ٹکراؤ پیدا کیے بغیر تم اپنے لیے مواقع کا ر پار ہے ہو، وہاں اپنی قوتوںکو لگا دو۔ اور اس کے علاوہ عمل کے جو دوسرے دائرے ہیں، وہاں قدرت کی طاقتوں کو بر وئے کار آنے کا موقع دو۔ حقیقت یہ ہےکہ جب بھی دو فریق متصادم ہوں تو وہاں تیسرا زیادہ طاقت ور فریق موجود ہوتا ہے اور وہ رب العالمین کی ذات ہے۔ اگر ہم اپنی قوتوں کو اپنے ممکن دائرہ میں محدود رکھیں تو بقیہ دائرہ میں خدا ہمارے لیے کافی ہوجاتاہے۔ اپنے حاصل شدہ دائرۂ عمل کو چھوڑ کر دوسروں کے دائرۂ عمل میں چھلانگ لگانا گویا خدا کے دائرہ سے اپنے کام کا آغاز کرنا ہے۔ایسا آغاز صرف غضبِ اِلٰہی کو بھڑکاتاہے۔ وہ کسی کے لیے خدا کی رحمت ونصرت کو کھینچنے والا نہیں بن سکتا۔
پیغمبر مکہ میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبر انہ زندگی کے دوبڑے دور ہیں۔ ایک کو مکی دور کہا جاتا ہے، دوسرے کو مدنی دور۔ مکہ اور مدینہ دوشہروں کے نام ہیں ۔ ان الفاظ کو آپ لغت میں دیکھیں تو ان کےیہی معنی آپ کو وہاں لکھے ہوئے ملیں گے۔ مگر کچھ معانی وہ ہیں جو تاریخ کسی لفظ میں شامل کرتی ہے۔ مکہ اور مدینہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ابتدائی معنی کے اعتبار سے یہ دونوں الفاظ دوشہروں کے نام ہیں۔ مگر تاریخ کے اعتبار سے وہ اسلامی عمل کے دو پہلوؤں کی علامت بن گئے ہیں ۔ مکہ دعوت کی علامت ہے اور مدینہ انقلاب کی علامت۔ مکی دور اسلام کو دعوتی قوت کی حیثیت سے اٹھانے کا نام ہے اور مدنی دو ر اس کو ماحول میں غالب اور سر بلند کرنے کا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہواہے :
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (49:29)۔محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ منکرین پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل ہیں ۔ تم ان کو دیکھتے ہو رکوع او ر سجدہ میں ۔ وہ اللہ کا فضل تلاش کرتے ہیں ۔ ان کے چہروں پر نشان ہے سجدہ کے اثر سے، یہ مثال ان کی تورات میں ہے۔ اور ان کی مثال انجیل میں یہ ہے جیسے کھیتی نے اپنا انکھو انکالا پھر اس کو مضبوط کیا۔ پھر وہ موٹا ہوا۔ پھر وہ کھڑ ا ہو گیا اپنے تنہ پر۔ وہ اچھا لگتا ہے کھیتی والوں کو تاکہ منکروں کا دل جلائے۔ اللہ نے وعدہ کیا ہے معافی اور اجر عظیم کا ان سے جو ایمان لائے اور نیک کام کیا۔
مذکورہ آیت میں تورات کے حوالہ سے پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کے انفرادی اوصاف کا ذکر ہے اور اس کے بعد انجیل کے حوالہ سے ان کے اجتماعی ارتقا کا۔ پہلے جزء کی تر بیت مکہ میں ہوئی اور دوسرے جزء کی تکمیل مدینہ میں ۔
پیغمبر اسلام کی جو سیر تیں لکھی گئی ہیں، ان کا انداز عام طور پر یہ ہوتا ہے گو یا آمنہ کے پیٹ سے ایک پُر عجو بہ شخصیت نکلی اور اس نے پُر اسرار طریقوں سے پورے عرب کو مسخر کر ڈالا۔ سیرت کی کتابیں انسانی تاریخ سے زیادہ کرامات و معجزات کی ایک طلسماتی داستان نظر آتی ہیں۔ یہ ذوق اتنا بڑھا کہ جن واقعات میں کوئی معجزاتی پہلو نہ تھا وہاں بھی لوگوں نے اپنے قوت تخیل سے کوئی نہ کوئی چیز ڈھونڈ نکالی۔ مثال کے طور پر صہیب بن سنان کی ہجرت کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ مکہ سے روانہ ہوئے تو قریش کے کچھ نوجوانوں نے انہیں آگے بڑھ کر روکا۔ صہیب نے کہا، اگر میں تمہیں اپنا مال دے دوں تو کیا تم مجھے جانے دو گے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ چند اوقیہ سونا جو صہیب کے پاس تھا، وہ سب انہوں نے ان کو دے دیا اور مدینہ پہنچ گئے۔ حضرت صہیب کہتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مدینہ میں دیکھا تو فرمایا:اے ابو یحییٰ تمہاری یہ تجارت بڑی نفع بخش رہی۔ میں نے کہا یا رسول اللہ، مجھ سے پہلے آپ تک مکہ سے کوئی نہیں آیا یہ خبر یقیناً آپ کو جبریل فرشتہ نے دی ہے (فَلَمَّا رَآنِي قَالَ:يَا أَبَا يَحْيَى، رَبِحَ الْبَيْعُ- ثَلَاثًا- فَقُلْتُ:يَا رَسُولَ اللهِ، مَا سَبَقَنِي إِلَيْك أَحَدٌ، وَمَا أَخْبَرَك إِلَّا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ) مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 5706۔
مگر یہی واقعہ دوسری روایت میں ان الفاظ میں آیا ہے:فَخَرَجْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَبَلَغَ ذَلِك النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَبِحَ صُهَيْبٌ رَبِحَ صُهَيْبٌ(الاحاديث المختارة للمقدسی، حدیث نمبر 79)۔ یعنی، میں قریش کے لوگوں کو اپنا مال دے کر مکہ روانہ ہوا۔ یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گیا۔ اس کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: صہیب کی تجارت نفع بخش رہی، صہیب کی تجارت نفع بخش رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی ایک سادہ انسانی واقعہ ہے اور اسی لیے وہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپ کو راستہ چلتے ہوئے اسی طرح ٹھوکر لگی جس طرح عام انسان کو لگتی ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1114)۔ آپ کے مخاطبین اولین کو آپ کا صاحب ِ الہام ہونا اس لیے ناقابل فہم نظر آیا کہ آپ انہیں بظاہر اپنے ہی جیسے ایک انسان نظر آتے تھے :
فَإِنَّكَ تَقُومُ بِالْأَسْوَاقِ كَمَا نَقُومُ، وَتَلْتَمِسُ الْمَعَاشَ كَمَا نَلْتَمِسُهُ(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ297)۔يعني، آپ بازار میں خرید و فروخت کرتے ہیں اور اسی طرح تلاش معاش کرتے ہیں جس طرح ہم کرتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر خدا کی زندگی کی عظمت اس کے انسانی واقعہ ہونے میں ہے نہ کہ پُراسرار معجزاتی داستان ہونے میں ۔ آپ کی کامیابی نصر ت اِلٰہی کے تحت ہوئی، اس لحاظ سے بلاشبہ وہ معجزہ تھی۔ مگر اس معجزہ اِلٰہی کا ظہور ’’بشر رسول‘‘ کی سطح پر ہوا نہ کہ کراماتی شخصیت کی سطح پر۔
قرآن میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تصویر دی گئی ہے، اس کو سامنے رکھا جائے تو آپ کی یہی تصویر اس کے مطابق نظر آئے گی۔
آغاز دعوت
اپنی زندگی کے چالیسویں سال جب آپ کو غار حرا میں پہلی وحی ملتی ہے تو آپ پر ٹھیک وہی رد عمل ہوتاہے جو ایک ’’انسان‘‘ پر ہونا چاہیے۔ آپ خوف زدہ حالت میں گھر واپس آتے ہیں۔ یہاں آپ کی بیوی خدیجہ ہیں۔ وہ خود واقعۂ وحی سے الگ ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں تھیں کہ اس کے بارے میں غیر متاثر رائے قائم کر سکیں۔ چنانچہ وہ آپ سے کہتی ہیں :
كَلَّا وَاللهِ مَا يُخْزِيك اللهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3، صحیح مسلم، حدیث نمبر 160)۔ یعنی، ہر گز نہیں ۔ خدا کی قسم، اللہ آپ کو کبھی رسوانہ کرے گا۔ آپ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔ بے روزگاروں کو کمانے کے قابل بناتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت کےوقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔
دعوت کی جدو جہد کے سلسلہ میں آپ کے یہاں وہی فطری ترتیب نظر آتی ہے جو کسی نئے ماحول میں ایک داعی کو پیش آتی ہے۔ حالات کا تقاضا تھا کہ اولاً پوشیدہ طور پر کام کیا جائے:
ذكر ابن اسحاق ان عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ جَاءَ بَعْدَ ذَلِك بِيَوْمٍ وَهُمَا يُصَلِّيَانِ. فَقَالَ عَلِيٌّ يَا مُحَمَّدُ مَا هَذَا؟ قَالَ دِينُ اللهِ الَّذِي اصْطَفَى لِنَفْسِهِ، وَبَعَثَ بِهِ رُسُلَهُ، فَأَدْعُوكَ إِلَى اللهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيك لَهُ، وَإِلَى عِبَادَتِهِ. وَأَنْ تَكْفُرَ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى. فَقَالَ عَلِيٌّ: هَذَا أَمْرٌ لَمْ أَسْمَعْ بِهِ قَبْلَ الْيَوْمِ، فَلَسْتُ بِقَاضٍ أَمْرًا حَتَّى أُحَدِّثَ بِهِ أَبَا طَالِبٍ. فَكَرِهَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُفْشِيَ عَلَيْهِ سَرَّهُ قَبْلَ أَنْ يَسْتَعْلِنَ امره. فقال له:يا على إذ لَمْ تُسْلِمْ فَاكْتُمْ. فَمَكَثَ عَلِيٌّ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ إِنَّ اللهَ أَوْقَعَ فِي قَلْبِ عَلِيٍّ الْإِسْلَامَ، فَأَصْبَحَ غَادِيًا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَاءَهُ فَقَالَ مَاذَا عَرَضْتَ عَلَيَّ يَا مُحَمَّدُ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهِ وَحْدَهُ لَا شريك لَهُ وَتَكْفُرُ بِاللَّاتَ وَالْعُزَّى، وَتَبْرَأُ مِنَ الْأَنْدَادِ، فَفَعَلَ عَلِيٌّ وَأَسْلَمَ، وَمَكَثَ يَأْتِيهِ عَلَى خَوْفٍ مِنْ أَبِي طَالِبٍ وَكَتَمَ عَلِيٌّ إِسْلَامَهُ وَلَمْ يُظْهِرْهُ (البدایہ والنہایہ،جلد 3، صفحہ24)۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ علی بن ابی طالب آپ کے گھر میں آئے، اس وقت آپ اور حضرت خدیجہ نما زپڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا اے محمد ! یہ کیا ہے۔ آپ نے جواب دیا اللہ کا دین جس کو اس نے اپنے لیے منتخب کیا اور اس کی تبلیغ کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ میں تم کو ایک اللہ کی طرف بلاتاہوں، اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی عبادت کی تلقین کرتاہوں۔ اوریہ کہ تم لات و عزیٰ کو ماننا چھوڑد و۔ علی بن ابی طالب نے کہا، یہ ایسی بات ہے جس کو آج سےپہلے میںنے نہیں سنا۔ میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا جب تک اپنے باپ ابوطالب سے اس کی بابت بات نہ کرلوں۔ آپ کو یہ پسند نہیں آیا کہ اعلان سے پہلے یہ راز کھل جائے۔ آپ نے کہا اے علی، اگر تم اسلام نہیں لاتے تو اس معاملہ کو پوشیدہ رکھو۔ علی بن ابی طالب اس رات رکے رہے پھر اللہ نے ان کے دل میں اسلام ڈال دیا۔ اگلے روز صبح وہ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کےپاس آئے اور کہا، اےمحمد ! کل آپ نے مجھ سے کیا کہا تھا۔ آپ نے فرمایا، گواہی دو کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، ا س کا کوئی شریک نہیں۔ اور لات و عزیٰ کو نہ مانو، او رجن کو خدا کا شریک و سہیم بنایا جاتا ہے، ان سے اظہار بیزاری کرو۔ علی نےاس پر عمل کیا او ر اسلام لے آئے۔ اس کے بعد ابو طالب کے ڈر سے آپ کے پاس چھپ چھپ کر آتے رہے اور علی نےاپنے اسلام کو چھپائے رکھا اس کو ظاہر نہ کیا۔
اوس وخزرج کے ابتدائی مسلمان جب یثرب واپس ہوئے تو آغاز میں ان کا طریقہ بھی یہی تھا کہ خفیہ طور پر دعوتی کام کرتے (فَرَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ فَدَعَوْهُمْ سِرًّا ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 849۔
آ پ نے اپنی پوری زندگی میں شدت سے اس کا اہتمام رکھا کہ کوئی اقدام اس وقت سےپہلے نہ کیا جائے جب کہ اس کی طاقت پیدا ہو چکی ہو۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 38صحابہ جمع ہو گئے تو حضرت ابو بکر نے آپ سے ’’ظہور‘‘ کے لیے اصرار کیا۔ یعنی اب ہم لوگ سامنے آجائیں اور کھلم کھلا تبلیغ کریں۔ مگر آپ کا جواب تھا:يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّا قَلِيلٌ(اے ابوبکر ! ابھی ہم تھوڑے ہیں ) اسی طرح نبوت کے چھٹے سال جب حضرت عمر اسلام لائے تو انہوں نے آپ سے کہا ’’اے خد ا کے رسول ! ہم کیوں اپنے دین کو چھپا ئیں جب کہ ہم حق پر ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کا دین نمایاں رہے، حالاں کہ وہ باطل پر ہیں ‘‘ آپ نے انہیں بھی یہی جواب دیا:يَا عُمَرُ، إِنَّا قَلِيلٌ(اے عمر، ابھی ہم تھوڑے ہیں)من حديث خيثمة بن سليمان القرشي، صفحہ 127-129۔ آپ کا یہی انداز مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ ہجرت کے بعد جب اسلامی طاقت ایک جگہ منظم اور مرتکز ہوگئی اور قریش فوج لے کر اس کے استیصال کے لیے آگئے، اس وقت مقابلہ کی اجازت دی گئی۔ بدر کے میدان میں جب آپ کے اصحاب نے اسلام دشمنوں سے مقابلہ شروع کیا تونبی صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا تھاهذا یوم لہ مابعدہ۔ گویا اہل اسلام کے لیے عملی اقدام کا وقت وہ ہوتا ہے جب کہ وہ اس پوزیشن میں ہو جائیں کہ اپنے اقدام سے اسلام کے لیے نیا مستقبل پید ا کر سکتے ہوں۔ اس سے پہلے عملی اقدام جائز نہیں۔
روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جب آپ کو دعوت عام کی ذمہ داری سونپی گئی تو آپ کو احساس ہو ا کہ یہ بہت بڑاکام ہے جس کے لیے ہمہ تن مصروف ہونا ضروری ہے۔ آپ نے چاہا کہ آپ کے خاندان کے لوگ آپ کی اقتصادی ذمہ داریوں میں آپ کےکفیل ہو جائیں تاکہ آپ اس کا م کو بخوبی طورپر انجام دے سکیں۔ آپ نے اپنے مکان پر خاندان عبد المطلب کو جمع کیا جو اس وقت تقریباً 40افراد پر مشتمل تھے۔ ایک روایت کے مطابق 30آدمی جمع ہوئے۔ آپ نے ان کو بتایا کہ خدا نے مجھےنبوت عطا کی ہے تم لوگ میرے ساتھ تعان کر و تاکہ میں اس ذمہ داری کو اداکر سکوں :
يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي بُعِثْتُ لَكُمْ خَاصَّةً وَإِلَى النَّاسِ بِعَامَّةٍ، وَقَدْ رَأَيْتُمْ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ مَا رَأَيْتُمْ، فَأَيُّكُمْ يُبَايِعُنِي عَلَى أَنْ يَكُونَ أَخِي وَصَاحِبِي؟(مسند احمد،حدیث نمبر 1371)۔مَنْ يَضْمَنُ عَنِّي دَيْنِي وَمَوَاعِيدِي، وَيَكُونُ مَعِي فِي الْجَنَّةِ، وَيَكُونُ خَلِيفَتِي فِي أَهْلِي؟ فَقَالَ:رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللهِ، أَنْتَ كُنْتَ بَحْرًا، مَنْ يَقُومُ بِهَذَا؟ (مسند احمد، حدیث نمبر 883)۔ يعني، اے خاندان عبد المطلب ! میں تمہاری طرف خاص طور پر اور تمام لوگوں کی طرف عام طور پر بھیجا گیا ہوں پھر تم میں سے کون مجھ سےاس پر بیعت کرتاہے کہ وہ میرا بھائی اور ساتھی ہوگا۔ (ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے کہا) تم میں سےکون میرے قرضوں اور میرے وعدوں کا ضامن بنتا ہے اور میرے پیچھے میرے گھر والوں کا ذمہ دار بنتا ہے اور وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ ایک شخص بولا، اے محمد، آپ تو ایک سمندر ہیں۔ کون اس ذمہ داری کےلیے کھڑاہو سکتاہے۔
آپ کا خاندان آپ کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ عباس بن عبد المطلب آپ کے چچا تھے۔ وہ اقتصادی حیثیت سے اس پوزیشن میںتھے کہ آپ کی ذمہ داری لے سکیں۔ مگر وہ بھی خاموشی رہے (فَسَكَتُوا وَسَكَتَ الْعَبَّاسُ خَشْيَةَ أَنْ يُحِيطَ ذَلِك بِمَالِهِ)السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد1، صفحہ 460۔مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی نصرت فرمائی۔ اولاً آپ کی اہلیہ خدیجہ بنت خویلد اور اس کے بعد ابو بکر صدیق کا مال مکی زندگی میں آپ کا اقتصادی سہارا بنا رہا۔
لوگوں کو دعوت حق پہنچانے کے لیے آپ بچوں کی طرح حریص تھے۔ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ مکّہ کے ممتاز لوگ ایک روز غروب آفتاب کے بعد کعبہ کے پاس جمع ہوئے او رآپ کو بات چیت کےلیے بلایا (فَبَعَثُوا إلَيْهِ:إنَّ أَشْرَافَ قَوْمِك قَدْ اجْتَمَعُوا لَك لِيُكَلِّمُوك) اس کے بعد روایت کے الفاظ یہ ہیں :
فَجَاءَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيعًا، وَهُوَ يَظُنُّ أَنْ قَدْ بَدَا لَهُمْ فِيمَا كَلَّمَهُمْ فِيهِ بَدَاءٌ، وَكَانَ عَلَيْهِمْ حَرِيصًا يُحِبُّ رُشْدَهُمْ، وَيَعِزُّ عَلَيْهِ عَنَتُهُمْ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ295)يعني، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے آئے۔ آپ کوخیال ہوا کہ شاید انہیں قبول حق کی طرف کچھ میلان ہوگیا ہے اور آپ قریش کی ہدایت کے لیے بے حد حریص تھے اور ان کی ہلاکت آپ پر بہت گراں گزرتی تھی۔
مگر بلانے والوں نے آپ کو محض بحث مباحثہ کے لیے بلایا تھا نہ کہ بات ماننے کےلیے۔ چنانچہ طویل گفتگو کے بعد آپ غمگین واپس لوٹے:
وَانْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى أَهْلِهِ حَزِينًا آسِفًا لِمَا فَاتَهُ مِمَّا كَانَ يَطْمَعُ بِهِ مِنْ قَوْمِهِ حِينَ دَعَوْهُ، وَلِمَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ إيَّاهُ(سیرت ابن ہشام جلد 1صفحہ 298)۔ یعنی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم حزن اور افسوس کے ساتھ اپنے گھر واپس آئے کیونکہ قوم سے جس چیز کی امید لگا کرگئے اس کو نہ پایا۔ وہ لوگ اس سے بہت دور تھے۔
اسی طرح ابو طالب کے مرض الموت میں جب لوگ ان کے پاس جمع ہوئے توانہوں نے کہا کہ ہمارے اور اپنے بھتیجے کے درمیان اپنی موت سے پہلے کچھ طے کر دیجیے (فَخُذْ لَهُ مِنَّا، وَخُذْ لَنَا مِنْهُ، لِيَكُفَّ عَنَّا، وَنَكُفَّ عَنْهُ، وَلِيَدَعَنَا وَدِينَنَا، وَنَدَعَهُ وَدِينَهُ)۔ابو طالب نے آپ کو بلایا اور پوچھا کہ قوم سے آپ کیا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:تقولون لا اِلٰہ الا اللہ و تخلعون ماتعبدون من دونہ۔مگرقوم اس کو ماننے پر تیار نہ ہوئی۔ اس کے بعد جب لوگ چلے گئے تو ابن اسحاق کی روایت کے مطابق ابو طالب نے کہا، بھتیجے ! خدا کی قسم میرا خیال ہے کہ تم نے قوم سے کسی مشکل چیز کا مطالبہ نہیں کیا (وَاَللهِ يَا بن أَخِي، مَا رَأَيْتُكَ سَأَلْتَهُمْ شَطَطًا)۔ ابوطالب کی زبان سے یہ جملہ سن کر آپ کی جو کیفیت ہوئی، راوی کہتے ہیں ، وہ یہ تھی:طَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إسْلَامِهِ، فَجَعَلَ يَقُولُ لَهُ:أَيْ عَمِّ، فَأَنْتَ فَقُلْهَا أَسْتَحِلَّ لَك بِهَا الشَّفَاعَةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ417-18)۔یعنی، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کےبارے میں امید پید اہوگئی اور آپ ان سے کہنے لگے، اے چچا پھر آپ ہی اس کلمہ کو کہہ دیجیے تاکہ قیامت کے دن میرے لیے آپ کی سفارش کرنا حلال ہو جائے۔
آپ مدعو کی طرف سے ہر قسم کے اشتعال کو آخری حد تک برداشت کرتےتھے۔ فتح مکہ کے بعد ہند بنت عتبہ بن ربیعہ آپ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئی۔ آ پ نے بیعت کے الفاظ ادا کرتے ہوئے حسب معمول جب یہ فرمایا:تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کر و گی، تو ہند فوراًبولی:وَهَلْ تَرَكْتَ لَنَا أَوْلَادًا نَقْتُلُهُمْ؟( مسند أبي يعلى، حدیث نمبر 4754)۔ يعني، (جنگ کے بعد) کیا آپ نے ہمارے لیے کوئی اولاد چھوڑی ہے جس کو ہم قتل کریں۔
مگر آپ نے اس کے طنز یہ جملہ کا کوئی اثر نہیں لیا اور اس کو خوشی کےساتھ بیعت کر لیا۔
اس مشن کی راہ میںآپ نے نہ صرف اپنے وقت اور اپنے جسم و دماغ کی ساری طاقت لگادی۔ بلکہ اپناسارا اثاثہ بھی اس کی راہ میں قربان کردیا۔ نبوت سے پہلے مکہ کی ایک دولت مند خاتون سے نکاح کی وجہ سے آپ کافی مال دار ہو گئےتھے۔ مکہ کے ابتدائی دور میں ایک بار سردارانِ قریش نے عتبہ بن ربیعہ کو اپنا نمائندہ بناکر آپ کے پاس گفتگو کے لیے بھیجا۔ وہ آپ کے پاس پہنچ کر خود ہی مرعوب ہو گیا:
وَلَمْ يَخْرُجْ إِلَى أَهْلِهِ وَاحْتَبَسَ عنهم.فقال أبو جهل:والله يا معشر قريش مَا نَرَى عُتْبَةَ إِلَّا صَبَأَ إِلَى مُحَمَّدٍ وَأَعْجَبَهُ طَعَامُهُ، وَمَا ذَاك إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ أَصَابَتْهُ، انْطَلِقُوا بِنَا إِلَيْهِ فَأَتَوْهُ.فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ:وَاللهِ يَا عُتْبَةُ مَا جِئْنَا إِلَّا أَنَّك صَبَوْتَ إِلَى مُحَمَّدٍ وَأَعْجَبَك أَمْرُهُ، فَإِنْ كَانَ بِك حَاجَةٌ جَمَعْنَا لَك مِنْ أَمْوَالِنَا مَا يُغْنِيك عَنْ طَعَامِ مُحَمَّدٍ.فَغَضِبَ وَأَقْسَمَ بِاللهِ لَا يُكَلِّمُ مُحَمَّدًا أَبَدًا(البدایہ والنہایہ، جلد 3، صفحہ 80)۔ یعنی، اور عتبہ اس کے بعد گھر بیٹھ رہا اور لوگوں کے پاس نہ گیا۔ ابو جہل نے کہا اے بر ادران قریش، خدا کی قسم، میر ا خیال ہے کہ عتبہ محمد کی طرف مائل ہوگیا اور اسے محمد کا کھانا پسند آگیا اور یقیناً اسے کسی حاجت کی بنا پر ایسا کرنا پڑا۔ آؤ ہم عتبہ کے پاس چلیں۔ چنانچہ وہ گئے۔ ابو جہل نےکہا اے عتبہ!خدا کی قسم ہم کو اس لیے آناپڑا کہ تم محمد کی طرف مائل ہو گئے اور ان کا معاملہ تم کو پسند آگیا۔ اگر تمہیں ضرورت ہو تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کر دیں جو تمہیں محمد کے کھانے سے بے نیاز کر دے، عتبہ یہ سن کر بگڑ گیا اور قسم کھا کر کہا کہ میں محمد سے کبھی بات نہ کروں گا۔
اسی طرح عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے کہ ولید بن مغیرہ آپ کے پاس آیا۔ آپ نے اس کو قرآن سنایا۔ قرآن کے ادب نے اس کو شدید طور پر متاثر کیا۔ ابو جہل کومعلوم ہو اتو وہ ولید بن مغیرہ کےیہاں پہنچا اور اس سے کہا، لوگوں کا ارادہ ہے کہ تمہارے لیے مال جمع کریں۔ کیوں کہ تم کو محمد کے مال کی خواہش ہوگئی ہے۔
اِس قسم کی مالی حیثیت سے آپ نے نبوت کا آغاز کیا۔مگر تیرھويں سال جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ کےپاس کچھ باقی نہ رہاتھا حتیٰ کہ آپ نے حضرت ابو بکر سے قرض لے کر سامان سفر درست کیا۔
دعوت کی زبان
دعوت اسلامی کے بنیادی نکات، منطقی طور پر، اگر چہ اتنے متعین ہیں کہ وہ انتہائی یکسانیت کے ساتھ شمار کیے جاسکتے ہیں ۔ مگردعوت کے کلمات جب داعی کی زبان سے نکلتے ہیں تو اس میں ایک اورچیز شامل ہوجاتی ہے، اور وہ داعی کی اپنی ذات ہے۔ یہ اضافہ دعوت کو ایک متعین مضمون کی ریکا رڈنگ کے بجائے اس کو ایک ایسا زندہ عمل بنا دیتاہے۔ جو با عتبار حقیقت ایک ہونے کے با وجود اتنی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے جس کی کوئی لگی بندھی فہرست نہیں بنائی جاسکتی۔ داعی کے سینے میں خوف خدا سے لرزتا ہو ادل، مدعو کے ایمان کے لیے بچوں کی سی معصوم اور بے قرار تمنا، یہ جذبہ کہ اگر میں خدا کے بندوں کو خدا کے قریب کر سکوں تو خدا مجھ سے خوش ہو جائے گا، یہ چیزیں نہ صرف کلمات دعوت میں کیفیت کا اضافہ کرتی ہیں بلکہ اس کو با عتبار ظاہر انتہائی متنوع بھی بنا دیتی ہیں۔ کیوں کہ مدعو کو متاثر کرنے کا پُر شوق جذبہ اس کو مجبور کرتا رہتا ہے کہ ہر ایک کے ذہن کی مکمل رعایت کرتے ہوئے اس کے سامنے اپنی بات رکھے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی میں یہ چیز کامل درجہ میں نظر آتی ہے۔ آپ شب و روز دعوت پہنچانے میں مشغول رہتے تھے۔ مگر آپ کا طریقہ یہ نہ تھا کہ کچھ مقرر الفاظ کو ہر ایک کے سامنے دہر ادیا کریں، بلکہ مخاطب کی رعایت کرتے ہوئے اس کے سامنے اپنی بات رکھتے تھے۔
مکہ کے ابتدائی زمانہ میں ایک بار آپ نے ابو سفیان اور ان کی بیوی ہند کو دعوت دی۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے حسب ذیل الفاظ کہے:
يَا أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ، وَيَا هِنْدُ بِنْتُ عُتْبَةَ، وَاللهِ لَتَمُوتُنَّ ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ، ثُمَّ لَيَدْخُلَنَّ الْمُحْسِنُ الْجَنَّةَ، وَالْمُسِيءُ النَّارَ، وَإِنَّ مَا أَقُولُ لَكُمْ حَقٌّ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 6615)۔ یعنی، اے ابو سفیان اور اے ہند ! خد اکی قسم تم کو ضرور مرنا ہے۔ اس کے بعد تم دو بارہ اٹھائے جاؤ گے۔ پھر جو بھلا ہوگا جنت میں داخل ہوگا اور جو برا ہو گا جہنم میں جائے گا اور میں جو کچھ کہہ رہا ہوں حق کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔
ابن خزیمہ نے نقل کیا ہے کہ مکہ کے ایک بزرگ حصین سے آپ کی گفتگو اس طرح ہوئی :
يَا حُصَيْنُ، كَمْ إِلَهًا تَعْبُدُ الْيَوْمَ؟ قَالَ:سَبْعَةً فِي الْأَرْضِ، وَإِلَهًا فِي السَّمَاءِ، قَالَ:فَإِذَا أَصَابَكَ الضُّرُّ مَنْ تَدْعُو؟ قَالَ:الَّذِي فِي السَّمَاءِ، قَالَ:فَإِذَا هَلَکَ الْمَالُ مَنْ تَدْعُو؟ قَالَ:الَّذِي فِي السَّمَاءِ، قَالَ:فَيَسْتَجِيبُ لَك وَحْدَهُ، وَتُشْرِكُهُمْ مَعَهُ؟(التوحید لابن خزیمہ، جلد1، صفحہ 277)۔یعنی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے حصین ! کتنے معبودوں کی پرستش کرتے ہو۔ حصین نےکہا سات کی زمین میں اور ایک جو آسمان پر ہے۔ آپ نے فرمایا۔ جب مصیبت آئے تو کس کو پکارتے ہو۔ حصین نےکہا آسمان والے کو۔ آپ نے فرمایا جب مال پر تباہی آئے تو کس کو پکارتے ہو۔ حصین نے کہا آسمان والے کو۔ آپ نے فرمایا وہ اللہ تو تنہا تمہاری فریاد رسی کرتاہے اور تم اس کے ساتھ شریک کرتے ہو۔
امام احمد نے ابو امامہ سے نقل کیا ہے کہ عمرو بن عبسہ السلمي آپ کے پاس آیا، اور دریافت کیا کہ خدا نے آپ کو کیا چیز دے کر بھیجا ہے ( بِمَاذَا أَرْسَلكَ) آپ نے فرمایا:
بِأَنْ تُوصَلَ الْأَرْحَامُ، وَتُحْقَنَ الدِّمَاءُ، وَتُؤَمَّنَ السُّبُلُ، وَتُكَسَّرَ الْأَوْثَانُ، وَيُعْبَدَاللهُ وَحْدَهُ لَا يُشْرَك بِهِ شَيْءٌ(مسند احمد، حدیث نمبر17016)۔ یعنی، یہ کہ صلہ رحمی کی جائے۔ قتل ناحق سے بچاجائے۔ راستوں میں امن رکھا جائے۔ بتوں کو توڑا جائے۔ صرف ایک خدا کی عبادت کی جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔
مدینہ پہنچنے کے بعد اہل نجران کو آپ نے دعوتی مکتوب روانہ کیا تو اس کے الفاظ یہ تھے:
فَإِنِّي أَدْعُوكُمْ إِلَى عِبَادَةِ اللهِ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ، وَأَدْعُوكُمْ إِلَى وِلَايَةِ اللهِ مِنْ وِلَايَةِ الْعِبَادِ(البدایۃ و النہایۃ، جلد5، صفحہ 53)۔ یعنی،میں تم کو بندوں کی عبادت سے خد ا کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں۔ بندوں کی ولایت سے خدا کی ولایت کی طرف بلاتاہوں۔
ایک مستقل اور اہم ترین تبلیغ کا ذريعه خود قرآن تھا۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص ملتا تو اس کو قرآن کا کوئی حصہ پڑھ کر سناتے۔ روایتوں میں اکثر اس قسم کے الفاظ آتے ہیں:ثُمَّ ذَكَرَ الْإِسْلَامَ، وَتَلَا عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ(مسند احمد، حدیث نمبر 23619)،وَعَرَضَ عَلَيْهِمُ الإِسْلامَ وَتَلا عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ (الطبقات الکبریٰ، جلد1، صفحہ170)۔قرآن کی کشش عربوں کے لیے اتنی حیرت انگیز تھی کہ اسلام کے بعض کٹر مخالفین بھی راتوں کو چھپ کر آپ کے مکان کے پاس آتے اور آپ قرآن پڑھ رہے ہوتے تو دیوار سے لگ کراسے سنتے۔ قرآ ن کا آسمانی ادب عربوں کو بے پناہ طور پر متاثر کرتاتھا۔ ولید بن مغیرہ جب قریش کا نمائندہ بن کر آپ کے پاس آیا تو آپ نے اس کو قرآن کے حصے پڑھ کر سنائے۔اس سے وہ اتنا مرعوب ہوا کہ واپس جاکر قریش سے کہا یہ تو اتنا بلند کلام ہے کہ دوسرے تمام کلام اس کے آگے پست ہو جاتے ہیں ( وَإِنَّهُ لَيَعْلُو وَمَايُعْلَى، وَإِنَّهُ لَيُحَطِّمُ مَا تَحْتَهُ )شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 133۔تبلیغ اسلام کے لیے قرآن سنانا اس زمانہ میں ایک عام طریقہ بن گیا تھا۔ مصعب بن عمیرجب مبلّغ کی حیثیت سے مدینہ بھیجےگئے تو ان کا طریقہ یہ تھا کہ لوگوں سے باتیں کرتے اور قرآن سناتے (يُحَدِّثُهُمْ وَيَقُصُّ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ )قرآن سنانے کی وجہ سے ان کا نام مقری پڑگیا تھا۔ (وَكَانَ يُدْعَى الْمُقْرِئَ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 849۔
مکہ میں آپ کی دعوت انتہائی سنجیدہ اور علمی انداز میں قرآن کے اعلیٰ ادب کے زیر سايه چل رہی تھی۔ دوسری طرف مخالفین کے پاس سب وشتم کے سوا اور کچھ نہ تھا، یہاں تک کہ مکہ کےسنجیدہ حلقوں میں کہا جانے لگا کہ محمد کے مخالفین کے پاس محمد کے جواب میں کوئی ٹھوس بات نہیں ہے۔ مکہ کے اعیان و اشراف نے ایک خصوصی اجتماع میں آپ کو بلاکر آپ سے بات کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس کی وجہ ابن ہشام کی روایت کے مطابق یہ تھی کہ وہ اپنی قوم کےسامنے بری الذمہ ہو جائیں (ابْعَثُوا إلَى مُحَمَّدٍ فَكَلِّمُوهُ وَخَاصِمُوهُ حَتَّى تُعْذِرُوا فِيهِ) سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ295۔
عربو ں کی صلاحیت
جہاں تک دعوت کی قبولیت کا تعلق ہے، اس کا معاملہ صرف دعوت کی سچائی یا داعی کی جدو جہد پر منحصر نہیں ہوتا۔ اس سے زیادہ وہ مدعو کے اپنے حالات پر موقوف ہوتاہے۔ عرب کے جغرافیہ میں جو انسانی عنصر جمع تھا،وہ اس لحاظ سے انتہائی قیمتی تھا،اس کی ظاہری جہالت اور اکھڑپن کےپیچھے فطرت کی سادگی پوری طرح محفوظ تھی۔
30لاکھ کیلو میٹر رقبہ والا مسطح اور گرم ملک اعلیٰ ترین انسانی اقدار اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔ ایک عرب اپنے اونٹ کو جو اس کی معاش کا واحد ذریعہ تھا، ذبح کر کے اس کا گوشت مہمانوں کو کھلا دیتاتھا تاکہ وہ بھوکے نہ رہیں ، جس وقت ایک مظلوم شخص جنگل میں ایک عربی کے خیمہ میں پناہ لیتاتو وہ ہاتھ میں تلوار لے کر اس کی حمایت کرتاتھا۔ مخالفین جب تک خیمہ والے کو قتل نہ کر لیتے وہ مظلوم کو خیمہ سے نہیں لے جاسکتے تھے، حتٰی کہ لوٹنے والے اگر یہ چاہتے کہ وہ قبیلہ کی عورتوں کے قیمتی لباس اور زیورات پر قبضہ کریں تو وہ ان کو ننگا نہیں کر سکتے تھے، اور نہ انہیں چھوسکتے تھے، وہ اپنے لیے لازم سمجھتے تھےکہ عورتوں سےکہیں کہ اپنے زیورات اور لباس اتاردیں۔ جس وقت عورتیں لباس اتار رہی ہو تیں ، حملہ کرنے والے اپنا منھ پھیر لیتے تاکہ ان کی نگاہ عورتوں کی برہنگی پر نہ پڑے۔
یہ سمجھنا صحیح نہ ہوگا کہ عرب باد یہ بالکل سیدھے سادے ’’کم فہم ‘‘ لوگ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نہایت با شعور تھے او ربہت جلد باتوں کی تہ تک پہنچ جاتے تھے۔
ایک قبیلہ کے سات نو مسلم آپ کے پا س آئے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ ہم نے جاہلیت سے پانچ چیزیں سیکھی ہیں۔ ہم ان پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک آپ ہمیں ان سے منع نہ کردیں :
وَمَا الْخَمْسُ الَّتِي تَخَلَّقْتُمْ بِهَا أَنْتُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟» قُلْنَا:الشُّكْرُ عِنْدَ الرَّخَاءِ، وَالصَّبْرُ عِنْدَ الْبَلَاءِ، وَالصِّدْقُ فِي مَوَاطِنِ اللِّقَاءِ، وَالرِّضَى بِمُرِّ الْقَضَاءِ، وَالصَّبْرُ عِنْدَ شَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:عُلَمَاءُ حُكَمَاءُ كَادُوا مِنْ صِدْقِهِمْ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ(حلیۃ الاولیاء، جلد9، صفحہ279)، وفی روایۃ:أُدَبَاءُ فَقَهَاءُ عُقَلَاءُ حُلَمَاءُ كَادُوا أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ مِنْ خِصَالٍ مَا أَشْرَفَهَا وَأَزْيَنَهَا وَأَعْظَمَ ثَوَابَهَا (الزھد الکبیر للبیہقی، حدیث نمبر 970)۔ يعني، آپ نے فرمایا وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں جو تم نے زمانہ جاہلیت سے پائی ہیں۔ آنے والوں نے جواب دیا:خوش حالی میں شکر کرنا۔ مصیبت میںصبر کرنا، مڈبھیڑ کے وقت سچا ثابت ہونا۔ تقدیر پر راضی رہنا۔ کسی کی مصیبت پر خوش نہ ہونا، خواہ وہ دشمن کیوں نہ ہو۔آپ نے کہاعلم والے، وائز پرسن ہیں، ان کے اندر انبیاء کی شان ہے۔ ایک اور روایت میں ہے یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ اہل ادب، سمجھدار، عقل والے، بردبار ہیں۔ ان کے اندر انبیاء کی شان ہے۔ کتنی اعلیٰ ہیں ان کی باتیں ، کتنی خوبصورت ہیں ان کی باتیں، کتنی زیادہ ثواب والی ہیں ان کی باتیں۔
ضماد، قبیلہ از دشنوہ کے ایک شخص تھے۔ وہ بھوت پریت اتار نے کامنتر کیا کرتے تھے۔ ایک بار مکہ آئے تو لوگوں نے آپ کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ان پر جن کا اثر ہوگیا ہے۔ ضماد اس خیال سےآپ سے ملے کہ اپنے فن کے ذریعہ آپ كا علاج کریں ۔ مگر جب آپ کی باتیں سنیں تو کہا’’خدا کی قسم میں نے کاہنوں اور ساحروں کی باتیں سنی ہیں اور شعراء کے کلام دیکھے ہیں ۔ مگر ایسے کلمات میں نے کبھی نہیں سنے۔ اپنا ہاتھ بڑھائیے کہ میں بیعت کرلوں‘‘۔ حسب عادت پیغمبر اسلام نے اس موقع پر کوئی لمبی تقریر نہیں کی تھی، بلکہ مسلم اور احمدکی روایت کے مطابق صرف اتنا کہا تھا:
إِنّ الْحَمْدَ لِلهِ، نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ، فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِل، فَلا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ( سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ میں اسی کی تعریف کرتا ہوں اور اسی سےمدد چاہتا ہوں جس کو اللہ ہدایت دے۔ اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو وہ ہدایت نہ دے کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں ۔ وہ اکیلا ہے کوئی ا س کا شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
مگر انہیں مختصر کلمات میں انہوں نے معانی کا خزانہ پالیا :
فَقَالَ:رُدَّ عَلَيَّ هَذِهِ الْكَلِمَاتِ... لَقَدْ بَلَغْنَ قَامُوسَ الْبَحْرِ(مسند احمد، حدیث نمبر 2749)۔يعني،ضماد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، اپنے ان کلمات کو دوبارہ کہیے۔ یہ کلمات تو سمندر کی گہرائی میں اترے ہوئے ہیں۔
ایک عرب کے لیے کہنے اور کرنےمیں فرق کاکوئی سوال نہ تھا۔ وہ خود بھی قول و فعل میں سچے تھے اور دوسروں کو بھی سچا سمجھتے تھے۔ جیسے ہی اس کی سمجھ میں بات آجاتی، وہ فوراً اسے ما ن لیتا۔ ابن اسحاق نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کیاہے کہ قبیلہ بنی سعد نے ضمام بن ثعلبہ کو اپنا نمائندہ بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ وہ مدینہ آئے، اپنی اونٹنی مسجد کے دروازے پر بٹھائی اور اس کو باندھا۔ اس کے بعد مسجد کے اندر داخل ہوئے۔ آپ اس وقت اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ضمام ایک بہادر اور سمجھ دار آدمی تھے۔ انہوں نے آپ کی مجلس کے سامنے کھڑے ہو کر کہا تم میں سے کون ابن عبد المطلب ہے (أَيُّكُمُ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ) آپ نے فرمایا، میں ابن عبد المطلب ہوں۔ ضمام نے کہا، اے محمد ! آپ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا اے ابن عبد المطلب میں آپ سے کچھ پوچھوں گا اور پوچھنے میں کچھ سختی کروں گا، آپ اس کو محسوس نہ کریں ۔ آپ نے فرمایا میں کچھ محسوس نہیں کروں گا۔ جو تمہارے جی میں آئے پوچھو۔ ضمام نے کہا، میں آپ کو قسم دیتاہوں آپ کے معبود کی اور ان لوگوں کے معبود کی جو آپ سے پہلے تھے اور ان لوگوں کے معبود کی جو آپ کے بعد آئیں گے، کیا اللہ نے آپ کورسول بناکر ہماری طرف بھیجا ہے (آللهُ بَعَثَك إِلَيْنَا رَسُولًا)آپ نے فرمایا خدایا !ہاں۔ ضمام نے کہا میں آپ کو قسم دیتاہوں آپ کے معبود کی اور ان لوگوں کے معبود کی جو آپ سے پہلے تھے اور ان لوگوں کے معبود کی جو آپ کےبعد آئیں گے، کیا اللہ نے آپ سے کہا ہے کہ ہم کو حکم دیں کہ ہم تنہا اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھرائیں اور ان بتوں کو چھوڑدیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا خدایا ! ہاں۔ ضمام نے کہا میں آپ کو قسم دیتاہوں آپ کے معبود کی اور ان لوگوں کے معبود کی جو آپ سے پہلے تھے او ران لوگوں کے معبود کی جو آپ کے بعد آئیں گے،کیا اللہ نے آپ کو حکم دیاہے کہ ہم یہ پانچ وقتوں کی نماز پڑھیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ راوی کہتے ہیں کہ اسی طرح انہوں نے زکوۃ، روزہ، حج اور تمام احکام اسلام کا ذکر کیا۔ ہر فریضہ کو مندرجہ بالا طریقہ پر قسم دے کر پوچھتے، یہاں تک کہ جب فارغ ہو گئے تو کہا:
فَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلااللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَسَأُؤَدِّي هَذِهِ الْفَرَائِضَ، وَأَجْتَنِبُ مَا نَهَيْتَنِي عَنْهُ، ثُمَّ لَا أَزِيدُ وَلا أَنْقُصُ۔يعني، میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں او ر میں گواہی دیتاہوںکہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور اب میں ان فرائض کو ادا کروں گا اور ان چیزوں سے بچوں گاجن سے آپ نے منع کیاہے۔ اس میں نہ کوئی کمی کروں گا اور نہ کوئی زیادتی۔
پھر اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر واپس روانہ ہوگئے اور اپنی قوم میں پہنچ کر انہیں پوری بات بتائی۔ ایک روایت کےمطابق صبح کی شام نہیں ہونے پائی تھی کہ ان کی مجلس کے تمام مرد و عورت مسلمان ہو گئے(مسند احمد، حدیث نمبر 2380)۔
ان کے اندر نفاق نہ تھا۔ اقرار اور انکار کےدرمیان وہ کسی تیسری چیز کو نہ جانتے تھے۔ جب وہ کسی کو ایک قول دے دیتے تو اس کو ہر حال میں پورا کرتے، خواہ اس کی خاطر جان و مال کی کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ عرب کردار کی یہ جھلک یثرب کے قبائل (اوس و خزرج) کی ان تقریروں میں ملتی ہے جو بیعت عقبہ ثانیہ کے مواقع پر ان کے نماندوں نے کی تھی :
إنَّ الْقَوْمَ لمَّا اجْتَمَعُوا لِبَيْعَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ العبَّاس بْنُ عُبَادَةَ بْنِ نَضْلَةَالْأَنْصَارِيُّ أَخُو بَنِي سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ:يَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ هَلْ تَدْرُونَ عَلَامَ تُبَايِعُونَ هَذَا الرَّجُلَ؟ قَالُوا:نَعَمْ! قَالَ إِنَّكُمْ تُبَايِعُونَهُ عَلَى حَرْبِ الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ مِنَ النَّاسِ، فَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ إِذَا أنهكت أموالكم مصيبة، وأشرافكم قتلاً أَسْلَمْتُمُوهُ فَمِنَ الْآنَ فَهُوَ وَاللهِ إِنْ فَعَلْتُمْ خِزْيُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ وافون لَهُ بِمَا دَعَوْتُمُوهُ إِلَيْهِ عَلَى نَهْكَةِ الْأَمْوَالِ وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ فَخُذُوهُ، فَهُوَ وَاللهِ خَيْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.قَالُوا:فَإِنَّا نَأْخُذُهُ عَلَى مُصِيبَةِ الْأَمْوَالِ وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ فَمَا لَنَا بِذَلِك يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ نَحْنُ وَفَيْنَا؟ قَالَ "الْجَنَّةُ" قَالُوا ابْسُطْ يَدَك فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعُوهُ(البدایہ والنہایہ، جلد 3 ، صفحہ 162)۔يعني، یثرب کے لوگ جب آپ سے بیعت کے لیے جمع ہوئے تو عباس بن عبادہ نے کہا اے گروہ خزرج ! کیا تم جانتے ہو کہ تم کس چیز پر ان کے ہاتھ بیعت کر رہے ہو۔ انہوں نے کہا ہاں۔ عباس بن عبادہ نے کہا، تم سرخ و سفید سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارا مال ضائع ہو اور تمہارے اشراف قتل کیے جائیں تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کی قوم کے حوالےکر دو گے تو ابھی ایسا کر لو۔ کیونکہ بعد کو تم نے ایسا کیا تو خد ا کی قسم وہ دنیا و آخرت کی رسوائی ہوگی، او راگر تمہارا یہ خیال ہو کہ تم نے جو کچھ وعدہ کیا ہے اس کو تم پورا کرو گے، خواہ تمہارے مال ضائع ہوں اور تمہارے اشراف قتل کیے جائیں، تو ان کو اپنے ساتھ لے جاؤ،کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
انہوں نے کہا، ہم آپ کو لیتے ہیں خواہ ہمارے مال تباہ ہوں یا ہمارے اشراف قتل کیے جائیں ۔ اے اللہ کے رسو ل اس کے بدلے میں ہمارے لیے کیا ہے۔ اگرہم اس قول کو پورا کر دیں۔ آپ نے فرمایا جنت۔ انہوں نے کہا پھر اپنا پاتھ بڑھائیے،آپ نے ہاتھ بڑھایا اور انہوں نے بیعت کرلی۔
واقعات ثابت کرتے ہیں کہ یہ محض تقریر نہ تھی،بلکہ انہوں نے لفظ بلفظ اپنے اس عہد کو پورا کیا۔ حتٰی کہ جب اسلام غالب ہو گیا تو اس کے بعد بھی وہ اپنی قربانیوں کے لیے کسی سیاسی معاوضہ کے طالب نہ ہوئے بلکہ خلافت کو مہاجرین کےحوالے کر کے اس پر راضی ہو گئے اور اسی حال میں ایک ایک کر کے اس دنیا سے چلے گئے۔
دعوت کی ہمہ گیری
ابن اسحاق نے عبد اللہ بن عباس سے روایت کیا ہے کہ ایک بار قریش کے اشراف ابوطالب کے یہاں جمع ہوئے۔ ان میں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ۔ ابوجہل بن ہشام، امیہ بن خلف اور ابو سفیان بن حرب جیسے لیڈر شامل تھے۔ ابوطالب کی معرفت ان لوگوں نے پوچھا کہ آخر آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ، آپ نےکہا :
كَلِمَةٌ وَاحِدَةٌ تُعْطُونِيهَا تَمْلِكُونَ بِهَا الْعَرَبَ، وَتَدِينُ لَكُمْ بِهَا الْعَجَمُ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ417)۔يعني، میں صرف ایک بات کا مطالبہ کرتاہوں۔ اگر تم اسے مان لو توتم سارے عرب کے مالک بن جاؤ گے اور عجم تمہارا مطیع فرمان ہوگا۔
توحید کا کلمہ بظاہر صرف ایک اعتقادی کلمہ ہے۔ مگر اس کے اندر ہر قسم کی انسانی فتوحات کا راز چھپا ہواہے۔ یہ انسانی فطرت کی آواز ہے، اس لیے وہ انسانی نفسيات کی انتہائی گہرائیوں میں شامل ہو جاتا ہے اور اکثر خود مخالفین کے اندر اپنے حامی پیدا کر لیتا ہے۔ خالد بن ولید فتح مکہ سے کچھ پہلے اسلا م لائے۔ مگر اسلام کی سچائی بہت پہلے سے ان کے قلب میں ان کا پیچھا کیے ہوئے تھی۔ اسلام کے بعد انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ میرے دل میں بہت پہلے یہ بات پڑچکی تھی کہ حق قریش کی طرف نہیں بلکہ محمد کی طرف ہے، اور مجھے آپ کے ساتھ مل جانا چاہیے:
قَدْ شَهِدْت هَذِهِ الْمَوَاطِنَ كُلّهَا عَلَى مُحَمّدٍ، فَلَيْسَ مَوْطِنٌ أَشْهَدُهُ إلّا أَنْصَرِفُ وَأَنَا أَرَى فِي نَفْسِي أَنّي مُوضَعٌ فِي غَيْرِ شَيْء(مغازی الواقدی، جلد2، صفحہ746)۔يعني، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تمام جنگوں میں شریک رہا مگر کوئی جنگ ایسی نہیں جس میں میں شریک ہو اہوں اور یہ خیال لے کرواپس نہ آیا ہوں کہ میں صحیح جگہ نہیں کھڑا ہوں۔
اسی طرح بہت سےلوگوں کے بارے میں روایتیں ملتی ہیں کہ ان کے دل میں بہت پہلے سے اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو چکا تھا۔ حتيٰ کہ وہ اس کا خواب دیکھنے لگے تھے۔ مثلاً خالد بن سعید بن العاص نے اسلام سے پہلے خواب دیکھا کہ وہ آگ کے بہت بڑے گڑھے کے کنارے کھڑے ہوئے ہیں ۔ کوئی انہیں دھکادے کر اس میںگرانا چاہتاہے۔ اتنے میں پیغمبر اسلام آئے او ر انہوں نے ان کو آگ میں گرنے سے بچا لیا (وكأن أباه يدفعه فيها، ورأى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخذًا بحقويه لا يقع فيها) اسد الغابۃ لابن الأثير، جلد1، صفحہ574۔
دعوتی عمل بظاہر اقتصادیات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ مگر با لواسطہ طور پر وہ زبردست اقتصادی عمل ہے۔ کیونکہ دعوت کے نتیجہ میںجب ایک شخص اسلام کو اختیار کرتا ہے تو اس کے تمام ذرائع بھی خود بخود اسلام کو حاصل ہو جاتے ہیں۔ مکہ کے ابتدائی زمانہ میں خدیجہ کی دولت اسلام کےکام آتی رہی۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر ایمان لائے جنہوں نے تجارت سےچالیس ہزار درہم کمائے تھے ان کا سرمایہ اسلامی تحریک کا اقتصادی سہارا بنا۔ ہجرت کے موقع پر وہ چھ ہزار درہم لے کر گھر سے روانہ ہوئے تھے جس سے سفر کے تمام اخراجات پورے کیے گئے۔ غزوہ تبوک میں حضرت عثمان نے دس ہزار دینار دیے جس سے لشکر کی ضروریات کا تہائی حصہ ادا کیاگیا (السیرۃ الحلبیہ، جلد3، صفحہ184،مغازی الواقدی، جلد3، صفحہ 991)۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے صرف ایک موقع پر پانچ سو گھوڑے جہاد کے لیے دیے(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، جلد4، صفحہ 291)۔ اسی طرح جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان کی جان کے ساتھ ان کا مال بھی اسلام کے خزانہ کا ایک جزءبن جاتا تھا۔
توحید کا نظر یہ واحد نظر یہ ہے جس میں سماجی تقسیم اور طبقاتی امتیاز کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ اس لیے جب اس نظر یہ کی بنیاد پر کوئی تحریک اٹھتی ہے تو وہ عوام کو حیرت انگیز طور پر متاثر کرتی ہے۔ کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ توحید کے زیر سایہ وہ مساوات او ر انسانی عظمت کا حقیقی مقام پاسکتے ہیں۔ مغیرہ بن شعبہ فارس کے سپہ سالار رستم کے دربار میں گئے تو دربار یوں پر ان کی تقریر کا ردعمل ابن جریر کی روایت کے مطابق یہ تھا:
فَقَالَتِ السَّفَلَةُ:صَدَقَ وَاللهِ الْعَرَبِيُّ، وَقَالَتِ الدَّهَّاقِينُ:وَاللهِ لَقَدْ رَمَى بِكَلامٍ لا يَزَالُ عَبِيدُنَا يَنْزَعُونَ إِلَيْهِ، قَاتَلَ اللهُ أَوَّلينَا، مَا كَانَ أَحْمَقَهُمْ حِينَ كَانُوا يُصَغِّرُونَ أَمْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ! (تاریخ طبری جلد 3صفحہ 522)۔يعني،نیچے کے لوگوں نے کہا، خدا کی قسم، اس عربی نے سچ بات کہی۔ سرداروں نے کہا، خدا کی قسم اس نے ایسی بات پھینکی ہے کہ ہمارے سب غلام اس کی طرف چلے جائیں گے، خدا ہمارے پہلوں کو غارت کرے، وہ کس قدر احمق تھے کہ انہوں نے اس قوم کے معاملہ کو ہلکا سمجھا۔
نبوت کے تیر ھویں سال پیغمبر اسلام حضرت ابوبکر کے ساتھ مدینہ پہنچے تو یہاں کی آبادی کے تقریباً 500آدمی آپ کے استقبال کے لیے جمع ہوئے او رانہوں نے کہا:
انْطَلِقَا آمِنِينَ مُطَاعِينَ (التاریخ الاوسط للبخاری، حدیث نمبر 14)۔ یعنی، آئیے، آپ یہاں محفوظ ہیں اور ہمارے سردار ہیں۔
مدینہ کی یہ سرداری آپ کو کس طرح حاصل ہوئی، جواب یہ ہے کہ دعوت کے ذریعہ۔ مدینہ (یثرب) کا پہلا شخص جس کو آپ نے اسلام کی دعوت دی، غالباً سو ید بن صامت خزرجی ہے۔ اس سے آپ نے اسلام کا ذکر کیا تو اس نے کہا ’’شاید آپ کے پاس وہی ہے جو میرے پاس ہے ‘‘ آپ نے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے۔وہ بولا ’’حکمت لقمان‘‘ (مَجَلَّةُ لُقْمَانَ)۔ آپ نے فرمایا:بیان کرو، اس نے کچھ اشعار سنائے۔ آپ نے فرمایا، میرے پاس قرآن ہے جو ا س سے بھی افضل ہے (وَالَّذِي مَعِي أَفَضْلُ مِنْ هَذَا)۔ اس کے بعد آپ نے اس کو قرآن سنایا وہ فوراً مسلمان ہو گیا۔ یثرب واپس ہو کر جب اس نے اپنے قبیلہ کے سامنے اسلام کا پیغام رکھا تو انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ427)
اس کے بعد یثرب کے ایک سردار ابوالحسیم انس بن رافع مکہ آئے، ان کے ساتھ بنی عبدالاشہل کےجوانوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ یہ لوگ اس لیے مکہ آئے تھے کہ قبیلہ خزرج کی حمایت کےلیے قریش سے معاہدہ کریں۔ آپ کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ ان کے پاس گئے او رکہا’’تم لوگ جس کام کے لیے آئے ہو کیا اس سے زیادہ بھلی بات میں تم کو نہ بتاؤں۔ ‘‘ اس کے بعد آپ نے توحید کی دعوت ان کے سامنے پیش کی۔ ان کے ایک نوجوان ایاس بن معاذ بولے’’اے قوم ! خدا کی قسم یہ بات اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم آئے ہو۔ ‘‘ مگر وفد کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔ انہوں نے کہا:دَعْنَا مِنْك، فَلَعَمْرِي لَقَدْ جِئْنَا لِغَيْرِ هَذَا(چھوڑ و، ہم دوسرے کا م کے لیے آئے ہیں )۔ وہ یثرب واپس گئے اور اس کے جلد ہی بعد اوس اور خزرج کے درمیان وہ جنگ چھڑ گئی جو بعاث کے نام سے مشہور ہے(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ427-28)۔
خبیب بن عبد الرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ یثرب کے دو شخص سعد بن زرارہ اور ذکوان بن قیس مکہ آئے اور عتبہ بن ربیعہ کےیہاں ٹھہرے۔ پیغمبر اسلام کا تذکرہ سنا تو آپ سےملنے کےلیے آئے۔ آپ نے ان دونوں کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ دونوں نے اسلام قبول کرلیا(فَعَرَضَ عَلَيْهِمَا الْإِسْلَامَ وَقَرَأَ عَلَيْهِمَا الْقُرْآنَ فَأَسْلَمَا)۔ پھر وہ اپنے میزبان عتبہ بن ربیعہ کے پاس نہیں گئے بلکہ آپ کے یہاں سے سیدھے یثرب واپس چلے گئے۔ یہ ان پہلے لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اہل یثرب تک اولاً اسلام پہنچایا(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد3، صفحہ608)۔ یہ نبوت کے دسویں سال کا واقعہ ہے۔
نبوت کے گیارھویں سال حج کےموقع پر یثرب سے قبیلہ خزرج کے چھ آدمی آئے۔ انہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور واپس جا کر اپنی بستی میں اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ اگلے سال ( 12 نبوی میں) بارہ آدمیوں نے آکر بیعت کی جو اسلام کی تاریخ میں عقبہ اولی (621ء) کے نام سے مشہور ہے۔ نبوت کے تیر ھویں سال اس تعداد میں مزید اضافہ ہو ااور یثرب کے 75لوگ مکہ حاضر ہوئے اور بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ وجود میں آیا۔
مکہ کے بر عکس یثرب میں ایک خاص بات یہ ہوئی کہ پہلے ہی مرحلہ میں وہاں کے ممتاز لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ( أَسْلَمَ أَشْرَافُهَمْ) حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ 107۔چوں کہ یہ قبائلی دو ر تھا اور قبائل میں یہ رواج تھا کہ سردارِ قبیلہ کا جو مذہب ہوتا تھا وہی پورے قبیلہ کا مذہب ہوتاتھا۔ اس لیے یثرب میں بہت تیزی سے اسلام پھیلنے لگا۔ حتی کہ کوئی گھر نہ بچا جس میں اسلام داخل نہ ہوگیا ہو (حَتَّى لَمْ يَبْقَ دَارٌ مِنْ دُورِ الْأَنْصَارِ إِلَّا وَفِيهَا رَهْطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)مسند احمد، حدیث نمبر 14456۔اس طرح جب یثرب کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگئی تو فطری طور پر وہی بستی میں سب سے زیادہ با اثر ہوگئے۔
فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ أَعَزَّ أَهْلِهَا، وَصَلُحَ أَمَرُهُمْ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر849)۔ يعني، پس مسلمان مدینہ کے سب سے زیادہ با اثر گروہ بن گئے اور ان کا معاملہ درست ہوگیا۔
دعوت کے مصالح
ہر دور میں ایسے لوگ ہوتے ہیںجو زمانہ کے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں اور اپنی فطرت کی آواز پر کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ عرب معاشرہ میں بھی فطری سادگی اور ملت ابراہیمی کے بقایا کے نتیجہ میں ایسے متعدد لو گ تھے جو سچائی کی تلاش میںتھے اور بت پرستی کو نا پسند کرتے تھے۔ عرف عام میں ان کو حنفاء کہا جاتاتھا۔ مثلاً قس بن ساعد ہ، ورقہ بن نوفل وغیرہ۔ ایسے ہی ایک شخص حنیف جند ب بن عمر والد وسی تھے۔ وہ زمانہ جاہلیت میں کہا کرتے تھے:
إن للخلق خالقا، لكني لا أدري من هو۔یعنی یقیناً خلق(creation) کا کوئی خالق ہے، مگر میں نہیں جانتا وہ کون ہے۔
جب انہیں آپ کی بعثت کی خبر ملی تو وہ اپنی قوم کے 75آدمیوں کو ساتھ لے کر آئے اور سب نے اسلام قبول کر لیا (الاصابة في تمييز الصحابة، جلد3، صفحہ424)۔ ابو ذر غفاری بھی اسی قسم کے متلاشیوں (seekers)میں سے تھے۔ انہیں آپ کےبارے میں علم ہو ا تو اپنے بھائی کو مکہ بھیجا کہ آپ کی خبر لے کر آئے۔ بھائی نے واپس جاکر آپ کے بارے میں جو رپورٹ دی اس کا ایک فقرہ یہ بھی تھا:
فرأيت رجلا يسمّيه الناس الصابئ هو أشبه الناس بك (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، جلد7، صفحہ107)۔يعني،میں نے ایک آدمی کو دیکھا جس کو لوگ بد دین کہتے تھے، وہ تم سے بہت زیادہ مشابہ تھا۔
ایسے لوگوں کو آپ کی دعوت سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئی۔
جب کسی معاشرہ میں دعوت کا آغاز ہوتا ہے تو اس کا بیج ایسے ایسے مقامات پر پڑتا ہے جس کا اندازہ خود داعی کو بھی نہیں ہوتا۔
عرب میں جو لوگ ’’دیر ‘‘ سے اسلام لائے۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ ان پر بالکل اچانک اسلام منکشف ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ اخلاقی زندگی، آپ کا شب و روز دعوت و تبلیغ میں مشغول رہنا، مخالفتوں کی وجہ سے آپ کا اور آپ کے پیغام کا مستقل چرچا جس کی وجہ سے ہرایک کےلیے آپ کا وجود ایک سوالیہ نشان بن گیاتھا۔ ان چیزوں نےبے شمار عربوں کےذہن میں اسلام کے بیج ڈال دیے تھے۔ قبائلی عصبیت اور اسلاف پرستی کی وجہ سے ایک شخص بظاہر ضد اور عناد میں مبتلا ہوتا۔ مگر اندر اند راسلام کی خاموش پر ورش کو بھی وہ روک نہ سکتا تھا۔ حضرت عمر کے اسلام کے بارے میں عام شہرت یہ ہے کہ اچانک ایک واقعہ آپ کےاسلام کا سبب بن گیا۔ آخری مرحلہ میں آپ کے اسلام کا محرک بلاشبہ یہی واقعہ تھا۔ مگر اس کےابتدائی بیج آپ کے دل میں بہت پہلے پڑچکے تھے:
عَنْ أُمِّ عَبْدِ اللهِ بِنْتِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَتْ:وَاللهِ إنَّا لَنَتَرَحَّلُ إلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ، وَقَدْ ذَهَبَ عَامِرٌ فِي بعض حاجاتنا، إِذا أَقْبَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حَتَّى وَقَفَ عَلَيَّ وَهُوَ عَلَى شِرْكِهِ- قَالَتْ:وَكُنَّا نَلْقَى مِنْهُ الْبَلَاءَ أَذًى لَنَا وَشِدَّةً عَلَيْنَا- قَالَتْ:فَقَالَ:إنَّهُ لَلِانْطِلَاقُ يَا أُمَّ عَبْدِ اللهِ. قَالَتْ:فَقُلْتُ:نَعَمْ وَاللهِ، لَنَخْرُجَنَّ فِي أَرْضِ اللهِ، آذَيْتُمُونَا وَقَهَرْتُمُونَا، حَتَّى يَجْعَلَ اللهِ مَخْرَجًا . قَالَتْ:فَقَالَ:صَحِبَكُمْ اللهِ، وَرَأَيْتُ لَهُ رِقَّةً لَمْ أَكُنْ أَرَاهَا، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ أَحْزَنَهُ- فِيمَا أَرَى- خُرُوجُنَا(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ342-43)۔يعني، ام عبداللہ بنت ابی حثمہ کہتی ہیں، خدا کی قسم ہم لوگ ملک حبش کی طرف کوچ کر رہے تھے اور میرے شوہر عامر اپنی بعض ضروریات کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اتنے میں عمر بن الخطاب آگئے اور میرے پاس آکر کھڑے ہو گئے، وہ ابھی تک اسلام نہ لائے تھے۔ ہم لوگوں کو ان سے بڑی تکلیفیں اور سختیاں پہنچی تھیں۔ انہوں نے کہا، اے ام عبد اللہ ! کوچ ہورہا ہے۔ میں نے کہا ہاں، خدا کی قسم ہم لوگ اللہ کی زمین میں سے کسی زمین میں چلے جائیں گے۔ اس لیے کہ تم لوگ ہمیں ستاتے ہو اور ہمارے اوپر زیادتیاں کرتے ہو۔ یہاں تک کہ اللہ ہمارے لیے کوئی نکاسی کی جگہ پیدا کردے۔ ام عبد اللہ کہتی ہیں ۔ عمر نے کہا خدا تمہارا ساتھی ہو۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں رقت پیدا ہو گئی جو میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کے بعد وہ چلے گئے اور ان کو ہمارے مکہ سےجانے کا بہت ملال تھا۔
ہر زمانہ میں کچھ ایسے خیالات ہوتے ہیں جو عوامی ذہنوں میں جڑ پکڑ جاتے ہیں ۔ جب تک خیالات کی یہ دیوار نہ ٹوٹے کوئی آواز محض اپنی فلسفیانہ صداقت کی بنیاد پر ان کے اندر قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔ ابتدائی زمانہ میں اہل عرب کی طرف سے جس اختلاف کا مظاہرہ ہوا، وه محض ہٹ دھرمی یا مصلحت پر ستی کی بنا پر نہ تھا۔ بلکہ اس لیے تھاکہ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کعبہ کے متو لیوں کے سوا بھی کسی کا دین صحیح او ر برحق ہو سکتا ہے۔ جو عرب قبائل یہود کے پڑوس میں بسے ہوئے تھے وہ نسبتاً اس قسم کی اعتقادی پیچیدگی سے محفوظ تھے، کیوں کہ یہود سے وہ سنتے رہتے تھے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ عرب میں ایک نبی کا ظہور ہوگا:
فَلَمَّا سَمِعُوا قَوْلَهُ أَنْصِتُوا، وَاطْمَأَنَّتْ أَنْفُسُهُمْ إِلَى دَعْوَتِهِ وَعَرَفُوا مَا كَانُوا يَسْمَعُونَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ ذِكْرِهِمْ إِيَّاهُ بِصِفَتِهِ، وَمَا يَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ، فَصَدِّقُوهُ وَآمَنُوا بِه(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر849)۔يعني، انصار کے لوگوں نے جب آپ کا کلام سنا تو وہ چپ ہو گئے، ان کا دل آپ کی دعوت پر مطمئن ہوگیا۔ انہوں نے اہل کتاب سے آپ کے جو اوصاف سنے تھے اور جس چیز کی طرف آپ نے ان کو بلایاتھا، ان کو پہچانا۔ انہوں نے آپ کی تصدیق کی او ر آپ پر ایمان لائے۔
عکاظ کے میلے میں جب آپ بنو کندہ کےخیموں میں گئے اور ان کے سامنے اپنی بات پیش کی تو ایک نوجوان بول اٹھا :
يا قوم! اسْبِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ قَبْلَ أَنْ تُسْبَقُوا إِلَيْهِ فَوَاللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ لَيُحَدِّثُونَ أَنَّ نَبِيًّا يَخْرُجُ مِنَ الْحَرَمِ قَدْ أَظَلَّ زَمَانُهُ (دلائل النبوة لأبي نعيم، حدیث نمبر 222)۔يعني، اے قوم، اس آدمی کا ساتھ دینے میں جلدی کرو قبل اس کے کہ اور لوگ اس کی طرف سبقت کریں۔ خدا کی قسم، اہل کتاب کہہ رہے ہیں کہ حرم سے ایک نبی ظاہر ہوگا جس کا زمانہ قریب آگیا ہے۔
مدینہ کے عرب قبائل، اوس اور خزرج کے ایما ن لانے میں پیش قدمی کرنے کی وجہ ان کا یہی ذہنی پس منظر تھا۔ تاہم مکہ کے لوگوں اور بیشتر عرب قبائل کے لیے صداقت کا معیار کعبہ کا اقتدار تھا۔ قدیم عرب میں کعبہ کی حیثیت وہی تھی جو بادشاہی نظام میں ’’تاج‘‘ کی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ تاج کے ساتھ صرف سیاسی اقتدار کا تصور وابستہ ہوتاہے، جب کہ کعبہ کے ساتھ اقتدار کے علاوہ تقدس کی روایات بھی کامل درجہ میں شامل تھیں۔ عام عرب اپنے سادہ ذہن کے تحت یہ سمجھتے تھے کہ جو کعبہ پر قابض ہو جائے وہی صداقت کا حامل ہے۔ بنو عامر کے ذو الجوشن الضبائی بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا :
"يَا ذَا الْجَوْشَنِ، أَلَا تُسْلِمُ فَتَكُونَ مِنْ أَوَّلِ أَهْلِ هَذَا الْأَمْرِ؟ "، فَقُلْتُ:لَا، قَالَ:" لِمَ؟ "، قُلْتُ:إِنِّي رَأَيْتُ قَوْمَك قَدْ وَلِعُوا بِك، قَالَ:" فَكَيْفَ بَلَغَك عَنْ مَصَارِعِهِمْ بِبَدْرٍ؟ "، قُلْتُ:قَدْ بَلَغَنِي، قَالَ:" فَإِنَّا نُهْدِي لَك "، قُلْتُ:إِنْ تَغْلِبْ عَلَى الْكَعْبَةِ وَتَقْطُنْهَا، قَالَ:" لَعَلَّك إِنْ عِشْتَ تَرَى ذَلِك "... قَالَ:فَوَاللهِ إِنِّي بِأَهْلِي بِالْغَوْرِ إِذْ أَقْبَلَ رَاكِبٌ فَقُلْتُ:مَا فَعَلَ النَّاسُ؟ قَالَ:قَدْ وَاللهِ غَلَبَ مُحَمَّدٌ عَلَى الْكَعْبَةِ وَقَطَنَهَا، فَقُلْتُ:هَبِلَتْنِي أُمِّي، وَلَوْ أُسْلِمُ يَوْمَئِذٍ ثُمَّ أَسْأَلُهُ الْحِيرَةَ لَأَقْطَعَنِيهَا (مسند احمد، حدیث نمبر 16633)۔ يعني، اے ذو الجوشن تم اسلام کیوں نہیں لاتے کہ تمہارا شمار اولین لوگوں میں ہو جائے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کیوں۔ میں نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ آپ کی قوم آپ کے پیچھے پڑگئی ہے۔ آپ نے فرمایا بدر میں ان کی شکست کے بارے میں تم نے کیا سنا۔ میں نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا ہم کو توتمہیں ہدایت کی بات بتانی ہے۔ میں نے کہا، ہاں بشر طیکہ آپ کعبہ کو فتح کر کے اس پر قابض ہو جائیں،آپ نے فرمایا اگر تم زندہ رہے تو دیکھ لو گے... اس کے بعد ایک روز میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے وطن غور میں تھا کہ ایک سوار آیا۔ میں نے پوچھا لوگوں کا کیا ہوا۔ اس نے کہا خدا کی قسم محمد نے کعبہ کو فتح کر لیا اور اس پر قابض ہو گئے۔ میں نے کہا میری ماں مجھے گم کرے، اگر میں نے اسی دن اسلام قبول کر لیا ہوتااورپھر محمد سے حیرہ مانگتا تو وہ ضرور دے دیتے۔
یہی وجہ ہے کہ جب مکہ فتح ہو گیا تو لوگ جو ق در جوق اسلام میں داخل ہوگئے۔ (النصر،110:2)
دعوت کا رد عمل
آپ نے اپنی دعوتی مہم کا آغاز کیا، تو وہ سارے واقعات پیش آنے شروع ہوئے جو کسی معاشرہ میں نئي آواز بلند ہونے کی صورت میں پیش آتے ہیں ۔ کچھ لوگ حیران تھے کہ یہ کیا چیز ہے۔ عبد بن حمید نےاپنی مسند میں نقل کیاہے کہ قریش کے سرداروں نے ایک بار عتبہ بن ربیعہ کو اپنا نمائندہ بنا کر آپ کے پاس بھیجا۔ اس نے آپ کی تردید میں ایک لمبی تقریر کی، جب وہ کہہ چکا تو آپ نے کہا فَرَغْتَ، اس نے کہا ہاں۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہا اور حم سجدہ کی ابتدائی 13آیتیں پڑھ کر اسے سنائیں ۔ عتبہ نے سن کر کہا بس بس، اس کے سوا اور کچھ تمہارے پاس نہیں (حَسْبُك حَسْبُك، مَا عِنْدَك غَيْرُ هَذَا؟)آپ نے فرمایا نہیں ۔ اس کے بعد روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں :
فَرَجَعَ إِلَى قُرَيْشٍ، فَقَالُوا:مَا وَرَاءَك؟ قَالَ:مَا تَرَكْتُ شَيْئًا أَرَى أَنَّكُمْ تُكَلِّمُونَهُ بِهِ إِلَّا كَلَّمْتُهُ، قَالُوا:هَلْ أَجَابَك؟ قَالَ:نَعَمْ، وَالَّذِي نَصَبَهَا بَنِيَّةً، مَا فَهِمْتُ شَيْئًا مِمَّا قَالَ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ:أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ، قَالُوا:وَيْلَك يُكَلِّمُك رَجُلٌ بِالْعَرَبِيَّةِ لَا تَدْرِي مَا قَالَ، قَالَ:لَا، وَاللهِ مَا فَهِمْتُ شَيْئًا مِمَّا قَالَ غَيْرَ ذِكْرِ الصَّاعِقَةِ(مسند ابویعلی، حدیث نمبر 1818)۔ يعني، پھر عتبہ قریش کے پاس آیا۔ انہوں نے پوچھا کیاہوا۔ عتبہ نے جواب دیا، تم لوگ جو کچھ کہتے وہ سب میں نے کہہ ڈالا۔ انہوں نے پوچھا پھر کیا کوئی جواب دیا۔ عتبہ نے کہا ہاں۔ پھر بولا خدا کی قسم اس نے جو دلیل دی، اس سے میں کچھ نہیں سمجھا، سوا اس کے کہ تم کو عا د و ثمود جیسے کڑکے سے ڈرایا ہے۔ قریش نے کہا تمہارا برا ہو ایک شخص تم سے عربی میں بات کر رہاہے اور تم نہیں سمجھتے کہ اس نے کیا کہا۔ عتبہ نے کہا خدا کی قسم اس نے جو کچھ کہا اس سے میں کڑکے کے سوا کچھ نہیں سمجھا۔
کچھ لوگ جو مذہب کے ایک خاص روایتی ڈھانچے سے مانوس ہو چکےتھے، انہیں آپ کی دعوت میں اسلاف کی تحقیر کی بو نظر آئی۔ ابونعیم نے دلائل النبوۃ میں نیز نسائی او ر بغوی وغیرہ نے نقل کیاہے کہ حضرت ضماد مکہ آئے تاکہ عمرہ کریں۔ ایک روز وہ ایک مجلس میں بیٹھ گئے جس میں ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف تھے۔ ابو جہل نے کہا :
هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي فَرَّقَ جَمَاعَتَنَا وَسَفَّهَ أَحْلَامَنَا وَأَضَلَّ مَنْ مَاتَ مِنَّا وَعَابَ آلِهَتَنَا فَقَالَ أُمَيَّةُ:الرَّجُلُ مَجْنُونٌ غَيْرَ شَکٍّ (دلائل النبوۃ لابی نعیم، حدیث نمبر 187)۔يعني،اس شخص نے ہماری جماعت میں اختلاف ڈال دیا۔ ہم سب کو بیوقوف بتایا۔ ہمارے اسلاف کو گمراہ قرار دیا۔ ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا۔ امیہ بولا اس آدمی کے پاگل ہونے میں کوئی شک نہیں۔
عمر و بن مرہ جہنی نے اپنے قبیلہ جہینہ کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو ایک شخص نے کہا :
يا عمرو بن مرة أمر الله عيشك أتأمرنا برفض آلهتنا وأن نفرق جمعنا وأن نخالف دين آبائنا الشيم العلى إلى ما يدعونا إليه هذا القرشي من أهل تهامة لا حبا ولا كرامة(اے عمر و بن مرہ ! خدا تیری زندگی تلخ کردے کیا تو ہم کو ہمارے معبودوں کوچھوڑنے کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ ہم اپنی جمعیت کو منتشر کردیں، اوراپنے باپ دادا کے دین کی مخالفت کریں جو اخلاق عالیہ کے مالک تھے۔ یہ تہامہ کا رہنے والا قریشی ہمیں کس چیز کی طرف بلاتا ہے اس میں نہ کوئی شرافت ہے نہ کرامت)۔
اس کے بعد اس نے تین شعر پڑھے۔ آخری شعر یہ تھا:
ليسفه الأشياخ ممن قد مضى من رام ذلك لا أصاب فلاحا
وہ ہمارے گزرے ہوئے اسلاف کو احمق ثابت کرنا چاہتا ہے اور جس کا ایسا ارادہ ہو وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتا (تاریخ دمشق لابن عساکر، جلد46، صفحہ345)۔
کچھ لوگوں کے لیے حسد مانع ہو گیا۔ کیوں کہ آپ اپنی پیغمبری کا اعلان کررہے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ میرے پاس حقیقت کا علم ہے اور انسان کے لیے ہمیشہ یہ مشکل ترین امر رہا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں یہ اعتراف کرے کہ خدا نے اس کو حقیقت کا وہ علم دیا ہے جو خود اسے نہ مل سکا۔ بیہقی نے مغیرہ بن شعبہ سے نقل کیا ہے کہ ابو جہل بن ہشام نے ایک روز ان سے علیحٰدگی میں کہا:
وَاللهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَن مَا يَقُول حق، وَلَكِن [يمنعنى] شئ، إِنَّ بَنِي قُصَيٍّ. قَالُوا:فِينَا الْحِجَابَةُ.فَقُلْنَا:نَعَمْ.ثُمَّ قَالُوا فِينَا السِّقَايَةُ فَقُلْنَا:نَعَمْ.ثُمَّ قَالُوا فِينَا النَّدْوَةُ.فَقُلْنَا:نَعَمْ.ثُمَّ قَالُوا:فِينَا اللِّوَاءُ.فَقُلْنَا:نَعَمْ... قَالُوا:مِنَّا نَبِيٌّ! وَاللهِ لَا أَفْعَلُ (السيرة النبوية لابن كثير،جلد1، صفحہ 507)۔ يعني،خدا کی قسم میں خوب جانتاہوں کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں ، حق ہے مگر مجھے ایمان لانے میں ایک چیز مانع ہے۔ بنی قصی نے کہا کہ کعبہ کی دربانی ہماری ہے۔ ہم نے کہا ہاں، پھر بنی قصی نے کہا حاجیوں کو پانی پلانے کا کام ہمارا ہے۔ ہم نے کہاہاں۔ پھر بني قصی نے کہا کہ دارالندوہ میں ہمارا حق ہے، ہم نے کہا ہاں۔ پھر انہوں نے کہا جنگ میں جھنڈا اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم نے کہا ہاں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ نبوت ہمارے اندر ہے۔ پس خدا کی قسم میں ہر گز اس کو نہیں مانوں گا۔
کچھ لوگ آپ کے اس لیے مخالف ہوگئے کہ آپ کی دعوت کو مان لینے میں انہیں اپنا اقتصادی خطرہ نظر آتاتھا۔ اسلام سے قبل خانہ کعبہ ایک بہت بڑ ا بت خانہ تھا جس میں تمام مذاہب کے بت رکھے ہوئے تھے حتٰی کہ اس میں مسیح اور مریم کی بھی تصویر یں تھیں۔ اس طرح کعبہ تمام مذاہب کے لوگوں کی زیارت گاہ بن گیاتھا۔ چارحرام مہینوں کی غرض بھی یہی تھی۔ کیوں کہ اس زمانے میں تمام مذاہب کے لوگ مکہ آتے رہتے تھے۔ اگربتوں کو خانہ کعبہ سے ہٹا دیاجاتا تو کوئی شخص کعبہ کی زیارت کے لیے نہ آتا اور مکہ کا بازار جو چار مہینوں تک لگا رہتا تھا، بند ہوجاتا۔ اس لیے مکہ کے باشندے آپ کی دعوت کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے۔ ان کاخیال تھا کہ اگر توحید کا دین فروغ پاگیا تو یہ غیر ذی زرع علاقہ بالکل تباہ ہوجائے گا نیز کعبہ کی تولیت نے قریش کو مختلف قبائل میں سرداری کا مقام دے رکھا تھا۔ ایک مورخ لکھتے ہیں :
کانت اموالھا وتجارتھا تسافرفی الشرق والغرب فی ظلال معاہدات تجاریۃ بینھا و بین اہم و ثنیۃ مثلھا کفارس وامم مسیحیۃ کا لجشۃ و کمثل بیز نطۃ وکانت قریش تتصوران تاییدھا لرسالۃ محمد انمایعنی شیئا واحد اھون ان تتحلل الامم المجاورۃ لھابل و قبائل العرب نفسھا المقیمۃ علی الوثنیۃ من تعھد اتھا بحمایۃ تجارۃ قدیش وقوافلھاواذاحدث ذلک فھذ ایعنی موت قریش تجاریا واقتصاد یا وانتھاء عصر سیادتھا علی العرب۔
یعنی، قریش کے اموال اور ان کی تجارتیں مشرق و مغرب میں سفر کرتی تھیں۔ یہ سفر تجارتی معاہدوں کے تحت ہوتا تھا جو انہوں نے دوسری قوموں سے کر رکھا تھا۔ مثلاً فارس، حبشہ اور بازنطینی سلطنت۔ قریش کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے رسالت محمدی کی تائید کی تو اس کا مطلب صرف ایک ہوگا، وہ یہ کہ پڑوسی قومیں او ر عرب کے بت پرست قبائل معاہدات ختم کردیں گے جو انہوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کے بارے میں کر رکھے ہیں اور جب ایساہو گا تو یہ قریش کی تجارتی موت کے ہم معنی ہوگا اور عرب پر ان کی قیادت ختم ہو جائے گی۔
چنانچہ سورہ واقعہ (56:82)کی آیت ’’وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اِنْکُمْ تُکَذِّبُوْنَ‘‘کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ تم تکذیب کواپنی غذا بنا رہے ہو۔ یعنی یہ سمجھ رہے ہو کہ پیغمبر اسلام کی دعوت توحید کا انکار کر کے تم اپنی اقتصادیات اور اموال کو محفوظ رکھ سکو گے۔
آپ کی دعوت کے نتیجہ میں آپ کا وجود ایک سو الیہ نشان بن گیاتھا۔ دیکھنے والا دوسرے شخص سے پوچھتا کیا یہی وہ ہیں (أَهُوَ هُوَ)مسند ابویعلی الموصلی، حدیث نمبر 6830۔
ایک روایت میں ہے:وَيَمْشِي بَيْنَ رِجَالِهِمْ، وَهُمْ يُشِيرُونَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ (مسنداحمد، حدیث نمبر 14456)۔ یعنی، آپ قافلوں کے درمیان چلتے تو لوگ انگلیوں سے آپ کی طرف اشارہ کرتے۔
اب کوئی مکہ آتا تو واپس جاکر اپنے ساتھی کو دوسری باتوں کے ساتھ یہ خبر بھی دیتا کہ مُحَمَّدُ بْنُ عبد الله تَنَبَّأَ، وَقَدْ تَبِعَهُ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ(دلائل النبوۃ للبیہقی، صفحہ 28)۔ یعنی، محمد بن عبد اللہ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابن ابی قحافہ ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ قریش نے آپ کا نام محمد کے بجائے مذممّ رکھ دیا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3533)۔ وہ آپ پر اپنے آباء و اجداد کو احمق قراردینے کا الزام لگاتے(مسند احمد، حدیث نمبر7036)۔ آپ کے راستہ میں رات کے وقت گندی چیزیں ڈال دیتے۔ ایک بار آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا:يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، أَيُّ جِوَارٍ هَذَا ( سیرت ابن ہشام،جلد1، صفحہ416۔یعنی، اے قریش کے لوگو!یہ کیسا پڑوس ہے۔
ابو طالب کی زندگی تک وہ آپ کے خلاف کوئی جار حانہ کا رروائی کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ کیونکہ قبائلی نظام کے تحت آپ سے جنگ کرنا پورے قبیلۂ بنی ہاشم سے جنگ کرنے کے ہم معنی تھا۔ عمر بن الخطاب جب اسلام سے پہلے ایک بار تلوار لے کر آپ کے قتل کے ارادے سے نکلے توایک شخص کا یہ جملہ عمر کے غصہ کو ٹھنڈا کر نے کے لیے کافی تھا:وَكَيْفَ تَأْمَنُ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي زُهْرَةَ وَقَدْ قَتَلْتَ مُحَمَّدًا؟(دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد2، صفحہ219)۔ یعنی، بنو ہاشم اوربنو زہرہ سے کیسے بچ پاؤگے، جب تم محمد کو قتل کردوگے۔جب بھی کوئی شخص آپ کے خلاف جارحانہ ارادہ کرتا تو فوراً یہ سوال اس کے سامنے آجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ میں جو جارحانہ مظالم ہوئے وہ زیادہ تر غلاموں اور لونڈیوں کے خلاف ہوئے۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ ابتدائی دور میں سات افراد نے مکہ میں اسلام کا اعلان کیا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر،عمار، سعید،صہیب، بلال اور مقداد:
فَأَمَّا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَهُ اللهُ بِعَمِّهِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَمَّا أَبُو بَكْرٍ فَمَنَعَهُ اللهُ بِقَوْمِهِ، وَأَمَّا سَائِرُهُمْ فَأَخَذَهُمُ الْمُشْرِكُونَ، وَأَلْبَسُوهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِيدِ، وَصَهَرُوهُمْ فِي الشَّمْسِ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر150،مسند احمد، حدیث نمبر 3832 )۔ یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے ان کے چچا کے ذریعہ محفوظ رکھا۔ حضرت ابوبکر کی حفاظت ان کی قوم کے ذریعہ کرائی۔ بقیہ مسلمانوں کو مشرکین نے پکڑا۔ ان کو لو ہے کی زر ہیں پہنائیں اور سخت دھوپ میں انہیں تپایا۔
اما م بیہقی نے حضرت عبد اللہ بن جعفر سے روایت کیا ہے کہ جب بنی ہاشم کے سردار ابوطالب کی وفات ہوگئی تو قریش کےکسی بد تمیز شخص نے آپ کے اوپر مٹی ڈال دی۔ آپ گھر واپس آئے تو آپ کی ایک لڑکی نے مٹی جھاڑی۔ اس وقت آپ نے فرمایا مجھے قریش سے اب تک کسی مکر وہ چیز کا سابقہ نہیں پڑاتھا۔ ابو طالب کی وفات ہو گئی تو انہوں نے اس قسم کی حرکتیں شروع کردیں۔ حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت میں ہے:
لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ تَجَهَّمُوا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:يَا عَمِّ مَا أَسْرَعَ مَا وَجَدْتُ فَقْدَك(حلیۃ الاولیاء، جلد 8، صفحہ308)۔یعنی، ابو طالب کی وفات ہو گئی تو قریش مکہ نے آپ کے ساتھ نہایت سختی کا برتاؤ کیا،آپ نے فرمایا:چچا، آپ کے نہ ہونے کا احساس مجھے کتنی جلد ہو گیا۔
ابو طالب کی وفات کے بعد قریش میں آپ کے قتل کے مشورے شروع ہوگئے۔ ابوجہل کا آپ کے سر میں اوجھ ڈالنا اور عقبہ بن معیط کا آپ کی گردن میں چادر ڈال کر کھینچنا اسی دور کے واقعات ہیں جب کہ گلا گھونٹ کر آپ کو مار ڈالنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ ابوطالب کی وفات کے بعد بظاہر آپ کے خلاف جار حانہ کارروائی کے لیے راستہ صاف ہوگیا تھا تاہم ایک قسم کی جھجک اس لیے باقی تھی کہ یہ عرب کی تاریخ میںاپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اس کے علاوہ خود مشرکین میں اب بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو ضمیر کی آواز کےتحت آپ کی حمایت کرتے تھے۔ مثلاً ابو جہل نے جب پہلی بار آپ کے سر اور گردن میں اوجھ ڈال کر آپ کا گلا گھوٹنا چاہا تو ابو البختری کو خبر ہوئی،وہ کوڑالے کر خانہ کعبہ میں آیا، جہاں ابو جہل فاتحانہ انداز سے اپنے ساتھیوں میں بیٹھا ہو اتھا۔ تحقیق کے بعد جب واقعہ صحیح نکلاتو اس نےاسی وقت ابو جہل کے سر پر اتنے زور سے کوڑا ماراکہ وہ چلا اٹھا۔
مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ شرک اپنے خلاف تنقید سننے کے لیے ہمیشہ بے حد حساس رہاہے۔ پھر قدیم زمانہ میں چونکہ اجتماعی نظام کی بنیاد بھی شرک ہی پر قائم ہوتی تھی اس لیے اس شدت کے حق میں سیاسی اسباب بھی جمع ہو جاتے تھے۔ چنانچہ مکہ کے ماحول میں توحید کی دعوت آپ کے لیے انتہائی صبر آزماثابت ہوئی۔ ابتدائی تین سال تک چند آدمیوں کے سواکوئی آپ پر ایمان نہ لاسکا۔ دو مربع کیلو میٹر میں آبا د مکہ میں جس طرح درخت کا کوئی سایہ نہ تھا، اسی طرح وہ آپ کے ساتھیوں اور طرف داروں سے بھی خالی تھا۔ بستی میں صرف چار آدمی تھے جو آپ کے قریب ہو سکتے تھے خدیجہ، علی، زید اور ابو بکر۔ اگر حضرت ابو بکر کی بچی عائشہ کو بھی شامل کر لیا جائے، جو گو یا پہلی پیدائشی مسلمان تھیں، تو آپ کے حامیوں کی تعداد پانچ ہو جاتی ہے۔
تین سال تک یہی سلسلہ جاری رہا، اس وقت یہ حال تھا کہ آپ گھر سے باہرنکلتے تو دیوانوں کی طرح آپ کا استقبال کیا جاتا۔ ایک روز ابو جہل کی تحریک سے ایک جماعت آپ کو گالیاں دے رہی تھی اور آپ کو برا بھلاکہہ رہی تھی کہ ایک شخص ادھر سے گزرا۔ مکہ کے ایک معزز شخص کے خلاف یہ سلوک اس کو نا قابل بر داشت معلوم ہوا۔ وہ آپ کے چچا حمزہ کے یہاں گیا ’’آپ کی غیرت کو کیاہوا‘‘ اس نے کہا ’’لوگ آپ کے بھتیجے کو ذلیل کر رہے ہیں اور آپ ان کی مدد نہیں کرتے ‘‘ حمزہ بن عبد المطلب کی عرب غیرت جوش میں آئی، اسی وقت ابو جہل کے یہاں پہنچے اور اپنی لو ہے کی کمان اس کے سرپرد ے ماری اور کہا کہ ’’آج سے میں بھی محمد کا دین قبول کر تاہوں ، تم کو جو کرنا ہو کر و‘‘ (دِينِي دِينُ مُحَمَّدٍ، أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ، فَوَاللهِ لَا أَنْثَنِي عَنْ ذَلِك، فَامْنَعُونِي مَنْ ذَلِك إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ )۔ المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 2926۔
حمزہ عرب کے مشہور پہلوان تھے۔ اب کچھ لوگوں کو حوصلہ ہوا اور مسلمانوں کی تعداد 30 تک پہنچ گئی۔ اس وقت مکہ میں دو انتہائی با اثر افراد تھے۔ ایک عمر بن الخطاب، دوسرے ابو جہل بن ہشام۔ آپ نے دعا فرمائی کہ خدایا، ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ اسلام کو طاقت پہنچا (اللهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ بِأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 10314۔ آپ کی یہ پکا ر اول الذکر کےحق میں قبول ہوئی۔ نبوت کےچھٹے سال حضرت عمر کا اسلا م بہت سے دوسرے لوگوں کو اسلام کی طرف لانے کا سبب بنا اور اب مسلمانوں کی تعداد چالیس ہوگئی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مسلمان ابن ارقم کے مکان میں اپنا پوشیدہ مرکز بنائے ہوئے تھے۔ مستدرک الحاکم میں دار ارقم میں جمع ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 39بتائی گئی ہے(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 6130)۔
مگر جو لوگ مروجہ نظام کے زیر سایہ عمل کر رہے ہوں، ان کی طاقت ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک عارضی وقفہ کے بعد مظالم کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔ آپ کو ہر قسم کی تکلیف دینے کے باوجود وہ آپ کو قتل نہ کرسکتے تھے۔ کیونکہ قبائلی رواج کے مطابق کسی قبیلہ کے ایک فرد کو قتل کر نا پور ے قبیلہ سے جنگ کرنے کےہم معنی تھا۔ یہی مسئلہ تھا جس کی بنا پر حضرت شعیب کی قوم نے ان سے کہا کہ اگر تمہارے قبیلہ کا خوف نہ ہوتا تو ہم تمہیں پتھر مارمار کر ہلاک کر دیتے (ھو د، 11:91)۔
قریش نے بنی ہاشم کے سردار اور آپ کے چچا ابو طالب بن عبد ا لمطلب سے مطالبہ کیا کہ وہ آپ کو قبیلہ سے خارج کردیں تاکہ قریش کے لیے آپ کو قتل کرنا ممکن ہوجائے۔ مگر ابوطالب کی غیرت اس کے لیے تیار نہ ہوئی۔ ایک بار قریش کی شکایت پر جب ابو طالب نے آپ سےکہا کہ تم ان کے بتوں پر تنقید کرناچھوڑ دو تو آپ کو اندیشہ ہوا کہ وہ آپ کو قریش کے حوالے کردیں گے (أَنَّهُ قَدْ بَدَا لِعَمِّهِ فِيهِ بَدَاءٌ أَنَّهُ خَاذِلُهُ وَمُسْلِمُه)۔مگر ابو طالب نے فوراً یہ کہہ کر آپ کو مطمئن کردیافَوَ الله لَا أُسْلِمُك لِشَيْءِ أَبَدًا(اللہ کی قسم، میں تمھیں کسی چیز کے بدلے کبھی بھی ان کے حوالے نہیں کروں گا)سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 266۔
اب قریش نے ایک اجتماعی معاہدہ کر کے بنی ہاشم کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ یہ نبوت کا ساتواں سال تھا، اس کے بعد ابو طالب آپ کو اور آپ کےخاندان کو لےکر مکہ کےباہر نکل گئے اور ایک گھاٹی میں مقیم ہوئے جس کو شعب ابی طالب کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خشک پہاڑی درہ تھا جس میں بعض جنگلی درختوں کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی۔ آپ تین سال تک اس حال میں رہے کہ درخت کی پتیاں اور جڑیں کھاکر گزارہ کرتے، اس سے مستثنیٰ صرف وہ چار حرام مہینے تھے جب کہ آپ کےخاندان کے لوگ مکہ جاتے اور قربانی کے جانوروں کا گوشت لے آتے اور اس کو سکھا کر رکھ لیتے جو عرصہ تک غذا کا کام دیتاتھا۔
تین سال بعد نبوت کے دسویں برس معاہدہ ختم ہو گیا مگر اس کی شدت ابو طالب کے لیے جان لیو اثابت ہوئی۔ ابو طالب کے انتقال (620ء) کے بعد قبیلہ کے سب سے بزرگ فرد کی حیثیت سے عبد العزی (ابو لہب ) بنی ہاشم کا سردار بن گیا۔ اب دشمن خود جج کی کرسی پر تھا۔ اس نےآپ کو قبیلہ سےخارج کیے جانے کا اعلان کردیا۔
قبیلہ سے اخراج
عرب کی صحرائی زندگی میں کسی شخص کا قبیلہ سے خارج کر دیا جانا ایسا ہی تھا جیسےکسی کو سمندر میں دھکیل دیا جائے۔ کیوں کہ قبائلی نظام میں، جب کہ کوئی ذمہ دار ملکی حکومت نہیں ہوتی تھی، کوئی شخص کسی قبیلہ کی حمایت ہی میں زندگی گزار سکتا تھا۔ منٰی کی قیام گاہوں میں ایک بار آپ نے ایک قبیلہ کے سامنے اپنی دعوت پیش کی۔ قبیلہ نے ماننے سے انکار کیا۔تاہم ان میں سے ایک شخص میسرہ بن مسروق عبسی کی باتوں سے اندازہ ہو ا کہ انہوں نے آپ کی دعوت کا اثر قبول کیاہے:
وَطَمِعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي مَيْسَرَةَ، فَكَلَّمَهُ، فَقَالَ مَيْسَرَةُ:مَا أَحْسَنَ كَلَامَك وَأَنْوَرَهُ، وَلَكِنَّ قَوْمِي يُخَالِفُونَنِي، وَإِنَّمَا الرَّجُلُ بِقَوْمِهِ(البدایہ والنہایہ، جلد 3، صفحہ170)۔ یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میسرہ سے امید ہوئی۔ آپ نے ان سے بات کی، میسرہ نےجواب دیا، آپ کی بات کتنی اچھی اور نورانیت سے بھری ہوئی ہے۔ مگر میری قوم مخالف ہے اور آدمی اپنی قوم ہی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔
ان حالات میں قبیلہ سے اخراج آپ کے لیے انتہائی سنگین واقعہ تھا۔ اب اپنے وطن میں آپ کے لیے کوئی سایہ نہ تھا۔ آپ کے لیے واحد صورت یہ تھی کہ اپنے لیے کوئی دوسرا حمایتی قبیلہ تلاش کریں ۔ مکہ سے نکل کر طائف جانا اس سلسلے میں آپ کی پہلی کوشش تھی۔ حضرت عائشہ سے اس سفر کی رو داد بیا ن کرتے ہوئے ایک بار آپ نے کہا:إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3231)۔یعنی، جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل کے سامنے پیش کیا۔
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں :وَمَاتَ أَبُو طَالِبٍ وَازْدَادَ مِنَ الْبَلَاءِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِدَّةٌ فَعَمَدَ إِلَى ثَقِيفٍ يَرْجُو أَنْ يُؤْوُوهُ وَيَنْصُرُوهُ (دلائل النبوۃ لابی نعیم، حدیث نمبر 221)۔ یعنی، ابو طالب کی وفات کے بعد آپ کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی جانے لگیں۔ اس وقت آپ نے قبیلہ ثقیف (طائف) کارخ کیا۔ اس امید میں کہ وہ آپ کوپناہ دیں گے اور آپ کی مدد کریں گے۔
مگر وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا، اس کی ایک جھلک اس دعا میں نظر آتی ہے جو طائف سے واپسی کے وقت آپ کے لہو لہان چہرہ سے نکلی تھی:
اللَّهمّ إلَيْك أَشْكُو ضَعْفَ قُوَّتِي، وَقِلَّةَ حِيلَتِي، وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ420)يعني، خدا یا میں تجھی سے شکایت کرتاہوں اپنی قوت کی کمی کی اور اپنے وسائل کی قلت کی اور لوگوں کی نظر میں حقیر ہونے کی۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
طائف سے لوٹتے ہوئے آپ نے اهلِ طائف سے کہا تم نے میرے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کی خبر مکہ تک نہ پہنچے ورنہ انہیں مزید جسارت ہو جائے گی ( إذَا فَعَلْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ فَاكْتُمُوا عَنِّي، وَكَرِهَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْلُغَ قَوْمَهُ عَنْهُ، فَيُذْئِرَهُمْ ذَلِك عَلَيْهِ) سیرت ابن ہشام،جلد1، صفحہ419۔
طائف سے واپس ہوکر دوبارہ آپ مکہ کے باہر مقیم ہوئے اور شہر کے مختلف لوگوں کے پاس پیغام بھیجا کہ کوئی آپ کو اپنی شخصی حمایت میں لے لے تو مکہ میں آکر رہ سکیں ۔ بالآخر مطعم بن عدی نے آپ کی حمایت قبول کی اور اس کے لڑکوں کی تلوار کے سایہ میں آپ دوبارہ مکہ میں داخل ہوئے۔
اب آپ نے یہ منصوبہ بنایا کہ مختلف میلوں اور بازاروں میں اطراف کے جو قبائل مکہ آتے ہیں ، ان میں جائیں اور ان کو آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنی حمایت میں لے لیں۔ آپ نے اپنے چچا عباس سے کہا:
لَا أَرَى لِي عِنْدَك وَلَا عِنْدَ أَخِيك مَنَعَةً، فَهَلْ أَنْتَ مخرجى إِلَى السُّوق غَدا حَتَّى نقر فِي مَنَازِلَ قَبَائِلِ النَّاسِ (البدایہ والنہایہ، جلد 2، صفحہ159)۔يعني،تمہارے اور تمہارے اقربا کے یہاں میرے لیے حفاظت نہیں ۔ کیا آپ کل مجھے بازار لے چلیں گے تاکہ ہم لوگوں کی قیام گاہوں پر چل کر ٹھہریں اور ان سے بات کریں ۔
آپ ایک ایک قبیلہ کی قیام گاہ پر جاتے اور اس سے پوچھتے کہ تم لوگوں کے یہاں حفاظت کا کیا انتظام ہے (كَيفَ المنعة فِيكُم) { FR 1789 }۔ ان کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے (يعرض عليهم نفسه){ FR 1790 }۔ان سےکہتے کہ میرے قبیلہ نے مجھ کو نکال دیاہے (كَذَّبَنِي وَطَرَدَنِي){ FR 1791 }۔تم مجھ کو اپنی حفاظت میں لے لوتاکہ میں تبلیغ رسالت کا فریضہ انجام دے سکوں (يَمْنَعُونِي وَيُؤْوُونِي حَتَّى أُبَلِّغَ عَنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا أَرْسَلَنِي بِهِ ){ FR 1792 }مورخین نے اس سلسلے میں پندرہ قبیلوں کے نام لکھے ہیں جن سے آپ فرد اً فرداً ملے۔
مگر قبائل کو معلوم تھا کہ قریش کے نکالے ہوئے ایک شخص کو پناہ دینا کس قدر خطرناک ہے۔ چنانچہ ہر ایک نے آپ کو اپنی پناہ میں لینے سے انکار کردیا۔ ایک قبیلہ کےکچھ لوگوں میں آپ کی بابت نرمی پید اہوئی تو اس کے ایک بزرگ نے کہا :
أَخْرَجَتْهُ عَشِيرَتُهُ وَتُؤْوُونَهُ أَنْتُمْ؟ تَحَمَّلُونَ حَرْبَ الْعَرَبِ قَاطِبَةً (ابو نعیم فی دلائل النبوۃ، حدیث نمبر 222)۔يعني، اس کے قبیلہ نے اس کو نکال دیاہے اور تم اس کی پشت پناہی کرنا چاہتے ہو کیا تم تمام عرب سے لڑائی مول لینا چاہتے ہو۔
وہ جانتے تھے کہ کسی قبیلہ سے نکالے ہوئے شخص کو حفاظت میں لینا اس قبیلہ سے اعلان جنگ کےہم معنى ہے اور جب کہ یہ قبیلہ قریش ہو جس کو پورے ملک پر سیادت حاصل ہو تو مسئلہ اور بھی زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ عرب روایات میں یہ بات انتہائی معیوب تھی کہ کوئی شخص کسی سے پناہ طلب کرے اور وہ اس کو پناہ نہ دے۔ عرب تاریخ میںیہ پہلا نمایاں واقعہ تھا کہ آپ کئی سال تک مختلف قبائل کے درمیان پھرتے رہے، مگر کوئی آپ کو پناہ دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ نہ طائف کے لوگ نہ دیگر عر ب قبائل۔ اس کی وجہ آپ کے معاملہ کی مخصوص نوعیت تھی۔ آپ کو ’’طرد‘‘ کرنے والے قریش تھے جو سارے عرب کے قائد تھے۔ قریش کے نکالے ہوئے ایک شخص کوپناہ دینے کا مطلب سارے عرب سے جنگ مول لینے کے ہم معنی تھا۔ یہی پس منظر تھا جس کی بنا پر انصارسے بیعت کے وقت ابو لہیثم بن التيہان نے اپنے ساتھیوں سے کہا :
فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِنْ تُخْرِجُوهُ بَرَتْكُمُ الْعَرَبُ عَنْ قَوْسٍ وَاحِدَةٍ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 566)۔يعني،جان لو، اگر تم ان کو اپنے یہاں لے گئے تو سارے عرب مل کر تم کو ایک تیرسے نشانہ بنالیں گے۔
اس کے علاوہ ایک اوروجہ بھی تھی وہ قبائل جو سرحدی علاقوں میں آباد تھے، ان کے پڑوس کی غیر عرب حکومتوں سے معاہدات تھے، وہ ڈرتے تھے کہ آپ جیسی ایک متنازعہ شخصیت کو اپنے ساتھ لے جائیں تو ان حکومتوں سے کوئی جھگڑا نہ شروع ہو جائے۔ البدایہ و النہایہ میں ہے کہ آپ منٰی کے میلہ میں گئے وہاںبنو شیبان بن ثعلبہ کے سرداروں سے آپ کی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے آپ کے پیغام کی تحسین کی۔ مگر آخر میں ہانی بن قبیصہ نے کہا کہ ہم کسریٰ (شاہ فارس) کی مملکت کی سرحد پر بسے ہوئے ہیں اور شاہان فارس سے ہمارے معاہدے ہیں :
وَلَعَلَّ هَذَا الْأَمْرَ الَّذِي تَدْعُونَا إِلَيْهِ مِمَّا تَكْرَهُهُ الْمُلُوك(البدایہ والنہایہ، جلد3، صفحہ 144)۔ يعني، اور جس چیز کی طرف آپ ہمیں بلاتے ہیں شاید وہ بادشاہوں کی ناراضگی کا باعث ہو۔
اس زمانہ میںآپ پر جو بے بسی کا عالم تھا اس کا اندازہ ان الفاظ سے ہوتا ہے جو اس سلسلہ میں روایات میں آئے ہیں ۔ ایک بار آپ ایک قبیلہ میں گئے جس کو بنو عبد اللہ کہا جاتا تھا :
فَدَعَاهُمْ إلَى اللهِ وَعَرَضَ عَلَيْهِمْ نَفْسَهُ، حَتَّى إنَّهُ لَيَقُولُ لَهُمْ:يَا بَنِي عَبْدِ اللهِ، إنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحْسَنَ اسْمَ أَبِيكُمْ، فَلَمْ يَقْبَلُوا مِنْهُ مَا عَرَضَ عَلَيْهِمْ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ424)۔یعنی، ان کو آپ نے خدا کی طرف بلایا اور اپنے آپ کو ان کے سامنے پیش کیا کہ وہ آپ کو اپنی حمایت میں لے لیں ۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایااے بنو عبد اللہ ! اللہ نے تمہارا نام کتنا اچھا رکھا ہے، پھر بھی انہوں نے وہ چیز قبول نہ کی جو آپ نے ان کے سامنے پیش کی تھی۔
اس طرح مکّی زندگی کے آخری تقریباً تین سال مختلف قبائل کے درمیان اپنا حمایتی تلاش کرنے میں گزر گئے۔ مگر ہر قسم کی جدو جہد کے باوجود کوئی قبیلہ بھی آپ کی حمایت کے لیے تیار نہ ہوا۔ یہاں تک کہ بعض قبائل کہہ اٹھے، کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپ ہم سے مایوس ہو جائیں (مَا آنَ لَك أَنْ تَيْأَسَ مِنَّا)۔بالآخر اللہ تعالیٰ نے یثرب (مدینہ) کے قبائل اوس اور خزرج کو اس کی توفیق عطا فرمائی (دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی، حدیث نمبر 224)۔
اوس اور خزرج کی اس آمادگی کا ایک خاص نفسیاتی پس منظر بھی تھا۔ یہ قبائل یہود کے پڑوس میں بسے ہوئےتھے۔ خیبر کےیہودی اس علاقہ کی بہترین زمینوں پر قابض تھے، تجارتیں بھی انہیں کے قبضہ میں تھیں۔ چنانچہ یثرب کے عربوں (اوس و خزرج) کی معاشیات کا بڑا ذریعہ خیبر کے یہودیوں کے یہاں مزدوری کرنا تھا۔ ہجرت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنے ہاتھوں سے مسجد نبوی کی تعمیر کر رہے تھے تو آپ کی زبان پر یہ شعرتھا:
هَذَا الحِمَالُ لاَ حِمَالَ خَيْبَرْ هَــذَا أَبَـرُّ رَبَّنَـا وَأَطْهَـرْ
یعنی،یہ مزدوری ہے مگر خیبر کی مزدوری کی طرح نہیں۔ ہمارے رب کی قسم یہ اس سے بہت بہتر اور بھلی ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3906)۔
یہودیوں کے اقتصادی غلبہ اور استحصال کی وجہ سے ان میں اور اوس و خزرج میں اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں ۔ چنانچہ ان سے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کے مطابق جلد ہی عرب میں ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے۔ وہ جب آئے گا تو ہم اس کے ساتھ ہو کر تم سے لڑیں گے اور تم کو ہمیشہ کے لیے فنا کر دیں گے۔ یہو دیوں کے اسی قول کی طرف قرآن کے ان الفاظ میں اشارہ ہے:وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا (2:89)۔ یعنی، اور وہ پہلے سے منکروں پر فتح مانگا کرتے تھے۔
اوس وخزرج کے لوگوں نے آپ کی دعوت سنی تو انہوں نے کہا ’’بخدايہی وہ نبی ہے جس کے بارے میں یہود ہم سے کہا کرتے تھے۔ قبل اس کےکہ یہود سبقت کریں ہمیں آپ پر ایمان لاکر آپ کے گروہ میں شامل ہو جانا چاہیے۔ ‘‘ اس مخصوص پس منظر کے علاوہ دوسرے تاریخی اور سماجی اسباب بھی تھے جس کی وجہ سے اوس و خزرج کے لیے آپ کی بات کو سمجھنا اور اس کو مان لینا دیگر عرب قبائل کے مقابلہ میں آسان ہو گیا اور انہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
اب وہ وقت آگیا تھا جس کے آپ برسوں سےمنتظر تھے۔ آپ کو ایک ایسی جگہ مل گئی تھی جہاں قبائلی حمایت کےتحت اپنی جدو جہد کومؤثر شکل میں جاری رکھ سکیں اور مکہ اور اطراف مکہ کے مسلمانوں کو ایک مقام پر جمع کر کے اس کو اسلامی مرکز بنا دیں۔ اہل یثرب کا بڑی تعداد میں اسلام لانا اس بات کا امکان پیدا کررها تھا کہ اسلام کی متفرق طاقتوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کر دیا جائے اور پھر دعوت حق کی جدو جہد کو زیادہ مؤثر شکل میں جاری رکھا جاسکے۔ چنانچہ اوس و خزرج نے بیعت کر لی تو تاریخ میں آتا ہے کہ :
قَالَ فَلَمْ يَلْبَثْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا يَسِيرًا حَتَّى خَرَجَ إلى أصحابه فقال لهم:احمدوا لله كَثِيرًا فَقَدْ ظَفِرَتِ الْيَوْمَ أَبْنَاءُ رَبِيعَةَ بِأَهْلِ فَارِسَ (البدایہ والنهایہ، جلد 3، صفحہ 145)۔ یعنی، آپ فوراً اپنے اصحاب کی طرف لوٹے اور ان سے کہا۔ خدا کا شکر کرو، اللہ نے آج کے دن ربیعہ کی اولاد کو اہل فارس پر غلبہ دے دیا۔
آپ نے ہجرت کی تیاری شروع کردی۔ آپ کے انتہائی اخفا کے باوجود قریش کو بھی خبریں مل رہی تھیں۔ حضرت عروہ نے بیان کیاہے:
ثُمَّ إِنَّ مُشْرِكِي قُرَيْشٍ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَمَكْرَهُمْ حِينَ ظَنُّوا أَنَّ رَسُولَ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - خَارِجٌ، وَعَلِمُوا أَنَّ اللهَ قَدْ جَعَلَ لَهُ بِالْمَدِينَةِ مَأْوًى وَمِنْعَةً، وَبَلَغَهُمْ إِسْلَامُ الْأَنْصَارِ وَمَنْ خَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَأَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ عَلَى أَنْ يَأْخُذُوا رَسُولَ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَإِمَّا أَنْ يَقْتُلُوهُ، وَإِمَّا أَنْ يَسْجِنُوهُ، أَوْ يَسْحَبُوهُ - شَکّ عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ - وَإِمَّا أَنْ يُخْرِجُوهُ، وَإِمَّا أَنْ يُوثِقُوهُ(مجمع الزوائد و منبع الفوائد، حدیث نمبر 9902)۔ یعنی،مشرکین قریش نےجب یہ گمان کر لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے جائیں گے اور انہیں معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ کے لیے مدینہ میں ٹھکانا اور حفاظت کا انتظام کردیا ہے اورانہوں نے سنا کہ انصار نے اسلام قبول کر لیا ہے اور مہاجرین مدینہ میں جمع ہورہے ہیں تو انہوں نے آپ کے خلاف سازش کی اور طے کیا کہ آپ کو گرفتار کرلیں اور اس کے بعد یا تو قتل کر دیں یا قید میں ڈال دیں یا شہر بدر کردیں یا باندھ کر رکھیں ۔
اوس و خزرج کے ایمان کے بعد آپ نے چھ مہینے کے دوران سفر کا انتہائی کا مل منصوبہ بنایا، اور اس کےبعد نہایت خاموشی سے مکہ سے نکل گئے۔
اہل یثرب کا اسلام
قدیم یثرب (مدینہ) میں دو عرب قبیلے اوس اور خزرج آباد تھے۔ اسی کے ساتھ وہاں چند یہودی قبیلے بھی تھے۔ یہود نے اوس و خزرج کو باہم لڑارکھا تھا تاکہ وہ یہود کے مقابلہ میںکمزور رہیں اور ان کی مضبوط جمعیت بننے نہ پائے اور اس طرح یہود کی با لا تر ی ان کے اوپر قائم رہے۔ ہجرت نبوی سےپانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ قبیلہ خزرج یہودیوں کے ابھارنے سے اوس کے خلاف آمادۂ جنگ ہو گیا۔ قبیلۂ اوس کے ایک سردار ابوالحيسرانس بن رافع چند آدمیوں کو لےکر مکہ آئے تاکہ اپنے حریف کے مقابلہ میں قریش کی مد د حاصل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی آمد کا علم ہو ا تو آپ ان کے پاس گئے اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی۔
ان کے وفد کے ایک نوجوان ایاس بن معاذ اس سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ خدا کی قسم اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم آئے ہو (هَذَا وَاللهِ خَيْرٌ مِمَّا جِئْتُمْ لَهُ)مگر ان کے ساتھیوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آسکی۔ ابو الحیسر انس بن رافع اپنے ہاتھ میں مٹی لے کر ایاس بن معاذ کے چہرہ پر پھینکی اور کہا:ان باتوں کو رہنے دو،میری زندگی کی قسم ہم تو اس کے علاوہ کسی او ر کام کے لیے آئے ہیں (دَعْنَا مِنْك فَلَعَمْرِي لَقَدْ جِئْنَا لِغَيْرِ هَذَا) سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ427-28۔
اوس کا وفد اسلام قبول کیے بغیر یثرب واپس چلاگیا۔ اس کے بعد اوس اور خزرج کے درمیان وہ جنگ ہوئی جو جنگ بُعاث کے نام سے مشہور ہے۔ اس وقت دونوں قبیلوں کے درمیان دشمنی اتنی بڑھ گئی تھی کہ ہر قبیلہ چاہتاتھا کہ دوسرے قبیلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ اس جنگ میں پہلے خزرج نے اوس کو شکست دی۔ اس کے بعد اوس نے اپنے سردار ابو اسید بن حضير کی قیادت میں خزرج کو شکست دی۔ دونوں نے باری باری ایک دوسرے کو زبردست نقصانات پہنچائے۔ حتٰی کہ ایک نے دوسرے کے باغات اور مکانات جلا ڈالے۔ دونوں عرب قبیلے خود ہی اپنے ہاتھوں کمزور ہو کر رہ گئے۔
اس جنگ کافائدہ براہ راست یہود کو پہنچا۔ انہوں نے یثرب میں برتری کا مقام حاصل کرلیا۔ جب جذبات ٹھنڈے ہوئے تو دونوں قبائل کے سنجیدہ لوگوں کو احساس ہوا کہ انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اپنے کو خود اپنے ہاتھوں ہلاک کر کے دشمن کو موقع دے دیا کہ وہ ان کے اوپر غلبہ حاصل کر لے۔ دونوں قبیلوں کے باشعور لوگوں نے طے کیا کہ وہ اپنے اختلافات کو بھول جائیں اور مشتر کہ طور پر اپنا ایک بادشاہ مقرر کر لیں جو ان کے معاملات کا نظم کرے۔ اس کے لیے عبد اللہ بن ابی خزرجی کا انتخاب ہوا جو ایک صاحب شخصیت آدمی تھا اور اپنے اندر قائدانہ اوصاف رکھتاتھا۔ عین اسی زمانہ میں یہ واقعہ ہوا کہ قبیلہ خزرج کے کچھ لوگوں نے کعبہ کی زیارت کے ارادہ سے مکہ کا سفر کیا۔ یہاں ان کی ملاقات رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے ہوئی۔ آپ نے ان کو بتایا کہ میں خدا کا نبی ہوں۔ تم لوگ میری دعوت کو قبول کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے وقت ان کو یاد آیا کہ یہو د بہت دنوں سے ان سے کہا کرتے تھے کہ ایک غلبہ والا نبی ظاہر ہونے والا ہے۔ ہم اس کے ساتھ ہو کر تم کو شکست دیں گے اور تمہارے اوپر غلبہ قائم کریں گے۔ یثرب والوں نے ایک دوسرے سےکہااے لو گو، خدا کی قسم یہ تو وہی نبی ہیں جن کی خبر تم کو یہود دیتے تھے۔ دیکھو، وہ تم سے پہلے اس کی طرف سبقت نہ کرنے پائیں ( يَا قَوْمِ، تَعْلَمُوا وَاللهِ إنَّهُ لَلنَّبِيُّ الَّذِي تَوَعَّدَكُمْ بِهِ يَهُودُ، فَلَا تَسْبِقُنَّكُمْ إلَيْهِ)۔
چنانچہ انہوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی۔ انہوں نے مزید کہا:ہم اپنی قوم کو چھوڑ کر آئے ہیں۔ ان میں جتنا شروعداوت ہے اتنا کسی اور قوم میں نہیں۔ شاید اللہ آپ کے ذریعہ ان کو متحد کر دے۔ ہم واپس جاکر اس دین کو ان کے سامنے پیش کریں گے جس کو ہم نے قبول کر لیاہے۔ اگر اللہ نے ان کو اس دین پر جمع کر دیا تو آپ سے زیادہ اس ملک میں کوئی طاقت ورنہ ہوگا (فَأَجَابُوهُ فِيمَا دَعَاهُمْ إلَيْهِ، بِأَنْ صَدَّقُوهُ وَقَبِلُوا مِنْهُ مَا عَرَضَ عَلَيْهِمْ مِنْ الْإِسْلَامِ، وَقَالُوا:إنَّا قَدْ تَرَكْنَا قَوْمَنَا، وَلَا قَوْمَ بَيْنَهُمْ مِنْ الْعَدَاوَةِ وَالشَّرِّ مَا بَيْنَهُمْ، فَعَسَى أَنْ يَجْمَعَهُمْ اللهُ بِك، فَسَنَقْدَمُ عَلَيْهِمْ، فَنَدْعُوهُمْ إلَى أَمْرِك، وَتَعْرِضُ عَلَيْهِمْ الَّذِي أَجَبْنَاك إلَيْهِ مِنْ هَذَا الدِّينِ، فَإِنْ يَجْمَعْهُمْ اللهُ عَلَيْهِ فَلَا رَجُلَ أَعَزُّ مِنْك) سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 429۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد یثرب کے لوگ جوق در جوق اسلام لائے۔ وہ اسلام کے انصار (مددگار) بن گئے۔ ان کی قربانی اور تعاون سے اسلام کو عرب میں غلبہ حاصل ہوا۔
یثرب کے لوگوں نے ہجرت سے پانچ سال پہلے آپ کی دعوت کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔ مگر پانچ سال بعد یہی لوگ آپ کے مومن بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلی ملاقات کے وقت ان کے ذہن میں جنگ کے خیالات بھر ے ہوئے تھے۔ وہ سارے معاملہ کو اس نقطۂ نظر سے دیکھتے تھے کہ ان کا ایک دشمن ہے اور اس دشمن کو انہیں شکست دینا ہے۔ ان کی نفسیات پر جنگ کے مسائل چھائے ہوئے تھے۔ اس ذہنی پس منظر میں خدا اور آخرت کی باتیں انہیں غیر متعلق بلکہ تباہ کن معلوم ہوتی تھیں۔ ان کو ایسا نظر آتا تھا گویا ان کو اصل محاذ سے ہٹایا جارہا ہے۔
مگر جب جنگ بعاث میں ساری طاقت خرچ کرنے کے بعد ان کے حصہ میں صرف تباہی آئی۔حتٰی کہ یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ یہود ان کو لڑا لڑا کر ان کی عرب نسل کا خاتمہ کردیں گے تو ان کا ذہن بد لنا شروع ہو گیا۔ اب وہ معاملہ کو جنگ سے وسیع تر دائرہ میں رکھ کر دیکھنے لگے۔ اب وہ جنگ کےبجائے امن،اختلاف کے بجائے اتحاد کی اصطلاحوں میں سوچنے لگے۔ ان کو نظر آیا کہ اصل مسئلہ اوس و خزرج کا نہیں بلکہ اوس و خزرج کے مقابلہ میں یہود کا ہے۔ اس کا حل انہیں یہ نظر آیا کہ ان کا ایک عقیدہ ہو جو قبائلی تفریق کو ختم کر ے اور ان کےلیے نظر یاتی اتحاد کی بنیاد فراہم کرے اور اسی کے ساتھ ایک شخصیت ہو جو ان کو باہم جوڑے اور ان کا مشترکہ قائدبن سکے۔ یہ دونوں چیزیں (نظر یہ اور شخصیت ) انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں مل گئیں اور انہوں نے لپک کر اس کو قبول کر لیا۔
اسی لیے حضرت عائشہ نے فرمایا بعاث کی جنگ ایک ایسی جنگ تھی جس کو اللہ نے اپنے رسول کی تائید کے لیے فراہم کیا تھا (كَانَ يَوْمُ بُعَاثَ، يَوْمًا قَدَّمَهُ اللهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3777۔
ہجرت
ہجرت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس کو اسلامی کیلنڈر کے آغاز کے لیے استعمال کیا۔ مگر اس واقعہ کی اصل حقیقت طلسماتی کہانیوں میں گم ہو گئی ہے۔
مثال کےطور پر کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غار ثور میں داخل ہوئے تو مکڑی نے ا س کے منہ پر جا لا تن دیا اور اس کے بعد فاختہ آئی اور اس نے جالے کے اوپر انڈے دے دیے۔ مگر اس معاملہ میں وہی ہوا جو عام طور پر اس طرح کے واقعات میں ہوتا ہے۔ یعنی اصل بات پر اپنے تخیل سے اضافہ کر کے اس کو کچھ سے کچھ بنا دیا۔
جیسا کہ ابن کثیر نے واضح کیا ہے، اس معاملہ میں صحیح ترین روایت وہ ہے جو امام احمد نے حضرت عبد اللہ بن عباس کے حوالہ سے نقل کی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :
فَاقْتَصُّوا أَثَرَهُ، فَلَمَّا بَلَغُوا الْجَبَلَ خُلِّطَ عَلَيْهِمْ، فَصَعِدُوا فِي الْجَبَلِ، فَمَرُّوا بِالْغَارِ، فَرَأَوْا عَلَى بَابِهِ نَسْجَ الْعَنْكَبُوتِ، فَقَالُوا:لَوْ دَخَلَ هَاهُنَا لَمْ يَكُنْ نَسْجُ الْعَنْكَبُوتِ عَلَى بَابِهِ(مسند احمد، حدیث نمبر 3251، وھو ضعیف)۔ یعنی،وہ آپ کے نشانات پر چلے۔ جب وہ پہاڑ تک پہنچے تو راستہ ان پر مشتبہ ہوگیا۔ پھر وہ پہاڑ پر چڑھے اورغار سے گزرے۔ انہوں نے دیکھا کہ غار کے منہ پر مکڑی کا جالا ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے کہا کہ اگر وہ یہاں داخل ہوتے تو اس کے منہ پر مکڑی کا جالا باقی نہ رہتا۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ انہوں نے جو غار دیکھا وہ غار ثور ہی تھا تب بھی مذکورہ روایت کے مطابق بات صرف اتنی ہے کہ انہوں نے اس کے منہ پر مکڑی کا جالا دیکھا۔ روایت میں یہ باتیں بالکل موجود نہیں ہیں کہ خدا نے حکم دیا توایک مکڑی آئی اور اس نے جالا تن دیا۔ پھر خدا نے فاختہ کو حکم دیا تو فاختہ آئی اور اس نے وہاں انڈے دے دیے۔ اس قسم کی تمام باتیں لوگوں نے اپنے تخیل سے اصل واقعہ پر اضافہ کر لیں۔
اس قسم کے اضافوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کی نگاہ عجائبات اور طلسمات کی طرف چلی جاتی ہے اور حکمت اور نصیحت کا پہلو نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
مہاجرین کی نصرت
مدینہ کے قبائل (انصار) نے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا ساتھ دیا وہ تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ لوگ کسی کوکوئی چیز دیتے ہیں تو وہ یا بدلہ کے طور پر ہوتا ہے یا خوف کی وجہ سے۔لین دین کی تیسری قسم وہ ہے جو ’’برکت‘‘ کے تصور کے تحت وجود میں آتی ہے۔ کچھ زندہ یا مردہ لوگوں کے بارے میں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ ’’بزرگ‘‘ ہیں اور ان کے اوپر خرچ کرنا یا چڑھا واچڑھانا اولاد اور اموال میں ترقی کا باعث ہوگا۔ مگر معلوم انسانی تاریخ میں غالباً یہ پہلی نمایاں مثال ہے کہ ایک قوم نے خالص مقصدی بنیاد وں پر لٹے پٹے مہاجرین کےلیے اپنے دروازے کھول دیے۔ ان کو نہ صرف اپنے گھروں میں جگہ دی بلکہ مواخاۃ قائم کر کے ان کو سگے بھائی کی طرح اپنی جائدادوں میں حصہ دار بنا دیا۔ اور یہ سب کچھ یہ جانتے ہو ئے کیا کہ مہاجرین کی یہ امداد صرف اقتصادی قربانی ہی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ عرب و عجم کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ حضرت علی کےیہ دو الفاظ ان کی بہترین تصویر ہیں :
كَانُوا صُدَقَاءَ صُبَرَاءَ (البدایہ والنہایہ، جلد 3، صفحہ 145)۔ یعنی، (اوس و خزرج کے لوگ) بڑے سچے اور بڑے صبر کرنے والے تھے۔
جب مہاجرین اپنا وطن چھوڑ کر یثرب پہنچے تو انصار کا یہ حال تھا کہ ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ مجھے میزبانی کا شرف حاصل ہو۔ حتّٰی کہ اس کے لیے قرعہ اندازی کی نوبت آگئی۔ انہوں نے اپنے اموال کے بہترین حصہ کو مہاجرین کے حوالے کر دیا (وَلَقَدْ تَشَاحُّوا فِينَا حَتَّى أَنْ كَانُوا لَيَقْتَرِعُونَ عَلَيْنَا ثُمَّ كُنَّا فِي أَمْوَالِهِمْ أَحَقَّ بِهَا مِنْهُمْ ) دلائل النبوۃ لابی نعیم، حدیث نمبر 224۔ ان کے غیر معمولی ایثار کے باوجود ا ن سے با قاعدہ بیعت لی گئی کہ عہدوں کی تقسیم میں دوسروں کو ان پر ترجیح دی جائیگی (أَثَرَةً عَلَيْنَا)مگر وہ اس کے لیے جھگڑا نہ کریں گے (وَعَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ)صحیح مسلم، حدیث نمبر 1709۔
تاہم ہجرت کے بعد مدینہ کی زندگی آپ کے لیے کوئی آرام کی زندگی نہ تھی۔ اہل عرب کی متحدہ جار حیت کے بارے میں تمام اندیشے اپنی بد ترین شکل میں صحیح ثابت ہوئے۔ حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں :
لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ الْمَدِينَةَ وَآوَاهُمُ الأَنْصَارُ رَمَتْهُمُ الْعَرَبُ عَنْ قَوْسٍ وَاحِدَةٍ وَكَانُوا لَا يَبِيتُونَ إِلا فِي السِّلاحِ وَلا يُصْبِحُونَ إِلا فِي كَذَا (الأحاديث المختارة لضياء المقدسي، حدیث نمبر 1145)۔ یعنی، جب آپ اور آپ کے اصحاب مدینہ آئے اور انصار نے انہیں پناہ دی تو تمام عرب نے مل کر آپ کو نشانہ پر لے لیا۔ مدینہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ وہ ہتھیاروں کے ساتھ رات گزارتے اور ہتھیار کے ساتھ صبح کرتے۔
قریش نے تمام عرب میں اہل مدینہ کےمعاشی بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ شہر کی معاشیات اچانک بڑھ جانے والی دگنا آبادی کے لیے انتہائی نا کافی ہو گئیں۔ اس پر مزید آئے دن ہونے والی جنگوں کےاخراجات، ان چیزوں نے معاشی تنگی کو اپنے آخری درجہ پر پہنچا دیا۔ حضر ت عمر کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اسلام کو مدینہ میں دیکھا ہے۔ آپ سارے دن بھوک سے بے قرار رہتے۔ ردی کھجوریں بھی اتنی میسر نہ آتیں جس سے اپنا پیٹ بھر سکیں۔ بعد کے دور میں حضرت عائشہ سے کسی نے چراغ کا ذکر کیا تو انہوں نے جواب دیا:اگر ہمارے پاس چراغ جلانے کے لیے تیل ہوتا تو اس کو ہم پی جاتے۔ غزوات میں بے سر وسامانی کا عالم یہ تھا کہ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں، ہم لوگ آپ کے ہمراہ غزوہ کے لیے نکلے۔ ہمارے پاس چھ آدمیوں کے درمیان صرف ایک اونٹ تھا جس پر ہم باری باری سوار ہوتے۔ مسلسل پیدل چلنے کی وجہ سے ہمارے قدم چھلنی ہو گئے اور ہم نے اپنے پیروں پر چیتھڑے لپیٹ لیے، اسی لیے اس غزوہ کا نام ذات الرقاع (چیتھڑوں والا) رکھا گیا۔
غزوات کے سفر میں کھانے کا ذخیرہ اتنا کم ہوتا تھا کہ بعض اوقات لوگ کھجور کو کھانے کے بجائے چوستےتھے۔ اور بقیہ کمی کو ببول کے پتوں اورٹڈیوں کے ذریعہ پوری کرتے تھے۔ اس پر مزید اضافہ وہ بیماری تھی جو غذائی عادت کی تبدیلی سے پیداہوئی۔ مکہ کے باشندے گوشت اور دودھ کے عادی تھے۔ مدینہ میں انہیں کھجور کھانے کو ملی۔ طبرانی نے روایت کیا ہے کہ ایک روز جب کہ آپ جمعہ کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف لائے، ایک مکی مسلمان نے چلا کر کہا :
يَا رَسُولَ اللهِ أَحْرَقَ بُطُونَنَا التَّمْرُ (مسند احمد، حدیث نمبر 15988)۔يعني،اے خدا کے رسول ! کھجور نے ہمارے پیٹوں کو جلا دیا۔
آپ کے مدینہ پہنچنے کے بعد اسلام عملی او ر تاریخی طور پر دعوت کے مرحلہ سے نکل کر عملی مقابلہ کے مرحلہ میں داخل ہو گیا۔ دور دعوت میں آپ کا اصول یہ تھا کہ لوگوں کے معاشی، سیاسی، قبائلی اور اس طرح کے دوسرے نزاعی مسائل کو نہ چھیڑتے ہوئے اور اس سے بے تعلق رہ کر خالص ’’انذار و تبشیر‘‘کے کام میں مشغول رہیں۔ بنی عامر بن صعصعہ کو آپ نے سوق عکاظ میں اسلام کی دعوت دی تو انہیں یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ میں صرف پُر امن طور پر اپنا دینی پیغام پہنچاؤں گا۔ اس کے علاوہ تمہارے درمیان کوئی سیاسی، اقتصادی یا قبائلی جھگڑا نہیں کھڑا کروں گا۔
آپ نے ان سے فرمایا:إِنِّي رَسُولُ اللهِ فَإِنْ أَتَيْتُكُمْ تَمْنَعُونِي حَتَّى أُبَلِّغَ رِسَالَةَ رَبِّي وَلَمْ أُكْرِهْ أَحَدًا مِنْكُمْ عَلَى شَيْءٍ (ابو نعیم، دلائل النبوۃ، حدیث نمبر 215)۔يعني، میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں تمہارے یہاں آؤں تو کیا تم میری حفاظت کرو گے تاکہ میں اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچادوں اور میں تم میں سے کسی کو کسی چیز پر مجبور نہیں کروں گا۔
بعثت کے اصل مقصد کی حیثیت سے یہ کام اب بھی بد ستور جاری تھا۔ مگر اب اسلام کو ایک اور چیز سے نمٹنا تھا۔ اور وہ ماحول کے پیدا کردہ عملی مسائل تھے۔ اس سلسلے میں آپ نے اپنے سامنے بنیادی اصول یہ رکھا کہ ایسے طریقے اختیار کیے جائیں جن سے لوگوں کے دل اسلام کے لیے نرم ہو جائیں، اور لڑائی بھڑائی کے بغیر اسلامی مقاصد تک پہنچنا ممکن ہو سکے۔ یہی وہ بات ہے جس کو آپ نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:
نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 335)۔یعنی،ایک مہینہ تک کی مسافت کے رعب سے میری مدد کی گئی ہے۔
اس طریق عمل کے دو خاص پہلو تھے۔ ایک قوت مرہبہ کا حصول (الانفال،8:60)، دوسرا تالیف قلب (التوبہ، 9:60)۔
تالیف قلب کے تحت آپ نے لوگوں کو اس کثرت سے اموال دیے کہ دادودہش کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ صفوان بن امیہ مکہ کے بڑے سردارتھے۔فتح مکہ کے بعد وہ بھاگ کر ایک گھاٹی میںچھپ گئے۔ آپ نے انہیں امان دے کر بلایا۔ ہوازن کی فتح کے بعد جب آپ جعرانہ کےمقام پر مال غنیمت کی دیکھ بھال کر رہے تھے، اس وقت صفوان بن امیہ آپ کے ساتھ تھے اور ابھی حالت کفر میں تھے۔ صفوان بن امیہ ایک گھاٹی پر پہنچے جو بکریوں اور اونٹوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ حیرت و استعجاب کے ساتھ مسلسل اس کو دیکھتے رہے۔ آپ نے ان کا یہ حال دیکھ کر پوچھا ’’اے ابو وہب ! کیا یہ مال سے بھری ہوئی گھاٹی تم کو پسند ہے، صفوان نے کہا ہاں۔ آپ نےفرمایاهُوَ لَك وَمَا فِيهِ(وہ اور اس میں جو کچھ ہے، سب تمہارا ہے)۔ صفوان نے یہ سن کر کہا،نبی کے سوا کسی کا نفس اتنی بڑی سخاوت نہیں کرسکتا (مَا طَابَتْ نَفْسُ أَحَدٍ بِمِثْلِ هَذَا إِلَّا نَفْسَ نَبِيٍّ)۔ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور اسی وقت اسلام قبول کر لیا (وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ) مغازی الواقدی، جلد2، صفحہ855۔
آپ کا متعدد شا دیاں کرنا بھی ایک اعتبار سے اسی ذیل کاایک واقعہ ہے۔ قبائلی نظام میں رشتہ داری اولین اہمیت کی چیز سمجھی جاتی تھی۔ ہجرت کے بعد آپ کا کئی شادیاں کرنے کا اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے ذریعہ بے شمار لوگوں سے رشتہ داریاں قائم ہو گئیں اور ان کے قلوب آپ کے اورآپ کی دعوت کے حق میں نرم پڑگئے۔ پہلی شادی کے علاوہ، جو آپ نے تقریباً دگنی عمر کی بیوہ سے نبوت سے پہلے کی تھی۔ دوسری شادیاں حقیقتہً ازدواجی تقاضے کے تحت وقوع میں نہیں آئیں، بلکہ ان کے ذریعہ اہم دعوتی اور سیاسی فائدے حاصل کرنا مقصود تھا۔
معاہدہ حدیبیہ کی رو سے اگلے سال (628ء) آپ دوہزار مسلمانوں کے ساتھ کعبہ کی زیارت کے لیے مکہ گئے۔ اس موقع پر تین روزہ قیام کے دوران آپ نے میمونہ بنت الحارث سے نکاح کیا جو بیوہ ہو گئی تھیں۔ میمونہ کی آٹھ بہنیں تھیں جن کی شادی مکہ کے آٹھ ممتاز گھر انوں میں ہوئی تھی۔ آپ نے میمونہ سے نکاح کر کے آٹھ خاندانوں سے اپنی رشتہ دری قائم کرلی۔ نیز خالد بن ولید میمونہ کے بھانجے تھے اور انہوں نے ان کو اپنے بچے کی طرح پالا تھا۔ نکاح کے بعد قریش کا سب سے بڑا فوجی سردار آپ کا بیٹا ہوگیا۔ چنانچہ اس کے بعد پھر خالد بن ولید مسلمانوں کے خلاف کسی معرکہ میں نہیں نکلے اور جلدہی مسلمان ہو گئے۔ اس تقریب سے آپ نے مکہ والوں کی دعوت ولیمہ کا بھی انتظام کیا تھا۔مگر مکہ والوں نے کہا کہ معاہدہ کے مطابق آپ صرف تین روز مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں اور یہ مدت پوری ہو چکی ہے، آپ کو فوراً واپس جانا چاہیے۔ اس لیے آپ مکہ والوں کوولیمہ نہ کھلا سکے جو درحقیقت ان کی تالیف قلب کے لیے انتہائی اہمیت رکھتاتھا۔ خالد بن الولید اور عمر و بن العاص دونوں ایک ساتھ مسلمان ہوئےتھے۔ جب وہ مدینہ پہنچے تو ان کو دیکھ کر ایک شخص چیخ پڑا:ان دو کے بعد مکہ نے اپنی نکیل دے دی (قَدْ أَعْطَتْ مَكّةُ الْمَقَادَةَ بَعْدَ هَذَيْنِ)مغازی الواقدی، جلد2، صفحہ744۔
ام حبیبہ بنت ابو سفیان اور ان کے شوہر عبید اللہ بن جحش نے اسلام قبول کر لیا تھا اور دونوں ہجرت کر کے حبش چلے گئے۔ وہاں ان کے شوہر نے نصر انیت اختیار کر لی، اس کے بعد جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے ام حبیبہ سے نکاح کا منصوبہ بنایا۔ اس طرح آپ ابوسفیان کے داماد ہو جاتے تھے جو بد ر میں ابو جہل کے قتل ہو جانے کے بعد مکہ کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ اس کے لیے آپ نے غائبانہ نکاح کا انتظام کیا۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ اگراُم حبیبہ حبش سے مکہ واپس آگئیں تو ان کا باپ آ پ سے نکاح نہ ہونے دے گا۔ ام حبیبہ سے آپ کا نکاح غائبانہ طور پر نجاشی (بادشاہ حبش) نے پڑھایا۔ اس کے بعد وہ سیدھے مدینہ بھیج دی گئیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد ابو سفیان کی مخالفت کمزور پڑگئی۔ یہاں تک کہ فتح مکہ سے ایک دن پہلےانہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
اس حکمت کا دوسرا پہلووہ ہے جس کو قرآن کے الفاظ میں ’’ارہاب ‘‘ کی پالیسی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی طاقت کے استعمال کے بجائے طاقت کے مظاہرہ کے ذریعہ اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ احد (3 ھ)کی شکست مسلمانوں کے لیے مکمل شکست بن سکتی تھی اگر ابو سفیان اپنی فوج کو لے کر واپس نہ ہوجاتا اور اگلے روز دوبارہ حملہ کرتا۔ چنانچہ روحا کے مقام پر پہنچ کر ابو سفیان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اور وہ اپنی فوج کو دوبارہ مدینہ کی طرف واپس لوٹا نے کا ارادہ کرنے لگا۔ مگر اس سخت ترین انتشار کی حالت میں بھی پیغمبر اسلام کا جنگی اطلاعات کا نظام اتنا مکمل تھا کہ آپ کو فوراً ابو سفیان کے ارادہ کی خبر ہوگئی۔ آپ نے اقدام کا فیصلہ کیا۔ آپ نے اپنی زخمی فوج کو منظم کر کے فوراً مکہ کی طرف کو چ کردیا اور حمراء الا سدتک پہنچ گئے جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔ آپ کا یہ سفر پورے اعلان واظہار کے ساتھ تھا جب کہ عام طور پر آپ نہایت خاموشی کے ساتھ کو چ کیا کرتے تھے۔ ابو سفیان کو خبر ہوئی تو اس نے سمجھا کہ آپ کو مزید کمک آگئی ہے۔ وہ واپسی کا ارادہ ترک کرکے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا جب آپ کو اطمینان ہو گیا کہ ابو سفیان کی فوج واپس ہو چکی ہے تو آپ مدینہ لوٹ آئے۔
غزوہ مُوتہ (جمادی الاول 8ھ) کے اگلے سال قیصر روم نے سرحد شام پر فوجی تیاریاں شروع کردیں۔ اس کے ماتحت غسانی اور دوسرے عرب سردار بھی فوج اکٹھا کر نے لگے۔ اس کے جواب میں آپ 30ہزار کا لشکر لے کر نکلے جس کو غزوہ تبوک (رجب 9ھ)کہا جاتاہے۔ تبوک کا غزوہ حقیقتہً ایک جنگی تدبیر تھی جس کا مقصد دشمن کے اقدام سے پہلے اقدام تھا، تاکہ دشمن مرعوب ہو کر اقدام کا حوصلہ کھودے۔ چنانچہ تبوک کے مقام پر پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ قیصر نے مقابلہ کے لیے بڑھنے کے بجائے سرحد سے اپنی فوجیں ہٹانی شروع کردی ہیں تو آپ نے بھی جنگی ٹکراؤ کا ارادہ ترک کردیا۔ البتہ قیصر کے ہٹ جانے سے آپ کو جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی تھی اس سے آپ نے سیاسی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا۔ آپ نے تبوک میں بیس دن ٹھہر کر سرحد کے ان قبائل سے رابطہ قائم کیا، جو اس وقت تک رومیوں کے زیر اثر تھے۔ اس سلسلے میں دو متہ الجندل کے عیسائی رئیس اُکیدربن عبد المِلک کِندی، ایلہ کے عیسائی یو حنابن رویہ، اور اسی طرح مَقنا۔ جرباء اور اذرُح کے نصرانی روسانے بھی جزیہ ادا کرکے مدینہ کی ماتحتی قبول کی۔
ابو بکر صدیق کی خلافت کے بعد جیش اسامہ کی روانگی بھی اسی قسم کا ایک واقعہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبیلہ طے کے سوا مدینہ کے اطراف کے تمام عرب قبائل باغی ہو گئے۔ اپنی تعداد کی کمی اور دشمن کی کثرت کی وجہ سے مسلمانوں کا حال ایسا ہو رہا تھا جیسے ’’جاڑے کی بارش میں بھیگی ہوئی بکری(كَالْغَنَمِ الْمَطِيرَةُ فِي اللَّيْلَةِ الشَّاتِيَةِ)۔‘‘سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ665
اس وقت بظاہر حالات کا تقاضا تھا کہ اندرونی دشمنوں کو زیر کرنے کےلیے اپنی طاقت کو محفوظ رکھا جائے۔مگر پیغمبر کے فیصلہ پر قائم رہتے ہوئے خلیفہ اول نے طے کیاکہ اسامہ کے لشکر کوجو سات سو افراد پر مشتمل تھارومیوں کے مقابلہ کے لیے شام روانہ کردیں۔ اس اقدام کا جو اثر پڑا وہ حضرت ابو ہریرہ کے الفاظ میں یہ ہے :
فَجَعَلَ لَا يَمُرُّ بِقَبِيلٍ يُرِيدُونَ الِارْتِدَادَ إِلَّا قَالُوا:لَوْلَا أنَّ لِهَؤُلَاءِ قُوَّةً مَا خَرَجَ مِثْلُ هَؤُلَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ، وَلَكِنْ نَدَعُهُمْ حَتَّى يَلْقَوُا الرُّوم، فَلَقُوا الرُّوم فَهَزَمُوهُمْ وَقَتَلُوهُمْ، وَرَجَعُوا سَالِمِينَ، فَثَبَتُوا عَلَى الْإِسْلَامِ (الاعتقاد للبیہقی، صفحہ406)۔ اسامہ کا لشکر جب ان قبیلوں پر سے گزرتا جو مرتد ہونا چاہ رہے تھے، وہ کہتے کہ اگر مسلمانوں کے پاس قوت نہ ہوتی تو اس قسم کی فوج ان کے پاس سے روانہ نہ ہوتی۔ ہم ابھی انہیں چھوڑدیں اور روم سے لڑنے دیں ، چنانچہ وہ رومیوں سے لڑے اور انہیں شکست دی اور انہیں قتل کیا اور سلامتی کے ساتھ واپس آئے۔ یہ دیکھ کر ارتداد کا ارادہ کرنے والے بھی اسلام پر جم گئے۔
آپ مدینہ پہنچے تو وہاں مشرکین کی ایک مختصر اقلیت کو چھوڑ کر دوبڑے گروہ آباد تھے۔ یہود اور مسلمان۔ پھریہ بھی مختلف ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے تھے جن کے درمیان کوئی اتفاق نہ تھا۔ لوگ نفسیاتی طور پر ایک ایسے شخص کے منتظر تھے جو ان کے درمیان اتحاد اور نظم پیدا کردے۔ آپ نے اس صورت حال کا اندازہ کر کے اپنی طرف سے ایک صحیفہ (نہ کہ معاہدہ) جاری کردیا جس میں یہود اور مسلمانوں کو مستقل حیثیت سے تسلیم کیا گیا تھا (إنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُونِ النَّاسِ... وَإِنَّ يَهُودَ ...أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ، لِلْيَهُودِ دِينُهُمْ، وَلِلْمُسْلِمِيْنِ دِينُهُمْ)اس صحیفہ میں دونوں کے مروجہ حقوق اور ذمہ داریوں کو چھیڑے بغیر انہیں ایک قابل قبول شکل میں تسلیم کر لیا گیا۔ اور اس کے بعد ایک دفعہ ان لفظوں میں شامل کر دی گئی :
وَإِنَّكُمْ مَهْمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ، فَإِنَّ مَرَدَّهُ إلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِلَى مُحَمَّد (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 501-3)يعني، اور جب بھی تم میں کسی معاملہ میں کوئی اختلاف ہو تووہ معاملہ خد ا اور رسول کی طرف لوٹے گا۔
اس طرح یہ صحیفہ گو یا ایک قسم کا سیاسی اقدام تھا جس کے ذریعہ آپ نے انتہائی حکیمانہ طور پر مدینہ کے اوپر اسلام کی دستوری حکومت کا اعلان کر دیا۔
آپ کے مدینہ پہنچنے کے بعد قریش کا غصہ کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا۔ کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ سارے مسلمانوں نے سمٹ کر ایک مقام پر اپنا مضبوط مرکز بنا لیاہے۔ ہجرت کے دوسرے ہی سال آپ کے سامنے یہ نازک صورت حال آئی کہ یا تو آگے بڑھ کر قریش کے لشکر کا مقابلہ کریں یا اس کو موقع دیں کہ وہ مدینہ میں گھس آئے اور اسلام کے بنتے ہوئے آشیانہ کو منتشر کردے۔ اگر چہ قریش کے لشکر کی تعداد ساڑھے نو سو اور مسلمانوں میں قابلِ جنگ افراد کی تعداد صر ف تین سو تیرہ تھی۔ مگر آپ نے اپنے پیغمبر انہ تدبر سے یہ سمجھا کہ اہل شرک اپنی کثرت کے باوجود صرف نفرت اور حسد کا منفی سرمایہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، مسلمانوں کے پاس ایمان و یقین کا مثبت خزانہ ہے جو اول الذکر سے بدر جہا زیادہ طاقت ور ہے۔ اس کے علاوہ عرب اپنے جاہلی پرائڈ (pride) کے تحت اکیلے اکیلے لڑتے تھے تاکہ ہر شخص اپنا منفرد کمال دکھائے اور بہادر مشہور ہو۔ مسلمان اللہ پر ایمان لاکر اپنے اندر یہ کم زوری ختم کر چکے تھے۔ آپ نے انہیں عرب تاریخ میں پہلی بار مورچہ بندی کی تلقین کی۔ آپ نے انہیں سکھایا کہ ذاتی کمال دکھانے کا شوق نہ کرو، بلکہ دستہ بنا کر لڑو۔ قریش کی انفرادی طاقت کو اپنی اجتماعی طاقت سے شکست دو (الصف، 61:4)—ایمان اورمورچہ بندی کی طاقت سے وہ عظیم الشان واقعہ وجود میں آیا، جس کو اسلام کی تاریخ میں بدر کی فتح کہتے ہیں۔
فتح اسلام
بدر کی شکست نے دوبارہ قریش کو بھڑکا یا اور مختصر سی مدت میں ان سے کئی معر کے پیش آئے، جن میں احد (3ھ) اور احزاب (5ھ)خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان غزوات میں مسلمانوں کو شدید ترین مصائب پیش آئے۔ غزوہ خندق میں 800آدمی تھے۔ مگر سردی اور بھوک اورتکان کا عالم یہ تھا کہ جب آپ نے دشمن کی جاسوسی کے لیے ایک شخص کو بھیجنا چاہاتو تین بار آواز دینے کے بعد بھی کوئی نہ اٹھا، یہاں تک کہ آپ حضرت حذیفہ کے پاس آئے اور نام لے کر ان کو بلایا اور ان کو اس کام پر متعین کیا۔
دوسری طرف مدینہ کے یہود ایک مستقل اندرونی مسئلہ بنے ہوئے تھے۔ قریش سے مل کر دونوں کے درمیان اسلام کے خلاف سازشیں جاری رہتی تھیں۔ خندق کے 20روزہ محاصرہ کے بعدجب ایک شدید آندھی سے مجبور ہو کر قریش کی فوج مکہ واپس ہوئی تو آپ نے اس موقع کو مدینہ کے اندرونی یہودیوں سے نمٹنے کے لیے موزوں ترین سمجھا جس میں ان یہودیوں کی سازش او ر بغاوت برہنہ ہوکر سامنے آچکی تھی۔ آپ نے مدینہ کے ایک یہودی قبیلہ بنو قریظہ کو خندق سے لوٹتے ہی فورا ً گھیر لیا اور ان پر خود ان کی کتاب تورات کے قانون کو جاری کر کے ان کے مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
اب مسئلہ خیبر کا تھا۔ ہجرت کے چھٹے سال یہ صورت حال تھی کہ درمیان میںمدینہ کا دارالاسلام تھا اور جنوب میں چار سو کلومیٹر کے فاصلہ پر مکہ کے قریش تھے اور شمال میں دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر خیبر کے یہودی۔ قریش اور یہودی، اسلام دشمنی میں متفق الرائے ہونے کے باوجود، اکیلے اکیلے اتنے طاقت ورنہ تھے کہ تنہا اسلام کو ختم کرنے کا حوصلہ کر سکیں۔ اسی لیے ان کے درمیان مشترکہ جنگی اقدام کی سازشیں چل رہی تھیں۔ دوسری طرف مسلمان بھی اس پوزیشن میں نہ تھے کہ بیک وقت اپنے دونوں دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں ۔
ان حالات میں آ پ نے ربانی تد بر کے تحت ذی قعدہ 6ھ میں اپنے ڈیڑھ ہزار اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف کو چ کر دیا، اور اعلان فرمایا کہ ہم کسی کے خلاف جنگ کے لیے نہیں جارہے ہیں ،بلکہ عمرہ کرنے کے لیے جارہے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کا قافلہ بھی آپ نے اپنے ساتھ لے لیا۔ حتٰی کہ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق اونٹوں کو قربانی کا نشان (قلادہ) بھی پہنا نے کا حکم دیا تاکہ مکہ والوں کو بخوبی معلوم ہو جائے کہ آپ زیارت کعبہ اور قربانی ہی کے لیے آئے ہیں ۔ اس سفر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ قریش پر اس بات کا مظاہرہ ہو کہ آپ کا مقصد کعبہ کی مذہبی یا تجارتی حیثیت کو ختم کر نا نہیں ہے۔
مکہ سے تقریباً گیارہ کیلو میٹر کے قریب حدیبیہ کے مقام تک پہنچے تھے کہ حسب توقع قریش نے آگے بڑھ کر روکا۔ آپ نے جھگڑے سے بچتے ہوئے وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور قریش کو پیغام بھیجا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان صلح کا معاہدہ ہو جائے :
إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِينَ، وَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ نَهِكَتْهُمُ الحَرْبُ، وَأَضَرَّتْ بِهِمْ، فَإِنْ شَاءُوا مَادَدْتُهُمْ مُدَّةً، وَيُخَلُّوا بَيْنِي وَبَيْنَ النَّاسِ، فَإِنْ أَظْهَرْ:فَإِنْ شَاءُوا أَنْ يَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيهِ النَّاسُ فَعَلُوا، وَإِلَّا فَقَدْ جَمُّوا، وَإِنْ هُمْ أَبَوْا، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأُقَاتِلَنَّهُمْ عَلَى أَمْرِي هَذَا حَتَّى تَنْفَرِدَ سَالِفَتِي، وَلَيُنْفِذَنَّ اللهُ أَمْرَهُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731)۔ يعني، ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں، بلکہ صرف عمرہ کے لیے آئے ہیں۔ جنگ نے قریش کا برا حال کردیا ہے اور ان کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو میں ان کے لیے ایک مدت (جنگ نہ کرنے کی) مقرر کردوں اور وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ اگر میں غالب رہوں تو وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہو جائیں گے جس میں لوگ داخل ہوئے، اور مجھے غلبہ نہ ہوا تو ان کا مدعا حاصل ہے ۔اور اگر قریش نے اس سے انکار کیا تو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میںمیری جان ہے، میں اس معاملہ میں ان سے لڑوں گاخواہ میری گردن الگ ہو جائے اور اللہ کا امر پورا ہوکر رہے گا۔
یہ پیغام درحقیقت خود قریش کے اندر موجود ایک فکر سے فائدہ اٹھانا تھا۔ مکہ کے ابتدائی دور میں جب عتبہ بن ربیعہ قریش کے ایک نمائندہ کی حیثیت سے آپ سے ملا اور آپ سے گفتگو کے بعد قریش کی طرف لوٹا تو ایک روایت کے مطابق اس نے جو باتیں قریش سے کہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی:
وَاتْرُكُوا الرَّجُلَ وَاعْتَزِلُوهُ فَوَاللهِ مَا هُوَ بِتَارِكٍ مَا هُوَ عَلَيْهِ وَخَلُّوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَائِرِ الْعَرَبِ فَإِنْ يَظْهَرْ عَلَيْهِمْ يَكُنْ شَرَفُهُ شَرَفَكُمْ وَعِزُّهُ عِزَّكُمْ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْهِ تَكُونُوا قَدْ كُفِيتُمُوهُ بِغَيْرِكُمْ (دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی، حدیث نمبر 185)۔يعني، اس آدمی کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ خدا کی قسم وہ اپنی بات سے باز آنے والا نہیں۔ تم ان کے اور تمام عرب کے درمیان سے ہٹ جاؤ۔ اگر وہ عرب پر غالب آگئے تو ان کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور اگر وہ مغلوب ہوگئے تو تم دوسروں کےہاتھوں ان سے نجات پالوگے۔
یہ فکر جو خود قریش کے اندر دبا ہوا موجود تھا۔ اسی کو آپ نے استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود دشمن کے اندر آپ کو اپنے نقطہ نظر کے حامی مل گئے۔
ایک طرف آپ نے یہ پیغام کہلایا۔ دوسری طرف قریش کو مختلف طریقوں سے متاثر کرنے کا عمل بھی شروع ہوگیا۔ بنی کنانہ کا ایک شخص، حُلَيس بن علقمة الكناني مکہ سے روانہ ہوکر حدیبیہ پہنچاتا کہ یہ معلوم کرے کہ مسلمان کس لیے آئے ہیں لوگوں نے آپ کو اطلاع دی تو آپ نے فرمایاکہ اس شخص کے قبیلہ میں قربانی کے اونٹوں کی تعظیم کی جاتی ہے تم لوگ اپنے قربانی کے اونٹوں کو لے کر اس کا استقبال کرو (هَذَا مِنْ قَوْمٍ يَتَأَلَّهُونَ، فَابْعَثُوا الْهَدْيَ فِي وَجْهِهِ)۔ مسلمانوں نے اونٹوں کا قافلہ بنایا اور لبیك اللّہم لبیك پڑھتے ہوئے اس کے سامنے سے گزرے۔ یہ شخص مکہ واپس ہو اتو بہت متاثر تھا۔ اس نے قریش سے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ مسلمان صرف زیارت کعبہ کی غرض سے آرہے ہیں انہیں روکا نہ جائے (مسند احمد، حدیث نمبر18910)۔
اسی طرح ڈیڑھ ہزار مسلمانوں کے ایمان و اسلام کا مظاہرہ بھی انہیں شدید طور پر متاثر کرتاتھا۔ قریش کا ایک سفیر جب حدیبیہ پہنچا تو مسلمان صف بندی کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز کے نظم وضبط کا منظر دیکھ کر وہ اتنا مرعوب ہوا کہ واپس ہوکر قریش سے کہا کہ مسلمانوں کا اتحاد اتنا زبردست ہےکہ ساری کی ساری قوم محمد کے ایک اشارے پر حرکت کرتی ہے— ایک سفیر نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام جب وضو کرتے ہیں تو مسلمان دوڑتے ہیں کہ ان کے غسالہ کو زمین پر گرنے سے پہلے اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ جب وہ بولتے ہیں تو سب کی آوازیں پست ہو جاتی ہیں۔ وہ ادب و تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف دیکھتے تک نہیں۔ سفیر نے واپس ہوکر قریش سے مسلمانوں کی اس وفاداری اور محبت کا ذکر کیا تو وہ سخت مرعوب ہوئے۔ بُدَیل بن وَرقا الخزاعی کے ذریعہ جب مذکورہ پیغام قریش کو پہنچا تو ان کے ایک شخص (عروہ بن مسعود) نے تقریر کی :
فَقَامَ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ، فَقَالَ:أي قوم أَلَسْتُ بِالْوَالِد؟، قَالُوا:بَلَى، قَالَ:أَلَسْتُمْ بِالْوَلَدِ، قَالُوا:بَلَى قَالَ:فَهَلْ تَتَّهِمُونِي، قَالُوا:لَا، قَالَ:فَإِنَّ هَذَا قَدْ عَرَضَ عَلَيْكُمْ، خُطَّةَ رُشْدٍ، فَاقْبَلُوهَا، وَدَعُونِي آتِيَه(البدایہ والنہایہ، جلد4، صفحہ 174)۔يعني، اےمیری قوم ! کیا تم میں سے کچھ لوگ میرے والد کے برابر نہیں ۔ لوگوں نے کہا کیوں نہیں، عروہ نے کہا، کیا تم میں سے کچھ میری اولاد کے برابر نہیں۔ لوگوں نے کہا کیوں نہیں ۔ عروہ نے کہا کیا تمہیں میرے اوپر کوئی شک ہے۔ لوگوں نے کہا نہیں۔ عروہ نے کہا اس آدمی نے تمہارے سامنے ایک بہترین تجویز پیش کی ہے، تم اس کو مان لو اور مجھے جانے دو کہ میں ان سے بات کروں۔
آپ نے اعلان کردیا کہ قریش جس چیز کا بھی مطالبہ کریں گے، میں اس کو مان لوں گا (وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا) تاہم نا جنگ معاہدہ لکھا جانے لگا تو انہوں نے طرح طرح سے حمیت جاہلیت کا مظاہرہ کیا۔ معاہدہ کے مسودہ سے ’’محمد رسول اللہ ‘‘ کو مٹاکر محمد بن عبد اللہ لکھوایا۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے بجائے بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ لکھنے پر اصرار کیا۔ یہ دفعہ بڑھائی کہ قریش کا کوئی آدمی مسلمانوں کے ہاتھ لگے تو وہ اس کو واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس کے برعکس، کوئی مسلمان قریش کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کو واپس نہیں کریں گے۔ اس کی اجازت نہ دی کہ مسلمان اس سال مکہ جاکر عمرہ کریں۔ سارے صحابہ کے لیے یہ شرطیں انتہائی گراں ہورہی تھیں۔ حتٰی کہ ایک موقع پر جب عروہ بن مسعود نے کہا اے محمد ! یہ جو ادھر اُدھر کے لوگ آپ نے اپنے گرد جمع کر رکھے ہیں، یہ سب آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے (إِنِّي لَأَرَى أَوْشَابًا مِنَ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يَفِرُّوا وَيَدَعُوكَ)۔اس کو سن کر ابوبکر جیسا سنجیدہ آدمی بھی غصہ میں آگیا۔ ان کی زبان سے نکلا:
امْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ؟ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731)۔ یعنی، تو لات کی شرم گاہ چوس، کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
مگر خدا کا رسول ہر قسم کی اشتعال انگیز باتوں کو برداشت کرتارہا اور قریش کے ہر مطالبہ کو مان کر ان سے دس سال کے لیے ناجنگ معاہدہ کر لیا۔ اب قریش پا بند ہو گئے کہ وہ دس برس تک با لواسطہ یا براہ راست کسی ایسی جنگ میں حصہ نہ لیں جو مسلمانوں کے خلاف ہو۔
یہ معاہدہ جو مسلمانوں پر اتنا سخت تھا کہ اس کی تکمیل کے بعد جب آپ نے لوگوں سے قربانی کرنے کو کہا تو تین بار اعلان کرنے کے باوجود کوئی ایک شخص قربانی کے لیے نہ اٹھا۔ اس کے بعد اٹھے بھی تو غم کا یہ حال تھا کہ قربانی کے بعد سر مونڈ نے لگے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو کاٹ ڈالیں گے (وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَحْلِقُ بَعْضًا حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا)صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731۔مگر دب کر کیے جانے والے اس معاہدہ کے اتنے عظیم الشان فائدے ہوئے جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کے دو طاقت ور حریف تھے، ایک خیبر کے یہودی، دوسرے مکہ کے قریش۔ مسلمان ابھی اتنے طاقت ورنہ ہوئے تھے کہ بیک وقت دونوں سے نمٹ سکیں۔ ایک پر حملہ کرنا گویا دوسرے کو موقع دینا تھا کہ وہ پیچھے سے آکر مدینہ میں گھس جائے اور مسلمانوں کے مرکز کو برباد کردے۔ آپ نے یہ کیا کہ قریش مکہ کے سارے مطالبات منظور کر کے ان کو دس سال تک کے ’’نا جنگ معاہدہ‘‘ پر راضی کر لیا۔ اور اس طرح انہیں ’’بطن مکہ‘‘ میں روک دیا (الفتح، 48:24)۔اس کے بعد مدینہ واپس آکر پہلی فرصت میں خیبر پر حملہ کر کے یہود ی مسئلہ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ پہلا واقعہ ذی قعدہ 6ھ میں ہوا اور دوسرا محرم 7ھ میں ۔
خیبر میں یہودیوں کے آٹھ پتھر کے قلعے تھےجن میں 20ہزار جنگجو ایسے ہتھیاروں کے ساتھ موجود تھے جن سے اسلامی فوج بالکل خالی تھی۔ ان قلعوں کے استحکام کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا جس کو 1700ء میں فرانس کے فوجی انجینئر مارشل وابان 1633-1707))نے اختیار کرکے شہرت پائی۔ اس مضبوط اور مسطح شہر کو کس طرح فتح کیا گیا، یہ بذات خود ایک طویل داستان ہے۔ اس موقع پر جو حیرت انگیز جنگی حکمت عملی اختیار کی گئی، اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے کہ قلعوں کا پھاٹک توڑنے کے لیے یہ کیا گیا کہ بھاری درخت کاتنہ لے کر پچاس آدمی دوڑتے تھے اور اس کو تیزی سے قلعہ کے پھاٹک پر مارتے تھے، چند بار ایسا کرنے سے قلعہ کا دروازہ ٹوٹ جاتاتھا اور اس کے بعد تیروں اور منجنیقوں کے طوفان میں مسلمان قلعہ کے اندر گھس جاتے۔ اس طرح چار قلعے مسخر ہوئے تھے کہ بقیہ نے مرعوب ہوکر خود سے اپنے دروازے کھول دیے اور اپنے کو اسلامی فوج کے سپرد کر دیا۔
خیبر کی تسخیر کے بعد اب قریش مکہ کا مسئلہ تھا۔ آپ کی فراست ربانی نے بتایا کہ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ دشمن کو موقع دیا جائے کہ وہ کوئی غلطی کرے تاکہ آپ کے لیے مداخلت جائز ہو جائے۔ آپ جانتے تھے کہ قریش کو جس چیز نے اسلام کے خلاف برانگیختہ کر رکھا ہے، وہ بغض، حسد، اقتدار پرستی اور گھمنڈ کے سوا کچھ نہیں ہے اور جو لوگ اس قسم کی نفسیات کے تحت کسی چیز کی مخالفت کریں وہ اپنے آپ کو غیر منطقی اور غیر اخلاقی کا ر روائیوں سے باز نہیں رکھ سکتے۔ اندازہ نہایت صحیح نکلا۔ قبیلہ خزاعہ اور قبیلہ بنی بکر کی جنگ (شعبان 8ھ)میں قریش نے درپر دہ اپنے حلیف قبیلہ (بنوبکر) کی حمایت میں مسلمانوں کے حلیف قبیلہ (بنو خزاعہ) کے خلاف چڑھائی کرکے یہی غلطی کی۔ یہ معاہدۂ صلح کی صریح خلاف ورزی تھی۔ یہ صلح حدیبیہ کے دو برس بعد کا واقعہ ہے۔ اس صلح کے نتیجہ میں اس مدت میں اسلام اتنا بڑھ چکا تھا کہ صلح حدیبیہ کے وقت اگر آپ کے ساتھ ڈیڑھ ہزار مرد تھے تو اب ان کی تعداد دس ہزار ہو چکی تھی۔ آپ نے خاموشی کے ساتھ مکہ کی طرف مارچ کر دیا۔ یہ سب کچھ اتنی حکمت اور تدبر کے ساتھ ہواکہ تقریباً خون بہائے بغیر مکہ فتح ہوگیا:
وَعَدَكُمُ اللهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ (48:20)۔ يعني، اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جن کو تم لوگے، پس یہ اس نے تم کوفوری طور پر دے دیا۔ اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے ۔
معاہدہ کے وقت صورت حال یہ تھی کہ تقریباً 20برس کی مسلسل تبلیغی جدو جہد کے ذریعہ اسلام کی آواز سارے عرب میں پھیل چکی تھی۔ ہر قبیلہ میں بے شمار ایسے لوگ وجود میں آچکے تھے جن کے دلوں میں اسلام کی صداقت نے اپنی جگہ بنائی تھی۔ مگر اس وقت کے عرب میں قریش کو قیادت کا مقام حاصل تھا۔ لوگ قریش کے ڈر سے اپنے اسلام کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام کا اعلان کرنا قریش سے جنگ چھیڑنے کے ہم معنی ہے۔ معاہدۂ حدیبیہ کے بعد جب لوگوں کو معلوم ہو ا کہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان دس سال کا نا جنگ معاہدہ ہوگیا ہے تو یہ خطرہ دور ہو گیا اور لوگ اس طرح اسلام قبول کرنے لگے جیسے ٹریفک پوسٹ پر بند سڑک کھلنے کے بعد اچانک سواریاں ٹوٹ پڑتی ہیں۔
قال الفقیہ ابن شھاب الزھری وغیرہ ان اللہ فتح علی المسلمین بصلح الحدیبیۃ اکثر مما فتح اللہ علیھم بہ من اي غزو آخر بد لیل ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجع الی مکۃ عام الفتح بعشرۃ آلاف ولم تکن عدتۃ من قبل لتزید علی ثلاثۃآلاف یحال، و عللہ بانہ لماھادن قریشا لم یجدالعرب حرجا ان ید خلوالا سلام فان ذلک لایغیظ قریشا ولا یعتبر تحدیا لھا( محمد صلی اللہ علیہ وسلم و بنو اسرائیل للدکتور مصطفی کمال وصفی،1967، مصر، صفحہ 101-102)۔ يعني، ابن شہاب زہری اور دوسروں نے کہا ہے کہ اللہ نے صلح حدیبیہ کے ذریعہ مسلمانوں کو جو فتوحات دیں وہ کسی بھی دوسرے غزوہ سے زیادہ تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال مکہ میں دس ہزار افراد کے ساتھ داخل ہوئے جب کہ اس سے پہلے ان کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب قریش نے جنگ جوئی بند کردی تو عربوں کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ کیونکہ اب قریش کے غصہ اور مقابلہ کا خطرہ نہیں تھا۔
بخاری نے حضرت براء سے روایت کیاہے، انہوں نے بعد کے لوگوں سے کہا، تم لوگ فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو۔ مگر ہم لوگ صلح حدیبیہ کو فتح کہا کرتےتھے (تَعُدُّونَ أَنْتُمُ الفَتْحَ فَتْحَ مَكَّةَ، وَقَدْ كَانَ فَتْحُ مَكَّةَ فَتْحًا، وَنَحْنُ نَعُدُّ الفَتْحَ بَيْعَةَ الرِّضْوَانِ يَوْمَ الحُدَيْبِيَةِ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 4150۔
اس معاہدہ کے ذریعے مدینہ کا اقتصادی محاصرہ ختم ہو گیا اور مدینہ کے تجارتی قافلے آزادی کے ساتھ مکہ سے گزر نے لگے۔ ابو بصیر، ابوجندل وغیرہ جن کو معاہدہ کے مطابق قریش کی طرف واپس آنا ضروری تھا، وہ بھاگ کر ذوالمروہ پہنچے۔ وہاں اس قسم کے اور مسلمان جمع ہونے لگے حتٰی کہ وہ ایک نیا مرکز بن گیااور اس نے قریش کے تجارتی قافلوں کو اتنا پریشان کیا کہ انہوں نے ازخود معاہدہ کی یہ دفعہ ختم کردی۔ انسان کی سب سے بڑی کمزوری عجلت اور ظاہر پرستی ہے۔ اگر آدمی ظواہر سےبلند ہو جائے تو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ایسے امکانات رکھے ہیں جو آدمی کو کامیابی تک پہنچانے کی یقینی ضمانت ہیں :
وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ الصّدّيقُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ:مَا كَانَ فَتْحٌ فِي الْإِسْلَامِ أَعْظَمَ مِنْ فَتْحِ الْحُدَيْبِيَةِ، وَلَكِنّ النّاسَ يَوْمئِذٍ قَصَرَ رَأْيُهُمْ عَمّا كَانَ بَيْنَ مُحَمّدٍ وَرَبّهِ، وَالْعِبَادُ يَعْجَلُونَ، وَاَللهُ تَبَارَك وَتَعَالَى لَا يَعْجَلُ كَعَجَلَةِ الْعِبَادِ حَتّى تَبْلُغَ الْأُمُورُ مَا أَرَادَ اللهُ(مغازی الواقدی، جلد2، صفحہ610)۔حضرت ابوبکر فرماتے تھے اسلام میں فتح حدیبیہ سے زیادہ بڑی فتح کوئی نہیں ہوئی، مگر اس دن لوگوں کی نظریں وہاں تک نہ پہنچ سکیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رب کے درمیان تھا۔ بندے جلدی چاہتے ہیں۔ مگر اللہ بندوں کی طرح جلدی نہیں کرتا یہاں تک کہ معاملات وہاں پہنچ جائیں جہاں وہ ان کو پہنچانا چاہتا ہے۔
حقیقت پسندی دنیا میں سب سے زیادہ کمیاب ہے، اگر چہ حقیقت پسندی ہی وہ چیز ہے جو کسی کامیابی تک پہنچنے کا واحد یقينی ذریعہ ہے۔
خیبر سے فارغ ہونے کے بعد ہی آپ نے ایک اور مہم کی تیاری شروع کردی تھی۔ مگرکسی ایک شخص سے بھی آپ نے نہیں بتایا کہ یہ تیاری کس کےخلاف ہے حتٰی کہ حضرت ابوبکر تک کو معلوم نہ تھا کہ آپ کدھر کا قصد کرنے والے ہیں۔ رمضان 8 ھ کے آغاز میں جب اسلامی لشکر نے آپ کے حکم کے مطابق مکہ کا رخ کیا، اس وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ کی منزل کیاہے۔ تاہم پورا سفر اتنی خاموشی سے طے ہوا کہ آپ مرالظہران تک پہنچ گئے اور مکہ والوں کو خبر نہ ہوئی (فَلَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظَّهْرَانِ، وَقَدْ عُمِّيَتْ الْأَخْبَارُ عَنْ قُرَيْشٍ، فَلَمْ يَأْتِهِمْ خَبَرٌ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)۔آپ نے روانگی سے پہلے دعافرمائی:
اللَّهمّ خُذْ الْعُيُونَ وَالْأَخْبَارَ عَنْ قُرَيْشٍ حَتَّى نَبْغَتَهَا فِي بِلَادِهَا(خدایا قریش سے جاسوسوں اور خبروں کو روک لےیہاںتک کہ میں ان کے شہر میں داخل ہو جاؤں )۔
اس مہم کی تیاری کے لیے آپ نے حیرت انگیز انتظامات کیے۔ آپ نے حکم دیا کہ شہر مدینہ کا تعلق باہر سے منقطع کر دیا جائے۔ نہ کوئی شخص باہر سے شہر کے اندر داخل ہو اور نہ کوئی شخص شہر سے باہر جانے پائے۔ حضرت علی کی قیادت میں کچھ لوگ راستوں کی نگرانی کے لیے مقرر کر دیے گئے۔ انہیں لوگوں نے حاطب بن ابی بلتعہ کے قاصد کو پکڑ کر اس سے مشہور خط برآمد کیا تھا (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ397-400)۔ سارا لشکر سامان اور ہتھیار سے لیس تھا۔ مسلمانوں کی ساری تعداد کو ساتھ لیا گیا (فَلَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْهُ مِنْهُمْ أَحَدٌ)سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 400 ۔روانگی کا انتظام آپ نے اس طرح کیا کہ دس ہزار فوج کو مختلف دستوں میں بانٹ دیا۔ ہر دستہ کا ایک سردار تھا جو جھنڈا لے کر آگے چلتا اور اس کے پیچھے چند سو کا دستہ قطار درقطار مارچ کرتا۔ اپنے چچا حضر ت عباس سے آپ نے کہا کہ ابو سفیان کو فوجوں کے مارچ کا منظر دکھا ئیے۔
آپ نے حضرت عباس سے فرمایا:احْبِسْهُ بِمَضِيقِ الْوَادِي عِنْدَ خَطْمِ الْجَبَلِ، حَتَّى تَمُرَّ بِهِ جُنُودُ اللهِ فَيَرَاهَا(سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ403)۔يعني، ابوسفیان کو پہاڑ کے پاس گزر گاہ پرروکے رہیے تاکہ اللہ کا لشکران کے سامنے سے گزر ے اور وہ اس کو دیکھیں ۔
اسلامی لشکر قطار درقطار گزر رہا تھا اور ابو سفیان حیرانی کے ساتھ دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ ابو سفیان کی زبان سے نکلا:مَا لِأَحَدِ بِهَؤُلَاءِ قِبَلٌ وَلَا طَاقَةٌ (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ404)۔ کسی کے پاس ان سے مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے:فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ جُنُودًا قَطُّ، وَلَا جَمَاعَةً(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7263)۔یعنی، میں نے اس جیسا لشکر آج تک نہیں دیکھا، اور نہ ایسی جماعت۔
ایک طرف آپ نے مکہ کے لیڈر (ابوسفیان) کو اس طرح متاثر کیا، دوسری طرف یہ اعلان کر دیا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کو امان ہے (مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ) صحیح مسلم، حدیث نمبر 1780۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو سفیان نے خود ہی مکہ میں اعلان کر دیا کہ اے لوگو، محمد کی اطاعت قبول کرلو۔ آج ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں۔ فتح مکہ کے بعد کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اس مہم کے لیے اتنی زبردست تیاری مکہ میں خوں ریزی کے لیے نہ تھی بلکہ اہل مکہ کو مرعوب کرنے کے لیے تھی تاکہ خون بہائے بغیر مکہ پر اسلام کا قبضہ ہو جائے۔ لشکر اسلام کے سردار سعد بن عبادہ نے مکہ کے قریب پہنچ کر نعرہ لگایا:الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ (آج گھمسان کا دن ہے ) آپ نے فرمایانہیں، آج رحمت کا دن ہے (الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَرْحَمَةِ)اور ان کو سرداری سے معزول کر کے جھنڈا ان کے لڑکے قیس کو دے دیا (تاریخِ دمشق لابن عساکر، جلد23، صفحہ454)۔
فتح مکہ کے بعد بھی اگر چہ کچھ لڑائیاں ہوئیں اور مجموعی طورپر آپ کے غزوات (چھوٹے بڑے) کی تعداد80 تک پہنچتی ہے۔ تاہم مکہ کا فتح ہونا ملک کے دارالسلطنت کا قبضہ میں آنا تھا۔ چنانچہ معمولی جھڑپوں کے بعد سارے عرب نے آپ کے اقتدار کو تسلیم کر لیا۔
فتح کے بعد
دشمن کے اوپر فتح آدمی کے اندر بیک وقت دو جذبات پید اکرتی ہے— غرور اور انتقام۔ مگر آپ کی فتح پیغمبر کی فتح تھی۔ آپ اس قسم کے جذبات سے بالکل خالی تھے۔ ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ فتح مکہ کے وقت جب آپ مکہ میں داخل ہو ئے تو تواضع سے آپ کی گردن جھکی ہوئی تھی، حتٰی کہ لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی داڑھی کجاوہ کی لکڑی کو چھورہی ہے۔ باب کعبہ پر کھڑے ہوکر آپ نے جو خطبہ دیا، اس میں یہ الفاظ فرمائے:
لَا إلَهَ إلَّااللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيك لَهُ، صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ412)۔يعني، ایک اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور دشمن کی جماعتوں کو اس نے تنہا شکست دی۔ گویا آپ نے فتح کے اس واقعہ کو تمام کا تمام خدا کے خانہ میں ڈال دیا۔
اسی خطبہ میں آگے چل کر یہ الفاظ روایت کیے گئے ہیں:
ثُمَّ قَالَ:يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، مَا تُرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ فِيكُمْ؟ قَالُوا:خَيْرًا، أَخٌ كَرِيمٌ، وَابْنُ أَخٍ كَرِيمٍ۔ قَالَ فَاِنِّیأَقُولُ كَمَا قَالَ يُوسُفُلاِخْوَتِہلَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ(زاد المعاد، ابن قیم)يعني، آپ نے فرمایا اے گروہ قریش، میری نسبت تمہارا کیاخیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ بھلائی۔ آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کےبیٹے ہیں۔ آپ نے فرمایا میںتم سے وہی کہتاہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھاکہ آج تمہارے اوپر کوئی ملامت نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔
اس طرح آپ نے پہلے ہی مرحلہ میں اس چیز کو ختم کر دیا جو فاتح اور مفتوح کے درمیان انتقام اور رد عمل کی صورت میں لا محدود مدت تک جاری رہتی ہے۔فاتح قومیں، اس طرح کی فتح کے بعد، عام طور پر تخریب کے عمل میں لگ جاتی ہیں۔ مگر آپ نے عمومی معافی کا طریقہ اختیار کر کے تمام قوتوں کو تعمیر کے راستہ میں لگا دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر جب مکہ میں داخل ہوئے توآپ نے اپنے فوجی سرداروں کو حکم دیا کہ وہ کسی سے جنگ نہ کریں الاّ یہ کہ کوئی خود ان سے لڑنے کے لیے آجائے ( أَنْ لَا يُقَاتِلُوا إلَّا مَنْ قَاتَلَهُمْ) سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 409۔فتح کے بعد آپ نے عمومی طورپر ان سب لوگوں کی معافی کا اعلان کردیاجنھوں نے آپ کے خلاف سخت ترین جرائم کیے تھے۔ البتہ آپ نے کچھ لوگوں کی بابت فرمایا کہ وہ قتل کردیے جائیں، خواہ وہ کعبہ کے پردے کے نیچے پائے جائیں۔ ابن ہشام وغیرہ نے اپنی سیرت کی کتابوں میں نام بنام ان کا ذکر کیاہے۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ عبد اللہ بن سعد:یہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کا تِب وحی مقررکیا۔ پھر وہ مرتَد ہوکر کافروں سے جاملے۔ فتح مکہ کے بعد جب ان کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کا حکم دیا ہے تو وہ بھاگ کر حضرت عثمان کے پاس پہنچے جو ان کے دودھ شریک بھائی تھے۔ وہ ان کو چھپا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا کہ ان کو دوبارہ مسلمان کر لیجیے۔ آپ خاموش رہے۔ حضرت عثمان نے پھر درخواست کی تو آپ نے ان سے بیعت لے لی۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں وہ مصر کے حاکم رہے اور افریقہ کی فتح میں ان کا خاص حصہ تھا۔
2۔ عبد اللہ بن خطَل:اس نے پہلے اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ اس کے ساتھ ایک غلام اور ایک انصاری تھے۔ ایک منزل پر پہنچ کر عبد اللہ بن خطل نے اپنے غلام سے کہاکہ مرغ ذبح کر کے اس کو پکاؤ۔ مگر غلام سو گیا۔ اور وقت پر کھانا تیار نہ کرسکا۔ اس پر ابن خطل کو غصہ آگیا اور اس نے غلام کو مار ڈالا۔ اب اس کوڈر ہوا کہ اگر میں مدینہ واپس جاتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے قصاص لیں گے۔ چنانچہ وہ مرتد ہوکر مکہ چلاگیا اور مشرکین سے مل گیا۔ وہ شاعر تھا اور آپ کی ہجو میں اشعار کہا کرتا تھا۔ فتح مکہ کے دن ابن خطل خانہ کعبہ کے پردوں سے لپٹ گیا۔ آپ کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایاکہ وہیں جاکر قتل کردو۔ چنانچہ ابو برزہ اسلمی اور سعید بن حریث نے حجرا سود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس کو قتل کیا۔
3۔ فَرتنٰی:یہ مذکورہ عبد اللہ بن خطل کی باندی تھی۔ وہ آپ کی ہجو میں اشعار پڑھتی تھی اور مشرکین مکہ کی شراب کی مجلسوں میں گاتی بجاتی تھی۔ آپ نے ابن خطل کے ساتھ اس کے قتل کا بھی حکم دیا اور وہ قتل کر دی گئی۔
4۔ قُرَیبہ:یہ بھی عبد اللہ بن خطل کی باندی تھی اور اس کا بھی وہی پیشہ تھا جو فَرتَنٰی کا تھا۔ آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ مگر اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر امن کی درخواست کی۔ اس کو آپ نے امن دے دیا او ر وہ مسلمان ہوگئی۔
5۔ حویرث بن نُقیذبن وہب:یہ شخص شاعر تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں شعرکہتا تھا، بالفاظ دیگر استہزا و تمسخر کی حد تک اسلام کا مخالف تھا۔ حضرت عباس بن مطلب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں، فاطمہ اور ام کلثوم کو لے کر مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے۔ حویرث بن نقیذ نے ان کا پیچھا کیا اور ان کے اونٹ کو نیزہ مار کر بھڑ کا دیا جس کی وجہ سے دونوں خواتین زمین پر گر پڑیں۔ آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور حضرت علی نے اس کو قتل کیا۔
6۔ مِقْیَس بن صُبابہ:اس شخص کا ایک بھائی ہشام بن صُبابہ تھا۔ غزوہ ذی قَرَد کے موقع پر ایک انصاری نے ہشام کو غلطی سے قتل کردیا۔ اس کے بعد مِقْیَس بن صبابہ مکہ سے مدینہ آیا مسلمان ہوگیا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بھائی کی دیت مجھے دلائی جائے جو غلطی سے دشمن سمجھ کر قتل کیاگیا ہے۔ آپ نے اس کی دیت ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ چند دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہا اور پھر اپنے بھائی کے قاتل کو قتل کر کے اچانک مکہ بھاگ گیا اور مرتد ہو گیا۔ آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور نمیلہ بن عبد اللہ لیثی نے اس کو قتل کیا۔
7۔ سارہ: یہ عورت عکرمہ بن ابی جہل کی باندی تھی۔ آپ کی ہجو میں اشعار گا یا کرتی تھی اور آپ کا مذاق اڑاتی تھی۔ آپ نے اس کا خون مباح کیا تھا۔ پھر اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر امن مانگا تو آپ نے امن دے دیا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ وہ حضرت عمر کے زمانہ خلافت تک زندہ رہی۔
8-9۔ حارث بن ہشام اور زہیر بن ابی امیہ:ان دونوں شخصوں کا خون بھی مباح کر دیا گیاتھا۔ وہ بھاگ کر اپنی ایک رشتہ دار خاتون ام ہانی بنت ابی طالب کے گھر میں داخل ہو گئے۔ حضرت علی ان کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچے اور کہا کہ خدا کی قسم میں ان دونوں کو ضرور قتل کروں گا۔ ام ہانی نے حضرت علی کو روکا اور ان دونوں کو اپنے گھر میں بند کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں۔ اور کہا کہ میں نے ان دونوں آدمیوں کو پناہ دی ہے مگر علی ان کو قتل کر نا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:تم نے جن کو پناہ دی ہم نے بھی ان کو پناہ دی اور تم نے جن کو امن دیا ہم نے بھی ان کو امن دیا۔ علی ان کو قتل نہ کریں۔ چنانچہ وہ دونوں چھوڑ دیے گئے۔
10۔ عِکرمہ بن ابی جہل:عکرمہ اپنے باپ کی طرح اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔ ان کا خون بھی آپ نے مباح کر دیا تھا۔ وہ مکہ سے بھاگ کر یمن چلے گئے۔ ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث جو مسلمان ہو چکی تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان کی درخواست کی۔ آپ نے ان کی امان منظور کرلی۔ اس کے بعد وہ یمن گئیں اور عکرمہ کو مکہ واپس لائیں۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے۔ عکرمہ نے اس کے بعد اسلام کے لیے زبردست جانی و مالی قربانی دی۔ وہ حضرت ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں مرتدین سے لڑتے ہوئے اجنا دین کے مقام پر شہید ہوئے۔
11۔ ہبار بن الا سود:اس شخص سے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب زوجہ ابو العاص ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ جارہی تھیں۔ ہبار بن اسود نے آپ کے اونٹ کو نیزہ مارا۔ اس کے بعد اونٹ بدک کر دوڑ ا تو حضرت زینب اونٹ سے زمین پر گر پڑیں۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں۔ ان کا حمل ساقط ہو گیا۔ اس کے بعد وہ آخر عمر تک بیمار رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبار کے قتل کا حکم دیا تھا۔ ہبار نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر امان طلب کی اور کہاکہ اے خدا کے رسول میری جہالت کو معاف کر دیجئے اور میرا اسلام قبول کر لیجیے۔ آپ نے ان کو معاف کر دیا۔
12۔ وحشی بن حرب:وحشی نے آپ کے چچا حضرت حمزہ کو قتل کیاتھا اور ان کا خون بھی مباح کر دیا گیا تھا۔ وہ اولاً مکہ سے طائف بھاگ گئے۔ پھر مدینہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی غلطی کی معافی چاہتے ہوئے اسلام کی پیش کش کی۔ آپ نے ان کو اسلام میں داخل کر لیا اور ان کو معاف کر دیا۔ وہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں مسيلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے اور جس حربہ سے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا اسی حربہ سے مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔
13۔ کعب بن زہیر:عرب کے مشہور شاعر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار کہا کرتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کا خون بھی مباح کر دیا گیا۔ وہ مکہ سے بھاگ گئے۔ وہ بعد کو مدینہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے بیعت کی درخواست کی۔ آپ نے ان کو بیعت کرلیا اور اس کے بعد ان کو اپنی چادر عنایت فرمائی۔
14۔ حارث بن طلاطل:یہ شخص شاعر تھا اور اشعار کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتاتھا۔ آپ نے اس کا خون مباح کر دیا اور حضرت علی نے اس کو قتل کیا۔
15۔ عبد اللہ بن زِبعری:یہ عرب کے بڑے شاعروں میں سے تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت میں ہجویہ اشعار کہا کرتےتھے۔ آ پ نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ وہ مکہ سے بھاگ کر نجران چلےگئے۔ بعد میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہوں نے تو بہ کی اور اسلام لائے۔ آپ نے ان کو معاف کردیا۔
16۔ ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی:یہ شخص شاعر تھا اور شعر کہہ کر آپ کا اور آپ کے مشن کا استہزا کیا کرتا تھا۔ آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ وہ مکہ سے بھاگ کر نجران چلا گیا اور وہیں کفر کی حالت میں مرگیا۔
17۔ ہند بنت عتبہ زوجہ ابو سفیان:اس عرب خاتون کو اسلام سے اتنی دشمنی تھی کہ غزوہ احد کے موقع پر انہوں نے حضرت حمزہ کا جگر نکال کر چبا یا تھا۔ آپ نے ان کے قتل کا حکم دیا۔ مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیںاور اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ آپ نے ان کو معاف کردیا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر گئیں اور تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور کہا:خدا کی قسم تمہاری ہی وجہ سے ہم دھوکہ میں تھے۔
اوپر جو تفصیل درج کی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد سترہ مردوں اور عورتوں کے قتل کا حکم دیاتھا۔ ان میں سے ہر شخص متعین اور معلوم شخصی جرم کی بنا پر گردن زدنی تھا۔ تاہم ان میں سے جس شخص نے بھی معافی مانگی یا اس کی طرف سےکسی نے معافی کی درخواست کی اس کو آپ نے معاف کر دیا۔معافی طلب کرنے والوں میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کیاگیا۔ سترہ آدمیوں کا خون مباح کیاگیا تھا، ان میں سے گیارہ آدمیوں کو براہِ راست یا با لواسطہ معافی طلب کرنے پرمعاف کردیا گیا۔ پانچ آدمی جنہوں نے معافی کی درخواست نہیں کی وہ قتل کردیے گئے اور ایک آدمی مکہ سے دور بھاگ گیا اور طبعی موت سے اس کا خاتمہ ہوا۔
ایک سوال اور اس کا جواب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی جس کا نام فاطمہ تھا۔ اس کے قبیلہ والوں کوڈر ہو ا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اسامہ بن زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت قریبی لوگوں میں تھے۔ چنانچہ لوگوں نے اسامہ سے کہا کہ تم رسول اللہ صلي اللهعلیہ وسلم سے سفارش کر و کہ ہماری عورت کو چھوڑ دیا جائے۔ حضرت اسامہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فاطمہ مخزومی کی معافی کی درخواست کی۔یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا، آپ نے فرمایا:کیا تم اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے لیے مجھ سے سفارش کر رہے ہو (أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ)اس کے بعد آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور تقریر کرتے ہوئے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میری لڑکی فاطمہ چوری کرتی تو یقیناً میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا (وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا)چنانچہ اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اس کے بعد وہ تائب ہو کر ایک صالح خاتون بن گئی (صحيح البخاري، حديث نمبر 4304)
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ کی ایک حد کو معاف کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ پھر کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد لوگوں کو اتنی فراخ دلی کے ساتھ معاف کر دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام حالت میں کیے جانے والے جرم اور جنگی حالت میں کیے جانے والے جرم میں فرق ہے۔ عام حالات میں کوئی شخص جرم کرے تو اس کا جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔ مگر جنگ و مقابلہ کے دوران دشمن گروہ کے افراد جو جرائم کرتے ہیں وہ اس وقت معاف کر دیے جاتے ہیں، جب کہ مذکورہ فرد اطاعت قبول کر کے معافی کا طالب ہو۔ غیر جنگی حالات میں کیا ہوا جرم ’’حد‘‘ پر ختم ہو تا ہے اور جنگی حالات میں کیا ہو اجرم اطاعت اور درخواست معافی پر۔ عرب میں اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کے خلاف بد ترین قسم کے جرائم کیے تھے۔مگر اعلان کیا گیا کہ یہ کفر کرنےو الے لوگ اگر باز آجائیں تو اب تک جو کچھ ہو چکا ہے وہ معاف کر دیا جائے گا (الانفال، 8:38) حکم ہوا کہ دشمن اگرصلح کی درخواست کرے تو قبول کر لو، حتٰی کہ اس وقت بھی جب کہ صلح کے بعد اس کی طرف سے خیانت کا اندیشہ ہو:
وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ (8:61-62)۔يعني، اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس طرف جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بے شک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ تم کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تمہارے لیے کافی ہے،وہی ہے جس نے اپنی نصرت سے اور مومنین کے ذریعہ تم کو قوت دی۔
جن مباح الدم افراد کو اس موقع پر معافی دی گئی ان میں سے ایک عکرمہ بن ابی جہل تھے۔ وہ اپنے والد کےساتھ اسلام دشمنی میں بے حد سرگرم رہ چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح کی تکلیفیں پہنچائی تھیں مگر جب معلوم ہو اکہ وہ آپ کے پاس مطیع ہو کر آر ہے ہیں تو آپ نے اپنے اصحاب سے کہا:
يَأْتِيَكُمْ عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ مُؤْمِنًا مُهَاجِرًا، فَلَا تَسُبُّوا أَبَاهُ، فَإِنَّ سَبَّ الْمَيِّتِ يُؤْذِي الْحَيَّ(مستدرك الحاكم، حديث نمبر 5055)۔یعنی، عکرمہ بن ابی جہل مومن ہو کر تمہارے پاس آرہے ہیں تو ان کے باپ کو تم لوگ برانہ کہنا۔ مردہ کو برا کہنے سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے ۔
یہی وہ فراخ دلی اور وسعت ظرفی تھی کہ عرب میں اچانک یہ منظر نظر آیا کہ فتح مکہ سے پہلے جو لوگ اسلام کے سخت ترین دشمن بنے ہوئے تھے وہ فتح کے بعد اسلام کے زبردست حامی اور پاسبان بن گئے۔
حصّہ سوم
ختم نبوت
بعثت کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے۔ کسی عرب قبیلہ کا ایک شخص کعبہ کی زیارت کے لیےمکہ آیا۔ وہ جب واپس گیا تو اس کے قبیلہ والوں نے پوچھا، مکہ کی کوئی خبر بتاؤ۔ اس نے جواب دیا:
تنبّأ محمد بن عبد الله وتبعه ابن أبي قحافة(محمدبن عبدالله نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور ابو قحافہ کا لڑکا ان کا ساتھ دے رہا ہے( البدء والتاريخ، جلد 5، صفحه 82۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 610ء میں جب آپ نے نبوت کا اعلان فرمایا، اس وقت لوگوں کے ذہن میں آپ کی تصویر کیاتھی۔ آپ کے مخالفین اس زمانہ میں آپ کو ابن ابی کبشہ کہتے تھے، جس کا مطلب ہوتاتھا:فلاں دیہاتی کا لڑکا۔ کوئی زیادہ شریف زبان بولنا چاہتا تو کہتا:فتی من قریش، یعنی قبیلہ قریش کا ایک جوان۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال اپنے زمانہ میں تھا۔ مگر صدیاں گزرنے کے بعد اب صورت حال بالکل مختلف ہے۔ کیوں کہ اب آپ کی نبوت کوئی نزاعی مسئلہ نہیں۔ اب وہ ایک تسلیم شدہ واقعہ (Established Facts)کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آج جب ایک شخص کہتا ہے ’’محمد رسول اللہ ‘‘تو اس کے ذہن میں ایک ایسے پیغمبر کا تصور ہوتا ہے جس کے گرد ایک عظیم الشان تاریخ بن چکی ہے، جس کی پشت پر ڈیڑھ ہزار برس کی تصدیقی عظمتیں قائم ہیں۔ اگر ایسا ہو کہ یہ تاریخ مکمل طور پر آپ سے الگ کر دی جائے اور نبی عربی دو بارہ ’’ابن ابی کبشہ ‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوں تو اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد جو آج کروروں میں گنی جاتی ہے، صرف درجنوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی ’’ابن ابی کبشہ ‘‘ کے حلیہ میں رسول خدا کو پہچان لینا انتہائی مشکل کام ہے۔ جب کہ یہی کام اس وقت انتہائی آسان ہو جاتا ہے جب رسول ایک مسلّمہ تاریخی حیثیت یا قرآن کے لفظوں میں مقام محمود (الاسراء،17:79)کا درجہ حاصل کر چکا ہو۔
پچھلے ادوار میں نبیوںکے ہم زمانہ لوگوں کے لیے نبی کا انکار کرنے کی سب سے بڑی نفسیاتی وجہ یہی تھی۔ ’’یہ تو وہی معمولی شخص ہے جس کو اب تک ہم فلاں بن فلاں کے نام سے جانتے تھے، وہ اچانک خدا کا پیغمبر کیسے ہوگیا۔ ‘‘ جب بھی کوئی نبی اٹھتا، یہ خیال ایک قسم کا شک اور تر د دبن کر ان کے اوپر چھا جاتا، اور نبي کی پیغمبر انہ حیثیت کو پہچاننے کے معاملہ کو اس کے معاصرین کے لیے مشکل بنادیتا۔
یہ صورت حال، خاتم النبیین کے ظہور سے پہلے، انسانیت کو مسلسل ایک کڑی آزمائش میں مبتلا کیے ہوئے تھی۔ ہر بار ان کے اندر سے ایک نیا شخص خدا کے رسول کی حیثیت سے اٹھتا۔ مخاطب قوم کی اکثریت، مذکورہ نفسیاتی رکاوٹ کی وجہ سے، اپنے ہم عصر نبی کے بارے میں شک اور تردد میں پڑکر انکار کر دیتی اور با لآخر سنت اللہ کے مطابق ہلاک کر دی جاتی۔ اب اللہ تعالےٰ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک ایسا نبی بھیجے جو ساری دنیا کے لیے رحمت کا دروازہ کھول دے۔ اس کی ذات پچھلے پیغمبروں کی طرح لوگوں کواس آزمائش میں نہ ڈالے کہ ’’معلوم نہیں یہ واقعی پیغمبر ہے یا شخصی حوصلہ مندی نے اس کو اس قسم کے دعوے پر آمادہ کر دیا ہے۔ ‘‘ اس کی نبوت ہر دور کے لوگوں کے لیے ایک مسلّمہ واقعہ کی حیثیت رکھتی ہو۔ لوگ کسی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوئے بغیر اس کی’’ محمودیت ‘‘ کی وجہ سے اس کو پہچان لیں اور اس پر ایمان لاکر خدا کی رحمتوں میںحصہ دار بنیں۔
متعدد روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے افراد تمام دوسرے انبیاء کی امتوں سے زیادہ ہوں گے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4981)۔ اس کا تعلق بھی اسی مسئلہ سے ہے۔ آپ کے بعد چونکہ کوئی نبی آنے والا نہیں۔ اس لیے آپ کی امت میں آپ کے بعد دوبارہ کفر و اسلام کا مسئلہ کھڑا ہونے والا نہیں ہے۔ آپ کی امت بد ستور بڑھتی رہے گی ،یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔
اس معاملہ کو بنی اسرائیل کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ حضرت مسیح کے زمانہ میں جو یہود تھے۔ وہ سب خدا کی شریعت پر ایمان رکھتے تھے ، وہ حضرت موسیٰ کے امتی تھے۔ مگر ابن مریم کی صورت میں جب ان کے اندر ایک نیا نبی اٹھا تو اس کو ماننا یہود کے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ حضرت موسیٰ کو وہ اب بھی مانتے تھے۔ مگر اپنے ہم عصر نبی کا انکار کر رہے تھے۔ اس کی وجہ سے، ایک درجن مومنینِ مسیح کو چھوڑ کر، سارے کے سارے یہودی کا فر قرار پاگئے۔ حضرت مسیح کے چھ سو برس بعد جب نبی عربی کی بعثت ہوئی تو مسلمانوں کی اس نئی جماعت (عیسائیوں) کی تعداد بہت بڑھ چکی تھی۔ مگردوبارہ وہی ہو اکہ نئے ’’اسماعیلی نبی ‘‘ کو ماننے کے لیے وہ اپنے کو آمادہ نہ کر سکے۔ وہ تاریخی نبی (حضرت مسیح) پر بد ستور ایمان رکھتے تھے۔ مگر اپنے ہم عصر نبی (حضرت محمد ) کے منکر تھے۔ اس کی وجہ سے دوبارہ ایسا ہوا کہ نبوت محمدی پر ایمان لانے والے چند عیسائیوں کو چھوڑ کر پوری عیسائی قوم کوکافر قرار دے دیا گیا۔
ختم نبوت کی وجہ سے امت محمدی ،کم از کم موجودہ دنیا میں،اس قسم کی آزمائش سے دوبارہ دوچار ہونے والی نہیں۔ اس لیے آپ کے امتیوں کی تعداد بھی دوسرے انبیاء کے پیروؤں سے زیادہ رہے گی۔ یہ بھی ایک پہلو ہے آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا جو اس لیے حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقام محمود پر کھڑاکیا۔ مقام محمود دنیوی اعتبار سےیہ ہے کہ آپ کی نبوت کو ساری دنیا کے لیے ایک تاریخی مسلّمہ بنا دیا گیا۔ یہی تعریفی حیثیت قیامت کے دن خصوصی خداوندی اعزاز کی صورت میں ظاہر ہوگی جو اولین و آخرین میں آپ کے سوا کسی کو حاصل نہ ہو گی۔
مگر کسی نبی کو مقام محمود پر کھڑا کرنا سادہ طور پر محض نا مزدگی کا معاملہ نہ تھا۔ یہ ایک نئی تاریخ کو ظہور میں لانے کا معاملہ تھا۔ اس کے لیے ایک طرف ایسی معیاری شخصیت درکار تھی جیسی کوئی دوسری شخصیت بنی آدم میں پیدا نہ ہوئی ہو دوسری طرف ایسی قربانی اور حوالگی درکار تھی جیسی قربانی و حوالگی کا ثبوت کسی دوسرے انسان نے نہ دیا ہو۔ یہی وہ نازک لمحہ تھاجب کہ خدا نے اپنے ایک بندے کو پکار کر کہا:يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ، قُـمْ فَاَنْذِرْوَرَبَّكَ فَكَبِّرْ(74:1-3)۔یعنی، اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھ اور لوگوں کو آگاہ کر۔ اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر۔
اور کمبل میں لپٹی ہوئی اس عظیم روح نے لبیک کہہ کر اپنے آپ کو ہمہ تن خدائی منصوبہ کے حوالے کر دیا۔ اس کےبعد طویل عمل کے نتیجہ میں با لآخر وہ نبوت ظہور میں آئی جو سارے عالم کے لیے رحمت بن گئی۔ جس نےانسانی تاریخ میں باربار نئے نبیوں کی آمد کے آزمائشی دور کو ختم کیا اور ایک مسلّمہ نبوت کے دور کا آغاز کر کے لوگوں کے لیے خدا کی رحمتوں میں فوج در فوج داخل ہونے کا دروازہ کھول دیا۔
نبوت کو تاریخی مسلّمہ بنا نے کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ آئندہ کے لیے نبیوں کی آمد کا سلسلہ بند ہو جائے۔ مگر یہ بھی محض اعلان کا معاملہ نہ تھا۔ ختم نبوت سے پہلے ضروری تھا کہ چند شرائط لازمی طورپر پوری ہو چکی ہوں
1۔ زندگی کے تمام معاملات کے لیے احکام خدا وندی کا نزول (وَھُوالَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمْ الْکِتابَ مُفَصَّلَا)6:114
2۔ انسانی کردار کے لیے ایک کامل نمونہ سامنے آجانا (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ)33:21
3۔ وحی اِلٰہی کی دائمی حفاظت کا انتظام (اِنِّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنِّالَہ لَحَافِظُوْنَ) 15:9
اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک فیصلہ کے ذریعہ ان تینوں شرائط کی تکمیل کا انتظام فرما دیا۔
پچھلے نبیوں کے لیے اللہ کی سنت یہ رہی ہے کہ ہر نبی کو کچھ آیات (معجزے) دیے جاتے تھے۔ نبی اپنی مخاطب قوم میں تبلیغ و دعوت کا فریضہ آخری حد تک ادا کرتا۔ وہ غیر معمولی نشانیوں کے ذریعہ اپنے نمائندۂ اِلٰہی ہونے کا ثبوت پیش کرتا۔ اس کے با وجود جب لوگ ایمان نہ لاتے تو نبی کا کام ختم ہو جاتا۔ ا ب اللہ تعالیٰ کے فرشتے متحرک ہوتے اور زمینی یا آسمانی عذاب کے ذریعہ اس قوم کو ہلاک کر دیتے۔
نبی آخر الزماں کے لیے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوا کہ آپ کی مخاطب قوم کے لیے اس قسم کا عذاب نہیں آئے گا۔ بلکہ خود نبی اور آپ کے اصحاب کو ان سے ٹکر اکر انہیں مجبور کیا جائے گا کہ وہ دین خداوندی کو قبول کریں (تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ( الفتح،48:16۔اس کے باوجود ان میں سےجو لوگ اطاعت نہ کریں وہ اہل ایمان کی تلواروں سے قتل کر دیے جائیں (قاتِلوھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللہُ بِاَیْدِیْکُم) التوبة،9:14۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس سے پہلے جو کام فرشتے کرتے تھے، اس کو انسانوں کے ذریعہ انجام دیا جائے۔
اسی فیصلۂ اِلٰہی کا نتیجہ تھا کہ ہجرت اور اتمام حجت کے بعد دیگر انبیاء کی قوموں کے برعکس، اہل عرب پر کوئی جو الامکھی پہاڑ نہیں پھٹا اور نہ آسمان سے آگ برسی۔ بلکہ رسول اور اصحابِ رسول کو ان کے ساتھ ٹکر ا دیاگیا۔ اس فوجی تصادم میں اللہ کی خصوصی نصرت کے ذریعہ رسول اور آپ کے اصحاب کو فتح حاصل ہوئی۔ خدا کا دین ایک با قاعدہ اسٹیٹ کی شکل میں جزیرہ نمائے عرب پر قائم ہو گیا۔
اس واقعہ کے مختلف نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ تھا کہ دعوت نبوت کو، انفرادی تقاضوں سے لے کر اجتماعی معاملات تک زندگی کے تمام مراحل سے گزر ناپڑا اور انسانی زندگی کے تمام پہلؤوں کے لیے مسلسل احکام اترتے رہے۔ اگر یہ واقعات پیش نہ آتے تو اسلامی شریعت میںہر قسم کے احکام نہیں اتر سکتے تھے۔ کیونکہ اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ حالات کے لحاظ سےاپنے احکام بھیجتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کتابی مجموعہ کی شکل میںبیک وقت سارے احکام لکھ کر نبی کو دے دیے جائیں۔ فرشتوں کے ذریعے منکرین عرب کا استیصال کرنے کے بجائے اہل ایمان کی تلوار کے ذریعہ ان کو زیر کرنے کے فیصلے نے شریعت کی تکمیل کے اسباب پیدا کر دیے۔
پھر اسی کی وجہ سے یہ امکان پیدا ہو ا کہ پیغمبر کا سابقہ زندگی کی تمام صورتوں سے پیش آئے۔ اور ہر قسم کی سرگرمیوں میں وہ اسلامی کردار کا عملی نمونہ دکھاسکے۔ اس کےبعد خود حالات کے ارتقاء کے تحت ایسا ہوا کہ نبی کو مسجد اور مکان سے لے کر میدان جنگ اور تخت حکومت تک ہر جگہ کھڑا ہونا پڑا اور ہر جگہ اس نے معیاری انسانی کردار کا مظاہرہ کر کے قیامت تک کے لوگوں کے لیے نمونہ قائم کردیا۔
پھر اسی واقعہ نے قرآن کی حفاظت کی صورتیں بھی پیدا کیں۔ پچھلی آسمانی کتابیں جو محفوظ نہ رہ سکیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی کے بعد ان کتابوں کی پشت پر کوئی ایسی طاقت نہ رہی جو بزور ان کو ضائع ہونے سے بچاتی۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے اپنی ہم عصر قوموں سے مقابلہ کر کے اولاً عرب اور اس کے بعد قدیم دنیا کے بڑے حصہ پر اسلام کا غلبہ قائم کر دیا۔ اس طرح کتاب اِلٰہی کو حکومتی اقتدار کا سایہ حاصل ہو گیا جو خدا کی کتاب کو محفوظ رکھنے کی یقینی ضمانت تھا۔ یہ انتظام انتا طاقت ور تھا کہ ایک ہزار برس تک اس میں کوئی فرق نہ آسکا۔ اسلامی اقتدار کے زیر سایہ قرآن ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتا رہا۔ یہاں تک کہ صنعتی انقلاب ہوا اور پریس کا دور آگیا جس کے بعد قرآن کے ضائع ہونے کا کوئی سوال نہیں۔
یہ سب جو ہوا، اس طرح ٹھنڈے ٹھنڈے نہیں ہوگیا جیسے آج ہم اس کو سیرت و تاریخ کی کتابوں میں پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے لیے نبی اور آپ کے ساتھیوں کو نا قابل برداشت طوفان سے گزر نا پڑا۔ کفار کے مطالبہ اور نبی کی خواہش کے باوجود ان کو فوق الفطری معجزے نہیں دیے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے اخلاق و کردار کو معجزاتی واقعات کا بدل بنانا پڑا۔ ان کے مکذّبین کے لیے کوئی ارضی و سماوی عذاب نہیں آیا۔ اس طرح انہیں وہ کام کرنا پڑا جس کے لیے پہلے بھونچال آتے تھے اور آتش فشاں پھٹتے تھے۔ ختم نبوت کے فیصلہ کے باوجود کتاب اِلٰہی کو یکبارگی ان کے حوالے نہیں کیاگیا۔ اس لیے ان کے واسطے ضروری ہو گیاکہ وہ زندگی کے وسیع سمندروں میں کو دیں اور ہر قسم کی چٹانوں سے ٹکرائیں تاکہ تمام معاملات زندگی کے بارے میں ان پر احکام اِلٰہی کا نزول ہو سکے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس پورے عمل کے دوران نبی اور آپ کے اصحاب امتحان کے اس انتہائی کڑے معیار پر تھے جس کو قرآن میں زلزال شدید (الاحزاب، 33:11)کہا گیا ہے۔ نبی کو سخت ترین حکم تھا کہ ظالموں کی طرف ادنیٰ جھکاؤ بھی مت دکھاؤ(الاسراء،17:75) ورنہ تم کو دگنی سزادی جائے گی۔ حالات خواہ کتنے ہی شدید ہوں، آپ کے ساتھیوں کے لیے کسی بھی حال میں تخلف (التوبہ، 9:120) کی اجازت نہ تھی، یعنی اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنےسے پیچھے ہٹنا۔ آپ کی ازواج اگر دو وقت کی روٹی کا بھی مطالبہ کریں تو ان کے لیے یہ صاف جواب تھاکہ پیغمبر کی صحبت اور دنیا میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کر لو (الاحزاب، 33:28)۔
حقیقت یہ ہے کہ نبوتِ محمودی (تاریخی طور پر تسلیم شدہ نبوت)کو بروئے کا ر لانا انسانی تاریخ کا مشکل ترین منصوبہ تھا۔ اور یہ سب کچھ اتنی قیامت خیز سطح پر ہو ا کہ خود رسول کی زبان سے نکلاکہ ’’اس راہ میں مجھ کو اتنا ستایا گیا جتنا کسی دوسرے نبی کو نہیں ستایا گیا۔‘‘آپ کی رفیقہ حیات نے شہادت دی کہ لوگوں نے آپ کو روند ڈالا تھا(حطمہ الناس)صحیح مسلم، حدیث نمبر 732۔ خاتم النبیین اور آپ کے ساتھیوں نے دنیا کا آرام تو درکنا ر زندگی کی ناگزیر ضرورتوں سے بھی اپنے کو محروم کر لیا، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوسکا کہ تاریخ میں اس نبوت کا دور شروع ہو جس کو رحمۃ للعالمین کہا گیا ہے۔
نبی عربی کا آپ کے بعد آنے والی نسلوں پر یہی وہ احسان عظیم ہے جس کی وجہ سے دائمی طورپر آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاریخ کے اس مشکل ترین مشن میں چونکہ آپ کے اہل خاندان نے آپ کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور آپ کے اصحاب اس صبر آزما جدوجہد میں پوری طرح صادق القول اور صابر العمل ثابت ہوئے، اس لیے رسول کے ساتھ آپ کے آل اور آپ کے اصحاب کے لیے بھی رحمت اور سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کوئی شخص کسی کے اوپر احسان کرے تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس پر شکر کا اظہار کیا جائے۔ درود و سلام اسی قسم کے ایک عظیم ترین احسان کا دعا کی شکل میں اعتراف ہے۔ حدیث میں ہے:البَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ(سنن الترمذي، حديث نمبر 3546)۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ علٰی سَیّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّم
آپ کا معجزہ — قرآن
ہر پیغمبر کا ایک معجزہ ہوتا ہے اور پیغمبر آخر الزماں کا معجزہ قرآن ہے۔ جو پیغمبر قیامت تک کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا، اس کا معجزہ کوئی ابدی معجزہ ہی ہو سکتا تھا۔ خدانے قرآن کو پیغمبر آخرالزماں کا ابدی معجزہ بنا دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے مسلسل مطالبہ کیا کہ پچھلے نبیوں کی طرح تم بھی کوئی معجزہ دکھاؤ۔ قرآن میں صاف اعلان کر دیا گیا کہ اس نبی کے لیے پچھلے نبیوں جیسا کوئی معجزہ نہیں بھیجا جائے گا (بنی اسرائیل،17:59)۔حتیٰ کہ قرآن میں کہا گیا کہ اے رسول اگر تجھ پر ان کا اعراض گراں گزرتا ہے (اور تم ان کے لیے کوئی معجزہ چاہتے ہو) تو اگر تم سے ہوسکے تو زمین میںکوئی سرنگ ڈھونڈو یا کوئی سیٹرھی آسمان میں لگاؤ اور پھر ایک معجزہ لاکر انہیں دکھاؤ۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا۔ پس تم نادانوں میں سے نہ بنو (الا نعام،6:35)۔
اس کے بر عکس کہا گیا کہ یہ قرآن جو اتارا گیا، یہی خدا کی طرف سے معجزہ ہے:
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ، قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ، وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ، اَوَلَمْ يَكْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْہِمْ، اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَۃً وَّذِكْرٰي لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ (29:50-51)يعني، اور وہ کہتے ہیں کہ اس رسول پر نشانیاں کیوں نہ اتریں۔ کہو کہ نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اور میں تو بس کھول کر سنا دینے والا ہوں۔ کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تمہارے اوپر قرآن اتارا جو ان پر پڑھا جا تا ہے۔ بے شک اس میں رحمت اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جوماننے والے ہیں۔
قرآن کے معجزہ ہونے کے بہت سے پہلو ہیں۔ یہاں ہم خاص طور پر اس کے تین پہلؤوں کا ذکر کریں گے(1) عام لسانی تاریخ کے علی الرغم قرآنی زبان کا زندہ زبان کی حیثیت سے باقی رہنا۔ (2) مذہبی کتابوں کی تاریخ میں قرآن کا یہ استثناء کہ اس کے متن میں کسی قسم کا کوئی فرق نہ ہوسکا۔ (3) قرآن کے چیلنج کے باوجود کسی کے لیے یہ ممکن نہ ہونا کہ وہ قرآن کے جواب میں قرآن جیسی ایک کتاب لکھ سکے۔
جتنی بھی قدیم کتابیں آج دنیا میں پائی جاتی ہیں، ان میں قرآن ایک حیرت انگیز استثناء ہے، تمام مقدس کتابوں کی اصل زبانیں تاریخ کی الماری میں بند ہو چکی ہیں۔ مگر قرآن کی زبان (عربی) آج بھی بد ستور زندہ ہے۔ آج بھی کروڑوں انسان اس زبان کو لکھتے اور بولتے ہیں جس میں تقریباً ڈیڑھ ہزار برس پہلے قرآن اتارا گیا تھا— یہ واقعہ قرآن کے معجزاتی کتاب ہونے کا یقینی ثبوت ہے۔ کیونکہ قرآن کے سوا ساری انسانی تاریخ میں کوئی دوسری کتاب نہیں جس نے اپنی اصل زبان کو اس طرح بعد کے زمانوں میں باقی رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہو۔
مثال کے طور پر انجیل کو لیجیے جو قرآن کے بعد سب سے زیادہ قریب العہد مقدس کتاب ہے۔ اس کا حال یہ ہے کہ ابھی تک قطعیت کے ساتھ یہ بھی نہیں معلوم کہ حضرت مسیح کون سی زبان بولتے تھے۔ قیاساً یہ کہاجاتا ہے کہ ان کی زبان غالباً آرامی تھی۔تاہم انجیل کی شکل میں آپ کی تعلیمات کا جو با لواسطہ ریکار ڈ آج ہمارے پاس ہے اس کا قدیم ترین نسخہ یونانی زبان میں پایا جاتا ہے۔ گویا حضرت مسیح کے خیالات صرف ترجمہ شدہ حالت میں ہمارے پاس موجود ہیں پھر یہ یونانی زبان بھی قدیم وجدید یونانی سے بالکل مختلف ہے حتیٰ کہ انیسویں صدی کے آخر تک نئے عہد نامہ میںکم ازکم 550الفاظ(کل متن کا 12فی صد) ایسے تھے جن کے معانی معلوم نہ تھے۔ انیسویں صدی میں ایک جرمن عالم اڈولف ڈیزمن (Adolf Deissmann) نے مصر میں بعض قدیم تحریریں پائیں۔ ان کے مطالعہ کے بعد اس نے قیاس کیا کہ ’’ببلیکل گریک ‘‘ دراصل قدیم یونانی زبان کی غیر علمی بولی تھی جو پہلی صدی عیسوی میں فلسطین کے عوام میں رائج تھی۔ اس نے مذکورہ نا معلوم الفاظ کے کچھ معانی متعین کیے۔ تاہم اب بھی یو نانی انجیل میں 50الفاظ (کل متن کا ایک فی صد) ایسے ہیں جن کے معانی ابھی تک نا معلوم ہیں۔
Xavier Leon-Dufour S.J. The Gospels and the Jesus of History Desclee Co.Inc. New York 1970, pp. 79-80
ارنسٹ ریناں (1823-1892)نے عربی زبان کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی کتاب اللغات السامیہ میں لکھا ہے
’’انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ حیرت انگیز واقعہ عربی زبان ہے۔ یہ زبان قدیم تاریخ میں ایک غیر معروف زبان تھی۔ پھر اچانک وہ ایک کامل زبان کی حیثیت سے ظاہر ہوئی۔ اس کے بعد سے اس میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہ ہو سکی حتی کہ اس کا نہ کوئی بچپن ہے اور نہ بڑھاپا۔ وہ اپنے ظہور کے اول دن جیسی تھی ویسی ہی آج بھی ہے۔ ‘‘
قرآن کی زبان کے بارے میں فرانسیسی مستشرق کا یہ اعتراف دراصل اعجاز قرآن کا اعتراف ہے۔ کیونکہ حقیقتہً یہ قرآن کا معجزاتی ادب ہی ہے جس نے عربی زبان کو تبدیلی کے اس عام تاریخی قانون سے مستثنیٰ رکھا جس سے دوسری تمام زبانیں متاثر ہوئی ہیں ۔ مسیحی عالم جرجی زیدان (1861-1914)نے اس کا اعتراف ان لفظوں میں کیا ہے
’’وبا لجملۃ فان القرآن تاثیرافی آداب الغۃ العربیۃ لیس لکتاب دینی مثلہ فی اللغات الاخریٰ (تاريخ آداب اللغات العربیہ، صفحہ 393) ۔يعني، مختصر یہ کہ عربی زبان کے ادب پر قرآن نے ایسا غیرمعمولی اثر ڈالا ہے جس کی مثال کسی اور دینی کتاب کی دوسری زبانوں میں نہیں ملتی۔ ‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام زبانیں تبدیلی کا شکار رہی ہیں ۔ حتٰی کہ کسی زبان کا آج کا ایک عالم اس زبان کی چند سو برس پہلے کی کتاب کو لغت اور شرح کی مدد کے بغیر سمجھ نہیں سکتا۔ اس تبدیلی کے اسباب عام طور پر دو قسم کے رہے ہیں ۔ ایک، اجتماعی انقلاب، دوسرے، ادبی ارتقاء۔ عربی زبان کے ساتھ پچھلی صدیوں میں یہ دونوں واقعات اسی شدت کے ساتھ پیش آئے جس طرح کسی دوسری زبان کے ساتھ پیش آسکتے ہیں ۔ مگر وہ اس زبان کے لسانی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہ کر سکے۔ عربی زبان اب بھی وہی زبان ہے جو چودہ سو برس پہلے نزول قرآن کے وقت مکہ میں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ ہومر (م 850ق م ) کی الیڈ، تلسی داس (م 1623ء)کی رامائن اور شیکسپر(1564-1616)کے ڈرامے انسانی ادب کا شاہکار سمجھے جاتے ہیں اور زمانہ تالیف سے لے کر اب تک مسلسل پڑھے جاتے رہے ہیں ۔ مگروہ ان زبانوں کو اپنی ابتدائی شکل میں محفوظ نه رکھ سکے جن میں وہ لکھے گئے تھے۔ ان کی زبانیں اب کلاسیکس کی زبانیں ہیں نہ کہ زندہ زبانیں۔ زبانوں کی تاریخ میں قرآن واحد مثال ہے جو مختلف قسم کے علمی اور سیاسی انقلابات کے باوجود اپنی زبان کو مسلسل اسی حالت پر باقی رکھے ہوئے ہے جس حالت پر وہ نزول قرآن کے وقت تھی۔ انسانی سماج کی کوئی بھی تبدیلی اُس میں تبدیلی کا باعث نہ بن سکی۔ یہ واقعہ قرآن کے ایک برتر کلام ہونے کا یقینی ثبوت ہے۔ پچھلے ڈیڑھ ہزار برس کی تاریخ نے قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ قرآن ایک معجزہ ہے، اس کے بعد اعجاز قرآن کے لیے مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ۔
اجتماعی انقلابات
اجتماعی انقلابات کس طرح زبانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے لاطینی کی مثال لیجیے۔ لا طینی کا مرکز بعد کے دور میں اگر چہ اٹلی بنا، مگر اصلاً یہ زبان اٹلی کی پیداوار نہ تھی۔ تقریباً 12 سو قبل مسیح، لو ہے کا زمانہ آنے کے بعد، جب وسط یورپ کے قبائل اطراف کے علاقوںمیں پھیلے تو ان کی ایک تعداد، خاص طورپر کو ہ الپس کے قبائل اٹلی میں داخل ہوئے اور روم اور اس کے آس پاس آباد ہوئے۔ ان کی بولی اور مقامی بولی کے ملنے سے جو زبان بنی، وہی ابتدائی لاطینی زبان تھی۔ تیسری صدی قبل مسیح میں لیوپس اینڈ رونیکس نے یونانی زبان کے کچھ ڈراموں اور کہانیوں کا ترجمہ لا طینی میں کیا۔ اس طرح لاطینی زبان ادبی زبان کے دور میں داخل ہوئی۔ پہلی صدی قبل مسیح میں رومی سلطنت قائم ہوئی تو اس نے لا طینی کو اپنی سرکاری زبان بنایا، مسیحیت کے پھیلاؤ سے بھی اس کو تقویت ملی۔ اس طرح مذہب اور سیاست نیز سماجی اور اقتصادی زور پر اس کی ترقی ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ قدیم یورپ کے تقریباً پورے علاقہ میں پھیل گئی۔ سینٹ آگسٹین (354-430) کے زمانے میں لاطینی اپنے عروج پر تھی۔ قرون وسطیٰ میں لاطینی زبان دنیا کی سب سے بڑی بین اقوامی زبان سمجھی جاتی تھی۔
آٹھویں صدی میں مسلم قومیں ابھر یں اور انہوں نے رومی سلطنت کو توڑ کر اس کو قسطنطنیہ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ 1453میں ترکوں نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے وہاں سے بھی اس کا خاتمہ کر دیا۔
ہزار برس قبل جب رومی شہنشا ہیت ٹوٹی تو مختلف علاقائی بولیوں کو ابھرنے کا موقع مل گیا۔ یہی بو لیاں، لاطینی کی آمیزش کے ساتھ بعد کو وہ زبانیں بنیں جن کو آج ہم فرانسیسی، اطالوی، اسپینی، پرتگالی، رومانوی زبانیں کہتے ہیں۔ اب لاطینی زبان صرف رومن کلیسا کی عبادتی زبان ہے اور سائنس اور قانون کی اصطلاحات میں استعمال ہوتی ہے۔ اب وہ کوئی زندہ زبان نہیں ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت تاریخی ہے۔ مثال کے طور پر نیو ٹن (1642-1727) کی پرنسپیا کوئی اصل زبان میں پڑھنا چاہے تو اس کو قدیم لاطینی زبان سیکھنی پڑے گی۔
یہی معاملہ تمام قدیم زبانوں کے ساتھ ہواہے۔ ہر زبان مختلف سماجی حالات کے تحت بدلتی رہی۔ یہاں تک کہ ابتدائی زبان ختم ہو گئی اور اس کی جگہ دوسری بدلی ہوئی زبان نے لےلی۔ قومی اختلاط، تہذیبی تصادم، سیاسی، انقلاب، زمانی تبدیلی جب بھی کسی زبان کے ساتھ پیش آئے ہیں تو وہ بدل کر کچھ سے کچھ ہو گئی ہے۔ یہی تمام حالات پچھلے ڈیڑھ ہزار برس میں عربی زبان کے ساتھ بھی پیش آئے۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ عربی زبان میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ اس تغیر پذیر لسانی دنیا میں عربی کا غیر تغیر پذیر رہنا اتمام قرآن کا معجزہ ہے۔
70ء میں یہودی قبائل شام سے نکل کر یثرب (مدینہ) آئے۔ یہاں ا س وقت عمالقہ آباد تھے جن کی زبان عربی تھی۔ عمالقہ کے ساتھ اختلاط کے بعد یہودی نسلوں کی زبان عربی ہو گئی۔ تاہم ان کی عربی عام عربوں کی زبان سے مختلف تھی۔ وہ عبری اور عربی کا ایک مرکب تھی۔ یہی واقعہ اسلام کے بعد عربوں کے ساتھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پیش آیا جب کہ وہ اپنے وطن عرب سے نکلے اور ایشیا اور افریقہ کے ان ملکوں میں داخل ہوئے جہاں کی زبانیں دوسری تھیں۔ مگر اس اختلاط کا کوئی اثر ان کی زبان پر نہیں پڑا۔ عربی بدستور اپنی اصل حالت پر محفوظ رہی۔
نزول قرآن کے بعد عربی زبان کے لیے اس قسم کا پہلا موقع خود صدر اول میں پیش آیا۔ اسلام عرب کے مختلف قبائل میں پھیلا۔ وہ لو گ اسلامی شہر وں میں یک جاہونے لگے۔ مختلف قبائل کی زبانیں تلفظ، لب و لہجہ وغیرہ کے اعتبار سے کافی مختلف تھیں۔ ابو عمر و بن العلاء (771-869) کو کہنا پڑاتھا:ما لسان حمیر بلساننا ولا لغتھم بلغتنا( معجم متن اللغة للشيخ احمد رضا، جلد1، صفحہ40)۔ یعنی، قبیلہ حمیر کی زبان ہماری زبان نہیں ہے ۔حضرت عمر نے ایک بار ایک اعرابی کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو اس کو پکڑ کر آنحضور کے پاس لائے۔ کیونکہ وہ الفاظ قرآن کو اتنے مختلف ڈھنگ سے ادا کر رہا تھا کہ حضرت عمر یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ قرآن کا کون ساحصہ پڑھ رہا ہے۔ اسی طرح آنحضور نے ایک بار ایک عرب قبیلہ کے وفد سے اس کی اپنی بولی میں گفتگو کی تو حضرت علی کو ایسا محسوس ہوا جیسے آپ کوئی اور زبان بول رہے ہیں ۔
اس کی بڑی وجہ لہجوں کا اختلاف تھا۔ مثلاً بنو تمیم جو مشرقی نجد میں رہتے تھے، وہ جیم کا تلفظ یا سے کرتے تھے وہ مسجد کو مسید اور شجرات کو سرات کہتے تھے۔ اسی طرح بنو تمیم ق کو جیم بولتے تھے۔ مثلاً طریق کو طریج، صدیق کو صدیج، قدر کو جدر اور قاسم کو جاسم وغیرہ۔ اس طرح مختلف قبائل کے ملنے سے لسانی تاریخ کے عام قانون کے مطابق ایک نیا عمل شروع ہونا چاہیے تھا جو بالآخر ایک نئی زبان کی تشکیل پر منتہی ہوتا۔ مگر قرآن کے بر تر ادب نے عربی زبان کو اس طرح اپنے قبضہ میں لے رکھا تھا کہ اس کے اندر اس قسم کا عمل جاری نہ ہو سکا۔ اس کے بر عکس، وہ واقعہ پیش آیا جس کو ڈاکٹراحمد حسن زیات( 1885-1968)نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
ما كانت لغة مُضرَ بعد الإسلام لغة أمة واحدة، وإنما كانت لغة لجميع الشعوب التي دخلت في دين الله تعالى۔اسلام کے بعد عربی زبان ایک قوم کی زبان نہیں رہی۔ بلکہ ان تمام قبائل کی زبان بن گئی جو خدا کے دین میں داخل ہوئے تھے۔
پھر یہ عرب مسلمان اپنے ملک سے باہر نکلے۔ انہوں نے ایک طرف جبل الطارق (Gibraltar) تک اور دوسری طرف کا شغر(Kashgar) تک فتح کر ڈالا۔ ان علاقوں میں مختلف زبانیں رائج تھیں۔ وہ فارسی، قبطی، بربری، عبرانی، سریانی، یونانی، لا طینی، آرامی زبانیں بولتے اور لکھتے تھے۔ ان میں ایسی قومیں بھی تھیں جو اپنے سیاسی نظام اور اپنے تمدن میں عربوں سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھیں۔ وہ عراق میں داخل ہوئے جو ایک قدیم تمدن کا حامل تھا اور بڑی بڑی قوموں کا مرکزرہ چکا تھا۔ ان کا ایران سے اختلاط ہوا جو اس وقت کی دو عظیم ترین شہنشا ہیتوں میں سے ایک تھا۔ ان کا تصادم رومی تہذیب اور عیسائی مذہب سے ہوا جو زبر دست ترقی کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ ان کا سابقہ شام سے پیش آیا جہاں فینیقی، کنعانی، مصری، یونانی، غسانی قوموں نے اپنے آداب و اطوارکے نمایاں اثرات چھوڑے تھے۔ ان کا مقابلہ مصر سے ہوا جہاں مشرق و مغرب کے فلسفے آکر ملے تھے۔ یہ اسباب بالکل کافی تھے کہ عربی میں ایک نیا عمل شروع ہواور ابتدائی زبان کے ساتھ ان نئے عوامل کے اثر سے ایک اور زبان وجود میں آجائے جیسا کہ دوسری زبانوں کے ساتھ ہوا۔ مگر اتنے بڑے لسانی بھونچال کے با وجود قرآن اس زبان کے لیے ایک ایسا برتر معیار بنا رہا جس نے تمام دوسرے عوامل کو اس کے لیے بے حقیقت بنا دیا۔
اسلام کی فتوحات کے بعد عربی زبان صرف ایک ملک کی زبان نہ رہی بلکہ کئی درجن ملکوں اور قوموں کی زبان بن گئی۔ ایشیا او ر افریقہ کی عجمی اقوام نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی زبان بھی دھیرے دھیرے عربی بن گئی۔ فطری طور پر ان غیر ملکی اقوام میں عربی زبان بولنے کی وہ قدرت نہ تھی جو خود عربوں میں تھی۔ ان کی زبان میں اپنی غیر عربی زبانوں کے اثر سے بہت سی خامیاں پیدا ہو گئیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ خود عربوں میں جو لوگ زیادہ با شعور نہ تھے، دھیرے دھیرے وہ ان قوموں سے اثر لینے لگے۔ یہاں تک کہ خود ان کی زبان بدلنا شروع ہوگئی۔ بڑے بڑے شہروں میںیہ غلطیاں سب سےزیادہ تھیں۔ کیونکہ یہاں مختلف قوموں کے لوگ جمع تھے۔ بڑھتے بڑھتے یہ خرابی خواص تک پہنچ گئی۔
زیادبن امیہ (623-673ء)کے دربار میں ایک بار ایک شخص آیا اور بولا:تُوُفِّيَ أَبَانَا وَتَرَكَ بَنُونَ ( اخبار النحويين ابی طاهر المقری،صفحہ 23)۔ہمارا باپ مر گیا اور اولاد چھوڑگیا ۔عربی گریمر کے لحاظ سے،اس جملہ میں "ابانا" کی جگہ "ابونا" ہونا چاہیے تھااور "بنون" کی جگہ "بنین"۔ اس زمانے میںاس طرح کے بے شمار اختلافات پیدا ہوگئے۔ دیگر تاریخی زبانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہی عربی زبان کے ساتھ بھی لازماً ہوتا۔ مگر یہاں بھی قرآن کی ادبی عظمت عربی کے لیے ڈھال بن گئی اور عربی زبان کی صورت پھر بھی وہی باقی رہی جو قرآن نے اس کے لیے مقرر کر دی تھی۔
اس طرح کے واقعات جو عربی زبان کی پچھلی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں باربار پیش آئے ہیں قرآن کے معجزہ ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہیں۔ کیونکہ یہ تمام تر قرآن کی عظمت ہی کا نتیجہ تھا جس نے عربی کو کسی تغیری عمل کا معمول بننے نہ دیا۔
دوسری صدی ہجری میں اموی سلطنت کا خاتمہ اور عباسی سلطنت کا قیام عربی زبان کے لیے زبردست فتنہ تھا۔ بنی امیہ کی حکومت خالص عربی حکومت تھی۔ امومی حکمراں عرب قومیت اور عربی زبان و ادب کی حمایت میں جانب داری اور تعصب کی حدتک سخت تھے۔ انہوںنے اپنا پایہ تخت د مشق کو بنا یا تھا جو عرب دیہات کی سرحد پر واقع تھا۔ ان کی فوج، دفتری عملہ اور افسران سب عرب ہوا کرتے تھے۔ مگر عباسی حکومت میں ایرانیوں کا غلبہ ہو گیا۔ عبا سیوں نے ایرانیوں ہی کی مدد سے بنی امیہ کا خاتمہ کیا تھا، اس لیے ان کے نظم و نسق میں ایرانی اعاجم کا عمل دخل ہوجانا لازمی تھا، حتٰی کہ عبا سیوں نے دارالخلافہ بغداد کو قرار دیا جو ایران سے بہت قریب تھا۔ انہوں نے ایرانیوں کو اتنی چھوٹ دی کہ وہ حکومت کے سارے معاملات میں آزادانہ کار روائیاں کرنے لگے۔ انہوں نے عرب اور عرب تہذیب کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور اس کو بالقصد کمزور کرنے کی تدبیریں کرنے لگے۔ عربی عصبیت کے کمزور ہونے کا نتیجہ یہ ہو اکہ ایرانی، ترکی، سریانی، رومی اوربربری عناصر حکومت اور سماج کے تمام معاملات پر چھاگئے۔ عربوں اور غیرعربوں میں رشتہ داریاں قائم ہوئیں۔ آریائی تہذیب اور سامی تہذیب کے ملنے سے زبان اور تہذیب میں نیا انقلاب آگیا۔ اکا سرہ کے پوتے اور قدیم جاگیرداروں کے بیٹے پھر سے ابھر آئے۔ انہوں نے اپنے آباو اجداد کی تہذیب کو ازسر نو زندہ کرنے کی کوشش شروع کردی۔
ان واقعات کا عربی زبان پر بہت گہرا اثر پڑا۔ متنبی (915-965ء) کے زمانہ میں عربی کی جو حالت ہو چکی تھی، اس کا اندازہ اس کے چند اشعار سے ہوتا ہے:
مَغانی الشعبِ طِیباً فیِ المغانی بِمنــزِلَۃِ الربیــعِ مِنَ الــزّمانِ
ولٰکــنّ الفتَـی العــربَّی فیھــا عزیب الوجہ والید واللسانِ
مَلاعِـبُ جِنّــۃ لوسَــارَ فیــھا سلیمـان لســار بتــر جمان
شرح دیوان المتنبی(بیروت1938) صفحہ 384
’’شعب بوان (ایران) کے مکانات عمدگی میں تمام مکانوں سےاسی طرح بڑھے ہوئے ہیں جس طرح زمانہ کی تمام فصلوں میں بہار کی فصل۔ مگر اس بستی میںایک عرب جوان (میں ) اپنے چہرہ، ہاتھ اور زبان کے لحاظ سے بالکل اجنبی ہے۔ سلیمان جن کے تابع جنات تھے (جو جانوروں تک کی بولیاں سمجھتے تھے ) اگر اس علاقہ میں آئیں تو انہیں اپنے ساتھ ترجمان رکھنا پڑے گا ‘‘۔ ترکوں اور کردوں نے بھی اس سلسلے میں ایرانیوں کی تقلید کی۔ مگر قرآن کی ادبی عظمت عربی زبان کےلیے ڈھال بنی رہی۔ اس قسم کی کوششوں سے وقتی ہلچل تو ضرور پیدا ہوئی مگر جلد ہی وہ دب کر رہ گئی اور عربی زبان میں کوئی مستقل تبدیلی پیدانہ کر سکی۔
خلیفہ متوکل (207-247ھ) کے بعد عجمی اقوام، ایرانی اور ترک، عرب علاقہ میں بہت زیادہ دخیل ہوگئے۔ 656ھ میں ہلاکو خاں نے بغداد کی سلطنت کو برباد کردیا۔ 898ھ میں اندلس کی عرب حکومت کو یورپی اقوام نے ختم کردیا۔ 923ھ میں مصر و شام سے فاطمیوں کا خاتمہ ہو گیا اور ان عرب علاقوں کی حکومت عثمانی ترکوں کے قبضہ میں چلی گئی۔ اسلامی حکومت کا دارالسلطنت قاہرہ کے بجائے قسطنطنیہ ہوگیا۔ سرکاری زبان عربی کے بجائے ترکی قرار پائی۔ عربی زبان میں غیر زبان کے الفاظ اور اسالیب کثرت سے آنے لگے۔
عالم عرب پر ساڑھے پانچ سوسال ایسے گزرے ہیں جب کہ تمام عرب دنیا عجمی بادشاہوں کے جھنڈے کے نیچے رہی، حتٰی کہ مغل، ترک اور ایرانی حکمراں عرب آثار تک کومٹانے پر تلے رہے۔ عربی کے کتب خانے جلائے گئے، مدرسے اجاڑے گئے، علماء کو ذلیل کیاگیا۔ عثمانی سلطنت نے اپنی ساری طاقت کے ساتھ عربوں کو ترک بنانے کی وہ مہم چلائی جس کو جمال الدین افغانی نے بجا طور پر ’’تتریک العرب‘‘ کہا ہے۔ مگر ان میں سے کوئی واقعہ بھی عربی زبان میںکوئی مستقل تبدیلی پیدا نہ کرسکا۔ بغداد و بخار ا میں تاتاریوں نے، شام میں صلیبیوں نے اور اندلس میں یورپی قوموں نے عربی زبان و ادب اور عرب تہذیب کو جو نقصانات پہنچائے وہ عربی زبان کا نام و نشان مٹانے کے لیے بالکل کافی تھے۔ اس کے بعد، دوسری زبانوں کی تاریخ کے مطابق، یہ ہونا چاہیے تھا کہ عربی زبان اپنی دیگر سامی زبانوں سے مل جاتی۔ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ترکوں کی جہالت اور ایرانیوں کا تعصب اگر حائل نہ ہوا ہوتا تو عربی زبان آج تمام دنیا کے مسلمانوں کی واحد زبان ہوتی۔ تاہم جہاں تک عرب علاقہ کا تعلق ہے، وہاں اس کا بدستور اپنی سابقہ شان میں باقی رہ جانا تمام تر قرآن ہی کا معجزہ تھا۔ قرآن کی عظمت نے اس مدت میں لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ عربی زبان سے اپنا تعلق حکومت و اقتدار کے علی الرغم باقی رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں بھی بے شمار ایسے لو گ پیدا ہوئے جنہوں نے عربی زبان و ادب کی خدمت کی۔ مثال کے طور پر ابن منظور (630-711ء)ابن خلد ون(732-808ھ) وغیرہ۔
نیپولین (1769-1821ء)کے قاہرہ میں داخلہ 1798ء کے بعد جب مصر میں پریس آیا اور تعلیم کا دور دورہ ہوا تو عربی زبان کو نئی زندگی ملی تاہم پچھلے سیکڑوں برس کے حالات نے یہ صورت حال پیدا کر دی تھی کہ مصر و شام کے دفاتر کی زبان ترکی وعربی کا ایک مرکب تھا۔
1882میں مصر پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد پھر صورت حال بدلی۔ انہوں نے عربی کے خلاف اپنی ساری طاقت لگادی۔ تمام تعلیم انگریزی کے ذریعہ لازمی کردی گئی۔ مختلف زبانیں سکھانے کے ادارے ختم کر دیے گئے۔ اسی طرح جن عرب علاقوں پر فرانسیسیوں کا غلبہ ہوا،وہاں انہوں نے فرانسیسی کو رواج دیا۔ مگر تقریباً سو سال تک انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کے غلبہ کے باوجود عربی زبان بد ستور اپنی اصل حالت پر باقی رہی۔ اس میں الفاظ کی وسعت ضرور پیدا ہوئی۔ مثال کے طور پر ٹینک کے لیے دبابہ کا لفظ رائج ہوا جو پہلے معمولی منجنیق کےلیے بولا جاتا تھا۔ اسی طرح طرز بیان میں وسعت پیدا ہوئی۔ مثلاً نومسلموں کے حالات پر آج ایک کتاب شائع ہوتو اس کا نام رکھا جاتا ہے لماذا اسلمنا جب کہ اس سے پہلے مسجع و مقفیٰ ناموں کا رواج تھا۔ اسی طرح بہت سے الفاظ معرّب ہو کر رائج ہوئے مثلاً دکتور (ڈاکٹر)۔ مگر اس سے اصل زبان میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اصل زبان بدستور وہی آج بھی ہے جو قرآن کے نزول کے وقت مکہ میں رائج تھی۔
ادبی ارتقاء
زبانوں میں تبدیلی کا دوسرا سبب ادیبوں اور مصنفوں کے کارنامے ہیں۔ جب بھی کوئی غیرمعمولی ادیب یا مصنف پیدا ہوتا ہے، وہ زبان کو کھینچ کر نئے لسانی اسلوب کی طرف لے جاتا ہے۔ اس طرح زبان تبدیلی اور ارتقاء کے مراحل طے کرتی رہتی ہے، اور بدلتے بدلتے کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ عربی زبان میں، اس کے برعکس، ایسا ہوا کہ قرآن نے اول روزہی ایسا بر تر معیار سامنے رکھ دیا کہ کسی انسانی ادیب کے لیے ممکن نہ ہو سکا کہ وہ اس سے اوپر جاسکے۔ اس لیے عربی زبان اسی اسلوب پر باقی رہی جو قرآن نے اس کے لیے مقرر کر دیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں، عربی زبان میں، قرآن کے بعد کوئی دوسرا ’’قرآن‘‘ نہ لکھا جاسکا۔ اس لیے زبان بھی قرآنی زبان کے سوا کوئی اور زبان نہ بن سکی۔
انگریزی زبان کی مثال لیجیے۔ ساتویں صدی عیسوی میں وہ ایک معمولی مقامی بولی کی حیثیت رکھتی تھی جس میں کسی علمی خیال کو ظاہر کرنا ممکن نہ تھا۔ پانچ سو برس سے بھی زیادہ عرصہ تک یہی حال رہا۔ انگریزی زبان کا معمار اول جا فر ے چاسر(Geoffrey Chaucer, 1340-1400) پیدا ہوا تو انگلستان کی درباری زبان فرانسی تھی۔ چا سر جو لاطینی، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں جانتا تھا، اس نے انگریزی میں اشعار کہے اور نظمیں لکھیں۔ اپنی غیر معمولی ذہانت اور دیگر زبانوں سے واقفیت کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب ہو سکا کہ انگریزی بولی کو آگے لے جائے اور اس کو ایک علمی زبان کا روپ دے۔ ہاسر (Ernest Hauser) کے الفاظ میں اس نے اپنی کامیاب نظموں کے ذریعہ انگریزی کو ایک مضبوط بڑھاوا ( Firm Boost)دیا۔ اس نے ایک بولی کو ایسی طاقت ور زبان بنا دیا جس میں ترقی کے نئے امکانات چھپے ہوئے تھے۔ (ریڈرز ڈائجسٹ۔ جون 1975)
دو سو برس تک چاسر انگریزی شاعروں اور ادیبوں کا رہنما بنا رہا۔ یہاں تک کہ ولیم شیکسپیئر(1558-1625)کا ظہور ہوا جس نے چا سر سے زیادہ بر ترادب کا نمونہ پیش کیا۔ اپنے اشعار اور ڈراموں کے ذریعہ اس نے انگریزی کو دوبارہ ایک نیا معیار عطا کیا۔ اب انگریزی زبان ایک قدم اور آگے بڑھی اور ترقی کی نئی شاہراہ پر سفر کرنے لگی۔ یہ دور تقریباً ایک سو برس تک رہا، یہاں تک کہ سائنس کے ظہور نے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب میں بھی، دوبارہ نئے معیار قائم کرنے شروع کیے۔ اب شعر کے بجائے نثر، اور افسانہ نویسی کے بجائے واقعہ نگاری کو اہمیت ملنے لگی۔ اس کے اثر سے انگریزی میں سائنٹفک اسلوب وجود میں آیا، سویفٹ (Jonathan Swift, 1667-1745) سے لے کر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ (T.S. Eliot, 1888-1965) تک درجنوں ادیب پیدا ہوئے جنہوں نے زبان کو وہ نیا معیار عطا کیا جس سے اب ہم گزر رہے ہیں ۔
یہی عمل تمام زبانوں میں ہواہے۔ ایک کے بعد دوسرا زیادہ بہتر لکھنے والا ادیب یا ادیبوں کا گروہ اٹھتا ہے او ر وہ زبان کو نیا اسلوب دے کر نئے مرحلے کی طرف لے جاتا ہے۔ اس طرح زبان بدلتی رهتی ہے یہاں تک کہ چند صدیاں گزرنے کے بعد اتنا فرق ہو جاتا ہے کہ اگلے لوگ پچھلی زبان کو لغات اور شرح کے بغیر سمجھ ہی نہ سکیں۔
اس کلیہ سے صرف ایک زبان مستثنیٰ ہے اور وہ عربی زبان ہے۔ یہی واقعہ قرآن کے اس دعويٰ کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ کوئی شخص قرآن جیسی کتاب وضع نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پچھلی صدیوں میں متعدد لوگوں نے قرآن کے جواب میں دوسرا قرآن لکھنے کی کوشش کی، مگر سب کے سب ناکام رہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ بن حبیب، طلیحہ بن خویلد، نضربن الحارث، ابن الراوندی، ابو العلا المعری، ابن المقفع، متنبی وغیرہ۔ اس سلسلے میں ان کی جو عبارتیں نقل کی گئی ہیں ، وہ اتنی سطحی ہیں کہ قرآن کے مقابلہ میں ان کو رکھنا بھی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً مسیلمہ کے ’’قرآن ‘‘ کا ایک حصّہ یہ تھا :
يَا ضِفْدَعُ بَنَتَ الضِّفْدَعِينْ، نَقِّي كَمْ تَنِقِّينْ، لَا الْمَاءَ تُكَدِّرِينْ، وَلَا الشَّارِبَ تَمْنَعِينْ (البدایۃ والنہایۃ، جلد9، صفحہ473)۔ یعنی، اے مینڈ کی جتنا ٹراسکے ٹرالے، تونہ پانی کو گدلا کرے گی نہ پینے والوں کو رو کے گی۔
اسی طرح مسیلمہ کا ایک اور ’’الہام‘‘ یہ تھا:لَقَدْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَى الْحُبْلَى، أَخْرَجَ مِنْهَا نَسَمَةً تَسْعَى، مِنْ بَيْنَ صِفَاقٍ وَحَشًى (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ577)۔ يعني،اللہ نے حاملہ عورت پر بڑا انعام کیا ہے، اس کے اندرسے دوڑتی ہوئی جان نکالی، جھلی اور پیٹ کے اندر سے۔
تاہم اس سے بھی زیادہ بڑا ثبوت وہ مسلسل واقعہ ہےجس کو فرنچ مستشرق ارنسٹ ریناں (Ernest Renan, 1823-1892)نے ایک لسانی عجوبہ قرار دیا ہے جس طرح دوسری زبانوں میں زبان آور پیدا ہوئے۔ اسی طرح عربی میں بھی شعرا اور ادبا اور مصنفین پیدا ہوئے اور پیدا ہو رہے ہیں، مگر اس پوری مدت میں کوئی ایسا زبان داں نہ اٹھا جو قرآن سے بر ترادب پیش کر کے عربی میں نیا لسانی معیار قائم کرتا اور زبان کونئے مرحلہ کی طرف لے جاتا۔ اس لیے زبان اسی مرحلۂ ترقی پر قائم رہی جو قرآن نے اس کےلیے مقرر کردیا تھا۔ اگر دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوتے جو قرآن کے مقابلہ میں زیادہ اعلیٰ ادب کا نمونہ پیش کرتے تو نا ممکن تھا کہ زبان ایک مقام پر رکی رہے۔
قرآن کی مثال عربی زبان میں ایسی ہی ہے جیسے کسی زبان میں آخری اعلیٰ ترین ادیب اول روزہی پیدا ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی ایسا ادیب نہیں ابھرے گا جو زبان میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکے۔ قرآن کے نزول کے زمانہ میں جو زبان عرب میں رائج تھی،اس کو ترقی دے کر قرآن نے اعلٰی ترین ادب کی شکل میں ڈھال دیا۔ اس کے بعد اس میں تبدیلی کا کوئی سوال نہ تھا۔
قرآن نے عربی کے روایتی اسالیب پر اضافے کر کے اس میں تو سیع کا دروازہ کھولا۔ مثال کے طور پر سورہ اخلاص میں لفظ ’’احد‘‘ کا استعمال۔ عربی زبان میں اس سے پہلے یہ لفظ مضاف مضاف الیہ کے طور پر استعمال ہوتا آیا تھا جیسے یوم الاحد (ہفتے کا دن ) یا نفی عام کے لیے جیسے ما جاء نی احدٌ (میرے پاس کوئی نہیں آیا)وغیرہ مگر قرآن نے یہاں لفظ احد کو ہستی باری تعالیٰ کے لیے وصف کے طور پر استعمال کیا جو عربی زبان میں غیر معمولی تھا۔
عربی میں دوسری زبانوں کے الفاظ شامل کیے۔ مثلاً استبرق (فارسی) قسورہ (حبشی) صراط (یونانی)یم (سریانی )غساق (ترکی) قسطاس(رومی) ملکوت (آرامی) کافور (ہندی) وغیرہ۔ مکہ کے مشرکین نے جب کہا تھا کہ وَمَا الرَّحْمَنُ ( الفرقان،25:60)تو اس کا لسانی پس منظر یہ تھا کہ رحمان کا لفظ عربی نہیں ہے، یہ سبائی اور حمیری زبان سے آیا ہے۔ یمن اور حبشہ کے نصرانی اللہ کو رحمٰن کہتے تھے۔ قرآن نے اس لفظ کی تعریب کر کے اس کو اللہ کے لیے استعمال کیا تو مکہ والوں کو وہ اجنبی محسوس ہوا۔ انہوں نے کہا’’رحمان کیا ‘‘ قرآن میں غیرعربی الاصل الفاظ ایک سو سے زیادہ شمار کیے گئے ہیں جو فارسی، رومی، نبطی، حبشی، عبرانی، سریانی قبطی وغیرہ زبانوں سے لیے گئے ہیں ۔
قرآن اگر چہ قریش کی زبان میں اترا۔ مگر دوسرے قبائل عرب کی زبان بھی اس میں شامل کی گئی۔ مثلاً قرآن میں ’’فاطر‘‘ کا لفظ آیا ہے، عبد اللہ بن عباس جو ایک قریشی مسلمان تھے، کہتے ہیں :كُنْتُ لَا أَدْرِي مَا فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، حَتَّى أَتَانِي أَعْرَابِيَّانِ يَخْتَصِمَانِ فِي بِئْرٍ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ:أَنَا فَطَرْتُهَا، أَيْ : بَدَأْتُهَا(تفسیر ابن کثیر، جلد6، صفحہ 471)۔ میں فاطر السماوات والارض کے معنی نہیں سمجھتا تھا یہاں تک کہ دو اعرابی میرے پاس جھگڑتے ہوئے آئے، ان میں سے ایک نے کہا:اَنَا فَطَرْتُهَا۔یعنی میں نے کنواں کھود نا شروع کیاتھا۔ تب میں اس کو سمجھا۔
ابوہریرہ کہتے ہیں :وَالله إِنْ سَمِعْتُ بِالسِّكِّينِ إِلَّا يَوْمَئِذٍ، وَمَا كُنَّا نَقُولُ إِلَّا المُدْيَةُ (صحيح البخاري، حديث نمبر 3427)۔ یعنی،میں نے سکین (چھری) کا لفظ پہلی بار قرآن کی آیت (12:31) سے جانا۔ اس سے پہلےہم اس کو مدیّہ کہا کرتے تھے۔
بہت سے الفاظ ایسے تھے جن کے مختلف لہجے عرب قبائل میں رائج تھے۔ قرآن نے ان میں سے فصیح تر لفظ کا انتخاب کر کے اس کو اپنے ادب میں استعمال کیا۔ مثلاً قریش کے یہاں جس مفہوم کے لیے اعطٰی کا لفظ تھا اس کے لیے حمیرین کے یہاں انطٰی بولا جاتا تھا۔ قرآن نے انطیٰ کو چھوڑ کر اعطیٰ کا انتخاب کیا۔ اسی طرح شناتر کی جگہ اصابع، کتع کی جگہ ذئب وغیرہ۔ قرآن اصلاًقریش کی زبان میںاترا ہے۔ مگر بعض مقامات پر قریش کی زبان کو چھوڑ کر کسی دوسرے قبیلے کا اسلوب اختیار کیاگیا ہے۔ مثال کے طور پر لا یلتکم من اعمالکم بنی عبس کی زبان ہے(الاتقان فی علوم القرآن، جلد3، صفحہ 895)۔
اس طرح قرآن نے الفاظ اور اسالیب کو نئی وسعتیں اور نیا حسن دے کر ایک اعلٰی عربی ادب کا نمونہ قائم کر دیا۔ یہ نمونہ اتنا بلند تھا کہ اس کے بعد کوئی ادیب اس سے بر تر معیار پیش نہ کرسکا۔ اس لیے عربی زبان ہمیشہ کے لیے قرآن کی زبان ہو کر رہ گئی۔
عربوں میں جو امثال اور تعبیرات قدیم زمانہ سے رائج تھیں، ان کو قرآن نے زیادہ بہتر پیرایہ میں ادا کیا۔ مثلاً زندگی کی بے ثباتی کو قدیم عربی شاعر كعب بن زهيرنے ان لفظوں میں نظم کیا تھا :
كلُّ ابنِ أُنثى، وإن طالتْ سَلامَتُه يَوْماً على آلةٍ حَدْباءَ مَحمولُ
ہر آدمی خواہ وہ کتنے ہی عرصہ تک صحیح و سالم رہے، ایک دن بہر حال وہ تابوت کے اوپر اٹھا یا جائے گا۔ قرآن نے اس تصور کو ان لفظوں میں ادا کیا:کُلّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوت ( 3:185)۔ یعنی، ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
قدیم عرب میں قتل وغارت گری سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ اس صورت حال نے چند فقرے پیدا کیے تھے جو اس زمانہ میں فصاحت کا کمال سمجھے جاتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ قتل کا علاج قتل ہے۔ اس تصور کو انہوں نے حسب ذیل مختلف الفاظ میں موزوں کیا تھا
قَتْلُ الْبَعْضِ اِحْیَاءٌ لِلْجَمْعِ بعض لوگوں کا قتل سب کی زندگی ہے
اَکْثِرُو االْقَتْلَ لیُقَلِّلَ الَقَتْلُ قتل کی زیادتی کر و تاکہ قتل کم ہو جائے
اَلْقَتْلُ اَنْفیٰ لِلْقَتْلِ قتل کو سب سے زیادہ روکنے والی چیز قتل ہے
قرآن نے اس تصور کو ان لفظوں میں ادا کیا:وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(2:179)۔یعنی، اور اے عقل والو، قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے تاکہ تم بچو۔
قرآن سے پہلے عربی میں اور دنیا کی تمام زبانوں میں شعر کو بلند مقام حاصل تھا۔ لوگ شعر کے اسلوب میں اپنے خیالات کو ظاہر کرنا کمال سمجھتے تھے۔ قرآن نے اس عام روش کو چھوڑ کر نثر کا اسلوب اختیار کیا۔ یہ واقعہ بجائے خود قرآن کے کلام اِلٰہی ہونے کا ثبوت ہے۔ کیوں کہ ساتویں صدی کی دنیا میں صرف زندہ اور ہمیشہ رہنے والاخداہی اس بات کو جان سکتا تھا کہ انسانیت کے نام ابدی کتاب بھیجنے کے لیے اسے نثر کا اسلوب اختیار کرنا چاہیے، نہ کہ شعر کا، جو مستقبل میں غیراہم ہو جانے والا ہے۔
اسی طرح پہلے کسی بات کو مبالغہ کے ساتھ کہنا ادب کا کمال سمجھا جاتا تھا۔ قرآن نے تاریخ ادب میں پہلی بار واقعہ نگاری کو رواج دیا۔ پہلے جنگ اور عاشقی سب سے زیادہ مقبول مضامین تھے۔ قرآن نے اخلاق، قانون، سائنس، نفسیات، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ وغیرہ مضامین کو اپنے اندر شامل کیا۔ پہلے قصہ کہانی میں بات کہی جاتی تھی، قرآن نے براہ راست اسلوب کو اختیار کیا۔ پہلے قیاسی منطق (syllogism) کو ثبوت کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا، قرآن نے علمی استدلال کی حقیقت سے دنیا کو باخبر کیا۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ساری چیزیں قرآن میں اتنے بلند اسلوب کلام میں بیان ہو ئیں کہ اس کے مثل کوئی کلام پیش کرنا انسان کے امکان سے باہر ہے۔
قدیم عرب میں یہ مقولہ تھا کہ أَعْذَبُ الشِّعْرِ أَكْذَبُهُ (تاريخ النقد الادبي عند العرب للدكتور احسان عباس، صفحہ 170)۔ یعنی، سب سے زیادہ میٹھا شعر وہ ہے جس میں سب سے زیادہ جھوٹ ہو۔ مگر قرآن نے ایک نیا طر زبیان (الاحزاب، 33:70؛الرحمٰن، 55:4) پیدا کیا، جس میں فرضی مبالغوں کے بجائے واقعیت تھی، اس نے حقیقت پسند ادب کا نمونہ پیش کیا۔ قرآن عربی زبان و ادب کا حاکم بن گیا۔ ادب جاہلی کا جو سرمایہ آج محفوظ ہے، وہ سب قرآن کی زبان کو محفوظ رکھنے اور اس کو سمجھنے کے لیے جمع کیا گیا۔ اسی طرح صرف و نحو، معانی و بیان، لغت و تفسیر، حدیث وفقہ، علم کلام، سب قرآن کے معانی و مطالب کو حل کرنے اور اس کے اوامر و نواہی کی شرح کرنے کے لیے وجود میں آئے۔ حتٰی کہ عربوں نے جب تاریخ و جغرافیہ اور دیگر علوم کو اپنا یا تو وہ بھی قرآن کے احکام و ہدایت کو سمجھنے اور ان پر پوری طرح عمل پیراہونے کی ایک کوشش تھی۔ قرآن کے سوا تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیںکہ کسی ایک کتاب نےکسی قوم کو اتنا زیادہ متاثر کیا ہو۔
قرآن نے عربی زبان میں تصرف کرکے جو اعلیٰ تر ادب تیار کیا، وہ اتنا ممتاز اور بد یہی ہے کہ کوئی بھی عربی جاننے والا شخص کسی بھی دوسری عربی کتاب کی زبان سے قرآن کی زبان کا تقابل کر کے ہر وقت اسے دیکھ سکتا ہے۔ قرآن کا اِلٰہی ادب عام انسانی ادب سے اتنا نمایاں طورپر فائق ہے کہ کوئی عربی داں اس کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہاں ہم مثال کے لیے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس سے اس فرق کا بخوبی اندازہ ہو سکے گا۔ طنطاوی جو ہری ( 1870-1940) لکھتے ہیں :
’’13جون 1932کو میری ملاقات مصری ادیب استاذ کا مل گیلانی (1897-1959) سے ہوئی۔ انہوں نے ایک عجیب واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا، میں امریکی مستشرق فنکل (Finkel, Joshua 1904-1983)کے ساتھ تھا۔ میرے اوران کے درمیان ادبی رشتہ سے گہرے تعلقات تھے۔ ایک دن انہوں نے میرے کان میں چپکے سےکہا ’’کیا تم بھی انہیںلوگوں میں ہو جو قرآن کو ایک معجزہ مانتے ہیں ‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ایک معنی خیز ہنسی ہنسے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس عقیدہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ محض تقلید اً مسلمان اس کو مانتے چلے جا رہے ہیں ۔ ان کاخیال تھا کہ انہوں نے ایسا تیر مارا ہے جس کا کوئی روک نہیں۔ ان کا یہ حال دیکھ کر مجھے بھی ہنسی آگئی۔ میں نے کہا قرآن کی بلاغت کے بارے میں کوئی حکم لگانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ کیا ہم اس جیسا کلام مرتب کر سکتے ہیں ۔ تجربہ کر کے خود بخود اندازہ ہو جائے گا کہ ہم ویسا کلام تیار کرنے پر قادر ہیں یا نہیں۔
اس کے بعد میں نے استاد فنکل سے کہا کہ آئیے ہم ایک قرآنی تصور کوعربی الفاظ میں مرتب کریں۔ وہ تصور یہ کہ ’’جہنم بہت وسیع ہے ‘‘انہوں نے اس رائے سے اتفاق کیا اور ہم دونوں قلم کا غذ لے کر بیٹھ گئے۔ ہم دونوں نے مل کر ’’تقریباً بیس جملے عربی کے بنائے جس میں مذکورہ بالا مفہوم کو مختلف الفاظ میں اد ا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ وہ جملے یہ تھے :
ان جھنم واسعۃ جدا
ان جھنم لأوسع مما تظنون
ان سعۃ جھنم لا یتصورھا عقل الانسان
ان جھنم لتسع الدنیا کلھا
ان الجن والا نس اذا دخلو اجھنم لتسعھم ولا تضیق بھم
کل و صف فی سعۃ جھنم لایصل الٰی تقریب شئی من حقیقتھا
ان سعۃ جھنم لتصغر امامھا سعۃ السماوات والارض
کل ما خطرببالک فی سعۃ جھنم فانھالأ رحب منہ واو سع
ستر ون من سعۃ جھنم مالم تکونوا لتحلموابہ اوتتصوروہ
مھماحاولت ان تتخیل سعۃ جھنم فانت مقصرولن تصل الٰی شئی من حقیقتھا
ان البلاغۃ المعجزۃ لتقصرد تعجز اشد العجز عن وصف سعۃ جھنم
ان سعۃ جھنم قد تخطت احلام الحالمین وتصور المتصورین
متی امسکت بالقلم وتصدیت لوصف سعۃ جھنم احسست بقصورك وعجزك
ان سعۃ جھنم لایصفھا وصف ولا یتخیلھا وھم تدوربحسبان
کل وصف لسعۃ جھنم انما هو فضول و ھذیان
ہم دونوں جب اپنی کوشش مکمل کر چکے اور ہمارے پاس مزید عبارت کے لیے الفاظ نہ رہے تو میں نے پروفیسر فنکل کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا ’’اب آپ پر قرآن کی بلاغت کھل جائے گی۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’ جب کہ ہم اپنی ساری کوشش صرف کر کے اس مفہوم کے لیے اپنی عبارتیں تیار کر چکے ہیں ۔ پروفیسر فنکل نے کہا:کیا قرآن نے اس مفہوم کو ہم سے زیادہ بلیغ اسلوب میں ادا کیا ہے۔ میں نے کہا ہم قرآن کے مقابلے میں بچے ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا ‘ قرآن میں کیا ہے۔ میں نے سورہ ق کی آیت نمبر30پڑھی:یَوْمَ نَقُولُ لَجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَئتِ وَتَقُوْلُ ھَل مِن مَزِیدْ(جس دن ہم جہنم سے کہیں گے، کیا تو بھر گئی۔ اور وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے)۔ یہ سن کر ان کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ اس بلاغت کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا :
صدقت نعم صدقت وانا اقررلك زلك مغتبطامن کل قلبی(آپ نے سچ کہا بالکل سچ۔ میں کھلے دل سے اس کا اقرار کرتاہوں)۔
میں نے کہا:یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آپ نے حق کا اعتراف کرلیا۔ کیوں کہ آپ ادیب ہیں اور اسالیب کی اہمیت کا آپ کو پورا اندازہ ہے۔ یہ مستشرق انگریزی، جرمن، عبرانی، اور عربی زبانوں سے بخوبی واقف تھا۔ لٹریچر کے مطالعہ میں اس نے اپنی عمر صرف کردی تھی۔
الشیخ طنطاوی جو ہری، الجواہرفی تفسیر القرآن الکریم ‘ مصر 1351ھ ،جلد 23، صفحات 111-12
اصحاب رسول
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سادہ لفظوں میں محض اصحاب نہ تھے بلکہ وہ خود تاریخ رسالت کا لازمی جزء تھے۔ اللہ نے ان کو اس لیےمنتخب کیا تھا کہ وہ اللہ کے رسول کےمعاون بنیں۔ وہ آپ کے شریک کا ر بن کر اس ربانی مشن کو تکمیل تک پہنچا ئیں جو آپ کے ذریعہ پورا کیا جانا مطلوب تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اصحاب رسول کے بارے میں فرمایا:ان کواللہ نے اپنے رسول کی صحبت کے لیے اور اپنے دین کی اقامت کے لیے چن لیا تھا (اخْتَارَهُمُ اللهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ، وَإِقَامَةِ دِينِهِ)مسند احمد، حدیث نمبر 12375۔
اصحاب رسول کو ان کی کن خصوصیات نے یہ تاریخی مقام دیا، اس سلسلے میں اس کے چند پہلو یہاں مختصراً درج کیے جاتے ہیں ۔
دین ان کے لیے محبوب چیز بن گیاتھا
اصحاب رسول کی خصوصیت قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ ایمان ان کے لیے ایک محبوب شئے بن گیا تھا (الحجرات، 49:7) محبت کسی چیز سے تعلق کا آخری درجہ ہے۔ اور جب کسی چیز سے محبت کے درجہ کا تعلق پیدا ہو جائے تو وہ آدمی کے لیے ہر چیز کا بدل بن جا تا ہے۔ اس کے بعد آدمی کا ذہن اس چیز کے بارے میں اس طرح متحرک ہو جاتا ہے کہ آدمی بغیر بتائے ہو ئے اس سے متعلق ہر بات کو جان لیتا ہے۔ اس کو خواہ معروف معنوں میں کوئی نقشہ کا رنہ دیا گیا ہو مگر اس کا ذہن خود بتادیتا ہے کہ اس کو اپنی محبوب شئے کے لیے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے (التوبہ، 9:46)
محبت کی سطح کے تعلق کا مطلب ہے دل چسپی کی سطح کا تعلق۔ یعنی یہ کہ آدمی اسلام کے نفع نقصان کو خود اپنا نفع نقصان سمجھنے لگے۔ اصحاب رسول کو اسلام سے اسی قسم کا تعلق پید ا ہو گیا تھا۔ وہ اسلام کے فائدے سے اسی طرح خوش ہوتے تھے جس طرح کوئی شخص اپنے بیٹے کی کا میابی سے خوش ہوتاہے۔ اسلام کو کوئی نقصان پہنچے تو وہ اسی طرح بے چین ہو جاتے تھے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کے متعلق نا خوش گوار خبر سن کر تڑپ اٹھتا ہے اوراس وقت تک اسے چین نہیں آتا جب تک وہ اس کی تلافی نہ کر لے۔
کسی چیز سے محبت کے درجے کا تعلق پید ا ہو جائے تو آدمی کا ذہن اس کے بارے میں پوری طرح جاگ اٹھتا ہے۔ وہ اس کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اس کی ضرورت اور تقاضوں کو وہ بتائے بغیر جان لیتا ہے۔ اس کی بات کو پانے کے لیے کوئی نفسیاتی گرہ اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ اس کے راستے میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے وہ کسی چیز کو عذر نہیں بناتا۔
جب آدمی کسی معاملہ کو اپنا معاملہ سمجھ لے تو اس کے بعد اس کو نہ زیادہ بتانے کی ضرورت ہوتی اور نہ زیادہ سمجھانے کی۔ اس کا قلبی تعلق اس کے لیے ہر دوسری چیز کا بدل بن جاتاہے۔ وہ کسی معاوضہ کی امید کے بغیر یک طرفہ طور پر اپنا سب کچھ اس کے لیے لٹا دیتا ہے۔ اس کی خاطر کھونا بھی اس کو پانا معلوم ہوتاہے۔ اس کی خاطر بے قیمت ہو جانا اس کی نظر میں سب سے زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ ہر دوسری مصلحت کو نظر انداز کر دیتاہے۔ اس کے لیے وہ ہر تکلیف کو اس طرح سہہ لیتا ہے جیسے کہ وہ کوئی تکلیف ہی نہ ہو۔
اصحاب رسول کوئی غیر معمولی انسان نہ تھے۔ وہ کوئی ماو رائے بشر مخلوق نہیں تھے۔ ان کی خصوصیت صرف یہ تھی کہ ’’محبت ‘‘ کے درجہ کا تعلق جو عام انسانوں کو صرف اپنے آپ سے ہوتا ہے وہی تعلق ان کو دین و ایمان سے ہو گیا تھا۔ عام آدمی اپنے مستقبل کی تعمیر کو جو اہمیت دیتا ہے وہی اہمیت وہ اسلام کے مستقبل کی تعمیر کو دینے لگے تھے۔ وہ دین کے لیے اپنا حصہ اداکرنے کو اتناہی ضروری سمجھنے لگے تھے جتنا کوئی شخص اپنی ذاتی دل چسپی کے معاملہ میں اپنے آپ کو اور اپنے اثاثہ کو استعمال کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ان کی یہی خصوصیت تھی کہ وہ تاریخ کے وہ گروہ بنے جس نے اسلام کو عظیم ترین کامیابی کے مقام تک پہنچایا۔
پیغمبر کو آغاز تاریخ میں پہچاننا
صحابہ کی یہ انو کھی صفت تھی کہ انہوں نے اپنے ایک معاصر رسول کوپہچانا اور اس کا ساتھ دیا۔ یہ کام اتنا مشکل ہے کہ معلوم تاریخ میں جماعت کی سطح پر صرف ایک بار پیش آیا ہے۔ قدیم تاریخ کے ہر دور میں یہ قصہ پیش آیا کہ رسولوں کے مخاطبین نے ان کا انکار کیا اور ان کا مذاق اڑایا۔ بائبل میں ہے کہ ’’تم نے میرے نبیوں کو ناچیز جانا‘‘ یہ نبیوں کو نا چیز جاننے والے کون لوگ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو وحی و رسالت کو مانتے تھے۔ نبیوں کے نام پر ان کے یہاں ادارے قائم تھے اور بڑے بڑے جشن ہوتے تھے۔ مگر یہ سب کچھ قدیم نبیوں کے نام پر ہوتا تھا۔ جہاں تک وقت کے نبی کا سوال تھا، اس کے لیے ان کے پاس استہزا و تمسخر کے سوا کچھ نہ تھا۔
یہود نے حضرت مسیح کا انکار کیا، حالانکہ وہ موسیٰ کو مانتے تھے۔ نصاریٰ نے حضرت محمد کا انکار کیا، حالانکہ وہ حضرت مسیح کی پر ستش کی حدتک عزت کرتے تھے۔ اسی طرح قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر مارے اور آپ کو گھر سے نکالا، حالانکہ وہ حضرت ابراہیم کے وارث ہونے پر فخر کرتے تھے۔
اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم نبی کی نبوت تاریخی روایات کے نتیجہ میں ثابت شدہ نبوت بن جاتی ہے۔ وہ کسی قوم کے قومی اثاثہ کا ایک لازمی جزء ہوتی ہے۔ کسی قوم میں آنے والا نبی اس کی بعد کی نسلوں کے لیے ایک طرح کا مقدس ہیروبن جاتاہے۔ اس کو ماننا اپنے قومی تشخص کو قائم کرنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے نبی کو کون نہیں مانے گا۔ مگر وقت کے نبی کی نبوت ایک متنازعہ نبوت ہوتی ہے۔ وہ التباس کے پردہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کو ماننے کے لیے ظواہر کا پردہ پھاڑ کر حقیقت کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کا ساتھ دینے کےلیے اپنی انا کو دفن کرنا ہوتاہے۔ اس کے مشن کی راہ میں اپنا سرمایہ خرچ کرنا ایک ایسے مشن کی راہ میں اپنا سرمایہ خرچ کرنا ہوتا ہے جس کا بر سرحق ہونا ابھی اختلافی ہو، جس کے بارے میں تاریخ کی تصدیقات ابھی جمع نہ ہوئی ہوں۔ صحابہ کرام وہ لوگ تھےجنہوں نےمعاصر رسول کو اس طرح مانا جس طرح کوئی شخص تاریخی رسول کو مانتاہے۔
غزوۂ خندق میںجب محاصرہ شدید ہوا اور معمولی ضروریات کی فراہمی نا ممکن ہو گئی تو ایک مسلمان کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا کہ محمد ہم سے وعدہ کرتے تھے کہ ہم کسریٰ اور قیصر کے خزانے حاصل کریں گے اور اب یہ حال ہے کہ ہمارا ایک شخص بیت الخلا جانے کے لیے بھی محفوظ نہیں (كَانَ مُحَمَّدٌ يَعِدُنَا أَنْ نَأْكُلَ كُنُوزَ كِسْرَى وَقَيْصَرَ، وَأَحَدُنَا لَا يَأْمَنُ أَنْ يَذْهَبَ إلَى الْغَائِطِ) سیرت ابن ہشام، جلد 2،صفحہ 222۔ غزوۂ خندق کے وقت رسول اللہ کا وعدہ محض ایک لفظی وعدہ تھا، آج یہ ایک تاریخی واقعہ بن چکا ہے۔ صحابہ نے اس وعدہ کے تاریخی واقعہ بننے سے پہلے رسول کی عظمت کو مانا۔ ہم آج اس وعدہ کے تاریخی واقعہ بننے کے بعد رسول کی عظمت کو مان رہے ہیں۔ دونوں كے ماننے میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ایک کو دوسرے سے کوئی نسبت نہیں۔ آج ایک غیر مسلم محقق بھی پیغمبر اسلام کو تاریخ کا سب سے بڑا انسان کہنے پر مجبورہے مگر آپ کی زندگی میں آپ کی عظمت کو پہچا ننا اتنا مشکل تھا کہ صرف وہی لوگ اس کو پہچان سکتے تھے جن کو خدا کی طرف سے خصوصی توفیق ملی ہو۔
قرآن کو دور نزاع میں اپنانا
سیرت کی کتابوں میں صحابہ کا دعوتی طریقہ یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ قرآن کے نازل شدہ حصہ کو لے لیتے اور اس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنا تے تھے (وَعَرَضَ عَلَيْهِمُ الإِسْلامَ وَتَلا عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ) طبقات ابن سعد، جلد1، صفحہ 170۔چنانچہ مدینہ میں جو صحابہ تبلیغ کے ليے گئے ان کو وہاں مقری (قرآن پڑھنے والا ) کہا جاتا تھا(سيرت ابن هشام، جلد 1، صفحه 434)۔ یہ بات آج کے ماحول میں بظاہر انوکھی معلوم نہیںہوتی۔ لیکن اگر چودہ سو سال کی تاریخ کو حذف کر کے آپ اسلام کے ابتدائی دورمیں پہنچ جائیں اور اس وقت کے حالات میں اسے دیکھیں تو یہ اتنا انوکھا واقعہ معلوم ہوگا کہ نہ اس سے پہلے وہ کبھی جماعتی سطح پر پیش آیا اور نہ اس کے بعد۔
آج جب ہم لفظ ’’قرآن‘‘ بولتے ہیں تو یہ ہمارے لیے ایک ایسی عظیم کتاب کا نام ہوتا ہے جس نے چودہ صدیوں میں اپنی عظمت کو اس طرح مسلّم کیا ہے کہ آج کروروں انسان اس کو خدا کی کتاب ماننے پر مجبور ہیں ۔ آج اپنے آ پ کو قرآن سے منسوب کرنا کسی آدمی کے لیے فخر و اعزاز کی بات بن چکی ہے۔ مگر زمانۂ نزول میں لوگوں کے نزدیک اس کی یہ حیثیت نہ تھی۔ عرب میں بہت سے لوگ تھے جو یہ کہتے تھے کہ محمد نے پرانے زمانہ کے قصے کہانیوں کو جوڑ کر ایک کتاب بنالی ہے۔ ہم چاہیں تو ہم بھی ایسی ایک کتاب بنالیں:
لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ. اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ(الانفال،8:31)
کوئی قرآن میں تکرار کو دیکھ کر کہتا کہ یہ کوئی خاص کتاب نہیں۔ محمد کے پاس بس چند باتیں ہیں ، انہیں کو وہ صبح شام دہراتے رہتے ہیں:وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْہِ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا (25:5)۔
ایسی حالت میں قرآن کو پہچاننا گویا مستقبل میں ظاہر ہونے والے واقعہ کو حال میں دیکھنا تھا۔ یہ ایک چھپی ہوئی حقیقت کو اس کے ثابت شدہ بننے سےپہلے پالیناتھا۔ پھر ایسے وقت میں قرآن کو کتاب دعوت بنا لینا اور بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ کیونکہ اس کے لیے اپنی عظمت کو کھو کر دوسرے کی عظمت میں گم ہونا پڑتاہے۔ یہ اپنے مقابلہ میں دوسری شخصیت کا اعتراف کرنا ہے، اور وہ بھی ایسی شخصیت کا جس کی حیثیت ابھی مسلّم نہ ہوئی ہو۔ عرب کے مشہو ر شاعر لبید نے اسلام قبول کیا اور شاعری چھوڑدی۔ کسی نے پوچھا کہ تم نے شاعری کیوں چھوڑدی۔لبید نے کہا:ابعد القرآن (کیاقرآن کے بعد بھی )۔آج کو ئی آدمی شاعری چھوڑ کر یہ جملہ کہے تو اس کو زبردست عظمت اور مقبولیت حاصل ہوگی۔ مگر لبید کےقول میں آج کےشاعر کے قول میں کوئی نسبت نہیں۔ کیونکہ آج کا شاعر تاریخ کے اختتام پر یہ جملہ کہہ رہا ہے جب کہ لبید نے تاریخ کے آغاز پر یہ جملہ کہاتھا۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے:
لَايَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰئِكَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا (57:10)۔یعنی، تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔
غیر قائم شدہ صداقت کے لیے مال لٹانا
ابن ابی حاتم نے ایک صحابی کا واقعہ ان الفاظ میں نقل کیاہے:
عن عبد اللہ بن مسعود لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ قَالَ أَبُو الدَّحْدَاحِ الْأَنْصَارِيُّ:يَا رَسُولَ اللهِ، وَإِنَّ اللهَ لَيُرِيدُ مِنَّا الْقَرْضَ؟ قَالَ:نَعَمْ يَا أَبَا الدَّحْدَاحِ قَالَ:أَرِنِي يَدَك يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ:فَنَاوَلَهُ يَدَهُ. قَالَ:فَإِنِّي قَدْ أَقْرَضْتُ رَبِّي حَائِطِي، وَلَهُ حَائِطٌ فِيهِ سِتُّمِائَةِ نَخْلَةٍ، وَأُمُّ الدَّحْدَاحِ فِيهِ وَعِيَالُهَا. قَالَ:فَجَاءَ أَبُو الدَّحْدَاحِ فَنَادَاهَا يَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ. قَالَتْ:لَبَّيْك، قَالَ:اخْرُجِي فَقَدْ أَقْرَضْتُهُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ (تفسیر ابن ابی حاتم، حدیث نمبر 2430)،وفي رواية:أَنَّهَا قَالَتْ لَهُ:رَبِحَ بَيْعُك يَا أَبَا الدَّحْدَاحِ. وَنَقَلَتْ مِنْهُ مَتَاعَهَا وَصِبْيَانَهَا وَإِنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَدَاحٍ فِي الْجَنَّةِ لِأَبِي الدَّحْدَاحِ (تفسیر ابن کثیر، جلد 8، صفحه48)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قرآن میںیہ آیت اتری کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تو حضرت ابود حداح انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:اے خدا کے رسول، کیا اللہ واقعی ہم سے قرض چاہتا ہے۔آپ نے فرمایا ہاں اے ابودحداح۔ انہوں نے کہا اے خدا کے رسول، اپنا ہاتھ لائیے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا۔ ابو دحداح نے کہا کہ میں نے اپنا باغ اپنے رب کو قرض میں دے دیا۔ ان کا ایک کھجوروں کا باغ تھا جس میں چھ سودرخت تھے۔ اس وقت ان کی بیوی ام دحداح اپنے بچوں کے ساتھ باغ میں تھیں۔ وہ باغ میں واپس آئے اور آوازدی کہ اے ام دحداح۔ انہوں نے کہا ہاں۔ ابو د حداح نے کہا باغ سے نکلو، کیونکہ اس کو میں نے اپنے رب کو قرض میں دے دیا۔ بیوی نے کہا:اے ابو د حداح آپ کی تجارت کا میاب رہی۔ اور اس کے بعد اپنے سامان اور اپنے بچوں کو لے کر باغ سے نکل آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابو د حداح کے لیے جنت میں کتنے ہی شاداب اور پھل دار درخت ہیں۔
یہ ایک نمائندہ واقعہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام جس دین پر ایمان لائے تھے اس دین کی خاطر قربانی پیش کرنے کے لیے وہ کس قدر بے چین رہتے تھے۔ یہاں دوبارہ ذہن میںرکھ لیجیے کہ یہ واقعہ چودہ سو سال پہلے کا ہے۔ آج کوئی شخص دین کے نا م پر اس قسم کا انفاق کرے تو عین ممکن ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کے درمیان مقبولیت کی صورت میں اس کو بہت جلد اپنے انفاق سے زیادہ بڑی چیز مل جائے۔ مگر اصحاب رسول کے زمانے میں صورت حال بالکل مختلف تھی۔ اس وقت دین کی راہ میں اپنا مال لٹانا ماحول میں دیوانگی کا خطاب پانے کا ذریعہ تھا۔ وہ اونچے میناروں پر نمایاں ہونے کے بجائے بنیاد کی زمین میں دفن ہونے کے ہم معنی تھا۔ اس وقت ایسا اقدام ایک ایسی تحریک کے خانہ میں لکھا جانے والا تھا جس کی صداقت ابھی مشتبہ تھی جس کی پشت پر تاریخ کی تصدیقات ابھی جمع نہیں ہوئی تھیں۔ یہ ایک غیر مسلمہ مدمیں اپنا اثاثہ پیش کرنا تھا، جب کہ آج کا آدمی ایک مسلمہ مد میں اپنا اثاثہ پیش کرتا ہے۔
اپنا تاج دوسرے کے سر پر رکھنا
مدینہ میں عبد اللہ بن ابی بہت عاقل اور صاحب شخصیت آدمی تھا، وہ مدینہ کا سب سے زیادہ ممتاز سردار سمجھا جاتاتھا۔ چنانچہ مدینہ کے باشندوں کو اپنا اختلاف و انتشار ختم کرنے کا احساس ہو ا تو انہوں نے عبد اللہ بن ابی کو منتخب کیا کہ اس کو اپنا بادشاہ بنائیں اور اس کی علامت کے طورپر اس کو ایک تاج پہنا ئیں (فَأَمَّا عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ فَكَانَ قَوْمُهُ قَدْ نَظَمُوا لَهُ الْخَرَزَ لِيُتَوِّجُوهُ ثُمَّ يُمَلِّكُوهُ عَلَيْهِمْ ) سیرۃ ابن ہشام، جلد 2،صفحہ 166۔
عبد اللہ بن ابی کی تاج پوشی کا انتظام مکمل ہو چکا تھا کہ عین اس وقت اسلام مدینہ میںپہنچ گیا۔ مدینہ کے باشندوں کی فطرت نے اس کی صداقت کی گواہی دی اور اسلام گھر گھر میں پھیلنے لگا۔ اس کے بعد مدینہ کے باشندوں کا ایک نمائندہ وفد مکہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی او ر آپ کی زبان سے آپ کا پیغام سنا۔ انہیں نظر آیا کہ مدینہ کی اجتماعی تنظیم کے لیے انہیں جو شخصیت درکار ہے وہ زیادہ بہتر طور پر محمد بن عبد اللہ کی صورت میں موجود ہے۔ انہوں نے مدینہ کے لوگوں کی طرف سے آپ کو پیش کش کی کہ آپ مدینہ آئیں اور وہاں ہمارے سردار بن کر رہیں۔ اسلامی تاریخ کا یہی وہ واقعہ ہے جو بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔
یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ یہ اپنا تاج دوسرے آدمی کے سر پر رکھ دینے کے ہم معنی تھا۔ قدیم قبائلی دور میں ایسا کوئی واقعہ بے حد نا در واقعہ تھا۔ اپنی قوم یا قبیلہ سے باہر کسی آدمی کو اپنا غیر مشروط سردار بنا لینا ہمیشہ انسان کے لیے مشکل ترین کام رہا ہے اور قدیم زمانہ میں تو یہ اور بھی زیادہ مشکل تھا۔ مزید یہ کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت ’’محمد‘‘ اس پر عظمت ہستی کا نا م نہ تھا جس سے ہم آج واقف ہیں۔ اس وقت محمد ایک ایسے انسان تھے جن کو ان کے اہل وطن نے نکال دیا تھا۔ جن کے ساتھ قومی عصبیت او ر تاریخی عظمت شامل نہ ہوئی تھی۔ جو نہ صرف متنا زعہ شخصیت تھے بلکہ ایک لٹے ہوئے بے گھر انسان تھے۔ جن کو اپنا سب کچھ دے دینا تھا اور ان سے پانا کچھ بھی نہ تھا — بیسویں صدی میںکسی بر نا رڈشا کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے لیے یورپ کی سرداری کی پیش کش کرے۔ مگر چھٹی صدی عیسوی میں کسی کے لیے اس کا تصور بھی ناممکن تھا کہ وہ آپ کو پیغمبر مان کر آپ کو اپنا اجتماعی امام بنالے۔
اپنی محدود یت کو جاننا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ اس کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کرتے۔ آپ اپنے اصحاب کو جمع کرتے اور معاملہ کو بیان کرکے فرماتے کہ أ َشِيرُوا عَلَيَّ أَيُّهَا النَّاسُ( اے لوگو،مجھے مشورہ دو)۔ آپ بظاہر سب سے مشورہ طلب کرتے۔مگر عملاً یہ ہو تا کہ کچھ دیر خاموشی رہتی اور اس کے بعد حضرت ابو بکر کھڑے ہو کر مختصراً اپنی رائے ظاہر کر کے بیٹھ جاتے۔ اس کے بعد حضر ت عمر کھڑے ہوتے اور مختصر کچھ بول کر بیٹھ جاتے۔ اس کے بعد معمولی طور پر کچھ لوگ بولتے اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہو جاتا۔ آپ کی وفات کے بعد جب حضرت ابو بکر کی خلافت کا زمانہ آیا تو آپ بھی اسی طرح لوگوں کو جمع کر کے مشورہ طلب کرتے، اب یہ ہوتا کہ کچھ دیر خاموشی کے بعد حضرت عمر کھڑے ہوتے اور مختصر طورپراپنی رائے ظاہر کر کے بیٹھ جاتے، اس کے بعد چند لوگ بولتے اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہو جاتا۔ حضرت عمر کے بعد غیر اصحاب کی تعداد بڑھ گئی اور مذکو رہ صورت باقی نہ رہی۔
یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے مگر یہ اتنی اہم بات ہے کہ تاریخ میں کوئی دوسرا معاشرہ نہیں پایا جاتا جس نے اس کا ثبوت دیاہو۔ یہ طرز عمل صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی اتنا خود شناس ہو جائے کہ وہ اپنی کمیوں اور محدود یتوں کو جاننے لگے۔ وہ دوسرے کے ’’ہے ‘‘ کے مقابلہ میں اپنے ’’نہیں ‘‘ سے واقف ہو جائے۔ وہ اپنے کو اس حقیقت پسند انہ نظر سے دیکھنے لگے جس نظر سے دوسرا شخص اسے دیکھ رہاہے۔
اس میں اتنا اور اضافہ کر لیجیے کہ یہ واقعہ جس ابو بکر وعمر کے ساتھ پیش آیا وہ ابو بکر وعمر وہ نہ تھے جن کو آج ہم جانتے ہیں، آج ہم تکمیل تاریخ والے ابوبکر وعمر کو جانتے ہیں۔ مگر وہ آغازِ تاریخ والے ابوبکر وعمر کو جانتے تھے۔ اس وقت وہ اپنے معاصرین کے لیے صرف ان میں سے ایک تھے۔ جب کہ آج وہ ہمارے لیے گزری ہوئی تاریخ کے ستون ہیں جن کو ہم اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کوئی ثابت شدہ واقعہ کو دیکھتا ہے۔ ’’ابو بکر و عمر‘‘ کو تاریخ بننے کے بعد جاننا انتہائی آسان ہے۔ لیکن ’’ابو بکر وعمر ‘‘ کو تاریخ بننے سے پہلے جاننا اتنا ہی مشکل ہے۔ اصحاب رسول وہ لوگ تھے جو اس مشکل ترین معیار پر پورے اترے۔
ذمہ داری کو اپنے اوپر لے لینا
غزوۂ ذات السلاسل کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً ایک دستہ حضرت عمر و بن العاص کی سرداری میں بھیجا۔ یہ جگہ شام کے اطراف میں تھی۔ حضرت عمروبن العاص نے وہاں پہنچ کر دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم کیا تو اپنا دستہ انہیں اس کے لیے ناکافی معلوم ہوا۔ انہوں نےایک مقام پر ٹھہر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ موجودہ فوج ناکافی ہے، مزید کمک روانہ کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین میں سے دو سو آدمیوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی سر کر دگی میں اس کو روانہ فرمایا۔
حضرت ابو عبیدہ جب اپنے دستہ کو لے کر منزل پر پہنچے اور دونوں دستے ساتھ ہو گئے تو یہ سوال پیدا ہو اکہ دونوں دستوں کا امیر کون ہو۔ حضرت عمر و بن العاص نے کہا کہ دوسرا دستہ میری مدد کے لیے بھیجا گیا ہے اس لیے اصلاً میں ہی دونوں کا امیر ہوں۔ حضرت ابو عبیدہ کے ساتھی اس سے متفق نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یا تو ابو عبیدہ دونوں دستوں کے مشترک امیر ہوں یا دونوں دستوں کا امیر الگ رہے۔ جب اختلاف بڑھا تو ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا اے عمرو، جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جو آخری عہد لیا وہ یہ تھا کہ آپ نے کہا کہ جب تم اپنے ساتھی سے ملو تو ایک دوسرے کی بات ماننا اور اختلاف نہ کرنا۔ اس لیے خدا کی قسم اگر تم میری نافرمانی کر و گے تب بھی میں تمہاری اطاعت کروں گا (تعلم یا عمر وأَنّ آخِرَ مَا عَهِدَ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أَنْ قَالَ:إذَا قَدِمْت عَلَى صَاحِبِك فَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا۔ وَإِنّك وَاَللهِ إنْ عَصَيْتنِي لَأُطِيعَنّكَ) مغازي الواقدي، جلد2، صفحه 771۔
حضرت ابو عبیدہ کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ ذمہ داری کو عمر و بن العاص پر ڈال کر ان سے لامتنا ہی بحث کرتے رہیں۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو وہ بہت سے ایسے الفاظ پاسکتے تھے جن میں ان کا اپنا وجود بالکل درست اور دوسرے کا وجود بالکل باطل دکھائی دے۔ مگر اس کے بجائے انہوں نے یہ کیا کہ ساری ذمہ داری خود اپنے اوپر لے لی۔ انہوں نے مسئلہ کو یک طرفہ طورپر ختم کردیا۔ اجتماعی زندگی میں یہ چیز بے حد ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی اجتماعی زندگی چلتی ہی اس وقت ہے جب کہ اس کے افراد میں اتنی بلندی ہو کہ وہ حقوق کی بحث میں پڑے بغیر اپنے اوپر ذمہ داری لینے کی جرأت رکھتے ہوں۔ جہاں یہ مزاج نہ ہو وہاں صرف آپس کا اختلاف جنم لیتا ہے نہ کہ آپس کا اتحاد۔
شکایات سےاوپر اٹھ کر سوچنا
خالد بن الولید بے حد بہادر تھے۔ ان کے اندر غیر معمولی فوجی قا بلیت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر حضرت ابو بکر کی خلافت تک وہ مسلسل اسلامی فوج کے سرداررہے۔ تاہم حضرت عمرکو ان کی بعض عادتیں پسند نہ تھیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ ان کو سرداری کے عہدہ سے ہٹا دیا جائے۔ مگر حضرت ابو بکر نے ان کے مشورہ کو نہیں مانا۔ مگر حضرت عمر کو اپنی رائے پر اتنا اصرار تھا کہ جب وہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے حضرت خالد کو سرداری سے معزول کر کے ایک معمولی سپاہی کی حیثیت دے دی۔
اس وقت حضرت خالد شام کے علاقہ میں فتوحات کے کار نامے دکھا رہے تھے۔ عین اس وقت خلیفہ ثانی نے انہیں معزول کر کے ابو عبیدہ بن الجراح کو ان کے اوپر سردار لشکر بنا دیا۔ اس کے بعد فوجیوں کی ایک تعداد خالد بن ولید کے خیمہ میں جمع ہوئی اور ان سے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ، آپ خلیفہ کا حکم نہ مانیے۔ مگر حضرت خالد نے سب کو رخصت کر دیا اور کہا کہ میں عمر کے لیے نہیں لڑتا بلکہ عمر کے رب کے لیے لڑتا ہوں (انی لا اقاتل فی سبیل عمر، و لکن اقاتل فی سبیل رب عمر)۔ وہ پہلے سردار لشکر کی حیثیت سے لڑتے تھے اوراب ایک ما تحت فوجی کی حیثیت سے لڑنے لگے۔
اس قسم کا کردار اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی اتنا اونچا ہو جائے کہ وہ شکا یتوں اور تلخیوں سے اوپر اٹھ کر سوچے۔ اس کا رویہ رد عمل کےطور پر نہ بنے بلکہ مثبت فکر کے تحت بنے۔ وہ اللہ میں جینے والا ہو نہ کہ انسانی باتوں میں جینے والا۔
قانونی حد سے آگے بڑھ کر ساتھ دینا
شعبان 2ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ قریش کے تمام سرداروں کی رہنمائی میں ایک ہزار کا لشکر مدینہ کی طرف حملہ کرنے کے لیے بڑھ رہاہے۔ اس میں چھ سو زرہ پوش تھے اور اسی کے ساتھ ایک سو سواروں کا خصوصی دستہ بھی شامل تھا۔ یہ ایک بہت نازک وقت تھا۔ آپ نے مدینہ کے انصار اور مہا جرین کوجمع کیا اور ان کے سامنے تقریر کرتے ہوئے یہ سوال رکھا کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے۔ حسب معمول اولاً مہاجرین کے ممتاز افراد اٹھے اور انہوں نے کہا کہ ا ےخدا کے رسول، آپ کا رب جس بات کا حکم دے رہا ہے اس کی طرف بڑھئے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم یہود کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ تم اور تمہارا خدا جا کر لڑیں، ہم یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ آپ اور آپ کا خدا چل کر لڑیں، ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ جب تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کر رہی ہے ہم آپ کا ساتھ چھوڑنے والے نہیں ۔
مگر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی اس قسم کی تقریروں کے باوجود با ر بار یہ فرما رہے تھے کہ لوگو مجھے مشورہ دو (أَشِيرُوا عَلَيَّ أَيُّهَا النَّاسُ)۔ چنانچہ سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، شاید آپ کا رخ ہماری طرف ہے۔ آپ نے کہا، ہاں، اس پر سعد بن معاذ نے انصار کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا ہم آپ پر ایمان لائے۔ آپ کی تصدیق کی، اور اس بات کی گواہی دی کہ جو کچھ آپ لائے ہیں ، وہ حق ہے، اور اس پر آپ سے سمع و طاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں ، پس اے خدا کے رسول، آپ جو کچھ چاہتے ہیں اس کو کر گزرئیے، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر آپ ہمیں لے کر سمندر کے سامنے جا پہنچیں اور اس میں گھس جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ سمندر میں گھس جائیں گے۔ ہم میں سے ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو ہر گز یہ ناگوار نہیں ہے کہ آپ ہمیں لے کر کل کےدن دشمن سے ٹکرا جائیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ مقابلہ کے وقت سچے اترنے والے ہیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ آپ کو ہم سے وہ کچھ دکھا دے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ہم کو لے کر چلیں (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحه 615)۔ انصار کے قائد کی اس تقریر کے بعد اقدام کا فیصلہ کر لیا گیا۔
بدر کی جنگ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار انصار کی طرف رخ کرنا بےسبب نہ تھا۔ اس کا ایک خاص پس منظر تھا۔ ابن ہشام اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَأَنَّهُمْ حِينَ بَايَعُوهُ بِالْعَقَبَةِ، قَالُوا:يَا رَسُولَ اللهِ:إنَّا بُرَاءٌ مِنْ ذِمَامِك حَتَّى تَصِلَ إلَى دِيَارِنَا، فَإِذَا وَصَلْتَ إلَيْنَا، فَأَنْتَ فِي ذِمَّتِنَا نَمْنَعُك مِمَّا نَمْنَعُ مِنْهُ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا. فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّفُ أَلَّا تَكُونَ الْأَنْصَارُ تَرَى عَلَيْهَا نَصْرَهُ إلَّا مِمَّنْ دَهَمَهُ بِالْمَدِينَةِ مِنْ عَدُوِّهِ، وَأَنْ لَيْسَ عَلَيْهِمْ أَنْ يَسِيرَ بِهِمْ إلَى عَدُوٍّ مِنْ بِلَادِهِمْ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحه 615)
اور ایسا اس لیے ہوا کہ انصار نے جب عقبہ میں بیعت کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ اے خدا کے رسول، ہم آپ کی ذمہ داری سے بری ہیں یہاںتک کہ آپ ہمارے دیس میں پہنچ جائیں۔ جب آپ ہمارے پا س آجائیں گے تو آپ ہماری ذمہ داری میںہوںگے اور ہم آپ کا دفاع کریں گے جس طرح ہم اپنے لڑکوں اور عورتوں کا دفاع کرتے ہیں ۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ انصار کہیں یہ سمجھتے ہوں کہ ان پر آپ کی مدد کرنا اس وقت ہے جب کہ آپ کا دشمن مدینہ پہنچ کر حملہ کرے۔ ان پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنی بستی سے دور جا کر مقابلہ کریں۔
انصار کی بیعت قدیم عربی اصطلاح کے مطابق بیعت نساء (دفاعی بیعت) تھی۔ اس کے مطابق مدینہ سے 80میل دور بدر کے مقام پر جاکر لڑنا ان کے لیے ضروری نہ تھا۔ مگر انصار نے اس کو اپنے لیے عذر نہیں بنایا۔ وہ قانونی حد کو توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور بدر کے میدان میں جاکر قربانی پیش کی۔
اختلاف سے بچ کر اصل نشانہ پر لگے رہنا
اَخْرَجَ الطبراني عَن المسور بن مخرومة قَال:خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلنَّاسِ كَافَّةً، فَأَدُّوا عَنِّي يَرْحَمْكُمُ اللهُ، وَلَا تَخْتَلِفُوا كَمَا اخْتَلَفَ الْحَوَارِيُّونَ عَلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ دَعَاهُمْ إِلَى مِثْلِ مَا أَدْعُوكُمْ إِلَيْهِ، فَأَمَّا مَنْ قَرُبَ مَكَانُهُ فَإِنَّهُ أَجَابَ وَأَسْلَمَ، وَأَمَّا مَنْ بَعُدَ مَكَانُهُ فَكَرِهَهُ، فَشَكَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ذَلِك إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ....فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:نَحْنُ يَا رَسُولَ اللهِ نُؤَدِّي عَنْك، فابْعَثْنَا حَيْثُ شِئْتَ(المعجم الكبير للطبراني، جلد 20، صفحه 8)۔ مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے سامنے تقریر کی اور فرمایا کہ اللہ نے مجھ کو تمام انسانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ پس تم میری طرف سے اس ذمہ داری کو ادا کرو۔ خدا تم پر رحم کرے اور تم لوگ اختلاف نہ کرنا جس طرح عیسیٰ بن مریم کے حواریوں نے اختلاف کیا۔ انہوں نے اپنے حواریوں کو اسی چیز کے لیے پکارا جس کی طرف میں تم کو پکارہا ہوں۔ پس جس کا مقام دور تھا اس کو وہاں جانا ناگوار ہوا۔ تو عیسٰی بن مریم نے اللہ تعالیٰ سے اس کی شکایت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا کہ اے خدا کے رسول ہم آپ کی ذمہ داری کو اداکریں گے۔آپ ہم کو بھیجیے جہاں آپ چاہیں۔
اجتماعی کام میں رکاوٹ ڈالنے والی سب سے بڑی چیز اختلاف ہے۔ مگر صحابہ کرام کو اللہ کے خوف نے اتنا بے نفس بنا دیا تھا کہ وہ اختلافات سے بلند ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں لگے رہتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ کے زمانے میں انہوں نےعرب میں اور اطراف عرب میں آپ کی منشا کےمطابق اسلام کی دعوت پوری طرح پہنچائی۔ آپ کی وفات کے بعد وہ مال و جاہ کے حصول میں نہیں پڑے بلکہ اطراف کے ملکوں میں پھیل گئے۔ ہر صحابی کا گھر اس زمانہ میں ایک چھوٹا مدرسہ بنا ہوا تھا جہاں وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کو عربی سکھاتے اور قرآن و سنت کی تعلیم دیتے۔ ا س زمانہ میں ایک طرف مسلمانوں کاایک طبقہ فتوحات او ر سیاسی انتظامات میں لگا ہو اتھا۔ عام طریقہ کے مطابق اصحاب رسول کو اپنا سیاسی حصہ لینے میں سرگرم ہونا چاہیے تھا۔ مگر وہ اس سے بے پروا ہوگئے۔ انہوں نے اسلامی فتوحات کے ذریعہ پیدا ہونے والی فضا کو تبلیغ دین کے لیے استعمال کیا، اس طرح ان کے اوران کےشاگردوں کے خاموش پچاس سالہ عمل کے نتیجہ میں وہ جغرافی خطہ و جود میں آیا جس کو عرب دنیا کہا جاتا ہے، جہاں لوگوں نے نہ صرف اپنے دین کو بدلا بلکہ ان کی زبان اور ان کی تہذیب بھی بدل گئی۔
پچھلی نشست پر بیٹھنے کے لیے راضی ہو جانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سب سے پہلا مسئلہ خلیفہ کا انتخاب تھا۔ انصار بنو ساعدہ کی چو پال (سقیفہ) میں جمع ہو گئے۔ اس وقت سعد بن عبادہ انصار کے سب سے زیادہ ابھرے ہوئے سردار تھے۔ چنانچہ انصار میں بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ سعد بن عبادہ کو خلیفہ مقرر کیا جانا چاہیے۔ مہاجرین کو یہ خبر ملی تو ان کے ممتاز افراد تیزی سےچل کر مذکورہ مقام پر پہنچے۔ حضرت ابوبکر نےتقریر کرتے ہوئے کہا :
أَمَّا مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ، فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، وَلَنْ تَعْرِفَ الْعَرَبُ هَذَا الْأَمْرَ إلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا، وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ، فَبَايِعُوا أَيَّهمَا شِئْتُمْ۔ (سیرۃ ابن ہشام، جلد2، صفحه 659)يعني، (اے انصار) تم نے اپنی جس فضیلت کا ذکر کیا ہے اس کے تم اہل ہو۔ مگر عرب اس معاملہ (امارت) کو قریش کےسوا کسی اور قبیلہ کے بارے میں نہیں جانتے۔ وہ عربوں میں نسب اور مقام کےاعتبار سے سب سے بہترین ہیں۔ میں تمہارے لیے ان دو آدمیوں (عمر اور ابو عبیدہ بن الجراح)میں سے کسی ایک پر راضی ہوں۔ تم دونوں میں سے جس سے چاہو بیعت کر لو۔
اس کے بعد حضرت عمر اٹھے اور انہوں نے فوراً حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرلی اور پھر تمام مہاجرین نے بیعت کی۔ اس کے بعد انصار نے بھی حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ تاہم انصار کے ایک طبقہ کے لیے یہ واقعہ اتنا سخت تھا کہ ایک شخص نےمہا جرین سے کہا کہ تم لوگوں نے سعد بن عبادہ کو قتل کر دیا (قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ) طبقات ابن سعد، جلد 2، صفحہ 206۔
انصار نے اسلام کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ انہوں نے اسلام کے بے یار و مددگار قافلہ کو اس وقت پناہ دی جب کہ انھیں اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ اس کے باوجود انصار اس فیصلہ پر راضی ہو گئے کہ اقتدار میں ان کا حصہ نہ ہو اور خلیفہ صرف مہاجرین (قریش) میں سے منتخب کیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے پیچھے بہت گہری مصلحت تھی۔ قریش سیکڑوں سال سے عرب کے قائد بنے ہوئے تھے۔ ایسی حالت میں اگر کسی غیرقریش کو خلیفہ مقرر کیا جاتا تو اس کے لیے اجتماعی نظم کو سنبھالنا نا ممکن ہو جاتا۔ یہ انصار کی حقیقت پسندی تھی کہ انہوں نے اپنی اس کمی کو جانا اور یک طرفہ فیصلہ پر راضی ہوگئے۔ تاہم یہ حقیقت پسندی کی اتنی نایاب قسم ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
غیر جذباتی فیصلہ کرنے کی طاقت
احد کی لڑائی اسلام کی تمام جنگوں میں سب سے زیادہ سخت لڑائی تھی۔ قریش کے تمام جنگی جوان غصہ میںبھرے ہوئے مسلمانوں کے اوپر ٹوٹ پڑے تھے۔ عین اس وقت جب کہ قتل و خون کا معرکہ گرم تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لی اور کہا کہ کون اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا۔ کچھ لوگ آپ کی طرف بڑھے۔ مگر آپ نے انہیں تلوار نہ دی۔ پھر ابو دجانہ سامنے آئے اور پوچھا کہ اے خدا کے رسول اس تلوار کا حق کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم اس سے دشمن کو مارو یہاں تک کہ اس کوٹیڑھا کر دو (أَن تشرب بِهِ الْعَدُوَّ حَتَّى يَنْحَنِيَ)۔ ابودجانہ نے کہا کہ میں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتاہوں۔ چنانچہ آپ نے انہیں تلوار دے دی۔
حضرت ابو دجانہ تلوار لے کر چلے۔ اس وقت ان پرایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ اکڑ کر چلنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ اس قسم کی چال خدا کو پسند نہیں سوا ایسے موقع کے ( إنَّهَا لمشية يبغضها انه، إلَّا فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ)سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 66۔
ابو دجانہ نے اپنے سر پر لال کپڑا باندھ لیا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ موت سے نڈر ہو کر جنگ کے لیے نکل پڑے ہیں۔ وہ انتہائی بہادری کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ جو بھی ان کے سامنے آتا وہ ان کی تلوار کا نشانہ بن جاتا۔ اس کے بعد ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا۔ جس کو خود ابو د جانہ ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں :
رَأَيْتُ إِنْسَانًا يَحْمِشُ النَّاسَ حَمْشًا شَدِيدًا، فَصَمَدْتُ لَهُ، فَلَّمَا حَمَلْتُ عَلَيْهِ السَّيْفَ وَلْوَلَ، فَاذَا امْرَأَةٌ، فَأَكْرَمْتُ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَضْرِبَ بِهِ امْرَأَةً (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 69)۔يعني، میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ بری طرح لوگوں کو جنگ پر ابھار رہاتھا۔ میں اس کی طرف لپکا۔ جب میں نے اس پر تلوار اٹھالی تو اس نے کہا یا ویلاہ (ہائے تباہی)۔ اب میں نے جانا کہ یہ ایک عورت ہے۔ تومیں نے خدا کے رسول کی تلوا ر کو اس سے پاک رکھا کہ اس سےمیں کسی عورت کو قتل کروں۔
اس واقعہ کوایک صحابی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : پھر میں نے دیکھا کہ ان کی تلوار ہند بنت عتبہ کے سرپر اٹھ گئی ہے مگر اس کے بعد انہوں نے اپنی تلواراس سے ہٹالی (ثُمَّ رَأَيْتُهُ قَدْ حَمَلَ السَّيْفَ عَلَى مَفْرِقِ رَأْسِ هِنْدِ بِنْتِ عُتْبَةَ، ثُمَّ عَدَلَ السَّيْفَ عَنْهَا)سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 69۔ جنگ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات میں سے ایک ہدایت یہ تھی کہ عورتوں، بچوں او ربوڑھوں کو نہ مارا جائے۔ حضرت ابو دجانہ نے عین قتل و خون کے ہنگامہ میں اس کو یاد رکھا اور اپنی چلی ہوئی تلوار کو درمیان سےروک لیا۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصحاب رسول کو اپنے جذبات پر کتنا زیادہ قابو تھا۔ ان کے افعال ان کےشعور کے ماتحت تھے نہ کہ ان کے جذبات کے ماتحت۔ وہ انتہائی اشتعال انگیز موقع پر انتہائی ٹھنڈا فیصلہ کر سکتے تھے۔ وہ غصّہ اور انتقام کی آخری حد پر پہنچ کر بھی اچانک اپناذہن تبدیل کر سکتے تھے۔ وہ ایک رخ پر پوری رفتار سے چل پڑنے کے بعد معاً اپنا رخ دوسری طرف پھیر سکتے تھے۔ یہ بظا ہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر عملاً وہ اتنی زیادہ مشکل ہے کہ اس پر کوئی ایسا شخص ہی قادر ہو سکتا ہے جو خدا سے اس طرح ڈرنے والا ہو گو یا خدا اپنے تمام جلال و جبروت کے ساتھ اس کے سامنے کھڑاہوا ہے اور وہ اس کو اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
درخت کی طرح آگے بڑھنا
قرآن میں انجیل اور تورات کے دو حوالوں کا ذکر ہے۔ تورات کا حوالہ صحابہ کرام کے انفرادی اوصاف سے متعلق ہے۔ اس کے بعد انجیل کے حوالے سے ا ن کی اجتماعی صفت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا(48:29)۔يعني، اور انجیل میں ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو۔ اس نے نکالا اپنا انکھوا۔ پھر اس کو مضبوط کیا۔ پھر وہ موٹا ہوا۔ پھر اپنے تنہ پر کھڑا ہوگیا۔ اچھا لگتا ہے کسانوں کو تاکہ منکروں کا دل ان سے جلائے۔ اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔
موجودہ انجیل میں یہ تمثیل ان لفظوں میں ہے — اور اس نے کہا، خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اور دن کو جاگے۔ اور وہ بیج اس طرح اُگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے۔ زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے۔ پتی، پھر بالیں، پھر بالوں میں تیار دانے۔ پھرجب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتاہے۔ کیونکہ کاٹنے کا وقت آپہنچا (مرقس 4:26-32)۔
انجیل اور قرآن کی اس تمثیل میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیغمبر آخر الزماں کے اصحاب کا اجتماعی ارتقا، درخت کی مانند ہوگا۔ اس کا آغاز بیج سے ہوگا، پھر وہ دھیرے دھیرے بڑھے گا اور اپنا تنہ مضبوط کرتے ہوئے اوپر اٹھے گا۔ یہاں تک کہ فطری رفتار سے تدریجی ترقی کرتے ہوئے اپنے کمال کو پہنچ جائے گا۔ اس کی ترقی اتنی شان دار ہوگی کہ ایک طرف اہل ایمان اس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوں گے اور دوسری طرف دشمن دانت پیس رہے ہوں گے کہ اس کا معاملہ اتنا مضبوط ہے کہ اس کے خلاف ہمارا کچھ بس نہیں چلتا۔
اسلام کو درخت کی طرح ترقی دینے کے لیے خدا کا یہ منصوبہ تھا جو صحابہ کرام کے ذریعہ انجام پایا۔ تاہم یہ کوئی آسان معاملہ نہ تھا۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ وہ جلد بازی کے بجائے صبر کو اپنا طریقہ بنائیں۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ فوری محرکات کے تحت وہ کوئی اقدام نہ کریں ۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ وہ اپنے ذوق پر چلنے کے بجائے قوانین فطرت کی پیروی کریں ۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ وہ اس سے بے پروا ہو کر کام کریں کہ نتیجہ ان کی زندگی میں سامنے آتا ہے یا ان کے بعد۔ ’’درخت اسلام ‘‘ کو اگانے کے لیےضرورت تھی کہ وہ اپنے جذبات کو کچلیں اور اپنی امنگوں کو دفن کردیں۔ صحابہ کرام نے یہ سب کچھ کیا۔ انہوں نے کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو خدائی اسکیم کے حوالہ کردیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ زمین میں خدا کا دین ایک ایسے ابدی باغ کی صورت میں کھڑا ہو گیا جس کو ساری دنیا مل کر بھی مٹانا چاہے تو نہ مٹا سکے۔
حصہ چہارم
اظہار رسالت عہدِ حاضر میں
پیغمبر اسلام کو خصوصی طورپر اظہار کی نسبت دی گئی ہے۔ آپ کے دین کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے کہ وہ تمام ادیان پر غالب و سر بلند ہو۔ یہی نسبت غلبہ آپ کی امت کو بھی حاصل ہے۔ پیغمبر اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا کہ ڈھائی ہزار سال کے ایک خصوصی منصوبہ کے ذریعہ وہ اسباب فراہم کیے جن کو استعمال کرکے آپ دین خدا کو غالب و ظاہر کر سکیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہی معاملہ آپ کی امت کے ساتھ ہے۔ چنانچہ پچھلے ہزار سال کے عمل کے نتیجہ میں خدا نے وہ موافق حالات کا مل طورپر فراہم کر دیے ہیں جو دورِ جدید میں اسلام کےغلبہ کی بنیاد بن سکتے ہیں ۔ پیغمبر کے امتی اگر ان موافق حالات کو حکمت اور صبر کے ساتھ استعمال کریں تو خدا کا وعدۂ نصرت دوبارہ پیغمبر کے امتیوں پر اسی طرح واقعہ بن سکتا ہے جس طرح وہ خود پیغمبر کے اوپر واقعہ بناتھا۔
امریکہ سے ایک انسائیکلوپیڈیا چھپی ہے جس کا نام ہے:انسان اور اس کے معبود (Man and His Gods)۔اس کتاب میں مختلف مذاہب پر مقالے ہیں ۔ اسلام پر جو مقالہ ہے، اس کے عیسائی مقالہ نگار نے اسلامی انقلاب کے بعد پید ا ہونے والے عظیم نتائج کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں — اس کے ظہور نے انسانی تاریخ کے رخ کوبدل دیا :
Its advent changed the course of human history (The Encyclopaedia Britannica (1984), Article on "Man and His Gods", p. 389)
یہ ایک مستشرق کی زبان سے اسلامی انقلاب کی پیدا کردہ ان تبدیلیوں کا اعتراف ہےجنہوں نے تاریخ میں ایسے دوررس امکانات کھولے جن کے بعد اسلام کو غیر اسلامی ادیان پر غالب و برتر کرنا اسی طرح آسان ہوگیا ہے جس طرح بارش آجانے کے بعد کھیت سے فصل اگانا۔
پیغمبر آخر الزماں اور آپ کے ساتھیوں کےذریعہ جو انقلاب بر پا کیا گیا وہ اگرچہ اصلاً توحید اور آخرت پر مبنی ایک دینی انقلاب تھا۔ مگر اس نے بہت سے دور رس دنیوی نتائج بھی پیدا کیے۔ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کے دنیوی نتائج میں سب سے اہم وہ نتائج ہیں جنہوں نے قدیم زمانہ کے سماجی اور اجتماعی نظام کو اس طرح بدل دیا کہ وہ حالات ہی ختم ہو گئے جن میں دعوت حق کا کام ایک انتہائی مشکل کام بنا ہواتھا۔
سورہ براءۃ نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو مکہ بھیجا تا کہ وہ اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد کسی مشرک کوحج بیت اللہ کی اجازت نہ ہوگی۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ میں حج کے اجتماعات میں بلند آواز سے اس کا اعلان کرتا پھرتاتھا، یہاں تک کہ میری آواز بھاری ہوگئی ( فَكُنْتُ أُنَادِي حَتَّى صَحِلَ صَوْتِي)سنن النسائی، حدیث نمبر 3935۔مگر آج لاؤڈ اسپیکر وجود میں آنے کے بعد یہ مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں ۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں اعلان حق کا کام کتنا زیادہ آسان ہو چکاہے۔
دین کی دعوت کے دوبڑے دور ہیں۔ ایک، پیغمبر آخر الزماں کے ظہور سے پہلے۔ دوسرا، پیغمبر آخرالزماں کے ظہور کے بعد۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے خدا کی جو کتابیں آئیں ان کی حفاظت کی ذمہ داری خود ان امتوں پر ڈالی گئی جن کے پاس وہ کتابیں بھیجی گئی تھیں۔ چنانچہ ان کےبارے میں قرآن میں استحفاظ ( نگہبان بنانا)کا لفظ آیا ہے:بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ (5:44)۔یعنی، وہ خدا کی کتاب پر نگہبان ٹھہرائے گئے تھے۔ اس کے برعکس، قرآن کی حفاظت کے بارے میں فرمایا گیا :إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (15:9)۔ یعنی، خدا نے اس کتاب کو اتارا ہے اور وہی اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ خدا کا یہ منصوبہ تھا کہ شرک کو مغلوب کیا جائے اور توحید کو دنیا میں غالب فکر کا مقام عطا کیا جائے (الانفال،8:39)۔ یہ کام اتنے مختلف اسباب کی مساعدت چاہتا ہے جو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ چنانچہ اللہ نے ڈھائی ہزا ر سالہ عمل کے نتیجہ میں وہ موافق حالات پید اکیے جن کواستعمال (avail)کر کے آپ نے شرک کو مغلوب کیا اور توحید کو فکری غلبہ کے مقام پر پہنچایا۔
رسول اوراصحاب رسول کی کوششوں سے جو انقلاب آیا اس کے بعد شرک ہمیشہ کے لیے مغلوب ہو گیا۔ اب اس کی کوئی امید نہیں کہ شرک دو بارہ ایک غالب فکر کی حیثیت سے دنیا میں چھا سکے۔ تاہم موجودہ زمانہ میں دو بارہ یہ واقعہ ہوا کہ توحید نےغالب فکر کی حیثیت سے اپنا مقام کھو دیا۔ اس باریہ واقعہ الحاد کے ہاتھوں سے ہوا۔ چنانچہ آج دنیا میں الحاد نے غالب فکر کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ بے خدا ذہن یا سیکولر ذہن آج دنیا کا غالب ذہن ہے۔ اس کے مقابلہ میں توحید کاذہن عملاً دوسرے درجہ پر چلا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو یقیناً معلوم تھا کہ آئندہ دور الحاد آنے والا ہے۔ اس لیے اس کی نصرت دوبارہ متحرک ہوئی۔ پچھلے ہزا ر سالہ عمل کے دوران اس نے دوبارہ ایسے حالات پیدا کرنے شروع کیے جو بالآخر غلبۂ توحید کی جدو جہد کے لیے موافق زمین کا کام کر سکیں ۔ یہ عمل اب اپنی تکمیل کے مرحلہ میں پہنچ گیاہے۔ آج اگر چہ بظاہر الحاد کا غلبہ ہے مگر وہ موافق حالات پوری طرح پیدا ہو چکے ہیں جن کو استعمال کر کے دو بارہ توحید کو غالب فکر کا مقام دیا جاسکے۔
1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تقریباً چار ہزار سال پہلے قدیم عراق کے دارالسلطنت اُر(Ur) کے لوگوں کو پکارا کہ ایک خدا ہےجو نفع و نقصان کا مالک ہے۔ خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ۔ اسی لیے تم اسی سے حاجتیں مانگو اور اسی کی پرستش کرو۔ اس دعوت توحید کے خلاف اس وقت کے مشرک بادشاہ نمر و د کلدانی نے اتنا سخت رد عمل ظاہر کیا کہ آپ کو آگ کے الاؤ میں ڈال دیا۔ آج بھی دنیا کے ہر ملک میں شرک کا عقیدہ پایا جاتاہے۔ لیکن آج آپ کسی ملک میں دعوت ابراہیمی کو لے کر اٹھیں تو موجودہ زمانہ کا کوئی حکمراں آپ کے ساتھ اس قسم کا شدید سلوک نہیں کرے گا۔
اس کی وجہ فلسفۂ حکومت کی تبدیلی ہے۔ نمرود کے زمانہ میںشرک ایک سیاسی عقیدہ کی حیثیت رکھتاتھا۔ جب کہ آج و ہ صرف ایک محدود مذہبی عقیدہ ہے۔ قدیم زمانہ میں عام طور پر مشرکانہ نظریۂ سیاست دنیا میں رائج تھا۔ نمرود، دور قدیم کے دوسرے بادشاہوں کی طرح، اسی قسم کے نظر یہ کی بنیاد پر حکومت کرتاتھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ سورج دیوتا کا مظہر ہے۔ اس لیے وہ دوسروں سے برتر ہے اور اس کو دوسروں کے اوپر حکمرانی کرنے کا فوق الفطری حق حاصل ہے۔ اس کے برعکس، موجودہ زمانہ کے حکمراں اس قسم کے نظر یۂ حکومت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ انہوں نے عوامی رائے کی بنیاد پر اپنے لیے حکمرانی کا حق حاصل کیا ہے، نہ کہ کسی فوق الفطری عقیدہ کی بنیاد پر۔ یہی وجہ ہے کہ توحید کی دعوت میں موجودہ حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے لیے کوئی خطره نظر نہیں آتا۔ جب کہ نمر و د اور دور قدیم کے دوسرے بادشاہوں کو توحید کا عقیدہ پھیلنے میں اپنی سیاسی جڑ کٹتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔
قدیم زمانہ میں جب کوئی پیغمبر اٹھتا تو اکثر پہلے ہی مرحلہ میں وقت کے اقتدار سے اس کا ٹکراؤ شروع ہو جاتا اور غیر ضروری قسم کی مشکلات اس کی راہ میں حائل ہو جاتیں ۔ اس کی وجہ سیاسی ادارہ کے ساتھ فوق الطبیعی عقائد کی یہی وابستگی تھی۔ قدیم زمانہ کے بادشاہ عوام کو یہ یقین دلاکر ان کے اوپر حکومت کرتے تھے کہ وہ دیوتاؤں کی اولاد ہیں، خدا ان کے اندر حلول کر آیا ہے۔ ایسے ماحول میں جب توحید خالص کی آواز بلند ہوتی تو ان کو نظر آتا کہ وہ ان کے سیاسی استحقاق کو بے اعتبار بنا رہی ہے۔ یہ اعتقادی پیچیدگی ان کو داعیِ حق سے ٹکرادیتی تھی۔ اسلام نے ثابت کیا کہ ہر قسم کی فوق الفطری حیثیت صرف خدا کو حاصل ہے۔ اس نے اعلان کیا کہ تمام انسان برابر ہیں، ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔ اس طرح اسلام نے سیاسی ادارہ کو اعتقادیات سے جدا کر دیا۔ اب حکومت کرنے کا حق کسی کو عوامی رائے سے ملتا تھا، نہ کہ خدا سے کسی قسم کے پُرا سرار رشتہ کی بنیاد پر۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے قدیم زمانہ میں کچھ لوگ یہ بات مشہور کر کے اپنا طبی کا روبار چلاتے تھے کہ انہوں نے ایک جن کو مسخر کر رکھا ہے اور وہ ان کے پاس آکر ان کو فن طب کے رموز بتاجاتا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی شخص یہ آواز بلند کر ے کہ علم طب میڈیکل کالج میں سکھایا جاتا ہے نہ کہ جنات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے تو مذکورہ قسم کے طبیب ایسے شخص کے سخت مخالف ہو جائیں گے۔ مگر موجودہ زمانہ کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو ایسی تحریک سے کوئی عداوت نہ ہوگی۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعہ تاریخ کا رخ موڑ نے کا عمل ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہواتھا۔ اب وہ اپنی انتہا کو پہنچ چکاہے۔ دین کے داعیوں کے لیے اب خود انسانی اسلحہ خانہ میں ہر قسم کےتائیدی اسباب موجود ہیں۔ جد ید قانونی اور سماجی تبدیلیوں نے اب اس کا موقع دے دیا ہے کہ دعوت دین کا کام کھلے طور پر کیا جائے اور کوئی فرعون یا نمر ود اس کا راستہ روکنے کے لیے میدان میں موجود نہ ہو۔ حقائق کی دنیا جو اب انسان کے علم میں آئی ہے اس نے ایسے دلائل جمع کردیے ہیں ،جو دین کی صداقت کو خالص علمی طور پر ثابت شدہ بنا سکیں ۔
موجود ہ زمانہ میں ایک عظیم فکری انقلاب آیاہے۔ یہ انقلاب وہی ہے جس کو عام طورپر سائنسی انقلاب کہا جاتاہے۔ جدید سائنسی انقلاب نے انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسی فکری تبدیلیاں پید اکی ہیں جو دعوت توحید کے عین موافق ہیں ۔ا ن کو مناسب طورپر استعمال کیا جائے توصرف قلمی اور لسانی تبلیغ کے ذریعہ غلبۂ توحید کا وہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے جس کے لیے پچھلے زمانوں میں تلوار اٹھانی پڑتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنسی انقلاب زمانۂ رسالت کے اسلامی انقلاب کا ایک ضمنی حاصل ( by-product) ہے۔ اللہ نے پیغمبر آخر الزماںکے لائے ہوئے انقلاب کےذریعہ ایسے اسباب پیدا کیے، جنہوں نے تاریخ کے اندر اپنا عمل شروع کیا۔ تبدیلی کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ اس انقلاب تک پہنچا جس کو جدید سائنسی انقلاب کہا جاتاہے۔ گویا خدا نے صدر اول میں شرک کے اوپر توحید کوغلبہ دیا تو اسی کے اندر وہ اسباب بھی پیدا کردیے جو بعد کےزمانہ میں الحاد پر توحید کو غالب کرنے میں مددگار بن سکیں ۔
اسلام کے ذریعہ آنے والے توحیدی انقلاب سے پہلے ساری دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ شرک دراصل مظاہرپرستی کا دوسرا نام ہے۔ دنیا کی ہر چیز جونمایاں نظر آئی اسی کو انسان نے پوچنا شروع کر دیا۔ خواہ وہ آسمان کا سورج ہو یا زمین کا بادشاہ۔ اس وجہ سےدور شرک میں سائنسی تحقیق کا کام ممکن نہ ہوسکا۔ آرنلڈٹوائن بی (1889-1975)کے الفاظ میں، فطرت کے مظاہر اس وقت پر ستش کا موضوع (object of worship)بنے ہوئے تھے، پھر وہ تحقیق کا موضوع (object of investigation) کیسے بنتے۔ اسلام نےشرک کو مغلوب کر کے توحید کو غالب کیا تو ایک خدا کے سوا ہر چیز مخلوق نظر آنے لگی، اس انقلاب نے یہ ممکن بنا دیا کہ چیزوں پر تحقیق کا عمل جاری کیا جاسکے۔ یہ عمل ابتدائی صورت میں دور اول ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ ایک بار چاند گرہن کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ وہ کسی بڑے آدمی کی پیدائش یا موت کی بناپر نہیں ہوتے۔ اس طرح آپ نے مادی بڑائی کی بھی نفی کردی اور انسانی بڑائی کی بھی۔ یہ فکری لہر عقیدہ سے الگ ہو کر یورپ پہنچی اوربالآخر جدید انقلاب کا سبب بنی۔
1۔ اس انقلاب کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ تو ہماتی دور کا خاتمہ ہوگیا۔ تو ہم پرستی کیا ہے۔ تو ہم پرستی نام ہے حقائق کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کے بجائے مفروضات و قیاسات کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کا۔مثلاً یہ فرض کر لینا کہ جب کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے تو سورج یا چاند گہنا جاتے ہیں۔یہ ذہن اسلام کی طرف بڑھنے میں سب سےبڑی رکاوٹ ہے۔ ایسا آدمی حقائق واقعی کی بنیاد پر اسلام اور غیر اسلام کا جائزہ نہیں لیتا بلکہ پیشگی مفروضات کی بنیاد پر بلا دلیل ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط مان لیتا ہے۔ مثلاً اسلام تاریخی طور پر ایک مستنددین ہے اور دیگر تمام مذاہب تاریخی استنا د سے محروم ہیں۔ مگر تو ہمات کے دور میں انسان اس کو اہمیت نہیں دے پاتاتھا۔ جدید دور نے اس کو پوری اہمیت کےساتھ لیا۔ چنانچہ موجودہ زمانہ میں تنقید عالیہ (higher criticism)کے نام سے ایک مستقل فن وجود میںآگیا ہے۔ اس فن کے تحت یہ حقیقت پوری طرح مسلم ہوگئی ہے کہ تاریخی طور پر معتبر دین صرف اسلام ہے۔ دوسرے ادیان کو تاریخی اعتباریت کا درجہ حاصل نہیں۔
2۔ سائنسی ذہن نے کائنات کو تجربہ اور مشاہدہ کی روشنی میں جاننے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجہ میں کائنات میں چھپے ہوئے ایسے فطری حقائق انسان کے علم میں آئے جو اسلام کی تعلیمات کی تصدیق اعليٰ سطح پر کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر انسان کی تحقیق نے بتایا کہ کائنات میں ہر جگہ ایک ہی قانون فطرت کا ر فرما ہے۔ جو قانون زمین کے احوال پر حکمراں ہے وہی قانون کائنات کے دور دراز مقامات پر بھی حکمراں ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کا خدا صر ف ایک ہے۔ دوخدایا بہت سے خداؤں کی اس کائنات میں گنجائش نہیں۔
3۔ دین توحید کو قدیم زمانہ میں اختیار کرنے کے لیے، ایک علمی رکاوٹ، قدیم فلسفہ بھی تھا۔ قدیم زمانہ میں فلسفہ کو غالب علم کا مقام حاصل تھا۔ تعلیم یافتہ طبقہ کے سوچنے کی ذہنی زمین اس زمانہ میں فلسفہ ہوتا تھا۔ اس کے نتیجہ میںدین توحید کی راہ میں ایک بہت بڑی مصنوعی رکاوٹ حائل ہوگئی تھی۔
قدیم فلسفہ کا آخری نشانہ ہمیشہ سے آخری سچائی کی تلاش رہاہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ تقریباً پانچ ہزار سال کی شان دار تاریخ کے با وجود فلسفہ اپنے نشانہ تک پہنچنے میں مکمل طور پر نا کام رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسفہ انسان کی محدود یتوں (limitation) کا ادراک نہ کرسکا۔ وہ آخری سچائی تک پہنچنے کے لیے ساری کوششیں صرف کرتا رہا۔ جب کہ انسان اپنی محدود صلاحیتوں کی وجہ سے بطور خود آخری سچائی تک پہنچ ہی نہيں سکتا تھا۔
اس فلسفیانہ طرز فکر کی وجہ سے ہزاروں برس تک انسان یہ چاہتا رہا کہ دین توحید کی بنیاد جن اساسی عقائد پر قائم ہے اس کو انسان کے لیے مکمل طو ر پر معلوم اور مشاہد بنا دیا جائے۔ مگر یہ تمام غیبی حقیقتیں تھیں اور انسان اپنی موجودہ صلاحیتوں کے ساتھ ان غیبی حقیقتوں کا کامل ادراک نہیں کرسکتا۔
جدید سائنس کا، دینی نقطۂ نظر سے، سب سے بڑا کا رنامہ یہ ہے کہ ا س نے اس مفروضہ کو ڈھادیا۔ اس نے آخری طور پر یہ ثابت کر دیا کہ انسان کی صلاحیتیں محدود ہیں ۔ وہ اپنی محدودیت کی وجہ سے حقیقت کا کلی ادراک نہیں کرسکتا۔ قدیم فلسفہ کی پیدا کردہ ذہنی زمین اب ساری دنیا میں دفاعی حیثیت کے مقام پر جا چکی ہے اور اب سائنس کی دریافت کردہ ذہنی زمین کو علمی دنیا میں غالب مقام حاصل ہے۔
ذہن کی اس تبدیلی نے دین توحید کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے۔ اب اس نقطۂ نظر کو، کم از کم بالو اسطہ طورپر، مکمل علمی تائید حاصل ہے کہ انسان کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ حقیقت اعلیٰ کو پانے کے لیے وہ پیغمبر کی اطلاع کا اعتبار کرے۔ اب یہ مطالبہ سراسر غیر علمی مطالبہ بن چکا ہے کہ خدا اور وحی اور آخرت کو ہماری آنکھوں سے ہمیں دکھاؤ، اس کے بعد ہی ہم اس پر ایمان لائیں گے۔
معلوم تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ خود علم انسانی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انسان کا علم محدود ہے اور ہمیشہ محدود رہے گا۔ انسان سائنسی ذرائع سے جب کائنات کی کھوج کرتاہے تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ کائنات اس سے زیادہ پیچیدہ ہے کہ انسان کا محدود ذہن اس کا احاطہ کر سکے۔ سائنس کی یہ دریافت اسلامی نقطۂ نظر سے بے حد اہم ہے۔ کیونکہ اس سے رسالت کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ ایک طرف انسان کا یہ حال ہے کہ وہ حقیقت کو آخری حدتک جان لینا چاہتا ہے۔ دوسری طرف انسان اپنی بناوٹ کے اعتبار سے ایسی محدود یت کا شکار ہے کہ وہ کبھی بھی حقیقت کو آخری حدتک نہیں جان سکتا۔ انسانی زندگی کا یہ خلا واضح طورپر یہ بتاتا ہے کہ اس کو ایک برتر رہنما کی ضرورت ہے۔ اسی برتر رہنما کا دوسرا نام پیغمبر ہے۔ انسانی محدودیت کے بارے میں سائنس کے اقرار نے پیغمبر کی ضرورت کو خالص علمی سطح پر ثابت کر دیا ہے۔
4۔ قدیم زمانہ میں انسان کو اظہار رائے کی آزادی حاصل نہ تھی۔ اس کی اصل وجہ بادشاہوں اور بڑے انسانوں کے تقدس کا عقیدہ تھا۔جو لوگ کسی وجہ سے اونچے مقام پر پہنچ جاتے ان کو مقدس سمجھ لیا جاتا۔ ان کی رائے دوسروں سے بر تر مانی جاتی۔ ان کو یہ حق مل جاتا کہ جس طرح چاہیں دوسروں کو اپنی مرضی کا پابند بنائیں۔ توحید کے انقلاب نے انسانی بڑائی کا خاتمہ کیا اور یہ اعلان کیا کہ کسی انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت نہیں ۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک نئی فکری لہر چل پڑی۔ یہی وہ فکری لہر ہے جس کی سیاسی تکمیل با لآخر یورپ میں جمہوریت کی صورت میں ہوئی۔جمہوری انقلاب نے تمام انسانوں کو برابر ٹھہرا دیا۔ ہر شخص کے لیے یہ فکری حق تسلیم کر لیا گیا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق جو چا ہے لکھے اور جو چاہے بولے۔ اس انقلاب نے تاریخ میں پہلی بار اس بات کو ممکن بنادیا کہ خدا کے دین کی تبلیغ اس طرح کی جائے کہ تبلیغ کرنے والے کے لیے کسی طرح کی پکڑ دھکڑ کا اندیشہ نہ ہو۔
5۔ سائنس نے آج کے انسان کے لیے خدا کی بہت سی وہ مادی نعمتیں کھولی ہیں جو ہزاروں برس سے کائنات کے اندر چھپی ہوئی تھیں۔ ان میں اسلامی دعوت کے نقطۂ نظر سے سب سے اہم جدید ذرائع مواصلات ہیں۔ پریس، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اسی طرح مختلف قسم کی تیز رفتا ر سواریاں۔ یہ چیزیں اسلام کے حق میں عظیم نعمتیں ہیں ۔ ان کو استعمال کر کے اسلامی دعوت کو عالمی سطح پر پھیلایا جاسکتاہے۔
یہ مواقع جو عین اسلامی دعوت کے حق میں ہیں، پچھلے ہزار سالہ عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ پچھلے زمانہ میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے ڈھائی ہزار سالہ عمل کے ذریعہ اسلام کےغلبۂ او ل کے حالات فراہم کیے، اسی طرح اس نے دوبارہ ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں اسلام کے غلبۂ ثانی کے حالات فراہم کردیے ہیں ۔ تاہم یہ حالات و مواقع خود اپنے زور پر واقعہ نہیں بن جائیں گے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے کے لیے زندہ انسانوں کی ایک جماعت درکار ہے۔ ایسی ایک جماعت اگر کھڑی ہو جائے تو قریبی مستقبل میں اسی طرح دوبارہ اسلام کو فکری غلبہ مل سکتا ہے جس طرح قرن اول میں اس کو شرک کے مقابلہ میں فکری غلبہ حاصل ہواتھا۔
اوپر جن امکانات کا ذکر ہوا وہ تقریباً ایک سو سال سے ایسی کسی جماعت کا انتظار کر رہے ہیں مگر بد قسمتی سے ایسی کوئی جماعت ابھی تک کھڑی نہ ہو سکی۔ اس میں شک نہیں کہ پچھلے سو سال کے اندر ہمارے یہاں بے شمار جماعتیں اور تحریکیں اٹھی ہیں، مگر یہ تحریکیں وقتی حالات، خصوصاً سیاسی حالات کے رد عمل کے طور پر اٹھیں نہ کہ اس ربانی شعور کے تحت جو پچھلے ہزار سال سے تاریخ کے اندر کام کرتا رہاہے اور چود ھویں صدی ہجری میں اپنی تکمیل کو پہنچاہے۔
سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ بدر کے میدان میں جب طاقت و راہل کفر بظاہر کمزور اہل ایمان کے اوپر ٹوٹ پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدت احساس کے تحت سجدے میں گر گئے اور اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا ئیں مانگنے لگے۔ اس نازک لمحہ میں آپ کی زبان سے جو کلمات نکلے ان میں سے ایک جملہ یہ تھا:اللَّهُمَّ إِنَّكإِن تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا تُعْبَدُ بَعْدَهَا فِي الأرض(سيرت ابن كثير، جلد 2، صفحه 411)۔خدایا، اگر یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو اس کے بعد زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی )۔
یہ کوئی مبالغہ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تین سو تیرہ روحیں جو بے سر و سامانی کے باوجود بدر کے معرکہ میں کھڑی ہوئی تھیں۔ یہ محض عام قسم کے تین سوتیرہ لوگ نہ تھے۔ یہ عصا بہ دراصل وہ گر وہ تھا جس پر ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ اسی طرح آج دوبارہ ایک نیا عصابہ (گروہ ) درکار ہے جس پر پچھلی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جو اپنے شعور کے اعتبار سے پچھلی ہزار سالہ تاریخ کا وارث ہو۔ جو اپنے کردار کے اعتبار سے ان امکانات کو واقعہ بنانے کا اٹل ارادہ اپنے اندر لیے ہوئے ہو، جو سنجیدہ فیصلے کی اس حدپر پہنچا ہوا ہو جہاں پہنچ کر آدمی اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے پوری طرح وابستہ رہے، کوئی بھی خارجی واقعہ اس کو اس کے نشانہ سے ہٹانے والا ثابت نہ ہو۔ یہی وہ لوگ ہیںجو خدا کے کاگ (cog)میں اپنا کاگ (cog) ملائیں گے۔ اور بالآخر یقینی کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔
ہیروؤں کی نرسری
سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ غزوۂ بدرکے موقع پر 313بظاہر کمزور اہل ایمان پر ایک ہزار طاقت ور اہل کفرٹوٹ پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدت احساس کے تحت سجدہ میں گر پڑے۔ اس وقت آپ میدان جنگ کے کنارے ایک عریش (چھپر) کے اندر تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے نصرت وحمایت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ اس نازک لمحہ میں آپ کی زبان سے جو کلمات نکلے، ان میں سے ایک جملہ یہ تھا:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنَّ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا تُعْبَدُ بَعْدَهَا فِي الارض(السیرۃ النبویہ لابن کثیر، جلد 2، صفحہ411)۔يعني، خدایا، یہ گر وہ اگر آج ہلاک ہو گیا تو اس کے بعد زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی۔
یہ کلمہ کوئی مبالغہ کا کلمہ نہ تھا،بلکہ ایک واقعہ کا سادہ اظہار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تین سو تیرہ روحیں جو بدر کے میدان میں حق کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلی تھیں، وہ محض عام قسم کے تین سو تیرہ لوگ نہ تھے۔ یہ العصابہ دراصل وہ گر وہ تھا جس پر ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ڈھائی ہزار سال کے دوران مخصوص حالات کے اندر ایک زندہ قوم تیار کی گئی۔ پھر اس زندہ قوم سے چھانٹ کر ایک گروہ نکالا گیا جو قرآن کے الفاظ میں’’ خیرامت ‘‘ تھا۔ یہی وہ تاریخی گروہ تھا جو اس وقت خونخوار دشمنوں کی تلواروں کے سامنے کھڑ ا ہوا تھا۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ اسباب و علل کے پردہ میں پیش آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے اگر یہ العصا بہ ہلاک ہو جائے تو موجودہ دنیا میں خدا کی سنت کےمطابق دوبارہ نئے ’’ڈھائی ہزار سال‘‘ درکار ہوں گے جن کی گرد شیں ازسر نو جاری ہوں اور اسباب کے سلسلوں سے گزر کر بالآخر وہ افراد تیار ہوں جو مطلوبہ کا رنامہ انجام دینے کے لیے ضروری ہیں ۔
موجودہ زمانہ میں اسلام کا غلبہ، بالفاظ دیگر نبوت محمدی کے اظہار ثانی کے لیے، آج دوبارہ ایک العصابہ درکار ہے۔ یہ العصابہ وہ ہوگا جس پر پچھلی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جو اس بات کا عرفان کامل رکھتا ہو کہ پچھلے ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں خدانے اسلام کے لیے کیا کیا موافق حالات پیدا کیے ہیں اور کن حکمتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں اسلام کے حق میں استعمال کیا جاسکتاہے۔
یہ گروہ وہی ہوسکتاہے جو اپنے شعور کے اعتبار سے پچھلی ہزار سالہ تاریخ کا وارث ہو۔ جو اپنے کردار کے اعتبار سے اِن امکانات کو واقعہ بنانے کی اہلیت اپنے اندر ليے ہوئے ہو۔ جس کا وجود اور اسلام کا غلبۂ ثانی دونوں اس طرح ایک ہو جائیں کہ بظاہر ایک کو دوسرے سے جدانہ کیا جاسکتاہو۔ اسی قسم کے ایک العصابہ نے پہلے دور میں اسلام کو غالب کیاتھا اور آج بھی اس قسم کا ایک العصابہ دوبارہ اسلام کو غالب کرے گا۔ دوسری کوئی صورت موجودہ عالم اسباب میں اسلام کے غلبہ کے لیے نہیں ہے۔
پروفیسر فلپ ہٹی (1886-1978ء)نے اپنی کتاب تاریخ عرب میں لکھاہے — پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد ایسا معلوم ہو ا جیسے عرب کی بنجر زمین جادو کے ذریعہ ہیرؤوں کی نرسری میں تبدیل کر دی گئی ہو، ایسے ہیروجن کی مثل، تعداد یا نوعیت میں کہیں اورپانا سخت مشکل ہے:
After the death of the prophet sterile arabia seems to have been converted as if by magic into a nursery of heroes the like of whom both in number and quality is hard to find anywhere. (Philip K. Hitti, History of the Arabs (1979), p. 142)
دنیا میں اسلام کا غلبہ ایک کامل فکری نظام کے مقابلہ میں دوسرے کامل فکری نظام کا غلبہ ہے۔ یہ تاریخ کا مشکل ترین منصوبہ ہے جس کو وقوع میں لانے کے لیے ’’ہیروؤں کی نرسری ‘‘ درکارہے۔ قدیم دورِ شرک میں اسلام کا غلبہ ہیرؤوں کی نرسری کے ذریعہ انجام پایاتھا۔ اب دورِ الحاد میں اسلام کا غلبہ دوبارہ ہیروؤں کی ایک نرسری کے ذریعہ انجام پائے گا۔ قانون قدرت کے مطابق جو شرط پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کے ليے ضروری تھی وہ بعد کے لوگوں کے لیے آخر کس طرح ساقط ہو جائے گی۔
زمانۂ رسالت کےمسلمانوں نے دین کو زندہ کرنے کے لیے جد وجہد کی تھی۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نےبھی دین کو زندہ کرنے کے نام پر زبر دست کوششیں کی ہیں ۔ اگر مجرد ظاہری مقدار کے پہلو سے دیکھا جائے تو موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی کوششیں دور اول کے مسلمانوں کی کوششوں سے کم نہیں ہیں ، بلکہ کچھ زیادہ بڑھی ہوئی ہیں ۔ جان کی قربانی، مال و دولت کا خرچ، زبان و قلم کا استعمال، زمین میں دوڑ دھوپ، یہ سب چیزیں مسلمانوں کی حالیہ جدو جہد میںاتنی زیادہ دکھائی دیتی ہیں کہ خالص مقدار کے اعتبار سے وہ ماضی سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ مگر جہاں تک نتیجہ کا تعلق ہے، دونوں کے درمیان کوئی نسبت نہیں۔ ماضی کی اسلامی کوششوں نے تاریخ کے دھارے کو بدل دیاتھا۔جب کہ موجودہ زمانہ کی کوششوں نے صرف ہماری بربادی میں اضافہ کیا ہے۔
یہ فرق اس نفسیاتی فرق کی وجہ سے ہے جو دونوں کے درمیان پایاجاتاہے۔ اور وہ یہ کہ زمانۂ رسالت کے مسلمانوں کو احساس ِ یافت نے ابھار اتھا اور موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو احساس محرومی نے ابھاراہے۔ زمانۂ رسالت کے مسلمان کس نفسیات کے تحت ابھرے تھے، اس کی ایک کامیاب تصویر اس تقریر میں ملتی ہے جوحضرت جعفر بن ابی طالب نے شاہ حبش نجاشی کے دربار میں کی تھی۔ اس تقریر کے مطابق اسلام ان لوگوں کے لیے جاہلی زندگی کے مقابلہ میں شعوری زندگی اختیار کرنے کے ہم معنی تھا۔ انہوں نے شرک کے مقابلہ میں توحید کو دریافت کیا تھا۔ انہوں نے بےرہنمائی کےمقابلہ میں پیغمبرانہ رہنمائی کو پایا تھا۔ انہوں نےدنیا کے مقابلہ میں آخرت کو پایا تھا۔ انہوںنے بے قید اخلاقیات کے مقابلہ میں ذمہ دارانہ اخلاقیات کو پایا تھا۔ انہوں نے ظلم کے مقابلہ میں عدل و انصاف کو پایا تھا۔ مگر جہاں تک موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا معاملہ سراسر اس سے مختلف ہے۔
زمانۂ رسالت کے مسلمانوں کے جذبات میں اس احساس نےہیجان بر پاکیا تھاکہ ’’ہم نے پایا ہے ‘‘۔ اس کے برعکس موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے اندر جس چیز نے ہیجان بر پا کیا وہ صر ف یہ احساس تھا کہ ہم نے کھویا ہے:
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام تحریکیں اسی محرومی اور مظلومی کے احساس کے تحت ابھری ہیں۔ ایک اور دوسری تحریک میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف یہ کہ ایک اس کو سادہ انداز میں بیان کر رہی ہے اور دوسری مفکر انہ انداز میں۔ کسی کے یہاں قومی الفاظ بو لے جارہے ہیں اور کسی کے یہاں مذہبی الفاظ۔
یونانی فلسفی ارشمیدس (Archimedes, d. 212 BC)نے کشش ثقل کا ایک قانون، بائنسی (law of buoyancy) دریافت کیا تھا۔ اس کے بعد وہ اتنا سرشار ہوا گویا اس نے سب کچھ پالیا ہے۔ شاہِ ایران محمدرضا پہلوی (1919-1980ء) نے صرف حکومت کھوئی۔ مگر ان کا یہ حال ہوا گویا انہوں نے سب کچھ کھودیا ہے۔ دریافت ہو یا محرومی، دونوں کی نفسیات یہ ہے کہ آدمی اسی چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دینے لگتا ہے جس کو اس نے پایا ہےیا جس کو اس نے کھو دیاہے۔
اس نفسیات کا یہ نتیجہ ہوتاہے کہ ’’دریافت ‘‘ آدمی کی فکری قوتوں کو پوری طرح جگادیتی ہے۔ وہ کامل طورپر ایک زندہ انسان بن جاتا ہے۔ اس کے حوصلوں کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ اس کے برعکس جب کسی آدمی پر ’’محرومی‘‘ کا احساس چھاتا ہے تو اس کی ذہنی اور عملی قوتیں ٹھپ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ بظاہر زندہ ہونے کے باوجود اندر سے وہ ایک مردہ انسان بن جاتاہے۔ دور قدیم میں ہمارے اسلاف احساس یافت پر ابھرے تھے اس لیے ان کی بیداری اس نوبت تک پہنچی کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ موجودہ زمانہ میں ہماری نسلیں احساس محرومی پر ابھری ہیں ، چنانچہ ان کی بے شعوری اور پست حوصلگی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ تاریخ میں شاید اس کی بھی کوئی دوسری مثال نہیں ملے گی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یافت کے جذبہ سے مثبت اخلاقیات ابھرتی ہیں اور محرومی کے جذبہ سے منفی اخلاقیات۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوراول کے مسلمانوں کے لیے ان کا اسلام ان کے اندر اعلیٰ کردار پید اکرنے کا ذریعہ بن گیاتھا۔ وہ حق کے آگے جھک جاتے تھے۔وہ دوسروں کا اعتراف کرنا جانتے تھے۔ وہ جو کچھ کہتے تھے وہی عملاً کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ وہ شکایتوں کو نظر انداز کر کے لوگوں کے ساتھ معاملہ کر سکتے تھے۔ وہ جذبات سے ہٹ کر خالص عقلی فیصلہ لینے کی طاقت رکھتے تھے۔ وہ رد عمل کی نفسیات سے پاک ہو کر سو چنا جانتے تھے۔
منفی احساسات، اس کے بر عکس، منفی اخلاقیات پیدا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے رہنما صرف ان کے جذبات ہوتے ہیں۔ وہ بالکل قدرتی طور پر جھنجھلاہٹ اور نفرت کا شکار رہتے ہیں ۔ حقیقت پسندی کی باتیں ان کو اپیل نہیں کرتیں۔ وہ ہمیشہ اختلاف اور انتشار میں مبتلا رہتے ہیں ۔ ان کے اندر حق کا اعتراف کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ وہ اگر ہا ر جائیں تو اپنی ہا رماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اگر کامیاب ہوں تو ان کا بگڑا ہو اذہن بہت جلد ان کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جس نے کل اور آج میں وہ عظیم الشان فرق پید اکر دیا ہے جس کو ہم دیکھ رہے ہیں۔
پیغمبر اسلام کا لایا ہوا انقلاب مثبت اخلاقیات کی زمین پر ابھر اتھا۔ اب اگر کچھ لوگ یہ چاہیں کہ اس انقلاب کو منفی اخلاقیات کی زمین سے بر پا کر یں تو انہیں اپنے لیے دوسرا خدا تلاش کرنا چاہیے اور اسی کے ساتھ دوسرا پیغمبر بھی۔