مذہب اور سائنس (Mazhab aur Science)
مذہب اور سائنس
مولانا وحید الدین خاں
فہرست
دیباچہ
طریقہ استدلال کا مسئلہ
برٹرینڈسل کے خیالات
آخری بات
کائنات کی مشینی تعبیر
کچھ نئی حقیقتیں
مذہب اور سائنس
انسان کس کو سائنس دریافت نہ کر سکی
دور جدید کا مذہب۔ تعارف
جائزہ
مذہب کی ملحدانہ تشریح
تبصرہ
ببلیو گریفی
دیباچہ
زیر نظر کتاب،مذہب اور سائنس، تیس سال پہلے دہلی کے ہفت روزہ الجمعیۃ19 مارچ 1971ء میں خصوصی نمبر کے طور پر شائع ہوئی۔ اس کے بعد1984ء میں اس کو ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا۔ پھر اس کے عربی اور انگریزی ترجمے شائع ہوئے۔ اس طرح پچھلے تیس سال میں اس کتاب کے کئی ایڈیشن مختلف زبانوں میں چھپ چکے ہیں۔ اب اس کتاب کو کسی قدر نظرثانی کے ساتھ نئی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
مذہب اور سائنس کی نسبت سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں اور بہت سے پہلوئوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ فکری بھی اور عملی بھی۔ اس کتاب میں صرف فکری نوعیت کے بعض مسائل پر کلام کیا گیا ہے۔ وہ زیادہ تر ان مسائل کے بارے میں ہیں جو اسلام کے اعتقادی نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاہم یہ کتاب اس معاملہ کے صرف کچھ اصولی امور سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ تفصیلی یا غیر اساسی پہلوئوں پر کوئی بحث نہیں کرتی۔ میں نے اپنی دوسری کتابوں کے مضامین میں مذہب اور سائنس کے موضوع پر تفصیلی کلام کیا ہے۔
مذہب کی تعلیمات مجرد تعلیمات نہیں ہیں، بلکہ وہ کائنات کی ابدی صداقتیں ہیں۔ ہماری نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان صداقتوں سے ہم آہنگ کریں، ٹھیک ویسے ہی جیسے سورج کی روشنی سے اپنے کو ہم آہنگ کرتے ہیں۔ ان صداقتوں کے معاملہ میں نہ ہم انکار کا رویہ اختیار کر سکتے ہیں، اور نہ ان کے معاملہ میں غیر جانب دار ہو سکتے۔ اپنے کو ان سے ہم آہنگ بنانے کے سوا کوئی بھی دوسرا رویہ ہم کو صرف ایک انجام تک پہنچانے والا ہے،اور وہ ہے ابدی تباہی۔
مذہب کی تعلیمات کو ان کی قطعی اور یقینی صورت میں جاننے کا ذریعہ وحی ہے۔ خدا کے پیغمبروں نے ان تعلیمات کو براہ راست خالق کائنات سے لے کر انسانوں تک پہنچایا۔ پیغمبروں کی دعوت پر جب ان کے مخاطبین نے شک و شبہ کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا:قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ(14:10)۔ یعنی کیا تم اس خدا کے بارے میں شک کرتے ہو جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں نے اپنے پیغام کی صداقت پر جو دلیل پیش کی وہ فطرت کی دلیل تھی۔ زمین و آسمان کی صورت میں جو مظاہر ہمارے سامنے پھیلے ہوئے ہیں، وہ مشاہداتی طور پراس تعلیم کے حق میں گواہی دے رہے ہیں جو پیغمبروں نے نظری طور پر پیش کی۔ یہ دلیل آج بھی پوری طرح مذہب کی تائید میں موجود ہے۔ پیغمبروں کا زمانہ سائنسی دور سے پہلے کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں آدمی زمین و آسمان کے مظاہر کے بارے میں بہت کم باتیں جانتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں جب کہ زمین و آسمان کے بارے میں انسان کی معلومات میں کروڑوں گنا اضافہ ہوگیا ہے، اب بھی اس استدلال کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جدید تحقیقات نے پیغمبروں کی تعلیم کی صداقت کو اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ ثابت کیا ہے۔
جدید علم نے کائنات کی جو تصویر بنائی ہے وہ ایک حد درجہ محکم اور منظم کائنات ہے۔ اس سے اولاً یہ قیاس کیاگیا کہ یہ ایک قسم کا مشینی نظام ہے جو اسباب و علل کے زور پر اپنے آپ چل رہا ہے لیکن گہرے مطالعہ نے اس مفروضہ کو بے بنیاد ثابت کر دیا۔ معلوم ہوا کہ کائنات کا نظام محکم ہونے کے ساتھ مکمل طور پر غیر مشینی ہے۔
وہ ہر لمحہ ایک چلانے والے اور انتظام کرنے والے کا محتاج ہے۔ اسی طرح معلومات کے اضافہ سے یہ فرض کر لیا گیا کہ انسان کا اپنا علم ہی ساری حقیقتوں کو جاننے کے لیے کافی ہو جائے گا، وحی و الہام کا سہارا لینے کی ضرورت نہ ہوگی۔ مگر تحقیق نے اس کو بھی بے بنیاد ثابت کر دیا۔ معلوم ہوا کہ کائنات کے کلی علم تک پہنچنے کے لیے انسان کی صلاحیتیں فیصلہ کن طور پر ناکافی ہیں۔ ہمارے لیے خارجی معلم کا سہارا لینے کے سوا دوسری کوئی صورت نہیں۔ اس طرح جدید علم ہر لحاظ سے مذہب کی بنیاد کو مضبوط کرتا جا رہا ہے، اس نے کسی بھی اعتبار سے اس کو کمزور نہیں کیا ہے۔
جدید مطالعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ مذہب کا جذبہ انسان کا فطری جذبہ ہے، کسی طرح اس کو انسان سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ جدید دور میں آخری کوشش یہ کی گئی کہ وحی سے آزاد ہو کر انسانی ساخت کا ایک’’مذہب‘‘ بنایا جائے اور اس کو انسان کی مذہبی تلاش کے جواب کے طور پر پیش کیا جائے، مگر اب تک کی کوششوں نے صرف یہ بتایا ہے کہ جس کائنات میں انسان کلی علم تک پہنچنے سے عاجز ہے، اس کائنات میں بسنے والی مخلوق کے لیے وہ ایسا دین بھی وضع نہیں کر سکتاجو حقائق کائنات سے کلی مطابقت رکھنے والا ہو۔
جہاں تک خالص سائنس کا تعلق ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑے بڑے سائنس دانوں نے کبھی بھی خدا کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ آئزک نیوٹن(وفات1727) نے واضح طور پر خدا کے وجود کا اقرار کیا تھا۔ البرٹ آئن سٹائن(وفات1955) خدا کے وجود پر گہرا عقیدہ رکھتا تھا، اپنی ذاتی زندگی میں وہ ایک روحانیت پسند انسان تھا۔
اسی طرح چارلس ڈارون نے اپنی مشہور کتاب اصل الانواع(Origin of Species) میں ایک سے زیادہ مقام پر خدا کے وجود کا اقرار کیا ہے۔ مثلاً اس نے اپنی اس کتاب کے آخری پیراگراف میں لکھا ہے کہ زندگی کے اس تصور میں کتنی عظمت ہے کہ خالق(Creator) نے آغاز میں زندگی کی ایک یا اس سے زیادہ ابتدائی شکلیں پیدا کیں اور پھر اس آغاز سے ہماری زمین کے اوپر زندگی کی بے شمار قسمیں ظہور میں آئیں:
There is grandeur in this view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into a few forms or into one.
حقیقت یہ ہے کہ سائنس خدا کا انکار نہیں کرتی۔ البتہ کچھ ملحد فلسفیوں نے سائنس کو انکار خدا کی دلیل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تھی، جو اپنے ابتدائی مرحلہ ہی میں ناکام ہوگئی۔
زیر نظر کتاب نہ مذہب کا تفصیلی مطالعہ ہے، اور نہ سائنس کا تفصیلی مطالعہ۔ وہ صرف ایک بنیادی پہلو سے دونوں کے درمیان تعلق کو بتانے کی ایک کوشش ہے۔ یہ کتاب انہی لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہوگی، جو مذہب اور سائنس دونوں کے بارے میں ضروری واقفیت رکھتے ہوں۔ اس کتاب کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جو جدید افکار سے متاثر ہونے کی بنا پر مذہب کی صداقت کے بارے میں شک اور تذبذب میں مبتلا ہیں، ان کے شک کو رفع کیا جائے اور مذہب کی اصولی صداقت کو ان کے لیے قابل فہم(understandable) بنایا جا سکے۔
یہ کتاب اگر ایسے لوگوں میں یہ جذبہ پیدا کر سکے کہ وہ مذہب کو ایک قابل غور چیز سمجھیں، اور اس کا سنجیدہ مطالعہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو مصنف کے نزدیک اتنی ہی بات اس کتاب کی کامیابی کے لیے کافی ہوگی۔
وحیدالدین
نئی دہلی،13 ستمبر1999ء
طریق استدلال کا مسئلہ
ٹی۔ آر۔ مائلز(T.R. Miles) نے کہا ہے:
’’ماضی کے علمائے مذاہب کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جس نے ایک بے کار چک (Dud Cheque) لکھ دیا ہو ،جس کے لیے بنک میں واقعی رقم موجود نہ ہو۔ یہ لوگ ایسے الفاظ استعمال کرتے رہے جس کے پیچھے معنویت کا سرمایہ نہیں تھا۔’’ناقابل تغیر حقیقت اعلیٰ قواعد زبان کی رو سے ایک صحیح جملہ ہے مگر وہ ایک بے کار چک ہے جس کے پیچھے کوئی حقیقی سرمایہ موجود نہیں۔‘‘
Religion and Scientific Outlook, p. 20
اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کے جو دعوے ہیں ان کی بنیاد کسی دلیل پر قائم نہیں ہے۔ مذہب خالص اعتقادی چیز ہے۔ جب کہ کسی چیز کا حقیقت ہونا اس وقت متحقق ہوتا ہے جب کہ وہ اعتقاد کی اندرونی دنیا سے باہر ثابت کی جا سکے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ’’کہکشاں نورانی بادل نہیں بلکہ الگ الگ ستاروں کا مجموعہ ہے۔‘‘ ابتدائی طور پر یہ بیان صرف ایک عقیدہ ہے مگر جب مدعی اسے دوربین کے شیشہ میں دکھا دے تو یہ عقیدہ ایک ایسی حقیقت بن جاتا ہے جو ہر ایک کے لیے قابل مشاہدہ ہو۔ مذہب کی صداقتوں کو اس طور پر خارج میں(Demonstrate) نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مذہب صرف ایک دعویٰ یا عقیدہ ہے۔ اس سے زیادہ اس کو کوئی حیثیت حاصل نہیں۔
آیئے اس سوال کا تجزیہ کریں۔ یہ معیار استدلال جس کا اوپر ذکر ہوا سادہ طور پر ایک واحد چیز نظرآتا ہے۔ مگر عمل میں آنے کے بعد اس کے کئی درجہ بن جاتے ہیں۔
1۔ اس کا ابتدائی درجہ یہ ہے کہ جو چیز زیر بحث ہے خود وہ چیز براہ راست ہمارے اپنے تجربے اور مشاہدے میں آ جائے۔ مثال کے طور پر ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ’’پانی میں کیڑے ہوتے ہیں‘‘ بظاہر یہ عجیب سا دعویٰ ہے۔ مگر جب ہم اس دعویٰ کو جانچنے کے لیے پانی کے قطرے کو خوربین کے شیشے کے نیچے رکھتے ہیں تو واقعی ہمیں نظر آتا ہے کہ پانی کے اندر بے شمار چھوٹے چھوٹے کیڑے بلبلا رہے ہیں۔
2۔دوسرا درجہ وہ ہے کہ جب کہ دعویٰ پورا کا پورا تو نظر نہ آئے مگر اس کے کچھ اجزاء (Patches) دکھائی دے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر یہ دعویٰ کہ’’زمین گول ہے‘‘ اپنی پوری شکل میں کسی بھی طرح انسانی مشاہدہ میں نہیں آ سکتا۔ مگر اس کی گولائی کے بعض حصوں کو ہم بلاشبہ دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک خلائی جہاز جب اوپر اٹھ کر دوربینی کیمرے سے زمین کی تصویر لیتا ہے تو وہ اس میں اسی طرح گول نظر آتی ہے جیسے چاند۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ اس کی گولائی کا صرف جزء ہوتا ہے، نہ کہ کُل۔
3۔ مگر اس طرح کے مشاہدات سے جو حقائق ہمارے ادراک میں آتے ہیں وہ اس دنیا کے بہت معمولی حقائق ہیں۔ ان مشاہدات سے کوئی بھی معنی خیز حقیقت(significant fact) حاصل نہیں ہوتی۔ حالانکہ دنیا کے بارے میں ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ بے شمار معنی خیز حقائق سے بھری ہوئی ہے۔
یہاں جدید ذہن اپنے معیار استدلال میں ایک اور اضافہ کرتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ استدلال بھی ایک صحیح معیار استدلال ہے جس میں اگرچہ اصل حقیقت کو براہ راست دکھایا نہ گیا ہو مگر اس کے کچھ ایسے پہلو ہمارے تجربہ میں آتے ہوں جن سے قیاس کیا جا سکے کہ ایسی کوئی حقیقت یہاں پائی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر الیکٹران بذات خود ایک ناقابل مشاہدہ چیز ہے۔ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ نہ کوئی خوردبین اسے دکھا سکتی ہے اور نہ کوئی ترازو اسے تول سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود سائنس کی دنیا میں الیکٹران کو ایک حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ الیکٹران بذات خود تو نظر نہیں آتا، مگر اس کے کچھ ایسے اثرات(effects) قابل اعادہ تجربات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں جن کی توجیہہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ ہم الیکٹران جیسے ایک نظام کا وجود فرض کریں۔ الیکٹران بذات خود ایک مفروضہ ہے مگر اس مفروضہ کی بنیاد چونکہ بالواسطہ تجربہ پر ہے اس لیے سائنس اسے تسلیم کرتی ہے۔
معیار استدلال میں اس تیسرے اضافہ کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ وہ معنی خیز حقائق ہمارے دسترس میں آ سکے جن کا دوسرا نام جدید طبیعیات یا نیوکلیر سائنس ہے۔
(4) مگر مطالعہ نے بتایا کہ یہ تیسرا معیار بھی آخری نہیں ہے۔ اس سے جو حقائق ہمیں دستیاب ہوتے ہیں، وہ تمام تر وہی ہیں جن کو ایک عالم نے تکنیکی حقائق(technical truths) کہا ہے جب کہ کائنات کی وسعت تکنیکی حقائق سے بہت آگے جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ معنی خیز حقائق وہاں سے شروع ہوتے ہیں جہاں تکنیکی حقائق کا خاتمہ ہوتاہے۔ مثال کے طور پر جسم انسانی کا حیاتیاتی اور عضویاتی مطالعہ ہمارے سامنے بہت سے حقائق کھولتا ہے اور بلاشبہ اس کے اندر معنویت بھی ہے۔ مگر اس سے زیادہ معنی خیز حقیقت وہ ہے جو انسان کے آغاز و انجام سے متعلق ہے مگر یہاں حیاتیات اور عضویات کا رواجی مطالعہ ہمارا ساتھ نہیں دیتا، اسی لیے ایک مغربی عالم نے کہا ہے— جو چیز قابل دریافت ہے وہ غیر اہم ہے اور جو چیز اہم ہے وہ قابل دریافت نہیں:
The knowable is unimportant, and the important is unknowable.
اب جدید ذہن معیار استدلال کی فہرست میں ایک اور معیار کا اضافہ کرتاہے۔ اور وہ یہ کہ مشاہدات و تجربات، خواہ خالص ٹیکنیکل سائنس کے معنی میں، اصل دعویٰ سے براہ راست مربوط نہ ہو، مگر وہ اصل دعویٰ کے حق میں جائز قرینہ پیدا کرتے ہوں، نیز ان کی توجیہہ کے لیے کوئی بہتر تصور موجود نہ ہو تو ایسے استدلال کو بھی جائز اور صحیح استدلال سمجھا جائے گا۔
یہ آخری معیار استدلال بھی جدید ذہن کے لیے ایک معقول معیار(valid criterion) ہے، اور جو چیز اس معیار پر قرار واقعی طور پر پوری اترے، اس کو بھی ایک ثابت شدہ چیز سمجھا جائے گا۔ اس کی وضاحت کے لیے میں یہاں دو مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ ایک منفی اور دوسری مثبت۔
منفی مثال کے ذیل میں جدید ذہن کے خلافِ مذہب نظریات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ مذہب کے سلسلہ میں جدید ذہن کا کہنا صرف یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے لیے قابل فہم نہیں ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر خود مذہب کی واقعیت کے بارے میں اس نے ایک بیان (statement) دے دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ مذہب ایک سراسر غلط اور بے بنیاد چیز ہے۔
انکار مذہب کا یہ دعو ی کس معیار استدلال کے تحت کیا گیاہے۔ وہ تمام تر اسی معیار کے تحت ہے، جس کو ہم نے اوپر نمبر4 کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ گویا جدید ذہن مذہب کے خلاف دلیل قائم کرنے کے لیے اس چوتھے معیار کو ایک جائز اور معقول معیار تسلیم کرتاہے۔
مذہب کے خلاف دور جدید کا مقدمہ بیک وقت دو متضاد پہلوئوں کا حامل ہے۔ ایک طرف جدید ذہن کا کہنا ہے کہ مذہب چونکہ ایسے عقائد کے مجموعہ کا نام ہے جس کا مظاہرہ (demonstration) ممکن نہیں ہے، اس لیے وہ شخصی عقیدہ کی چیز ہے۔ دوسروں سے اس کے ماننے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف فلسفیوں اور سائنس دانوں کی ایک فوج یہ بھی کہہ رہی ہے کہ جدید دریافتوں نے مذہبی عقائد کو باطل ثابت کر دیا ہے۔
یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ کیونکہ مذہب اگر ایک ایسے دائرے کی چیز ہے جس کو دوسرے شخص کے سامنے علمی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا، تو جس طرح اس کا ثابت کرنا ناممکن ہوگا اسی طرح اسکا رد کرنا بھی ناممکن ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو دور جدید کے موقف کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم مذہب کو علمی طور پر مدلل کرنا چاہیں تو وہ کہیں گے کہ تم فضول کوشش کر رہے ہو کیونکہ مذہب ثابت کرنے کی چیز ہی نہیں۔ لیکن جب وہ خود مذہب کے خلاف دلیل قائم کرنا چاہیں تو مذہب ایک ایسے دائرے کی چیز بن جاتا ہے جہاں علمی دلائل قائم کیے جا سکتے ہوں۔
اس تضاد کی وجہ حقیقۃً یہ نہیں ہے کہ مذہب واقعی ایسے دائرہ سے تعلق رکھتا ہے جہاں دلائل قائم نہ کیے جا سکتے ہوں۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخالفین مذہب یہ نہیں چاہتے کہ جس اصول استد لال کے تحت انہوں نے مذہب کا رد کرنا چاہا ہے، اسی اصول استد لال کو اہل مذاہب اس کے اثبات کے لیے استعمال کریں۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوا توا نہیں مذہب کی معقولیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی عدالت میں سرکاری وکیل تو اپنا فرض انجام دے رہا ہو مگر ملزم کو اپنا وکیل رکھنے کی اجازت نہ ہو۔ سرکاری وکیل کا ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس اصول کو تسلیم کرتی ہے کہ مقدمہ کی وضاحت کے لیے وکیل ہونا چاہیے، مگر اس اصول کو جب ملزم استعمال کرنا چاہے تو حکومت اس کی مخالف ہو جاتی ہے کیونکہ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ کہیں ملزم کو نہ پہنچ جائے۔
اگر اصول یہ ہے کہ حقیقت صرف مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل شدہ چیز کا نام ہے تو مذہب کے مخالفین کا موقف اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جب کہ انہوں نے مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ براہ راست طورپر یہ معلوم کر لیا ہو کہ فی الواقع مذہب کوئی چیز نہیں ہے۔ مثلاً ان کا مشاہدہ اس حد تک مکمل ہو چکا ہو کہ وہ کہہ سکیں کہ عالم کے اندر اور عالم کے باہر جوکچھ ہے وہ سب ہم آخری حد تک دیکھ چکے ہیں اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں نہ خدا ہے، نہ فرشتے، نہ جنت نہ دوزخ، بالکل اسی طرح جیسے10 فٹ چوڑے اور 10 فٹ لمبے ایک خالی کمرے کے اندر ایک بینا شخص ہو تو وہ اس میں نظر دوڑا کر یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی ہاتھی یا شیر موجود نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ مخالفین مذہب اس موقف میں نہیں ہیں۔ پھر استدلال کا وہ کون سا طریقہ ہے جس سے انہوں نے مذہب کے خلاف مواد حاصل کیا ہے۔ یہ مذہب کا براہ راست مشاہدہ نہیں بلکہ بعض مشاہدات کی توجہیہ ہے۔مثلاً عالم افلاک میں باہمی کشش کو دریافت کرنے کے بعد یہ کہنا کہ کوئی خدا نہیں ہے، جو کائنات کو سنبھالے ہوئے ہو۔ کیونکہ قانون کشش اس کی توجیہہ کے لیے موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں جس مشاہدہ کی بنیاد پر دلیل قائم کی گئی ہے، وہ خود خدا کا عدم وجود نہیں ہے، یعنی کسی دوربین نے آخری طور پر ہمیں یہ خبر نہیں دی کہ یہ کائنات خدا سے خالی ہے بلکہ ایک خارجی مشاہدہ کی بنیاد پر یہ استنباط کیا گیا ہے کہ خدا کو نہیں ہونا چاہیے۔ گویا مشاہدہ یا تجربہ خود عدم وجود کا نہیں ہوا بلکہ ایک اور واقعہ کا ہوا ہے جس سے عدم وجود کو قیاس کر لیا گیا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ یہ اصول استد لال جس کو موجودہ زمانہ میں مذہب کے رد کے لیے صحیح سمجھا گیا ہے وہی مذہب کی صداقت کا سب سے بڑاثبوت ہے۔ غلطی اصول استد لال میں نہیں بلکہ اصول استد لال کے انطباق میں ہے۔ اگر اس کو صحیح طور پر منطبق کیا جائے تو نتیجہ بالکل برعکس برآمد ہوگا۔
اس سے ظاہر ہوا کہ استدلال کے چوتھے معیار کو بھی جدید ذہن، ایک جائز اور معقول معیار (valid criterion) تسلیم کرتا ہے۔
اوپر ہم نے چوتھے معیار استد لال کی منفی مثال دی تھی۔ مثبت مثال کے ذیل میں عضویاتی ارتقا(organic evolution) کو پیش کیا جا سکتا ہے جس کو جدید دنیا میں اس طرح تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آج علم کی تمام شاخوں میں اس کے اثرات پھیل چکے ہیں۔ نظریہ ارتقا کی صداقت کا ثبوت پہلے اور دوسرے و تیسرے معیار کے مطابق حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی صداقت کا واحد ثبوت صرف اس معیار استدلال میں ملتا ہے جس کو اوپر نمبر4 کے تحت بیان کیا گیا ہے۔
عضویاتی ارتقا جدید دنیا کے لیے ایک سائنٹفک حقیقت ہے۔ سائنس آف لائف کے مصنفین نے لکھا ہے’’عضویاتی ارتقا کے حقیقت ہونے سے اب کسی کو انکار نہیں ہے۔ سوا ان لوگوں کے جو جاہل ہوں یا متعصب ہوں یا اوہام پرستی میں مبتلا ہوں۔‘‘ ماڈرن پاکٹ لائبریری(نیویارک) نے(Man and the Universe) کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا ہے۔ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب میں ڈارون کی کتاب’’اصل الانواع‘‘ کو تاریخ ساز تصنیف قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’انسان اپنا شجرۂ نسب معلوم کرنے کے لیے طویل ترین مدت سے جو کوشش کر رہا ہے، اس سلسلہ میں کسی نظریہ کو اتنی زبردست مذہبی مخالفت کا سامنا کرنا نہیں پڑا جتنا چارلس ڈارون کے انتخاب طبعی کو۔ اور نہ کسی دوسرے نظریہ کو اتنی زیادہ سائنسی تصدیق (scientific affirmation) حاصل ہوئی ہے جتنی اس نظریہ کو حاصل ہوئی ہے۔‘‘
Philosophers of Science, p. 244
امریکہ کا مشہور ارتقا پسند عالم سمپسن(G.G. Simpson) لکھتا ہے:
’’ڈارون تاریخ کے بلند ترین لوگوں میں سے ایک تھا جس نے انسانی علم کی ترقی میں بہت نمایاں کام انجام دیا ہے۔ یہ مقام اس نے اس لیے حاصل کیا کہ اس نے نظریہ ارتقا کو آخری اور مکمل طور پر ایک حقیقت ثابت کر دیا، نہ کہ محض ایک قیاس یا متبادل مفروضہ جو سائنسی تحقیق کے لیے قائم کر لیا گیا ہو۔‘‘
Meaning of Evolution, NY, 1951, p.127
اے ای مینڈر لکھتا ہے:
’’یہ نظریہ کہ انسان اور دوسری ذی حیات اشیاء کے موجودہ صورت میں پہنچنے کا ارتقائی عمل ہوا ہے، یہ اب اتنے دلائل سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس کو تقریباً حقیقت (approximate certainty) کہا جا سکتا ہے۔
Clearer Thinking, p.113‘‘
لل(R.S. Lull) لکھتا ہے:
’’ڈارون کے بعد سے نظریہ ارتقا دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ اب سوچنے اور جاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ یہ واحد منطقی طریقہ ہے جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہہ ہو سکتی ہے اور اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ‘‘
Organic Evolution, p.15
وہ مزید لکھتا ہے:
’’تمام سائنس داں اور دوسرے جاننے والوں میں سے بیشتر لوگ نظریہ ارتقا کی صداقت(truth) پر مطمئن ہو چکے ہیں۔ خواہ وہ جمادات سے متعلق ہو یا حیوانات سے متعلق۔ یعنی یہ کہ زمین جب اس قابل ہوئی کہ اس پر زندہ چیزیں رہ سکیں، اس وقت لمبی مدت کے عمل کے نتیجہ میں زندگی کی کچھ سادہ اقسام پیدا ہوئیں اور اس کے بعد طویل مدت کے مسلسل عمل سے نباتات اور حیوانات کی وہ تمام حیرت انگیز قسم وجود میں آئین جن کو ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔‘‘(صفحہ83)
اس نظریہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ لل کی سات سو صفحے کی کتاب میں زندگی کے تخلیقی تصور(special creation) پرصرف ایک صفحہ اور چند سطریں ہیں اور بقیہ تمام صفحات عضویاتی ارتقا کے بارے میں ہیں۔ اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا(1958) میں تخلیق(creationism) کے نظریہ کو چوتھائی صفحہ سے بھی کم دیے گئے ہیں۔
اس کے مقابلہ میں عضویاتی ارتقا کے عنوان کے تحت جو مقالہ شامل کیا گیا ہے وہ باریک ٹائپ کے پورے چودہ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مقالے میں بھی حیوانات میں ارتقا کو بطور ایک حقیقت(fact) تسلیم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ڈارون کے بعد اس نظریہ کو سائنس دانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں قبول عام(general acceptance) حاصل ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کے حق میں وہ کون سے دلائل فراہم ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے دور جدید کے اہل علم نے اس کی صداقت تسلیم کر لی ہے۔ یہاں میں اس کے چند بنیادی پہلوئوں کا ذکر کروں گا، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان دلائل کی نوعیت کیا ہے۔
1۔ حیوانات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان میں ادنیٰ اور اعلیٰ اقسام پائی جاتی ہیں۔ واحد الخلیہ جانوروں(single cellular animal) سے لے کر اربوں خلیات رکھنے والے جانور، اسی طرح صلاحیتوں کے اعتبار سے حیوانات میں ادنی اور اعلیٰ درجات کا فرق۔
2۔ اس ابتدائی مشاہدہ کو جب اس کہانی کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے جو زمین کی تہوں میں نقش ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس فرق میں باعتبار زمانہ ایک ارتقائی ترتیب ہے۔ کروڑوں برس پہلے زمین پر زندگی کی جو شکلیں آباد تھیں اس کے پنجر قدرتی عمل کے تحت پتھرائی ہوئی حالت میں اب بھی زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیں جن کو فاسل (fossil) کہا جاتا ہے۔ یہ فاسل بتاتے ہیں کہ زمین پر زیادہ قدیم دور میں، حیوانات کی جو قسمیں یہاں آباد تھیں، وہ سادہ قسمیں تھیں اور اس کے بعد دھیرے دھیرے زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ قسمیں یہاں آباد تھیں، وہ سادہ قسمیں تھیں اور اس کے بعد دھیرے دھیرے زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ قسمیں آباد ہوتی رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی زندگی کی موجودہ قسمیں سب کی سب بیک وقت وجود میں نہیں آئیں ۔بلکہ سادہ قسمیں وجود میں آئیں اور اس کے بعد دھیرے دھیرے ترقی یافتہ قسمیں۔
3۔ اس کے بعد ایک اور حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ مختلف حیوانات کے درمیان نوعی اختلاف کے باوجود ان کے جسمانی نظام میں بہت سی مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً مچھلی چڑیے سے ملتی جلتی ہے اور گھوڑا کا ڈھانچہ انسان کے مشابہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ سارے ذی حیات ایک ہی خاندان کی پیداوار ہیں، اور سب کے اجداد بالآخر ایک ہی تھے۔
4۔ ایک نوع سے دوسری نوع کیسے نکلی، یہ اس وقت معلوم ہو جاتا ہے جب ہم ایک اور واقعہ کو دیکھتے ہیں۔ وہ یہ کہ ایک جانور کے بطن سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سب کے سب یکساں نہیں ہوتے بلکہ ان کے مختلف بچوں میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ یہی فرق اگلی نسلوں میں مزید ترقی کرتا ہے اور انتخاب طبعی کے عمل کے تحت آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہ فرق لاکھوں سال کے بعد اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک چھوٹی گردن والی بکری، لمبی گردن والے زرافہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے اس نظریہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ’’انیمل بیالوجی‘‘ کے مصنفین(ہالڈین اور ہکسلے) نے ارتقا کو تبدیلیوں کے انتخاب(selection of mutation) کا نام دیا ہے۔
نظریہ ارتقا کے حامیوں کے دلائل جس معیار استد لال پراترتے ہیں، وہ کون سا معیار ہے۔ وہ وہی معیار ہے، جس کو ہم نے اوپرنمبر4 کے تحت بیان کیا ہے۔ یعنی دعویٰ یااس کے اثرات کا براہ راست تجربہ نہ ہونا۔ البتہ ایسے مشاہدات کا حاصل ہونا، جن سے ان کی صداقت کا منطقی قرینہ معلوم ہوتا ہے۔
نظریہ ارتقا کے حامی ابھی تک ان میں سے ایک چیز کا بھی مشاہدہ یا تجربہ نہیں کرا سکے ہیں، جن کے اوپران کے نظریہ کی بنیاد قائم ہے۔ مثلاً وہ کسی لیبارٹری میں یہ نہیں دکھا سکتے کہ بے جان مادہ سے زندگی کیسے پیدا ہو جاتی ہے۔اس سلسلہ میں ان کے دعویٰ کی بنیاد صرف یہ ہے کہ طبیعیاتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ پہلے بے جان مادہ تھا۔ پھر کائنات میں زندگی رینگنے لگی۔ اس سے وہ قیاس کر لیتے ہیں کہ زندگی بے جان مادہ سے اسی طرح نکل آئی ہے، جیسے ماں کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے۔ اسی طرح ایک نوع کا دوسرے نوع میں تبدیل ہونا بذات خود کوئی تجربہ اور مشاہدہ کی چیز نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی چڑیا خانہ میں ایسے تجربات کیے جا سکیں جہاں بکری زرافہ بنتی ہوئی نظر آئے۔ بلکہ بعض خارجی مشاہدات، مثلاً مختلف انواع میں مشابہت اور ایک نسل کے کئی بچوں میں باہم فرق سے یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ نوعیں الگ الگ وجود میں نہیں آئیں، بلکہ ہر نوع دوسری نوع سے برآمد ہوتی چلی گئی ہے۔ اسی طرح جبلت کا ذہانت کی شکل میں ترقی کرنے کا معاملہ ہے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان بھی حیوان ہی کی ایک اگلی نسل ہے۔
اس سلسلہ میں بھی ابھی تک کوئی ایسا مشاہدہ سامنے نہیں لایا جا سکا، جہاں فی الواقع جبلت ذہانت میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہو۔ یہ بھی محض ایک قیاس ہے ،جس کی بنیاد صرف اس واقعہ پر ہے کہ ارضیاتی تحقیق میں جبلت والے جانوروں کے آثار نچلے طبقات میں ملتے ہیں اور ذہانت والے جانوروں کے آثار اوپر کے طبقات میں۔
اس قسم کے تمام دلائل کی نوعیت یہ ہے کہ دعویٰ اور دلیل کے درمیان جو ربط ہے، وہ صرف قیاسی ربط ہے، نہ کہ تجرباتی یا مشاہداتی ربط۔ مگر اس قسم کے دلائل کی بنیاد پر ارتقا کے تصور کو موجودہ زمانہ میں ایک سائنٹفک حقیقت قرار دے دیا گیا ہے۔ گویا جدید ذہن کے نزدیک علمی حقائق کا دائرہ صرف انہیں واقعات تک محدود نہیں ہے، جو براہ راست تجربہ سے معلوم ہوں۔ بلکہ تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر جو منطقی قرینہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی اتنا ہی سائنٹفک حقیقت ہو سکتا ہے جتنا وہ حقیقت جس کایا جس کے اثرات کا براہ راست تجربہ کیا جا سکتا ہو۔
یہاں مجھے نظریہ ارتقا کی صداقت یا عدم صداقت سے بحث نہیں ہے، کیونکہ یہاں جو سوال ہے وہ اصلاً معیار استد لال سے متعلق ہے نہ کہ نظریہ ارتقا سے متعلق۔ اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ خواہ کوئی بھی معیار استدلال ہو، اس سے ثابت کی ہوئی چیز صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ سائنس میں آئے دن نظریات بدلتے رہتے ہیں، حالانکہ عموماً وہ ان معیاروں کے مطابق ثابت کیے جاتے ہیں، جو خالص تجرباتی نوعیت سے متعلق ہیں۔ کسی معیار استدلال کو جائز اور معقول تسلیم کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے حوالے سے جو بات بھی پیش کر دی جائے وہ لازماً صحیح ہو۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ نتیجہ غلط ہو، مگر معیار تسلیم شدہ ہے تو اصل معیار کی معقولیت اس کے بعد بھی باقی رہے گی۔
سرآرتھر کیتھ کے الفاظ میں ارتقا مذہب عقلیت کا ایک بنیادی عقیدہ(basic dogma of rationalism) ہے۔ ایک سائنسی انسائیکلوپیڈیا میں ڈارونزم کو ایک ایسا نظریہ کہا گیا ہے جس کی بنیاد توجیہہ بلامشاہدہ(explanations without demonstrations) پر قائم ہے۔
پھر ایک ایسی چیز جس کا لیبارٹری میں تجربہ نہ کیا جا سکتا ہو، جو صرف’’عقیدہ‘‘ ہو۔ اس کو کس بنا پر علمی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اے ای مینڈر کے الفاظ میں یہ ہے:
1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ(consistent) ہے۔
2۔اس نظریہ میں ان بہت سے واقعات کی توجیہہ مل جاتی ہے جو اس کے بغیر سمجھے نہیں جا سکتے۔
3۔ دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔
Clearer Thinking, p. 112
یہ استدلال جو نظریہ ارتقا کو حقیقت قرار دینے کے لیے معیار استدلال کے اعتبار سے کافی سمجھا جاتا ہے، یہی استدلال بدرجہا زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجود ہے، ایسی حالت میں جدید ذہن کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ وہ کیوں ارتقا کو سائنسی حقیقت قرار دیتا ہے اور مذہب کو سائنسی ذہن کے لے ناقابل قبول ٹھہراتا ہے۔
مندرجہ بالا چوتھے معیار استدلال کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ جب دعویٰ اور تجربہ میں براہ راست کوئی رابط نہیں ہے بلکہ صرف ہمارا استنباط(inference) دونوں کو مربوط کرتا ہے تو کیسے یقین کر لیا جائے کہ ہمارا استنباط لازماً صحیح ہے۔ میں کہوں گا کہ بلاشبہ ہمارے استنباط میں غلطی ہو سکتی ہے۔ مگر صرف یہ امکان اصل معیار کی معقولیت کو متاثر نہیں کر سکتا۔ اگر محض اس بنا ر اس معیار کی معقولیت پر شبہ کیا جائے تو ٹھیک اسی دلیل کی بنیاد پر دوسرے معیاروں کو بھی مشتبہ قرار دینا پڑے گا جس پر ہماری جدید سائنس کی ساری بنیاد قائم ہے۔
سائنس میں جتنے بھی نظریات تسلیم شدہ ہیں، بلااستثنا ہر ایک کا حال یہ ہے کہ خود اصل نظریات کبھی مشاہدہ یا تجربہ میں نہیں آتے۔ بلکہ بعض خارجی تجربات یا مشاہدات کی بنا پر کچھ نظریات قائم کر لیے گئے ہیں۔ یہاں بھی تجربہ اور نظریہ کو جو چیز باہم مربوط کرتی ہے وہ اصلاً استنباط ہے نہ کہ خود تجربہ اور مشاہدہ۔ سائنس داں کے اس قول کا مطلب کہ(electricity means flow of electron) یہ نہیں ہوتا کہ اس نے بجلی کے کسی تار میں خوردبین سے الیکٹران کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ یہ درحقیقت اس مشہور واقعہ کی ایک توجیہہ ہوتی ہے کہ جب ہم بٹن دباتے ہیں تو کیوں بلب جل جاتا ہے، پنکھا گھومنے لگتا ہے، کار خانے متحرک ہو جاتے ہیں۔ گویا جس چیز کا تجربہ کیا گیا ہے وہ محض ایک خارجی مظہر ہے نہ کہ خود وہ واقعہ جو اس خارجی مظہر سے مستنبط(infer) کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے سائنس کے تمام نظریات اسی طرح محض قیاسی مفروضے ہیں جن کا الزام چوتھے معیار کے تحت قائم کردہ نظریات کو دیا جاتا ہے۔
تیسرے اور چوتھے معیار میں جو واحد فرق بتایا جا سکتا ہے، وہ صرف یہ کہ تیسرے معیار میں تجربہ یا مشاہدہ براہ راست طورپر خود اصل دعوی سے متعلق ہوتا ہے۔ جب کہ چوتھے معیار میں وہ براہ راست طورپراصل دعوی سے متعلق نہیں ہوتا۔ مگر اس فرق کی اہمیت اس وقت ختم ہو جاتی ہے، جب ہم اس واقعہ سامنے رکھیں کہ تجربہ خواہ کتنا ہی متعلق اور براہ راست ہو مگر بہرحال وہ اصل حقیقت کا صرف ایک خارجی مظہر ہوتا ہے۔ وہ بذات خود اصل حقیقت نہیں ہوتا۔ جیسے ٹیلیفون نمبر بلاشبہ صاحب ٹیلی فون سے متعلق ہے مگر وہ خود صاحب ٹیلی فون نہیں ہے۔ گویا یہاں بھی سائنس داں کے مشاہدہ یا تجربہ کو جو چیز اصل حقیقت سے جوڑتی ہے، وہ صرف ایک ایسی چیز ہے، جو اس کے ذہن میں ہے، یعنی استنباط (inference)، نہ کہ خود مشاہدہ یا تجربہ:
It is as if here, too, what connects a scientist’s observation and experiment to the reality is a thing, which exists only in his mind that is, the capacity to make inferences, and not his ability to observe, or carry out experiments.
اسی لیے ایک سائنس داں نے اس کو ’’ذہنی خاکہ‘‘ قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
Theories are mental pictures that explain known laws.
گویا بٹن دبانے سے بجلی کے بلب کا جلنا اگرچہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بٹن اور بلب میں کوئی خاص رشتہ ہے۔ مگر اس مظاہرے کے باوجود اصل رشتہ بہرحال غیر مرئی ہے، اور پھر بھی یہ ہمارا استنباط ہی ہے جو بٹن اور بلب کوایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔ اس لیے بلب اور بٹن کی مشہور نوعیت کوتسلیم کرتے ہوئے یہ امر پھر بھی مشتبہ رہے گا کہ دونو ں کومربوط کرنے والا سائنسی نظریہ بذات خود حقیقی ہے یا غیر حقیقی۔ اب جس طرح یہ اشتباہ اور غلطی کا یہ امکان کسی سائنس داں کو نظریات قائم کرنے اور اس کو صحیح سمجھنے سے نہیں روکتا، اسی طرح کسی فلسفی یا کسی مذہبی شخص کو بھی مندرجہ بالا سبب کی بنا پر اسے نہیں روکا جا سکتا کہ وہ نظریات قائم کرے اور ان کا صحیح سمجھے۔
برٹرینڈرسل کے خیالات
یہ 1966ء کی بات ہے۔ میں نے طے کیا کہ میں برٹرینڈرسل (1872-1970) کو پڑھ ڈالوں۔ خوش قسمتی سے قریب ہی ایک لائبریری میں مجھے رسل کی کتابوں کا پورا سیٹ مل گیا۔ مگر جب میں ان کتابوں کو لے کر گھر پہنچا تو میری بیوی ان کو دیکھ کر بہت متوحش ہوئی ’’اب آپ ضرور گمراہ ہو جائیں گے۔‘‘ اس نے کہا۔ یہ واقعہ ہے کہ رسل اس دور کا غلیظ ترین ملحد ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تصنیفات کو پڑھنا عام ذوق کے مطابق خطرے سے خالی نہیں تھا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ میں رسل کی دنیا میں داخل ہو کر اس طرح اس سے نکلا کہ میرا ایمان پہلے سے زیادہ پختہ ہو چکا تھا۔
موجودہ زمانہ کے فلسفیوں میں رسل کا مطالعہ سب سے زیادہ وسیع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے اگر کوئی استثناء ممکن ہے تو وہ صرف وہائٹ ہڈ کا۔ برٹرینڈرسل کی زندگی تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اپنے بیان کے مطابق وہ ساری عمر دو چیزوں کے تحقیق میں مصروف رہا… ’’ہم کتنی چیزوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں اور یہ کہ ہمارے علم کا کتنا حصہ یقینی ہے اور کتنا حصہ مشتبہ ہے۔‘‘
I have throughout been anxious to discover how much one can be said to know and with what degree of certainty or doubtfulness. (My Philosophical Development, p. 11)
اس مقصد کے لیے رسل نے خاص طور پر چار سائنسی شعبوں کا مطالعہ کیا… فزکس، فزیالوجی، سائیکالوجی اور میتھ میٹکل لاجک ۔
My Philosophical Development, p. 16
اس مطالعہ کے بعد سب سے پہلے وہ تشکیک کے نقطہ نظر کو رد کر دیتا ہے۔ اس کے الفاظ میں تشکیک نفسیاتی طور پر ناممکن ہے:
Skepticism is psychologically impossible.
Human Knowledge, p.9
مگر یہاں انسان دو طرفہ مشکل میں مبتلا ہے۔ ایک طرف یہ کہ ’’ہم نہیں جانتے‘‘ کہہ کر ہم اس دنیا میں نہیں رہ سکتے۔ دوسری طرف جب ہم جاننا چاہتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس راہ میں بہت کم کامیابی کے امکانات ہیں۔ رسل کے الفاظ میں،فلسفہ قدیم ترین زمانہ سے بڑے بڑے دعوے کرتا رہا مگر اس کا حاصل دوسرے علوم کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔‘‘
Philosophy from ancient times has made long claims, but what it has achieved is far less as compared to other sciences. (Our Knowledge of the External World, p. 13)
چنانچہ رسل خود عمر بھر کی کوشش کے باوجود کوئی منظم فلسفہ نہ بنا سکا۔ پروفیسر الان وڈ (Alan Wood) کے الفاظ میں، برٹرینڈرسل ایک ایسا فلسفی ہے جس کا اپنا کوئی فلسفہ نہیں:
Bertrand Russell is a philosopher without a philosophy.
My Philosophical Development, 1959, p. 260
منطق اور ریاضی کو حقیقت کی دریافت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر رسل کے نزدیک، منطق اور ریاضی کتاب فطرت کی الف، ب، ہیں، خود کتابیں نہیں ہیں:
Logic and Mathematics...are the alphabet of the book of nature, not the book itself.
My Philosophical Development, p.277
رسل کے نزدیک علم کی دو قسمیں ہیں۔ چیزوں کا علم (knowledge of things) صداقتوں کا علم (knowledge of truths)
The Problems of Philosophy, p. 46
چیزوں کا علم دوسرے الفاظ میں حسی واقعات (sensible facts) کا علم ہے۔ مگر حسی واقعات ہی سب کچھ نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے بھی کچھ صداقتیں چھپی ہوئی ہیں جو بذات خود ہمارے حواس میں نہیں آتیں۔ ان صداقتوں کو معلوم کرنے کا ذریعہ وہ استنباط (inference) ہے جو حسی واقعات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ رسل کے نزدیک استنباط صحیح (valid) ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کو سائنسی استنباط (scientific inference) ہونا چاہیے۔
My Philosophical Development, p.46
وہ تمام چیزیں (things) جن سے ہم استنباط کے بغیر براہ راست واقف ہوتے ہیں، ان کو رسل نے اعداد و شمار (data) کا نام دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمارے تجرباتی حواس (observed sensations) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بصری (visual) سمعی (auditory) لمسی (tactile) وغیرہ۔ رسل کہتا ہے کہ کائنات کے بارے میں ہمارا جو سائنسی تصور ہے، وہ تجرباتی حواس کے ذریعے معلوم شدہ چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہ تمام تر ایک استنباطی دنیا (inferred world) ہے۔ حتی کہ وہ کہتا ہے:
People's thoughts are in heads.
My Philosophical Development, p. 25
یعنی لوگوں کے تصورات صرف ان کے دماغوں میں ہیں۔ اس سے باہر ان کا کہیں وجود نہیں ہے۔
رسل اپنے تمام مطالعہ کے بعد جس نتیجہ پر پہنچا ہے، وہ یہ کہ تجربہ (experience) پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس لیے تجربیت (empiricism) کو بحیثیت فلسفہ کچھ اہم محدودیتوں (important limitations) کا پابند ہونا چاہیے۔ (صفحہ 191) ’’میں نے پایا کہ تقریباً تمام فلسفیوں نے یہ سمجھنے میں غلطی کی ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو صرف تجربہ سے مستنبط کی جا سکتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو تجربہ سے مستنبط نہیں ہوتی۔‘‘ (صفحہ 194) وہ لکھتا ہے:
’’بدقسمتی سے نظری طبیعات اب اس شاندار یقین سے نہیں بولتی جس سے وہ سترہویں صدی میں کلام کر رہی تھی۔ نیوٹن کا کام چار بنیادی تصورات پر مشتمل تھا… مکان، زماں، مادہ اور طاقت۔ یہ چاروں کے چاروں جدید طبیعات میں طاق نسیاں کی نذر ہو گئے ہیں۔ مکاں اور زماں نیوٹن کے نزدیک ٹھوس اور مستقل چیزیں تھیں۔ اب وہ مکاں— زماں (space time) سے بدل گئی ہیں جو کہ (substantial) نہیں، بلکہ روابط کا ایک نظام ہے۔ مادہ نے واقعات کے ایک سلسلہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ طاقت (force) اب انرجی (energy) بن چکی ہے، اور انرجی خود بھی ایک ایسی چیز ہے جس کو بقیہ مادہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ سبب (cause) جو کہ اس چیز کی فلسفیانہ شکل تھی، جس کو ماہرینِ طبیعیات فورس (force) کہتے ہیں وہ اب فرسودہ ہوچکا ہے۔ میں تسلیم نہیں کروں گا کہ یہ مر چکا ہے۔ مگر اس میں پہلے کی طرح اب قوت باقی نہیں رہی ہے۔‘‘
My Philosophical Development, p. I7
رسل اپنے بیان کے مطابق عمر بھر کی تحقیقات کے بعد آخری طور پر جس نتیجہ پر پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ ناقابل مظاہرہ استنباط (non-demonstratable inference) بھی معقول (valid) ہے۔ اس کے بغیر سائنس کا پورا نظام اور روزمرہ کی انسانی زندگی دونوں مفلوج ہو جائیں گے۔ (صفحہ 204)۔ اس کے نزدیک سائنس حقیقی دنیا (real world) اور اعتقادی دنیا (believed world) دونوں پر مشتمل ہے اور سائنس میں جتنی زیادہ ترقی ہوتی ہے، اس میں اعتقادیات کا جزء بڑھتا جاتا ہے۔ سائنس میں کچھ چیزیں تو مشہود حقائق (observed facts) ہیں اور اس سے اوپر کی تمام چیزیں سائنسی مجردات (scientific abstractions) ہیں جو مشاہدہ کی بنیاد پر مستنبط کیے گئے ہیں۔ کلی تشکیک (universal skepticism) کا انکار نہیں۔ مگر کلی تشکیک کو اختیار کرنا بھی مشکل ہے :
My Philosophical Development, p. 206
وہ لکھتا ہے:
’’میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حسی حقائق (facts of sense) کو، اور اس کے ساتھ عمومی طور پر، سائنس کی سچائی کو ایک ایسی چیز کی حیثیت سے قبول کر لوں، جو فلسفی کے لیے ابتدائی مواد کا کام دے سکے۔ اگرچہ ان کا سچ ہونا قطعی یقینی (quite certain) نہیں ہے۔ یہ کسی اور چیز کے مقابلہ میں صرف ایک اونچا امکانی درجہ (higher degree of possibility) ہے جو فلسفیانہ قیاس کے لیے حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
My Philosophical Development, p. 207
اب ہم رسل کا ایک اقتباس نقل کریں گے، جس سے رسل کے خیالات کی وہ تصویر مکمل ہو جاتی ہے، جو ہم یہاں بنانا چاہتے ہیں:
’’اس کو ہمیشہ سمجھا نہیں گیا ہے کہ نظری طبیعیات جو معلومات دیتی ہے، وہ کس قدر زیادہ مجرد (exceedingly abstract) ہیں۔ وہ چند خاص بنیادی مساوات (equations) مقرر کرتی ہے جو اس کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ واقعات کے منطقی ڈھانچہ کو بیان کر سکے، جب کہ واقعات کی باطنی حالت (intrinsic character) بالکل نامعلوم (completely unknown) ہو۔ نظری طبیعیات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم واقعات کی باطنی حالت کے بارے میں بول سکیں۔ طبیعیات جو کچھ ہمیں دیتی ہے وہ تمام تر صرف کچھ مخصوص مساواتیں (equations) ہیں جو ان کی تبدیلیوں کی مجرد خاصیتیں (abstract properties) بتاتی ہیں۔مگر یہ کہ وہ کیا چیز ہے جو تبدیل ہوتی ہے اور کہاں سے تبدیل ہوتی ہے، اس کے بارے میں طبیعیات خاموش ہے۔‘‘
My Philosophical Development, p. 17-18
رسل اپنی کتاب ’’میرا فلسفیانہ ارتقا‘‘ (My Philosophical Development) کے باب : (non-demonstratable inference) کو حسب ذیل الفاظ پر ختم کرتا ہے:
---there is no such claim to certainty as has too often and too uselessly, been made by rash philosophers. (p. 207)
یعنی اس قسم کا دعویٰ کرنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ہم کو صداقت کا یقینی ذریعہ معلوم ہو گیا ہے جیسا کہ اکثر بے فائدہ طور پر جلد باز فلسفی کرتے ہیں۔
اس مطالعہ کے مطابق رسل کے لیے صرف دو راستے باقی رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ تشکیک کی پناہ گاہ میں چلا جائے، یا پھر مذہب کی صداقت کا اعتراف کر لے۔ کیونکہ جب صورت حال یہ ہے کہ ہم حقیقت کا صرف ظاہری ڈھانچہ سیکھ سکتے ہیں، اس کی اندرونی صداقت سے براہ راست طور پر واقف ہونا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے تو دو ہی صورتیں آدمی کے لیے باقی رہ جاتی ہیں۔ یا تو وہ اصرار کرے کہ وہ اسی وقت کسی بات کو مانے گا جب وہ آخری اور براہ راست طور پر اس کے ذاتی علم میں آ جائے۔ چونکہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس قسم کا علم ناممکن ہے، اس لیے اسے یہ کہہ کر بیٹھ جانا چاہیے کہ ’’میں کچھ نہیں جانتا‘‘ ۔مگر رسل اس پوزیشن کو قبول نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ ظاہری ڈھانچہ کی بنیاد پر اندرونی حقیقت کے بارے میں جو استنباط کیا جائے وہ بھی جائز علم کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ کہہ کر وہ مذہب کی عین سرحد کے قریب پہنچ جاتا ہے۔
کیونکہ مذہب کا کہنا بھی یہی ہے کہ انسان اپنے محدود حواس سے حقیقت کا آخری ادراک نہیں کر سکتا۔ البتہ ظاہر کائنات میں وہ جن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے، ان سے یہ قیاس کر سکتا ہے کہ وہ کون سی حقیقت ہے جو اس کے پیچھے مستور ہے۔ مگر عجیب بات ہے رسل جیسا ذہن شخص تشکیک کا بھی انکار کرتا ہے اور مذہب کا بھی اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس طرح وہ خود اپنے مسلمات کے مطابق ایک کھلے ہوئے تضاد کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
رسل واضح طور پر تسلیم کرتا ہے کہ ایسے عقیدے (belief) بھی صحیح (valid) ہو سکتے ہیں جن کا تجربہ (experience) نہ کیا گیا ہو۔ رسل خود بھی ایسے ’’عقائد‘‘ کو مانتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کے بیان کے مطابق، زمین کا قدیم ماضی، کائنات کے بعید ترین علاقے جن کا فلکیات میں مطالعہ کیا جاتا ہے، وغیرہ۔ یہاں میں اس کے چند فقرے اس کے اپنے الفاظ میں نقل کروں گا:
I commit myself to the view that there are valid processes of inference from events to other events ... more particularly, from events of which I am aware without inference to events of which I have no such awareness. (p.10)
یعنی میں اس نقطہ نظر کا حامی ہونے کا اعتراف کرتا ہوں کہ استنباط کے ایسے معقول طریقے ہیں جن میں بعض واقعات سے کچھ دوسرے واقعات پر استنباط کیا جاتا ہے۔ زیادہ متعین طور پر، ایسے واقعات سے جن میں کسی استنباط کے بغیر باخبر ہوں، ایسے واقعات پر جن کے بارے میں، میں اس قسم کی واقفیت نہیں رکھتا۔
رسل نے اسی بات کو دوسری جگہ ان الفاظ میں کہا ہے:
I do think that there are forms of probable inference which must be accepted although they cannot be proved by experience... (p.132)
میں خیال کرتا ہوں کہ ایسے قریب بہ صحت استنباط کے طریقے ہیں جن کو تسلیم کیا جانا چاہیے، اگرچہ وہ تجربہ سے ثابت نہیں کیے جا سکتے۔
اس صریح اعتراف کے مطابق، کم از کم رسل کے نزدیک، مذہب ایک ایسی چیز کی حیثیت نہیں رکھتا، جس کو دلیل سے ثابت نہ کیا جا سکتا ہو۔ کیونکہ یہاں وہ جس معیار استدلال کے درست (validity) ہونےکو تسلیم کر رہا ہے، یہ عین وہی معیار استدلال ہے جس کے مطابق مذہب کی صداقتوں کو ثابت کیا جاتا ہے۔
مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ رسل نے بالواسطہ طور پر یہاں تک تسلیم کیا ہے کہ مذہب کے حق میں اس نوعیت کے استنباطی دلائل بھی موجود ہیں جن کو وہ سائنٹفک استنباط کہتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ نہایت سرسری وجوہ کا نام لے کر ان دلائل کو رد کر دیتا ہے۔
یہاں میں برٹرینڈرسل کا ایک اقتباس نقل کروں گا جو اس کی کتاب ’’میں عیسائی کیوں نہیں‘‘ سے لیا گیا ہے:
I think all the great religions of the world—Buddhism, Hinduism, Christianity, Islam, and Communism—both untrue and harmful. It is evident as a matter of logic that, since they disagree, not more than one of them can be true. With very few exceptions, the religion which a man accepts is that of the community in which he lives, which makes it obvious that the influence of environment is what has led him to accept the religion in question. It is true that Scholastics invented what professed to be logical arguments proving the existence of God, and that these arguments, or others of a similar tenor, have been accepted by many eminent philosophers, but the logic to which these traditional arguments appealed is of an antiquated Aristotelian sort which is now rejected by practically all logicians except such as are Catholics. There is one of these arguments, which is not purely logical; I mean the argument from design. This argument, however, was destroyed by Darwin; and, in any case could only be made logically respectable at the cost of abandoning God’s omnipotence. (Why I am not a Christian, 1959, p. 9)
یعنی دنیا کے تمام بڑے مذاہب… بدھ ازم، ہندو مت، عیسائیت، اسلام اور کمیونزم… سب کو میں غلط (untrue) بھی سمجھتا ہوں اور مضر (harmful) بھی۔ یہ صحیح ہے کہ متکلمین نے کچھ ایسی دلیلیں ایجاد کی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ منطقی دلائل (logical arguments) ہیں اور ان سے خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ کہ یہ اور اسی قسم کے دوسرے دلائل کو بہت سے بڑے بڑے فلسفیوں نے قبول کیا ہے۔ مگر وہ منطق جس پر ان روایتی استدلالات کی بنیاد قائم ہے، وہ ارسطو کی قدیم منطق ہے جس کو عملاً اب تمام علمائے منطق رد کر چکے ہیں، سوائے مذہبی لوگوں کے۔‘‘
اس کے بعد رسل لکھتا ہے:
’’ان دلائل میں ایک دلیل ایسی ضرور ہے جو خالص منطقی (purely logical) نہیں ہے۔ میری مراد ہے نظم کائنات کی دلیل (argument from design) مگر ڈارون اس دلیل کو بالکل ختم کر چکا ہے۔
Why I am not a Christian, (p. 9)
اس اقتباس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ نظم کائنات کی دلیل کو رسل نے منطقی طور پر ایک جائز دلیل (valid argument) تسلیم کیا ہے۔ مگر اصولی طور پر اس کی منطقی معقولیت تسلیم کرتے ہوئے رسل کا کہنا ہے کہ ڈارونزم نے اس کی استدلالی حیثیت کو برباد کر دیا ہے یا کم از کم اس کی اہمیت بہت گھٹا دی ہے۔
رسل کے اس بیان پر ہم کسی قدر وضاحت سے روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
رسل کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کا دعویٰ ہے کہ کائنات میں ایک نظم (design) پایا جاتا ہے، اور یہ نظم اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شعور ہو، جس نے اس کو ’’نظم‘‘ کی صورت دی ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات بے ترتیب ڈھیر (pile of garbage) کی شکل میں نظر آتی۔
رسل کے نزدیک یہ استدلال اصولی طور پر صحیح ہے۔ مگر پھر وہ کہتا ہے کہ ’’ڈارون نے حیاتیاتی مظاہر کے مطالعہ سے ثابت کیا ہے کہ زندگی کی مختلف اقسام جو منظم اور بامعنی شکل میں زمین پر نظر آتی ہیں وہ دراصل کروڑوں برس میں مادی حالات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً زرافہ کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ بکری جیسے جانور نے طویل فطری عمل کے بعد خودبخود لمبی گردن والے زرافہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔
یہاں مجھے ڈارونزم پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کرنی ہے۔ البتہ میں یہ کہوں گا کہ رسل نے استدلال کی اصولی معقولیت تسلیم کرتے ہوئے جس بنیاد پر اس کو رد کیا ہے، وہ نہایت کمزور ہے۔
پہلی بات یہ کہ ڈارونزم ابھی تک ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ اگر اس سے کچھ ثابت ہوا ہے تو صرف یہ کہ زندگی کی مختلف اقسام بیک وقت وجود میں نہیں آئیں بلکہ مختلف اقسام مختلف وقتوں میں پائی گئی ہیں۔ نیز یہ ایک خاص طرح کی زمانی ترتیب ہے۔ یعنی زندگی کی سادہ اقسام پہلے اور پیچیدہ اقسام اس کے بعد۔ مگر یہ بات آج بھی قطعی طور پر غیر ثابت شدہ ہے کہ زیادہ پیچیدہ اور بامعنی اقسام دراصل پچھلے زمانہ کی سادہ اقسام حیات ہی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں جو مادی عمل کے نتیجہ میں ان کے اندر سے خودبخود وجود میں آ گئیں۔ پہلی بات تو بلاشبہ مشاہدہ سے اخذ کی گئی ہے۔ مگر یہ دوسری بات قطعی طور پر علمائے ارتقا کا اپنا مفروضہ ہے جس کی بنیاد نہ حقیقۃً کسی مشاہدہ پر ہے اور نہ کسی بھی درجہ میں اس کو (demonstrate) کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ رسل کے استدلال کا جواز اسی دوسرے پہلو کے ثبوت پر موقوف ہے۔
نظریہ ارتقا کی یہ کمزوری خود ارتقا پسند علما تسلیم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سر آرتھر کیتھ نے کہا ہے:
Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creatian, and that is unthinkable.
Fred John Meldau: Why We Believe in Creation Not Evolution, 1959, p. 8
اسی لیے ارتقا کے مسئلہ کو دو اجزا ء میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ نظریہ ارتقا، اور دوسرے سبب ارتقا۔ کہا جاتا ہے کہ نظریہ ارتقا تو یقینی ہے۔ البتہ سبب ارتقا ابھی تک لامعلوم ہے۔ اس تقسیم کو ہم زیادہ بہتر طور پر نظریہ ارتقا، دلیل ارتقا کے الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جب تک اسباب معلوم نہ ہوں۔ یہ نظریہ یقینی کیسے ہو جائے گا۔ گویا نظریہ ارتقا ایک ایسا نظریہ ہے جس کی دلیل تو ابھی دریافت نہیں ہوئی مگر اس کے باوجود وہ ارتقا پسند علما کے نزدیک ثابت شدہ نظریہ کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔
ایسے کمزور نظریہ کے حوالہ سے یہ کہنا کہ اس نے مذہب کے استدلال کو برباد کر دیا ہے کس قدر بے بنیاد بات ہے۔
دوسرے یہ کہ بالفرض انواع حیات ارتقا کے عمل ہی کے تحت وجود میں آئی ہوں، جب بھی اس سے رسل کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ رسل کے دعویٰ کو صحیح ماننے کے لیے اس مفروضہ کو ماننا بھی ضروری ہے کہ خدا کوئی ایسا ہی وجود ہو سکتا ہے جو یکایک پھونک مار کر پیدا کر دیا کرے۔ اس کا طریقِ تخلیق یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لمبی مدت کے اندر کسی چیز کو وجود بخشے۔ حالانکہ نہ صرف یہ کہ اس مفروضہ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے، بلکہ اس سے خود خدا کی قدرت مطلقہ کی نفی بھی نہیں ہوتی۔
انسان ہمیشہ سے یہ مانتا رہا ہے کہ درخت اور انسان کو پیدا کرنے والا قادر مطلق خدا ہے۔ مگر یہ مشاہدہ اس کے اس عقیدہ کو متزلزل کرنے والا ثابت نہ ہوسکا کہ بچہ چالیس برس میں پورا انسان بنتا ہے اور درخت آدھی صدی اور ایک صدی میں مکمل ہوتا ہے۔ خدا کی قدرت کاملہ پر ایمان لانے کے لیے اس نے کبھی ضروری نہیں سمجھا کہ درخت اور انسان یکایک پورے درخت اور پورے انسان کی شکل میں ظاہر ہو جایا کریں۔ اسی طرح اگر آئندہ کوئی تحقیق یہ ثابت کرے کہ زندگی کے مظاہر اچانک دنیا میں موجود نہیں ہو گئے ہیں، بلکہ لمبے ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد وجود میں آئے ہیں تو اس میں مذہب پر نظرثانی یا اس کی تردید کا سوال آخر کس لیے پیدا ہو جائے گا۔
آخری بات
میں سمجھتا ہوں کہ برٹرینڈرسل کا مذکورہ بالا بیان ایک ملحد کی زبان سے مذہب کی اصولی صداقت کا اعتراف ہے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ کائنات میں ڈیزائن ہے۔ اسے یہ بھی تسلیم ہے کہ ڈیزائن سے ڈزائنر کا وجود ثابت کیا جا سکتا ہے مگر جب وہ اس کو نہ ماننے کے لیے ڈارونزم کا حوالہ دیتا ہے تو گویا وہ نہایت کمزور بنیاد پر خود اپنے تسلیم شدہ مقدمہ کو رد کر رہا ہے، کیونکہ ڈیزائن کا وجود تو متفقہ طور پر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ مگر ڈارونزم کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں۔ اس کا یہ پہلو یقینی طور پر اب بھی مفروضہ ہے کہ مادی عوامل سے انواع حیات میں بامعنی ’’ڈیزائن‘‘ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے ڈیزائن کے واقعہ کی بنا پر ڈزائنر کے حق میں استدلال تو خود رسل کے اعتراف کے مطابق صحیح ہے۔ مگر ڈارونزم ابھی اس قابل نہیں ہو سکا ہے کہ اس کی بنیاد پر کوئی رسل اس دلیل کو رد کر دے۔
کائنات کی مشینی تعبیر
اٹھارویں اور انیسویں صدی کی سائنس نے جب یہ دریافت کیا کہ کائنات میں علت اور معلول (cause and effect) کا ایک نظام ہے تو اس زمانہ کے ملحد مفکرین نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کے نزدیک یہ دریافت خدا کا سائنسی بدل تھا۔ اگرچہ اس قانون کو دریافت کرنے والے سائنس دانوں کے لیے اس کے یہ معنی نہیں تھے۔ مثال کے طور پر نیوٹن نے کہا تھا کہ یہ خدا کا طریق کار ہے۔ خدا اسباب و علل کے ذریعے کائنات میں اپنی منشاء کو ظاہر کرتا ہے۔ مگر وہ لوگ جو سائنسی دریافتوں کی روشنی میں فلسفہ کی تشکیل کر رہے تھے، انہوں نے اس کے اندر الحاد کا ثبوت پالیا۔ اور اس کی بنیاد پر ایک پورا نظام فکر بنا ڈالا۔
اس طرح وہ نظریہ وجود میں آیا جس کو کائنات کی مشینی تعبیر کہا جاتا ہے۔ مسلمہ طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ کائنات کے تمام واقعات کسی خارجی مداخلت کے بغیر محض مادی اسباب کے تحت واقع ہوتے ہیں اور اس طرح پوری کائنات علت و معلول کی ایک مسلسل زنجیر میں بندھی ہوئی ہے۔
یہ انیسویں صدی عیسوی کا مسلمہ تھا۔ 1874ء میں چھپنے والی ایک انسائیکلو پیڈیا کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’طبعی فلاسفہ کیمسٹری اور فزیالوجی کے ماہرین یقین رکھتے ہیں کہ ایک سبب سے ہمیشہ یکساں نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اور ایک مثال میں اگر ایک تصور کامیاب ہو تو ان کو اطمینان ہے کہ ہمیشہ یہی کامیابی حاصل ہوگی۔ اس لیے طبعی علوم میں اب قانون تعلیل (law of causation) کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں رہ گیا ہے۔ اس بات میں اختلاف صرف مابعد الطبیعیات حلقہ میں پایا جاتا ہے۔‘‘
Chamber's Encyclopedia, 1874, v. II, p. 691
مگر ان مفکرین کی یہ خوشی زیادہ دیر تک باقی نہیں رہی۔ کیونکہ بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی سائنس کے علم میں ایسے بہت سے حقائق وجود میں آئے جو کسی طرح مشینی تعبیر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ مثال کے طوہر پر ریڈیم ایک تابکار (radio-active) عنصر ہے۔ اس کے الیکٹران خودبخود فطری عمل کے تحت مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے بے شمار تجربے کیے گئے کہ اس تابکاری کا سبب کیا ہے۔ مگر ہر تجربہ ناکام رہا۔ ہمیں آج بھی نہیں معلوم کہ ریڈیم کے ایک ٹکڑے میں کوئی خاص الیکٹران جب اپنے ایٹمی نظام سے ٹوٹ کر نکلتا ہے تو اس کا سبب کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح مثال کے طور پر مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس کی توجیہہ میں سائنس نے بہت سے نظریات قائم کیے ہیں مگر ایک سائنس داں اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’سچی بات یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ مقناطیس کیوں لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ شاید اس لیے کہ خالق نے اس کو یہی حکم دیا ہے۔‘‘
یہ صرف ریڈیم اور مقناطیس کی بات نہیں ہے۔ گہرے تجزیہ نے بتایا ہے کہ ماضی میں جن باتوں کو کسی واقعہ کا سبب مان لیا گیا تھا، وہ بھی اصل واقعہ کا محض سطحی مطالعہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کسی بھی واقعہ کے بارے میں نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ حتی کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم رات کو سوتے ہیں تو ہمیں نیند کیوں آتی ہے۔
طویل بحث و مباحثہ کے بعد اب سائنس کی دنیا میں تسلیم کر لیا گیا ہے کہ قانون تعلیل (law of causation) ان معنوں میں کوئی مطلق حقیقت نہیں ہے جیسا کہ انیسویں صدی میں فرض کر لیا گیا تھا۔ علم کا مسافر دوبارہ لوٹ کر وہیں پہنچ گیا ہے جہاں وہ پہلے تھا… ’’اس دنیا کا نظام محض اتفاقی طور پر وجود میں آ جانے والے کسی علت و معلول (cause and effect) کے قانون کے تحت نہیں چل رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک شعوری ذہن ہے جو بالارادہ اس کو چلا رہا ہے۔‘‘
سائنس کی واپسی مذہب کی صداقت کا ایک ایسا واضح ثبوت ہے جس کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں۔
پچھلے پچاس برسوں میں اس سلسلہ میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہاں ہم اس مسئلہ کو مختصر طور پر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ اصول تعلیل کے بارے میں آگے جو باتیں درج ہیں وہ زیادہ تر سرجیمز جینز کی کتاب پراسرار کائنات (mysterious universe) سے ماخوذ ہے۔
کائنات کو دیکھتے ہی جو سب سے پہلا سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ اس کا بنانے والا کون ہے اور وہ کون ہے جو اس عظیم کارخانہ کو چلا رہا ہے۔ پچھلے زمانوں میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ بہت سی غیر مرئی طاقتیں اس کائنات کی مالک ہیں۔ ایک بڑے خدا کے تحت بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اس کا انتظام کر رہے ہیں، اب بھی بہت سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ مگر علمی دنیا میں عام طور پر یہ نظریہ ترک کیا جا چکا ہے۔ یہ ایک مردہ نظریہ ہے نہ کہ زندہ نظریہ۔ موجودہ زمانہ کے وہ لوگ جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ وہ جدید دور کے انسان ہیں، وہ شرک کے بجائے الحاد کے قائل ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ کائنات کسی ذی شعور ہستی کی کارفرمائی نہیں ہے بلکہ ایک اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے اور جب کوئی واقعہ وجود میں آ جائے تو اس کے سبب سے کچھ دوسرے واقعات بھی وجود میں آ جائیں گے۔ اس طرح اسباب و واقعات کا ایک لمبا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے اور یہی سلسلہ اسباب ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے۔ اس توجیہہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ایک ’’اتفاق‘‘ اور دوسرے ’’قانون علت‘‘ (law of causation)۔
یہ توجیہہ بتاتی ہے کہ اب سے تقریباً دو لاکھ ارب سال پہلے کائنات کا وجود نہیں تھا، اس وقت نہ ستارے تھے اور نہ سیارے، مگر فضا میں مادہ موجود تھا۔ یہ مادہ اس وقت جمی ہوئی ٹھوس حالت میں نہ تھا، بلکہ اپنے ابتدائی ذرے یعنی برقیے اور پروٹانوں کی شکل میں پوری فضاء بسیط میں یکساں طور پر پھیلا ہوا تھا، گویا انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات کا ایک غبار تھا جس سے کائنات بھری ہوئی تھی۔ اس وقت مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا، اس میں کسی قسم کی حرکت نہ تھی۔
ریاضی کے نقطہ نگاہ سے یہ توازن ایسا تھا کہ اگر اس میں کوئی ذرا بھی خلل ڈال دے تو پھر یہ قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ خلل بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اگر اس ابتدائی خلل کو مان لیجیے تو ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد کے تمام واقعات علم ریاضی کے ذریعہ ثابت ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ مادہ کے اس بادل میں خفیف سا خلل واقعہ ہوا۔ جیسے کوئی حوض کے پانی کو ہاتھ ڈال کر ہلا دے۔ کائنات کی پرسکون دنیا میں یہ اضطراب کس نے پیدا کیا، اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ لیکن خلل ہوا اور یہ خلل بڑھتا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادہ سمٹ سمٹ کر مختلف جگہوں میں جمع ہونا شروع ہو گیا۔ یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے جس کو ہم ستارے، سیارے اور نیبولا کہتے ہیں۔
کائنات کی یہ توجیہ سائنس کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اس قدر بودی اور کمزور توجیہہ ہے کہ خود سائنس دانوں کو بھی اس پر کبھی شرح صدر حاصل نہ ہو سکا۔ یہ توجیہہ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ کائنات کو پہلی بار کس نے حرکت دی، مگر اس کے باوجود اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے کائنات کے محرک اول کو معلوم کر لیا ہے اور اس محرک اول کا نام اس کے نزدیک اتفاق ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کائنات میں صرف غیر متحرک مادہ تھا، اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی تو یہ عجیب و غریب اتفاق کہاں سے وجود میں آ گیا جس نے ساری کائنات کو حرکت دے دی جس واقعہ کے اسباب نہ مادہ کے اندر موجود تھے اور نہ مادہ کے باہر، وہ واقعہ وجود میں آیا تو کیسے آیا۔ اس توجیہہ کا یہ نہایت دلچسپ تضاد ہے کہ وہ ہر واقعہ سے پہلے ایک واقعہ کا موجود ہونا ضروری قرار دیتی ہے جو بعد کو ظاہر ہونے والے واقعہ کا سبب بن سکے، مگر اس توجیہہ کی ابتدا ایک ایسے واقعہ سے ہوتی ہے جس سے پہلے اس کا سبب موجود نہیں— یہی وہ بے بنیاد مفروضہ ہے جس میں کائنات کی اتفاقی پیدائش کے نظریہ کی پوری عمارت کھڑی کر دی گئی ہے۔
پھر یہ کائنات اگر محض اتفاق سے وجود میں آئی ہے تو کیا واقعات لازمی طور پر وہی رخ اختیار کرنے پر مجبور تھے جو انہوں نے اختیار کیا۔ کیا اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا۔ کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ ستارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہو جائیں۔
مادہ میں حرکت پیدا ہو جانے کے بعد کیا یہ ضروری تھا کہ یہ محض حرکت نہ رہے بلکہ ایک ارتقائی حرکت بن جائے اور حیرت انگیز تسلسل کے ساتھ موجود کائنات کو وجود میں لانے کی طرف دوڑنا شروع کر دے۔
آخر وہ کون سی منطق تھی جس نے ستاروں کے وجود میں آتے ہی ان کو لامتناہی خلا میں نہایت باقاعدگی کے ساتھ پھرانا شروع کر دیا، پھر وہ کون سی منطق تھی جس نے کائنات کے ایک بعید ترین گوشہ میں نظام شمسی کو وجود دیا، پھر وہ کون سی منطق تھی جس سے ہمارے کرہ زمین پر وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہوئیں جن کی وجہ سے یہاں زندگی کا قیام ممکن ہو سکا اور جن تبدیلیوں کا سراغ آج تک کائنات کی بے شمار دنیائوں میں سے کسی ایک دنیا میں معلوم نہ کیا جا سکا ہے، پھر وہ کون سی منطق تھی جو ایک خاص مرحلہ پر بے جان مادہ سے جاندار مخلوق پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ کیا اس بات کی کوئی معقول توجیہہ کی جا سکتی ہے کہ زمین پر زندگی کس طرح اور کیوں وجود میں آئی اور کس قانون کے تحت مسلسل پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے۔
پھر وہ کون سی منطق تھی جس نے کائنات کے ایک چھوٹے سے رقبہ میں حیرت انگیز طور پر وہ تمام چیزیں پیدا کر دیں، جو ہماری زندگی اور ہمارے تمدن کے لیے درکار تھیں، پھر وہ کون سی منطق ہے جو ان حالات کو ہمارے لیے باقی رکھے ہوئے ہے۔ کیا محض ایک اتفاق کا پیش آ جانا اس کی کافی وجہ تھی کہ یہ سارے واقعات اس قدر حسن ترتیب کے ساتھ مسلسل پیش آتے چلے جائیں اور اربوں و کھربوں سال تک ان کا سلسلہ جاری رہے اور پھر بھی ان میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔ کیا اس بات کی کوئی واقعی توجیہہ کی جا سکتی ہے کہ محض اتفاق سے پیش آ جانے والے واقعہ میں لزوم کی صفت کہاں سے آ گئی اور اتنے عجیب و غریب طریقہ پر مسلسل ارتقا کرنے کا رجحان اس میں کہاں سے پیدا ہو گیا۔
یہ اس سوال کا جواب تھا کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی۔ اس کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اس کا چلانے والا کون ہے، وہ کون ہے جو اس عظیم کارخانے کو اس قدر منظم طریقہ پر حرکت دے رہا ہے۔ اس توجیہہ میں جس کو کائنات کا خالق قرار دیا گیا ہے، اسے کائنات کا حاکم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یہ توجیہہ عین اپنی ساخت کے اعتبار سے دو خدا چاہتی ہے ۔ کیوں کہ حرکت اول کی توجیہہ کے لیے تو اتفاق کا نام لیا جا سکتا ہے مگر اس کے بعد کی مسلسل حرکت کو کسی حال میں بھی اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی توجیہہ کے لیے دوسرا خدا تلاش کرنا پڑے گا۔
اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اصول تعلیل (principle of causation) پیش کیا گیا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ حرکت اول کے بعد کائنات میں علت اور معلول کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہو گیا ہے کہ ایک کے بعد ایک تمام واقعات پیش آتے چلے جا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بچے بہت سی اینٹیں کھڑی کرکے کنارے کی ایک اینٹ گرا دیتے ہیں تو اس کے بعد کی تمام اینٹیں خودبخود گرتی چلی جاتی ہیں۔ جو واقعہ ظہور میں آتا ہے اس کا سبب کائنات کے باہر کہیں موجود نہیں ہے بلکہ ناقابل تسخیر قوانین کے تحت حالات ماقبل کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے اور یہ سابقہ حالات بھی اپنے سے پہلے واقعات کا لازمی نتیجہ تھے۔ اس طرح کائنات میں علت اور معلول کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہو گیا ہے۔ حتیٰ کہ جس صورت میں تاریخ عالم کا آغاز ہوا، اس نے آئندہ سلسلہ واقعات کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے۔ جب ابتدائی صورت ایک دفعہ متعین ہو گئی تو قدرت صرف ایک ہی طریق سے منزل مقصود تک پہنچ سکتی تھی۔ گویا کائنات جس روز پیدا ہوئی، اس کی آئندہ تاریخ بھی اسی دن متعین ہو چکی ہے۔
اس اصول کو قدرت کا اساسی قانون مقرر کرنا سترہویں صدی کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا چنانچہ یہ تحریک شروع ہوئی کہ تمام کائنات کو ایک مشین ثابت کیا جائے۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یہ تحریک اپنے پورے عروج پر آ گئی۔ یہ زمانہ سائنس داں انجینئروں کا تھا جن کی دلی خواہش تھی کہ قدرت کے مشینی ماڈل بنائے جائیں۔ اس زمانہ میں ہیلم ہولٹز (Helm Holtz) نے کہا تھا کہ ’’تمام قدرتی سائنسوں کا آخری مقصد اپنے آپ کو میکانیکس میں منتقل کر لینا ہے‘‘ :
the final aim of all-natural science is to resolve itself into mechanics.
اگرچہ اس اصول کے مطابق کائنات کے تمام مظاہر کی تشریح کرنے میں ابھی سائنس دانوں کو کامیابی نہیں ہوئی تھی مگر ان کا یقین تھا کہ کائنات کی تشریح میکانکی پیرائے ( mechanical model)میں ہو سکتی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ تھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے اور بالآخر تمام عالم ایک مکمل چلتی ہوئی مشین ثابت ہو جائے گا۔
ان باتوں کا انسانی زندگی سے تعلق صاف ظاہر تھا۔ اصول تعلیل کی ہر توسیع اور قدرت کی ہر کامیاب میکانکی تشریح نے اختیار انسانی پر یقین کرنا محال بنا دیا۔
کیونکہ اگر یہ اصول تمام قدرت پر حاوی ہے تو زندگی اس سے کیوں مستثنیٰ ہو سکتی ہے۔ اس طرز فکر کے نتیجہ میں سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے میکانکی فلسفے وجود میں آئے جب یہ دریافت ہوا کہ جاندار خلیہ (living cell) بھی بے جان مادہ کی طرح محض کیمیائی جوہروں سے بنا ہے تو فوراً سوال پیدا ہوا کہ وہ خاص اجزاء جن سے ہمارے جسم و دماغ بنے ہوئے ہیں کیونکہ اصول تعلیل کے دائرے سے باہر ہو سکتے ہیں۔
چنانچہ یہ گمان کیا گیا بلکہ بڑے جوش کے ساتھ دعویٰ کر دیا گیا کہ زندگی میں ایک خالص مشین ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ نیوٹن، باخ (Bach) اور مائیکل اینجلو (Michel Angelo) کے دماغ چھاپنے والی مشین سے صرف پیچیدگی میں مختلف تھے، اور ان کا کام صرف یہ تھا کہ بیرونی محرکات کا مکمل جواب دیں۔ مگر سائنس اس سخت اور غیر معتدل قسم کے اصول علیت کی اب قائل نہیں ہے۔ نظریہ اضافیت اصول تعلیل کو دھوکے (illusion) کے لفظ سے یاد کرتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر ہی میں سائنس پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ کائنات کے بہت سے مظاہر، بالخصوص روشنی اور قوت کشش، میکانکی تشریح کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں۔
یہ بحث ابھی جاری تھی کہ کیا ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے جو نیوٹن کے افکار باخ کے جذبات اور مائیکل اینجلو کے خیالات کا اعادہ کر سکے۔ مگر سائنس دانوں کو بڑی تیزی سے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ شمع کی روشنی اور سیب کا گرنا کوئی مشین نہیں دہرا سکتی۔ قدیم سائنس نے بڑے وثوق کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ قدرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کر سکتی ہے جو اول روز سے علت اور معلول کی مسلسل کڑی کے مطابق ابد تک کے لیے معین ہو چکا ہے۔ مگر بالآخر سائنس کو خود یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کائنات کا ماضی اس قدر اٹل طور پر اس کے مستقبل کا سبب نہیں ہے جیسا کہ پہلے خیال کیا جا تا تھا۔ موجودہ معلومات کی روشنی میں سائنس دانوں کی ایک بڑی اکثریت کا اب اس بات پر اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر میکانکی حقیقت (non-mechanical reality) کی طرف لیے جا رہا ہے۔ کائنات کی پیدائش اور اس کی حرکت کے بارے میں یہ دونوں نظریے جو سائنسی ترقیوں کے ساتھ وجود میں آئے تھے، اب تک یقین کی دولت سے محروم ہیں۔
جدید تحقیقات اس کی بنیاد کو مضبوط نہیں بناتی بلکہ اور کمزور کر دیتی ہیں اس طرح گویا سائنس خود اس نظریہ کی تردید کر رہی ہے، اب انسان دوبارہ اسی منزل پر پہنچ گیا ہے جس کو چھوڑ کر اس نے اپنا نیا سفر شروع کیا تھا۔
کچھ نئی حقیقتیں
علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب ’’الغزالی‘‘ کے دوسرے حصہ میں ’’معاد یا حالات بعد الموت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں… ’’مذہب کی روح رواں جو کچھ کہو، معاد(آخرت) کا اعتقاد ہے۔ مذہب میں جو کچھ تاثیر ہے اور افعال انسانی پر مذہب کا جو اثر پڑتا ہے، وہ اسی اعتقاد کی بدولت ہے۔ لیکن جس قدر وہ مہتم بالشان ہے اسی قدر عسیر التصور (unthinkable)ہے۔ ایک بدوی شاعر الحاد کے لہجہ میں کہتا ہے:
حَيَاةٌ ثُمَّ مَوْتٌ ثُمَّ بَعْثٌ زندگی، پھرموت، پھردوبارہ جی اٹھنا!
حديثُ خرافةٍ يا أمَّ عمرو میری بیگم! یہ تو خرافات کی باتیں ہیں
اس مرحلہ میں جو مشکلیں ہیں ان میں پہلا اور سب سے مشکل بقائے روح کا مسئلہ ہے۔ یعنی یہ ثابت کرنا کہ روح جسم سے جدا کوئی چیز ہے۔ مادیین کا خیال ہے کہ روح کوئی جداگانہ چیز نہیں، بلکہ جس طرح دوائوں کو ترکیب دینے سے ایک مزاج خاص پیدا ہو جاتا ہے، یا تاروں کی خاص ترکیب سے خاص خاص راگ پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح عناصر کے خاص طور پر ترکیب پانے سے ایک مزاج خاص پیدا ہو جاتا ہے جو ادراک اور تصور کا سبب ہوتا ہے اور اسی کا نام روح ہے۔
روح کے ثابت کرنے کے بعد دوسرا مرحلہ اس کی بقا کا ثابت کرنا ہے، یعنی یہ کہ جسم کے فانی ہونے پر وہ باقی رہ سکتی ہے۔‘‘ (صفحہ 171-72)
اس کے بعد علامہ شبلی مضنون صغیر اور مضنون کبیر سے ان مباحث پر امام غزالی کے خیالات نقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
’’امام صاحب نے روح کی جو حقیقت بیان کی اور اس پر جو دلائل پیش کیے، یونانیوں سے ماخوذ ہیں۔ ارسطو نے اثو لو جیا میں بعینہ یہ تقریر کی ہے اور بوعلی سینا نے اس کو مختلف پیرایوں میں آب و رنگ دے کر ادا کیا ہے، لیکن یہ امر بظاہر تعجب انگیز ہے کہ جو سب سے مقدم امر تھا، یعنی روح کا اثبات، امام صاحب نے اسی کو چھوڑ دیا۔ روح کا جوہر ہونا، غیر جسمانی ہونا، یہ فرعی امور ہیں۔ پہلے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ روح کوئی شئے بھی ہے یا نہیں۔‘‘ (ص 174)
اس کے بعد اپنی طرف سے لکھتے ہیں… ’’اصل یہ ہے کہ روح کا وجود ایک وجدانی امر ہے، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ادراک و تعقل محض مادہ کا کام نہیں۔ مادہ ایک بے حس، بے جان اور لایعقل چیز ہے۔ دقیق خیالات اور علوم و فنون مادہ سے انجام نہیں پا سکتے۔ بلکہ کوئی اور جوہر لطیف ہے جس سے یہ کرشمے سرزد ہوتے ہیں اور اسی کا نام روح ہے۔‘‘
اس کے بعد لکھتے ہیں:’’لیکن یہ استدلال وجدانی ہے۔ (بوعلی سینا نے روح کے اثبات پر اشارات میں لمبی چوڑی دلیل پیش کی ہے۔ لیکن وہ یونانیوں کے عام دلائل کی طرح صرف لفظوں کا کھیل ہے) اگر کوئی منکر انکار پر آمادہ ہو اور کہے کہ… ’’تم نے جو کچھ کہا عین دعویٰ کا اعادہ ہے، دلیل نہیں۔ ممکن ہے مادہ ہی ایک خاص ترکیب پا کر ان نیرنگیوں کا مظہر ہو۔ کلوں سے جو عجیب و غریب حرکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ارغنوں سے جو دلکش اور موثر نغمے پیدا ہوتے ہیں، ان میں روح کا کون سا شائبہ ہے۔‘‘ تو ہم دلیل سے اس کی زبان بند نہیں کر سکتے۔ یہی سبب تھا کہ امام صاحب نے روح کے ثبوت پر کوئی منطقی دلیل نہیں پیش کی۔‘‘ (صفحہ 175) ۔
مولانا شبلی نعمانی مرحوم نے اس بحث کو یہیں ختم کر دیا ہے اور ایک عالم کی 1901ء کی تصنیف میں شاید اتنا ہی کہا جا سکتا تھا۔ مگر میں اس پر یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ جدید تحقیقات نے واقعات و حقائق کے کچھ ایسے نئے گوشے کھولے ہیں، جس کے بعد ایک حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ روح کا جسم سے الگ ایک مستقل وجود ہونا یا جسم کے فنا ہونے کے بعد روح کا باقی رہنا محض وجدانی چیز نہیں رہا، بلکہ ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے جس کو تجرباتی دلیل سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔
جسم کے بارے میں سائنس نے دریافت کیا ہے کہ وہ بے شمار چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) کا مرکب ہے جن کی تعداد ایک متوسط جسم میں ایک ہزار ارب کے قریب ہوتی ہے۔ یہ خلیے ہر آن ٹوٹ کر ختم ہوتے رہتے ہیں۔ غذا ہضم ہو کر ہمارے جسم کے لیے وہ خلیے مہیا کرتی ہے جو ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ہر روز درکار ہوتے ہیں۔ گویا جسم نام ہے ایک ایسی عمارت کا جو کھربوں اینٹوں سے ملکر بنا ہو اور ہر آن اپنی اینٹوں کو بدلتا رہتا ہو۔ اب اگر روح جسم کا ایک مظہر ہے تو جس طرح مشین کا ایک پرزہ ٹوٹنے سے پوری مشین متاثر ہو جاتی ہے اور باجے کا ایک تار خراب ہو جانے سے اس کی آواز پر اثر پڑ جاتا ہے اسی طرح جسم کے مرکبات بدلنے یا ضائع ہونے سے روح میں بھی تبدیلیاں ہونی چاہئیں۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ روح جسم سے الگ ایک چیز ہے جو بذات خود اپنا وجود رکھتی ہے۔ چنانچہ ایک سائنس داں نے انسانی ہستی کو اس کے جسم کے مقابلے میں ایک ایسی مستقل بالذات چیز قرار دیا ہے جو مسلسل تغیرات کے اندر غیر متغیر حالت میں اپنا وجود باقی رکھتی ہے۔ اس کے الفاظ میں:
Personality is changelessness in change.
اس خیال کی مزید تصدیق نفسیات کے اس انکشاف سے ہوتی ہے جس کو تحت شعور یا لاشعور کہا جاتا ہے اور جو انسانی ذہن کا نسبتاً زیادہ بڑا حصہ ہے۔ لاشعور کے بارے میں اب یہ تقریباً مسلمہ طور پر مان لیا گیا ہے کہ جو خیالات اس کے اندر جگہ پاتے ہیں وہ تاحیات بالکل یکساں حالت میں باقی رہتے ہیں۔ فرائڈ اپنے اکتیسویں لیکچر میں کہتا ہے:
’’منطق کے قوانین بلکہ اضداد کے اصول بھی لاشعور کے عمل پر حاوی نہیں ہوتے۔ مخالف خواہشات ایک دوسرے کو زائل کیے بغیر اس میں پہلو بہ پہلو ہمیشہ موجود رہتی ہیں… لاشعور میں کوئی ایسی چیز نہیں جو نفی سے مشابہت رکھتی ہو اور ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے کہ لاشعور کی دنیا میں فلسفیوں کا یہ دعویٰ غلط ہو جاتا ہے کہ ہمارے تمام دماغی افعال وقت اور فاصلہ کے درمیان واقع ہوتے ہیں۔
لاشعور کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں جو وقت کے تصور سے مطابقت رکھتی ہو۔ لاشعور میں وقت کے گزرنے کا کوئی نشان نہیں اور یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے جس کے معنی سمجھنے کی طرف ابھی تک فلسفیوں نے پوری توجہ نہیں کی کہ وقت کے گزرنے سے ذہنی عمل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ایسے خیالات (conative impulses) جو کبھی لاشعور سے باہر نہیں آئے، بلکہ وہ ذہنی تاثرات بھی جنہیں روک کر لاشعور میں دبا دیا گیا ہو، فی الواقع غیر فانی ہوتے ہیں اور دسیوں سال تک اس طرح سے محفوظ رہتے ہیں گویا ابھی کل وجود میں آئے ہیں۔‘‘
New Introductory Lectures on Psychoanalysis, London. 1949, p. 99
لاشعور کے عمل کا وقت کی گرفت سے آزاد ہونا، ظاہر کرتا ہے کہ لاشعور جسم سے الگ اپنا کوئی وجود رکھتا ہے۔ کیونکہ جسم کے بارے میں یہ مسلم ہے کہ وہ وقت اور فاصلہ کے قوانین کا پابند ہے اور انہیں حدود کے اندر اس کے تمام مظاہر واقع ہوتے ہیں۔ اب اگر روح جسم ہی کا ایک ظہور خاص ہوتی تو جسم کی طرح اس کو بھی لازماً وقت اور فاصلہ کے قوانین کا پابند ہونا چاہیے تھا اور جب کہ تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو اس کا لازمی مفہوم یہ ہے کہ روح اپنی نوعیت میں جسم سے مختلف ایک چیز ہے جو اس سے الگ اپنا مستقل وجود رکھتی ہے۔ جسم سے روح کا تعلق مشین اور حرکت یا باجے اور راگ کا نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو جس طرح حرکت اور راگ پر بعینہ وہی قوانین مترتب ہوتے ہیں جو مشین اور باجے پر مترتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح روح پر بھی یقینا انہیں قوانین کا ترتب ہوتا جو جسم کے اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔
دوسری چیز جس کا میں یہاں حوالہ دینا چاہتا ہوں وہ سائیکیکل تحقیقات (psychical research) کے نتائج ہیں، جو خالص تجرباتی اور مشاہداتی سطح پر موت کے بعد زندگی کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ اس میں ہمارے نقطہ نظر سے مزید دلچسپی کی بات ہے کہ یہ بقائے محض کو ثابت نہیں کرتے بلکہ عین اس شخصیت کی بقا کو ثابت کرتے ہیں جس سے ہم موت سے پہلے واقف تھے۔
انسان کی بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جو بذات خود تو پہلے سے موجود تھیں، مگر ان پر سائنسی انداز سے غور و فکر نہیں ہوا تھا۔ مثلاً خواب دیکھنا انسان کی قدیم ترین خصوصیت ہے۔ مگر جدید دور میں خواب کے مطالعہ سے جو نفسیاتی حقائق معلوم کیے گئے ہیں، ان سے قدیم دور کے لوگ ناآشنا تھے۔ اسی طرح اور بہت سے مظاہر ہیں جن کے متعلق موجودہ زمانہ میں باقاعدہ اعداد و شمار جمع کیے گئے اور سائنسی انداز سے ان کا تجزیہ کیا گیا۔ اس طرح جدید مطالعہ کے ذریعہ ان واقعات سے نہایت اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اسی میں سے ایک سائیکیکل ریسرچ ہے جو جدید نفسیات کی ایک شاخ ہے اور جس کا مقصد انسان کی مافوق العادت صلاحیتوں کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ اس قسم کی تحقیقات کے لیے سب سے پہلا ادارہ 1882ء میں انگلینڈ میں قائم ہوا، اور 1889ء میں اس نے سترہ ہزار اشخاص سے رابطہ قائم کرکے وسیع پیمانے پر اپنی تحقیقات شروع کر دیں۔ یہ اب بھی مطالعہ نفسیات کا ادارہ (Society for Psychical Research) کے نام سے موجود ہے اور اسی نوعیت کے دوسرے ادارے دوسرے ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں نے مختلف مظاہروں اور تجزیات کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی شخصیت کسی پراسرار شکل میں باقی رہتی ہے۔
فلسفہ نفسیات کے بہت سے ماہرین جنہوں نے ان شواہد کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا ہے وہ زندگی بعد موت کو بطور واقعہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ براؤن یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر سی،جے، ڈوکاس (C. J. Ducasse) نے اپنی کتاب کے سترہویں باب میں زندگی بعد موت کے تصور کا فلسفیانہ اور نفسیاتی جائزہ لیا ہے۔ پروفیسر موصوف اگرچہ مذہب کے معنوں میں اخروی زندگی کے تصور پر عقیدہ نہیں رکھتے، مگر ان کا خیال ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ مذہب کے عقیدہ سے الگ کرکے زندگی کی بقاء کو ہمیں ماننا پڑتا ہے۔
اس باب کے آخری حصہ میں وہ سائیکی کل ریسرچ کی تحقیقات کا جائزہ لینے کے بعد لکھتے ہیں:
’’کچھ بہت ہی ذہین اور ذی علم افراد جنہوں نے سالہا سال تک نہایت تنقیدی نظر سے متعلقہ شہادتوں کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کم از کم کچھ شواہد ایسے ضرور ہیں جن میں صرف بقائے روح کا فرضیہ (survival hypothesis) ہی معقول اور ممکن نظر آتا ہے، ان کی کوئی دوسری توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موت کے بعد زندگی کا عقیدہ جس کو بہت سے لوگ مذہبی طور پر مانتے ہیں نہ صرف یہ کہ صحیح ہو سکتا ہے بلکہ شاید وہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کو تجزیاتی دلیل (empirical proof) سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو قطع نظر اس من گھڑت کے جو زندگی بعد موت کی نوعیت کے متعلق اہل مذاہب نے فرض کر لی ہے، قطعی معلومات بالآخر اس کے بارے میں حاصل ہو سکیں گی، مگر ایسی صورت میں اس کی مذہبی نوعیت کو ماننا ضروری نہیں ہوگا۔‘‘
A Philosophical Scrutiny of Religion, pp.407-10
مصنف نے زندگی بعد موت کو بطور حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اس کی مذہبی نوعیت کا انکار کیا ہے۔ یہ صرف تسکین نفس کی ایک کوشش ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ موت کے بعد بھی اگر زندگی باقی رہتی ہے تو اس کی کوئی بھی تعبیر مذہبی نوعیت کے سوا نہیں ہو سکتی۔
مذہب اور سائنس
مذہب اور سائنس دونوں بہت وسیع الفاظ ہیں، مذہب، زندگی کا ایک تصور اور اس تصور پر بننے والے ایک ہمہ گیر طرز عمل کا نام ہے، جو زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں اپنے کچھ مطالبات اور تقاضے رکھتا ہے۔ اور سائنس، اس محسوس دنیا کے مطالعہ کا نام ہے جو ہمارے مشاہدے اور تجربے میں آتی ہے یا آ سکتی ہے۔ اس اعتبار سے دونوں نہایت وسیع موضوعات ہیں اور ان کے دائرے بہت سے پہلوئوں سے ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں۔ مجھے یہاں دونوں کی تفصیلات پر کوئی بحث نہیں کرنی ہے۔ اس مقالے کا موضوع صرف وہ فرضی یا حقیقی تصادم ہے جو سائنس اور مذہب کے درمیان علمی حیثیت سے واقع ہوا اور جس کے کچھ نتائج برآمد ہوئے۔ میں مختصر طور پر صرف اس دعوے سے بحث کرنا چاہتا ہوں جس میں دوہرایا گیا ہے کہ سائنس کی دریافتوں نے مذہب کو بے بنیاد ثابت کر دیا ہے۔
سائنس اور مذہب کا روایتی ٹکرائو خاص طور پر اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ جدید سائنس کا ظہور ہوا۔ سائنسی دریافتوں کے سامنے آنے کے بعد بہت سے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اب خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خدا کو ماننے کی ایک بہت بڑی وجہ، دوسری وجہوں کے ساتھ یہ تھی کہ اس کو مانے بغیر کائنات کی توجیہہ نہیں بنتی۔ مخالفین مذہب نے کہا کہ اب اس مقصد کے لیے ہم کو خدائی مفروضے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ہم آسانی کے ساتھ پوری کائنات کی اس طرح تشریح کر سکتے ہیں کہ کسی بھی مرحلے میں خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اس طرح خدا کا خیال ان کی نظر میں بے ضرورت چیز بن گیا اور جو خیال بے ضرورت ہو جائے اس کا بے بنیاد ہونا لازمی ہے۔ یہ دعویٰ جب کیا گیا، اس وقت بھی اگرچہ وہ علمی حیثیت سے نہایت کمزور تھا۔ مگر اب تو خود سائنس نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ اس کے پاس اس قسم کا دعویٰ کرنے کے لیے اطمینان بخش دلائل موجود نہیں ہیں۔
سائنس کی وہ کیا دریافت تھی جس میں لوگوں کو نظر آیا کہ اب خدا کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ وہ خاص طور پر یہ تھا کہ سائنس نے معلوم کیا کہ کائنات کچھ خاص قوانین کی تابع ہے۔ قدیم زمانے کا انسان سادہ طور پر یہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا کرنے والا خدا ہے۔ مگر جدید ذرائع اور جدید طرز تحقیق کی روشنی میں دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ ہر واقعہ کے پیچھے ایک ایسا سبب موجود ہے جس کو تجربہ کرکے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً نیوٹن کے مشاہدے میں نظر آیا کہ آسمان کے تمام ستارے اور سیارے کچھ ناقابل تغیر قوانین میں بندھے ہوئے ہیں اور انہیں کے تحت کرتے ہیں۔ ڈارون کی تحقیق نے اسے بتایا کہ انسان کسی خاص تخلیقی حکم کے تحت وجود میں نہیں آیا بلکہ ابتدائی زمانے کے کیڑے مکوڑے عام مادی قوانین کے تحت ترقی کرتے کرتے انسان بن گئے ہیں۔ اسی طرح مطالعہ اور تجربہ کے بعد زمین سے لے کر آسمان تک سارے واقعات ایک معلوم نظام کے تحت ظاہر ہوتے ہوئے نظر آئے جس کو قانون فطرت (law of nature) کا نام دیا گیا۔ قانون فطرت کا یہ عمل اس درجہ موثر تھا کہ اس کے بارے میں پیشگی خبر دی جا سکتی تھی۔
اس دریافت کا مطلب یہ تھا کہ جس کائنات کو ہم سمجھتے تھے کہ وہاں خدا کی کارفرمائی ہے، وہ کچھ مادی اور طبیعیاتی قوانین کی کارفرمائیوں کے تابع تھی۔ جب ان قوانین کو استعمال کیا گیا اور اس کے کچھ نتائج بھی برآمد ہوئے تو انسان کا یقین اور زیادہ بڑھ گیا۔ جرمن فلسفی کانٹ نے کہا ’’مجھے مادہ مہیا کرو اور میں تم کو بتا دوں گا کہ دنیا اس مادے سے کس طرح بنائی جاتی ہے‘‘
Give me matter and I shall demonstrate how the world is made out of matter.
ہیکل (Haeckel) نے دعویٰ کیا کہ ’’پانی‘‘ کیمیاوی اجزا اور وقت ملے تو وہ ایک انسان کی تخلیق کر سکتا ہے۔ نٹشے نے اعلان کر دیا کہ ’’اب خدا مر چکا ہے‘‘(God is dead)۔ اس طرح یہ یقین کر لیا گیا کہ اس کائنات کا خالق اور مالک کوئی زندہ اور صاحب ذہن و ارادہ ہستی نہیں ہے۔ بلکہ کائنات از اول تا آخر ایک مادی کائنات ہے۔ کائنات کی ساری حرکتیں اور اس کے تمام مظاہر خواہ وہ ذی روح اشیاء سے متعلق ہوں یا بے روح اشیاء کے بارے میں ہوں، اندھے مادی عمل کے سوا اور کچھ نہیں۔ سائنس نے جس دنیا کو دریافت کیا اس میں کہیں اس خدا کی کارفرمائی نظر نہیں آتی تھی جو تمام مذاہب کی بنیاد ہے۔ پھر خدا کو مانا جائے تو کس لیے مانا جائے۔
اگرچہ اس دریافت کے ابتدائی تمام ہیرو خدا کو ماننے والے لوگ تھے مگر دوسرے لوگوں کے سامنے جب یہ تحقیق آئی تو انہوں نے پایا کہ اس دریافت نے سرے سے خدا کے وجود ہی کو بے معنی ثابت کر دیا ہے۔ کیونکہ واقعات کی توجیہہ کے لیے جب خود مادی دنیا کے اندر اسباب و قوانین مل رہے ہوں تو پھر اس کے لیے مادی دنیا سے باہر ایک خدا کو فرض کرنے کی کیا ضرورت۔ انہوں نے کہا کہ جب تک دوربین نہیں بنی تھی اور ریاضیات نے ترقی نہیں کی تھی۔ اس وقت انسان نہیں جان سکتا تھا کہ سورج کیسے نکلتا ہے اور کیسے ڈوبتا ہے۔ چنانچہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس نے یہ فرض کر لیا کہ کوئی خدائی طاقت ہے، جو ایسا کرتی ہے۔ مگر اب فلکیات کے مطالعہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ جذب و کشش کا ایک عالمی نظام ہے جس کے تحت سورج، چاند اور تمام ستارے اور سیارے حرکت کر رہے ہیں۔ اس لیے اب خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کے متعلق پہلے سمجھا جاتا تھا کہ ان کے پیچھے کوئی ان دیکھی طاقت کام کر رہی ہے، وہ سب جدید مطالعہ کے بعد ہماری جانی پہچانی فطری طاقتوں کے عمل اور ردعمل کا نتیجہ نظر آیا۔ گویا ایک خدا یا مافوق الفطری طاقت کا وجودبے بنیاد طور پر فرض کر لیا گیا تھا۔ ’’اگر قوس و قزح گرتی ہوئی بارش پر سورج کی شعاعوں کے انعطاف (Refraction) سے پیدا ہوتی ہے تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وہ آسمان کے اوپر خدا کا نشان ہے‘‘۔ ہکسلے اس قسم کے واقعات پیش کرتا ہوا کس قدر یقین کے ساتھ کہتا ہے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes. (Man in the Modern World, pp. 18-19)
یعنی واقعات اگر فطری اسباب کے تحت صادر ہوتے ہیں تو وہ مافوق الفطری اسباب کے پیدا کیے ہوئے نہیں ہو سکتے۔ اور ظاہر ہے کہ جب واقعات کے پیچھے مافوق الفطری اسباب موجود نہ ہوں تو کسی مافوق الفطرت ہستی کے وجود پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے۔
مخالفین مذہب کے اس استدلال میں کیا کمزوری ہے، اس کو ایک مثال سے سمجھئے۔ ایک شخص ریلوے انجن کو دیکھتا ہے کہ اس کے پہیے گھوم رہے ہیں اور وہ پٹری پر بھاگا چلا جا رہا ہے۔ اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہئے کیسے گھوم رہے ہیں۔
تحقیق کرنے کے بعد اس کی رسائی انجن کے پرزوں تک ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ پرزوں کی حرکت سے پہئے گھوم رہے ہیں۔ کیا اس دریافت کے بعد وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگا کہ انجن اپنے پرزوں کے ساتھ بذات خود ٹرین کی حرکت کا سبب ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ انجن سے پہلے انجینئر اور ڈرائیور کو ماننا ضروری ہے۔ انجینئر اور ڈرائیور کے بغیر انجن کا نہ تو کوئی وجود ہے اور نہ اس میں کسی قسم کی حرکت کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ گویا انجن یا اس کا پرزہ آخری حقیقت نہیں۔ آخری حقیقت وہ ذہن ہے جو انجن کو وجود میں لایا ہے اور اپنے ارادہ سے اس کو چلا رہا ہے۔ ایک عیسائی عالم نے بہت صحیح کہا کہ فطرت کائنات کی توجیہ نہیں کرتی۔ وہ خود اپنے لیے ایک توجیہ کی طالب ہے:
Nature does not explain, she is herself in need of an explanation.
کیونکہ، اس کے الفاظ میں، فطرت کا قانون تو کائنات کا ایک واقعہ ہے، اس کو کائنات کی توجیہ کہا جا سکتا ہے:
Nature is a fact, not an explanation.
مرغی کا بچہ انڈے کے مضبوط خول کے اندر پرورش پاتا ہے اور اس کے ٹوٹنے سے باہر آ جاتا ہے۔ یہ واقعہ کیونکر ہوتا ہے کہ خول ٹوٹے اور بچہ جو گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں ہوتا، وہ باہر نکل آئے۔ پہلے کا انسان اس کا جواب یہ دیتا تھا کہ ’’خدا ایسا کرتا ہے‘‘۔ مگر اب خوردبینی مشاہدہ کے بعد معلوم ہوا کہ جب 21 روز کی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے، اس وقت انڈے کے اندر ننھے بچے کی چونچ پر ایک چھوٹی سی سخت سینگ ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی مدد سے وہ اپنے خول کو توڑ کر باہر آ جاتا ہے۔ سینگ اپنا کام پورا کرکے بچے کی پیدائش کے چند روز بعد خودبخود جھڑ جاتی ہے۔
مخالفین مذہب کے نظریے کے مطابق یہ مشاہدہ اس پرانے خیال کو غلط ثابت کر دیتا ہے کہ بچہ کو باہر نکالنے والا خدا ہے۔ کیونکہ خوردبین کی آنکھ ہم کو صاف طور پر دکھا رہی ہے کہ ایک 21 روزہ قانون ہے جس کے تحت وہ صورتیں پیدا ہوتی ہیں جو بچہ کو خول کے باہر لاتی ہیں۔ مگر یہ مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔
جدید مشاہدہ نے جو کچھ ہمیں بتایا ہے وہ صرف واقعہ کی چند مزید کڑیاں ہیں، اس نے واقعہ کا اصلی اور آخری سبب نہیں بتایا۔ اس مشاہدہ کے بعد صورت حال میں جو فرق ہوا ہے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ پہلے جو سوال خول ٹوٹنے کے بارے میں تھا، وہ ’’سینگ‘‘ کے اوپر جا کر ٹھہر گیا۔ بچہ کا اپنی سینگ سے خول کو توڑنا واقعہ کی صرف ایک درمیانی کڑی ہے۔ اس لحاظ سے وہ اصل واقعہ ہی کا ایک جزو ہے، وہ واقعہ کی تشریح نہیں ہے۔ واقعہ کی تشریح تو اس وقت معلوم ہوگی جب ہم جان لیں کہ وہ آخری اسباب کیا ہیں جن کے نتیجے میں بچہ کی چونچ پر سینگ نمودار ہوئی۔ اس آخری سبب کو جاننے سے پہلے سینگ کا ظہور خود ایک سوال ہے، نہ کہ اسے اصل سوال کا جواب قرار دیا جائے۔ کیونکہ پہلے اگر یہ سوال تھا کہ ’’خول کیسے ٹوٹتا ہے‘‘ تو اب یہ سوال ہو گیا کہ ’’سینگ کیسے بننی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ دونوں حالتوں میں کوئی نوعی فرق نہیں۔ اس کو زیادہ سے زیادہ فطرت کا وسیع تر مشاہدہ کہہ سکتے ہیں۔ فطرت کی توجیہ کا نام نہیں دے سکتے۔
مخالفین مذہب جس انکشاف کو فطرت کی توجیہ کا نام دے کر اس کو خدا کا بدل ٹھہرا رہے ہیں، اس کو ہم نہایت آسانی سے فطرت کا طریق کار کہہ سکتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا ان قوانین کے ذریعہ کائنات میں اپنا عمل کرتا ہے جس کے بعض اجزاء کو سائنس نے دریافت کیا ہے، فرض کیجئے مذہبی لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سمندروں میں جوار بھاٹا لانے والا خدا ہے۔ اب جدید دور کا ایک سائنس داں ہم کو بتاتا ہے کہ جوار بھاٹا درحقیقت چاند کی کشش (gravity-pull of moon) اور دنیا کے سمندروں اور خشکی کے ٹکڑوں کی جغرافیائی وضع و ہئیت (Geographical Configuration) کے سبب سے ہوتا ہے۔ سائنس داں کے اس مشاہدے کو ہمیں رد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہت خوشی کے ساتھ ہم اسے قبول کر سکتے ہیں۔ مگر اس سے ہمارے عقیدے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ صحیح ہے کہ طوفان قوت کشش اور زمین کی جغرافی بناوٹ کے ذریعہ عمل کرتا ہے۔ مگر قوت کشش اور جغرافی بناوٹ کیا ہیں۔ وہ بھی خدا ہی کی مخلوق ہیں۔ وہ خدا ہی ہے جو ان ذرائع سے اپنا فعل انجام دیتا ہے۔ خدا آج بھی طوفان کا حقیقی سبب ہے۔ جان ولسن کے الفاظ میں:
This doesn’t destroy belief: it is still God working through these things, who is responsible for the tides.
Jonh Wilson, Philosophy and Religion, London,1816, p. 37
اسی طرح حیاتیات کے میدان میں نظریہ ارتقا کے حوالے سے یہ بات بار بار دہرائی گئی ہے کہ حیاتیاتی عمل اب کسی ماورائے فطرت ذریعہ کی موجودگی کا تقاضا نہیں کرتا۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے کسی باشعور خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ جدید مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی صرف چند مادی طاقتوں سے خودبخود ہونے والا ایک نتیجہ ہے جو خاص طور پر تین ہیں:
reproduction, variation, and differential survival.
یعنی توالد و تناسل کے ذریعہ مزید زندگیوں کا پیدا ہونا، پیدا شدہ نسل کے بعض افراد میں کچھ فرقوں کا ظہور اور پھر ان فروق کا پشتہا پشت میں ترقی کرکے مکمل ہو جانا۔ اس طرح مخالفین مذہب کے نقطہ نظر کے مطابق ڈارون کے انتخاب طبیعی کے اصول کا حیاتیاتی مظاہر پر انطباق اس کو ممکن اور ضروری بنا دیتا ہے کہ زندگی کی نشو و نما پر خدا کی کارفرمائی کے تصور کو بالکل ترک کر دیا جائے۔
اگرچہ ابھی تک بذات خود یہ بات غیر ثابت شدہ ہے کہ انواع حیات فی الواقع اسی طرح وجود میں آئی ہیں جیسا کہ ارتقا پسند علماء بتاتے ہیں۔ تاہم اگر اس کو بلا بحث مان لیا جائے جب بھی اس سے مذہبی عقیدے کے تزلزل کا سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ انواع حیات اگر بالفرض ارتقائی عمل کے تحت وجود میں آئی ہوں جب بھی یکساں درجہ کی قوت کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ خدائی تخلیق کا طریقہ ہے، نہ کہ اندھے مادی عمل کا خودبخود نتیجہ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشینی ارتقا (mechanical evolution) کو نہایت آسانی کے ساتھ تخلیقی ارتقا (creational evolution) ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اور سائنس کے حوالے سے مذہب کی مخالفت کرنے والوں کے پاس اس کی تردید کی کوئی واقعی بنیاد نہیں ہوگی۔
مگر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنس نے بیسویں صدی میں پہنچ کر اپنے سابقہ یقین کو کھو دیا ہے۔ آج جب کہ نیوٹن کی جگہ آئن سٹائن نے لے لی ہے اور پلانک اور ہیزن برگ نے لاپلاس کے نظریات کو منسوخ کر دیا ہے، اب مخالفین مذہب کے لیے، کم از کم علمی بنیاد پر، اس قسم کا دعویٰ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ نظریہ اضافیت (relativity) اور کوانٹم تھیوری نے خود سائنس دانوں کو اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کر لیں کہ یہ ناممکن ہے کہ سائنس میں مشاہد (Observer) کو مشاہدہ (observed) سے الگ کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی چیز کے صرف چند خارجی مظاہر کو دیکھ سکتے ہیں، اس کی اصل حقیقت کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ بیسویں صدی میں سائنس کے اندر جو انقلاب ہوا ہے اس نے خود سائنسی نقطہ نظر سے مذہب کی اہمیت ثابت کر دی ہے۔
سائنس میں جو چیز جدید انقلاب کہی جاتی ہے، وہ اس واقعہ پر مشتمل ہے کہ نیوٹن کا نظریہ جو دو سو سال تک سائنس کی دنیا پر حکمراں رہا، وہ جدید مطالعہ کے بعد ناقص پایا گیا ہے۔ اگرچہ سابقہ فکر کی جگہ ابھی تک کوئی مکمل نظریہ نہیں آ سکا ہے مگر یہ واضح ہے کہ نئے رجحان کے فلسفیانہ تقاضے اس سے بالکل مختلف ہیں جو پچھلے نظریے کے تھے۔ اب یہ دعویٰ نہیں رہا کہ سائنٹفک طریق مطالعہ ہی حقیقت کو معلوم کرنے کا واحد صحیح طریقہ ہے۔ ممتازسائنس داں حیرت انگیز طور پر اصرار کر رہے ہیں کہ سائنس ہم کو صداقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
سائنسی رجحان میں یہ تبدیلی اچانک پیدا ہوئی ہے۔ صرف سو برس گزرے جب ٹنڈل (Tyndall) نے اپنے خطبہ بلفاسٹ (Belfast address) میں اعلان کیا تھا کہ سائنس تنہا انسان کے تمام اہم معاملات سے بحث (deal) کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس قسم کے خیالات اس مفروضہ یقین کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے کہ حقیقت تمام کی تمام صرف مادہ اور حرکت (matter and motion) پر مشتمل ہے۔
مگر فطرت کو مادہ اور حرکت کی اصطلاحوں میں بیان کرنے کی ساری کوشش ناکام ثابت ہوئی اٹھارہویں صدی کے آخر میں یہ کوشش اپنے عروج پر تھی جب لاپلاس (Laplace) نے یہ کہنے کی جرأت کی کہ ایک عظیم ریاضی داں جو ابتدائی سحابیہ (nebula) میں ذات کے انتشار کو جانتا ہو وہ دنیا کے مستقبل کی پوری تاریخ کو پیشگی بتا سکتا ہے۔ اس وقت یہ یقین کر لیا گیا تھا کہ نیوٹن کا نظریہ سارے علوم کی کنجی ہے۔
نیوٹن کے نظریے کی غلطی پہلی بار اس وقت ظاہر ہوئی جب سائنس دانوں نے روشنی کی مادی تشریح کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش انہیں ایتھر (ether) کے عقیدے تک لے گئی، جو بالکل مجہول اور ناقابل بیان عنصر (element)تھا۔ کچھ نسلوں تک یہ عجیب و غریب عقیدہ چلتا رہا۔ روشنی کی مادی تعبیر کے حق میں ریاضیات کے خوب خوب معجزے دکھائے گئے۔ لیکن میکسویل (Maxwell) کے تجربات کی اشاعت کے بعد یہ مشکل ناقابل عبور نظر آنے لگی۔ کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ روشنی ایک برقی مقناطیسی مظہر (electromagnetic phenomenon) ہے۔ یہ خلا بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ دن آیا جب سائنس دانوںپر واضح ہوا کہ نیوٹن کے نظریات میں کوئی چیز ’’مقدس‘‘ نہیں ہے۔ بہت دنوں کے تذبذب اور بجلی کو مادی (mechanical) ثابت کرنے کی آخری کوششوں کے بعد بالآخر بجلی کو ناقابل تحویل عناصر (irreducible elements) کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔
یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر درحقیقت یہ بہت معنی خیز فیصلہ ہے۔ نیوٹن کے تصور میں ہم کو سب کچھ اچھی طرح معلوم تھا۔ اس کے مطابق ایک جسم کی کمیت اس کی مقدار مادہ تھی، طاقت کا مسئلہ حرکت سے سمجھ میں آ جاتا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یقین کر لیا گیا تھا کہ ہم اس فطرت کو جانتے ہیں جس کے متعلق ہم کلام کر رہے ہیں۔ مگر بجلی کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی فطرت (Nature) ایسی ہے جس کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے۔ اس کو معلوم اصطلاحوں میں تعبیر کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں۔ وہ سب کچھ جو ہم بجلی کے متعلق جانتے ہیں وہ صرف وہ طریقہ ہے جس سے وہ ہمارے پیمائشی آلات کو متاثر کرتی ہے۔ اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات کس قدر اہم ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے وجود (entity) کو طبیعیات میں تسلیم کر لیا گیا جس کے متعلق ہم اس کے ریاضیاتی ڈھانچے کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔
اس کے بعد اس نہج پر اس قسم کے کچھ اور تجربے کیے گئے اور یہ مان لیا گیا کہ یہ لامعلوم ہستیاں بھی سائنسی نظریات کے بنانے میں وہی حصہ ادا کرتی ہیں جو قدیم معلوم مادہ ادا کرتا تھا۔ یہ حقیقت قرار پا گئی کہ جہاں تک علم طبیعیات کا تعلق ہے، ہم کسی چیز کے اصلی وجود کو نہیں جان سکتے۔ بلکہ صرف اس کے ریاضیاتی ڈھانچے (mathematical structure) کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اب اعلیٰ ترین سطح پر یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم اشیاء کو ان کی آخری صورت میں دیکھ سکتے ہیں محض فریب تھا۔ پروفیسر اڈنگٹن (Eddington) کے نزدیک ریاضیاتی ڈھانچہ کا علم ہی وہ واحد علم ہے جو طبیعیاتی سائنس ہمیں دے سکتی ہے۔
’’جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی پہلوئوں سے قطع نظر، کمیت مادہ، جوہر، وسعت اور مدت وغیرہ جو خالص طبیعیات کے دائرے کی چیزیں سمجھی جاتی ہیں، ان کی کیفیت کو جاننا بھی ہمارے لیے ویسا ہی مشکل ہو گیا ہے جیسے غیر مادی چیزوں کی حقیقت کو جاننا۔ موجودہ طبیعیات اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں سے براہ راست واقف ہو سکے۔ ان کی حقیقت ادراک سے باہر ہے۔ ہم ذہنی خاکوں کی مدد سے اندازہ کرتے ہیں مگر ذہن کا کوئی عکس ایک ایسی چیز کی بعینہ نقل نہیں ہو سکتا جو خود ذہن کے اندر موجود نہ ہو۔ اس طرح اپنے حقیقی طریق مطالعہ کے اعتبار سے طبیعیات ان خارج از ادراک خصوصیتوں کا مطالعہ نہیں کرتیں بلکہ وہ صرف مطالعہ بر آلہ (pointer reading) ہے جو ہمارے علم میں آتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ مطالعہ عمل کائنات کی بعض خصوصیات کو منعکس کرتا ہے، مگر ہماری اصل معلومات آلاتی مطالعہ سے متعلق ہیں نہ کہ وہ خصوصیات کے بارے میں ہیں۔ آلاتی مطالعہ کو اشیاء کی حقیقی خصوصیات سے وہی نسبت ہے جو ٹیلی فون نمبر کو اس شخص سے جس کا وہ فون نمبر ہے۔‘‘
یہ واقعہ کہ سائنس صرف ڈھانچہ کی معلومات تک محدود ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت ابھی پورے طور پر معلوم شدہ نہیں ہے۔
اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارے احساسات یا خدا سے اتصال کا عارفانہ تجربہ اپنا کوئی خارجی جواب (objective counterpart) نہیں رکھتا۔ یہ قطعی ممکن ہے کہ ایسا کوئی جواب خارج میں موجود ہو۔ ہمارے مذہبی اور جمالیاتی احساسات اب محض مظاہر فریب (illusory phenomenon) نہیں کہے جا سکتے جیسا کہ سمجھا جاتا تھا۔ نئی سائنسی دنیا میں مذہبی عارف بھی ایک حقیقت کے طور پر رہ سکتا ہے۔
The Limitations of Science, pp. 138-42
سائنٹفک فلاسفہ نے اس قسم کی تشریحات شروع کر دی ہیں۔ مارٹن وائٹ (Morton White) کے الفاظ میں بیسویں صدی میں فلسفیانہ ذہن رکھنے والے سائنس دانوں نے ایک نئی جنگ (Crusade) کا آغاز کر دیا ہے۔ جس میں وہائٹ ہیڈ ،ایڈنگٹن اور جینز کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ’’ان علما کا فکر صریح طور پر کائنات کی مادی تعبیر کی نفی کرتا ہے۔ مگر ان کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے خود جدید طبیعیات اور ریاضیات کے نتائج کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں وہی الفاظ صحیح ہیں جو مارٹن وائٹ نے وائٹ ہیڈ کے متعلق لکھے ہیں:
He is a heroic thinker who tries to beard the lions of intellectualism, materialism, and positivism in their own bristling den. (p.84)
The Domain of Physical Science, essay in Science, Religion and Reality, The Age of Analysis, (p. 84(
یعنی وہ ایک بلند ہمت مفکر ہے جس نے مادہ پرستی کے شیروں کو عین ان کے بھٹ میں للکارا ہے۔ انگریز ماہر ریاضیات اور فلسفی الفرڈ نارتھ وائٹ ہیڈ (1861-1947) کے نزدیک جدید معلومات یہ ثابت کرتی ہیں کہ فطرت بے روح مادہ نہیں، بلکہ زندہ فطرت ہے:
Nature is alive (p.84)
انگریز ماہر فلکیات سر آرتھر ایڈنگٹن (1882-1944) نے موجودہ سائنس کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کائنات کا مادہ ایک شے ذہنی ہے:
The stuff of the world is mind-stuff. (p. 146)
ریاضیاتی طبیعیات کا انگریز عالم سر جیمز جنیز (1877-1946) جدید تحقیقات کی تعبیر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ کائنات، مادی کائنات نہیں بلکہ تصوراتی کائنات ہے:
The universe is universe of thought. (p. 134)
یہ انتہائی مستند سائنس دانوں کے خیالات ہیں جن کا خلاصہ جے ڈبلیو این سولیون کے الفاظ میں یہ ہے کہکائنات کی آخری ماہیت ذہن ہے:
The ultimate nature of the universe is mental. (p.145)
آخری حقیقت ذہن ہے یا مادہ۔ یہ فلسفیانہ الفاظ میں دراصل یہ سوال ہے کہ کائنات محض مادہ کے ذاتی عمل کے طور پر خود بخود بن گئی ہے یا کوئی غیر مادی ہستی ہے جس نے بالا رادہ اسے تخلیق کیا ہے جیسے کسی مشین کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اپنے آخری تجربے میں محض لوہے اور پٹرول کا ایک اتفاقی مرکب ہے، گویا یہ کہنا ہے کہ مشین سے پہلے صرف لوہا اور پٹرول تھا اور اس نے خود ہی کسی اندھے عمل کے ذریعہ محض اتفاق سے مشین کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ کہا جائے کہ مشین اپنے آخری تجزیے میں انجینئر کا ذہن ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مشین سے پہلے ایک ذہن تھا جس نے مادہ سے الگ اس کے ڈیزائن کو سوچا اور بالا رادہ اسے تیار کیا۔
’’ذہن‘‘ کے تعین میں اختلاف سے ذہن کو آخری حقیقت ماننے والوں میں مختلف گروہ ہو سکتے ہیں ۔ جیسے خدا کو ماننے والے خدا کو ماننے کے باوجود مختلف ٹولیوں کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔
مگر علمی مطالعہ کا یہ نتیجہ کہ کائنات کی آخری حقیقت ذہن ہے، یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذہب کی تصدیق ہے اور الحاد کی تردید۔
یہ ایک عظیم تبدیلی ہے جو موجودہ صدی میں سائنس کے اندر ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کا اہم ترین پہلو جے ڈبلیو۔ این سولیون کے الفاظ میں، یہ نہیں ہے کہ تمدنی ترقی کے لیے زیادہ طاقت حاصل ہو گئی ہے۔ بلکہ یہ تبدیلی وہ ہے جو اس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں (Metaphysical Foundations) میں واقع ہوئی ہے۔
The Limitations of Science, p. 138-50
برطانیہ کے مشہور ماہر فلکیات اور ریاضی داں سرجیمز جنیز (Sir James Jeans) کی کتاب ’’پراسرار کائنات‘‘ غالباً اس پہلو سے موجودہ زمانہ کا سب سے زیادہ قیمتی مواد ہے۔ اس کتاب میں موصوف خالص سائنسی بحث کے ذریعہ اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں :
’’جدید طبیعیات کی روشنی میں کائنات مادی تشریح (material representation) کو قبول نہیں کرتی۔ اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اب وہ محض ایک ذہنی تصور (mental concept) ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘
The Mysterious Universe, 1948, p.123
جینز کے الفاظ میں:
If the universe is a universe of thought, then its creation must have been an act of thought. (p. 133-34)
یعنی کائنات ایک تصوراتی کائنات ہے تو اس کی تخلیق بھی ایک تصوراتی عمل سے ہونی چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ مادہ کو امواج برق سے تعبیر کرنے کا جدید نظرہ انسانی تخیل کے لیے بالکل ناقابل ادراک ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ لہریں محض امکان کی لہریں (waves of probabilities) ہوں جن کا کوئی وجود نہ ہو۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے وجوہ سے سر جیمز جینز اس نتیجہ تک پہنچا ہے کہ کائنات کی حقیقت مادہ نہیں، بلکہ تصور ہے۔ یہ تصور کہاں واقع ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک عظیم ریاضیاتی مفکر (mathematical thinker) کے ذہن میں ہے۔ کیونکہ ان کا ڈھانچہ، جو ہمارے علم میں آتا ہے، وہ مکمل طور پر ریاضیاتی ڈھانچہ ہے۔ یہاں میں ایک اقتباس نقل کروں گا:
’’یہ کہنا صحیح ہوگا کہ علم کا دریا پچھلے چند سالوں میں ایک نئے رخ پر مڑا ہے۔ تیس سال پہلے ہم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم ایک ایسی حقیقت کے سامنے ہیں جو اپنی نوعیت میں مشینی (mechanical) قسم کی ہے۔ ایسا نظر آتا تھا کہ کائنات ایٹموں کے ایک ایسے بے ترتیب ڈھیر پر مشتمل ہے جو اتفاقی طور پر اکٹھا ہو گئے ہیں اور جن کا کام یہ ہے کہ بے مقصد اور اندھی طاقتوں کے عمل کے تحت جو کوئی شعور نہیں رکھتیں کچھ زمانے کے لیے ایک بے معنیٰ رقص کریں جس کے ختم ہونے پر محض ایک مردہ کائنات باقی رہ جائے۔ اس خالص میکانکی دنیا میں، مذکورہ بالا اندھی طاقتوں کے عمل کے دوران میں، زندگی محض اتفاق سے وجود میں آ گئی۔ کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا گوشہ، یا امکان کے طور پر اس طرح کے کئی گوشے، کچھ عرصے کے لیے اتفاقی طور پر ذی شعور ہو گئے ہیں، اور یہ بھی ایک بے روح دنیا کو چھوڑ کر بالآخر ایک روز ختم ہو جائیں گے۔ آج ایسے قوی دلائل موجود ہیں جو طبیعی سائنس کو یہ ماننے پر مجبور کرتے ہیں کہ علم کا دریا ایک غیر مشینی حقیقت (non-mechanical reality) کی طرف چلا جا رہا ہے۔ کائنات ایک بہت بڑی مشین کے بجائے ایک بہت بڑے خیال (great thought) سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ ذہن (mind) اتفاقاً محض اجنبی کی حیثیت سے اس مادی دنیا میں وارد نہیں ہو گیا ہے، اب ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ رہے ہیں کہ ذہن کا عالم مادی کے خالق اور حکمراں کی حیثیت سے استقبال کریں۔
یہ ذہن بلاشبہ ہمارے شخصی ذہن کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ ایک ایسا ذہن ہے جس نے مادی ایٹم سے انسانی دماغ کی تخلیق کی۔ اور یہ سب کچھ ایک اسکیم کی شکل میں پہلے سے اس کے ذہن میں موجود تھا۔ جدید علم ہم کو مجبور کرتا ہے کہ ہم دنیا کے بارے میں اپنے ان خیالات پر نظرثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کر لیے تھے۔ ہم نے دریافت کر لیا ہے کہ کائنات ایک منصوبہ ساز یا حکمراں (designing or controlling power) کی شہادت دے رہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ مشابہ ہے۔ جذبات و احساسات کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس طرز پر سوچنے کے اعتبار سے جس کو ہم ریاضیاتی ذہن (mathematical mind) کے الفاظ میں ادا کر سکتے ہیں۔‘‘
The Mysterious Universe, pp.136-38
سائنس کے اندر علمی حیثیت سے اس تبدیلی کے باوجود، یہ واقعہ ہے کہ عملی طور پر انکار خدا کے ذہن میں کوئی نمایاں فرق پیدا نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس انکار خدا کے وکیل نئے نئے ڈھنگ سے اپنے دلائل کو ترتیب دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ کوئی علمی دریافت نہیں بلکہ محض تعصب ہے۔ تاریخ بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ حقیقت کے ظاہر ہو جانے کے باوجود انسان نے محض اس لیے اس کو قبول نہیں کیا کہ تعصب اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہی تعصب تھا جب چار سو برس پہلے اٹلی کے علماء نے ارسطو کے مقابلے میں گلیلیو کے نظریے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ لیننگ ٹاور سے گرنے والے گولے اس کے نظریے کو آنکھوں دیکھی حقیقت بنا چکے تھے۔ پھر یہی تعصب تھا کہ جب انیسویں صدی کے آخر میں برلن کے پروفیسر ماکس پلانک (Max Plank) نے روشنی کے متعلق بعض ایسی تشریحات پیش کیں جو کائنات کے نیوٹنی تصور کو غلط ثابت کر رہی تھیں تو وقت کے ماہرین نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور عرصہ تک اس کا مذاق اڑاتے رہے۔
حالانکہ آج وہ کوانٹم تھیوری کی صورت میں علم طبیعیات کے اہم اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ تعصب دوسرے لوگوں میں تو ہو سکتا ہے، مگر سائنس دانوں میں نہیں ہوتا، تو اس کو میں ایک سائنس داں کا قول یاد دلائوں گا۔ ڈاکٹر ہلز (A. V. Hills) نے کہا ہے:
I should be the last to claim that we, scientific men, are less liable to prejudice than other educated men. (Quoted by A. N. Gilkes, Faith for Modern Man, p.109)
یعنی میں آخری شخص ہوں گا جو اس بات کا دعویٰ کرے کہ ہم سائنس داں دوسرے تعلیم یافتہ لوگوں کے مقابلہ میں کم تعصب رکھنے والے ہوتے ہیں۔
اب ایک ایسی دنیا میں جہاں تعصب کی کارفرمائی ہو، یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ کوئی تصور محض اس لیے قبول کر لیا جائے گا کہ وہ علمی طور پر ثابت ہو گیا ہے۔ تاریخ کا طویل تجربہ ہے کہ انسان کے رہنما اس کے جذبات رہے ہیں، نہ کہ اس کی عقل۔ اگرچہ علمی اور منطقی طور پر عقل ہی کو بلند مقام حاصل ہے مگر زیادہ تر ایسا ہی ہوا ہے کہ عقل خود جذبات کی آلہ کار رہی ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ وہ جذبات کو اپنے قابو میں کر سکی ہو۔ عقل نے ہمیشہ جذبات کے حق میں دلائل تراشے ہیں اور اس طرح اپنے جذباتی رویہ کو عقلی رویہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ خواہ حقیقت واقعہ انسان کا ساتھ نہ دے مگر جذبات سے لپٹا رہنا وہ اپنے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا معاملہ کسی مشین سے نہیں ہے جو بٹن دبانے کے بعد لازماً اس کے مطابق اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہے، بلکہ ہمارا مخاطب انسان ہے۔ اور انسان اسی وقت کسی بات کو مانتا ہے جب کہ وہ خود بھی ماننا چاہے۔ اگر وہ خود ماننا نہ چاہتا ہو تو کوئی دلیل محض دلیل ہونے کی حیثیت سے اسے قائل نہیں کر سکتی۔ دلیل کو برقی بٹن (Electric Switch) کا قائم مقام نہیں بنایا جا سکتا۔ اور بلاشبہ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔
انسان
جس کو سائنس دریافت نہ کر سکی
جدید سائنس داں طویل تجربے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جس طرح ہم بے جان مادہ کے مطالعہ میں کامیاب ہوئے ہیں، اسی طرح ہم انسان کے متعلق حقائق کو دریافت نہیں کر سکتے۔ جامد مادے کے علوم اور حیاتیاتی علوم کے درمیان یہ فرق ہے کہ جامد مادہ ایک متعین قانون کا پابند ہے۔ جب کہ حیاتیاتی مظاہر گویا ’’طلسماتی جنگل ہیں جہاں رنگ برنگ کے بے شمار درخت مسلسل طور پر اپنی جگہ اور اپنی شکل بدلتے رہتے ہیں‘‘ مادی مظاہر کے برعکس حیاتیاتی مظاہر کو جبر و مقابلہ کی مساواتوں میں تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ مادی دنیا کا علم بھی اب تک صرف وصفی علم (descriptive science) کے مقام تک پہنچا ہے جو درحقیقت سائنس کی ایک ادنی شکل ہے۔ کیونکہ یہ علم چیزوں کی اصل نوعیت کو ہمارے اوپر بے نقاب نہیں کرتا، بلکہ یہ اس کے چند ظاہری اوصاف مثلاً وزن اور مکانی ابعاد (Spatial Dimensions) وغیرہ کو بیان کرتا ہے تاہم اس علم کی بدولت یہ ہوا ہے کہ ہم میں اتنی طاقت پیدا ہو گئی ہے کہ آئندہ ہونے والے واقعات کے متعلق پیش گوئی کر سکیں بلکہ اکثر حالات میں ان کے ٹھیک ٹھیک واقع ہونے کی تاریخ کا تعین کر سکیں۔ مادہ کی ترکیب اور اس کی خصوصیات جان لینے کے بعد ہم کو اپنی ذات کے علاوہ تقریباً ہر اس چیز پر قابو حاصل ہو گیا ہے جو زمین کی سطح پر موجود ہے۔ جانداروں کے علم نے بالعموم اور انسان کے علم نے بالخصوص اتنی زیادہ ترقی نہیں کی ہے، یہ علم اب تک صرف وصفی حالت میں ہے جبکہ ذی حیات اشیاء کی اصل حقیقت ان کی غیر وصفی ہونا ہے۔
یہاں میں الکسس کیرل کا ایک اقتباس نقل کروں گا:
’’انسان ایک انتہائی پیچیدہ اور ناقابل تقسیم کُل ہے۔ کوئی چیز بھی آسانی کے ساتھ اس کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم بیک وقت اس کی پوری ذات کو اس کے اجزاء اور بیرونی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کو بخوبی سمجھ سکیں۔ اپنی ذات کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم کو مختلف فنی مہارتوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اور اس طرح مختلف علوم سے کام لینا ہوتا ہے۔ فطری طور پر یہ تمام علوم اپنے کسی عام مقصد کے متعلق کسی ایک متحدہ تصور پر نہیں پہنچتے۔ وہ انسان سے صرف انہیں چیزوں کی تجرید کرتے ہیں جو ان کے خاص طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے اور ان مجردات کو ایک دوسرے سے ملا بھی دیا جائے تو وہ ایک ٹھوس حقیقت سے بھی کم قیمتی ہوتے ہیں۔ ان مجردات کے بعد بھی ایک ایسی ذات باقی رہتی ہے جو بہت ہی اہم ہوتی ہے اور اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ علم تشریح، کیمیا، فعلیات، نفسیات، تعلیمات، تاریخ، سماجیات، سیاسی اقتصادیات اپنے موضوع کو پورے طور پر ختم نہیں کرتے۔ وہ انسان جس سے خصوصی ماہرین آشنا ہیں، حقیقی، انسان سے بہت دور ہوتا ہے۔ وہ ایک مفروضہ کے سوا اور کچھ نہیں جو مختلف مفروضات پر مشتمل ہے اور جن کو ہر ایک علم کی فنی مہارتوں نے پیدا کیا ہے۔
انسان بیک وقت ایک لاش ہے، جس کو تشریح کا عالم چیرتا پھاڑتا ہے، وہ ایک شعور ہے جس کا ماہرین نفسیات اور بڑے بڑے روحانی اساتذہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ ایک شخصیت ہے جس کے اندر دیکھنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کی ذات کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے، وہ کیمیائی مادہ بھی ہے جس سے جسم کی نسیجیں اور خلطیں بنتی ہیں۔ وہ خلیوں اور تغذیاتی رطوبتوں کا ایک حیرت انگیز گروہ ہے جن کے جسمانی قوانین کا مطالعہ ماہرین فعلیات کرتے ہیں، وہ نسیجوں اور شعور سے مرکب ہے جس کو حفظان صحت اور تعلیمات کے ماہرین، جب کہ وہ زمان کے اندر پھیل رہا ہو، امید افزا ترقی دینے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ایک گھریلو اقتصادیات کا حامل ہے جس کا کام پیدا کی ہوئی چیزوں کو استعمال کرتے رہنا ہے تاکہ مشینیں جن کا وہ غلام بن گیا ہے، برابر کام کرتی رہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ ایک شاعر، سورما اور ولی بھی ہے، وہ نہ صرف ایک انتہائی پیچیدہ ہستی ہے جس کا تجزیہ سائنس کی فنی مہارتوں کے ذریعہ کیا جا رہا ہے بلکہ وہ انسانیت کے رجحانات، قیاسات اور آرزوئوں کا مرکز ہے۔ بلاشبہ انسانیت نے اپنی حقیقت کو معلوم کرنے کی بڑی زبردست کوشش کی ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس تمام زمانوں کے سائنس دانوں فلسفیوں، شاعروں اور بڑے بڑے صوفیوں کے مشاہدات کا ایک انبار موجود ہے مگر ہم اپنی ذات کے صرف چند پہلوئوں کو دریافت کر سکے ہیں، ہم انسان کو اس کی کلی حیثیت میں بخوبی سمجھ نہیں سکے ہیں۔ ہم اس کو الگ الگ حصوں سے مرکب جانتے ہیں اور یہ حصے بھی ہمارے اپنے طریقوں کے پیدا کردہ ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ایک خیالی پیکر ہے جس کے اندر سے ایک نامعلوم حقیقت جھلک رہی ہے۔
حقیقت میں ہماری ناواقفیت بہت گہری ہے۔ وہ لوگ جو انسانی ہستیوں کا مطالعہ کرتے ہیں، اپنے آپ سے بہت سے ایسے سوالات کرتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہماری اندرونی دنیا کے وسیع علاقے اب تک نامعلوم ہیں۔ خلیے کے پیچیدہ اور عارضی اعضاء کے بنانے کے لیے کس طرح کیمیائی مادوں کے سالمے (molecules) باہم مل جاتے ہیں، ترو تازہ بیضہ کی نواۃ (Nucleus) کے اندر کے نسلی مادے کس طرح اس فرد کی خصوصیات کا فیصلہ کرتے ہیں جو اس بیضہ سے پیدا ہوتا ہے، کس طرح خلیے خود اپنی کوششوں سے نسیجوں اور اعضاء جیسے گروہوں میں منظم ہو جاتے ہیں۔ چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح ان خلیوں کو پہلے ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے گروہ کو زندہ رکھنے میں انہیں کیا کام کرنا ہے۔ اور چھپی ہوئی بناوٹوں کے ذریعہ وہ ایک ایسے نظام جسمانی کے بنانے کے قابل ہوتے ہیں جو سادہ اور پیچیدہ دونوں ہوتا ہے۔ ہماری مدت (Duration) فعلیاتی وقت (Physiological Time) اور نفسیاتی وقت (Psychological Time) کی نوعیت کیا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم نسیجوں، اعضاء، رطوبتوں اور شعور سے مرکب ہیں۔ لیکن شعور اور دماغ کے درمیانی تعلقات اب تک ایک راز بنے ہوئے ہیں۔ ہم کو اعصابی خلیوں کے فعلیات کا پورا پورا علم حاصل نہیں۔ ارادی قوت کس حد تک نظام جسمانی میں تبدیلیاں پیدا کرتی ہے، کس طرح دماغ اعضاء کے حالات سے متاثر ہوتا ہے، طرز زندگی غذا کے کیمیائی مادوں، آب و ہوا اور فعلیاتی اور اخلاقی تربیتوں کے ذریعہ کس طرح جسمانی اور دماغی خصوصیات میں جو بطور وراثت ہر ایک فرد کو ملتی ہیں، تبدیلیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
ہم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ڈھانچہ، عضلات اور اعضاء اور دماغی اور روحانی سرگرمیوں کے درمیان کس قسم کے تعلقات ہیں۔ ہم ان اسباب سے ناواقف ہیں جن کی بنا پر اعصابی توازن اور تکان اور بیماریوں کی مدافعت پیدا ہوتی ہے، ہم نہیں جانتے کہ اخلاقی احساس، قوت فیصلہ اور جرأت کو کس طرح ترقی دی جا سکتی ہے۔ ذہنی، اخلاقی اور صوفیانہ سرگرمیوں کی اضافی اہمیت کیا ہے، جمالیاتی اور مذہبی احساس کی ضرورت کیا ہے، کس قسم کی قوت سے اشراقی تعلقات کا ظہور ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض فعلیاتی اور دماغی اسباب خوشی یا تکلیف، کامیابی یا ناکامی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ اسباب کیا ہے۔ ہم کسی فرد کے اندر مصنوعی طور پر خوشی کا چسکہ نہیں پیدا کر سکتے۔ اب تک ہم اس کو نہیں جان سکے کہ متمدن آدمی کی امید افزا ترقی کے لیے کس قسم کا ماحول زیادہ مناسب ہے، کیا ہماری فعلیاتی اور روحانی ساخت سے کش مکش، محنت اور تکلیف کو دور کرنا ممکن ہے، موجودہ تمدن میں ہم انسان کو زوال پذیر ہونے سے کس طرح روک سکتے ہیں۔ ان باتوں کے متعلق جو ہماری انتہائی دلچسپی کا باعث ہیں، بہت سے دوسرے سوالات کیے جا سکتے ہیں۔ ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان کے متعلق تمام علوم کی مہارت بھی ناکافی ہے اور یہ کہ اپنی ذات کے متعلق ہمارا علم اب تک ابتدائی حالت میں ہے۔
Man, the Unknown, pp. 16-19
یہ اقتباس یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’’انسان‘‘ کا علم ابھی تک انسان کو حاصل نہیں ہوا۔ انسانی وجود کے مادی حصہ کے بارے میں تو ہم بہت کچھ جانتے ہیں۔ مگر وہ انسان جو اس مادی وجود کو کنٹرول کرتا ہے اس سے ہم قطعاً لاعلم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ زندگی اب تک ہمارے لیے ایک راز بنی ہوئی ہے اور جب تک یہ راز نہ کھلے زندگی کی صحیح تعمیر و تشکیل ممکن نہیں۔ الکسس کیرل کی کتاب اسی ’’انسان نامعلوم‘‘ کو دریافت کرنے کی ایک سائنٹفک کوشش ہے۔ اس طرح کی کوششیں موجودہ زمانہ میں بہت بڑے پیمانہ پر جاری ہیں۔ مگر اب تک کا نتیجہ صفر کے سوا اور کچھ نہیں۔
آج کا انسان ایٹم توڑ سکتا ہے۔ برفیلے علاقوں میں آبادیاں قائم کر سکتا ہے۔ وہ خلاء کے دوسرے سیاروں تک سفر کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں جن کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح انسان نے مادی دنیا سے واقفیت حاصل کر لی ہے اور اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رہا ہے اسی طرح وہ اپنے آپ کو بھی جان سکتا ہے اور اپنے معاملات کو درست کر سکتا ہے مگر خود ہماری معلوم دنیا کے اندر اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ ہم جس طرح مادے کے اوصاف کو معلوم کر لیتے ہیں، اسی طرح ہم انسان کو سمجھ نہیں سکتے۔
جس وجود کو ہم ’’انسان‘‘ کہتے ہیں، وہ پروٹو پلازم کے بنے ہوئے کروڑوں خلیوں پر مشتمل ایک جسم ہے۔ پروٹو پلازم کیا ہے؟وہ غیر ذی روح اشیاء کا ننھا سا مرکب ہے جس کے اندر روح پذیری کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ سادہ لفظوں میں وہ زندگی کی اکائی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہم مادی دنیا کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہم پروٹو پلازم کا مطالعہ نہیں کر سکتے۔
وہ سب کچھ جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہ کچھ چیزوں کا مرکب ہی ہوتا ہے۔ اگر وسائل و ذرائع حاصل ہوں تو ہم اس طرح کے تمام مرکبات کو وجود میں لا سکتے ہیں اور اسے ختم بھی کر سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر جرمن فلسفی کانٹ نے 1755ء میں کہا تھا۔ ’’مجھے مادہ مہیا کرو اور میں تم کو بتا دوں گا کہ دنیا اس مادہ سے کس طرح بنائی جاتی ہے۔‘‘ یاہیکل (Haeckel) نے دعویٰ کیا کہ ’’پانی، کیمیائی اجزاء اور وقت ملے تو وہ ایک انسان کی تخلیق کر سکتا ہے۔‘‘مثلاً پانی کے متعلق معلوم ہو چکا ہے کہ اس کا ایک سالمہ (molecule) آکسیجن کے ایک ایٹم اور ہائیڈروجن کے دو ایٹم سے مرکب ہوتا ہے۔ یہ بالکل ہمارے بس میں ہے کہ ہم ان گیسوں کو اسی تناسب سے ملا کر پانی کی شکل دے دیں۔ یا پانی کے سالموں کو توڑ کر دوبارہ آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تبدیل کر دیں۔ مگر انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے، سائنس نے وہ اجزاء معلوم کر لیے گئے ہیں جو پروٹو پلازم میں پائے جاتے ہیں اور ان کے مخصوص تناسب بھی دریافت ہو چکے ہیں۔ مگر انسان یہ نہیں کر سکتا کہ ان اجزاء کو اسی مخصوص ترتیب سے ملا کر زندگی پیدا کر دے۔ پروٹو پلازم کے اجزائے ترکیبی کے درمیان جو تناسب ہے، ٹھیک اسی تناسب سے ان اجزاء کو ملایا جاتا ہے۔ لیکن وہ پروٹو پلازم نہیں بنتا جو ذی روح ہو۔ حالانکہ دوسرے کیمیاوی مرکبات ان کے اجزائے ترکیبی کو اسی نسبت سے ملانے پر بن جاتے ہیں۔ گویا ہم جس طرح مادی اشیاء میں تصرف کرکے مادی واقعات کو وجود میں لاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح ہم انسان کے اوپر تصرف کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔
یہ انسان کے سلسلہ میں ہماری پہلی عاجزی ہے جس کا اعتراف کرنے پر ہم مجبور ہیں۔ دوسری اس سے بڑی چیز یہ ہے کہ انسان کے سلسلہ میں ہمارا تمام طبیعیاتی مطالعہ انسان مردہ کا مطالعہ ہے، انسان زندہ کا مطالعہ کرنے کی صلاحیت ہم اپنے اندر نہیں رکھتے۔ سائنس نے وہ اجزاء معلوم کر لیے ہیں جو پروٹو پلازم میں پائے جاتے ہیں اور ان کا مخصوص تناسب بھی معلوم ہو چکا ہے لیکن یہ دریافت نہ ہو سکا کہ ان کے درمیان وہ کون سی مخصوص ترتیب ہے جس کے قائم رہنے سے پروٹو پلازم ذی روح بنا رہتا ہے اور جہاں یہ ترتیب بگڑی، ذی روح پروٹو پلازم غیر ذی روح ہو جاتا ہے۔ گویا اصل میں وہ مخصوص ترتیب ہی ہے جو پروٹو پلازم میں روح کی موجودگی کی ذمہ دار ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس مخصوص ترتیب کو باقی رکھتے ہوئے پروٹو پلازم کا تجزیہ کرنے کے لیے لازمی طور پر اس کی کیمیاوی ترتیب کو توڑنا پڑتا ہے اور جوں ہی ہم ایسا کرتے ہیں اس کے اندر سے زندگی رخصت ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب بھی پروٹو پلازم کا کیمیاوی تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ وہی وقت ہوتا ہے جب کہ پروٹو پلازم سے اس کی روح نکل جاتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کیمیائی تجزیہ کیا جا رہا ہو اور پروٹو پلازم میں روح موجود ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک ایسا نہ ہوگا، یعنی روح کی موجودگی میں تجزیہ نہ کیا جائے گا زندگی کی حقیقت معلوم کرنے کے بارے میں سائنس ہمیشہ اندھیرے میں رہے گی۔
مگر ہماری مشکل یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وہ اس سے بہت آگے جاتی ہے۔ فرض کیجیے ایک شخص اپنے ذمہ یہ کام لیتا ہے کہ وہ انسانیت کی حقیقت کو معلوم کرے گا، اور انسان کو بتائے گا کہ زندگی کا قانون کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ انسانی آبادیوں سے اپنے مطالعہ کا آغاز کرتا ہے۔ لمبے عرصے تک مختلف سماجوں کی چھان بین کرنے کے بعد اس کو محسوس ہوتا ہے کہ سماج تو انسانوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ اس لیے جب تک ہم فرد کو سمجھ نہ لیں، جماعت کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اب وہ معاشرہ کو چھوڑ کر انسان کا مطالعہ شروع کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ سب سے پہلے نفسیات کی طرف رخ کرتا ہے، یہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا کوئی ایک فکر نہیں بلکہ اس کی بہت سی شاخیں ہیں اور سب کے نتائج تحقیق الگ الگ ہیں۔ نفسیات کی ایک شاخ کا دعویٰ ہے کہ انسان کے تمام اعمال کا مرکز اس کا احساس ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ انسان خارجی دنیا سے شعوری یا غیر شعوری طور پر جو تاثر قبول کرتا ہے، اس کا ہر کام اسی کا ردعمل ہے، کوئی جنسی خواہشات کو اس کے تمام اعمال کا محرک بتاتا ہے، کسی کا مطالعہ یہ ہے کہ اپنے آئیڈیل کو پا لینے کا نامعلوم جذبہ انسان کو متحرک کیے ہوئے ہے۔ کوئی مکتب فکر شعور کو اصل قرار دیتا ہے۔ اور اسی کی روشنی میں انسان کی پوری ہستی کی تشریح کرتا ہے۔ اور کوئی اس بات کا قائل ہے کہ عقل اور ذہن کوئی چیز نہیں۔ انسان کے مختلف اعضاء کی عنان کسی ایک مرکزی قوت کے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ انسان جس حصہ جسم پر زیادہ توجہ دیتا ہے اس کی نشو و نما بہتر طریقہ سے ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں کوئی اچھا رقاص بن جاتا ہے، کوئی اچھا مفکر۔ نفسیات کا یہ اختلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ بعض سرے سے اس واقعہ کا انکار کرتے ہیں کہ اس نام کا کوئی علم (science) فی الواقع موجود ہے۔
خیالات کے اس جنگل کو دیکھ کر وہ سوچتا ہے کہ انسانی وجود کے دوسرے حصے، حیاتیات، کا مطالعہ کرے تاکہ دونوں کے نتائج کو ملا کر کوئی رائے قائم کی جا سکے۔ جب انسان کو وہ اس حیثیت سے دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ انسان، نظام ہضم، نظام تنفس، نظام دوران خون وغیرہ کا ایک مجموعہ ہے۔ ان نظاموں کی بنیاد چند کیمیاوی تبدیلیوں پر ہے جو کچھ کیمیاوی اشیاء اور ان کے آپس کے عمل اور ردعمل سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسم کا سارا نظام کیمیائی تحلیل (metabolism) کا ہی ایک پیکر ہے۔
اب وہ غور کرتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جب جسم انسانی کا وجود اور اس کا نشو و نما کیمیاوی ردوبدل کا مرہون منت ہے تو پہلے کیمیاوی تبدیلیوں کے اصولوں کو ہی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اس کے بغیر انسان کے بارے میں حقیقی اور قابل اطمینان معلومات نہ مل سکیں گی۔ اس لیے اب وہ کیمیا اور طبیعیات کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور اس میں ایک عمر کھپا دیتا ہے۔
کیمیا اور طبیعیات کا مطالعہ اسے مالے کیول اور ایٹم کے مطالعہ تک لے جاتا ہے اور پھر وہ ایٹم کے اجزائے ترکیبی الیکٹران اور پروٹان وغیرہ کا مطالعہ شروع کر دیتا ہے جس کے بعد اس کو معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات برقی لہروں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس طرح مطالعہ کرتے کرتے بالآخر وہ جدید سائنس کے آخری شعبے، نیوکلیئر سائنس میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس طرح معلومات کا عظیم دفتر جمع کرنے کے باوجود وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتا۔ اور جو شخص انسان کی حقیقت معلوم کرنے اور اس کے قانون وضع کرنے چلا تھا، وہ ایک ایسی دنیا میں گم ہو جاتا ہے جو نظر آنے کے باوجود نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر جوڈ (Joad) کے الفاظ میں:
’’جدید مادہ ایک ایسی بے حقیقت چیز ہے جو ہاتھ نہیں آ سکتی۔ یہ فاصلہ اور وقت کے مرکب کا ایک ابھار، برقی رو کا ایک جال ہے۔ یا امکان کی ایک لہر ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے فنا کے اندر کھو جاتی ہے۔ اکثر اوقات اسے مادے کی بجائے دیکھنے والے کے شعور کا ایک پھیلائو سمجھا جاتا ہے۔‘‘
زندگی کے راز کو مادی علوم میں تلاش کرنے کا یہ عبرت ناک انجام بتاتا ہے کہ زندگی کا راز انسان کے لیے ناقابل دریافت ہے۔ اب جس طرح ایک بیمار شخص کی یہ معذوری کہ وہ خود اپنا علاج نہیں کر سکتا، اس کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ اس کو ایک ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ اسی طرح نظام فطرت میں انسان کا ایک چیز کے لیے ضرورت مند ہونا اور پھر اس ضرورت کی تکمیل کے لیے کافی صلاحیت نہ رکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کے لیے وہ اپنے اس خدا کا محتاج ہے جس نے اسے موجودہ شکل میں بنایا ہے۔ جس طرح خدا نے اسے آکسیجن کا محتاج بنایا ہے اور پھر آکسیجن بے حساب مقدار میں سارے کرہ ارض کے گرد پھیلا دی۔ اسی طرح اس نے انسان کو زندگی کی حقیقت جاننے کا محتاج بنایا اور پھر اپنے نبیوں کے ذریعہ زندگی کی حقیقت واضح فرمائی۔
دورِ جدید کا مذہب
تعارف
جولین ہکسلے کے نزدیک مکمل تشکیک (complete skepticism) ناقابل عمل ہے اور انسان کے لیے کچھ نہ کچھ عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ وہ لکھتا ہے:
Religion of some sort is probably necessary.
Hindustan Times, Oct. 1961
یعنی کسی نہ کسی قسم کا مذہب انسان کے لیے ضروری ہے۔ مگر دور جدید کا مذہب، اس کے نزدیک یقینی طور پر ایک بے خدا مذہب (godless religion) اور مذہب بغیر الہام (religion without revelation) ہوگا۔ بظاہر یہ ایک لغو سی بات معلوم ہوتی ہے مگر درحقیقت اس کی پشت پر ایک مستقل فلسفہ ہے اور اس نے دور جدید کے اکثر ذہنوں کو متاثر کیا ہے۔
اس طرز پر جو لوگ سوچتے ہیں، ان کے خیالات اگرچہ باہم یکساں نہیں ہیں۔ نیز ان میں مخالف مذہب اور بظاہر غیر مخالفین دونوں قسم کے لوگ شامل ہیں مگر جو بات سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ یہ تمام لوگ رسالت کے ذریعہ رہنمائی حاصل کرنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ اس کو دوسرے علوم کی طرح محض انسانی دریافت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ لارڈ مارلے نے اسی معنی میں کہا تھا کہ سائنس کا دوسرا اہم کام یہ ہے کہ وہ انسانیت کے لیے ایک مذہب کی تخلیق کرے:
The next great task of science is to create a religion for mankind.
Science & Christian Belief, by C.A. Coulson, 1955, p.8
اس گروہ میں سے کوئی شخص اگر مذہب کا نام لیتا ہے تو وہ بھی عام مذہبی مفہوم میں نہیں بلکہ اپنے مخصوص مفہوم میں۔ اس کے نزدیک یہ ایک خاص طرح کا دہنی آرٹ (intellectual art) ہے نہ کہ وحی و الہام کے ذریعہ معلوم شدہ کوئی واقعی حقیقت۔ اس مذہب کی اہم ترین خصوصیت، ایک مفکر کے الفاظ میں، خدا کی جگہ انسان کو بٹھانا (transfer of seat from god to man) ہے۔ اسی لیے اس جدید مذہب کو انسانیت (humanism) کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر الکسس کیرل کی کتاب جو پہلی بار 1935ء میں شائع ہوئی وہ اسی سلسلہ کی ایک کوشش ہے۔ اس کتاب کو اگرچہ اس طرز فکر کے مختلف لوگوں کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا، مگر غالباً اس موضوع پر یہ جامع ترین کتاب ہے جو ایک سائنس داں کے قلم سے خالص سائنسی انداز میں لکھی گئی ہے اور جس میں اس پہلو سے تاحال دریافت شدہ حقائق کا نہایت عمدہ جائزہ موجود ہے۔
’’سائنس اور ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی کے باوجود انسان مشکلوں میں گرفتار ہے۔‘‘ یہ ایک سوال ہے جو موجودہ دنیا کے سوچنے والے ذہنوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے انحطاط کی وجہ سے ایسا ہوا ہے مگر دوسرے لوگ جو مذہب میں یقین نہیں رکھتے، وہ دوسرے انداز سے سوچتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جامد مادے کے علوم میں جس طرح ترقی ہوئی ہے اسی طرح حیاتیاتی علوم میں ترقی نہیں ہو سکی اور اسی کا نتیجہ ہے، جو ہم اپنی زندگی میں بھگت رہے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ حیاتیاتی علوم میں اب اس سے زیادہ شدت کے ساتھ تحقیق و تفتیش کا کام جاری ہونا چاہیے جیسے جیسے اب تک ہوتا رہا ہے۔
نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الکس کیرل (Alexis Carrel) کی کتاب انسان نامعلوم (Man the Unknown) اسی تاحال عدم دریافت انسان کو دریافت کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘‘ سائنس جس نے مادی دنیا کو بدل دیا ہے، انسان کو وہ طاقت دیتی ہے جس سے وہ اپنے آپ کو بھی بدل سکے۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ وہ اپنی کتاب کا باب انسانیت کی نئی تعمیر (The Remaking of Man) شروع کرتا ہے۔ ’’تاریخ میں پہلی بار سائنس کی مدد سے انسانیت اپنی قسمت کی آپ مالک بن گئی ہے۔ آج ہمیں یہ موقع حاصل ہے کہ ہم جس طرح مادہ پر عمل کرکے اس کو اپنی خدمت میں لا رہے ہیں، اسی طرح جسم اور روح پر عمل کرکے اس کو اپنی منشاء کے مطابق ڈھال سکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کند ذہنی، بداخلاقی اور جرم کاری عموماً موروثی نہیں ہوتی۔ ہم ان برائیوں کی اسی طرح اصلاح کر سکتے ہیں جس طرح ہم بیماریوں کو اچھا کرتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر الکس کیرل اس مسئلہ پر مزید لکھتا ہے:
’’صنعت و حرفت نے سائنس کی اسپرٹ کے مطابق کام نہیں کیا، بلکہ مابعد الطبیعیات کے غلط تصورات کے مطابق انسان کی تعمیر کی ہے۔ ہم کو چاہیے کہ ان حد بندیوں کو توڑ دیں جو حقیقی اشیاء کی خصوصیات اور ہماری ذات کے مختلف پہلوئوں کے درمیان قائم کر دی گئی ہیں۔ یہ غلطی جو ہماری تمام مصیبتوں کی ذمہ دار ہے۔گلیلیو کے تولیدی نظریے (genial idea) کی ایک غلط تعبیر کا نتیجہ ہے۔ گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد اور وزن پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جا سکتی ہے، ان ثانوی صفات سے الگ کر دیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔ کمیت کو کیفیت سے جدا کر دیا گیا ہے۔ اس غلطی سے غیر معمولی نتائج پیدا ہوئے۔ انسان کے اندر وہ چیزیں، جن کی پیمائش نہیں کی جا سکتی، ان چیزوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جن کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ مثلاً خیال اور فکر کا وجود اتنا ہی اہم ہے جتنا خوں ناب (blood serum) کے طبعی کیمیاوی توازنوں کا وجود اہم ہے۔ کمی اور کیفی اشیاء کے درمیان تفرقہ اور وسیع ہو گیا جب کہ ڈیکارٹ نے جسم اور روح کے درمیان فرق کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد سے دماغ کے مظاہر ناقابل تشریح بن گئے۔ مادی اشیاء کو روحانی اشیاء سے بالکل الگ کر دیا گیا۔ جسمانی ساخت اور فعلیاتی طریقے (physiological mechanism) خیال، لذت، حزن اور حسن سے بھی زیادہ بڑی حقیقت قرار پائے۔ اس غلطی کی وجہ سے تمدن ایک ایسی راہ پر پڑ گیا جہاں سائنس کو کامیابی حاصل ہوئی مگر انسان تنزل کے گڑھے میں گرتا چلا گیا۔
اب ٹھیک رخ پر پہنچنے کے لیے ہم کو چاہیے کہ نشاۃ ثانیہ کے دور کے خیالات کی طرف رجوع کریں۔ ہمیں ڈیکارٹ کی ثنویت (dualism) کو ترک کر دینا چاہیے۔ دماغ کو پھر مادہ کے اندر جگہ دینی چاہیے۔ روح کو آئندہ جسم سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔ جذبات کو بھی اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے جتنی کہ حرکیات حرارت کے قانون کو دی جاتی ہے۔
ایک ایسا نظریہ جو تین سو سال سے زیادہ عرصہ تک متمدن لوگوں کے ذہنوں پر چھایا رہا، پورے طور پر اس سے آزاد ہونا بہت مشکل ہے لیکن اگر ایسا ہو جائے تو فوراً حیرت انگیز واقعات رونما ہوں گے۔ مادہ کی فوقیت ختم ہو جائے گی۔ ریاضیات، طبیعیات اور کیمیا کی طرح اخلاقی، جمالیاتی اور مذہبی افعال کا مطالعہ بھی بالکل ضروری معلوم ہوگا، حفظان صحت کے ماہرین سے یہ سوال ہوگا کہ وہ کیوں صرف جسمانی بیماریوں کو روکنے کی طرف توجہ کرتے ہیں اور دماغی اور اعصابی امراض کا علاج کیوں تلاش نہیں کرتے۔ ماہرین امراض کو اعضا کے صدمات کے ساتھ اخلاط (hum ours) کے صدمات کا بھی مطالعہ کرنا ہوگا اور یہ جاننا ہوگا کہ دماغ کا نسیجوں پر نسیجوں کا دماغ پر کیا اثر پڑتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘
Man, the Unknown, 1961, pp. 257-63
اس طرح ڈاکٹر کیرل کی تشخیص کے مطابق انسانی مشکلات کا سبب یہ ہے کہ مادی علوم کی تو وسیع پیمانے پر ترقی ہوئی، مگر جس انسان نے یہ سب کیا خود اس کا علم، جاندار ہستیوں کا علم، بالکل ابتدائی حالت میں رہ گیا ہے، ورنہ جس طرح سیاہ اور بدبودار تارکول بہترین خوشنما رنگوں کی صورت میں نظر آتا ہے، اور لوہے کے بدوضع ڈلے خوبصورت مشینوں کی شکل میں متحرک ہیں، اسی طرح انسان اور انسانی سماج بھی سائنس کی مدد سے باغ و بہار بن گیا ہوتا۔ اس کے اپنے الفاظ میں:
We are the victims of the backwardness of the science of life over those of matter (p.39)
یعنی ہم دراصل زندگی کے علوم کی اس پس افتادگی کا شکار ہیں جو مادی علوم کے مقابلے میں اسے حاصل ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’اس مصیبت کا ایک ہی ممکن علاج اپنی ذات کے بارے میں زیادہ گہرا علم ہے۔ اس قسم کا علم ہمیں یہ سمجھنے کے قابل بنائے گا کہ کن طریقوں سے جدید زندگی ہمارے شعور اور ہمارے جسم کو متاثر کر رہی ہے۔ اس سے ہم سیکھیں گے کہ کس طرح ہم اپنے آپ کو اپنے گرد و پیش کے مطابق ڈھالیں اور اگر ماحول کو بدلنا ضروری ہو تو کس طرح ہم اسے بدلیں۔ ہماری واقعی فطرت ہماری استعداد اور اس کے اظہار کے طریقوں کے روشنی میں آنے کے بعد یہ علم ہماری فعلیاتی کمزوری اور اخلاقی اور ذہنی بیماریوں کی وجہ بتا سکے گا۔ ہم اپنی جسمانی اور روحانی سرگرمیوں کے اٹل قوانین کو جاننے، ناجائز (prohibited) اور جائز (lawful) کے درمیان تمیز کرنے اور یہ محسوس کرنے کے لیے کہ ہم اپنے خیال کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بنانے میں آزاد نہیں ہیں، ہم کوئی دوسرا ذریعہ نہیں رکھتے۔ جب کہ جدید تمدن نے زندگی کے فطری حالات کو برباد کر دیا ہے، دوسرے تمام علوم کے مقابلے میں انسانی علم (science of man) کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔‘‘
Man, the Unknown, p. 39
اس علم کو حاصل کرنے کی کیا صورت ہو۔
’’ہر سال ہم سنتے رہتے ہیں کہ نسلیات، توالد و تناسل اور اعداد و شمار، اخلاق و عادات، فعلیات، تشریح حیاتیاتی کیمیا، طبعی کیمیا، نفسیات، طب، حفظان صحت، تعلیم، سماجیات، عمرانیات، اقتصادیات وغیرہ کے ماہرین نے اپنے اپنے فن میں قابل قدر ترقی کی ہے۔ لیکن عملاً ان کے نتائج حیرت انگیز طور پر بہت ہی غیر اہم ہوتے ہیں۔
اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ معلومات کا یہ وسیع ذخیرہ مختلف دماغوں اور مختلف کتابوں میں بکھرا ہوا ہے، کسی ایک شخص کو بھی ان پر عبور حاصل نہیں۔ ضرورت ہے کہ ان تمام علوم کو چند افراد کے دماغوں میں لے آیا جائے، اسی وقت ان منتشر علوم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘
مگر کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ایک شخص ان تمام علوم کو حاصل کر لے۔ کیا کوئی فرد تشریح، فعلیات، حیاتیاتی، کیمیا، نفسیات، مابعد الطبیعیات، علم الامراض اور طب پر عبور حاصل کر سکتا ہے اور اسی کے ساتھ دوسرے علوم سے گہرے طور پر واقف ہو سکتا ہے۔ ’’اس قسم کا کمال حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔‘‘ مصنف لکھتا ہے۔ ایک شخص تقریباً پچیس سال کے مسلسل مطالعہ کے بعد ان تمام علوم میں دستگاہ پیدا کر سکتا ہے۔ اس طرح کے ایک سو افراد پچاس سال کی عمر میں پہنچ کر انسان کی فطرت کے مطابق انسانی زندگی اور تمدن کی موثر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد انسان کی تعمیر کرنے کے لیے ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں فطری قوانین کے مطابق جسم اور دماغ کی تربیت دی جاتی ہو، ان اداروں میں انسان کے مختلف پہلوئوں کے علوم کو ملا کر ایک کلی علم کی شکل دینی ہوگی اور محققوں اور سائنٹفک کام کرنے والوں کی ایک متحدہ جماعت بنانی پڑے گی۔ ان اداروں کو ماہرین خصوصی کے سپرد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کی رہنمائی ایسے افراد کے ذمہ ہونی چاہیے جو تمام علوم پر عبور رکھتے ہوں۔ خصوصی ماہرین کو صرف ایک عمومی ماہر کا مددگار ہونا چاہیے۔ ایک ماہر اقتصادیات، ایک ماہر نفسیات، ایک کیمیا داں اور ایک سماجی عالم الگ الگ یکساں طور پر انسان کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اپنے دائرہ عمل سے آگے ان کی بصیرت پر کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت درجنوں بہترین ادارے قائم ہیں اور مختلف علوم پر قابل قدر کام کر رہے ہیں مگر پیش نظر مقصد کے لیے ان کی تحقیقات کافی نہیں ہیں۔ ریاضیات، طبیعیات اور کیمیا کے علاوہ ضروری تو ہیں مگر ان کو زندہ نظام جسمانی کی تحقیقات کے لیے بنیادی علوم کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے ایسے تصورات کی تخلیق نہیں ہو سکتی جو انسانوں کے ساتھ خاص ہیں۔ آئندہ کے حیاتیاتی کارکنوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا نصب العین محض مصنوعی اور تنہا نظاموں کا مطالعہ نہیں بلکہ ایک زندہ نظام جسمانی کا مطالعہ ہے اور یہ کہ فعلیات (physiology) کا وہ علم جس کو بیلس (Bayliss) نے دریافت کیا ہے، اصل علم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
ان مسائل کے مطالعہ کے لیے سائنس دانوں کو کئی نسلوں تک اپنی زندگی بھر کام کرتے رہنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے ہمارے پاس ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جہاں کم از کم ایک سو سال تک کسی رکاوٹ کے بغیر علم انسانی کا مطالعہ جاری رہے۔ موجودہ سوسائٹی میں تمام دماغی کام کرنے والوں کو ایک مرکز پر جمع ہو کر کام کرنا چاہیے تاکہ سب مل کر ایسا غیر فانی دماغ پیدا کریں جس کے اندر اپنے مستقبل کو سوچنے اور اس کو بنانے کی پوری طاقت موجود ہو۔ اس کے بعد ہی انسانی ترقی کے دائمی نظریات حاصل ہو سکتے ہیں۔ (صفحات۔ 76:264)
اوپر جو کچھ لکھا گیا یہ ڈاکٹر کیرل کے الفاظ میں ان لوگوں کے خیالات کا خلاصہ ہے جو خدائی مذہب کو چھوڑ کر اس کی جگہ ایک انسانی مذہب بنانا چاہتے ہیں۔ کیرل نے خود بھی اپنی اس ضخیم کتاب میں انسانی علم کا جائزہ لیا ہے اور اس کے معلوم اور نامعلوم گوشوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی تین سو صفحے کی کتاب کو ان الفاظ پر ختم کرتا ہے:
’’انسانیت کی تاریخ میں پہلی بار ایک بوسیدہ تمدن اپنے انحطاط کے اسباب معلوم کرنے کے قابل ہوا ہے۔ سائنس کی عظیم طاقت پہلی بار اس کے قبضہ میں آئی ہے۔ کیا ہم اس علم اور اس طاقت کو استعمال کریں گے۔ ماضی کے عظیم تمدنوں کے لیے جو انجام مقدر رہا ہے، اس سے ہمارے بچنے کی واحد امید یہی ہے۔ ہماری بدقسمتی، ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، اب ہم کو نئی شاہراہ پر آگے بڑھنا ہے۔‘‘ (صفحہ 298)
جائزہ
اس فکر کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر بنیادی خامیاں موجود ہیں۔
1۔ پہلی بات یہ کہ مادی علوم اور انسانی علوم میں بنیادی فرق ہے اور یہی فرق بتاتا ہے کہ انسان کبھی بھی اپنی ذات کو اس طرح نہیں سمجھ سکے گا جس طرح وہ مادہ کے ظاہری اوصاف کو سمجھ لیتا ہے۔ صورت حال یہ نہیں ہے کہ انسانی علوم پر کام نہیں ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی علوم پر تحقیق اور غور و فکر کی تاریخ مادی علوم سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ مگر اس کے باوجود اس شعبہ میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور مصنف کے الفاظ میں صورت حال یہ ہے کہ:
’’ایک مادہ پرست اور ایک روحانیت پسند دونوں سوڈیم کلورائڈ (نمک) کے ایک ٹکڑے کی تشریح پر متفق ہو جاتے ہیں۔ لیکن انسانی ہستی کے بارے میں ان کی رائے ایک دوسرے سے نہیں ملتی۔‘‘ (ص 17)
ابھی تک کسی بھی تحقیق نے یہ امکان پیدا نہیں کیا ہے کہ مستقبل میں یہ صورتحال باقی نہ رہے۔ پھر کس بنا پر امید کر لی جائے کہ مستقبل میں آدمی اپنی زندگی کے راز کو معلوم کر لے گا۔ مصنف نے ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو مادی دنیا سے متعلق معلومات کو انسانی ہستی پر چسپاں کرنا چاہتے ہیں، وہ لکھتا ہے:
’’حرکیات حرارت کا دوسرا قانون یعنی آزاد شدہ قوت کے پھیلائو کا اصول سالمات کی سطح پر کام آ سکتا ہے۔ مگر اس کو نفسیات میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہاں کم کوشش اور زیادہ آرام کا اصول منطبق ہوتا ہے۔ شعری جذب و دفع کی قوت اور نفوذی دبائو کے تصورات سے ان مسائل پر کوئی روشنی نہیں پڑتی جو شعور سے تعلق رکھتے ہیں۔ نفسیاتی مظاہر کو خلیوں کی فعلیات یا کوانٹم میکانکس کی اصطلاحات میں بیان کرنا محض الفاظ کے ساتھ کھیلنا ہے۔‘‘ (ص43)
مگر جب وہ کہتا ہے کہ مادی علوم کی طرح انسانی علوم بھی ہمارے لیے قابل دریافت ہیں، تو وہ دراصل انیسویں صدی کے میکانکی ماہرین فعلیات (mechanistic physiologists) کے نظریہ کو دوسری شکل میں دہرا دیتا ہے۔ کیونکہ انسان کے بارے میں جو حقیقی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں وہ صرف وہی ہیں جو وصفی (descriptive) نوعیت کی ہیں، جو انسان کے مادی پہلو سے متعلق ہیں، اس لیے جو لوگ مذہب کو الگ کرکے انسان کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کے تمام انسانی نظریے اسی مادی عنصر کو پورے انسان پر چسپاں کرکے بنائے جائیں گے اس طرح عملاً ان میں اور انیسویں صدی کے مادیین میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔
2۔ جیسا کہ صاحب کتاب نے اعتراف کیا ہے، مختلف علوم کے الگ الگ ماہرین کے اجتماع سے انسانی علم کی دریافت نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے ایک جامع شخص کا ہونا ضروری ہے:
’’اس طرح کی جامعیت مختلف شعبوں کے ماہرین خصوصی کی کانفرنس کرکے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس کو تو ایک جماعت کے بجائے ایک شخص ہی انجام دے سکتا ہے۔ کوئی عمدہ آرٹ کبھی آرٹسٹوں کی کمیٹی کے ذریعہ وجود میں نہیں آیا ہے۔ نہ مختلف محققوں نے اجتماعی کوشش سے کوئی زبردست انکشاف کیا ہے۔ علوم کا اجتماع جو انسانی واقفیت کو ترقی دینے کے لیے درکار ہے، وہ ایک ہی دماغ میں ہونا چاہیے۔ ‘‘ (ص 55)
مگر اس قسم کے کسی جامع العلوم شخص کا پایا جانا اب تک کی صورت حال کے مطابق بالکل ناممکن ہے۔ کیونکہ انسان محدود عمر اور بڑھاپے کے لازمی قانون کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ابھی تک کسی درجہ میں بھی کوئی ایسا طریقہ دریافت نہ ہو سکا جس سے بڑھاپے کو روکا جا سکے یا موت کو ٹالا جا سکے۔ اس طرح ایک شخص کو کام کرنے کی جو عمر ملتی ہے وہ کسی ایک شعبہ کی کامل مہارت کے لیے ناکافی ہے۔ کجا کہ اسی محدود عمر میں سارے علوم کی مہارت حاصل کی جا سکے۔
مصنف نے پچیس سال کے مطالعہ کو سارے علوم میں دستگاہ پیدا کرنے کے لیے کافی قرار دیا ہے، یہ ایک حیرت انگیز جسارت ہے۔ مارکس صرف اقتصادیات کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا، اور اس میں اس نے اپنی بہترین عمر کے 35 سال لگا دیئے، مگر اس کے باوجود اس کا مطالعہ مکمل نہیں ہوا۔ اس طویل مطالعہ کے باوجود وہ اپنی مجوزہ کتاب (سرمایہ) کی صرف ایک جلد لکھ سکا۔ پھر کس بنیاد پر یقین کر لیا گیا ہے کہ سارے علوم کی مہارت کے لیے 25 سال کا مطالعہ کافی ہو جائے گا۔
پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ انسان کی حقیقت اتنی پیچیدہ ہے اور وہ ایک مفکر کے الفاظ میں ایسا مجموعہ اضداد (mixture of opposites) ہے کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ہم یہی قیاس کر سکتے ہیں کہ اس کے بارے میں کوئی غیر مشکوک اور ہم آہنگ رائے قائم کرنا کسی انسان کے لیے محال ہے۔ کمتر واقفیت کی صورت میں تو بیشک ایک شخص کے اندر وہ یقین پیدا ہو سکتا ہے جس کو مصنف نے دھندلا اعتماد (illusive confidence) کہا ہے۔ (ص 231) مگر معلومات میں اضافہ ہوتے ہی اتنے متضاد اور مختلف النوع سوالات سامنے آ جاتے ہیں کہ ان کے درمیان توافق قائم کرنا اور سب کو ملا کر کسی ایک حتمی رائے پر پہنچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف شعبوں کے خصوصی علماء کی رائے اکثر ایک ہی چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں مثلاً واٹسن (Watson) اور نظریہ کردار کے دوسرے قائلین (behaviorists) کا یہ دعویٰ ہے کہ موروثی صفات کوئی چیز نہیں ہیں۔ انسان کو تعلیم اور ماحول کے ذریعے کسی بھی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس نظریے توالد و تناسل کے قائلین (geneticists) کا مطالعہ انہیں یہ بتاتا ہے کہ موروثیت ہی ایک انسان کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے اور قوموں کی نجات تعلیم و تربیت میں نہیں بلکہ عمدہ انسانی نسل پیدا کرنے میں ہے۔ ایسی حالت میں یہ قیاس کرنا بہت غیرحقیقی مفروضہ ہوگا کہ کوئی یا چند انسان ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو علم انسانی کے بیشمار شعبوں کا خصوصی مطالعہ کریں اور اس کے باوجود ان کے ذہن میں وہ اختلافات رونما نہ ہوں جو الگ الگ خصوصی مطالعہ کرنے کی صورت میں، مختلف اشخاص کے درمیاں پیدا ہوتے ہیں۔
3۔ مصنف نے اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے کہ انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے اور یہ چیز اس کو تمام مادی اشیاء سے الگ کر دیتی ہے۔ کسی مادی چیز کے مطالعہ سے اگر ہمیں ایک بات معلوم ہو تو ہم اس کو صداقت سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ یقین ہے کہ اسی نوعیت کے تمام مادے انہیں حالات میں ہوں تو وہ ٹھیک اسی واقعہ کو دہرائیں گے۔ مگر انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ انسان ذی ارادہ ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہے کہ ہر آن اپنے آپ کو بدل دے۔ مصنف کے الفاظ میں:
’’جامد مادے کے علم اور زندگی کے علم میں ایک عجیب فرق ہے۔ ہیئت، میکانکس اور طبیعیات کی بنیاد ایسے تصورات پر ہے جن کو نہایت اختصار اور خوش اسلوبی کے ساتھ ریاضیاتی زبان (mathematical language) میں بیان کیا جا سکتا ہے… حیاتیاتی علوم کی یہ صورت نہیں ہے جو لوگ زندگی کے مظاہر کی تحقیق کرتے ہیں وہ گویا ایک ایسے طلسمی جنگل میں داخل ہوتے ہیں جہاں رنگ برنگ کے بیشمار درخت مسلسل طور پر اپنی جگہ اور اپنی شکل بدلتے رہتے ہیں اور جہاں سے نکلنا بہت ہی دشوار ہوتا ہے، حقیقتوں کی کثرت کی وجہ سے ان کی عقل کچھ کام نہیں کرتی۔ ان کو وہ کچھ بیان تو کر سکتے ہیں مگر جبر و مقابلہ کی مساواتوں میں ان کی تعبیر نہیں کر سکتے۔‘‘ (ص 15)
یہی وجہ ہے کہ انسانی علم کی کوئی ایسی تشریح حاصل کرنا جو سب پر اپلائی ہو، ناممکن ہے۔ دراصل انسانیت کے سارے مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کے ارادے پر قابو پایا جائے۔ تاکہ وہ اپنے ارادہ سے وہی کرنے لگے جو ہم چاہتے ہیں۔ پار ہائوس میں ایک بٹن دبانے سے شہر کے سارے قمقمے روشن ہو سکتے ہیں مگر انسان کے لیے کوئی ایسا قانون ناممکن ہے جو سب پر یکساں طور پر نافذ ہو جائے۔ انسان خود ہی اپنے آپ کو اپنے ارادہ سے بدلتا ہے، کوئی خارجی عمل اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔
4۔ یہ نقطہ نظر یہ فرض کرتا ہے کہ بداخلاقی، بددیانتی اور جرائم ایک قسم کی دماعی اور عصبی ’’بیماری‘‘ ہے اور اس کا علاج شفاخانوں میں اسی طرح ہو سکتا ہے جیسے پھوڑے، پھنسی اور زکام و بخار کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ مصنف لکھتا ہے:
’’دماغی سرگرمی کی طرح اخلاقی حس بھی بظاہر جسم کی ساخت اور اس کے افعال کی حالت پر منحصر ہے۔ یہ حالات ہماری نسیجوں اور ہمارے دماغ کی طبعی ساخت کا نتیجہ ہوتے ہیں نیز یہ ان عوامل کی وجہ سے بھی پیدا ہوتے ہیں جو نشو و نما کے زمانہ میں ہماری اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔ شوپنہار نے اپنے مضمون ’’اخلاقیات کی بنیاد‘‘ میں جس کو اس نے کوپن ہیگن کی رائل سوسائٹی آف سائنس میں پیش کیا تھا، یہ رائے ظاہر کی تھی کہ اخلاقی اصول ہمارے فطرت کے اندر اپنی اساس رکھتے ہیں، دوسرے الفاظ میں انسانوں کی خود غرضی، کمینگی اور رحم کے جذبات پیدائشی ہوتے ہیں۔‘‘ (ص127)
یہ بنیاد بھی بالکل لغو ہے کیونکہ جرائم کی تحریک کے اگرچہ کچھ اور اسباب بھی ہوتے ہیں مگر یقینی طور پر وہ اسباب اضافی ہیں اور اصل سبب انسان کا اپنا فیصلہ ہے۔ فیصلہ پر کنٹرول حاصل کیے بغیر کسی طرح مجرمانہ ذہنیت ختم نہیں کی جا سکتی۔ یہ قطعاً ناممکن ہے کہ اخلاقی مجرمین کا علاج اسی طرح ہسپتالوں میں ہونے لگے جس طرح جسمانی مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جرم ایک ارادی واقعہ ہے اور بیماری ایک مادی واقعہ۔ ہمارے سرجن مادہ کی چیر پھاڑ کر سکتے ہیں، وہ انسانی ارادہ کا آپریشن نہیں کر سکتے۔ اس لیے وہ انسانی ارادہ پر قابو بھی نہیں پا سکتے۔
5۔ زندگی کے موضوع کی پیچیدگی کی وجہ سے مصنف خود تسلیم کرتا ہے کہ اس کا علم ہمیشہ انسان کی دسترس سے باہر رہے گا۔ مگر اس کے باوجود کسی واقعی علمی بنیاد کے بغیر یہ امید موہوم قائم کر لیتا ہے کہ انسان اسے حاصل کر سکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’طبیعیات، ہیئت، کیمیا اور میکانکس کے شاندار عروج کے مقابلہ میں علم انسانی کی سست رفتاری ہمارے آباء و اجداد کی کم فرصتی، موضوع کی پیچیدگی اور ہمارے دماغ کی خاص بناوٹ کا نتیجہ ہے۔ یہ رکاوٹیں بنیادی ہیں۔ ان کے ختم ہونے کی کوئی امید نہیں:
There is no hope of eliminating them
جان توڑ کوشش کے بعد ہی ان پر قابو حاصل کیا جا سکتا ہے، ہمارے ذات کا علم، طبیعیات کی خوشنما سادگی، تجرید اور خوبصورتی حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ اسباب جو اس کی ترقی میں حارج ہوتے رہے شاید دور نہیں کیے جا سکتے۔ ہم کو صاف طور پر ماننا چاہیے کہ انسان کا علم تمام علوم میں سب سے زیادہ مشکل ہے۔‘‘ (ص23)
انسانی علم کی یہ نزاکت تمام مفکرین تسلیم کرتے ہیں۔ جولین ہکسلے لکھتا ہے:
’’یہ ناگزیر ہے کہ خدا کے تصور کا خاتمہ مذہب کے خاتمہ کے ہم معنی نہیں ہے۔ خدا کا خاتمہ محض محدود الٰہیاتی عمل کے مفہوم میں ہے۔ اگرچہ الٰہیاتی ذہن ختم ہو رہا ہے مگر وہ مذہبی احساسات جنہوں نے خدا کو وجود دیا تھا وہ اب بھی باقی ہیں۔ خدا کا خاتمہ مذہب کی ایک نئی تشکیل کے ہم معنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب انسان خود اپنے کندھوں پر اس بوجھ کو اٹھائے گا جس کو اس نے پہلے خدا کے کندھوں پر ڈال دیا تھا۔ اس ذمہ داری کا سب سے پہلا مطلب ایک پراسرار کائنات اور اپنی ناواقفیت کا مقابلہ کرنا ہے۔ پچھلے زمانوں میں یہ بوجھ ایک فہم و ادراک سے باہر خدائی کے اوپر ڈال دیا گیا تھا۔ اب ہم اس کو خود اپنی ناواقفیت (Ignorance) کے خانہ میں ڈالتے ہیں اور اس امکان کا مقابلہ کرتے ہیں کہ آخری حقائق سے بے خبری ہماری فطرت کی محدودیتوں کی وجہ سے ہمیشہ برقرار رہے گی۔‘‘
Man in the Modern World, p. 133
یہ تضاد بھی حیرت انگیز ہے کہ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ انسانی علم انسان کے لیے ناقابل دریافت ہے، ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ہم انسان کی زندگی کے مسائل کو حل کر لیں گے، ایسے مسائل جن کا حل اسی وقت ممکن ہے جب کہ انسانی علم پر عبور حاصل ہو جائے۔ کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ایسا موڑ جو خدا کی رہنمائی کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہیں سے آدمی الٹی سمت میں مڑ جاتا ہے۔
مذہب کی ملحدانہ تشریح
دور جدید کے مفکرین کسی ایسے ذریعہ علم کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو مخصوص شخص کو وہبی طور پر حاصل ہو اور عام تجربہ میں اس کا آنا ممکن نہ ہو سکے۔ ان کے نزدیک جو بات عام لوگوں کے ادراک سے باہر ہو اس کا عام لوگوں سے مطالبہ کرنا نہ صرف غیر منطقی بات ہے بلکہ یہی اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ وہ غیر حقیقی ہے۔ کیونکہ اگر وہ حقیقی ہوتی تو دوسرے انسانوں کے لئے بھی اس کا حصول ممکن ہوتا۔ اب چونکہ مذہب اور مذہبی معتقدین ساری تاریخ میں بطور واقعہ موجود رہے ہیں اور آگسٹ کامٹے (1857ء۔1798ء) کی پیشین گوئی کے علی الرغم اب تک موجود ہیں، اس لیے مذہب کی صداقت تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی وہ اس کی تشریح کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی تشریح کے لیے قدرتی طور پر ان کا ذہن ایسے مماثل واقعات کی طرف جاتا ہے جو عام انسانوں کے لیے قابل فہم ہوں اور ’شاعری‘ کی شکل میں بہت جلد انہیں اس کا جواب مل جاتا ہے۔ وہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ دوسرے ذہنی اعمال کی طرف مذہب بھی محض ایک ذہنی عمل (mental activity) ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
ٹائن بی کے الفاظ میں حقیقت کے ادراک کے دو طریقے ہیں۔ ایک سائنسی طریقہ جس کا انحصار مشاہدہ اور تجربہ پر ہے۔ اور دوسرا شاعرانہ طریقہ جو اندر سے ابلتا ہے۔ پہلے طریقہ سے جو چیز دریافت ہو، وہ سائنسی حقیقت (scientific truth) ہے۔ اور دوسرے طریقہ سے جو چیز ملے وہ شاعرانہ حقیقت (poetic truth) ہے۔ وہ لکھتا ہےکہ لاشعور کی شاعرانہ سطح پر قابل فہم مشاہدہ کا نام پیغمبری ہے:
On the poetic level of the subconscious psyche, the comprehensive vision is prophecy.
An Historian's Approach to Religion, p. 123
علوم اجتماعی کی انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار کے الفاظ میں مذہب (religion) کی مثال آرٹ سے دی جا سکتی ہے، جس طرح بعض لوگ دوسروں کے مقابلہ میں آرٹ کا خصوصی ذوق رکھتے ہیں۔ اور اس میدان میں غیر معمولی مظاہرے کرتے ہیں، اسی طرح بعض لوگوں میں اندرونی بصارت و سماعت (inner eyes andears)سے دیکھنے اور سننے کی منفرد خصوصیات ہوتی ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جس نے مذہب کے تجربات سے انسان کو آشنا کیا ہے۔
Encyclopedia of the Social Sciences, 1957, vol. 13, p. 230
ٹی آر مائلز (T. R. Miles) لکھتا ہے:
’’مذہب کی مابعد الطبیعی حقیقتیں اگر مذہب کے اپنے لفظی معنی میں لی جائیں تو وہ بے معنی ہیں۔ البتہ مجازی زبان (language of parable)کی حیثیت دی جائے تو وہ بامعنی ہو سکتی ہیں۔ جیسے کوئی شخص ایک نئی دریافت کرتا ہے تو ہم کہہ اٹھتے ہیں:
It was an Absolut revelation.
یہ تو بالکل الہام تھا۔ اس طرح شاعر پر الہام ہوتا ہے۔ اور اسی طرح پیغمبر پر الہام ہوتا ہے۔
Religion & the Scientific Outlook, p. 195-6
مائلز کے نزدیک وحی کو اگر اس معنی میں لیا جائے کہ وہ خدا کے اپنے الفاظ ہیں، جو فرشتے کے ذریعہ کسی خاص انسان پر اترتے ہیں تو یہ ایک بے معنی بات ہوگی۔ البتہ اگر اس کو بصیرت کی روشنی (flash of insight) کہیں تو وہ سمجھ میں آتا ہے۔ کیونکہ اس طرح ایک فنکار یا ایک مفکر کے اندر یکایک کسی خیال کا آ جاتا ایک معلوم بات ہے (صفحہ 196) ۔اسی طرح مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پانا بالکل لفظی معنوں میں سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ تمثیلی زبان تسلیم کر لی جائے تو ہم اسے سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ جسم کے متعلق ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد منتشر ہو جاتا ہے۔ اور روح بھی اسی کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے دوبارہ زندگی کا تصور لفظی معنوں میں ناقابل فہم ہے۔ (صفحہ 204)
الکسس کیرل الہام کو صوفیانہ معرفت (mysticism)قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک خدا کی تلاش مکمل طور پر ایک ذاتی مہم (personal undertaking)ہے۔ جس طرح ایک شخص جسمانی ورزش کرکے پہلوان بنتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص ترک دنیا اور تپسیا کے ذریعہ روحانیت کے سایہ میں پہنچنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’اپنے شعور کی مشق کرکے آدمی ایک ایسی ناقابل مشاہدہ حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے جو ایک خلقی (immanent) حقیقت بھی ہے اور مادی دنیا سے بالاتر بھی۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو ایسے بڑے جوکھم میں ڈالتا ہے جس کی کوئی شخص جرأت کر سکتا ہے۔ وہ کسی کو ہیرو نظر آ سکتا ہے اور کسی کو دیوانہ، مگر کوئی شخص یہ سوال نہیں کر سکتا کہ عارفانہ تجربہ صحیح ہے یا غلط۔ یہ کوئی خود ساختہ چیز ہے یا وہم ہے یا روح کا ہماری دنیا کے ابعاد (dimension) سے پرے کوئی سفر ہے جہاں وہ اعلیٰ حقیقت سے جا کر مل جاتی ہے۔ مغرفت آدمی کی اعلیٰ ترین آرزوئوں کو تسکین دیتی ہے، اندرونی قوت، روحانی روشنی، خدائی محبت، بے حد سکون، مذہبی وجدان اتنا ہی حقیقی ہے جتنا جمالیاتی احساس:
Religious intuition is as real as aesthetic inspiration.
مافوق البشری حسن کے تصور کے ذریعہ عارف اور شاعر آخری صداقت (ultimate truth) تک پہنچتے ہیں۔‘‘
Through the contemplation of superhuman beauty mystics and poets may reach the ultimate truth.
Man, the Unknown, p. 132
تبصرہ
اوپر کی سطروں میں مذہب کی جو جدید تشریح نقل کی گئی ہے اس کے بارے میں، میں الکسس کیرل کے وہ الفاظ دہرائوں گا، جو اس نے خود اپنے بارے میں لکھے ہیں:
’’مصنف کو تسلیم ہے کہ مذہب سے متعلق ذہنی اعمال کی تشریح جو اس نے کی ہے وہ نہ سائنس دانوں کو پسند آئے گی اور نہ مذہبی لوگوں کو۔ سائنس دان اس قسم کی کوشش کو طفلانہ یا بے معنی کوشش سمجھیں گے اور مذہبی علماء اس کو غلط اور فضول قرار دیں گے۔‘‘ (ایضاً صفحہ 132)
مذہب کی مندرجہ بالا تشریح میں اگرچہ مذہب کے الفاظ موجود ہیں مگر حقیقاً اس میں اور خالص الحاد میں کوئی فرق نہیں ہے۔
1۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس تشریح کے مطابق مذہب ایک غیر حقیقی چیز قرار پاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور آخرت اور الہام فی الواقع اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے، بلکہ وہ ہماری قوت تخیل کے کرشمے ہیں۔ مگر مذہب نے جس شدت کے ساتھ ذہنوں میں جگہ بنائی ہے اس کے لحاظ سے یہ بات بالکل ناقابل قیاس ہے کہ وہ محض ایک تخیلاتی چیز ہو۔ دور حاضر کا مشہور مورخ ٹائن بی لکھتا ہے:
’’اگر ہم مذاہب کے ایک سروے پر نکلیں جو مختلف مقامات پر مختلف زبانوں میں بے شمار انسانی سماج اور گروہوں میں رائج رہے ہیں، جن کے متعلق ہم کچھ معلومات رکھتے ہیں تو ہمارا پہلا تاثر یہ ہوگا کہ مذہب کی شکلوں میں حیران کن حد تک تعدد پایا جاتا ہے۔ تاہم غور و فکر اور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ دراصل تین بنیادی اقسام کی مختلف صورتیں ہیں۔ یعنی فطرت، انسان خود اور حقیقت مطلق (Absolute Reality)جو کہ نہ فطرت ہے، نہ خود انسان ہے بلکہ وہ ان کے اندر ہوتے ہوئے ان سے باہر ہے۔‘‘
An Historian's Approach to Religion, p. 16
گویا تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ترین زمانے سے لے کر اب تک انسان ایک حقیقت اعلیٰ کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بالکل فرضی چیز اس طرح انسانی تاریخ پر چھا جائے۔ کیا دوسری کسی ایسی چیز کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو غیر حقیقی ہونے کے باوجود اس طرح انسان کی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہو۔
2۔ اس تشریح میں فطری طور پر مذہب کسی ایک چیز کا نام نہیں رہتا بلکہ وہ ہزار چیز بن جاتا ہے۔ کیوں کہ جب مذہب آدمی کا اپنا ذہنی عمل ہے تو وہ ہر شخص کی اپنی استعداد، اپنے مزاج اور اپنی یافت کے لحاظ سے الگ الگ ہوگا۔ حالانکہ مذہب کا حکم الٰہی ہونا یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک متعین شکل میں ہوتا کہ اس کی بنیاد پر ہر شخص کے رویے کے صحیح اور غلط ہونے کا تعین کیا جا سکے۔ اس طرح تصور مذہب کے فرق کی وجہ سے حقیقت مذہب میں بنیادی فرق ہو جاتا ہے۔ یہاں میں ٹائن بی کا ایک اقتباس نقل کروں گا:
’’مختلف لوگوں کے عقائد بہرحال مختلف ہوں گے کیوں کہ حقیقت مطلق (Absolute Reality) ایک راز ہے جس کی صرف ایک جزوی جھلک انسانی ذہن نے دیکھی ہے۔ اتنی بڑی حقیقت صرف ایک راستہ پر چل کر معلوم نہیں ہو سکتی۔ میرا عقیدہ کتنا ہی مضبوط اور پختہ کیوں نہ ہو کہ میرا ادراک صحیح ہے۔ مجھے اس سے باخبر رہنا چاہیے کہ میری روحانی نظر محدود ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ دوسرا کوئی مشاہدہ نہیں ہو سکتا۔ مذہبی اصطلاح میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مجھے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں کو خدا کا الہام نہیں ہوا۔ اور اسی طرح یہ بھی امکان ہے کہ دوسروں کا الہام اس سے زیادہ مکمل اور ترقی یافتہ ہو جو مجھ کو ہوا ہے۔ میں اور میرا ساتھی دونوں مختلف راستوں سے ایک ہی منزل کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ تمام انسان مخفی حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی حقیقت مطلق کی مناسبت سے تعمیر کر سکیں یا مذہبی اصطلاح کے مطابق خدا کی مرضی پر چل سکیں۔ یہ تمام لوگ ایک ہی قسم کی تلاش میں مصروف ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ سب روحانی بھائی ہیں۔ اور رواداری اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک وہ محبت میں تبدیل نہ ہو جائے۔‘‘
An Historian's Approach to Religion, p. 251
اس طرح جماعتی سطح پر خدا کے بہت سے تصورات بن جاتے ہیں، چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن انیڈ ایتھکس کے مولفین نے سماجی سطح پر خدا کے 22 تصورات دریافت کیے ہیں، اور 22 الگ الگ عنوانات کے تحت ان کی تشریح کی ہے۔ (ملاحظہ ہو جلد 5 عنوان : خدا (God)
3۔ اسی طرح اس تشریح کے خانہ میں نبوت اور ختم نبوت سب بے معنی الفاظ ہو جاتے ہیں۔ ٹائن بی اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتا ہے:
’’مورخ کا نقطہ نظر اس سے متصادم نہیں ہے کہ خدا نے انسان کے اوپر الہام کیا تاکہ روحانی نجات کے لیے انسان کی مدد کرے۔ جو کہ بلا واسطہ کوشش سے انسان کے لیے ممکن نہ ہوتا۔ مگر مورخ اس ابتدائی مقدمہ کو یہاں تک پہنچانے میں مشتبہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جائے کہ خدا کی طرف سے ایک مخصوص اور آخری الہام ہوا ہے جو اس کہکشانی نظام میں سورج کے ایک کرہ پر ایک متعین وقت میں ایک خاص گروہ کو عطا ہوا ہے۔ ’’خدا اپنی مخلوق پر الہام کرتا ہے‘‘ کے مقدمہ کے اس ذاتی (self-centered)انطباق میں مورخ شیطانی شرارتوں کی جھلک دیکھتا ہے۔ کیوں کہ الہام اور مخصوص الہام میں منطقی طور پر کوئی لازمی رشتہ نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ ’’میں‘‘ ہی وہ شخص ہوں جس پر تمام لوگوں کے درمیان خدا کا الہام ہوا ہے اور میرا الہام مخصوص اور آخری ہے۔‘‘ (صفحہ 132)
میں کہوں گا کہ اس غلطی کی بنیاد خود اس تصور الہام میں ہے جو مورخ مان رہا ہے، ورنہ اسے معلوم ہوتا ہے فی الواقع الہام اور مخصوص الہام میں اتنا قریبی اور منطقی رشتہ ہے کہ دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جدید مفکرین کا تصور الہام یہ ہے کہ وہ اسی قسم کی ایک چیز ہے جیسے کسی آرٹسٹ کے ذہن میں کسی عمدہ تصویر کا خیال آ جائے، یا شاعر کو کوئی عمدہ شعر سوجھ جائے۔ خدا ان کے نزدیک کوئی شعوری وجود نہیں جو بالا رادہ ایک خاص مقصد کے تحت کسی کو اپنی مرضی کے اظہار کے لیے چنتا ہو۔ بلکہ وہ کسی قسم کی مجہول خارجی حقیقت ہے جو ہماری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کی پرچھائیاں ہم پر پڑتی ہیں، اور بعض لوگوں کے نزدیک یہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف ہمارا تحتِ شعور ہے، جو وحی و الہام کی صورت میں بولتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مذہبی نقطہ نظر سے صورت حال اس سے قطعی مختلف ہے۔ اس لیے مذہب کا تصور الہام جدید مفکرین کی سمجھ میں کیسے آ سکتا ہے۔
4۔ اس جدید تشریح میں مذہب صرف ایک دنیوی ضرورت بن کر رہ جاتا ہے، جب کہ مذہب در اصل ایک اخروی ضرورت ہے۔ یعنی خالص مذہبی نقطہ نظر سے مذہب کا اصل کام انسان کو دوسری زندگی کی نجات کا راستہ بتانا ہے۔ مگر اس تشریح میں مذہب کا مقصد صرف یہ ہو جاتا ہے کہ دنیا میں سماجی تنظیم کے لیے ایک موزوں بنیاد فراہم کرے۔ وہ ایک مفروضہ عقیدہ ہے نہ کہ کوئی واقعی حقیقت:
Indeed, a dogma is only workable thought arrangement on which could be built a unity of purpose and practice among the believers of a particular religion.
Hindustan Times, Oct. 1961
یعنی مذہبی عقیدہ صرف ایک قابل عمل تنظیم فکر ہے جس کی بنیاد پر ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے درمیان مقصد اور جدوجہد کا اشتراک قائم رکھا جا سکتا ہے۔
5۔ اس جدید تصور کے پیدا ہونے میں کسی قدر دخل مروجہ یہودیت کا بھی ہے، جس کا تعلق حضرت موسیٰ کی تعلیمات سے نہیں، بلکہ وہ ان کے بگڑے ہوئے پیروئوں کا اپنا عقیدہ ہے۔ ٹائن بی لکھتا ہے:
’’درحقیقت یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ خدا جس کا ذہن اور جس کا ارادہ پوری کائنات کے نظام پر حکومت کرتا ہے وہ اس قسم کی وہمی حرکت کرے گا۔ یہ نہایت بعید از قیاس بات ہے کہ وہ تمام لوگوں میں سے ’’مجھ‘‘ کو اور میرے گروہ کو چن لے اور مجھ کو اپنا پیغمبر اور میرے قبیلہ کو اپنا محبوب گروہ (chosen people)قرار دے۔ اس قسم کا کوئی بھی تصور حقیقت سے زیادہ ایک فریب ہے، جو آدمی نے خود ہی اپنے ذہن میں پیدا کر لیا ہے۔‘‘
An Historian's Approach to Religion, P.135
جہاں تک ’’محبوب گروہ‘‘ کا تعلق ہے اگر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ کوئی گروہ محض ایک خاص نسل یا ایک خاص شخص سے منسوب ہونے کی وجہ سے محبوب ہے تو یہ ایک لغو بات ہے۔ اور غالباً یہود کے عقیدہ کی بنا پر یہی مورخ کے ذہن میں ہے مگر یہ اصل مذہبی تصور کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا کے الہام کی جو لوگ پیروی کریں گے وہ خدا کی نظر میں محبوب لوگ قرار پائیں گے، اس سے قطع نظر کہ وہ نسلی اعتبار سے کس خاندان میں پیدا ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی اس تشریح کا مطلب مذہب کے نقطہ نظر سے اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مذہب کو مانتے ہوئے مذہب کا انکار کر دیا جائے۔ ایک ایسا مذہب جس پر عذاب و ثواب مترتب نہ ہوتا ہو، جو بس ایک قسم کی شخصی مہم ہو، اور دوسرے انسانوں سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، جو کسی زندہ اور باشعور خدا کی طرف سے نہ ہو۔ بلکہ خود انسان کے اپنے ذہن اور نفسیات کا کرشمہ ہو۔ ایسا مذہب لا الٰہ الا الانسان کے کلمہ کے تحت بن سکتا ہے لا الہٰ الا اللہ کے کلمہ کے تحت نہیں بن سکتا۔ ایسے کسی فکر کو ’’مذہب‘‘ کہنا اگر مصلحت اندیشی کی بناء پر ہے تو وہ سادہ لوحی ہے اور اگر علمی مغالطہ ہے تو فریب۔
ببلیو گریفی
1. Encyclopedia Britannica (1958)
2. Bertrand Russell, My Philosophical Development
3. Bertrand Russell, Human Knowledge
4. Bertrand Russell, Our Knowledge of the External World
5. Bertrand Russell, The Problem of Philosophy
6. Bertrand Russell, Why I am not a Christian
7. T. R. Miles, Religion and The Scientific Outlook
8. T. R. Miles, Science of Life
9. T. R. Miles, Philosophers of Science
10. G. G. Simpson, Meaning of Evolution
11. A. E. Mander, Clearer Thinking
12. R. S. Lull, Organic Evolution
13. Haldane & Huxley, Animal Biology
14. Arnold Lunn, Revolt Against Reason
15. Chamber’s Encyclopedia (1874)
16. Kerala Christian Mission, Nature and Science Speak About God
17. J. Huxley, Religion Without Revelation
18. Jhon Wilson, Philosophy and Religion
19. J. N. Sullivan, The Limitations of Science
20. Arthur Stanley Eddington, The Domain of Physical Science
21. Mortan White, The Age of Analysis
22. Sir James Jeans, The Mysterious Universe
23. A. N. Glides, Faith for Modern Man
24. Alexis Carrel, Man the Unknown
25. C. M. Joad, Modern Wickedness
26. The Hindustan Times, New Delhi, India
27. Science and Christian Belief
28. Julian Huxley, Man in the Modern World
29. Sigmund Freud, New Introductory Lectures on Psychoanalysis
30. Human Personality and its Survival of Bodily Death
31. Religion, Philosophy, and Psychical Research
32. Arnold Toynbee, An Historian’s Approach to Religion
33. Encyclopedia of Social Sciences (1957)
.34 علامہ شبلی نعمانی، الغزالی