مسلمان کی اصل حیثیت(Musalman ki Asal Haisiat)
مسلمان کی اصل حیثیت
(Leaflet)
مولانا وحید الدین خاں
اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے، مسلمان داعی ہیں اور دوسری تمام اقوام اُن کی مدعو، یعنی مسلمان دین ِ خداوندی کے امین ہیں اور اُن کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اِس امانت کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اِسی فرض کی ادائیگی میں اُن کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی نازک خدائی ذمّے داری کا معاملہ ہے۔ مسلمان اپنی اِس ذمے داری کو صرف اُس وقت ادا کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اِس ذمے داری کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُس کو اپنی زندگی میں بھر پور طور پر استعمال کریں۔ داعی کی ذمّے داری صرف داعیانہ کردار کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہے، داعیانہ کردا ر کے بغیر دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا اُسی طرح ناممکن ہے جس طرح کسی عورت کے لیے مادرانہ شفقت کے بغیر ماں کی ذمّے داری کو ادا کرنا۔
قرآن کے الفاظ میں، دعوت کا آغازنُصح (الأعراف68)سے ہوتا ہے، یعنی مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی۔ دعوتی اخلاق کا تقاضا ہے کہ داعی کے دل میں اپنے مدعو کے لیے صرف مثبت جذبات ہوں، منفی جذبات سے اُس کا دل مکمل طورپر خالی رہے۔ اِسی کا نام یک طرفہ خیر خواہی ہے۔ اِس قسم کی یک طرفہ خیرخواہی کے بغیر داعی اپنی داعیانہ ذمّے داری کو ادا نہیں کرسکتا۔
موجودہ دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے، اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طرف سے ناخوش گوار تجربات پیش آتے رہتے ہیں، ایک کی کوئی بات دوسرے کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام کو بدلنا ہرگز کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں، داعی کے اندر اپنے مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی کا جذبہ صرف اُس وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب کہ وہ یک طرفہ اخلاقیات کے اصول پر قائم ہو۔ لوگوں کے ساتھ اُس کی روش دوسروں کے عمل کے زیر اثر نہ بنے، بلکہ وہ اُس کے اپنے سوچے سمجھے اصول کے تحت بنی ہو۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
مسلمان داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے خلاف شکایت اور احتجاج (protest) کی تحریک چلائیں۔ داعیانہ شریعت میں، شکایت اور احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کیوں کہ مسلمان جس قوم کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں گے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مدعو قوم ہوگی۔ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی مدعو قوم کے ساتھ حریف قوم جیسا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کوہر حال میں اور ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق کو برقرار رکھنا ہے، کیوں کہ معتدل تعلقات کے ماحول ہی میں دعوت الی اللہ کا کام ہوسکتا ہے۔ جہاں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان معتدل تعلقات نہ ہوں، وہاں دعوت کا کام انجام دینا ممکن ہی نہیں۔
قرآن کی سورہ نمبر 33 میں ایک حکم اِن الفاظ میں آیا ہے:دَعْ أذاہم وتوکّل علی اللہ )الأحزاب(48یعنی اُن کی ایذاؤں کو نظر انداز کرو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے نہ مانگ کر اللہ سے مانگو، مطالباتی طریقہ چھوڑ کر دعا کا طریقہ اختیار کرو۔ اِسی لیے ہر پیغمبر نے اپنی مدعو قوم سے کہا کہ:لا أسئلکم علیہ مالاً )ہود (11یعنی میں تم سے کسی مادّی فائدے کا طالب نہیں ہوں۔ میں صرف دینے والا ہوں، نہ کہ تم سے کوئی چیز لینے والا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مدعو قوم کے مقابلے میں، حقوق (rights)کے نام پر مطالباتی مہم چلانا، پیغمبرانہ سنت کے مطابق، سرے سے جائز ہی نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر آخر الزماں ﷺ پر نبوت ختم ہوگئی۔ مگر جوچیز ختم ہوئی، وہ نبوت ہے، نہ کہ کارِ نبوت۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبرکے دعوتی مشن کی بات ہے، وہ ہمیشہ اور ہر قوم کے درمیان جاری رہے گا۔ اِس اعتبار سے، مسلمان ختمِ نبوت کے بعد مقامِ نبوت پر ہیں، یعنی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیغمبر کے دعوتی مشن میں، بقدر استطاعت، اپنا حصہ ادا کرے۔ یہ دعوتی عمل ہر فردِ مسلم کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے)البقرۃ(143جو لوگ اِس فرض کو ادا نہ کریں، اُن کے لیے سخت اندیشہ ہے کہ خدا کے نزدیک، وہ پیغمبرآخر الزماں کے امتی ہونے کا حق اپنے لیے کھو دیں۔