خاندانی زندگی (Khandani Zindagi)
خاندانی زندگی
فیملی لائف کی تعمیر و ترقی کے رہنما اصول
مولانا وحید الدین خاں
فہرست
گھر کا ماحول
ہر حال میں خیر
ذریعہ سکون
عورت معاونِ حیات
سب سے بڑی نعمت
ایک حدیث
قو ّامیت یا باس از
ِصنفی مساوات
ایک شادی یا کئی شادی
زوجین کے درمیان کامل مطابقت
انٹلیکچول پارٹنر
کنڈیشننگ کو توڑنا
باہمی اعتماد
مشن کے بغیر
بے مقصد زندگی
سادگی ایک اصولِ حیات
جذباتیت بمقابلہ انانیت
فطرت سے تعاون
فارمولا آف تھرٹی سکینڈ
آرٹ آف فیلیر مینج منٹ
لائف مینج منٹ
انتظار کی پالیسی
گھر بہتر انسان بنانے کا کارخانہ
تعلیم اور خواتین
صورت یا سیرت
لَو میریج ناکام کیوں
سختی یا عزم
چھوٹی بات کو بڑی بات نہ بنائیے
عدم مداخلت کی پالیسی
ایک دانش مند خاتون
میکے کے تصور میں جینا
غیر فطری تمنّا
میکے اور سُسرال کا فرق
ایک مشاہدہ
ماؤں کا غلط رول
بچوں کی دینی تربیت
لاڈ پیار کا نقصان
ماں باپ کا رول
ایک واقعہ
برابری میںنکاح
جوائنٹ فیملی
ساس بہو کا مسئلہ
عورت کا عظیم کردار
گھر کا ماحول
آج کل یہ حال ہے کہ سیکولر آدمی اور مذہبی آدمی کا فرق باہر کی زندگی میں تو نظر آتا ہے، لیکن گھر کی زندگی میں یہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ بہ ظاہر دونوں کا لباس الگ ہوتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر گڈ مارننگ (good-morning)کہتا ہے تو مذہبی آدمی السلام علیکم کہتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر کلب (club) جاتا ہے تو مذہبی آدمی مسجد جاتا ہے، وغیرہ۔ لیکن یہ فرق باہر کی زندگی کی حد تک ہے۔ گھر کے اندر کے ماحول کو دیکھئے تو سیکولر آدمی کے گھر اور مذہبی آدمی کے گھر کے درمیان کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ اور اگر کوئی فرق ہوگا تو وہ صرف ظاہری رسم کے اعتبار سے ہوگا، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قرآن میں دونوں قسم کے گھروں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ غیر مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کو جاننے کے لیے قرآن کی سورہ نمبر 84 کی اِس آیت کا مطالعہ کیجئے: إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا(الانشقاق13) یعنی وہ اپنے اہل کے درمیان خوش رہتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مذہبی انسان کی زندگی خاندان رُخی زندگی (family-oriented life) ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں آکر محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے لوگوں کے درمیان آگیا۔ وہ اپنا سارا وقت اور اپنا پیسہ اپنے اہلِ خاندان میں خرچ کرتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کہ میں نے اپنے وقت اور اپنے پیسے کا صحیح استعمال کیا۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس کی دل چسپیوں اور اس کی سرگرمیوں کا مرکز اس کے اہلِ خاندان ہوتے ہیں۔ جو لوگ اِس طرح زندگی گزاریں، وہ کبھی خدا کے مطلوب بندے نہیں بن سکتے، خدا کی ابدی رحمتوں میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔
مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کتابِ الٰہی کی سورہ نمبر 52 کی اِس آیت میں ملتی ہے: إنّا کنّا قبلُ في أهلنا مشفقین (الطّور26 ) یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ اِس سے پہلے ہم اپنے اہل کے درمیان ڈرتے رہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سچا مذہبی انسان وہ ہے جو ہر وقت خدا کی پکڑ سے ڈرتا ہو، خواہ وہ اپنے گھر کے باہر ہو یا اپنے گھر کے اندر۔ وہ مواخذہ (accountability) کی نفسیات کے تحت زندگی گزارتا ہے، نہ کہ بے خوفی کی نفسیات کے تحت۔
ہر حال میں خیر
شوہر اور بیوی کے درمیان بہتر تعلق کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا (النساء19 ) یعنی عورتوں کے ساتھ اچھی طرح گز ر بسر کرو۔ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اُس میں تمھارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ بات اپنی حقیقت کے اعتبار سے شوہر اور بیوی دونوں ہی کے لیے ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسنِ معاشرت یا بہتر ازدواجی زندگی کا انحصار اِس پر نہیں ہے کہ شوہر کو بالکل اپنی پسند کی بیوی مل جائے، یا بیوی کو بالکل اپنی پسند کے مطابق شوہر مل جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز پسند کے خلاف زَوج(spouse) کے ساتھ موافقت (adjustment)کرنا ہے، ناپسندیدگی میں پسند کا پہلو تلاش کرلینا ہے۔
عورت اور مرد عام طورپر ایک مشترک مسئلے سے دوچار رہتے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اُس کو جو ساتھی ملا ہے، یا اُس کو جو زندگی ملی ہے، وہ اس کے مطلوب سے کم ہے۔ اپنی حاصل شدہ زندگی سے غیر مطمئن ہو کر ہر آدمی ایک اور مفروضہ زندگی کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ تصور انتہائی حد تک غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ کوئی عورت یا مرد جس مفروضہ زندگی کو اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہے، وہ مفروضہ زندگی اگر بالفرض اس کو مل جائے تب بھی وہ بدستور غیر مطمئن ہی رہے گا۔
یاد رکھیے، خوش گوار زندگی خود آپ کے ذہن میں ہے۔ آپ کے ذہن سے باہر کسی خوش گوار زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ سوچنے کا آ رٹ (art of thinking) سیکھئے، اور پھر ہر زندگی آپ کے لیے آپ کی پسند کی زندگی بن جائے گی — خوش گوار زندگی کی تعمیر آدمی اپنے آپ کرتا ہے۔ کوئی دوسرا نہیں جو آپ کو خوش گوار زندگی کا تحفہ اپنی طرف سے پیش کرے۔
ذریعہ سکون
قرآن کی سورہ نمبر 30میں ارشاد ہوا ہے:خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا(الرّوم21 ) یعنی خدا نے تمھاری جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم اُن سے سکون حاصل کرو۔ اِس آیت میں سُکون سے مراد صرف معروف اِزدواجی سکون نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد زیادہ برتر سکون ہے۔ اِس کا مطلب ہے— زندگی کا رول ادا کرنے کے لیے ایک پُرسکون پارٹنر حاصل کرنا:
To find a peaceful partner for playing a greater role in life.
اِس دنیا میںکوئی بڑا کام صرف اجتماعی کوشش کے ذریعے ممکن ہے۔ اکیلا ایک آدمی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ اِس اجتماع کی پہلی اور فطری صورت نکاح کے ذریعے ایک عورت اور ایک مرد کا باہم اکھٹا ہونا ہے۔ دو روحوں کا یہ اجتماع سب سے زیادہ کامیاب اجتماع ہے۔ یہ واحد اجتماع ہے جس میں طَرفین قلبی سکون اور کامل اعتماد کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں۔
نکاح کے ذریعے ایک عورت اور ایک مرد کی یک جائی اِس دنیا میں بننے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ طرفین کو اگر اس کا احساس ہو تو وہ اِس کو ایک عظیم نعمت سمجھیں اور دونوں مل کر اتنا بڑا کام کریں جو انسانوں کی کوئی دوسری کمپنی نہیں کرسکتی۔
فطرت نے ہر عورت اور ہر مرد کو اعلیٰ صلاحیت دی ہے۔ جو لوگ بھی جدوجہد کی مطلوب شرط کو پورا کریں، وہ اپنے اپنے دائرے میںاعلیٰ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے عورت کا برتر رول، شعوری طورپر، نہ مشرقی دنیا دریافت کرسکی اور نہ مغربی دنیا۔
عورت معاونِ حیات
قرآن کی سورہ نمبر 2 میں عورت اور مرد کے تعلق کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ، اور اپنے لیے آگے بھیجو، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ تمھیں ضرور اس سے ملنا ہے۔ اور ایمان والوں کو خوش خبری دے دو:
And do good beforehand for yourselves (2:223)
اِس آیت میںاپنے لیے آگے بھیجو (قدّموا لأنفسکم) کا لفظ بنیادی لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی مرکزی لفظ سے پوری آیت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ آیت کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ تمھارا اصل نشانہ یہ ہونا چاہیے کہ تم وہ کام کرو جو مستقبل میں تمھارے لیے مفید بننے والا ہو (قدّموا ما ینفعکم غداً) یعنی آدمی موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے آپ کو اس طرح تیار کرے کہ وہ آگے آنے والی آخرت کی دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرسکے۔ یہ کسی انسان کا اصل مقصدِ حیات ہے۔ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اِسی مقصدِ حیات کی نسبت سے عورت کے معاملے کو سمجھو۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے ایک معاونِ حیات کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، جس طرح کھیت کسی کسان کے لیے اس کے مقصد کی نسبت سے معاونِ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔
جس زمانے میں یہ قرآنی آیت اتری، اُس زمانے میں مدینہ (اور بقیہ دنیا) میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ عورت کا درجہ انسانی زندگی میں کیا ہے۔ اس معاملے میں لوگ اپنے سابق ذہنی نقشے کی بناپر صرف دو باتیں جانتے تھے— صنفی تسکین اور بقائِ نسل۔ قرآن میںبتایا گیا کہ اس قسم کے پہلوؤں سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ عورت تمھارے لیے اپنی زندگی کی تعمیر میں ایک معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے تم کو چاہیے کہ تم اپنے اِس فطری معاون کا بھر پور استعمال کرو اور اس کو اپنی تکمیلِ حیات کا ذریعہ بناؤ۔ عورت کا اِس سے کم کوئی تصور عورت کا کم تر تصور ہے۔ نکاح کی صورت میں عورت اور مرد کی یک جائی اس لیے ہوتی ہے، تاکہ دونوں وسیع تر انسانیت کی تعمیر میں اپنا مشترک رول ادا کریں۔
سب سے بڑی نعمت
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خیر متاع الدنیا، المرأۃ الصّالحۃ (صحیح مسلم، حديث نمبر 1467) یعنی دنیا کی چیزوں میں سے سب سے اچھی چیز صالح عورت ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت جو پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے فطری امکان (potential)کے اعتبار سے کسی مرد کے لیے سب سے اچھی متاعِ حیات ہے۔ لیکن اِس امکان کو واقعہ (actual) بنانا مرد کا کام ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) فطرت کا عطیہ ہوتا ہے، لیکن خام لوہے کو اسٹیل بنا نا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔
مرد کی پہلی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عورت کا قدر داں بنے۔ وہ عورت کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو پہچانے۔ وہ عورت کے حسنِ باطن کو دریافت کرے۔ عورت کی شکل میں ہر مرد کو ایک اعلیٰ فطری امکان ملتا ہے۔ اب یہ خود مرد کے اوپر ہے کہ وہ اِس واقعے کو امکان بنائے، یا وہ اس کو ضائع کردے۔
اِس عمل کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ جو عورت کسی آدمی کو بیوی کے طورپر ملی ہے، وہ اس کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا عطیہ سمجھے۔ جب وہ اپنی بیوی کو خدا کا براہِ راست عطیہ سمجھے گا تو فطری طورپر وہ اس کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے گا ، وہ یہ یقین کرے گا کہ خدا کا انتخاب غلط نہیں ہوسکتا۔ خدا کا انتخاب جس طرح دوسرے تمام عالمی معاملات میں درست ہوتاہے، اسی طرح یہاں بھی وہ درست ہے۔ مرد کے اندر جب یہ ذہن بنے گا تو اس کے بعد وہ عمل اپنے آپ شروع ہوجائے گا جو عورت کے امکان کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اپنی بیوی کو خدا کا عطیہ سمجھنے کے بعد اس کے ساتھ معاملہ کرنے کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھے گا۔ وہ ہرممکن قیمت ادا کرتے ہوئے یہ کوشش کرے گا کہ اس کی بیوی حقیقی معنوںمیں اس کے لیے دنیا کی سب سے اچھی متاعِ حیات بن جائے۔
ہر آدمی چاہتاہے کہ اس کو اچھی بیوی ملے۔لیکن اچھی بیوی کسی کو ریڈی میڈ سامان کی طرح نہیں ملتی۔ شوہر کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے۔ اِس عمل کی کامیابی کے لیے مرد کے اندر دو صفت کا ہونا ضروری ہے— سچی ہم دردی اور صبر و تحمل۔
ایک حدیث
اِزدواجی رشتے کے بارے میں ایک جامع نصیحت حدیثِ رسول میںآئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ(صحیح مسلم، حديث نمبر 1469)یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر عورت کی ایک خصلت اُس کو ناپسند ہو تو اُس کے اندر کوئی دوسری خصلت موجود ہوگی جو اس کو پسندآئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی عورت یا مرد کے اندر ساری اچھی صفات پائی نہیں جاتیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ کسی کے اندر ایک صفت موجود ہوتی ہے تو اس کے اندر دوسری صفت موجود نہیں ہوتی۔ مثلاً عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ایک عورت یا مرد اگر ظاہری دل کَشی کے اعتبار سے زیادہ ہوں تو وہ داخلی خصوصیات کے اعتبار سے کم ہوں گے۔ اور اگر کسی میں داخلی خصوصیات زیادہ ہوں تو اس کے اندر خارجی صفات کم پائی جائیں گی۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی کے منفی پہلو کو زیادہ دیکھتا ہے، اُس کے مثبت پہلو اکثر اس کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک تباہ کُن مزاج ہے۔ اِسی مزاج کی وجہ سے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اِس کے بجائے اگر ایسا کیا جائے کہ مثبت پہلو پر دھیان دیاجائے اور منفی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو تعلقات خود بخود خوش گوار ہوجائیں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہر مرد کو اُس کی بیوی بہترین رفیقِ حیات دکھائی دے گی اور ہر عورت کو اُس کا شوہر بہترین رفیقِ زندگی نظر آئے گا۔
خدا نے کسی عورت یا مرد کو کم تر پیدا نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہرمرد اپنے آپ میں باعتبار تخلیق کامل ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے فہم کا قصور ہے کہ ہم کسی کو کم اور کسی کو زیادہ سمجھ لیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اِس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی شکر کی زندگی بن جائے، شکایت یا محرومی کا احساس ان کے اندر باقی نہ رہے اور پھر وہ زیادہ بہتر طورپر زندگی کی تعمیر کے قابل ہوجائیں۔
قو ّامیت یا باس ازم
قرآن کی سورہ نمبر 4 میں ارشاد ہوا ہے کہ— الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ(النساء34) يعنيمرد عورتوں کے اوپر قوّام ہیں۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد عورتوں کے اوپر حاکم ہیں۔ حاکم کا لفظ اپنے ساتھ مخصوص روایات رکھتاہے۔ اِس لفظ سے یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ ایک حاکم ہے اور دوسرا محکوم، مگر قوّام کا یہ مطلب نہیں۔ قوّام کا مطلب صرف انتظام کار ہے، نہ کہ حاکم یا دوسرے سے برتر۔
موجودہ زمانے میں باس اور باس ازم(bossism) کا تصور ایک معروف تصور ہے۔ اِس کی مثال سے قوام کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ قوام کا مطلب صرف یہ ہے کہ مرد گھر کے اندر باس (boss) کی حیثیت رکھتا ہے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح کسی ادارے یا کمپنی کا ایک باس ہوتا ہے۔ یہ باس کمپنی کے لیے ایک تنظیمی ضرورت ہوتا ہے، وہ کمپنی کاحاکم نہیں ہوتا۔ کہاجاتا ہے کہ — باس ہمیشہ درست ہوتا ہے (boss is always right) ۔ اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ باس دوسرے سے برتر ہے۔ یہ اصول صرف اِس لیے ہے کہ کسی ادارے میں جب تک ایک شخص کو اتھارٹی نہ مانا جائے، ادارہ کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتا۔
اِسی طرح گھر بھی ایک ادارہ ہے۔ اِس ادارے کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ایک تنظیمی اتھارٹی (management authority)ضروری ہے۔ قرآن میں اِسی اعتبار سے مرد کو قوّام کہاگیا ہے۔ کسی گھر کا قوّام اُس کے مساوی ممبران کے درمیان ایک ناظم کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس اصول کو نہ ماننا صرف اِس قیمت پر ہوگا کہ ہر گھر انارکی (anarchy) کا شکار ہو کر رہ جائے۔
باس ازم ایک ذمے داری ہے، وہ ایک کے اوپر دوسرے کی برتری کا ٹائٹل نہیں۔ اِسی طرح قوامیت بھی ایک ذمے داری ہے، وہ ایک کے اوپر دوسرے کی برتری کے ہم معنیٰ نہیں۔ یہ ایک انتظامی ضرورت کامعاملہ ہے، نہ کہ کسی قسم کی فضیلت (superiority)کا معاملہ۔ عملی ضرورت اور نظریاتی شرف کے فرق کو اگر پوری طرح سمجھ لیا جائے تو قوام اور قوامیت کے معاملے کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
صنفی مساوات
دہلی کے ایک سیمنار میںمیری ملاقات ایک رٹائرڈ جج سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ— مولاناصاحب، آپ جانتے ہیں کہ اسلام کا سب سے زیادہ کم زور پوائنٹ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام صنفی مساوات (gender equality) کو نہیں مانتا۔ آج کے انسان کے لیے اِس قسم کا تصور کبھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ آج کا زمانہ صنفی مساوات کا زمانہ ہے،جب کہ اسلام صنفی نامساوات (gender inequality) کی بات کرتا ہے۔
موجودہ زمانے میں یہ بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے، لیکن اِس کے پیچھے کوئی گہری سوچ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو صنفی نامساوات کہاجاتا ہے، وہ صنفی فرق کا معاملہ ہے نہ کہ صنفی نامساوات کا معاملہ۔ ہماری دنیا پوری کی پوری اِسی فرق کے اصول پر قائم ہے۔ اور عورت اور مرد کا معاملہ بلاشبہہ اِس عام اصول سے مُستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔
فرق کوئی منفی (negative) چیز نہیں، فرق مکمل طورپر ایک مثبت (positive) چیز ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے جیسے ایک گاڑی کے دو پہیے۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے مقابلے میں غیر مساوی نہیں۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے لیے تکمیلی حصہ (complementary part) کی حیثیت رکھتاہے۔ یہی معاملہ عورت اور مرد کا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان فطرت نے حیاتیاتی اور نفسیاتی فرق رکھا ہے۔ یہ فرق اِسی لیے ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہتر رفیقِ حیات بنیں، دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصے کا رول ادا کریں۔
صنفی مساوات کا تصور ایک غیر فطری تصور ہے۔ وہ زَوجین کے درمیان غیر ضروری نزاع پیدا کرنے والا ہے۔ اِس کے مقابلے میں صنفی فرق کا تصور ایک فطری تصور ہے۔ وہ زوجین کے درمیان تعاون کا ذہن پیدا کرتاہے۔ وہ زوجین کو اِس قابل بناتا ہے کہ دونوں دو پہیوں کی طرح باہم مل کر زندگی کی گاڑی کامیابی کے ساتھ چلاتے رہیں۔
ایک شادی یا کئی شادی
قرآن کی سورہ نمبر 4 میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ ایک آدمی چار خواتین سے نکاح کرسکتا ہے (النساء3 ) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ چار نکاح کرنے کی کھُلی اجازت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک استثنائی حکم ہے، نہ کہ عمومی حکم۔ عام حکم تو یہی ہے کہ ایک آدمی صرف ایک نکاح کرے، لیکن جب کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے، اُس وقت ایک آدمی ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہے، یعنی دو یا تین یا چار۔
یہ ضرورت اصلاً صرف ایک وجہ سے پیش آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی حادثے کی بنا پر معاشرے میں عورتوں کی تعداد زیادہ (surplus) ہوجائے اور مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کم ہوجائے۔ ایسی حالت میں ایک نکاح کے اصول کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سماج میںبہت سی عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں۔
کسی سماج میں عورتیں جب مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجائیں تو یہ ایک نازک موقع ہوتا ہے۔ اُس وقت انتخاب (choice) ایک نکاح اور کئی نکاح کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ انتخاب ایک نکاح اور صنفی انارکی کے درمیان ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں معاشرے کو صنفی انارکی (sexual anarchy)سے بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی اور صورت نہیں ہوتی کہ تعدّدِ اَزواج (polygamy)کے اصول کو اختیار کرلیاجائے اور ایک مرد کو کئی نکاح کی اجازت دے دی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ نکاح کا فطری طریقہ یہی ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد۔ عورت کے اندر فطری طورپر سوکن (socond wife)کے خلاف منفی جذبات ہوتے ہیں۔ یہی واقعہ اِس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ یک زوجیت (monogamy) کا طریقہ ہی فطری طریقہ ہے، اور تعددِ زوجیت (polygamy) کا طریقہ ایک استثنائی اجازت ہے، جو قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت روا رکھا گیاہے۔ اِس قسم کا استثنائی قانون زندگی کے ہر معاملے میں ہوتاہے، مگر استثنائی قانون صرف ایک استثنائی قانون ہے، اس کو عمومی قانون کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔
زوجین کے درمیان کامل مطابقت
ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے بعد ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں تو یہ اجتماع ساری کائنات کاسب سے زیادہ انوکھاواقعہ ہوتا ہے۔وسیع کائنات میں اَن گنت چیزیں ہیں۔ یہاں کی اکثر چیزیں جوڑے (pair) کی صورت میں ہیں، مگر کسی بھی دو چیز کے درمیان وہ کامل مطابقت(complete compatibility) نہیں جو عورت اور مرد کے درمیان پائی جاتی ہے۔ جب ایک عورت اور ایک مرد جیون ساتھی بن کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ دونوں شعوری منصوبے کے تحت ایک دوسرے کے لیے بنائے گیے تھے۔
زوجین کے درمیان یہ شعور اگر زندہ ہو تو دونوں ایک دوسرے کو پاکر شکر کے جذبات میں سرشار ہوجائیں۔ دونوں اہتزاز(thrill) کے درجے میں ایک دوسرے کو اپنے لیے نعمت سمجھیں۔ یہ اہتزاز اتنا زیادہ طاقت ور ہو جو کبھی اُن سے جُدا نہ ہو۔ دونوں ایک ساتھ اِس طرح رہیں جیسے کہ دونوں کو ان کی سب سے زیادہ محبوب چیز مل گئی ہو۔ دونوں آخری حد تک مثبت احساس میں جینے لگیں۔
دنیا میں اگر صرف عورتیں ہوں اور کوئی مرد وہاں موجود نہ ہو۔ اِسی طرح اگر ایساہو کہ صرف مرد ہوں اورکوئی عورت موجود نہ ہو۔ ایک ایسی دنیا میں بظاہر زندگی ہوگی، مگر وہ خوشیوں سے خالی ہوگی۔ ایسی دنیا میں ہر طرف ایک ایسی کمی کا احساس چھایا رہے گا جو کبھی اور کسی حال میں ختم نہ ہوگا۔ صرف مردوں کی دنیا بھی ایک بے معنی دنیا ہے، اور صرف عورتوں کی دنیا بھی ایک بے معنیٰ دنیا۔ موجودہ دنیا اِسی لیے ایک بامعنیٰ دنیا ہے کہ یہاںعورت اور مرد دونوں موجود ہیں۔
عورت اور مرد اگر اِس حقیقت پر غور کریں تو اُنھیں اُس سے بھی زیادہ خوشی حاصل ہو جو کسی سائنس داں کو ایک نئی چیز کی دریافت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف شکایت کی بات اُن کو آخری حد تک بے معنیٰ دکھائی دینے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تخلیق کا شاہ کار ہیں۔ نکاح کا مطلب دو تخلیقی شاہ کاروں کی یک جائی ہے۔ اِس سے بڑا واقعہ پوری معلوم کائنات میں کوئی دوسرا نہیں۔
انٹلیکچول پارٹنر
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا(ore) کی مانند ہوتا ہے۔ یہ فطرت کی طرف سے پیدا شدہ انسان ہے۔ اِس کے بعد کا سارا کام انسان کو خود کرنا ہے۔ فطرت، خام لوہا پیدا کرتی ہے۔ اس کے بعد اُس کو اسٹیل کی صورت میں کنورٹ کرنا یا اس کو مشین بنانا، انسان کا اپناکام ہے۔
خود سازی کے اِس فطری عمل میں سب سے زیادہ اہمیت ذہنی ترقی (intellectual development) کی ہوتی ہے۔ اپنی شخصیت بنانے کے سلسلے میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے ذہن کو ارتقا یافتہ ذہن بنائے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے ذہن کی تکمیل کرے۔
اِس عمل میں بنیادی طورپر تین چیزوں کی ضرورت ہے— مطالعہ، مشاہدہ، اور دوسرے انسانوں سے فکری تبادلہ(intellectual exchange)۔ مطالعے کا سب سے بڑا ذریعہ کتابیں ہیں۔ اِسی طرح مشاہدے کا سب سے بڑا ذریعہ عالم فطرت ہے۔افکار وخیال کے تبادلے کے سلسلے میں ضروری ہے کہ آدمی کے اندر دوسروں سے سیکھنے کا مزاج ہو۔ وہ ہر ایک کے ساتھ سیکھنے کے عمل(learning process) کو مسلسل جاری رکھے۔
سیکھنے کے عمل کے سلسلے میں ہر مرد کے لیے اس کی بیوی اور ہر بیوی کے لیے اس کا شوہر قریبی انٹلیکچول پارٹنر (intellectual partner) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِزدواجی زندگی اِس اعتبار سے ایک عظیم موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ازدواجی زندگی کی صورت میں ہر عورت اور مرد اپنے لیے ایک انٹلیکچول پارٹنر پالیتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے ذہنی ارتقا کے عمل کو بلا انقطاع جاری رکھیں۔
ذہنی ارتقا (intellectual development) ہر عورت اور مرد کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ ازدواجی زندگی کی صورت میں دونوں ایسے انٹلیکچول پارٹنر کو پالیتے ہیں جوہر وقت قابلِ حصول ہو۔ ذہنی ترقی کے اِس عمل کو کامیابی کے ساتھ چلانے کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ دونوں ذہنی ترقی کی اہمیت کو سمجھیں اور وہ اس کو اوّلین ترجیح کی حیثیت دے کر اپنی روز مرہ کی زندگی میں شامل کرلیں۔
کنڈیشننگ کو توڑنا
شادی کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی، یہ دو مختلف (different)شخصیتوں کا ایک ساتھ جمع ہونا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایک لفظ میں، عورت مِز کنڈیشنڈ ہوتی ہے اور مرد مسٹر کنڈیشنڈ۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عورت یا مرد جب پیدا ہوتے ہیں تو اپنے اپنے ماحول کے لحاظ سے دونوں کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ گھر کا ماحول اور گھر کے باہر کا ماحول دونوں کے اثر سے ہر ایک دھیرے دھیرے ایک متأثر ذہن (conditioned mind) بن جاتا ہے۔ ہر ایک کے اوپر اُس کا یہ متاثر ذہن اتنا زیادہ چھا جاتا ہے کہ ہر ایک اپنے خول میں جینے لگتا ہے۔ ہر ایک اپنے کو درست سمجھنے لگتا ہے اور دوسرے کو نادرست۔ اِسی تاثر پذیری کو کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ کنڈیشننگ کا یہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ بلا استثنا پیش آتا ہے۔
ایسی حالت میں جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکھٹا ہوتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ عورت اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے ایک چیز کو ہرے رنگ میںدیکھ رہی ہوتی ہے، اور مرد کو وہی چیز اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے نیلے رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔ اِس فرق کی بنا پر دونوں میں بار بار اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو بڑھ کر شدت اختیار کرلیتے ہیں۔
اِس مسئلے کا واحد حل ڈی کنڈیشننگ ہے، اور ڈی کنڈیشننگ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھلے ذہن سے ڈسکشن کریں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ برابر انٹلیکچول ایکسچینج کریں۔ اِسی کے ساتھ دونوں کے اندر اعتراف کا مزاج لازمی طورپر ضروری ہے، یعنی حقیقت کھل جانے کے بعد فوراً اس کو مان لینا اور فوراً یہ کہہ دینا کہ —اِس معاملے میں میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
اپنی غلطی کو کھلے طورپر مان لینا، یہی اپنی ڈی کنڈیشننگ کا واحد کامیاب طریقہ ہے۔
باہمی اعتماد
دو آدمی جب مل کر کام کریں تو کامیاب کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان کامل اعتماد ہو۔دونوں ایک دوسرے کے اوپر ہر اعتبار سے بھروسہ رکھتے ہوں۔ دونوں کے درمیان اجنبیت کی کوئی دیوار باقی نہ رہے۔ باہمی اعتماد کا یہ اصول شوہر اور بیوی کے درمیان انتہائی حد تک ضروری ہے۔ اِس کے بغیر کوئی گھر اچھا گھر نہیں بن سکتا۔
شوہر اور بیوی کے درمیان کیوں ایسا ہوتا ہے کہ عام طور پرمطلوب قسم کا باہمی اعتماد پیدا نہیں ہوتا، دونوں کے درمیان اجنبیت کی ایک غیر محسوس دیوار مسلسل طورپر باقی رہتی ہے۔ اِس نا مطلوب صورتِ حال کی ذمے داری عورت اور مرد دونوں کے اوپر یکساں طورپر عائد ہوتی ہے۔ عورت کی غلطی یہ ہے کہ وہ نکاح کے بعد اپنے ذہن کو نئے حالات کے مطابق نہیں بنا پاتی۔ وہ بدستور اپنے میکے کو اپنا گھر سمجھتی رہتی ہے۔ اِس کا اظہار بار بار اس کے رویے سے ہوتا رہتاہے۔ مثلاً جب وہ اپنے میکے کا ذکر کرے گی تو وہ اِس طرح کہے گی کہ میرے گھر میںایسا تھا، یا میرے گھرمیں ایسا ہوتا ہے۔ یہ چیز فطری طورپر مرد کو ناگوار ہوتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر محسوس کرتا ہے کہ اُس کے اور اس کی بیوی کے درمیان ایک قسم کی غیریت موجودہے، جو کسی طرح ختم نہیں ہوتی۔
دوسری طرف مرد کے اندر عام طورپر ایک کم زوری ہوتی ہے، جو مطلوب نوعیت کے باہمی اعتماد میںمسلسل طورپر رکاوٹ بنی رہتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر مرد کے ذہن میں ایک مفروضہ عورت کا تصور بساہوا ہوتاہے،یہ مفروضہ تصور مرد کے ذہن میں مسلسل طورپر بسا ہوا ہوتا ہے۔ اِس بنا پر وہ اپنی موجود بیوی کے ساتھ مطلوب قسم کا باہمی اعتماد قائم نہیں کر پاتا ۔شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی اعتماد قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اپنی اصلاح کریں۔ دونوں اپنے آپ کو مذکورہ قسم کے واہمہ (obsession) سے باہر نکالیں۔ دونوں یہ کریں کہ وہ خیالی دنیا میں جینے کے بجائے عملی حالات کے مطابق، اپنا ذہن بنائیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو دونوں کے درمیان اپنے آپ باہمی اعتماد قائم ہوجائے گا۔
مشن کے بغیر
ایک بار مجھے ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے گھر پر ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ مسلمان دعوہ مشن میں سرگرمی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ان کی ایک بیٹی ہیں۔ ان کی شادی ہوئی مگر وہ سسرال میں نباہ نہ کرسکیں۔ وہ شوہر کو چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس آگئیں۔ میں نے لڑکی سے کہا کہ آپ کو ایک فیصلہ لینا پڑے گا۔ اِس طرح آپ زندگی نہیں گزار سکتیں۔ انسان کو جینے کے لیے ہمیشہ ایک مشن درکار ہوتا ہے۔ آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ہے۔ موجودہ صورت میں آپ تیسرا آپشن لیے ہوئے ہیں، اور تیسرا آپشن یقینی طورپر کوئی ممکن آپشن نہیں۔
انسان مشن کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک عورت جب شادی شدہ زندگی اختیار کرتی ہے تو دھیرے دھیرے وہ اس کے لیے ایک مشن بن جاتا ہے۔ گھر سنبھالنااور بچوں کی تعلیم وتربیت، وغیرہ۔ اس دنیا میں وہ اپنی ایک مستقل پوزیشن کی مالک ہوتی ہے۔ یہاں اس کی اپنی بنائی ہوئی ایک ’’اسٹیٹ‘‘ ہوتی ہے۔ اور اس اسٹیٹ کو چلانا اس کا تاعمر مشن بن جاتا ہے۔
میںنے کہا کہ آپ یاتو اپنے شوہر کے پاس واپس جائیں اور وہاں اپنے لیے اس طرح کی دنیا بنائیں۔ آپ کے لیے دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اپنے والد کے ساتھ دعوہ مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں۔ یہ بھی آپ کے لیے ایک قابلِ عمل آپشن ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے آپ کو از سرنو تیار کرنا پڑے گا۔ آپ اپنے مطالعہ کو بڑھائیں، اپنے لائف اسٹائل کو بدلیں،اپنی زندگی کی ازسرِ نومنصوبہ بندی کریں۔ آپ اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور ان کو دوبارہ نئے ڈھنگ سے قائم کریں۔
اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو ایک مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی۔ شوہر کے ساتھ اگر آپ کی ایک فیملی اسٹیٹ ہوتی تو اپنے والد کے ساتھ آپ کی ایک دعوہ اسٹیٹ بن جائے گی۔ میں نے کہا کہ اس وقت آپ جو کچھ کررہی ہیں، وہ محض جذبات کی بنیاد پر کررہی ہیں۔آپ جذبات کے ساتھ بہت دیر تک نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح آپ بہت جلد مایوسی کا شکار ہو جائیں گی اور کسی انسان کے لیے مایوسی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں۔
بے مقصد زندگی
ایک سفر میں میری ملاقات ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ان کا مکان کافی بڑا تھا۔ لیکن اس میں دو کے سوا کوئی اور فرد موجود نہ تھا۔ بظاہر سجے ہوئے مکان کے اندر دو بالکل سادہ انسان رہ رہے تھے۔گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے یہاں ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیداہوا۔ دونوں کو انھوں نے اچھی تعلیم دلائی، مگر تعلیم کی تکمیل کے بعد دونوں باہر چلے گیے۔ اب دونوں باہر کے ایک ملک میں رہ رہے ہیں اور غالباً وہاں کے شہری بن گئے ہیں۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو بچوں کی یاد آتی ہے۔ انھوںنے کہا کہ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے بچے جہاں ہیں، وہاں وہ خوش ہیں۔
اِس طرح کے بہت سے جوڑے ہیں۔ انھوںنے بڑے شوق کے ساتھ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، لیکن جب بچے تعلیم یافتہ ہوگئے تو وہ باہر چلے گیے۔ اب یہ لوگ اپنے شان دار گھرو ںمیں بے شان زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس گزرے ہوئے دنوں کی یادوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کہانی اکثر ان لوگوں کے ساتھ پیش آرہی ہے جو پیسے کے اعتبار سے خوش حال سمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے پیسہ کما کر بظاہر اپنے لیے ایک کامیاب دنیا بنائی، لیکن جلد ہی ان کی امیدوں کی دنیا اُجڑ گئی۔اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا کوئی مستقل مقصد نہیں بنایا تھا۔ ان کا واحد مقصد بچوں کو خوش کرنا تھا۔ بعد کو جب بچوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو ان کے سامنے زندگی کا کوئی نشانہ باقی نہ رہا۔
مقصد وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہو، کسی کے رہنے یا نہ رہنے سے اس میں فرق نہ آتا ہو۔ ایک عورت اور ایک مرد نکاح کے رشتے میں بندھ کر اِس قابل بنتے ہیں کہ وہ خود اپنی ایک دنیا تعمیر کریں، مگر غیر حقیقی محبت کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم وتربیت والدین کی ذمے داری ہے، نہ کہ ان کی زندگی کا مقصد۔ والدین اگر اِس فرق کو سمجھ لیں تو وہ اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں گے اور پھر وہ کبھی افسردگی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں گے۔
سادگی ایک اصولِ حیات
میرے تجربے کے مطابق، تقریباً تمام والدین کا یہ حال ہے کہ وہ سادگی کو ایک اصولِ حیات کے طورپر نہیں جانتے۔ کسی معاملے میں بطور مجبوری وہ سادگی کا طریقہ اختیار کرسکتے ہیں، لیکن اپنے آزادانہ اختیار کے تحت وہ سادگی کا طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ والدین کا یہ مزاج ان کے بچوں تک پہنچتا ہے۔ اُن کے بچے بھی سادگی کو اصولِ حیات کے طور پر دریافت نہیں کرپاتے۔ اور پھر اپنی پوری زندگی میں وہ اِس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہتے ہیں۔
سادگی (simplicity)کیا ہے۔ سادگی یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اِس مقصد کو وہ اپنی زندگی میں اوّلین (primary)اہمیت دے۔ اِس کے سوا ہر چیز کو وہ ثانوی(secondary) درجے میں رکھے۔
زندگی میںہر ایک کے لیے سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ شخصیت کی تعمیر کرے۔ خالق کی طرف سے ہر عورت اور مرد کو اعلیٰ امکانات(potentials) عطا کیے جاتے ہیں، لیکن اِس امکان کو واقعہ (actual) بنانا ہر عورت اور مرد کا اپنا کام ہے۔ امکانات دینا خالق کا کام ہے، لیکن امکانات کو واقعہ بنانا ہمیشہ آدمی کا اپنا کام ہوتاہے۔
اِس معاملے میں پہلی چیز یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنی امکانی صلاحیتوں کو دریافت کرے۔ اس کے بعد ہر ایک کو یہ کرنا ہے کہ وہ مقصدی بنیادوں پر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ مطالعے اور تجربے کے ذریعے اپنے ذہن کی تشکیل کرے۔ وہ اُس ہنر کو جانے جس کو ٹائم مینج منٹ (time management) کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے تمام ذرائع کو اپنے مقصد کے حصول میں لگا دے۔
با مقصد زندگی ایک طریقِ حیات ہے۔ اِس طریقِ حیات کو کامیابی کے ساتھ اختیار کرنے کے لیے سادگی لازمی طورپر ضرور ی ہے۔ سادگی آدمی کواِس نقصان سے بچاتی ہے کہ وہ اپنے پیسے یا اپنے ذرائع کو غیر ضروری چیزوں میں لگا دے اور پھر وہ مقصد کے حصول میں زیادہ کارگر جدوجہد نہ کرسکے۔اِس معاملے میں غفلت ہر ایک کے لیے تباہ کُن ہے۔
جذباتیت بمقابلہ انانیت
ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک ساتھ اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ دو متضاد شخصیت کا اجتماع ہوتا ہے۔ عورت اپنی پیدائش کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے، اور مرد اپنی پیدائش کے اعتبار سے انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں فطری ہیں۔ وہ لازمی طورپر ہر عورت اور ہر مرد کی شخصیت کاحصہ ہوتی ہیں۔ اِس معاملے میں کسی کا بھی کوئی استثنا نہیں ۔
لیکن اِن دونوں صفتوں کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا اُن کا منفی پہلو۔ اگر اِن صفات کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ انسانیت کے لیے خیر ثابت ہوں گے، اور اگر ان کو منفی انداز میںاستعمال کیاجائے تووہ انسانیت کے لیے شر بن جائیں گے۔
انانیت (ego) کا مثبت پہلویہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کسی مقصد کے لیے جمنے کا مزاج پیداہوتاہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ صفت نہ ہو تو وہ موم کی مانند ہوجائے گا اور عزم وجزم کے ساتھ وہ کوئی کام نہ کرسکے گا۔ انانیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا مزاج پیدا ہوجائے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی انانیت کو اِس منفی حد تک نہ جانے دے، ورنہ وہ تعمیر پسند انسان کے بجائے ایک تخریب پسند انسان بن جائے گا۔
اِسی طرح عورت پیدائشی طورپر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اِس صفت کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ اِس صفت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اِس کی وجہ سے عورت کے اندر نرمی اور شفقت کا مزاج زیادہ ہوتاہے، جو بلاشبہہ ایک خوبی کی بات ہے۔ اِس صفت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہوجائے۔ وہ معاملات میں ضدّی پن دکھانے لگے۔ یہ دوسرا پہلو اِس صفت کا منفی پہلو ہے۔ اگر عورت کے اندر یہ منفی مزاج پیداہوجائے تو اس کی فطری صفت اپنا مثبت فائدہ کھو دے گی۔
عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اِس فطری مزاج کو سمجھیں۔ وہ شعوری طورپر اِس کا اہتمام کریں کہ ان کا یہ مزاج مثبت دائرے میں رہے، وہ منفی رُخ اختیار نہ کرے۔ اِسی انضباط میں عورت اورمرد دونوں کے لیے کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
فطرت سے تعاون
ایک صاحب نے کہا کہ جب میںاپنے گھر جاتا ہوں، تو میری بیوی میرے خلاف کوئی نہ کوئی سخت لفظ بول دیتی ہیں۔ اِس پر مجھے غصہ آجاتا ہے اور میںبھی کچھ بول دیتاہوں، اور پھر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوجاتا ہے۔ اِس طرح کے جھگڑے میرے گھر میں اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اِس مسئلے کا حل کیا ہے۔
میںنے کہا کہ اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے اور وہ یک طرفہ صبر ہے، یعنی آپ کی بیوی آپ کے خلاف بولیں، تب بھی آپ اُن کے خلاف نہ بولیں۔ آپ ہر حال میں یک طرفہ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کیوں۔ آخر میں ہی یک طرفہ طورپر کیوں چپ رہوں، اُنھیں بھی تو چپ رہنا چاہیے۔ یہ تو انصاف کی بات نہیں ہوئی۔
میںنے کہا کہ یہ انصاف کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ عملی حل کا ایک معاملہ ہے۔ عورت پیدائشی طورپر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی بات سے، زیادہ اثر لے لیتی ہے۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہو جس کے اوپر وہ اپنے جذبات کو نکالے۔ یہ عورت کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ایسی حالت میں عورت کا شوہر ہی وہ قریبی شخص ہوتا ہے جس کے اوپر وہ اپنے جذبات کو نکالے اور اپنے آپ کو دوبارہ معتدل بنائے۔
ایسے موقع پر مرد کو چاہیے کہ وہ اس کو انا (ego) کا مسئلہ نہ بنائے، بلکہ وہ تعاون (co-operation) کے جذبے سے کام لے۔ ایسی صورتِ حال میں مرد اگر اعراض کا طریقہ اختیار کرے، تو گویا کہ اُس نے تعاون کا طریقہ اختیار کیا۔ مزید یہ کہ اس کا یہ تعاون صرف عورت کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ فطرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ قانونِ فطرت کے تحت، عورت مجبور ہے کہ وہ اِس قسم کا جذباتی اظہار کرے۔ اِس لیے مرد جب ایسے موقع پر تعاون کا طریقہ اختیار کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے عبادت کا ایک معاملہ ہوتا ہے، یعنی اس نے فطرت کے قائم کردہ نظام کو رضا مندی کے ساتھ قبول کیا۔ یہ بلاشبہہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر خدا کے یہاںاس کو انعام دیا جائے گا۔
فارمولا آف تھرٹی سکینڈ
مرد اپنی فطرت کے اعتبار سے انانیت پسندہے، اور عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے جذباتی ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر اکثر دونوں میں جھگڑا کھڑا ہوجاتا ہے۔ دونوں کے درمیان اِس فرق کو مٹایا نہیں جاسکتا۔اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ — جب مرد کی انا بھڑکے تو عورت خاموش ہوجائے، اور جب عورت کے جذبات بھڑکیں تو مرد خاموشی اختیار کرلے۔ دونوں میںسے کوئی بھی ردّعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ اِس کے سوا اِس مسئلے کا کوئی اور حل سرے سے ممکن ہی نہیں۔
ہر منفی جذبہ ، مثلاً غصے وغیرہ کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ بھڑکتا ہے تو وہ اپنے آپ بھڑکتا ہے، لیکن ابتدائی طورپر وہ ایک حد کے اندر رہتاہے۔ حد سے آگے جانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کو کوئی بڑھاوا (boost) دینے والا بڑھاوا دے۔ یہ بڑھاوا دینے والا خود کوئی انسان ہوتا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے بوسٹ فراہم نہ کرے تو ہر منفی جذبہ تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ منفی جذبے کے بارے میں فطرت کا قانون یہ ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد تھرٹی سکینڈ(30 سیکنڈ) تک اوپر کی طرف جاتا ہے۔اس کے بعد اگراُس کو مزید بُوسٹ نہ ملے تو تھرٹی سکینڈ کے بعد وہ فطری طورپر نیچے کی طرف جانے لگتا ہے۔
شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو سمجھیں، جس کو ہم نے تیس سکینڈ کا فارمولا(formula of 30-seconds) کہا ہے۔ فطرت کے اِس قانون کو جاننا شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ جو شوہر اور بیوی اِس قانون کو جان لیں، ان کی زندگی میںکبھی ایسا بُحران (crisis) نہیں آئے گا جو بڑھ کر بریک ڈاؤن (breakdown) تک پہنچ جائے۔خالق نے فطرت کے اندر تمام ضروری تحفّظات (safeguard) رکھ دیے ہیں۔ کسی عورت یا مرد کو صرف یہ کرناہے کہ وہ فطرت کے اندر پہلے سے موجود اِن تحفظات کو جانے اور ان کو اپنی عملی زندگی میںاستعمال کرے۔ فطرت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خاموش زبان میں بولتی ہے۔ جو لوگ خاموش زبان کو سننے کی استعداد رکھتے ہوں، وہی لوگ فطرت کی اِس آواز کو سنیں گے اور اُس سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں گے۔
آرٹ آف فیلیر مینج منٹ
ایک صنعت کار اپنی بیٹی کو لے کر میرے پاس آئے۔ انھوںنے کہاکہ میری بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی ہے۔ جلد ہی ان کی شادی ہونے والی ہے۔ آپ دعا کیجیے کہ ان کی شادی شدہ زندگی (married life) کامیاب ہو۔ میںنے ان کی بات سنی اور پھر میری زبان سے نکلا:
Every marriage is doomed to failure, except for the one who knows the art of failure management.
یعنی ہر شادی کے لیے مقدر ہے کہ وہ ناکام ہو، سوا اُس کے جو ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا آرٹ جانتا ہو۔انھوں نے کہا کہ پھر ہم کو وہی آرٹ بتائیے۔ میں نے کہا کہ وہ آرٹ یہ ہے کہ آدمی شادی کو آئڈیل کی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ پریکٹکل کی نظر سے دیکھے اور پھر جو شادی اس کے حصے میں آئی ہے اُسی کو ممکن سمجھ کر اس پر راضی ہوجائے۔شادی کے بعد عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھی کو آئڈیل سے ناپتے ہیں۔ چوں کہ آئڈیل کا حصول ممکن نہیں، اس لیے اُن کا احساس یہ ہوتا ہے کہ انھیں رائٹ جیون ساتھی نہیں ملا۔ شادی کے دونوں فریق اِسی احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شادی کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہوتے ہیں، لیکن اُنھیں شادی یا خوشی کا کبھی تجربہ نہیںہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت وہی ہے جو دوسری عورت ہے۔ اِسی طرح ہر مرد وہی ہے جو دوسرا مرد ہے۔ ظاہری صورتوں کے لحاظ سے خواہ لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوں، لیکن داخلی شخصیت کے اعتبار سے ہر ایک یکساں حیثیت کا مالک ہے۔ لوگ اگر اس حقیقت کو جان لیں توہر مرد کو یہ محسوس ہوگا کہ اس کو جو بیوی ملی ہے، وہ دنیا کی سب سے اچھی بیوی ہے۔ اِسی طرح ہر عورت کو یہ محسوس ہوگا کہ اُس کو جو شوہر ملا ہے، وہ دنیا کا سب سے اچھا شوہر ہے۔ جب دونوں اِس حقیقت کو دریافت کریں گے تو اس کے بعد اُن کی زندگی سے مایوسی اور رنج کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور پھر وہ اُس خوش گوار زندگی کو پالیں گے جس کی انھیں تلاش تھی۔
لائف مینج منٹ
اِس دنیا میںکامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اُس ہنر کو جانے جس کو آرٹ آف لائف مینج منٹ(art of life management) کہا جاتا ہے۔آرٹ آف لائف مینج منٹ یہ ہے کہ آدمی ایک طرف اپنے آپ کو جانے اور دوسری طرف اپنے سے باہر کے حالات کو سمجھے، اور پھر خالص حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔ پھر وہ اِس نقشے پر اِس طرح عمل کرے کہ نتیجے کو دیکھتے ہوئے بار بار وہ اپنے نقشے پر نظر ثانی کرتا رہے۔
زندگی کے کسی نقشے یا منصوبے کے درست یا نادرست ہونے کا صرف ایک معیار ہے اور وہ اُس کا نتیجہ ہے۔ جس نقشۂ عمل کا نتیجہ منفی صورت میں نکلے، وہ نقشۂ عمل نادرست ہے۔ اور جس نقشۂ عمل کا نتیجہ مثبت صورت میں نکلے، وہ درست ہے۔ کسی نقشۂ عمل کو نظری معیار پر جانچنادانش مندی نہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ اپنے بنائے ہوئے نقشے کو اُس کے نتیجے کی روشنی میں جانچا جائے۔
شادی شدہ زندگی کے بارے میں بھی یہی اصول ایک صحیح اصول ہے۔ شادی شدہ زندگی کی نزاکت یہ ہے کہ وہ غیرخونی رشتے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ جہاں دو فرد کے درمیان خونی رشتہ موجود ہو، وہاں کسی شعوری منصوبہ بندی کے بغیر بھی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔ لیکن شوہر اور بیوی کا تعلق غیرخونی رشتے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ایسے تعلق کو درست طورپر چلانے کی تدبیر صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اُس کو پوری طرح عقل کے تابع رکھا جائے، نہ کہ جذبات کے تابع۔
خونی رشتے میں فطری طورپر جذباتی تعلق موجود ہوتاہے۔ یہ جذباتی تعلق ہر چیز کا بدل بن جاتا ہے، لیکن غیر خونی رشتے کی کامیابی کا انحصار تمام تر اِس پر ہے کہ اُس کو سوچ سمجھ کر چلایا جائے۔خونی رشتہ فطرت کے زور پر اپنے آپ جاری رہتاہے، لیکن غیر خونی رشتے میں اِس قسم کا فطری زور موجود نہیں ہوتا۔ غیر خونی رشتے کو عقلی مینج مینٹ(rational management) کے بغیر کامیابی کے ساتھ چلانا ممکن نہیں—خونی رشتہ فطرت کے تحت قائم ہوتا ہے اور غیر خونی رشتہ شعور کے تحت۔
انتظار کی پالیسی
انتظار کرو اور دیکھو (wait and see) ایک قدیم مقولہ ہے۔ یہ صرف ایک مقولہ نہیں، وہ فطرت کاایک قانون ہے۔ انتظار کی پالیسی بہتر انجام کے استقبال کے ہم معنیٰ ہے۔ ایک چیز جو آج آپ کو نہیں ملی، اُس کو پانے کے لیے آپ کَل کا انتظار کریں تو یہ بلاشبہہ ایک اعلیٰ دانش مندی کی بات ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ جو کچھ آپ کو آج نہیںملا، وہ کل اپنی پوری مطلوب صورت میں آپ کو مل جائے۔
شادی شدہ زندگی میں شوہر اور بیوی دونوں یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کوآج ہی ویسا دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ اُن کے دماغ میں بساہوا ہے۔ اِس معاملے میں وہ وقت کے عامل (factor) کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ کوئی چیز وقت سے پہلے کسی کو نہیں ملتی۔ عورت اورمرد دونوں کو جاننا چاہئے کہ اِس دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتاکہ جو چیز کل ملنے والی ہے، وہ آج ہی آپ کو مل جائے۔
نکاح کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد ایک گھر میں اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ دونوں کے لیے ایک نیا تجربہ ہوتاہے۔ دونوں فطری طورپر ایک دوسرے سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں فطری طورپر اپنے آپ کو ایک دوسرے کے مطابق بنا نا چاہتے ہیں۔ یہ فطری عمل نکاح کے پہلے دن سے شروع ہو جاتا ہے۔ زوجین کا کام یہ ہے کہ وہ اِس فطری عمل (process) کو جاری رکھنے میں مدد گار بنیں۔ وہ ایسا کوئی کام نہ کریں جو اِس فطری عمل کو درہم برہم کردینے والا ہو۔
انتظار کا مقصد اِسی فطری عمل میں مدد دینا ہے۔ انتظار کا مقصد یہ ہے کہ یہ فطری عمل بلا روک ٹوک جاری رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی آخری حد پر پہنچ جائے۔ انتظار ایک عمومی اصول ہے۔ اُس کا تعلق ہر بڑی کامیابی سے ہے۔ یہی اصول شوہر اور بیوی کے معاملے میں بھی درست ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ انتظار کیجیے، اور اس کے بعد آپ کو یقینی طورپر اپنی مطلوب چیز مل جائے گی۔یہ فطرت کا قانون ہے اور اِس دنیا میں فطرت کے قانون سے بڑا کوئی قانون نہیں۔
گھر: بہتر انسان بنانے کا کارخانہ
ماں کی حیثیت سے عورت کا رول اگلی نسل کی تیاری ہے۔ انسان کی نسل ایک رواں دریا کی مانند ہے جس میں ہر وقت پرانا پانی بہہ کر چلا جاتاہے اور نیا پانی اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی قافلے کا ہے۔ یہاں بھی مسلسل ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسل جاتی رہتی ہے اور نئی نسل اس کی جگہ لیتی رہتی ہے۔ ماں کا کام اِسی نئی نسل کی تیاری ہے۔ ماں کے ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر بار اگلی نسل کے لیے بہتر انسان بنا کر بھیجے۔
بہتر انسان کون ہے۔ بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر زندگی کا حوصلہ ہو، جو منفی سوچ سے بلند ہو اور مثبت سوچ کا حامل ہو، جو اپنے ذہن کے اعتبار سے اِس قابل ہو کہ وہ تعمیری بنیادوں پر زندگی کی منصوبہ بندی کرسکے، جو اپنے سماج کے لیے کوئی نیا پرابلم پیدا نہ کرے، جو اپنے سماج کا دینے والا ممبر (giver member) ہو، نہ کہ صرف لینے والا ممبر (taker member) ۔
اِس معاملے میں ماں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو ہم چند مثالوں کے ذریعے واضح کریں گے۔ ان مثالوں کاخلاصہ یہ ہے کہ ماں کو چاہیے کو وہ اپنی اولاد کے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو پختگی (maturity)کہاجاتا ہے، وہ ناپختگی (immaturity) کا ذہن دے کر اپنی اولاد کو سماج میں نہ بھیجے۔
مثلاً عام ذہن یہ ہے کہ جو آدمی دولت مند گھر میں پیدا ہو، اُس کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ اور جو آدمی غریب گھر میں پیدا ہو، اس کو بد قسمت انسان کہا جاتا ہے۔ یہاں ماں کا رول یہ ہے کہ اگر اس کا بچہ غریب گھر میں پیدا ہوا ہے تو وہ اس کو بتائے کہ غریب ہونا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ ایسی ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو زندگی کا یہ فلسفہ بتائے کہ دولت مند بچے کے پاس اگر دولت ہوتی ہے تو غریب بچے کے پاس ایک اور زیادہ بڑی دولت موجود ہے، اور وہ ہے — بڑھا ہوا محرک (incentive) ۔ یہ محرک اُس کی زندگی کی طاقت بن کر اس کا ساتھ دیتا ہے:
If a rich person is born with a silver spoon in his mouth, the poor person is born with an incentive spoon in his mouth.
ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو بتائے کہ ہر امیر بچے کے باپ اور دادا غریب ہی تھے، پھر وہ محنت کرکے امیر بنے۔ اِسی طرح تم بھی محنت کرکے سب کچھ حاصل کرسکتے ہو۔
اِسی طرح ایک اور فکری گمراہی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ اس گمراہی سے وہ اپنے بچے کو باہر نکالے۔ وہ یہ کہ عام طور پر انسانی طبقات کو محروم اور غیر محروم (Haves and have nots) میں تقسیم کیا جاتا ہے، مگر یہ ایک غلط ڈائکاٹمی (wrong dichotomy) ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ایک شخص محروم طبقے کا فرد ہوتا ہے، لیکن بعد میں وہ ایک غیر محروم طبقے کا فرد بن جاتا ہے۔ مثلاً سی وی رمن، جی ڈی برلا، آبرائے، دھیرو بھائی امبانی، ڈاکٹر عبدالکلام، وغیرہ۔ اس قسم کے ہزاروں لوگ ہیں جو اپنے بچپن میں بظاہر محروم طبقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن بعد کو وہ غیرمحروم طبقے کے اعلیٰ فرد بن گیے۔ اِس لیے اِس دنیا میں صحیح ڈائکاٹمی محروم اور غیر محروم کی نہیں ہے، بلکہ امکانی غیرمحروم اور واقعی غیر محروم (potential haves and actual haves) کی ہے۔
کسی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی چیز حوصلہ اور مثبت شعور ہے۔ ہر پچھلی نسل کا فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو با حوصلہ اور باشعور بنا کر زندگی کے میدان میں داخل کرے۔
تعلیم اور خواتین
تعلیم کی اہمیت جتنی زیادہ مَردوں کے لیے ہے، اتنی ہی زیادہ اس کی اہمیت عورتوں کے لیے بھی ہے۔ تعلیم کے بغیر دونوں ہی ادھورے ہیں۔ تعلیم ہر عورت اور مرد کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کو دونوں میں سے کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ تعلیم کو نظر انداز کرنا اپنے لیے یہ خطرہ مول لینا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مطلوبِ اعلیٰ تک نہ پہنچیں، وہ مطلوبِ اعلیٰ تک پہنچے بغیر ناکامی کے احساس کے ساتھ مرجائیں۔
عورت اور مرد دونوں کے لیے تعلیم اتنا زیادہ ضروری ہے کہ اِس معاملے میں کوئی بھی عُذر قابلِ قبول نہیں۔ مشہور مقولہ اِس معاملے میں پوری طرح صادق آتا ہے— اگر تمھارے پاس ایک اچھا عذر ہے، تب بھی تم اُس کو استعمال نہ کرو:
If you have a good excuse, don't use it.
تعلیم کی اہمیت صرف جاب (job)کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کی اہمیت بہتر زندگی کی تعمیر کے لیے ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام چیزوں کا تعلق علم اور تعلیم سے ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میںکوئی عورت یا مرد اِس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جائیں۔ کیوں کہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا شخص ایک حقیقی انسانی زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوسکے۔
ہر آدمی ایک حیوان ہے۔ حیوانیت کے مقام سے اوپر اٹھا کر جو چیز اُس کو انسان کے مقام تک پہنچاتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ حیوان اور انسان کے درمیان جو چیز فرق کرتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ تعلیم آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے اندر چھپے ہوئے اعلیٰ امکانات کو بروئے کار لائے، وہ اپنے امکان (potential) کو واقعہ(actual) بنا سکے۔ یہ کام کبھی تعلیم کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔
تعلیم سے مراد پروفیشنل ایجوکیشن نہیں ہے، بلکہ حقیقی ایجوکیشن ہے۔ تعلیم سے مراد اپنے آپ کو علم وحکمت کی دنیا تک پہنچانا ہے۔ پروفیشنل ایجوکیشن کسی آدمی کو صرف جاب دیتی ہے، لیکن علم وحکمت کا حصول آدمی کو اعلیٰ مرتبۂ انسانیت تک پہنچا دیتا ہے۔
صورت یا سیرت
اکثر نوجوان یہ خواب دیکھتے رہتے ہیںکہ ان کو خوب صورت بیوی مل جائے۔ مگر یہ صرف ایک نادانی کی خواہش ہے۔ نام نہاد خوب صورت عورت اکثر پُر مسائل بیوی (problem wife)ثابت ہوتی ہے۔ ایسی عورت کی دل کَشی صرف چند دن کی ہوتی ہے اور اس کے بعد سارا جنون ختم ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح کے معاملے میں آدمی کو اصل اہمیت سیرت (character)کو دینا چاہیے۔ جو عورت سیرت میںاچھی ہو، وہی سب سے اچھی بیوی ہے۔
فرینک فرٹ یونی ورسٹی کے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جان (Dr. John Ockert) نے ایک جائزے میں بتایا کہ— زیادہ خوب صورت لڑکیاں عام طورپر زندگی میں ناکام رہتی ہیں:
Gorgeous women feel beauty is the only asset, and they cannot bear the ageing. Marilyn Monroe, one of the prettiest women to emerge from Hollywood, is stated to have wept bitterly when she saw first traces of wrinkles in the mirror.
دل کَش عورتیں سمجھتی ہیں کہ خوب صورتی اُن کا واحدسرمایہ ہے اور بڑھاپے کو وہ برادشت نہیں کرسکتیں۔ میری لین مانرو، جو ہالی وُڈ کی ایک انتہائی خوب صورت عورت تھی، کہا جاتا ہے کہ وہ اُس وقت بُری طرح رونے لگی، جب کہ اُس نے آئینے میں پہلی بار اپنے چہرے پر جھُرّیوں کے نشانات دیکھے۔
جس آدمی کو پُرکشش عورت نہ ملے، وہ زیادہ خوش قسمت ہے۔ کیوں کہ غیرپُرکشش عورت عملی زندگی میں زیادہ بہتر رفیق ثابت ہوتی ہے۔ نکاح کا مقصد ایک نِسوانی کھلونا حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ نکاح کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کو ایک کار آمد رفیقۂ حیات مل جائے۔ اور بہتر رفیقۂ حیات وہی ہے جو سیرت کے اعتبار سے بہتر ہو، نہ کہ صرف صورت کے اعتبار سے بہتر۔ یہ تجربہ اتنا عام ہے کہ ہر آدمی اپنے قریب کے لوگوں میں اِس کی مثالیں دیکھ سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے اندر چیزوں کو حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔
لَو میریج ناکام کیوں
جدید دور میں جب لو میرج (love marriage) کا طریقہ رائج ہوا تو اکثر عورت اور مرد نے یہ یقین کرلیا کہ اب انھوںنے نکاح کے معاملے میں آخری فارمولا دریافت کرلیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہر عورت اور مرد لو میریج کے ذریعے اپنی پسند کی شادی کرے اور پھر اپنی پسند کے مطابق، اپنے لیے بہترین زندگی کی تعمیر کرے۔لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ لو میریج کا طریقہ پوری طرح ناکام ثابت ہوا۔ آج کل ساری دنیا میں یہ حال ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں لو میریج کے ذریعے اپنی پسند کی شادیاں کرتے ہیں، لیکن سروے کے مطابق، پچاس فی صد سے زیادہ شادیاں ناکام ہوتی ہیں۔ لو میریج نے لوگوں کو خوش گوار ازدواجی زندگی کا تحفہ نہیں دیا۔
لومیریج کی ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لو میریج صرف ایک غیر فطری میریج کا خوب صورت نام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک نوجوان عورت اور ایک نوجوان مرد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیںاور ظاہری خوش نُمائی کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو پسند کرلیتے ہیں۔ مگر پھر جب دونوں کے درمیان عملی تعلق قائم ہوتا ہے تو اُن پر کھلتا ہے کہ انھوں نے جس چمک دار چیز کو سونا سمجھا تھا، وہ سونا ہی نہ تھا۔
اصل یہ ہے کہ نکاح سے پہلے جو لو اَفئر (love affair) ہوتا ہے، وہ صرف نظر فریبی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد جب دونوں کے درمیان عملی تعلق ہوتا ہے تو نظر فریبی کا سَراب (mirage)ختم ہوجاتا ہے اور حقیقی صورتِ حال سامنے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبل از نکاح جو چیز غیر معمولی نظر آئی تھی، وہ بعد از نکاح صرف ایک معمولی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ اب مایوسی کا دور شروع ہوتا ہے جو آخر کار طلاق یا کم ازکم دوری تک پہنچ جاتا ہے۔
درست طریقہ صرف یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں نکاح کے معاملے کو اپنے والدین پر چھوڑ دیں۔ تاہم والدین کو اِس معاملے میں ایسا کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد سے اِس بارے میں رائے لیں، اِس کے بعد ہی وہ کوئی آخری فیصلہ کریں۔
سختی یا عزم
ایک مغربی سفر میں میری ملاقات ایک مسیحی خاتون سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میرا شوہر سخت (stubborn) ہے۔ مجھے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں، یہ صرف سوچ کا مسئلہ ہے۔ آپ اپنی سوچ درست کر لیجیے اور پھر یہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ آپ یہ نہ سوچئے کہ آپ کا شوہر سخت ہے۔ سخت ایک منفی لفظ ہے۔ منفی الفاظ میں آپ کسی بات کو سوچیں تو اس کے بارے میں معتدل انداز میں سوچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے آپ کو اِس بارے میں مثبت الفاظ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ آپ جو کچھ سوچیں، وہ مثبت ذہن کے تحت سوچیں، نہ کہ منفی ذہن کے تحت۔
میں نے کہا کہ آپ یہ کہیے کہ آپ کے شوہر کے اندر عزم (determination) کا مادّہ ہے۔ وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں تو اَٹل انداز میں سوچتے ہیں۔ یہ ایک مردانہ صفت ہے اور وہ بلاشبہہ ایک اچھی صفت ہے۔ اگر یہ صفت نہ ہو تو آدمی ہمت کے ساتھ زندگی کے چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتا۔ اور جو آدمی چیلنج کا سامنا نہ کرسکے، وہ کبھی زندگی میں کامیاب بھی نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ خاتون کئی زبان جانتی تھیں اور وہ پروفیشن کے اعتبار سے ترجمان (interpreter) تھیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا پروفیشن چیلنجنگ پروفیشن نہیں ہے۔ اِس پروفیشن میں نرم ہونا ایک اچھی بات ہے۔ آپ کا نرمی کا مزاج آپ کے پروفیشن کے عین مطابق ہے، مگر آپ کے شوہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر ہیں۔اس کام میں ان کو ہر وقت چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔ خدا نے آپ کو نرم بنایا، تاکہ آپ اپنے پروفیشن کو کامیابی کے ساتھ کرسکیں۔ اِس کے برعکس، خدا نے آپ کے شوہر کو سختی کا مزاج دیا جو کہ اُن کے پروفیشن کے اعتبار سے ضروری تھا۔ آپ کو چاہیے کہ اِس تقسیم پر آپ شکر کریں، نہ کہ شکایت۔
معاملات میں مثبت رخ پر سوچنا آدمی کو مثبت نتیجے تک پہنچاتا ہے، اور منفی رخ پر سوچنا اُس کو منفی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔اِس اصول کا تعلق جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات سے ہے، اِسی طرح اس کا تعلق ازدواجی زندگی سے بھی ہے۔ اِس اصول کو جاننا بلا شبہہ اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی کلید ہے۔
چھوٹی بات کو بڑی بات نہ بنائیے
زوجین کے درمیان جو جھگڑے ہوتے ہیں، وہ اکثر چھوٹی باتوں پر ہوتے ہیں۔ کسی چھوٹی بات کو لے کر اختلاف شروع ہوتا ہے اور وہ اختلاف بڑھتے بڑھتے بڑا بن جاتا ہے۔زوجین وہ عورت اور مرد ہیںجو رات اور دن ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہی چیز نزاع کا اصل سبب ہے۔ یہی دونوں عورت اورمرد اگر اتفاقاً کچھ دیر کے لیے ملیں، مثلاً کسی سفر میں یا کسی سیمنار میں تو اُن کے درمیان کبھی مذکورہ قسم کا جھگڑا پیدا نہیں ہوگا۔جھگڑا ہمیشہ ایک معتدل چیز پر غیر معتدل ردّ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
زوجین اگر اِس حقیقت کو جان لیںتو اِس کے بعد اُن کے درمیان کبھی کوئی اختلاف شدید نوعیت اختیار نہ کرے۔ اِس حقیقت سے بے خبری کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ دونوں پیش آئے ہوئے اختلاف کو حقیقی (real)اختلاف سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ وہ صرف ایک اِضافی (relative)نوعیت کا اختلاف ہوتا ہے۔
ہرعورت اور مرد کا مزاج فطری طورپر ایک دوسرے سے مختلف ہوتاہے۔ یہ مزاجی اختلاف ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ وقتی ملاقاتوں میں وہ کبھی مسئلہ نہیںبنتا، لیکن جب ایک عورت اور ایک مرد مستقل طورپر ایک ساتھ رہنے لگیں تو یہ اختلافات بار بار ظاہر ہوتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے وہ شدید نوعیت اختیار کرلیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اِس بات کو جانیں کہ یہ ایک نفسیاتی نوعیت کا مسئلہ ہے، نہ کہ حقیقی نوعیت کا مسئلہ تو وہ فوراً اُس کو نظر انداز کردیں، جس طرح وہ وقتی ملاقاتوںمیںایسی چیزوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
اِسی بے خبری کی بنا پر ہر عورت اور مرد کی زندگی ایک متضاد رویّے کا شکار رہتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے اندر لڑتے جھگڑتے ہیں، لیکن یہی لوگ جب گھر کے باہر کی دنیا میں آتے ہیں توان کا رویّہ لوگوں کے ساتھ بالکل معتدل ہوجاتا ہے۔ زوجین کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس متضاد رویّے سے بچائیں۔ اِس کے بعد ان کی گھر کی زندگی بھی اُسی طرح معتدل بن جائے گی، جس طرح ان کی باہر کی زندگی معتدل بنی ہوئی ہے۔زندگی کے اکثر مسائل صرف بے شعوری کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو باشعور بنائیے، اورپھر آپ خود بخود غیر ضروری مسائل سے بچ جائیں گے۔
عدم مداخلت کی پالیسی
میں نے ایک تعلیم یافتہ شخص سے پوچھا کہ آپ کی ازدواجی زندگی کیسی ہے، خوش گوار یا ناخوش گوار۔ انھوںنے کہا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری ازدواجی زندگی پوری طرح ایک خوش گوار زندگی ہے۔ میرے گھر میںمعتدل ماحول رہتا ہے۔ ہم دونوں کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ اِس خوش گوار زندگی کے لیے آپ کا فارمولا کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ ہمارا فارمولا، ایک لفظ میں، عدم مداخلت(non-interference) ہے، یعنی ہم نے اپنے یہاںتقسم کار کے اصول کو اپنا لیا ہے۔ نہ میں بیوی کے معاملے میں دخل دیتا ہوں اور نہ بیوی میرے معاملے میں دخل دیتی ہیں۔
میں نے کہا کہ ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے یہ بلا شبہہ ایک بہترین اصول ہے۔ کیوں کہ خالق نے ہر عورت اور مرد کو الگ الگ مزاج کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ ہے اور ہر عورت مِس ڈفرنٹ۔ایسی حالت میں ازدواجی تعلق گویا دو ڈفرنٹ افراد کے درمیان تعلق کا نام ہے۔ یہ فرق چوں کہ خالق کا پیدا کیا ہوا ہے، اِس لیے ہم اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اِس فرق کو بدلنے کی ناکام کوشش نہ کریں، بلکہ فرق کے ساتھ نِباہ کرنے کی کوشش کریں۔ اِس اصول کو ایک لفظ میں، آرٹ آف ڈفرنس مینج منٹ (art of difference management) کہاجاسکتا ہے۔
یہ فرق کوئی برائی نہیں۔ اِس فرق کے اندر ایک عظیم فائدہ چھپا ہوا ہے۔ فرق کا مطلب صرف فرق نہیں، بلکہ اس کا مطلب دو مختلف صلاحیتیں ہیں۔ اگر عورت اور مرد دونوں میں ہر اعتبار سے یکسانیت پائی جائے تو وہ کوئی اچھی بات نہ ہوگی۔ یکسانیت نہ ہونا، ذہنی ترقی کا راز ہے۔ اِسی لیے کہاگیا ہے کہ — جب تمام لوگ یکساں طورپر سوچیں تو کوئی بھی زیادہ نہیں سوچتا:
When everyone thinks alike, no one thinks very much.
مشترک زندگی کے لیے عدم مداخلت کی پالیسی بہترین پالیسی ہے۔ یہ پالیسی گھر کے باہر کی زندگی کے لیے بھی بہترین ہے اور گھر کے اندر کی زندگی کے لیے بھی بہترین۔
ایک دانش مند خاتون
مہاراشٹر (انڈیا) کے ایک خاندان کا واقعہ میرے علم میںآیا۔ ایک لڑکی کی شادی اُس کی اپنی پسند کے مطابق، ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ دونوں ایک ساتھ رہنے لگے۔ اُن کے یہاں ایک لڑکا بھی پیدا ہوا، لیکن جلد ہی دونوں میںاختلافات شروع ہوگیے۔ بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ لڑکی اپنے شوہر سے خفا ہو کر اپنے میکے میں اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔ اور ماں سے اپنے شوہر کے خلاف شکایتی باتیں بتانے لگی۔ ماںنے سننے کے بعد کہا کہ —شادی دوبار نہیں کی جاتی۔ یا تو تم اپنے شوہر سے نباہ کرو یا زہر کھا کر مرجاؤ۔
لڑکی کے لیے اپنی ماں کا یہ جواب اُس کی امیدوں کے سراسر خلاف تھا۔ اِس جواب کو سن کر وہ رونے لگی اور چند دن تک وہاں اِسی حال میں رہی۔ اس کی ماں نے کہا کہ —تم چاہے روؤ یا چلاّؤ، میں نے اپنا جواب تم کو بتا دیا۔ میرا جواب بدلنے والا نہیں۔
ماں کا جواب لڑکی کے لیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا، لیکن اِس دھماکہ خیز جواب نے لڑکی کے اندر نئی سوچ پیدا کردی۔ اِسی دوران لڑکی کو راقم الحروف کی کتاب ’’رازِ حیات‘‘ (صفحات 292) مل گئی۔ اس کتاب کو اس نے پڑھا۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ اس کی ماں نے جو کچھ کہا تھا، وہی اِس معاملے میں صحیح بات ہے۔ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ مل جُل کر رہنا ہے۔ اب میرے لیے اس کے سوا کوئی اور انتخاب (option) نہیں ہے۔
اِس طرح وہ لڑکی چند دن سوچتی رہی۔ آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے پاس واپس چلا جانا چاہیے۔ چناں چہ وہ کسی شرط کے بغیر اپنے شوہر کے پاس چلی گئی اور وہاں رہنے لگی۔ میںنے خود اپنے ایک سفر کے دوران دیکھا ہے کہ دونوں میاں اور بیوی اب خوشی سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے کامیاب رفیقِ حیات بنے ہوئے ہیں— اختلاف کا معاملہ ربر کی مانند ہے۔ آپ چاہیں تو اس کوکھینچ کر بڑھادیں اور چاہیں تو اس کو نہ بڑھائیں اور اس کو اپنی فطری حالت پر رہنے دیں۔
میکے کے تصور میں جینا
مشرقی خواتین میںایک مزاج بہت عام ہے۔ نکاح کے بعد وہ اپنی سُسرال آجاتی ہیں، لیکن نفسیاتی اعتبار سے بدستور وہ اپنے میکے میں جیتی رہتی ہیں۔ جسمانی اعتبار سے وہ سسرال میں ہوتی ہیں، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ بدستور اپنے میکے کی یادوں میں گُم رہتی ہیں۔ خواتین کا یہ مزاج ایک غیر حقیقی مزاج ہے۔ اِس غیر حقیقی مزاج کی بھاری قیمت اُن کو یہ دینی پڑتی ہے کہ وہ اپنی سسرال میں غیر ضروری طورپر پریشان رہیں، ان کو کبھی سکون کی زندگی حاصل نہ ہو۔
خواتین کے اندر اِس غیر حقیقی مزاج کی اصل ذمے داری اُن کے والدین پر ہے۔ والدین اپنی نام نہاد محبت کی بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بیٹی کو نئی زندگی کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ والدین اپنی بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ محبت کے نام پر کرتے ہیں، لیکن انجام کے اعتبار سے وہ دشمنی ہوتا ہے۔ والدین تو کچھ دنوں کے بعد اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، لیکن اپنی بیٹی کو وہ ہمیشہ کے لیے ایک غیر حقیقی مسئلے میں مبتلا کرکے چھوڑ جاتے ہیں۔
مجھے ایک باپ کا حال معلوم ہے۔ نکاح کے بعد جب انھوںنے اپنی بیٹی کو رخصت کیا تو انھوں نے اپنی بیٹی سے کہہ دیا کہ —جہاں تم جارہی ہو، وہی اب تمھارا گھر ہے۔ وہیں کے ماں باپ، تمھارے ماں باپ ہیں۔ ہم تمھارے لیے دعا کرتے رہیں گے، لیکن اِس حقیقت کو سمجھ لو کہ اب تمھارا گھر بھی بدل چکا ہے اور تمھارے ماں باپ بھی۔ بیٹی کے لیے اپنے والد کی یہ نصیحت بہت مفید ثابت ہوئی۔ سسرال پہنچتے ہی انھوں نے سسرال کو اپنا گھر بنا لیا۔ اِس کے بعد اُن کو زندگی کی وہ تمام خوشیاں اپنی سسرال میں مل گئیں جو اُنھیں اس سے پہلے اپنے میکے میں حاصل تھیں۔
زندگی میں کامیابی کا راز حقیقت پسندی ہے۔ اِسی طرح زندگی کے تمام مسائل کا سبب غیرحقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ جوعورت یا مرد اِس راز کو سمجھ لیں، وہ یقینی طورپر اپنی زندگی کو خوش گوار بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
غیر فطری تمنّا
مشہور ہندستانی سِنگر محمد رفیع (وفات1980 ) کا ایک گانا اتنامقبول ہوا کہ وہ ہر ماں باپ کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد رفیع نے جب اِس کو گایاتو وہ شدتِ تاثّر سے روپڑے۔ اِس گانے میں باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ اشعار کہتا ہے۔ اُس کا ایک حصہ یہ ہے:
بابُل کی دعائیں لیتی جا جا، تجھ کو ُ سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
یہ بات فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی لڑکے یا لڑکی کو اِس طرح ’’سکھ اور پیار‘‘ نہیںمل سکتا۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے سُکھ اور پیار کو زوجین کے لیے کامیاب زندگی کا معیار بتانا، زوجین کے ساتھ نا انصافی ہے۔ کیوںکہ اس کے نتیجے میں دونوں کے اندر غیرحقیقت پسندانہ ذہن بنتا ہے۔ اور غیر حقیقت پسندانہ ذہن کے ساتھ اِس دنیا میں کامیاب اِزدواجی زندگی گزارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
اِس غیر فطری معیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ والدین اور ان کی بیٹی دونوں ہمیشہ اِس احساس میں جیتے ہیںکہ ان کی لڑکی کی شادی غلط ہوگئی۔ دونوں اسی منفی احساس میںجیتے ہیں اور اِسی منفی احساس میں مرجاتے ہیں۔ اگرلوگ زندگی کی حقیقت کو جانیں تو والدین اپنی بیٹی کے بارے میں غیر فطری تمنا کرنے کے بجائے، اُس کو نئے دورِ حیات کے لیے تیار کریں اور خود لڑکی جب نیے حالات میں پہنچے تو وہ اس کو مثبت ذہن کے ساتھ لے۔ وہ نیے حالات کو اپنے لیے فطرت کا ایک چیلنج سمجھے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرکے نئے حالات میںاپنے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر کرلے۔
زندگی ایک چیلنج ہے، عورت کے لیے بھی اور مرد کے لیے بھی۔ جو لوگ اِس حقیقت کو جانیں، وہ چیلنج کو ترقی کا ایک زینہ سمجھیں گے اور اُس پر چڑھتے ہوئے اعلیٰ مراتبِ حیات تک پہنچ جائیں گے۔ سُکھ مادّی راحت کا نام نہیں۔سُکھ یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے مطابقت (adjustment) کا راز جان لے۔
میکے اور سُسرال کا فرق
ایک لڑکی جب اپنی میکے میں ہوتی ہے تو وہ اُن لوگوں کے درمیان ہوتی ہے جن سے اس کا خونی تعلق (blood relationship)ہے۔ اِس خونی تعلق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ میکے میں اس کو یک طرفہ محبت کے ماحول میں جینا ہوتا ہے۔ میکے میں لڑکی کے لیے یہ ماحول ہوتا ہے کہ — تم کچھ نہ کرو تب بھی تم کو ہر چیز ملتی رہے گی۔
سسرال کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ سسرال میں لڑکی کو غیر خونی رشتے داروں کے درمیان رہناپڑتا ہے۔ میکے کا کلچر اگر دیے بغیر پانے کے اصول پر قائم تھا تو سسرال کا کلچر یہ ہوتا ہے کہ دوگے تو پاؤے گے، اگر نہیں دیا تو تم کو بھی کچھ ملنے والا نہیں۔
لڑکیاں عام طورپر میکے اور سسرال کے اِس فرق کو نہیں سمجھتیں۔ چناںچہ وہ ہمیشہ ایک غیرحقیقی احساس میں جیتی رہتی ہیں— میکے کو اچھا سمجھنا اور سسرال کو اُس کے مقابلے میں بُرا سمجھنا۔ یہ مزاج خواتین میں عام ہے۔ اِس کا نقصان سب سے زیادہ خود خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اپنے اِس غیرحقیقی مزاج کی بنا پر وہ اپنے شوہر سے اور اپنے سسرال والوں سے گہرا تعلق قائم نہیں کر پاتیں۔
خالق نے ہر عورت اور مرد کو مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اِس دنیا میں ہرعورت اور مرد کے لیے کوئی بڑا رول مقدر ہے۔ اِس رول کے لیے ضروری ہے کہ عورت اپنے نئے رشتے داروں کے ساتھ بھر پور تعلق قائم کرکے رہے۔ مگراکثر عورتیں اپنے سسرال والوں کے ساتھ یہ تعلق قائم نہیں کر پاتیں اور نتیجۃً وہ رول ادا نہیں کر پاتیں جو اُن کے خالق نے اُن کے لیے مقدر کیا تھا۔اِس دنیا میں کسی بڑے رول کے لیے اجتماعی کوشش ضروری ہے۔ گھر اِسی قسم کا ایک اجتماعی ادارہ ہے۔ ہر گھر اپنی اجتماعی کوشش سے ایک بڑا کام کرسکتا ہے، لیکن یہ بڑا کام اُسی گھر کے لوگ انجام دیں گے جو اپنے گھر کو حقیقی معنوں میں ایک اجتماعی ادارہ بنادیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی عورت کے لیے اس کی سسرال بھی اُسی طرح اس کا اپنا گھر ہے جس طرح اس کا میکہ اس کے لیے اس کا اپنا گھر تھا۔
ایک مشاہدہ
امریکا کے ایک سفر میں مجھے ایک امریکی مسلمان کے گھر میں چند دن قیام کا موقع ملا۔ مذکورہ مسلمان کا نکاح ایک ایسی خاتون سے ہوا جو پاکستان میں پیدا ہوئیں، ان کی پوری پرورش پاکستان میں ہوئی۔ شادی کے بعد وہ امریکا چلی آئیں اور وہاں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگیں۔
ایک دن ایسا ہوا کہ مرد اپنے جاب پر باہر چلے گیے۔ اُس وقت خاتون مجھ سے ملنے کے لیے آئیں۔ بظاہر وہ مجھ سے نصیحت لینا چاہتی تھیں، لیکن میرے کمرے میں آتے ہی وہ رونے لگیں۔ وہ کچھ بول نہ سکیں اور اِسی حال میں واپس چلی گئیں۔ اگلے دن انھوں نے بتایا کہ میرے شوہر مجھ سے خوش نہیں رہتے۔ میں سوچتی ہوں کہ میں یہاں سے واپس ہوکر اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاؤں۔
میں نے اِس مسئلے پر کافی غور کیا اور پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آخر کار میںنے دریافت کیا کہ اِس معاملے کا اصل سبب عورت کے ماں باپ کی نادانی ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ خاتون کے ماں باپ نے پاکستان میںاُن کو لاڈ پیار کے ساتھ رکھا، انھیں کبھی گھر کا کام کرنے نہیں دیا۔ گھر کا کام کرنا یا گھر سنبھالنا، اِس کی کوئی تربیت ان کو اپنے میکے میں نہیں ملی۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ ان کے والدین نے ان کا نکاح امریکا میں مقیم ایک مسلمان کے ساتھ کردیا۔ اِس مسلمان میںاخلاقی اعتبار سے کوئی برائی نہ تھی، لیکن ایک عملی پہلو اُن کی زندگی میں ناخوش گواری کا سبب بن گیا۔
انڈیا اور پاکستان میںگھر کے کام کے لیے آسانی کے ساتھ ملازم مل جاتے ہیں۔ اِس لیے یہاں کے والدین ایسا کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کا سارا کام ملازم سے کروائیں اور اپنی بیٹی کو کوئی کام نہ کرنے دیں، لیکن امریکا کی زندگی اِس سے بالکل مختلف ہے۔ امریکا میں گھریلو ملازم نہیں ملتے، چناں چہ یہاں کی خواتین کو گھر کا تمام کام خود کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ملک کا یہی فرق مذکورہ خاتون کے لیے مسئلہ بن گیا۔ ان کے ماں باپ نے اُن کو گھر کا کام کرنے کا عادی نہیں بنایا تھا، جب کہ امریکا میں وہ مجبور تھیں کہ گھر کا سارا کام خود کریں۔ والدین کی اِسی نادانی نے مذکورہ خاتون کی زندگی کو اُن کے لیے ایک مصیبت بنا دیا۔
ماؤں کا غلط رول
ماں کو اپنی اولاد سے گہرا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ اولاد کے معاملے میں ماں کے جذبات اس کی عقل پر چھا جاتے ہیں۔ اولاد کے معاملے میں وہ اپنی عقل پر نہیں چلتی، بلکہ جذبات کے تحت چلتی رہتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ہر خواہش کو پورا کرتی رہے۔ حالاں کہ ماں کی حیثیت سے اپنی اولاد کے لیے اس کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کامیاب انسان بنانے کی کوشش کرے۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے۔ پیدائش کے اعتبار سے ہر بچہ مسٹرنیچر ہوتا ہے، لیکن بعد کی کنڈیشننگ کے نتیجے میں ہر بچہ اپنی حقیقی فطرت سے دور چلا جاتا ہے۔یہی مقام ہے جہاں ماں کو اپنا تعمیری رول ادا کرنا ہے۔ اس کو بچے کی خواہشوں کو پورا کرنے کا ذریعہ نہیں بنناہے، بلکہ اپنے بچے کو ہر قسم کے انحراف سے بچا کر اس کی حقیقی فطرت پر اس کو قائم رکھنا ہے۔
مائیں اپنی بڑھی ہوئی محبت کی بنا پر یہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش کو پورا کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اِس مزاج کے ساتھ جوان ہوتاہے کہ اس کی ہر خواہش کو پورا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد جب یہ نوجوان باہر کی دنیا میں آتا ہے تو وہ یہاں برعکس تجربہ کرتا ہے۔ اِس تضاد کا نتیجہ نہایت بری شکل میں نکلتا ہے۔ اس قسم کے نوجوان، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے گھر کے لوگ بہت اچھے تھے اور باہر کے تمام لوگ نہایت بُرے لوگ ہیں۔گھر کی زندگی اور باہر کی زندگی کا یہی فرق وہ سب سے بڑا سبب ہے جس نے آج تمام انسانوں کو منفی سوچ والا انسان بنادیا ہے۔ آج ہرانسان دوسروں سے کھلی یا چھپی نفرت کرتا ہے۔ اس صورت حال کی سب سے زیادہ ذمّے داری ان عورتوں کے اوپر ہے جو ماں کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے میں ناکام ہورہی ہیں۔خالق نے ہر ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے پناہ محبت رکھ دی ہے۔ یہ محبت اس لیے تھی تاکہ مائیں ہر مشکل کا سامنا کرتے ہوئے اپنی اولاد کی صالح تربیت کریں، لیکن ماؤں نے اپنی اِس فطری محبت کو صرف لاڈ پیار تک محدود کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانیت بگڑے ہوئے انسانوں کا جنگل بن گئی۔
بچوں کی دینی تربیت
اکثر والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بچوں کی دینی تربیت کے لیے کیا کیا جائے۔ میرا جواب ہمیشہ ایک رہتا ہے— بچوں کی تربیت سے پہلے خود اپنی تربیت کیجئے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب خارجی ماحول نہیں ہے، بلکہ گھر کا داخلی ماحول ہے۔ گھر کا داخلی ماحول کون بناتا ہے، یہ والدین ہیں جو گھر کا داخلی ماحول بناتے ہیں۔ جب تک گھر کے داخلی ماحول کو حقیقی معنوں میں دینی، یعنی آخرت پسندانہ ماحول نہ بنایا جائے، بچوں کے اندر کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
موجودہ زمانے کا اصل فتنہ مال ہے۔ آج کل ہر آدمی زیادہ سے زیادہ مال کما رہا ہے۔ اِس مال کا مصرف والدین کے نزدیک صرف ایک ہے، اور وہ ہے گھرکے اندر ہر قسم کی راحت کے سامان اکھٹا کرنا، اور بچوں کی تمام مادّی خواہشوں کو پورا کرنا۔ موجودہ زمانے میں یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ اِس معاملے میں شاید کسی گھر کا کوئی استثنا نہیں، خواہ وہ بے ریش والوںکا گھر ہو، یا باریش والوں کا گھر۔
والدین کے اِس مزاج نے ہر گھر کو مادّہ پرستی کا کارخانہ بنادیا ہے۔ تمام والدین اپنے بچوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر مادّہ پرستانہ ذہن بنانے کے امام بنے ہوئے ہیں۔ اِسی کے ساتھ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے آخرت کی جنت سے بھی محروم نہ رہیں۔ اِسی مزاج کے بارے میں ایک اردو شاعر نے کہا تھا— رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
مگر یہ صرف ایک خوش خیالی ہے جو کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ تمثیل کی زبان میں یہ ’’ہاتھی کی دم میں پتنگ باندھنا‘‘ ہے۔ موجودہ زمانے کے والدین ایک طرف، اپنے بچوں کو ’’مادّی ہاتھی‘‘ بناتے ہیں۔ دوسری طرف، وہ چاہتے ہیں کہ اِس ہاتھی کی دم میں دین کی پتنگ باندھ دی جائے۔ مگر ایسی پتنگ کا حال صرف یہ ہونے والا ہے کہ ہاتھی ایک بار اپنی دم کو جھٹکا دے اور یہ پتنگ اُڑ کر بہت دور چلی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو دین دار، یعنی آخرت پسند بنانا چاہتے ہیں تو وہ اُس کی قیمت ادا کریں، ورنہ وہ فرضی طورپر اِس قسم کی منافقانہ بات کرنا بھی چھوڑ دیں۔
لاڈ پیار کا نقصان
لڑکی کے والدین کی سوچ عام طورپر یہ ہوتی ہے کہ اُن کی لڑکی جب سسرال جائے گی تووہاں اس کو گھر کے سب کام کرنے پڑیں گے، اِس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے یہاںوہ اپنی لڑکی سے کوئی کام نہ کرائیں۔ حالاں کہ جو لڑکی اپنے میکے میں کام نہ سیکھے یا کام کی عادی نہ بنے، وہ سُسرال پہنچتے ہی اچانک ایسی نہیں ہوجائے گی کہ وہ زور دار طورپر سارے کام کرنے لگے۔ والدین کا یہ طریقہ ایک جھوٹا لاڈ پیارہے، وہ سچی محبت کا طریقہ نہیں۔
میںنے ایسے والدین دیکھے ہیں جو بچی کے پیدا ہوتے ہی اُس کے لیے جہیز کا سامان تیار کرنے لگتے ہیں، مگریہ صرف ایک نادانی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کبھی کوئی جہیز لڑکی کی زندگی میںاس کے کام نہیں آتا۔ ہرجہیز صرف ایک وقتی نمائش ہے، وہ کسی بھی درجے میں لڑکی کی زندگی کی تعمیر کا کوئی ذریعہ نہیں۔تعمیر کا تعلق تیاری سے ہے، نہ کہ نمائش سے۔
والدین کااصل کام جہیز کی تیاری نہیں ، بلکہ اُن کا اصل کام یہ ہے کہ وہ خود لڑکی کو تیار کریں۔ وہ اپنی لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ وہ اپنی لڑکی کی اچھی تربیت کریں۔ وہ اپنی لڑکی کو عملی زندگی کے آداب سکھائیں۔ وہ اپنی لڑکی کے اندر وہ دانش مندانہ مزاج پیدا کریں جو اجتماعی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے۔
لاڈ پیار(pampering) ایک پورے کلچر کا نام ہے۔ اُس کا اظہار ہر معاملے میں ہوتا ہے۔ مثلاً بچے کی ہر خواہش پوری کرنا، بچے کی ہر غلطی کو یہ کہہ کر ٹال دیناکہ ابھی بچہ ہے، بڑاہونے پر ٹھیک ہوجائے گا۔ اپنی اولاد کو معصوم سمجھنا اور ہر معاملے میں دوسروں کو ذمے دار ٹھیرانا۔ کھانے پینے کے معاملے میں بچے کی ہر مانگ پوری کرنا، خواہ اس کی صحت خراب ہوجائے۔ بچے کو کوئی کام نہ کرنے دینا۔ اپنے بچے کو ہمیشہ اچھا سمجھنا اور دوسروں کو غلط بتانا۔ اپنے بچے کو آرام کا عادی بنانا۔ اپنی اولاد کو زندگی کی جدوجہد سے دور رکھنا۔ جھوٹی محبت کی بنا پر بچوں کے لیے ہر فیشن کی چیز فراہم کرنا۔ ان کو بچپن ہی سے فیشن کا عادی بنانا، وغیرہ۔
ماں باپ کا رول
میرے تجربے کے مطابق، شادی کے ناکام ہونے کا سب سے بڑا سبب لڑکی کے ماں باپ کا غلط رول ہے۔ میںنے پایا ہے کہ ماں باپ شادی کے وقت تو خوب دھوم مچاتے ہیں۔ وہ اپنی استطاعت سے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ فضول خرچی کا وہ کام کرتے ہیں جس کو قرآن میں شیطانی کام بتایا گیا ہے (الإسراء27)۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ کے لیے اِس سے زیادہ ضروری ایک اورکام ہے، اس کو وہ بالکل انجام نہیں دیتے۔ اور وہ ہے لڑکی کو اِس اعتبار سے تیار کرنا کہ وہ شادی کے بعد خوش گوار زندگی گزار سکے۔ تقریباً تمام ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کے ساتھ لاڈ پیار تو خوب کرتے ہیں، لیکن وہ حقیقی محبت کے معاملے میں ناکام رہتے ہیں۔
ماں باپ کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ اپنی لڑکی کو ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ وہ اپنے خاندان سے باہر کے ایک مرد سے اس کا نکاح کریں گے اور اس کے ساتھ رہنے کے لیے لڑکی کو بھیج دیں گے۔ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ ماں باپ کے ساتھ جس ماحول میں لڑکی رہتی ہے، وہ اُس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو بعد کو شوہر کے ساتھ رہنے کی صورت میں اُسے پیش آتا ہے۔ یہ بھی ایک واضح بات ہے کہ لڑکی کا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا عارضی ہوتا ہے اور شوہر کے ساتھ مستقل۔ ایسی حالت میں ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی لڑکی کووہ آداب سکھائیں جو اُس کے لیے بعد کی زندگی میںکام آنے والے ہیں۔ وہ اُس کو تربیت دے کر شوہر کی رفیقِ حیات بنائیں، نہ کہ محض والدین کی نورِ نظر۔
میرا تجربہ ہے کہ ننانوے فی صد سے زیادہ ماں باپ اِس معاملے میںاپنی ذمے داری کو ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اُن کی اِس کوتاہی کی سزا اُن کی لڑکی کو ساری عمر اپنی بعد کی زندگی میں بھگتنی پڑتی ہے۔ مثلاً عورت اپنی غیر حقیقی تربیت کی بنا پر ہمیشہ اپنے میکے کو اپنا گھر سمجھتی رہتی ہے، حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنی سُسرال کو اپنا گھر سمجھے۔ اِسی طرح والدین شادی کے بعد بھی اپنی لڑکی پر اپنا حق سمجھتے ہیں اور غیر ضروری مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ والدین کا یہ رویّہ محبت کے نام پر دشمنی ہے۔ وہ صرف نادان دوستی ہے اور نادان دوستی ہمیشہ اُلٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے۔
ایک واقعہ
ایک روز انڈیا کے ایک شہر سے میرے پاس ٹیلی فون آیا۔ ایک مسلم خاتون ٹیلی فون پر بول رہی تھیں۔ انھوںنے کہا کہ میری بہن اور ان کے شوہر کے درمیان شادی کے بعد اختلافات پیدا ہوگیے جو حل نہ ہوسکے۔ اب آخری طورپر یہ طے کیاگیا ہے کہ دونوں کے درمیان طلاق کرادی جائے۔ آج شام کو طلاق نامے پر دستخط ہونے والے ہیں۔ آپ دعا کیجیے کہ طلاق کے بعد میری بہن کی زندگی خوش گوار رہے۔
میںنے کہا کہ آپ اپنی بہن سے کہیے کہ وہ مجھ سے بات کریں۔ اِ س کے بعد اُن کی بہن سے ٹیلی فون پر میری بات ہوئی۔ میںنے پوچھا کہ آپ کے اور آپ کے شوہر کے درمیان کیا اختلافات ہیں۔ انھوںنے کچھ باتیں بتائیں۔ میںنے کہا کہ آپ جو کچھ بتارہی ہیں، وہ کوئی اہم بات نہیں۔ وہ اختلاف کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کی بڑھی ہوئی حساسیت کا مسئلہ ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں آپ غیرضروری طورپر حساس ہوگئی ہیں۔ آپ اپنی اس حساسیت پر کنٹرول کیجیے۔ آپ یہ ذہن ختم کردیجیے کہ —’’میں ہی کیوں اُن کی بات مانوں، ان کو بھی تو میری بات ماننا چاہیے‘‘۔
میںنے کچھ واقعات بتاتے ہوئے اُن سے کہا کہ زندگی دو طرفہ (bilateral) بنیاد پر نہیں چلتی، بلکہ زندگی ہمیشہ یک طرفہ (unilateral) بنیاد پر چلتی ہے۔ آپ اس معاملے میں کوئی استثنا نہیں ہیں۔ اِسی اصول کو قرآن میں قوّامیت)النّساء (34 سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یعنی جس طرح ہر کمپنی میں اور ہر اجتماعی ادارے میں ایک ناظم یا باس (boss) ہوتا ہے، اِسی طرح گھر کے اندر بھی ایک فرد کو ناظم، یا باس (boss) کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک فطری اصول ہے۔ اس کا تعلق صِنفی برابری یا صنفی نا برابری سے نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو گھر کے اندر نظم قائم نہ ہوسکے گا۔ اور نظم کے بغیر کسی ادارے میں ترقی ممکن نہیں۔
مذکورہ خاتون نے میری بات مان لی اور باہم مل کر رہنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے طلاق کے مطالبے کو واپس لیتے ہوئے اپنے شوہر سے کہہ دیا کہ— میں آپ کو اپنا باس مانتی ہوں اور کسی شرط کے بغیر آپ کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوں۔ اِس کا نتیجہ مثبت شکل میں نکلا۔ اب وہ دونوں اپنے گھر میں خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔
برابری میں نکاح
عام طورپر سمجھا جاتا ہے کہ نکاح ہمیشہ کُفو میںہونا چاہیے، غیر کفو میں نہیں،یعنی برابری کے رشتوں میں نکاح ہو تو دونوں کے درمیان آسانی کے ساتھ نباہ ہوگا، اور اگر دونوں میں معاشی اور خاندانی اعتبار سے نابرابری ہو تو شوہر اور بیوی دونوں ہمیشہ پریشان رہیں گے۔مگر یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے دیکھاگیا ہے کہ نام نہاد کفو کے درمیان شادی بھی اتنا ہی مسائل کا شکار رہتی ہے جتنا کہ نام نہاد غیر کفو کے درمیان شادی۔ اصل یہ ہے کہ کامیاب شادی کا تعلق کفو یا غیرکفو سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اِس بات سے ہے کہ طرفین شادی شدہ زندگی کو گزارنے کا آرٹ جانتے ہوں۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زوجین میں سے ایک نے اگر مشرقی تعلیم پائی ہے اور دوسرے کو اگر مغربی تعلیم ملی ہو، یا ایک امیر فیملی کا ہو اور دوسرا غریب فیملی کا، یا ایک گاؤں کا ہو اوردوسرا شہر کا، ایک اسمارٹ ہو اور دوسرا غیر اسمارٹ، ایک سفید فام ہو اور دوسرا سیاہ فام، ایک کی عمر زیادہ ہو اور دوسرے کی عمر کم، وغیرہ۔زوجین کے درمیان اگر اس قسم کا فرق پایا جائے تو یہ نابرابری کی شادی ہے اور ایسی شادی کا ناکام ہونا مقدر ہے۔
مگر یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ گھر کی حیثیت ایک مکمل ادارہ (institute) کی ہے۔ عام ادارے کی طرح، گھر کے ادارے کے بھی مختلف شعبے ہوتے ہیں۔ مذکورہ نابرابری کو مینج (manage)کرنے کا نہایت آسان طریقہ یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تقسیم کار (division of work)کے اصول کو اپنا لیں۔ ہر ایک اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ایک شعبے کو لے لے اور اس کو اپنی صلاحیت کے مطابق، آزادانہ طورپر چلائے۔
تقسیم کار کے اِس اصول کی کامیابی کی شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دونوں فریق یہ بات طے کرلیں کہ انھیں اپنے آپ کو صرف اپنے شعبے تک محدود رکھنا ہے، کسی ایک کو دوسرے کے شعبے میں مداخلت نہیں کرنا ہے۔ نابرابری کے نکاح کا حل تقسیم کار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور فارمولا اِس مسئلے کا حل نہیں۔
جوائنٹ فیملی
شادی شدہ زندگی اختیار کرنے کے بعد زوجین کے سامنے ایک مسئلہ اکثر یہ آتاہے کہ وہ مشترک خاندان میںرہیں، یا غیر مشترک طورپر وہ اپنا گھر بنائیں۔ یہ مسئلہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ دونوں ہی طریقے یکساں طور پر جائز ہیں۔ لیکن میرے تجربے کے مطابق، زوجین اگر باشعور ہوں وہ دانش مندی سے کام لیں تو مشترک خاندان کا طریقہ ہر اعتبار سے زیادہ مفید ہے۔
ہر گھر کی بہت سی ضروریات ہوتی ہیں۔ کامیاب زندگی کی تعمیر کے لیے ہمیشہ مختلف تقاضوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جو غیر مشترک خاندان کے مقابلے میں مشترک خاندان کو زیادہ مفید بنا دیتا ہے۔غیر مشترک خاندان میں ابتداء ً صرف دو ممبر ہوتے ہیں، عورت اور مرد۔ اِس کے بعد اس میں بچوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں مشترک خاندان میں بہت سے عورت اور مرد ہوتے ہیں یہ عورت اور مرد فطری طورپر مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ واقعہ مشترک خاندان کے لیے بہت بڑا موافق پہلو ہے۔ کیوںکہ اِس بنا پر یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ خاندان کے ہر فرد کو ہر کام نہ کرنا پڑے، بلکہ مجموعی تعاون سے سارے کام ہوتے رہیں۔
مشترک خاندان کا طریقہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے بہت زیادہ مفید ہے، لیکن اس کی ایک قیمت ہے۔ اور وہ قیمت ہے پیچھے ہٹنے کی اسپرٹ(receding spirit)، یعنی جب بھی کوئی نزاعی بات پیش آئے تو فوراً آپ پیچھے ہٹ جائیں، کسی بھی حال میں آپ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ مشترک خاندان کی کامیابی کی یہی واحد شرط ہے۔ جن لوگوں کے اندر اِس شرط کو پورا کرنے کا حوصلہ نہ ہو، اُن کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ شادی کے بعد غیر مشترک خاندان کا طریقہ اختیار کریں۔
زندگی میںہر آدمی کو دو میں سے ایک کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ یا تو وہ ملنے والے فائدے کی خاطر اپنی انا کو قربان کردے، یا اپنی انا کو بچانے کے لیے اپنے آپ کو فائدے سے محروم کرلے۔ کسی بھی شخص کو بیک وقت دونوں چیزیں ملنے والی نہیں۔
ساس بہو کا مسئلہ
ساس بہو کا روایتی مسئلہ تقریباً ہر گھر میں پایا جاتا ہے، مگر یہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ تمام تر ایک غیر فطری نفسیات کے تحت پیدا ہوا۔ نفسیاتی مسئلہ ہمیشہ سوچ کی سطح پر پیدا ہوتا ہے، اور سوچ کی سطح پر نہایت آسانی سے اس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
مثلاً ایک گھر ہے، وہاں ایک چار پائی بچھی ہوئی ہے۔ ماں اِس چار پائی کے اوپر بیٹھی ہوئی ہے۔ اُس وقت اگر بیٹی وہاں آئے اور وہ بے تکلفی کے ساتھ لیٹ جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ماں چار پائی پر بیٹھی ہے اور بہووہاںآکر لیٹ جائے تو ایسا واقعہ فوراً ایک مسئلہ بن جائے گا۔ اب کہا جائے کہ بہو بہت بد تمیز ہے۔ اس کے ماں باپ نے اس کو ادب نہیں سکھایا، وغیرہ۔
اِس صو رتِ حال کی ذمّے داری ماں اور بہو دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں اگر اپنی بہو کو اپنی بیٹی سمجھے، اور بہو اگر اپنی ساس کو اپنی ماں جیسا درجے دے تو یہ سارا مسئلہ ختم ہوجائے گا اور ساس اور بہو اُسی طرح خوش گوار ماحول میں رہنے لگیں گی جس طرح ماں اور بیٹی خوش گوار ماحول میں رہتی ہیں۔
یہ فطرت کا ایک نظام ہے کہ ہر بیٹی کو آخر کار بہو بن کررہنا پڑتا ہے اور ہر ماں کے ساتھ ایسا پیش آتا ہے کہ وہ ساس بن کر اپنے گھر میں رہے۔ یہ خالق کا بنایا ہوا فطری نظام ہے۔ ہر عورت اور ہر لڑکی کو اِس نظام کے ساتھ موافقت کرنا چاہیے۔ جو عورت اور جو لڑکی اِس نظام کے ساتھ موافقت نہ کرے، وہ گویا کہ اپنے خالق کے ساتھ سرکشی کررہی ہے۔
عورت کا عظیم کردار
انگریزی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے— ہر بڑے کام کے آغاز میں ایک عورت موجود ہوتی ہے:
There is a woman at the beginning of all great things.
اس معاملے کی ایک مثال مشہور سائنس داں ٹامس اَلوا ایڈیسن (وفات1931) کی ماں نینسی ایڈیسن (Nancy Elliott Edison) ہے۔اس کی وفات 1871ء میں ہوئی ۔ وہ ایک اسکول ٹیچر تھی۔ یہی خاتون ٹیچر ہے جس نے سائنس دانوں کی فہرست میں ٹامس اَلوا ایڈیسن کے نام کا اضافہ کیا، جس کی دریافتوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
ایڈیسن کے اندر ایک پیدائشی کمزوری تھی۔ وہ بہت کم سنتا تھا۔ اس کی رسمی تعلیم مکمل نہ ہوسکی۔ مگر ایڈیسن کی ماں اس کے لیے تیار نہ تھی کہ اس کا بچہ جاہل رہ جائے۔ اس نے ایڈیسن کی تعلیم کی ذمے داری خود لے لی۔ اس نے اپنے گھر کو ایک اسکول بنا دیا۔ اس نے اپنے گھر میں تمام تعلیمی انتظامات کئے ، یہاں تک کہ ایڈیسن اسکولی تعلیم کے بغیر ایک تعلیم یافتہ انسان بن گیا۔
ایڈیسن نے اپنی زندگی میںاپنی ماں کے رول کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ — اُس نے میرے اندر علم سے پیار اور حصولِ علم کی اہمیت کا احساس پیدا کیا:
She instilled in me the love and the purpose of learning.
اِس قسم کا اعلیٰ کردار ہر عورت کے لیے مقدر ہے۔ ہر عورت اپنے خالق کی طرف سے اِس قسم کے رول کی مکمل استعداد لے کر پیدا ہوتی ہے۔ ہر عورت انسانیت کی تعمیر کے لیے ایک اعلیٰ رول ادا کرسکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو سمجھے اور پھر پورے عزم کے ساتھ اس کو استعمال کرے۔ البتہ اس قسم کے رول کے لیے صبر لازمی طورپر ضروری ہے۔ استعداد، خالق کی طرف سے ملتی ہے، لیکن صبر کی قیمت ہر ایک کو اپنی طرف سے دینی پڑتی ہے۔ جو عورت بھی یہ قیمت ادا کرے، وہ اُسی طرح ایک اعلیٰ تعمیری رول ادا کرسکتی ہے جس طرح ایڈیسن کی ماں نے کیا۔