کشمیر میں امن (Kashmir mein Amn)

By
Maulana Wahiduddin Khan

کشمیر میں امن

 

 

مولانا وحیدالدین خاں

 

فہرست

کشمیر میں امن    

کشمیری قیادت

فطرت کا سبق    

غیر حکیمانہ طریقہ

حقیقت پسند بنئے  

سیاسی ٹکراؤ سے احتراز       

حکمت کا تقاضا     

امن اور انصاف

اسلامی تحریک نہیں

ممکن کی سیاست

عالمی امکانات

دونوں کی جیت

حل کی طرف

دورۂ ہند سے قبل بھیجا ہوا خط

نشستند وگفتند و برخاستند

خوش گوار آغاز، ناخوش گوار انجام      

کرنے کا کام      

کشمیر جنت نظیر    

کشمیر میں امن

زیرِ نظر مجموعہ کشمیر گائڈ کے طورپر شائع کیا جارہا ہے۔ میں تحریری اعتبار سے 1968 سے کشمیر سے وابستہ رہا ہوں ۔ اول دن سے میری یہ رائے ہے کہ کشمیر کو غیر حقیقت پسندانہ سیاست نے تباہ کیا ہے، اور اب حقیقت پسندانہ سیاست کے ذریعہ اس کو دوبارہ ایک ترقی یافتہ کشمیر بنایا جاسکتا ہے۔

کشمیری مسلمانوں کی موجودہ نفسیات یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے بیزار ہوچکے ہیں ۔ وہ بے اعتمادی کی فضا میں جی رہے ہیں ۔ زیرِ نظر مجموعہ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو اس بے اعتمادی کی فضا سے نکالا جائے اور انہیں حوصلہ اور اعتماد پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔

کشمیریوں کے لیے اس نئی زندگی کا آغاز ہر لمحہ ممکن ہے۔ مگر اس کی دو لازمی شرطیں ہیں ۔ اول یہ کہ آج وہ جس ناخوش گوا ر صورت حال سے دوچار ہیں ، اس کا ذمہ دار وہ خود اپنے آپ کو ٹھہرائیں ۔ جب تک وہ اس کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے رہیں گے، ان کے لیے نئی زندگی کا آغاز ممکن نہیں ۔

دوسری ضروری بات یہ ہے کہ وہ مفروضات کی دنیا سے نکلیں اور عملی حقائق کی دنیا میں جینا شروع کریں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کے نااہل لیڈروں نے انہیں جن خوش فہمیوں میں مبتلا کیا تھا ان سے وہ باہر آئیں ۔ وہ حالاتِ موجودہ سے ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنی تعمیر کا نیا منصوبہ بنائیں ۔حالات کا فیصلہ ہے کہ وہ آزادانہ طورپر، نہ کہ مجبورانہ طورپر، یہ جرأت مندانہ فیصلہ کریں کہ تقدیر نے ان کو انڈیا کا ایک حصہ بنا دیا ہے اور اب ان کے لیے اس کے سوا کوئی ممکن صورت نہیں کہ وہ خوش دلی کے ساتھ تقدیر کے اس فیصلہ کو قبول کرلیں ۔

مزید یہ کہ یہ ان کے لیے کوئی برائی نہیں ، وہ یقینی طورپر ان کے لیے ہر اعتبار سے خیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ انڈیا ایک بڑا ملک ہے۔ یہاں آزادی اور جمہوریت ہے۔ یہاں تقریباً بیس کروڑ کی تعداد میں ان کے ہم مذہب مسلمان رہتے ہیں ۔ بر صغیر ہند کے تمام بڑے اسلامی ادارے انڈیا میں قائم ہیں ۔ انڈیا میں اس علاقہ کے مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے نقوش موجود ہیں جو اس علاقہ کے مسلمانوں کو زندگی کا حوصلہ دیتے ہیں ۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ انڈیامیں دعوتِ دین کے وہ عظیم مواقع موجودہیں جن کی انجام دہی پر حدیث میں نجاتِ آخرت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ (سنن النسائی، حدیث نمبر 3175، مسند احمد، حدیث نمبر8823)

ایک بار میں چند دن کے لیے کراچی میں تھا۔ وہاں میری ملاقات ایک مسلم صنعت کار سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ انڈیا میں ہم سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں ۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دیکھیے، پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے۔ اگر ہم کوئی پروڈکٹ تیار کریں تو اس کو مارکیٹ کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت محدود دنیا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، انڈیا بہت بڑا ملک ہے۔ انڈیا میں اگر آپ کوئی پروڈکٹ تیار کریں تو اس کو مارکیٹ کرنے کے لیے آپ کے پاس ایک نہایت وسیع دنیا موجود ہوتی ہے۔

مذکورہ مسلم تاجر کی یہ بات اب ایک واقعہ بن چکی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکیسویں صدی میں پہنچ کر انڈیا کے مسلمان پورے بر صغیر ہند کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ مسلمان بن چکے ہیں ۔ یہ بات بلا مبالغہ درست ہے اور کسی بھی شہر کا تقابلی سروے کرکے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ اس واقعہ کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ آج نہ صرف بر صغیر ہند بلکہ پوری مسلم دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند آدمی ہندستان میں پایا جاتا ہے، یعنی بنگلور کے مسٹر عظیم ہاشم پریم جی۔

کشمیر کے مسلمان اگر دل کی آمادگی سے انڈیا کے ساتھ مل جائیں تو ان کے لیے ہر قسم کی ترقی کے شاندار مواقع کھل جائیں گے۔ تعلیم، اقتصادیات اور دوسرے تمام ترقیاتی شعبوں میں یہاں ان کے لیے ترقی کے جو امکانات ہیں وہ کسی بھی دوسرے مقام پرنہیں ۔

مزید یہ کہ سیاست کے اعتبار سے انڈیا میں ان کے لیے ترقی کے عظیم مواقع موجود ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے میرا ایک مضمون اردو اورہندی اور انگریزی اخباروں میں چھپا تھا۔ اس میں میں نے لکھا تھا کہ کشمیر کے مسلمان اگر ٹکراؤ کی پالیسی چھوڑ دیں اور ہندستان کو دل سے قبول کرتے ہوئے اس کا حصہ بن جائیں تو آئندہ جمہوری ہندستان میں جو پہلا مسلم وزیر اعظم بنے گا وہ ایک کشمیری مسلمان ہوگا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں —اگلے صفحات میں جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ مختلف پہلوؤں سے اسی حقیقت کی تفصیل و تشریح ہے۔

کشمیری قیادت

کشمیر کے مسئلہ پر میں اس کے آغاز ہی سے سوچتا رہا ہوں ۔ اللہ کی توفیق سے میں نے ابتداء میں اس معاملہ میں جورائے قائم کی تھی وہی رائے آج بھی مجھ کو درست نظر آتی ہے۔ اللہ کے فضل سے اس معاملہ میں مجھے کبھی اپنی رائے بدلنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

مطبوعہ ریکارڈ کے مطابق، اس موضوع پر میں 1968 سے لکھتا رہا ہوں ۔ اس کے بارے میں غالباً میری پہلی تحریر وہ ہے جو الجمعیۃ ویکلی میں چھپی تھی۔ یہاں یہ تحریر الجمعیۃ کے صفحات سے لے کر نقل کی جارہی ہے:

’’اپنا حق وصول کرنے کا وقت وہ ہوتا ہے جب کہ فیصلے کا سرا اپنے ہاتھ میں ہو۔ مگر ہمارے لیڈر اس وقت ہوش میں آتے ہیں جب کہ ان کا کیس اخلاقی کیس بن چکا ہو‘‘—یہ احساس مجھے اکثر اس وقت ہوتا ہے جب کہ میں کشمیری لیڈر شیخ عبد اللہ کی تقریر پڑھتا ہوں ۔ شیخ صاحب ایک مخلص کشمیری ہیں ۔ اپنی جرأت اور قربانیوں کی وجہ سے وہ بجا طورپر شیر کشمیر کہلانے کے مستحق ہیں ۔ مگر ان کی موجودہ کشمیری مہم مجھے مشتے بعد از جنگ سے زیادہ نظر نہیں آتی۔

1947 میں وہ اس پوزیشن میں تھے کہ اگر وہ حقیقت پسندی اختیار کرتے تو اپنا فیصلہ خود اپنی مرضی کے مطابق کرسکتے تھے۔ مگرانہوں نے فیصلے کے وقت کو غیر حقیقت پسندانہ خوابوں میں کھودیا۔ اب جب کہ فیصلہ کا سرا ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے تو وہ چیخ و پکار کر رہے ہیں ۔ حالانکہ اب ان کی چیخ و پکار کی حیثیت محض اخلاقی دہائی کی ہے، اور اخلاقی دہائی اس دنیا میں کوئی وزن نہیں رکھتی۔

ایک نوجوان نے ایک مرتبہ دکان کھولی۔ ابھی انہوں نے زندگی میں پہلی بارقدم رکھا تھا۔ انہیں اندازہ نہ تھا کہ دنیا میں کس قسم کے تحفظات کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ دکان میں ایک معمولی تالا لگانا شروع کیا۔

ایک روز وہ دکان سے اداس حالت میں لوٹے۔ یہ دیکھ کر ایک بزرگ نے پوچھا ’’کیا بات ہے۔ آج اُداس نظر آرہے ہو‘‘۔

’’دکان میں چوری ہوگئی‘‘ ۔ نوجوان نے کہا۔

’’کیسے‘‘

’’تالا معمولی تھا۔ کوئی شخص رات میں کھول کر سامان نکال لے گیا‘‘۔

’’یہ تو تمہاری غلطی تھی‘‘۔

’’جی ہاں ۔ اب تجربہ ہوا کہ دکان میں تالا اچھے قسم کا لگانا چاہیے‘‘۔

یہ سن کر بزرگ نے فرمایا—’’یہ بھی کوئی تجربہ کے بعد معلوم ہونے کی چیز ہے۔ جب تم دکانداری کی لائن میں داخل ہوئے تو تمہیں اول دن سے جاننا چاہیے تھا کہ دکان میں تالا مضبوط لگایا جاتا ہے۔‘‘

دکان اور اس طرح کے دوسرے شخصی معاملات میں تو اس کا بھی امکان ہے کہ آدمی ایک بار ٹھوکر کھاکر دوبارہ سنبھل جائے۔ مگر قومی فیصلوں کی نوعیت بالکل جداگانہ ہے۔ شخصی معاملات میں ایک بار نقصان اٹھانے کے بعد یہ بھی امکان رہتا ہے کہ محنت کر کے آدمی دوبارہ حالات کو اپنے موافق بنالے۔ مگر قومی معاملات میں جب فیصلہ کا سرا ایک بار ہاتھ سے نکل گیا تو مسئلہ بے حد پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ پھر تو زمین و آسمان کی نئی کروٹیں ہی اس کو بدل سکتی ہیں ۔

قومی قیادت ایک ایسا کام ہے جو ان لوگوں کے کرنے کا ہے جو حال کے اندر مستقبل کو دیکھ سکیں — باقی وہ لوگ جن کی نگاہیں صرف ماضی اور حال تک جاتی ہوں اور مستقبل انہیں صرف اس وقت نظر آئے جب وہ واقعہ بن کر ان کے اوپر ٹوٹ پڑا ہو، ایسے لوگ قوموں کی قیادت نہیں کرسکتے۔ البتہ اپنے غیر دانش مندانہ اقدامات سے قوموں کو مسائل میں الجھانے کا فرض ضرور انجام دے سکتے ہیں ۔‘‘ (الجمعیۃ ویکلی، نئی دہلی، 14 جون، 1968، صفحہ 4)

اس کے بعد میں اسی انداز سے مسلسل کشمیر کے بارے میں لکھتا رہا ہوں ۔ پچھلے 35 سال میں کشمیر کے موضوع پر میں نے جو کچھ لکھا ہے ان کو اگر یکجا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔

یہ اللہ کا شکر ہے کہ میری اس طویل کوشش سے ہزاروں کشمیریوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ ہزاروں لوگ جنگجوئی کا مزاج ختم کرکے تعلیم و ترقی کے میدان میں مثبت طورپر سرگرم ہیں ۔ اس سلسلہ میں مجھے کشمیریوں کی طرف سے مسلسل خطوط اور ٹیلیفون، وغیرہ ملتے رہتے ہیں جن کی تفصیل یہاں بتانے کی ضرورت نہیں ۔

کوئی بھی تحریک بظاہر عوام کی طرف منسوب ہوتی ہے، مگر حقیقۃً وہ لیڈر کی تحریک ہوتی ہے۔ ایک یا چند لیڈر اپنی تقریر وں اور تحریر وں کے ذریعہ عوام کو ابھارتے ہیں اور پھر عوام کے نام سے اپنی لیڈری کی قیمت وصول کرتے ہیں ۔ یہ صورت حال لیڈر کی ذمہ داری کوبہت زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ ایسی حالت میں صرف اسی شخص کو لیڈر شپ کے میدان میں داخل ہونا چاہیے جس نے وہ ضروری تیاری کی ہو جو اس کو لیڈر شپ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ضروری تیاری کے بغیر جو شخص لیڈر شپ کے میدان میں سرگرم ہو وہ اللہ کے نزدیک سخت مجرم ہے، خواہ بے شعور عوام کے درمیان اس نے کتنی ہی زیادہ مقبولیت حاصل کرلی ہو۔

کشمیریوں کے لیے آخری وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے لیڈروں سے اوپر اٹھ کر پورے معاملہ پر از سرِ نو غور کریں ۔ لیڈروں کے الفاظ کی روشنی میں نہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں وہ اپنی زندگی کا نقشہ بنائیں ۔ اس کے سوا ان کے لیے کامیابی کی اور کوئی صورت نہیں ۔

فطرت کا سبق

دریا کا سامنا چٹان سے ہو تو وہ اپنا راستہ بدل کر آگے بڑھ جاتا ہے مگر نادان انسان چاہتا ہے کہ وہ چٹان کو توڑ کر اپنا راستہ بنائے، خواہ اس کا نتیجہ یہ ہو کہ اس کا سفر ہی ہمیشہ کے لیے رک جائے۔

کشمیر میں انڈیا کے خلاف مسلّح تحریک اکتوبر 1989 میں شروع ہوئی۔ اس سے صرف ایک مہینہ پہلے میں نے کشمیر کا سفر کیا تھا۔وہاں سری نگر کے ٹیگور ہال میں میرا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ، اس قیام کے دوران بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ اس کا سفرنامہ میں نے اسی وقت لکھا تھا مگر وہ کسی وجہ سے الرسالہ میں شائع نہ ہوسکا۔

ایک دن میں کچھ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ سری نگر کے باہر کھلی وادی میں گیا۔ ہر طرف فطرت کے خوبصورت مناظر تھے۔ پہاڑ کے اوپر سے پانی کے چشمے بہتے ہوئے میدان میں آرہے تھے۔ کشمیری مسلمانوں کو لے کر میں ایک چشمہ کے پاس بیٹھ گیا۔ وہاں یہ منظر تھا کہ چشمہ کا پانی بہتا ہوا ایک جگہ پہنچتا ہے جہاں اس کے سامنے ایک پتھر ہے۔ پانی یہ نہیں کرتا کہ وہ پتھر کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کرے۔ اس کے برعکس وہ پتھر کے دائیں اور بائیں سے مُڑ کر آگے نکل جاتا ہے اور اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔

میں نے کشمیری مسلمانوں سے کہا کہ اس کو دیکھیے، یہ آپ کے نام قدرت کا ایک پیغام ہے۔ اس فطری واقعہ کے ذریعہ آپ کو یہ خاموش پیغام دیا جارہا ہے کہ تمہاری زندگی کے سفر میں کوئی رکاوٹ کی چیز آجائے تو تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ رکا وٹ سے ٹکرا جاؤ، اور رکاوٹ کی چٹان کو توڑ کر اپنے لیے سیدھا راستہ بناؤ۔ اس کے بجائے تم کو یہ کرنا چاہیے کہ رکاوٹ سے اعراض کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھو۔

یہی زندگی میں کامیابی کا راز ہے۔ فرد کا معاملہ ہو یا کسی قوم کا معاملہ، ہر ایک کے لیے تعمیر و ترقی کی واحد تدبیر یہ ہے کہ وہ راستہ کے پتھروں کو نظر انداز کرکے آگے بڑھے، وہ مسائل سے اعراض کرے اور مواقع کو استعمال کرکے اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔

جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میں کشمیر میں انڈیا کی فوجی یا سیاسی موجودگی کو کشمیریوں کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں سمجھتا۔ موجودہ جمہوری زمانہ میں سیاست صرف ایک دردِ سر ہے۔ اور فوج صرف سرحدوں کی چوکیدار۔ 1989 سے پہلے انڈیا کی فوج کشمیر کی سرحدوں پر رہتی تھی، وہ کشمیر کی بستیوں میں داخل نہیں ہوئی تھی۔مگر جب اکتوبر 1989 میں کشمیری تحریک کے لوگوں نے اسلحہ اٹھایا اور تشدد کا طریقہ اختیار کیا تو اس وقت انڈیا کی فوج اس سے مقابلہ کے لیے بستیوں میں داخل ہوئی۔ کیوں کہ جنگجو لوگ بستیوں میں رہ کر اپنی مسلح کارروائیاں کرتے تھے۔

تاہم بالفرض اگر کشمیری مسلمان ہندستانی فوج کی کشمیر میں موجودگی کو اپنے لیے راستہ کا پتھر سمجھیں تب بھی ان کے لیے کامیابی اور ترقی کا راز وہی ہے جو فطرت کی زبان سے انہیں بتایا جارہا ہے۔یعنی— مسائل کو نظر انداز کرواور مواقع کو استعمال کرو:

Ignore the problems, avail the opportunities.

یہ کوئی مجبورانہ اصول نہیں جس کا تعلق صرف موجودہ کشمیر سے ہو۔ یہ ایک عالمی اصول ہے۔ اس کا تعلق ہر انسانی آبادی سے ہے۔ مزید یہ کہ زندگی کا یہی اصول فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی، یہی اصول مسلم ملک کے لیے بھی ہے اور غیر مسلم ملک کے لیے بھی۔

غیر حکیمانہ طریقہ

موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ جب کسی سے کسی مسئلہ میں نزاع پیدا ہو تو پہلے ہی مرحلہ میں یہ کیا جائے کہ جو کچھ مل رہا ہے اس کو رضامندی کے ساتھ قبول کر لیا جائے۔ اگر پہلے مرحلہ میں ایسا نہیں کیا گیا اور زیادہ حاصل کرنے کی خاطر مسئلہ کے تصفیہ کو لمبا کیا گیا تو مسئلہ اور پیچیدہ ہو جائے گا، اور پہلے مرحلہ میں جو کچھ مل رہا تھا اس کا ملنا بھی ناممکن ہوجائے گا۔

اس کی ایک مثال فلسطین کا موجودہ مسئلہ ہے۔ 1917 کا واقعہ ہے۔ برٹش امپائر نے فلسطین کی تقسیم کا ایک فارمولا بنایا۔ یہ عام طورپر بالفور ڈیکلریشن کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تقسیم واضح طور پر عربوں کے حق میں تھی۔ اس تقسیم میں فلسطین کا ایک تہائی سے کم حصہ اسرائیل کو دیا گیا تھا اور اس کا دو تہائی سے زیادہ حصہ عربوں کے لیے خاص کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق، یروشلم کا پورا شہر اور بیت المقدس کا پورا علاقہ عربوں کو ملا تھا۔ مگر اس وقت کی مسلم قیادت نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک عرب عالم نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس کو قبول کر لینے کی بات کہی تو اس پر عرب مفاد سے غداری کا الزام لگایا گیا۔ وہ شخص یہ شعر کہہ کر مرگیا

سیعلم قومی أننی لا أغشھم              ومھما استطال اللیل فالصبح واصل

یعنی عنقریب میری قوم جان لے گی کہ میں نے اس کو دھوکہ نہیں دیا ہے۔ اور رات خواہ کتنی ہی لمبی ہو جائے صبح بہر حال آکر رہتی ہے۔

اس وقت کی مسلم قیادت یا عرب قیادت اگر حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتی اورابتدائی مرحلہ میں جو کچھ اس کو مل رہا تھا اس کو لے کر وہ اپنی ساری کوشش تعمیر و ترقی کے کام میں لگا دیتی تو آج فلسطین کے عرب مسلمانوں کی حالت وہاں کے یہود سے بدرجہا زیادہ بہتر ہوتی۔ مگر غیر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلسطینیوں کے حصہ میں تباہی کے سوا کچھ نہ آیا۔

ٹھیک یہی معاملہ جموں و کشمیر میں بھی پیش آیا ہے۔ کشمیری قیادت اور پاکستانی قیادت دونوں اس معاملہ میں بد ترین نااہلی کا شکار ہوئی ہیں ۔ واقعات بتاتے ہیں کہ کشمیر کا موجودہ مسئلہ خود اس کے قائدین کی نادانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا، نہ کہ کسی اور کے ظلم یا سازش کے نتیجہ میں ۔

اس معاملہ میں مسلم قائدین کی نادانیوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ یہاں میں اس کے صرف ایک پہلو کا ذکر کروں گا۔ 1947 میں جب ملک تقسیم ہو اتو پاکستان کی قیادت غیر حقیقت پسندانہ طورپر دو مختلف ریاستوں کی دعویدار بن گئی—جونا گڑھ اور حیدرآباد۔ اگر پاکستان کی قیادت حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے جونا گڑھ اورحیدرآباد کی مدعی نہ بنتی (جو پاکستان کو سرے سے ملنے والا ہی نہ تھا) تو کشمیر کا معاملہ کبھی سنگین نہ بنتا۔ اس کا فیصلہ نہایت آسانی کے ساتھ پاکستان کے حق میں ہو جاتا۔ مگر پاکستانی قائدین کی دو طرفہ دوڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی ان کے حصہ میں نہ آیا۔ یہاں میں اس سلسلے میں خود پاکستان کے دو حوالے نقل کروں گا۔

اس سلسلہ میں پہلا حوالہ چودھری محمد علی کا ہے۔ وہ 1955-56 میں پاکستان کے پرائم منسٹر تھے۔ اس سے پہلے وہ لیاقت علی خاں کی حکومت میں منسٹر کی حیثیت سے شریک تھے۔ پاکستان کے حالات پر ان کی ایک ضخیم انگریزی کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے  —ایمرجنس آف پاکستان (Emergence of Pakistan)۔

اس کتاب میں وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم کے بعد جو نا گڑھ کے مسلم نواب نے پاکستان کے ساتھ اپنی ریاست کا الحاق کرلیا جب کہ جوناگڑھ میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ انڈیا نے اس الحاق کو نہیں مانا اور پولیس ایکشن کے ذریعہ ریاست جونا گڑھ کو انڈین یونین میں ملالیا۔ اس کے بعد دہلی میں ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں ہندستان کی طرف سے جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل شریک تھے۔ اور پاکستان کی طرف سے نواب زادہ لیاقت علی خاں اور چودھری محمد علی نے شرکت کی۔

 مصنف لکھتے ہیں کہ سردار پٹیل اگر چہ پاکستان کے سخت دشمن تھے مگر وہ نہرو سے زیادہ حقیقت پسند تھے۔ دونوں ملکوں کے وزیر اعظم کے درمیان ایک گفتگو میں ،جس میں پٹیل اور میں دونوں موجود تھے، لیاقت علی خاں نے کشمیر اور جونا گڑھ کے معاملہ میں انڈیا کے متضاد رویہ پر تفصیلی کلام کیا۔ انہوں نے کہا کہ جوناگڑھ کے حکمراں کے پاکستان سے الحاق کے باوجود وہ انڈیا کا حصہ ہے۔ کیوں کہ وہاں کی اکثریت ہندو ہے تو کشمیر اپنی مسلم اکثریت کے ساتھ کیوں کر انڈیا کا حصہ بن سکتا ہے، صرف اس لیے کہ وہاں کے ہندو حکمراں نے انڈیا کے ساتھ ایک مشروط الحاق کے کاغذات پر دستخط کردئے۔اگر جوناگڑھ کے الحاق کی دستاویز جس پر وہاں کے مسلم حکمراں نے دستخط کیے ہیں اپنے اندر کوئی جواز نہیں رکھتی تو اس دستاویز کا بھی کوئی جواز نہیں جس پر کشمیر کے ہندو حکمراں نے دستخط کیے ہیں ۔ اگر جونا گڑھ میں وہاں کے عوام کی خواہش اہمیت رکھتی ہے تو یہی اصول کشمیر کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ انڈیا کشمیر اور جونا گڑھ دونوں کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

 جب لیاقت علی خاں نے یہ بات کہی تو پٹیل اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور پھٹ پڑے، انہوں نے کہا کہ تم جونا گڑھ کا موازنہ کشمیر سے کیوں کرتے ہو، حیدر آباد اور کشمیر کی بات کرو، اور ہم ابھی ایک تصفیہ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ پٹیل کا نظریہ اس موقع پر اور بعد کو بھی یہ تھا کہ مسلم اکثریت کے علاقے کو ان کی مرضی کے خلاف اپنے قبضہ میں رکھنا انڈیا کے لیے کمزوری کا ذریعہ ہوگا، نہ کہ طاقت کا ذریعہ۔ ان کا احساس تھا کہ انڈیا اور پاکستان اگر اس پر راضی ہو جائیں کہ حیدر آباد انڈیا کے ساتھ ہو اور کشمیر پاکستان کے ساتھ، تو کشمیر اور حیدر آباد کا مسئلہ پُر امن طورپر حل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں مشترک طورپر دونوں ہی کا فائدہ ہوگا۔

Sardar Patel, although a bitter enemy of Pakistan was a greater realist than Nehru. In one of the discussions between the two Prime Ministers, at which Patel and I were also present, Liaquat Ali Khan dwelt at length on the inconsistency of the Indian stand regarding Junagadh and Kashmir. If Junagadh, despite its Muslim ruler's accession to Pakistan belonged to India because of its Hindu majority, how could Kashmir, with its Muslim majority, be a part of India simply by virtue of its Hindu ruler having signed a conditional instrument of accession to India. If the instrument of accession signed by the Muslim ruler of Junagarh was of no validity, the instrument of accession signed by the Hindu ruler of Kashmir was also invalid. If the people's will were to prevail in Junagadh, it must prevail in Kashmir as well. India could not claim both Junagadh and Kashmir. When Liaqat Ali Khan made these incontrovertible points, Patel could not contain himself and burst out: “Why do you compare Junagadh with Kashmir? Talk of Hyderabad and Kashmir, and we could reach an agreement.” Patel’s view currently and even later was that India’s effort to retain Muslim majority areas against the will of the people was a source not of strength but of weakness to India. He felt that if India and Pakistan agreed to let Kashmir go to Pakistan and Hyderabad to India, the problems of Kashmir and of Hyderabad could be solved peacefully and to the mutual advantage of India and Pakistan.

Chaudhry Muhammad Ali, Emergence of Pakistan, pp. 299-300

اگر پاکستانی لیڈر کا یہ بیان درست ہے تو یہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ خود پاکستانی لیڈروں کا پیدا کیاہوا ہے، نہ کہ ہندستانی لیڈروں کا پیدا کیا ہوا۔

اس سلسلہ میں دوسری مثال وہ ہے جو پاکستان کے ایک معروف لیڈر سردار شوکت حیات خاں کی کتاب میں ملتی ہے۔ ان کی یہ کتاب لاہور سے اردو میں ’’گم گشتہ ٔ قوم‘‘ کے نام سے 460 صفحات پر چھپی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی نام یہ ہے:

The Nation that Lost its Soul.

یہاں اس کتاب کا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے:

’’بعد میں کشمیر پر حملہ کے دوران جب ماؤنٹ بیٹن لاہور آیا۔ ایک ڈنر جس میں لیاقت، گورنر مودی اور پنجاب کے چار وزیر موجود تھے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پٹیل کا پیغام پہنچایا۔ پٹیل جو ہندستان کی ایک طاقتور شخصیت تھا اس کا پیغام تھا کہ اس اصول کی پابندی کی جائے جو کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں طے پایا تھا۔ وہ یہ کہ ریاست اپنے باشندوں کی اکثریت اور سرحدوں کے ساتھ ملاپ کی بنا پر پاکستان یا ہندستان کے ساتھ الحاق کریں گی۔ پٹیل نے کہلایا کہ پاکستان کشمیر لے لے اور حیدرآباد دکن کا مطالبہ چھوڑ دے۔ جہاں پر ہندو آبادی کی اکثریت تھی اور جس کا پاکستان کے ساتھ زمینی یا سمندری ذریعے سے کوئی اتصال بھی نہ تھا۔ یہ پیغام دینے کے بعد ماؤنٹ بیٹن گورنمنٹ ہاؤس میں آرام کرنے چلا گیا۔

میں کشمیر آپریشن کا مکمل نگراں تھا۔ میں نے لیاقت علی کے پاس جاکر انہیں تجویز دی کہ ہندستان کی فوج کشمیر میں داخل ہوچکی ہے۔ ہم قبائلیوں کی مدد سے اس کو باہر نکالنے اور کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ یہاں تک کہ ہماری اس وقت کی فوج بھی اس کامیابی کے حصول میں شاید مدد گار ثابت نہ ہو سکے گی۔ لہٰذا ہمیں پٹیل کی پیش کش کو ٹھکرانا نہیں چاہیے۔ نواب زادہ نے میری جانب مڑ کر کہا’’سردار صاحب کیا میں پاگل ہوگیا ہوں کہ میں کشمیر کے پہاڑوں اور ٹیلوں کے بدلے ریاست حیدر آباد دکن کو چھوڑ دوں جو پنجاب سے بھی بڑی ریاست ہے‘‘۔

لیاقت علی خاں کے اس رد عمل کو دیکھ کر میں تو سن ہوگیا کہ ہمارا وزیر اعظم ملکی جغرافیہ سے اتنا بے خبر تھا۔ اس کی ذہانت کا یہ معیار کہ وہ حیدرآباد دکن کو کشمیر پر ترجیح دے رہا ہے۔ یہ تو احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ــتھی۔ حیدر آباد کا حصول ایک سراب تھا جب کہ کشمیر مل رہا تھا۔ کشمیر کی پاکستان کے ساتھ اہمیت سے وہ قطعی واقف نہیں تھے۔ چنانچہ احتجاج کے طورپر میں نے کشمیر آپریشن کی نگرانی سے استعفیٰ دے دیا(صفحہ 231-32)۔

پاکستانی لیڈر کے مذکورہ بیان کو اگر درست مان لیاجائے تویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ مکمل طورپر اوریک طرفہ طور پر خود مسلم قیادت کا پیدا کیا ہوا ہے، کسی اور کا نہیں ۔ یہاں میں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ فطرت کے مسلمہ قانون کے مطابق، کسی شخص یا قوم کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنی غلطی کی قیمت دوسرے سے وصول کرسکے۔ اپنی غلطی کی قیمت آدمی کو بہرحال خود ادا کرنا پڑتا ہے، اور یقینی طورپر پاکستان کا اس میں کوئی استثنا نہیں ۔

حقیقت پسند بنئے

اپریل 1986ء کے آخری ہفتہ میں امرتسر میں کچھ سکھوں نے بطور خود آزاد خالصتان کے قیام کا اعلان کر دیا۔ عین اسی زمانہ میں میں نے دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس میں ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان یہ تھا—حقیقت کا اعتراف:

Acceptance of Reality.

میرا یہ مضمون پنجاب اور کشمیر دونوں کے بارے میں تھا۔ میں نے پنجابیوں اور کشمیریوں دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ علیٰحدہ پنجاب اور علیٰحدہ کشمیر کی تحریکیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں ۔ وہ حقیقت کی چٹان سے ٹکرانے کے ہم معنی ہے۔ اس قسم کی کوشش سے کچھ لوگ اپنا سر تو توڑ سکتے ہیں مگر وہ صورت حال کو بدل نہیں سکتے۔ میں نے دونوں جگہ کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لیں اور صورت موجودہ (status quo) کو مان کر مثبت انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کریں ۔

سکھ لوگ جلد ہی معاملہ کو سمجھ گئے۔اور انہوں نے اس مسئلہ پراپنی متشددانہ تحریک ختم کردی۔ کشمیر کے لوگ بھی یقینی طورپر آخر کار یہی راستہ اختیار کریں گے مگر اس وقت جب کہ ان پر فارسی کا یہ شعر صادق آچکا ہوگا کہ جو کام ایک عقلمند انسان کرتا ہے وہی کام ایک نادان انسان بھی کرتا ہے ، لیکن کافی نقصان اٹھانے کے بعد :

آں چہ دانا کند کند ناداں                       لیک بعد از خرابی ٔ بسیار

اس فرق کا سبب غالباً یہ ہے کہ سکھ لوگوں کے پاس اپنی تباہی کو جائز ثابت (justify) کرنے کے لیے کوئی شاندار نظریہ موجود نہ تھا۔جب کہ دوسرے گروہ کے پاس ایسے شاندار نظریات موجود ہیں جن کے ذریعہ وہ خود کشی کے عمل کو اسلامی شہادت جیسا خوبصورت عنوان دے سکے۔

اس سلسلہ کا ایک تجربہ یہاں قابل ذکر ہے۔ 27 جنوری 1992 کا واقعہ ہے۔ کشمیر کے دو تعلیم یافتہ مسلمان دہلی آئے اور مجھ سے ملاقات کی۔ یہ لوگ خود تو کسی جنگجو تنظیم کے باضابطہ ممبر نہیں تھے مگر وہ کشمیر کی جنگجو تحریک کے پوری طرح حامی تھے۔ وہ عملی جنگجو نہ ہوتے ہوئے بھی پورے معنیٰ میں فکر ی جنگجو تھے۔

گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ آپ لوگوں کی نام نہاد تحریک ِکشمیر کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ۔ وہ نہ جہاد ہے اور نہ اس سے اسلامی نظام قائم ہونے والا ہے۔ اور نہ علیٰحدگی کی کوئی معنویت ہے۔ اس کا نتیجہ بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ انہوں نے پرجوش طورپر اپنی موجودہ تحریک کی حمایت کی اور دعویٰ کیا کہ ہم جلد ہی ایک عظیم کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔ پھر انہوں نے میرے کہنے پر اپنے دستخط کے ساتھ حسب ذیل الفاظ میری ڈائری میں لکھے

ہندستان سے علیٰحدگی کے بعد جو کشمیر بنے گا ،انشاء اللہ وہ کشمیر اسلامی کشمیر ہوگا۔

اس کے بعد میں نے کہا کہ آپ لوگوں کی یہ بات بے بنیاد خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ لوگوں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ آپ کے اندازے کتنے زیادہ بے حقیقت تھے۔ پھر میں نے اپنی ڈائری میں ان کے سامنے یہ الفاظ لکھے:

بالفرض اگر کشمیر ہندستان سے علیٰحدہ ہو تو اس کے بعد جو آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر بنے گا وہ ایک برباد کشمیر ہوگا۔ کشمیریوں کے لیے چوائس (choice) ہندستانی کشمیر یا پاکستانی کشمیر میں نہیں ہے۔ بلکہ ہندستانی کشمیر یا برباد کشمیر میں ہے۔

اس واقعہ پر اب دس سال پورے ہورہے ہیں ۔ اس دس سالہ تجربہ نے آخری طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ مذکورہ کشمیری مجاہد کے الفاظ فرضی خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہ تھے۔ اس کے برعکس، میں نے جو کچھ اللہ کی توفیق سے کہا وہ آج ایک ناقابل انکار حقیقت بن چکا ہے۔ واقعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ حالات میں کشمیر کا فائدہ نہ آزاد کشمیر بننے میں ہے اور نہ پاکستانی کشمیر بننے میں ۔ کشمیر کا فائدہ ہر اعتبار سے یہ ہے کہ وہ ہندستان کا حصہ بن جائے اور ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ کر پر امن تعمیر کا طریقہ اختیار کرلے۔

کشمیر میں جو لوگ اپنے خیال کے مطابق، جہاد کی تحریک چلارہے ہیں ، وہ اپنے آپ کو اسلام پسند کہتے ہیں ۔مگر صحیح یہ ہے کہ وہ اسلام پسند بننے سے پہلے حقیقت پسند بنیں ۔ اسلام کا قلعہ حقیقت کی زمین پر کھڑا ہوتاہے۔ خوش فہمی کی زمین پر کوئی بھی قلعہ نہیں بن سکتا، نہ اسلام کا اور نہ غیر اسلام کا۔

سیاسی ٹکراؤ سے احتراز

دانش مند آدمی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ دانش مند انسان وہ ہے جو چیزوں کی اضافی حیثیت کو جانے:

A wise man is he who knows the relative value of things.

اس مقولہ کی روشنی میں دیکھا جائے تویہ کہنا پڑے گا کہ شاید کشمیر کے رہنماؤں میں کوئی بھی شخص نہیں جس کو اس مقولہ کے مطابق، دانش مند کہا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اقدام کو جانا مگر انہوں نے اپنے اقدام کے نتیجہ کو نہیں جانا۔

اس معاملہ کو قرآن کی ایک آیت کی روشنی میں سمجھیے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے جب ملکہ ٔ سبا کے نام اپنا خط بھیجا اور اس سے اطاعت کا مطالبہ کیا تو اس نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا۔ درباریوں نے کہا کہ ہمارے پاس فوجی طاقت ہے پھر ہم کیوں کسی غیر کی اطاعت قبول کریں ۔ اس کا جواب جو ملکہ ٔ سبا نے دیا وہ قرآن میں اس طرح بیان ہوا ہے

ملکۂ سبا نے کہا کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اس کو خراب کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں ۔ اور یہی یہ لوگ کریں گے (النمل، 27:34)۔

قرآن میں یہ واقعہ جو نقل کیا گیا ہے، اس سے ایک نہایت اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ طاقتور حکمراں سے ٹکراؤ کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ نتیجہ اگر منفی نکلتا ہو تو اعراض کیا جائے گا نہ کہ ٹکراؤ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ طاقتور حکمراں سے ٹکراؤ کا نتیجہ ہمیشہ الٹی صورت میں نکلتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں آبادیاں تباہ ہوتی ہیں اور عزت والے لوگوں کو ذلت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ سیاسی ٹکراؤ کا یہ تباہ کن نتیجہ ہمیشہ ظاہر ہوتا ہے، خواہ حکمراں کوئی بھی ہو، اور خواہ وہ کوئی صالح انسان کیوں نہ ہو۔

طاقتور حکمراں سے ٹکراؤ ہر حال میں اس قابل ہے کہ اس سے بچا جائے۔ اگر کچھ لوگ اس نصیحت کی پروا نہ کریں اور وہ طاقتور حکمراں سے براہِ راست ٹکرا جائیں تو اس کے بعد ان کے لیے جان و مال کی تباہی کی شکایت کرنا لاحاصل ہے۔ انہیں جاننا چاہیے کہ جو تباہی انہیں پیش آرہی ہے وہ در اصل ٹکراؤ کی قیمت ہے۔ جو لوگ اقتدار کے خلاف مسلّح ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کریں ان کو بہرحال یہ قیمت دینی پڑے گی۔ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ غلطی کوئی ایک گروہ کرے اوراس کی قیمت کسی اور گروہ کی طرف سے ادا کی جائے۔

کشمیری لیڈروں اور پاکستانی لیڈروں کی طرف سے اکثر ایسے مضامین چھپتے ہیں جن کا عنوان ہوتا ہے زخمی کشمیر(Wounded Kashmir) یا زخمی وادی (Wounded Valley)، وغیرہ۔ ان مضامین میں بتایا جاتا ہے کہ انڈیا کی فوج کس طرح کشمیر کے لوگوں پر ظلم کر رہی ہے۔ اس قسم کی رپورٹیں ساری دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں چھاپ کر شائع کی گئی ہیں ۔ مگر عملاً ان کا کوئی بھی مثبت فائدہ نہیں ۔ اس قسم کی تمام رپورٹیں بے فائدہ چیخ وپکار بن کر رہ گئی ہیں ۔

فریاد و احتجاج کی اس بے اثری کی شکایت کشمیریوں کو کسی اور سے کرنے کے بجائے خود اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔ ان کشمیریوں کے لیے ملکہ ٔ سبا کے مذکورہ واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ ملکہ ٔ سبا نے یہ حکیمانہ پالیسی اختیار کی کہ فوجوں کے ظلم و ستم کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس کے برعکس، کشمیریوں نے اپنی بے دانشی کے تحت فوجوں کو دعوت دی کہ وہ ان پر ٹوٹ پڑیں اور انہیں اپنے ظلم کا نشانہ بنائیں ۔ کشمیریوں نے ’’آبیل مجھے مار‘‘ کا طریقہ اختیار کیا، اور ملکہ ٔ سبا نے بیل سے اعراض کا۔ یہی ایک جملہ میں کشمیر کی پوری کہانی کا خلاصہ ہے۔

کشمیر کے لوگ آج جس مسئلہ سے دوچار ہیں اس کے حل کا آغاز یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور قرآن میں بتائے ہوئے ملکہ ٔ سبا کے واقعہ سے سبق لے کر اپنی زندگی کی تعمیر کی ازسرِ نو منصوبہ بندی کریں ۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا اور کوئی حل نہیں ۔

حکمت کا تقاضا

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاتشددوا علی انفسکم فیشدد علیکم ( سنن ابو داؤد، حديث نمبر 4904)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم تشدد والا طریقہ اختیار نہ کرو۔ ورنہ تمہارے حالات اور زیادہ شدید ہو جائیں گے۔ موجودہ زمانہ میں اس کی مثال ہر اس مسلم ملک میں پائی جاتی ہے جہاں اپنے مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ انہیں میں سے ایک کشمیر بھی ہے۔

کشمیر میں جو تشدد کلچر چلایا گیا، اس کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوا البتہ نقصان اتنا زیادہ ہوا جس کی کوئی گنتی نہیں کی جاسکتی—معیشت تباہ ہوگئی، تعلیمی نظام درہم برہم ہوگیا، تقریباً ایک لاکھ آدمی ہلاک ہوگئے۔ اس سے زیادہ لوگ وہ ہیں جو جسمانی معذوری کا شکار ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ اخلاقی روایات ٹوٹ گئیں ۔ جس کشمیریت کے نام پر تحریک چلائی گئی، وہ کشمیریت تباہ ہو کر رہ گئی۔

انہیں میں سے ایک عظیم نقصان یہ ہے کہ کشمیر کے بیشتر با صلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کشمیر کو چھوڑ کر باہر کے علاقوں میں چلے گئے۔

کشمیر کی ٹورسٹ انڈسٹری اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتی تھی۔ اس کی بدولت تجارتی سرگرمیاں یہاں سال بھر جاری رہتی تھیں ۔ مگر اب یہ حال ہے کہ وہاں کی ٹورسٹ انڈسٹری تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ ایک کشمیری نے کہا کہ اس ٹورسٹ انڈسٹری کی بدولت کشمیر کا یہ حال تھا کہ ہم پتھر لے کر سڑک پر بیٹھ جاتے تھے تو وہ بھی ایک قیمتی سودے کی طرح بکتا تھا مگر آج یہ حال ہے کہ ہمارے سیب کا بھی کوئی خریدار نہیں ۔ کشمیری عوام کے نام پر اٹھائی جانے والی اس تحریک کا کوئی فائدہ کشمیری عوام کو تو نہیں ملا البتہ کشمیر کے نام نہاد لیڈر وں کو ضرور اس سے فائدہ پہنچا۔

قرآن نے اپنے پیروؤں کو جو تعلیم دی ہے ان میں سے ایک یہ ہے—تم لوگ اس چیز پر غم نہ کرو جو تم سے کھویا گیا ( 57:23)۔

یہ آیت در اصل فطرت کے اس قانون کو بتاتی ہے جو اللہ نے اس دنیا میں مقرر کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق، ہر انسان اور ہر گروہ کے ساتھ لازمی طورپر کھونے کا تجربہ پیش آتا ہے۔ کوئی بھی فرد یا قوم فطرت کے اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ۔ یہ اللہ کی اس حکمت تخلیق کا ایک جزء ہے جس کے تحت اس نے اس دنیا کو بنایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ اللہ کا قانون ہے اور اللہ کے قانون کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں ۔

مگر اسی کے ساتھ فطرت کا دوسرا لازمی قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں مواقع (opportunities)کبھی ختم نہ ہوں ۔ اس دنیا میں جب بھی ایک موقع ختم ہوتا ہے تو فورًا ہی دوسرا موقع اس کے ساتھ لگا ہوا چلا آتا ہے۔ اس لیے عقل مندی یہ ہے کہ آدمی کھوئے ہوئے موقع کو بھلائے اور نئے موقع کو استعمال کرے۔ یہی آج کشمیریوں کو کرنا چاہیے۔

استحصالی لیڈر محرومیوں کے نام پر اپنی لیڈری چلاتا ہے۔ حقیقی لیڈر وہ ہے جو یافت کے اصول پر اپنی تحریک چلائے۔ جو موانع کے بجائے مواقع کی نشان دہی کرکے اپنی قوم کو نئے مستقبل کا راستہ دکھائے۔

امن اور انصاف

امن کے ساتھ آپ ابدی طورپر رہ سکتے ہیں مگرجنگ آپ ابدی طورپر نہیں لڑسکتے— کشمیر کے لیڈروں کو شاید اس آزمودہ تاریخی حقیقت کا علم نہیں ۔ وہ اپنی بے نتیجہ جنگ کو مسلسل طورپر جاری رکھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ یہ بے نتیجہ جنگ اب خود کش بمباری کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ خود کش بمباری کا طریقہ جاپان نے دوسری عالمی جنگ میں ان کے مقابلہ میں ہزار گنازیادہ بڑے پیمانہ پر استعمال کیا مگر وہ مکمل طورپر ناکام رہا۔ دنیا میں کبھی کوئی بادشاہ بھی کسی جنگ کو ابدی طورپر جاری نہ رکھ سکا۔ پھر کشمیر کے کمزور عوا م کس طرح اس بے نتیجہ جنگ کو ابدی طورپر جاری رکھ سکتے ہیں ۔ آخر کار جو کچھ ہونے والا ہے وہ یہ کہ کشمیر کے جنگجو تھک جائیں اور مجبورانہ طورپر اپنی جنگ کو ختم کردیں ۔ مگر صحیح یہ ہوگا کہ کشمیر کے لوگ دانش مندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے خود اپنے فیصلہ کے تحت اس تباہ کن جنگ کا خاتمہ کردیں ۔

کشمیر کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے بات ہوئی۔ میں نے کہا کہ کشمیر میں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ امن (peace) ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی امن چاہتے ہیں ، مگر کون سا امن۔ امن وہ ہے جس کے ساتھ انصاف ملے، جس امن کے ساتھ انصاف شامل نہ ہو وہ توصرف ظالموں کے لیے مفید ہے،نہ کہ مظلوموں کے لیے۔

میں نے کہا کہ یہ سب سے زیادہ سنگین غلط فہمی ہے جس میں تمام دنیا کے مسلم رہنما مبتلا ہیں ۔ امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) سے کی جاتی ہے۔ اور یہ بالکل صحیح تعریف ہے۔ امن کبھی انصاف کے لیے نہیں ہوتا۔ امن صرف اس لیے ہوتا ہے کہ انصاف کے حصول کی کوشش کے لیے کار گر فضا حاصل ہوسکے۔ یہی عقل کے مطابق بھی ہے اور یہی اسلام کے مطابق بھی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حدیبیہ کا امن معاہدہ کیا تو اس میں آپ کو صرف امن ملا تھا، انصاف نہیں ملا تھا۔ البتہ جب امن کے ذریعہ معتدل حالات پیدا ہوئے تو آپ نے ان حالات میں عمل کرکے بعد کو انصاف بھی حاصل کر لیا۔ انصاف کبھی امن کا جزء نہیں ہوتا، انصاف ہمیشہ امن کے بعد حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرنے سے ملتا ہے، نہ کہ براہ راست طورپر خود امن سے۔

کشمیر کی متشددانہ تحریک کے رہنماؤں سے بات کی جائے تو وہ ہمیشہ اور یکساں طورپر ایک بات کو دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ وہ یہ کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی تجویزوں کی روشنی میں ہمارے معاملہ کا فیصلہ کیا جائے۔ بالفاظ دیگر یہ کہ کشمیر میں (referendum)کرایا جائے۔ قانونی یا منطقی طورپر اس بات کا بے وزن ہونا اس وقت ساری دنیا کو معلوم ہوگیا جب کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے اپنے ایک دورہ کے درمیان اسلام آباد میں یہ اعلان کیا کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کا رزولیوشن اب غیر متعلق (irrelevant) ہوچکا ہے۔

تاہم اس سے قطع نظر میں ایک اصولی بات کہوں گا۔ وہ یہ کہ اپنا حق خود اپنی طاقت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسرے کی طاقت کے زور پر کبھی کسی نے اپنا حق حاصل نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ قسم کا نظریہ صرف کسی خوش فہم انسان کے دماغ میں جگہ پاسکتا ہے۔ عالم واقعہ میں ایسے کسی نظریہ کا وجود نہیں ۔ اب کشمیریوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام خوش فہم قوم کی حیثیت سے لکھوانا چاہتے ہیں یا حقیقت شناس قوم کی حیثیت سے۔

اسلامی تحریک نہیں

کشمیر کے جنگجو مسلمان اپنی موجودہ جنگ کو اسلامی جہاد کہتے ہیں ۔ یہ ایک سخت قسم کا مغالطہ ہے جس میں یہ حضرات مبتلا ہیں ۔ اس معاملہ میں ہمارے لوگوں کی ناقابلِ فہم خاموشی نے ان کے اس یقین میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کشمیر کی موجودہ جنگ یقینی طورپر جہاد نہیں ۔ اس میں حصہ لینے والے کوہر گز جہاد کا انعام نہیں مل سکتا۔

جس طرح نماز کی شرطیں ہیں اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کی بھی شرطیں ہیں اور کشمیر کی لڑائی ان شرطوں پر پوری نہیں اترتی—جہاد کے لیے ایک باقاعدہ امیر ہونا چاہیے۔ جہاد کے لیے ایک بااختیارمسلم علاقہ بطور مرکز ہونا چاہیے۔ جہاد کے لیے پہلے ضروری تیاری ہونا چاہیے۔ جہاد ملک و مال کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لیے ہوتا ہے، وغیرہ۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ کشمیر کی لڑائی ان میں سے کسی بھی شرط پر پوری نہیں اترتی۔ کشمیر کی موجودہ لڑائی کو یا تو گوریلا وار کہا جاسکتا ہے یا پراکسی وار۔ اور ان دونوں ہی قسم کی جنگوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ گوریلا وار اس لیے غیر اسلامی ہے کہ اسلام میں جہاد حاکم کا کام ہے، نہ کہ عوام کا کام۔ اور پراکسی وار اس لیے غیر اسلامی ہے کہ جو حکومت اس پراکسی وار کو چلارہی ہے اس نے اس کا اعلان نہیں کیا اور اسلامی جنگ کے لیے کھلا اعلان لازمی شرط ہے۔

اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو کشمیر کی موجودہ ناکام جنگ کشمیریوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر تم اپنی لڑائی کو بندکردو۔ اس لیے کہ اس لڑائی میں تمہارے لیے دنیا کی تباہی بھی ہے اورآخرت کی تباہی بھی۔ دنیا کی تباہی اس لیے کہ تم ضروری تیاری کے بغیر لڑ رہے ہو۔ اور آخرت کی تباہی اس لیے کہ تم جہاد کے نام سے ایک ایسی لڑائی لڑ رہے ہو جو اسلامی اصول کے مطابق جہاد ہی نہیں ۔

سیاسی آزادی کی تحریک کوئی اسلامی تحریک نہیں ، وہ سر تاسر ایک قومی تحریک ہے۔ ایسی کوئی تحریک اگر قومیت کے نام پر چلائی جائے تو اس میں بظاہر کوئی حرج نہیں لیکن اگر ایسی کوئی تحریک اسلامی جہاد کے نام پر چلائی جائے تو یقینی طورپر وہ ایک غلط تحریک بن جائے گی۔

پیغمبروں میں سے کسی بھی پیغمبر نے ملکی آزادی یا سیاسی آزادی کے نام پر کوئی تحریک نہیں چلائی۔ حالانکہ اکثر پیغمبروں کے زمانہ میں عین وہی حالات موجود تھے جن میں سیاسی لیڈر آزادی ٔ وطن کی تحریک چلایا کرتے ہیں ۔ مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مشرک اور غیر ملکی خاندان مصر کے اوپر حکمراں تھا۔ مگر حضرت یوسف نے مذکورہ قسم کی سیاسی تحریک ملک میں نہیں اٹھائی۔ حضرت یوسف کے بعد اس طرح کی تحریک ملک میں اٹھی مگر وہ ملک کے قومی لیڈروں نے چلائی تھی، نہ کہ حضرت یوسف یا ان کے ساتھیوں نے۔

کشمیر کے مسلمان اگر اپنی جدوجہد کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنی جد وجہد کی موجودہ صورت کو ختم کریں ۔ وہ اس روش سے بازآئیں کہ انہوں نے سراسر ایک قومی تحریک چلائی اوراس کے اوپر اسلام کا لیبل لگا دیا۔ اس قسم کی تحریک کو کبھی اللہ کی نصرت نہیں مل سکتی۔

کشمیر کے مسلمان اکثر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم تو دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں ۔ ایک طرف انڈین فوج اور دوسری طرف جنگجو۔ پھر اس پر اضافہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ پہلے جب یہ کشمیری جہاد شروع ہوا تو اس میں اچھے لوگ موجود تھے مگر اب کشمیر کی لڑائی برے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔

یہ ایک سخت قسم کا مغالطہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گوریلا وار کا انجام ہمیشہ اور ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ گوریلا وار پہلے بظاہر اچھے لوگ شروع کرتے ہیں مگربعد کو اس میں برے لوگ شامل ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ اس میں شامل ہو کر انہیں اسلامی جہاد یا وطنی آزادی کا شلٹر(shelter) مل جاتا ہے جس کے زیر سایہ وہ اپنی لوٹ مار کو جائز بتا کرجاری رکھ سکیں ۔

مذکورہ قسم کا عذر کشمیریوں کے لیے کوئی کام آنے والا نہیں ۔ انہیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ گوریلا وار شروع کرنا اول دن ہی سے ایک غلطی تھی۔ اس طرح کے حالات میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پہلا قدم ہوتا ہے، نہ کہ دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانا۔

ممکن کی سیاست

زندگی نام ہے دوسرے موقع (second chance) کو استعمال کرنے کا۔ یہ تاریخی حقیقت کشمیر کے بارے میں بھی اتنا ہی درست ہے جتنا کہ دوسرے ملکوں کے بارے میں ۔ مثلاً انڈیا کے لیے پہلا موقع یہ تھا کہ آزادی کے بعد وہ ایک متحد ہندستان کی صورت میں دنیا کے نقشہ پر ابھرے۔ مگر یہ پہلا موقع اس کے لیے مقدر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد یہاں کے لیڈروں نے دوسرے ملے ہوئے موقع کو استعمال کیا اوراب انڈیا نہایت تیزی کے ساتھ ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ملک کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ یہی معاملہ پاکستان کے ساتھ پیش آیا۔ پاکستانی لیڈروں کا پہلا خواب یہ تھا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان، دونوں کے مجموعہ کی صورت میں وہ ایک بڑا ملک بنائیں ۔ مگر 1972 میں یہ پہلا موقع ان کے لیے ختم ہوگیا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرے حاصل شدہ موقع کو استعمال کیا۔ اور اب پاکستان مسلم دنیا کے ایک اہم ملک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہی معاملہ کسی نہ کسی صورت میں دنیا کے ہر ملک کے ساتھ پیش آیا۔ ہر ملک نے کسی نہ کسی صورت میں پہلے موقع کو کھویا ہے۔ مگر دوسرے موقع کو استعمال کرکے اس نے دوبارہ نئی زندگی حاصل کر لی ہے۔

یہی معاملہ کشمیر کا ہے۔ کشمیر کے لیڈروں نے 1947 سے پہلے کشمیر کے بارے میں ایک سیاسی خواب دیکھا تھا۔ یہ گویا ان کے لیے پہلا موقع تھا۔ مگر 1947 کے انقلاب کے بعد یہ پہلا موقع ان سے کھویا گیا۔ اب کشمیر کے لوگوں کے لیے صحیح اورممکن طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسرے موقع کو استعمال کریں ، وہ دوسرے موقع کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر کی نئی تعمیر کریں ۔

کشمیری لیڈر کشمیر کو ایک آزاد کشمیر کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔ بظاہر یہ ناممکن نہ تھا۔ مگر 1947 کے بعد حالات میں جو فیصلہ کن تبدیلی ہوئی ہے اس نے اب اس کو ناممکن بنا دیا ہے کہ برصغیر ہند کے نقشہ میں آزاد کشمیر کے نام سے کوئی مستقل ملک بنے۔ اب حالات کے اعتبار سے جو چیز ممکن ہے وہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دستور ہند کی دفعہ 370 کے مطابق وہ انڈیا کا ایک حصہ بنے۔ کشمیری لیڈر اب تک ناممکن کی سیاست چلارہے تھے۔ اب انہیں حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے وہ ممکن سیاست چلانا چاہیے جو بر وقت ان کے لیے قابل حصول ہے۔

کشمیر کے بارے میں اس حقیقت کا اندازہ مجھے خدا کے فضل سے ملکی آزادی کے بعد ہی ہوگیا تھا۔ تاہم اس پر میرا پہلا تحریری بیان غالباً وہ ہے جو 1968 میں چھپا تھا۔ یہ پورا بیان اس مجموعہ میں دوسرے مقام پر موجود ہے۔

کشمیریوں کے لیے واحد درست مشورہ یہ ہے کہ وہ ماضی کو بھلا کر حال میں جینا سیکھیں ۔ وہ حال کے ممکن نقشہ میں اپنی زندگی کی تعمیر کریں ،نہ کہ ماضی کے نقشہ میں جو کہ اب عملاً خیالی اور تصوراتی بن چکا ہے۔

کشمیر کے بارے میں پاکستان اگر اعتراف حقیقت کی پالیسی اختیار کر لے تو یہ پاکستان کے لیے کوئی نئی چیز نہ ہوگی۔ اس سے پہلے وہ بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) کے بارے میں اعتراف حقیقت کی یہی پالیسی اختیار کرچکا ہے۔ ایسی حالت میں پاکستان کے لیے اس معاملہ میں کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔

عالمی امکانات

کشمیر کے مسلمانوں کو فطری طورپر کئی پلس پائنٹ حاصل ہیں جن پر انہوں نے غالباً ابھی تک غور نہیں کیا ۔ انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ مل کر وہ دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی حیثیت حاصل کرسکـتے ہیں ۔ نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش سے زیادہ بلکہ کسی بھی دوسرے مسلم ملک سے زیادہ۔ یہ کشمیری مسلمانوں کا ایک ایسا پلس پائنٹ ہے جس کو اگر وہ شعوری طورپر جان لیں تو وہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت کو حاصل کر سکتے ہیں ، یعنی اعتماد اور بلند حوصلہکا مالک ہونا اور احساس کمتری سے مکمل طورپر پاک ہونا۔

کشمیر کے مسلمان اپنے نادان لیڈروں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں اپنے لیے پہلا موقع کھوچکے ہیں ۔ تاہم اب بھی دوسرا موقع ان کے لیے موجود ہے۔ دوسرے موقع کو استعمال کرکے وہ اب بھی وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جس کو وہ چاہتے ہیں ۔

یہ کشمیریوں کی خوش قسمتی ہے کہ جب وہ بظاہر پہلا موقع کھو کر دوسرے موقع کے دور میں داخل ہوئے تو خود زمانہ میں ایسا انقلاب آگیا کہ ساری زمین ایک عالمی گاؤں (global village) کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اب سیاسی نظام کی تبدیلی خود ایک اضافی (relative) چیز بن چکی ہے۔ نئے حالات میں انسان کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ زمین کے ایک گوشہ میں رہ کر عالمی ربط قائم کرسکے۔ وہ بظاہر حکومتی اقتدار پر فائز نہ ہوتے ہوئے بھی وہ سارے فوائد حاصل کرسکے جو قدیم زمانہ میں صرف سیاست و حکومت کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔

موجودہ زمانہ میں اس کی مثال سنگاپور اور جاپان جیسے ممالک ہیں ۔ وہ بظاہر محدود جغرافیہ کے مالک ہوتے ہوئے عالمی جغرافیہ کے فوائد حاصل کررہے ہیں ۔ یہی عالمی امکانات کشمیریوں کے لیے بھی پوری طرح کھلے ہوئے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ دانش مندانہ عمل کے ذریعہ ان کو اپنے حق میں استعمال کرسکیں ۔

دونوں کی جیت

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی زمین پر دو آدمیوں یا دو گروہوں کے درمیان نزاع ہوجاتی ہے۔ زمین کا کچھ حصہ ایک گروہ کے پاس ہوتا ہے اور بقیہ حصہ دوسرے گروہ کے پاس۔ اب ایک صورت یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حصہ کو چھیننے کے لیے آپس میں لڑتے رہیں ، یہاں تک کہ دونوں تباہ ہوجائیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں اس پر راضی ہو جائیں کہ جو حصہ جس گروہ کے قبضہ میں ہے، وہ اس کے پاس رہے اور دونوں باہمی لڑائی کو چھوڑ کر اپنے اپنے حصہ کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہو جائیں ۔ نزاع کے حل کے اس طریقہ کو امریکی اصطلاح میں ، میں بھی جیتا، تم بھی جیتے (win-win solution) کہا جاتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جموں اور کشمیر کے سوال پر انڈیا اور پاکستان کے لیے یہی بہترین قابل عمل فارمولا ہے۔ دونوں ملکوں کے قبضہ میں جموں و کشمیر کا ایک ایک حصہ ہے۔ دونوں اگر وِن وِن سولوشن کے اصول پر اپنے اپنے حصہ پر راضی ہوجائیں اور جھگڑے کا راستہ چھوڑ کر حاصل شدہ کی تعمیر پر اپنی بھر پور کوشش لگا دیں تو یقینی طورپر یہ دونوں ملکوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگا۔دونوں کے یہاں ترقی کا وہ سفر شروع ہوجائے گا جو لمبی مدت سے رکا ہوا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ پاکستان کے پاس ریاست جموں و کشمیر کا جو حصہ ہے وہ مقابلۃً کم ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں رقبہ کی کمی یا بیشی کی حیثیت محض اضافی ہے۔ اصل اہمیت یہ ہے کہ اپنے حاصل شدہ رقبہ کو محنت اور دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔

دنیا میں اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں ۔مثلاً دبئی، ہانگ کانگ، تائی وان، سنگا پور، وغیرہ رقبہ کے اعتبار سے بہت چھوٹے ہیں ، مگر ترقی اور خوشحالی کے اعتبار سے وہ بہت سے بڑے بڑے ملکوں سے بہتر حالت میں ہیں ۔

انسان ایک نفسیاتی مخلوق ہے۔ یہ دراصل نفسیات ہے جو کسی انسان کی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کسی انسان کے اندر اگر منفی نفسیات پیداہو جائے تو اس کی پوری شخصیت منفی شخصیت بن جائے گی۔ اس کے برعکس اگر کسی کی نفسیات مثبت نفسیات بن جائے تو اس کی پوری شخصیت مثبت شخصیت میں ڈھل جائے گی۔

جموں و کشمیر کا مسئلہ 1947 سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تلخی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس لمبی مدت میں دونوں ایک دوسرے کو حریف کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں ۔ دونوں کا احساس یہ رہا ہے کہ فریقِ ثانی نے اس کا حق چھین رکھا ہے۔ اس دو طرفہ احساس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں گویا ’’میں بھی ہارا،تم بھی ہارے‘‘ کی نفسیات میں جیتے رہے۔ دونوں پڑوسیوں کے درمیان وہ معتدل فضا باقی نہ رہی جو دونوں ہی کی ترقی کے لیے ضروری تھی۔

اب اگر دونوں ملک دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ’’میں بھی ہارا، تم بھی ہارے‘‘ کی منفی نفسیات سے باہر آجائیں اور اس کے بجائے، دونوں ’’میں بھی جیتا، تم بھی جیتے‘‘ کے مثبت فارمولے کو اختیار کرلیں تو اچانک دونوں ملکوں کے درمیان انسانی ترقی کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔ اس کے بعد وہ حقیقی انڈیا اور وہ حقیقی پاکستان بننا شروع ہو جائے گا جس کا خواب دونوں ملکوں کے بانیوں نے دیکھا تھا۔

اب تک دونوں پڑوسی ملک اس احساس میں جیتے رہے ہیں کہ سرحد کے دوسری طرف سے انہیں ایک دشمن ملک کا خطرہ درپیش ہے، اس کے بعد دونوں یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ سرحد کے دوسری طرف ان کا ایک دوست ملک موجود ہے۔ اب تک دونوں ملک محرومی کے احساس میں جی رہے تھے، اس کے بعد دونوں ملک یافت کے احساس میں جینے لگیں گے۔ اب تک دونوں ملک اپنے آپ کو مسائل میں گھرا ہوا سمجھتے تھے، اس کے بعد دونوں ملک یہ محسوس کریں گے کہ وہ کھلے ہوئے مواقع کے درمیان ہیں ۔ بظاہر جغرافی اور سیاسی تقسیم کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ایک برتر انسانی اور تعمیری وحدت قائم ہو جائے گی۔اور یہ سب کرشمہ ہوگا اس بات کا کہ دونوں نے وِن وِن سولیوشن کے طریقہ کو اختیار کر لیا۔

حل کی طرف

موجودہ حالت میں پاکستان کے لیے جو انتخاب (choice) ہے وہ جمہوری حکومت اور فوجی حکومت کے درمیان نہیں ہے بلکہ حقیقی انتخاب جن دو حالتوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ پاکستان کا سفر جس بند گلی (impasse) پر آکر رک گیا ہے وہاں سے وہ اپنے آپ کو نکال کر اپنا سفر دوبارہ شروع کرے یا وہ اسی بند گلی میں بدستور پڑا رہے۔ یہاں تک کہ وہ قوموں کے عالمی روڈمیپ سے غیر موجود ہوجائے۔

کسی قوم کی زند گی میں بعض اوقات ایسا لمحہ آتا ہے جب کہ قوم کا ترقیاتی سفر رک جاتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا جائے تاکہ دوبارہ قوم کا سفر معتدل انداز میں جاری ہوسکے۔ اس قسم کا نازک فیصلہ اکثر اوقات عوامی جذبات کے خلاف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا جرأت مندانہ فیصلہ اکثر ایسے افراد کرتے ہیں جو فوجی حکمراں کی حیثیت رکھتے ہوں ۔ جمہوری حکمراں اس قسم کا جرأت مندانہ فیصلہ نہیں لے سکتا۔ کیوں کہ وہ عوام کی رایوں سے چن کر حکومت تک پہنچتا ہے ، اس بنا پر اس کے لیے ایسا کوئی انقلابی فیصلہ لینا ناممکن ہو جاتا ہے جو عوامی احساسات سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔

یہاں میں اس نوعیت کی دومثالیں پیش کروں گا۔ مسلم تاریخ میں اس کی ایک مثال صلاح الدین ایوبی (وفات 1193ء ) کی ہے۔ صلاح الدین کا یہ عظیم کارنامہ سمجھا جاتا ہے کہ اس نے صلیبی قوموں کی فوجی یلغار سے مسلم دنیا کو بچایا۔ مگر صلاح الدین کو یہ طاقتور حاکمانہ حیثیت کیسے ملی جب کہ وہ اپنا یہ عظیم رول ادا کرسکے۔ جیسا کہ معلوم ہے، صلاح الدین ایوبی مصر کے سلطان نور الدین زنگی کا ایک فوجی افسر تھا۔ سلطان نور الدین کی موت کے بعد اگر چہ اس کے بیٹے موجود تھے، لیکن صلاح الدین نے حکومت پر قبضہ کر کے سلطان کا منصب حاصل کر لیا۔ مسلم مورخین نے عام طورپر صلاح الدین کے اس قبضہ کی کارروائی کو جائز قرار دیا ہے۔ کیوں کہ یہ قبضہ اگر چہ بظاہر غیرآئینی تھا لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ ایک عظیم سیاسی فائدہ کا سبب بنا۔ اسی نے صلاح الدین ایوبی کے لیے اس امر کو ممکن بنایا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اپنا وہ عظیم کردار ادا کرسکے جو کہ اس نے اس کے بعدادا کیا۔

دوسری مثال فرانس کے چارلس ڈیگال (وفات 1970) کی ہے۔ وہ فرانس کی فوج میں ایک جنرل تھا۔ اس کے بعد اس نے حالات سے فائدہ اٹھا کر فرانس کے سیاسی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بظاہر یہ ایک غیر جمہوری عمل تھا مگر فرانس کی نجات کے لیے ڈیگال نے ایک ایسا کام کیا جو کوئی جمہوری حکمراں نہیں کرسکتا تھا۔

کیوں کہ جو حکمراں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے وہ عوامی جذبات کو نظر انداز کرکے کوئی جرأت مندانہ فیصلہ نہیں لے سکتا۔ جب کہ بعض حالات میں کسی قوم کی نجات کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ عوامی جذبات کو نظر انداز کرکے ایک جرأت مندانہ فیصلہ لیا جائے۔

جیسا کہ معلوم ہے، اس وقت فرانس نے افریقہ کے کئی ملکوں مثلاً الجزائر ،وغیرہ پر قبضہ کر رکھا تھا اور ان کو فرانس کے صوبے(provinces) کہتا تھا۔ یہ غیر حقیقت پسندانہ پالیسی فرانس کے لیے اتنی زیادہ مہلک ثابت ہوئی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاری ہونے والی ترقیاتی دوڑ میں وہ یورپ کا ایک ’’مرد بیمار‘‘ بن گیا۔ ڈیگال نے قومی جذبات سے الگ ہو کر اس مسئلہ پر غور کیا۔ اس کی سمجھ میں آیا کہ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ افریقہ کی فرانسیسی کالونیوں کو یک طرفہ طورپر آزاد کردیا جائے۔ یہ اقدام فرانس کے عوام کے جذبات کے سراسر خلاف تھا مگر یہی وہ غیرمقبول فیصلہ ہے جس نے فرانس کو جدید ترقیاتی دوڑ میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت دے دی۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال بھی تقریباً یہی ہے۔ کشمیر کے سوال پر انڈیا کے خلاف پاکستان کی بلا اعلان جنگ(undeclared war) نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔دنیا اس کو ایک غیرمحفوظ ملک کے طورپر دیکھتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری (investment) کے لیے تیار نہیں ۔ پاکستانی عوام کی بے چینی نے ملک میں بد امنی جیسی صورت حال پیدا کردی ہے۔ ملک کے مذہبی اور تعلیمی اور ثقافتی ادارے تخریبی سرگرمیوں کے مرکزبن گئے ہیں ۔

ان خرابیوں کا سب سے زیادہ اندوہناک انجام وہ ہے جس کو برین ڈرین(brain drain) کہا جاتا ہے۔ انسان فطر ی طور پر ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اس لیے کسی ملک کی ترقی کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ وہاں لوگوں کو عمل کے کھلے مواقع دکھائی دیتے ہوں ۔ مثلاً وہاں امن ہو، بہترین انفراسٹرکچر(infrastructure) ہو۔ آدمی کو اپنی محنت کا پورا صلہ ملتا ہوا نظر آئے۔اگر کسی ملک میں یہ مواقع پوری طرح موجود ہوں تو اس ملک میں ہر آدمی اپنے آپ سرگرم ہو جائے گا اور ملک خود بخود ترقی کرنے لگے گا۔ مگربدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان میں ’’پہلے صورت موجودہ (status quo) کو بدلو‘‘ کے نظریہ کے نتیجہ میں مسلسل طورپر ہنگامی صورت حال باقی ہے۔ وہاں عملی طور پر افراد کے لیے حسب حوصلہ کام کے مواقع بہت کم ہوگئے ہیں ۔ چنانچہ بیشتر حوصلہ مند اور باصلاحیت افراد پاکستان چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ امریکہ کے سفروں کے دوران میں نے امریکہ میں مقیم بہت سے پاکستانیوں سے پوچھا کہ آپ اپنے ملک کو چھوڑ کر یہاں کیوں آگئے۔ تقریباً سب کا ایک ہی جواب تھاکہ امریکہ میں کام کے مواقع ہیں جب کہ پاکستان میں کام کے مواقع نہیں ۔

کشمیر کے بارے میں پاکستان کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسی پاکستان کے ترقیاتی سیلاب کے لیے بند دروازہ (trap door) بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان موجودہ زمانہ میں ترقیاتی دوڑ میں پچھڑ گیا ہے۔ پاکستان کو اس پچھڑے پن سے نکالنے کی صرف ایک ہی صورت ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان مسائل سے ٹکرانے کے بجائے مواقع کو استعمال (avail) کرنے کی پالیسی اختیار کرے۔ موجودہ حالات میں اس کی عملی صورت یہ ہے کہ پاکستانی لیڈر کشمیر کے معاملہ میں صورت موجودہ (status quo) کو علیٰ حالہٖ ماننے پر راضی ہوجائیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کشمیر میں قبضہ کی لائن (LoAC) کو کچھ ضروری ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تسلیم شدہ سرحد قرار دے دیا جائے۔ اس معاملہ میں ہندستان اور پاکستان کے درمیان جو جغرافی اور سیاسی اسٹیٹس کو (political status-quo)بن گیاہے اس کو مان کر اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔اپنی اس رائے کو میں 1968 سے برابر پیش کر رہا ہوں ۔ مزید یہ کہ اس طرح کا انقلابی فیصلہ صرف ایک غیرجمہوری حکمراں ہی کرسکتا ہے۔ کسی جمہوری حکمراں کے لیے ایسا غیر جذباتی فیصلہ لینا ممکن نہیں ۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے لیے یہی تاریخی کام مقدر ہے۔ اس معاملہ میں جو لوگ صدر مشرف کے حق اقتدار پر سوال اٹھارہے ہیں ان کا جواب سابق فوجی صدر محمد ضیاء الحق کی مثال میں موجود ہے۔اس سے پہلے جنرل محمد ضیاء الحق نے یہی کیا تھاکہ پاکستان کے اقتدار پر فوجی قبضہ کیا۔ اور پھر ایک کارروائی کے ذریعہ اپنے صدر مملکت ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت پاکستان کے اسلام پسندوں سے لے کر امریکہ کے محکمہ ٔخارجہ تک ہر ایک نے اس کو قبول کر لیا اور قانون ِضرورت (law of necessity) کے تحت اس کو جائز قرار دیا۔ یہ نظیر کافی ہے کہ صدر پرویز مشرف کو بھی اسی دلیل کے ساتھ قبول کر لیا جائے۔ یہ ایک دہراکردار ہے کہ جہاں ذاتی انٹرسٹ دکھائی دے وہاں آدمی پریکٹکل بن جائے اور جہاں ذاتی انٹرسٹ کا معاملہ نہ ہو وہاں وہ آئیڈیلزم کی بات کرنے لگے۔

پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سنبھالنا اورپھر 20 جون 2001 کو ملک کے صدر کی حیثیت سے حلف لینا بظاہر ایک غیر آئینی واقعہ ہے۔ مگر میرے نزدیک وہ ایک بالکل بروقت واقعہ ہے۔ موجودہ صورت حال میں پاکستان کو جو جرأت مندانہ فیصلہ لینا ہے وہ صدر پرویز مشرف جیسا فوجی حکمراں ہی لے سکتا ہے۔ انتخابات کے ذریعہ بننے والے کسی جمہوری حکمراں کے لیے ایسا غیرجذباتی فیصلہ لینا ممکن نہیں ۔

اس مسئلہ کا واحد علاج یہ ہے کہ پاکستان اپنی جذباتی پالیسی کو چھوڑ کر حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرے۔ وہ کشمیر کے سوال پر ہندستان سے سمجھوتہ کرلے تاکہ ملک میں امن کی فضا پیداہو اور ملکی ذرائع کو تعمیری سرگرمیوں کی طرف موڑا جاسکے۔

پچھلے 55 سال سے پاکستان کی سیاست ایک ہی سوال پر مرتکز رہی ہے۔ اور وہ ہے— کشمیر میں قائم شدہ سیاسی حالت (political status-quo) کو بدلنا ۔ اب آخری طورپر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ پالیسی ایک تباہ کن پالیسی ہے۔ وہ سرے سے کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والی ہی نہیں ، نہ ماضی اور حال کے اعتبار سے اور نہ ہی مستقبل کے اعتبار سے۔

مذکورہ قسم کاانقلابی فیصلہ لینا یقینی طورپر ایک مشکل کام ہے۔ لیکن اگر ایک بار ہمت کرکے پاکستان ایسا فیصلہ لے لے تو اس کے معجزاتی نتیجے برآمد ہوں گے۔ انڈیا کے خلاف بلا اعلان جنگ کی حالت ختم ہو کر امن قائم ہوجائے گا۔ پاکستانی قوم کی منفی سوچ مثبت سوچ میں تبدیل ہو جائے گی۔ باہمی تجارت کے دروازے کھل جائیں گے۔ تعلیم اور ثقافت اور سیاحت کے میدان میں دونوں ملکوں کے درمیان لین دین شروع ہو جائے گا۔ لٹریچر کی دو طرفہ آمد و رفت کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں ختم ہوجائیں گی اور برادرانہ ماحول قائم ہوجائے گا۔ انڈیا اور پاکستان کی زبان اور کلچر بڑی حد تک ایک ہے۔ اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لیے دور کے پڑوسی (distant neighbours) بنے ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد یہ ہوگا کہ دونوں قریب کے پڑوسی بن جائیں گے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں ۔

اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی فرد یا قوم کام کرنا چاہے تو اس وقت پیشگی حالات کے نتیجہ میں ایک عملی صورت حال (status quo) موجود رہتی ہے۔ اب سوچنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ پہلے موجودصورت حال (status quo) کو بدلا جائے تاکہ عمل کرنے کے راستے پیدا ہوں ۔ دوسرے یہ کہ موجود صورت کو اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے بقیہ ممکن میدانوں میں اپنا عمل جاری کرنا۔

یہ طریقہ جس کو میں مثبت اسٹیٹس کو ازم(positive status-quoism کہتا ہوں ، یہی عقل کے مطابق ہے۔ یعنی جب آئیڈیل کا حصول ممکن نہ ہو تو پریکٹکل پر راضی ہوجانا۔ خود اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ حکم دیا گیاہےالصُّلْحُ خَيْرٌ (4:128)۔ یعنی نزاعی معاملات میں سب سے زیادہ بہتر اور مفید پالیسی سمجھوتہ کی پالیسی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اختلافی مواقع پر ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر مصالحت کا طریقہ اختیار کرنا۔

اسٹیٹس کو (status quo) کو مانتے ہوئے تعلقات کو مستقل بنیاد پر استوار کرنے کی یہ تجویز کوئی نئی نہیں ۔ جواہر لال نہرو کے زمانہ میں دونوں طرف کی حکومتیں مبینہ طورپر اس تجویز پر راضی ہوچکی تھیں ۔ حتی کہ شیخ محمد عبد اللہ دونوں کے بیچ میں ایک درمیانی آدمی کے طورپر پاکستان پہنچ چکے تھے۔ مگر نہرو کی اچانک موت سے اس تاریخ ساز منصوبہ پر عمل در آمد نہ ہو سکا

By 1956, Nehru had publicly offered a settlement of Kashmir with Pakistan over the ceasefire line (now converted into the LoC). On May 23, 1964, Nehru asked Sheikh Abdullah to meet Ayub Khan in Rawalpindi in an effort to resolve the Kashmir imbroglio…the Pakistani leader agreed to a summit with Nehru, to be held in June 1964. This message was urgently telegraphed to Nehru on May 26. But just as Nehru’s consent reached Karachi, the world also learned that Nehru had died in his sleep. And with that, a major opportunity for a peaceful solution over Kashmir was also lost. (The Hindustan Times, June 18, 2001)

پاکستان اگر ایسا کرے کہ کشمیر کے بارے میں صورت موجودہ (status quo) پر رضامند ہوکر اس کو مستقل بندوبست کے طورپر قبول کرلے تو اس میں پاکستان کا یا وسیع تر معنوں میں ملت مسلمہ کا کوئی نقصان نہیں ۔ کشمیر کا علاقہ پاکستان سے جدا ہونے کے بعد بھی بدستور ایک مسلم خطہ کے طورپر اپنی جگہ باقی رہے گا۔ پھر اس میں آخر نقصان کی کیا بات۔مزید یہ کہ تجربہ بتاتا ہے کہ برصغیر ہند کے جو مسلمان انڈیا سے جڑے وہ آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں ۔اس فرق کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ ہندستان کے حکیم عبد الحمید صاحب (پیدائش 1908) اور پاکستان کے حکیم محمد سعید صاحب (پیدائش 1920)سگے بھائی تھے۔دونوں نے بڑے بڑے کام کیے۔ مگر حکیم محمد سعید صاحب کو 1998 میں کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ جب کہ حکیم عبد الحمید صاحب امن کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ 1999 میں دہلی میں ان کی طبعی وفات ہوئی۔

دوسری بات یہ کہ پاکستان کا ہندستان سے مصالحت کرنا کوئی سادہ بات نہیں ۔ یہ اپنے طاقتور پڑوسی سے نزاع کو ختم کرنا ہے۔ اور اپنے پڑوسی سے نزاع کو ختم کرنا گویا اپنے اوپر ہر قسم کی ترقی کے دروازے کھولنا ہے۔ اپنے حریف سے نزاع کو ختم کرنا کس طرح ترقی کا زینہ بنتا ہے، اس کی ایک مثال موجودہ جاپان ہے۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے جاپان اور امریکہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ جنگ کے بعد جاپان نے امریکہ سے مکمل مصالحت کرلی۔ اس مصالحت کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان عالمی نقشہ میں اقتصادی سُپر پاور بن کر ابھر آیا۔

پاکستان اپنی موجودہ پالیسی سے اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ اپنی موجودہ پالیسی کی بنا پر پاکستان کو یہ کرنا پڑا کہ اس نے انڈیا سے نفرت کو اپنے لیے قومی اتحاد کا ذریعہ بنایا۔ اس غلط پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان (بشمول مشرقی پاکستان) کے لوگ اسلام کے نام پر تو متحد نہ ہوسکے مگر انڈیا سے نفرت کے نام پر وہ مکمل طورپر متحد نظر آتے ہیں ۔اس مثال کی بنا پر دنیا کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ اسلام کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ مسلمانوں کوباہم متحد کر سکے۔ اسی ذہن کی ترجمانی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (18 جون 2001ء) کے ایک مضمون میں اس طرح کی گئی ہے کہ اسلام پاکستان کو متحد نہ کرسکا، مگر ہندستان دشمنی نے اس کو متحد کردیا

Islam does not hold Pakistan together anymore, but anti-Indianism does.

پاکستان کی مصالحانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل پاکستان کے اندر نیا مثبت ذہن فروغ پائے گا۔ اس کے بعد اہل پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہوجائیں گے جب کہ ان کے قومی اتحاد کی بنیاد اینٹی انڈیا ذہن نہ ہو بلکہ ان کے قومی اتحاد کی بنیاد پرواسلام (pro-Islam) ذہن ہوجائے۔ یہ فائدہ اتنا عظیم ہے کہ عجب نہیں کہ اس کے بعد پاکستان کے اوپر اللہ کی رحمت کے تمام دروازے کھل جائیں اور اس کی رحمت کا کوئی دروازہ اُس کے اوپر بند نہ رہے۔

دورۂ ہند سے قبل بھیجا ہوا خط

برادر محترم پریذیڈنٹ پرویز مشرف صاحب     السلام علیکم ورحمۃ اللہ

انڈیا کے لیے آپ کا دورہ (15۔16 جولائی) ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اقدام کو مکمل کامیابی عطا فرمائے۔

12 اکتوبر 1999 کو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک امکانی ہوائی حادثہ سے بچایا اور پاکستان کے سیاسی اقتدار پر سرفراز کیا تو مجھے رابرٹ کلایو کا واقعہ یاد آیا۔ ایک امکانی حادثہ سے بچنے کے بعد کلایو کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے: خدانے تم کو کسی بڑے کام کے لیے بچایا ہے۔ اور اس کے بعداس نے واقعۃً برطانی تاریخ میں ایک بڑا کام انجام دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی تاریخ آپ کے ساتھ دہرائی جانے والی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کو اپنی خصوصی مدد سے بچایا ہے تاکہ آپ برصغیر ہند میں قیام امن کا وہ ضروری کردار ادا کر سکیں جس کا تاریخ کو نصف صدی سے انتظار ہے۔

جب یہ خبر آئی کہ آپ حکومت ہند کی دعوت پر انڈیا کا دورہ کرنے والے ہیں تو اس دورہ کے بارے میں میں نے کئی مضمون لکھے جو یہاں کے اردو، ہندی اور انگریزی اخباروں میں شائع ہوئے۔ مثال کے طور پر ساؤتھ انڈیا کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ہت واد (The Hitavada) میں میرا ایک تفصیلی انٹرویو اس کے شمارہ 30 جون 2001 میں چھپا ۔ اس میں ملٹری رولر کی حیثیت سے میں نے آپ کا پرزور دفاع کیا تھا۔ چنانچہ اخبار نے اس انٹرویو کو چھاپتے ہوئے اس کا یہ عنوان دیا:

Military ruler is a blessing for Pakistan

اگر آپ اجازت دیں تو میں کہنا چاہوں گا کہ کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کو وہی پالیسی اختیار کرنا چاہیے جو مشہور انگریزی مقولہ میں اس طرح بیان کی گئی ہی— سیاست ممکن کا آرٹ ہے:

Politics is the art of the possible.

میں ایک خیر خواہ کی حیثیت سے کشمیر کے مسئلہ پر اس کے آغاز ہی سے غور کرتا رہا ہوں ۔ 1968 سے میں نے اس موضوع پر لکھنا شروع کیا اور اردو اور ہندی اور انگریزی پریس میں بار بار لکھتا رہا ہوں ۔ اس مسئلہ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے میری قطعی رائے ہے کہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے لیے صرف دو ممکن انتخاب (options) ہیں ۔ ایک یہ کہ اس معاملہ میں پاکستان ڈی لنکنگ پالیسی(delinking policy) اختیار کرے۔ یعنی کشمیر کے اشو کو پر امن گفت و شنید کے خانہ میں ڈالتے ہوئے بقیہ تمام امور میں ہندستان سے نارمل تعلقات قائم کرلے۔ اور دوسرے یہ کہ جموں و کشمیر میں جغرافی اعتبار سے جو اسٹیٹس کو (status quo) بن گیا ہے اس کو مستقل سرحد کے طورپر مان کر اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ اس کے سوا کوئی تیسرا انتخاب عملی طورپرممکن نہیں ۔ تیسری صورت یقینی طور پرصرف تباہی کی صورت ہے، نہ کہ ترقی اور کامیابی کی صورت ۔

اس معاملہ کا ایک اور نہایت اہم پہلو ہے۔آپ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر جہاد کے نام سے مِلیٹنسی (militancy) چلائی جارہی ہے، ان میں سے ایک نمایاں نام کشمیر کا ہے۔ اس مِلیٹنسی کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوا۔ البتہ اس کا ایک عظیم نقصان یہ ہوا کہ اسلام کی امیج ایک وائلنٹ مذہب (violent religion) کی ہوگئی۔ اس بدنامی نے موجودہ زمانہ میں اسلام کے آئیڈیالاجیکل مارچ(ideological march) کوروک دیا جو ایک ہزار سال سے مسلسل ساری دنیا میں چلا آرہا تھا۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کے لیے یہ رول مقدر کیا ہے کہ آپ اسلام کے اس دعوتی سفر کو دوبارہ جاری کریں ۔ اگر آپ انڈیا کے ساتھ مستقل قسم کا ایک پیس ٹریٹی (peace treaty) کر لیں تو اس کا فائدہ نہ صرف پاکستان کو ملے گا بلکہ اس کے نتیجہ میں پوری مسلم دنیا میں ایک نیا صحت مند پراسس جاری ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ ہوگا کہ موجودہ متشددانہ رجحان ایک پر امن دعوتی رجحان میں بدل جائے گا۔ لوگ نارمل فضا میں اسلام کا مطالعہ کرنے لگیں گے۔

موجودہ مبصرین پاکستان کو امکانی طورپر نیو کلیر فلیش پائنٹ (nuclear flashpoint) کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ لیکن اگر آپ جرأت و ہمت سے کام لے کر حدیبیہ جیسا ایک پیس ٹریٹی کر لیں تو پاکستان برعکس طورپر دعوہ فلیش پائنٹ(dawah flashpoint) بن جائے گا۔

مجھے اندازہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں مصالحت کی پالیسی اختیار کرنا آپ کی مقبولیت کے لیے ایک رِسک (risk) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر اس اندیشہ کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا ہے: الصُّلْحُ خَيْرٌ (4:128)۔ یعنی صلح بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلافی معاملات میں ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ کر مصالحت کی پالیسی اختیار کی جائے تو نتیجہ کے اعتبار سے وہ زیادہ بہتر ثابت ہوگی۔

زندگی میں ہر بڑی کامیابی کا تعلق رسک سے ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ افریقہ میں فرانس کی نو آبادیاتی پالیسی نے فرانس کو بے حد کمزور کردیاتھا۔ جنرل ڈیگال نے جرأت کرکے یک طرفہ طورپر اس پالیسی کو ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس میں جنرل ڈیگال کی مقبولیت بہت کم ہوگئی۔ مگر آج اِس ڈیگال ازم کو ایک کامیاب خارجہ پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ اسی پالیسی کے نتیجہ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس کو نئی طاقت ملی۔

اس خط کے ساتھ میں دو چیزیں بھیج رہا ہوں ۔ ایک اپنی کتاب Islam Rediscovered اور دوسرے، ماہنامہ الرسالہ کا شمارہ اگست 2001۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس کو پڑھنے کے لیے کچھ وقت نکال سکیں گے۔ اس مطالعہ سے میرا مدعا مزید واضح ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کا مددگار ہو۔

دعا گو    وحید الدین

نئی دہلی    9 جولائی 2001

نشستند وگفتند و برخاستند

پاکستان کے صدر جنر ل پرویز مشرف 14 جولائی 2001 کو اسلام آباد سے دہلی آئے۔ یہاں ہندستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے ان کی پانچ بار ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا خاص مقصد کشمیر کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا تھا۔ مگر بات چیت ناکام رہی اور 16جولائی 2001 کی رات کو واپس ہو کر وہ اسلام آباد چلے گئے۔

اس اعلیٰ سطحی بات چیت کی ناکامی کا سبب کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق، اس کا سبب یہ تھا کہ ہندستانی وزیر اعظم چاہتے تھے کہ جموں و کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور جغرافی اعتبار سے جو واقعی حالت(status quo) قائم ہوگئی ہے، اس کو علی حالہٖ باقی رکھتے ہوئے دوسرے تمام امور میں دونوں ملکوں کے درمیان معتدل تعلقات بحال کر لیے جائیں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ترقی کا رکا ہوا سفر جاری ہوسکے۔ مگر پاکستانی صدر کو غالباً یہ اصرار تھا کہ پہلے جموں و کشمیر کی موجودہ حالت (status quo) کو توڑ کر ان کے دعویٰ کے مطابق پوری ریاست پر پاکستان کا حق تسلیم کیا جائے۔ اس کے بعد ہی وہ دونوں ملکوں کے درمیان معتدل تعلقات کے قیام پر راضی ہوں گے۔ ہندستانی وزیر اعظم پاکستانی صدر کی بات نہ مان سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت ناکام ہوکر رہ گئی۔

جنرل پرویز مشرف جب ہندستان آئے تو شروع میں انہوں نے ایسی بات کہی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ مصالحت کا ارادہ لے کر ہندستان آئے ہیں ۔ مثلاً انہوں نے راشٹرپتی بھون (نئی دہلی) میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھاکہ کشمیر کے نزاع کا کوئی فوجی حل (military solution) ممکن نہیں ۔ اسی طرح آگرہ کی پریس کانفرنس میں انہوں نے حقیقت کے اعتراف (acceptance of reality) کی بات کہی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں کھلے ذہن کے ساتھ انڈیا آیا ہوں ۔ مگر بعد کو وہ حقیقت پسندانہ مصالحت کیے بغیر پاکستان واپس چلے گئے۔

جہاں تک میرا اندازہ ہے، ان کو غالباً پاکستانی عوام کی طرف سے سخت جذباتی ردّ عمل کا اندیشہ تھا، اس بنا پر وہ مصالحت کا طریقہ اختیار نہ کرسکے اور ناکام واپس چلے گئے۔ ایک مبصر کے الفاظ میں ، جنرل پرویز مشرف کو معلوم تھا کہ پاکستان کے جذباتی عوام جو کرکٹ کے میدان میں انڈیا کے مقابلہ میں اپنی ہار کو برداشت نہیں کر پاتے، وہ کشمیر میں انڈیا کے مقابلہ میں اپنی سیاسی ہار کو کیسے برداشت کر سکیں گے۔

مگر یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ۔ پاکستان کے صدر کو جاننا چاہیے کہ ان کا سامنا صرف ایک مسئلہ سے نہیں ہے بلکہ وہ بیک وقت دو مسئلے کے درمیان ہیں —اگر وہ کشمیر کے معاملہ میں انڈیا سے مصالحت (compromise) کا طریقہ اختیار کریں تو پاکستان کے عوام اس کو اپنی سیاسی ہار سمجھ کر جنرل پرویز مشرف سے غصہ ہو جائیں گے۔ لیکن دوسری طرف یہ سخت تر مسئلہ ہے کہ اگر وہ کشمیر کے سوال پر مصالحت نہ کریں تو پاکستان کی اقتصادی تباہی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے نتیجہ میں پاکستان میں مایوسی پھیلے گی اور پاکستانی عوام کی نظر میں وہ غیر مطلوب حکمراں بن جائیں گے۔ اور پھر وہ بھی اسی طرح سیاسی زوال کا شکار ہوں گے جس طرح ان کے پیش رو ٹھیک اسی سبب سے سیاسی زوال کا شکار ہوئے۔

ایسی حالت میں پاکستان کے فوجی صدر کے سامنے بیک وقت دو برائیوں میں سے ایک کے انتخاب کا مسئلہ ہے، نہ کہ صرف ایک برائی کا مسئلہ ۔ وہ کسی حال میں بھی اپنے سیاسی کیریر کو برائی کے مسئلہ سے بچا نہیں سکتے۔ اب انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ مذکورہ دونوں برائیوں میں سے کون سی چھوٹی برائی (lesser evil) ہے اور کون سی بڑی برائی (greater evil) ۔

اس معاملہ میں اگر مجھے رائے دینا ہو تو میں کہوں گا کہ کشمیر کے بارے میں ہندستانی موقف کو تسلیم کرلینا پاکستانی صدر کے لیے چھوٹی بُرائی ہے۔ کیوں کہ ایسی حالت میں جو کچھ ہوگا وہ صرف یہ کہ ایک چیز جس کو پاکستان بالفعل کھوچکا ہے، اس کے کھوئے جانے کا اعتراف کر لیا جائے۔ پاکستان کو اس کی یہ نقد قیمت ملے گی کہ اس کی تعمیر و ترقی کے تمام دروازے اچانک کھل جائیں گے جو اب تک گویا اس کے اوپر بند پڑے ہوئے تھے۔

اس کے برعکس اگر پاکستان کی حکومت کشمیر کے بارے میں ہندستانی موقف کو تسلیم نہ کرے اور ہندستان سے اپنی بلا اعلان لڑائی جاری رکھے تو اس کا تباہ کن نقصان یہ ہوگا کہ جس چیز سے پاکستان محروم ہوچکا ہے، اس سے اس کی محرومی تو بدستور قائم رہے گی ۔ مزید یہ نقصان ہوگا کہ پاکستان کی اقتصادی تباہی میں اور زیادہ اضافہ ہوگا، جو پہلے ہی ناقابل برداشت حد کو پہنچ چکی ہے۔

خوش گوار آغاز، ناخوش گوار انجام

پاکستان کا اسلامک گروپ اور انڈیا کا فنڈمنٹلسٹ گروپ دونوں کے عقیدے بظاہر ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔ مگر عملی طورپر دونوں کا کیس تقریباً یکساں ہے۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے واحد نجات دہندہ ہیں ۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں گروہوں نے اپنے اپنے ملکوں کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان شاید کسی اور گروہ نے نہیں پہنچایا۔

اس صورت حال کا مشترک سبب یہ ہے کہ دونوں اگر چہ اپنے اپنے اعتبا ر سے وطن کے خیر خواہ ہیں ۔ مگر اسی کے ساتھ دونوں ہی یکساں طورپر انتہا پسند(extremists) ہیں ۔اور انتہاپسندی کے ساتھ ایک گھرکو بھی کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔ پھر پورے ملک کو کس طرح انتہا پسندی کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ چلایا جاسکتا ہے۔

اب پاکستان کے اسلامسٹ گروپ کو لیجیے۔ یہ لوگ پچھلے تقریباً 55 سال سے پاکستان میں سرگرم ہیں ۔ اپنے کئی مطالبات کو منوانے میں بھی بظاہر وہ کامیاب ہوئے ہیں ۔ مگر ان کی یہ کامیابی وسیع تر معنوں میں ان کے ملک کے لیے مثبت نتیجہ کا سبب نہ بن سکی۔

پاکستان کی سیاست سے اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ یہاں ہم صرف کشمیر کے مسئلہ کو لیں گے۔ اس معاملہ میں پاکستان کے اسلامسٹ گروپ نے اپنے مخصوص مزاج کے تحت یہ کیا کہ انہوں نے اپنی کشمیری تحریک کو قومی تحریک نہ بتاتے ہوئے اس کو جہاد کا عنوان دے دیا۔

قومی تحریک میں ہمیشہ فیصلہ کن چیز عملی حقائق ہوتے ہیں ۔ اس بنا پر قومی تحریک میں ہمیشہ لچک اور ایڈ جسٹ منٹ کی گنجائش رہتی ہـے۔ مگر جہاد ایک مذہبی عقیدہ کی بات ہے۔ جب کسی معاملہ کو جہاد کا معاملہ قرار دے دیا جائے تو اس سے وابستہ لوگوں میں لچک اورایڈجسٹمنٹ کا مزاج ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جہاد کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ بتاتا ہے کہ اگر تم اس راہ میں کچھ حاصل نہ کر سکو تب بھی اس میں جان دینا ہی تمہاری کامیابی ہے۔کیونکہ جہاد کے راستہ میں مرکر تم سیدھے جنت میں پہنچ جاؤگے۔

واقعات بتاتے ہیں کہ پاکستان کا سیکولر طبقہ کشمیر کے معاملہ میں انڈیا کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اختیار کرنے پر ذہنی طورپر راضی ہے۔ مگر وہاں کا اسلامسٹ گروپ اس معاملہ میں ان کے خلاف عقب لشکر (rearguard) کا کردار ادا کررہا ہے۔ اس نے پرجوش تقریریں کر کے اس معاملہ کو اتنا زیادہ جذباتی بنا دیا ہے کہ اب پاکستان کے بہت سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم سرینگر تک پہنچیں یا نہ پہنچیں مگر اس راہ میں لڑ کر ہم جنت تک ضرور پہنچ سکتے ہیں ۔ اس طرح پاکستان کا اسلامسٹ گروپ ایڈجسٹمنٹadjustment)) کی پالیسی اختیار کرنے میں ایک مستقل رکاوٹ بن گیا ہے، جب کہ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی ہی کسی قوم کے لیے کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔

اب انڈیا کو لیجیے ۔ انڈیا کا فنڈمنٹلسٹ طبقہ بھی اپنے حالات کے اعتبارسے وہی منفی کردار ادا کر رہا ہے جو پاکستان کا اسلامسٹ طبقہ اپنے حالات کے لحاظ سے ادا کررہا ہے۔ مذہبی فنڈمنٹلزم عین اپنی فطرت کی بنا پر اپنے آپ کو برحق سمجھنے (self -righteousness) کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ اس مزاج کا مزید نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر انتہا پسندی اور کٹر پن کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کاحال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جانتے ہیں مگر وہ دوسروں کو نہیں جانتے۔ وہ اپنے آپ کو ہر حال میں درست اور دوسروں کو ہر حال میں نادرست سمجھتے ہیں ۔ وہ صرف اپنے آپ کو رعایت کا مستحق سمجھتے ہیں ، دوسروں کی رعایت کرنا ان کی فہرست اخلاق میں شامل نہیں ہوتا۔

آزادی کے بعد ہندستان کی تاریخ میں اس فنڈمنٹلسٹ کردار کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ یہاں ہم کشمیر کے تعلق سے اس معاملہ کی ایک تازہ مثال نقل کریں گے۔

حکومت ہند کی دعوت پر پاکستان کے صدر جنرل پرو یز مشرف نے انڈیا کا دورہ کیا۔ وہ 14جولائی 2001 کی صبح کو یہاں آئے اور 16 جولائی 2001 کی رات کو واپس گئے۔ اس دوران دہلی اور آگرہ میں ان کی ملاقاتیں انڈیا کے لیڈروں سے ہوئیں ۔ ابتداء میں بظاہر ملاقات کا یہ پروگرام بہت امید افزا تھا۔ مگر بعد کوایسی تلخی پیدا ہوئی کہ کوئی مشترک اعلان جاری کیے بغیر یہ چوٹی کانفرنس ختم ہوگئی۔ دورہ ناکام ہوکر رہ گیا۔

اس ناکامی کا سبب کیا تھا۔ میرے نزدیک اس کا سبب ہمارے یہاں کے کچھ فنڈمنٹلسٹ لیڈروں کا بے لچک رویہ ہے۔ وہ اپنے مذکورہ ذہن کی بنا پرمعتدل انداز میں پاکستانی صدر سے معاملہ نہ کرسکے اور چوٹی کانفرنس ناکام ہوکر رہ گئی۔

میں ذاتی طورپر پچھلے تقریباً چالیس سال سے یہ رائے رکھتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلہ کا واحد ممکن حل یہ ہے کہ موجودہ جنگ بندی لائن یا لائن آف ایکچول کنٹرول کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان مستقل سرحد کے طورپر مان لیاجائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ پاکستان کے لیے یہ ایک نہایت کڑوا گھونٹ ہے۔ اس لیے اس تجویز کو واقعہ بنانے کے لیے ہمیں حد درجہ حکمت اور دانش مندی سے کام لینا ہوگا۔اس کے بغیر اس معاملہ میں کامیابی ممکن نہیں ۔ اپنے حریف کو بے عزت کرکے آپ اسے جیت نہیں سکتے، البتہ رعایت اور محبت کا معاملہ کرکے یقینی طورپر آپ اس کو جیت سکتے ہیں ۔

میں نے صدر پرویز مشرف کے سفر سے پہلے انہیں ایک خط (9جولائی 2001)بھیجا تھا۔ یہ خط زیر نظر مجموعہ میں شامل ہے۔ صدر پرویز مشرف جب ہندستان آئے تو انہوں نے کئی ایسے اشارے دئے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ مفاہمت اور مصالحت پر تیار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں کھلے ذہن (open mind) کے ساتھ یہاں آیا ہوں ۔ دہلی میں اپنے آبائی مکان کی خصوصی زیارت کرکے انہوں نے یہ تاثر دیا کہ میں اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک ہندستانی ہوں ، اس لیے فطری طورپر میرے دل میں ہندستان کے لیے ایک نرم گوشہ (soft corner) موجودہے۔ راشٹرپتی بھون نئی دہلی کی پارٹی میں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی نزاع کا کوئی فوجی حل موجود نہیں :

There is no military solution to the Kashmir dispute.

انہوں نے آگرہ کی پریس کانفرنس میں اعتراف حقیقت (acceptance of reality) کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں زینہ بہ زینہ (step by step)آگے بڑھنا ہوگا، وغیرہ۔

پاکستانی صدر کے اس قسم کے اشارے واضح طورپر یہ بتار ہے تھے کہ وہ مصالحانہ انداز اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ وہ کشمیر کے نزاعی مسئلہ کو ختم کرنے کا ارادہ لے کر آئے ہیں ۔ مگر ہماری لیڈر شپ اپنے مذکورہ فنڈمنٹلسٹ مزاج کی بنا پر پاکستانی صدر کے ان اشاروں (gestures) کو کیش (cash) نہ کر سکی۔ ایک تاریخ بنتے بنتے رہ گئی۔

مثال کے طورپر ہمارے فنڈمنٹلسٹ لیڈروں کو جاننا چاہیے تھا کہ جنرل پرویز مشرف جو بھی معاہدہ کریں ، اس کے بعد انہیں اپنے ملک پاکستان واپس جانا ہے۔ اس لیے ہر بات ایسے حکیمانہ انداز سے کہی جائے کہ پرویز مشرف جب واپس ہو کر اسلام آباد پہنچیں تو وہاں ان کا استقبال کالے جھنڈوں سے نہ کیا جائے۔ مگر ہمارے لیڈروں کے بے لچک رویہ اور غیر دانش مندانہ کلام کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصالحت کی گفتگو راہ پر آنے کے بعد اچانک اس انجام سے دوچار ہوئی جس کو ایک ہندستانی صحافی نے ڈرامائی موڑ(dramatic turn) کے لفظ سے تعبیر کیا تھا۔ خوش گوار آغاز کا یہ ناخوش گوار انجام کیوں ہوا، اس کی کافی تفصیل میڈیا میں آچکی ہے۔ یہاں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ۔

نزاعی امور کا تصفیہ گہری دانش مندی کے ساتھ فریق ثانی کی مکمل رعایت کا طالب ہوتا ہے۔ ذاتی انٹرسٹ کے معاملہ میں ہر آدمی کو معلوم ہے کہ مسئلہ کے حل کے لیے ان دونوں پہلوؤں کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔ مگر جب معاملہ قومی انٹرسٹ کا ہو تو لوگ اس حقیقت کو اس طرح بھول جاتے ہیں جیسے کہ وہ اس کو جانتے ہی نہ ہوں ۔

کرنے کا کام

پچھلے دو سو سال کے اعتبار سے کشمیر کی تاریخ کو دیکھا جائے تو وہ تین بڑے دوروں سے گزرتے ہوئے دکھائی دے گی۔ پہلے دو رمیں کشمیر کے لوگ صوفیوں سے متاثر ہوئے۔ کشمیر میں صوفیوں کا آنا کشمیریوں کے لیے اس اعتبار سے مفید ثابت ہوا کہ ان کے ذریعہ سے کشمیریوں کو اسلام کا تحفہ ملا۔ کشمیریوں کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے دائرہ میں داخل ہوگئی۔

صوفیا نے کشمیریوں کو مذہبی اعتبار سے اسلام تو دیا مگر وہ کشمیریوں کو وسیع تر معنیٰ میں زندگی کا کوئی مشن نہ دے سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیریوں کے لیے اسلام زیادہ تر کلچر کے ہم معنیٰ بن کر رہ گیا۔ وسیع تر معنوں میں انھیں وہ شعور اور وہ پروگرام نہیں ملا جو کشمیریوں کی پوری زندگی کو ایک جامع نشانہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کشمیر کے بیشتر لوگوں کی زندگی بزرگوں کی قبروں یا درگاہوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ مخصوص قسم کے اوراد ووظائف کو وہ اتنے اہتمام کے ساــتھ پڑھتے ہیں جیسے کہ وہی سارا اسلام ہو۔ اس درگاہی اسلام یا کلچرل اسلام کا یہ نقصان ہوا کہ کشمیریوں میں وہ شعور ترقی نہ کرسکا جو وسیع تر معنی میں ان کے اندر صحیح اور غلط کی تمیز پیدا کرے۔ اسی بے شعوری کایہ نتیجہ ہوا کہ وہ بار بار ایسی منفی سیاست میں ملوث ہوتے رہے جس کا کوئی حقیقی تعلق اسلام سے نہ تھا۔ حتی کہ دنیوی اعتبار سے بھی اس کاکوئی فائدہ کشمیریوں کو ملنے والا نہ تھا۔

اسلام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو ایک روحانی مرکز دے، وہ آدمی کو خدا کی عبادت کے طریقے بتائے، وہ آدمی کو ایک ربانی کلچر عطا کرے ۔جہاں تک میرا اندازہ ہے، کشمیری لوگ اس پہلو سے تو اسلام سے آشنا ہوئے مگر ایک اور پہلو سے وہ بڑی حد تک اسلام کے فوائد سے بے بہرہ رہے۔

یہ دوسرا پہلو وہ ہے جس کو تعمیرِ ذہن کہا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کی تعلیم و تربیت اس نہج پر نہ ہوسکی جو ان کے اندر صحیح اسلامی شعور پیدا کرے۔ جو انہیں سوچنے کے وہ طریقے بتائے جس کی روشنی میں وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام کے مطابق فیصلہ لے سکیں ۔ یہ کہنا شاید درست ہوگا کہ کشمیریوں کو مذہبی اعتبار سے تو اسلام ملا مگر شعوری انقلاب کے اعتبار سے وہ بڑی حد تک اسلام سے اپنا حصہ نہ پاسکے۔

اس سلسلہ کا پہلا واقعہ وہ ہے جب کہ کچھ لیڈروں کے نعرہ پر کشمیری لوگ سابق ڈوگرہ راج کے خلاف متحرک ہوئے۔ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک جذباتی ہنگامہ آرائی تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر کامیاب ہونے کے باوجود کشمیریوں کے مستقبل کی تعمیر میں اس تحریک کا کوئی حصہ نہیں ۔ ڈوگرہ راج کے خلاف یہ تحریک زیادہ تر کچھ لیڈروں کے سیاسی حوصلہ کا اظہار تھی، نہ کہ حقیقی معنوں میں اسلامی شعور کا نتیجہ۔

1947 کے بعد کشمیریوں کے درمیان تحریکوں کا نیا دور شروع ہوا۔ اس دور میں کشمیر کے عوام دو بڑی تحریکوں سے متاثر ہوئے۔ ایک وہ جو سیکولرزم کے نام پر اٹھی اور دوسری وہ جو اسلام کے نام پر اٹھی۔یہ دونوں ہی تحریکیں دوبارہ کچھ لیڈروں کے سیاسی عزائم کی پیداوار تھیں ، وہ حقیقی معنوں میں اسلامی شعور کے تحت پیدا نہیں ہوئیں ۔

سیکولرلیڈروں نے 1947 کے بعد آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر کے نام پر اپنی تحریکیں چلائیں ۔ ان تحریکوں کا یہ فائدہ تو ہوا کہ کچھ لیڈروں کو شہرت اور مادی فائدے حاصل ہوئے مگر کشمیری عوام کے لیے وہ ایک ایسے نشانہ کی طرف دوڑنے کے ہم معنیٰ تھی جس کی کوئی منزل نہیں ۔ جس کا آغاز تو ہے مگر اس کا کوئی اختتام نہیں ۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے اسلامی کشمیر اور نظام مصطفی کے نام پر اپنی تحریک چلائی۔ یہ لوگ بظاہر اسلام کا نام لیتے تھے مگر ان کے پاس خوش فہمیوں اور جذباتیت کے سوا کوئی اور سرمایہ نہ تھا۔ وہ اپنے رومانی جذبات کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور دوسروں کو دوڑا رہے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ اسلام کی منزل کی طرف جارہے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کی تحریک اسلام کے لیے تو درکنار، خود دنیا کے اعتبار سے بھی کوئی واقعی فائدہ کشمیریوں کو دینے والی نہ تھی۔یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے۔ یہاں جذباتی سیاست کے ذریعہ کوئی مثبت نتیجہ برآمد کرنا ممکن نہیں ۔

ان تحریکوں کا بے نتیجہ ہونے ہی کا یہ انجام ہے کہ کشمیری تحریک 1989 کے بعد تشدد کی راہ پر چل پڑی۔ آخری دور میں تشدد کی جو تباہ کن تحریک کشمیریوں کے درمیان ابھری وہ در اصل کشمیریوں کی مایوسانہ نفسیات کا نتیجہ تھی۔ پہلے وہ اپنے نادان لیڈروں کی پیروی میں بے نتیجہ راہوں کی طرف دوڑے اور جب فطرت کے قانون کے تحت ان کی تحریکوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا تو مایوسی اور جھنجلاہٹ کا شکار ہو کر انہوں نے مسلّح جدوجہد شروع کر دی۔

کشمیریوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے پورے ماضی کا از سرِ نو اندازہ (reassessment) کریں ۔ وہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے اپنے مستقبل کی تعمیر کا نیا منصوبہ بنائیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیری لوگ پہلا موقع (first chance)  کھوچکے ہیں ۔ اب ان کے لیے ممکن صورت صرف یہ ہے کہ وہ دوسرے موقع (second chance) کو شعوری طورپر سمجھیں اور دل کی پوری آمادگی کے ساتھ اس کو اپنے حق میں استعمال کریں ۔

کشمیریوں کے لیے اپنی زندگی کی تعمیر کا نیا پروگرام تین نکات پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ وہ تین نکات یہ ہیں —تعلیم، اقتصادیات، دعوت۔

کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ سیاست اور ہتھیار سے مکمل طورپر بے تعلق ہوجائیں ۔ وہ اپنی پوری نسل کو تعلیم کے راستہ پر لگا دیں ۔ جموں و کشمیر کے پورے علاقہ میں بڑے پیمانہ پر اسکول اور مدرسے کھولے جائیں ۔ کم ازکم 25 سال تک وہ یہ کریں کہ اپنے بچوں کو ہر دوسری سرگرمی سے ہٹا کر صرف تعلیم کے راستہ پر لگادیں ۔

دوسرا میدان اقتصادیات کا ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست میں تجارت اور صنعت کے غیرمعمولی مواقع موجود ہیں ۔ کشمیری مسلمانوں نے ابھی تک ان مواقع سے بہت کم فائدہ اٹھایا ہے۔ اب انہیں چاہیے کہ وہ نئے ذہن کے تحت پوری طرح یکسو ہو کر تجارت اور صنعت کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔

تیسرا میدان دعوت کا ہے۔ دعوت سے میری مراد اسلام کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچاناہے۔ اس اعتبار سے کشمیریوں کے لیے دو بہت بڑے میدان کھلے ہوئے ہیں ۔ ایک وہ غیرمسلم لوگ جو جموں و کشمیر میں بسے ہوئے ہیں اور وہاں کے ریاستی باشندہ ہیں ۔ دوسرے وہ غیرمسلم لوگ جو سیاح کے طورپر کشمیر میں آتے ہیں ۔

کشمیر میں اگر امن قائم ہوجائے تو وہاں سیاحت کا بہت بڑا میدان کھل جائے گا۔ یہ سیاحت ایک اعتبار سے انڈسٹری ہے اور دوسرے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ مدعوخود داعی کے پاس آگیا۔ یہ سیاحتی امکان اتنا بڑا ہے کہ اگر کشمیر کے لوگ اس کو درست طورپر استعمال کریں تو وہی ان کی دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کے لیے کافی ہو جائے۔

کشمیر جنت نظیر

کشمیر کو سیکڑوں سال سے جنت نظیر کہا جاتا تھا۔ یعنی جنت کا نمونہ۔ ایک فارسی شاعر نے جب کشمیر کو دیکھا تو اس نے کشمیر کے بارے میں یہ شعر کہا کہ اگر جنت زمین پر ہے تو وہ یہی کشمیر ہے

اگر فردوس بر روئے زمیں است                 ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

پچھلے زمانوں میں جب کہ کشمیر کو جنت نظیر کہا جاتا تھا، اس وقت کشمیر میں ’’کشمیری عوام‘‘ کی حکومت نہ تھی۔ پہلے یہاں مغلوں کا راج تھا۔ اس کے بعد یہاں انگریز حکومت کرنے لگے۔ اس کے بعد یہاں ڈوگرہ راجہ کی حکومت قائم ہوئی۔ اس پوری مدت میں کشمیر ایک جنت نظیر خطہ بنا رہا۔ ساری دنیا کے لوگ اس کو دیکھنے کے لیے آتے رہے۔ برصغیر ہند میں تاج محل اگر عمارتی حسن کا اعلیٰ نمونہ تھا تو کشمیر قدرتی حسن کا اعلیٰ نمونہ۔

اس تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کشمیر کو کشمیر بنانے کے لیے اس کی ضرورت نہیں کہ وہاں نام نہاد طورپر ’’کشمیری عوام‘‘ کی حکومت ہو۔ سیاسی اقتدار در اصل ایک قسم کا سیاسی در دِ سر ہے۔ یہ سیاسی دردِ سر خواہ جس کے حصہ میں آئے، کشمیر بدستور کشمیر رہے گا۔ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کی اپنی تعمیری سرگرمیوں کے سوا کشمیر کی ترقی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ۔

قرآن میں ہر اس چیز کا ذکر ہے جو انسان کے لیے خیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر قرآن میں آزادی یا حریت کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آزادی محض ایک پرفریب لفظ ہے، اس کی کوئی حقیقی معنویت نہیں ۔ اس کا واضح عملی ثبوت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں تقریباً ساٹھ مسلم ملک ہیں جنہوں نے زبردست قربانی کے بعد آزادی کو حاصل کر لیا۔ مگر یہ تمام کے تمام ملک عملاً غیر آزاد بنے ہوئے ہیں ۔ اس کی قریبی مثالیں پاکستان اور افغانستان اور بنگلہ دیش، وغیرہ ہیں ۔ ان مسلم ملکوں میں یہ ہوا کہ آزادی کی خارجی لڑائی آخر میں اقتدار کی باہمی لڑائی بن گئی۔ کشمیریوں کے لیے بھی یہی انجام مقدر ہے۔ یا تو وہ اپنی نام نہاد آزادی کی جنگ جاری رکھیں جس کا آخری انجام صرف یہ ہے کہ خارجی لڑائی داخلی لڑائی کی مہلک تر صورت اختیار کرلے۔ یا وہ اپنی موجودہ سیاسی لڑائی کو ختم کر کے اپنی ساری کوششوں کو تعمیر و ترقی کے کام میں لگا دیں ۔

جولائی 2001 کے آخر میں میں ایک ہفتہ کے لیے سوئزر لینڈ میں تھا۔ یہ سفر ایک انٹرنیشنل کانفرنس کی دعوت پر ہوا۔ وہ لوگ ہم کو سوئزر لینڈ کے مختلف مقامات پر لے گئے اور اس طرح ہم کو سوئزر لینڈ کے بیشتر حصے کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ہماری ٹیم میں ایک 80 سالہ کشمیری خاتون بھی تھیں ۔انہوں نے جب سوئزر لینڈ کے حسن کو دیکھا تو وہ بے اختیار رونے لگیں ۔ ان کی زبان سے نکلا کہ ہمارا کشمیر بھی ایسا ہی خوبصورت تھا مگر آج وہ تباہ ہو چکا ہے۔

کشمیر کو کس نے تباہ کیا۔ کشمیر کی تباہی کی ذمہ دار کوئی حکومت نہیں ۔ اس کی ذمہ داری تمام تر ان نادان لیڈروں پر ہے جنہوں نے اپنی پرجوش تحریر و تقریر سے کشمیری نوجوانوں کو بھڑکا یا اور انہیں تباہ کن جنگجوئی کے راستہ پر ڈال دیا۔ یہ لیڈر اگر کشمیری نوجوانوں کو تعلیم اور تعمیر کے راستہ پر ڈالتے تو آج کشمیر شاید سوئزرلینڈ سے بھی بہتر ہوتا۔ مگر نااہل لیڈروں کی نااہل رہنمائی نے کشمیر کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے جس کی تلافی کے لیے شاید ایک صدی کی مدت بھی ناکافی ہو۔

ضرورت ہے کہ اب کشمیر کے عوام و خواص جنگجوئی کے راستہ کو مکمل طورپر اور ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں ۔ وہ پر امن تعمیر کے طریقہ کو اختیار کرلیں ۔ اگر کشمیر کے لوگ حقیقی فیصلہ کے ساتھ اس تعمیری راستہ کو اختیار کر لیں تو وہی وہ وقت ہوگا جب کہ کشمیر کی وادیوں میں ہر طرف یہ آوازسنائی دے— جاگ اٹھا کشمیر۔