مذہب اور جدید چیلنج (Mazhab aur Jadeed Challenge)

By
Maulana Wahiduddin Khan

زير ِ نظر كتاب كا ترجمه دنيا كي اكثر بڑي زبانوں ميں شائع هوچكا هے۔ اسلامي دنيا كي اكثر يونيورسٹيوں ميں وه مطالعه كے نصاب ميں داخل هے۔ سيكڑوں كي تعداد ميں اخبارات ورسائل نے اپنے تبصروں ميں اس كي عظمت كا اعتراف كيا هے۔ مسلم دنيا كے مشهور ترين عربي اخبار الاهرام(قاهره) نے اپنے 2 جولائي 1973 كے شماره ميں اس پر جومفصل تبصره كيا تھا، اس كا آخري پيرا گراف يه تھا

’’مصنف ِ كتاب نےاسلام كے مطالعه كا ايسا علمي انداز اختيار كيا هے جو بالكل انوكھاهے۔ جديد مادي فكر كے مقابله ميں دين كو وه اسي طرز استدلال سے ثابت كرتے هيں جس سےمنكرين اپنے نظريات كو ثابت كرتےهيں۔ اسلام كے ظهور سے لے كر اب تك چوده سو سالوں ميں اسلام پر بے شمار كتابيں لكھي گئي هيں۔ اگر تاريخ كو چھانا جائےاور الله كي طرف بلانے والي عمده كتابوں كو چھلني سے چھان كر نكالا جائے تو يه كتاب بلا شبه ان ميں سے ايك هوگي۔‘‘

مولانا وحیدالدین خاں (2021-1925ء) ایک اسلامی اسکالر اور حامی امن مفکر تھے ۔ انھوں نے اسلام کے حکیمانہ پہلو، مذہبی عدم تشدد، سماجی رواداری ، ماڈرن ایج کے ساتھ اسلام کی مطابقت، اور دوسرے عصری مسائل کا حل پیش کیا ہے۔ مولانا نے عصری اسلوب میں 200 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔ ان کا انگریزی ترجمہ قرآن اپنی آسان اور قابل فہم زبان کی وجہ سے ساری دنیا میں مقبول ہے ۔ انھوں نے 2001 میں سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے نئی دہلی میں ایک ادارہ قائم کیا ، تا کہ اس کے ذریعہ امن کلچر اور اسلام کی روحانی تعلیم کو ساری دنیا میں فروغ دیا جائے۔

مذہب اور جدید چیلنج

 

مولانا وحید الدین خاں

 

فہرست

عرضِ ناشر

تمہید

مخالفین مذہب کا مقدمہ

تبصرہ   

استدلال کا طریقہ  

کائنات خدا کی گواہی دیتی ہے

دلیل آخرت

تقاضا

تجرباتی شہادت

اثباتِ رسالت

قرآن— خدا کی آواز

فلكيات

ارضیات

غذائیات

مذہب اور تمدنی مسائل

معاشرت

تعدد ازواج

تمدن

معیشت

جس زندگی کی ہمیں تلاش ہے

آخری بات

 

عرضِ ناشر

فروری 1955ء کا واقعہ ہے ۔ لکھنؤ کے امین الدولہ پارک میں جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام ایک عمومی اجتماع ہوا۔ اس موقع پر اسلام کے عقلی اثبات پر مصنف کی ایک تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد جب اعلان کیا گیا کہ وہ چھپی ہوئی صورت میں یہاں بُک اسٹال پر موجود ہے تو انسانوں کا ہجوم اس کو لینے کے لیے اسٹال پر ٹوٹ پڑا۔ تقریر کے مطبوعہ نسخے ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوگئے۔ بعد کو یہ تقریر پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی۔ اردو میں اس کا نام تھا ’’ نئے عہد کے دروازہ پر ‘‘ ہند ی میں ’’ نویگ کے پردیش دوار پر ‘‘ اور انگریزی میں :

On the Threshold of a New Era

 یہ پہلا موقع تھا جب کہ مصنف کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جدید الحاد کے جواب میں عصری انداز میں ایک کتاب تیار کرنی چاہیے ۔ اس کے لیے مطالعہ اور مواد جمع کرنے کا کام اسی وقت سے شروع ہوگیا۔ اس کے بعض اجزاء متفرق طورپر بعض ماہناموں میں شائع ہوتے رہے ۔ جمع شدہ مواد کی باقاعدہ کتابی ترتیب کا کام 1963میں شروع ہوا اور اگست 1964میں مکمل ہوگیا۔

یہ کتاب پہلی بار 1966میں ادارہ تحقیقات و نشریات ِ اسلام ( لکھنؤ) سے’’علم جدید کا چیلنج ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ پہلی بار 1970میں کویت کے ناشر ’’ دار البحوث العلمیہ ‘‘ نے الاسلام یتحدیٰ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے بعد وہ بیروت اور قاہرہ سے چھپتی رہی۔ اب تک اس کے ایک درجن ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ دوسری کئی عالمی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے چھپ چکے ہیں۔ ’’ الاسلام یتحدیٰ ‘‘ نصف درجن عرب یونیورسٹیوں میں داخِل نصاب ہے۔

کتاب کی اشاعت کے بعد سیکڑوں تبصرے مختلف عالمی جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک تبصرہ جزئی طورپر ٹائٹل کے آخری صفحہ پر نقل کیا جارہا ہے۔ یہ تبصرہ معروف مصری ادیب احمد بہجت کے قلم سے ہے اس کو قاہرہ کے اخبار الاہرام ( 2 جولائی 1973) نے اپنے کالموں میں شائع کیا تھا۔

تمہید

جدید دور کو، جہاں تک ا س کے مخالفِ مذہب ہونے کی حیثیت کا تعلق ہے، دورِ الحاد کہا جاتا ہے۔ مگر اس الحاد کا مطلب خدا کا مدّعیانہ انکار نہیں ہے، بلکہ اس کی اپنی تشریح کے مطابق ، یہ محض ایک طریق مطالعہ ہے جو ذہنی اور علمی ارتقا کے ایک مخصوص دور میں انسان کو حاصل ہوا ہے۔ اس ارتقائی مطالعہ کا لازمی تعلق کسی چیز کے انکار یا اثبات سے نہیں ہے بلکہ وہ مجرد ایک طریق جستجو ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جدید مفکرین کے نزدیک اس طریق جستجو نے مذہب کو باطل ثابت کر دیا ہے۔ یہاں میں مائلز (T.R Miles, 1923-2008) کے الفاظ نقل کروں گا:

’’موجودہ رجحان ایک ٹکنیک ، ایک طریقہ ، سوالات کے مطالعہ کے ایک ڈھنگ کی طرف ہے، نہ کہ مسائل کا قطعی جواب دینا ۔ یہ ایک نمایاں تبدیلی ہے، جو پچھلی نصف صدی کے اندر فلسفہ کی دنیا میں ہوئی ہے۔ یہ صورتحال ابھی جاری ہے اور بہت دور تک اس میں ٹھہرائو کی امید نظر نہیں آتی۔‘‘

Religion and the Scientific Outlook, (1959) P.13

جدید مفکرین کی اپنے موقف کے بارے میں یہ تشریخ خواہ اسے ہم ایک خالص علمی بات سمجھیں یا اس کو یہ حیثیت دیں کہ مذہب بیزاری کے بعد کائنات کی مادی توجیہ ڈھونڈنے  میں انسان کو جو ناکامی ہوئی ہے ، اس کے بعد یہ ایک خوبصورت جائے پناہ ہے جو اس نے تلاش کی ہے ، بہرحال ہماری مدافعانہ کوششوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس صورت حال کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کریں۔

مثال کے طور پر اثباتِ رسالت کے عنوان پر ہمارے یہاں جو کام ہو رہا ہے ، اس میں اکثر یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ دورِ جدید کا یہ دعویٰ ہے کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے رسول تھے ۔‘‘ اور اس کے بعد آپ کو ’’سچا‘‘ ثابت کرنے پر مواد اکٹھا کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ جھوٹا نبی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سچا نبی بھی ہوتا ہے جب کہ جدید انسان اپنے معلوماتی دائرہ کے مطابق ایسی کسی چیز کے ماننے ہی میں مشتبہ ہے۔ دراصل جھوٹا رسول (false prophet) یہود و نصاریٰ کے مذہبی طبقہ کا پرانا اعتراض ہے جو اپنے انبیاء کی نبوت کو مانتے ہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے منکر ہیں، ورنہ جہاں تک جدیدملحدانہ ذہن کا تعلق ہے اس کے لیے اصل مسئلہ آپ کے ’’جھوٹے‘‘ یا ’’سچے‘‘ ہونے کا نہیں ہے ، بلکہ اس کے سامنے صرف یہ سوال ہے کہ آپ کے کلامِ نبوت کا سرچشمہ کیا ہے وہ اپنے معلوم ذرائع پر قیاس کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کا سرچشمہ انسان کااپنا لاشعور ہے۔ اور لاشعور سے نکلے ہوئے کلام کو وحی و الہام سے تعبیر کرنا محض ایک استعارہ ہے، نہ کہ کسی حقیقتِ واقعہ کا بیان۔

اس لیے رسالت کی بحث میں صرف آپ کو ’’سچا‘‘ ثابت کرنے سے جدید تقاضے کی تکمیل نہیں ہوتی۔ بلکہ ہمیں یہ بھی بتانا ہو گا کہ الہام کوئی حقیقی چیز ہے ۔ وہ مخصوص انسانوں پر اترتا ہے، اور اسی کے اعتبار سے آپ خدا کے رسول تھے۔

یہ تو اس صورتِ حال کی مثال تھی جب کہ جدید فکر کے اصل موقف کو صحیح طور پر سامنے رکھے بغیر اس پر تنقید کی جائے۔ لیکن ایک اور ذہن ہے جو جدید فکر سے واقف ہونے کے باوجود دوسری قسم کی غلطی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی مرعوبیت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی اماموں کے نزدیک جن تصورات کو علمی مسلّمہ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے وہ یقیناً علمی مسلّمہ ہی ہو گی ، اس لیے وہ اسلام کی فتح مندی اس میں سمجھتے ہیں کہ ان مسلّمہ تصورات کو قرآن و حدیث سے ثابت کر دکھائیں، یہ اسلام اور غیر اسلام میں مطابقت پیدا کرنے کا وہی انداز ہے جو مغلوب تہذیبیں اپنی غالب تہذیب کے مقابلے میں عموماً اختیار کیا کرتی ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جو طرز فکر اس طرح دنیا کے سامنے آئے وہ تہذیب کے جامے میں پیوند بن کر تو رہ سکتا ہے مگر وہ خود تہذیب کا جامہ نہیں بن سکتا۔ اس طرح کے تطبیقی بیانات سے اگر کوئی یہ امید رکھتا ہے کہ وہ دنیا کی علمی فضا کو بدل دے گا یا لوگوں کو ناحق سے پھیر کر حق کی طرف لانے میں کامیاب ہو گا تو یہ محض اس کی خوش خیالی ہے۔ افکار میں تبدیلی کے لیے انقلابی لٹریچر کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ تطبیقی لٹریچر کی۔

یہ صورت حال اس وقت اور زیادہ خرابی کا باعث بنتی ہے جب کسی بنیادی اور ہمہ جہتی تصور کے بارے میں اس کااظہار ہوا ہو۔ ’’شہاب ثاقب‘‘ کے بارے میں اگر جدید علمائے فلکیات کی کوئی مختلف تحقیق ہو اور اس کو مان کر آپ قرآن میں تاویل کریں تو اس سے کسی بڑی خرابی کا اندیشہ نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی ایسے تصور کو قبول کر لیا جائے جو محض ایک جزوی اور منفرد نوعیت کی چیز نہ ہو بلکہ دیگر سوالات سے بھی اس کا براہِ راست تعلق ہو تو سارا فلسفۂ دین اس سے متاثر ہو جاتا ہے۔

اس کی واضح مثال ہماری صف کے وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں جنھوں نے نظریۂ ارتقاء کو اس بنا پر قبول کر لیا ہے کہ جدید علماء کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے مطالعے اور تجربے سے اس کی صداقت پر مطمئن ہو چکے ہیں۔ اس نظریے کو مان لینے کی وجہ سے ان کو اسلام کی ایک ارتقائی تعبیر کرنے کی ضرورت پیش آ گئی ہے اور اسلام کے جامے کو ارتقاء کی ساخت کے مطابق بنانے کے لیے انھیں پورے کپڑے کو ازسرِ نو تراشنا پڑا ہے۔

مثال کے طور پر ’’ارتقا‘‘ کا نقطۂ نظر یہ چاہتا ہے کہ انسان بہ حیثیت نوع مسلسل ترقی کر رہا ہو اور زندگی کے انجام پر سب کو اعلیٰ تر مقام حاصل ہو۔ اس طرز فکر کے مطابق ناپسندیدہ صورت حال کو ماضی میں ہونا چاہیے، نہ کہ مستقبل میں۔ اس طرح ارتقاکے فلسفے میں جنت کی زندگی تو مناسب معلوم ہوتی ہے مگر دوزخی زندگی کی تشریح نہیں ہوتی۔ اس دشواری کو حل کرنے کے لیے ارتقا پسند ذہن کو یہ کہنا پڑا کہ جہنم سزا کی جگہ نہیں ، بلکہ تربیت حاصل کرنے کی جگہ ہے۔ زندگی ہمیشہ رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد کر کے آگے بڑھتی ہے جو لوگ دنیا میں گناہ کی رکاوٹوں میں گھر کر رہ گئے اور آگے نہ بڑھ سکے ، ان کو جہنم  کے مشکل حالات میں ڈالنے کا مقصد دراصل ان کی ارتقائی جدوجہد کو اگلی دنیا میں جاری رکھنا ہے اسی ’’مشکل جدوجہد‘‘ کا نام دوزخ ہے۔ اسی طرح یہ ذہن شخصی ملکیت کے اسلامی قوانین کو ’’عبوری دور کے احکام‘‘ قرار دیتا ہے کیوں کہ سماجی ارتقا کے تصور کے ساتھ ان احکام کا جوڑ نہیں لگتا۔

یہ دو مثالیں یہ واضح کرنے کے لیے دی گئی ہیں کہ جدید چیلنج کے جواب میں جو کام ہوا ہے اس کی اہمیت کے باوجود اس میں کس طرح کے نقائص باقی رہ گئے ہیں۔ مصنف کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ اس کی کوشش تمام نقائص سے پاک ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کمی کا یہی احساس اس کوشش کا محرک ہوا۔

کتاب میں جس پہلو سے مذہب کی مدافعت ہے یا جس ذہن کے پیش نظر اس کو مدلّل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس کے دو الگ الگ انداز ہو سکتے ہیں۔ ایک تصوراتی اور دوسرے تجرباتی، یا دوسرے لفظوں میں، ایک فلسفیانہ اور دوسرے سائنٹفک (اگر اس کو سائنٹفک کہا جا سکتا ہو)۔ زیرِ نظر کتاب میں زیادہ تر دوسرے پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کی خاص وجہ مصنف کا یہ احساس ہے کہ پہلے طرز پر ہمارے یہاں کافی کام ہو چکا ہے اور اس میں بہت کچھ مواد ہمارے قدیم و جدید لٹریچر میں موجود ہے جب کہ دوسرے پہلو سے نسبتاً بہت کم کام ہوا ہے۔ خاص طور پر جدید سائنسی تحقیقات نے مذہب کے تجرباتی اثبات کے لیے جو وسیع میدان فراہم کر دیا ہے ، وہ تو مجھے بالکل ’’سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا‘‘ (27:93) کا مصداق معلوم ہوتا ہے۔ یعنی وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے۔ موجودہ کتاب ، ایک لحاظ سے ، اسی نئے پیدا شدہ امکان کو منظم طور پر استعمال کرنے کی ایک کوشش ہے۔

تصنیفات کی جدید تقسیم کے مطابق زیر نظر کتاب معروضی مطالعہ (objective  study)  کی مثال پیش نہیں کرتی۔ بلکہ وہ موضوعی یا داخلی (subjective) انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ جدید ذہن کے نزدیک گویا کتاب کے خلاف خود کتاب کا ووٹ ہے۔ کیوں کہ جو مطالعہ جانبدارانہ ذہن کے تحت کیاگیا ہو، اس کی صداقت کا یقین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں ، میں آسٹرین نو مسلم علامہ اسد کاجملہ نقل کروں گا ۔ انھوں نے اپنی کتاب کے اسی انداز کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

It does not pretend to be a dispassionate survey of affairs; it is statement of a case of Islam versus western civilisation. (Islam at the Crossroads. p. 6)      

یعنی اس کتاب میں مصنوعی طورپر غیر جانبدارانہ سروے کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیاہے بلکہ اس کا انداز ایک مقدمہ جیسا ہے— اسلام کا مقدمہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں۔

کتاب میں اکثر ’’مذہب ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کتاب چوں کہ ایک عمومی موضوع پر ہے اس لیے اس کی مناسبت سے عمومی لفظ زیادہ موزوں تھا۔ مصنف کا ذہن اس بارے میں بالکل صاف ہے کہ مذہب سے مراد کوئی موہوم چیزنہیں بلکہ صرف وہ ہے جو آج مذہب کی حیثیت سے خدا کے یہاں مسلم ہے— یعنی اسلام۔ اگر ہندوستان کے کسی شہری سے کہا جائے کہ تمھیں قانون کی پیروی کرنی ہو گی ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی مجموعۂ الفاظ جس پر قانون یا قانونِ ہند کا اطلاق ہو سکتا ہو ، بس اس کی پیروی کر لینا کافی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ قانون جو آج ہندستانی باشندوں کے لیے قانون کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کو ماننا اور اس کی تعمیل کرنا۔ اسی طرح آج عملی طور پر مذہب سے مراد صرف اسلام ہے۔ اگرچہ لغت کے اعتبار سے اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو مذہب کے نام سے مشہور ہو۔ دوسرے لفظوں میں تاریخی فہرست بندی کے طور پر خواہ جس جس چیز کو مذہب شمار کیا جائے ۔ مگر خدا کی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آج جو محفوظ مذہب (preserved religion)ہے، وہ صرف اسلام ہے۔ اس لیے اسلام ہی کی پیروی میں آخرت کی نجات ہے ، اس کے سوا نجات کی کوئی صورت نہیں۔

یونیورسٹی کے طلبہ کی یونین میں ایک مرتبہ مقالہ پڑھنے کے بعد مجھے ایک سوال سے سابقہ پیش آیا ، میں نے اپنے مضمون میں فرائڈ (Sigmund Freud, 1856-1939)کا ایک اقتباس  دیا تھا۔  نفسیات کے ایک پروفیسر بھی اتفاق سے مجلس میں موجود تھے۔ انھوں نے مقالہ سننے کے بعد کہا۔ آپ نے فرائڈ کا حوالہ ایک مذہبی بحث میں بطور تائید نقل کیا ہے۔ حالانکہ فرائڈ وہ شخص ہے، جو سرے سے اس مذہبی نقطۂ نظر ہی کے خلاف ہے جس کے آپ نمائندہ ہیں۔

یہی سوال موجودہ کتاب کے بارے میں زیادہ بڑے پیمانے پر کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس میں ایسے بہت سے اقتباسات تائید کے طور پر نقل کیے گئے ہیں جن کے مصنفین کتاب کے اصل مدعا سے اتفاق نہیں کر سکتے ۔مثال کے طور پر ملاحظہ ہو ’’دلیلِ آخرت‘‘ کا آخری اقتباس۔مگر یہ اعتراض درست نہیں۔ کیوں کہ ان اقتباسات کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ ایک شخص کی ذاتی سند کے طور پر نقل کیے گئے ہیں ، یعنی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ چوں کہ فلاں شخص نے اس کی تصدیق کی ہے، اس لیے وہ بات صحیح ہے۔ بلکہ تمام اقتباسات کسی علمی دلیل کی وضاحت میں نقل کیے گئے ہیں۔ مصنف نے ایک دلیل کو پیش کرتے ہوئے کہیں اس کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے اور کہیں دوسرے کے الفاظ میں۔

ان اقتباسات میں جو باتیں کہی گئی ہیں ، وہ عموماً وہ ہیں جو کسی کی ذاتی فکر سے تعلق نہیں رکھتیں،  بلکہ وہ علمی دریافتیں ہیں۔ ملحدین نے ان علمی دریافتوں کو لے کر ان کو دوسرے دوسرے معنی پہنائے ہیں اور ہم نے ان کو مذہب کے حق میں پا کر انھیں کتاب میں جمع کر دیا ہے۔ جو اقتباسات صراحتہً مذہب کی حمایت میں ہیں ، وہ عموماً عیسائی علماء کے اقوال ہیں، اور آسمانی مذہب پر عقیدہ رکھنے  کی وجہ سے ان کے اس طرح کے اقوال ہمارے  لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔

        جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، زیر نظر کتاب کا موضوع جدید مادی فکرکے مقابلے میں مذہب کا اثبات ہے۔ اس اثبات کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ثابت کیا جائے کہ مذہب ایک غیرمادی چیز ہے ۔اس لیے وہ مادی علوم کی دسترس سے باہر ہے۔ ایسی حالت میں مادی علوم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مذہب کی صداقت پر معترض ہوں۔ اثبات کا یہ انداز اہلِ مذاہب کی طرف سے کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔ پھر بیسویں صدی میں اس استدلال میں مزید قوت سائنس کے اس اعتراف سے پیدا ہو گئی ہے — سائنس حقیقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے:

Science gives us but a partial knowledge of reality

 اس کا مطلب یہ ہے کہ خود مادی علم کے اپنے اعتراف کے مطابق، کچھ ایسے حقائق ہو سکتے ہیں، جو مادی تحقیقات کے دائرے سے باہر ہوں۔ اس جدید امکان پر غالباً سب سے زیادہ کامیاب تصنیف جے ۔ ڈبلیو ۔ این سولیون کی ہے، جس کا کچھ حصّہ آٹھویں باب کی تیسری بحث میں ملے گا۔

مادی فکر کے مقابلے میں مذہب کے اثبات کی دوسری صورت یہ ہے کہ خود انھیں ذرائع علم کے تحت اس کو ثابت کیا جائے جس کے مطابق مادی علوم میں کسی چیز کو ثابت کیا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں زیادہ تر اسی دوسری صورت کو سادہ انداز میں اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کی کوشش یہ ہے کہ مادی حقائق کو ثابت کرنے کے لیے موجودہ زمانے میں جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ، اسی کو عام فہم انداز میں مذہب کے اثبات کے لیے استعمال کیا جائے۔

یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ یہ انداز جس کے تحت اس کتاب میں دین کی حمایت و مدافعت کی گئی ہے ، ممکن ہے اہل دین میں سے بعض ذہنوں کو اجنبی یا نامناسب معلوم ہو ۔اگر ایسا ہو تو میں کہوں گا کہ اس کتاب کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ ایک متکلمانہ ضرورت کے طور پر لکھی گئی ہے ، نہ کہ تشریح دین کے طور پر ۔ دین کی مجرد تعبیر و تشریح جو مومن و مسلم طبیعتوں کو سامنے رکھ کر کی جائے اس کا انداز دوسرا ہوتا ہے، لیکن جب سامنے ایسے لوگ ہوں جو ایمان و اسلام کو محض اس قسم کا فریب سمجھتے ہوں اور جب دین و مذہب کے خلاف اٹھائے ہوئے سوالات کا مقابلہ کرنا ہو تو قدرتی طور پر بات کا انداز بدل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہو جاتا ہے کہ معاند کے ذہن کو پیش نظر رکھ کر بات کہی جائے اور اس کی اپنی زبان اور اصطلاحات میں کلام کیا جائے جب کہ مومن و مسلم کا معاملہ ہو تو گفتگو اپنی فطری شکل میں باقی رہتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ موجودہ دور میں فکر اور استدلال کا انداز بالکل بدل گیا ہے ۔اس لیے موجودہ دور کا علم کلام بھی پہلے کے مقابلے میں بہت کچھ مختلف ہو گا۔ اگر یہ بات ذہن میں ہو تو کتاب کے مباحث کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہو سکتی۔

وحید الدین خاں

26 اگست 1964، لکھنؤ

مخالفین مذہب کا مقدمہ

’’جس طرح ایٹم کے ٹوٹنے سے مادہ کے بارے میں انسان کے پچھلے تمام تصورات ختم ہوگئے،اسی طرح پچھلی صدی میں علم کی جوترقی ہوئی ہے ،وہ بھی ایک قسم کاعلمی دھماکہ (knowledge explosion) ہے، جس کے بعدخدااورمذہب کے متعلق تمام پرانے خیالات بھک سے اڑگئے ہیں۔ ‘‘ ( ہندوستان ٹائمس،سنڈے میگزین، 24 ستمبر  1961ء)۔

یہ جولین ہکسلے کے الفاظ میں علم جدیدکاچیلنج ہے، اوران صفحات میں مجھے اسی چیلنج کاجواب دیناہے۔مصنف کایقین ہے کہ علم کی روشنی مذہب کی صداقت کواورزیادہ واضح کرنے میں مددگار ہوئی ہے ،اس نے کسی بھی ا عتبارسے مذہب کوکوئی نقصان نہیںپہنچایاہے ،دورجدیدکی ساری دریافتیں صرف اس بات کاعتراف ہیں کہ آج سے ڈیڑھ ہزاربرس پہلے اسلام کایہ دعویٰ کہ وہ آخری صداقت ہے اورآئندہ کی تمام انسانی معلومات اس کی صداقت کواورمبرہن کرتی چلی جائیں گی، بالکل صحیح تھا۔

قرآن کے الفاظ یہ ہیں:سَنُرِیْھِمْ اٰیٰاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم دکھائیں گے اپنی نشانیاں ان کوآفاق میں اورخودان کے اندر یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ حق ہے۔

جدید بے خدامفکرین کے نزدیک مذہب کوئی حقیقی چیزنہیں ہے، وہ انسان کی صرف اس خصوصیت کانتیجہ ہے کہ وہ کائنات کی توجیہ کرناچاہتاہے۔ توجیہ تلاش کرنے کاانسانی جذبہ بذاتِ خودغلط نہیں ہے مگرکم ترمعلومات نے ہمارے پرانے اجدادکوان غلط جوابات تک پہنچادیاجس کوخدایامذہب کہاجاتاہے ۔اب جس طرح بہت سے دوسرے معاملات میں انسان نے اپنی علمی ترقی سے ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کی ہے ،اسی طرح توجیہ کے معاملے میں بھی وہ آج اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی ابتدائی غلطیوں کی اصلاح کرسکے ۔

آگسٹ کامٹے (August Comte)جوانیسویں صدی کے نصف اوّل کافرانسیسی مفکر ہے، اس کے نزدیک انسان کی فکری ارتقاکی تاریخ تین مرحلوں میں تقسیم ہے ۔ پہلا مرحلہ الٰہیاتی مرحلہ (Theological Stage)ہے،جب کہ واقعات عالم کی توجیہ خدائی طاقتوں کے حوالے سے کی جاتی ہے ۔دوسرامرحلہ مابعدالطبیعیاتی مرحلہ (Metaphysical Stage)ہے ،جس میں متعین خداکانام توباقی نہیں رہتا ،پھربھی واقعات کی توجیہ کے لیے خارجی عناصر کاحوالہ دیا جاتا ہے۔ تیسرا مرحلہ ثبوتی مرحلہ (positive stage)ہے جب کہ واقعات کی توجیہ ایسے اسباب کے حوالے سے کی جاتی ہے ،جو مطالعہ اورمشاہدہ کے عام قوانین کے تحت معلوم ہوتے ہیں ،بغیر اس کے کہ کسی روحِ خدایامطلق طاقتوں کانام لیاگیاہو۔اس فکر کی روسے اس وقت ہم اسی تیسرے فکری دورسے گزررہے ہیں،اوراس فکرنے فلسفہ میں جونام اختیارکیاہے وہ منطقی ثبوتیت (Logical Positivism) ہے۔

منطقی ثبوتیت یاسائنسی تجربیت(Scientific Empiricism)باقاعدہ تحریک کی شکل میں بیسویں صدی میں شروع ہوئی۔مگرایک طرزفکرکی حیثیت سے یہ پہلے ذہنوں میںپیداہوچکی تھی۔ اس کی پشت پرہیوم (Hume) اورمل(Mill) سے لے کررسل(Russell) تک درجنوں ممتاز مفکرین کے نام ہیں ،اور اب ساری دنیامیں اپنے تبلیغی اورتحقیقی اداروں کے ساتھ وہ موجودہ زمانے کااہم ترین طریق فکربن چکاہے۔

ڈکشنری آف فلاسفی (مطبوعہ نیویارک) میںا س طریق فکرکی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کی گئی ہے :

"Every knowledge that is factual, is connected with experiences in such a way that verification or direct or indirect confirmation is possible." (P. 285)

یعنی ہروہ علم جوحقیقی ہے، وہ تجربات سے اس طورپرمتعلق ہوتاہے کہ اس کی جانچ یا براہِ راست یابالواسطہ طریقہ سے اس کی تصدیق حاصل کرناممکن ہو۔ اس طرح مخالفین مذہب کے نزدیک صورت حال یہ بنتی ہے کہ ارتقا کے عمل نے انسان کوآج جس اعلیٰ ترین مقام تک پہنچایاہے،وہ عین اپنے طریق فکر کے اعتبار سے مذہب کی تردیدہے۔ کیوں کہ جدیدارتقا یافتہ علم نے ہمیں بتایاہے کہ حقیقت صرف وہی ہوسکتی ہے جوتجربہ اورمشاہدہ میں آئی ہو۔جب کہ مذہب کی بنیاد حقیقت کے ایک ایسے تصور پر ہے جوسرے سے مشاہدے اورتجربے میں آہی نہیںسکتی ،دوسرے لفظوں میںواقعات و حوادث کی الٰہیاتی توجیہ ترقی یافتہ ذرائع سے ثابت نہیں ہوتی اس لیے وہ غیرحقیقی ہے ۔

اس طریق فکرکے مطابق مذہب ،حقیقی واقعات کی غیرحقیقی توجیہ ہے۔پہلے زمانے میں انسان کاعلم چوں کہ بہت محدودتھا،اس لیے واقعات کی صحیح توجیہ میں اسے کامیابی نہیں ہوئی اوراس نے مذہب کے نام سے عجیب عجیب مفروضے قائم کرلیے،مگرارتقاکے عالمگیرقانون نے آدمی کواس اندھیرے سے نکال دیاہے،اورجدیدمعلومات کی روشنی میں یہ ممکن ہوگیاہے کہ اٹکل پچّو عقائد پر ایمان رکھنے کے بجائے خالص تجرباتی اورمشاہداتی ذرائع سے ا شیاکی حقیقت معلوم کی جائے ۔ ({ FR 1028 })چنانچہ وہ تمام چیزیں جن کوپہلے مافوق الطبیعاتی اسباب کانتیجہ سمجھا جاتاتھا،اب بالکل فطری اسباب کے تحت ان کی تشریح معلوم کرلی گئی ہے۔جدیدطریق مطالعہ نے ہمیں بتادیاہے کہ خداکاوجودفرض کرناانسان کي کوئی واقعی دریافت نہیں تھی،بلکہ یہ محض دورلاعلمی کے قیاسات تھے جوعلم کی روشنی پھیلنے کے بعدخودبخودختم ہوگئے ہیں۔جولین ہکسلے لکھتاہے:

’’ نیوٹن نے دکھادیاہے کہ کوئی خدانہیں ہے ،جوسیاروں کی گردش پرحکومت کرتاہو، لاپلاس نے اپنے مشہورنظریے سے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ فلکی نظام کوخدائی مفروضہ کی کوئی ضرورت نہیں، ڈارون اورپاسچر نے یہی کام حیاتیات کے میدان میں کیاہے، اورموجودہ صدی میں علم النفس کی ترقی اورتاریخی معلومات کے اضافے نے خدا کو اس مفروضہ مقام سے ہٹادیاہے کہ وہ انسانی زندگی اورتاریخ کوکنٹرول کرنے والاہے۔‘‘

Religion without Revelation, New York, 1958, p. 58

یعنی طبیعیات ،نفسیات اورتاریخ ،تینوں علوم نے یہ ثابت کردیاہے کہ جن واقعات کی توجیہ کے لیے پچھلے انسان نے خدااوردیوتاکا وجود فرض کرلیاتھا،یامجردطاقتوں کوماننے لگا تھا، اس کے اسباب دوسرے تھے،مگرناواقفیت کی وجہ سے وہ مذہب کی پراسرارا صطلاحوں میں بات کرتارہا۔

1۔طبیعیاتی دنیامیں اس انقلاب کاہیرونیوٹن ہے۔جس نے یہ نظریہ پیش کیاکہ کائنات کچھ ناقابل تغیر اصولوں میں بندھی ہوئی ہے۔کچھ قوانین ہیں،جن کے تحت تمام اجرام سماوی حرکت کر رہے ہیں۔بعدکو دوسرے بے شمارلوگوں نے اس تحقیق کوآگے بڑھایا۔یہاں تک کہ زمین سے لے کر آسمان تک سارے واقعات ایک اٹل نظام کے تحت ظاہرہوتے ہوئے نظر آئے جس کوقانون فطرت (Law of Nature)کانام دیاگیا،اس دریافت کے بعد قدرتی طورپریہ تصور ختم ہو جاتا ہے کہ کائنات کے پیچھے کوئی فعال اورقادرخداہے،جواس کوچلارہاہے،زیادہ سے زیادہ گنجائش اگر ہو سکتی ہے توایسے خداکی جس نے ابتدامیں کائنات کوحرکت دی ہو۔چنانچہ شروع میں لو گ محرّک ِ اول کے طورپرخداکومانتے رہے ،والٹیرنے کہاکہ خدانے اس کائنات کوبالکل اسی طرح بنایاہے، جس طرح ایک گھڑی سازگھڑی کے پرزے جمع کرکے انھیںایک خاص شکل میں ترتیب دے دیتاہے، اوراس کے بعدگھڑی کے ساتھ اس کاکوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔اس کے بعدہیوم نے اس’’بے جان اوربے کارخدا‘‘کوبھی یہ کہہ کرختم کردیاکہ ہم نے گھڑیاںبنتے ہوئے تودیکھی ہیں،لیکن دنیائیں بنتی ہوئی نہیں دیکھیں،اس لیے کیوں کر ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم خداکومانیں۔

سائنس کی ترقی اورعلم کے پھیلاؤ نے اب انسان کووہ کچھ دکھادیاہے،جس کوپہلے اس نے دیکھانہیں تھا۔ واقعات کی جن کڑیوںکونہ جاننے کی وجہ سے ہم سمجھ نہیں سکتے تھےکہ یہ واقعہ کیوں ہوا،وہ اب واقعات کی تمام کڑیوں کے سامنے آجانے کی وجہ سے ایک جانی بوجھی چیزبن گیا ہے۔ مثلاًپہلے آدمی یہ نہیں جانتاتھاکہ سورج کیسے نکلتااور ڈوبتاہے۔ اس لیے اس نے سمجھ لیاکہ کوئی خداہے جوسورج کونکالتاہے اوراس کوغروب کرتاہے ،اس طرح ایک مافوق الفطری طاقت کاخیال پیداہوا،اورجس چیزکوآدمی نہیںجانتاتھا،اس کے متعلق کہہ دیاکہ یہ اسی طاقت کاکرشمہ ہے، مگراب جب کہ ہم جانتے ہیںکہ سورج کانکلنا اورڈوبنا،اس کے گردزمین کے گھومنے کی وجہ سے ہوتاہے، توسورج کونکالنے اورغروب کرنے کے لیے خداکوماننے کی کیاضرورت؟ اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کے متعلق پہلے سمجھاجاتاتھاکہ ان کے پیچھے کوئی اَن دیکھی طاقت کام کررہی ہے،وہ سب جدیدمطالعہ کے بعدہماری جانی پہچانی فطری طاقتوں کے عمل اورردعمل کانتیجہ نظرآیا— گویاواقعہ کے فطری اسباب معلوم ہونے کے بعدوہ ضرورت آپ سے آپ ختم ہوگئی جس کے لیے پہلے لوگوں نے ایک خدا یا مافوق الفطری طاقت کاوجودفرض کرلیاتھا۔’’اگرقوس قزح گرتی ہوئی بارش پرسورج کی شعاعوں کے انعطاف (refraction)سے پیداہوتی ہے تویہ کہنابالکل غلط ہے کہ وہ آسمان کے اوپرخداکانشان ہے۔‘‘—ہکسلے اس قسم کے واقعات پیش کرتاہواکس قدریقین کے ساتھ کہتاہے:

‘‘If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.’’

J. Huxley, Religion without Revelation, 1929, p. 46

یعنی واقعات اگر فطری اسباب کے تحت صادر ہوتے ہیں تو وہ مافوق الفطری اسباب کے پیدا کیے ہوئے نہیں ہوسکتے۔

2۔ اس کے بعدنفسیات کی تحقیق کی گئی تواس نقطۂ نظرپرمزیدیقین حاصل ہوگیا۔ کیوں کہ اس سے معلوم ہواکہ مذہب ،انسان کے اپنے لاشعور کی پیداوارہے نہ کہ فی الواقع کسی خارجی حقیقت کا انکشاف،ایک عالم کے الفاظ میں:

‘‘God is nothing but a projection of man on a cosmic screen.’’

یعنی خداکی حقیقت اس کے سوااورکچھ نہیں کہ وہ کائناتی سطح پرانسان کی ہستی کاایک خیالی انعکاس ہے،دوسری دنیاکا عقیدہ انسان کی اپنی آرزوؤں کی ایک خوبصورت تصویر(Beautiful Idealisation of Human Wishes)سے ({ FR 1294 })زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ وحی والہام محض بچپن میں دبے ہوئے خیالات ( childhood repressions) کا ایک غیرمعمولی اظہارہیں۔

ان تمام خیالات کی بنیادنظریۂ لاشعورپرقائم ہے۔جدیدتحقیق سے معلوم ہواکہ انسان کاذہن دو بڑے خانوں پرمنقسم ہے ۔ایک خانہ وہ جس کوشعورکہتے ہیں،یہ ہمارے ان افکارکامرکزہے جوعام طورپر ہوش و حواس کی حالت میں شعوری طورپرہمارے ذہن میں پیداہوتے ہیں، دوسراخانہ لاشعور ہے۔ اس حصہ ٔذہن کے خیالات عام طورپرہمارے علم وحافظہ کے سامنے نہیں ہوتے مگروہ اس کی تہ میں موجودرہتے ہیں، اورغیرمعمولی حالات میں یاسوتے وقت خواب میں ظاہرہوتے ہیں، انسان کے بیشترخیالات اسی لاشعورکے خانے میں جاکرمحفوظ ہوجاتے ہیں، اوراس اعتبارسے ذہن کاشعوری حصہ اس کے لاشعورسے بہت کم ہے۔چنانچہ دونوں کاتناسب ظاہرکرنے کے لیے سمندرکے برفانی تودہ (iceberg) کی مثال دی جاتی ہے ،جس کے نوحصے کیے جائیں توآٹھ حصے پانی میں ڈوبے ہوئے ہوںگے اورصرف ایک حصہ اوپردیکھنے والوں کونظرآئے گا (اگرچہ یہ تناسب بھی اضافی ہے) ۔

فرائڈ نے طویل تحقیق کے بعدانکشاف کیاکہ بچپن میںانسان کے لاشعورمیں کچھ ایسی چیزیں بیٹھ جاتی ہیں،جوبعدمیں غیرعقلی رویے کاباعث بنتی ہیں۔ یہی صورت مذہبی عقائدکی ہے ،مثلاًدوسری دنیا اور جنّت کاتصور دراصل ان آرزوؤں کی صدائے بازگشت ہے، جو بچپن میں آدمی کے ذہن میں پیدا ہوئیں،مگرحالات سازگارنہ ہونے کہ وجہ سے پوری نہیں ہوئیں اوردب کرلاشعورمیں باقی رہ گئیں۔ بعد کو لاشعورنے اپنی تسکین کے لیے ایک ایسی دنیافرض کرلی جہاں وہ اپنی آرزوؤں کی تکمیل کرسکے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی شخص اپنی ایک محبوب چیزکوواقعی دنیامیں نہ پاسکاتووہ نیندکی حالت میں خواب دیکھتا ہے کہ وہ ا س سے ہم کنار ہو رہا ہے۔ اسی طرح بچپن کی بہت سے باتیں جولاشعورمیں تہ نشیں ہو کربظاہرحافظہ سے نکل گئی تھیں، وہ غیرمعمولی حالات مثلاًجنون یاہسٹریامیں یکایک زبان پرجاری ہوگئیں توسمجھ لیا گیا کہ یہ کوئی ماورائی طاقت ہے جوانسان کی زبان سے کلام کررہی ہے ۔اسی طرح بڑے اورچھوٹے کے فرق (father complex) نے خدااوربندے کاتصور پیدا کیا، اور جو چیز محض ایک سماجی برائی تھی، اس کوکائناتی سطح پررکھ کرایک نظریہ گڑھ لیاگیا۔ لنٹن (Ralph Linton) لکھتا ہے:

’’ایک ایسے قادرمطلق کاتصورجس کے کام خواہ کتنے ہی غیرمنصفانہ معلوم ہوںمگروہ مکمل فرمانبرداری اوروفاداری ہی کے ذریعہ خوش کیاجاسکتاہے،براہِ راست سامی عائلی نظام کی پیداوارتھا۔اس عائلی نظا م نے مبالغہ آمیزفوق الفطری انانیت کوجنم دیا۔ اس کانتیجہ یہ نکلاکہ قانون موسوی کی شکل میں انسانی زندگی اوررویہ کے ہرپہلوکے متعلق محرمات کی ایک مفصل فہرست تیارہوگئی ۔محرمات کایہ سلسلہ ان لوگوں نے گر ہ میں باندھ لیاجوبچپن میں اپنے باپ کے احکام کویادرکھنے اوراحتیاط سے اس پرعمل کرنے کے عادی ہوچکے تھے ۔خدا کا تصور مخصوص قسم کے سامی باپ کاپرتوہے ،جس کے اختیارات اوراوصاف میں تجرد اورمبالغہ پیدا کر دیا گیا ہے۔‘‘

The Hebrew picture of an all-powerful deity who could only be placated by complete submission and protestations of devotion, no matter how unjust his acts might appear, was a direct outgrowth of this general Semitic family situation. Another product of the exaggerated superego to which it gave rise was the elaborate system of taboos relating to every aspect of behaviour. One system of this sort has been recorded and confided in the Laws of Moses. All Semitic tribes had similar series of regulation differing only in content. Such codes provided those who kept them with a sense of security, comparable to that of the good child who is able to remember everything that his father ever told him not to do and carefully abstains from doing it. The Hebrew Yahveh was a portrait of the Semitic father with his patriarchal authoritarian qualities abstracted and exaggerated.

The Tree of Culture, Ralph Linton

New York, Alfred A, Knopf , 1956, p. 288

3۔ مذہب کے خلاف مقدمے کی تیسری بنیادتاریخ ہے۔مخالفین مذہب کادعویٰ ہے کہ ہم نے تاریخ کامطالعہ کیاتومعلوم ہواکہ مذہبی تصورات پیداہونے کی وجہ وہ مخصوص تاریخی حالات ہیں، جواس سے پہلے انسان کوگھیرے ہوئے تھے۔ قدیم زمانے میں سائنس کی دریافتوں سے پہلے سیلاب، طوفان اوربیماری وغیرہ سے بچنے کاانسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیںتھا۔ وہ مستقل طور پر اپنے آپ کو غیرمحفوظ زندگی میں پاتاتھا۔ اس لیے ا س نے اپنی تسکین کے لیے کچھ ایسی غیرمعمولی طاقتیںفرض کرلیں،جن کووہ مصیبت کے وقت پکارے اورجن سے دفعِ بلاکی امیدرکھے۔ اسی طرح سماج کے اندر باہمی پیوستگی پیداکرنے اورایک مرکزکے گردلوگوں کوجوڑے رکھنے کے لیے بھی کسی چیزکی ضرورت تھی۔ یہ کام اس نے ایسے معبودوں سے لیاجوسارے انسانوں کے اوپرہوںاورجن کی مرضی حاصل کرناہرایک کے لیے ضروری ہو،وغیرہ غیرہ، علوم اجتماعی کی انسائیکلوپیڈیامیں مذہب (Religion)کامقالہ نگارلکھتاہے:

’’ جس طرح دوسرے اسباب مذہب کوپیداکرنے میںا ثراندازہوئے ہیں،اسی طرح اس میں سیاسی اورتمدنی حالات کابھی دخل رہاہے۔ خداؤں کے نام اوران کی صفات خودبخودوقت کے نظام سلطنت کی صورت میں ڈھل گئے۔ خدا کوبادشاماننے کاعقیدہ محض انسانی بادشاہت کی بدلی ہوئی شکل ہے، اورآسمانی بادشاہت صرف زمینی بادشاہت کاایک چربہ ہے۔نیزچوں کہ بادشاہ سب سے بڑاجج بھی ہوتاتھا،اسی طرح خداکوبھی عدالت کی کارروائیاں سپردکردی گئیں اوریہ عقیدہ بن گیاکہ وہ انسان کی بدی یانیکی کے بارے میں آخری فیصلہ کرے گا ۔ا س قسم کاعدالتی تصور جوخداکوحساب لینےوالا اوراختیار والا مانتا ہے، اس نے نہ صرف یہودیت میں بلکہ عیسائیت اوراسلام کے مذہبی نقطۂ نظرمیں بھی مرکزی مقام حاصل کرلیا ہے۔‘‘

Encyclopaedia of Social Sciences, 1957, Vol. 13, p.233

 اس طرح مخصوص تاریخی دورکے حالات اوران حالات کے ساتھ انسانی ذہن کے باہمی تعامل نے وہ تصورات پیداکیے جن کومذہب کہاجاتاہے۔ ’’مذہب انسانی ذہن کی پیداوارہے جوعدم واقفیت اورخارجی قوتوں کے مقابلے میں بے سہاراہونے کی ایک خاص حالت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔  جولین ہکسلے یہ ریمارک دیتاہوالکھتاہے:

"Religion is the product of a certain type of interaction between man and his environment."

Man in the Modern World, 1950, Britain, p. 132

 یعنی مذہب نتیجہ ہے۔ انسان اوراس کے ماحول کے درمیان ایک خاص طرح کے تعامل کا۔اب چوں کہ و ہ مخصوص ماحول ختم ہوگیاہے،یاکم از کم ختم ہورہاہے،جو اس طرح کے تعامل کو وجود میں لانے کاذمہ دارتھا۔اس لیے اب مذہب کوزندہ رکھنے کی بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ ہکسلے مزید لکھتاہے:

’’خداکاتصوراپنی افادیت کے آخری مقام پرپہنچ چکاہے، اب وہ مزیدترقی نہیں کرسکتا۔ مافوق الفطری طاقتیں دراصل مذہب کابوجھ اٹھانے کے لیے انسانی ذہن نے اختراع کی تھیں ۔پہلے جادوپیداہوا،پھرروحانی تصرفات نے اس کی جگہ لی، پھر دیوتاؤں کا عقیدہ ابھرااوراس کے بعدایک خدا کا تصور آیا۔ اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر کر مذہب اپنی آخری حدکوپہنچ کرختم ہوچکاہے۔ کسی وقت یہ خداہماری تہذیب کے ضروری مفروضے اور مفید تخیلات تھے،مگر اب جدیدترقی یافتہ سماج میں وہ اپنی ضرورت اورافادیت کھوچکے ہیں۔‘‘

The concept of God has reached the limits of its usefulness  it cannot evolve further. Supernatural powers were created by man to carry the burden of religion. From diffuse magic mana to personal spirits; from spirits to gods; from gods to God—so crudely speaking, the evolution has gone. The particular phase of that evolution which concerns us is that of gods. In one period of our western civilization the gods were necessary fictions, useful hypotheses by which to live.

Man in the Modern World, 1950, Britain, p. 134

اشتراکی فلسفہ کے نزدیک بھی مذہب ایک تاریخی فریب ہے۔البتہ اشتراکیت چوں کہ تاریخ کامطالعہ تمام تراقتصادیات کی روشنی میں کرتی ہے۔ اس لیے اس نے تمام تاریخی اسباب کوسمیٹ کرصرف اقتصادی اسباب میں مرکوزکردیا۔ اس کے نزدیک مذہب کوجن تاریخی حالات نے پیداکیاوہ دورقدیم کاجاگیردارانہ اورسرمایہ دارانہ نظام تھا۔ اب چوں کہ یہ فرسودہ نظام اپنی موت مر رہا ہے۔اس لیے مذہب کوبھی اسی کے ساتھ ختم سمجھناچاہیے۔انگلس کے الفاظ میں’’تمام اخلاقی نظریے ،اپنے آخری تجزیے میں، وقت کے اقتصادی حالات کی پیداوارہیں‘‘۔ 

Antzs Duhring, Moscow, 1954 , p. 131

انسانی تاریخ طبقاتی لڑائیوں کی تاریخ ہے جس میں سربرآوردہ طبقہ پسماندہ طبقہ کااستحصال کرتارہاہے، اورمذہب واخلاق صرف وضع کیے گئے تاکہ سربرآوردہ طبقہ کے مفادات کومحفوظ کرنے کے لیے نظریاتی بنیادحاصل ہوسکے۔

’’قانون ،اخلاق، مذہب ،سب بورژواکی فریب کاری ہے،جس کی آڑمیں اس کے بہت سے مفادات چھپے ہوئے ہیں۔‘‘ (کمیونسٹ مینی فسٹو)

 نوجوان کمیونسٹ لیگ کی تیسری کل روس کانگریس (اکتوبر1920) میں لینن نے کہا تھا:

’’یقیناًہم خداکونہیں مانتے۔ہم خوب جانتے ہیں کہ ارباب کلیسا، زمیندار اور بورژوا طبقہ جوخداکے حوالے سے کلام کرتے ہیںوہ محض استحصال کرنے والے کی حیثیت سے اپنے مفادات کاتحفظ کرناچاہتے ہیں۔ ہم ایسے تمام اخلاقی ضابطوں کا انکارکرتے ہیں،جوانسانوں سے ماوراکسی مافوق طاقت سے اخذکیے گئے ہوں یاطبقاتی تصورپرمبنی نہ ہوں، ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک دھوکاہے،ایک فریب ہے، زمینداروں اورسرمایہ داروں کے مفادکے لیے مزدوروں اورکسانوں کی فکر پرپردہ ڈالنا (befogging of the minds) ہے ۔ہم کہتے ہیں کہ ہماراضابطۂ اخلاق تمام تر صرف پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہدکے تابع ہے ، ہمارے اخلاقی اصول کاماخذ پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کا مفاد ہے۔‘‘(لینن سلکٹڈ ورکس، ماسکو،1947، جلد2 صفحہ 667)

یہ ہے مخالفین مذہب کاوہ مقدمہ جس کی بنیاپردورجدیدکے بہت سے لوگ ،فزیالوجی کے ایک امریکی پروفیسرکے الفاظ میں، کہتے ہیں— سائنس نے ثابت کردیاہے کہ مذہب تاریخ کاسب سے زیادہ دردناک اورسب سے بدترین ڈھونگ تھا:

Science has shown religion to be history’s cruellest and wickedest hoax.

Quoted by C. A. Coulson, Science and Christian Belief, p. 4

 

تبصرہ

پچھلے صفحات میں ہم نے ان مخالف مذہب استدلالات کاذکرکیاہے،جواس بات کے ثبوت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں کہ دورِ جدید نے مذہب کے لیے کوئی علمی گنجائش باقی نہیں رکھی ہے۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک بے بنیاددعویٰ ہے۔،جدیدطریقِ فکر نے مذہب کوکسی بھی درجہ میں کوئی نقصان نہیں پہنچایاہے۔اگلے ابواب میں ہم مذہب کے بنیادی تصورات کوایک ایک کرکے لیں گے اوردکھائیں گے کہ کس طرح مذہب آج بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے، جیسے کہ وہ پہلے تھا۔یہاں گزشتہ دلائل پرایک عمومی تبصرہ پیش کیاجاتاہے ۔

1۔  اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس دلیل کولیجیے ،جوطبیعیاتی تحقیق کے حوالے سے پیش کی گئی ہے ،یعنی کائنات کامطالعہ کرنے سے معلوم ہواکہ یہاں جوواقعات ہورہے ہیں، وہ ایک متعین قانونِ فطرت کے مطابق ہورہے ہیں، ا س لیے ان کی توجیہ کرنے کے لیے کسی نامعلوم خدا کا وجود فرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ معلوم قوانین خوداس کی توجیہ کے لیے موجودہیں۔ اس استدلال کا بہترین جواب وہ ہے جوایک عیسائی عالم نے دیاہے، اس نے کہا:

" Nature is a fact, not an explanation"

یعنی فطرت کاقانون کائنات کاایک واقعہ ہے، وہ کائنات کی توجیہ نہیں ہے ۔تمھارایہ کہناصحیح ہے کہ ہم نے فطرت کے قوانین معلوم کرلیے ہیں۔ مگرتم نے جوچیزمعلوم کی ہے وہ اس مسئلے کاجواب نہیں، جس کے جواب کے طورپرمذہب وجودمیں آیاہے۔مذہب یہ بتاتاہے کہ وہ اصل اسباب ومحرکات کیاہیں جوکائنات کے پیچھے کام کررہے ہیں۔ جب کہ تمھاری دریافت صرف اس مسئلہ سے متعلق ہے کہ کائنات جوہماری سامنے کھڑی نظرآتی ہے،اس کاظاہری ڈھانچہ کیاہے۔ جدیدعلم جوکچھ ہمیں بتاتاہے وہ صرف واقعات کی مزیدتفصیل ہے ، نہ کہ اصل واقعہ کی توجیہ ۔سائنس کاساراعلم اس سے متعلق ہے کہ’’جوکچھ ہے وہ کیاہے‘‘ ۔یہ بات اس کی دسترس سے باہر ہے کہ ’’جوکچھ ہے ، وہ کیوں ہے‘‘۔ جب کہ توجیہ کاتعلق اسی دوسرے پہلوسے ہے ۔

اس کوایک مثال سے سمجھیے ۔مرغی کابچہ ا نڈے کے مضبوط خول کے اندرپرورش پاتا ہے، اور اس کے ٹوٹنے سے باہرآتاہے۔ یہ واقعہ کیوں کرہوتاہے کہ خول ٹوٹے اوربچہ جو گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں ہوتا، وہ باہرنکل آئے ۔پہلے انسان اس کاجواب یہ دیتا تھا کہ’’خدا ایسا کرتا ہے‘‘۔ مگراب خوردبینی مشاہدہ کے بعد معلوم ہواکہ 21روزکی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے، اس وقت ننھے بچے کی چونچ پرایک نہایت چھوٹی سے سخت سینگ ظاہرہوتی ہے ،اس کی مددسے وہ اپنے خول کو توڑ کر باہر آجاتاہے ۔سینگ اپناکام پوراکرکے بچہ کی پیدائش کے چنددن بعد خودبخود جھڑجاتی ہے۔

مخالفین مذہب کے نظریے کے مطابق یہ مشاہدہ اس پرانے خیال کوغلط ثابت کردیتا ہے کہ بچہ کوباہرنکالنے والاخداہے ۔کیوںکہ خوردبین کی آنکھ ہم کو صاف طور پردکھارہی ہے کہ ایک 21روزہ قانون ہے جس کے تحت وہ صورتیں پیداہوتی ہیں، جوبچہ کوخول کے باہرلاتی ہیں۔ مگریہ مغالطہ کے سوااورکچھ نہیں۔ جدیدمشاہدہ نے جوکچھ ہمیں بتایاہے ،وہ صرف واقعہ کی چندمزیدکڑیاں ہیں، اس نے واقعہ کااصل سبب نہیں بتایا۔ اس مشاہدہ کے صورت حا ل میں جوفرق پیداہواہے، وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پہلے جوسوال خول کے ٹوٹنے کے بارے میں تھا،وہ ’’سینگ‘‘ کے اوپر جا کر ٹھہر گیا۔ بچہ کا اپنی سینگ سے خول کوتوڑنا واقعہ کی صرف ایک درمیانی کڑی ہے ،وہ واقعہ کاسبب نہیں ہے۔ واقعہ کاسبب تواس وقت معلوم ہوگاجب ہم جان لیں کہ چونچ پرسینگ کیسے ظاہرہوئی ۔دوسرے لفظوں میں ا س آخری سبب کاپتہ لگالیں، جوبچہ کی اس ضرورت سے واقف تھاکہ اس کوخول سے باہرنکلنے کے لیے کسی سخت مددگارکی ضرورت ہے، اوراس نے مادہ کومجبورکیاکہ عین اس وقت پر ٹھیک 21 روز بعد بچہ کی چونچ پرایک ایسی سینگ کی شکل میں نمودارہوجواپناکام پوراکرنے کے بعدجھڑجائے ۔ گویاپہلے یہ سوال تھاکہ’’خول کیسے ٹوٹتاہے‘‘، اوراب سوال یہ ہوگیاکہ’’سینگ کیسے بنتی ہے‘‘۔ ظاہرہے کہ دونوں حالتوں میں کوئی نوعی فرق نہیں ۔اس کوزیادہ سے زیادہ حقیقت کاوسیع ترمشاہدہ کہہ سکتے ہیں حقیقت کی توجیہ کانام نہیں دے سکتے۔

یہاں میں ایک امریکی عالم حیاتیات (Cecil Boyce Hamann, 1913-1984) کے الفاظ نقل کروں گا :

’’ غذاہضم ہونے اورا س کے جزءبدن بننے کے حیرت انگیزعمل کوپہلے خداکی طرف منسوب کیاجاتاتھا، اب جدیدمشاہدہ میں وہ کیمیائی ردِ عمل کانتیجہ نظرآتاہے۔ مگرکیااس کی وجہ سے خداکے وجودکی نفی ہوگئی ۔آخرکون طاقت ہے ،جس نے کیمیائی اجزاء کوپابندکیاکہ وہ اس قسم کامفیدردِ عمل ظاہرکریں۔غذاانسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعدایک عجیب و غریب خودکارانتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ اس کودیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ حیرت انگیزانتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدہ کے بعدتواورزیادہ ضروری ہوگیاہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعہ عمل کرتاہے، جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیاہے۔‘‘

The Evidence of God in an Expanding Universe, p. 221

اس سے آپ جدید دریافتوں کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ سائنس نے کائنات کے بارے میں انسان کے مشاہدے کوبہت بڑھادیاہے۔اس نے دکھادیاہے کہ وہ کون سے فطری قوانین ہیں ،جن میں یہ کائنات جکڑی ہوئی ہے ،اورجس کے تحت وہ حرکت کررہی ہے۔مثلاًپہلے آدمی صرف یہ جانتاتھاکہ پانی برستاہے،مگراب سمندرکی بھاپ اٹھنے سے لے کربارش کے قطرے  زمین پرگرنے تک کاوہ پوراعمل انسان کومعلوم ہوگیاہے، جس کے مطابق بارش کاواقعہ ہوتاہے۔ مگریہ ساری دریافتیں صرف واقعہ کی تصویرہیں، وہ واقعہ کی توجیہ نہیں ہیں ۔سائنس یہ نہیں بتاتی کہ فطرت کے قوانین کیسے بن گئے ۔وہ کیسے اس قدرمفیدشکل میں مسلسل طورپرزمین وآسمان میں قائم ہیں، اوراس صحت کے ساتھ قائم ہیں کہ ان کی بنیادپرسائنس میں قوانین مرتب کیے جاتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ فطرت جس کومعلوم کرلینے کا مدعی بن کر انسان یہ کہنے لگاہے اس نے کائنات کی توجیہ دریافت کرلی، وہ محض دھوکاہے۔یہ ایک غیرمتعلق بات کوسوال کاجواب بناکرپیش کرناہے۔یہ درمیانی کڑی کوآخری کڑی قراردیناہے۔یہاں پھرمیں مذکورہ عالم کے الفاظ دہراؤں گا— فطرت کائنات کی توجیہ نہیں کرتی، وہ خوداپنے لیے توجیہ کی طالب ہے :

Nature does not explain, she herself is in need of an explanation.

اگرآپ کسی ڈاکٹرسے  پوچھیں کہ خون سرخ کیوں ہوتاہے،تووہ جواب دے گاکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے چھوٹے سرخ اجزا ہوتے ہیں (ایک انچ کے سات ہزارویں حصہ کے برابر) یہی سرخ ذرات خون کوسرخ کرنے کاسبب ہیں۔

’’درست،مگریہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں۔‘‘

’’ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتاہے ،جس کانام ہیموگلوبین (Haemoglobin)  ہے۔ یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتاہے توگہراسرخ ہوجاتاہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے ، مگرہیموگلوبین کے حامل سرخ ذرات کہاں سے آئے۔‘‘

’’وہ آپ کی تلی میں بن کرتیارہوتے ہیں۔‘‘

’’ڈاکٹرصاحب! جوکچھ آپ نے فرمایاوہ بہت عجیب ہے،مگرمجھے بتائیے کہ ایساکیوں ہے کہ خون،سرخ ذرات ،تلی اوردوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کُل کے اندرباہم  مربوط ہیں، اور اس قدرصحت کے ساتھ اپنااپناعمل کررہی ہیں۔‘‘

’’یہ قدرت کاقانون ہے۔‘‘

’’وہ کیاچیزہے جس کوآپ قانون قدرت کہتے ہیں۔‘‘

’’اس سے مرادہےطبیعی اورکیمیائی طاقتوں کااندھاعمل (Blind interplay of physical and chemical forces)

’’مگرکیاوجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میں عمل کرتی ہیں، جوانھیں ایک متعین انجام کی طرف لے جائے ۔کیسے وہ اپنی سرگرمیوں کواس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیااڑنے کے قابل ہوسکے، ایک مچھلی تیرسکے،ایک انسان اپنی مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ وجودمیں آئے۔‘‘

’’میرے دوست مجھ سے یہ نہ پوچھو۔سائنس داں صرف یہ بتاسکتاہے کہ جوکچھ ہورہا ہے ، وہ کیاہے ۔ اس کے پاس اس سوال کاجواب نہیں ہے کہ جوکچھ ہورہاہے وہ کیوں ہورہاہے۔‘‘

یہ سوال وجواب واضح کررہاہے کہ سائنسی دریافتوں کی حقیقت کیاہے۔بلاشبہ سائنس نے ہم کوبہت سی نئی نئی باتیں بتائی ہیں،مگر مذہب جس سوال کاجواب ہے ، اس کاان دریافتوں سے کوئی تعلق نہیں، اس قسم کی در یافتیں اگرموجودہ مقدارکے مقابلے میں اربوں کھربوں گنابڑھ جائیں ،جب بھی مذہب کی ضرورت باقی رہے گی،کیوں کہ یہ دریافتیں صرف ہونے والے واقعات کوبتاتی ہیں، یہ واقعات کیوں ہورہے ہیں اوران کاآخری سبب کیاہے ،اس کاجواب ان دریافتوں کے اندرنہیں ہے،یہ تمام کی تمام دریافتیں صرف درمیانی تشریح ہیں،جب کہ مذہب کی جگہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ آخری اورکلی تشریح دریافت کرلی جائے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی مشین کے اوپرڈھکن لگا ہوا ہوتوہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ چل رہی ہے ،اگرڈھکن اتاردیاجائے توہم دیکھیں گے کہ باہر کا چکّر کس طرح اورایک چکّر سے چل رہاہے،اوروہ چکر کس طرح دوسرے بہت سے پرزوں سے مل کر حرکت کرتاہے،یہاں تک کہ ہوسکتاہے کہ ہم اس کے سارے پرزوں اوراس کی پوری حرکت دیکھ لیں ، مگرکیااس علم کے معنی یہ ہیںکہ ہم نے مشین کے خالق اوراس کے سبب حرکت کارازبھی معلوم کرلیا ،کیاکسی مشین کی کارکردگی کوجان لینے سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ وہ خودبخودبن گئی ہے، اور اپنے آپ چلی جارہی ہے۔اگرایسانہیں ہے توکائنات کی کارکردگی کی بعض جھلکیاں دیکھنے سے یہ کیسے ثابت ہوگیاکہ یہ ساراکارخانہ اپنے آپ قائم ہوا،اوراپنے آپ چلا جا رہا ہے۔ ہیریس(A. Harris) نے یہی بات کہی تھی، جب اس نے ڈارونزم پرتنقیدکرتے ہوئے کہا:

"Natural selection may explain the survival of the fittest, but cannot explain the arrival of the fittest," (Revolt Against Reason by A. Lunn, p.133)

یعنی انتخاب طبیعی کا قانون صرف زندگی کے بہترمظاہرکے باقی رہنے کی توجیہ کرسکتاہے،وہ یہ نہیں بتاتاکہ یہ بہترزندگیاں خودکیسے وجودمیں آئیں۔

2۔  اب نفسیاتی استدلال کولیجیے ۔کہاجاتاہے کہ خدااوردوسری دنیاکاتصورکوئی حقیقی چیزنہیں ہے ،بلکہ یہ انسانی شخصیت اورانسانی آرزوؤں کوکائناتی سطح پرقیاس کرناہے۔ لیکن میرے لیے ناقابل تصورہے کہ اس میں استدلال کاپہلوکیاہے ۔ اس کے جواب میں اگر میں کہوں کہ فی الواقع انسانی شخصیت اورانسانی آرزووئیں کائناتی سطح پرموجودہیں تومجھے نہیں معلوم کہ مخالفین کے پاس وہ کون سی حقیقی معلومات ہیں جن کی بنیادپروہ اس کی تردیدکرسکیں گے۔

ہم جانتے ہیں کہ جنین کاخوردبینی مادہ چھ فٹ لمبے چوڑے انسان کی سطح پرایک شخص کی موجودگی کی پیشین گوئی ہے۔ناقابل مشاہدہ ایٹم میں وہ نظام پایاجاتاہے،جو شمسی نظام کی سطح اربوں میل کے دائرے میں گردش کررہاہے۔پھرشعورجس کاہم انسان کی صورت میں تجربہ کررہے ہیں، وہ اگر کائناتی سطح پرزیادہ مکمل حالت میںموجودہوتواس میں تعجب کی کیابات ہے۔اسی طرح ہمارا ضمیر اورہماری فطرت جس وسیع تر دنیاکوچاہتے ہیں وہ اگرایک ایسی دنیاکی بازگشت ہوجوفی الواقع کائنات کے پردہ میں موجودہے تو اس میں آخراستحالہ (impossibility)کا کیا پہلو ہے۔

الفعلمائے نفسیات کایہ کہنابجائے خودصحیح ہے کہ بچپن میں بعض اوقات ایسی باتیں ذہن میں پڑجاتی ہیں جوبعدکوغیرمعمولی شکل میں ظاہرہوتی ہیں۔ مگراس سے یہ استدلال کرناکہ انسان کی یہی وہ خصوصیت ہے ،جس نے مذہب کوپیداکیا،بالکل بے بنیادقیاس ہے ۔ یہ ایک معمولی واقعہ سے غیرمعمولی نتیجہ اخذکرناہے۔یہ ایسی ہی بات ہے، جیسے میں کسی کمہارکومٹی کی مورت بناتے ہوئے دیکھوں توپکاراٹھوں کہ بس یہی وہ شخص ہے ،جوذی روح انسان کاخالق ہے ۔کھلونا سازی اور انسان سازی میں بعض اعتبار سے یقیناً مشابہت ہے، مگر دونوں کی نوعیت میں اتنا فرق ہے کہ ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ پر قیاس کرنا، ایک غیر منطقی قیاس(illogical argument) ہے۔ کمہار بیشک مٹی کے کھلونوں کابنانے والا ہے، مگریہ کہناکہ اسی طرح کوئی اورکمہارتھا،جس نے خوداس کمہار کو بنایا،ایک بے تکی بات کے سوااورکچھ نہیں۔

 جدیدطرزِ فکرکی یہ عام کمزوری ہے کہ وہ معمولی واقعہ سے غیرمعمولی استدلال کرتا ہے، حالانکہ منطقی اعتبارسے ا س استدلال میں کوئی وزن نہیں، اگرایساہوتاہے کہ ایک شخص لاشعور میں دبے ہوئے خیالات کے تحت کبھی خلافِ معمول الفاظ کا منھ سے نکالنےلگتا ہے،تواس سے یہ کہاں ثابت ہوگیاکہ انبیاء کی زبان سے کائنات کے جس علم کاانکشاف ہواہے ،وہ بھی اسی طرح محض لاشعور کا ایک کرشمہ ہے۔ پہلے واقعہ کوتسلیم کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں اس سے دوسرے واقعہ کے بارے میں استدلال کرناایک غیرعلمی اورغیرمنطقی روش کامظاہرہ کرناہے، یہ صرف اس بات کاثبوت ہے کہ توجیہ کرنے والے کے پاس نبی کے غیرمعمولی کلام کوسمجھنے کے لیے کوئی اور معیار موجود نہیں تھا،اس کو ایک ہی بات معلوم تھی— یہ کہ بعض مرتبہ کوئی شخص خواب یاجنون یابے ہوشی کی حالت میں کچھ ایسی باتیں زبان سے نکالنے لگتاہے جوعام طورپرہوش کی حالت میں کسی کی زبان سے ادانہیں ہوتیں،اس نے فورًاکہہ دیاکہ بس یہی وہ چیزہے جومذہبی قسم کی باتوں کی ذمہ دار ہے، حالانکہ کسی کے پاس حقیقت کوناپنے کاایک ہی معیارہوتواس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ بطور واقعہ بھی حقیقت کوناپنے کاایک ہی معیارہوگا۔

فرض کیجیے کہ دورکے کسی سیارہ سے ایک ایسی مخلوق زمین پراترتی ہے ،جوسنتی توہے مگر بولنا نہیں جانتی، وہ صرف سماعت کی صفت سے آشناہے،تکلم کی صفت کی اسے کوئی خبرنہیں ہے۔وہ انسان کی گفتگواورتقریریں سن کریہ تحقیق شروع کرتی ہے کہ’’ آواز‘‘ کیا ہے، اور کہاں سے آتی ہے۔ اس تحقیق کے دوران اس کے سامنے یہ منظرآتاہے کہ درخت کی دوشاخیں جوباہم ملی ہوئی تھیں، اتفاقاً ہواچلی اوررگڑسے ان میں آوازنکلنے لگی۔ پھرجب ہوا رکی توآوازبندہوگئی۔ یہ واقعہ بارباراس کے سامنے آتاہے۔اب ان میں کاایک ’’ماہر‘‘ بغور اس کامطالعہ کرنے کے بعداعلان کرتاہے کہ کلام انسانی کارازمعلوم ہوگیا۔اصل بات یہ ہے کہ انسان کے منھ میں نیچے اوراوپرکے جبڑوں میں دانت کی موجودگی اس کاسبب ہے ۔جب یہ نیچے اوپرکے دانت باہم رگڑکھاتے ہیں توان سے آوازنکلتی ہے،اوراسی کوکلام کہا جاتا ہے—  دوچیزوں کی رگڑسے ایک قسم کی آوازپیداہونابجائے خودایک واقعہ ہے۔ مگراس واقعہ سے کلام انسانی کی تشریح کرناجس طرح صحیح نہیں ہے ۔اسی طرح غیرمعمولی حالات میں لاشعورسے نکلی ہوئی باتوں سے کلامِ نبوت کی تشریح نہیں کی جاسکتی ۔

بلاشعورمیں جوخیالات دبادیے جاتے ہیں وہ اکثر اوقات ایسی ناپسندیدہ خواہشیں ہوتی ہیں، جو خاندان اورسماج کے خوف سے پوری نہیں ہوسکیں ۔مثلاًکسی کے اندراپنی بہن یالڑکی کے ساتھ جنسی جذبہ پیداہوتووہ اس خیال سے اسے دبادیتاہے کہ ا س کاظاہرکرنارسوائی کاباعث ہوگا، اگر ایسا نہ ہوتووہ شاید اس کے ساتھ شادی کرنا پسند کرتا ، کسی کوقتل کرنے کاخیال ہوتوآدمی اس ڈرسے اپنے ذہن میں دفن کردیتاہے کہ اس کوجیل جاناپڑے گا وغیرہ وغیرہ ۔گویالاشعورمیں دبی ہوئی خواہشیں اکثر اوقات وہ برائیاں ہوتی ہیں، جوماحول کے خوف سے بروئے کارنہ آسکیں، اب اگرایسے کسی شخص میں ذہنی اختلال (mental disorder) پیداہواوراس کالاشعورظاہرہوناشروع کرے تواس سے کیا ظاہر ہوگا۔ظاہرہے کہ وہی برے جذبات اورغلط خواہشیں اس کی زبان سے نکلیں گی جواس کے لاشعورمیں بھری ہوئی تھیں، وہ شرکا پیغمبر ہوگا، خیر کا پیغمبرنہیں ہوسکتا۔اس کے برعکس انبیاء کی زبان سے جس مذہب کاظہورہواہے، وہ سرتاپاخیر اور پاکیزگی ہے۔ ان کاکلام اوران کی زندگی خیر اور پاکیزگی کا اتنا اعلیٰ نمونہ ہے کہ انبیاء کے سواکہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خیالات میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ وہی سماج جس کے ’’ خوف‘‘ سے انھوں نے کبھی اپنے خیالات اپنے ذہن میں چھپالیے تھے، وہ اس پردل وجان سے فریفتہ ہوجاتا ہے، اورصدیاں گزرجاتی ہیں، پھر بھی انھیں نہیں چھوڑتا۔

 جنفسیاتی نقطۂ نظرسے انسان کالاشعوراصلًاخلا(vacuum)ہے۔ اس میں پہلے سے کوئی چیز موجودنہیں ہوتی بلکہ شعورکی راہ سے گزرکرپہنچتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ لاشعورصرف انھیں واردات اورمعلومات کاگودام ہے،جوکبھی انسان کے علم میں آیاہو۔وہ نامعلوم حقائق کاخزانہ نہیں بن سکتا۔لیکن یہ حیرت انگیزبات ہےکہ انبیاء کی زبان سے جس مذہب کااعلان ہواہے،وہ ایسی حقیقتوں پرمشتمل ہے،جو وقتی نہیں، دائمی ہیں۔ وہ ایسی باتیں ہیں جو نہ توانھیں پہلے سے معلوم تھیں، نہ ان کے وقت تک پوری نسل انسانی کومعلوم ہوسکی تھیں ۔اگرحقائق کاسرچشمہ لاشعورہوتاتووہ ہرگزایسے نامعلوم حقائق کااظہارنہیں کرسکتاتھا۔

انبیاء کی زبان سے جس مذہب کاظہارہواہے اس میں فلکیات ،طبیعیات، حیاتیات، نفسیات، تاریخ تمدن ،سیاست،معاشرت،غرض سارے ہی علوم کسی نہ کسی اعتبارسے مَس ہوتے ہیں۔ ایسا ہمہ گیرکلام لاشعورتودرکنارشعورکے تحت بھی اب تک کسی انسان سے ظاہرنہیں ہواجس میں غلط فیصلے، خام اندازے،غیرواقعی بیانات اورناقص دلائل موجودنہ ہوں۔ مگر مذہبی کلام حیرت انگیزطورپراس قسم کے غلطیوں سے بالکل پاک ہے۔وہ اپنی دعوت ،اپنے استدلال اوراپنے فیصلوں میں تمام انسانی علوم کوچھوتاہے۔ مگرسیکڑوں،ہزاروں برس گزر جاتے ہیں، اگلی نسلوں کی تحقیق پچھلی نسلوں کے خیالات کوبالکل بے بنیادثابت کردیتی ہے۔ مگرمذہب کی صداقت پھربھی باقی رہتی ہے۔ آج تک حقیقی معنوں میں اس کے اندرکسی غلطی کی نشاندہی نہ ہوسکی۔ اگرکسی نے ایسی کوشش کی ہے تووہ خودہی غلط کارثابت ہواہے۔

میں ایک کتاب (1935ء) کی مثال دیتاہوں جس میں ایک ماہرفلکیات جیمزہنری بریسٹڈ (James Henry Breasted) نے انتہائی یقین کے  ساتھ اس بات کااظہارکیاہے کہ اس نے قرآن میں ایک فنی غلطی ڈھونڈنکالی ہے۔ وہ لکھتاہے:

’’مغربی ایشیاکی قوموں میں طویل مدت کے رواج اورخاص طورپراسلام کے غلبہ نے قمری کیلنڈرکودنیابھرمیں رائج کردیا۔قمری اورشمسی سال کے درمیان فرق کومحمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) اس انتہائی لغوحدتک لے گئے جوکہ تصورنہیںکیاجاسکتاہے۔وہ کیلنڈرکے مسائل کی نوعیت سے اتنازیادہ بے خبرتھے کہ قرآن میں باضابطہ انھوں نے کبیسہ کے مہینے (Intercalary Months) کاٹھہراناممنوع قراردے دیا۔ 354 دنوں کانام نہادقمری سال شمسی سال سے گیارہ دن کم ہوتاہے۔ اس لیے وہ اپنی گردش میں ہر33سال میں ایک سال اورہرصدی میں تین سال زیادہ ہوجاتا ہے۔ ایک ماہانہ مذہبی عمل جیسے رمضان اگراس وقت جون میں ہوتوچھ(6) سال بعدوہ اپریل میں آئے گا۔ 1935 میں ہجرت کو1313 سال گزرچکے ہیں، جب سے کہ ہجری سال شروع ہوا۔ مگر ہماری ہرایک صدی مسلمانوں کے قمری سال کے اعتبارسے ایک سوتین سال سے زیادہ کی ہوتی ہے ،ہمارے عام شمسی سالوں کے اعتبارسے جب 1313سال ہوتے ہیں تو مسلم سال کے اعتبارسے تقریباًاکتالیس (41) سال زیادہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کاسال ہجری وقت تحریر 1354 تک پہنچ چکا ہے ،یعنی شمسی اعتبار سے 1313سالوں میں41سال مزید۔مشرقی ملکوں کے یہودی چرچ نے اس قسم کی لغویت (absurdity)کوختم کرکے لوندیامہینوں کے اضافہ کا طریقہ (intercalation) کو اختیارکیااوراس طرح اپنے قمری کیلنڈرکوشمسی سال کے ڈھانچہ کے مطابق بنالیا۔اس بنا پرتمام مغربی ایشیااب تک اس انتہائی قدیم طریقے كے قمری کیلنڈرکی زحمت کو برداشت کررہاہے۔‘‘

Time and its Mysteries, New York. 1962, p. 56

یہاں مجھے شمسی اورقمری کیلنڈرکے فرق پرکوئی بحث نہیں کرنی ہے۔میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مصنف نے جس واقعہ کوپیغمبراسلام کی طرف منسوب کرکے ’’انتہائی لغوبے خبری‘‘ کاالزام لگایا ہے، وہ واقعہ بذاتِ خودصحیح نہیں۔ قرآن میں جس چیزکی ممانعت کی گئی ہے ،وہ کبیسہ کا مہینے ٹھہرانانہیں،بلکہ ’’نسیٔ ‘‘ ہے(التوبہ،9:37)۔ نسیٔ کے معنی عربی زبان میں تاخیرکے ہیں،یعنی موخر کرنا ہٹانا،مثلاًحوض پرایک جانورپانی پی رہاہے، اورآپ نے اس کو ہٹاکراپنے جانورکوحوض پر کھڑا کر دیا کہ پہلے آپ کاجانورپانی پی لے،اس کے بعد دوسرا پیے، تواس طرح ہٹانے کوکہیں گے —’’نَسَاَالدَّابّۃَ‘‘۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے عرب میں جوطریقے رائج ہوئے تھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چارمہینے ’’اشہرحرم‘‘ (خاص ادب واحترام کے مہینے) ہیں، یہ مہینے ذوالقعدہ ،ذوالحجہ،محرم اوررجب تھے، ان میں خونریزی اورجدال وقتال قطعاً بند کر دیا جاتا تھا۔ لوگ حج وعمرہ اورکاروبار کے لیے امن وامان کے ساتھ آزادانہ سفرکرسکتے تھے۔بعدکوجب قبائل عرب میں سرکشی پیداہوئی توانھوں نے اس قانون کی پابندی سے بچنے کے لیے نسیٔ کی رسم نکالی،یعنی جب کسی زورآور قبیلہ کی خواہش ماہ محرم میں جنگ کرنے کی ہوئی تواس سردارنے اعلان کردیاکہ اس سال ہم نے محرم کواشہرحُرُم سے نکال کراس کی جگہ صَفرکوحرام کردیا۔ دوسرے لفظوں میں محرم کواپنی جگہ سے ہٹا کر صفرکی جگہ رکھ دیا۔یہی محترم مہینوں کوآگے پیچھے کرنے کی رسم تھی، جس کونسیٔ کہا جاتا تھا، اوراسی کے متعلق قرآن (9:37)میںکہاگیا ہے کہ یہ ’’زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْر‘‘ ہے، یعنی کفر میں ایک اضافہ ہے۔

بعض لوگوں نے لکھاہے کہ عربوں میں ’’لوند‘‘ کی بھی ایک قسم کارواج تھا،یعنی مہینوں کا عدد بدل دیتے تھے،مثلاًبارہ مہینے کے چودہ بنالیے ،مگرایک مفسرقرآن کے الفاظ ہیں:

’’بعض اقوام جواپنے مہینوں کاحساب درست رکھنے کے لیے لوندکامہینہ ہرتیسرے سال بڑھاتی ہیں،وہ نسیٔ میں داخل نہیں۔‘‘

معلوم ہواکہ دورِ بے خبری میں بھی پیغمبراسلام نے بے خبری کی بات نہیں کہی، حالانکہ اگر ان کے الفاظ صرف لاشعورسے نکلے ہوئے ہوتے تواس قسم کی بے خبری کا ظاہر ہونا لازمی تھا۔

3۔  تاریخ یاسماجی مطالعہ کے حوالے سے استدلال کرنے والوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ صحیح رخ سے مذہب کامطالعہ نہیں کرتے ،اس لیے پورامذہب ان کو اصل حقیقت کے خلاف ایک اور ہی شکل میں نظرآنے لگتاہے،ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چوکورچیزکوکوئی شخص ترچھا کھڑا ہو کر دیکھے ،ظاہرہے کہ ایسے شخص کووہی چیزجوحقیقیۃًچوکورہے ،تکونی نظرآسکتی ہے۔

ان حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ مذہب کامطالعہ ایک معروضی مسئلہ (objective problem) کے طورپرکرتے ہیں ۔({ FR 1033 }) یعنی ظاہری طورپرمذہب کے نام سے جوکچھ تاریخ میں کبھی پایاگیاہے،ان سب کومذہب کے اجزاسمجھ کریکساں حیثیت سے جمع کرلینااورپھران کی روشنی میں مذہب کے بارے میں ایک رائے قائم کرنا۔ اس کی وجہ سے پہلے ہی قدم پران کی پوزیشن غلط ہوجاتی ہے۔اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ مذہب ان کی نظروں میں محض ایک سماجی عمل بن جاتاہے،نہ کہ کوئی سچائی کی دریافت ۔ایک چیزجوسچائی کی دریافت کی نوعیت رکھتی ہو،وہ بذاتِ خودایک آئیڈیل ہوتی ہے ، اوراس کے اپنے آئیڈیل کی روشنی میں اس کے مظاہراوراس کی تاریخ کامطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جوچیزسماجی عمل کی حیثیت رکھتی ہو،اس کااپناکوئی آئیڈیل نہیں ہوتابلکہ سماج کاعمل ہی ا س کی حقیقت کاتعین کرتاہے۔کوئی چیزجوسماجی آداب یاسماجی روایات کی حیثیت رکھتی ہو۔اس کی یہ حیثیت صرف اس وقت تک قائم رہتی ہے، جب تک سماج نے بالفعل اس کویہ حیثیت دے رکھی ہو،اگرسماج اس کوچھوڑکراس کی جگہ کوئی اورطریقہ اختیارکرلے توپھروہ ایک تاریخی چیزہوجاتی ہے، اورسماجی روایت کی حیثیت سے اس کاکوئی مقام باقی نہیں رہتا۔

مگرمذہب کامعاملہ اس سے مختلف ہے۔مذہب کامطالعہ ہم اس طرح نہیں کرسکتے ، جس طرح ہم سواری،لباس اورمکان مطالعہ كاکرتے ہیں۔ کیوں کہ مذہب اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے، جس کو سماج اپنے ارادہ سے قبول کرتاہے یااسے قبول نہیں کرتایاقبول کرتاہے توناقص شکل میں۔اس کی وجہ سے مذہب اپنی اصولی حیثیت میں توہمیشہ یکساں رہتاہے،مگرسماج کے اندررواج یافتہ ہیئت کے اعتبار سے اس کی شکلیں مختلف ہوجاتی ہیں۔ اس لیے سماج کے اندررواج یافتہ مذاہب کی یکساں فہرست بندی کرکے ہم مذہب کوسمجھ نہیں سکتے۔

مثال کے طورپرجمہوریت (democracy)کو لیجیے۔ جمہوریت ایک مخصوص سیاسی معیار کا نام ہے، اورکسی حکومت کواس معیارکی روشنی ہی میں جمہوری یاغیرجمہوری کہاجاسکتاہے ،یعنی جمہوریت کے اپنے معیار کی روسے تمام ملکوں کودیکھاجائے گا، اورصرف اسی رویہ کوجمہوری قرار دیا جائے گاجوحقیقۃً جمہوری ہو۔اس کے برعکس، اگرجمہوریت کامطالعہ اس طرح کیاجائے کہ ہروہ ملک جس نے اپنے نام کے ساتھ’’جمہوری‘‘کالفظ لگارکھاہے،اس کو حقیقۃً جمہوری فرض کرکے جمہوریت کوسمجھنے کی کوشش کی جائے توپھرجمہوریت ایک بے معنی لفظ بن جائے گا ۔کیوں کہ ایسی حالت میں امریکا کی جمہوریت چین کی جمہوریت سے مختلف ہوگی،انگلینڈ کی جمہوریت مصرکی جمہوریت سے ٹکرائے گی، ہندوستان کی جمہوریت کاپاکستان کی جمہوریت سے کوئی جوڑنہیں ہوگا۔اس کے بعدجب ان سارے مشاہدات کوارتقائی ڈھانچہ میں رکھ کر دیکھا جائے گا تووہ اورزیادہ بے معنی ہوجائے گا۔کیوں کہ فرانس جو جمہوریت کامقام پیدائش ہے، اس کامطالعہ بتائے گاکہ جمہوریت اپنے بعدکے ارتقائی مرحلہ کے مطابق نام ہے، جنرل ڈیگال(1890-1970ء)کی فوجی آمریت کا۔

اس طریق مطالعہ کایہ نتیجہ ہے کہ مذہب کے لیے خداکی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔مذہب کی تاریخ میں اس کی مثال موجودہے کہ مذہب خداکے بغیربھی ہوسکتاہے۔یہ مثال بدھ ازم کی ہے،جو’’مذہب‘‘ ہونے کے باوجودخداکے تصورسے خالی ہے۔ اس لیے آج بہت سے لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ مذہب کامطالعہ خداسے الگ کرکے کیا جانا چاہیے،اگراس ضرورت کوتسلیم کرلیاجائے کہ لوگوں کے اندراخلاق اورتنظیم پیداکرنے کے لیے مذہبی نوعیت کی کوئی چیزضروری ہے تواس مقصدکے لیے لازمی طورپرخداکومانناضروری نہیں،بے خدامذہب بھی اس ضرورت کو پورا کرسکتا ہے، چنانچہ یہ لوگ بدھ ازم کے حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ اب موجودہ ترقی یافتہ دورمیں اس قسم کا مذہبی ڈھانچہ سماج کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ان حضرات کے نزدیک دورِجدید کا خدا خود سماج اور اس کے سیاسی اورمعاشی مقاصدہیں۔ اس خداکاپیغمبرپارلیمنٹ ہے ،جس کے ذریعہ وہ اپنی مرضی سے انسانوں کو باخبرکرتاہے، اوراس کی عبادت گاہیں ،مسجداورگرجانہیں ،بلکہ ڈیم اورکارخانے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ (ملاحظہ ہوجولین ہکسلے کی کتاب’’مذہب بغیرالہام‘‘)

مذہب کواقرارِخداسے انکارِخداتک پہنچانے میں ارتقائی مطالعہ کابھی دخل ہے۔ یہ حضرات یہ کرتے ہیں کہ پہلے ان تمام چیزوں کوجمع کرلیتے ہیں جوکبھی مذہب کے نام سے منسوب رہی ہیں، اور اس کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ان کے درمیان ایک ارتقائی ترتیب قائم کرلیتے ہیں، جس میں ایسے تمام پہلوؤں کویکسرنظراندازکردیاجاتاہے،جس سے ان کی مزعومہ ارتقائی ترتیب مشتبہ ہوسکتی ہو، مثلاً انسانیات(anthropology)اورسماجیات (sociology)کے ماہرین نے زبردست مطالعہ اور تحقیق کے بعدیہ ’’دریافت‘‘ کیاہے کہ خداکاتصورکئی خداؤں سے شروع ہوااوربتدریج ترقی کرتے کرتے ایک خداتک پہونچا، لیکن یہ ترقی ان کے نزدیک الٹی ہوئی ہے۔کیوں کہ خداکے تصورنے ایک خداکی شکل اختیار کرکے اپنے آپ کوتضادمیں مبتلاکرلیاہے، ’’کئی خدا‘‘ کاتصورکم ازکم اپنے اندریہ قدرت رکھتاتھاکہ مختلف خداؤں کوماننے والے ایک دوسرے کوتسلیم کرتے ہوئے باہم مل جل کر رہیں۔مگر’’ایک خدا‘‘کے عقیدے نے قدرتی طورپرتمام دوسرے خداؤں اوران کے ماننے والوں کو باطل ٹھہرایااوربرترمذہب (Higher Religion) کاتصورپیداکیا،جس کی وجہ سے قوموں اور گروہوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں شروع ہوگئیں ، اس طرح خداکے تصور نے غلط سمت میں ارتقا کرکے خودہی اپنے لیے موت کاسامان مہیاکردیاہے،کیوں کہ ارتقا کا قانون یہی ہے ۔

Man in the Modern World, p. 112

مگراس ارتقائی ترتیب میں صریح طورپراصل واقعہ کونظراندازکردیاگیاہے،کیوں کہ معلوم تاریخ کے مطابق سب سے پہلے پیغمبرحضرت نوح تھے ،اوران کی دعوت کے متعلق ثابت ہے کہ وہ ایک خداکی دعوت تھی ،اس کے علاوہ تعددآلہہ (Polytheism) کامطلب بھی مطلق تعددنہیں ہے،کبھی کوئی قوم ان معنوں میں مشرک نہیں رہی ہے کہ وہ بالکل یکساں نوعیت کے کئی خدامانتی ہو۔اس کے برعکس تعددآلہہ کامطلب ایک بڑے خداکومان کرکچھ اس کے مقربین خاص کا اقرار کرنا ہے ،جوذیلی خداؤں کے طورپرکام کرتے ہیں۔ شرک کے ساتھ ہمیشہ ایک ’’خدائے خدائگان‘‘ کا تصور پایا جاتا رہا ہے۔ ایسی حالت میں ’’ارتقائی مذہب‘‘ ایک بے دلیل عقیدہ کے سوا اور کیا ہے۔

مارکسی نظریۂ تاریخ اورزیادہ بے معنی ہے۔ یہ نظریہ اس مفروضہ پرمبنی ہے کہ اقتصادی حالات ہی وہ اصل عامل ہیں، جوانسان کی تعمیروتشکیل کرتے ہیں، مذہب جس زمانے میں پیداہواوہ جاگیرداری اورسرمایہ داری نظام کازمانہ تھا۔ اب چوں کہ جاگیرداری اورسرمایہ داری نظام استحصال اورلوٹ کھسوٹ کانظام ہے ،اس لیے اس کے درمیان پیداہونے والے اخلاقی ومذہبی تصورات بھی یقینی طورپراپنے ماحول ہی کاعکس ہوں گے وہ لوٹ کھسوٹ کے نظریات ہوں مگریہ نظریہ علمی حیثیت سے کوئی وزن رکھتاہے،اورنہ تجزیہ سے ا س کی تصدیق ہوتی ہے ۔

یہ نظریہ انسانی ارادہ کی بالکلیہ نفی کردیتاہے، اوراس کوصرف معاشی حالات کی پیداوار قرار دیتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ آدمی کی اپنی کوئی ہستی نہیں، جس طرح صابن کے کارخانے میں صابن ڈھلتے ہیں،اسی طرح آدمی بھی اپنے ماحول کے کارخانے میں ڈھلتاہے،وہ الگ سے سوچ کرکوئی کام نہیں کرتابلکہ جوکچھ کرتاہے،اسی کے مطابق سوچنے لگتاہے،اگریہ واقعہ ہے تومارکس،جوخودبھی ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘کے اندرپیداہواتھا،اس کے لیے کس طرح ممکن ہواکہ وہ اپنے وقت کے معاشی حالات کے خلاف سوچ سکے ۔کیااس نے زمین کامطالعہ چاندپرجاکرکیاتھا،اگرمذہب کو پیدا کرنے والی چیزوقت کااقتصادی نظام ہے توآخرماركس ازم بھی وقت کے اقتصادی نظام کی پیداوار کیوں نہیں ہے۔ مذہب کی جوحیثیت ماركس ازم کوتسلیم نہیں ہے، وہی حیثیت اس کے اپنے لیے کس طرح جائزہوگی— حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اشتعال انگیزحدتک لغوہے،اس کے پیچھے کوئی بھی علمی اورعقلی دلیل موجود نہیں۔

تجربے سے بھی اس نظریے کی غلطی واضح ہوچکی ہے ۔روس کی مثال اس کوسمجھنے کے لیے کافی ہے،جہاں تقریباًآدھی صدی سے اس نظریہ کومکمل غلبہ حاصل ہے، طویل ترین مدت سے زبردست پروپیگنڈہ ہورہاہےکہ روس کے مادی حالات بدل گئے ہیں،وہاں کانظام پیداوار،نظام تبادلہ اور نظامِ تقسیم دولت سب غیرسرمایہ دارانہ ہوچکاہے،مگراسٹالن کے مرنے کے بعدخودروسی لیڈروں کی طرف سے تسلیم کیاگیاہے کہ اسٹالن کے زمانۂ حکومت میں روس کے اندرظلم وجبر کانظام رائج تھا، اور عوام کااسی طرح استحصال کیاجارہاتھا،جیسے سرمایہ دارانہ ملکوں میں ہوتاہے، اوراگراس حقیقت کو سامنے رکھاجائے کہ رو س میں پریس پرحکومت کامکمل کنٹرول ہونے کی وجہ سے اسٹالن کے لیے یہ ممکن ہوسکاکہ وہ اپنے ظلم اوراستحصال کودنیاکے سامنے عدل وانصاف کے نام سے مشہور کرے، اور پریس کایہی کنٹرول اب بھی وہاں جاری ہے ،تویہ بات سمجھ میں آجاتی ہے آج بھی خوبصورت پروپیگنڈے کے پس منظرمیں روس کے اندروہی سب کچھ ہورہاہے،جواسٹالن کے زمانے میں ہوتا تھا۔ روسی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس(فروری1956ء ) نے اسٹالن کے مظالم کاانکشاف کیا تھا۔ اس کے بعداگرپارٹی کی مثلاًپچیسویںکانگریس اس کے دوسرے جانشینوں کی درندگی کا راز فاش کرے تواس میں ہرگز اچنبھے کی کوئی بات نہ ہو گی (اکتوبر1964ء میں خروشچیف کی برطرفی اوراس کے بعدکے واقعات سے اس کی تصدیق ہوچکی ہے )  —آدھی صدی کے اس تجربے سے جونتیجہ نکلاہے، اس کامطلب صاف طورپریہ ہے کہ پیداواراورتبادلہ کا نظام خیالات کی صورت گری سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ،اگرانسانی ذہن نظام پیداوار کا تابع ہوتااوراسی کے مطابق خیالات پیدا ہوا کرتے تواشتراکی حکومت میںظلم اوراستحصال کی ذہنیت بھی یقینی طورپرختم ہوجانی چاہیے تھی۔ جب کہ وہاں پیداوار کا نظام اشتراکی اصول کے مطابق بالکل بدل دیا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے خلاف دورِ جدید کا پورا استدلال ایک قسم کا علمی سفسطہ (Scientific Sophism) ہے، ا س کے سوااورکچھ نہیں۔ اس نام نہاد علمی استدلال کی حقیقت صرف یہ ہے کہ ’’کہیں کی اینٹ کہیں کاروڑا،بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ یہ صحیح ہے کہ واقعات کے مطالعہ کے لیے ’’علمی طریقہ‘‘ اختیارکیاجاتاہے، مگرعلمی طریقہ محض ایک طریقہ ہونے کی وجہ سے صحیح نتائج تک نہیں پہونچاسکتا،اسی کے ساتھ دوسرے ضروری پہلوؤں کوملحوظ رکھنابھی ضروری ہے ۔ مثلاً ادھوری اور یک رخی معلومات پراگرعلمی طریقہ کوآزمایاجائے تووہ بظاہرعلمی ہونے کے باوجودناقص اور غلط نتیجے ہی تک پہنچائے گا۔

جنوری 1964ء کے پہلے ہفتہ میں نئی دہلی میں مستشرقین کی ایک بین الاقوامی کانگرس ہوئی، جس میں بارہ سوعلمائے مشرقیات (orientalists)شریک ہوئے۔اس موقع پرایک صاحب نے ایک مقالہ پڑھا جس میں کئی مسلم یادگاروں کے بارے میں دعویٰ کیاگیاتھاکہ وہ مسلمانوں کی بنوائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ ہندوراجاؤں کی بنوائی ہوئی ہیں ۔مثلاًقطب مینارجو قطب الدین ایبک کی طرف منسوب ہے ،وہ دراصل وشنودھوج ہے ،جس کواب سے 23سوسال پہلے سمندرگپت نے بنوایا تھا، بعد کے مسلم مورخین نے اس کوغلط طورپرقطب مینارکے نام سے پیش کیا،اس کی دلیل یہ ہے کہ قطب مینار میں ایسے پتھرلگے ہوئے ہیں، جوبہت پرانے ہیں، اورقطب الدین ایبک سے بہت پہلے تراشے گئے تھے۔

بظاہریہ ایک علمی ا ستدلال ہے ،کیوں کہ یہ واقعہ ہے کہ قطب مینارمیں ایسے کچھ پتھر موجود ہیں، مگر قطب مینارکے مطالعہ کے لیے صرف اس کے پرانے پتھروں کاحوالہ دینے سے علمی استدلال کا حق ادانہیں ہوتا،اسی کے ساتھ اوربہت سے پہلوؤں کوسامنے رکھنا ضروری ہے،اورجب ہم ایسا کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ یہ توجیہ قطب مینارپرپوری طرح چسپاں نہیں ہوتی،اس کے بجائے یہ دوسری توجیہ زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ اس کے پرانے پتھردراصل پرانی عمارتوں کے کھنڈرسے حاصل کیے گئے جس طرح دوسری قدیم سنگی عمارتوں میں کثرت سے اس کی مثالیں موجودہیں ،پھرجب اس دوسری توجیہ کوقطب مینارکی ساخت ،اس کے نقشۂ تعمیر ،پرانے پتھروں کااندازِ نصب، مینار کے ساتھ ناتمام مسجد اور جوابی مینارکے بقیہ آثارنیزتاریخی شہادتوں کے ساتھ ملاکردیکھیں تو ثابت ہو جاتا ہے کہ یہی دوسری توجیہ صحیح ہے ،اورپہلی توجیہ ایک مغالطہ کے سوااورکچھ نہیں۔

مخالفین مذہب کامقدمہ بھی بالکل ایساہی ہے ،جس طرح مذکورہ بالامثال میں چندپتھروں کو ایک خاص رنگ دے کرسمجھ لیاگیاہے کہ علمی استدلال حاصل ہوگیا ۔اسی طرح چندجزئی اور اکثر اوقات غیرمتعلق واقعات کوناقص رخ سے پیش کرکے یہ سمجھ لیاگیاہے کہ علمی طریق مطالعہ نے مذہب کی تردیدکردی ،حالانکہ واقعہ کے تمام اجزاء کوصحیح رخ سے دیکھا جائے توبالکل دوسرانتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی صداقت کایہ بذاتِ خودایک کافی ثبوت ہے کہ اس کو چھوڑنے کے بعدبہترین ذہن بھی الل ٹپ باتیں کرنے لگتے ہیں، اس کے بعدآدمی کے پاس مسائل پر غور وفکر کے لیے کوئی بنیادباقی نہیں رہتی ،مخالفین ِ مذہب کی فہرست میں جونام ہیں ،وہ اکثرنہایت ذہین اور ذی علم افرادہیں ۔بہترین دماغ،وقت کے بہترین علوم سے آراستہ ہوکراس میدان میں اترے ہیں، مگران اہل دماغ نے ایسی ایسی مہمل باتیں لکھی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتاکہ اس کولکھتے وقت آخر ان کا دماغ کہاں چلاگیاتھا۔یہ سارالٹریچر بے یقینی ،تضاد،اعتراف ناواقفیت اورالل ٹپ استدلال سے بھراہواہے۔کھلی ہوئی حقیقتوں کو نظراندازکرنااورمعمولی تنکے کے سہارے دعووں کے پل کھڑے کرنا۔ یہ ان کاکل کارنامہ ہے ۔صورتِ حال بلاشبہ اس بات کاایک قطعی ثبوت ہے کہ ان حضرات کا مقدمہ صحیح نہیں، کیوں کہ بیان اوراستدلال کی یہ خرابیاں صرف غلط مقدمہ کی خصوصیت ہیں،صحیح مقدمے میں کبھی یہ چیزیں پائی نہیں جاسکتی ۔

مذہب کی صداقت اورمخالفین مذہب کے نظریے کی غلطی اس سے بھی واضح ہے کہ مذہب کومان کرزندگی اورکائنات کاجونقشہ بنتاہے،وہ ایک نہایت حسین وجمیل نقشہ ہے،وہ انسان کے اعلیٰ افکارسے اسی طرح مطابق ہے ،جیسے مادی کائنات ریاضیاتی معیاروں کے عین مطابق ہے، اس کے برعکس مخالفِ مذہب فلسفہ کے تحت جونقشہ بنتاہے، وہ انسانی ذہن سے بالکل غیرمتعلق ہے، یہاں میں برٹرینڈرسل کا ایک اقتباس نقل کروں گا :

’’انسان ایسے اسباب کی پیداوار ہے،جن کاپہلے سے سوچا سمجھاکوئی مقصد نہیں۔ اس کاآغاز، اس کی نشوونما،اس کی تمنائیں اور اس کے اندیشے ، اس کی محبت اوراس کے عقائد، سب محض ایٹموں کی اتفاقی ترتیب کانتیجہ ہیں۔ اس کی زندگی کی انتہاقبرہے، اوراس کے بعد کوئی چیزبھی اسے زندگی عطانہیں کرسکتی ۔صدیوں کی جدوجہد،تمام قربانیاں ،بہترین احساسات اورعبقریت کے روشن کارنامے سب نظامِ شمسی کے خاتمہ کے ساتھ فناہوجانے والی چیزیں ہیں۔ انسانی کامرانیوں کاپورامحل ناگزیرطورپرکائنات کے ملبے کے نیچے دب کررہ جائے گا،یہ باتیں اگربالکل قطعی نہیں تو وہ حقیقت سے اتنی قریب (so nearly certain) ہیں کہ جوفلسفہ بھی اس کاانکارکرے گا وہ باقی نہیں رہ سکتا۔‘‘

Limitations of Science, p. 133

یہ اقتباس گویاغیرمذہبی مادی فکرکاخلاصہ ہے۔ اس کے مطابق ساری زندگی نہ صرف یہ کہ بالکل تیرہ وتارنظرآتی ہے ،بلکہ اگرزندگی کی مادی تعبیرکولیاجائے توپھرخیروشرکاکوئی قطعی معیارباقی نہیں رہتا،اس کی روسے انسانوں پربم گراناکوئی ظالمانہ فعل نہیں،کیوں کہ انسانوں کوبہرحال ایک دن مرناہے۔ا س کے برعکس مذہبی فکرمیں امیدکی روشنی ہے، اس میں زندگی اورموت دونوں بامعنی نظرآتے ہیں، اس میں ہماری نفسیات کے تمام تقاضے اپنی جگہ پالیتے ہیں، ایک تصور کے ریاضیاتی ڈھانچے فٹ ہوجانے کے بعداگرسائنسداں مطمئن ہوجاتاہےکہ اس نے حقیقت پالی تومذہبی تصور کا انسانی ذہن میں پوری طرح بیٹھ جانایقینی طورپراس بات کاثبوت ہے کہ یہی وہ حقیقت ہے ، جس کو انسان کی فطرت تلاش کررہی تھی، اس کے بعدہمارے پاس اس کے انکارکے لیے کوئی واقعی بنیاد نہیں رہتی ۔

یہاں میں ایک امریکی ریاضی داں (Earl Chester Rex) کے الفاظ نقل کروں گا’’میں سائنس کے اس تسلیم شدہ اصول کواستعمال کرتاہوں جوزیادہ مختلف نظریوں میں سے کسی ایک انتخاب کے لیے کام میں لایاجاتاہے۔ اس اصول کے مطابق اس نظریے کو اختیار کرلیا جاتا ہے، جو مقابلۃ ً  نہایت سادگی کے ساتھ تمام متنازعہ فیہ مسائل کی تشریح کردے،بہت عرصہ ہواجب یہی اصول ٹالمی کے نظریے(Ptolemaic Theory) اورکوپرنیکس کے نظریے کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کیاگیا ،اول الذکرکادعویٰ تھاکہ زمین نظامِ شمسی کامرکزہے،ا سکے برعکس ثانی الذکر کہتا تھا کہ سورج نظامِ شمسی کا مرکز ہے، ٹولومی کانظریہ اس قدرپیچیدہ اورالجھاہواتھاکہ زمین کی مرکزیت کانظریہ ردکر دیا گیا۔‘‘

The Evidence of God, p. 179

مجھے اعتراف ہے کہ میرایہ استدلال بہت سے لوگوں کے لیے کافی نہیں ہوگا،ان کے مادی ذہن کے چوکھٹے میں کسی طرح خدااورمذہب کی بات نہیں بیٹھے گی۔مگرجوچیزمجھے مطمئن کرتی ہے ، وہ یہ کہ ان حضرات کاعدمِ اطمینان حقیقۃً مذہب کے حق میں استدلال کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ ان کاوہ کنڈیشنڈ ذہن ہے ،جومذہبی استدلال کوقبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، جیمزجنیز نے اپنی کتاب ’’پراسرارکائنات‘‘ کے آخرمیں نہایت صحیح لکھاہےکہ میرے خیال میں ہمارے جدید ذہن واقعات کی مادی توجیہ کے حق میں ایک طرح کاتعصب  رکھتے ہیں :

Our modem minds have, I think, a bias towards mechanical interpretation. (Mysterious Universe, p. 189)

وھٹکر چیمبرز (Whittaker Chambers, 1901-1961)نے اپنی کتاب شہادت (Witness) میں اپنے ایک واقعہ کاذکرکیاہے ،جوبلاشبہ اس کی زندگی کے لیے ایک نقطۂ انقلاب (turning point) بن سکتاتھا۔وہ اپنی چھوٹی بچی کی طرف دیکھ رہاتھاکہ اس کی نظربچی کے کان پرجاپڑی اورغیرشعوری طورپروہ اس کی ساخت کی طرف متوجہ ہوگیا،اس نے اپنے جی میں سوچا۔’’یہ کتنی غیرممکن بات ہے کہ ایسی پیچیدہ اورنازک چیزمحض اتفاق سے وجودمیں آجائے ،یقیناًیہ پہلے سے سوچے سمجھے نقشے کے تحت ہی ممکن ہوئی ہوگی‘‘۔مگراس نے جلدہی اس خیال کواپنے ذہن سے نکال دیا،کیوں کہ اسے احساس ہواکہ اگروہ اس کوایک منصوبہ مان لے تواس کامنطقی نتیجہ یہ ہوگاکہ اسے منصوبہ ساز(خدا) کوبھی مانناہوگا،اوریہ ایک ایساتصورتھا،جسے قبول کرنے کے لیے اس کا ذہن آمادہ نہیں تھا۔ اس واقعہ کاذکرکرتے ہوئے ٹامس ڈیوڈپارکس (Thomas David Parks) لکھتا ہے :

’’ میں اپنے پروفیسروں اورریسرچ کے سلسلے میں اپنے رفقائے کارمیں بہت سے سائنس دانوں کے بارے میں جانتاہوں کہ علم کیمیااورطبیعیات کے مطالعہ وتجربہ کے دوران میں انھیں بھی متعدد مرتبہ اس طرح کے احساسات سے دوچارہوناپڑا۔‘‘

The Evidence of God in an Expanding Universe. Edited by John Clover Monsma, New York ,1958, p.73-74

نظریۂ ارتقا کی صداقت پرموجودہ زمانے کے ’’سائنسداں‘‘ متفق ہوچکے ہیں۔ارتقا کاتصور ایک طرف تمام علمی شعبوں پرچھاتاجارہاہے،ہروہ مسئلہ جس کوسمجھنے کے لیے خداکی ضرورت تھی،اس کی جگہ بے تکلف ارتقا کاایک خوبصورت بت بناکررکھ دیاگیاہے، مگردوسری طرف عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)کانظریہ ،جس سے تمام ارتقائی تصورات اخذ کیے گئے ہیں، اب تک بے دلیل ہے ،حتیٰ کہ بعض علما نے صاف طورپرکہہ دیاہے کہ اس تصورکوہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کاکوئی بدل ہمارے پاس موجودنہیں ہے ۔ سرآرتھرکیتھ (Sir Arthur Keith, 1866-1955)نے1953ء میں کہاتھا:

"Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable." (Islamic Thought, Dec. 1961)

یعنی ارتقا ایک غیرثابت شدہ نظریہ ہے،اوروہ ثابت بھی نہیں کیاجاسکتا،ہم اس پرصرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کاواحدبدل تخلیق کاعقیدہ ہے جوسائنسی طورپر ناقابلِ فہم ہے، گویا سائنسدان ارتقا کے نظریے کی صداقت پرصرف اس لیے متفق ہوگئے ہیں کہ اگروہ چھوڑدیں تولازمی طورپرانھیں خداکے تصورپرایمان لاناپڑے گا۔

ظاہرہے کہ جولوگ مادی طرزتعبیرکے حق میں اس قسم کے تعصبات رکھتے ہوں، وہ انتہائی کھلے ہوئے واقعات سے بھی کوئی سبق نہیں لے سکتے تھے،اورمجھے اعتراف ہے کہ ایسے لوگوں کومطمئن کرنامیرے بس سے باہرہے ۔

اس تعصب کی بھی ایک خاص وجہ ہے ،یہاں میں ایک امریکی عالم طبیعیات (George Herbert Blount)کے الفاظ نقل کروں گا:

’’خداپرستی کی معقولیت اورانکارخداکاپھسپھساپن بجائے خودایک آدمی کے لیے عملاً خدا پرستی اختیارکرنے کاسبب نہیں بن سکتا،لوگوں کے دل میں یہ شبہ چھپا ہوا ہے کہ خدا کو ماننے کے بعدآزادی کاخاتمہ ہوجائے گا،وہ علماجوذہنی آزادی (intellectual liberty)کودل وجان سے پسندکرتے ہیں، آزادی کی محدودیت کاکوئی تصوران کے لیے وحشت ناک ہے۔‘‘

The Evidence of God, P.130

چنانچہ جولین ہکسلے نے نبوت کے تصورکو’’ناقابل برداشت اظہاربرتری‘‘قراردیاہے ۔ کیوں کہ کسی کونبی ماننے کامطلب یہ ہے کہ اس کویہ حیثیت دی جائے کہ اس کی بات خداکی بات ہے، اوراس کوحق ہے کہ وہ جوکچھ کہے تمام لوگ اس کوقبول کرلیں ۔لیکن جب انسان کی حیثیت یہی ہے کہ وہ خالق نہیں مخلوق ہے ،وہ خدانہیں بلکہ خداکابندہ ہے،تواس صورت واقعہ کوکسی خودساختہ تصورکی بناپرختم نہیں کیاجاسکتا۔ہم حقیقت کوبدل نہیں سکتے،ہم صرف اس کااعتراف کرسکتے ہیں۔ اب اگر شترمرغ کاانجام ہم اپنے لیے پسندنہیں کرتے توہماری بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جوکچھ ہے،اسے مان لیں ،نہ یہ کہ جوکچھ ہے،اس کا انکار کردیں۔ حقیقت کاانکارکرکے آدمی صرف اپنانقصان کرتا ہے، وہ حقیقت کاکچھ نہیں بگاڑتا۔

 

استدلال کا طریقہ

مذہب کے خلاف دورِجدید کاجومقدمہ ہے، وہ اصلاً طریقِ استدلال کامقدمہ ہے، یعنی اس کامطلب یہ ہے کہ علم کی ترقی نے حقیقت کے مطالعہ کاجواعلیٰ اورارتقا یافتہ طریقہ معلوم کیا ہے، مذہب کے دعوے اورعقیدے اس پرپورے نہیں اترتے۔یہ جدید طریقۂ مشاہدہ اورتجربہ کے ذریعہ حقائق کومعلوم کرنے کاطریقہ ہے، اب چوں کہ مذہب کے عقائدماورائے احساس دنیاسے متعلق ہونے کی وجہ سے تجربہ اورمشاہدہ میں نہیںآسکتے ،اور ان کااستدلال تمام ترقیاس اوراستقراء پرمبنی ہے، اس لیے وہ غیرحقیقی ہیں ،ان کی کوئی علمی بنیادنہیں۔

مثلاًخداکے اثبات کے لیے ہم یہ نہیں کرتے کہ خودخداکوکسی دوربین کے ذریعہ سے دکھا دیں، بلکہ یوں استدلال کرتے ہیں کہ کائنات کانظم اوراس کی معنویت اس بات کاثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی خدائی ذہن موجودہے، اس طرح ہماری دلیل براہِ راست خداکوثابت نہیں کرتی بلکہ ایک ایسے قرینہ کوثابت کرتی ہے، جس کے منطقی نتیجہ کے طورپرخداکومانناپڑے۔

مگریہ مقدمہ بجائے خودصحیح نہیں ۔جدیدطریقۂ مطالعہ کایہ مطلب نہیں ہے کہ صرف وہی چیز اپنا حقیقی وجودرکھتی ہے، جوبراہ راست ہمارے تجربے میں آئی ہو،بلکہ براہِ راست تجربے میں آنے والی چیزوں کی بنیادپرجوعلمی قیاس (inference)کیاجاتاہے، وہ بھی اسی طرح حقیقت ہوسکتاہے، جیسے کوئی تجربہ۔نہ تجربہ محض تجربہ ہونے کی بناپرصحیح ہے، اورنہ قیاس محض قیاس ہونے کی بنا پر غلط، ہر ایک میں صحت اورغلطی دونوں کاامکان ہے۔

پہلے زمانے میں سمندری جہازلکڑی کے بنائے جاتے تھے ۔کیوں کہ تصوریہ تھا،پانی پروہی چیزتیرسکتی ہے، جووزن میں پانی سے ہلکی ہو۔جب یہ دعویٰ کیاگیاکہ لوہے کے جہازبھی پانی پراسی طرح تیرسکتے ہیں، جس طرح لکڑی کے جہازسطح بحرپرچلتے ہیں تواس بناپراس کو تسلیم کرنے سے انکارکردیاگیاکہ لوہاوزنی ہونے کی وجہ سے پانی کی سطح پرتیرہی نہیں سکتا۔ کسی لوہارنے اس دعویٰ کوغلط ثابت کرنے کے لیے پانی کے ٹب میں لوہے کانعل ڈال کر دکھادیاکہ وہ پانی کی سطح پر تیرنے کے بجائے ٹب کی تہ میں بیٹھ جاتاہے ۔بظاہریہ ایک تجربہ تھا، مگریہ تجربہ صحیح نہیں تھا۔ کیوں کہ اس نے اگرپانی میں نعل کے بجائے لوہے کاتسلہ ڈالاہوتاتواسے معلوم ہوتاکہ دعویٰ کرنے والے کادعویٰ صحیح ہے۔

اسی طرح ابتداء میں جب کم طاقت کی دوربینوں سے آسمان کامشاہدہ کیاگیاتوبہت سے ایسے اجسام مشاہدے میں آئے جوپھیلے ہوئے نورکی ماننددکھائی دے رہے تھے۔اس مشاہدہ کی بناپریہ نظریہ قائم کرلیا گیاکہ یہ گیسی بادل ہیں، جوستارے بننے  پہلے مرحلے سے گزررہے ہیں۔ مگر جب مزید طاقت کی دوربینیں تیارہوئیں اوران کے ذریعہ ازسرِ نوان اجسام کو دیکھا گیا تو نظر آیا کہ جو چیز پہلے نورانی بادل کی شکل میں دکھائی دیتی تھی،وہ دراصل بے شمارستاروں کامجموعہ تھا، جو غیرمعمولی دوری کی وجہ سے بادل کی مانندنظرآرہاتھا۔

معلوم ہواکہ مشاہدہ اورتجربہ نہ صرف یہ کہ بذاتِ خودعلم کے قطعی ذرائع نہیں ہیں، بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ علم صرف ان چیزوں کانام نہیں ہے جوبراہِ راست ہمارے مشاہدہ وتجربہ میں آتی ہوں۔ دورِجدیدنے بیشک بہت سے آلات اورذرائع دریافت کرلیے ہیں، جن سے وسیع پیمانے پرتجربہ ومشاہدہ کیاجاسکتاہے۔ مگریہ آلات وذرائع جن چیزوں کا ہمیں تجربہ کراتے ہیں، وہ صرف کچھ اوپری اورنسبتاًغیراہم چیزیں ہوتی ہیں ۔ اس کے بعدان مشاہدات وتجربات کی بنیادپرجونظریات قائم کیے جاتے ہیں، وہ سب کے سب غیرمرئی ہوتے ہیں ۔ نظریات کے ا عتبار سے د یکھاجائے توساری سائنس کچھ مشاہدات کی توجیہ کانام ہے ، یعنی خودنظریات وہ چیزیں نہیں ہیں،جوہمارے مشاہدہ یاتجربے میں آئے ہوں۔ بلکہ کچھ تجربات ومشاہدات نے سائنس دانوں کویہ ماننے پر مجبور کیا ہے کہ یہاں فلاں حقیقت موجودہے۔ اگرچہ وہ خودمشاہدہ میں نہیں آئی ،کوئی سائنس داں یامادہ پرست فورس، انرجی ،نیچر،قانونِ فطرت،وغیرہ الفاظ استعمال کیے بغیرایک قدم آگے نہیں چل سکتا۔ مگرکوئی بھی سائنس داں نہیں جانتاکہ قوت یانیچرکیاہے ۔سوا اس کے معلوم واقعات وظواہرکی نامعلوم اور ناقابلِ مشاہدہ علّت کے لیے چندتعبیری الفاظ وضع کرلیے گئے ہیں، جن کی حقیقت معنوی کی تشریح سے ایک سائنس داں بھی اسی طرح عاجزہے ،جس طرح اہلِ مذاہب خداکی تشریح وتوصیف سے۔دونوں اپنی جگہ ایک نامعلوم علت کائنات پرغیبی اعتقادرکھتے ہیں، ڈاکٹر الکسس کیرل کے الفاظ میں

’’ریاضیاتی کائنات قیاسات اورمفروضات کاایک شاندارجال ہے ،جس میں علامتوں کی مساوات(equation of symbols)پرمشتمل ناقابلِ بیان مجردات (abstractions) کے سوااورکچھ نہیں۔‘‘

Man the Unknown, p. 15

سائنس ہرگزیہ دعویٰ نہیں کرتی اورنہیں کرسکتی کہ حقیقت صرف اسی قدرہے، جوحواس کے ذریعہ بلاواسطہ ہمارے تجربہ میں آئی ہو۔ یہ واقعہ کہ پانی ایک رقیق اورسیال چیزہے، اس کوہم براہ راست اپنی آنکھوں کے ذریعہ دیکھ لیتے ہیں، مگریہ واقعہ کہ پانی کاہرما لے کیول ہائیڈروجن کے دوایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم پرمشتمل ہے، یہ ہم کوآنکھ سے یاکسی خوردبین سے نظرنہیں آتا،بلکہ صرف منطقی استنباط کے ذریعہ معلوم ہوتاہے،اورسائنس ان دونوں واقعات کی موجودگی یکساں طورپرتسلیم کرتی ہے، اس کے نزدیک جس طرح وہ عام پانی ایک حقیقت ہے، جومشاہدہ میں نظرآرہاہے، اسی طرح وہ تجزیاتی پانی بھی ایک حقیقت ہے، جو قطعًاناقابل مشاہدہ ہے،اورصرف قیاس کے ذریعہ معلوم کیاگیاہے،یہی حال دوسرے تمام حقائق کاہے۔اے۔ای مینڈر (Alfred Ernest Mander, 1894-1985 ) لکھتاہے :

’’جوحقیقتیں (facts) ہم کوبراہ راست حواس کے ذریعہ معلوم ہوں، وہ محسوس حقائق (perceived facts) ہیں، مگرجن حقیقتوں کوہم جان سکتے ہیں،وہ صرف انھیں محسوس حقائق تک محدودنہیں ہیں۔ ان کے علاوہ اوربہت سے حقیقتیں ہیں جن کاعلم اگرچہ براہِ راست ہم حاصل نہیں کرسکتے ۔پھربھی ہم ان کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ اس علم کاذریعہ استنباط ہے۔ اس طرح جوحقیقتیں معلوم ہوں،ان کواستنباطی حقائق (inferred facts)کہا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات اہمیت کے ساتھ سمجھ لینے کی ہے کہ دونوں میں اصل فرق ان کے حقیقت ہونے کے اعتبار سے نہیں ہے،بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ ایک صورت میں ہم’’اس کو‘‘ جانتے ہیں، اور دوسری صورت میں ’’اس کے بارے میں‘‘ معلوم کرتے ہیں ۔حقیقت بہرحال حقیقت ہے،خواہ ہم ا س کوبراہ راست مشاہدہ سے جانیں یابہ طریق استنباط معلوم کریں۔‘‘

Clearer   Thinking, London, 1949, p. 46

وہ مزیدلکھتاہے :

’’کائنات میں جوحقیقتیں ہیں، ان میں سے نسبتاً تھوڑی تعداد کوہم حواس کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں، پھران کے علاوہ جواورچیزیں ہیں، ان کوہم کیسے جانیں ،اس کاذریعہ استنباط(inference)یا تعقل(reasoning) ہے۔ استنباط یاتعقل ایک طریق فکر ہے، جس کے ذریعہ سے ہم کچھ معلو م واقعات سے آغازکرکے بالآخریہ عقیدہ بناتے ہیں کہ فلاں حقیقت یہاں موجودہے، اگرچہ وہ کبھی دیکھی نہیں گئی۔‘‘ (ایضاًصفحہ49)

یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ عقلی اورمنطقی طریقہ حقیقت کومعلوم کرنے کاذریعہ کیوں کر ہے، جس چیزکوہم نے آنکھ سے نہیں دیکھااورنہ کبھی اس کے وجودکاتجزیہ کیا،اس کے متعلق محض عقلی تقاضے کی بناپرکیسے کہاجاسکتاہے کہ وہ حقیقت ہے، مینڈرکے الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے:

‘‘The reasoning process is valid because the universe of fact is rational.’’ (Clearer   Thinking, p. 50)

یعنی منطقی استدلال کے ذریعہ حقیقت کومعلوم کرنے کاطریقہ صحیح ہے۔ کیوں کہ حقائق کی دنیا  عقلی دنیا ہے۔ عالم واقعات ایک ہم آہنگ کل ہے، کائنات کے تمام حقائق ایک ودسرے سے مطابقت رکھتے ہیں، اوران کے درمیان زبردست نظم اورباقاعدگی پائی جاتی ہے۔ اس لیے مطالعہ کا کوئی ایساطریقہ جوواقعات کی ہم آہنگی اوران کی موزونیت کوہم پرواضح نہ کرے،صحیح نہیں ہوسکتا۔ مینڈریہ بتاتے ہوئے لکھتاہے :

’’نظر آنے والے واقعات محض عالم حقیقت کے کچھ اجزاء (patches of fact)  ہیں، وہ سب کچھ جن کوہم حواس کے ذریعہ جانتے ہیں، وہ محض جزئی اورغیرمربوط واقعات ہوتے ہیں، اگرالگ سے صرف انھیں کودیکھاجائے تووہ بے معنی معلوم ہوں گے۔براہِ راست محسوس ہونے والے واقعات کے ساتھ اوربہت سے غیرمحسوس واقعات کوملاکرجب ہم دیکھتے ہیں، اس وقت ہم ان کی معنویت کوسمجھتے ہیں۔‘‘ ( صفحہ 51)

اس کے بعدوہ ایک سادہ سی مثال سے اس حقیقت کوسمجھاتاہے:

’’ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چڑیامرتی ہے توزمین پرگرپڑتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک پتھرکوزمین سے اٹھانے کے لیے طاقت خرچ کرنی ہوتی ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ چاندآسمان میں گھوم رہاہے،ہم دیکھتے ہیں کہ پہاڑی سے اترنے کے مقابلے میں چڑھنازیادہ مشکل ہے ،اس طرح کے ہزاروں مشاہدات ہمارے سامنے آتے ہیں جن کے درمیان بظاہرکوئی تعلق نہیں، اس کے بعدایک استنباطی حقیقت(inferred facts) انکشاف ہوتا ہے— یعنی تجاذب(gravitation) کاقانون ،اس کے فورًابعدہمارے یہ تمام مشاہدات اس استنباطی حقیقت کے ساتھ مل کرباہم مربوط ہوجاتے ہیں، اوراس طرح بالکل پہلی بار ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ان مختلف واقعات کے درمیان نظم، باقاعدگی اورموافقت ہے۔ محسوس واقعات کواگرالگ سے دیکھاجائے تووہ بے ترتیب ،غیرمربوط اورمتفرق معلوم ہوں گے، مگرمحسوس واقعات اوراستنباطی حقائق دونوں کوملادیاجائے تووہ ایک منظم شکل اختیارکرلیتے ہیں۔‘‘(صفحہ51)

اس مثال میں تجاذب کاقانون (law of gravitation)ایک تسلیم شدہ سائنسی حقیقت ہونے کے باوجودبذاتِ خود قطعًاناقابل مشاہدہ ہے، سائنس دانوں نے جس چیزکودیکھایاتجربہ کیاوہ خودقانونِ کشِش نہیں، کچھ دوسری چیزیں ہیں، اوران دوسری چیزوں کومنطقی توجیہ کے طورپروہ ماننے پرمجبورہوئے ہیں کہ یہاں کوئی ایسی چیزموجودہے ،جس کوہم قانونِ تجاذب سے تعبیرکرسکتے ہیں۔

یہ قانون تجاذب آج ایک مشہورترین سائنسی حقیقت کے طورپرساری دنیامیں جانا جاتا ہے،  اس کو پہلی بارنیوٹن نے دریافت کیا،مگرخالص تجرباتي نقطۂ نظرسے اس کی حقیقت کیاہے، اس کونیوٹن کی زبان سے سنیے،اس نے بنٹلی کوایک خط لکھاتھا،جواس کے مجموعے میں ان الفاظ میں نقل کیاگیاہے:

’’یہ ناقابل فہم ہے کہ بے جان اوربے حس مادہ کسی درمیانی واسطہ کے بغیر دوسرے مادہ پراثرڈالتاہے،حالانکہ دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘‘

Works of W. Bently III, P.221

ایک ایسی ناقابل مشاہدہ اورناقابل فہم چیز کوآج بلااختلاف سائنسی حقائق سمجھا جاتا ہے ، کیوں ،صرف اس لیے کہ اگرہم ان کومان لیں توہمارے کچھ مشاہدات کی اس سے توجیہ ہوجاتی ،گویاکسی چیزکے حقیقت ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی واقعیت براہِ راست ہمارے تجربے اور مشاہدے میں آرہی ہو،بلکہ وہ غیرمرئی عقیدہ بھی اسی درجہ کی ایک حقیقت ہے،جس سے ہم مختلف مشاہدات کو اپنے ذہن میں مربوط کرسکتے ہوں، جومعلوم واقعات کی معنویت ہم پر واضح کرسکے، مینڈرلکھتاہے:

’’ یہ کہناکہ ہم نے ایک حقیقت کومعلوم کرلیاہے،دوسرے لفظوں میں گویایہ کہناہے کہ ہم نے اس کی معنویت (meaning) کومعلوم کرلیاہے،یا اس کویوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم کسی چیزکی موجودگی کے سبب اوراس کے حالات کومعلوم کرکے اس کی تشریح کرتے ہیں، ہماری بیشتر یقینیات(beliefs) اسی نوعیت کی ہیں،وہ دراصل مشاہدات کی توضیح (Statements of Observation) ہیں۔‘‘

Clearer   Thinking, p. 52

اس بحث کے بعدمینڈرمشہورحقائق (Observed Facts) کے مسئلے پرگفتگوکرتے ہوئے لکھتاہے:

’’جب ہم کسی مشاہدے (Observation) کاذکرکرتے ہیں توہمیشہ ہم مجردحسّیاتی مشاہدے سے کچھ زیادہ مرادلیتے ہیں،ا س سے مراد حسّیاتی مشاہدہ نیزمعرفت (Recognition)ہوتاہے،جس میں تعبیرکاجزبھی شامل ہو۔‘‘(صفحہ 56)

یہی وہ اصول ہے جس کی بنیادپرعضویاتی ارتقا (Organic Evolution) کے حقیقت ہونے پرسائنس دانوں کااجماع ہوگیاہے ،مینڈرکے نزدیک یہ نظریہ’’اب اتنے دلائل سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس کوتقریباًحقیقت (Approximate Certainty) کہا جا سکتا ہے‘‘۔

Clearer   Thinking, p. 113

 سمپسن(G.G. Simpson)کے الفاظ میں نظریۂ ارتقا آخری اورمکمل طورپرایک ثابت شدہ حقیقت ہے، نہ کہ محض ایک قیاس یامتبادل مفروضہ جوسائنس کی تحقیق کے لیے قائم کرلیاگیاہو‘‘

Meaning of Evolution, p. 127

  انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا(1958ء) کے مقالہ نگارنے حیوانات میں ارتقا کوبطورایک حقیقت (truth) تسلیم کیاہے،اورکہاہے کہ ڈارون کے بعداس نظریے کو سائنس دانوں اورتعلیم یافتہ طبقے کا قبول عام (general acceptance) حاصل ہوچکاہے۔ رچرڈ لول(Richard Swann Lull, 1867-1957 ) لکھتاہے:

’’ڈارون کے بعدنظریہ ارتقا دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ اب سوچنے اورجاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیاہے کہ یہ واحدمنطقی طریقہ ہے ،جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہ ہوسکتی ہے،اوراس کوسمجھاجاسکتاہے۔‘‘

Organic Evolution, p.15

یہ نظریہ جس کی صداقت پرسائنس دانوں کااس قدراتفاق ہوگیاہے۔کیااسے کسی نے دیکھا ہے،یاا س کاتجربہ کیاہے— ظاہرہے کہ ایسانہیں ہے اورنہ ایساہوسکتا ہے۔ارتقا کامزعومہ عمل اتنا پیچیدہ ہے،اوراتنے بعیدترین ماضی سے متعلق ہے ،جس کودیکھنے یاتجربہ کرنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔لول (Lull) کے مذکورہ بالاالفاظ کے مطابق یہ ایک ’’منطقی طریقہ‘‘ ہے، جس سے تخلیقی مظاہر کی توجیہ کی جاتی ہے، نہ کہ تخلیق کے واقعہ کا مشاہدہ ۔چنانچہ سرآرتھرکیتھ جوخودبھی ارتقا کاحامی ہے، اس نے ارتقا کومشاہداتی یاتجرباتی حقیقت کے بجائے ایک ’’عقیدہ‘‘قراردیاہے۔اس کے الفاظ ہیں:

Evolution is a basic dogma of rationalism

Revolt Against Reason, p.112

یعنی نظریۂ ارتقا مذہب عقلیت کاایک بنیادی عقیدہ ہے،چنانچہ ایک سائنسی انسائیکلو پیڈیا میں ڈارونزم کوایک ایسانظریہ کہاگیاہے، جس کی بنیادتوجیہ بلامشاہدہ (explanation without demonstration) پرقائم ہے ۔

Revolt against Reason, p. 111

  پھرایک ایسی غیرمشاہداورناقابل تجربہ چیزکوعلمی حقیقت کیوں سمجھاجاتاہے، اس کی وجہ اے،ای مینڈرکے الفاظ میں یہ ہے:

1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ (consistent)ہے۔

2۔  اس نظریے میں ان بہت سے واقعات کی توجیہ مل جاتی ہے، جواس کے بغیرسمجھے نہیں جاسکتے۔

3۔دوسراکوئی نظریہ ابھی تک ایساسامنے نہیں آیاجوواقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتاہو۔

Clearer   Thinking, p. 112

اگریہ استدلال نظریہ ارتقا کوحقیقت قراردینے کے لیے کافی ہے تویہی استدلال بدرجہازیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجودہے۔ ایسی حالت میں نظریۂ ارتقا کوسائنسی حقیقت قرار دینا،اورمذہب کوسائنسی ذہن کے لیے ناقابل قبول ٹھہراناصرف اس بات کامظاہرہ ہے کہ آپ کامقدمہ اصلاً’’طریق استدلال‘‘کامقدمہ نہیں ہے، بلکہ وہ نتیجہ سے متعلق ہے۔ ایک ہی طریق استدلال سے اگرکوئی خالص طبیعیاتی نوعیت کاواقعہ ثابت ہوتوآپ فوراًاسے قبول کرلیں گے اور اگر کوئی الٰہیاتی نوعیت کی چیزثابت ہوتوآپ اسے ردکردیں گے،کیوں کہ یہ نتیجہ آپ کوپسندنہیں۔

اوپرکی بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کہناصحیح نہیں کہ مذہب ایمان بالغیب کانام ہے،اور سائنس ایمان بالشہودکا۔حقیقت یہ ہے مذہب اورسائنس دونوں ہی ایمان بالغیب پرعمل کرتے ہیں،مذہب کااصل دائرہ اشیا کی اصلی اورآخری حقیقت متعین کرنے کادائرہ ہے، سائنس اسی وقت تک مشاہداتی علم ہے ،جب تک وہ ا بتدائی اورخارجی مظاہر پرکلام کررہی ہو،جہاں وہ ا شیاء کی آخری اورحقیقی حیثیت متعین کرنے کے میدان میں آتی ہے،جوکہ مذہب کااصلی میدان ہے ،تووہ بھی ٹھیک اسی طرح’’ایمان بالغیب‘‘ کاطریقہ اختیار کرتی ہے ،جس کاالزام مذہب کودیاجاتاہے۔ کیوں کہ اس میدان میں اس کے سواچارہ نہیں۔بقول آرتھراڈنگٹن (Sir Arthur Eddington) دورجدیدکاسائنس داں جس میزپرکام کررہاہے،وہ بیک وقت دومیزیں ہیں ،ایک میزتووہی ہے، جوعام انسان استعمال کرتا ہے ،اورجس کوچھونااوردیکھناممکن ہے—   دوسری میزاس کی علمی میز (scientific table) ہے ،ا س کابیشترحصہ خلاہے،اوراس میں بے شمار ناقابل مشاہدہ اليکٹران دوڑرہے ہیں۔ اسی طرح ہرچیزکے مثنّیٰ (duplicate) ہیں ،جن میں سے ایک توقابل مشاہدہ ہے، اوردوسراصرف تصوراتی ہے۔ا س کوکسی بھی خوردبین یادوربین سے دیکھانہیں جاسکتا۔

Eddington, The Nature of the Physical World, (Cambridge, The University Press 1948), p. 261.

جہاں تک چیزوں کی شکل ِ اول کاتعلق ہے، اس کوبیشک سائنس دیکھتی ہے ،اوربہت دور تک دیکھتی ہے۔مگراس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیاکہ اس نے شکل ثانی کوبھی دیکھ لیاہے،اس میدان میں اس کاطریقہ یہ ہے کہ وہ کسی حقیقت کے مظاہرکودیکھ کراس کے بارے میں ایک رائے قائم کرتی ہے، گویاجہاں تک اس دوسرے میدان— اشیاکی حقیقت معلوم کرنے کامیدان— کاتعلق ہے،سائنس نام ہے،معلوم حقائق کی مددسے نامعلوم حقائق کو جاننا۔

جب سائنس داں کے پاس مشاہداتی حقائق (جن کودرحقیقت وجدان صورت پذیر کرتاہے) کی کچھ تعدادفراہم ہوجاتی ہے تووہ یہ محسوس کرتاہے کہ اب اسے ایک ایسے مفروضہ یانظریہ زیادہ صحیح الفاظ میں ایک وجدانی یااعتقادی تصورکی ضرورت ہے،جوان مشاہدات کی تشریح کرے،ان کومنظم کرے اورانھیں ایک وحدت میں پِرودے ۔لہٰذاوہ اس قسم کاایک وجدانی مفروضہ ایجاد کرتا ہے۔ اگریہ مفروضہ فی الواقع ان تمام حقائق کی معقول تشریح کر رہا ہو،تو وہ بھی ایک ایسی ہی قابل یقین حقیقت شمارکیاجاتاہے،جیسی کہ کوئی اورعلمی حقیقت جس کوسائنس داں ’’مشاہدہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت سائنس دانوں کے اپنے نقطۂ نظرکے مطابق کبھی مشاہدہ میں نہ آئی ہو،مگریہ غیرمرئی حقیقت صرف اس لیے حقیقت سمجھی جاتی ہے کہ دوسرامفروضہ ایسا موجودنہیں ہے،جوان مشہودحقائق کی واقعی تشریح کرتاہو۔

گویاسائنس داں ایک غائب چیزکی موجودگی پراس کے نتائج واثرات کی وجہ سے یقین کرلیتا ہے، ہروہ حقیقت جس پریقین کرتے ہیں،شروع میں ایک مفروضہ ہی ہوتی ہے، پھرجوں جوں نئے حقائق منکشف ہوکراس مفروضے کی تائیدکرتے جاتے ہیں، اس مفروضہ کی صداقت نمایاں ہوتی جاتی ہے،یہاں تک کہ ا س پرہمارایقین، حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتاہے ۔اگرظاہر ہونے والے حقائق اس مفروضہ کی تائیدنہ کریں توہم اس مفروضہ کوغلط سمجھ کرترک کردیتے ہیں۔اس قسم کي ناقابل انکارحقیقت کی ایک مثال جس پرسائنس داں ایمان بالغیب رکھتاہے، وہ ایٹم ہے۔ایٹم کوآج تک معروف معنوں میں دیکھانہیں گیا،مگراس کے باوجودوہ جدیدسائنس کی سب سے بڑی تسلیم شدہ حقیقت ہے،اسی بناپرایک عالم نے سائنسی نظریات کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے — نظریات دراصل ذہنی نقشے ہیں، جومعلوم قوانین کی توجیہ کرتے ہیں :

‘‘Theories and mental pictures that explain known laws.’’

سائنس کے میدان میں جن ’’حقائق‘‘ کومشاہداتی حقائق (observed facts) کہا جاتا ہے، وہ دراصل مشاہداتی حقائق نہیں بلکہ کچھ مشاہدات کی تعبیریں ہیں، اورچوں کہ انسانی مشاہدہ کوکامل نہیں کہاجاسکتا،اس لیے یہ تعبیریں بھی تمام کی تمام اضافی ہیں، اورمشاہدہ کی ترقی سے تبدیل ہوسکتی ہیں۔جے،ڈبلو،سولیون (John William Navin Sullivan, 1886-1037)سائنسی نظریات پرایک تبصرہ کرنے کے بعدلکھتاہے

’’سائنسی نظریات کے ا س جائزے سے یہ ثابت ہوجاتی ہے کہ ایک صحیح سائنسی نظریہ محض یہ معنی رکھتاہے کہ وہ ایک کامیاب عملی مفروضہ (Successful Working Hypothesis) ہے ،یہ بہت ممکن ہے کہ تمام سائنسی نظریات اصلًاغلط ہوں،جن نظریات کوآج ہم تسلیم کرتے ہیں، وہ محض ہمارے موجودہ حدودمشاہدہ کے اعتبارسے حقیقت ہیں، حقیقت (Truth)اب بھی سائنس کی دنیامیں ایک علمی اورافادی مسئلہ(Pragmatic Affair)ہے ۔‘‘

The Limitation of Science, p. 158

 اس کے باوجودسائنس داں ایک مفروضہ کوجواس کے مشاہداتی حقائق کی معقول تشریح کرتاہو، مشاہداتی حقائق سے کم درجہ کی علمی حقیقت نہیں سمجھتا،وہ نہیں کہہ سکتاکہ یہ مشاہداتی حقائق توسائنس ہیں ،لیکن وہ نظریہ جوان کی تشریح کرتاہے وہ سائنس نہیں— اسی کانام ایمان بالغیب ہے۔ ایمان بالغیب مشہودحقائق سے الگ کوئی چیزنہیں ہے۔ وہ محض ایک اندھاعقیدہ نہیں ہے ، بلکہ وہ مشہودکی صحیح ترین توجیہ ہے، جس طرح نیوٹن کے نظریۂ روشنی (Corpuscular Theory of Light) کو بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے اس لیے ردکردیاکہ وہ مظاہرنورکی تشریح میں ناکام نظر آیا۔ اسی طرح ہم بے خدامفکرین کے نظریۂ کائنات کواس بناپرردّکرتے ہیں کہ وہ حیات وکائنات کے مظاہر کی تشریح میں ناکام ہے۔مذہب کے بارے میں ہمارے یقین کاماخذعین وہی چیز ہے، جوایک سائنس داں کے لیے کسی سائنسی نظریے کے بارے میں ہوتاہے۔ہم مشاہداتی حقائق کے مطالعہ سے اس نتیجہ پرپہونچتے ہیں کہ مذہب کی تشریحات عین حق ہیں، اوراس درجہ حق ہیں کہ ہزاروں برس گزرنے کے باوجودان کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ہروہ انسانی نظریہ جوآج سے چندسوبرس پہلے بنایاگیا ،وہ نئے مشاہدات وتجربات کے ظہورمیں آنے کے بعدمشتبہ اور متروک ہو چکا ہے۔ اِس کے برعکس، مذہب ایک ایسی صداقت ہے، جوہرنئی تحقیق سے اورنکھرتی چلی جارہی ہے، ہر واقعی دریافت اس کے لیے تصدیق بنتی چلی جاتی ہے۔

اگلے صفحات میں ہم اسی پہلوسے مذہب کے بنیادی تصورات کامطالعہ کریں گے۔

                                        

کائنات خدا کی گواہی دیتی ہے

 کیرالاکےایک عیسائی مشن نے ایک کتابچہ شائع کیاتھا،جس کانام تھا :

Nature and Science Speak about God

 اس باب کے عنوان کے لیے میں سمجھتاہوں کہ یہ الفاظ موزوں ترین ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ خداکاسب سے بڑاثبوت ا س کی وہ مخلوق ہے، جوہمارے سامنے موجود ہے، فطرت اوراس کے بارے میں ہمارابہترین علم پکاررہاہے کہ بے شک اس دنیاکاایک خدا ہے، ا س کے بغیرہم کائنات کواوراپنے آپ کوسمجھ نہیں سکتے۔

کائنات کی موجودگی ، اس کے اندر حیرت انگیزتنظیم اوراس کی اتھاہ معنویت کی اس کی سواکوئی توجیہ نہیں ہوسکتی کہ اس کوکسی نے بنایاہے ،اوریہ بنانے والاایک لا محدودذہن ہے، نہ کہ کوئی اندھی طاقت۔

1۔ فلسفیوں میں سے ایک گروہ ،نہایت مختصرگروہ،ایساہے جوکسی قسم کے وجودہی میں شک کرتاہے۔ اس کے نزدیک نہ یہاں کوئی انسان ہے اورنہ کوئی کائنات ۔بس ایک عدم محض ہے۔ اس کے سوااورکچھ نہیں۔ اگراس نقطۂ نظرکوصحیح مان لیاجائے تویقیناًخداکاوجودمشتبہ ہو جاتاہے۔لیکن جیسے ہم کائنات کومانتے ہیں، ہمارے لیے ضروری ہوجاتاہے کہ ہم خدا کو مانیں— کیوں کہ عدم سے  وجودکاپیداہوناایک ناقابل ِقیاس بات ہے۔

جہاں تک اس مخصوص قسم کی تشکیک اورلاادریت کاتعلق ہے،وہ ایک فلسفیانہ نکتہ توہوسکتاہے مگر اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔جب ہم سوچتے ہیں توہماراسوچناخوداس بات کاثبوت ہوتا ہے کہ ہماراکوئی وجودہے۔ جب راستہ چلتے ہوئے کسی پتھرسے ٹکراتے ہیں، اورہمیں تکلیف ستانے لگتی ہے تویہ واقعہ اس بات کاثبوت ہوتاہے کہ ہمارے باہر کوئی دنیاہے ،جس کا اپنا وجود ہے، اسی طرح ہماراذہن اورہمارے تمام حواس ہرآن بے شمار چیزوں کومحسوس کرتے ہیں، اوریہ علم و احساس ہر شخص کے لیے اس بات کاایک ذاتی ثبوت ہےکہ وہ ایک ایسی دنیامیں ہے ،جوواقعی طور پر اپنا وجود رکھتی ہے۔ اب اگرکسی کافلسفیانہ تفکر اس کے لیے دنیاکے وجودکومشتبہ کر دیتا ہے، تویہ ایک ایسی مستثنیٰ حالت ہے جوکروڑوں انسانوں کے تجربات سے غیرمتعلق ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں یہی کہاجاسکتاہے کہ وہ اپنی مخصوص قسم کی ذہنی فضامیں گم ہوگیاہے۔یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوگیاہے۔  

اگرچہ کائنات کاموجودنہ ہونابذاتِ خوداس بات کاکوئی لازمی ثبوت نہیں ہے کہ خدابھی موجودنہ ہو، تاہم اپنی انتہائی لغویت کے باوجودیہی ایک نقطۂ نظرہے ،جس کے لیے خدا کا وجود مشتبہ ہوسکتاہے۔مگریہ نقطۂ نظرخوداتنابے معنی ہے کہ آج تک نہ توعام انسانوں کے لیے وہ قابلِ فہم ہوسکا،اورنہ علمی دنیامیں اس کوقبول عام حاصل ہواہے۔عام انسان اورعام اہل علم بہرحال اس واقعہ کوتسلیم کرتے ہیں کہ ان کااپناایک وجودہے، اور کائنات بھی اپناوجودرکھتی ہے۔سارے علوم اور زندگی کی تمام سرگرمیاں اسی علم ویقین کی بنیادپرقائم ہیں۔

پھرجب ایک کائنات ہے تولازمًااس کاایک خداہوناچاہیے۔یہ بالکل بے معنی بات ہے کہ ہم مخلوق کومانیں مگرخالق کاوجودتسلیم نہ کریں ۔ہمیں کسی بھی ایسی چیزکاعلم نہیں جو پیدا کیے بغیروجودمیں آگئی ہو۔ ہرچھوٹی بڑی چیزلازمی طوراپناایک سبب رکھتی ہے پھراتنی بڑی کائنات کے بارے میں کیسے یہ یقین کیاجاسکتاہے کہ وہ یونہی وجودمیں آگئی ، اس کاکوئی خالق نہیں۔

جان اسٹوارٹ مل (John Stuart Mill, 1806-1873)نے اپنی آٹوبیاگرافی میں لکھا ہے کہ میرے باپ ، جیمس مل (James Mill, 1773-1836)نے مجھے یہ سبق دیاکہ یہ سوال کہ کس نے مجھے پیداکیا(who made me)، خدا کے اثبات کے لیے کافی نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے بعدفورًادوسراسوال پیداہوتاہے کہ خداکوکس نے پیداکیا( who made God)، چنانچہ برٹرینڈرسل نے بھی اسی اعتراض کوتسلیم کرتے محرک اول کے استدلال کوردکردیاہے:

The Age of Analysis by Morton White, P.21. 22.

یہ منکرین خداکابہت پرانااستدلال ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ کائنات کااگرکوئی خالق مانیں تواس خالق کولازمی طورپرازلی مانناپڑے گا۔ پھرجب خداکوازلی مانناہے توکیوں نہ کائنات ہی کوازلی مان لی جائے اگرچہ یہ بالکل بے معنی بات ہے ۔کیوں کہ کائنات کی کوئی ایسی صفت ہمارے علم میں نہیں آئی ہے ،جس کی بناپر اس کوخوداپناخالق فرض کیاجاسکے — تاہم انیسویں صدی تک منکرین کی ا س دلیل میں ایک ظاہرفریبِ حُسن ضرور موجود تھا، مگراب حرکیات حرارت کے دوسرے قانون (Second Law of Thermodynamics) کے انکشاف کے بعدتویہ دلیل بالکل بے بنیادثابت ہوچکی ہے۔

یہ قانون، جسے ناکارگی کا قانون(Law of Entropy)کہاجاتاہے، ثابت کرتاہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجودنہیں ہوسکتی ،ضابطۂ ناکارگی بتاتاہے کہ حرارت مسلسل حرارت والے وجودسے بےحرارت وجود میں منتقل ہوتی رہتی ہے،مگراس چکر کو الٹا چلایانہیں جاسکتا کہ خودبخودیہ حرارت ، کم حرارت کے وجودسے زیادہ حرارت کے وجود میں منتقل ہونے لگے، ناکارگی ، دستیاب توانائی(available energy)اورغیردستیاب توانائی (unavailable energy)کے درمیان تناسب کا نام ہے، اوراس بناپریہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کی ناکارگی برابربڑھ رہی ہے، اورایک وقت ایساآنامقدرہے جب تمام موجودات کی حرارت یکساں ہوجائے گی، اورکوئی کارآمدتوانائی باقی نہ رہے گی ، اس کانتیجہ یہ نکلے گاکہ کیمیائی اورطبعی عمل کاخاتمہ ہوجائے گا اورزندگی بھی اسی کے ساتھ ختم ہوجائے گی، لیکن اس حقیقت کے پیش نظرکہ کیمیائی اورطبعی عمل جاری اورزندگی کے ہنگامے قائم ہیں، یہ بات قطعی طورپرثابت ہوجاتی ہے کہ یہ کائنات ازل سے موجودنہیں ہے ورنہ اخراج حرارت کے لازمی قانون کی وجہ سے اس کی توانائی کبھی ختم ہوچکی ہوتی ،اوریہاں زندگی کی ہلکی سی رمق بھی موجودنہ ہوتی ۔

اس جدیدتحقیق کاحوالہ دیتے ہوئے ایک امریکی عالم حیوانات ایڈورڈ لوتھر كيسل (Edward Luther Kessel, 1904-1997) لکھتاہے:

’’اس طرح غیرارادی طورپرسائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیاہے کہ کائنات اپناایک آغاز(beginning)رکھتی ہے اورایساکرتے ہوئے اس نے خداکی صداقت کوثابت کردیاہے،کیوں کہ جوچیزاپناایک آغازرکھتی ہووہ اپنے آپ شروع نہیں ہوسکتی، یقیناًوہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خداکی محتاج ہے۔‘‘

The Evidence of God, p.51

یہی بات سرجیمزنے ان الفاظ میں کہی ہے:

’’موجودہ سائنس کایہ خیال ہے کہ کائنات میں ناکارگی (Entropy)کاعمل ہمیشہ جاری رہے گا یہاں تک کہ اس کی توانائی بالکل ختم ہوجائے ،یہ ناکارگی ابھی اپنے درجہ کونہیں پہنچی ہے،اگرایساہوگیاہوتاتوہم اس کے متعلق سوچنے کے لیے موجودنہ ہوتے،یہ ناکارگی اس وقت بھی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے،اوراس بناپراس کاایک آغازہوناضروری ہے، کائنات میں لازمًااس قسم کاکوئی عمل ہواہے، جس کوہم ایک وقت خاص میں تخلیق (creation at a time)کہہ سکتے ہیں، نہ یہ کہ وہ لامتناہی مدت سے موجودہے۔‘‘

Mysterious Universe, p.133

اس طرح کے اوربھی طبیعیاتی شواہدہیں جویہ ثابت کرتے ہیں کہ کائنات ازل سے موجودنہیں ہے ،بلکہ وہ ایک محدودعمررکھتی ہے، مثلاً فلکیات کایہ مشاہدہ ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے ،تمام کہکشائیں اور فلکیاتی اجسام مشاہدہ میں نہایت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے ہٹتے ہوئے نظرآتے ہیں، ا س صورت حال کی اس وقت نہایت عمدہ توجیہ ہوجاتی ہے ،جب ہم ایک ایسے ابتدائی وقت کوتسلیم کرلیں ،جب تمام اجزائے ترکیبی مجتمع اورمرکوزحالت میں تھے،اور اس کے بعدان میں حرکت وتوانائی کاآغازہوا،اس طرح کے مختلف قرائن کی بناپرعام اندازہ یہ ہے کہ لگ بھگ پچاس کھرب سال پہلے ایک غیرمعمولی دھماکے سے یہ ساراعالم وجودمیں آیا۔ اب سائنس کی اس دریافت کومانناکہ کائنات محدودعمررکھتی ہے ،اوراس کے موجدکونہ ماننا،ایساہی ہے،جیسے کوئی شخص یہ توتسلیم کرے کہ تاج محل ہمیشہ سے موجودنہیں تھا،بلکہ سترھویں صدی عیسوی کے وسط میں بنا،مگراس کے باوجوداس کاکوئی معماراورانجینئرتسلیم نہ کرے اورکہے کہ وہ بس اپنے آپ ایک مخصوص تاریخ کوبن کرکھڑاہوگیاہے!

2۔ فلکیات کامطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ دنیاکے تمام سمندروں کے کنارے ریت کے جتنے ذرے ہیںِ شایداسی قدرآسمان میں ستاروں کی تعدادہے، ان میں کچھ ستارے ایسے ہیں، جوزمین سے کسی قدربڑے ہیں، مگربیشترستارے اتنے بڑے ہیں کہ ان کے اندر لاکھوں زمینیں رکھی جاسکتی ہیں، اوربعض ستارے تواس قدربڑے ہیں کہ اربوں زمینیں ان کے اندرسماسکتی ہیں، پھر بھی کچھ جگہ خالی رہے گی۔ یہ کائنات اس قدروسیع ہے کہ روشنی کی مانندایک انتہائی ممکن حدتک تیزاڑنے والاراکٹ جس کی رفتارایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل فی سکنڈہو،وہ کائنات کے گردگھومے تواس ہوائی جہازکوکائنات کاپوراچکرلگانے میں تقریباً ایک ارب سال لگیںگے پھراتنی وسعت کے باوجودیہ کائنات ٹھہری ہوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہرلمحہ اپنے چاروں طرف پھیل رہی ہے ،اس پھیلنے کی رفتاراتنی تیزہے کہ ایڈنگٹن کے اندازے کے مطابق، ہر1300ملینسال کے بعد کائنات کے تمام فاصلے دگنے ہوجاتے ہیں ۔اس طرح ہمارایہ خیالی قسم کاغیرمعمولی تیزرفتارخلائی راکٹ بھی کائنات کا چکر کبھی پورانہیں کرسکتا،وہ ہمیشہ اس بڑھتی ہوئی کائنات کے راستہ میں رہے گا۔(یہ کائنات کی وسعت کے بارے میں آئن سٹائن کانظریہ ہے ۔مگریہ صرف ایک ’’ریاضی داں کاقیاس ہے‘‘ ۔حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی تک کائنات کی وسعت کوسمجھ نہیں سکاہے)۔

آسمان گردوغبارسے پاک ہو توپانچ ہزارستارے خالی آنکھ سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن معمولی دوربینوں کی مددسے یہ تعدادبیس لاکھ سے زیادہ ہوجاتی ہے ،اوروقت کی سب سے بڑی دوربین جو ماؤنٹ پیلومرپرلگی ہوئی ہے ،ا س سے اربوں ستارے نظرآتے ہیں۔ مگریہ تعداداصل تعدادکے مقابلے میں بہت کم ہے ،کائنات ایک بے انتہاوسیع خلاہے ،جس میں لاتعدادستارے غیرمعمولی رفتار سے مسلسل حرکت کررہے ہیں، کچھ ستارے تنہا سفر کر رہے ہیں، کوئی دویازیادہ ستاروںکے مجموعوں کی شکل میںہیںاوربے شمارستارے ایسے ہیں، جوستاروں کے جھرمٹ کی صورت میںمتحرک ہیں،روشن دان سے کمرے میں آنے والی روشنی کے اندرآپ نے بے شمارذرے اِدھراُدھردوڑتے ہوئے دیکھے ہوں گے اسی کواگرآپ بہت بڑے پیمانے پرقیاس کرسکیں توکائنات کے اندرستاروں کی گردش کا آپ ہلکاسااندازہ کرسکتے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ ذرے باہم ملے ہوئے حرکت کرتے ہیں، اور ستارے تعدادکی ا س کثرت کے باوجوددوسرے ستاروں سے بے اندازہ فاصلے پر سرگرم سفرہیں،جیسے وسیع سمندروں میں چندجہازجوایک دوسرے سے اتنی دوری پرچل رہے ہوں کہ انھیں ایک دوسرے کی خبرنہ ہو۔

یہ ساری کائنات ستاروں کے بے شمارجھرمٹوں کی صورت میں ہے۔ ہرجھرمٹ کو کہکشاں کہتے ہیں، اوریہ سب کے سب مسلسل حرکت میں ہیں۔ سب سے قریبی حرکت جس سے ہم واقف ہیں، وہ چاندہے ،چاندزمین سے دولاکھ چالیس ہزار میل دوررہ کر اس کے گردمسلسل اس طرح گھوم رہاہے کہ ہر ساڑھے 29 دن میں زمین کے گرداس کاایک چکر پوراہوجاتاہے۔ اسی طرح ہماری زمین جوسورج سے ساڑھے نوکروڑ میل دورہے،وہ اپنے محورپرایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتارسے گھومتی ہوئی سورج کے گرد انیس کروڑمیل کادائرہ بناتی ہے جوایک سال میں پوراہوتاہے۔ اسی طرح زمین سمیت نوسیارے ہیں، اوروہ سب کے سب سورج کے گردمسلسل دوڑرہے ہیں۔ ان سیاروںمیں بعیدترین سیارہ پلوٹو ہے جو ساڑھے سات ارب میل کے دائرہ میں چکرلگارہاہے ۔یہ تمام سیارے اپنے سفرمیں اس طرح مصروف ہیں کہ ان کے گرداکتیس چاند(2020 کی سائنسی تحقیق کے مطابق، 640 چاند ) بھی اپنے اپنے سیاروں کے گردگھوم رہے ہیں۔ ان کے علاوہ تیس ہزارچھوٹے سیاروں (asteroids) کاایک حلقہ (2020 میں امریکن خلائی ادارہ ناسا کے مطابق، چھوٹے سیاروں کی تعداد 1,068,760) ہے۔ ہزاروں دم دار ستارے اور لاتعدادشہاب ثاقب ہیں، جواسی طرح گردش میں مصروف ہیں۔ ان سب کے بیچ میں وہ ستارہ ہے ،جس کوہم سورج کہتے ہیں، اورجس کاقطر(diameter) آٹھ لاکھ 65 ہزارمیل ہے، اوروہ زمین سے بارہ لاکھ گنابڑاہے۔

یہ سورج خودبھی رکاہوانہیں ہے بلکہ اپنے تمام سیاروں اورسیارچوں کولیے ہوئے ایک عظیم کہکشانی نظام کے اندرچھ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتارسے گردش کررہاہے ،اسی طرح ہزاروں حرکت کرتے ہوئے نظام ہیں، جن سے مل کرایک کہکشاں وجودمیں آتی ہے ، کہکشاں گویاایک بہت بڑی پلیٹ ہے،جس پربے شمارستارےانفردی طور پر اورجھرمٹ کی شکل میںلٹوؤں کی طرح مسلسل گھوم رہے ہیں، پھریہ کہکشائیں خودبھی حرکت کرتی ہیں، چنانچہ وہ قریبی کہکشاں جس میں ہماراشمسی نظام واقع ہے، وہ اپنے محورپراس طرح گردش کررہی ہے کہ اس کاایک دوربیس کروڑسال میں پورا ہوتا ہے۔

علمائے فلکیات کے اندازے کے مطابق کائنات پانچ سوملین ،(2020 کی تحقیق کے مطابق، ایک سو بلین سے دو سو بلین ) کہکشاؤں پرمشتمل ہے،اورہرکہکشاں میں ایک لاکھ ملین یااس سے کم و بیش ستارے پائے جاتے ہیں، قریبی کہکشاں جس کے ایک حصے کوہم رات کے وقت سفیددھاری کی شکل میں دیکھتے ہیں، اس کارقبہ ایک لاکھ سال نورہے،اورہم زمین کے رہنے والے کہکشاں کے مرکز سے تیس ہزارنوری سال کے بقدردورہیں،پھریہ کہکشاں ایک اوربڑی کہکشاں کا جزء ہے، جس میں اسی طرح سترہ کہکشائیں حرکت کررہی ہیں، اورپورے مجموعہ کاقطربیس لاکھ سال نورہے۔

ان تمام گردشوں کے ساتھ ایک اورحرکت جاری ہے، اوروہ یہ کہ ساری کائنات غبارکی طرح چاروں طرف پھیل رہی ہے ہماراسورج ہیبت ناک تیزی کے ساتھ چکر کھاتا گھومتا ہوا بارہ میل فی سيکنڈکی رفتار سے اپنی کہکشاں کے بیرونی حاشیے کی طرف مسلسل بھاگ رہا ہے، اور اپنے ساتھ نظام شمسی کے تمام توابع کوبھی لیے جارہاہے اسی طرح تمام ستارے اپنی گردش کوقائم رکھتے ہوئے کسی نہ کسی طرف کوبھاگ رہے ہیں، کسی کے بھاگنے کی رفتار آٹھ میل فی سيکنڈہے،کسی کی33میل فی سيکنڈکسی کی84میل فی سيکنڈ،اسی طرح تمام ستارے انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ دوربھاگے چلے جارہے ہیں۔

یہ ساری حرکت حیرت انگیزطورپرنہایت تنظیم اورباقاعدگی کے ساتھ ہورہی ہے، نہ ان میں باہم کوئی ٹکراؤ ہوتااورنہ رفتارمیں کوئی فرق پڑتا،زمین کی حرکت سورج کے گردحددرجہ منضبط ہے،اسی طرح اپنے محور کے اوپراس کی گردش اتنی صحیح ہے کہ صدیوں کے اندربھی اس میں ایک سيکنڈکافرق نہیں آنے پاتا،زمین کاسیارہ جس کوچاندکہتے ہیں، اس کی گردش بھی پوری طرح مقررہے،اس میں جوتھوڑاسافرق ہوتاہے،وہ بھی ہر ساڑھے 18 سال کے بعدنہایت صحت کے ساتھ دہرا دیا جاتا ہے، یہی تمام اجرام سماوی کاحال ہے ،حتّیٰ کہ ماہرین فلکیات کے اندازے کے مطابق اکثرخلائی گردش کے دوران ایک پوراکہکشانی نظام ، جو اربوں متحرک ستاروں پرمشتمل ہوتاہے، دوسرے کہکشانی نظام میںحرکت کرتاہواداخل ہوتا ہے اورپھر اس سے نکل جاتاہے مگرباہم کسی قسم کاکوئی ٹکراو پیدانہیں ہوتا— اس عظیم اورحیرت انگیزتنظیم کودیکھ کرعقل کواعتراف کرناپڑتاہے کہ یہ اپنے آپ قائم نہیں ہے، بلکہ کوئی غیرمعمولی طاقت ہے جس نے اس اتھاہ نظام کوقائم رکھاہے ۔

یہی ضبط ونظم جوبڑی بڑی دنیاؤں کے درمیان نظرآتاہے ،وہی چھوٹی دنیاؤں میں بھی انتہائی مکمل شکل میں موجودہے ، اب تک کی معلومات کے مطابق سب سے چھوٹی د نیا ایٹم ہے ، ایٹم اتناچھوٹاہوتاہے کہ کسی بھی خوردبین سے نظرنہیں آتا، حالانکہ جدیدخوردبین کسی چیز کو لاکھوں گنا بڑھا کردکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایٹم کی حقیقت انسانی قوت بصارت کے اعتبار سے ’’لاشے‘‘ سے زیادہ نہیں، مگر اس انتہائی چھوٹے ذرے کے اندرحیرت انگیزطورپر ہمارے شمسی نظام کی طرح ایک زبردست گردشی نظام موجودہے،ایٹم برق پاروں کے ایک مجموعے کانام ہے ،مگریہ برق پارے ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ ان کے درمیان ایک طویل خلائی حجم ہوتاہے ،سیسے (lead) کاایک ٹکڑاجس میں ایٹمی ذرات کافی سختی اورمضبوطی کے ساتھ آپس میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں، یہ برق پارے حجم کے سو کرور حصوں میں سے ایک حصہ بھی مشکل سے گھیرتے ہیں، بقیہ حصے بالکل خالی ہوتے ہیں، اگر اليکٹرون اورپروٹون کے دوٹکڑوں کی حیثیت سے تصویربنائی جائے تودونوں کادرمیانی فاصلہ تقریباً350گزہوسکتاہے یاایٹم کاتصورگردکے ایک غیرمرئی ذرہ کی حیثیت سے کیاجائے توالکٹرون کی گردش سے جوحجم بنتاہے، ا س کی مقدارایک ایسے فٹ بال کی سی ہوسکتی ہے، جس کاقطرآٹھ فٹ ہو۔

ایٹم کے منفی برق پارے جواليکٹرون کہلاتے ہیں، وہ مثبت برق پارے کے گردگھومتے ہیں، جن کوپروٹون کہاجاتاہے ،یہ برقیے ،جوروشنی کی کرن کے ایک موہوم نقطہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے ، اپنے مرکزکے گرداسی طرح گردش کرتے ہیں،جیسے زمین اپنے مدار پر سورج کے گرد گردش کرتی ہے ،اوریہ گردش اتنی تیزہوتی ہے کہ الکٹرون کاکسی ایک جگہ تصور نہیں کیاجاسکتا،بلکہ ایسا محسوس ہوتاہے ،گویاوہ پورے مدارپرایک ہی وقت میں ہرجگہ موجودہے، وہ اپنے مدارپرایک سکنڈ میں ہزاروں ارب چکرلگالیتاہے۔

 یہ ناقابل قیاس اورناقابل مشاہدہ تنظیم اگرسائنس کے قیاس میں اس لیے آجاتی ہے کہ اس کے بغیرایٹم کے عمل کی توجیہ نہیں کی جاسکتی توٹھیک اسی دلیل سے آخرایک ایسے ناظم کاتصورکیوں نہیں کیاجاسکتاجس کے بغیرایٹم کی اس تنظیم کابرپاہونامحال ہے ۔

ٹیلی فون کی لائن میں تاروں کاپیچیدہ نظام دیکھ کرہمیں حیرت ہوتی ہے ہم کوتعجب ہوتاہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ لندن سے ملبورن کے لیے ایک کال چندمنٹ میں مکمل ہوجاتی ہے ،مگریہاں ایک اورمواصلاتی نظام ہے ،جواس سے کہیں زیادہ وسیع اوراس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ،یہ ہمارااپناعصبی نظام (nervous system)ہے ،جوقدرت نے قائم کررکھاہے، اس مواصلاتی نظام پررات دن کروڑوں خبریں اِدھرسے ا ُدھردوڑتی رہتی ہیں، جودل کوبتاتی ہیں کہ وہ کب دھڑکے ،مختلف اعضاکوحکم دیتی ہیں کہ وہ کب حرکت کریں، پھیپھڑے سے کہتی ہیں کہ وہ کیسے اپناعمل کرے ،اگرجسم کے اندریہ مواصلاتی نظام نہ ہوتو ہماراپوراوجودتاش کے پتوں کی مانند منتشر ہوکر رہ جائے۔

اس مواصلاتی نظام کامرکزانسان کابرین (brain)ہے۔آپ کے برین کے اندرتقریباًایک ہزار ملین عصبی خانے (nerve cells)  ہیں۔ ہرخانے سے بہت باریک تارنکل کرتمام جسم کے اندرپھیلے ہوتے ہیں جن کوعصبی ریشے (nerve fibers)کہتے ہیں۔ ان پتلے ریشوں پر خبروصول کرنے اورحکم بھیجنے کاایک نظام تقریباً ستر(70) میل فی گھنٹہ کی رفتارسے دوڑتا رہتاہے۔انھیں اعصاب کے ذریعہ ہم چکھتے ہیں،سنتے ہیں،دیکھتے ہیں،محسوس کرتے ہیں، اور ساراعمل کرتے ہیں۔ زبان میں تین ہزار ذائقہ خانے(taste buds) ہیں،جن میں ہرایک اپنے علیٰحدہ عصبی تارکے ذریعہ دماغ سے جڑا ہوا ہے ۔انھیں کے ذریعہ وہ ہرقسم کے مزوں کومحسوس کرتاہے، کان میں ایک لاکھ تعدادمیں سماعت خانے ہوتے ہیں ۔انھیں خانوں سے ایک نہایت پیچیدہ عمل کے ذریعہ ہمارادماغ سنتاہے۔ ہرآنکھ میں 130ملین روشنی اخذ کرنے والے(light receptors) ہوتے ہیں، جو تصویری مجموعے دماغ کوبھیجتے ہیں۔ہماری تمام جلدمیں حسیاتی ریشوں کاایک جال بچھاہواہے۔ اگر ایک گرم چیزجلدکے سامنے لائی جائے تو تقریباً 30ہزار ’’گرم خانے ‘‘اس کومحسوس کرکے فوراًدماغ کو اس کی خبردیتے ہیں۔اسی طرح جلدمیں دولاکھ پچاس ہزارخانے ایسے ہیں،جوسردچیزوں کو محسوس کرتے ہیں۔ جب کوئی سردچیزجسم سےملتی ہے تودماغ اس کی خبروں سے بھرجاتاہے، جسم کانپنے لگتا ہے ،جلدکی رگیں پھیل جاتی ہیں،فوراًمزیدخون رگوں میں دوڑکرآتاہے تاکہ زیادہ گرمی پہونچائی جاسکے ۔اگرہم شدید گرمی سے دوچارہوں توگرمی کے مخبرین دماغ کواطلاع کرتے ہیں، اورتین ملین پسینہ کے غدود (glands) ایک ٹھنڈاعرق خارج کرناشروع کرتے ہیں۔

عصبی نظام (nervous system) کی کئی تقسیمیں ہیں۔ ان میں سے ایک خودکار عصبی نظام (autonomic nervous system [ANS]) ہے۔یہ ایسے افعال انجام دیتی ہے، جو خودبخود جسم کے اندر ہوتے رہتے ہیں۔مثلاًہضم ، سانس لینااوردل کی حرکت، وغیرہ ۔پھراس عصبی شاخ کے بھی تین حصّے ہیں، ایک کانام ہے ، مشارک نظام(sympathetic nervous system) جوکہ حرکت پیدا کرتا ہے، اور دوسرا parasympathetic nervous system ہے ، جوروک کاکام کرتا ہے،اور تیسرا enteric nervous system ہے، یہ ہضم کا نظام کنٹرول کرتا ہے۔ اگرجسم تمام ترپہلے کے قابومیں چلا جائے تو، مثال کے طورپر، دل کی حرکت اتنی تیزہوجائے کہ موت آجائے، اور اگر بالکل دوسرے  کا اختیار ہو جائے تودل کی حرکت ہی رک جائے ،وغیرہ۔ یہ تینوں شاخیں نہایت صحت کے ساتھ مل کراپنااپناکام کرتی ہیں۔ جب دباؤ کے وقت فوری طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تومشارک نظامکوغلبہ حاصل ہو جاتا ہے، اور دل اورپھیپھڑے تیزی سے کام کرنے لگتے ہیں، اسی طرح نیندکے وقت parasympathetic کاغلبہ ہوتاہے۔ یہ تمام جسمانی حرکتوں پرسکوت طاری کر دیتا ہے۔ ہاضمے کا موقع آئے تو تیسرا نظام اپنا کام کرتا ہے۔( ریڈر ز ڈائجسٹ اکتوبر1956ء)

اس طرح کے بے شمارپہلو ہیں، اوراسی طرح کائنات کی ہرچیزمیں ایک زبردست نظام قائم ہے جس کے سامنے انسانی مشینوں کابہترسے بہتر نظام بھی مات ہے، اوراب توقدرت کی نقل بھی سائنس کاایک مستقل موضوع بن چکاہے ۔ اس سے پہلے سائنس کامیدان صرف یہ سمجھاجاتاتھاکہ فطرت میں جوطاقتیں چھپی ہیں، ان کودریافت کرکے استعمال کیاجائے، مگراب قدرت کے نظاموں کوسمجھ کر ان کی میکانکی نقل کوخاص اہمیت دی جارهي ہے ، اس طرح ایک نیاعلم وجودمیں آیا، جس کو بایونکس (Bionics)کہتے ہیں، بایونکس، یا حیاتیاتی نظام (Biological Systems)اورطریقوں کااس غرض سے مطالعہ کرتی ہے کہ جومعلومات حاصل ہوں انھیں انجینئرنگ کے مسائل حل کرنے میں استعمال کیاجائے۔

قدرت کی نقل کرنے کی اس قسم کی مثالیں ٹيکنالوجی میں پائی جاتی ہیں۔مثلاًکیمرہ دراصل آنکھ کی میکانکی نقل ہے ، کیمرے کالينس (lens) آنکھ کے ڈھیلے کا بیرونی پردہ ہے ،ڈائفرام (diaphragm) پردہ شبکی (iris)ہے ، اورروشنی سے متاثرہونے والی فلم آنکھ کاپردہ ہے ، جس میں عکس دیکھنے کے لیے ڈورے اورمخروطی شکلیں ہوتی ہیں۔(کوئی ذی ہوش یہ کہنے کی غلطی نہیں کرے گاکہ کیمرہ اتفاق سے بن کرتیارہوگیاہے، مگراس کے باوجوددنیاکے بہت سے لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ’’آنکھ محض اتفاق سے وجودمیں آگئی ہے ۔‘‘) ما سکو یونیورسٹی میں زیرصوتی ارتعاش (infrasonic vibrations)معلوم کرنے اوراس کی پیمائش کرنے کاایک نمونے کاآلہ تیارکیاگیا ہے،جوطوفان کی آمدکی اطلاع 12سے15گھنٹے پہلے تک دے دیتاہے، یہ مروجہ آلوں سے پانچ گنازیادہ طاقت ورہے، اس کاخیال کس نے پیداکیا؟مچھلی (Jelly Fish)نے ۔انجینئروں نے اس کے اعضاکی نقل کی ،جوزیرصورت صوتی ارتعاش محسوس کرنے میں بڑے حساس ہوتے ہیں۔

Soviet Land, December 1963

اس طرح کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، طبیعیاتی سائنس اورٹکنالوجی درحقیقت نئے تصورات کی نقل قدرت کے زندہ نمونوں سے حاصل کرتی ہے، بہت سے مسائل جوسائنس دانوں کے تخیل پربوجھ بنے ہوئے ہیں، قدرت ان کومدتوں پہلے حل کرچکی ہے،پھرجس طرح کیمرہ اورٹیلی پرنٹرکاایک نظام انسانی ذہن کے بغیروجودمیں نہیں آسکتا، اسی طرح یہ بھی ناقابل تصورہے کہ کائنات کاپیچیدہ ترین نظام کسی ذہن کے بغیراپنے آپ قائم ہو، کائنات کی تنظیم قدرتی طورپرایک انجینئر اور ایک ناظم کاتقاضاکرتی ہے ،اسی کانام خداہے،ہم کوجوذہن ملاہے، وہ ناظم کے بغیر تنظیم کاتصورنہیں کر سکتا،اس لیے غیرمعقول بات یہ نہیں ہے کہ ہم کائناتی تنظیم کے لیے ایک ناظم کا اقرارکریں،بلکہ یہ غیرمعقول رویہ ہوگاکہ ہم کائناتی تنظیم کے ناظم کوماننے سے انکارکردیں ،حقیقت یہ ہے کہ انسانی ذہن کے پاس خداسے انکارکے لیے کوئی عقلی بنیادنہیں ہے۔

3۔ کائنات کوڑاکرکٹ کے ڈھیرکے مانندنہیں ہے بلکہ اس کے اندرحیرت انگیز معنویت ہے ،یہ واقعہ صریح طورپراس بات کاثبوت ہے کہ اس کی تخلیق وتدبیرمیں کوئی ذہن کام کررہاہے ،ذہنی عمل کے بغیر کسی چیز میں ایسی معنویت پیدانہیں ہوسکتی ،محض اندھے مادی عمل سے اتفاقی طورپروجودمیں آجانے والی کائنات میں تسلسل نظم اورمعنویت پائے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ کائنات اس قدرحیرت انگیزطورپرموزوں اورمناسب ہے کہ یہ ناقابل تصورہے کہ یہ مناسبت اور موزونیت خودبخودمحض اتفاقًاوجود میں آگئی ہو— چاڈواش (Chadvalsh)کے الفاظ ہیں:

’’ایک شخص ،خواہ وہ خداکااقرارکرنے والاہویااس کامنکرہو،جائزطورپراس سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ دکھائے کہ اتفاق کاتوازن اس کے حق میں کس طرح ہوجاتاہے۔‘‘

The Evidence of God, p. 88

 زمین پرزندگی کے پائے جانے کے لیے اتنے مختلف حالات کی موجودگی ناگزیرہے کہ ریاضیاتی طورپریہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ اپنے مخصوص تناسب میں محض اتفاقاًزمین کے اوپر اکٹھا ہوجائیں،اب اگرایسے حالات پائے جاتے ہیں تولازمًایہ مانناہوگاکہ فطرت میں کوئی ذی شعور رہنمائی موجودہے جوان حالات کوپیداکرنے کاسبب ہے۔

زمین اپنی جسامت کے اعتبارسے کائنات میں ایک ذرے کے برابربھی حیثیت نہیں رکھتی، مگراس کے باوجودوہ ہماری تمام معلوم دنیاؤں میں اہم ترین ہے،کیوں کہ ا س کے اوپرحیرت انگیزطورپروہ حالات مہیاہیں، جوہمارے علم کے مطابق اس وسیع کائنات میں کہیں نہیں پائے جاتے۔

سب سے پہلے زمین کی جسامت کولیجیے ،اگراس کاحجم کم یازیادہ ہوتاتواس پرزندگی محال ہوجاتی۔ مثلاًکرۂ زمین،اگرچاند اتناچھوٹاہوتا،یعنی اس کاقطرموجودہ قطرکی نسبت سے ایک چوتھائی 1/4 ہوتا تو اس کی کشش ثقل، زمین کی موجودہ کشش کا  1/6 رہ جاتی ، کشش کی اس کمی کانتیجہ یہ ہوتاکہ ہماری زمین پانی اورہواکواپنے اوپرروک نہ سکتی ،جیساکہ جسامت کی اسی کمی کی وجہ سے چاندمیں واقع ہوا ہے،چاندپراس وقت نہ توپانی ہے ،اورنہ کوئی ہوائی کرہ ہے،ہواکاغلاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ رات کے وقت بیحد سرد ہوجاتا ہے، اوردن کے وقت تنورکے مانندجلنے لگتاہے، اسی طرح کم جسامت کی زمین جب کشش کی کمی کی وجہ سے پانی کی اس کثیرمقدارکوروک نہ سکتی جوزمین پرموسمی اعتدال کوباقی رکھنے کاایک اہم ذریعہ ہے،اوراسی بناپرایک سائنس داں نے اس کوعظیم توازنی پہیہ (Great Balance-Wheel) کانام دیاہے (دیکھیےThe Evidence of God )، اورہواکاموجودہ غلاف اڑکرفضامیں گم ہوجاتاتواس کاحال یہ ہوتاکہ اس کی سطح پردرجہ حرارت چڑھتاتوانتہائی حدتک چڑھ جاتا،اورگرتاتوانتہائی حدتک گرجاتا،اس کے برعکس اگرزمین کا قطر موجودہ کی نسبت سے دگنا ہوتا تواس کی کشش ثقل بھی دگنی بڑھ جاتی، کشش کے اس اضافہ کانتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا،جواس وقت زمین کے اوپرپانچ سومیل کی بلندی تک پائی جاتی ہے،وہ کھنچ کربہت نیچے تک سمٹ جاتی ،اس کے دباؤ میں فی مربع انچ 15تا30پونڈکااضافہ ہوجاتا،جس کاردعمل مختلف صورتوں میں زندگی کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوتا،اوراگرزمین سورج کے برابر ہوتی اوراس کی کثافت برقراررہتی تواس کی کشش ثقل دیڑھ سوگنابڑھ جاتی ،ہواکے غلاف کی دبازت گھٹ کرپانچ سومیل کے بجائے صرف چارمیل رہ جاتی ،نتیجہ یہ ہوتاکہ ہواکادباؤ ایک ٹن فی مربع انچ تک جا پہنچتا، اس غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے زندہ اجسام کانشوونماممکن نہ رہتا،ایک پونڈوزنی جانورکاوزن ایک سو پچاس پونڈہوجاتاانسان کاجسم گھٹ کرگلہری کے برابرہوجاتااوراس میں کسی قسم کی ذہنی زندگی ناممکن ہوجاتی ،کیوں کہ انسانی ذہانت حاصل کرنے کے لیے بہت کثیرمقدارمیں اعصابی ریشوں کی موجودگی ضروری ہے، اوراس طرح کے پھیلے ہوئے ریشوں کانظام ایک خاص درجہ کی جسامت ہی میں پایا جاسکتا ہے۔

بظاہرہم زمین کے اوپرہیں، مگرزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم اس کے نیچے سرکے بل لٹکے ہوئے ہیں۔زمین گویافضامیں معلق ایک گیندہے ،جس کے چاروں طرف انسان بستے ہیں، کوئی شخص ہندستان کی زمین پرکھڑاہوتوامریکا کے لوگ بالکل اس کے نیچے ہوں گے ، اورامریکا میں کھڑا ہو تو ہندستان اس کے نیچے ہوگا۔پھرزمین ٹھہری ہوئی نہیں ہے ۔بلکہ ایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتارسے مسلسل گھوم رہی ہے ۔ایسی حالت میں زمین کی سطح پرہماراانجام وہی ہوناچاہیے ،جیسے سائیکل کے پہیے پرکنکریاں رکھ کر پہیے کوتیزی سے گھمادیاجائے۔ مگرایسانہیں ہوتا۔کیوں کہ ایک خاص تناسب سے زمین کی کشش اورہواکادباؤ ہم کوٹھہرائے ہوئے ہیں۔ زمین کے اندرغیرمعمولی قوت کشش ہے جس کی وجہ سے وہ تمام چیزوں کواپنی طرف کھینچ رہی ہے،اوراوپرسے ہواکامسلسل دباؤ پڑتاہے۔اسی دوطرفہ عمل نے ہم کوزمین کے گولے پرچاروں طرف لٹکارکھاہے۔ہواکادباؤ انسانی جسم پر ہر ایک مربع انچ کے اوپر ساڑھے پندرہ پاؤنڈ پڑتا ہے۔آدمی اس وزن کومحسوس نہیں کرتا۔ کیوں کہ ہواجسم کے چاروں طرف ہے۔ دباؤ ہرطرف سے پڑتاہے۔ اس لیے آدمی کومحسوس نہیں ہوتا،جیساکہ پانی میں غوطہ لگانے کی صورت میں ہوتاہے۔

اس کے علاوہ ہوا— جومختلف گیسوں کے مخصوص مرکب کانام ہے ،اس کے بے شمار دیگر فائدے ہیں، جن کابیان کسی کتاب میں ممکن نہیں ۔

نیوٹن اپنے مشاہدہ اورمطالعہ سے اس نتیجہ پرپہنچاتھاکہ تمام اجسام ایک دوسرے کواپنی طرف کھینچتے ہیں،مگراجسام کیوں ایک دوسرے کوکھینچتے ہیں۔ اس سوال کااس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، چنانچہ اس نے کہاکہ میں اس کی کوئی توجیہ پیش نہیں کرسکتا۔وائٹ هيڈ (A. N. Whitehead) اس کاحوالہ دیتے ہوئے کہتاہے:

’’نیوٹن نے یہ کہہ کرایک عظیم فلسفیانہ حقیقت کااظہارکیاہے،کیوں کہ فطرت اگر بے روح فطرت ہے، تووہ ہم کوتوجیہ نہیں دے سکتی ،ویسے ہی جیسے مردہ آدمی کوئی واقعہ نہیں بتاسکتا، تمام عقلی اورمنطقی توجیہات آخری طورپرایک مقصدیت کااظہارہیں،جب کہ مردہ کائنات میں کسی مقصدیت کاتصورنہیں کیاجاسکتا۔‘‘

The Age of Analysis, p. 85

وائٹ ہڈکے الفاظ کوآگے بڑھاتے ہوئے میں کہوں گاکہ کائنات اگرکسی صاحبِ شعورکے زیراہتمام نہیں ہے ، تواس کے اندراتنی معنویت کیوں پائی جاتی ہے۔

زمین اپنے محورپرچوبیس گھنٹے میں ایک چکرپوراکرلیتی ہے،یایوں کہیے کہ وہ اپنے محورپرایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتارسے چل رہی ہے ۔فرض کرواس کی رفتاردوسومیل فی گھنٹہ ہوجائے اوریہ بالکل ممکن ہے۔ایسی صورت میں ہمارے دن اورہماری راتیں موجودہ کی نسبت سے دس گنازیادہ لمبے ہوجائیں گے۔گرمیوں کاسخت سورج ہردن تمام نباتات کو جلادے گااورجوبچے گاوہ لمبی رات کی ٹھندک میں پالے کی نذرہوجائے گا۔سورج جو اس وقت ہمارے لیے زندگی کاسرچشمہ ہے۔اس کی سطح پربارہ ہزارڈگری فارن ہائٹ کا ٹمپریچرہے، اورزمین سے اس کافاصلہ تقریباًنوکروڑتیس لاکھ میل ہے اوریہ فاصلہ حیرت انگیزطورپرمسلسل قائم ہے ۔یہ واقعہ ہمارے لیے بے حداہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اگریہ فاصلہ گھٹ جائے۔مثلاًسورج نصف کے بقدرقریب آجائے توزمین پراتنی گرمی پیداہوکہ اس سے کاغذجلنے لگے،اوراگرموجودہ فاصلہ دگنا ہوجائے تو اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ زندگی باقی نہ رہے۔ یہی صورت اس وقت پیدا ہوگی جب موجودہ سورج کی جگہ کوئی دوسراغیرمعمولی ستارہ آجائے۔ مثلاًکوئی بہت بڑاستارہ جس کی گرمی ہمارے سورج سے دس ہزارگنازیادہ ہے،اگروہ سورج کی جگہ ہوتاتوزمین کوآگ کی بھٹی بنادیتا۔

زمین 23درجہ کازاویہ بناتی ہوئی فضامیں جھکی ہوئی ہے ۔یہ جھکاؤہمیں ہمارے موسم دیتاہے۔ اس کے نتیجے میں زمین کازیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہوگیاہے، اورمختلف قسم کے نباتات اورپیداوارحاصل ہوتی ہیں۔ اگرزمین اس طرح سے جھکی ہوئی نہ ہوتی توقطبین پرہمیشہ اندھیر ا رہتا۔ سمندر کے بخارات شمال اورجنوب کی جانب سفر کرتے اورزمین پریاتوبرف کے ڈھیرہوتےیا صحرائی میدان۔ اس طرح کے اوربہت سے اثرات ہوتے جس کے نتیجے میں بغیرجھکی ہوئی زمین پرزندگی ناممکن ہوجاتی۔

یہ کس قدرناقابل قیاس بات ہے کہ مادہ نے خودکواپنے آپ اس قدرموزوں اور مناسب شکل میں منظم کرلیا!اگرسائنس دانوں کاقیاس صحیح ہے کہ زمین سورج سے ٹوٹ کرنکلی ہے تواس کامطلب یہ ہے کہ ابتدائی زمین کادرجۂ حرارت وہی رہاہوگاجوسورج کاہے ،یعنی بارہ ہزارڈگری فارن ہائٹ، اس کے بعدوہ دھیرے دھیرے ٹھنڈی ہوناشروع ہوئی، آکسیجن اورہائیڈروجن کاملنااس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتاجب تک زمین کادرجۂ حرارت گھٹ کرچارہزارڈگری پرنہ آجائے،اسی موقع پردونوں گیسوں کے باہم ملنے سے پانی بنا، اس کے بعدکروڑوں سال تک زمین کی سطح اوراس کی فضا میں زبردست انقلابات ہوتے رہے، یہاں تک کہ غالباً ایک ملین سال پہلے زمین اپنی موجودہ شکل میں تیارہوئی ، زمین کی فضامیں جوگیسیں تھیں ان کاایک بڑاحصّہ خلامیں چلاگیا،ایک حصہ نے پانی کے مرکب کی صورت اختیار کی ، ایک حصہ زمین کی تمام چیزوں میں جذب ہوگیا،اورایک حصّہ ہواکی شکل میں ہماری فضامیں باقی رہ گیا جس کابیشترجزءآکسیجن اورنائٹروجن ہے یہ ہوااپنی کثافت کے اعتبارسے زمین کاتقریباًدس لاکھواں حصّہ ہے — کیوں نہیں ایساہواکہ تمام گیسیں جذب ہوجاتیں یا کیوں ایسانہیں ہواکہ موجودہ کی نسبت سے ہواکی مقداربہت زیادہ ہوتی،دونوں صورتوں میں انسان زندہ نہیں رہ سکتاتھا،یااگربڑھی ہوئی گیسوں کے ہزاروں پونڈفی مربع انچ بوجھ کے نیچے زندگی پیدابھی ہوتی تویہ ناممکن تھاکہ وہ انسان کی شکل میں نشوونماپاسکے۔

زمین کی اوپری پرت اگردس فٹ موٹی ہوتی توہماری فضامیں آکسیجن کاوجودنہ ہوتا،جس کے بغیرحیوانی زندگی ناممکن ہے۔ اسی طرح اگرسمندرکچھ فٹ اورگہرے ہوتے توکاربن ڈائی آکسائڈ اور آکسیجن کوجذب کرلیتے اورزمین کی سطح پرکسی قسم کی نباتات زندہ نہ رہ سکتیں ،اگرزمین کے اوپرکی ہوائی فضاموجودہ کی نسبت سے لطیف ہوتی توشہاب ثاقب (meteoroid)جوہرروزاوسطًادوکروڑکی تعدادمیں اوپری فضا میں داخل ہوتے ہیں اوررات کے وقت ہم کوجلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ زمین کے ہرحصّے میں گرتے ۔یہ شہابیے (meteoroids) چھ سے چالیس میل تک فی سکنڈکی رفتار سے سفرکرتے ہیں ۔وہ زمین کے اوپر ہر آتش پذیرمادے کو جلا دیتے اورسطح زمین کو چھلنی کردیتے، شہاب ثاقب بندوق کی گولی سے نوے گنا زیادہ رفتار کے ساتھ انسان جیسی مخلوق کومحض اپنی گرمی سے ٹکڑے کردیتی، مگرہوائی کرہ اپنے نہایت مناسب موٹائی کی وجہ سے ہم کو شہابِ ثاقب کی آتشیں بوچھارسے محفوظ رکھتاہے ۔ ہوائی کرہ ٹھیک اتنی کثافت رکھتاہے کہ سورج کی کیمیائی اہمیت رکھنے والی شعائیں (actinic rays)اسی مناسب مقدارسے زمین پر پہنچتی ہیں ،جتنی نباتات کواپنی زندگی کے لیے ضرورت ہے جس سے مضر بیکٹیريامرسکتے ہیں، جس سے وٹامن تیارہوسکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

زمین پر ہر چیز کااس طرح عین ہماری ضرورتوں کے مطابق ہوناکس قدرعجیب ہے۔

زمین کی اوپری فضاچھ گیسوں کامجموعہ ہے،جس میں تقریباً78فیصد نائٹروجن اور 21فیصد آکسیجن ہے،باقی گیسیں بہت خفیف تناسب میں پائی جاتی ہیں،اس فضاسے زمین کی سطح پر تقریبا ً 15پونڈفی مربع انچ کادباؤ پڑتاہے ، جس میں آکسیجن کاحصّہ 3پوندفی مربع انچ ہے،موجودہ آکسیجن کا بقیہ حصّہ زمین کی تہوں میں جذب ہے، اوروہ دنیاکے تمام پانی کا دس میں سے آٹھ حصہ بناتاہے آکسیجن تمام خشکی کے جانوروں کے لیے سانس لینے کاذریعہ ہے ،اوراس مقصدکے لیے فضاکے سوا کہیں اور سے حاصل نہیں کیاجاسکتا۔

یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ یہ انتہائی متحرک گیسیں کس طرح آپس میں مرکب ہوئیں اورٹھیک اس مقداراوراس تناسب میں فضاکے اندرباقی رہ گئیں جوزندگی کے لیے ضروری تھا،مثال کے طورپر آکسیجن 21فیصد کے بجائے پچاس فیصد یااس سے زیادہ مقدارمیں فضاکاجزہوتاتوسطح زمین کی تمام چیزوں میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی کہ ایک درخت میں آگ پکڑتے ہی ساراجنگل بھک سے اڑجاتا،اسی طرح اگراس کاتناسب گھٹ کر10فیصد رہتاتوممکن ہے زندگی صدیوں کے بعدہم آہنگی اختیارکرلیتی مگرانسانی تہذیب موجودہ شکل میں ترقی نہیں کرسکتی تھی ، اور اگر آزاد آکسیجن بھی بقیہ آکسیجن کی طرح زمین کی چیزوں میں جذب ہوگئی ہوتی توحیوانی زندگی سرے سے ناممکن ہوجاتی ۔

آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن ڈائی آکسائڈاورکاربن گیسیںالگ الگ مختلف شکلوں میں مرکب ہوکرحیات کے اہم ترین عناصر ہیں،یہی وہ بنیادیں ہیں ،جن پرزندگی قائم ہے ، اس کاایک فی ارب بھی امکان نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں کسی ایک سیارہ پراس مخصوص تناسب کے ساتھ اکٹھاہوجائیں، ایک عالم طبیعیات کے الفاظ ہیں— سائنس کے پاس ان حقائق کی توجیہ کے لیے کوئی چیزنہیں ہے، اوراس کواتفاق کہناریاضیات سے کشتی لڑنے کے ہم معنی ہے:

‘‘Science has no explanation to offer for the facts, and to say it is accidental is to defy mathematics.’’ (The Age of Analysis, p. 33)

ہماری دنیامیں بے شمارایسے واقعات موجودہیں جن کی توجیہ اس کے بغیرنہیں ہوسکتی کہ اس کی تخلیق میں ایک برترذہانت کادخل تسلیم کیاجائے۔

  پانی کی مختلف نہایت اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ برف کی کثافت (density)  پانی سے کم ہوتی ہے ،پانی وہ واحدمعلوم مادہ ہے، جوجمنے کے بعد ہلکا ہوجاتا ہے، یہ چیز بقائے حیات کے لیے زبردست اہمیت رکھتی ہے ،ا س کی وجہ سے یہ ممکن ہوتاہے کہ برف پانی کی سطح پر تیرتا رہتا ہے، اوردریاؤں جھیلوں اورسمندروں کی تہ میں بیٹھ نہیں جاتا،ورنہ آہستہ آہستہ ساراپانی ٹھوس اور منجمد ہوجائے،یہ پانی کی سطح پرایک ایسی حاجب تہہ بن جاتاہے کہ ا س کے نیچے کادرجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے اوپرہی اوپررہتاہے،ا س نادر خاصیت کی وجہ سے مچھلیاں اوردیگرآبی جانورزندہ رہتے ہیں، ا س کے بعدجونہی موسم بہار آتا ہے،برف فورًاپگھل جاتاہے، اگرپانی میں یہ خاصیت نہ ہوتی توخاص طور پر سردملکوں کے لوگوں کوبہت بڑی دقت کاسامناکرناپڑتا۔

بیسویں صدی کے آغازمیں جب کہ امریکا میں انڈوتھیا(Endothia)  نام کی بیماری شاہ بلوط (Chestnut) کے درختوں پرحملہ آورہوئی اورتیزی سے پھیلی توبہت سے لوگوں نے جنگل کی چھتری میں شگاف دیکھ کرکہا،’’یہ شگاف اب پُرنہیں ہوں گے‘‘ امریکی شاہ بلوط کی بالادستی کوابھی تک کسی اورقسم کے اشجارنے نہیں چھیناتھا،اونچے درجے کی دیر پا عمارتي لکڑی اوراس طرح کے دوسرے فوائداس کے لیے خاص تھے،یہاں تک کہ 1900 میں ایشیاسے انڈوتھیانام کی بیماری کا ورود ہوااس وقت تک یہ جنگلات کابادشاہ خیال کیاجاتاتھا،مگراب جنگلات میں یہ درخت تقریباً ناپید ہوچکاہے۔

لیکن جنگلات کے یہ شگاف جلدہی پرہوگئے ،کچھ دوسرے درخت (Tulip Trees) اپنی نشوونما کے لیے شایدانھیں شگافوں کاانتظارکررہے تھے، شگاف پیداہونے سے پہلے تک یہ درخت جنگلات کا معمولی ساجزءتھے،اورشاذہی بڑھتے اورپھولتے تھے، لیکن اب شاہ بلوط کی عدم موجودگی کاکسی کو احساس تک نہیں ہوتا،کیوں کہ اب دوسری قسم کے درخت پوری طرح ان کی جگہ لے چکے ہیں، یہ دوسرے درخت سال بھرمیں ایک انچ محیط میں اورچھ فٹ لمبائی میں بڑھتے ہیں، اتنی تیزی کے ساتھ بڑھنے کے علاوہ بہترین لکڑی جوبالخصوص باریک تہوں کے کام آسکتی ہے، ان سے حاصل کی جاتی ہے۔

اسی صدی کاواقعہ ہے ،ناگ پھنی کی ایک قسم آسٹریلیامیں کھیتوں کی باڑھ قائم کرنے کے لیے بوئی گئی آسٹریلیامیں اس ناگ پھنی کاکوئی دشمن کیڑانہیں تھا، چنانچہ وہ بہت تیزی سے بڑھناشروع ہوگئی، یہاں تک کہ انگلینڈ کے برابررقبہ پرچھاگئی،وہ شہروں اور دیہاتوںمیں آبادی کے اندرگھس گئی، کھیتوں کوویران کردیااورزراعت کوناممکن بنادیا،کوئی تدبیربھی اس کے خلاف کارگرثابت نہیں ہوتی تھی ،ناگ پھنی آسٹریلیاکے اوپرایک ایسی فوج کی طرح مسلط تھی جس کااس کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا،بالآخرماہرین حشرات الارض دنیابھرمیں اس کاعلاج تلاش کرنے کے لیے نکلے ،یہاں تک کہ ان کی رسائی ایک کیڑے تک ہوئی جوصرف ناگ پھنی کھاکرزندہ رہتاتھا،اس کے سوااس کی کوئی خوراک نہیں تھی،وہ بہت تیزی سے اپنی نسل بڑھاتاتھا،اورآسٹریلیامیں اس کاکوئی دشمن نہیں تھا،اسی کیڑے نے آسٹریلیامیں ناگ پھنی کی ناقابل تسخیرفوج پرقابوپالیااور وہاں سے ا س مصیبت کاخاتمہ ہوگیا۔

قدرت کے نظام میں یہ ضبط وتوازن (Checks and Balances) کی عظیم تدبیریں کیا کسی شعوری منصوبے کے بغیرخودبخودوجودمیں آجاتی ہیں؟

کائنات میں حیرت انگیزطورپرریاضیاتی قطعیت پائی جاتی ہے، یہ جامدوبے شعورمادہ جو ہمارے سامنے ہے ، اس کاعمل غیرمنظم اوربے ترتیب نہیں بلکہ وہ متعین قوانین کا پابند ہے ’’پانی‘‘کا لفظ خواہ دنیاکے جس خطہ میں اورجس وقت بھی بولاجائے اس کاایک ہی مطلب ہوگا— ایک ایسا مرکب جس میں 1،11فیصدہائیڈروجن اور88,9فیصدآکسیجن ۔ایک سائنس داں جب تجربہ گاہ میں داخل ہوکرپانی سے بھر ے ہوئے ایک پیالے کوگرم کرتا ہے، تو وہ تھرمامیٹرکے بغیریہ بتاسکتاہے کہ پانی کانقطۂ جوش 100درجہ سینٹی گریڈہے، جب تک کہ ہوا کا د باؤ (Atmospheric Pressure) 670 ایم ایم رہے ،اگرہواکادباؤ اس سے کم ہوتواس حرارت کووجودمیں لانے کے لیے کم طاقت درکار ہوگی جوپانی کے سالمات کو توڑ کر بخارات کی شکل دیتی ہے، اس طرح نقطۂ جوش سودرجہ سے کم ہوجائے گا، یہ تجربہ اتنی بار آزمایاگیاہے کہ ا س کویقینی طورپرپہلے سے بتایاجاسکتاہے کہ پانی کانقطۂ جوش کیا ہے، اگرمادہ اورتوانائی کے عمل میں یہ نظم اورضابطہ نہ ہوتاتوسائنسی تحقیقات اورایجادات کے لیے کوئی بنیادنہ ہوتی ،کیوں کہ پھراس دنیامیں محض اتفاقات کی حکمرانی ہوتی اورعلمائے طبیعیات کے لیے یہ بتاناممکن نہ رہتاکہ فلاں حالت میں فلاں طریق عمل کے دہرانے سے فلاں نتیجہ پیداہوگا۔

کیمیاکے میدان میں نوواردطالب علم سب سے پہلے جس چیزکامشاہدہ کرتاہے،وہ عناصرمیں نظم اوردَوریت ہے، سوسال پہلے ایک روسی ماہرکیمیامنڈلیف(Mendeleev ) نے جوہری قدرکے لحاظ سے مختلف کیمیائی عناصرکوترتیب دیاتھا، جس کودَوری نقشہ (Periodic Chart) کہا جاتا ہے،اس وقت تک موجودہ تمام عناصردریافت نہیں ہوئے تھے،اس لیے اس کے نقشہ میں بہت سے عناصرکے خانے خالی تھے،جو عین اندازے کے مطابق بعدکوپرہوگئے ان نقشوں میں سارے عناصرجوہری نمبروں کے تحت اپنے اپنے مخصوص گروپوں میں درج کیے جاتے ہیں،جوہری نمبرسے مراد مثبت برقیوں (Protons) کی وہ تعدادہے جوایٹم کے مرکزمیں موجودہوتی ہے،یہی تعدادایک عنصرکے ایٹم اور دوسرے عنصرکے ایٹم میں فرق پیداکردیتی ہے، ہائیڈروجن جوسب سے سادہ عنصر ہے۔ اس کے ایٹم کے مرکزمیں ایک پروٹون ہوتاہے،ہیلیم میں دواورلیتھیم میں تین،مختلف عناصر کی جدول تیارکرنااسی لیے ممکن ہوسکاکہ ان میں حیرت انگیزطورپرایک ریاضیاتی اصول کارفرما ہے، نظم و ترتیب کی اس سے بہترمثال اورکیاہوسکتی ہے کہ عنصر101کی شناخت محض اس کے 17پروٹونوں کے مطالعہ سے کرلی گئی ،قدرت کی اس حیرت انگیزتنظیم کوہم دوری اتفاق (Periodic Chance)  نہیں کہتے ،بلکہ اس کودوری ضابطہ(Periodic Law) کہتے ہیں، مگرنقشہ اورضابطہ جویقینی طور پر ناظم اورمنصوبہ سازکاتقاضاکرتے ہیں، منکرِ خدا اس کا انکار کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدیدسائنس اگر خدا کو نہ مانے تووہ خوداپنی تحقیق کے ایک لازمی نتیجے کاانکارکرے گی۔

’’11اگست 1999ءمیں ایک سورج گرہن واقع ہوگاجوکارنوال (Cornwall) میں مکمل طورپردیکھاجاسکے گا‘‘—یہ محض ایک قیاسی پیشین گوئی نہیں ہے بلکہ علمائے فلکیات یقین رکھتے ہیںکہ نظام شمسی کے موجودہ گردشی نظام کے تحت اس گہن کاپیش آنایقینی ہے،جب ہم آسمان میں نظرڈالتے ہیں توہم لاتعدادستاروں کوایک نظام میں منسلک دیکھ کرحیران رہ جاتے ہیں۔ ان گنت صدیوں سے اس فضائے بسیط میں جوعظیم گیندیں معلق ہیں۔ وہ ایک ہی معین راستے پرگردش کرتی چلی جارہی ہیں۔ وہ اپنے مداروں میں اس نظم کے ساتھ آتی اورجاتی ہیں کہ ان کے جائے وقوع اوران کے درمیان ہونے والے واقعات کاصدیوں پیشتربالکل صحیح طورپراندازہ کیاجاسکتاہے۔ پانی کے ایک حقیر قطرے سے لے کرفضائے بسیط میں پھیلے ہوئے دوردرازستاروں تک ایک بے مثال نظم وضبط پایا جاتا ہے۔ ان کے عمل میں اس درجہ یکسانیت ہے کہ اس بنیادپرقوانین مرتب کرتے ہیں۔

نیوٹن کانظریۂ کشش فلکیاتی کروں کی گردش کی توجیہ کرتاہے۔ا س کے نتیجے میں A.C. Adams اورلاویرے(U. Leverrier) کووہ بنیادملی، جس سے وہ دیکھے بغیرایک ایسے سیارے کے وجود کی پیشین گوئی کرسکیں، جواس وقت تک نامعلوم تھا۔چنانچہ ستمبر 1946ء کوایک رات کوجب برلن آبزرویٹری کی دوربین کارخ آسمان میں ان کے بتائے ہوئے مقام کی طرف کیاگیاتوفی الواقع نظر آیاکہ ایساایک سیارہ نظام شمسی میں موجود ہے،جس کوہم اب نیپچون (Neptune) کے نام سے جانتے ہیں— کس قدرناقابل قیاس بات ہے کہ کائنات میں یہ ریاضیاتی قطعیت خودبخودقائم ہوگئی ہو۔

کائنات کی حکمت ومعنویت کاایک پہلویہ بھی ہے کہ اندرسے ایسے امکانات رکھے گئے ہیںکہ انسان بوقت ضرورت تصرف کرکے اس کواپنے لیے استعمال کرسکے،مثال کے طورپرنائٹروجن کے مسئلہ کولیجیے ،ہواکے ہرجھونکے میں نائٹروجن 78فی صدہوتاہے،اس کے علاوہ بہت سے کیمیائی اجزاء ہیں، جن میں نائٹروجن شامل ہوتاہے، ان کوہم مرکب نائٹروجن کہہ سکتے ہیں، یہی وہ نائٹروجن ہے ،جس کوپودے استعمال کرتے ہیں اورجن سے ہماری غذاکانائٹروجنی حصّہ تیارہوتاہے،اگریہ نہ ہوتوانسان اورجانوربھوکے مرجائیں۔

صرف دوطریقے ہیں ،جن سے قابل تحلیل نائٹروجن مٹی میں مل کرکھادبنتاہے،اگریہ نائٹروجن مٹی میں شامل نہ ہوتوکوئی بھی غذائی پودانہ اُگے ،ایک طریقہ جس سے یہ نائٹروجن مٹی میں شامل ہوتاہے وہ مخصوص بیکٹیریائی عمل ہے،یہ بیکٹیریا دال کے پودوں کی جڑوں میں رہتے ہیں، اورہواسے نائٹروجن لے کراس کومرکب نائٹروجن کی شکل دیتے رہتے ہیں، پودا جب سوکھ کرختم ہوجاتاہے تواس مرکب نائٹروجن کاکچھ حصّہ زمین میں رہ جاتاہے۔

دوسراذریعہ جس سے مٹی کونائٹروجن ملتاہے،وہ بجلی کاکڑکاہے۔ہربارجب بجلی کی رو فضا میں گزرتی ہے تووہ تھوڑے سے آکسیجن کونائٹروجن کے ساتھ مرکب کردیتی ہے جوکہ بارش کے ذریعہ ہمارے کھیتوں میں پہنچ جاتاہے،اس طرح سے جونائٹریٹ نائٹروجن حاصل ہوتاہے ،اس کا اندازہ سالانہ ایک ایکڑزمین میں پانچ پونڈہے جوکہ تیس پونڈسوڈیم نائٹریٹ کے برابرہے۔

Lyon, Bockman and Brady, The Nature and Properties of Soil

 یہ دونوں طریقے بہرحال ناکافی تھے، اوریہی وجہ ہے کہ وہ کھیت جن میں عرصہ دراز تک کھیتی ہوتی رہتی ہے ،ان کانائٹروجن ختم ہوجاتاہے، اوراسی لیے کاشتکارفصلوں کاالٹ پھیرکرتے رہتے ہیںِ یہ کس قدرعجیب بات ہے کہ ایک ایسے مرحلے میں جب کہ اضافہ آبادی اور کثرت کاشت کی وجہ سے مرکب نائٹروجن کی کمی محسوس کی جانے لگی تھی، اورانسان کومستقبل میںقحط کے آثارنظرآنے لگے تھے، اوریہ صرف موجودہ صدی کے آغازکی بات ہے کہ عین اس وقت وہ طریقہ دریافت ہوگیا جس سے ہواکے ذریعہ مصنوعی طورپرمرکب نائٹروجن بنایا جاسکتا ہے،مرکب نائٹروجن بنانے کے لیے جو کوششیں کی گئیں ،ان میں سے ایک یہ تھی کہ فضامیں مصنوعی طورپربجلی کا کڑکا پیدا کیا گیا، کہا جاتا ہے کہ ہوامیں بجلی کی چمک پیداکرنے کے لیے تقریباًتین لاکھ ہارس پاورکی قوت استعمال کی گئی، اور جیساکہ پہلے سے اندازہ کیاجاچکاتھا،ایک قلیل مقدارنائٹروجن کی تیارہوگئی ،مگراب انسان کی خداداد عقل نے ایک قدم اورآگے بڑھایااورانسانی تاریخ کے دس ہزارسال بعدایسے طریقے معلوم کرلیے گئے ہیں، جن سے وہ اس گیس کوکھادمیں تبدیل کرسکتاہے، اس کے بعدانسان اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ اپنی غذاکے اس لازمی جزءکوتیارکرسکے جس کے بغیروہ بھوکوں مرجاتا،یہ نہایت عجیب حسن اتفاق ہے کہ زمین کی تاریخ میں پہلی بارعین وقت پرانسان نے قلت خوراک کاحل دریافت کرلیا،یہ المیہ ٹھیک اس وقت رفع ہوگیاجب کہ اس کے واقع ہونے کاامکان تھا۔

کائنات میں اس طرح کی حکمت ومعنویت کے بے شمارپہلوہیں، ہماری تمام سائنسوں نے ہم کو صرف یہ بتایاہے کہ جوکچھ ہم نے معلوم کیاہے ، اس سے بہت زیادہ ہے وہ چیز،جس کومعلوم کرناابھی باقی ہے ،تاہم جوکچھ انسان معلوم کرچکاہے، وہ بھی اتنازیادہ ہے کہ اس کے صرف عنوانات کی فہرست دینے کے لیے موجودہ کتاب سے بہت زیادہ ضخیم کتاب کی ضرورت ہوگی ،اورپھربھی عنوانات بچ رہیں گے ،انسان کی زبان سے آلاءِ رب اورآیات ِالٰہی کاہراظہارناقص اظہارہے ،اس کی جتنی بھی تفصیل کی جائے ،جہاں زبان وقلم رکیں گے وہاں یہ احساس ضرورموجودہوگاکہ ہم نے ’’بیان‘‘ نہیں کیابلکہ اس کی ’’تحدید‘‘ کردی، حقیقت یہ ہے کہ اگر سارے علوم منکشف ہوجائیں، اور اس کے بعدسارے انسان اس طرح لکھنے بیٹھ جائیںکہ دنیاکے تمام وسائل ان کے لیے مددگار ہوں، جب بھی کائنات کی حکمتوں کابیان مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن کے الفاظ میں

 وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ (31:27) ۔ یعنی اگرزمین کے تمام درخت قلم ہوں اورموجودہ سمندروں کے ساتھ سات اور سمندر ان کی سیاہی کاکام دیں ،جب بھی خداکی باتیں ختم نہ ہوں گی ۔

جس نے بھی کائنات کاکچھ مطالعہ کیاہے، وہ بلاشبہ اعتراف کرے گاکہ کتاب الٰہی کے ان الفاظ میں ذرابھی مبالغہ نہیں،وہ صرف ایک موجودہ حقیقت کاسادہ سااظہارہے ۔

 پچھلے صفحات میں کائنات کے حیرت انگیزنظم اوراس کے اندر غیرمعمولی حکمت و معنویت کا جو حوالہ دیاگیاہے۔ مخالفین مذہب اس کوبطورواقعہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی دوسری توجیہ کرتے ہیں، اس میں انھیں کسی ناظم ومدبرکااشارہ نہیں ملتا،بلکہ یہ سب کچھ ان کے نزدیک محض’’اتفاق‘‘سے ہوگیا ہے۔ ٹی ایچ ہکسلے کے الفاظ میں چھ بندراگرٹائپ رائٹر پربیٹھ جائیں اورکروڑوں سال تک اسے پیٹتے رہیں توہوسکتاہے کہ ان کے سیاہ کیے ہوئے کاغذات کے ڈھیرمیں سے آخری کاغذ پر شیکسپیئرکی ایک نظم (Sonnet) نکل آئے ، اسی طرح اربوں اورکھربوں سال مادہ کے اندھا دھند گردش کے دوران میں موجودہ کائنات بن گئی ہے۔

The Mysterious Universe, p. 3-4

یہ بات اگرچہ بجائے خودبالکل لغوہے،کیوں کہ ہمارے آج تک کے تمام علوم ایسے کسی اتفاق سے قطعًاناواقف ہیں جس کے نتیجہ میں اتناعظیم ،اس قدربامعنی اورمستقل واقعہ وجود میں آجائے جیسی کہ یہ کائنات ہے،بلاشبہ ہم بعض اتفاقات سے واقف ہیں، مثلاً ہوا کا جھونکا کبھی سرخ گلاب کے زیرہ(pollen)کواڑاکرسفیدگلاب پرڈال دیتاہے،جس کے نتیجے میں زردرنگ کاپھول کھلتا ہے، مگراس قسم کااتفاق صرف ایک انتہائی جزئی اوراستثنائی واقعہ کی توجیہ کرتاہے۔گلاب کاپورا وجود کائنات کے اندرایک حالت میں ا س کی مسلسل موجودگی اورسارے نظام عالم سے اس کا حیرت انگیز ربط ، ہواکے اتفاقی جھونکے سے سمجھانہیں جاسکتا۔’’اتفاقی واقعہ‘‘ کے لفظ میں ایک جزئی صداقت ہونے کے باوجودکائنات کی توجیہ کے اعتبارسے وہ ایک لغوبات ہے۔ پروفیسرایڈون (Edwin Conklin)کے الفاظ میں ’’زندگی کابذریعہ حادثہ(accident)وقوع میں آجاناایساہی ہے جیسے پریس میں دھماکہ ہوجانے سے ایک ضخیم لغت کاتیارہوجانا۔‘‘

The Evidence of God, p. 174

کہاجاتاہے کہ ’’اتفاق‘‘ کے حوالے سے کائنات کی توجیہ کوئی الل ٹپ بات نہیں ہے، بلکہ سرجمیزکے الفاظ میں وہ خالص ریاضیاتی قوانین اتفاق (purely mathematical laws of chance)پرمبنی ہے ۔

The Mysterious Universe, p. 3

 اتفاق کی توجیہ کرتے ہوئےایک مصنف لکھتاہے

’’اتفاق (Chance) محض ایک فرضی چیزنہیں ہے بلکہ ایک بہت ہی ترقی یافتہ حسابی نظریہ ہے ،جس کااطلاق ان امورپرکیاجاتاہے جن میں قطعی معلومات ممکن نہیں ہوتیں،اس نظریے کے ذریعہ ایسے بے لاگ اصول ہمارے ہاتھ آجاتے ہیں جن کی مدد سے ہم صحیح اورغلط میں بآسانی امتیازکرسکتے ہیں، اورکسی خاص نوعیت کے واقعہ کے صادر ہونے کے امکانات کاحساب لگاکرصحیح صحیح اندازہ کرسکتے ہیں کہ اتفاقًا اس کاپیش آجاناکس حد تک ممکن ہے۔‘‘

The Evidence of God, p. 23

اگرہم یہ فرض کرلیں کہ مادہ کسی خام حالت میں خودسے کائنات میں موجودہو گیا، اور پھریہ بھی فرض کرلیں کہ ا س میں عمل اورردعمل کاایک سلسلہ بھی اپنے آپ شروع ہوگیا،اگرچہ ان مفروضات کے لیے کوئی بنیادنہیں ہے— جب بھی کائنات کی توجیہ حاصل نہیں ہوتی— کیوں کہ یہاں ایک اوراتفاق مخالفینِ مذہب کی راہ میں حائل ہوگیاہے،بدقسمتی سے ہماری ریاضیات جوقانونِ اتفاق کاقیمتی نکتہ ہمیں دیتی ہے،وہی اس بات کی تردیدبھی کررہی ہے کہ قانون اتفاق ،موجودہ کائنات کاخالق ہوسکتاہے ،کیوں کہ سائنس نے معلوم کرلیاہے کہ ہماری دنیاکی عمراورجسامت کیاہے، اور جو عمر اور جسامت اس نے معلوم کی ہے ،وہ قانون اتفاق کے تحت موجودہ دنیاکے وقوع میں آنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔

’’اگرتم دس سکّے لواوران پرایک سے دس تک نشان لگادو،اس کے بعدانھیں اپنی جیب میں ڈال کراچھی طرح ملادو،اب ان کوایک سے دس تک بالترتیب اس طرح نکالنے کی کوشش کروکہ ایک سکہ نکالنے کے بعدہرباراس کودوبارہ جیب میں ڈال دو— یہ امکان کہ نمبرایک سکّہ پہلی بار تمھارے ہاتھ میں آجائے دس میں ایک ہے ،یہ امکان کہ ایک اوردوبالترتیب تمھارے ہاتھ میں آجائیں سومیں ایک ہے،یہ امکان کہ ایک ِدواورتین نمبرسلسلہ وارتمھارے ہاتھ میں آجائیں ایک ہزارمیں ایک ہے ،یہ امکان کہ ایک،دو،تین اورچارنمبرکے سکے بالترتیب نکل آئیں دس ہزارمیں ایک ہے،یہاں تک کہ یہ امکان کہ ایک سے دس تک تمام سکّے بالترتیب تمھارے ہاتھ آجائیںدس بلین (دس ارب) میں صرف ایک بارہے‘‘۔

یہ مثال نقل کرنے بعدکریسی ماریسن (A. Cressy Morrison)لکھتاہے:

"The object in dealing with so simple a problem is to show how enormously figures multiply against chance."

 Man does not Stand Alone, p. 17

یعنی یہ سادہ مثال اس لیے دی گئی تاکہ یہ امراچھی طرح واضح ہوجائے کہ واقعات کی تعدادکی نسبت سے امکانات کی تعدادکتنی زیادہ ہوتی ہے ۔

اب اندازہ کیجیے کہ اگرسب کچھ محض اتفاق سے ہوگیاہے،تواس کے لیے کتنی مدت درکار ہوگی، ذی حیات اشیا کی ترکیب زندہ خلیوں (Living Cells) سے ہوتی ہے، خلیہ ایک نہایت چھوٹا اور پیچیدہ مرکب ہے جس کامطالعہ علم الخلیہ ( Cytology)میں کیاجاتاہے،ان خلیوں کی تعمیر میں جو اجزاء کام آتے ہیں، ان میں سے ایک پروٹین ہے ، پروٹین ایک کیمیائی مرکب ہے جوپانچ عناصر کے ملنے سے وجودمیں آتاہے —  کاربن، ہائیڈروجن ،نائٹروجن ، آکسیجن اورگندھک پروٹینی سالمہ ان عناصر کے تقریباً چالیس ہزار جواہر (atoms) پرمشتمل ہوتاہے۔

کائنات میں سوسے زیادہ کیمیائی عناصربالکل منتشراوربے ترتیب بکھرے ہوئے ہیں، اب اس امرکاامکان کس حدتک ہے کہ ان تمام عناصر کے بے ترتیب ڈھیرمیں سے نکل کریہ پانچوں عناصر اس طرح باہم ملیں کہ ایک پروٹینی سالمہ آپ سے آپ وجودمیں آجائے ،مادے کی وہ مقدارجسے مسلسل ہلانے سے اتفاقًا یہ نتیجہ نکل سکتاہواوروہ مدت جس کے اندراس کام کی تکمیل ممکن ہو، حساب لگا کر معلوم کی جاسکتی ہے۔

سوئزرلینڈکے ایک ریاضی داں پروفیسرچارلس ایوجین گائی(Charles Eugene Guye)نے اس کاحساب لگایاہے، اوراس کی تحقیق یہ ہے کہ اس طرح کے کسی اتفاقی واقعہ کاامکان  10160 کے مقابلے میں صرف ایک درجہ ہوسکتاہے160  10 کامطلب یہ ہے کہ دس کودس سے ایک سو ساٹھ مرتبہ پے درپے ضرب دیاجائے۔ دوسرے لفظوں میں دس کے آگے ایک سوساٹھ صفر۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایساعددہے جس کوالفاظ کی زبان میں ظاہر کرنا مشکل ہے۔

صرف ایک پروٹینی سالمہ کے اتفاقًاوجودمیں آنے کے لیے پوری کائنات کے موجودہ مادہ سے کروڑوں گنازیادہ مقدارمادہ مطلوب ہوگی جسے یکجاکرکے ہلایاجائے ، اور اس عمل سے کوئی نتیجہ برآمدہونے کاامکان 10143سال بعدہے ۔

پروٹین، امینوایسڈ (Amino Acids) کے لمبے سلسلوں سے وجودمیں آتے ہیں، اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس طریقہ کی ہے ،جس سے یہ سلسلے باہم ملیں۔اگریہ غلط شکل میں یکجاہوجائیں تو زندگی کی بقاکاذریعہ بننے کے بجائے مہلک زہربن جاتے ہیں، پروفیسر جے۔ بی لیتھیز (J. B. Leathes) نے حساب لگایاکہ ایک سادہ سے پروٹین کے سلسلوں کواربوں اورکھربوں 1048 طریقے سے یکجاکیاجاسکتاہے۔یہ ناممکن ہے کہ یہ تمام امکانات ایک پروٹینی سالمہ کووجودمیں لانے کے لیے محض اتفاق سے یکجاہوجائیں۔

واضح ہوکہ اس انتہائی بعیدامکان کامطلب بھی یہ نہیں ہے کہ بے شمارمدت کی تکرارکے بعدلازماًیہ واقعہ ظہورمیں آجائے گا ،اس کامطلب صرف یہ ہے کہ ممکن ہے،ایساہوجائے ، دوسری طرف یہ امکان بھی ہے کہ ہمیشہ دہراتے رہنے کے باوجودکبھی بھی ایساکوئی واقعہ ظہور میں نہ آئے۔

پھرپروٹین خودمحض ایک کیمیائی شے ہے،جس میں زندگی موجودنہیں ہوتی، پروٹین کے خلیہ کاجزءبننے کے بعداس میں زندگی کی حرات کیسے پیداہوئی،ا س کاجواب اس توجیہ میں نہیں ہے،پھریہ بھی خلیہ کے صرف ایک ترکیبی جزءپروٹین کے صرف ایک ناقابل مشاہدہ ذرہ کے وجود میں آنے کی توجیہ ہے ،جب کہ صرف ایک ذی حیات جسم کے اندرسنکھ (100 quadrillion) مہاسنکھ (10 quintillion)کی تعدادمیں ایسے مرکبات ہوتے ہیں۔

لے کامٹے ڈو نوائے (Le Comte Du Nouy) نے اس پربہت عمدہ اورمفصل بحث کی ہے، جس کاخلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کے امکان کے ظہورمیں آنے کے لیے جس وقت ،جس مقدار مادہ اورجس پہنائی کی ضرورت ہوگی وہ ہمارے تمام اندازوں سے ناقابل یقین حدتک زیادہ ہے، اس کے لیے ایک ایسے عالم کی ضرورت ہے جس کادائرہ اتنا بڑا ہو جس میں روشنی1082  سال نور (دس کے  آگے 82صفر)سفرکرکے اس کوپارکرسکتی ہو،یہ حجم موجودہ کائنات سے بہت زیادہ ہے ،کیوں کہ ہماری بعیدترین کہکشاں کی روشنی چندبلین سال نورمیں ہم تک پہنچ جاتی ہے،اس کامطلب یہ ہے که آئن سٹائن نے کائنات کی وسعت کا جو اندازہ کیاہے، وہ ا س عمل کے لیے قطعاًناکافی ہے،پھراس مفروضہ کائنات میں پانچ سو ٹریلین حرکت فی سيکنڈکی رفتارسے مادہ کی مفروضہ مقدار کو ہلایا جائے تب کہیں اس امر کا امکان پیدا ہوگا کہ پروٹین کا ایک ایسا سالمہ اتفاق سے وجودمیں آئے جوزندگی کے لیے ضروری اور مفید ہے، اوراس سارے عمل کے لیے جس مدت کی ضرورت ہے وہ  10243(ایک کے آگے 243صفر) بلین سال ہے۔مگر’’ہمیں بھولنانہیں چاہیے‘‘ڈونوائے لکھتا ہے ’’کہ زمین صرف دوبلین سال سے موجودہے اوریہ کہ زندگی کی ابتداصرف ایک بلین سال پہلے ہوئی جب کہ زمین ٹھنڈی ہوئی۔‘‘

Human Destiny, p.30-36

سائنس نے اگرچہ ساری کائنات کی عمردریافت کرنے کی کوشش کی ہے ،چنانچہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ موجودہ کائنات پچاس کھرب سال سے موجودہے،ظاہرہے کہ یہ طویل عمربھی ایک مطلوبہ پروٹینی سالمہ کواتفاقًاوجودمیں لانے کے لیے ناکافی ہے،مگرجہاں تک زمین کاتعلق ہے جس پرہماری معلوم زندگی پیداہوئی اس کی عمرتونہایت قطعیت کے ساتھ معلوم کرلی گئی ہے۔

ماہرین فلکیات کے اندازے کے مطابق زمین سورج کاایک ٹکڑاہے،جوکسی بڑے ستارے کے کشش سے ٹوٹ کرفضامیں گردش کرنے لگاتھا،اس وقت زمین سورج کی مانند ایک مجسم شعلہ تھی، جس میں کسی بھی قسم کی زندگی پیداہونے کاکوئی سوال نہیں تھا۔اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوکرمنجمدہوئی،اس انجمادہی کے بعدیہ امکان پیداہوتاہے کہ ا س میں زندگی کاآغازہو۔

زمین کی عمرجب سے کہ وہ ٹھوس ہوئی مختلف طریقوں سے نہایت صحیح طورپرمعلوم کی جاسکتی ہے، ان میں سب سے عمدہ طریقہ تابکار عناصر(Radio-Active Elements) کے ذریعہ معلوم ہوا ہے، تابکار عناصرکے ایٹم کے برقی ذرات ایک خاص تناسب سے مسلسل خارج ہوتے رہتے ہیں، اوراسی لیے وہ ہم کو روشن نظرآتے ہیں، اس اخراج یاانتشارکی وجہ سے ان کے برقی ذرات کی تعداد گھٹتی رہتی ہے، اوروہ دھیرے دھیرے غیرتابکاردھات میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں، یورنیم اسی قسم کا ایک تابکارعنصرہے، وہ عمل انتشارکی وجہ سے ایک خاص اورمتعین شرح سے سیسہ (Lead) میں تبدیل ہوتا رہتاہے،یہ پایاگیاہے کہ ا س تبدیلی کی شرح کسی بھی سخت ترین حرارت یادباؤ سے متاثرنہیں ہوتی، ہم تبدیلی کی اس رفتارکواٹل سمجھنے میں حق بجانب ہیں، یورنیم کے ٹکڑے مختلف چٹانوں میں پائے جاتے ہیں، اوربلاشبہ وہ اس وقت سے چٹان کاجزءہیں، جب کہ یہ چٹان منجمدہوئی یورنیم کے  ساتھ ہم سیسه (Lead)پاتے ہیں، ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تمام سیسہ جویورنیم کے ساتھ پایا جاتا ہے، وہ یورنیم کے انتشار (disintegration of Uranium)سے وجودمیں آیاہے ۔کیوں کہ یورنیم سے بناہواسیسہ، عام سیسے سے کچھ ہلکاہوتاہے، ا س لیے سیسہ کے کسی بھی ٹکڑے کے بارے میں یہ کہناممکن ہے کہ وہ یورنیم سے بناہے یانہیں،اس سے ہم حساب لگاسکتے ہیں کہ یورنیم جس چٹان میں ہے وہاں کتنی مدت سے اس پرانتشارکاعمل ہورہاہے،اورچوں کہ یورینیم چٹان میں اس وقت سے ہے، جب کہ وہ چٹان منجمدہوئی،اس لیے ہم اس کے ذریعے سے خودچٹان کے انجمادکی مدت معلوم کرسکتے ہیں۔

اس طرح اندازے بتاتے ہیں کہ چٹان کے انجمادکوکم از کم چودہ سوملین سال گزرچکے ہیں۔ یہ اندازے ان چٹانوں کے مطالعہ پرمبنی ہیں، جوموجودہ علم کے مطابق، زمین کی قدیم ترین چٹانیں ہیں۔ چنانچہ جے،ڈبلیو،این، سولیون نے زمین کی عمرکاایک بہتراوسط دوہزارملین سال قرار دیا ہے ۔

Limitations of Science, p. 78

  اب ظاہرہے کہ جب صرف ایک غیرذی روح پروٹینی سالمہ کے مرکب کو اتفاقاً وجودمیں لانے کے لیےسنکھ (100 quadrillion) مہاسنکھ (10 quintillion)سے بھی زیادہ مدت درکارہے توصرف دوہزارملین سال میں زمین کی سطح پر زندہ اورمکمل اجسام رکھنے والے حیوانات کی دس لاکھ سے زیادہ اورنباتات کی دولاکھ سے زیادہ اقسام کیسے وجودمیں آگئیں اورہرقسم میں لاتعداد حیوانات ونباتات پیداہوکرخشکی اورتری میں کیسے پھیل گئے، اورپھرانھیں ادنیٰ درجہ کی ذی روح اشیاسے اتنی قلیل مدت میں انسان جیسی اعلیٰ مخلوق اتفاقاً کیسے وجود میں آگئی جب کہ نظریۂ ارتقا انواع میں جن اتفاقی تبدیلیوں کے اوپر اپنی بنیادکھڑی کرتاہے،ان میں سے ہرتبدیلی کاحال یہ ہے کہ ماہرریاضی پاچو(Patau) نے حساب لگایاہے کہ کسی ذی حیات میں نئی تبدیلی کومکمل ہوتے ہوتے دس لاکھ پشتوں کے گزرجانے کا امکان ہے ۔

The Evidence of God, p. 117

اس سے اندازہ کیجیے کہ اگرمحض ارتقا کے اندھے مادی عمل کے ذریعہ کتے کی طرح پانچ انگلیاں رکھنے والے جدامجدکی نسل میں بے شمارتبدیلیوں کے جمع ہونے سے گھوڑے جیسامختلف جانوربن گیاہے ، تواس کے بننے میں کتناعرصہ درکارہوگا۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکی عالم عضویات ایم ۔بی کریڈر (Martin Broks Kreider)کے الفاظ کس قدرصحیح ہیں:

‘‘The mathematical probability of a chance occurrrnce of all the necessary factors in the right proportion is almost nil.’’

The Evidence of God, p. 67

یعنی تخلیق کے تمام ضروری اسباب کاصحیح تناسب کے ساتھ اتفاقًا اکٹھاہوجانے کاامکان ریاضیاتی طورپرقریب قریب نفی کے برابر ہے۔

یہ طویل تجزیہ محض اتفاقی پیدائش کے نظریے کے لغویت واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ’’اتفاق‘‘ سے نہ کوئی ایٹم یامالے کیول وجودمیں آسکتا ہے، اورنہ وہ ذہن پیدا ہوسکتاہے،جویہ سوچ رہاہے کہ کائنات کیسے وجودمیں آئی ،خواہ اس کے لیے کتنی ہی طویل مدت فرض کی جائے،یہ نظریہ نہ صرف ریاضیاتی طورپرمحال ہے، بلکہ منطقی حیثیت سے بھی وہ اپنے اندرکوئی وزن نہیں رکھتا،یہ ایسی ہی لغوبات ہے،جیسے کوئی کہے کہ ایک گلاس پانی فرش پرگرنے سے د نیاکانقشہ مرتب ہوسکتاہے،ایسے شخص سے بجاطورپرپوچھاجاسکتاہے کہ اس اتفاق کے پیش آنے کے لیے فرق، زمینی کشش ،پانی اورگلاس کہاں سے وجودمیں آگئے۔

علم حیاتیات کامشہورعالم ہیکل (Haeckel)نے کہاتھا۔’’مجھے ہوا،پانی،کیمیائی اجزاء اوروقت دو،میں ایک انسان بنادوں گا۔‘‘مگریہ کہتے ہوئے وہ بھول گیاکہ اس اتفاق کووجودمیں لانے کے لیے ایک ہیکل اورمادی حالات کی موجودگی کوضروری قراردے کروہ خوداپنے دعوي کی تردیدکررہاہے،بہت خوب کہاہے ماریسن نے:

’’ہیکل نے یہ کہتے ہوئے جین اورخودزندگی کے مسئلہ کونظراندازکردیا،انسان کو وجود میں لانے کے لیے اس کوسب سے پہلے ناقابل مشاہدہ ایٹم فراہم کرنے ہوں گے،پھر ان کو مخصوص ڈھنگ سے ترتیب دے کرجین بناناہوگا،اوراس کوزندگی دینی ہوگی،پھربھی ا س کی اس اتفاقی تخلیق کاامکان کروروں میں ایک کاہے ،اوربالفرض اگروہ کامیاب بھی ہوجائے تو اس کووہ اتفاق (accident) نہیں کہہ سکتابلکہ وہ اس کواپنی ذہانت (intelligence) کاایک نتیجہ قراردے گا۔‘‘

Man does not Stand Alone, p. 87

اس بحث کومیں ایک امریکی عالم طبیعیات جارج ارل ڈیوس (Earl Davis)کے الفاظ پر ختم کروں گا:

’’اگرکائنات خوداپنے آپ کوپیداکرسکتی تواس کامطلب یہ ہوگاکہ وہ اپنے اندر خالق کے اوصاف رکھتی ہے،ایسی صورت میں ہم یہ ماننے پرمجبورہوں گے کہ کائنات خودخداہے،اس طرح اگرچہ ہم خداکے وجودکوتوتسلیم کرلیں گے،لیکن وہ نرالاخدا ہوگا جو بیک وقت مافوق الفطرت بھی ہوگااورمادّی بھی، میں اس طرح کے کسی مہمل تصورکواپنانے کے بجائے ایک ایسے خداپرعقیدے کوترجیح دیتاہوں جس نے عالم مادی کی تخلیق کی ہے،اوراس عالم کاوہ خودکوئی جزءنہیں ،بلکہ اس کافرمانروااورناظم ومدبرہے۔‘‘

The Evidence of God, p.71

                        

دلیل آخرت

مذہب جن حقیقتوں کوماننے کی ہمیں دعوت دیتاہے،ان میں سے ایک اہم ترین حقیقت — آخرت کاتصورہے۔ ا س کامطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیاکے بعدایک اور دنیا ہے، جہاں ہم کوہمیشہ رہناہے،موجودہ دنیاانسان کی ا متحان گاہ ہے ،یہاں ایک خاص عرصہ کے لیے انسان کورکھاگیاہے، اس کےبعدایک وقت ایساآنے والاہے،جب اس کامالک اسے توڑکردوسری دنیادوسرے ڈھنگ پربنائے گا،وہاں تمام انسان دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، ہرایک نے موجودہ دنیامیں جو اچھے یابرے عمل کیے ہیں، وہ سب وہاں خداکی عدالت میں پیش ہوں گے، اورہرایک کواس کے عمل کے مطابق انعام یاسزادی جائے گے۔

یہ نظریہ صحیح ہے یاغلط، اس کوجانچنے کے لیے ہم اس پرچندپہلوؤں سے غورکریں گے ۔

امکان

پہلی بات یہ ہے کہ کائنات کے موجودہ نظام میںکیااس طرح کی کسی آخرت کاواقع ہوناممکن نظرآتاہے کیایہاں کچھ ایسے واقعات اوراشارات پائے ہیں، جواس دعوے کی تصدیق کررہے ہوں۔

یہ نظریہ سب سے پہلے یہ چاہتاہے کہ انسان اورکائنات اپنی موجودہ شکل میں ابدی نہ ہوں، اوریہ دونوں چیزیں ہماری اب تک کی معلومات کے مطابق بالکل یقینی ہیں ،ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں انسان کے لیے بھی موت ہے اورکائنات کے لیے بھی موت، دونوں میں سے کوئی بھی موت کے خطرے سے خالی نہیں ۔

جولوگ دوسری دنیاکونہیں مانتے وہ قدرتی طورپریہ چاہتے ہیں کہ اسی دنیاکواپنی ابدی خوشیوں کی دنیابنائیں ، انھوں نے ا س بات کی بہت تحقیق کی کہ موت کیوں آتی ہے تاکہ اس کے اسباب کوروک کرزندگی کوجاوداں بنایاجاسکے ۔مگرانھیں اس سلسلے میں قطعی ناکامی ہوئی— ہرمطالعہ نے بالٓاخر یہی بتایاکہ موت یقینی ہے ،اس سے چھٹکارانہیں۔

’’موت کیوں آتی ہے ‘‘— اس کے تقریباًدوسوجوابات دیے گئے ہیں، جسم ناکارہ ہوجاتاہے، اجزائے ترکیبی صرف ہوچکتے ہیں ،رگیںپتھراجاتی ہیں، متحرک البومن کی جگہ کم متحرک البومن آجاتے ہیں، مربوط کرنے والے نسیج بیکارہوجاتے ہیں، جسم میں آنتوں کے بیکٹیریاکازہردوڑجاتاہے— وغیرہ وغیرہ۔

جسم کے ناکارہ ہونے کی بات بظاہردرست معلوم ہوتی ہے ، کیوں کہ مشینیں، جوتے کپڑے، سبھی ایک خاص مدت کے بعدناکارہ ہوجاتے ہیں،اس لیے ہوسکتاہے کہ پوستین کی طرح ہماراجسم بھی،جلدیابدیرپراناہوکرختم ہوجاتاہو۔مگرسائنس اس کی تائیدنہیں کرتی، سائنسی تشریح کے مطابق انسانی جسم نہ پوستین کی طرح ہوتاہے،نہ مشین سے ملتاجلتاہے،اورنہ چٹان سے مشابہ ہے۔اگراسے تشبیہ د ی جاسکتی ہے ،تودریاسے جوہزارسال پہلے بھی بہا کرتا تھا،اورآج بھی اسی طرح بہہ رہاہے، اورکون کہہ سکتاہے کہ دریاپراناہوتاہے۔اسی بنیادپرکیمسٹری کے نوبل انعام یافتہ داکٹرلنس پالنگ نے کہاہے کہ نظریاتی طورپرانسان بڑی حدتک لافانی ہے ،ا س کے جسم کے خلیے ایسی مشین ہیں، جو خود بخود اپنی خرابی دورکرلیتے ہیں، لیکن ا س کے باوجودانسان بوڑھاہوتاہے اور مرجاتا ہے— اس کے اسباب ابھی تک رازبنے ہوئے ہیں ۔

ہماری زندگی کی مسلسل تجدیدہوتی رہتی ہے ،ہمارے خلیوں میں البومن کے سالمے بنتے اور تلف ہوتے اورپھربنتے رہتے ہیں، خلیے (سوائے اعصابی خلیوں کے) برابرتلف ہوتے اوران کی جگہ نئے بنتے رہتے ہیں،اندازہ لگایاگیاہےکہ کوئی چارمہینے کے عرصے میں انسان کاخون بالکل ہی نیا ہوجاتاہے،اور چندسال کے عرصے میں انسانی جسم کے تمام ایٹم پوری طرح بدل جاتے ہیں، اس کامطلب یہ ہے کہ ا نسان کی نوعیت ایک ڈھانچے کی نہیں بلکہ دریاکی سی ہے ،یعنی وہ ایک عمل ہے، ایسی حالت میں جسم کے پرانے اورناکارہ ہونے کے تما م نظریے بے بنیادہوجاتے ہیں، وہ تمام چیزیں جوزندگی کے ابتدائی برسوں میں خراب ہوگئی تھیں،زہرآلوداوربیکارہوچکی تھیں،وہ جسم سے کب کی خارج ہوچکیں ،پھران کو موت کاسبب قراردیناکیامعنی— اس کامطلب یہ ہواکہ موت کاسبب آنتوں اوررگوں اوردل میں نہیں، بلکہ اس کاسبب کہیں اورہے۔

ایک توجیہ یہ ہے کہ اعصابی خلیے موت کاسبب ہیں ،کیوں کہ اعصابی خلیے زندگی بھر وہی رہتے ہیں، یہ کبھی نہیںبدلتے،چنانچہ انسان کے اندراعصابی خلیے سال بہ سال کم ہوتے جاتے ہیں، اورمجموعی طورپراعصابی نظام کمزورہوتاجاتاہے، اگریہ توجیہ صحیح ہے،اوراعصابی نظام ہی نظامِ جسمانی کا کمزور حصہ ہے توہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ نظام ِ جسمانی سب سے زیادہ دنوں تک زندہ رہناچاہیے جن میں اعصابی نظام ہوتاہی نہیں۔

مگرمشاہدہ اس کی تائیدنہیں کرنا،درخت میں اعصابی نظام نہیں ہوتااوروہ سب سے زیادہ دنوں تک زندہ رہتاہے، مگرگیہوں میں بھی اعصاب نہیں تھے مگروہ صرف سال بھرزندہ رہتاہے، اوراسی طرح امیباکیڑے میں بھی اعصاب نہیں ہوتے لیکن وہ صرف آدھ گھنٹہ زندہ رہتاہے،اسی طرح اس توجیہ کامطلب یہ ہے کہ اعلیٰ نسل کے حیوانات کی عمر،جن کااعصابی نظام مکمل ترین ہوتاہے، سب سے زیادہ ہونی چاہیے ،مگرایسانہیں ہے، مگرمچھ ،کچھوااورپاٹک مچھلی سب سے لمبی عمرپاتے ہیں۔

موت کوغیریقینی بنانے کے لیے اس کے اسباب کی جتنی چھان بین کی گئی ہے ، وہ سب ناکامی پر ختم ہوئی ہے ،اوریہ امکان اب بھی بدستورباقی کہ سارے انسانوں کوایک مقررمدت پرمرناہے۔ ایساکوئی امکان اب تک ثابت نہ ہوسکاکہ موت نہیں آئے گی۔ ڈاکٹرالکسس کیرل نے اسی مسئلہ پر زمان داخلی (inward time)کے عنوان سے لمبی بحث کی ہے ،اوراس سلسلے کی کوششوں کی ناکامی کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:

انسان بقاکی تلاش اورجستجوسے کبھی نہیں اکتائے گا، مگراس کوکبھی یہ چیز حاصل نہیں ہوسکتی،کیوں کہ وہ جسمانی ساخت کے چندقوانین کاپابندہے،وہ عضویاتی زمان (physiological time)کوروکنے اورغالبًاایک حدتک اس کوپیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوسکتاہے (جوانی کی مدت کوبڑھانے اوربڑھاپے کوموخرکرنے میں )،  لیکن وہ موت پرفتح نہیں پاسکتا۔

Man, the Unknown, p. 175

 نظام کائنات کی موجودہ شکل کادرہم برہم ہونابھی ایک ایسی چیزہے ، جوبالکل واقعاتی طورپرسمجھ میں آتی ہے،ا س کامطلب صرف یہ ہے کہ کائنات میں ہم جن چھوٹی چھوٹی قیامتوں سے واقف ہیں، وہی آئندہ کسی وقت زیادہ بڑے پیمانے پر ظاہر ہونے والی ہیں، یہ صرف موجودہ مقامی قیامتوں کے عالمی پیمانے پرواقع ہونے کی پیشین گوئی ہے ۔

 سب سے پہلاتجربہ جوہم کوقیامت کے امکان سے باخبر کرتاہے،وہ زلزلہ ہے، زمین کااندرونی حصّہ نہایت گرم سیال کی شکل میں ہے، جس کامشاہدہ آتش فشاں پہاڑوں سے نکلنے والے لاواکی شکل میںہوتاہے۔ یہ مادہ مختلف شکلوں میں زمین کی سطح کومتاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات زمین کے اوپرزبردست گڑگڑاہٹ کی آواز محسو س ہوتی ہے، اورکشمکش کی وجہ سے جھٹکے پیداہوتے ہیں— اسی کانام زلزلہ ہے۔ یہ زلزلہ آج بھی انسان کے لیے سب سے زیادہ خوفناک لفظ ہے۔یہ انسان کے اوپرقدرت کاایساحملہ ہے جس میں فیصلے کااختیارتمام تردوسرے فریق کوہوتاہے۔زلزلہ کے مقابلے میں انسان بالکل بے بس ہے۔ یہ زلزلے ہمیں یاددلاتے ہیں کہ ہم ایک سر خ پگھلے ہوئے نہایت گر م مادے کے اوپرآبادہیں، جس سے صرف 50کیلومیٹرکی ایک پتلی سی چٹانی تہہ ہم کوالگ کرتی ہے، جوزمین کے مقابلے میں ویسی ہی ہے جیسے سیب کے اوپرباریک چھلکا۔ایک جغرافیہ داں کے الفاظ میں ہمارے آبادشہروںاورنیلے سمندروں کے نیچے ایک قدرتی جہنّم (physical hell) دہک رہاہے،یایوں کہناچاہیے کہ ہم ایک عظیم ڈائنامیٹ کے اوپر کھڑے ہیں جوکسی بھی وقت پھٹ کرسارے نظامِ ارضی کودرہم برہم کرسکتاہے ۔

George Gamow, Biography of the Earth, p.82

یہ زلزلے دنیاکے تقریباًہرحصے میں اورہرروزآتے ہیں، لیکن جغرافیائی اعتبارسے وہ زیادہ تعداد میں وہاں محسوس ہوتے ہیں،جہاں آتش فشاں پہاڑہیں۔ سب سے قدیم تباہ کن زلزلہ جس سے تاریخ واقف ہے ،وہ چین کے صوبہ شنسی (Shensi)کازلزلہ ہے ، جو 1556ء میں آیاتھا،اس زلزلے میں آٹھ لاکھ سے زیادہ اشخاص ہلاک ہوگئے ۔اسی طرح یکم نومبر1755ء کوپرتگال میں زلزلہ آیاجس نے لزبن (Lisbon)کاپوراشہرتباہ کردیا۔ اس زلزلے میں چھ منٹ کے اندرتیس ہزارآدمی ہلاک ہوگئے ،تمام عمارتیں مسمار ہوگئیں، اندازہ کیاگیا ہے کہ اس زلزلے میں یورپ کے رقبہ کاچوگناحصّہ ہل گیاتھا،اسی نوعیت کاایک شدیدزلزلہ 1897ء میںآسام میں آیاتھا،جودنیاکے پانچ انتہائی بڑے زلزلوں میں شمارہوتاہے۔ اس سے شمالی آسام میں ہولناک تباہی آئی تھی، اس زلزلے نے دریائے برہم پترکارخ بدل دیا اورایورسٹ کی چوٹی ابھرکرسوفٹ اوپرچلی گئی۔

زلزلہ دراصل چھوٹے پیمانے کی قیامت ہے ،جب دہشت انگیزگڑگراہٹ کے ساتھ زمین پھٹ جاتی ہے، جب پختہ مکانات تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے لگتے ہیں، جب زمین کااوپری حصّہ دھنس جاتاہے، اوراندرونی حصّہ اوپرآجاتاہے، جب آباد ترین شہرچندلمحوں میں وحشت ناک کھنڈرکی صورت اختیارکرلیتے ہیں، جب انسان کی لاشیں اس طرح ڈھیرہوجاتی ہیں، جیسے مری ہوئی مچھلیاں زمین کے اوپرپڑی ہوں— یہ زلزلے کاوقت ہوتاہے ،ا س وقت انسان محسوس کرتاہے کہ وہ قدرت کے مقابلے میں کس قدربے بس ہے ،یہ زلزلے بالکل اچانک آتے ہیں، درحقیقت زلزلے کاالمیہ اس امرمیں پوشیدہ ہے کہ کوئی بھی شخص یہ پیشین گوئی نہیں کرسکتاکہ زلزلہ کب اورکہاں آئے گا۔یہ زلزلے گویااچانک آنے والی قیامت کی پیشگی اطلاع دیتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا نظام اس ڈھنگ پر بنایا گیا ہے کہ کسی بھی وقت اس کو توڑ دیا جائے۔

یہی حال بیرونی کائنات کاہے ،کائنات نام ہے ،ایک ایسے لامحدودخلاکاجس میں بے انتہا بڑے بڑے آگ کے الاؤ (ستارے) بے شمارتعدادمیں اندھادھند گردش کررہے ہیں، جیسے بے شمارلٹّوکسی فرش پرہماری تمام سواریوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ مسلسل ناچ رہے ہوں۔

یہ گردش کسی بھی وقت زبردست ٹکراؤ کی صورت اختیارکرسکتی ہے ،اس وقت کائنات کی حالت بہت بڑے پیمانے پرایسی ہی ہوگی جیسے کروڑوں بمبارہوائی جہازبموں سے لدے ہوئے فضامیں اڑ رہے ہوں اور یکایک سب کے سب باہم ٹکراجائیں ،اجرام سماوی کااس قسم کاٹکراؤکسی بھی درجہ میں حیرت انگیزنہیں ہے بلکہ یہ بات حیرت انگیزہے کہ وہ آخرٹکراکیوں نہیں جاتے،علم افلاک کامطالعہ بھی اس امکان کی تصدیق کرتا ہے۔ چنانچہ شمسی نظام کے وجودمیں آنے کی ایک توجیہ اسی قسم کے ٹکراؤ پرکی گئی ہے، اس ٹکراؤ کواگرہم بڑے پیمانے پرقیاس کرسکیں توہم نہایت آسانی سے زیرِبحث امکان کوسمجھ سکتے ہیں،کیوں کہ دراصل اسی واقعہ کادوسرانام ’’قیامت‘‘ ہے ،نظریہ ٔ آخرت کا یہ دعویٰ کہ کائنات کاموجودہ نظام ایک روزدرہم برہم ہوجائے گا، اس کے سوااورکچھ نہیں ہے کہ جو واقعہ کائنات کے اندرابتدائی شکل میں موجودہے، وہی ایک روزانتہائی شکل میں پیش آنے والا ہے— قیامت کاآناہمارے لیے ایک معلوم حقیقت ہے— فرق صرف یہ ہے کہ آج ہم اسے ا مکان کی حدتک جانتے ہیں— اورکل اسے واقعہ کی صورت میں دیکھیں گے۔

آخرت کے امکان کے سلسلے میں دوسرامسئلہ زندگی بعدموت کامسئلہ ہے،’’کیامرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے‘‘موجودہ ذہن اپنے آپ سے سوال کرتاہے،اورپھرخودہی اس کاجواب دیتا ہے—’’نہیں مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں،کیوں کہ ہم جس زندگی سے واقف ہیں وہ مادی عناصر کی ایک خاص ترتیب کے اندر پائی جاتی ہے ،موت کے بعدیہ ترتیب باقی نہیں رہتی ،اس لیے موت کے بعد کوئی زندگی بھی نہیں ہوسکتی ،‘‘

ٹی،آر،مائلز(T. R. Miles) موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونےکومحض ایک تمثیلی حقیقت قرار دیتا ہے ، اور اس کو ایک لفظی حقیقت (literal truth) کے طورپرماننے سے ا نکار کرتا ہے۔ ’’میرے نزدیک‘‘ وہ کہتاہے ’’یہ ایک مضبوط مقدمہ ہے کہ مرنے کے بعدآدمی زندہ رہتاہے ،یہ بالکل لفظی طورپرایک حقیقت ہوسکتی ہے ،اوراس قابل ہے تجربے سے اس کاغلط یاصحیح ہونامعلوم کیاجاسکے ،مشکل صرف یہ ہے جب تک ہم کوموت نہ آئے ،اس کاقطعی جواب معلوم کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں ہے ،مگریہ قیاس کرناممکن ہے۔‘‘ اب چوں کہ قیاس اس کے خلاف ہے، اس لیے اس کے نزدیک یہ لفظی حقیقت نہیں،وہ قیاس یہ ہے:

’’علم الاعصاب (Neurology)کے مطابق خارجی دنیااوراس سے تعلقات کاعلم صرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ انسانی دماغ معمول کے مطابق کام کررہا ہو اور موت کے بعدجب کہ دماغ کی تنظیم منتشرہوجاتی ہے، اس قسم کاادراک(awareness) ناممکن ہے۔‘‘

Religion and the Scientific Outlook, p. 206

مگراس سے زیادہ قوی قیاسات دوسرے موجودہیں،جویہ ظاہرکرتے ہیں کہ جسم کے ذرات مادی کاانتشارزندگی کوختم نہیں کرتا،زندگی ایک الگ اورمستقل بالذات چیزہے ، جوذرات کی تبدیلی کے باوجودباقی رہتی ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ انسان کاجسم بعض خاص قسم کے اجزاسے مل کربناہے،جس کی مجموعی اکائی کو خلیہ (Cell) کہتے ہیں، یہ خلیے نہایت پیچیدہ ساخت کے چھوٹے چھوٹے ریزے ہیں،جن کی تعداد ایک متوسط قد کے انسان میں تقریباً26پدم(26 quadrillion) ہوتی ہے ،یہ گویابے شمارچھوٹی چھوٹی اینٹیں({ FR 1397 }) ہیں، جن کے  ذریعہ ہمارے جسم کی عمارت تعمیرہوئی ہے ،فرق یہ ہے کہ عمارت کی اینٹیں پوری زندگی بھر وہی کی وہی رہتی ہیں، جوشروع میں ا س کے اندرلگائی گئی تھیں، مگرجسم کی اینٹیں ہروقت بدلتی رہتی ہیں،جس طرح ہرچلنے والی مشین کے اندر گھِساؤ (Depreciation) کاعمل ہوتاہے،اسی طرح ہماری جسمانی مشین بھی گھستی ہے،اوراس کی ’’اینٹیں‘‘  مسلسل ٹوٹ ٹوٹ کرکم ہوتی رہتی ہیں، یہ کمی غذا سے پوری ہوتی ہے ،غذاہضم ہوکرہمارے جسم کے لیے وہ تمام اینٹیں مہیّاکرتی ہے ،جوٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ہرروزہمارے جسم کودرکارہوتی ہیںگویاجسم نام ہے خلیوں کے ایک ایسے مرکب کا جوہر آن اپنے آپ کوبدلتارہتاہو،اس کی مثال بہتے ہوئے دریاکے ایک گھاٹ کی ہے جوہروقت پانی سے بھرا رہتاہے مگرہروقت وہی پانی نہیں ہوتاجوپہلے تھابلکہ ہرآن وہ اپنے پانی کوبدل دیتا ہے، گھاٹ وہی ہوتاہے ،مگرپانی وہی نہیں رہتا۔

اس طرح ہرآن ہمارے جسم میں ایک تبدیلی ہوتی رہتی ہے ،یہاں تک کہ ایک وقت آتاہے ، جب جسم کی پچھلی تمام اینٹیں ٹوٹ کرنکل جاتی ہیں، اوران کی جگہ مکمل طورپرنئی اینٹیں لے لیتی ہیں، بچے کے جسم میں یہ عمل جلدجلدشروع ہوتاہے،اورعمرکے بڑھنے سے ا س کی رفتارسست ہوتی رہتی ہے، اگر پوری عمر کا اوسط لگایاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ ہردس سال میں جسم کے اندریہ تبدیلی واقع ہوتی ہے، ظاہری جسم کے خاتمے کایہ عمل برابر ہوتا رہتا ہے، مگراندرکاانسان اسی طرح اپنی اصل حالت میں موجود رہتا ہے، اس کاعلم ،اس کاحافظہ ،اس کی تمنائیں ،اس کی عادتیں اس کے تمام خیالات بدستور باقی رہتے ہیں، وہ اپنی عمرکے ہرمرحلے میں اپنے آپ کووہی سابق ’’انسان‘‘ محسوس کرتاہے،جوپہلے تھا،حالانکہ اس کی آنکھ ،کان ،ناک، ہاتھ،پاؤں غرض ناخن سے بال تک ہرہرچیزبدل چکی ہوتی ہے۔

اب اگرجسم کے خاتمہ کے ساتھ اس جسم کاانسان بھی مرجاتاہوتو خلیوں کی تبدیلی سے اسے بھی متاثر ہوناچاہیے،مگرہم جانتے ہیںکہ ایسانہیں ہوتا،یہ واقعہ ثابت کرتاہے کہ انسان یاانسانی زندگی جسم سے الگ کوئی چیزہے جوجسم کی تبدیلی اورموت کے باوجوداپناوجودباقی رکھتی ہے،وہ ایک گھاٹ ہے جس کی گہرائی میں اجسام یادوسرے الفاظ میں خلیوں کی ایک مسلسل آمدورفت جاری ہے ،چنانچہ ایک سائنس داں نے حیات یاانسانی ہستی کوایک ایسی مستقل بالذات چیزقراردیاہے،جومسلسل تغیرات کے اندرمتغیرحالت میں اپناوجودباقی رکھتی ہے — اس کے الفاظ میں:

personality is changelessness in change.

اگرموت محض جسم کے خاتمے کانام ہوتوہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسے ہرعمل کی تکمیل کے بعد گویا انسان ایک بار مرگیا ،اب اگرہم اس کودیکھتے ہیں تویہ دراصل اس کی دوسری زندگی ہے،جواس نے مر کرحاصل کی ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ پچاس سال کی عمرکاایک زندہ شخص جو ہمیں چلتاپھرتانظر آتا ہے، وہ اپنی ا س مختصرسی زندگی میں کم ازکم پانچ بار مکمل طورپرمرچکاہے۔پانچ بارکی جسمانی موت سے اگرایک انسان نہیں مراتوچھٹی بارکی موت کے بارے میں آخرکیوں یقین کر لیا گیا ہے کہ اس کے بعدوہ لازماًمرجائے گا۔

بعض لوگ ا س دلیل کوتسلیم نہیں کریں گے ،وہ کہیں گے کہ وہ ذہن یااندرونی وجودجس کوتم انسان کہتے ہو،وہ دراصل کوئی علیٰحدہ چیزنہیں ہے بلکہ خارجی دنیاکے ساتھ جسم کے تعلق سے پیدا ہوا ہے،تمام جذبات وخیالات مادی عمل کے دوران میں اسی طرح پیداہوتے ہیں، جس طرح دھات کے دوٹکڑوں کی رگڑسےحرارت پیداہوتی ہے،جدیدفلسفہ روح کے مستقل وجودکاانتہائی مخالف ہے۔ جیمزکہتاہےکہ شعورایک ہستی (entity) کے طورپرموجودنہیں ہے بلکہ ایک عمل (function)کے طورپرموجودہے،وہ ایک کارروائی (process)ہے ، ہمارے زمانے کے فلسفیوں کی بہت بڑی تعدادنے اصرارکیاہے کہ شعوراس کے سوااورکچھ نہیں کہ وہ خارج سے پیدا ہونے والے ایک ہیجان کاعصبی جواب (nervous response) ہے، اس تصورکے مطابق موت یعنی جسمانی نظام کے منتشرہونے کے بعدانسان کی موجودگی کاکوئی سوال نہیں،کیوں کہ وہ مرکز اعصاب ہی اس کے بعدباقی نہیں رہا،جوخارجی دنیاکے تعامل سے زندگی کاجواب ظاہرکرے نتیجہ یہ نکلاکہ زندگی بعدموت کاتصوربالکل غیرعقلی تصورہے— اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

میں کہوں گاکہ انسان کی حقیقت اگریہی ہے تویقیناًہمارے لیے ممکن ہوناچاہیے کہ ہم ایک زندہ اور باشعورانساان کوپیداکرسکیں ،آج ہم اچھی طرح جانتے ہیںکہ انسان کاجسم کن عناصرسے مل کربنتاہے،تمام عناصربہت کثیرمقدارمیں زمین کے اندراوراس کی فضامیں قابل حصول حالت میں موجودہیں ،ہم نے جسم کے اندرونی نظام کوانتہائی باریک بینی کے ساتھ معلوم کرلیاہے،آج ہم اچھی طرح جانتے ہیںکہ انسانی جسم کاڈھانچہ اوراس کے رگ وریشے کس طرح بنائے گئے ہیں، پھر ہمارے پاس ایسے بے شمارماہرآرٹسٹ موجودہیں، جوکمال درجہ مطابقت کے ساتھ انسان کی مانند ایک جسم بناکرکھڑاکردیں،مخالفین روح کو اگر اپنے نظریے پریقین ہے تووہ ایساکیوں نہیں کرتے کہ بہت سے انسانی جسم تیارکرکے زمین کے مختلف حصوں میں کھڑاکردیں،اوراس وقت کاانتظارکریں جب خارجی دنیاکے اثرات پڑنے سے یہ ڈھانچے چلنے اوربولنے لگیں گے ۔

یہ زندگی کے باقی رہنے کے امکان کی بحث تھی،اب اس مقصدکے اعتبارسے غورکیجیے جس کے لیے مذہب دوسری زندگی کے اوپرعقیدہ رکھتاہے۔ مذہبی تصورکے مطابق، زندگی کاوجود جرمن فلسفی نشٹے(Friedrich Nietzsche) کے فلسفیانہ ’’آمدورفت‘‘کانام نہیں ہے، جوریت گھڑی (sand glass clock)کی طرح بس خالی اورپُرہوتی رہے۔ اس سے آگے اس کااورکوئی مقصدنہ ہو— بلکہ دوسری زندگی کاایک عظیم مقصدہے، اوروہ یہ کہ موجودہ دنیاکی ا چھائیوں اوربرائیوں کابدلہ دیا جائے۔

عقیدۂ آخرت کایہ جزءبھی اس وقت بالکل ممکن نظرآنے لگتاہے، جب ہم دیکھتے ہیںکہ کائنات میں حیرت انگیز طور پر ہر شخص کا نامہ اعمال رات دن ایک لمحہ کے وقفہ کے بغیرضبط (record) کیا جارہا ہے آدمی تین شکلوں میں اپنی ہستی کوظاہرکرتاہے— نیت،قول اورعمل،یہ تینوں چیزیں مکمل طور پر محفوظ کی جارہی ہیں،ہماراہرخیال،ہماری زبان سے نکلاہواہرلفظ اورہماری تمام کارروائیاں کائنات کے پردہ پر اس طرح نقش ہورہی ہیں کہ کسی بھی وقت ان کونہایت صحت کے ساتھ دہرایاجاسکے ،اوریہ معلوم ہوسکے کہ دنیاکی زندگی میں کس نے کیاکہا،کس کی زندگی شرکی زندگی تھی،اورکس کی زندگی خیرکی زندگی۔

جوخیالات ہمارے دل میں گزرتے ہیں، ہم بہت جلدانھیں بھول جاتے ہیں، اس سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے ،مگرجب ہم مدتوں کی ایک بھولی ہوئی بات کوخواب میں دیکھتے ہیں یاذہنی اختلال کے بعدآدمی ایسی باتیں بولنے لگتاہے جوہوش و حواس کی حالت میں اس کی زبان سے نہیں سنی گئی تھیں،تویہ واقعہ ظاہرکرتاہے کہ آدمی کاحافظہ اتناہی نہیں ہے،جتناشعوری طورپروہ محسوس کرتا ہے۔حافظہ کے کچھ خانے ایسے بھی ہیں،جوبظاہرشعورکی گرفت میں نہیں ہوتے،مگروہ موجود رہتے ہیں۔

مختلف تجربوں سے ثابت ہواہے کہ ہمارے خیالات مستقل طورپراپنی پوری شکل میںمحفوظ رہتے ہیں، حتیٰ کہ ہم چاہیں بھی توانھیں ختم نہیں کرسکتے۔یہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ انسانی شخصیت صرف وہی نہیں ہے ،جسے ہم شعورکہتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس، انسانی شخصیت کاایک حصّہ ایسا بھی ہے، جو ہمارے شعورکی سطح کے نیچے موجودرہتاہے۔یہ حصّہ جسے سگمنڈ فرائڈتحت الشعور (Sub-Conscious) یالاشعور(Unconscious)کانام دیتا ہے۔ یہ ہماری شخصیت کابہت بڑاحصّہ ہے ،نفس انسانی کی مثال سمندرمیں تیرتے ہوئے تودۂ برف (iceberg)کی سی ہے ،جس کاصرف نواں حصّہ پانی کے اوپردکھائی دیتاہے،اوربقیہ آٹھ حصّے سطح سمندرکے نيچے رہتے ہیں، یہی تحت شعورہے جوہمارے تمام خیالات اورہماری نیتوں کومحفوظ رکھتاہے،فرائڈاپنے اکتیسویں لیکچرمیں لکھتا ہے:

’’منطق کے قوانین (the laws of logic)بلکہاضداد کے اصول(the law of contradiction) بھی لاشعور (ID) کے عمل پرحاوی نہیں ہوتے، مخالف خواہشات ایک دوسرے کوزائل کیے بغیراس میں پہلوبہ پہلوہمیشہ موجود رہتی ہیں— لاشعورمیں کوئی ایسی چیزنہیں جونفی سے مشابہت رکھتی ہو، اور ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ لاشعورکی دنیامیں فلسفيوں کایہ دعویٰ ہوجاتاہے کہ ہمارے دماغی افعال وقت اور فاصلہ کے درمیان واقع ہوتے ہیں، لاشعورکے اندرکوئی ایسی چیزنہیں جووقت کے تصور سے  مطابقت رکھتی ہو،لاشعورمیں وقت کے گزرنے کاکوئی نشان نہیںاوریہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے ،جس کے معنی سمجھنے کی طرف ابھی تک فلسفیوں نے پوری توجہ نہیں کی کہ وقت گزرنے سے ذہنی عمل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ،پوشیدہ خیالات(conative impulses)جوکبھی لاشعورسے باہرنہیں آئے بلکہ وہ ذہنی تاثرات بھی جنھیں روک کر لاشعورمیں دبادیاگیاہو،فی الواقع غیرفانی ہوتے ہیں اوردسیوں سال تک اس طرح محفوظ رہتے ہیں،گویاابھی کل وجودمیں آئے ۔

New Introductory Lectures on Psycho-Analysis, London, 1969, p. 99

 تحت الشعورکایہ نظریہ اب نفسیات میں عام طورپرتسلیم کیاجاچکاہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہربات جوآدمی سوچتاہے، اورہراچھایابراخیال جواس کے دل میں گزرتاہے، وہ سب کاسب نفس انسانی میں اس طرح نقش ہوجاتاہے کہ پھرکبھی نہیں مٹتا،وقت کاگزرنایاحالات کابدلنااس کے اندرذرہ برابرکوئی تبدیلی پیدانہیں کرتا— یہ واقعہ انسانی ارادہ کے بغیر ہوتا ہے،خواہ انسان اسے چاہے یانہ چاہے ۔

فرائڈیہ سمجھنے سے قاصرہے کہ نیات اوراعمال کااس احتیاط اورحفاظت کے ساتھ تحت شعورمیں ضبط رہناکارخانۂ قدرت کے اندرکون سے مقصدکوپوراکرتاہے۔ اس لیے وہ فلسفیوں کو ا س مسئلے پر سوچنے کی دعوت دیتاہے،مگراس واقعہ کوآخرت کے نظریے کے ساتھ ملاکردیکھاجائے توفورًااس کی معنویت سمجھ میں آجاتی ہے ،یہ واقعہ صریح طورپراس امکان کوظاہرکرتاہے کہ جب دوسری زندگی شروع ہوگی توہرشخص اپنے پورے نامۂ اعمال کے ساتھ وہاں موجودہوگا،آدمی کاخوداپناوجودگواہی دے رہاہوگاکہ کن نیتوں اورکن خیالات کے ساتھ اس نے دنیامیں زندگی بسرکی تھی۔ قرآن میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (50:16) ۔ یعنی اورہم نے بنایاانسان کواورہم جانتے ہیں جوباتیں آتی رہتی ہیں اس کے جی میں،اورہم اس کے رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

اب قول کے مسئلے کولیجیے ۔نظریۂ آخرت یہ کہتاہے کہ آدمی اپنے اقوال کے لیے جواب دہ ہے، آپ خواہ بھلی بات کہیں یاکسی کوگالی دیں ،آدمی اپنی زبان کوسچائی کاپیغام پہنچانے کے لیے استعمال کرے یاوہ شیطان کامبلغ بن جائے ،ہرحال میں ایک کائناتی انتظام کے تحت اس کے منھ سے نکلے ہوئے الفاظ کامکمل ریکارڈ تیارکیاجارہاہے ۔ قرآن کے الفاظ ہیںمَایَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّالَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(50:18)۔ یعنی کوئی لفظ انسان نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک نگراں ہر وقت (لکھنے کے لیے)موجود ہے۔ اوریہ ریکارڈ آخرت کی عدالت میں حساب کے لیے پیش ہوگا۔

یہ بھی ایسی چیزہے جس کاممکن الوقوع ہوناہمارے معلوم دنیاکے عین مطابق ہے،ہم جانتے ہیںکہ جب کوئی شخص بولنے کے لیے اپنی زبان کوحرکت دیتاہے تواس حرکت سے ہوامیں لہریں پیدا ہوتی ہیں ،جس طرح ساکن پانی میں پتھرپھینکنے سے لہریں پیداہوتی ہیں۔ اگرآپ ایک برقی گھنٹی کو شیشہ کے اندرمکمل طورپربندکردیںاوربجلی کے ذریعہ سے اسے بجائیں توآنکھوں کووہ گھنٹی بجتی ہوئی نظرآئے گی، مگرآوازسنائی نہیں دے گی۔کیوں کہ شیشہ بندہونے کی وجہ سے اس کی لہریں ہمارے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہیں ،یہی لہریں ہیں، جو ’’آواز‘‘کی صور ت میں ہمارے کان کے پردے سے ٹکراتی ہیں اورکان کے آلات انھیں اخذکرکے دماغ تک پہنچادیتےہیں اوراس طرح ہم بولے ہوئے الفاظ کوسمجھنے لگتے ہیں ،جس کو’’سننا‘‘کہاجاتاہے ۔

ان لہروں کے بارے میں یہ ثابت ہوچکاہے کہ وہ ایک مرتبہ پیداہونے کے بعد مستقل طور پر فضا میں باقی رہتی ہیں،اوریہ ممکن ہے کہ کسی بھی وقت انھیں دہرایاجاسکے ،اگرچہ سائنس ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ ان آوازوں یاصحیح ترالفاظ میں ان لہروں کی گرفت کرسکے جوقدیم ترین زمانے سے فضامیںحرکت کررہی ہیں، اورنہ ابھی تک ا س سلسلے میں کوئی خاص کوشش ہوئی ہے،تاہم نظری طورپریہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ایساآلہ بنایاجاسکتاہے،جس سے زمانۂ قدیم کی آوازیں فضاسے لے کراسی طرح سنی جاسکیں جس طرح ہم ریڈیوسيٹ کے ذریعہ ان لہروں کو فضاسے وصول کرکے سنتے ہیں، جوکسی براڈکاسٹنگ اسٹیشن سے بھیجی گئی ہوں۔

فی الحال اس سلسلے میں جومشکل ہے،وہ ان کوگرفت کرنے کی نہیںہے،بلکہ الگ کرنے کی ہے،ایساآلہ بناناآج بھی ممکن ہے،جوقدیم آوازوں کوگرفت کرسکے ،مگرابھی ہم کوایسی کوئی تدبیر نہیں معلوم جس کے ذریعہ سے بے شمارملی ہوئی آوازوں کوالگ کرکے سناجاسکے ، یہی دقت ریڈیو نشریات میں بھی ہے، مگراس کوایک مصنوعی طریقہ اختیارکرکے حل کرلیا گیا ہے ،دنیابھرمیں سیکڑوں ریڈیو اسٹیشن ہیں، جوہروقت مختلف قسم کے پروگرام نشرکرتے رہتے ہیں، یہ تمام پروگرام ایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل فی سكينڈکی رفتارسے ہروقت ہمارے گردوپیش گزرتے رہتے ہیں، بظاہر یہ ہونا چاہیے کہ جب ہم ریڈیوکھولیں توبیک وقت بہت سی ناقابل فہم آوازیں ہمارے کمرے میں گونجنے لگیں، مگرایسانہیں ہوتا،اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام نشرگاہیں ،اپنی اپنی ’’آواز‘‘ کو مختلف طولِ موج پر نشر کرتی ہیں،کوئی چھوٹی کوئی بڑی ،اس طرح مختلف نشرگاہوں سے نکلی ہوئی آوازیں مختلف طو ل کی موجوںمیں فضاکے اندرپھیلتی ہیں،اب جہاں کی آوازجس میٹربینڈپرنشرکی جاتی ہے ،اس پراپنے ریڈیوسٹ کی سوئی گھماکرہم وہاں کی آوازسن لیتے ہیں۔

اسی طرح غیرمصنوعی آوازوں کوالگ کرنے کاکوئی طریقہ ابھی دریافت نہیں ہوا ہے، ورنہ آج بھی ہم ہرزمانے کی تاریخ کواس کی اپنی آوازمیں سن سکتے تھے،تاہم اس سے یہ امکان قطعی طورپرثابت ہو جاتاہے کہ آئند ہ کبھی ایساہوسکتاہے ،اس تجربہ کی روشنی میں نظریۂ آخرت کایہ جزء ہمارے لیے بعید از قیاس نہیں رہتاکہ انسان جوکچھ بولتاہے،وہ سب ریکارڈہورہاہے، اوراس کے مطابق ایک روز ہر شخص کوجواب دہی کرنی ہوگی۔ایران کے سابق وزیراعظم ڈاکٹرمصدق 1953ء میں جب مقدمے کے دوران نظربندتھے توان کے کمرے میںخفیہ طورپرایسی ریکارڈنگ مشینیں لگادی گئی تھیں، جو ہر وقت متحرک رہتی تھیں، اوران کی زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کا ریکارڈ کرلیتی تھیں تاکہ عدالت میں ان کوثبوت کے طورپرپیش کیاجاسکے۔ ہمارامطالعہ بتاتاہے کہ اسی طرح ہرشخص کے  ساتھ خداکے فرشتے یادوسرے لفظوں میں بہت غیرمرئی محافظین(recorders)لگے ہوئے ہیں، جو ہمارے منھ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کونہایت درجہ صحت کے ساتھ کائنات کی پلیٹ پر نقش کر رہے ہیں۔تاکہ بوقت ضرورت انھیں آفاقی عدالت میں پیش کیا جائے۔

اب عمل کے مسئلہ کولیجیے ۔اس سلسلے میں بھی ہماری معلومات حیرت انگیزطورپراس کا ممکن الوقوع ہوناثابت کرتی ہیں،سائنس بتاتی ہے کہ ہمارے اعمال ،خواہ وہ اندھیرے میں کیے گئے ہوں یا اجالے میں،تنہائی میں ان کاارتکاب ہواہویامجمع کے اندر،سب کے سب فضامیں تصویری حالت میں موجودہیں،اورکسی بھی وقت ان کویکجاکرکے ہرشخص کا پورا کارنامۂ حیات معلوم کیا جاسکتا ہے۔

جدیدتحقیقات سے ثابت ہواہے کہ ہرچیزخواہ وہ ا ندھیرے میںہویااجالے میں، ٹھہری ہوئی ہو یاحرکت کررہی ہو،جہاں یاجس حالت میں ہو، اپنے اندرسے مسلسل حرارت خارج کرتی رہتی ہے، یہ حرارت چیزوں کے ابعادواشکال کے اعتبارسے اس طرح نکلتی ہے کہ وہ بعینہ ا س چیزکاعکس ہوتی ہے ،جس سے وہ نکلی ہے ،جس طرح آوازکی لہریں اس مخصوص تھرتھراہٹ کاعکس ہوتی ہیں، جوکسی زبان پرجاری ہوئی تھی، چنانچہ ایسے کیمرے ایجادکیے گئے ہیں،جوکسی چیزسے نکلی ہوئی حرارتی لہروں (heat waves)کواخذ کرکے اس کی اس مخصوص حالت کافوٹوتیارکردیتے ہیںجب کہ وہ لہریں اس سے خارج ہوئی تھیں،مثلاًمیں اس وقت ایک مسجدمیں بیٹھا ہوا لکھ رہاہوں، ا س کے بعدمیں یہاں سے چلاجاؤں گا،مگریہاں اپنی موجودگی کے دوران میں نے جوحرارتی لہریں خارج کی ہیں،وہ بدستورموجودرہیں گی اورحرارت دیکھنے والی مشین کی مددسے خالی شدہ مقام سے میرامکمل فوٹوحاصل کیا جاسکتا ہے۔البتہ اس وقت جوکیمرے بنے ہیں وہ چندگھنٹے بعدہی تک کسی لہرکافوٹولے سکتے ہیں، اس کے بعدکی لہروں کاعکس اتارنے کی طاقت ان میں نہیں ہے ۔

ان کیمروںمیں انفرارڈ(infrared)شعاعوں  سے کام لیاجاتاہے ،ا س لیے وہ اندھیرے اور اجالے میں یکساں فوٹولے سکتی ہیں، امریکا اورانگلینڈمیں اس دریافت سے کام لینا شروع ہوگیا ہے، چند سال پہلے کی بات ہے ،ایک رات نیویارک کے اوپرایک پُراسرارہوائی جہاز چکرلگارہا تھا، پھر وہ چلا گیا۔ اس کے فوراً بعد مذکورہ بالاکیمرے کے ذریعہ فضاسے ا س کی حرارتی تصویرلی گئی،اس کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوگیاکہ اڑنے والاجہازکس ساخت کاتھا(ریڈر ڈائجسٹ، نومبر1960ء)۔ اس کیمرے کو مصورِ حرارت (evaporagraph)کہتے ہیں۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے  ہند ستان ٹائمز،نئی دہلی نے لکھا تھا کہ اس کامطلب یہ ہے کہ آئندہ ہم ماضی کی تاریخ کو پردۂ فلم کے اوپر دیکھ سکیں گے اورہوسکتاہے کہ پچھلے ادوار کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات ہوں جو ہماری موجودہ تاریخی نظریات کوبالکل بدل ڈالیں۔

یہ ایک حیرت انگیزدریافت ہے۔ا س کامطلب یہ ہے کہ جس طرح فلم اسٹوڈیومیں نہایت تیز رفتار کیمرے ایکٹروں اورایکٹرسوں کی تمام حرکات وسکنات کی تصویرلیتے رہتے ہیں، اسی طرح عالمی پیمانےپرہرشخص کی زندگی فلمائی جارہی ہے، آپ خواہ کسی کوتھپڑماریں یاکسی غریب کابوجھ اٹھا دیں، اچھے کام میں مصروف ہوں یابرے کام کے لیے دوڑدھوپ کررہے ہوں،اندھیرے میں ہوں یا اجالے میں،جہاں اور جس حال میں ہوں،ہروقت آپ کاتمام عمل کائنات کے پردہ پرنقش ہو رہا ہے ،آپ اسے روک نہیں سکتے ،اورجس طرح فلم اسٹوڈیومیں دہرائی ہوئی کہانی کواس کے بہت بعداوراس سے بہت دورره کرایک شخص اسکرین پراس طرح دیکھتاہے گویاوہ عین موقع واردات پرموجودہو،ٹھیک اسی طرح ہرشخص نے جوکچھ کیاہے اورجن واقعات کے درمیان اس نے زندگی گزاری ہے،اس کی پوری تصویرایک روزاس کے سامنے اس طرح آسکتی ہے کہ اس کودیکھ کروہ پکاراٹھے  :

مَالِھٰذَاالْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَاکَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصَاھَا (18:49)۔ یعنی یہ کیسا دفتر ہے جس نے میراچھوٹابڑاکوئی کام بھی درج کیے بغیرنہیں چھوڑاہے۔

اوپرکی تفصیلات سے معلوم ہواکہ دنیامیں ہرانسان کامکمل اعمال نامہ تیار کیا جار ہا ہے، جو خیال بھی آدمی کے د ل میں گزرتاہے،وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتاہے،اس کی زبان سے نکلاہواایک ایک لفظ نہایت صحت کے ساتھ ریکارڈہورہاہے،ہرآدمی کے اردگردایسے کیمرے لگے ہوئے ہیں جو اندھیرے اوراجالے کی تمیزکیے بغیرشب وروزاس کي فلم تیارکررہے ہیں، گویاانسان کاقلبی عمل ہو یالسانی عمل یاعضوی عمل ،ہرایک نہایت باقاعدگی کے ساتھ درج کیاجارہاہے،اس حیرت انگیز صورت حال کی توجیہ اس کے سوااورکچھ نہیں ہوسکتی کہ خداکي عدالت میں ہرانسان کاجومقدمہ پیش ہونے والاہے،یہ سب اس کی شہادت فراہم کرنے کے انتظامات ہیں، جوخودعدالت کی طرف سے کیے گئے ہیں،کوئی بھی شخص ان واقعات کی اس سے زیادہ معقول توجیہ پیش نہیں کرسکتا،اب یہ صریح واقعہ بھی آدمی کوآخرت میں ہونے والی بازپرس کایقین نہیں دلاتا،تومجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ساواقعہ ہوگاجواس کی آنکھ کھولے گا۔

تقاضا

اوپرہم نے آخرت کے تصورپراس حیثیت سے بحث کی ہے کہ موجودہ کائنات میں کیااس قسم کی کسی آخرت کاواقع ہوناممکن ہے جس کامذہب میں دعویٰ کیاگیاہے، ا س سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ یہ آخرت قطعی طورپرممکن الوقوع ہے، اب یہ دیکھیے کہ کیاہماری دنیاکواس قسم کی آخرت کی کوئی ضرورت بھی ہے، کیاکائنات اپنے موجودہ ڈھانچہ کے اعتبار سے تقاضاکرتی ہے کہ آخرت لازماًوقوع میں آئے؟

1۔ سب سے پہلے نفسیاتی پہلوکولیجیے — کننگھم نے اپنی کتاب (Plato's Apology) میں زندگی بعدموت کے عقیدے کوخوش کن لاادریت (cheerful agnosticism) کہاہے۔ یہی موجودہ زمانے میں تمام بے خدامفکرین کانظریہ ہے، ان کاخیال ہے کہ دوسری زندگی کاعقیدہ انسان کی اس ذہنیت نے پیداکیاہے کہ وہ اپنے لیے ایک ایسی دنیاتلاش کرناچاہتاہے جہاں وہ موجودہ دنیاکی محدودیتوں اورمشکلات سے آزادہوکرخوشی اور فراغت کی ایک دل پسندزندگی حاصل کرسکے، یہ عقیدہ انسان کی محض ایک مفروضہ خوش فہمی ہے ،جس کے ذریعہ وہ اس خیالی تسکین میں مبتلا رہنا چاہتا ہے کہ مرنے کے بعدوہ اپنی محبوب زندگی کوپالے گا،ورنہ جہاں تک حقیقت واقعہ کاتعلق ہے، ایسی کوئی دنیاواقعہ میں موجودنہیں ہے مگرانسان کی یہ طلب بذات خودآخرت کاایک نفسیاتی ثبوت ہے، جس طرح پیاس کالگناپانی کی موجودگی اورپانی اورانسان کے درمیان ربط کاایک داخلی ثبوت ہے، اسی طرح ایک بہتردنیاکی طلب اس بات کاثبوت ہے کہ ایسی ایک دنیافی الواقع موجودہے، اورہم سے  اس کابراہِ راست تعلق ہے تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ترین زمانے سے عالمگیرپیمانے پریہ طلب انسان کے اندرموجودرہی ہے، اب یہ ناقابلِ قیاس ہے کہ ایک بے حقیقت چیزاتنے بڑے پیمانے پراوراس قدرابدی شکل میں انسان کومتاثرکردے،ایک ایساواقعہ جوہمارے لیے اس امکان کاقرینہ پیداکرتاہے کہ دوسری بہتردنیاموجودہونی چاہیے،خوداسی واقعہ کو فرضی قراردیناصریح ہٹ دھرمی کے سوااورکچھ نہیں۔

جولوگ اتنے بڑے نفسیاتی تقاضے کویہ کہہ کرنظراندازکردیتے ہیں کہ یہ غیرحقیقی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ پھراس زمین پروہ کون ساواقعہ ہے جس کووہ حقیقی سمجھتے ہیں، اور اگر سمجھتے ہیں تواس کے لیے ان کے پاس کیادلیل ہے۔یہ خیالات اگرصرف ماحول کانتیجہ ہیں تووہ انسانی جذبات کے ساتھ اتنی مطابقت کیوں رکھتے ہیں کیادوسری کسی ایسی چیزکی مثال دی جاسکتی ہے ، جو ہزاروں سال کے دوران میں اس قدرتسلسل کے ساتھ انسانی جذبات کے ساتھ اپنی مطابقت باقی رکھ سکی ہو،کیاکوئی بڑے سے بڑاقابل شخص یہ صلاحیت رکھتاہے کہ ایک فرضی چیزگڑھے اوراس کو انسانی نفسیات میں اس طرح شامل کردے ،جس طرح یہ احساسات انسانی نفسیات میں سموئے ہوئے ہیں۔

انسان کی بہت سے تمنائیں ہیں، جواس دنیامیں پوری نہیں ہوتیں۔ انسان ایک ایسی دنیا چاہتا ہے جہاں صرف زندگی ہو،مگراسے ایک ایسی دنیاملی ہے،جہاں زندگی کے ساتھ موت کاقانون بھی نافذ ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آدمی اپنے علم ،تجربہ اورجدوجہدکے نتیجہ میں جب اپنی کامیاب ترین زندگی کے آغازکے قابل ہوتاہے،اسی و قت اس کے لیے موت کاپیغام آجاتا ہے، لندن کے کامیاب تاجروں کے متعلق اعدادوشمارسے معلوم ہواہے کہ 45-65سال کے عمرکے درمیان جب وہ اپنا کاروبارخوب جمالیتے ہیں، اورپانچ ہزار تا دس ہزارپونڈ(ایک لا کھ روپے سے زیادہ )سالانہ کما رہے ہوتے ہیں، اس وقت اچانک ایک روزان کے دل کی حرکت بندہوجاتی ہے، اور  وہ اپنے پھیلے ہوئے کاروبارکوچھوڑکراس دنیاسے چلے جاتے ہیں،وِنوڈریڈی(Winwood Reade)لکھتا ہے:

’’یہ ہمارے لیے ایک غورطلب مسئلہ ہے کہ کیاخداسے ہماراکوئی ذاتی رشتہ ہے ، کیااس دنیاکے علاوہ کوئی اوردنیاہے، جہاں ہمارے عمل کے مطابق ہم کوبدلہ دیاجائے گا، یہ نہ صرف فلسفہ کاایک بہت بڑامسئلہ ہے، بلکہ یہ خودہمارے لیے سب سے بڑاعملی سوال ہے، ایک ایساسوال جس سے ہمارامفادبہت زیادہ وابستہ ہے ،موجودہ زندگی بہت مختصرہے،اوراس کی خوشیاں بہت معمولی ہیں، جب ہم وہ کچھ حاصل کرلیتے ،جوہم چاہتے ہیں توموت کاوقت قریب آچکاہوتاہے، اگریہ واضح ہوسکے کہ ایک خاص طریقہ پرزندگی گزارنے سے دائمی خوشی حاصل ہوسکتی ہے توبیوقوف یاپاگل کے علاوہ کوئی بھی شخص اس طرح زندگی گزارنے سے انکارنہیں کرے گا۔‘‘

Martyrdom of Man, p. 414

مگریہی مصنف فطرت کی اتنی بڑی پکارکومحض ایک معمولی سے اشکال کی بنا پر رد کر دیتا ہے:

’’یہ نظریہ اس وقت تک بظاہربڑامعقول نظرآتاتھا،جب تک گہرائی کے ساتھ ہم نے اس کی تحقیق نہیں کی تھی ،مگرجب ایساکیاگیاتومعلوم ہواکہ یہ محض ایک لغو (absurd)بات ہے، اوراس کی لغویت کوبآسانی ثابت کیاجاسکتاہے —محروم العقل آدمی جو کہ اپنے گناہوں کاذمہ دارنہیں ہے، وہ توجنت میں جائے گا، مگر گوئٹے اورروسوجیسے لوگ جہنم میں جلیں گے ! اس لیے محروم العقل پیداہونااس سے اچھا ہے کہ آدمی گوئٹے اورروسوکی شکل میں پیدا ہو،اوریہ بات بالکل لغوہے۔‘‘(ایضًاصفحہ415)

یہ ویسی ہی بات ہے جیسے لارڈکلون (Lord Kelvin, 1824-1907)نے میکس ویل (James Clerk Maxwell, 1831-1879) کی تحقیق کو ماننے سے انکارکردیاتھا،لارڈکلون کاکہناتھاکہ ’’جب تک میں کسی چیزکامشینی ماڈل(mechanical model) نہیں بنالیتا، میں  اسے سمجھ نہیں سکتا۔‘‘ اس بناپراس نے روشنی کے متعلق میکسویل کے برقی مقناطیسی نظریے کو قبول نہیں کیا۔کیوں کہ وہ اس کے مادی فریم میں نہیں آتی تھی۔ طبیعیات کی دنیامیں آج یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔جے،ڈبلیو،این سولیون (J.W.N. Sullivan )کے الفاظ میں —’’ایک شخص کیوں ایساخیال کرے کہ فطرت کوایک ایسی نوعیت کی چیزہوناچاہیے جس کوانیسویں صدی کا ایک انجینئر اپنے کارخانہ میں ڈھال سکتاہو‘‘ ۔

The Limitation of Science, p. 9

یہی بات مَیں ونِ وڈ(Winwood Reade) کے مندرجہ بالااعتراض کے بارے میں کہوں گا—’’بیسویں صدی کا ایک فلسفی آخریہ سمجھنے کاکیاحق رکھتاہے کہ خارجی دنیاکواس کے اپنے مزعومات کےمطابق ہوناچاہیے۔‘‘

مصنف کی سمجھ میں اتنی موٹی سی بات نہیں آئی کہ حقیقت واقعہ خارج کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ خود خارج حقیقت واقعہ کامحتاج ہوتاہے:

Winwood Reade failed to understand the plain fact that reality is not dependent upon what is externally manifest. On the contrary, the external itself is dependent upon reality.

جب حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کاایک خداہے، اور اس کے سامنے حساب کتاب کے لیے ہمیں حاضرہوناہے توپھرہرشخص کوخواہ وہ روسو(Jean-Jacques Rousseau, 1712-1778) ہویاایک معمولی شہری، خداکاوفاداربن کرزندگی گزارنی چاہیے۔ہماری کامیابی حقیقت سے موافقت کرنے میں ہے، نہ کہ ا س کے خلاف چلنے میں۔وِن وُڈ (Winwood)روسو  اورگوئٹے (Goethe, 1749-1832) سے یہ نہیں کہتاکہ وہ اپنے آپ کوحقیقت واقعہ کے مطابق بنائیں، بلکہ وہ حقیقت واقعہ سے چاہتاہے کہ وہ اپنے آپ کوبدل ڈالے ،اورجب وہ اپنے اندر تبدیلی کے لیے تیارنہیں ہوتی توحقیقت واقعہ کولغو (absurd)قراردیتاہے۔حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص جنگی رازکے تحفظ کے قانون کواس بناپرلغوقراردے کہ اس کی روسے بعض اوقات ایک معمولی سپاہی کاکام قابل تعریف قرارپاتاہے،اورروزن برگ جیسے ممتازسائنس داں اوراس کی نوجوان اورتعلیم یافتہ بیوی (Rosenberg Pair)کوبجلی کی کرسی پربٹھاکرپھانسی دے دی جاتی ہے۔

ساری معلوم دنیاکے اندرصرف انسان ایک ایساوجودہے، جواپنے اختیار و ارادے کے تحت کل (Tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں سوچتاہے اور اپنے آئندہ حالات کوشعوری طور پر بہتربناناچاہتاہے۔ا س میں شک نہیں کہ بہت سے جانور بھی ’’کل‘‘ کے لیے عمل کرتے ہیں۔مثلاًچیونٹیاںگرمی کے موسم میں جاڑے کے لیے خوراک جمع کرتی ہیں یابَیا (Baya Weaver)اپنے آئندہ پیدا ہونے والے بچوں کے لیے گھونسلابناتاہے۔ مگر جانوورں کااس قسم کاعمل محض جبلّت (instinct) کے تحت غیرشعوری طورپرہوتاہے، وہ ’’کل‘‘کی ضرورتوں کوسوچ کر بالقصد ایسا نہیں کرتے ،بلکہ وہ بلاارادہ طبعی طور پرانجام دیتے ہیں، اور بطورنتیجہ وہ اِن کے مستقبل میں انھیں کام آتاہے۔’’کَل‘‘ کو ذہن میں رکھ کر اس کی خاطرسوچنے کے لیے تصوری فکر (conceptual thought)کی صلاحیت درکار ہے، اوریہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کسی دوسرے جاندارکوتصوری فکرکی خصوصیت حاصل نہیں۔

انسان اوردوسری مخلوقات کایہ فرق ظاہرکرتاہے کہ انسان کودوسری تمام چیزوں سے زیادہ مواقع ملنے چاہئیں ،جانوروں کی زندگی صرف آج کی زندگی ہے، وہ زندگی کا کوئی ’’کل‘‘ نہیں رکھتے مگرانسان کامطالعہ صاف طورپربتاتاہے کہ اس کے لیے ایک ’’کل‘‘ ہونا چاہیے ،ایسانہ ہونانظام فطرت کے خلاف ہے۔

بعض لوگوں کاکہناہے کہ موجودہ زندگی میں ہماری ناکامیاں،عام طورپر،ہم کو اس سے بہترایک زندگی کی توقع کی طرف لے جاتی ہیں،ایک خوش حال فضامیں ایساعقیدہ باقی نہیں رہ سکتا،روم کے غلام ،مثال کے طورپربہت بڑی تعدادمیں عیسائی ہوگئے۔کیوں کہ عیسائیت ان کومرنے کے بعد خوشی حاصل ہونے کی امید دلاتی تھی۔یہ یقین کیاجاتاہے کہ سائنس کی ترقی سے انسان کی خوشی اورخوشحالی بڑھے گی، اوربالآخردوسری زندگی کاتصورختم ہوجائے گا۔

مگرسائنس اورٹيکنالوجی کی چارسوسالہ تاریخ اس کی تصدیق نہیں کرتی، ٹيکنالوجی کی ترقی نے سب سے پہلے دنیاکوجوچیزدی وہ یہ تھاکہ سرمایہ رکھنے والے محدودگروہ کوایسے وسائل وذرائع ہاتھ آگئے جس کے بل پروہ چھوٹے کاریگروں اورپیشہ وروں کوختم کرکے دولت کاتمام بہاؤ اپنی طرف کرلیں اورعام باشندوں کومحض اپنامحتاج مزدوربناکررکھ دیں،اس انجام کے ہولناک مناظرمارکس کی کتاب’’کیپٹل‘‘ میں تفصیل کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں، جو گویااٹھارویں اورانیسویں صدی کے اس مزدورطبقہ کی چیخ ہے،جس کومشینی نظام نے اپنے ابتدائی دورمیں جنم دیاتھا،اس کے بعدردعمل شروع ہوااورمزدورتحریکوں کی ایک صدی کی کوشش سے اب حالات بہت بدل چکے ہیں مگریہ تبدیلی صرف ظاہرکی تبدیلی ہے،بیشک آج کامزدورپہلے کے مزدورکے مقابلے میں زیادہ اجرت پاتا ہے، لیکن جہاںتک حقیقی خوشی کی دولت کاتعلق ہے،اس معاملے میں وہ اپنے پیش رووں سے بھی زیادہ محروم ہے— سائنس اورٹيکنالوجی نے جونظام بنایاہے ،وہ کچھ مادی ظواہرانسان کوشاید دے ، مگر خوشی اوراطمینان قلب کی دولت پھربھی اسے نہیں دیتا،تہذیب جدیدکے انسان کے بارے میں ولیم بلیک (William Blake, 1757-1827)کے الفاظ نہایت صحیح ہیں:

And mark in every face I meet

Marks of weakness, marks of woe.({ FR 1346 })

برٹرینڈرسل نے اعتراف کیاہے کہ’’ہماری دنیاکے جانورخوش ہیں،ا نسانوں کوبھی خوش ہوناچاہیے ،مگرجدیددنیامیں انھیں یہ نعمت حاصل نہیں۔‘‘

Conquest of Happiness, p. 11

 بلکہ رسل کے الفاظ میں اب توصورت حال یہ ہے کہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ اس کاحصو ل ممکن ہی نہیں:

Happiness in the modern world has become an impossibility  p. 93

نیویارک جانے والا سیاح ایک طرف تواسٹیٹ بلڈنگ جیسی عمارتوں کودیکھتاہے جس کی 102منزلیں ہیں، اورجواتنی اونچی ہے کہ اس کااوپرکاٹمپر یچر نیچے کے مقابلے میں کافی سرد ہوجاتا ہے، ا س کودیکھ کراتریں تویہ مشکل ہی سے یقین آئے گاکہ آپ اس پرگئے تھے ،1250 فٹ بلند عمارت پرچڑھنے میںلفٹ کے ذریعہ صرف تین منٹ لگتے ہیں، ان عالی شان عمارتوں اور بازاروں کو دیکھ کر وہ کلب میں جاتاہے،وہاں وہ دیکھتاہے کہ عورت مردمل مل کر ناچ رہے ہیں۔’’کتنے خوش نصیب ہیں یہ لوگ‘‘ وہ سوچتاہے،مگرزیادہ دیرگزرنے نہیں پاتی کہ اس جھنڈمیں سے ایک نوجوان عورت آکراس کے پا س کی نشست پربیٹھ جاتی ہے ،وہ بہت افسردہ ہے ۔

’’سیاح!کیامیں بہت بدصورت ہوں‘‘عورت کہتی ہے۔

’’میراخیال توایسانہیں ہے۔‘‘

’’مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ مجھ میں رعنائی( Glamour) نہیں ہے۔‘‘

’’میرے خیال میں توتم میں گلے مرہے۔‘‘

’’شکریہ ۔لیکن اب نہ مجھے نوجوان ٹیپ (Tap)کرتے ہیں،اورنہ ڈیٹ (Date) مانگتے ہیں، مجھے زندگی ویران نظرآنے لگی ہے۔‘‘

یہ جدیددورکے انسان کی ایک ہلکی سی جھلک ہے،حقیقت یہ ہے کہ سائنس اورٹيکنالوجی کی ترقی نے صرف مکانوں کوترقی دی ہے ، اس نے مکینوں کے دل کاسکون چھین لیاہے،ا س نے شاندارمشینیں کھڑی کی ہیں، مگران مشینوں میں کام کرنے والے انسانوں کوچین سے محروم کردیا ہے، یہ سائنس اورٹيکنالوجی کی 4سوسالہ تاریخ کاآخری انجام ہے، پھرکس بنیاد پر یقین کرلیاجائے کہ سائنس اورٹيکنالوجی وہ سکون اورمسرت کی دنیابنانے میں کامیاب ہوگی جس کی انسان کوتلاش ہے۔

2۔اب اخلاقی تقاضے کولیجیے،ا س حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تودنیاکے حالات شدید طور پر اس بات کاتقاضاکرتے ہیں کہ اس کی ایک آخرت ہو،اس کے بغیرساری تاریخ بالکل بے معنی ہوتی ہے ۔

یہ ہماراایک فطری احساس ہے کہ ہم خیراورشرظلم اورانصاف میں تمیزکرتے ہیں، انسان کے سوا کسی بھی مخلوق کے اندر یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی، مگرانسان ہی کی دنیاوہ دنیاہے ، جہاں ا س احساس کوسب سے زیادہ پامال کیاجارہاہے، انسان اپنے ابنائے نوع پرظلم کرتاہے،وہ اپنی نوع کو استحصال کرتاہے ،اس کو قتل کرتاہے ،اور طرح طرح سے اس کوتکلیف پہنچاتا ہے۔ حالانکہ جانوروں تک کایہ حال ہے کہ وہ اپنی نوع کے ساتھ سفاکی نہیں کرتے ،بھیڑیے اور شیراپنی نوع کے لیے بھیڑیے اورشیرنہیں ہیں، مگرانسان خودانسان کے لیے بھیڑیابناہواہے، بیشک انسانی تاریخ میں حق شناسی کی چنگاریاں بھی ملتی ہیں، اوروہ بہت قابل قدرہیں،مگراس کابڑاحصّہ حق تلفی کی رودادسے بھرا ہوا ہے۔ مورخ کوبڑی مایوسی ہوتی ہے،جب وہ دیکھتاہے کہ انسان کاضمیرجوکچھ چاہتاہے،انسانی دنیا کے واقعی حالات اس کے خلاف ہیں۔یہاں میں چند اقوال نقل کروں گا

والٹیر’’انسانی تاریخ محض جرائم اورمصائب کی ایک تصویرہے۔‘‘

History is nothing more than a picture of crimes and misfortunes. (The Story of Philosophy by Will Durant, NY, 1926, p. 241)

ہربرٹ اسپنسر’’تاریخ محض بے فائدہ گپ ہے۔‘‘

History is simply useless gossip.

نپولین’’تاریخ تمام کی تمام لایعنی قصّے کانام ہے۔‘‘

History on the whole is another name for a meaningless story.

اڈورڈگبن’’انسانیت کی تاریخ جرائم ،حماقت اوربدقسمتی کے رجسٹرسے کچھ ہی زیادہ ہے۔‘‘

History, which is, indeed, little more than the register of the crimes, follies and misfortunes of mankind.

ہیکل’’پبلک اورحکومت نے تاریخ کے مطالعہ سے جوواحدچیزسیکھی ہے،وہ صرف یہ کہ انھوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔‘‘

The only thing public and government have learnt from a study of history is only that they have learnt nothing from history.

Western Civilisation by Edward McNall Burns, p. 871

کیاانسانیت کایہ عظیم الشان ڈرامااسی لیے کھیلاگیاتھاکہ وہ اس طرح کی ایک ہولناک کہانی وجودمیں لاکرہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے ،ہماری فطرت جواب دیتی ہے کہ نہیں، انسان کے اندر عدل وانصاف کااحساس تقاضاکرتاہے کہ ایسانہیںہوسکتا،اورنہ ایساہونا چاہیے ،ایک دن ایسا آنا ضروری ہے، جب حق اورناحق الگ ہو،ظالم کواس کے ظلم کا اور مظلوم کو ا س کی مظلومیت کابدلہ ملے۔ یہ ایک ایسی طلب ہے ،جس کواسی طرح تاریخ سے الگ نہیں کیاجاسکتاجس طرح اسے انسان سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔

فطرت اورواقعہ کایہ تضادبتاتاہے کہ ا س خلاکولازماًپرہوناچاہیے— جوکچھ ہورہا ہے، اور جو کچھ ہوناچاہیے ،دونوں کافرق ثابت کرتاہے کہ ابھی زندگی کے ظہورکاکوئی اوراسٹیج باقی ہے،یہ خلا پکار رہا ہے کہ ایک وقت ایسانہیں ہوناچاہیے جب دنیاکی تکمیل ہو،مجھے حیرت ہے کہ لوگ ہارڈی کی فلسفہ پر ایمان لاکردنیاکوظلم اوربے رحمی کی جگہ سمجھنے لگتے ہیں، مگریہی ظالمانہ صورتِ حال انھیں اس یقین کی طرف نہیں لے جاتی کہ جوکچھ آج موجودنہیں ہے، مگرعقل جس کاتقاضاکرتی ہے،اسے کل وقوع میں آنا چاہیے۔

’’قیامت نہ ہوتوان ظالموں کاسرکون توڑے‘‘—یہ فقرہ اکثرایک دردناک آہ کے ساتھ اس وقت میری زبان سے نکل جاتاہے، جب میں اخبار پڑھتا ہوں، اخبار گویا دنیا کے روزانہ حالات کی ایک تصویرہے،مگراخبارہمیں دنیاکے حالات کے بارے میں کیا بتاتے ہیں، وہ اغوااورقتل کی خبریں دیتے ہیں، چوری اورالزام تراشی کی داستانیں سناتے ہیں،سیاسی تجارت اورتاجرانہ سیاست کے جھوٹے پروپیگنڈے ہمارے دماغوں میں بھرتے ہیں، وہ بتاتے ہیںکہ فلاں حکمراں نے اپنے ماتحت کمزوروں کودبالیا،فلاں قوم نے قومی مفاد کے لیے فلاں علاقے پرقبضہ کرلیا،غرض اخبار،درویش اور سلطان کی عیاریوں کی داستان کے سوااورکچھ نہیں،اورماضي قریب میں ہندستان میں ہونے والے حادثات خاص طورپرجبل پور ،کلکتہ، جمشیدپور اور راوڑکیلا کی قتل وغارت گری کے بعدتوایسامعلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں کسی بھی قابل قیاس یاناقابل قیاس بدترین برائی کوناممکن نہیں سمجھناچاہیے ، ایک قوم سیکولرازم،جمہوریت اوراہنساکی علمبرداربن کروحشیانہ فرقہ واریت سفاکانہ آمریت اور بدترین تشدد کاارتکاب کرسکتی ،ایک لیڈرجس کومحسن انسانیت اورپیغمبرامن واماں کا خطاب دیاگیاہوعین اس کے  اقتدارمیں انسانیت کے اوپرایسے شرمناک مظالم کیے جاسکتے ہیں ،جن سے چیتے اور بھیڑیے اور جنگلی سور بھی پناہ مانگیں، حتیٰ کہ نشرو اشاعت کے اس دور میںیہ بھی ممکن ہے کہ دنیا کے ایک بہت بڑے ملک میں بہت بڑے پیمانے پرکھلم کھلاایک گروہ کولوٹنے ،جلانے اور قتل کرنے کے انتہائی بھیانک واقعات نہایت منظم طریقے پرہوں اور مہینوں اورسالوں ہوتے رہیں، مگراس کے باوجود دنیا کا پریس ان سے بے خبرہوااورتاریخ کے صفحات سے وہ اس طرح محو ہوجائیں گویاکچھ ہواہی نہیں— کیا یہ دنیااسی لیے بنائی گئی تھی کہ مکاری ، شيطانيت ،درندگی اورڈاکہ زنی کے ان ہولناک ڈراموں کابس ایک اسٹیج بن کررہ جائے اوراس کے بعدنہ ظالم کے لیے کچھ ہو اورنہ مظلوم کے لیے کچھ— حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسی دنیاخوداپنے سارے وجودکے ساتھ اس بات کا اعلان ہے کہ وہ نامکمل ہے، اوراس کانامکمل ہونااس بات کاثبوت ہے کہ ایک وقت آناچاہیے جب وہ مکمل کی جائے۔

اس بات کوایک اورپہلوسے دیکھیے ۔قدیم ترین زمانے سے انسان کے سامنے یہ مسئلہ رہا ہے کہ لوگوں کوحق وصداقت کی راہ پرکیسے قائم رکھاجائے۔اگراس مقصدکے لیے تمام افرادکے مقابلے میں کچھ لوگوں کوسیاسی اختیاردیاجائے توہوسکتاہے کہ ان کے ماتحت ان کی گرفت کے خوف سے زیادتیاں نہ کریں — مگر اس تدبیر سے خودان صاحب اختیار افرادکوعدل پرقائم رکھنے کاکوئی محرک موجودنہیں ہے۔اگراس مقصدکے لیے قانون بنایا جائے اورپولیس کامحکمہ قائم ہوتوان مقامات اورمواقع پرآدمی کوکون کنٹرول کرے جہاں پولیس اورقانون نہیں پہونچتے اورنہیں پہونچ سکتے، اگر اپیل اورپروپیگنڈے کی مہم چلائی جائے توسوال پیداہوتاہے کہ محض کسی کی اپیل کی بناپرکوئی شخص اپنے ملتے فائدے کوکیوں چھوڑدے گا،دنیاکی سزاکاخوف بدعنوانیوں کوہرگزروک نہیں سکتا، کیوں کہ ہرشخص اچھی طرح جانتا ہے کہ جھوٹ،رشوت ،سفارش ،اثرات کاناجائزاستعمال اوراسی قسم کے  دوسرے بہت سے ذرائع موجودہیں جوسزاکے ہرامکان کویقینی طورپرختم کرسکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی ایسامحرک ہی بدعنوانیوں کوروکنے میں کارگرہوسکتاہے جوانسان کے اپنے اندرموجودہو،جوانسان کے اپنے ارادے میں شامل ہوجائے خارجی محرک کبھی اس معاملے میں کامیاب نہیں ہوسکتا،اوریہ بات صرف آخرت کے تصورمیں ممکن ہے، آخرت کے نظریے میں ایسامحرک موجود ہے جوبدعنوانیوں سے بچنے کے مسئلے کوہرشخص کے لیے ذاتی مسئلہ بنادیتاہے۔وہ ہرشخص کے لیے یکساں اہمیت رکھتاہے،خواہ وہ ماتحت ہویا افسر، اندھیرے میں ہویااجالے میں،ہرشخص یہ سوچنے لگتاہے کہ اسے خداکے یہاں جاناہے، اور ہرشخص یہ سمجھتاہے کہ خدااسے دیکھ رہاہے،اوراس سے لازمًابازپرس کرے گا،مذہبی عقیدے کی اسی اہمیت کی بناپرسترھویںصدی کے آخرکے ایک نامورجج میتھوہیلز (Mathew Hale, 1609-1676) نے کہاہے— ’’یہ کہناکہ مذہب ایک فریب ہے۔ان تمام ذمہ داریوں اورپابندیوں کومنسوخ کرناہے جن سے سماجی نظم کو برقرار رکھا جاتا ہے۔‘‘

To say that religion is a cheat is to dissolve all those obligations whereby civil societies are preserved.

Religion Without Revelation, p. 115

نظریۂ آخرت کایہ پہلوکتنااہم ہے،اس کااندازہ ا س سے کیجیے کہ بہت سے لوگ جوخداپریقین نہیں رکھتے ،اورجواس بات کوبطورایک واقعہ نہیں مانتے کہ کوئی فیصلہ کادن آنے والا ہے، وہ بھی تاریخ کے تجربے کی بناپرماننے پرمجبورہوئے ہیںکہ اس کے سوا اور کوئی چیزنہیں ہے، جو انسان کو قابو میں رکھ سکتی ہو اورہرحال میں اس کوعدل وانصاف کی روش پرقائم رہنے کے لیے مجبور کرسکے، مشہور جرمن فلسفی کانٹ (Immanuel Kant, 1724-1804) نے خداکے تصورکویہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ ا س کی موجودگی کاکوئی تسلی بخش ثبوت ہم کونہیں ملتا۔ اس کے نزدیک نظری معقولیت (theoretical reason)تویقیناًمذہب کے حق میں نہیں ہے،مگراخلاقی پہلوسے مذہب کی عملی معقولیت (practical reason)کووہ تسلیم کرتاہے۔

Story  of  Philosophy, NY,   1954,  p . 279

 فرنچ فلاسفر والٹیر (Voltaire, 1694-1778) کسی مابعدالطبیعی حقیقت کونہیں مانتا، مگر اس کے نزدیک

’’خدااوردوسری زندگی کے تصورکی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ وہ اخلاقیات کے لیے مفروضے (postulates of the moral feeling) کاکام دیتے ہیں، اس کے نزدیک صرف اسی کے ذریعہ سے بہتراخلاق کی فضاپیداکی جاسکتی ہے،اگریہ عقیدہ ختم ہوجائے توحسن عمل کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا، اوراس طرح سماجی نظم کابرقراررہناناممکن ہوجاتاہے۔‘‘

History of  Philosophy by Windelband, p.496

جولوگ آخرت کوایک فرضی تصورکہتے ہیں، ان کوسوچناچاہیے کہ آخرت اگرفرضی ہے تو ہمارے لیے اس قدرضروری کیوں ہے ،کیوں ایساہے کہ اس کے بغیرہم صحیح معنوں میں کوئی سماجی نظام بناہی نہیں سکتے، انسانی ذہن سے اس تصورکونکالنے کے بعدکیوں ہماری ساری زندگی ابترہوجاتی ہے، کیا کوئی فرضی چیززندگی کے لیے ا س قدرناگزیرہوسکتی ہے ، کیااس کائنات میں ایسی کوئی مثال پائی جاتی ہےکہ ایک چیزحقیقت میں موجودنہ ہومگراس کے باوجودوہ اس قدرحقیقی بن جائے ،زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو،مگراس کے باوجودوہ زندگی سے ا تنی متعلق نظرآئے ،زندگی کی صحیح اورمنصفانہ تنظیم کے لیے آخرت کے تصورکااس قدرضروری ہوناخودیہ ظاہرکرتاہے کہ آخرت اس دنیاکی سب سے بڑی حقیقت ہے، بلکہ اگرمیں یہ کہوں تواس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگاکہ تصورآخرت کے حق میں استدلال کایہ ایک ایساپہلوہے ، جو اس نظریے کولیبارٹری ٹسٹ کے معیارپرصحیح ثابت کررہاہے۔

3۔اب ایک اورپہلوسے دیکھیے، جس کوہم’’کائناتی تقاضا‘‘کہہ سکتے ہیں۔ پچھلے باب میں میں نے کائنات میں خداکے وجودپربحث کی ہے، اس سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ عین علمی اورعقلی مطالعہ ہی کایہ تقاضاہے کہ ہم اس کائنات کاایک خدامانیں ،اب اگراس دنیاکاکوئی خداہے تو یقیناً بندوں کے ساتھ اس کے تعلق کوظاہرہوناچاہیے،یہ کب ظاہر ہوگا، جہاں تک موجودہ دنیاکامعاملہ ہے، یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہےکہ آج یہ تعلق ظاہرنہیں ہورہاہے،آج جوشخص خدا کا منکر ہے، اور کھلے عام یہ اعلان کرتاہے کہ’’میں خداسے نہیں ڈرتا‘‘ اس کولیڈری اورحکومت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس، جوخداکے بندے خدا کا کام کرنے کے لیے اٹھتے ہیں،ان کی سرگرمیوں کووقت کا اقتدار غیرقانونی قراردے دیتا ہے،جولوگ خداکامذاق اڑاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ’’ہماراراکٹ چاند تک گیا  اورراستہ میں اس کوکہیں خدانہیں ملا‘‘۔ان کے نظریات کوپھیلانے کے لیے بے شمار ادارے کام کر رہے ہیں ، اورپورے پورے ملکوں کے ذرائع ووسائل ان کی خدمت کے لیے وقف ہیں، اور جو لوگ خداورمذہب کی بات پیش کررہے ہیں،ان کوتمام ماہرین اورعلمائے وقت رجعت پسند اور ماضی کے اندھیرے میںبھٹکنے والاکہہ کرردکردیتے ہیں، لوگ پیداہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں، قومیں بنتی ہیں اوربگڑتی ہیں،انقلاب آتے ہیں،اورچلے جاتے ہیں، سورج نکلتا ہے، اورڈوب جاتا ہے، مگر خداکی خدائی کاکہیںظہورنہیں ہوتا،ایسی حالت میں سوال یہ ہے کہ ہم خداکومانتے ہیں یا نہیں،اگرہم خداکومانتے ہیں توہمیں آخرت کوبھی مانناپڑے گا،کیوں کہ خدا اوربندوں کاتعلق ظاہرہونے کی اس کے سوااورکوئی صورت نہیں۔

ڈارون اس دنیاکاایک خالق (Creator)تسلیم کرتاہے، مگراس نے زندگی کی جو تشریح کی ہے ، اس کے اندرخالق اورمخلوق کے درمیان کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتااورنہ کائنات کے کسی ایسے انجام کی ضرور ت معلوم ہوتی ہے،جہاں یہ تعلق ظاہرہو،مجھے نہیں معلوم کہ ڈارون اپنے حیاتیاتی نقطۂ نظرکے اس خلاکوکیسے پُرکرے گا مگرمیری عقل کویہ بات نہایت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس کائنات کاایک خداتوہومگردنیاسے اس کاکوئی تعلق نہ ہو اور بندوں کے مقابلے میں اس کی جومالکانہ حیثیت ہے وہ کبھی سامنے نہ آئے ،اتنی بڑی کائنات پیدا ہو کرختم ہوجائے ،اوریہ ظاہرنہ ہوکہ اس کے وجودمیں آنے کامقصدکیاتھا،اورجس نے اسے بنایاتھا،وہ کس قسم کی صفات رکھنے والی ہستی تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اگرمعقولیت کے ساتھ غورکیاجائے گاتودل پکاراٹھے گاکہ بے شک قیامت آنے والی ہے،بلکہ وہ آپ کوبالکل ا ٓتی ہوئی نظرآئے گی۔ آپ دیکھیں گے کہ حاملہ کے پیٹ میں جس طرح اس کا حمل باہرآنے کے لیے بیتاب ہو، اسی طرح وہ کائنات کے اندربوجھل ہورہی ہے، اورقریب ہے کہ کسی بھی صبح وشام وہ انسانوں کے اوپرپھٹ پڑے۔قرآن میںیہ حقیقت ان الفاظ میںبیان کیا گئی ہے

 يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً(7:187)۔ یعنی یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے قیامت ،کہواس کاعلم توصرف خداکوہے، وہی اپنے وقت پراس کوظاہرکرے گا،وہ زمین وآسمان میں بوجھل ہورہی ہے وہ بالکل اچانک تم پرآپڑے گی۔

تجرباتی شہادت

اب ہم اس بحث کے آخری جزءپرآتے ہیں ’’کیاکوئی تجرباتی شہادت اس بات کی موجود ہے کہ موت کے بعددوسری زندگی ہے ‘‘۔اس کاجواب یہ ہے کہ ہماری پہلی زندگی خوداس کاسب سے بڑا ثبوت ہے ، جولوگ دوسری زندگی کے منکرہیں ۔وہ یقینی طورپرپہلی زندگی کااقرارکررہے ہیں، پھرجوزندگی ایک بارممکن ہے، وہ دوسری بارکیوں ظہورمیں نہیں آسکتی ۔ ایک تجربہ جس سے آج ہم دوچار ہیں، وہی تجربہ اگردوبارہ ہمارے ساتھ پیش آئے تواس میں خلافِ عقل کون سی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات میں ا س سے زیادہ خلاف عقل بات اورکوئی نہیں ہوسکتی کہ ایک واقعہ کو آپ حال میں تسلیم کریں مگرمستقبل کے لیے اسی واقعہ کاانکارکردیں۔

یہ موجودہ انسان کاعجیب تضادہے کہ کائنات کی توجیہ کے لیے خودا س نے جو ’’خداگھڑے ہیں، ان کے بارے میں تووہ پورے یقین کے ساتھ اس بات کااظہارکرتاہے کہ وہ واقعات کودوبارہ پیدا کر سکتے ہیں، مگرمذہب جس خداکاتصورپیش کرتاہے ، اس کے متعلق اسے یہ تسلیم نہیں ہے کہ وہ واقعات کو دوبارہ وجودمیں لے آئے گا۔جیمزجینزیہ بتاتے ہوئے کہ موجودہ زمین اوراس کے تمام مظاہر ایک’’حادثہ‘‘ کے پیداکردہ ہیں، اس نظریے کے حامیوں کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتاہے— ’’ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ،اگرہماری زمین محض کچھ حادثات کے نتیجے میں وجودمیں آئی ہو،اگرکائنات اسی طرح لمبی مدت تک قائم رہے توکسی بھی قابل قیاس حادثے کاوقوع میں آناممکن ہے۔‘‘

There is no wonder if our earth originated out of certain accidents. If the universe survives for a long period, any thinkable accident is likely to occur. (Modren Scientific Thought, p.3)

نظریۂ ارتقاکادعویٰ ہے کہ حیوانات کی مختلف نوعیں ایک ہی ابتدائی نوع سے ترقی کرکے وجود میں آئی ہیں، چنانچہ ڈارون کی تشریح کے مطابق موجودہ زرافہ ابتدائي دوسرے سم دارچوپایوں کی مانند تھا، مگرتوالدوتناسل کے طویل عمل کے درمیان چھوٹی چھوٹی تبدیلوں (variations) کے جمع ہونے سے بالآخر وہ غیرمعمولی طورپرایک لمباڈھانچہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا،اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ اپنی کتاب کے ساتویں باب میں لکھتاہے— ’’میرے نزدیک یہ تقریباً یقینی ہے کہ (اگرلمبی مدت تک مطلوبہ عمل جاری رہے تو) ایک معمولی سم دارچوپائے کوزرافہ کی صورت میں تبدیل کیاجاسکتاہے۔‘‘

It seems to me almost certain that (if the desired process goes on for a longer period) an ordinary hoofed quadruped might be converted into a giraffe. (Origin of Species, p.169)

اسی طرح جس نے بھی زندگی اورکائنات کی کوئی توجیہ کی ہے ،بالکل فطری طورپرا س کویہ بھی مانناپڑاہے کہ جن حالات کی موجودگی کووہ زندگی اورکائنات کاسبب قراردیتاہے ، وہی حالات اگر دوبارہ فراہم ہوسکیں تویقیناًیہی واقعات دوبارہ وجودمیں آسکتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ عقلی طورپردوسری زندگی کاامکان اتناہی ہے جتناپہلی ز ندگی کا،کائنات کاجوخالق بھی ہم تسلیم کریں ، ہم کومانناپڑے گاکہ وہ خالق انھیں واقعات کودوبارہ وجودمیں لاسکتاہے، جس کواس نے ایک بارپیداکیاہے، اس اعتراف سے ہم صرف اسی صورت میں بچ سکتے ہیں، جب کہ ہم پہلی زندگی کاانکارکردیں،پہلی زندگی کو مان لینے کے بعدہمارے پاس دوسری زندگی کونہ ماننے کی کوئی بنیادباقی نہیں رہتی ۔

2۔نفسیاتی تحقیق ،جس کاہم نے اوپرذکرکیاہے،ا س کے مطابق لاشعوریادوسرے لفظوں میں انسان کے حافظہ کے خانے میں اس کے تمام خیالات ہمیشہ کے لیے محفوظ رہتے ہیں ،یہ واقعہ صریح طورپرثابت کرتاہے کہ انسان کاذہن اس کے جسم کاحصہ نہیں ہے ،جسم کایہ حال ہے کہ اس کے ذرات ہرچندسال بعدبالکل بدل جاتے ہیں، لیکن لاشعور کے دفترمیں سوبرس بعدبھی کوئی تغیر، کوئی دھندلاپن، کوئی مغالطہ یاشبہ پیدانہیں ہوتا،اگریہ دفترحافظہ جسم سے متعلق ہے تووہ کہاں رہتا ہے، جسم کے کس حصّے میں ہے ،اورجسم کے ذرات جب چند سال بعدغائب ہوجاتے ہیں تووہ غائب کیوں نہیں ہوتا،یہ کون ساریکارڈ ہےکہ ریکارڈکی تختی ٹوٹ کرختم ہوجاتی ہے ،مگروہ ختم نہیں ہوتا۔ جدیدنفسیات کایہ مطالعہ صریح طورپرثابت کرتاہے کہ انسانی وجودحقیقۃًاس جسم کانام نہیں ہے ،جس پرگھساؤ اورموت کاعمل طاری ہوتاہے،بلکہ اس کے علاوہ اس کے اندرایک اورچیزہے، جس کے لیے فنانہیں ہے، اور جو زوال میں مبتلاہوئے بغیراپنے وجودکومستقل طورپریکساں حال میں باقی رکھتاہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ فاصلہ اوروقت کے قوانین صرف ہماری موجودہ دنیاکے اندررائج ہیں، اور اگرموت کے بعدکوئی اوردنیاہے تووہ ان قوانین کے دائرہ عمل سے باہر ہے۔موجودہ زندگی میں ہمارا ہرشعوری فعل وقت اورفاصلہ کے قوانین کے مطابق سرزد ہوتا ہے۔ لیکن فرائڈکے نظریے کے مطابق، اگر ہماری کوئی ذہنی زندگی ایسی ہے جوان قوانین کی پابندی سے آزادہے تواس کا مطلب صاف طور پریہ ہے کہ ہماری یہ زندگی موت کے بعدبھی جاری رہے گی۔ ہم موت کے بعدبھی زندہ رہیں گے، ہماری موت خودفاصلہ اوروقت کے قوانین کے عمل کانتیجہ ہے۔چوںکہ ہماری اصل ہستی یا فرائڈ کے الفاظ میں ہمارالاشعوران قوانین کے عمل سے آزادہے ۔اس لیے ظاہرہے کہ موت اس پر وارد نہیں ہوتی، بلکہ صرف جسدِ عنصری پرواردہوتی ہے۔لاشعورجواصل انسان ہے، وہ اس کے بعدبھی باقی رہتا ہے— مثلاًایک واقعہ جو25سال پہلے گزراتھا— یاایک خیال جو میرے ذہن میں 20 سال پہلے آیا تھا،اوراب میں اسے بالکل بھول چکاتھا۔اس کوآج میں خواب میں دیکھتا ہوں، نفسیاتی نقطۂ نظر سے اس کامطلب یہ ہے کہ وہ میرے حافظہ (لاشعور) کے خانے میں بجنسہ موجود تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ حافظہ کہاں ہے، اگروہ خلیوں کے اوپرثبت تھا،جیسے گراموفون کے ریکارڈکے اوپر آوازثبت رہتی ہے،تووہ خلیے جو25سال پہلے ان خیالات کا ریکارڈ بنے تھے، وہ بہت پہلے ٹوٹ کر اورمردہ ہو کرمیرے جسم سے نکل گئے،اب نہ ان خلیوں کابحیثیت خلیہ کہیں وجودہے، اورنہ میراان سے کوئی تعلق ہے، پھر یہ خیال میرے جسم کے کس مقام پرتھا۔یہ ایک تجرباتی شہادت اس بات کی ہے کہ جسم کے ماوراایک اوردنیاہے،جوبذات خوداپناوجودرکھتی ہے، جوجسم کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہوتی ۔

3۔اسی طرح سائی کیکل تحقیق (Psychical Research)کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ بھی خالص تجرباتی اورمشاہداتی سطح پرموت کے بعدزندگی کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ اس میں  مزیددلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ نتائج صرف موت کے بعد کی زندگی کو ثابت نہیں کرتے، بلکہ وہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ جس انسان کے اندر مرنے سے پہلےجو شخصیت تھی ،وہی شخصیت مرنے کے بعد بھی باقی رہے گی

What is most interesting is that such research does not merely establish survival; rather it establishes the survival of exactly the same personality—the entity that was known to us before death.

انسان کی بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جوبذاتِ خودتوپہلے سے موجودتھیں مگران پر سائنسی انداز سے غوروفکرنہیں ہواتھا،مثلاًخواب دیکھناانسان کی قدیم ترین خصوصیت ہے، مگرجدیددورمیں خواب کے مطالعہ سے جونفسیاتی حقائق معلوم کیے گئے ہیں، ان سے قدیم دورکے لوگ ناآشناتھے، اسی طرح کچھ اورمظاہرہیں،جن کے متعلق موجودہ زمانے میں باقاعدہ اعدادشمارجمع کیے گئے اورسائنسی انداز سے ان کاتجزیہ کیاگیا،اس طرح جدیدمطالعہ کے ذریعہ ان واقعات سے نہایت اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں، اسی میں سے ایک سائی کیکل ریسرچ ہے،جوجدیدنفسیات کی ایک شاخ ہے، اور جس کا مقصد انسان کی مافوق العادت صلاحیتوں کاتجرباتی مطالعہ ہے۔ اس قسم کی تحقیقات کے لیے سب سے پہلاادارہ 1882ء میں انگلینڈمیں قائم ہوااور1889ء میں اس نے سترہ ہزاراشخاص سے رابطہ قائم کرکے وسیع پیمانے پراپنی تحقیقات شروع کردیں،یہ اب بھی مطالعۂ نفسیات کا ادارہ (Society for Psychical Research) کے نام سے موجودہے، اوراسی نوعیت کے دوسرے ادارے دوسرے ملکوں میں کام کررہے ہیں، ان اداروں نے مختلف مظاہروں اورتجربات کے ذریعہ ثابت کیاہے کہ مرنے کے بعدانسان کی شخصیت کسی پراسرارشکل میں باقی رہتی ہے۔

ایک سفری ایجنٹ مسوری (امریکا) میں سینٹ جوزف ہوٹل کے ایک کمرے میں بیٹھا ہوا اپنے آڈرنوٹ کررہاتھاکہ’’یکایک‘‘ وہ لکھتاہے’’مجھے احساس ہواکہ میرے دائیں جانب کوئی بیٹھا ہوا ہے،میں نے تیزی سے مڑکردیکھاتوصاف طورپرمجھے نظرآیاکہ وہ میری بہن ہے‘‘اس کی یہ بہن 9سال پہلے مرچکی تھی، کچھ دیربعدبہن کایہ پیکراس کے سامنے سے غائب ہوگیا۔ مگراس واقعہ سے وہ  اتنا متاثر ہواکہ اپناسفرجاری رکھنے کے بجائے وہ دوسری ٹرین سے اپنے وطن سینٹ لوئی (St. Louis) واپس ہوگیا،گھرآکراس نے واقعہ کی پوری تفصیل اپنے اعزہ کوبتائی ،جب وہ کہتے کہتے اس جملہ پر پہنچا کہ’’میں نے بہن کے چہرے کے دائیں طرف سرخ رنگ کی ایک روشن خراش دیکھی ’’تواس کی ماں یکایک کانپتے ہوئے قدموں کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور اس نے بتایاکہ لڑکی کی موت کے بعدایک اتفاقی سبب سے مجھ سے یہ خراش اس کے چہرے پرپڑگئی تھی، اس بدنمائی کا مجھے سخت احساس ہوا، اور فوراً پاؤڈرلگاکرمیں نے خراش کے تمام آثاراس کے چہرے سے مٹادیے اورپھرکبھی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔‘‘ ({ FR 1184 })

Human Personality and its Survival of Bodily Death, by F. W. H. Myers (N. Y. 1930, vol  llP. 27-30

اس طرح کے اوربہت سے واقعات ہیں ،جومرنے کے بعدشخصیتوں کی موجودگی کاثبوت فراہم کرتے ہیں، اس طرح کے واقعات کووہم وخیال نہیں کہاجاسکتا،کیوں کہ چہرے کی خراش کاعلم یا توماں کوتھایامردہ لڑکی کو،تیسراکوئی بھی شخص اس کوقطعاً نہیں جانتاتھا۔

دوسرے قسم کے واقعات جوزندگی بعدموت کاتجرباتی ثبوت فراہم کرتے ہیں،وہ ایسے لوگ ہیں، جن کوخودکار (automatists)کہاجاتاہے،یہ وہ مردیاعورتیں ہیں، جن سے ایسے افعال ظاہر ہوتے ہیں، جویہ ثابت کرتے ہیں کہ کسی مرنے والے کی روح اس کے اندررہتی ہے،ایساشخص اپنے تجربہ کرنے والے کے سامنے چندایسے واقعات پیش کرتاہے،جن کوصرف ایک مرا ہوا آدمی جانتاہے، اورجوچنددن بعدصحیح ثابت ہوتے ہیں ۔ اسی طرح مثلاًدیکھاجاتاہے کہ وہ کسی شخص سے بات کررہاہے،اوراسی کے ہاتھ میں پنسل لیے ہوئے بالکل دوسرے موضوع پرلکھ رہا ہے، جس کے مضمون کی اسے خودبھی اس وقت تک اطلاع نہیں ہوتی جب تک کہ وہ لکھنے کے بعد اسے پڑھ نہ لے، گویااس کے اندراس کے سواکوئی اورشخصیت ہے، جواس کے ہاتھ سے لکھوا رہی ہے۔

A Philosophical Scrutiny of Religion, p.407-10

اس استدلال کوقبول کرنے میں بہت سے جدیدذہنوں کوتامل ہے،سی ڈی، براڈ (C. D. Broad) لکھتاہے

’’سائی کیکل ریسرچ کے مشتبہ استثنا کے علاوہ سائنس کی مختلف شاخوں میں سے کوئی شاخ زندگی بعدموت کاادنیٰ امکان بھی ثابت نہیں کرتی۔‘‘

Religion Philosophy and Psychical Research, London 1953, p.235

اگریہ استدلال ایساہی ہے ،جیسے کہاجائے کہ’’سوچنا‘‘ایک مشتبہ فعل ہے ۔کیوں کہ انسان کے سواکوئی ایساوجوداس کائنات میں ہمارے تجربے میں نہیں آیاہے،جو’’سوچنے‘‘کے مظہرکی تصدیق کرتاہو۔ظاہرہے کہ زندگی کاباقی رہنایاباقی نہ رہناایک نفسیاتی مسئلہ ہے، اس لیے نفسیات ہی سے اس کاثبوت یاعدم ثبوت ملے گا، کسی اورسائنس میں اس کی تصدیق ڈھونڈنا ایساہی ہے،جیسے سوچنے کے فطری مظہرکوسمجھنے کے لیے نباتات اورفلزیات (metallography)سے تصدیق طلب کی جائے ،یہی نہیں بلکہ خودانسان کے جسمانی حصّے کے مطالعہ کوبھی اس کی تصدیق یاتردیدکے لیے بنیادبنایانہیں جاسکتا۔ کیوں کہ جس چیزکی بقاکایہ دعویٰ کیاگیاہے،وہ موجودہ مادی جسم نہیں، بلکہ وہ روح ہے، جوجسم سے ماسواجسم کے اندرموجودرہتی ہے۔

چنانچہ دوسرے بہت سے سائنس داں جنھوں نے ان شواہدکاغیرجانبدارانہ مطالعہ کیاہے ،وہ زندگی بعد موت کوبطورواقعہ تسلیم کرنے پرمجبورہوئے ہیں،راؤن یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر سی، جے، ڈوکاس (C. J. Ducasse) نے اپنی کتاب کے سترھویں باب میں زندگی بعد موت کے تصور كا فلسفیانہ اورنفسیاتی جائزہ لیاہے،پروفیسرموصوف اگرچہ مذہب کے معنوں میں اخروی زندگی کے تصور پر عقیدہ نہیں رکھتے،مگران کاخیال ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ مذہب کے عقیدے سے الگ کرکے زندگی کے بقاکوہمیں ماننا پڑتاہے، اس باب کے آخری حصے میں وہ سائی کیکل ریسرچ کی تحقیقات کاجائزہ لینے کے بعدلکھتے ہیں:

’’کچھ بہت ہی ذہین اورنہایت ذی علم افرادجنھوں نے سالہاسال تک نہایت تنقیدی نظرسے متعلقہ شہادتوں کامطالعہ کیاہے،وہ بالآخراس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ کم از کم کچھ شواہد ایسے ضرورہیں،جن میں صرف بقائے روح کامفروضہ (survival of hypothesis) ہی معقول اور ممکن نظرآتاہے۔ ان کی دوسری کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ اس فہرست کے انتہائی نمایاں افراد میں سے چندکے نام یہ ہیں:

الفرڈرسل ویلس (Alfred Russel Wallace)

سرولیم کروکس (Sir William Crookes)     

  ایف،ڈبلیو،ایچ،میرس(F.M.H. Myers)   

  کیسرلومبراسو(Cesare Lombroso)     

   کیمل فلیمیرین(Camille Flammarion)  

  سراولیورلاج(Sir Oliver Lodge)     

  ڈاکٹررچرڈہاگسن(Dr.Richard Hodgson) 

  مسزہنری سڈوک (Mrs Henry Sidgwick) 

 پروفیسرہسلوپ(Professor Hyslop)    

اس سے معلوم ہوتاہے کہ موت کے بعدزندگی کاعقیدہ جس کوبہت سے لوگ مذہبی طور پر مانتے ہیں،نہ صرف یہ کہ صحیح ہوسکتاہے بلکہ شایدوہ ایک ایساعقیدہ ہے،جس کوتجرباتی دلیل (empirical proof) سے ثابت کیاجاسکتاہے،اوراگرایساہے توقطع نظراس من گڑھت کے جو زندگی بعدموت کی نوعیت کے متعلق اہل مذاہب نے فرض کرلی ہے ، قطعی معلومات بالآخراس کے بارے میں حاصل ہوسکیں گی، مگرایسی صورت میں اس کی مذہبی نوعیت کومانناضروری نہیں ہوگا۔‘‘

A Philosophical Scrutiny of Religion, p. 412

یہاں تک پہنچنے کے بعدزندگی بعدموت کے متعلقین مذہبی عقیدے کونہ مانناایساہی ہے، جیسے کسی دیہاتی آدمی کااصرارہوکہ ایسی کوئی صورت نہیں ہوسکتی کہ دوآدمی ہزاروں میل دوربیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کریں،اس کے بعداس کے ایک عزیزکودورکے شہرسے ٹیلی فون کرکے رسیوراس کے کان پرلگادیاجائے،مگرجب وہ بات کرچکے توکہے — ’’کیاضروری ہے کہ وہ میرے عزیزکی آوازہوممکن ہے،کوئی مشین بول رہی ہو۔‘‘

 

اثباتِ رسالت

مذہب کا ایک اہم عقیدہ رسالت یاوحی والہام ہے،یعنی یہ کہ خدا انسانوں میں سے کسی انسان پراپناکلام اتارتاہے،اوراس کے ذریعہ سے تمام انسانوں کواپنی مرضی سے باخبر کرتا ہے، اب چوں کہ بظاہرہمیں خدااورصاحب وحی کے درمیان ایسا کوئی’’تار‘‘نظرنہیں آتاجس پر خدا کا پیغام سفرکرکے انسانوں تک پہونچتاہو،اس لیے بہت سے لوگ اس دعوے کے صحیح ہونے سے انکار کر دیتے ہیں،حالانکہ وحی کا تصور اس وقت ہمارے لیے بالکل قابلِ فہم ہوجاتا ہے، جب ہم اس کو دوسرے معلوم واقعات کے ساتھ ملا کر دیکھیں۔

ہمارے گردوپیش ایسے واقعات موجودہیں،جوہمارے محدوددائرہ سماعت سے کہیں بالاتر ہیں، مگر اس کے باوجودانھیں اخذکیاجاسکتاہے،انسان نے آج ایسے آلات ایجاد کرلیے ہیں، جن سے وہ ایک مکھی کے چلنے کی آوازمیلوں دورسے ا س طرح سن سکتاہے، جیسے وہ اس کے کان کے پردہ پر رینگ رہی ہو،حتیٰ کہ وہ کائناتی شعاعوں (cosmic rays)کے تصادم تک کو ریکارڈ کرلیتا ہے، اس طرح کے آلات اب کثرت سے انسان کوحاصل ہوچکے ہیں ،جویہ ثابت کرتے ہیں کہ اخذ و سماعت کی ایسی صورتیںبھی ممکن ہیں جومعمولی حواس کے ذریعے ایک شخص کے لیے ناممکن اورناقابل قیاس ہوں۔

پھریہ مخصوص ذائع ادراک صرف مشینی آلات تک محدودنہیں ،بلکہ حیوانوں کامطالعہ بتاتاہے کہ فطرت نے خودذی حیات اشیا کے اندرایسی طاقتیں رکھی ہیں۔ مثلاً کتااپنی متجسس ناک سے اس جانور کی بوسونگھ لیتاہے،جوراستہ سے نکل گیا ۔چنانچہ کتّے کی ا س صلاحیت کوجرائم کی تفتیش میں استعمال کیاجاتاہے، چورجس تالے کوتوڑکرکمرے میں گھسا ہے ، اس تالے کوجاسوسی کتے (Scott Dog)کوسونگھایاجاتاہے، اوراس کے بعداسے چھوڑدیاجاتاہے۔ وہ سیکڑوں انسانوں کے درمیان ٹھیک اس شخص کوتلاش کرکے اس کاہاتھ پکڑلیتاہے،جس نے اپنے ہاتھ سے تالے کوچھواتھا۔کتنے جانور ہیں، آوازیں سنتے ہیں،جوہماری قوت سماعت سے باہرہیں۔ بے شک انسان کے حواس بہت محدودہیں، مگراس جانور کے حواس کامعاملہ مختلف ہے۔

تحقیق سے معلوم ہواہے کہ جانوروں میں اشراق (Telepathy)کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے، ایک مادہ پتنگے(moth) کوکوٹھے میں کھلی کھڑکی کے پاس رکھ دیجیے۔وہ کچھ مخصوص اشارے کرے گی۔ یہ اشارے اسی نوع کے نرپتنگے حیرت انگیزفاصلے سے سن لیں گے اوراس کاجواب دیں گے۔ جھینگر اپنے پاؤں یاپرایک دوسرے پررگڑتاہے،رات کے سناٹے میں آدھے میل دور تک یہ آواز سنائی دیتی ہے، یہ چھ سوٹن ہواکوہلاتاہے،اوراس طرح اپنے جوڑے کوبلاتاہے،اس کی مادہ جو بظاہر بالکل خاموش ہوتی ہے۔ مگر پراسرار طریقہ پرکوئی ایسابے آوازجواب دیتی ہے جو نر تک پہنچ جاتا ہے۔ نر اس پراسرار جواب کوجسے کوئی بھی نہیں سنتا،حیرت انگیزطورپرسن لیتا ہے،اورٹھیک اسی سمت میں اس کے مقام پر جاکراس سے مل جاتاہے اندازہ لگایاگیاہے کہ ایک معمولی ٹڈے (grasshopper) کی قوت سماعت اس قدرتیزہوتی ہے کہ ہائیڈروجن کے ایٹم کے نصف قطر کے برابرکی حرکت تک کووہ محسوس کرلیتاہے۔

اس طرح کی کثیرمثالیں موجودہیں،جویہ بتاتی ہیں کہ ایسے ذرائع مواصلات ممکن ہیں، جو بظاہر نظرنہ آتے ہوں مگراس کے باوجودوہ بطورواقعہ موجودہوں اورمخصوص حواس رکھنے والے ذی حیات اس کاادراک کرلیتے ہوں، ان حالات میں اگرایک شخص یہ د عویٰ کرتاہے کہ’’مجھے خداکی طرف سے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں،جن کوعام لوگ نہیں سنتے‘‘تواس میں اچنبھے کی کیابات ہے،اگراس دنیامیں ایسی آوازیں ممکن ہیں، جوآلات سنتے ہوں مگر انسان نہ سنتے ہوں،اگریہاںایسی پیغام رسانی ہورہی ہے،جس کوایک مخصوص جانورتو سن لیتا ہے، مگردوسرااسے نہیں سنتا ،توآخراس واقعہ میں استبعادکاکیاپہلوہے کہ خدااپنی مصالح کے تحت بعض مخفی ذرائع سے ایک انسان تک اپناپیغام بھیجتاہے،اوراس کے اندر ایسی صلاحتیں پیدا کردیتاہے کہ وہ اس کواخذکرسکے اوراس کوپوری طرح سمجھ کرقبول کرلے، حقیقت یہ ہے کہ وحی والہام کے تصوراورہمارے مشاہدات وتجربات میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ یہ اسی قسم کے مشاہدات کی ایک برترصورت ہے،جس کامختلف شکلوں میں ہم تجربہ کرچکے ہیں۔ یہ ایک امکان کوواقعہ کی صورت میں تسلیم کرناہے۔

پھراشراق اورغیب دانی کے تجربات بتاتے ہیں کہ یہ چیزصرف حیوان تک محدودنہیں بلکہ انسان کے اندربھی بالقوہ اس قسم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ڈاکٹرالکسس کیرل کے الفاظ میں — فردکی نفسیاتی سرحدیں مکاں اورزماں کے اندرمحض فرضی(suppositions)ہوتی ہیں:

The psychological frontiers of the individual in space and time are obviously suppositions. (Man, the Unknown, p. 244)

 چنانچہ ایک عامل کسی آوازاورخارجی ذریعہ کے بغیراپنے معمول پرتوجہ ڈالتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اس پرمصنوعی نیند(Hypnotic Sleep)طاری کرسکتا ہے، اس کو ہنسایارلاسکتاہے،اس کے ذہن میں مخصوص خیالات القاء کرسکتاہے یہ ایک ایساعمل ہے ، جس میں نہ کوئی ظاہری آلہ استعمال ہوتااورنہ عامل اورمعمول کے سواکوئی شخص اسے محسوس کرتا، پھراسی نوعیت کا واقعہ بندے اورخداکے درمیان کیوں ہمارے لیے ناقابل تصور ہو، خداکوماننے اورانسانی زندگی میں اشراقی قوت کاتجربہ کرلینے کے بعد ہمارے لیے وحی والہام سے انکارکی کوئی بنیادباقی نہیں رہتی ۔

دسمبر1950ء کاواقعہ ہے ۔بویریاکے حکام (Bavarian authorities)نے ایک عامل توجہ (Hypnotist) فرنٹرسڑوبل(Fronter Strobel) پر ایک ریڈیوپروگرام میں ’’خلل اندازی بذریعہ ٹیلی پیتھی‘‘کے الزام میں مقدمہ دائر کردیا۔ ریجناہوٹل واقع میونخ میں اپنے کرتب کامظاہرہ کرتے ہوئے سڑوبل نے ایک تماشہ بیں کو تاش کا ایک پتہ اٹھاکردیااوراس سے کہاکہ وہ اس کانام حسب منشاترتیب کے ساتھ اپنے دل میں سوچ لے۔ ہپناٹسٹ نے دعویٰ کیاکہ وہ اس پتے کانام مع ترتیب (جیسا کچھ پتہ اٹھانے والے نے اپنے دل میں سوچ رکھاتھا)خودجانے بغیر ریڈیو کے اناونسر کی جانب منتقل کردے گا،جواس وقت ریڈیو پرخبریں سنارہاتھا۔

چندہی سکنڈبعدحیرت زدہ سامعین نے میونخ ریڈیوکے اناؤنسرکی لڑکھڑاتی زبان میں سنا ’’ریجنا ہوٹل،حکم کی ملکہ‘‘پتے کانام بھی درست تھا،اورترتیب بھی پتہ اٹھانے والے کی سوچ کے عین مطابق تھی۔

اناؤنسرکی وحشت اس کی آوازسے واضح طورپرظاہر ہورہی تھی۔تاہم وہ خبریں سنائے چلا گیا ادھر سیکڑوںریڈیو سننے والے اس عجیب واقعہ کاسبب معلوم کرنے کے لیے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کو ٹیلی فون کررہے تھے ،کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ خبروں کے پروگرام کے درمیان ’’ریجنا ہوٹل،حکم کی ملکہ‘‘کے الفاظ کاکیامطلب ہے۔ اکثر لوگوں نے سمجھا کہ اناؤنسر شاید اس وقت شراب کے نشے میں تھا۔ ڈاکٹرمعائنہ کے لیے آیاتواس نے پایا کہ اناونسر شدید اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اناؤنسرنے بتایاکہ خبریں پڑھتے پڑھتے اس کے سرمیں اچانک ایک دردسااٹھا،اس کے بعد اسے کچھ یادنہیں کہ کیا ہوا۔({ FR 1185 })

میں کہوں گاکہ اگرانسان کویہ قدرت حاصل ہے کہ ایک انسان کے خیالات دوسرے انسان کو منتقل کردے ،جب کہ دونوں کے درمیان غیرمعمولی فاصلہ ہواوراس کے لیے کوئی ظاہری واسطہ استعمال نہ کیاگیاہوتوالقائے کلام کایہی واقعہ خالقِ کائنات کی طرف سے کیوں وجودمیں نہیں آسکتا۔ انسانی صلاحیت کایہ اظہار،جس کی مثالیں کثرت سے موجودہیں۔ یہ ایک تجرباتی قرینہ ہے، جس سے ہم اس امکان کوبآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ خدااوربندے کے درمیان کسی واسطہ کے بغیرکس طرح الفاظ اورمعانی کاتعلق قائم ہوتاہے،اورایک کے خیالات دوسرے کوبعینہ منتقل ہوجاتے ہیں۔ اشراقی پیغام رسانی جوبندوںکے درمیان ایک معلوم اورثابت شدہ واقعہ ہے، ایک ایسی مثال ہے، جس سے ہم اس اشراق کوسمجھ سکتے ہیں ، جو بندے اورخداکے درمیان ہوتاہے،اورجس کی کامل اور متعین صورت کومذہب کی اصطلاح میں ’’وحی‘‘کہاجاتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ وحی اپنی نوعیت کے اعتبار سے، بلاتشبیہ، اسی قسم کا ایک مخصوص کائناتی اشراق ہے ،جس کاتجربہ محدودپیمانے پرہم انسانی زندگی میں باربارکرچکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔

وحی والہام کوممکن ماننے کے بعداب ہمیں یہ دیکھناہے کہ اس کی ضرورت بھی ہے یانہیں کہ خداکسی انسان سے مخاطب ہواوراس کے ذریعہ سے اپناکلام بھیجے ،اس کی ضرورت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول آدمی کوجس چیزسے باخبرکرتاہے،وہ آدمی کی شدید ترین ضرورت ہے،مگروہ خود اپنی کوشش سے ا سے حاصل نہیں کرسکتاہزاروں برس سے انسان حقیقت کی تلاش میں ہے،وہ سمجھنا چاہتاہے کہ یہ کائنات کیاہے،انسان کاآغازوانجام کیاہے،خیرکیاہے اورشر کیاہے،انسان کو کیسے قابو میں لایاجائے ،زندگی کوکیسے منظم کیاجائے کہ انسانیت کے سارے تقاضے اپنے صحیح مقام کو پاتے ہوئے متواترترقی کرسکیں ،مگرابھی تک اس تلاش میں کامیابی نہیں ہوئی،تھوڑی مدت کی تلاش وجستجوکے بعدہم نے لوہے، اور پٹرول کی سائنس بالکل ٹھیک ٹھیک جان لی اور طبیعی دنیا کی سیکڑوں سائنسوں کے بارے میں صحیح ترین واقفیت حاصل کرلی،مگرانسان کی سائنس ابھی تک دریافت نہیں ہوئی۔ طویل ترین مدت کے درمیان بہترین دماغوں کی لاتعدادکوششوں کے باوجود یہ سائنس ابھی تک اپنے موضوع کی ابتدائیات کوبھی متعین نہ کرسکی۔اس سے بڑاثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں ہمیں خداکی مددکی ضرورت ہے،اس کے بغیرہم اپنا’’دین‘‘معلوم نہیں کرسکتے۔

یہ بات انسان جدید کوتسلیم ہے کہ زندگی کارازابھی تک اس کومعلوم نہ ہوسکا،مگراسی کے ساتھ وہ یقین رکھتاہے کہ وہ کبھی نہ کبھی اس رازکومعلوم کرلے گا،سائنس اورصنعت کے پیداکیے ہوئے ماحول کاانسان کے لیے سازگارنہ ہونا،اسی وجہ سے ہے کہ ’’اگرایک طرف جامدمادے کے علوم کی وسیع پیمانے پرترقی ہوئی ہے تودوسری طرف جاندارہستیوں کے علوم بالکل ابتدائی حالت پرباقی ہیں‘‘۔ اس دوسرے شعبہ پرجن لوگوں نے کام کیا،وہ حقیقت کونہ پاسکے، اوراپنے تخیلات کی دنیامیں بھٹک رہے ہیں،نوبل انعام یافتہ ڈاکٹرالکسس کیرل(Alexis Carrel) کے الفاظ میں—  ’’فرانسیسی انقلاب کے اصول اورمارکس اورلینن کے نظریے محض ذہنی اورقیاسی انسانوں پرمنطبق ہوسکتے ہیں، اس بات کوصاف طورپرمحسوس کرناچاہیے کہ انسانی تعلقات کے قوانین (Laws of Human Relations)اب تک معلوم نہیں ہوسکے ہیں، سماجیات اور اقتصادیات کے علوم محض قیاسی ہیں، اورناقابل ثبوت ہیں۔‘‘

The Principles of the French Revolution, the Visions of Marx and Lenin, apply only to abstract men. It must be clearly realised that the laws of human relations are still unknown. Sociology and economics are conjectural sciences - that is pseudo-sciences. (Man, the Unknown, p. 37)

 بلاشبہ موجودہ زمانے میں علوم نے بہت ترقی کی ہے،مگران ترقیات نے مسئلہ کو اور الجھا دیا ہے، اس نے کسی بھی درجہ میں اسکوحل کرنے میں کوئی مددنہیں کی ہے۔جے، ڈبلیو،این سولیون(J. W. N. Sullivan)لکھتاہے:

’’سائنس نے موجودہ زمانے میں جس کائنات کودریافت کیاہے،وہ تمام فکری تاریخ کے مقابلے میں بہت زیادہ پراسرارہے،اگرچہ فطرت کے بارے میں ہماری معلومات تمام پچھلے ادوارکے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں،مگراس کے باوجودیہ کثیرمعلومات ایک اعتبارسے بہت کم تشفی بخش ہیں۔کیوں کہ ہرسمت میں ہم ابہام (ambiguities)اور تضاد (contradictions)سے دوچارہورہے ہیں۔‘‘

At the present day the scientific universe is more mysterious than it has ever been before in the history of thought. Although our knowledge of natural processes is greater than it has ever been, this knowledge is, in a way, less satisfactory, for in every direction we are faced by ambiguities and contradictions. (Limitations of Science, 1938, p. 89-90)

زندگی کے رازکومادی علوم میںتلاش کرنے کایہ عبرت ناک انجام بتاتاہے کہ زندگی کا راز انسان کے لیے ناقابل دریافت ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوڈاکٹرالکسس کیرل کی کتاب صفحات 16-19)۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ زندگی کی حقیقت کوجانناضروری ہے، اس کے بغیرہم کوئی عمل نہیں کرسکتے،ہمارے بہترین جذبات اسے جانناچاہتے ہیں،ہماری ہستی کااعلیٰ ترین جزءجس کوہم فکریاذہن کہتے ہیں،وہ اس کے بغیرمطمئن ہونے کے لیے کسی طرح راضی نہیں،ہماری زندگی کاسارانظام اس کے بغیر ابتر ہے اورلاینحل معمہ بناہواہے،دوسرے لفظوں میں یہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے، مگر یہی سب سے بڑی ضرورت ہم خودسے پوری نہیں کرسکتے۔

کیایہ صورت حال اس بات کی کافی دلیل نہیں ہے کہ انسان’’وحی‘‘ کامحتاج ہے۔زندگی کی حقیقت کاانتہائی ضروری ہونے کے باوجودانسان کے لیے ناقابل دریافت ہونا ظاہر کرتاہے کہ اس کا تعلق اس فہرستِ کائنات سے ہے، جس میں قدرت نے روشنی اور حرارت جیسی چیزوں کو درج کررکھا ہے۔روشنی اورحرارت انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس کے باوجودیہ انسان کے بس سے باہر ہے۔ مگرقدرت نے حیرت انگیز طور پرسورج کے ذریعہ ا س کاانتظام کردیاہے۔ اسی طرح زندگی کے سوال کا جواب دینے کے لیے خارج سے انتظام کیا گیا ہے۔

وحی والہام کوممکن اورضروری تسلیم کرلینے کے بعداب ہمیں یہ دیکھناہے کہ جوشخص اس کادعویٰ کر رہا ہے،وہ فی الواقع صاحب وحی ہے یانہیں،ہمارے عقیدے اورایمان کے مطابق اس قسم کے صاحبان وحی بہت کثیرتعدادمیں اس زمین پرپیداہوچکے ہیں، مگراس باب میں ہم خاص طورپرآخری رسول حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت پر گفتگوکریںگے،ا س لیے کہ آپ کے دعوائے نبوت کاثابت ہونادراصل سارے انبیاء کے دعوائے نبوت کاثابت ہوناہے،کیوں کہ آپ دیگرانبیاء کے منکرنہیں ہیں،بلکہ ان کی تصدیق کرنے والے ہیں،اوراس لیے بھی کہ اب موجودہ اورآئندہ نسلوں کے  لیے آپ ہی خداکے رسول ہیں، آپ کے بعداب کوئی دوسرارسو ل آنے والانہیں ہے،اس لیے عملًا اب نسل انسانی کی نجات وخسران کامعاملہ آپ ہی کے دعوائے نبوت کوماننے یانہ ماننے سے متعلق ہے۔

سن عیسوی کے لحاظ سے 29اگست 570ء کی صبح کومکہ میں ایک بچہ پیداہوا،چالیس سال کی عمرکوپہنچنے کے بعداس نے یہ اعلان کیاکہ خدانے مجھ کواپناآخری رسول بنایا ہے، اورمیرے پاس اپناپیغام بھیج کرمجھے اس خدمت کے لیے مامورکیاہے کہ میں ا س کے پیغام کوتمام انسانوں تک پہنچادوں،جومیری اطاعت کرے گاوہ خداکے یہاں سرفراز ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گاوہ ہلاک کردیاجائے گا۔

یہ آوازآج بھی پوری شدت کے ساتھ ہمارے سروں پرگونج رہی ہے،یہ ایسی آواز نہیں ہے کہ کوئی شخص اس کوسنے اورنظراندازکردے،بلکہ یہ ایک زبردست مطالبہ ہے،اس آوازکاتقاضاہے کہ ہم اس کے اوپرغورکریں، اس کے بعداگراس کوغلط پائیں توکھلے دل سے اسے ردکردیںاورصحیح پائیں توکھلے دل سے اس کوقبول کرلیں۔

جدید معیار کے مطابق، کسی تصور کے علمی حقیقت بننے کے لیے اسے تین مرحلوں سے گزرنا ہوتا ہے:

1۔  مفروضہ  (hypothesis) 

2۔  مشاہدہ  (observation) 

3۔  تصدیق(verification)

 پہلے ایک مفروضہ یاتصورذہن میں آتاہے ،پھرمشاہدہ کیاجاتاہے،اس کے بعد اگر مشاہدہ سے اس کی تصدیق ہوجائے تواس مفروضہ کوواقعہ تسلیم کرلیاجاتاہے،ا س ترتیب میں کبھی فرق بھی ہوجاتاہے،یعنی پہلے کچھ مشاہدات سامنے آتے ہیں،اوران مشاہدات سے ایک تصوریامفروضہ ذہن میں قائم ہوتاہے،پھرجب یہ ثابت ہوجاتاہے کہ مشاہدات فی الواقع اس مفروضہ کی تصدیق کررہے ہیں تووہ حقیقت قرارپاجاتاہے۔

اس اصول کے مطابق نبی کادعوائے نبوت گویاایک ’’مفروضہ‘‘ کے طورپرہمارے سامنے ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھناہے کہ مشاہدات اس کی تصدیق کررہے ہیں یانہیں، اگر مشاہدات اس کے حق میں گواہی دے دیں توا س کی حیثیت ایک مصدقہ حقیقت (verified fact) کی ہوجائے گی، اور ہمارے لیے ضروری ہوجائے گاکہ ہم اس کوتسلیم کریں۔

اب دیکھیے کہ وہ کیامشاہدات ہیں جواس ’’مفروضہ‘‘کی تصدیق کے لیے درکارہیں جن کی بنیاد پر ہم نبی کے دعوے کوجانچیں اوراس کے مطابق دعوے کاصحیح یاغلط ہونامعلوم کریں۔ دوسرے لفظوں میں وہ کون سے خارجی مظاہرہیں،جن کی روشنی میں یہ متعین ہوتاہے کہ آپ فی الواقع خداکے رسول تھے، ذات رسول میں جمع ہونے والی وہ کون سی خصوصیات ہیں،جن کی توجیہ اس کے سوااورکچھ نہیں ہوسکتی کہ ہم ان کوخداکارسول مانیں، میرے نزدیک یہ حسب ذیل ہیں، جوشخص اپنے بارے میں رسول ہونے کادعویٰ کرے، اس کے اندردوخصوصیات لازمی طورپرہونی چاہئیں۔

1۔ایک یہ کہ وہ غیرمعمولی طورپرایک معیاری انسان ہو،کیوں کہ وہ شخص جس کوساری نسل انسانی میں ا س لیے چناجائے کہ وہ خداسے ہم کلام ہواورزندگی کی درستگی کاپروگرام اس کے ذریعہ سے منکشف کیاجائے ،یقینی طورپراس کونسل انسانی کابہترین فردہوناچایئے اوراس کی زندگی میں اس کے آدرشوں(ideals) کوبہ تمام وکمال ظہورکرناچاہیے،اگراس کی زندگی ان اوصاف سے مزین ہے تویہ اس کے دعوے کی صداقت کاکھلاہواثبوت ہے، کیوں کہ اس کادعویٰ اگرغیرحقیقی ہوتووہ زندگی میں اتنی بڑی حقیقت بن کرنمایاں نہیں ہوسکتاکہ اس کواخلاق وکردارمیں ساری انسانیت میں بلندکردے۔               

2۔دوسرے یہ کہ اس شخص کاکلام اوراس کاپیغام ایسے پہلووں سے بھراہواہوناچاہیے جوعام انسان کے بس سے باہرہوں،جس کی امیدکسی ایسے ہی انسان سے کی جاسکتی ہو،جس پرمالک کائنات کاسایہ پڑاہو۔عام انسان ایساکلام پیش کرنے پرقادرنہ ہوسکیں۔

یہ دومعیارہیں جن پرہمیں رسول کے دعوائے نبوت کوجانچناہے ۔

پہلی بات کے سلسلے میں تاریخ کی قطعی شہادت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام محمدبن عبد اللہ ایک غیرمعمولی سیرت کے آدمی تھے۔ہٹ دھرمی کے ذریعہ توکسی بھی حقیقت کاانکارممکن ہے ، اور دھاندلی کی زبان میں ہرالٹی بات کادعویٰ کیاجاسکتاہے ۔ مگرجوشخص تعصب کا مریض نہ ہو اور کھلے دل سے حقیقت کامطالعہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہو،وہ لازمًاتسلیم کرے گاکہ آپ کی زندگی اخلاقی حیثیت سے نہایت اعلیٰ وارفع تھی۔

پیغمبر اسلام کوچالیس سال کی عمرمیں نبوت ملی۔ اس سے پہلے آپ کی پوری زندگی اخلاقی لحاظ سے اس قدراعلی تھی کہ آپ کولوگ سچااوردیانت دارکہہ کرپکارنے لگے تھے۔ ’’اَلصّادِقُ الامینْ‘‘ آپ کا مشہور لقب بن گیاتھا۔قدیم مکہ میں آپ کے متعلق بلا استثنا یہ بات مانی جاتی تھی کہ آپ ایک نہایت ایمان دارشخص ہیں، اورکبھی جھوٹ نہیں بولتے۔

دعوائے نبوت سے پانچ سال پہلے کاواقعہ ہے کہ قریش نے کعبہ کی تعمیرنوکاارادہ کیا۔جب تعمیر ہونے لگی تواس بات پرشدیداختلاف پیداہوگیاکہ حجراسودکونئی تعمیرمیں کون شخص اس کی جگہ پر نصب کرے،چارپانچ دن تک یہ اختلاف جاری رہااورقریب تھاکہ کہ تلواریں چل جائیں، بالآخر طے پایا کہ اس جھگڑے کافیصلہ وہ شخص کرے گاجوکل صبح کوسب سے پہلے بیت اﷲ میں داخل ہو، دوسرے دن لوگوں نے جب سب سے پہلے داخل ہونے والے انسان کو دیکھا تو پکار اٹھے ’’هَذَا الأَمِينُ قَدْ رَضِينَا بِمَا قَضَى بَيْنَنَا‘‘(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد1، صفحہ116)۔امین آگیا، ہم سب راضی ہیں، جو فیصلہ وہ ہمارے درمیان کریں ۔

ہمیں تاریخ میں کسی ایسے شخص کاعلم نہیں جس کی زندگی بحث ونزاع کاموضوع بننے سے پہلے چالیس سال تک لوگوں کے سامنے رہی ہواوراس کے جاننے والے اس کی سیرت وکردارکے بارے میں اتنی غیرمعمولی رائے رکھتے ہوں۔

پہلی بارآپ پرغارحرامیں وحی اتری تویہ آپ کے لیے ایک ایساغیرمعمولی واقعہ تھا،جس کاآپ کوپہلے کبھی تجربہ نہیں ہواتھا،آپ شدت احساس کے ساتھ گھرلوٹے اوراپنی اہلیہ سے،جوآپ سے عمرمیں بڑی تھیں، اس واقعہ کاذکرکیا۔اہلیہ کاجواب تھا—’’خداکی قسم ، اللہ یقیناًآپ کی حفاظت کرے گا،کیوں کہ آپ سچ بولتے ہیں، آپ دیانت دارہیں ، آپ برائی کابدلہ بھلائی سے د یتے ہیں، اورلوگوں کے حقوق اداکرتے ہیں۔‘‘(دیکھیے، صحیح البخاری، حدیث نمبر 3)۔

ابوطالب آپ کے چچاتھے ،ان کے سامنے آپ نے اسلام کی دعو ت پیش کی توانھوں نے یہ کہہ کراسے ماننے سے انکارکردیاکہ میں اپنے باپ داداکے دین کوچھوڑنہیں سکتا،مگراس کے بعدجب انھیں اپنے لڑکے علی (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) سے معلوم ہواکہ وہ آپ پرایمان لاچکے ہیں توابوطالب نے کہا’’بیٹے!تم اس کے لیے آزادہوکیوں کہ مجھے یقین ہے کہ محمدتم کوخیرکے سواکسی چیزکی طرف نہیں بلائیں گے۔‘‘(آئیڈیل پرافٹ صفحہ68)

نبوت ملنے کے بعدجب آپ نے پہلی بار صفاپہاڑی کے دامن میں لوگوں کوجمع کرکے اپنی دعوت پیش کی اس وقت آپ نے اپنی دعوتی تقریرشروع کرنے سے پہلے حاضرین سے یہ سوال کیا’’تمہارامیرے متعلق کیاخیال ہے‘‘جواب میں بالاتفاق یہ آوازآئی:

 مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4770)۔یعنی تمھارے اندرہم نے سچائی کے سواکوئی اوربات کبھی نہیں دیکھی ہے۔

پیغمبراسلام (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی ابتدائی زندگی کے بارے میں یہ ایک ایساممتازتاریخی ریکارڈہے جس کی مثال کسی بھی شاعر،فلسفی،مفکریامصنف کے یہاں نہیں مل سکتی ۔

جب آپ نے پیغمبری کااعلان کیاتومکہ کے لوگ جوآپ کواچھی طرح جانتے تھے، ان کے لیے یہ سوال خارج از بحث تھاکہ آپ کونعوذباﷲ جھوٹایاجعل سازسمجھیں۔کیوں کہ یہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی اب تک کی پوری زندگی کے خلاف تھا۔ا س لیے انھوں نے کبھی آپ پراس قسم کاالزام نہیں لگایا۔بلکہ کہاتویہ کہاکہ ا س شخص کی عقل کھوگئی ہے، وہ شاعرانہ مبالغہ کررہے ہیں، اوران پرکسی کاجادوچل گیاہے، ان پرجنات سوارہے، وغیرہ۔مخالفین نے یہ سب کچھ کہامگرکسی کی جرأت یہ نہ ہوئی کہ وہ آپ کی صداقت اوردیانت داری پرشبہ ظاہرکرے۔ یہ حیرت انگیزبات ہے کہ ایک شخص جس کی قوم اس کی دشمن ہوچکی ہے، اوروطن میں اس کارہنابھی اسے گوارانہیں ہے ،ا س شخص کے بارے میں اس کی دشمن قوم کاحال تاریخ یہ بیان کرتی ہے:

لَيْسَ بِمَكَّةَ أَحَدٌ عِنْدَهُ شَيْءٌ يُخْشَى عَلَيْهِ إلَّا وَضَعَهُ عِنْدَهُ، لِمَا يُعْلَمُ مِنْ صِدْقِهِ وَأَمَانَتِهِ(سیرت ابن ہشام جلد1،صفحہ485)۔یعنی مکہ میں جس کسی کے پاس بھی کوئی ایسی چیزہوتی جس کے بارے میں اسے کسی قسم کااندیشہ ہوتاتواسے آپ کے پاس رکھ دیتا،کیوں کہ ہرایک کوآپ کی سچائی اوردیانتداری کایقین تھا۔

نبوت کے تیرہویں سال عین ا س وقت جب کہ آپ کے مخالفین آپ کامکان گھیرے ہوئے کھڑے تھے،اوراس بات کاقطعی فیصلہ کرچکے تھے کہ باہرنکلتے ہی آپ کوقتل کردیں گے، آپ گھرکے اندراپنے نوجوان عزیزعلی بن ابی طالب کویہ وصیت کررہے تھے کہ میرے پاس مکہ کے فلاں فلاں لوگوں کامال امانت رکھاہواہے،میرے جانے کے بعدتم ان سب کامال انھیں واپس کردینا۔

نضربن حارث جوآپ کامخالف ہونے کے ساتھ دنیوی معاملات میں قریش کے اندرسب سے زیادہ تجربہ کارتھا،اس نے ایک روزاپنی قوم سے کہا— ’’قریش کے لوگو!محمدکی دعوت نے تم کو ایسی مشکل میں ڈال دیاہے،جس کاکوئی حل تمہارے پاس نہیں ہے، وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے بچپن سے جوان ہوئے ہیں،تم اچھی طرح جانتے ہوکہ وہ تمہارے درمیان سب سے زیادہ سچے،سب سے زیادہ امانت دار اورسب سے زیادہ پسندیدہ شخص تھے، لیکن جب ان کے بال سفیدہونے کوآئے اورانھوں نے وہ کلام پیش کیا، جس کوتم سن رہے ہوتواب تمہاراحال یہ ہے کہ تم کہتے ہو’’یہ شخص جادوگرہے،یہ شاعرہے،یہ مجنون ہے‘‘ خداکی قسم میں نے محمدکی باتیں سنی ہیں،محمدنہ جادوگرہے،نہ وہ شاعرہے،نہ وہ مجنون ہے،مجھے یقین ہے کہ کوئی اورمصیبت تمہارے اوپرآنے والی ہے۔‘‘(سیرت ابن ہشام، جلد1صفحہ319) ۔

ابوجہل جوآپ کاسخت ترین دشمن تھا،وہ کہتاتھا—’’محمد!میں یہ نہیں کہتاکہ تم جھوٹے ہو،مگرجس چیزکی تم تبلیغ کررہے ہواس کومیں صحیح نہیں سمجھتا۔‘‘(إِنَّا لَا نُكَذِّبُكَ، وَلَكِنْ نُكَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِهِ)جامع الترمذی، حدیث نمبر 3064۔

آپ کی نبوت چوں کہ صرف عرب کے لیے نہیں تھی، بلکہ ساری دنیاکے لیے تھی، اس لیے اپنی زندگی ہی میں آپ نے ہمسایہ ممالک کے بادشاہوں کودعوتی خطوط روانہ کیے،روم کے بادشاہ ہرقل (قیصرروم) کوبھی آپ نے دعوت نامہ بھیجا۔ (اس کو آپ کادعوت نامہ بیت المقدس میں ملا، جہاں وہ اُن دنوں ایرانیوں پرفتح یابی کاشکرانہ اداکرنے کے لیے آیا ہوا تھا۔)چنانچہ اس نے حکم دیاکہ عرب کے کچھ لوگ یہاں ہوں تو حاضر کیے جائیں۔ اس زمانے میں قریش کے چندلوگ تجارت کی غرض سے شام گئے ہوئے تھے— وہ دربارمیں پہنچے توہرقل نے پوچھاتمہارے شہرمیں جس شخص نے خدا کا رسول ہونے کادعویٰ کیاہے، تم میں سے کوئی اس کاقریبی رشتہ داربھی ہے— ابوسفیان نے جواب دیا وہ میرے خاندان کاہے،اس کے بعدہرقل اورابوسفیان کے درمیان جو گفتگو ہوئی، ا س کے چندفقرے یہ ہیں:

ہرقل:اس دعوے سے پہلے کبھی تم نے اس کوجھوٹ بولتے ہوئے بھی سناہے۔

ابوسفیان:کبھی نہیں۔

ہرقل:کیاوہ عہدوپیمان کی خلاف ورزی کرتاہے۔

ابوسفیان:ابھی تک اس نے کسی عہدکی خلاف ورزی نہیں کی ۔

ہرقل نے یہ سن کرکہا—’’جب یہ تجربہ ہوچکاہے کہ وہ آدمیوں کے معاملے میں کبھی جھوٹ نہیں بولا،تویہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اس نے خداکے معاملے میں اتنابڑاجھوٹ گڑھ لیاہو۔‘‘

یہ اس وقت کی گفتگوہے جب کہ ابوسفیان ابھی ایمان نہیں لائے تھے،اورمحمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے کٹردشمن تھے، بلکہ آپ کے خلاف جنگ کی قیادت کررہے تھے،وہ خودکہتے ہیں کہ’’اگرمجھے یہ اندیشہ نہ ہوتاکہ ہرقل کے دربارمیں جودوسرے قریشی بیٹھے ہوئے ہیں، وہ مجھے جھوٹا،مشہورکردیں گے تومیں اس موقع پرغلط بیانی سے کام لیتا۔‘‘(صحیح البخاری،حدیث نمبر 7)

ساری تاریخ میں کسی بھی ایسے شخص کانام نہیں لیاجاسکتاجس کے مخاطبین شدیدمخالف ہونے کے باوجوداس کی زندگی اورسیرت کے بارے میں اتنی غیرمعمولی رائے رکھتے ہوں، اوریہ واقعہ بجائے خودآپ کے رسول اﷲ ہونے کاکافی ثبوت ہے ،یہاں میں ڈاکٹرلیٹزکاایک اقتباس نقل کروں گا۔

’’میں بہت ادب کے ساتھ یہ کہنے کی جرأت کرتاہوں کہ اگرفی الواقع خدائے پاک کے یہاں سے، جوتمام نیکیوں کاسرچشمہ ہے،الہام ہوتاہے تومحمدکامذہب الہامی مذہب ہے ، اوراگرایثارنفس دیانتداری ،راسخ الاعتقادی ،نیکی اوربدی کی کامل جانچ اوربرائی دور کرنے  کے عمدہ ذرائع ہی الہام کی ظاہری بیّن علامتیں ہیں تومحمدکامشن الہامی تھا۔‘‘

Life of Mohammad by M. Abdul Fazal

جب آپ نے دعوت دینی شروع کی توآپ کی قوم نے سخت ترین مصیبتیں ڈالیں،آپ  کی راہ میں کانٹے بچھادیتے ،نمازپڑھنے میں آپ کے جسم پرنجاست لاکرانڈیل دیتے ،ایک دفعہ آپ حرم میں نمازپڑھ رہے تھے ،عقبہ ابن ابی معیط نے آپ کے گلے میں چادرلپیٹ کراس زورسے کھینچاکہ آپ گھٹنوں کے بل گرپڑے، اس قسم کی حرکتوں سے جب آپ پر کوئی اثرنہیں ہواتوانھوں نے آپ کااورآپ کے سارے خاندان کابائیکاٹ کردیااورآپ کومجبورکیاکہ بستی سے باہرایک پہاڑی درہ میں جاکربے یارومددگارپڑے رہیں،اس دوران میں کوئی ضرورت کی چیزحتیٰ کہ کھانا پینا بھی نہ کوئی شخص آپ تک پہونچاسکتاتھا،اورنہ آپ کے ہاتھ فروخت کرسکتاتھا— آپ اپنے خاندان کے ساتھ تین سال تک اس حصارمیں اس طرح رہے کہ پہاڑی درخت(طلح) کے پتے کھاتے تھے، آپ کے ایک ساتھی کابیان ہے کہ اس زمانے میں ایک دفعہ رات کوسوکھاہواچمڑاہاتھ آگیامیں نے پانی سے اسے دھویا، پھرآگ پربھونااورپانی میں ملاکرکھایاتین سال کے بعدیہ بائیکاٹ ختم ہوا (دیکھیے،سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 374-77)۔

مکہ کے لوگوں کی یہ سنگ دلی دیکھ کرآپ طائف گئے جومکہ سے تقریباًچالیس میل کے فاصلہ پر امراء وروساء کاشہرتھا،وہاں کے لوگوں نے آپ سے نہایت بُری طرح کلام کیا،ایک نے کہا’’کیاخداکوتیرے سواکوئی اورپیغمبری کے لیے نہیں ملتاتھا‘‘۔پھران لوگوں نے بدکلامی ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ طائف کے شریروں کوابھارکرآپ کے پیچھے لگادیا۔یہ لوگ ہرطرف سے آپ کے اوپر ٹوٹ پڑے اورآپ پرپتھرپھینکناشروع کیا،انھوں نے ا س بری طرح آپ کوزخمی کیاکہ آپکے جوتے خون سے بھرگئے ،آپ زخموں سے چورہوکربیٹھ جاتے توبازوتھام کرکھڑاکردیتے جب چلنے لگتے توپھرپتھربرساتے،ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اورتالی بجاتے،اسی طرح شام ہونے تک آپ کے پیچھے لگے رہے،شام کوجب وہ زخم اورخون کی حالت میں آپ کو چھوڑکرچلے گئے توآپ نے ایک باغ میں انگورکی ٹٹیوں کی آڑمیں پناہ لی،یہی وہ واقعہ ہے ،جس کے متعلق آپ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ سے فرمایالَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِيتُ، وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ العَقَبَةِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3231)۔ یعنی تمھاری قوم سے مجھ کو بہت سی تکلیفیں پہنچی ہیں، مگر میرے اوپر سب سے زیادہ تکلیف والا دن وہ تھا، جب میں طائف گیا۔

ان تمام ایذارسانیوں کے باوجودآپ اپناکام کرتے رہے، بالآخرقریش نے طے کیااب ا س کے سواکوئی صورت نہیں ہے کہ آپ کوقتل کردیاجائے،چنانچہ ایک رات کوقریش کے تمام سرداروں  نے ننگی تلواروں کے ساتھ آپ کامکان پر گھیرا ڈال دیا،تاکہ صبح کوجب آپ باہرنکلیں توآپ کوقتل کر دیا جائے، مگراﷲکی مددسے آپ بحفاظت گھرسے نکل گئے اورمدینہ جاکرقیام فرمایا۔

اس کے بعدقریش نے آپ کے ساتھ باضابطہ جنگ چھیڑدی،اوردس سال تک مسلسل آپ کو اورآپ کے ساتھیوں کوجدال و قتال میں الجھائے رکھا،جس میں آپ کے دانت شہید ہوئے، بہترین ساتھی مارے گئے،وہ تمام مصائب جھیلنے پڑے جوجنگی حالت پیداہوجانے کے بعدجھیلنے ہوتے ہیں۔

اس طرح 23سالہ تاریخ کے بعدآپ کی عمرکے آخری دنوں میں مکہ فتح ہوا،اس وقت آپ کے دشمن بے یارومددگارآپ کے سامنے کھڑے تھے، ایسے وقت میں فاتح جوکچھ کرتاہے،وہ سب کومعلوم ہے،مگرآپ نے ان سے کوئی انتقام نہیں لیا،آپ نے پوچھا’’ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، مَا تُرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ فِيكُمْ؟‘‘(قریش کے لوگو!بتاؤ اب میں تمہارے ساتھ کیامعاملہ کروں گا،انھوں نے کہاآپ شریف بھائی ہیں،اورشریف بھائی کی اولاد ہیں، آپ نے فرمایا:

اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاء(سیرت ابن ہشام ، جلد2صفحہ412)۔ جاؤ تم سب کے سب آزادہو۔

 اعلیٰ ترین سلوک کی یہ حیرت انگیزمثال تاریخ کاایک ایسامعجزہ ہے کہ اگروہ تاریخ سے قبل کاہوتااورتاریخی طورپرثابت نہ ہوتاتویقیناًکہنے والے کہتے کہ یہ واقعہ نہیں بلکہ افسانہ ہے ۔کیوں کہ کوئی انسان اب تک ایساپیدانہیں ہوا، جو اپنے سخت ترین دشمنوں پر فتح پانے کے  بعد ان سےا تنا اعلیٰ ترین سلوک کرے۔چنانچہ پروفیسرباسورتھ اسمتھ( Bosworth Smith) کے الفاظ کس قدرصحیح ہیں:

’’جب میں آپ کے جملہ صفات اورتمام کارناموں پربحیثیت مجموعی نظر ڈالتا ہوں کہ آپ کیاتھے،اورکیاہوگئے اورآپ کے تابع دارپیروؤں نے جن میں آپ نے زندگی کی روح پھونک دی تھی ،کیاکیاکارنامے دکھائے توآپ مجھے سب سے بزرگ سب سے برتر اور اپنی نظیرآپ ہی دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

Mohammad and Mohammadenism, p. 344

پھرآپ نے اپنی ساری زندگی میں جس بے غرضی کامظاہرہ کیاہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے،منصبِ رسالت سے پہلے آپ مکہ کے ایک کامیاب تاجرتھے،اورآپ کے نکاح میں حضرت خدیجہ جیسی عرب کی دولت مندخاتون تھیں لیکن رسالت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعدآپ کی تجارت اورحضرت خدیجہ کی دولت دونوں ختم ہوگئیں ،اورآپ کو اس سلسلے میں اتنی مصیبتیں اٹھانی پڑیں کہ آپ خودفرماتے ہیں—’’مجھے خداکی راہ میں اس قدرڈرایااورستایاگیاکہ کسی کو اتنا ڈرایا اورستایانہیں گیا،مجھ پرتیس شب وروزایسے گزرے ہیں کہ میرے اوربلال کے لیے کھانا،جسے کوئی جاندارکھاسکے، بس اتنی مقدارمیں ہوتاتھاکہ بلال اسے بغل میں چھپالیتے۔‘‘ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2472)۔

آپ نے صرف اپنے مشن کی خاطر یہ تکلیفیں اٹھائیں ،ورنہ آپ کے لیے دوسری زندگی بھی ممکن تھی، جب آپ مکہ میں تھے،قریش کی کچھ سردار یہ پیش کش لے کر آپ کے پاس آئے— اگراس دعوت سے تم مال ودولت چاہتے ہوتوآؤ ہم اتنامال جمع کردیں کہ تم سب سے بڑے مال داربن جاؤ، اگراس سے سرداری مطلوب ہے توبتاؤ ہم اس کے لیے بھی تیارہیں کہ تمھیں اپناسردارمان لیں،اوراگرسلطنت کی خواہش ہے توہم تمھیں اپنابادشاہ بھی تسلیم کرلیں گے، اگریہ واقعہ نہیں ہے اورتم اپنے اندرجنون کی کیفیت پاتے ہواورتمھیں ایسی چیزیں نظرآتی ہیں جنھیں تم دور نہیں کرسکتے توہم تمہاراعلاج کرنے کے لیے بھی تیارہیں۔‘‘

فَإِنْ كُنْتَ إنَّمَا جِئْتَ بِهَذَا الْحَدِيثِ تَطْلُبُ بِهِ مَالًا جَمَعْنَا لَكَ مِنْ أَمْوَالِنَا حَتَّى تَكُونَ أَكْثَرَنَا مَالًا، وَإِنْ كُنْتَ إنَّمَا تَطْلُبُ بِهِ الشَّرَفَ فِينَا، فَنَحْنُ نُسَوِّدُكَ عَلَيْنَا، وإن كنت تريد مُلْكًا مَلَّكْنَاكَ عَلَيْنَا، وَإِنْ كَان هَذَا الَّذِي يَأْتِيكَ رَئِيّا تَرَاهُ قَدْ غَلَبَ عَلَيْكَ -وَكَانُوا يُسَمُّونَ التَّابِعَ مِنْ الْجِنِّ رَئِيا- فَرُبَّمَا كَانَ ذَلِكَ، بَذَلْنَا لَكَ أموالَنا فِي طَلَبِ الطِّبِّ لَكَ حَتَّى نُبْرِئَكَ مِنْهُ۔

ان کی باتوں کو آپ خاموشی سے سنتے رہے۔اس کے بعدجواب دیا:نہ میں دیوانہ ہوں، نہ مجھے کوئی بیماری ہے، نہ مجھے مال اور حکومت کی لالچ ہے، بلکہ میں تم لوگوں کا خیرخواہ ہوں، میرے پاس تم لوگوں کے لیے سچائی کا پیغام ہے، وہ قبول کرو۔(سیرت ابن ہشام جلد1،صفحہ262-63)

مدینہ میں آپ ایک ریاست کے مالک تھے، آپ کوایسے جاں نثارخادم حاصل تھے کہ ان جیسے وفاداراورجاں نثارساتھی ،آج تک کسی کونہیں ملے،مگرواقعات بتاتے ہیں کہ آخرعمرتک آپ نے بالکل معمولی حالت میں گزاردی۔

حضرت عمراپناواقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں آپ کے حجرہ میں داخل ہواتودیکھاکہ آپ بغیر قمیص کے کجھورکی معمولی چٹائی پرلیٹے ہوئے ہیں،اورآپ کے جسم پرچٹائی کے نشانات صاف نظر آرہے ہیں،حجرہ میں چاروں طرف نظردوڑائی تواس کاکل اثاثہ یہ تھاایک طرف تین چمڑے،ایک کونے میں کچھ چھال اوردوسرے کونے میں تقریباًایک صاع جو،یہ منظر دیکھ کر میں بے اختیار روپڑا، آپ  نے پوچھاروتے کیوں ہو،میں نے عرض کیا، قیصر و کسریٰ کوتودنیاکی دولت حاصل ہے، اورآپ خداکے رسول اس حال میں ہیں،یہ سن کرآپ  بیٹھ گئے اورفرمایاعمر!آخرتم کس خیال میں ہو،کیاتم نہیں چاہتے کہ ان کودنیاملے اورآخرت ہمارے حصے میں آئے (أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا، وَلَكَ الْآخِرَةُ)۔‘‘صحیح مسلم، حدیث نمبر 1479

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مہینہ گزرجاتا تھا، لیکن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیویوں کے مکانات میں چولھانہیں جلتاتھا،عروہ نے پوچھاتوآپ لوگ زندہ کیسے رہتی تھیں، انھوں نے جواب دیاکہ کھجوراورپانی ہماری غذاتھی،ساتھ ہی بعض انصاردودھ بھیج دیاکرتے تھے،ان ہی کی دوسری روایت ہے کہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کے بعدایساکبھی نہیں ہواکہ آپ کے گھروالوں نے مسلسل تین دن گیہوں کااستعمال کیا ہو،اوراسی حالت میں آپ دنیاسے چلے گئے(مسند احمد، حدیث نمبر 24768)۔

آپ نے قدرت رکھنے کے باوجوداس طرح زندگی گزاری اورجب دنیاسے رخصت ہوئے تو اپنی بیویوں اوراولادکے لیے کچھ نہیں چھوڑا،نہ دینارنہ درہم ،نہ بکری نہ اونٹ اورنہ کسی چیزکی وصیت کی، اس کے بجائے دنیاکی عظیم ترین سلطنت کے بانی جس کواپنی زندگی میں یہ معلوم تھاکہ اس کی حکومت ایشیااورافریقہ سے گزرتی ہوئی یورپ کی سرحدوں تک پہنچ جائے گی، اس نے فرمایا:

لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1757)۔ ہم (پیغمبروں) کاکوئی وارث نہیں ہوتا،جوکچھ ہم چھوڑجائیں وہ صدقہ ہے۔ 

آپ کے اخلاق وکرداراورآپ کے اخلاص وایثارکے واقعات جو اوپر پی کیے گئے ہیں ،یہ کچھ مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں، بلکہ یہی آپ کی پوری زندگی ہے،آپ کی ساری زندگی اسی قسم کے واقعات کادوسرانام ہے،حقیقت یہ ہے کہ آپ کا معیارِ انسانیت اتنا بلند تھا کہ اگرآپ پیدانہ ہوتے توتاریخ کولکھناپڑتاکہ اس سطح کاانسان نہ کوئی پیداہو اور نہ کبھی پیداہوسکتا۔

ایسے غیرمعمولی انسان کے بارے میں یہ عجیب نہیں ہوگاکہ ہم ا س کوخداکارسول مان لیں، بلکہ یہ عجیب ہوگاکہ ہم ا س کے رسول ہونے کاانکارکردیں،کیوں کہ آپ کورسول مان کرہم صرف آپ کی معجزاتی شخصیت کی توجیہ کرتے ہیں،اگرہم آپ کورسول نہ مانیں توہمارے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیں رہتاکہ ان حیرت انگیزاوصاف کاسرچشمہ کیاتھا،جب کہ ساری معلوم تاریخ میں کوئی ایک بھی انسان پیدانہیں ہوا۔پروفیسرباسورتھ اسمتھ کے یہ الفاظ ایک لحاظ سے حقیقت واقعہ کا اعتراف ہیں، اوردوسرے لحاظ سے وہ سارے انسانوں کوآپ کی رسالت پرایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں:

’’محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخرمیں بھی اپنے لیے اسی منصب کادعویٰ کیا،جس سے انھوں نے اپنے کام کاآغازکیاتھا،اورمیں یہ یقین کرنے کی جرأت کرتاہوں کہ اعلیٰ ترین فلسفہ اورسچی مسیحیت ایک روزیہ تسلیم کرنے پرمتفق ہوں گے کہ آپ ایک پیغمبرتھے،خداکے سچے پیغمبر۔‘‘

Mohammad and Mohammadenism, p. 344

دوسرے پہلوسے رسو ل کی رسالت کاسب سے بڑاثبوت وہ کتاب ہے،جس کواس نے یہ کہہ کرپیش کیاکہ وہ اس کے اوپرخداکی طرف سے ا تری ہے،یہ کتاب بے شمارایسی خصوصیات سے بھری ہوئی ہے،جواس کے بارے میں اس امرکاقطعی قرینہ پیداکرتی ہیں کہ یہ ایک غیرانسانی کلام ہے ،جو خداکی طرف سے بھیجاگیاہے۔

یہ بحث چوں کہ مستقل اہمیت کی حامل ہے،ا س لیے اس کومیں الگ باب میں بیان کروں گا۔

 

قرآنخدا کی آواز

پیغمبراسلام کی ایک حدیث ہے:

’’پیغمبروں میں سے ہرپیغمبرکواﷲ تعالیٰ نے ایسے معجزات دیے جن کودیکھ کرلوگ ایمان لائے اورمجھ کوجومعجزہ عطاہواہے،وہ قرآن ہے۔ ‘‘ (مَا مِنَ الأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ البَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 4981۔

یہ ارشادہماری تلاش کے صحیح رخ کومتعین کرتاہے،وہ بتاتاہے کہ رسول کی رسالت کو پہچاننے کے لیے آج ہمارے پاس جوسب سے بڑاذریعہ وہ کتاب ہے جس کورسول نے یہ کہہ کر پیش کیا تھا کہ وہ ا س کے پاس خداکی طرف سے اتری ہے ۔قرآن ،رسول کا نمائندہ بھی ہے، اوررسول کے رسول برحق ہونے کی دلیل بھی۔

قرآن کی وہ کیاخصوصیات ہیں،جویہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ خداکی طرف سے اترا ہے، اس کے بہت سے پہلوہیں،یہاںمیں چندپہلوؤں کامختصراًذکرکروں گا:

1۔اس سلسلے میں سب سے پہلی چیزجوقرآن کے طالب علم کومتاثرکرتی ہے،وہ قرآن کاچیلنج ہے، جوچودہ سوبرس سے د نیاکے سامنے ہے، مگرآج تک اس کاجواب نہ دیا جاسکا، قرآن میں باربار یہ اعلان کیاگیاہےکہ جولوگ قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کے بارے میں مشتبہ ہیں، اوراس کو محض اپنے جیسے ایک انسان کی تصنیف سمجھتے ہیں، وہ ایسی ایک کتاب بناکرپیش کریں، بلکہ اس کي جیسی ایک سورہ ہی بناکردکھادیں۔ قرآن کے الفاظ ہیں:

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (2:23)۔ یعنی  اپنے بندے پراپناجوکلام ہم نے اتاراہے،اگراس کے (کلام الٰہی ہونے کے) بارے میں تمھیں شبہ ہے تواس کے جیسی ایک سورہ لکھ کر لے آؤ اورخداکے سوااپنے تمام مددگاروں کوبھی بلالو،اگرتم اپنے خیال میں سچے ہو۔

یہ ایک حیرت انگیزدعویٰ ہے،جوساری انسانی تاریخ میں کسی بھی مصنف نہیں کیااورنہ بقیدہوش و حواس کوئی مصنف ایسادعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتا،کیوں کہ کسی بھی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھ دے جس کے ہم پایہ کتاب دوسرے انسان نہ لکھ سکتے ہوں،ہرانسانی تصنیف کے جواب میں اسی د رجہ کی دوسری انسانی تصنیف تیارکی جاسکتی ہے،قرآن کایہ کہناکہ وہ ایک ایساکلام ہے ،جیساکلام انسانی ذہن تخلیق نہیں کرسکتا،اورڈیڑھ ہزاربرس تک کسی انسان کااس پرقادرنہ ہونا،قطعی طورپرثابت کردیتاہے کہ یہ ایک غیرانسانی کلام ہے،یہ خدائی منبع (divine origin) سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں،اورجوچیزخدائی منبع سے نکلی ہواس کاجواب کون دے سکتا ہے۔

تاریخ میں چندمثالیں ملتی ہیں جب کہ اس چیلنج کوقبول کیاگیا۔ایک واقعہ لبیدبن ربیعہ  عامری(وفات 41ھ)کاہے۔ لبید ابن ابی ربیعہ دورِ جاہلیت میں عربوں کا مشہور شاعر تھا۔ وہ عربوں میں اپنے قوت کلام اورتیزیٔ طبع کے لیے مشہورتھا۔اس نے بطور چیلنج ایک نظم لکھی جوکعبہ کے پھاٹک پرآویزاں کی گئی ،اوریہ ایک ایسااعزازتھاجوصرف کسی اعلیٰ ترین شخص ہی کو ملتا تھا۔ اس واقعہ کے جلدہی بعدکسی مسلمان نے قرآن کی ایک سورہ لکھ کر اس کے قریب آویزاں کردی، لبید (جواس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے)جب اگلے روزکعبہ کے دروازہ پرآئے اور سورہ كو پڑھاتوابتدائی فقروں کے بعدہی وہ غیرمعمولی طورپرمتاثرہوئے اوراعلان کیابلاشبہ یہ کسی انسان کاکلام نہیں ہے ،اورمیں اس پرایمان لاتاہوں۔

Mohammad, the Holy Prophet by H.G.Sarwar, p.448

 عرب کایہ مشہورشاعرقرآن کے ادب سے اس قدرمتاثرہواکہ اس کی شاعری چھوٹ گئی ۔ بعد کو ایک مرتبہ حضرت عمرنے ان سے اشعار کی فرمائش کی توانھوں نے جواب دیا کہ جب خدانے مجھے بقرہ اورآل عمران جیساکلام دیاہے تواب شعرکہنامیرے لیے مناسب نہیں (مَا کنت لأقول شعرا بعد أن علمنی اللہ البقرة وآل عِمْرَان) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر،جلد3، صفحہ 1337۔

  دوسرااس سے زیادہ عجیب واقعہ ابن المقفع کاہے جس کونقل کرتے ہوئے ایک مستشرق (Wollaston, Arthur N, 1842-1922)لکھتاہے:

That Muhammad`s boast as to the literary excellence of the Quran was not unfounded, is further evidenced by a circumstance, which occurred about a century ofter the establishment of Islam.  (Mohammad, His Life and Doctrines, p.143)

یعنی یہ بات کہ قرآن کے اعجازکلام کے بارے میں محمدکا دعویٰ غلط نہیں تھا، یہ اس واقعہ سے ثابت ہوجاتاہے، جواسلام کے قیام کے سوسال بعدپیش آیا۔

واقعہ یہ ہے کہ منکرینِ مذہب کی ایک جماعت نے یہ دیکھ کرکہ قرآن لوگوں کوبڑی شدت سے متاثرکررہاہے،یہ طے کیاکہ اس کے جواب میں ایک کتاب تیارکی جائے ،انھوں نے ا س مقصد کے لیے ابن المقفع (م727ء) سے رجوع کیاجواس زمانے کاایک زبردست عالم،بے مثال ادیب اورغیرمعمولی ذہین وطباع آدمی تھا، ابن المقفع کواپنے اوپر اتنا اعتماد تھاکہ وہ راضی ہوگیا۔ اس نے کہاکہ میں ایک سال میں یہ کام کروں گا البتہ اس نے یہ شرط لگائی کہ اس مدّت میں اس کی تمام ضروریات کامکمل انتظام ہوناچاہیے تاکہ وہ کامل یکسوئی کے ساتھ اپنے ذہن کواپنے کام میں مرکوزرکھے۔

نصف مدت گزرگئی تواس کے ساتھیوں نے یہ جانناچاہاکہ اب تک کیاکام ہواہے ۔ وہ جب اس کے پاس گئے توانھوں نے اس کواس حال میں پایاکہ وہ بیٹھا ہوا ہے ۔قلم اس کے ہاتھ میں ہے، گہرے مطالعہ میں مستغرق ہے، اس مشہورنو مسلم ایرانی ادیب کے سامنے ایک سادہ کاغذ پڑا ہوا ہے، اس کی نشست کے پاس لکھ لکھ کرپھاڑے ہوئے کاغذات کاایک انبارہے اوراسی طرح سارے کمرہ میں کاغذات کاڈھیرلگاہواہے، اس انتہائی قابل اورفصیح اللسان شخص نے اپنی بہترین قوت صرف کرکے قرآن کاجواب لکھنے کی کوشش کی۔ مگروہ بری طرح ناکام رہا،اس نے پریشانی کے عالم میں اعتراف کیاکہ صرف ایک فقرہ لکھنے کی جدوجہدمیں اس کے چھ مہینے گزرگئے مگروہ لکھ نہ سکا، چنانچہ ناامیداورشرمندہ ہوکروہ اس خدمت سے دست بردارہوگیا۔

اس طرح قرآن کاچیلنج بدستورآج تک قائم ہے اورصدیوں پرصدیاںگزرگئیں مگرکوئی اس کاجواب نہ دے سکا،قرآن كي یہ ایک حیرت انگیزخصوصیت ہے جوبلااشتباہ یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ مافوق ہستی کاکلام ہے ،اگرآدمی کے اندرفی الواقع سوچنے کی صلاحیت ہوتویہی واقعہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے ۔

 عرب کے لوگ فصاحت وبلاغت میں اپناجواب نہیں رکھتے تھے، اوران کواپنے کلام کی برتری کااتنااحساس تھاکہ عرب کے سوابقیہ دنیاکوعجم (گونگا)کہتے تھے،اس کے باوجود وہ قرآن کے کلام کے آگے جھکنے پرمجبورہوگئے ،یہ قرآن کے معجزانہ کلام کانتیجہ تھا۔تمام لوگوں کواس کے برترادب کااعتراف کرناپڑا۔مکہ کا واقعہ ہے۔ طفیل بن عمر الدوسی یمن کے شاعر تھے۔ جب وہ مکہ آئے تو لوگوں نے کہا کہ محمد کی بات نہیں سننا ۔ یہ سن کر انھوں نے سوچا کہ میں ایک عقل مند انسان ہوں، شاعر بھی ہوں،اچھی اور خراب باتوں کومیں خود سمجھ سکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے پیغمبر اسلام سے ملاقات کی، اور قرآن سنانے کے لیے کہا۔ پیغمبر اسلام نے قرآن کا کچھ حصہ سنایا۔ یہ سن کر اس نے کہا:

 وَاَللَّهِ مَا سَمِعْتُ قَوْلًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ، وَلَا أَمْرًا أَعْدَلَ مِنْهُ(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ383)۔ اللہ کی قسم میں نےاس سے اچھی بات نہیں سنی، اور نہ اس سے زیادہ انصاف والی بات سنی ہے۔

اسی طرح ایک قریشی سردار ولید بن مغیرہ نے قرآن سنا تواس کی زبان سے بےاختیار یہ فقرہ نکلا:

 وَاللهِ إِنَّ لِقَوْلِهِ الَّذِي يَقُولُ:حَلَاوَةً وَإِنَّ عَلَيْهِ لَطَلَاوَةً، وَإِنَّهُ لَمُثْمِرٌ أَعْلَاهُ مُغْدِقٌ أَسْفَلَهُ، وَإِنَّهُ لَيَعْلُو وَمَايُعْلَى، وَإِنَّهُ لَيُحَطِّمُ مَا تَحْتَهُ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 133)۔ یعنی اللہ کی قسم، بےشک جو وہ کہتے ہیں،اس میں شیرینی ہے، اور اس میں کشش (attraction) ہے، اور اس کااوپری حصہ پھلدار ہے، اور اس کانچلا حصہ زرخیز ہے، بے شک وہ ضرورغالب ہوگا ہے، کوئی اس پر غلبہ نہیں پاسکتا، اورجو اس کو سنے وہ اس سے متاثر ہوجاتا ہے۔    

اس طرح کے بے شماراعترافات ہیں،جوقدیم تاریخ میں بھی موجودہیں ،اورحال کے واقعات میں بھی ۔

2۔ دوسری چیزجس کامیںذکرکرناچاہتاہوں،وہ قرآن کی پیشین گوئیاں ہیں، یہ پیشین گوئیاں حیرت انگیزطورپربالکل صحیح ثابت ہوئیں۔

تاریخ میں ہمیں بہت سے ایسے ذہین اورحوصلہ مندلوگ ملتے ہیں جنھوں نے اپنے یادوسرے کے بارے میںپیشین گوئی کی جرأت کی ہے ،مگرہمیں معلوم ہے کہ زمانے نے کبھی ایسے لوگوں کی تصدیق نہیں کی،موافق حالات غیرمعمولی صلاحیت،اعوان وانصارکی کثرت اورابتدائی کامیابیوں نے اکثرلوگوں کواس دھوکے میں ڈال دیاہے کہ وہ ایک ایسے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ،جوعین اس کی مرضی کے مطابق ہے، انھوں نے فورًاایک یقینی انجام کادعوی ٰکردیا،مگرتاریخ نے ہمیشہ اس قسم کے دعوؤں کی تردیدکی ہے ،اس کے برعکس بالکل مخالف اورناقابل قیاس حالات میں بھی قرآن کے الفاظ اس طرح صحیح ثابت ہوئے کہ ان کی توجیہ کے لیے تمام انسانی علوم بالکل ناکافی ہیں، ہم انسانی تجربات کی روشنی میں کسی طرح ان کوسمجھ نہیں سکتے۔ان کی توجیہ کی واحدصورت صرف یہ ہے کہ ان کوغیرانسانی ہستی کی طرف منسوب کیاجائے۔

نپولین بوناپارٹ (Napoléon Bonaparte, 1769-1821) اپنے وقت کاعظیم جنرل تھا۔اس کی ابتدائی کامیابیاں بتاتی تھیں کہ وہ سیزراوراسکندرکے لیے بھی ایک قابل رشک فاتح ثابت ہوگا، اس کانتیجہ یہ ہواکہ نپولین کے ذہن میں یہ خیال پرورش پانے لگاکہ وہ تقدیرکامالک ہے، ا س کواپنے اوپراتنااعتمادہوگیاکہ اپنے قریبی مشیروں تک کے مشورے کوقبول کرنااس نے چھوڑ دیا،اس کاکہناتھاکہ کامل غلبہ کے سوامیراکوئی دوسراانجام نہیںہوسکتا۔مگراس کاانجام کیا ہوا، وہ سب کومعلوم ہے۔ 12 جون 1815ء کونپولین اپنی سب سے بڑی فوج لے کرپیرس سے روانہ ہواکہ دشمن کو اس کے راستے ہی میں ختم کردے، اس کے چھ دن بعدواٹرلو(بلجیم)میں آرتھر ویلزلی (Arthur Wellesley, 1769-1852 )نے خوداس کوفیصلہ کن شکست دینے میں کامیابی حاصل کی،جواس وقت برطانیہ ،ہالینڈاورجرمنی کی فوجوں کی قیادت کررہاتھا۔اب نپولین کی ساری امیدیں ختم ہوگئیں ۔وہ اپناتخت چھوڑکرامریکا کے ارادے سے بھاگ کھڑاہوا،مگرابھی ساحل پر پہنچا تھاکہ دشمن کے نگراں دستوں نے اسے پکڑلیا، اورمجبورکیاکہ وہ ایک برطانوی جہاز پرسوار ہو۔ اس کے بعداس کوجلاوطنی کی زندگی گزارنے کے لیے جنوبی اٹلانٹک کے جزیرہ سینٹ ہیلنیا پہنچا دیا گیا، جہاں وہ تنہائی اورمشکل حالات میں زندگی گزارتے ہوئے5مئی 1821ء کومرگیا۔

مشہورکمیونسٹ مینی فسٹوجو1848میں شائع ہوا،ا س میں سب سے پہلے جس ملک میں اشتراکی انقلاب کی امیدظاہرکی گئی تھی، وہ جرمنی ہے،مگرایک سوبیس سال گزرنے کے بعدبھی جرمنی اب تک اس’’انقلاب‘‘ سے ناآشناہے۔مئی 1859ء میں کارل مارکس نے لکھا تھا ’’سرخ جمہوریت پیرس کے اوپرسے جھانک رہی ہے‘‘۔اس پیشین گوئی کوایک صدی سے زیادہ مدّت گزرگئی،مگرابھی تک پیرس کے اوپرسرخ جمہوریت کاآفتاب نہیں نکلا، اڈولف ہٹلر نے 14اپریل 1936ء کومیونخ کی مشہورتقریرمیں کہاتھا

’’میں اپنے راستہ پراس اعتمادکے ساتھ چل رہاہوں کہ غلبہ میرے حق میں مقدر ہوچکا ہے۔‘‘

A Study of History (Abridgment) p.447

مگرساری دنیاجانتی ہے کہ جرمنی کے اس عظیم ڈکٹیٹرکے حق میں جوچیزمقدرتھی وہ یہ کہ وہ شکست کھائے اورخودکشی کرکے اپنی جان دے۔اس طرح کی بے شمارمثالوں کے ہجوم میں صرف کتاب الٰہی کویہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے جس جس چیزکی پیشین گوئی کی وہ حرف بحرف پوری ہوئی— یہ واقعہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ یہ کلام ایسے مافوق ذہن سے نکلاہے،جس کے قبضہ میں حالات کی باگ ڈورہے اورجوازل سے ا بدتک کی خبررکھتاہے۔

یہاں میں صرف دوپیشین گوئیوں کاذکرکروں گا۔ایک، خودپیغمبراسلام کاغلبہ،اوردوسرا، رومیوں کی ایرانیوں کے اوپر مغلوبیت کے بعد فتح کی پیشین گوئی۔

1۔ پیغمبر اسلام (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے اسلام کی دعوت شروع کی تو تقریباً تمام عرب آپ کا مخالف ہوگیا ایک طرف مشرک قبائل تھے،جو آپ کے جانی دشمن ہوگئے،دوسری طرف یہودی سرمایہ دارتھے،جوہرقیمت پرآپ کوناکام بنادینے کافیصلہ کرچکے تھے،تیسری طرف منافقین تھے، جو بظاہرمسلمان بنے ہوئے تھے، مگران کا مقصد یہ تھاکہ آپ کی جماعت میں گھس کرآپ کی تحریک کو اندرسے ڈائنامیٹ کریں، اس طرح طاقت،سرمایہ اوراندرونی سازش— سہ طرفہ مخالفتوں کے طوفان میں آپ اس طرح اپنی تحریک چلارہے تھے کہ تھوڑے سے غلاموں اور کمزور لوگوں کے سوا کوئی آپ کاساتھی نہ تھا،مکہ کے سربرآوردہ لوگوں میں سے گنتی کے چندآدمی جوآپ کا ساتھ دینے کے لیے نکلے ان کابھی حال یہ ہواکہ آپ کی طرف آتے ہی وہ اپنی برادری سے کٹ گئے اور ان کی قوم ان کی بھی اسی طرح دشمن ہوگئی جس طرح وہ خداکے رسول کی دشمن تھی۔

یہ تحریک یوں ہی چلتی رہی،یہاں تک کہ حالات اس قدرشدیدہوگئے کہ آپ اورآپ کے اصحاب کواپناوطن چھوڑکردوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرجاناپڑا۔اس طرح آپ اورآپ کے ساتھی جوپہلے ہی نہتے اورکمزورتھے،مدینے میں اس حالت میں جمع ہوئے کہ اپنے وطن میں جوکچھ ان کے پاس تھاوہ بھی چھن چکاتھا۔مدینے میں ان لوگوں کی بے کسی کاکیاعالم تھا،اس کااندازہ اس سے لگائیے کہ اپنے وطن کوچھوڑکرمدینے میں آپ کے جوساتھی جمع ہوئے تھے، ان میں ایسے لوگ بھی تھے، جن کے رہنے کے لیے کوئی باقاعدہ مکان نہیں تھا، وہ چھپّرپڑے ہوئے ایک چبوترے پر زندگی گزارتے تھے،اسی مناسبت سے ان کانام ’’اصحاب صفہ‘‘ پڑگیاتھا۔اس چبوترے پرمختلف اوقات میں جو لوگ رہے ،ان کی تعداد تقریباً چارسوبتائی جاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کابیان ہے کہ میں نے اصحاب صفہ میں سے ستر آدمیوںکودیکھاہے، جن میں سے ہرشخص کاحال یہ تھاکہ اس کے پاس یاتوصرف ایک تہبند تھی، یاصرف ایک چادر ،وہ اس کواپنی گردن میں باندھ لیتاتھا،اوروہ اس کی پنڈلی تک لٹکتارہتاتھا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 442) ۔ حضرت ابوہریرہ اس زمانے کاخوداپناحال بیان کرتے ہیں کہ مسجدنبوی میں خاموش لیٹارہتاتھا،اورلوگ سمجھتے تھے کہ میں بیہوش ہوں،حالانکہ حقیقت صرف یہ تھی کہ مسلسل فاقے کی وجہ سے میں نڈھال ہوجاتاتھا،اورمسجدمیں جاکرلیٹ رہتاتھا(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2367)۔

چندانسانوں کایہ بے سروسامان قافلہ مدینے کی زمین پراس طرح پڑاہواتھاکہ ہرآن یہ خطرہ تھاکہ چاروں طرف اس کے پھیلے ہوئے دشمن اس کواچک لے جائیں گے، مگرخداکی طرف سے باربارآپ کویہ بشارت آتی تھی کہ تم ہمارے نمائندے ہواورتمھیں کوئی زیرنہیں کرسکتا۔ قرآن میں ایک مقام پر یہ اعلان ہے:كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (58:21) ۔یعنی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔ بیشک اللہ قوت والا، زبردست ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر ہے کہ ساری مخالفتوں کے باوجود اﷲتم کوغالب کرکے رہے گا:

 يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (61:8-9)۔ یعنی یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اﷲ کی روشنی کواپنی پھونکوں سے بجھادیں اوراﷲکافیصلہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کومکمل کرکے رہے گا،خواہ منکروں کویہ کتناہی ناگوارہو،وہی ہے جس نے اپنے رسول کوہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا،تاکہ اس کوتمام دینوں پرغالب کردے،خواہ شرک کرنے والوں کویہ کتناہی ناگوار ہو۔

اس دعوے کوتھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ساراعرب آپ کےماتحت ہوگیا۔ تھوڑے سے نہتے اوربے سروسامان لوگ ان پرغالب آگئے جوتعدادمیں بہت زیادہ تھے، وقت جن کاساتھ دے رہاتھااورجن کے پاس ہتھیاراورسازوسامان کازبردست ذخیرہ موجودتھا۔

مادی اصطلاحات میں اس بات کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی کہ آپ کوعین اپنی پیشین گوئی کے مطابق عرب کے لوگوں اورہمسایہ ملکوں پرکیسے اتنی زبردست فتح حاصل ہوگئی۔اس کی صرف ایک ہی توجیہ ممکن ہے،وہ یہ کہ آپ خداکے نمائندے تھے۔خدانے اپنی مددسے آپ کوآپ کے دشمنوں کے مقابلے میں غالب کیااورآپ کے مشن کواس حدتک کامیاب کیاکہ آپ کے دشمن آپ کے ساتھی بن گئے، غیرمعمولی مخالفت اورزبردست دشمنوں کے مقابلے میںنبی امّی کاعین اپنے دعوے کے مطابق کامیاب ہونااس بات کاکھلاہواثبوت ہے کہ آپ کائناتی طاقت کے نمائندے تھے۔اگرآپ کا مشن محض ایک انسانی مشن ہوتا توکبھی یہ ممکن نہیں تھاکہ آپ کے الفاظ تاریخ بن جائیں۔ایسی تاریخ جس کی مثال سارے انسانی واقعات میں کوئی ایک بھی نہیں۔جے، ڈبلیو،ایچ اسٹوبرٹ (J. W. H. Stobart)کے الفاظ میں ’’آپ کے پاس جتنے کم ذرائع تھے ،اورجووسیع اورمستقل کارنامہ آپ نے انجام دیا،اس کے ا عتبار سے دیکھاجائے توساری انسانی تاریخ میں اتنانمایاں طورپر درخشاں نام اور کوئی نظرنہیںآتاجتنانبی عربی کاہے ۔‘‘

Islam and its Founder, p. 228

یہ آ پ کے نمائندہ ٔ الٰہی ہونے کی ایسی حیرت انگیزدلیل ہے کہ سرولیم میور (William Muir)جیسے شخص کوبھی بالواسطہ طورپراس کااعتراف کرناپڑا:

’’محمدنے مخالفین کے منصوبوں کوخاک میں ملادیا،انھیں مٹھی بھرآدميوں کے ساتھ دن رات اپنی کامیابی کاانتظاررہتاتھا،بظاہربالکل غیرمحفوظ ،بلکہ یوں کہیے کہ شیرکے منھ میں رہ کروہ ہمت دکھائی کہ اس کی نظیراگرکہیں مل سکتی ہے توصرف بائبل میں جہاں ایک نبی کے متعلق لکھاہے کہ انھوں نے ایک موقع پرخداسے کہاتھا— صرف میں ہی باقی رہ گیاہوں۔‘‘

Life of Mohammed, p. 221

2۔ قرآن کی دوسری پیشین گوئی جس کامیں یہاں ذکرکرناچاہتاہوں، وہ رومیوں کاایرانیوں پرغلبہ ہے جوقرآن کی تیسویں سورہ (روم)میں واردہوئی ہے

غُلِبَتِ الرُّومُ ۔ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ (30:2-3)۔یعنی رومی قریب کی زمین میںمغلوب ہوگئے ہیںمگرمغلوب ہونے کے بعد چند سال میں پھروہ غالب آجائیں گے۔

جزیرہ نمائے عرب کے مشرق میں خلیج فارس کے دوسرے ساحل پرایرانی حکومت قائم تھی، اورمغرب میں بحراحمرکے کناروں سے لے کر اوپر بحراسودتک وہ سلطنت تھی،جوتاریخ میں سلطنت روم کے نام سے مشہور ہے،اول الذکر کادوسرانام ساسانی سلطنت اور موخر الذکر کابازنطینی سلطنت ہے، ان دونوں حکومتوں کی سرحدیں عرب کے شمال میں عراق کے مشہور دریاؤں دجلہ وفرات پر آکر ملتی تھیں،یہ دونوں اپنے زمانے کی طاقت ورترین سلطنتیں تھیں،رومی سلطنت کی تاریخ مورخ گبن کے بیان کے مطابق دوسری صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے اوراس کواپنے وقت کی مہذب ترین سلطنت کی حیثیت حاصل رہی ہے۔

ایک مصنف کے الفاظ میں،روم کے زوال پرجتنالکھاگیاہے،اتناکسی تہذیب کے خاتمے پرنہیں لکھاگیا :

Western Civilisation, p, 210

ا س عنوان پرسب سے زیادہ تفصیلی اور مستند ڈیٹا(data) برٹش مؤرخ و مستشرق ايڈور ڈگبن (Edward Gibbon, 1737-1794)کی کتاب میں ہے، جس کانام ہے:

The History of the Decline and Fall of the Roman Empire (1767)

اس کتاب کی پانچویں جلدکے دوسرے باب میں قابل مصنف نے اس دورکے واقعات قلم بندکیے ہیں، جو اس وقت ہماراموضوع بحث ہے۔روم کے ایک سابق بادشاہ قسطنطین نے 325ء میں مسیحيت قبول کرکے اس کوسرکاری مذہب کے حیثیت دید ی تھی، چنانچہ روم کی بیشترآبادی اب حضرت عیسیٰ کی پیروتھی،اس کے مقابلے میں ایرانی سورج دیوتاکے پرستار تھے،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے روم پرجس بادشاہ کی حکومت تھی، اس کانام ماریس (Maurice)تھا،ماریس کی نااہلی اوربدانتظامی کی وجہ سے آپ کونبوت ملنے سے آٹھ سال قبل 602ء میں اس کی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کردی، اس بغاوت کی قیادت ایک فوجی کپتان فوکاس(Phocas)نے کی تھی، بغاوت کامیاب ہوگئی، اور فوکاس روم کے شہنشاہ کی جگہ تخت پرقابض ہوگیا— اس نے اقتدارحاصل کرنے کے بعدشہنشاہ روم ماریس اوراس کے خاندان کونہایت بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔

فوکاس(Phocas) نے اپنی ہمسایہ سلطنت ایران کوایک سفیربھیج کرنئی تخت نشینی کی اطلاع دی۔ اس وقت ایران کے تخت پرنوشیرواں عادل کالڑکا خسروپرویز (Chosroes 2) تھا۔ خسرو پرویز کو 590-91ء میں اندرونی سازش اوربغاوت کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔اس زمانے میں مقتول رومی شہنشاہ ماریس نے اس کواپنے علاقہ میں پناہ دی تھی، اور دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے سلسلے میں اس کی مددکی تھی، یہ بھی کہاجاتاہے کہ انھیں دنوں قسطنطنیہ کے زمانۂ قیام میں خسرونے ماریس کی لڑکی سے شادی کرلی تھی اوراس رشتہ کی بنا پرماریس کووہ اپناباپ کہتاتھا۔چنانچہ جب خسروکورومی انقلاب کی خبرملی تووہ سخت برہم ہوا،اس نے رومی سفیرکوقیدکرادیا،اورنئی حکومت کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا۔

اس کے بعدفوراًاس نے اپنی فوجوں کے ذریعے روم پرچڑھائی کردی،603ء میں اس کی فوجیں دریائے فرات کوپارکرکے شام کے شہروںمیں داخل ہوگئیں— فوکاس اپنی نااہلی کی وجہ سے ا س غیرمتوقع حملہ کوروکنے میں کامیاب نہ ہوا،ایرانی فوجیں بڑھتی رہیں،یہاں تک کہ انطاکیہ کوفتح کرتے ہوئے یروشلم پرقابض ہوگئیں،ایرانی سلطنت کے حدودفرات سے پارکرکے یکایک وادیٔ نیل تک وسیع ہوگئے،سابقہ رومی سلطنت کے مذہبی داروگیری کی وجہ سے چرچ کے مخالف فرقے نسطوری اوریعقوبی نیزیہودی پہلے سے رومی حکومت سے ناراض تھے ،اب انھوں نے روم دشمنی میں نئے فاتحین کاساتھ دیا،ا س چیزنے خسروکی کامیابی کوبہت آسان بنادیا ۔

فوکاس کی ناکامی دیکھ کرسلطنت کے کچھ امراءنے افریقہ کے رومی گورنرکے یہاں خاموش پیغام بھیجاکہ وہ ملک کوبچانے کی کوشش کرے۔اس نے اپنے لڑکے ہرقل (Heraclius) کواس مہم پرروانہ کیا،ہرقل سمندرکے راستہ سے فوج لے کرافریقہ سے روانہ ہوا،اوریہ ساری کارروائی اس قدررازداری کے ساتھ انجام پائی کہ فوکاس کواس وقت تک اس کی خبرنہیں ہوئی جب تک اس نے اپنے محل سے سمندرمیں آتے ہوئے جہازوں کے نشانات نہیں دیکھ لیے،ہرقل معمولی لڑائی کے بعددارالسلطنت پرقابض ہوگیا،اورفوکاس قتل کردیاگیا۔

ہرقل نے فوکاس کوتوختم کردیا ،مگروہ ایرانی سیلاب کوروکنے میںکامیاب نہ ہوسکا۔ 616ء تک رومی دارالسلطنت سے باہراپنی شہنشاہی کاتمام مشرقی اورجنوبی حصّہ کھوچکے تھے، عراق، شام فلسطین، مصر، ایشیائے کوچک، ہرجگہ صلیبی علم کے بجائے در فش کا ویانی لہرا رہا تھا، رومی سلطنت قسطنطنیہ کی چہاردیواری میں محدودہوکررہ گئی تھی،محاصرہ کی وجہ سے تمام راستے بندتھے ،چنانچہ شہرمیں قحط اوروبائی امراض نے پھیل کرمزیدمصیبت پیدا کردی، رومی سلطنت کے عظیم الشان درخت کاصرف تناباقی رہ گیاتھا،اوروہ بھی خشک ہورہاتھا، خود قسطنطنیہ کے اندردشمن کے گھس آنے کاخوف تمام آبادی پراس قدرچھایاہواتھاکہ تمام کاروبار بندتھے،وہ پبلک مقامات جہاں رات دن چہل پہل رہتی تھی، اب سنسان پڑے ہوئے تھے۔

آتش پرست حکومت نے رومی علاقہ پرقبضہ کرنے کے بعدمسیحیت کومٹانے کے لیے شدید ترین مظالم شروع کیے،مذہبی شعائرکی توہین شروع کی گئی، گرجاگھرمسمارکردئے گئے، تقریباً ایک لاکھ عیسائیوں کوبے گناہ قتل کردیاگیاہرجگہ آتش کدے تعمیرکیے گئے اورمسیح کے بجائے آگ وسورج کی جبری پرستش کورواج دیاگیا،مقدس صلیب کی اصل لکڑی جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھاکہ اس پرمسیح نے جان دی تھی وہ چھین کرمدائن پہنچادی گئی۔مورخ گبن کے الفاظ میں :

’’اگرخسروکے مقاصدواقعی نیک اوردرست ہوتے تووہ باغی فوکاس کے خاتمہ کے بعدرومیوں سے اپنے جھگڑے کوختم کردیتااورافریقی فاتح کا اپنے بہترین ساتھی کی حیثیت سے استقبال کرتاجس نے نہایت خوبی کے ساتھ اس کے محسن ماریس کاانتقام لے لیاتھا،مگرجنگ کوجاری رکھ کراس نے اپنے اصل کردارکونمایاں کردیا۔‘‘  (گبن، ص74)

 اس وقت ایرانی شہنشاہیت اوررومی سلطنت میں کیافرق پیداہوچکاتھااورایرانی فاتح اپنے کوکتنابڑاسمجھنے لگاتھا،اس کااندازہ خسروپرویزکے ا س خط سے ہوتاہے،جواس نے بیت المقدس سے ہرقل کولکھاتھا:

’’سب خداؤں سے بڑاخدا،تمام روئے زمین کے مالک خسروکی طرف سے اس کے کمینہ اوربے شعوربندے ہرقل کے نام،توکہتاہے کہ تجھے اپنے خداپربھروسہ ہے،کیوں نہ تیرے خدانے يروشلم کومیرے ہاتھ سے بچالیا۔‘‘

ان حالات نے قیصرروم کوبالکل مایوس کردیا، اوراس نے طے کرلیاکہ اب وہ قسطنطنیہ چھوڑ کر بحری راستہ سے اپنی جنوبی افریقہ کی ساحلی قیام گاہ میں چلاجائے جوقرطاجنہ (Carthage) موجودہ تیونس میں واقع تھی، اب اس کے سامنے ملک کوبچانے کے بجائے اپنی ذات کوبچانے کامسئلہ تھا— شاہی کشتیاں محل کی خزانوں سے لادی جاچکی تھیں ،مگرعین وقت پررومی کلیساکے بڑے پادری نے اس کومذہب کاواسطہ دے کرروکنے میں کامیابی حاصل کرلی، اوراس کوسینٹ صوفیا کی قربان گاہ پرلے گئے ،اوراس کوآمادہ کیاکہ وہاں وہ اس بات کاعہدکرے کہ وہ اپنی اس رعایاکے ساتھ جیے گا یامرے گاجس کے ساتھ خدانے اس کووابستہ کیاہے(گبن، صفحہ75)۔اسی دوران میںا یرانی جنرل سین (Saine) نے تجویزکیاکہ ہرقل ایک صلح کاقاصدشہنشاہ ایران کی خدمت میں روانہ کرے، اس کوہرقل اوراس کے مشیروں نے بڑی خوشی سے قبول کیا، مگرجب شہنشاہ ایران خسروپرویزکواس کی خبرپہنچی تواس نے کہا :

’’مجھ کویہ نہیں بلکہ خودہرقل زنجیروں میں بندھاہوامیرے تخت کے نیچے چاہیے، میں رومی حکمران سے اس وقت تک صلح نہیں کروں گا، جب تک وہ اپنے صلیبی خدا کو چھوڑ کرہمارے سورج دیوتاکی پرستش نہ کرے۔‘‘(گبن، صفحہ76)

تاہم چھ سالہ لڑائی نے بالآخرایرانی حکمران کومائل کیاکہ وہ فی الحال کچھ شرائط پرصلح کرلے، اس نے شرط پیش کی:

’’ایک ہزارٹالنٹ (یونانیوں اوررومیوں کاایک قدیم وزن) سونا،ایک ہزار ٹالنٹ (Talent) چاندی، ایک ہزارریشمی تھان، ایک ہزارگھوڑے،ایک ہزارکنواری لڑکیاں۔‘‘

گبن ان شرائط کوبجا طورپرشرم ناک شرائط (ignominious terms) کہتاہے، ہرقل یقیناً ان شرائط کوقبول کرلیتا،مگرجتنی کم مدت میںاورجس چھوٹے سے لٹے ہوئے علاقہ سے اس کوان قیمتی شرائط کی تکمیل کرنی تھی، اس کے مقابلے میں اس کے لیے زیادہ قابل ترجیح بات یہ تھی کہ وہ انھیں ذرائع کودشمن کے خلاف آخری حملہ کی تیاری کے لیے استعمال کرے ۔

ایک طرف یہ واقعات ہورہے تھے،دوسری طرف ایران وروم کے درمیان عرب کے مرکزی مقام ’’مکہ‘‘میں ان واقعات نے ایک اورکشمکش پیداکردی تھی، ایرانی سورج دیوتاکومانتے تھے، اورآگ کی پرستش کرتے تھے،اوررومی وحی ورسالت کے ماننے والے تھے، اس لیے نفسیاتی طور پر اس جنگ میں مسلمانوں کی ہمدردیاں رومی عیسائیوں کے ساتھ تھیں اورمشرکین مظاہرپرست ہونے کی وجہ سے مجوسیوں سے اپنامذہبی رشتہ جوڑتے تھے، اس طرح روم وایران کی کشمکش اس کشمکش کا ایک خارجی نشان بن گئی جومکہ میں اہل اسلام اورکفارومشرکین کے درمیان جاری تھی، دونوں گروہ سرحد پارکی اس جنگ کے انجام کوخوداپنی باہمی کشمکش کے انجام کی ایک علامت سمجھنے لگے ،چنانچہ 616ء میں جب ایرانیوں کاغلبہ نمایاں ہوگیااوررومیوں کے تمام مشرقی علاقے ایرانیوںکے قبضہ میں چلے گئے ،اوراس کی خبریں مکہ پہنچیں تواسلام کے مخالفین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہناشروع کیاکہ دیکھوہمارے بھائی تمھارے جیسامذہب رکھنے والوں پرغالب آگئے ہیں ،اسی طرح اپنے ملک میں بھی ہم تم کو اورتمھارے دین کومٹاکررکھ دیں گے، مکہ کے مسلمان جس بے بسی اورکمزوری کی حالت میں تھے، اس میں یہ الفاظ ان کے لیے زخم پرنمک کاکام کرتے تھے، عین اس حالت میں پیغمبرخداکی زبان سے یہ الفاظ جاری کیے گئے :

غُلِبَتِ الرُّومُ ۔ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ۔ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ۔ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ۔ وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (30:2-6)۔یعنی رومی قریب کی زمین میںمغلوب ہوگئے ہیںمگرمغلوب ہونے کے بعد چند سال میں پھروہ غالب آجائیں گے،پہلے اورپیچھے سب اختیارخداکے ہاتھ میں ہے،اوراس دن مسلمان خداکی مددسے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتاہے مددکرتاہے وہ غالب اورمہربان ہے خداکاوعدہ ہے خدااپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

’’اس وقت جب کہ یہ پیشین گوئی کی گئی‘‘گبن لکھتاہے’’کوئی بھی پیشگی خبراتنی بعیداز وقوع نہیں ہوسکتی تھی،کیوں کہ ہرقل کے ابتدائی بارہ سال رومی سلطنت کے خاتمہ کااعلان کر رہے تھے‘‘ (صفحہ74)۔ مگرظاہرہے کہ یہ پیشین گوئی ایک ایسی ذات کی طرف سے کی گئی تھی،جوتمام ذرائع ووسائل پرتنہاقدرت رکھتاہے، اورانسانوں کے دل جس کی مٹھی میں ہیں، چنانچہ ادھرخداکے فرشتے نے ایک امی کی زبان سے یہ خبردی اورادھرہرقل قیصرروم میں ایک انقلاب آناشروع ہوگیا،گبن لکھتاہے:

’’تاریخ کے نمایاں کرداروں میں سے ایک غیرمعمولی کرداروہ ہے،جوہرقل کے اندر ہم دیکھتے ہیں، اپنے لمبے دورحکومت کے ابتدائی اورآخری سالوں میں یہ شہنشاہ سستی ،عیاشی اور اوہام کابندہ دکھائی دیتاہے،ایسامعلوم ہوتاہے کہ وہ اپنی رعایاکی مصیبتوں کاایک بےحس اورنامرادتماشائی ہے،مگرصبح وشام کابے رونق کہر،دوپہر کے سورج سے کچھ دیرکے لیے چھٹ جاتاہے،یہی حال ہرقل کاہوا،محل کاآرکیڈیس ({ FR 1193 }) Arcadius یکایک میدان جنگ کاسیزرCaesarبن ({ FR 1194 })  گیا،اورروم کی عزت چھ جرأت مندانہ مہموں کے ذریعہ حاصل کرلی گئی۔یہ رومی مورخین کافرض تھاکہ وہ حقیقت سے پردہ اٹھاتے اوراس کی اس خواب اوربیداری کے وجوہ بیان کرتے، اتنے دنوں بعداب ہم یہی قیاس کرسکتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی سیاسی اسباب نہیں تھے، بلکہ یہ زیادہ تراس کے شخصی جذبے کانتیجہ تھا،اسی کے تحت اس نے اپنی تمام دلچسپیاںختم کردیں،حتیٰ کہ اپنی بھانجی (Martina) کوبھی چھوڑ دیا جس سے اس کواس قدرتعلق تھاکہ محرم ہونے کے باوجوداس کے ساتھ اس نے شادی کرلی تھی۔‘‘

Gibbon, vol. 5, p. 76-77

وہی ہرقل جس کی ہمت پست ہوچکی تھی، اورجس کادماغ اس سے پہلے کچھ کام نہیں کرتا تھا، اب اس نے ایک نہایت کامیاب منصوبہ بنایا،قسطنطنیہ میں بڑے عزم وانہماک کے ساتھ جنگی تیاریاں شروع ہوگئیں، تاہم اس وقت صورت حال ایسی تھی کہ622ء میں جب ہرقل اپنی فوجیں لے کرقسطنطنیہ سے روانہ ہواتولوگوں نے سمجھاکہ دنیارومن امپائر کا آخری تماشا دیکھ رہی ہے۔

ہرقل جانتاتھاکہ ایرانی حکومت سمندری طاقت میں کمزورہے،اس نے اپنے سمندری بیڑے کوپشت سے حملہ کے لیے استعمال کیا، اس نے اپنی فوجیں بحراسودکے راستے سے گزارکرآرمینیامیں اتاردیں اوروہاں عین ا س مقام پرایرانیوں کے اوپرایک بھرپورحملہ کیا،جہاں سکندراعظم نے ا س وقت کی ایرانی سلطنت کوشکست دی تھی جب اس نے شام سے مصرتک اپنامشہورمارچ کیاتھا، ایرانی اس غیرمتوقع حملہ سے گھبراگئے اوران کے قدم اکھڑگئے ،مگرابھی وہ ایشیائے کوچک میں زبردست فوج رکھتے تھے،وہ دوبارہ اس فوج سے حملہ کرتے اگرہرقل نے ا س کے بعدشمال کی جانب سمندرسے اسی قسم کی دوسری غیرمتوقع چڑھائی نہ کی ہوتی ،پھروہ سمندرکے راستہ سے قسطنطنیہ واپس آیا،آواریوں (Avars)سے ایک معاہدہ کیااوران کی مددسے ایرانیوں کوان کے دار السلطنت کے گردروک دیا،ان دوحملوں کے بعداس نے مزیدتین مہمیں جاری کیں

623ء میں،624ء میں اور 625 ء میں یہ مہمیں بحراسودکے جنوبی ساحل سے حملہ آور ہوکرایرانی قلمرومیں گھسیں اور میسوپوٹامیاتک پہنچ گئیں،اس کے بعدایرانی جارحیت کازورٹوٹ گیا، اورتمام رومی علاقے ایرانی فوجوں سے خالی ہوگئے،اب ہرقل خودایرانی شہنشاہیت کے قلب پرحملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا،تاہم آخری فیصلہ کن جنگ دجلہ کے کنارے نینواکے مقام پردسمبر627ء میں ہوئی۔

اب خسروکی ہمت ٹوٹ گئی تھی ،وہ اپنے محبوب محل’’دستگرد‘‘سے بھاگنے کی تیاری کرنے لگا۔مگراسی دوران میں خوداس کے محل کے اندراس کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ اس کے لڑکے شیرویہ نے اس کوگرفتارکرکے ایک تہہ خانے میں بندکردیا، جہاں وہ پانچویں دن بیکسی کی حالت میں مرگیا۔ اس کے اٹھارہ لڑکوں کواس کی آنکھ کے سامنے قتل کردیاگیا،مگراس کایہ لڑکابھی صرف آٹھ مہینے تخت پررہ سکا۔ اس کے بعددوسرے شہزادے نے اس کوقتل کرکے تاج پرقبضہ کرلیا،اس طرح شاہی خاندان کے اندرآپس میں تلواریں چلناشروع ہوگئیں۔یہاں تک کہ چارسال میں نوبادشاہ بدلے گئے۔ان حالات میں ظاہرہے کہ ازسرنورومیوں کامقابلہ کرنے کاکوئی سوال نہیں تھا، خسروپرویز کے بیٹے قبادثانی نے رومی مقبوضات سے دست بردارہوکرصلح کرلی۔مقدس صلیب کی اصل لکڑی واپس کردی گئی،اورمارچ628ء میں فاتح ہرقل اس شان سے قسطنطنیہ واپس آیاکہ اس کے رتھ کوچارہاتھی کھینچ رہے تھے، اوربے شمارلوگ دار السلطنت کے باہرلیمپوں اورزیتون کی شاخوں کولیے ہوئے اپنے ہیروکے استقبال کے لیے موجودتھے۔(صفحہ94)

اس طرح قرآن نے رومیوں کے دوبارہ غلبہ کے متعلق جوپیشین گوئی کی تھی وہ ٹھیک اپنے وقت پر(دس سال کے اندر) مکمل طورپرپوری ہوگئی۔

گبن نے اس پیشین گوئی پرحیرت کااظہارکیاہے،مگراسی کے ساتھ اس کی اہمیت گھٹانے کے لیے اس نے بالکل غلط طورپراس کوخسروکے نام آپ کے دعوت نامے کے ساتھ جوڑدیاہے،وہ لکھتاہے:

’’ایرانی شہنشاہ نے جب اپنی فتح مکمل کرلی تواس کومکہ کے ایک گمنام شہری کاخط ملا جس میں اس کودعوت دی گئی تھی کہ وہ محمدکوخداکے پیغمبرکی حیثیت سے تسلیم کرے،اس نے دعوت کونامنظورکردیا اورخط کوچاک کردیا، رسول عربی کوجب یہ خبرملی توانھوں نے کہا’’خدااسی طرح خسروکی سلطنت کوٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور اس کی طاقت کو برباد کردے گا۔‘‘ مشرق کی دوعظیم سلطنتوں کے عین کنارے بیٹھے ہوئے محمد ان دونوں حکومتوں کی باہمی تباہی سے اندرہی اندرخوش ہوتے رہے اور ایرانی فتوحات کےدرمیان میں انھوں نے پیشین گوئی کرنے کی جرأت کی کہ چند سال کے بعدفتح دوبارہ رومیوں کے جھنڈے کی طرف لوٹ آئے گی، اس وقت جب کہ یہ پیشین گوئی کی گئی ،کوئی بھی پیشگی خبر اتنی بعیدوقوع نہیں ہوسکتی تھی ،کیوں کہ ہرقل کے ابتدائی بارہ سال رومی شہنشاہیت کے خاتمہ کا اعلان کررہے تھے۔‘‘

Gibbon. pp.73-74

مگراسلامی تاریخ کاہرمورخ جانتاہے کہ اس پیشین گوئی کاخسروکے نام دعوت نامے سے کوئی تعلق نہیں،کیوں کہ شہنشاہ ایران کے نام اسلام کادعوت نامہ ہجرت کے ساتویں سال صلح حدیبیہ کے بعدبھیجاگیاہے ،جوسَن عیسوی کے لحاظ سے 628ء ہوتاہے،جب کہ رومیوں کی فتح کی پیشین گوئی ہجرت سے پہلے مکہ میں 216ء میں نازل ہوئی تھی۔) ا عجازقرآن پرانسائیکلوپیڈیاآف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں مقالہ Quran جلد1،صفحات54،541،545 قابل ملاحظہ ہیں(

3۔ قرآن کی تیسری خصوصیت جس کومیں اس کی صداقت کے ثبوت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ واقعہ ہے کہ قرآن باوجوديه کہ علمی ترقی سے بہت پہلے نازل ہوا،اس کی کوئی بات آج تک غلط ثابت نہ ہوسکی،اگریہ صرف ایک انسانی کلام ہوتاتوایساہوناناممکن تھا۔

چین کے نو جوان طلبہ کی ایک جماعت جوحکومت کے زیراہتمام کیلی فورنیایونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہی تھی، ان میںسے تقریباً بارہ افرادنے برکلے کے گرجاگھرمیں جاکر پادری سے کہاکہ وہ ان کے لیے اتوارکے دن ایک کلاس کاانتظام کرے،چینی نوجوان نے نہایت صفائی سے کہاکہ انھیں ذاتی طورپرعیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ،اورنہ وہ خود عیسائی بنناچاہتے ہیں ،البتہ وہ جانناچاہتے ہیں کہ اس مذہب نے امریکی تمدن پرکیااورکتنے اثرات ڈالے ہیں۔پادری نے اس جماعت کی ہفتہ وار تعلیم کے لیے ریاضیات اورفلکیات کے ایک عالم (Peter W. Stoner) کومقررکیا،اس واقعہ کے چارمہینے بعدتمام نوجوانوں نے عیسائیت قبول کرلی، اس غیرمعمولی تبدیلی کی وجہ کیاتھی ،اس کوخودمعلم کی زبان سے سنیے:

’’میرے سامنے سب سے پہلاسوال یہ تھاکہ اس طرح کے لوگوں کے سامنے مذہب کی کون سی بات رکھی جائے ،کیوں کہ یہ نوجوان بائبل پرسرے سے ایمان ہی نہیںرکھتے، بائبل کی محض رواجی تعلیم بے فائدہ معلوم ہوتی تھی،ا س وقت میرے ذہن میں ایک خیال آیا، میں نے اپنی تعلیم کے زمانے میں بائبل کے پہلے باب (کتاب پیدائش) اورسائنس میں بہت قریبی مناسبت پائی تھی میں نے فیصلہ کیاکہ اس جماعت کے سامنے یہی بات پیش کروں۔ 

میں اورطلبہ قدرتی طورپراس حقیقت سے آگاہ تھے کہ کائنات کی پیدائش کے متعلق یہ مواد زمین وآسمان کے بارے میں سائنس کی موجودہ معلومات حاصل ہونے سے ہزاروں سال پہلے لکھا گیاہے،ہمیں یہ بھی احساس تھاکہ موسیٰ کے زمانے میں کائنات کے متعلق لوگوں کے جو خیالات تھے،اس کوموجودہ زمانے کی معلومات کی روشنی میں دیکھاجائے تووہ نہایت لغومعلوم ہوں گے۔

ہم نے پوراموسم سرماکتاب پیدائش کے پہلے باب میں گزاردیا،طلبہ کام لے کریونیورسٹی کی لائبریری میں چلے جاتے اوربڑی محنت کے ساتھ جوابات تیارکرکے لاتے، موسم سرماکے خاتمہ پرپادری نے مجھے بتایاکہ طلباکی پوری جماعت اس کے پاس یہ کہنے کے لیے آئی تھی کہ وہ عیسائی بنناچاہتے ہیں،انھوں نے اقرارکیاکہ ان کے اوپریہ ثابت ہوگیاہے کہ بائبل خداکی الہامی کتاب ہے۔‘‘

The Evidence of God, p.137-138

مثال کے طورپرزمین کی ابتداکے بارے میں بائبل کی کتابِ پیدائش میں ہے:

’’گہرائیوں پراندھیراچھایاہواتھا۔‘‘

Darkness was over the surface of the deep (Genesis 1)

یہ موجودہ معلومات کے مطابق اس وقت کی بہترین تصویرہے،جب زمین ابھی گرم تھی اوراس کی گرمی کی وجہ سے پانی بخارات بن کراڑگیاتھا،اس وقت ہمارے تمام سمندرکثیف بادلوں کی شکل میں فضامیں معلق تھے، اوراس کی وجہ سے روشنی زمین کی سطح تک نہیںپہونچ پاتی تھی۔

ہماراایمان ہے کہ انجیل اورتورات اصلاًاسی طرح خداکی کتابیں ہیں ،جیسے قرآن خداکی کتاب ہے، اس لیے ان میں علم الٰہی کے شرارے بلاشبہ موجودہیں،مگران کتابوںکے اصل الفاظ محفوظ نہیں رہے، ہزاروں برس گزرنے کے بعدبائبل اب ہمارے سامنے ایک ایسی کتاب کی شکل میں ہے، جس میں کریسی ماریسن کے الفاظ میںترجمہ (Translation) اورانسانی الحاق (Human Interpolation)کی وجہ سے اصل خدائی نسخہ کے مقابلے میں بہت فرق پیداہوچکاہے ۔

Man Does not stand Alone, p. 120

اس طر ح یہ صحیفے پوری شکل میں اصل حیثیت کوکھوچکے ہیں، اوریہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کتابوں کومنسوخ کرکے ہمارے لیے اپنی کتاب کاتصحیح شدہ ايڈیشن (قرآن) نازل کیا،قرآن اپنی صحت اورجامعیت کی وجہ سے بدرجہ اتم ان خصوصیات کاحامل ہے ،جن کی صرف ایک جھلک اب کتب قدیمہ میں باقی رہ گئی ہے۔ 

یہاں میں قرآن کی اسی خصوصیت کواس کی صداقت کی تیسری دلیل کے طورپرپیش کرنا چاہتا ہوں قرآن باوجوديه کہ علمی ترقی سے بہت پہلے نازل ہوااس کی کوئی بات آج تک غلط ثابت نہ ہوسکی، اگریہ انسانی کلام ہوتاتوایساہوناممکن نہیں تھا۔

____________

قرآن ایک ایسے زمانے میں اتراجب انسان عالم فطرت کے بارے میں بہت کم جانتا تھا،اس وقت بارش کے متعلق یہ تصورتھاکہ آسمان میںکوئی دریاہے، جس سے پانی بہہ کرزمین پر گرتا ہے،اوراسی کانام بارش ہے ،زمین کے بارے میں سمجھاجاتاتھاکہ وہ چپٹی فرش کی مانند ہے، اور آسمان اس کی چھت ہے جوپہاڑوں کی چوٹیوں کے اوپرکھڑی کی گئی ہے، ستاروں کے متعلق یہ خیال تھاکہ وہ چاندی کی چمکتی ہوئی کیلیں ہیں،جوآسمان کے گنبدمیں جڑی ہوئی ہیں یاوہ چھوٹے چھوٹے چراغ ہیں،جورات کے وقت رسیوں کی مددسے لٹکائے جاتے ہیں، قدیم اہل ہندیہ سمجھتے تھے کہ زمین ایک گائے کی سینگ پرہے،اورجب گائے زمین کوایک سینگ سے دوسری سینگ پر منتقل کرتی ہے تواس کے سرکی جنبش سے زلزلہ آجاتا ہے، کوپرنیکس(1473-1543) تک یہ نظریہ تھاکہ سورج ساکن ہے ،اورزمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔

اس کے بعدعلم کی ترقی ہوئی، انسان کے مشاہدے اورتجربے کی قوت بڑھ گئی جس کی وجہ سے بے شمارنئی نئی معلومات حاصل ہوئیں،زندگی کاکوئی شعبہ اورعلم کاکوئی گوشہ ایسانہیں رہاجس میں پہلے کے مسلمات بعدکی تحقیق سے غلط ثابت نہ ہوگئے ہوں— اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزاربرس پہلے کاکوئی بھی انسانی کلام ایسانہیںہوسکتا جوآج بھی اپنی صحت کوپوری طرح باقی رکھے ہوئے ہو— یوں کہ آدمی اپنے وقت کی معلومات کی روشنی میں بولتاہے، وہ شعورکے تحت بولے یالاشعورکے تحت، بہرحال وہ وہی کچھ دہرائے گا ،جواس نے اپنے زمانہ میں پایاہو،چنانچہ ڈیڑھ ہزار برس پہلےكي کوئی بھی انسانی کتاب آج ایسی موجودنہیں ہے ،جو غلطیوں سے پاک ہو — مگر قرآن کامعاملہ اس سے مختلف ہے ،وہ جس طرح ڈیڑھ ہزاربرس پہلے کے دورمیں برحق تھا، آج بھی وہ اسی طرح برحق ہے،زمانے کے گزرنے سے اس کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آیا، یہ واقعہ اس بات کاقطعی ثبوت ہے کہ یہ ایک ایسے ذہن سے نکلاہواکلام ہے جس کی نگاہ ازل سے ابدتک محیط ہے— جوسارے حقائق کواپنی اصل شکل میں جانتاہے، جس کی واقفیت زمانے اورحالات کی پابند نہیں اگریہ محدودنظررکھنے والے انسان کاکلام ہوتا توبعدکازمانہ اسی طرح اس کوغلط ثابت کردیتا، جیسے ہرانسانی کلام بعدکے زمانے میں غلط ہوچکاہے ۔

قرآن کااصل موضوع اخروی سعادت ہے، اس لحاظ سے وہ دنیاکے معروف علوم و فنون میں سے کسی کی تعریف میں نہیں آتا،مگراس کامخاطب چوں کہ انسان ہے، اس لیے قدرتی طورپروہ اپنی تقریروں میں ہراس علم مس (touch) کو کرتاہے جس کاتعلق انسان سے ہے ،یہ ایک بہت نازک صورت حال ہے کیوں کہ آدمی اپنی گفتگومیں اگرکسی فن کو مس (touch)کررہاہے توخواہ وہ اس پرکوئی تفصیلی کلام نہ کرے ،اگراس کی معلومات ناقص ہیں، تویقینی طورپر وہ ایسے الفاظ استعمال کرے گا جوصورت واقعہ سے ٹھیک ٹھیک مطابقت نہ رکھتے ہوں، مثلاًارسطونے عورت کی کمتری ثابت کرنے کے لیے یہ کہاکہ—’’اس کے منھ میں مردسے کم دانت ہوتے ہیں۔‘‘ ظاہرہے کہ یہ بیان علم الاجسام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، یہ ایک ایسابیان ہے جوعلم الاجسام سے ناواقفیت کاثبوت دیتاہے۔کیوں کہ یہ معلوم ہے کہ مرداورعورت کے منہ میں دانت کی تعداد یکساں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس،یہ حیرت انگیزبات ہے کہ قرآن اگرچہ مختلف انسانی علوم کو بیان کرتاہےیا اس کی طرف اشارہ کرتا ہے، مگراس کے بیانات میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں آنے پائی، جوبعدکی وسیع تر تحقیقات سے یہ ثابت کرے کہ یہ ایسے شخص کاکلام ہے، جس نے کم ترمعلومات کی روشنی میں اپنی باتیںکہیں تھیں ۔صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک بالاترہستی کاکلام ہے، جواس وقت بھی جانتاتھا،جب کوئی نہیں جانتا تھا، اور ان چیزوں کوبھی جانتاتھا، جس سے اب تک لوگ ناواقف ہیں۔

 یہاں میںمختلف علوم سے متعلق چندمثالیں دوں گاجس سے اندازہ ہوگاکہ ایک علم کو مس (touch) کرتے ہوئے بھی قرآن کس طرح حیرت انگیزطورپران صداقتوں کااحاطہ کیے ہوئے ہیں، جوقرآن کے نزول کے وقت معلوم شدہ نہیں تھیں،بلکہ بعدکودریافت ہوئیں۔

اس بحث سے پہلے بطورتمہیدیہ عرض کردینامناسب ہوگاکہ جدیدتحقیقات سے قرآنی الفاظ کی مطابقت اس مفروضہ پرمبنی ہے کہ یہ تحقیقات متعلقہ واقعہ کاسراغ لگانے میں کامیاب ہوچکی ہیں، اوراس طرح مادی کائنات کے بارے میں قرآن کے اشاراتی الفاظ کی تفسیرکے لیے ہم کوضروری موادحاصل ہوگیاہے، اب اگرمستقبل کامطالعہ کسی موجودہ تحقیق کو مکمل طور پریاجزئی طور پرغلط ثابت کردے تواس سے کسی بھی درجہ میں قرآن کی تغلیط نہیںہوگی ،بلکہ اس کامطلب صرف یہ ہوگاکہ قرآن کے مجمل اشارہ کے تفصیلی تعین میں غلطی ہوگئی تھی،ہم کویقین ہے کہ آئندہ کی صحیح ترمعلومات قرآن کے اشاراتی الفاظ کوزیادہ صحیح طورپرواضح کرنے والی ہوں گی، وہ کسی اعتبارسے اس سے مختلف نہیں ہوسکتیں۔

اس سلسلے میں قرآن کے جوبیانات ہیں،ان کوہم دوقسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک وہ جوان امورسے متعلق ہے ،جن کے متعلق انسان کونزول قرآن کے وقت کسی قسم کی معلومات حاصل نہیں تھیں۔اوردوسرے وہ جن کے متعلق وہ سطحی اورظاہری معلومات رکھتا تھا ۔

کائنات کی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق دورِسابق کے لوگ کچھ نہ کچھ جانتے تھے— مگران کایہ علم ان دریافتوں کے مقابلے میں بے حدناقص اور ادھورا تھا، جو بعدکے زمانے میں علمی ترقی کے دورمیں انسان کے سامنے آئیں۔قرآن کی مشکل یہ تھی کہ وہ کوئی سائنسی کتاب نہیں تھی، اس لیے اگروہ عالم فطرت کے بارے میں یکایک نئے نئے انکشافات لوگوں کے سامنے رکھناشروع کردیتا تو انھیں چیزوں پربحث چھڑجاتی اور اس کااصل مقصد— انسان کی اصلاح— پس پشت چلاجاتا،یہ قرآن کااعجازہے کہ اس نے علمی ترقی سے بہت پہلے کے زمانے میں اس طرح کی چیزوں پرکلام کیا، اور ان کے بار ے میں ایسے الفاظ ستعمال کیے جس میںدورِ سابق کے لوگوں کے لیے کنفیوزن کاکوئی سامان نہیں تھا،اوراسی کے ساتھ بعدکے انکشافات کابھی وہ پوری طرح احاطہ کیے ہوئے تھے۔

)الف) قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پرپانی کاایک خاص قانون بیان کیاگیاہے

ایک مقام پر یہ الفاظ ہیں:

وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا (25:53)۔ یعنی اوروہی ہے جس نے ملائے دودریا،ایک کاپانی میٹھاخوش گوار ہے اورایک کاکھاری تلخ،اوردونوں کے درمیان ایک آڑ(barrier) رکھ دی۔

دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں :

 وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا (27:61)۔ یعنی دوسمندروں کے درمیان آڑ ڈال دیا۔

سورہ الرحمٰن میں یہ الفاظ ہیں:

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ۔ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ (55:19-20)۔ یعنی اس نے چلائے دودریاملتے ہوئے دونوں کے درمیان ایک آڑہے،جس سے وہ تجاوزنہیں کرسکتے۔

ان آیات میں جس مظہرقدرت کاذکرہے،وہ قدیم ترین زمانے سے انسان کومعلوم تھا،وہ یہ کہ دودریاؤں کے پانی باہم مل کربہتے ہیں تووہ ایک دوسرے میں شامل نہیں ہوجاتے مثال کے طورپرچاٹگام(بنگلہ دیش) سے لے کرارکان(برما)تک دودریامل کربہتے ہیں، اوراس پورے سفرمیں دونوں کاپانی بالکل الگ الگ نظرآتاہے ،دونوں کے بیچ میں ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے، ایک طرف کاپانی میٹھااوردوسری طرف کاکھاری۔اسی طرح سمندرکے ساحلی مقامات پر جو دریا بہتے ہیں، ان میں سمندرکے اثرسے برابر مدوجزر (جوار بھاٹا)آتارہتاہے،مدکے وقت جب سمندر کا پانی ندی میں آجاتاہے تومیٹھے پانی کی سطح پرکھاری پانی بہت زورسے چڑھ جاتاہے، لیکن اس وقت بھی دونوں پانی الگ الگ رہتے، اوپرکھاری رہتاہے ،نیچے میٹھا، اس کے بعدجب جزرہوتا ہے تواوپرسے کھاری پانی اتر جاتا ہے، اورمیٹھاپانی جوں کاتوںرہتاہے، الٰہ آبادمیں گنگااورجمناکے سنگم کے مقام پرمیں نے خود دیکھاکہ دونوں دریاملنے کے باوجودالگ الگ بہتے ہوئے نظرآتے ہیں،اوردرمیان میں ایک لکیرمسلسل چلی گئی ہے۔

 یہ بات قدیم ترین زمانے سے انسان کے مشاہد ے میں آچکی ہے،مگریہ واقعہ کس قانون فطرت کے تحت واقع ہوتاہے،یہ ابھی حال میں دریافت کیاگیاہے،جدیدتحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ رقیق اشیامیں سطح کا تناؤ(Surface Tension)کاایک خاص قانون ہے، اوریہی دونوں قسم کے پانی کو الگ الگ رکھتاہے— چوں کہ دونوں سیالوں کاتناؤ (tension) مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے وہ دونوں کو اپنی اپنی حدمیں رکھتاہے۔ قرآن (55:20) نےاس فطری قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ  )دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے جس سے وہ آگے نہیں بڑھتے)۔ یہ الفاظ بول کرقرآن نے اس فطری قانون کی ایسی تعبیرکی ہے، جوقدیم مشاہدے کے اعتبارسے بھی ٹکرانے والی نہیں تھی، اوراب جدید دریافت اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔کیوں کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ برزخ (آڑ) سے مرادسطح کاتناؤ (Surface Tension) ہے، جو دونوں قسم کے پانی کے درمیان پایا جاتاہے،اورجودونوں کومل جانے سے روکے ہوئے ہے۔

سطحی تناؤکے قانون کوایک سادہ سی مثال سے سمجھیے،اگرآپ گلاس میں پانی بھریں تووہ کنارے تک پہنچ کرفوراًبہنے نہیں لگے گا،بلکہ ایک سوت کے بقدراٹھ کرگلاس کے کناروں کے اوپر گولائی میں ٹھہرجائے گا، یہی وہ چیزہے جس کوشاعرنے ’’خط پیمانہ‘‘ کہاہے

اندازۂ ساقی تھا کس درجہ حکیمانہ                 ساغرسے اٹھیں موجیں بن کر خط پیمانہ

گلاس کے کناروں کے اوپرپانی کی جومقدارہوتی ہے،وہ کیسے ٹھہرتی ہے۔بات یہ ہے کہ رقیق اشیاکی سطح کے سالمات (Molecules)کے بعدچوں کہ کوئی چیزنہیں ہوتی اس لیے ان کارخ اندر کی طرف ہوجاتاہے،اس طرح کے سالمات کے درمیان کشش اتصال بڑھ جاتی ہے،اورقانون اتصال(Cohesion) کے عمل کی وجہ سے پانی کی سطح کے اوپرایک قسم کی لچک دارجھلی(Elastic Film)سی بن جاتی ہے،اورپانی گویااس کے غلاف میں اس طرح ملفوف ہوجاتاہے،جیسے پلاسٹک کی سفیدجھلی میںپساہوانمک ملفوف ہوتاہے،سطح کا یہی پردہ اوپرابھرے ہوئے پانی کوروکتا ہے،یہ پردہ اس حدتک قوی ہوتاہے کہ اس کے اوپرسوئی ڈال دی جائے تووہ ڈوبے گی نہیں، بلکہ پانی کی سطح پرتیرتی رہے گی۔اسی کوسطح کا تناؤ (Surface Tension) کہاجاتاہے، اوریہی وہ ’’آڑ‘‘ یا فطری قانون ہے جس کی بناپرتیل اورپانی ایک دوسرے میں گھلتا ملتا نہیں، اوریہی وہ ’’آڑ‘‘ہے، جس کی وجہ سے کھاری پانی اورمیٹھے پانی کے دودریامل کربہتے ہیں مگرایک کاپانی دوسرے میں شامل نہیں ہوتا۔ 

(ب) قرآن میں آیاہے:

اللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِعَمَدٍ تَرَوْنَھَا(13:2)۔ یعنی اﷲ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا، بغیرایسے ستونوں کے جنھیں تم دیکھ سکو۔

دورِ قدیم کے انسان کے لیے یہ الفاظ اس کے ظاہری مشاہدے کے عین مطابق تھے۔ کیوں کہ وہ د یکھتاتھاکہ اس کے سرکے اوپرسورج،چانداورستاروں کی ایک دنیاکھڑی ہے، مگر کہیں اس کاپایہ اورکھمبانظرنہیں آتااوراب جدیدترین معلومات رکھنے والے انسان کے لیے بھی اس میں مکمل معنویت موجودہے ،کیوں کہ جدیدترین مشاہدہ بتاتاہے کہ اجرام سماوی ایک لامحدودخلامیں بغیر کسی سہارے کے قائم ہیں،اورایک ’’عمدغیرمرئی‘‘یعنی کشش ثقل (gravitational pull)ان کوبالائی فضامیں سنبھالے  ہوئے ہے۔

(ج)   اسی طرح سورج اورتمام ستاروں کے بارے میں کہاگیاہے:

کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ(21:33)۔ یعنی سب کے سب ایک آسمان میں تیررہے ہیں۔

دورقدیم میں بھی انسان اجرام سماوی کوحرکت کرتاہوادیکھتاتھا،اس لیے ان الفاظ سے اس کوتوحش نہیں ہوا،مگرجدیدمعلومات نے ان الفاظ کواورزیادہ بامعنی بنادیاہے،بسیط اور لطیف خلامیں اجرام سماوی کی گردش کے لیے’’تیرنے‘‘سے بہترکوئی تعبیرنہیں ہوسکتی۔

(د)رات اوردن کے متعلق قرآن میں ہے:

یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَیَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا (7:54)۔ یعنی اﷲ اوڑھاتاہے رات پردن کہ وہ اس کے پیچھے لگاآتاہے دوڑتاہوا۔

یہ الفاظ قدیم انسان کے لیے صرف رات دن کی ظاہری آمدورفت کوبتاتے تھے، مگراس میں نہایت عمدہ اشارہ زمین کی محوری گردش کی طرف بھی موجودہے، جوجدیدمشاہدے کے مطابق رات اوردن کی تبدیلی کی اصل وجہ ہے،یہاںمیں یاددلاؤںگاکہ روس کے پہلے خلائی مسافرنے خلاسے واپسی کے بعد اپنے جومشاہدات بیان کیے تھے، اس میں ایک یہ بھی تھاکہ زمین کواس نے ا س شکل میں دیکھاکہ سورج کے سامنے محوری گردش کی وجہ سے اس کے اوپر اندھیرے اوراجالے کی آمدورفت کاایک تیز تسلسل (rapid succession) جاری تھا۔ اس طرح کے بیانات قرآن میں کثرت سے موجود ہیں۔

دوسری مثالیں وہ ہیں ،جن کے متعلق پچھلے زمانے کے لوگ قطعاًکوئی معلومات نہیں رکھتے تھے۔ قرآن نے ان کاذکرکیا،اورایسی باتیں کہیں جوحیرت انگیز طورپر جدید انکشافات سے صحیح ثابت ہوتی ہیں،یہاں میں مختلف علمی شعبوں سے ا س کی چندمثالیں پیش کروں گا۔

فلكيات

قرآن میں کائنات کے آغازوانجام کو بیان کیا گیاہے۔ یہ تصورسوبرس پہلے تک انسان کے لیے بالکل نامعلوم تھااورنزول قرآن کے زمانے میں تواس کاتصوربھی کسی ذہن میں نہیں گزر سکتا تھا۔ مگرجدیدمطالعہ نے حیرت انگیزطورپراس کی تصدیق کی ہے،آغازکائنات کے بارے میں قرآن کابیان یہ ہے:أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا (21:30)۔  یعنی کیا منکرین نہیں دیکھتے کہ زمین وآسمان دونوں ملے ہوئے ( مُنضم الاجزاء)تھے، پھر ہم نے اس کو پھاڑ دیا۔

اوراس کانجام یہ بتایاگیا ہے:يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ(21:104)۔ یعنی اس دن لپیٹ دیں گے ہم آسمان کوجیسے لپیٹتے ہیں طومار(scroll) میں کاغذ۔

ان الفاظ کے مطابق کائنات ابتدا میں ایک سمٹی ہوئی حالت میں تھی، اوراس کے بعد پھیلنا شروع ہوئی،اس پھیلاؤ کے باوجوداس کااصل مادہ اتناکم ہے کہ تھوڑی سی جگہ میں اس کودوبارہ سمیٹا جاسکتا ہے۔

کائنات کے بارے میں جدیدترین تصوریہی ہے،مختلف قرائن اورمشاہدات کی بنیادپر سائنسداں اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ ابتدامیں کائنات کامادہ جامداورسکون کی حالت میں تھا،یہ ایک بہت ہی سخت سکڑی ہوئی اورگھٹی ہوئی انتہائی گر م گیس تھی،تقریباًپچاس کھرب سال پہلے ایک زبردست دھماکے سے وہ پھٹ پڑی اوراس کے ساتھ ہی اس کے ٹوٹے ہوئے اجزاء چاروں طرف پھیلنے لگے،جب ایک بار پھیلاؤ شروع ہوگیاتواس کاجاری رہنالازمی تھا،کیوں کہ اجزائے مادہ جیسے جیسے دورہوں گے،ان کاباہمی کشش کااثرایک دوسرے پرکم ہوتاجائے گا، آغازمیں کائنات کا جو مادہ تھا، اس کے مکانی دائرہ کااندازہ تقریباًایک ہزارملین سالِ نورہے اور اب پروفیسرایڈنگٹن کے اندازے کے مطابق وہ سابقہ دائرہ کے مقابلے میں تقریباًدس گنابڑھ چکاہے({ FR 1308 })۔ یہ عمل توسیع مسلسل جاری ہے،پروفیسرایڈنگٹن کے الفاظ میں— ’’ستاروں اورکہکشاؤں کی مثال ایک ایسے ربر کے غبارے کی سطح کے نشانات کی سی ہے جومسلسل پھیل رہاہو،اسی طرح اپنی ذاتی حرکت کے ساتھ تمام خلائی کرّے کائناتی پھیلاؤ کے ساتھ ہرآن دورہوتے جارہے ہیں۔‘‘

‘We can picture the stars and galaxies,’ says Professor Eddington, ‘as embedded in the surface of a rubber balloon which is being steadily inflated; so that apart from their individual motions and the effects of their ordinary gravitational attraction on one another, celestial objects are becoming farther and farther apart simply by the inflation.

The Limitations of Science, 1938, England, p. 27

دوسری بات بھی جدیدترین مطالعہ سے کائنات کے ڈھانچے کے عین مطابق ثابت ہوئی ہے، قدیم انسان یہ سمجھتاتھاکہ ستارے اتنے ہی فاصلوں پرہیں جیسے کہ وہ بظاہرنظرآتے ہیں، مگراب معلوم ہواکہ وہ دوری کی وجہ سے قریب قریب دکھائی دیتے ہیں، ورنہ وہ ایک دوسرے سے بے انتہا بعید فاصلے پرواقع ہیں، اوریہی نہیںبلکہ وہ اجسام جوبظاہرسالم نظرآتے ہیں، ان کابھی ایک بڑاحصہ درحقیقت خلاہے،جس طرح شمسی نظام میں بہت سارے سیارے اورسیارچے ایک دوسرے سے دور دور فاصلوں پررہتے ہوئے ایک نظام کے تحت گردش کرتے ہیں،اسی طرح ہرمادی جسم چھوٹے پیمانے کے بے شمارشمسی نظاموں کامجموعہ ہے، جن کو ’’ایٹم‘‘کہتے ہیں،نظام شمسی کاخلاہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں، مگرایٹمی نظام کاخلا، انتہائی چھوٹاہونے کی وجہ سے نظرنہیںآتا ۔ گویاہرچیز،خواہ وہ بظاہرٹھوس نظرآرہی ہو،اندرسے کھوکھلی ہے۔ مثلاًچھ فٹ لمبے چوڑے انسان کا جسم جن ایٹموں کا مجموعہ ہے، ان کے الکٹران اور پروٹان کو اگر اس طرح ملا دیا جائے کہ ان کے درمیان خلایامکان (Space) باقی نہ رہے تواس کی حقیقت صرف ایک ایسے دھبہ(spot) کی ہوگی، جس کو صرف خوردبین (microscope) سے دیکھا جاسکے۔

اسی طرح فلکی طبیعیات کے ماہرین(Astrophysicists)نے کائنات میں پھیلے ہوئے پورے مادہ کاحساب لگایاہے ،ان کاکہناہے:

‘‘If all this were squeezed without leaving any space, the size of the universe will be only thirty times the size of the sun.’’

یعنی اگرسارے کائنات کواس طرح سمیٹ دیاجائے کہ اس میں خلاباقی نہ رہے توسب کا حجم موجودہ سورج سے صرف 30گنازیادہ ہوگا،جب کہ کائنات کی وسعت کایہ حال ہے کہ شمسی نظام سے بعیدترین کہکشاں جواب تک دیکھی جاسکی ہے،وہ سورج سے کئی ملین سال نورکے فاصلے پرواقع ہے۔

دورجدیدکے ماہرین فلکیات(astronomers) اپنے مشاہدات (observations) اورریاضیاتی اندازے(mathematical estimate) کی بناپراس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ اجرام سماوی (astronomical object) جس قانون کے تحت گردش کررہے ہیں، ا س کے مطابق مستقبل میں ایک وقت آنے والاہے،جب چاندزمین کے بہت قریب آجائے گا، اور دوطرفہ کشش کی تاب نہ لاکر پھٹ جائے گااوراس کے ٹکڑے زمین کے گردفضامیں پھیل جائیں گے۔

Man does not Stand Alone, p.34

’’شق قمر‘‘کایہ واقعہ اسی قانون کشش کے تحت ہوگا،جس کامظاہرہ جواربھاٹے کی شکل میں سمندروں میںہوتارہتاہے،چاندبالائی فضامیں ہماراقریب ترین ہمسایہ ہے،یعنی زمین سے اس کا فاصلہ صرف دولاکھ چالیس ہزارمیل ہے،اس قربت کی وجہ سے اس کی کشش کا اثر سمندروں پر پڑتا ہے، اوردن میںدوبارپانی اوپراٹھ کرغیرمعمولی تموج پیدا کرتا ہے، یہ موجیں بعض مقامات پرساٹھ فٹ کے قریب اوپرتک اٹھ جاتی ہیں، اورخشکی کی سطح بھی اس قمری کشش سے چندانچ تک متاثر ہوتی ہے،چانداورزمین کا موجودہ فاصلہ بہت مناسب مقدارپرہے،اوراس کے بہت سے فوائد ہیں، اس کے بجائے اگریہ فاصلہ گھٹ جائے مثلاً پچاس ہزارمیل پرآجائے توسمندروں میںا س شدت سے طوفان برپاہوکہ خشکی کا بیشتر حصہ اس میں غرق ہوجائے اورطوفانی موجوں کے مسلسل ٹکراؤ سے پہاڑ کٹ کرریزے ریزے ہوجائیں ،اورزمین ا س کی کشش سے پھٹنے لگے۔

ماہرین فلکیات کااندازہ ہے کہ زمین کی ابتدائی پیدائش کے وقت چانداسی طرح زمین کے قریب تھا،اوراس وقت زمین کی سطح پریہ سب کچھ ہوچکاہے،اس کے بعدفلکیاتی قانون نے اسے موجودہ دوری پرپہنچادیا، ان کاخیال ہے کہ ایک بلین سال تک یہ صورت باقی رہے گی،اوراس کے بعدیہی فلکی قانون دوبارہ چاندکوزمین کے قریب لائے گا،اوراس وقت زمین اور چاندکی باہمی کشش کانتیجہ یہ ہوگاکہ چاندپھٹ جائے گااورٹکڑے ہوکرزمین کے گردایک حلقہ کی شکل میں پھیل جائے گا۔

یہ نظریہ حیرت انگیزطورپراس پیشین گوئی کی تصدیق ہے، جوقرآن میں آیاہے،یعنی قیامت جب قریب آئے گی توچاندپھٹ جائے گااوراس کاپھٹناقرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہوگا({ FR 1348 })۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ۔ وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ (54:1-2)۔ یعنی قیامت نزدیک آگئی اورچاندپھٹ گیااوریہ لوگ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تواس سے اعراض کرتے ہیں،اورکہتے ہیں کہ یہ جادوہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔

ارضیات

پہاڑوں کے بارے میں قرآن مجیدمیں متعددمقامات پرکہاگیاہے کہ وہ زمین کاتوازن برقرار رکھنے کے لیے ہیں،مثلاًفرمایا:وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ(31:10)۔ یعنی اورزمین میں پہاڑبنادیے ،تاکہ زمین تم کولے کرجھک نہ پڑے ۔

ان الفاظ کے نزول کے پورے تیرہ سوبرس تک انسانی علم پہاڑوں کی اس حیثیت کے بارے میں بالکل بے خبرتھا۔مگراب جغرافیہ اس سے آشناہوچکاہے، اورجدیدجغرافیائی اصطلاح میں اس کو توازن (Isostasy)کہاجاتاہے اگرچہ اس سلسلے میں انسان کاعلم ابھی ابتدائی منزل میں ہے،تاہم انگلن کے الفاظ میں ’’یہ سمجھاجاتا ہے کہ زمین کی سطح پرجوہلکامادہ تھا،وہ پہاڑوں کی شکل میں ابھرا آیا اور جو بھاری مادہ تھا، وہ گہری خندقوںکی صورت میں دب گیاجن میں اب سمندرکاپانی بھراہواہے ،اس طرح ابھاراوردباؤ نے مل کرزمین کاتوازن برقرارکھاہے۔‘‘

O. R. Van Engeln, Geomorphology, New York 1948, p.26-27

ایک اورمصنف لکھتا ہے:

’’جیسے خشکی پروادیاں ہیں ،اسی طرح سمندرکے نیچے بھی وادیاںہیں، مگر سمندرکی تہہ کی اکثروادیاں زیادہ گہری اورانسان کے تجرباتی دائرہ کے لحاظ سے بہت دورہیں، ایسامعلوم ہوتاہے کہ کسی غیرمعمولی دباؤ سے سمندروں میں گہرے غارہوگئے ہیں۔یہ وادیاں سمندر سے 35ہزارفٹ تک گہری ہیں،یہ گہرائی کسی بھی پہاڑکی بلندی سے زیادہ ہے،بعض مقامات پریہ گھاٹیاں اتنی گہری ہیں کہ اگرزمینی پہاڑکی سب سے اونچی چوٹی ماونٹ ایورسٹ کو جو 29031.7فٹ بلندہے، وہاں ڈال دیاجائے تواس کے اوپر ایک میل کی اونچائی تک پانی بہتارہے گا۔حیرت یہ ہے کہ یہ سمندری خندقیں (oceanic trenches)دو سمندرکے درمیان واقع ہونے کے بجائے خشکی کے قریب قریب پائی جاتی ہیں، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کون ساعظیم دباؤ تھا،جس نے سمندرکی تہہ میں یہ زبردست غار پیدا کر دیے، مگر جزائری سلسلوں اور آتش فشاں پہاڑوں سے ان کی قربت ظاہرکرتی ہے کہ پہاڑی بلندیوں اور سمندری خندقوں میں کوئی باہمی تعلق ہوناچاہیے،گویاکہ زمین اونچائی اورگہرائی کے ذریعہ اپنے توازن (balance)کوقائم رکھتی ہے،جغرافیہ کے بعض مستندعلما کاخیال ہے کہ سمندری گہرائیاں آئندہ ابھرنے والے خشکی کی علامتیں ہوسکتی ہیں،کیوں کہ پانی کے نیچے ان اندھیرے غاروں میں صدیوں سے بہہ بہہ کرخشکی اورسمندرکی تہہ کی گاد (sediment) تہہ به تہہ جمع ہورہی ہے، اورمیلوں پاٹتی چلی جارہی ہے، اس لیے کسی وقت عدم توازن کی بناپرہوسکتاہے کہ سمندرکے نیچے اتھاہ گہرائیوں میں جمع ہونے والے مادے کادباؤ پڑنے سے نئے پہاڑ ابھر آئیں یانئے جزائری سلسلے پیداہوجائیں، ساحل کے بعض پہاڑوں میں اس طرح کی سمندری گاد کے نشانات پائے جاتے ہیں،مگرانسان کی موجودہ معلومات کے دائرے میں کوئی بھی نظریہ سمندری خندقوں کی مکمل توجیہ نہیں کرتا،یہ دائمی سرداوردائمی تاریک غارجوفی مربع انچ سات ٹن بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں، وہ ابھی انسان کے لیے سمندرکے دوسرے معمّوںمیں سے ایک معمّاہیں۔‘‘

The World We Live In, New York 1965

اسی طرح قرآن میں یہ کہاگیاہے کہ زمین پرایک وقت ایساگزراہے جب کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کوپھاڑکرپھیلادیا:وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا۔ أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (79:30-31)۔ یعنی اس کے بعدخدانے زمین کوپھیلایااوراس میں سے اس کاپانی اورچارہ نکالا۔

یہ الفاظ جدیدترین نظریۂ انتشاربراعظم (Theory of Drifting Continents) کے عین مطابق ہیں، اس نظریہ کامطلب یہ ہے کہ ہمارے تمام براعظم کسی زمانے میں ایک بڑی زمین کے حصّے تھے، اس کے بعدوہ پھٹ کرسطح زمین پراِدھراُدھرپھیل گئے اوربھرے ہوئے سمندروں کے اردگردبراعظموں کی ایک دنیاآبادہوگئی۔

 اس نظریے کوپہلی بارباقاعدہ طورپر1915ء میںایک جرمن ماہرارضیات الفرڈویگنر (Alfred Wegener)نے پیش کیا، اس کی دلیل یہ تھی کہ براعظموں کواگر قریب کیا جائے تووہ سب کے سب جگسا پزل (Jigsaw Puzzle)کی طرح آپس میں جڑجاتے ہیں ۔مثلاً جنوبی امریکا کامشرقی ساحل افریقہ کے مغربی ساحل سے مل رہاہے۔

اس قسم کی اوربھی بہت سے مشابہتیں ہیں جووسیع سمندروں کے دونوں طرف پائی گئی ہیں۔ مثلاًایک قسم کے پہاڑیکساں ارضیاتی سال کی چٹانیں ،ایک قسم کے جانوراورمچھلیاں اورایک طرح کے پودے ۔چنانچہ علم نباتات کاماہرپروفیسر رونالڈگڈ (Ronald Good) اپنی کتاب میں لکھتاہے :

’’نباتات کے ماہرین کاتقریباًمتفقہ نظریہ ہے کہ مختلف پودے جوزمین کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں، ان کی توجیہ اس کے بغیرنہیں ہوسکتی کہ ہم یہ فرض کریں کہ زمین کے ٹکڑے ماضی میں کبھی باہم ملے ہوئے تھے۔‘‘

Geography of the Flowering Plants

اب توحجری کشش (Fossil Magnetism)سے تصدیق حاصل ہونے کے بعداس کو قطعی سائنسی نظریہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے،پتھرکے ذرات کے رخ کامطالعہ کرکے یہ معلوم کر لیا جاتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں اس کی چٹان کاعرض البلداورطول البلد کیاتھا، اس مطالعہ سے معلوم ہوا کہ زمین کے موجودہ ٹکڑے ماضی میں ان مقامات پرنہیں تھے، جہاں وہ آج نظرآتے ہیں، بلکہ ٹھیک ان مقامات پرتھے ،جہاں براعظموں کے انتشار کا نظریہ تقاضاکرتاہے،امپیریل کالج (لندن) میں فزکس کے استادپروفیسر پی۔ ایم۔ ایس ۔ بلیکٹ(Patrick Maynard Stuart Blackett, 1897-1974)نے کہاہے:

’’ہندستانی پتھرکی پیمائش یقینی طورپربتاتی ہے کہ70ملین سال پہلے ہندستان خط استوا کے جنوب میں واقع تھا،جنوبی افریقہ کی چٹانوں کامشاہدہ ثابت کرتاہے کہ افریقی براعظم تین سوملین سال پہلے قطب جنوبی سے ٹوٹ کرنکلاہے۔‘‘(ریڈرز ڈائجسٹ، جون 1961ء)

اوپرہم نے جوآیت نقل کی ہے، اس میں اﷲ تعالیٰ نے ’’دحو‘‘ کالفظ استعمال کیاہے، دحوکے معنی کسی مجتمع چیزکوپھیلانے اوربکھیردینے کے ہیں، عربی میں کہاجاتاہے:دَحَا الْمَطَرُ الْحَصَى عَنْ وَجْهِ الْأَرْضِ‘‘(معجم مقاییس اللغۃ لابن فارس، جلد 2، صفحہ333)۔ یعنی بارش زمین پرسے کنکریوں کوبہالے گئی۔تقریباًیہی مفہوم انگریزی لفظ (drift)کابھی ہے،جواس جغرافی نظریے کی تعبیرکے لیے موجودہ زمانے میں اختیارکیاگیاہے،قدیم ترین ماضی اورحال میں اس حیرت انگیزیکسانیت کی توجیہ اس کے سوااورکیاہوسکتی ہے کہ یہ ایسی ہستی کاکلام ہے ،جس کاعلم ماضی اورحال سب پرمحیط ہے۔

غذائیات

کتاب الٰہی میں انسان کے لیے جومینیو (menu)بتایاگیاہے، اس کے مطابق خون ہمارے لیے حرام ہے(مثلاً دیکھیے، البقرۃ، 2:173)۔نزولِ کتاب کے وقت تک انسان اس قانون کی غذائی اہمیت سے بے خبرتھا،لیکن بعدکوجب سائنسی طورپرخون کے اجزاءکی تحلیل کی گئی تومعلوم ہواکہ یہ قانون نہایت اہم مصلحت پرمبنی تھا،سائنسی تجزیہ نے اس کوردنہیں کیابلکہ اس کی معنویت ہم پرواضح کی۔

یہ تجزیہ بتاتاہے کہ خون میں کثرت سے یورک ایسڈ (Uric Acid)موجودہے، جوایک تیزابی مادہ ہونے کی وجہ سے خطرناک زہریلی تاثیراپنے اندررکھتاہے،اورغذاکے طورپراس کا استعمال سخت مضرہے،ذبیحہ کامخصوص طریقہ جواسلام میں بتایاگیاہے،اس کی مصلحت بھی یہی ہے، اسلامی اصطلاح میں ذبیحہ سے مرادجانورکوخداکے نام پرایسے طریقہ سے ذبح کرناہے،جس سے اس کے جسم کا ساراخون نکل جائے،اوریہ اسی طرح ممکن ہے کہ جانورکی صرف شہ رگ کوکاٹاجائے لیکن گردن کی رگوں کو قائم رکھاجائے تاکہ مذبوحہ کے دل اوردماغ کے درمیان موت تک تعلق قائم رہے، اور جانور کی موت کاباعث صرف اخراج خون ہو، نہ کہ کسي اعضائے رئیسہ (vital organ)پر صدمہ (injury) کا  پہنچنا۔ کیوں کہ کسی اعضائے رئیسہ مثلاًدماغ، دل یاجگرکے صدمہ رسیدہ ہونے سے فوراًموت آجاتی ہے ۔لیکن ایسی صورت میں خون جسم کے اندر ہی جم جاتا ہے۔ اس طرح جمے ہوئے خون کے ساتھ سارا گوشت یورک ایسڈ کی وجہ سے آلودہ (polluted ) ہوجاتا ہے۔

اسی طرح قرآن میں سورکوبھی حرام کیاگیاہے(مثلاً دیکھیے، البقرۃ، 2:173)۔زمانۂ قدیم میں انسان کواس کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہ تھا، مگرجدیدطبّي تحقیقات نے بتایاہے کہ اس کے اندر بہت سے نقصانات ہیں، مثلاًمذکورہ بالا یورک ایسڈجوایک زہریلامادہ ہے اورہرجاندارکے خون میں موجود رہتا ہے،وہ اورجانداروں کے جسم سے توخارج ہوجاتاہے،مگرسورکے اندرسے خارج نہیں ہوتا، گردے جوہرانسانی جسم میں ہوتے ہیں، وہ اس زہریلے مادے کوپیشاب کے ذریعہ خارج کرتے رہتے ہیں ،انسانی جسم اس مادے کو نوے فیصد خارج کردیتے ہیں،مگرسورکے جسم کے عضلات کی ساخت (biochemistry) کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ اس کے خون کایورک ایسڈصرف دوفیصد ہی خارج ہوپاتاہے ،اوربقیہ حصہ اس کے جسم کا جزء بنتارہتاہے،چنانچہ سورخودبھی جوڑوںکے دردمیں مبتلا رہتا ہے، اوراس کاگوشت کھانے والے بھی وجع المفاصل (rheumatism)جیسی بیماریوں میں مبتلاہوجاتے ہیں۔

اس طرح کی مثالیں کثرت سے قرآن وحدیث میں موجودہیںاوریہ مثالیں اس بات کاقطعی ثبوت ہیں کہ يه غیرانسانی ذہن سے نکلاہواکلام ہے۔بعدکی معلومات نے حیرت انگیز طور پرقرآن کی اس  پیشین گوئی کی تصدیق کی ہے،جس کوہم اوپرنقل کرچکے ہیں۔ یعنی

’’عنقریب ہم آفاق وانفس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاںتک کہ ظاہر ہوجائے گاکہ یہ حق ہے۔‘‘(فصلت، 41:53)

اس باب کو میں ایک واقعہ پر ختم کروں گا،جس کے راوی علامہ عنایت اﷲمشرقی ہیں، اوراس واقعہ کاتعلق انگلستان سے ہے:

’’1909ء کاذکرہے، اتوارکادن تھا،اورزورکی بارش ہورہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہورماہرفلکیات سرجیمزجینس(James Jeans) پرنظرپڑی جو بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے، میں نے قریب ہوکر سلام کیا،انھوں نے کوئی جواب نہ دیا،دوبارہ سلام کیاتووہ متوجہ ہوئے اورکہنے لگے، ’’تم کیاچاہتے ہو‘‘میں نے کہا،دوباتیں اول یہ کہ زورسے بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھاتابغل میں داب رکھا ہے، سرجیمزاپنی بدحواسی پرمسکرائے اور چھاتا کھول لیا،دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق آدمی گرجاگھرمیں عبادت کے لئے جارہاہے ،یہ کیا؟میرے اس سوال پرپروفیسرجیمزلمحہ بھرکے لئے رک گئے اورپھرمیری طرف متوجہ ہوکرفرمایا’’آج شام کوچائے میرے ساتھ پیو‘‘ چنانچہ شام کومیں ان کی رہائش گاہ پہنچاٹھیک 4بجے لیڈی جیمزباہرآکرکہنے لگیں’’سر جیمز تمہارے منتظر ہیں‘‘ اندر گیا توایک چھو ٹی سی میزپرچائے لگی ہوئی تھی،پروفیسرصاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے ،کہنے لگے’’تمہاراسوال کیاتھا‘‘ اورمیرے جواب کا انتظار کیے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق،ان کے حیرت انگیزنظام، بے انتہا پہنائیوں اورفاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اورمداروں نیزباہمی کشش اورطوفان ہائے نورپروہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرادل اﷲکی اس داستانِ کبریاوجبروت پردہلنے لگا، اوران کی اپنی کیفیت یہ تھی سرکے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں،اﷲ کی حکمت ودانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے، اور آواز لرز رہی تھی، فرمانے لگے ’’عنایت اﷲ خاں!جب میں خداکے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے، اور جب میں کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں ’’تو بہت بڑا ہے‘‘تو میری ہستی کا ہرذرہ میراہم نوابن جاتاہے ،مجھے بیحدسکون اورخوشی نصیب ہوتی ہے،مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزارگنازیادہ کیف ملتاہے،کہوعنایت اﷲ خاں!تمہاری سمجھ میں آیاکہ میں گرجے کیوں جاتاہوں۔‘‘

علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسرجیمزکی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کردیا ۔ میں نے کہا’’جناب والا!میں آپ کی روح افروزتفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں،اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یادآگئی اگراجازت ہوتوپیش کروں، فرمایا ’’ضرور‘‘ چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی:

وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ۔ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ (35:27-28)۔یعنی پہاڑوں میں خطے ہیں، سفیداورسرخ اورطرح طرح کے رنگ کے اورکالے اور آدمیوں میں اورکیڑوں میں اورچوپاؤں میں اسی طر ح مختلف رنگ ہیں، اﷲ سے ڈرتے وہی ہیں اس کے بندوں میں سے جوعلم رکھتے ہیں۔

یہ آیت سنتے ہی پروفیسرجیمزبولے:

’’کیاکہا— اﷲ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں ،حیرت انگیز،بہت عجیب، یہ بات جومجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ ومشاہدہ کے بعدمعلوم ہوئی،محمدکوکس نے بتائی، کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجودہے، اگرہے تومیری شہادت لکھ لوکہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے، محمدان پڑھ تھا ،اسے یہ عظیم حقیقت خودبخودمعلوم نہیں ہوسکتی، اسے یقیناًاﷲ نے بتائی تھی، بہت خوب ،بہت عجیب—   (نقوش شخصیات نمبر،صفحات1208-9)

 

مذہب اور تمدنی مسائل

تمدّنی مسائل کے سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ اس کاقانون کیاہو،تمدّنی مسائل انسانوں کے باہمی روابط سے پیداہوتے ہیں، اوران روابط کوجوچیزمنصفانہ طورپرمتعین کرتی ہے،وہ قانون ہے، مگریہ حیرت انگیزبات ہے کہ آج تک انسان اپنی زندگی کاقانون دریافت نہ کرسکا،کہنے کواگرچہ ساری دنیامیں قانونی حکومتیں قائم ہیں،مگریہ تمام ’’قوانین‘‘ نہ صرف یہ کہ اپنے مقصدمیں بری طرح ناکام ہیں بلکہ جبری نفاذ کے سواان کی پشت پرکوئی حقیقی وجہ جوازبھی موجودنہیں،یہ ایک حقیقت ہے کہ، رائج الوقت قوانین اپنے حق میں علمی اورنظریاتی بنیادسے محروم ہیں— فلر (Lon Luvois Fuller, 1902-1078)کے الفاظ میں قانون نے ابھی اپنے آپ کونہیں پایاہے، اس نے ایک کتاب لکھی ہے، جس کانام ہے۔’’قانون خوداپنی تلاش میں۔‘‘

The Law in Quest of  Itself

دورِجدیدمیں اس پربے شمار لٹریچر تیارہواہے۔بڑے بڑے دماغ اپنی اعلیٰ صلاحیتیں اور اپنے بہترین اوقات اس کے لیے صرف کررہے ہیں، اورچیمبرز انسائیکلوپیڈیا کے مقالہ نگارکے الفاظ میں ’’قانون کو ایک زبردست فن کی حیثیت دے کراس کوعظیم ترقی تک پہونچادیاہے۔‘‘ مگراب تک کی ساری کوششیں قانون کاکوئی متفقہ تصور حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں،حتیٰ کہ ایک عالم قانون کے الفاظ میں’’اگردس قانون دانوں کوقانون کی تعریف بیان کرنے کے لیے کہا جائے تو بلامبالغہ ہم کوگیارہ مختلف قسم کے جوابات سننے کے لیے تیاررہنا چاہیے‘‘۔ ماہرین قانون کی مختلف اقسام کو الگ کرنے کے لیے انھیں مختلف مکاتیب فکرمیں تقسیم کیا جاتا ہے،مگران کی قسمیں اتنی زیادہ ہیں کہ بہت سے مصنفین اس طرح کی اختیارکردہ وسیع ترین تقسیم کی حدبندیوں میں بھی نہیں آتے ،مثال کے طورپر جان آسٹن (John Austin, 1790-1859)کے متعلق پروفیسرپیٹن (G. W. Paton)نے لکھاہے کہ وہ ہماری وسیع قسم بندی (Broad Division)میں سے کسی ایک میں بھی پوری طرح موزوں نہیں بیٹھتا۔‘‘

A Textbook of  Jurisprudence,1905, p. 5

اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ماہرینِ قانون کوو ہ صحیح اساس ہی نہیں ملی جس کی بنیادپروہ مطلوبہ قانون کی تشکیل کرسکیں۔ وہ قانون کے اندرجن ضروری قدروں (values) کویکجاکرناچاہتے ہیں، جب وہ ا نھیں یکجاکرنے کی کوشش کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ وہ یکجانہیں ہورہی ہیں۔اس سلسلے میں ماہرینِ قانون کی مثال اس شخص کی سی ہے ،جوزندہ مینڈکوں کو ترازو میں رکھ کر تولنے کی کوشش کررہا ہو۔ظاہرہے کہ وہ پانچ مینڈکوں کو یکجا کرے گاتودوسرے پانچ اس کے پلڑے میںسے پھدک کرنکل چکے ہوں گے۔ ا س طرح معیاری قانون کوحاصل کرنے کی کوششیں اب تک صرف ناکامی پرختم ہوئی ہیں۔ فرائڈمین (W. Friedmann)کے الفاظ میں— ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب کواس مسئلہ کاکوئی حل اب تک اس کے سوانہیں مل سکاکہ وہ گاہ بگاہ ایک انتہا سے دوسری انتہاکی طرف لڑھک جایاکرے ۔‘‘

The only ‘solution’ that western civilization has found, says, W. Friedmann, is to ‘‘keep wavering from one extreme to the other.’’ (Legal Theory, p.18)

جان آسٹن جس کی کتاب پہلی بار1861ء میں شائع ہوئی،اس نے دیکھاکہ قوت نافذہ کے بغیرکوئی قانون ،قانون نہیں بنتا،اس لیے اس نے قانون کی تعریف یہ کی— ’’قانون ایک حکم ہے جوسیاسی طورپراعلیٰ شخص (political superior) نے سیاسی طورپرادنیٰ شخص(political inferior)کے لیے نافذکیاہو۔‘‘

Law is what is imposed by a superior on an inferior, be that superior the king or the legislature. (A Textbook of Jurisprudence, p. 56)

پیٹن کے مطابق، اس تعریف میں قانون بس ایک صاحب اقتدارکافرمان( Command of the Sovereign) بن کررہ گیا ہے۔

G. W. Paton, A Textbook of Jurisprudence, p. 6

چنانچہ اس پرشدیداعتراضات کیے گئے ۔نیزحکمرانوںکی بدعنوانی دیکھ کرذہنوں میں یہ تصور ابھرا کہ قانون سازی میں عوام کی مرضی کو بھی جگہ ملنی چاہیے ۔ ایسے علمائے قانون پیداہوئے جنھوں نے کسی ایسے ضابطہ وقاعدہ کوقانون تسلیم کرنے سے انکارکیاجس کی پشت پرقوم کی رضامندی نہ ہو۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ ایک ضابطہ تمام اہل علم اورمعلمین اخلاق کے نزدیک صحیح اور مفید ہونے کے باوجودمحض اس لیے رائج نہیں کیا جاسکتا تھا، کیوں کہ رائے عامہ ا س کے خلاف ہے۔ مثلاً امریکا میں شراب کی پابندی کے قانون کوامریکی قوم کی رضامندی نہ ملنے کی وجہ سے قانون کی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔اسی طرح برطانیہ میں قتل کی سزامیں ترمیم کرنی پڑی اور ہم جنسي جیسی قبیح حرکت کے لیے قانونی طور پر اجازت دینی پڑی ۔حالانکہ ملک کے جج اورسنجیدہ لوگ ا س کے خلاف تھے۔

 اسی طرح یہ بات بھی زبردست بحث کاموضوع رہی ہے کہ قانون قابل تغیّرہے یاناقابل تغیّر— قرونِ وسطیٰ اورزمانۂ ماقبل تجدید(Post Renaissance Period) میں قانونِ طبعی یاقانونِ فطرت کوکافی فروغ حاصل ہوا،اس کامطلب یہ تھاکہ انسان کی جوفطرت ہے ،وہی قانون کابہترین ماخذہے

’’فطرت کاتقاضایہ ہے کہ ہرشے پرحکومت کاحق خوداسی کے فطري تقاضوں اور رہنما اصولوں کوپہونچتاہے،اورانسان کے لیے قدرت نے یہ رہنمااصول اس کی عقل کی صورت میں پیداکیے ہیں لہٰذاانسان پرحکومت خوداپنی عقل کے زورسے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔‘‘

Jurisprudence by Bodenheimer, p. 164

اس تصورنے قانون کوایک آفاقی بنیادفراہم کردی،یعنی وہ ا یک ایسی چیزسمجھاجانے لگاجس کوہمیشہ ایک ہی رہناچاہیے،یہ سترہویں اوراٹھارہویں صدی کاتصورقانون تھا، اس کے بعد دوسرا مکتب فکرپیداہوااوراس نے دعویٰ کیاکہ قانون کے آفاقی قواعدمعلوم کرنابالکل ناممکن ہیں، کوہلر (Kohler) لکھتاہے:

’’یہاں کوئی ابدی قانون (eternal law)نہیں ہے ،ایک قانون جو ایک عہدکے لیے موزوں ہو،وہی لازمی طورپردوسرے عہدکے لیے موزوں نہیں ہوسکتا، ہم صرف ا س بات کی کوشش کرسکتے ہیں کہ ہرکلچرکے لیے اس کے مناسب حال نظام قانون کوفراہم کریں،کوئی چیزجوایک کے لیے خیرہو،وہی دوسرے کے لیے مہلک ہوسکتی ہے۔‘‘

Philosophy of Law, p.5

اس تصورنے فلسفۂ قانون کاسارااستحکام ختم کردیا،یہ تصورانسانی فکرکواندھا دھند تغیر پذیری (Relativism) کی طرف لے جاتاہے،اورچوں کہ یہ کسی بنیادسے محروم ہے، اس لیے اس کی کوئی منزل نہیں،یہ تصورزندگی کی تمام اقدارکوتلپٹ کرکے رکھ دیتاہے۔

پھرایک گروہ نےعدل کے پہلوکوبہت زیادہ اہمیت دی، اور یہ سمجھا کہ وہ فلسفہ قانون کا آخری راز پاگیا ہے— لارڈرائٹ (Lord Wright)نے ڈین راسکو پاونڈ(Dean Roscoe Pound)کاایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتاہے

’’راسکوپاونڈایک ایسی بات کہتاہے جس کی صداقت پرمیں اپنے تمام تجربات اور قانونی مطالعہ کے نتیجے میں بالکل مطمئن ہوچکاہوں،وہ یہ قانون کاابتدائی اور بنیادی مقصد عدل کی تلاش (Quest of Justice)ہے۔‘‘

Interpretation of Modern Legal Philosophies, NY,  1947,  p. 794

مگریہاں پھرسوال پیداہوتا ہےکہ انصاف کیاہے،اوراس کوکیسے متعین کیا جاسکتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ بات گھوم پھرکردوبارہ وہیں پہونچ جاتی ہے،جہاں آسٹن کوہم نے چھوڑا تھا،اس طرح سیکڑوں برس کی تلاش وتحقیق کے باوجودانسان اب تک قانون کی تشکیل کے لیے کوئی واقعی بنیادفراہم نہ کرسکا،یہ احسا س روزبروزبڑھ رہاہے کہ جدیدفلسفہ ،مقاصدقانون کے اہم مسئلہ کوحل کرنے میں ناکام رہاہے،پروفیسرپیٹن (George Whitecross Paton)لکھتے ہیں:

’’کیامفادات (interests)ہیں جن کاتحفظ ایک معیاری قانونی نظام کو کرنا ہے؟ یہ ایک ایساسوال ہے،جواقدار(values)سے متعلق ہے،اوروہ فلسفہ ٔ قانون کے دائرہ ٔبحث میں آتاہے،مگراس معاملے میںہم فلسفہ سے جتنی زیادہ مددلیناچاہتے ہیں اتناہی اس کاحصول مشکل ہوتاہے، کوئی بھی قابل قبول پیمانہ اقدار (Scale of Values)اب تک دریافت نہیں ہوسکاہے، درحقیقت صرف مذہب ہی میں ایساہے کہ ہم اس کی ایک بنیاد پاسکتے ہیں، مگرمذہب کی صداقتیں عقیدہ یاوجدان کے تحت قبول کی جاتی ہیں،نہ کہ منطقی استدلال کی بنیادپر۔‘‘

A Textbook of  Jurisprudence, p.104

آگے وہ کچھ علمائے قانون کایہ خیال نقل کرتاہے کہ وہ مدتوں فلسفہ قانون کی بھول بھلیوں میں گردش کرنے کےبعدیہ کہنے پرمجبور ہوئے ہیں کہ فلسفۂ قانون کے مقصدکے فلسفیانہ مطالعہ کی جو کوشش کی ہے، وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچتی۔ (صفحہ106) پھروہ سوال کرتا ہےکہ’’کیاکچھ معیاری اقدار(ideal values)ہیں، جوارتقائے قانون میں اس کی رہنمائی کرتی ہیں۔‘‘(صفحہ108)ایسی اقداراگرچہ اب تک دریافت نہیں ہوسکیں لیکن وہ قانون کے لیے ناگزیرہیں، مگردقت یہ ہے کہ مذہب کوالگ کرنے کے بعداس کے حصول کی کوئی صورت نظرنہیں آتی،اس کے الفاظ یہ ہیں:

The Orthodox Natural Law Theory based its absolutes on the revealed truths of religion.If we attempt to secularise jurisprudence, where can we find an agreed basis of values. (A Textbook of Jurisprudence, p.109)

یہ طویل تجربہ انسان کودوبارہ اسی طرف لوٹنے کااشارہ کرتاہے ،جہاں سے اس نے انحراف کیاتھا،قدیم زمانے میں قانون کی تدوین وتشکیل میں مذہب کابہت بڑاحصہ ہوتاتھا،چنانچہ تاریخ قانون کا ماہرسرہنری مین (Sir Henry Maine)لکھتاہے:

’’تحریری طورپرمنضبط قانون کاکوئی ایسانظام ،چین سے پیرو(Peru)تک ہمیں نہیں ملتاجواپنے دورآغازہی سے مذہبی رسو م وعبادات کے ساتھ ہم رشتہ نہ رہاہو۔‘‘

Early Law and Custom, p.5

اب وقت آگیاہے کہ اس حقیقت کوتسلیم کیاجائے کہ خداکی رہنمائی کے بغیرانسان خوداپنے لیے قانون وضع نہیں کرسکتا،لاحاصل کوشش کومزیدجاری رکھنے کے بجائے اب ہمارے لیے بہترہوگاکہ، ڈاکٹرفرائڈمین کے الفاظ میں،ہم اعتراف کرلیں کہ

’’ان مختلف کوششوں کاجائزہ لیاجائے تویہی نتیجہ برآمدہوتاہےکہ انصاف کے حقیقی معیارکومعین کرنے کے لیے مذہب کی رہنمائی حاصل کرنے کے سوادوسری ہر کوشش بے فائدہ ہوگی ،اورانصاف کے مثالی تصورکوعملی طورپرمتشکل کرنے کے لیے مذہب کی دی ہوئی بنیاد بالکل منفردطورپرحقیقی اورسادہ بنیادہے۔‘‘

Legal Theory, p.450

مذہب کے اندر ہم کووہ تمام بنیادیں نہایت صحیح شکل میں مل جاتی ہیں، جوایک معیاری قانون کے لیے ماہرین تلاش کررہے ہیں ،مگروہ اب تک اسے نہ پاسکے۔

1۔قانون کاسب سے پہلا اورلازمی سوال یہ ہے کہ قانون کون دے ،وہ کون ہو جس کی منظوری (sanction) سے کسی قانون کوقانون کادرجہ عطاکیاجائے،ماہرین قانون اب تک اس سوال کاجواب حاصل نہ کرسکے،اگرحاکم کوبحیثیت حاکم یہ مقام دیں تونظری طورپراس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ایک یاچنداشخاص کودوسرے تمام لوگوں کے مقابلے میں یہ امتیازی حق کیوں دیاجائے کہ وہ جوچاہے ،قانون بنائے اورجس طرح چاہے نافذکرے،اوراگرمعاشرہ اوراجتماع کو’’قانون ساز‘‘ قراردیں تویہ اورزیادہ مہمل بات ہے، کیوں کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی وہ علم و عقل ہی نہیں رکھتا جو قانون سازی کے لیے ضروری ہے ،قانون بنانے کے لیے بہت سی مہارتوں اور واقفیتوں کی ضرورت ہے جس کی نہ عام لوگوں میں صلاحیت ہوتی ہے،اورنہ ان کواتناموقع ہوتاہے کہ وہ ان میں درک حاصل کرسکیں،اسی طرح عملًابھی یہ ممکن نہیں ہے کہ معاشرہ کی کوئی ایسی رائے معلوم کی جاسکے جو سارے معاشرہ کی اپنی رائے ہو۔

موجودہ زمانے میں اس مسئلے کایہ حل نکالاگیاہے کہ پوری آبادی کے عاقل اوربالغ افراد اپنے نمائندے منتخب کریں اوریہ منتخب لوگ اجتماع کے نمائندے کی حیثیت سے اجتماع کے لیے قانون بنائیں ،مگراس اصول کی غیرمعقولیت اسی سے ظاہرہے کہ 51فیصد کو صرف دوعددکی اکثریت کی بناپریہ حق مل جاتاہے کہ وہ49فیصد کی نام نہاداقلیت پر حکمرانی کریں،مگربات صرف اتنی ہی نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس طریقے کے اندراتنے خلاہیں کہ عمومًا51فیصد کی اکثریت بھی حاصل نہیں ہوتی اورمطلق اقلیت کویہ موقع مل جاتاہے کہ وہ ا کثریت کے اوپرحکومت بنائے۔

اس طرح فلسفۂ قانون کوآج تک اس مسئلہ کاکوئی واقعی حل معلوم نہ ہوسکا،مذہب اس کا جواب یہ دیتاہے کہ قانون کاماخذخداہے،جس نے زمین وآسمان کااورساری طبیعی دنیا کا قانون مقرر کیا ہے،اسی کوحق ہے کہ وہ انسان کے تمدن ومعاشرت کاقانون وضع کرے، اس کے سواکوئی بھی نہیں ہے ،جس کویہ حیثیت دی جاسکے ،یہ جواب اتناسادہ اورمعقول ہے کہ وہ خودہی بول رہاہے کہ اس کے سوااس مسئلہ کاکوئی اورجواب نہیں ہوسکتا،یہ جواب ا س سوال پراسی طرح بالکل راست آرہا ہے، جیسے کوئی ڈھکّن غلط شیشیوں پربیٹھ نہ رہاہو،اورجیسے ہی اس کے اصل مقام پراسے لایا جائے وہ ٹھیک ٹھیک اس پربیٹھ جائے۔

اس جواب میں قانون بنانے اورحکم دینے کاحق ٹھیک اس جگہ پہونچ گیاجہاں نہ پہونچنے کی وجہ سے ہماری سمجھ میں نہیںآتاتھاکہ ہم اس کوکہاں لے جائیں ،انسانوں کے اوپر انسان کوحاکم اور قانون سازنہیں بنایاجاسکتا،اس کاحق صرف اسی کوہے جوسارے انسانوں کاخالق اوربالفعل ان کا طبیعی حاکم ہے۔

2۔ قانون کاایک بہت بڑاسوال یہ ہے کہ کیا اس کاساراحصہ اضافی ہے یااس کاکوئی جزءحقیقی نوعیت بھی رکھتاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہرقانون جوآج رائج ہے کل بدلا جاسکتاہے یااس کا کوئی حصہ ایسابھی ہے جوناقابل تغیرہے۔ اس سلسلے میں طویل ترین بحثوں کے باوجودآج تک کوئی قطعی بنیاد حاصل نہ ہوسکی۔علمائے قانون اصولی طورپراس کوضروری سمجھتے ہیں کہ قانون میں ایک ایسا عنصر ضروری ہے جودوامی نوعیت رکھتاہو،اوراسی کے ساتھ اس میں ایسے اجزاء بھی ہونے چاہئیں جن میں لچک ہو، تاکہ بدلتے ہوئے حالات پرانھیں بآسانی اپلائی کیاجاسکے— دونوںمیں سے کسی ایک پہلو کی کمی بھی قانون کے لیے سخت مضرہے۔امریکا کے ایک جج مسٹرکارڈوزو(Justice Cardozo)لکھتے ہیں

’’آج قانون کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ ایک ایسا فلسفہ ٔ قانون مرتب کیاجائے جوثبات اورتغیرکے متحارب تقاضوں کے درمیان توافق پیدا کرے۔‘‘

The Growth of the Law, Benjamin Nathan Cardozo

ایک اورعالم قانون لکھتاہے

’’قانون کوضرورمستحکم ہوناچاہیے،لیکن اس کے باوجوداس میں جمودنہیں پیدا ہونا چاہیے، اسی وجہ سے قانون کے متعلق مفکرین نے اس بارے میں کافی جدوجہدکی ہےکہ کس طرح استحکام اورتبدیلی کے دوطرفہ تقاضوں میں ہم آہنگی پیداکی جائے۔‘‘

Roscoe Pound, Interpretation of Legal History, p. 1

مگرحقیقت یہ ہے کہ انسانی قوانین میں اس قسم کافرق پیداکرناناممکن ہے،کیوں کہ قانون کے کسی حصہ کے بارے میں یہ کہناکہ یہ دائمی اورناقابل تغیرہے،کوئی دلیل چاہتاہے، اورانسانی قانون ایسی کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجزہے، آج کچھ لوگ ایک قانون کواپنی عقل سے دائمی قراردیں گے، اورکل کچھ لوگوںکی عقل کونظرآئے گاکہ وہ دائمی ہونے کے قابل نہیں ہے، اوروہ دوبارہ اس کے قابلِ تغیرہونے کااعلان کردیں گے۔

خداکاقانون ہی اس مسئلے کاواحدحل ہے ،خداکاقانون ہم کو وہ تمام بنیادی اصول دے دیتاہے جو غیرمتبدل طورپرہمارے قانون کالازمی جزءہوسکیں۔یہ قانون کچھ بنیادی امورکے بارے میں بنیادی پہلوؤں کاتعین کرتاہے،اوربقیہ اموراوردیگرپہلوؤں کے بارے میں خاموش ہے، اس طرح وہ اس فرق کاتعین کردیتاہے کہ قانون کاکون ساحصہ دائمی ہے، اورکون ساحصہ قابل ِتغیرہے،پھروہ خداکاقانون ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ یہ ترجیحی دلیل بھی رکھتاہے کہ کیوں ہم اس تعین کومبنی برحق سمجھیں اوراس کولازمی قراردیں۔

یہ خدائی قانون کی بہت بڑی دَین ہے، بلکہ ایک ایسی دَین ہے، جس کا بدل فراہم کرنا انسان کے لیے قطعی ناممکن ہے۔

3۔ اسی طرح قانون کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس اس بات کی کوئی معقول وجہ موجودہو کہ وہ کیوں کسی جرم کو’’جرم‘‘قراردیتاہے۔انسانی قانون کے پاس اس کاجواب یہ ہے کہ جوعمل’’امن عامہ یانظم مملکت‘‘ میں خلل ڈالتاہووہ جرم ہے، اس کے بغیراس کی سمجھ میں نہیںآتاکہ کسی فعل کوجرم کیسے قراردے ،یہی وجہ ہے کہ قوانین مروجہ کی نگاہ میں زنااصلًاجرم نظر نہیں آتا بلکہ وہ صرف اس وقت جرم بنتاہے،جب کہ طرفین میںسے کسی نے دوسرے پر جبر کیا ہو، گویاانسانی قانون کے نزدیک اصل جرم زنانہیں بلکہ جبرواکراہ ہے۔ جس طرح زبردستی کسی کے مال پرہاتھ ڈالناجرم ہے، اسی طرح زبردستی اس کے جسم پردست درازی بھی جرم ہے۔لیکن باہمی رضامندی سے جس طرح ایک کا مال دوسرے کے لیے جائز ہوجاتا ہے، اسی طرح گویاقانون کی نظرمیں فریقین کی رضامندی سے ایک کا جسم بھی دوسرے کے لیےحلال ہو جاتا ہے۔ اس باہمی رضامندی کی شکل میں قانون ،زناکاحامی ومحافظ بن جاتا ہے، اور اگر تیسراشخص زبردستی مداخلت کرکے انھیں روکناچاہے توالٹاوہی شخص مجرم بن جائے گا۔

زناکاارتکاب سوسائٹی میں زبردست فسادپھیلاتاہے،وہ ناجائزاولادکے مسائل پیدا کرتاہے، وہ رشتۂ نکاح کوکمزورکردیتاہے،وہ سطحی لذتیت کاذہن پیداکرتاہے،وہ چوری اور خیانت کی تربیت کرتاہے، وہ قتل اوراغواکوفروغ دیتاہے، وہ سارے سماج کے دل ودماغ کو گندا کر دیتا ہے، مگر اس کے باجودقانون اسے کوئی سزانہیںدے سکتا،کیوں کہ اس کے پاس زنا بالرضاکوجرم قراردینے کے لیے کوئی بنیادنہیںہے۔

اسی طرح انسانی قانون کے لیے یہ طے کرنامشکل ہے کہ وہ شراب نوشی کوجر م کیوں قرار دے ۔ کیوں کہ کھاناپینا انسان کاایک فطری حق ہے ،ا س لیے وہ جوچاہے کھائے پیے ۔اس میں قانون کومداخلت کرنے کی کیاضرورت ۔اس لیے اس کے نزدیک نہ شراب پیناجرم ہے، اورنہ اس سے پیدا شدہ بدمستی اصلاًقابل مواخذہ ہے۔ البتہ نشے کی حالت میں اگرمخمورکسی سے گالم گلوج کر بیٹھا یا ہاتھا پائی کی نوبت آگئی ،یاعام راستے پروہ اس طرح جھومتاہواچلاکہ اس کی حرکات سے دوسروں کو پریشانیوں  کا سامنا کرنا پڑے، تب کہیںجاکرقانون اس پرہاتھ ڈالناجائزسمجھے گا۔گویاانسانی قانون کی رو سےدر حقیقت شراب نوشی کا فعل قابل گرفت نہیں ہے، بلکہ اصل قابل گرفت جرم دوسروںکوایک خاص شکل میں ایذا پہنچانا ہے۔

شراب نوشی صحت کوتباہ کرتی ہے،وہ مال کے بربادی اوربالآخرمعاشی بربادی تک لے جاسکتی ہے۔ اس سے اخلاق کااحساس کمزورپڑتاہے، اورانسان دھیرے دھیرے حیوان بن جاتا ہے۔ شرا ب مجرمین کی بہترین مددگارہے،جس کوپینے کے بعدلطیف احساسات مفلوج ہو جاتے ہیں، اورپھرقتل،چوری،ڈاکہ اورعصمت دری کے واقعات کرناآسان ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے،مگرقانون اسے بندنہیں کرسکتا۔کیوںکہ اس کے پاس اس بات کاکوئی جواب نہیںہے کہ وہ کیوں لوگوں کے کھانے پینے کےپسند و ناپسند پرروک لگائے۔

اس مشکل کاجواب صرف خداکے قانون میںہے ۔کیوں کہ خداکاقانون مالک کائنات کی مرضی کااظہارہوتاہے،کسی قانون کاخداکاقانون ہونابذات خوداس بات کی کافی وجہ ہے کہ وہ بندوں کے اوپر نافذہواس کے بعداس کے لیے کسی اورسبب کی ضرورت نہیں، اس طرح خدائی قانون، قانون کی اس ضرورت کوپوراکرتاہے کہ کس بنیادپرکس فعل کوقانون کی زدمیں لایاجائے۔

4۔قانون کبھی اخلاق سے بے نیاز نہیں ہوسکتا،مختلف اسباب کی بناپرقانون کے ساتھ اخلاق کاتعلق ہونا ضروری ہے۔

(الف) مثلاًایک مقدمہ قانون کے سامنے آتاہے۔ اس وقت اگرخالص سچائی منظرِ عام پرنہ آئے توقانون کاعادلانہ مقصدکبھی پورانہیں ہوسکتا۔ اگرفریقین اورگواہ عدالتوںمیں سچ بولنے سے گریزکریں توانصاف کاخاتمہ ہوجائے گا،اوراس کے قیام کی ساری کوششیں بیکارثابت ہوں گی گویاقانون کے ساتھ کسی ایسے ماورائے قانون کاتصورکی بھی لازمی ضرورت ہے،جولوگوں کے لیے سچ بولنے کامحرک بن سکے۔سچائی کے لازمۂ قانون وانصاف ہونے کااعتراف دنیابھرکی عدالتیں اس طرح کرتی ہیں کہ وہ ہرگواہ کومجبورکرتی ہیںکہ وہ سچ بولنے کی قسم کھائے اورحلف اٹھاکراپنابیان دے۔ قانون کے لیے مذہبی اعتقادات کی اہمیت کی یہ ایک نہایت واضح مثال ہے۔ مگر جدید سوسائٹی میں مذہب کی حقیقی اہمیت چوں کہ ہرپہلوسے ختم کردی گئی ہے، اس لیے عدالتوں کی مذہبی قسمیں اب صرف ایک روایت بلکہ مسخرہ بن کررہ گئی ہیں،اوران کاکوئی واقعی فائدہ باقی نہیں رہاہے۔

(ب) اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ قانون جس فعل کوجرم قراردے کراس پر سزا دینا چاہتا ہے، اس کے بارے میں خودسماج کے اندربھی یہ احساس موجودہوکہ یہ فعل جرم ہے،محض قانونی کوڈ میں چھپے ہوئے الفاظ کی بناپروہ فضاپیدانہیں ہوسکتی ،جوکسی جرم پرسزاکے اطلاق کے لیے درکار ہے، ایک شخص جب جرم کرے تواس کے اندراحساسِ جرم( guilty mind)کاپایاجاناضروری ہے،وہ خود اپنے آپ کومجرم سمجھے اورساراسماج اس کومجرم کی نظرسے دیکھے، پویس پورے اعتماد کے ساتھ اس پر دست اندازی کرے، عدالت میں بیٹھنے والاجج پوری آمادگیٔ قلب کے ساتھ اس پرسزاکاحکم جارے کرے ،دوسرے لفظوںمیں ایک فعل کے ’’جرم‘‘ ہونے کے لیے اس کا’’گناہ‘‘ ہوناضروری ہے، قانون کے تاریخی مکتب ِفکرکایہ کہنا کہ— قانون سازی اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب کہ وہ ان لوگوں کے داخلی اعتقادات (internal convictions)کے مطابق ہو،جس کے لیے قانون وضع کیا گیا ہے، اگروہ اس سے غیرمتعلق ہوتوایسے قانون کاناکام ہونایقینی ہے ۔‘‘

A Texbook of Jurisprudence, p.15

اپنے مخصوص مکتب فکرکے استدلال کے طورپرتوصحیح نہیں ہے مگراس میں ایک خارجی صداقت بیشک موجودہے۔

(ج) ان سب چیزوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قانون کے عمل درآمدسے پہلے سماج کے اندرایسے محرکات موجودہوں جولوگوں کوجرم کرنے سے روکتے ہوں،صرف پولیس اورعدالت کاخوف اس کے لیے کافی محرک نہیںبن سکتا،کیوں کہ پوليس اورعدالت کے اندیشہ سے تو رشوت، سفارش، غلط وکالت اورجھوٹی گواہیاں بھی بچاسکتی ہیں، اوراگران چیزوں کواستعمال کرکے کوئی شخص اپنے آپ کوجرم کے قانونی انجام سے بچالے جائے توپھراسے مزیدکوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا۔

خدائی قانون میں ان تمام چیزوں کاجواب موجودہے،خدائی قانون کے ساتھ مذہب وآخرت کاعقیدہ وہ ماورائے قانون فضاپیداکرتاہے،جولوگوں کوسچائی پرابھارے ،وہ اس درجہ موثرہے کہ اگرکوئی شخص وقتی مفادکے تحت جھوٹاحلف اٹھائے تواپنے دل کوملامت سے نہیںبچاسکتا،ویسٹرن سرکٹ کی عدالت میں ایک پتھرنصب ہے جواس واقعہ کی یادتازہ کرتاہے کہ ایک گواہ نے قسم کے عام کلمات دہرانے کے بعدیہ بھی کہاتھاکہ ’’اگرمیں جھوٹ بولوں توخدامیری جان یہیں قبض کرلے‘‘ چنانچہ وہ شخص وہیں دھڑام سے گرااورگرکراس کاخاتمہ ہوگیا ۔

The Changing Law, p. 103

 اسی طرح جرم کے فعل شنیع ہونے کاعام احساس بھی محض اسمبلی کے پاس کردہ ایکٹوں کے ذریعہ پیدانہیں ہوسکتا،اس کی بھی واحدبنیادخدااورآخرت کاعقیدہ ہے، اسی طرح جرم نہ کرنے کا محرک بھی صرف مذہب ہی پیداکرسکتاہے،کیوں کہ مذہب صرف قانون نہیں دیتابلکہ اسی کے ساتھ یہ تصوربھی دلاتاہے کہ جس نے یہ قانون عائدکیاہے،وہ تمہاری پوری زندگی کودیکھ رہاہے،تمہاری نیت، تمہاراقول،تمہاری تمام حرکتیں اس کے ریکارڈمیں مکمل طورپرمنضبط ہوچکی ہیں، مرنے کے بعدتم اس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اورتمہارے لیے ممکن نہ ہوگاکہ تم اپنے جرائم پرپردہ ڈال سکو،آج سزاسے بچ گئے تووہاں کی سزاسے کسی طرح بچ نہیںسکتے،بلکہ دنیامیں اپنے جرم کی سزاسے بچنے کے لیے اگرتم نے غلط کوششیں کیں توآخرت کی عدالت میںتمہارے اوپر دہرا مقدمہ چلے گا، اور وہاںایک ایسی سزاملے گی جودنیاکی سزاکے مقابلے میں کروڑوں گناسخت ہے۔

5۔ انگلستان کی تاریخ کاایک واقعہ ہے۔ جیمزاول ( James1) نے اعلان کیاکہ وہ مطلق العنان بادشاہ کی طرح حکومت کرسکتاہے ،اورعدالتوںمیں استغاثہ اورمرافعہ کے بغیر معاملات میں آخری فیصلے دے سکتاہے، یہ مشہورچیف جسٹس لارڈکوک (Coke) کازمانہ تھا،وہ ایک مذہبی آدمی تھے،اوراپنے دن کاایک چوتھائی حصہ عبادت میں بسرکیا کرتے تھے، انھوں نے بادشاہ سے کہا  ’’تمہیں فیصلہ کرنے کاکوئی حق نہیں ہے،تمام مقدمات عدالت میں جانے چاہئیں‘‘۔بادشاہ نے کہا’’میرا خیال ہے اوریہی میں نے سنابھی ہے کہ تمہارے قوانین کی بنیادعقل پررکھی گئی ہے، توکیامجھ میں ججوںسے کم ترعقل ہے‘‘۔چیف جسٹس نے جواب دیا ’’تم بلاشبہ بہت علم وصلاحیت کے مالک ہو، لیکن قانون کے لیے بڑے تجربے اورمطالعہ کی ضرورت ہے، یہ توایک سنہری پیمانہ ہے، جس سے رعایا کے حقوق کی پیمائش کی جاتی ہے، اور خود جناب والاکی حفاظت کی جاتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے انتہائی غصہ سےکہا’’کیامیں بھی قانون کاماتحت ہوں،ایساکہناتوغداری ہے‘۔‘ لارڈ کوک نے بریکٹن (Bracton) کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دیا

’’بادشاہ کسی آدمی کاماتحت نہیں،مگروہ خدااورقانون کاماتحت ہے۔‘‘

The Changing Law by Sir Alfred Denning (1953) p. 117. 118

حقیقت یہ ہے کہ اگرہم خداکوقانون سے الگ کردیں توہمارے پاس یہ کہنے کی کوئی معقول بنیادنہیں رہتی کہ — بادشاہ قانون کے ماتحت ہے’’کیوں کہ جن افراد نے خود اپنی رایوں سے قانون بنایاہو،جن کے اذن(Sanction)سے وہ قانونی طورپرجاری ہواہو،جواس کوباقی رکھنے یابدلنے کاحق رکھتے ہوں آخرکس بناپروہ اس کے ماتحت ہوجائیں گے، جب انسان ہی قانون سازہوتوبالکل فطری طورپروہ خدااورقانون دونوں کاجامع ہو جاتاہے،وہ خودہی خدااورخودہی قانون ہوتاہے،ایسی حالت میں قانون سازوں کوقانون کے دائرے میں لانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔

یہی وجہ ہے کہ تمام جمہوریتوں میں شہری مساوات کے اصول کوتسلیم کرنے کے باوجود قانونی طورپرسب یکساں نہیں ہیں ،اگرآپ ملک کے صدر،گورنر،وزیریاکسی افسراعلیٰ پرمقدمہ چلانا چاہیں توآپ اسی طرح ان کے خلاف مقدمہ نہیں چلاسکتے جیسے ایک عام شہری کے خلاف آپ کرلیتے ہیں، بلکہ ایسے کسی مقدمے کوعدالت میں لے جانے سے پہلے حکومت سے اس کی اجازت لینی ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں، اگرآپ کسی اعلیٰ سیاسی یا انتظامی شخصیت پر مقدمہ چلاناچاہیں توخودانھیں سے پوچھناہوگاکہ آپ  کے اوپرمقدمہ چلایاجائے یانہیں ۔

یہ ملک کے قانونی نظام کانقص نہیں ہے بلکہ انسانی قانون کانقص ہے،اوریہ نقص ہراس جگہ پایاجاتاہے، جہاں انسانی قانون سازی کااصول رائج ہے۔صرف خدائی قانون میں یہ ممکن ہے کہ ہر شخص کی حیثیت قانون کی نظرمیں یکساں ہو، اورایک حاکم پراسی طرح عدالت میں مقدمہ چلایاجاسکے جس طرح محکوم پرچلایاجاتاہے،کیوں کہ ایسے نظام میں قانون سازخداہوتاہے ،بقیہ تمام لوگ یکساں طورپراس کے ماتحت۔

6۔قانون کی آخری اورسب سے بڑی خصوصیت جس کوہمارے ماہرین صدیوں سے تلاش کر رہے ہیں، اوراب تک وہ اسے حاصل نہ کرسکے وہ بھی صرف مذہبی قانون میں موجود ہے— یعنی قانون کی منصفانہ بنیاد،یہ سمجھاجاتاہے کہ منصفانہ قانون کی بنیاد کا حاصل نہ ہوناتلاش کے نامکمل ہونے کاثبوت ہے، نہ کہ اس بات کاثبوت کہ انسان اسے حاصل ہی نہیں کرسکتا۔مگرجب ہم دیکھتے ہیں کہ طبعی قوانین کی دریافت میں انسان نے بے حساب ترقی کی ہے ،اوراس کے مقابلے میں تمدنی قوانین کی دریافت میں اس درجہ کی بلکہ اس سے زیادہ کوششوں کے باوجودایک فی صد بھی کامیابی نہیں ہوئی،توہم یہ ماننے پرمجبورہوتے ہیں کہ یہ محض تلاش کے نامکمل ہونے کاثبوت نہیں ہے،بلکہ اس بات کاثبوت ہے کہ جوچیزتلاش کی جارہی ہے اس کاپاناانسان کے بس میں نہیں۔

دنیامیں سب سے پہلافوٹوایک فرانسیسی سائنسداںنے 1826ء میں کھینچا،اس میں آٹھ گھنٹے کا وقت لگا۔اس نے اپنے کمرے کے برآمدے کافوٹوکھینچاتھا،لیکن تصویرکشی(photography) کی موجودہ رفتارکاحال یہ ہے کہ آج کا کیمراایک سيکنڈمیںدوہزارسے بھی زیادہ تصویریں کھینچ لیتا ہے۔ ا س کامطلب یہ ہوا کہ پہلے جتنی دیرمیں صرف ایک تصویرکھینچی جاسکتی تھی، اتنی دیرمیں آج چھ کرورتصویریں لی جاسکتی ہیں۔ گویارفتارکے معاملے میں 140سال میں انسان نے چھ کرورگناترقی کی ہے، امریکا میں بیسویں صدی کے آغازمیں سارے ملک میں صرف چارموٹرکاریں تھیں،اب تقریباًدس کرورکاریں وہاں سڑکوں پردوڑتی ہیں، انسان کی باریک بینی کایہ حال ہے کہ آج وہ سيکنڈ کو بھی ہزارویں (1/10,00,000) حصے تک تقسیم کرسکتاہے یعنی ایک  سيکنڈکے دس لاکھویں حصے کاہزارواں حصہ۔ چنانچہ زمین کی گردش میں فرق پڑنے سے اگر ایک  سيکنڈکے دس لاکھویں حصے کے بقدر چھوٹا یا بڑا رصدگاہوں میں اسے معلوم کرلیا جاتا ہے۔ آج ایسے حساس آلے دریافت ہوچکے ہیں کہ اگرتیس جلدوں کی انسائیکلوپیڈیا میں کسی ایک صفحہ پردوالفاظ بڑھائے جائیںتواس کی سیاہی سے وزن میں جوفرق پڑے گا، اس کووہ فوراً بتادیں گے— یہ طبیعی قوانین کی دریافت میں انسان کی ترقی کاحال ہے، مگرجہاں تک تمدنی قوانین کامعاملہ ہے،وہ اس میں ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔ 

یہاں میں چندتقابلی مثالیںدوں گا،جس سے اندازہ ہوگاکہ یہ دعویٰ کس قدرصحیح ہے کہ صرف خدائی مذہب ہی وہ حقیقی بنیادہے،جس سے ہم انسانی زندگی کاقانون اخذکرسکتے ہیں۔

معاشرت

اسلام نے عورت اور مردکے درمیان فرق کیا ہے۔وہ دونوں صنفوں کے درمیان آزادانہ اختلاط کو ناپسندکرتا ہے،اوراس کوبندکرنے کاحکم دیاہے۔ اس کے بعدجب صنعتی دور شروع ہوا تو اس اصول کابہت مذاق اڑایاگیا،اوراس کودورجہالت کی یادگار قرار دیا گیا۔ بڑے زورشورسے یہ بات کہی گئی کہ عورت مرددونوں یکساں ہیں،ان کے میل جول کے درمیان کوئی دیوارکھڑی نہیں کی جاسکتی ۔ ساری دنیا میں اورخاص طورسے مغرب میں اس اصول پرایک نئی سوسائٹی ابھرنا شروع ہوئی ،مگرطویل تجربے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ پیدائشی طورپردونوں یکساں نہیں ہیں، اس لیے دونوں کویکساں فرض کرکے جوسماج بنایاجائے وہ لازمی طورپربے شمار خرابیاں پیداکرنے کاباعث ہوگا۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب، خاتونِ اسلام، مطبوعہ نئی دہلی) 

پہلی بات یہ کہ عورت اورمردمیں فطری صلاحیتوں کے زبردست نوعی اختلافات ہیں اس لیے دونوں کومساوی حیثیت دینااپنے اندرایک حیاتیاتی تضادرکھتاہے،ڈاکٹرالکسس کیرل عورت اور مردکے فعلیاتی (Physiological)فرق کوبتاتے ہوئے لکھتاہے

’’مرداورعورت کافرق محض جنسی اعضاکی خاص شکل ،رحم کی موجودگی،حمل یا طریقۂ تعلیم ہی کی وجہ سے نہیں ہے،بلکہ یہ اختلاف بنیادی قسم کے ہیں،خودنسیجوںکی بناوٹ اورپورے نظامِ جسمانی کے اندر خاص کیمیائی مادے جوخصیۃالرحم سے مترشح ہوتے رہتے ہیں،ان اختلافات کاحقیقی باعث ہیں، صنف نازک کے ترقی کے حامی ان بنیادی حقیقتوں سے ناواقف ہونے کی بناپریہ سمجھتے ہیں کہ دونوں جنسوں کوایک ہی قسم کی تعلیم ،ایک ہی قسم کے اختیارات اورایک ہی قسم کی ذمہ داریاں ملنی چاہئیں،حقیقت یہ ہے کہ عورت ،مردسے بالکل ہی مختلف ہے، اس کے جسم کے ہرایک خلیے میں زنانہ پن کااثرموجودہوتاہے،اس کے اعضااورسب سے بڑھ کراس کے اعصابی نظام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے،فعلیاتی قوانین (Physiological Law) اتنے ہی اٹل ہیں،جتنے کہ فلکیات(Sidereal World) کے قوانین اٹل ہیں، انسانی آرزؤں سے ان کوبدلانہیں جاسکتا،ہم ان کواسی طرح ماننے پرمجبورہیں، جس طرح وہ پائے جاتے ہیں، عورتوں کوچاہیے کہ اپنی فطرت کے مطابق اپنی صلاحیتوں کی ترقی دیں اورمردوں کی نقالی کرنے کی کوشش نہ کریں۔‘‘

Man, the Unknown, p.93

عملی تجربہ بھی اس فرق کی تصدیق کررہاہے۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اب تک عورت کو مرد کے برابردرجہ نہ مل سکا۔حتیٰ کہ وہ شعبے جوخاص طورپرعورتوں کے شعبے سمجھے جاتے ہیں، وہاں بھی مرد کو عورت کے اوپر فوقیت حاصل ہے۔ میری مرادفلمی ادارے سے ہے۔ نہ صرف یہ کہ فلمی اداروں کی تنظیم تمام ترمردوں کے ہاتھ میں ہے، بلکہ اداکاری کے اعتبارسے بھی مردکی اہمیت عورت سے زیادہ ہے۔ آج (1962 ءمیں)ایک مشہورترین فلم ایکٹرایک فلم کے لیے چھ لاکھ روپے لیتاہے،جب کہ مشہور ترین فلم ایکٹرس کواسی فلم کے لیے صرف چارلاکھ ملتے ہیں۔

مگربات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔اگرہم طبیعی اورفلکیاتی قوانین کوتسلیم نہ کریں اوران کے خلاف چلناشروع کردیں تویہ صرف ایک واقعہ کاانکارہی نہیں ہوگابلکہ ہمیں اس کی بڑی قیمت بھی دینی پڑے گی۔ عورت اورمردکی جداگانہ قابلیت کونظراندازکرکے انسان نے جونظام بنایا،اس نے تمدن کے اندربہت سی خرابیاں پیداکردی ہیں ۔مثال کے طورپراس غلط فلسفے کی وجہ سے دونوں صنفوں کے درمیان جوآزادانہ اختلاط پیداہواہے، اس نے جدیدسوسائٹی میں نہ صرف عصمت کا وجود باقی نہیں رکھا،بلکہ ساری نوجوان نسل کوطرح طرح کی اخلاقی اورنفسیاتی بیماریوں میں مبتلاکردیاہے۔ آج مغربی زندگی میں یہ بات عام ہے کہ ایک غیر شادی شدہ لڑکی ڈاکٹرکے کمرہ میں داخل ہوتی ہے، اس کوسردرداوربے خوابی کی شکایت ہے،وہ کچھ دیراپنی ان تکلیفات پرگفتگوکرتی ہے،اس کے بعد ایک مردکاذکرشروع کردیتی ہے ،جس سے ابھی وہ جلدہی ملی تھی،اتنے میںڈاکٹرمحسوس کرتاہے کہ وہ کچھ رک رہی ہے،تجربہ کارڈاکٹراس کی بات سمجھ کرآگے بات شروع کردیتاہے:

Well, then he asked you to his flat. What did you say?

لڑکی جواب دیتی ہے:

How did you know? I was just going to tell you that...

اس کے بعدلڑکی جوکچھ کہتی ہے، اس کوناظرین خودقیاس کرسکتے ہیں، چنانچہ علمائے جدید خود بھی اس تلخ تجربے کے اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ آزادانہ اختلاط کے بعدعصمت وعفت کاتحفظ ایک بے معنی بات ہے۔ اس کے خلاف کثرت سے مضامین اورکتابیں شائع کی جارہی ہیں، ایک مغربی ڈاکٹر کے الفاظ ہیں:

There can come a moment between a man and a woman when control and judgment are impossible.

یعنی اجنبی مرداوراجنبی عورت جب باہم آزادانہ مل رہے ہوں توایک وقت ایسا آجاتا ہے، جب فیصلہ کرنااورقابورکھناناممکن ہوجاتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت اورمردکے آزادانہ اختلاط کی خرابیوں کومغرب کے دردمندافرادشدت سے محسوس کررہے ہیں۔ مگراس کے باوجود اس سے ا س قدر مرعوب ہیں کہ اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی، ایک نہایت قابل اور مشہور خاتون ڈاکٹرمیرین ہلیرڈ(Marrion Hiliard)نے آزادانہ اختلاط کے خلاف سخت مضمون لکھا ہے،وہ کہتی ہیں

As a doctor, I don’t believe there is such a thing as platonic relationship between a man and a woman who are alone together a good deal.

یعنی بحیثیت ڈاکٹرمیں اسے تسلیم نہیں کرسکتی کہ عورت اورمردکے درمیان بے ضرر تعلقات بھی ممکن ہیں، مگراس  کے باوجودیہی خاتون ڈاکٹر لکھتی ہیں:

’’میں اتنی غیرحقیقت پسندنہیں ہوسکتی کہ یہ مشورہ دوں کہ نوجوان لڑکے اورنوجوان لڑکیاں ایک دوسرے کابوسہ لیناچھوڑدیں،مگراکثرمائیں اپنی لڑکیوںکواس سے آگاہ نہیں کرتیں کہ بوسہ صرف اشتہاپیداکرتاہے، نہ کہ وہ جذبات کوتسکین دیتاہے۔‘‘(ریڈرز ڈائجسٹ، دسمبر1957ء)

خاتون ڈاکٹریہ کہہ کربالواسطہ طورپرفطری قانون کوتسلیم کرتی ہے کہ آزادانہ اختلاط کے ابتدائی مظاہرجومغربی زندگی میں نہایت عام ہیں، وہ جذبات میں ٹھہراؤ پیدانہیں کرتے، بلکہ اشتہا کو بڑھا کر مزید تسکین نفس کی طرف ڈھکیلتے ہیں، اوربالآخرانتہائی جنسی جرائم تک پہنچادیتے ہیں، مگراس کے باوجوداس کی سمجھ میں نہیں آتاکہ ان محرکات کوکس طرح حرام قراردے۔

یہاں میںاقوام متحدہ کے ڈیموگرافک سالنامہ1959ء کاحوالہ دوں گا، اس میں اعداد و شمار کے ذریعہ بتایاگیاہے کہ جدیددنیامیں جوصورتحال ہے ،وہ یہ کہ بچے’’اندرسے کم اور باہر سے زیادہ‘‘ پیدا ہو رہے ہیں۔ ڈیموگرافک سالنامہ کے مطابق کچھ ملکوں میں ناجائز بچوں کا تناسب ساٹھ فیصد ہے، اور بعض ممالک مثلاًپنامامیں توچاربچوں میں سے تین بچے پادریوں کی مداخلت یاسول میرج رجسٹری کے بغیرہی پیدا ہورہے ہیں،یعنی75فیصد ناجائز بچے ۔لاطینی امریکا میں اس قسم کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

اقوامِ متحدہ کے اس ڈیموگرافک سالنامہ سے معلوم ہوتاہے کہ مسلم ملکوں میں ناجائز بچوںکی پیدائش کاتناسب نفی کے برابرہے۔چنانچہ اس میں بتایاگیاہے کہ متحدہ عرب جمہوریہ(مصر) میں ناجائز بچوں کاتناسب ایک فی صدی سے بھی کم ہے،جب کہ متحدہ عرب جمہوریہ تمام مسلم ملکوں میں شاید سب سے زیادہ مغربی تہذیب سے متاثرہواہے۔مسلم ممالک دورجدیدکی اس عام وباسے محفوظ کیوں ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم ممالک مغربی ممالک کے برخلاف میں عورت اورمرد کے درمیان آزادانہ اختلاط بہت کم ہے۔ اس لیے وہاںناجائزولادت کم ہیں۔

(‘‘More Out Than In’’   مطبوعہ ہندستان ٹائمس،12ستمبر1960ء)

تعدد ازواج

اسی طرح اسلام میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کو بھی تہذیب جدیدنے بڑے زورشورکے ساتھ جہالت (ignorance)کاقانون قراردیاہے۔ مگرتجربے نے ظاہر کردیا ہے کہ اسلام کایہ اصول سماجی ضرورت کے مطابق ہے ۔یہ سماج میں پیدا ہونے والےمسئلہ کا حل، نہ کہ حکم، جس پر عمل کرنا ہر وقت ضروری ہو۔ وہ مسئلہ کیا ہے۔

 سروے بتاتے ہیں کہ باعتبار پیدائش عورت اور مرد کی تعداد تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ یعنی جتنے بچے، تقریباً اتنی ہی بچیاں ۔ مگر شرح اموات (Mortality) کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کے درمیان موت کی شرح زیادہ ہے۔ یہ فرق بچپن سے لے کر آخر عمر تک جاری رہتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مطابق، عمومی طور پر، موت کا خطرہ عمر کے ہر مرحلہ میں، عورتوں کے لیے کم پایا گیا ہے اور مردوں کے لیے زیادہ :

In general, the risk of death at any given age is less for females than for males (EB. VII/37)                                                   

اکثر حالات میں سماج کے اندر عورتوں کی تعدادکا زیادہ ہونا اور مردوں کی تعداد کا کم ہونامختلف اسباب سے ہوتا ہے۔مثلاً جنگ۔پہلی عالمی جنگ (1914-18) میں آٹھ ملین سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ شہری لوگ جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ یہ زیادہ تر مرد تھے۔ دوسری عالمی جنگ (1939-45) میں ساڑھے چھ کروڑ آدمی ہلاک ہوئے یا جسمانی طور پر ناکارہ ہو گئے۔ یہ سارے لوگ زیادہ تر مرد تھے۔ عراق، ایران جنگ میں (1979-88) میں ایران کی82 ہزار عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ عراق میں ایسی عورتوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے جن کے شوہر اس دس سالہ جنگ میں ہلاک ہوئے۔

اسی طرح مثال کے طور پر جبل اور قید کی وجہ سے بھی سماج میں مردوں کی تعداد کم اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ امریکہ کو موجودہ زمانہ میں دنیا کی مہذب ترین سوسائٹی کی حیثیت حاصل ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں ہر روز تقریباً 13لاکھ آدمی کسی نہ کسی جرم میں پکڑے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک تعداد وہ ہے جو لمبی مدت تک کے لیے جیل میں ڈال دی جاتی ہے۔ ان سزا یافتہ قیدیوں میں دوبارہ ۹۷ فیصد مرد ہی ہوتے ہیں (EB-14/1102)

اسی طرح جدید صنعتی نظام نے حادثات کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں حادثاتی موتیں روزمرہ کا معمول بن گئی ہیں۔ سڑک کے حادثے، ہوائی حادثے، کارخانوں کے حادثے اور دوسرے مشینی حادثے ہر ملک میں اور ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ جدید صنعتی دور میں یہ حادثات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اب سیفٹی انجینئرنگ (safety engineering) کے نام سے ایک مستقل فن وجود میں آ گیا ہے۔ 1967ء کے اعداد و شمار کے مطابق، اس ایک سال میں پچاس ملکوں کے اندر مجموعی طور پر 175000 حادثاتی موتیں واقع ہوئیں، یہ سب زیادہ تر مرد تھے (EB-16/137) ۔

صنعتی حادثات کی موتوں میں، سیفٹی انجینئرنگ کے باوجود، پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر، ہوائی حادثات جتنے1988ء میں ہوئے، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح تمام صنعتی ملکوں میں مستقل طور پر اسلحہ سازی کے تجربات ہو رہے ہیں۔ ان میں برابر لوگ ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔ ان ہلاک شدگان کی تعداد کبھی نہیں بتائی جاتی، تاہم یہ یقینی ہے کہ ان میں بھی تمام تر صرف مرد ہی ہیں جو ناگہانی موت کا شکار ہوتے ہیں۔

اس طرح کے مختلف اسباب کی بنا پر عملی صورت حال اکثر یہی ہوتی ہے کہ سماج میں عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہو، اور مردوں کی تعداد نسبتاً کم ہو جائے۔ دنیا کی آبادی میں مرد اور عورت کی تعداد کے فرق کو بتانے کے لیے یہاں کچھ مغربی ملکوں کے اعداد و شمار دیے جا رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا  (1984)سے لیے گئے ہیں :

COUNTRY                    MALE                  FEMALE

1. Austria                    47.07%              52.93%

2.  Burma                    48.81                 51.19

3. Germany                  48.02                 51.89

4. France                    48.99                 51.01

5. Italy                       48.89                 51.11

6. Poland                    48.61                 51.39

7. Spain                      48.94                 51.06

8. Switzerland              48.67                 51.33

9. Soviet Union             46.59                 53.03

10. United States          48.58                 51.24

انڈیا کے حوالے سے اس کی تفصیل جاننا ہو تو انڈیا ٹو ڈے (15 نومبر 1978) کی 8 صفحات کی باتصویر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں، جو اس بامعنی عنوان کے تحت شائع ہوئی ہے کہ بیوائیں، انسانیت کا برباد شدہ ملبہ :

Widows: Wrecks of humanity

اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک صورت یہ ہے کہ یہ ’’فاضل‘‘ عورتیں جنسی آوارگی یا معاشرتی بربادی کے لیے چھوڑ دی جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے ایسے مردوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں وابستہ ہو جائیں جو ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ عدل کر سکتے ہوں۔ مذکورہ بالا دو ممکن صورتوں میں سے اسلام نے دوسری صورت کا انتخاب کیا ہے۔ یعنی مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ مردوں کے لیے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت۔

تعدد ازواج کا یہ اصول جو اسلامی شریعت میں مقرر کیا گیا ہے، وہ دراصل عورتوں کو مذکورہ بالا قسم کے بھیانک انجام سے بچانے کے لیے ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے کہ عملی طور پر کوئی عورت کسی مرد کی دوسری یا تیسری بیوی بننے پر ہنگامی حالات ہی میں راضی ہو سکتی ہے، نہ کہ معمول کے حالات میں۔ بظاہر یہ ایک عام حکم ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ حکم دراصل ایک سماجی مسئلہ کے عملی حل (practical wisdom)کے طور پر وضع کیا گیا ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب، تعدد ازواج ،مطبوعہ  گڈ ورڈ بکس نئی دہلی)

تمدن

اسلام میں قتل عمدکی سزاموت ہے الایہ کہ مقتول کے ورثاء خون بہالینے پرراضی ہوجائیں،لیکن جدیددورِترقی میں جہاں مذہب کی اورتعلیمات کے خلاف ذہن پیداہوا اسی طرح سزائے قتل کے بارے میں بھی سخت تنقیدیںکی جانے لگیں،ان حضرات کاخاص استدلال یہ ہے کہ اس قسم کی سزا کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسانی جان کے ضائع ہونے کے بعددوسری انسانی جان کوبھی کھودیا جائے، پچھلے برسوں میں اکثرملکوں میں اس رجحان نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے، اور پھانسی کے بجائے قیدکی سزائیں تجویزکی جارہی ہیں۔

اسلام نے قاتل کی جوسزامقررکی ہے،اس میں دواہم ترین فائدے ہیں، ایک یہ کہ ایک شخص نے سوسائٹی کے ایک فردکوقتل کرکے جس برائی کامظاہرہ کیاہے،اس کی جڑآئندہ کے لیے کٹ جائے ،مجرم کایہ عبرتناک انجام دیکھ کردوسرے لوگ آیندہ اس قسم کی ہمت نہ کرسکیں، اسی کے ساتھ دیت کی جوصورت ہے، اس میں گویااسلام نے نتائج کالحاظ کیا ہے، مثلاًاگرکسی کے والدین بوڑھے ہوں اوران کااکلوتابیٹاقتل ہوجائے تووہ بے سہارارہ جاتے ہیں ،ایسی حالت میں قاتل کوسزائے موت بھی مل جائے توانھیںکیافائدہ ،اسلام نے ایسے والدین کی تلافی کے لیے یہ طریقہ رکھاہے کہ قاتل کے ورثاء مقتول کے والدین کوایک خاص رقم بطورخوں بہادے کرانھیں راضی کرلیں،اوروہ قاتل کومعاف کردیں،اس صورت میں مقتول کے بوڑھے والدین کومثلاًایک بڑی رقم مل جائیگی، اور وہ اس رقم سے اپنی گزربسرکاانتظام کرسکیںگے— مخصوص حالات میں ریاست کوبھی یہ حق ہے کہ وہ دیت کی رقم میںاضافہ کردے تاکہ بے سہاراوارثین کی کچھ مدد ہوجائے۔

یہ ایک نہایت حکیمانہ قانون ہے ،اورتجربہ بتاتاہے کہ وہ جہاں رائج ہواقتل کاخاتمہ ہوگیا۔اس کے برعکس، جن ممالک میں سزائے موت کومنسوخ کیاگیاہے ،وہاں جرائم گھٹنے کے بجائے اور بڑھ گئے ہیں۔ اعدادوشمارسے معلوم ہواہے کہ ایسے ممالک میں قتل کی وارداتوں میں بارہ فیصد تک اضافہ ہوگیاہے۔

چنانچہ اس کی بھی مثالیں موجودہیں کہ پہلے سزائے موت کو منسوخ کیاگیا۔اوراس کے بعد نتائج دیکھ کردوبارہ اسے بدل دیاگیا،سیلون (سری لنکا)اسمبلی نے 1956ء میں ایک قانون پاس کیا، جس کے مطابق سیلون کی حدودمیں موت کی سزاکوختم کردیاگیا،اس قانون کے نفاذکے بعدسیلون میں جرائم تیزی سے بڑھناشروع ہوگئے،ابتدا میں لوگوں کوہوش نہیں آیا مگر 26ستمبر1959ء کوجب ایک شخص نے سیلون کے وزیراعظم بندرانائک کے مکان میں گھس کر نہایت بے دردی کے ساتھ ان کو قتل کردیا توسیلون کے قانون سازوں کی آنکھ کھلی ،اوروزیراعظم کی لاش کوٹھکانے لگانے کے فورًابعدسیلون اسمبلی کاایک ہنگامی اجلاس ہوا،جس میں چارگھنٹے کے بحث ومباحثہ کے بعدیہ اعلان کیاگیاکہ سیلون کی حکومت 1956ء کے قانون کومنسوخ کرکے ملک میں سزائے موت کودوبارہ جاری کرنے کافیصلہ کرتی ہے۔

معیشت

  مذہب ،معاشیات کی جوتنظیم کرتاہے، اس میں ذرائع پیداوارپرانفرادی ملکیت کوتسلیم کیا گیا ہے بلکہ اس کاساراڈھانچہ بنیادی طورپر،انفرادی ملکیت کے اوپرقائم ہے، یہ نظام عرصہ تک باقی رہا، ({ FR 1203 }) مگرصنعتی انقلاب کے بعدیورپ میں انفرادی ملکیت کے اصول پر زبردست تنقیدیں شروع ہوئیں،یہاں تک کہ تعلیم یافتہ طبقہ کی عام فضااس کے خلاف ہوگئی، انیسویں صدی کے نصف آخراوربیسویں صدی کے نصف اول کے درمیان سوبرس تک ایسی فضارہی گویا انفرادی ملکیت ایک مجرمانہ قانون تھا،جودورِ وحشت میں انسانوں کے درمیان رائج ہوگیا،اوراب جدید علمی ترقی نے اجتماعی ملکیت کااصول دریافت کیاہے، جو معاشیات کی بہترتنظیم کے لیے اعلیٰ ترین اصول ہے۔

اس کے بعدتاریخ میں پہلی باراجتماعی ملکیت کے نظام کاتجربہ شروع ہوا،زمین کے ایک بڑے حصّے میں ا س کونافذکیاگیا،اس کے حق میں بڑے بڑے دعوے کیے گئے ،بڑی بڑی امیدیں باندھی گئیں،مگرطویل تجربہ سے ثابت ہوگیاکہ اجتماعی ملکیت کانظام نہ صرف یہ کہ غیرفطری ہونے کی وجہ سے اپنے قیام کے لیے تشددپیداکرتاہے،نہ صرف یہ کہ وہ انسان کی ہمہ جہتی ترقی میں مانع ہے، نہ صرف یہ کہ سرمایہ داری سے بھی زیادہ ایک مرکوزاورجابرانہ نظام کاموجب ہے بلکہ خودوہ زرعی اورصنعتی پیداواربھی اس میں ملکیتی نظام کے مقابلے میں کم حاصل ہوتی ہے،جس کے لیے آزادی اورہمہ جہتی ترقی کی قربانی دی گئی تھی۔

یہاںمیں روس کی مثال دوں گا،روس کی تمام زمینیں اس وقت سرکاری ملکیت میں تبدیل کی جاچکی ہیں، اورپورے ملک میں ’’اجتماعی انتظام‘‘ کے تحت کاشت کی جاتی ہے، ساری زمینیں سرکاری اور پنچایتی فارم کی صورت میں ہیں، نہ کہ نجی ملکیت کی صورت میں۔ البتہ1935ء کے فیصلہ کے مطابق ہرکسان کویہ حق دیاگیاہے کہ وہ اپنے رہائشی مکان سے متصل اپنے ذاتی استعمال کے لیے ایک تہائی یا نصف ایکڑاوربعض مخصوص صورتوں میں دوایکڑتک زمین پرقبضہ رکھ سکتاہے،اسی طرح اسے یہ بھی حق ہے کہ اپنے مکان میں محدود تعداد میں گائے ،بکری،بھیڑاورمرغی وغیرہ پالے،1961ءکے اعداد و شمار کے مطابق روس میں کل زیرکاشت رقبہ204بلین ہیکٹیر(Hectares)تھا،جس میں نجی رقبہ کی مجموعی مقدارچھ ملین ہیکٹیرتھی،یعنی کل کاشت زمین کاصرف تین فیصد حصّہ،مگر1961ء میں آلوکی پیداوار کا جو تناسب تھا،وہ حسب ذیل ہے:

 

                                زیرکاشت زمین                             پیداوار

اجتماعی رقبہ                        43,5,2,000                 3,08,00,000ٹن

نجی رقبہ                          45,26,000                  5,35,00,000ٹن

اس طرح نجی رقبہ پرپیداہونے والے آلوکی مقدارگیارہ ٹن فی ہیکٹیرتھی،جب کہ سرکاری فارموں میں یہ مقدارصرف سات ٹن فی ہیکٹیرتھی،حالانکہ سرکاری فارموں کوجدیدزرعی مشینیں، موزوں زمین اورمعدنی کھاد وغیرہ کی وہ سہولتیں حاصل تھیں جن سے نجی رقبے قدرتی طورپرمحروم تھے۔ اسی قسم کاتناسب دوسرے اجناس کی پیداوارمیں بھی پایاجاتاہے۔

 مویشیوں کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب ہے،چارہ کی کمی اورناقص دیکھ بھال کی وجہ سے سرکاری فارموں میں کثرت سے جانورمرجاتے ہیں چنانچہ صرف ایک ریاست میں 1962ء کے گیارہ مہینوںمیںمجموعی طورپرتقریباًایک لاکھ 70ہزارمویشی مرگئے،اس کے مقابلے میں ہرقسم کی دشواریوں کے باوجودنجی طورپرپالے ہوئے مویشیوں کی تعدادبڑھ رہی ہے ،اوربااعتبار تناسب وہ سرکاری جانوروں سے زیادہ مفیدثابت ہورہے ہیں، اورزیادہ پیداواردے رہے ہیں۔چنانچہ سرکاری فارم جوکل تعدادکا75 فی صدی مرغیوں اور مویشیوں کے مالک ہیں،انھوں نے نجی ذرائع کے مقابلے میں صرف دس(10) فیصد زیادہ گوشت فراہم کیااورانڈے میں تونجی پيداوارنے انھیں بہت پیچھے چھوڑیا۔ 1961ءکے اعداد و شمار ملاحظہ ہوں:

اجتماعی رقبہ                                نجی رقبہ

گوشت                           48,00,000 ٹن                         39,00,000 ٹن

دودھ                            3,4,00,000 ٹن                        2,85,00,000 ٹن

انڈا                             6,300 ٹن                               23,000 ٹن

اون                             2,87,000 ٹن                          79,000 ٹن

حتیٰ کہ یہ محدودنجی ذرائع خودحکومتی مرکزوں کوغذائی اشیاسپلائی کرتے ہیں،چنانچہ 1962ء میں صرف ایک ریاست میںحکومت نے اپنے دفاترکا26فیصد آلواور 34 فیصد انڈانجی فارموں سے حاصل کیاہے،اوراسی طرح دوسری چیزیں۔

Bulletin, Germany, November 1963

اس اجتماعی ملکیت کاآخری انجام یہ ہے کہ روس جو زارکے زمانے میں،جب کہ وہاں نجی ملکیت کانظام رائج تھا،اناج کے معاملے میں دنیاکے چندبڑے برآمدی ملکوںمیں سے تھا،اس نے 1963ء میں کناڈا،آسٹریلیااورامریکا سے پندرہ ملین ٹن گیہوں خریداہے ،اوریہ صورت حال مسلسل جاری ہے،چنانچہ 56۔1941ء میں اس نے امریکا سے بارہ لاکھ پچاس ہزارٹن غلہ خریداہے ،اسی طرح بعدکے سالوں میں بھی یہی حال دوسرے اشتراکی ملک چین کابھی ہے ۔

Bulletin, Oct. 1963

اس تجربے سے معلوم ہواکہ مذہب کاقانون جس ذہن سے نکلاہے ،وہ انسانی فطرت کوزیادہ جاننے والاہے، اوراس کے مسائل کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھتاہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کچھ جوتمدن کی تعمیرکے لیے ہمیں درکارہے، اس کا واحد اور حقیقی جواب صرف مذہب کے پاس ہے۔مذہب اعلیٰ انسانی ذہن سازی کی طرف رہنمائی کرتاہے ،وہ تمدن کے لیے موزوں ترین اساس فراہم کرتاہے۔ وہ زندگی کے ہرمعاملے میں وہ صحیح ترین بنیاددیتاہے، جس کی روشنی میں ہم زندگی کامکمل نقشہ بناسکیں۔ وہ حاکموں اورمحکوموں کے درمیان قانونی مساوات پیداکرنے کی واحدصورت ہے، وہ قانون کے لیے وہ نفسیاتی بنیادفراہم کرتاہے، جس کی عدم موجودگی میں قانون عملًابیکارہوکررہ جاتاہے،وہ سوسائٹی کے اندروہ موافق فضاپیداکرتاہے،جوکسی قانون کے نفاذ کے لیے ضروری ہے، اس طرح مذہب ہمیںوہ سب کچھ دیتاہے، جس کی ہمیں اپنے تمدن کی تعمیرکے لیے ضرورت ہے، جب کہ لامذہبیت ان میں سے کچھ بھی نہیں دیتی اورنہ حقیقتاًدے سکتی ہے ۔

 

جس زندگی کی ہمیں تلاش ہے

جرمن مفکر فریڈرش انگلس(Friedrich Engels, 1829-1895) نے کہا ہے —’’آدمی کوسب سے پہلے تن ڈھانکنے کو کپڑا اور پیٹ بھرنے کوروٹی چاہیے ،اس کے بعدہی وہ فلسفہ وسیاست کے مسائل پرغور کرسکتا ہے۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے انسان سب سے پہلے جس سوال کاجواب معلوم کرناچاہتاہے،وہ یہ سوال ہے —’’میں کیاہوں‘یہ کائنات کیاہے‘میری زندگی کیسے شروع ہوئی اورکہاں جاکرختم ہوگی‘‘ یہ انسانی فطرت کے بنیادی سوالات ہیں،آدمی ایک ایسی دنیامیں آنکھ کھولتاہے،جہاں سب کچھ ہے مگریہی ایک چیزنہیں،سورج اس کوروشنی اورحرارت پہونچاتا ہے مگروہ نہیں جانتاکہ وہ کیاہے اورکیوں انسان کی خدمت میں لگاہواہے، ہوااس کوزندگی بخشتی ہے مگرانسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اس کوپکڑکرپوچھ سکے کہ تم کون ہواورکیوں ایساکررہی ہو، وہ اپنے وجود کو دیکھتا ہے،اورنہیں جانتاکہ میں کیاہوں اورکس لیے اس دنیامیں آگیاہوں ان سوالات کا جواب متعین کرنے سے انسان کاذہن قاصرہے ،مگرانسان بہرحال ان کومعلوم کرنا چاہتا ہے، یہ سوالات معلوم کرناچاہتاہے،یہ سوالات خواہ لفظوںکی شکل میں متعین ہوکرہرشخص کی زبان پرنہ آئیں مگروہ انسان کی روح کوبے چین رکھتے ہیں، اورکبھی کبھی اس شدت سے ابھرتے ہیں کہ آدمی کوپاگل بنادیتے ہیں۔

انگلس کودنیاایک ملحدانسان کی حیثیت سے جانتی ہے،مگراس کاالحاداس کے غلط ماحول کا ردعمل تھاجوبہت بعدکواس کی زندگی میں ظاہرہوا،اس کی ابتدائی زندگی مذہبی ماحو ل میں گزری ،مگرجب وہ بڑاہوااورنظرمیں گہرائی پیداہوئی تورسمی مذہب سے بے اطمینانی پیدا ہوگئی، اپنے اس دورکاحال وہ ایک دوست کے خط میں اس طرح لکھتاہے:

’’میں ہرروزدعاکرتاہوں اورتمام دن یہی دعاکرتارہتاہوں کہ مجھ پر حقیقت آشکارا ہو جائے، جب سے میرے دل میں شکوک پیداہوئے ہیں یہی دعا کرنا میرا مشغلہ ہے، میں تمہارے عقیدے کوقبول نہیں کرسکتا،میں یہ سطریں لکھ رہاہوں اور میرا دل آنسوؤں سے امڈاچلاآرہاہے، میری آنکھیں رورہی ہیں، لیکن مجھے یہ احساس ہورہا ہے کہ میں راندۂ درگاہ نہیں ہوں، مجھے امیدہے کہ میں خداتک پہونچ جاؤں گا،جس کے دیدار کا میں دل وجان سے متمنی ہوں، اورمجھے اپنی جان کی قسم !یہ میری جستجو اور عشق کیاہے،یہ روح القدس کی جھلک ہے،اگرانجیل مقدس دس ہزارمرتبہ بھی اس کی تردیدکرے تومیں نہیں مان سکتا۔‘‘

( David Riazanov: Essays on the History of Marxism, p. 36, copied from "Max Eastman: Marx, Lenin and the Science of Revolution," p. 148, accessed from Google Book, 07.04.2020)

یہ وہی حقیقت کی تلاش کافطری جذبہ ہے جونوجوان انگلس میں ابھراتھا،مگراس کی تسکین نہ مل سکی اورمروجہ مسیحی مذہب سے غیرمطمئن ہوکروہ معاشی اورسیاسی فلسفوںمیں گم ہوگیا۔

اس طلب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک خالق اورمالک کاشعورپیدائشی طور پر پیوست ہے ،وہ اس کے لاشعورکاایک لازمی جزءہے۔’’خدامیراخالق ہے ،اورمیں اس کا بندہ ہوں‘‘یہ ایک خاموش عہدہے جوہرشخص اول روزسے اپنے ساتھ لے کراس دنیا میں آتا ہے ۔ایک پیداکرنے والے آقاومحسن کاتصورغیرمحسوس طورپراس کی رگوں میں دوڑتا رہتا ہے، اس کے بغیروہ اپنے اندرعظیم خلا محسوس کرتاہے،اس کی روح اندرسے زور کرتی ہے جس آقاکواس نے نہیں دیکھا،اس کو وہ پالے،وہ اس سے لپٹ جائے اوراپناسب کچھ اس کے حوالے کردے ۔

خداکی معرفت ملنا گویااس جذبے کے صحیح مرجع کوپالیناہے، اورجولوگ خداکو نہیں پاتے ان کے جذبات کسی دوسری مصنوعی چیزکی طرف مائل ہوجاتے ہیں، ہرشخص اپنے اندر یہ خواہش رکھنے پرمجبورہے کہ کوئی ہوجس کے آگے وہ اپنے بہترین جذبات کو نذر کردے۔ 15اگست 1947ء کوجب ہندستان کي سرکاری عمارتوں سے یونین جیک اتارکرملک کاقومی جھنڈالہرایا گیاتویہ منظردیکھ کران قوم پرستوں کی آنکھوںمیں آنسوآگئے جواپنے ملک کوآزاددیکھنے کے لیے تڑپ رہے تھے،یہ آنسودراصل آزادی کی دیوی کے ساتھ ان کے تعلق کااظہارتھا— یہ اپنے معبودکوپالینے کی خوشی تھی، جس کے لیے انھوںنے اپنی عمرکابہترین حصہ صرف کردیاتھا،اسی طرح ایک لیڈرجب ’’قوم کے باپ ‘‘کی قبر پر جاکر پھول چڑھاتاہے،اوراس کے آگے سرجھکاکرکھڑاہوجاتاہے،تووہ ٹھیک اسی عمل کودوہراتا ہے جوایک مذہبی آدمی اپنے معبودکے لیے رکوع اورسجدے کے نام سے کرتاہے، ایک کمیونسٹ جب لینن کے مجسمے کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنی ہیٹ (hat) اُتارتاہے، اوراس کے قدموں کی رفتارسست پڑجاتی ہے تواس وقت وہ اپنے معبودکی خدمت میں اپنے عقیدت کے جذبات نذرکررہاہوتاہے،اسی طرح ہرشخص مجبورہے کہ کسی نہ کسی چیزکواپنامعبودبنائے اوراپنے جذبات کی قربانی اس کے آگے پیش کرے۔

  مگرخداکے سواجن جن صورتوں میں آدمی اپنایہ نذرانہ پیش کرتاہے وہ سب شرک کی صورتیں ہیں، اورقرآن کے الفاظ میں—’’اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ‘‘(31:13)۔ یعنی شرک سب سے بڑاظلم ہے۔ ظلم کے معنی ہیں کسی چیزکواس کی اصل جگہ کے بجائے دوسری جگہ رکھ دینامثلاًڈبہ کے ڈھکن سے آپ بچے کی ٹوپی کاکام لیناچاہیں تویہ ظلم ہوگا،گویاآدمی جب اپنے نفسیاتی خلا کو پر کرنے کے لیے خداکوچھوڑکرکسی اورطرف لپکتاہے،جب وہ خداکے سواکسی اورکواپنی زندگی کا سہارا بناتاہے تووہ اپنے اصل مقام کوچھوڑدیتاہے،وہ ایک صحیح جذبے کاغلط استعمال کرتاہے۔

یہ جذبہ چوں کہ ایک فطری جذبہ ہے، اس لیے ابتداً وہ ہمیشہ فطری شکل میں ابھرتا ہے، اس کاپہلارخ اپنے اصلی معبودکی طرف ہوتاہے،مگرحالات اورماحول کی خرابیاں ا س کوغلط سمت میں موڑ دیتی ہیں، اورکچھ دنوں کے بعدجب آدمی ایک مخصوص زندگی سے مانوس ہوجاتاہے تواس میں اس کولذت ملنے لگتی ہے ،برٹرینڈرسل اپنے بچپن میں ایک کٹرمذہبی آدمی تھا،وہ باقاعدہ عبادت کرتا تھا— اسی زمانے میں ایک روزاس کے داداجان نے پوچھا ’’تمہاری پسندیدہ دعاکون سی ہے‘‘؟ چھوٹے رسل نے جواب دیا’’میں زندگی سے تنگ آگیا ہوںاوراپنے گناہوں کے بوجھ سے دبا ہوا ہوں۔‘‘اس زمانے میں خدابرٹرینڈرسل کا معبودتھا،لیکن جب رسل تیرہ برس کی عمر کو پہنچاتواس کی عبادت چھوٹ گئی اورمذہبی روایات اور پرانی قدروں سے باغیانہ ماحول کے اندر رہنے کی وجہ سے خوداس کے اندربھی ان چیزوں سے بغاوت کے رجحانات ابھرنے لگے، اوربالآخر برٹرینڈرسل ایک ملحدانسان بن گیا، جس کی محبوب ترین چیزیں ریاضی اورفلسفہ تھی۔ 1959ء کاواقعہ ہے،بی،بی،سی لندن پرایک بات چیت پروگرام میں فری مین نے رسل سے پوچھا—’’کیاآپ نے مجموعی طورپرریاضی اورفلسفے کے شوق کومذہبی جذبات کانعم البدل پایا ہے؟‘‘ رسل نے جواب دیا’’جی ہاں، یقیناً میں چالیس برس کی عمرتک اس اطمینان سے ہم کنار ہوگیا تھا، جس کے متعلق افلاطون نے کہا ہے کہ آپ ریاضی سے حاصل کرسکتے ہیں— یہ ایک ابدی دنیاتھی،وقت کی قیدسے آزاد دنیا،مجھے یہاں مذہب سے ملتاجلتاایک سکون نصیب ہوگیا۔‘‘

برطانیہ کے اس عظیم مفکرنے خداکواپنامعبودبنانے سے انکارکردیا۔مگرمعبودکی ضرورت سے پھربھی وہ بے نیازنہ رہ سکا،اورجس مقام پرپہلے اس نے خداکوبٹھارکھاتھا،وہاںریاضی اورفلسفے کو بٹھانا پڑا،اور یہی نہیں بلکہ ریاضی اورفلسفے کے لیے وہ صفات بھی تسلیم کرنی پڑیںجوصرف خداہی کی صفت ہوسکتی ہے۔ابدیت اوروقت کی قیدسے آزادی !کیوں کہ اس کے بغیراسے مذہب سے ملتاجلتاوہ سکون نہیں مل سکتاتھا،جودراصل اس کی فطرت تلاش کررہی تھی۔

’’نہرو رکوع میں ‘‘—اگریہ خبرکسی دن اخبارمیںچھپے توکسی کویقین نہیں آئے گاکہ یہ واقعہ ہے لیکن ہندستان ٹائمس(دہلی) کی 3اکتوبر1963ء کی اشاعت کے آخری صفحہ پرشائع شدہ تصویر اس کی تصدیق کررہی ہے ،اس تصویرمیں نظرآرہاہے کہ ہندستان کے سابق وزیراعظم جواہرلال نہرو دوزانوہوکراورہاتھ جوڑکررکوع کی مانند جھکے ہوئے ہیں، یہ گاندھی جینتی کے موقع کی تصویر ہے، اور دہلی کے نہروراج گھاٹ میں گاندھی سمادھی پرقوم کے باپوکوخراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔

اس قسم کے واقعات ہرسال اورہرروزساری دنیامیں ہوتے ہیں ،لاکھوں ایسے لوگ جو خدا کو نہیں مانتے اورپرستش کوبے معنی چیزسمجھتے ہیں— وہ اپنے خودساختہ بتوں کے آگے جھک کراپنے اندرونی جذبۂ عبودیت کوتسکین دیتے ہیں،یہ حقیقت ہے کہ ’’الٰہ‘‘ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے،اوریہی اس کاثبوت ہے کہ وہ حقیقی ہے،انسان اگرخداکے سامنے نہ جھکے تواس کودوسرے الہٰوںکے سامنے جھکناپڑے گا،کیوں کہ ’’الٰہ‘‘ کے بغیراس کی فطرت اپنے خلا کو پُر نہیں کرسکتی۔

مگربات صرف اتنی نہیں ہے، اس سے آگے بڑھ کرمیں کہتاکہ جولوگ خداکے سواکسی اور کو اپنامعبودبناتے ہیں،وہ ٹھیک اسی طرح حقیقی سکون سے محروم رہتے ہیں، جیسے کوئی بے بچہ ماں پلاسٹک کی گڑیاخریدکربغل میں دبالے اوراس سے تسکین حاصل کرناچاہے،ایک ملحدانسان خواہ وہ کتناہی کامیاب کیوں نہ ہو، اس کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں ،جب وہ سوچنے پرمجبورہوتاہے کہ حقیقت اس کے سواکچھ اورہے جومیں نے پائی ہے۔

آزادی سے بارہ سال پہلے 1935ءمیں جب پنڈت جواہرلا ل نہرو نے جیل خانے میں اپنی آپ بیتی مکمل کی تواس کے آخرمیں انھوں نے لکھا:

’’میں محسوس کرتاہوںکہ میری زندگی کاایک باب ختم ہوگیااوراب اس کا دوسرا باب شروع ہوگا،اس میں کیاہوگا،اس کے متعلق میں کوئی قیاس نہیں کرسکتا، کتاب زندگی کے اگلے ورق سربمہر ہیں۔‘‘

Nehru— An Autobiography, London, 1953, p. 597

پنڈت نہروکی زندگی کے اگلے اوراق کھلے تومعلوم ہواکہ وہ دنیاکے تیسرے سب سے بڑے ملک کے وزیراعظم ہیں، اوردنیاکی آبادی کے چھٹے حصہ پربلاشرکت حکومت کررہے ہیں، مگر اس کامیابی نے نہروکومطمئن نہیںکیااوراپنے انتہائی عروج کے زمانے میں بھی وہ محسوس کرتے رہے کہ کتابِ زندگی کے مزیدکچھ اوراق ہیںجوابھی تک بندہیں، اوروہی سوال آخرعمرمیں بھی ان کے ذہن میں گھومتا رہا، جس کولے کرہرانسان پہلے روز پیدا ہوتا ہے۔چنانچہ جنوری 1964ء کے پہلے ہفتہ میں مستشرقین کی بین الاقوامی کانفرنس نئی دہلی میں ہوئی، جس میں ہندوستان اوردوسرے ملکوں کے بارہ سوڈیلی گیٹ شریک ہوئے،پنڈت نہرونے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا:

’’میں ایک سیاست داں ہوں اورمجھے سوچنے کے لیے وقت کم ملتاہے پھر بھی بعض اوقات میں یہ سوچنے پرمجبورہوجاتاہوں کہ آخریہ دنیاکیاہے،کس لیے ہے،ہم کیا ہیں اور کیاکررہے ہیں،میرایقین ہے کہ کچھ طاقتیں ہیںجوہماری تقدیرکو بناتی ہیں۔‘‘

National Herald, Jan 6, 1964

یہ ایک عدم اطمینان ہے،جوان تمام لوگوں کی روحوں پرگہرے کہرکی طرح چھایا رہتا ہے، جنھوںنے خداکواپناالٰہ اورمعبوبنانےسے انکارکیا۔دنیاکی مصروفیتوںاوروقتی دلچسپیوں میں عارضی طور پرکبھی ایسامحسوس ہوتاہے کہ وہ اطمینان سے ہم کنار ہیں،مگرجہاں یہ مصنوعی ماحول ختم ہوا، حقیقت اندر سے زورکرناشروع کردیتی ہے ،اورانھیں یاددلاتی ہے کہ وہ سچے اطمینان سے محروم ہیں۔

خداسے محروم قلوب کایہ حال صرف ایک دنیوی بے اطمینانی کامعاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس سے بہت زیادہ اہم ہے ،یہ چندروزہ مسئلہ نہیں بلکہ دائمی مسئلہ ہے، یہ دراصل اس تاریک اوربے سہارازندگی کے آثارہیں،جس کے کنارے وہ کھڑاہواہے ،یہ اس ہولناک زندگی کی ابتدائی گھٹن ہے ،جس میں ایسے ہرآدمی کوموت کے بعدداخل ہوناہے، اوراس خطرے کا ایک پیشگی الارم ہے، جس میں اس کی روح کوبالآخر مبتلاہوناہے ،مختصر یہ کہ وہ اس جہنم کادھواں ہے جوہرکافرومشرک کے لیے تیارکی گئی ہے گھرمیں آگ لگ جائے تواس کادھواں سوتے ہوئے آدمی کے دماغ میں گھس کر اس کوآنے والے خطرے سے باخبرکرتاہے،اگروہ دھوئیں کی گھٹن سے جگ گیاتواپنے آپ کو بچالے جائے گا،لیکن جب شعلے قریب آجائیں تووہ انتباہ کاوقت نہیں ہوتا،بلکہ وہ ہلاکت کافیصلہ ہوتا ہے ،جواس کوچاروں طرف سے گھیرلیتاہے،اس کامطلب یہ ہوتاہے کہ تمہاری بے حسی اوربے خبری نے تمہارے لیے مقدرکردیاہے کہ تم آگ میں جلو۔

کیاکوئی ہے جووقت سے پہلے بیدارہوجائے ،کیوں کہ بیداری وہی ہے ،جووقت سے پہلے ہو،وقت پربیدارہونے کاکوئی فائدہ نہیں۔

میک گل یونیورسٹی کے پروفیسرمائیکل بریچر (Michael Brecher) نے جواہر لال نہرو کی سیاسی سوانح حیات لکھی ہے، اس سلسلے میں مصنف نے پنڈت نہروسے ملاقات بھی کی تھی،نئی دہلی کی ایک ملاقات میں 13جون1956ء کوانھوں نے پنڈت نہروسے سوال کیا:

’’آپ مختصرطورپرمجھے بتائیں کہ آپ کے نزدیک اچھے سماج کے لیے کیاچیزیں ضروری ہیں، اورآپ کابنیادی فلسفۂ زندگی کیاہے؟‘‘ 

ہندستا ن کے سابق وزیراعظم نے جواب دیا:

’’میں کچھ معیاروں کاقائل ہوں،آپ ان کواخلاقی معیار(moral standards) کہہ لیجیے،یہ معیارہرفرداورسماجی گروہ کے لیے ضروری ہیں، اگروہ باقی نہ رہیں توتمام مادی ترقی کے باوجودآپ کسی مفیدنتیجے تک نہیں پہنچ سکتے،ان معیاروں کوکیسے قائم رکھا جائے، یہ مجھے نہیں معلوم،ایک تومذہبی نقطۂ نظرہے، لیکن یہ اپنے تمام رسوم اور طریقوں کے ساتھ مجھے تنگ نظرآتاہے،میں اخلاقی اورروحانی قدروںکومذہب سے علیٰحدہ رکھ کر بہت اہمیت دیتا ہوں، لیکن میں نہیں جانتاکہ ان کو ماڈرن زندگی میں کس طرح قائم رکھاجاسکتاہے، یہ ایک مسئلہ ہے۔‘‘

Nehru  A Political Biography, London, 1959, p. 607-8

یہ سوال وجواب جدید انسان کے اس دوسرے خلاکوبتاتاہے ،جس میں آج وہ شدت سے گرفتار ہے، افرادکودیانت واخلاق کے ایک خاص معیارپرباقی رکھناہرسماجی گروہ کی ایک ناگزیر ضرورت ہے اس کے بغیر تمدن کانظام صحیح طورپربرقرارنہیں رہ سکتا،مگرخداکوچھوڑنے کے بعدانسان کو نہیں معلوم کہ وہ اس ضرورت کوکیسے پوراکرے سیکڑوں سال کے تجربے کے بعدوہ ابھی بدستور تلاش کی منزل میں ہے،پبلک اورحکام کے درمیان عمدہ تعلقات پیدا کرنے کے لیے خوش اخلاقی کا ہفتہ (Courtesy Week) منایاجاتاہے،مگراس کے بعدبھی جب سرکاری ملازموں کي افسرانہ ذہنیت ختم نہیںہوتی تومعلوم ہوتاہے کہ یہ مقصد اس طرح حاصل نہیںہوتا ہے کہ ہم ڈکشنری سے  ’’اخلاق‘‘ کا لفظ نکال کر لوگوں کے سامنے رکھ دیں۔ بے ٹکٹ مسافروں کي بڑھتی ہوئی تعدادکوروکنے کے لیے تمام اسٹیشنوں پربڑے بڑے پوسٹرلگائے جاتے ہیں— بے ٹکٹ سفرکرناسماجی گناہ ہے:

Ticketless travel is a social evil

مگرجب اس کے باوجودبے ٹکٹ سفرختم نہیں ہوتاتویہ ثابت ہوجاتاہے کہ’’سماجی گناہ‘‘ کالفظ کا حوالہ وہ احساس پیدانہیںکرسکتا،جونظم وضبط کی تعمیل کے لیے محرک بن سکے،پریس کے ذریعہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ جرم کاانجام اچھانہیں ہوتا(crime does not pay) مگرجرائم بڑھتی ہوئی رفتاربتاتی ہے کہ دنیوی نقصان کے اندیشہ میںاتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ آدمی کوجرم سے باز رکھے، تمام دفتروں کی دیواریں مختلف زبانوں کے ان الفاظ سے رنگین کردی جاتی ہیں—’’رشوت لینااورشوت دیناپاپ ہے‘‘۔ مگرجب ایک شخص دیکھتاہے کہ ہرمحکمے میں عین انھیںالفاظ کے نیچے رشوت کاکاروبارپورے زورشورسے جاری ہے تووہ یہ اعتراف کرنے پرمجبورہوتاہے کہ اس قسم کے سرکاری پروپیگنڈہ رشوت کوروکنے میں کسی درجہ میں بھی مفیدنہیں ہیں، ریل کے تمام ڈبوں میں اس مضمون کے کتبے لگائے جاتے ہیں — ’’ریلوے قوم کی ملکیت ہے، اس کانقصان پوری قوم کا نقصان ہے‘‘۔مگراس کے باوجودجب لوگ کھڑکیوں کے شیشے توڑڈالتے ہیں،اوربجلی کے بلب غائب کردیتے ہیں،تویہ اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ’’قوم‘‘کے مفاد میںاتنازورنہیں ہے کہ اس کی وجہ سے ایک شخص اپنے ذاتی مفادکوقربان کردے،اجتماعی ذرائع کوذاتی مفادکے لیے استعمال کرناملک وقوم سے غداری ہے‘‘۔ ایک طرف لیڈروں اورحکمرانوں کی زبان سے یہ ا علان ہورہاہے،دوسری طرف بڑے بڑے قومی منصوبے اس لیے ناکام ہورہے ہیں کہ سرمایہ کابڑاحصہ اصل منصوبہ پرلگنے کے بجائے متعلقہ کارکنوں کی تحویل میں چلاجاتاہے، اسی طرح ساری قومی زندگی کی انتہائی کوشِش کے باوجودان معیاروں سے محروم ہوگئی ہے جوقومی تعمیر کے لیے ضروری ہیں، اوران معیاروں کو پیدا کرنے کے لیے جتنے ذرائع استعمال کیے گئے وہ سب کے سب قطعی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

یہ علامتیں اس بات کاثبوت ہیں کہ بے خداتہذیب نے انسانیت کی گاڑی کودلدل میں لا کر ڈال دیاہے، اس کو اس پٹری سے محروم کردیاہے،جس کے اوپرچل کروہ اپناسفربحسن وخوبی طے کر سکتی ہے،زندگی کی کشتی بے لنگر اوربغیربادبان ہوگئی ہے، اس کاواحدحل یہ ہے کہ انسان خداکی طرف پلٹے ،وہ زندگی کے لیے مذہب کی اہمیت کوتسلیم کرے، یہی وہ تنہا بنیاد ہے، جس پرزندگی کی بہتر تعمیر ممکن ہے، اس کے سواکسی بھی دوسری بنیادپرزندگی کی تعمیرنہیں کی جاسکتی۔

ہندستان میں امریکا کے سابق سفیرمسٹرچسٹرباولز(Chester Bowles)لکھتے ہیں:

’’زیرترقی ممالک صنعتی ترقی حاصل کرنے کے سلسلے میں دوطرح کے مسائل سے دوچار ہیںاوردونوں نہایت پیچیدہ ہیں، ایک یہ سرمایۂ خام اشیا اورفنی مہارت جوانھیں حاصل ہیں ،ان کوکس طرح زیادہ بہتر طورپراستعمال کریں— دوسراپیچیدہ مسئلہ وہ ہے جس کاتعلق عوام اورادارہ سے ہے، صنعت کوتیزی سے آگے بڑھانے کے ساتھ ہمیں یہ تیقن بھی حاصل کرناہے کہ وہ جتنی خرابیوں کودورکرے اس سے زیادہ خرابیاں پیدانہ کردے ،مہاتماگاندھی کے الفاظ میں ’’سائنسی معلومات اوردریافتیں محض حرص کوبڑھانے کااوزارثابت ہوسکتی ہیں،اصل قابل لحاظ چیزانسان ہے۔‘‘

The Making of a Society, Delhi, 1963. p 68-69

باولزکے الفاظ میں عوام گویاوہ ماحول ہیں ،جس کے اندرترقیاتی پروگرام جاری ہوتے ہیں۔ ترقی کے ضروری سامان— سرمایہ اورفنی مہارت وغیرہ تمدنی اورسیاسی خلامیں کارگرثابت نہیں ہو سکتے۔(ص31)

یہ خلاکیسے پُرہواوروہ ماحول کیسے بنے جس میں عوام اورسرکاری کارکن دیانتداری اوراتحاد کے ساتھ ترقیاتی کاموں میں اپنے آپ کوصرف کریں، اس سوال کاکوئی جواب جدید مفکرین کے پاس نہیں ہے، اورحقیقت یہ ہے کہ بے خداتہذیب کے ماحول میں نہیں ہوسکتا،بے خداتہذیب کے اندر ہر ترقیاتی اسکیم ایک زبردست تضادکاشکارہوتی ہے، اوروہ یہ کہ اس کاشخصی نظریہ اس کے سماجی تصورسے ٹکراتاہے،اس کااجتماعی پروگرام یہ ہے کہ ایک پرامن اورخوشحال سماج کی تعمیرکی جائے، مگراس کے ساتھ اس کے مفکرین جب یہ کہتے ہیں—’’انسان کامقصدمادی خوشی حاصل کرنا ہے‘‘ تووہ اپنی پہلی بات کی تردیدکردیتے ہیں، وہ پورے سماج کوجیسادیکھناچاہتے ہیں،سماج کے افراد کواس کے خلاف بنارہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی کسی اسکیم کواب تک اپنے مقصدمیں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوئی،تمام مادی فلسفے زندگی کابہترنظام بنانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

مادّی خوشی کوزندگی کامقصدبنانے کامطلب یہ ہے کہ ہرشخص اپنی اپنی خواہش پوری کرنا چاہے، لیکن اس محدوددنیامیں یہ ممکن نہیں ہے کہ ہرشخص دوسرے کومتاثرکیے بغیریکساں طورپراپنی اپنی خواہش پوری کرسکے، نتیجہ یہ ہے کہ ایک آدمی جب اپنی تمام خواہشیں پوری کرناچاہتاہے تووہ دوسروں کے لیے مصیبت بن جاتاہے،فردکی خوشی،سماج کی خوشی کودرہم برہم کردیتی ہے، ایک محدود آمدنی والا شخص جب دیکھتاہے کہ اس کی اپنی آمدنی اس کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہو رہی ہے تووہ حق ماری ،بددیانتی ،چوری،رشوت اورغبن کے ذریعہ اپنی آمدنی کی کمی کو پورا کرتا ہے، مگر اس طرح جب وہ اپنی خواہش پوری کرلیتاہے تووہ سماج کواسی محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے،جس میں وہ خود پہلے مبتلاتھا۔

جدیددنیاایک عجیب وغریب قسم کی نہایت خطرناک مصیبت میں مبتلاہے،جس کاتاریخ میں کبھی تجربہ نہیں ہواتھا۔یہ جرم کم سنی (juvenile delinquency) ہے،جوجدید زندگی کاایک لازمہ بن چکاہے۔ یہ کمسن مجرمین کہاں سے پیداہوتے ہیں، ان کی پیدائش کاسرچشمہ وہی مادی خوشی کو پوراکرناہے۔ایک شادی شدہ جوڑاکچھ دنوں ساتھ رہنے کے بعدایک دوسرے سے اکتا جاتے ہیں، اوراپنی جنسی خوشی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ نیاجسم اورنیاچہرہ تلاش کریں۔ اس وقت وہ طلاق لے  کرایک دوسرے سے علیٰحدہ ہوجاتے ہیں۔ اس علیٰحدگی کی قیمت سماج کو ایسے بچوں کی شکل میں ملتی ہے،جواپنے ماں باپ کی موجودگی میں’’یتیم‘‘ہوگئے ہیں،یہ بچے والدین سے چھوٹنے کے بعد ماحول کے اندراپنی کوئی جگہ نہیں پاتے،ایک طرف وہ بالکل آزاد ہوتے ہیں،اوردوسری طرف ماحول سے بیزار،یہ صورت ِحال بہت جلدانھیں جرائم تک پہنچادیتی ہے،سرالفرڈڈیننگ (Alfred Denning, 1899-1999) نے بہت صحیح لکھاہے کہ ’’اکثرکمسن اور نابالغ مجرمین اجڑے ہوئے گھرانوں (broken homes)سے نمودارہوتے ہیں۔‘‘

The Changing Law, p.111

اسی طرح موجودہ زندگی میں تمام خرابیوںکی جڑ صرف یہ واقعہ ہے کہ جدید دنیا کا انفرادی فلسفہ اوراس کے اجتماعی مقاصدایک دوسرے سے متضادہیں،وہ تمام واردات جن کوہم ناپسندکرتے ہیں، اوران کوجرم، برائی اوربدعنوانی کہتے ہیں، وہ دراصل کسی شخص یاپارٹی یاقوم کی اپنی مادّی خوشی حاصل کرنے کی کوشش ہی ہوتی ہے،اوراسی کوشش کاسماجی انجام قتل، بدکاری، لڑائی،اغوا، جعل سازی ،ڈاکہ،لوٹ کھسوٹ،جنگ اوراس طرح کی دوسری بے شمار صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔

یہ تضادبتاتاہے کہ زندگی کامقصد اس کے سواکچھ اورنہیں ہوسکتاکہ دنیاکی مادّی چیزوں کے بجائے آخرت میں خداکی خوشنودی حاصل کرنے کومقصدبنایاجائے ،یہی وہ مقصد ہے، جو فرد اور سماج کوباہمی تضادسے بچاکرموافق ترقی کی راہ پرگامزن کرتاہے— نظریۂ آخرت کی یہ خصوصیت جہاں یہ ثابت کرتی ہے کہ وہی وہ واحدبنیادہے،جوترقیاتی اسکیموں کوصحیح طورپرکامیاب کرسکتی ہے، اسی کے ساتھ وہ يه بھی ثابت کرتی ہے کہ وہی حقیقی مقصد ہے، کیوں کہ غیرحقیقی چیززندگی کے لیے اتنی اہم  اوراس سے اتنی ہم آہنگ نہیں ہوسکتی۔

موجودہ زمانے میںمیڈیکل سائنس میں حیرت انگیزترقی ہوئی ہے۔ اب یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ سائنس موت اوربڑھاپے کے سواہرجسمانی تکلیف پرقابوپاسکتی ہے، مگر اسی کے ساتھ بیماری کی اقسام میں نہایت تیزی سے ایک نئے نام کااضافہ ہورہاہے— اعصابی بیماری(nervous diseases)۔ یہ’’اعصابی بیماریاں‘‘ کیاہیں؟یہ دراصل اسی تضاد کا ایک عملی ظہور ہے،جس میں جدید سوسائٹی شدت سے مبتلاہے۔مادّی تہذیب نے انسان کے ا س حصّے کوجونمکیات معدنیات اور گیسوں کامرکب ہے،ترقی دینے کی کافی کوشش کی۔ مگرانسان کاوہ حصّہ جوشعور،خواہش اورارادہ پر مشتمل ہے، اس کی غذااس کو فراہم نہ کرسکا۔نتیجہ یہ ہوا کہ پہلاحصہ تو بظاہر فربہ اورخوش منظر دکھائی دینے لگا۔ مگردوسرا حصّہ جواصل انسان ہے، وہ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلاہوگیا۔

موجودہ امریکا کے بارے میں وہاں کے ذمہ دارذرائع کااندازہ ہے کہ وہاں کے بڑے شہروں میں 80فیصد مریض ایسے ہیں جن کی بیماری بنیادی طور پر نفسیاتی سبب (psychic causation) کے تحت واقع ہوتی ہے۔ماہرین نفسیات نے ا س سلسلے میں جوتحقیقات کی ہیں،ان سے پتہ چلتاہے کہ ان بیماریوں کے پیداہونے کے چند اہم ترین وجوہ یہ ہیں— جرم، ناراضگی، اندیشہ، پریشانی، مایوسی، تذبذب، شبہ، حسد، خودغرضی اور اکتاہٹ(boredom)، وغیرہ۔ یہ سارے عوارض، اگرگہرائی کے ساتھ غورکیجیے توبے خدا زندگی کانتیجہ ہیں۔ خداپرایمان آدمی کے اندروہ اعتماد پیدا کرتا ہے، جومشکلات میں اس کے لیے سہارابن سکے،وہ ایسابرترمقصداس کے سامنے رکھ دیتاہے، جس کے بعد وہ چھوٹے چھوٹے مسائل کونظراندازکرکے اس کی طرف بڑھ سکے،وہ اس کوایسامحرک دیتاہے، جو  سارے اخلاقی محاسن کی واحدبنیادہے،وہ عقیدے کی وہ طاقت دیتاہے ،جس کے متعلق ڈاکٹر سرولیم اوسلر(Sir William Osler, 1849-1919) نے کہاہے’’وہ ایک عظیم قوت محرکہ (great moving force)ہے،جس کونہ کسی ترازومیں تولا جاسکتا ہے، اور نہ لیبارٹری میں اس کی آزمائش کی جاسکتی ہے۔‘‘یہی عقیدے کی طاقت دراصل نفسیاتی صحت کاخزانہ ہے،جونفسیات اس سرچشمہ سے محروم ہووہ’’بیماریوں‘‘ کے سواکسی اورانجام سے دوچارنہیں ہوسکتی ،یہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ وقت کے ماہرین نے نفسیاتی یااعصابی عوارض کاکھوج لگانے میں توکمال درجے کی ذہانت کاثبوت دیاہے،مگران نودریافت بیماریوں کاصحیح علاج تجویزکرنے میںوہ سخت ناکام ہوئے ہیں، ایک عیسائی عالم کے الفاظ میں ’’نفسیاتی علاج کے ماہرین (Psychiatrists) صرف اس تالے کی باریک تفصیلات بتانے میں اپنی کوشِش صر ف کررہے ہیں، جوہمارے اوپرصحت کے دروازے بندکرنے والاہے۔‘‘

جدیدمعاشرہ بیک وقت دومتضادعمل کررہاہے،ایک طرف وہ مادّی سازوسامان فراہم کرنے میں پوری قوت صرف کررہاہے،دوسری طرف مذہب کوترک کرکے وہ حالات پیدا کررہا ہے،جس سے زندگی طرح طرح کے عذاب میںمبتلاہوجائے،وہ ایک طرف دوا کھلا رہا ہے، اور دوسری جانب زہرکاانجکشن دے رہاہے،یہاںمیں ایک امریکی ڈاکٹر ارنسٹ اڈولف (Paul Ernest Adolph)کاایک اقتباس نقل کروں گا،جواس کے سلسلے میں ایک دلچسپ شہادت فراہم کرتاہے:

’’جن دنوں میں میڈیکل اسکول میں زیرتعلیم تھا،میں ان تبدیلیوں سے آگاہ ہوا جوزخم ہوجانے کی صورت میں جسم کے اخلاط (body tissues)میں رونماہوتی ہیں،خوردبین کے ذریعہ نسیجوں کامطالعہ کرتے ہوئے میں نے دیکھاکہ نسیجوں پر جو مختلف موافق اثرات کے واقع ہونے سے زخم کااطمینان بخش اندمال ہوجاتاہے، اس کے بعدجب تعلیم ختم کر کے میں عملاًڈاکٹری کے پیشے میں داخل ہواتومجھے اپنے اوپر بڑا اعتمادتھاکہ میں زخم اور اس کے ٹھیک کے طریقوں کواس حدتک جانتاہوں کہ میں یقینی طورپرموافق نتیجہ پیدا کرسکتا ہوں جب کہ میں اس کے ضروری طبی وسائل مہیا کرکے اس کواستعمال میں لاؤں، لیکن جلد ہی میری اس خوداعتمادی کوصدمہ پہنچا، مجھے محسوس ہوا کہ میں نے اپنی میڈیکل سائنس میں ایک ایسے عنصرکو نظرانداز کردیا تھا،جوسب سے زیادہ اہم ہے — یعنی خدا۔

اسپتال میں جن مریضوں کی نگرانی میرے سپردکی گئی ان میں ایک ستّر(70) سال کی بوڑھی عور ت تھی،جس کاکولھازخمی ہوگیاتھا،ايکسرے تصاویرکے معائنہ سے معلوم ہواکہ اس کی نسیجیں(tissues)بڑی تیزی سے ٹھیک ہورہی ہیں،میں نے اس سرعت کے ساتھ شفایابی پراس کومبارکبادپیش کی،انچارج سرجن نے مجھے ہدایت کی کہ اس خاتون کو 24گھنٹے میں رخصت کردیاجائے،کیوں کہ اب وہ کسی سہارے کے بغیرچلنے پھرنے کے قابل ہوگئی ہے۔

اتوارکادن تھا، اس کی بیٹی ہفتہ وارملاقات کے معمول کے مطابق اسے دیکھنے آئی، میں نے اس سے کہاکہ چوں کہ اس کی ماں اب صحت یاب ہے، اس لیے وہ کل آکراسے اسپتال سے گھرلے جائے ،لڑکی اس کے جواب میںکچھ نہیں بولی اورسیدھی اپنی ماں کے پاس چلی گئی،اس نے اپنی ماں کوبتایاکہ اس نے اپنے شوہرسے اس کے بارے میں مشورہ کیا ہے، اوریہ طے ہواہے کہ وہ اس کواپنے گھرنہ لے جاسکیں گے، اس لیے زیادہ بہترانتظام کی صورت یہ ہے کہ اس کوکسی اولڈ ایج ہوم (Old People's Home)میں پہنچا دیا جائے۔

چندگھنٹوں کے بعدجب میں اس بڑھیاکے پاس گیاتومیں نے دیکھاکہ بڑی تیزی کے ساتھ اس پرجسمانی انحطاط طاری ہورہاہے،چوبیس گھنٹے کے اندرہی وہ مرگئی — کولھے کے زخم کی وجہ سے نہیں بلکہ دل کے صدمے کی وجہ سے:

Not of her broken hip, but of a broken heart

ہم نے ہرقسم کی ممکن طبّي امداداسے پہنچائی،مگروہ جانبرنہ ہوسکی،اس کے کولھے کی ٹوٹی ہوئی ہڈی توبالکل درست ہوچکی تھی ،مگراس کے ٹوٹے ہوئے دل کاکوئی علاج نہ تھا، وٹامن، معدنیات اورٹوٹی ہوئی ہڈی کواپنی جگہ لانے کے لیے سارے ذرائع استعمال کرنے کے  باوجودوہ صحت یاب نہیں ہوئی، یقینی طورپراس کی ہڈیاں جڑچکی تھیں، اوروہ ایک مضبوط کولھے کی مالک ہوچکی تھی،مگروہ بچ نہ سکی،کیوں،اس لیے کہ اس کی صحت کے لیے اہم ترین عنصرجودرکارتھا،وہ وٹامن نہیں تھا،نہ معدنیا ت تھے اورنہ ہڈیوں کا جڑنا تھا، یہ صرف امنگ(hope)تھی،اورجب زندگی کی امنگ ختم ہوگئی توصحت بھی رخصت ہوگئی۔

اس واقعہ نے مجھ پرگہرااثرکیا،کیوں کہ اس کے ساتھ مجھے شدیداحساس تھاکہ اس بوڑھی خاتون کے ساتھ ہرگزیہ حادثہ پیش نہ آتا،اگریہ خاتون خدائی امید (God of Hope) سے آشناہوتی،جس پرایک عیسائی کی حیثیت سے میں اعتقاد رکھتاہوں۔‘‘

The Evidence of God, p.212-14

اس مثال سے اندازہ ہوتاہے کہ جدیدترقی یافتہ دنیاکس قسم کے تضادسے دوچار ہے، وہ ایک طرف سارے علوم کواس نہج پرترقی دے رہی ہے ،جس سے خداکاوجودحرف غلط ثابت ہوجائے ،تعلیم وتربیت کے پورے نظام کواس ڈھنگ سے چلایاجارہاہے،جس سے خدااورمذہب کے احساسات دلوں سے رخصت ہوجائیں،ا س طرح روح— اصل انسان— کوموت کے خطرے میں مبتلاکرکے اس کے جسم— مادی وجود — و ترقی دینے کی سعی کی جارہی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ عین ا س وقت جب کہ بہترین ماہرین اس کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کوجوڑنے میں کامیابی حاصل کرچکے ہوتے ہیں ،عقیدے کی اندرونی طاقت کی محرومی کی وجہ سے اس کادل ٹوٹ جاتاہے،اوربظاہرجسمانی صحت کے باوجودوہ موت کے آغوش میں چلاجاتاہے۔

یہی وہ تضادہے، جس نے آج پوری انسانیت کوتباہ کررکھاہے،خوش پوش جسم حقیقی سکون سے محروم ہیں،عالی شان عمارتیں اجڑے ہوئے دلوں کامسکن ہیں،جگمگاتے ہوئے شہرجرائم اورمصائب کامرکزہیں،شان دارحکومتیں اندرونی سازش اوربے اعتمادی کاشکار ہیں، بڑے بڑے منصوبے کردار کی خامی کی وجہ سے ناکام ہورہے ہیں— غرض مادّی ترقیات کے باوجودانسان کی حقیقی زندگی بالکل اجڑگئی ہے، یعنی روحانی زندگی، اوریہ سب نتیجہ ہے صرف ایک چیز کا — انسان نے اپنے خدا کو چھوڑ دیا، اس نے ا س سرچشمہ سے اپنے آپ کومحرو م کرلیا،جواس کے خالق ومالک نے اس کے لیے مہیاکیاتھا۔ انسانی فطرت کا تقاضا ایک روحانی چیز۔ پھر ایک مادی چیز ایک روحانی سوال کا جواب کس طرح بن سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب صرف خداوند تعالی ہے۔ مخلوق اپنے خالق کی تلاش میں ہے، اور خالق کو پانے کے بعد ہی مخلوق کو سکون حاصل ہوسکتاہےاَلا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ القُلُوبُ(13:28)۔

نفسیاتی امراض کی نوعیت جواوپربیان کی گئی ہے، وہ ا تنی واضح حقیقت ہے کہ خوداس فن کے علما نے ا س کااعتراف کیاہے، نفسیات کے مشہورعالم پروفیسریُنگ (Carl Gustav Jung, 1875-1961) نے اپنی زندگی بھرکاتجربہ ان الفاظ میں بیان کیاہے

’’پچھلے تیس برسوں میں روئے زمین کے تمام متمدن ممالک کے لوگوں نے مجھ سے (اپنے نفسیاتی امراض کے سلسلے میں) مشورہ حاصل کرنے کے لیے رجوع کیاہے، میرے مریضوں میں زندگی کے نصف آخرمیں پہونچنے والے تمام لوگ— جو کہ 35سال کے بعدکہی جاسکتی ہے— کوئی ایک شخص بھی ایسانہیں تھا، جس کامسئلہ اپنے آخری تجزیے میںزندگی کامذہبی نقطۂ نظرپانے کے سواکچھ اورہو،یہ کہناصحیح ہوگاکہ ان میں سے ہرشخص کی بیماری یہ تھی کہ اس نے وہ چیزکھودی تھی جوکہ موجودہ مذاہب ہردورمیں اپنے پیروؤں کودیتے رہے ہیں، اوران مریضوں میں سے کوئی بھی حقیقۃًاس وقت تک شفایاب نہ ہوسکا،جب تک اس نے اپنامذہبی تصوردوبارہ نہیں پالیا۔‘‘

Quoted by C.A.Coulson, Science and Christian Belief, p.110

یہ الفاظ اگرچہ سمجھنے والے کے لیے بجائے خودبالکل واضح ہیں،تاہم اگرمیں نیویارک اکیڈمی آف سائنس کے صدراے،کریسی ماریسن کے الفاظ نقل کردوں توبات بالکل مکمل ہوجائے گی:

’’ادب واحترام،فیاضی ،کردارکی بلندی،اخلاق،اعلیٰ خیالات اوروہ سب کچھ جس کو خدائی صفات(Divine Attributes) کہاجاسکتاہے،وہ کبھی الحادسے پیدانہیں ہوسکتیں جوکہ دراصل خودبینی کی عجیب وغریب قسم ہے ،جس میں آدمی خوداپنے آپ کوخداکے مقام پربٹھالیتاہے، عقیدے اوریقین کے بغیرتہذیب تباہ ہوجائے گی،نظم،بے نظمی میں تبدیل ہوجائے گی،ضبط نفس اوراپنے آپ پرکنٹرول کاخاتمہ ہوجائے گا— اوربرائی ہرطرف پھیل جائے گی ،ضرورت ہے کہ ہم خداپراپنے یقین کودوبارہ مضبوط کریں۔‘‘

Man Does not Stand Alone, p.123

 

آخری بات

اگرکسی دن ماونٹ پیلومرکی رصدگاہ سے یہ اعلان ہوکہ زمین کی قوتِ کشش ختم ہوگئی ہے توساری دنیامیں کہرام مچ جائے گا،کیوں کہ اس خبرکے معنی یہ ہیں کہ زمین کاپوراکرہ چھ ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طر ف کھنچنا شروع ہوجائے اورچندہفتوں کے اندر سورج کے عظیم الاؤ میں ا س طرح جا گرے کہ اس کی راکھ بھی یہ بتانے کے لیے باقی نہ رہے کہ زمین نام کی کوئی چیزکبھی اس کائنات میں موجود تھی،جس میں اربوں انسان بستے تھے، اوربڑے بڑے تمدنی شہر آباد تھے۔

 مگرماہرین اعدادوشمارکی یہ خبرکہ ہرمنٹ میں ساری دنیاکے اندر ایک سوانسان مرجاتے ہیں، ہمارے لیے ا س سے بھی زیادہ گھبرادینے والے بات ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ ہرایک رات اور دن میں تقریباًپندرہ لاکھ انسان ہمیشہ کے لیے اس دنیاسے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ 24گھنٹے میں پندرہ لاکھ! اس صورت حال میں یہ واقعہ مزیدشدت پیدا کر دیتا ہے کہ پندرہ لاکھ کایہ انتخاب تابکارعناصرکے برقی ذرّات کی طرح بالکل نامعلوم طور پرہوتاہے، کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ نہیںکہہ سکتاکہ اگلے چوبیس گھنٹے کے لیے جن پندرہ لاکھ انسانوں کی موت کی فہرست تیارہورہی ہے،اس میں ا س کانام شامل ہے یانہیں، گویاہرشخص ہرآن اس خطرے میںمبتلاہے کہ قضاوقدرکافیصلہ اس کے حق میں موت کافرشتہ بن کرآپہنچے۔

یہ جانے والے لوگ کہاں جاتے ہیں،ا س کاجواب آپ کومعلوم ہوچکاہے کہ وہ کائنات کے مالک کے سامنے اپنے کارنامۂ زندگی کاحساب دینے کے لیے حاضرکیے جاتے ہیں، انھیں اس لیے موت آتی ہے کہ دوسری دنیامیں ان کی وہ مستقل زندگی شروع ہوجودنیاکے عمل کے مطابق اچھی یابری انھیں گزارنی ہے، یہ زندگی یاتوبے حدآرام کی زندگی ہے،یابے حدتکلیف کی زندگی ،یہ گھڑی بہرحال آکر رہے گی ،ہم سب لوگ ایک ایسے ممکن انجام سے دوچار ہیں جس سے ہم صرف بچنے کی فکرکرسکتے ہیں، اس کے آنے کوہم ٹال نہیں سکتے۔

پھرانسان توکس انتظارمیں ہے ،کیاتجھ کوہوشیارکرنے کے لیے یہ واقعہ کافی نہیں کہ تواپنے آپ کوموت سے نہیں بچاسکتا،کیاتجھے اپنی زندگی کوبدلنے کے لیے ا س سے بڑے کسی محرک کی ضرورت ہے کہ اگرتونے دنیامیں اپنی زندگی نہیں بدلی توتجھ کو ہمیشہ ہمیش کائنات کے ابدی کوڑے خانے میں رہناہے، کیاتواس سے نہیں ڈرتاکہ دنیامیں جب تیری قبرپرتیرے معتقدین پھول چڑھارہے ہوں تو آخرت میں تو اپنے غیر خدائی عمل کے جر م میںابدی کوڑے خانے میں پڑارہے گا۔

وہ دن جوبڑاسخت دن ہوگا،وہ جب آئے گاتوسارے زمین وآسمان کوالٹ دے گا،وہ ایک نئی دنیا بنائے گا،جہاں سچ سچ کی شکل میںظاہرہوگااورجھوٹ جھوٹ کی شکل میں ،کوئی نہ خود دھوکے میں رہے  گا،اورنہ دوسرے کودھوکادے سکے گا،نہ کسی کازورچلے گا، نہ سفارش کام آئے گي، اس دن تیرے الفاظ کے گھروندے بکھرجائیں گے، تیرے جھوٹے فلسفے بے دلیل ثابت ہوں گے،تیری فرضی امیدیں تجھے دھوکادے دیں گی،تیرااقتدارتیرے کچھ کام نہ آئے گا، تیرے خودساختہ بت تجھے جواب دے دیں گے،آہ !انسان کس قدربے سہاراہوگااس روز، حالاں کہ اسی دن اس کوسب سے زیادہ سہارے کی ضرورت ہوگی،وہ کتنامحروم ہوگا،اس روز، حالانکہ اسی دن وہ سب سے زیادہ پانے کا محتاج ہوگا۔

انسان!آج ہی سن لے،کیوں کہ کل توسنے گامگراس وقت تیراسننا بے کارہوگا،آج ہی سوچ لے کیوں کہ موت کے بعدتوسوچے گامگراس وقت کاسوچناتجھے کچھ کام نہ آئے گا،خداکاراستہ تیرے سامنے کھلاہواہے،اس کوپکڑلے،خداکے رسول پرایمان لا،خداکی کتاب کواپنی زندگی کا دستور بنا، آخرت کے دن کے لیے تیاری کر— یہی تیری کامیابی کاراستہ ہے، اسی میں وہ زندگی چھپی ہوئی ہے، جس کی تجھے تلاش ہے۔