حج کا پیغام (Hajj Ka Paigham)
حج کا پیغام
مولانا وحید الدین خاں
فہرست
حج ایک عالمی اجتماعی عبادت ہے۔ اس کی تاریخیں قمری مہینے کے مطابق مقرر کی گئی ہیں۔ حج کے مراسم مکہ اور اس کے آس پاس کے مقامات پر پانچ دنوں کے اندر 8 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ تک ادا کیے جاتے ہیں۔حج کی تاریخ پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل کی زندگی سے وابستہ ہے۔
اللہ کا یہ منصوبہ تھاکہ توحید کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا کیا جائے۔ اِس مقصد کے لیے قدیم دور میں اللہ نے بہت سے پیغمبر بھیجے۔ مگر اِن پیغمبروں کے ذریعے کوئی ٹیم نہیں بنی۔ اِس لیے قدیم زمانے میں مطلوب انقلاب برپا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اِس منصوبے کے تحت حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بچے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں بسا دیا۔ اِس واقعے کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے: رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّم(14:37)۔
ہاجرہ کے شوہر حضرت ابراہیم بن آزر تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور 175 سال کی عمر پا کر اُن کی وفات ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ مگر شرک اور بُت پرستی کا غلبہ ان لوگوں کے ذہن پر اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ وہ توحید کے پیغام کو قبول نہ کر سکے۔ حضرت ابراہیم نے ایک سے زیادہ جنریشن تک لوگوں کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر اس زمانے میں شرک ایک تہذیب کی صورت اختیار کرکے لوگوں کی زندگی میں اس طرح شامل ہوچکا تھا کہ وہ اس سے الگ ہو کر سوچ نہیں سکتے تھے۔ پیدا ہوتے ہی ہر آدمی کو شرک کا سبق ملنے لگتا تھا۔ یہاں تک کہ ماحول کے اثر سے اُس کا ذہن پوری طرح شرک میں کنڈیشنڈ ہوجاتا تھا۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ متمدّن شہروں سے باہر غیر آباد صحرا میں ایک نسل تیار کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اور اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا۔اِس صحرائی ماحول میں لمبی مدت تک توالد وتناسل کے ذریعے ایک جان دار قوم تیارہو ئی۔ اِسی قوم کے اندر پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ پھر اِسی قوم کے اندر کام کرکے وہ ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے تحت جو عظیم تاریخ بنی، وہ تمام تر منصوبۂ الٰہی کے تحت بنی۔ پیغمبر ِ اسلام سے پہلے ہزاروں سال کے درمیان خدا کی طرف سے بہت سے پیغمبر آئے۔ اِن پیغمبروں کے زمانے میں توحید کا اعلان توہوا، لیکن توحید کی بنیاد پر کوئی اجتماعی انقلاب نہ آسکا، جب کہ اللہ تعالی کو مطلوب تھا کہ پیغمبر کے ذریعے ایک ایسا موحدانہ انقلاب برپا ہو جو شرک کے دور کو ختم کرے اور توحید کا دور دنیا میں لے کر آئے۔ آخر کار اللہ تعالی کی یہ منشا ہوئی کہ وہ تاریخ میں مداخلت کرے اور خصوصی نصرت کے ذریعے وہ انقلاب برپا کرے جو کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کے تحت ضروری تھا۔ اللہ تعالی کے عام منصوبے کے مطابق، اِس منصوبے کی تکمیل اسباب کی صورت میں کی گئی۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اِس انقلاب کی بنیادی کڑی تھے۔
اللہ تعالی کے اِس خصوصی منصوبے کا آغاز چار ہزار سال پہلے حضرت ہاجرہ، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے ذریعے عرب کے صحرا میں ہوا۔ اِس منصوبے کے تحت لمبی مدت کے دوران ایک خصوصی نسل تیار کی گئی جس کو بنو اسماعیل کہاجاتاہے۔ اِس نسل کی اعلی خصوصیات کی بنا پر ایک مستشرق نے اس کو ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) کا لقب دیا ہے۔ اِسی خصوصی نسل میں پیغمبر ِ اسلام اور آپ کے اصحاب پیداہوئے۔ اِس کے بعد اللہ کی برتر تدبیر کے تحت بہت سے موافق حالات ظہور میں آئے۔ یہ اپنے آغاز سے انجام تک، ایک انتہائی اعلی نوعیت کا خدائی منصوبہ تھا۔ پیغمبر ِ اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعے جو عظیم اسلامی تاریخ بنی، وہ در اصل اِسی منصوبۂ الٰہی کا نتیجہ تھی۔
قرآن میں اِس حقیقت کو نہایت واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے زمانے میں جو تاریخی انقلاب آیا، وہ کسی فرد کا شخصی کارنامہ نہ تھا، بلکہ وہ براہِ راست طورپر اللہ کے ایک برتر منصوبے کا نتیجہ تھا۔ اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتیں یہ ہیں:یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ ۔ ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَى وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَى الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ(61:8-9)۔ یعنی یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں، حالاں کہ اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، خواہ یہ منکروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اللہ اس کو سب دینوں پر غالب کردے، خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس حقیقت کو بار بار نہایت واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کے مشن کے آغاز کے تقریباً 20 سال بعد مکہ فتح ہوا، جو کہ اُس وقت پورے عرب میں ہر اعتبار سے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ فتحِ مکہ کے وقت جب آپ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو احساسِ تواضع کے باعث آپ کی گردن جھکی ہوئی تھی، حتی کہ لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی داڑھی کجاوے کی لکڑی کو چھورہی ہے۔ اُس وقت کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے جوخطبہ دیا، اُس میں یہ الفاظ تھے:لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ، صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ( سنن أبی داؤد،حدیث نمبر 4547)۔ یعنی ایک اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اللہ نے اپنے بندے (محمد) کی نصرت کی اور اللہ نے دشمن کی جماعتوں کو تنہا شکست دے دی۔
٭ ٭ ٭ ٭٭
’’لبیک‘‘ یعنی ’’میں حاضر ہوں‘‘، کہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ میں مکہ میں رہنے کے لیے حاضر ہوں۔ یہ وطن چھوڑ کر آنے کا کلمہ نہیں، بلکہ روش چھوڑ کر آنے کا کلمہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تیری فرمانبرداری کے لیے حاضر ہوں۔ میں اس کے لیے تیار ہوں کہ تو جو حکم دے، اس پر میں دل و جان سے قائم ہوجاؤں۔’’لبیک‘‘کا اقرار آدمی حج کے مقام پر کرتا ہے، مگر ا س کی عملی تصدیق وہاں سے لوٹ کر اس کو اپنے وطن میں کرنی پڑتی ہے، جہاں اس کو روز وشب میں اپنی زندگی گزارنا ہے۔
حج اور عید اضحی کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان ایک مخصوص دن میں خدا کے نام پر جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ قربانی عام زندگی سے کوئی علیحدہ چیز نہیں، اس کا تعلق انسان کی تمام زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ قربانی کی اسپرٹ کے ساتھ دنیا میں رہیں۔ قربانی کی اسپرٹ تمام اسلامی اعمال کا خلاصہ ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے :وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (51:56) ۔یعنی اور میں نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔ عبادت کی حقیقت کیا ہے۔ اس کو پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 50 ؛صحیح مسلم، حدیث نمبر 8)۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو وہ تم کو دیکھتا ہے۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے تصورِ عبادت کے مطابق، انسان کے لیے زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ انسان، خدا کی ہستی کو اِس طرح دریافت کرے کہ اُس کو ہر لمحہ خدا کی موجودگی (presence) کا احساس ہونے لگے۔
اس کا شعور اِس معاملے میں اتنا بیدار ہو جائے کہ اس کو ایسا محسوس ہونے لگے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس اس کی پوری زندگی کو خدائی رنگ میں رنگ دے۔ اس کے ہر قول اور ہر عمل سے ایسا محسوس ہونے لگے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے، جیسے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، خدا کی براہِ راست نگرانی کے تحت کررہا ہے۔ اِسی زندہ شعور کے ساتھ زندگی گزارنے کا نام عبادت ہے۔ یہ درجہ کسی آدمی کو صرف اُس وقت ملتا ہے، جب کہ اس نے خدا کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنالیا ہو۔
ارکانِ اسلام اور حج
عبادت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ ان میں سے پانچ چیزیں بنیادی عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ پانچ چیزیں کیا ہیں، ان کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:بُنِیَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ:شَہَادَةِ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 8) یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔اِس بات کی گواہی دینا کہ ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمد، اللہ رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا، اور حج پورا کرنا،اور رمضان کے روزے رکھنا۔
یہ گویا کہ پانچ ستون (pillars) ہیں جن کے اوپر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عمارت ایک دکھائی دینے والی چیز ہے۔اِس حدیث میں عمارتی ڈھانچے کو بطور تمثیل استعمال کرتے ہوئے اسلام کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح ستونوں کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی، اسی طرح ان پانچ ارکان کے بغیر اسلام کا قیام بھی نہیںہوتا۔ اسلام کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ ستونوں کو زندگی میں قائم کیا جائے۔
اسلام کے ان پانچ ارکان کی ایک اسپرٹ ہے، اور ایک اس کا فارم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اصل اہمیت ہمیشہ اسپرٹ کی ہوتی ہے، لیکن فارم بھی یقینی طورپر ضروری ہے۔ جس طرح جسم کے بغیر روح نہیں، اسی طرح فارم کے بغیر اسلام بھی نہیں۔ اِس معاملے میں بھی اسپرٹ کا اہتمام بہت ضروری ہے، لیکن یہ اہتمام فارم کے ساتھ ہوسکتاہے، فارم کے بغیر نہیں۔
کلمۂ توحید
ان ارکان میں سے پہلا رکن کلمۂ توحید ہے۔ اس کلمہ کا ایک فارم ہے اور اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اس کا فارم یہ ہے کہ آپ عربی کے مذکورہ الفاظ (کلمۂ شہادت) کو اپنی زبان سے ادا کریں ۔ کلمہ کی اسپرٹ معرفت ہے، یعنی خدا کو دریافت کے درجے میں پالینا۔ کلمۂ توحید کی وہی ادائیگی معتبر ہے جو معرفت کی بنیاد پر ہو۔ معرفت کے بغیر کلمہ پڑھنا صرف کچھ عربی الفاظ کا تلفّظ ہے، وہ حقیقی معنی میں کلمۂ توحید نہیں۔
یونان کے قدیم فلسفی ارشمیدس (Archimedes) کو یہ جستجو تھی کہ کشتی پانی کے اوپر کیسے تیرتی ہے۔ وہ اس کی تلاش میں تھا۔ ایک دن وہ پانی کے حوض میں لیٹا ہوا نہا رہا تھا۔ اچانک اس کو فطرت کے اس قانون کی دریافت ہوئی جس کو بائنسی (law of buoyancy) کہاجاتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر اہتزاز(thrill) کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وہ اچانک حوض سے نکلا، اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ: میں نے پالیا، میں نے پالیا(Eureka, Eureka)۔
اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کلمہ کی ادائیگی کیا ہے۔ کلمۂ توحید کی ادائیگی دراصل داخلی معرفت کا ایک خارجی اظہار ہے۔ یہ حکم بلا شبہ اسلام کے ارکان میں اولین اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ اہمیت اس کی داخلی معرفت کی بنا پر ہے، نہ کہ صرف لسانی تلفظ کی بنا پر۔
نماز
اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے۔ دوسرے ارکان کی طرح نماز کا بھی ایک فارم ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فارم قیام اور رکوع اور سجود پر مبنی ہے۔ اسی کے ساتھ نماز کی ایک اسپرٹ ہے، وہ اسپرٹ سرنڈر (surrender) ہے، یعنی اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کردینا۔ خدا کو کامل معنوں میں اپنا مرکز ِ توجہ بنا لینا۔ پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life)اختیار کرلینا۔اِسی اسپرٹ کادوسرا نام قرآن میں ذکر ِ کثیر (الاحزاب،33:41) ہے، یعنی خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔ نماز کا مقصد بھی قرآن میں ذکر بتایاگیا ہے (طٰہٰ،20:14) ذکر کامطلب رسمی طورپر صرف کسی قسم کی تسبیح خوانی نہیں، بلکہ ہر موقع پر سچے احساس کے ساتھ خدا کو یاد کرتے رہنا ہے۔
آدمی جب دنیا میں زندگی گزارتا ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر وہ چیز پیدا ہونا چاہیے جس کو قرآن میں توسّم (الحجر،15:75) کہاگیا ہے، یعنی ہر دنیوی تجربے کو خدا ئی تجربے میں کنورٹ کرتے رہنا۔ ہر چیز سے ربّانی غذا حاصل کرتے رہنا۔ حقیقی نماز وہی ہے جو آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کردے کہ وہ ہر چیز سے اپنے لیے توسّم کی غذا حاصل کرتا رہے۔ نماز کے فارم کے ساتھ جب یہ اسپرٹ شامل ہوجائے تب کسی آدمی کی نماز حقیقی نماز بنے گی، ورنہ حدیثِ رسول کی زبان میں ، اس سے کہہ دیا جائے گا:ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ ( صحیح البخاری،حدیث نمبر 757) یعنی جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔
روزہ
اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رُکن روزہ (صوم)ہے۔ روزہ کا فارم یہ ہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ وہ اپنے دن کو بھوک اور پیاس کی حالت میں گزارے۔ روزہ کی اسپرٹ صبر(patience)ہے۔ حدیث میں آیا ہے:ہُوَ شَہْرُ الصَّبْرِ(صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر 1887)۔ یعنی رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔
صبر کیا ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں سلف ڈسپلن (self-discipline) کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ اپنی خواہشوں پرروک لگائے۔ وہ اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہو۔ وہ اپنی انا کو گھمنڈ نہ بننے دے۔ وہ لوگوں کے درمیان نوپرابلم (no problem) انسان بن کر رہے۔ سماجی زندگی میں جب اس کو کوئی شاک (shock)لگے تو وہ اس شاک کو اپنے اوپر سہے، وہ اس کو دوسرے تک پہنچنے نہ دے۔
زکوٰۃ
اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا فارم یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی کے ایک حصے سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرے، اور اپنی کمائی کا کچھ حصہ خدا کے حکم کے مطابق، وہ دوسرے انسانوں پر خرچ کرے۔ یہ زکوٰۃ کا فارم ہے۔ زکوٰۃ کی اسپرٹ انسان کی خیر خواہی ہے، یعنی تمام انسانوں کو اپنا سمجھنا۔ حقیقی معنوں میں انسان دوست رویہ (human-friendly behaviour) اختیار کرنا۔ صرف اپنے لیے جینے کے بجائے، ساری انسانیت کے لیے جینا۔ آدمی اگر زکوٰۃ کی رقم دے دے، لیکن دل سے وہ انسانوں کا خیر خواہ نہ بنے تو اس کی زکوٰۃ ادھوری زکوٰۃ مانی جائے گی۔ ایسے آدمی کی زکوٰۃ پورے معنوںمیں زکوٰۃ نہیں ہوگی(البقرۃ، 2:264)۔
حج
اسلامی ارکان میں سے پانچواں رکن حج ہے۔ حج کے لفظی معنی ہیں قصد کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ شرعی اصطلاح میں ، حج سے مراد وہ عبادتی سفر ہے جس میں آدمی اپنے وطن سے نکل کر مکہ (عرب) جاتا ہے اور وہاں ماہِ ذو الحجّہ کی مقرر تاریخوںمیں حج کے مراسم ادا کرتاہے اور خدا کے نام پر جانور کو قربان کرتا ہے۔ یہ حج کا فارم ہے ۔ حج کی اسپرٹ قربانی (sacrifice) ہے۔ حج کا فارم اور حج کی اسپرٹ دونوں جب کسی کی زندگی میں اکھٹا ہوں تو وہ حج کی عبادت کرنے والا قرار پاتاہے۔
حج کے دوران منٰی کے مقام پر تمام حاجی، جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ انھیں تاریخوں میں دنیا بھر میں مختلف مقامات پر مسلمان عید اضحی مناتے ہیں۔ عید اضحی گویا کہ حج کی عبادت میں ایک قسم کی جُزئی شرکت ہے۔ عید اضحی کے ذریعے تمام دنیا کے مسلمان مکہ میں کیے جانے والے حج کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا ہَذِہِ الْأَضَاحِیُّ؟ قَالَ:سُنَّةُ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3127)۔ یعنی اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے زمانے میں جو قربانی دی جاتی ہے، وہ اُس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ہوتی ہے جس کا نمونہ حضرت ابراہیم نے قائم کیا تھا۔
اِس لیے حج اور قربانی کی حقیقت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس پہلو سے پیغمبر ِ خدا، حضرت ابراہیم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے۔ اِس مطالعے سے نہ صرف یہ ہوگا کہ ہم کوحج اور قربانی کا تاریخی پس منظر معلوم ہوگا، بلکہ اس کی اصل حقیقت کو سمجھنا بھی ہمارے لیے ممکن ہوجائے گا۔ حج یا عیداضحی میں قربانی دراصل حضرت ابراہیم کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا عہد ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم کی زندگی کی روشنی میں قربانی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم 1985ق م میں عراق کے قدیم شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 175 سال سے زیادہ عمر پائی۔ ’’اُر‘‘ قدیم عراق کی راجدھانی تھا۔ مزید یہ کہ یہ علاقہ قدیم آباد دنیا (میسو پوٹامیا) کا مرکز تھا۔ حضرت ابراہیم نے اپنی تمام اعلیٰ صلاحیتوں اور کامل درد مندی کے ساتھ اپنے معاصرین کو توحید کی طرف بلایا۔ اس وقت کے عراقی بادشاہ نمرود(Nimrod) تک بھی اپنی دعوت پہنچائی۔ لیکن کوئی بھی شخص آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا، حتی کہ آپ جب اتمامِ حجت کے بعد عراق سے نکلے تو آپ کے ساتھ صرف دو انسان تھے— آپ کے بھتیجے او ر آپ کی اہلیہ۔
حضرت ابر اہیم سے پہلے، مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن ان تمام پیغمبروں کے ساتھ یکساں طورپر یہ ہوا کہ لوگ ان کا انکار کرتے رہے۔ انھوں نے پیغمبروں کا استقبال استہزا( یٰسٓ،36:30)کے ساتھ کیا۔
حضرت ابراہیم کے اوپر پیغمبر کی تاریخ کا ایک دور ختم ہوگیا۔ اب ضرورت تھی کہ دعوت الی اللہ کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس منصوبہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا انتخاب کیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اپنی بیوی ہاجرہ اور چھوٹے بچے اسماعیل کے ساتھ عراق سے نکلے، اور مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے آخر کار وہاں پہنچے جہاں آج مکہ آباد ہے۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، آپ کا یہ سفر فرشتہ جبرئیل کی رہنمائی میں طے ہوا (تاریخ الطبری، 1/254)۔
ہاجرہ پیغمبر ابراہیم کی بیوی تھیں۔ اُن سے ایک اولاد پیدا ہوئی جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ ایک خدائی منصوبہ کے تحت، حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اوراُن کے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو عرب میں مکہ کے مقام پر لے جاکر بسا دیا جو اُس وقت بالکل غیر آباد تھا۔ اس واقعہ کے بارہ میں قرآن میں مختصرطورپر یہ حوالہ ملتا ہے:
’’اور جب ابراہیم نے کہا، اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے، اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو تو بخشنے والا، مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بے کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور اُن کو فروٹس (fruits) کی روز ی عطا فرما، تاکہ وہ شکرکریں‘‘ (14:35-37)۔
ہاجرہ کے بارے میں قرآن میں صرف مختصر اشارہ آیا ہے۔ تاہم حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ہاجرہ کے بارے میں تفصیلی روایت موجود ہے۔ یہ روایت یہاں نقل کی جاتی ہے:
’’عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ہاجرہ نے کمر پٹّہ باندھا تاکہ سارہ کو اُن کے بارے میں خبر نہ ہوسکے۔ پھر ابراہیم، ہاجرہ اور اُن کے بچے اسماعیل کو مکہ میں لے آئے ۔ اُس وقت ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم نے ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں زمزم ہے۔ اُس وقت مکہ میں ایک شخص بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ ابراہیم نے کھجور کا ایک تھیلا اور پانی کی ایک مشک وہاں رکھ دیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہاجرہ اُن کے پیچھے نکلیں اور کہا کہ اے ابراہیم، ہم کو اس وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ ہاجرہ نے ابراہیم علیہ السلام سے یہ بات کئی بار کہی اور ابراہیم نے ہاجرہ کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہاجرہ نے ابراہیم سے کہا کہ کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہاں۔ ہاجرہ نے کہا پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا (إذَن لا یُضَیِّعُنَا)۔ ہاجرہ لوٹ آئیں۔ ابراہیم جانے لگے۔ یہاں تک کہ جب وہ مقامِ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو اُنہوں نے اپنا رخ ادھر کیا جہاں اب کعبہ ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی کہ: اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کچھ نہیں اُگتا، یہاں تک کہ آپ دعا کرتے ہوئے لفظ یشکرون تک پہنچے۔
ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتیں۔ یہاںتک کہ جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو وہ پیاسی ہوئیں اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی۔ انھوں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ پیاس سے بے چین تھا۔ بیٹے کی اس حالت کو دیکھ کر وہ مجبور ہو کر نکلیں۔ انھوں نے سب سے قریب پہاڑ صفا کو پایا۔ چنانچہ وہ پہاڑ پر چڑھیں اور وادی کی طرف دیکھنے لگیں کہ کوئی شخص نظر آجائے۔ وہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔ وہ صفا سے اتریں۔ یہاں تک کہ جب وہ وادی تک پہنچیں تو اپنے کُرتہ کا ایک حصہ اُٹھایا پھر وہ تھکاوٹ سے چور انسان کی طرح دوڑیں۔ وادی کو پار کرکے وہ مروہ پہاڑ پر آئیں۔ اُس پر کھڑے ہو کر اُنہوں نے دیکھا تو کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اس طرح اُنھوں نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ پھر وہ مروہ پر چڑھیں۔ اُنہوں نے ایک آواز سُنی۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگیں کہ چپ رہ۔ پھر سُننا چاہا تو وہی آواز سُنی۔ اُنہوں نے کہا کہ تو نے اپنی آواز مجھ کو سنا دی تو اس وقت ہماری مدد کرسکتا ہے۔ دیکھا تو مقام زمزم کے پاس ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ نے اپنی ایڑی یا پنکھ زمین پرمارا، پانی نکل آیا۔ ہاجرہ اُس کو حوض کی طرح بنانے لگیں اور ہاتھ سے اُس کے گرد مینڈ کھینچنے لگیں۔ وہ پانی چلّو سے لے کر اپنی مشک میں بھرتیں۔ وہ جس قدر پانی بھرتیں چشمہ اُتنا ہی زیادہ اُبلتا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ہاجرہ پر رحم کرے، اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں، یا آپ نے یہ فرمایا کہ اگر وہ چلّو بھر کرپانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بیٹے کو پلایا۔ فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ تم ضائع ہونے کا اندیشہ نہ کرو۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ بچہ اور اُس کے باپ دونوں اس گھر کو بنائیں گے اور اللہ اپنے گھر والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اُس وقت گھر (کعبہ) ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا۔ سیلاب آتا اور وہ اس کے دائیں بائیں جانب سے نکل جاتا۔ کچھ دنوں تک ہاجرہ نے اسی طرح زندگی گزاری۔ یہاںتک کہ جُرہُم قبیلہ کے کچھ لوگ یا جرہم کے گھر والے کَدا ءکے راستہ سے آرہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ میں اُترے۔ اُنھوں نے وہاںایک پرندہ کو دیکھا جو گھوم رہا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی پر گھومتا ہے۔ ہم اس وادی میں رہے ہیں اور یہاں پانی نہ تھا۔ اُنہوں نے ایک یا دو آدمی کو خبر لینے کے لیے وہاں بھیجا۔ اُنہوں نے پانی دیکھا۔ وہ واپس لوٹ کر گئے اورلوگوں کو پانی کی خبر دی۔ وہ لوگ بھی آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ پانی کے پاس تھیں۔ اُنہوں نے ہاجرہ سے کہا کہ کیا تم ہم کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دیتی ہو۔ ہاجرہ نے کہا کہ ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ خود چاہتی تھیں کہ یہاں انسان آباد ہوں۔ اُن لوگوں نے یہاں پر قیام کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی بُلا بھیجا، وہ بھی یہیں ٹھہرے۔ جب مکہ میں کئی گھر بن گئے اور اسماعیل جوان ہوگئے اور اسماعیل نے جرہم والوں سے عربی زبان سیکھ لی۔ جرہم کے لوگ اُن سے محبت کرنے لگے تو اُنہوں نے اپنی ایک لڑکی سے اُن کا نکاح کردیا۔ ہاجرہ کا انتقال ہوگیا۔ جب اسماعیل کا نکاح ہوچکا تو ابراہیم اپنی اولاد کو دیکھنے آئے۔ اُنہوں نے وہاں اسماعیل کو نہیں پایا۔ چنانچہ اُن کی بیوی سے اُن کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے اُس سے اُن کے گزر بسر اور حالت کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ ہم تکلیف میں ہیں۔ ہم بہت زیادہ تنگی میں ہیں۔ اُس نے ابراہیم سے شکایت کی۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنا اور اُن سے یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دیں۔ جب اسماعیل آئے۔ اُنھوں نے کچھ محسوس کرلیا تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ ایک بوڑھا شخص اس اس صورت کا آیا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے بارہ میں پوچھا، میں نے اُن کو بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہماری گزرکیسے ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اور تنگی سے۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا اُنہوں نے تم سے اور کچھ کہا ہے ۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنھوں نے مجھ سے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دو۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے۔ انھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو چھوڑ دوں۔ تم اپنے گھر والوں میں چلی جاؤ۔ اسماعیل نے اُس کو طلاق دے دی۔ اور جرہم کی ایک دوسری عورت سے اُنہوں نے نکاح کرلیا۔ ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جس قدر اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد ابراہیم اسماعیل کے یہاں آئے تو پھر اُن کو نہیں پایا۔ وہ اسماعیل کی بیوی کے پاس آئے اور اُس سے اسماعیل کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ تم لوگ کیسے ہو۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ خیریت سے ہیں اورکشادگی کی حالت میں ہیں۔ اُس نے اللہ عزّوجل کی تعریف کی۔ ابراہیم نے کہا کہ تمہارا کھانا کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ گوشت۔ ابراہیم نے کہا کہ تم کیا پیتے ہو۔ اُس نے کہا کہ پانی۔ ابراہیم نے دعا کی کہ اے اللہ، تو اُن کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس وقت مکہ میں اناج نہ تھا۔ اور اگر وہاںاناج ہوتا تو ابراہیم اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ مکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے لوگ اگر گوشت اور پانی پر گزر کریں تو وہ اُن کو موافق نہ آئے۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنااور میری طرف سے اُن کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ پس جب اسماعیل آئے تو اُنہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی شخص آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں، ہمارے پاس ایک اچھی صورت کے بزرگ آئے تھے اور اُس نے آنے والے کی تعریف کی۔ اُنہوں نے مجھ سے آپ کے بارہ میں پوچھا تو میں نے اُنہیں بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے دوبارہ ہمارے گزر بسر کے بارہ میں پوچھا۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا انھوں نے تم سے کچھ اور بھی کہا ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے اور تم چوکھٹ ہو۔ اُنھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے پاس باقی رکھوں۔ پھر ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد وہ آئے اور اسماعیل زمزم سے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے تیر درست کررہے تھے۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو وہ کھڑے ہوگئے۔ پس انھوں نے وہی کیا جو ایک باپ اپنے بیٹے سے اور ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ اے اسماعیل، اللہ نے مجھ کو ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ پھر جو آپ کے رب نے حکم دیا ہے اُسے کر ڈالیے۔ ابراہیم نے کہا کہ کیا تم میری مدد کروگے۔ اسماعیل نے کہا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ اللہ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور ابراہیم نے اس کے گرد ایک بلند ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا۔ اُس وقت اُن دونوں نے گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے، یہاں تک کہ جب دیوار اونچی ہوگئی تو اسماعیل یہ پتھر (حجرِ اسود) لائے اور اُس کو وہاں رکھ دیا۔ ابراہیم اُس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے تھے اور اسماعیل اُن کو پتھر دیتے تھے۔ اور وہ دونوں کہتے تھے : اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر، بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ پس وہ دونوں تعمیر کرتے اور اس گھر کے ارد گرد یہ کہتے ہوئے چکر لگاتے کہ اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر۔ بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے‘‘ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3364 )۔
ذبحِ عظیم
اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنے ہاتھ سے ذبح کررہے ہیں۔ اس خواب کے مطابق، حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن یہ ایک تمثیلی خواب تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اب خدائی منصوبہ کے مطابق، اپنے بیٹے کو توحید کے مشن کے لیے وقف (dedicate) کردو، ایک ایسا مشن جو عرب کے بے آب وگیاہ صحرا میں شروع ہونے والا تھا۔
قرآن کی سورہ نمبر 37 میں حضرت ابراہیم کے واقعے کا ذِکر ہے۔ آپ نے اپنے ایک خواب کے مطابق، اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹا دیا۔ اُس وقت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے نے بتایا کہ تمھاری قربانی قبول ہوگئی، اب تم بیٹے کے بدلے ایک دنبہ ذبح کردو۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اُس موقع پر قرآن میں یہ آیت آئی ہے:وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ(37:107)۔ یعنی ہم نے اسماعیل کو ایک عظیم قربانی کے ذریعے بچا لیا۔
اِس آیت میں ذِبح عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا، اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اِس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میں آباد کر دیا گیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسبابِ حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اِس لیے اس کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیاگیا ۔یہ عظیم قربانی، اللہ تعالیٰ کا ایک منصوبہ تھا، جس کو فرزند ِ ابراہیم (اسماعیل) کے ذریعے عرب کے صحرا میں عمل میں لایا گیا۔ قرآن (ابراہیم،14:37) میں اِس واقعے کا ذکر مختصر اشارے کے طورپر آیا ہے اور حدیث میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔
قرآن میں حضرت ابراہیم کے اس خواب کا ذکر سورہ نمبر 37 میں آیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر ابراہیم نے خواب کے بعد جب اپنے بیٹے کو قربان کرنا چاہا تو اس وقت خدا کے فرشتے نے آپ کو بتایا کہ آپ بیٹے کے فدیہ کے طورپر ایک دنبہ ذبح کردیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے ایسا ہی کیا (الصافات،37:107)، اور جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے ایک صحرائی مقام میں آباد کردیا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اب مکہ آباد ہے۔ اسی مقام پر بعد کو حضرت ابراہیم اور آپ کے بیٹے اسماعیل نے کعبہ کی تعمیر کی، اور حج کا نظام قائم فرمایا۔
علامتی ذبیحہ
ہاجرہ اوراسماعیل کو صحرا میں اس طرح آباد کرنے کا مقصد کیا تھا۔ اس کا مقصد تھا ایک نئی نسل بنانا۔ اس زمانے کی شہری آبادیوں میں مشرکانہ کلچر مکمل طورپر چھاچکا تھا۔اس ماحول میں جو بھی پیدا ہوتا وہ مشرکانہ کنڈیشننگ کا شکار ہوجاتا۔ اس بنا پر اس کے لیے توحید کے پیغام کو سمجھنا ممکن نہ رہتا۔ متمدن شہروں سے دور صحرا میں ہاجرہ اور اسماعیل کو اس لیے بسایا گیا تاکہ یہاں فطرت کے ماحول میں ان کے ذریعہ سے ایک نئی نسل تیار ہو، ایک ایسی نسل جو مشرکانہ کنڈیشننگ سے پوری طرح پاک ہو۔ تو الد وتناسل کے ذریعہ یہ کام جاری رہا یہاںتک کہ بنو اسماعیل کی قوم وجود میں آئی۔
اسی قوم کے اندر 570 ء میں پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب پیدا ہوئے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں اللہ تعالیٰ نے نبی مقرر کیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ بنو اسماعیل کے اندر سے آپ کو وہ قیمتی افراد ملے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ ان لوگوں کو ساتھ لے کر آپ نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر انقلاب کے مرحلے تک پہنچایا۔
حضرت ابراہیم کے ذریعے جو عظیم دعوتی منصوبہ زیر عمل آیا، حج کی عبادت گویا اسی کاایک ریہرسل ہے۔ ذو الحجہ کے مہینے کی مخصوص تاریخوں میں ساری دنیا کے مسلمان اکھٹا ہو کر ریہرسل کے روپ میں اس تاریخ کو دہراتے ہیں جو حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے ساتھ پیش آئی۔
اس طرح تمام دنیا کے مسلمان ہر سال اپنے اندر یہ عزم تازہ کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر کے اس نمونہ کو اپنے حالات کے مطابق، مسلسل دہراتے رہیں گے۔ ہر زمانے میں وہ دعوت الی اللہ کے اس عمل کو مسلسل زندہ رکھیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
اس ابراہیمی عمل میں قربانی کو مرکزی درجہ حاصل ہے۔ یہ ایک عظیم عمل ہے جس کی کامیاب ادائیگی کے لیے قربانی کی اسپرٹ ناگزیر طورپر ضروری ہے۔ اس قربانی کی اسپرٹ کو مسلسل طورپر زندہ رکھنے کے لیے حج کے زمانے میں منیٰ میں ، اورعیداضحی کی صورت میں تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے مقام پرجانور کی قربانی کرتے ہیں اور خدا کو گواہ بنا کر اس اسپرٹ کو زندہ رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔حج اور عید اضحی کے موقع پر جانور کی جو قربانی کی جاتی ہے، وہ دراصل جسمانی قربانی کی صورت میں با مقصد قربانی کے عزم کے ہم معنی ہے۔ یہ دراصل داخلی اسپرٹ کا خارجی مظاہرہ ہے:
It is an external manifestation of an internal spirit.
آدمی کے اندر پانچ قسم کے حواس (senses)پائے جاتے ہیں۔ نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس میں انسان کے تمام حواس شامل ہوں تو وہ بات انسان کے دماغ میں زیادہ گہرائی کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ قربانی کی اسپرٹ کو اگر آدمی صرف مجرد شکل میں سوچے تو وہ آدمی کے دماغ میں بہت زیادہ ذہن نشین نہیں ہوگی۔ قربانی اسی کمی کی تلافی ہے۔
جب آدمی اپنے آپ کو وقف کرنے کے تحت جانور کی قربانی کرتا ہے تو اس میں عملاً اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ دماغ سے سوچتا ہے، وہ آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ کان سے سنتا ہے، وہ ہاتھ سے چھوتا ہے، وہ قربانی کے بعد اس کے ذائقے کا تجربہ بھی کرتا ہے۔ اس طرح اس معاملے میں اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ قربانی کی اسپرٹ کو محسوس کرتا ہے، وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ قربانی کی اسپرٹ اس کے اندر بھر پور طورپر داخل ہوجائے، وہ اس کے گوشت کا اور اس کے خون کا حصہ بن جائے۔
قربانی کی حقیقت
حج یا عید ِاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔ اس قربانی کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اسپرٹ، اور دوسرے اس کی ظاہری صورت۔اسپرٹ کے اعتبار سے قربانی ایک قسم کا عہد (pledge) ہے۔ قربانی کی صورت میں عہد کا مطلب ہے عملی عہد (pledge in action) ۔ عہد کے اس طریقے کی اہمیت کو عمومی طورپر تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس میں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں۔
یہاں اس نوعیت کی ایک مثال دی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوگا کہ قربانی کا مطلب کیا ہے۔ نومبر 1962 کا واقعہ ہے۔ ہندستان کی مشرقی سرحد پر ایک پڑوسی طاقت کی جارحیت کی وجہ سے زبردست خطرہ پیداہو گیا تھا۔ سارے ملک میں سنسنی خیزی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
اُس وقت قوم کی طرف سے جو مظاہرے ہوئے، اس میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ احمد آباد کے 25 ہزار نوجوانوں نے مشترکہ طورپر یہ عزم کیا کہ وہ ملک کے بچاؤ کے لیے لڑیں گے اورملک کے خلاف باہر کے حملے کا مقابلہ کریں گے، خواہ اسی راہ میں ان کو اپنی جان دے دینی پڑے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے یہ کیا کہ ان میں سے ہر شخص نے اپنے پاس سے ایک ایک پیسہ دیا اور اس طرح 25 ہزار پیسے جمع ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے ان پیسوں کو اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی خدمت میں پیش کیا۔ پیسہ دیتے ہوئے انھوں نے ہندستانی وزیر اعظم سے کہا کہ یہ 25 ہزار پیسے ہم 25 ہزار نوجوانوں کی طرف سے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرنے کا نشان ہیں:
To give ourselves to you
مذکورہ نوجوانوں نے اپنی قربانی کا علامتی اظہار 25 ہزار پیسوں کی شکل میں کیا۔ 25 ہزار پیسے خود اصل قربانی نہیں تھے۔ وہ اصل قربانی کی صرف ایک علامت(token) تھے۔ یہی معاملہ جانور کی قربانی کا ہے۔ قربانی کے عمل میں جانور کی حیثیت صرف علامتی ہے۔ جانور کی قربانی کے ذریعے ایک مومن علامتی طورپر اس بات کاعہد کرتا ہے کہ وہ اسی طرح اپنی زندگی کو خدا کی راہ میں پوری طرح لگادے گا۔ اسی لیے قربانی کے وقت یہ کہا جاتا ہے: اللَّہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 2795)۔یعنی اے خدا یہ تو نے ہی دیا تھا، اب میں اس کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔
٭ ٭ ٭ ٭٭
حج کا اثر یہ ہونا چاہیے کہ حاجی کا ذہن خدا رخی ذہن ہو جائے۔ اس کوخدا کی یاد آنے لگے۔ اس کا دماغ خدا کی باتوں سے بھر جائے۔ اب تک اس کی سوچ اگر اپنی ذات کی طرف چل رہی تھی تو اب اس کی سوچ خدا کی طرف چل پڑے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭
قرآن کی سورہ الزخرف میں فطرت کا ایک قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا(43:32)۔یعنی ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔قرآن کی اِس آیت میں سادہ طورپر طبقاتی تفاوت یا طبقاتی امتیاز کی بات نہیں کہی گئی ہے، بلکہ اِس آیت میں طبقاتی حکمت کی بات کہی گئی ہے۔ اِس دنیا میں کوئی بڑا کام صرف اجتماعی کوشش سے ہوسکتا ہے، اور اجتماعی کوشش مفید طورپر صرف اُس وقت وجود میں آتی ہے، جب کہ افرادِ اجتماع کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر بنانے پر پوری طرح راضی ہوجائیں۔ اجتماعی کوشش نام ہے— لیڈر کا ماتحت بن کر کوشش کرنے کا۔ جو لوگ اِس اصول پر راضی نہ ہوں، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے۔
قرآن کی اِس آیت سے سکنڈری رول (secondary role) کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اگر ایک سو آدمیوں کا اجتماع ہے تو اس میں 99 لوگوں کو سکنڈری رول پر راضی ہونا پڑتا ہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک شخص لیڈر بن کر اپنا قائدانہ رول ادا کرسکے۔ اِس اصول کا مظاہرہ روزانہ نمازِ باجماعت کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ نماز باجماعت یہ پیغام دیتی ہے کہ— اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کھڑا کرکے سب کے سب بیک سیٹ (back seat) پر چلے جاؤ، ایک شخص کو امام بنا کر سب کے سب اس کے مقتدی بننے پر راضی ہوجاؤ۔سکنڈری رول کا معاملہ صرف ایک عملی بندوبست کا معاملہ ہے۔ جہاں تک اہمیت کی بات ہے، سکنڈری رول کی اہمیت قائدانہ رول سے بھی زیادہ ہے۔ قائدانہ رول ادا کرنے والے کو اگر ایک کریڈٹ ملے گا تو سکنڈری رول ادا کرنے والے کو ڈبل کریڈٹ دیا جائے گا۔ کیوں کہ سکنڈری رول ادا کرنے والا شخص، اپنا رول ادا کرنے کے ساتھ مزید یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی انا کو قربان کردیتا ہے۔ انا کی قربانی کے بغیر سکنڈری رول کی ادائیگی ممکن نہیں، اور اناکی قربانی بلا شبہ تمام قربانیوں میں سب سے بڑی قربانی ہے۔
چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم عراق کے قدیم شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ وہاں انھوں نے اپنی معاصر قوم کے درمیان اپنا دعوتی مشن جاری کیا۔ لیکن آپ کی قوم کی کنڈیشننگ اتنی زیادہ پختہ ہوچکی تھی کہ وہ آپ کے پیغام کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ایک نیا منصوبہ شروع کیا۔ اِس منصوبے کا آغاز اِس طرح ہوا کہ آپ اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے چھوٹے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں لے گئے اور وہاں اُنھیں اِس غیر آباد ماحول میں بسا دیا۔
اِس خصوصی منصوبے کے ذریعے عرب میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی۔ اِسی نسل میں 570 عیسوی میں پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ اِسی نسل میں سے وہ لوگ پیدا ہوئے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتاہے۔ اصحابِ رسول دراصل پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر اہلِ ایمان تھے۔ اصحابِ رسول کو قرآن میں خیر ِ امت (آلِ عمران،3:110) کہاگیا ہے۔ اصحابِ رسول امتیازی اوصاف کے حامل تھے۔ ان کی صفتیں قرآن میں مختلف مقامات پر آئی ہیں۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہاں نقل کی جاتی ہے:
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا (48:29)۔ یعنی محمد، اللہ کے رسول ہیں۔ جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔ تم ان کو رکوع میں اور سجدہ میں دیکھوگے۔ وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی نشانی ان کے چہروں پر ہے، سجدہ کے اثر سے۔ ان کی یہ مثال تورات میں ہے۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی، اُس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹا ہوا اور پھر وہ اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا۔ وہ کسانوں کو بھلا لگتا ہے، تاکہ اُن سے منکروں کو جلائے۔ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اللہ نے اُن کے لیے معافی کا اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں اصحابِ رسول کے امتیازی اوصاف کو دو تاریخی پیشین گوئیوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک پیشین گوئی وہ جو تورات میں آئی ہے، اور دوسری پیشین گوئی وہ ہے جس کا ذکر انجیل میں موجود ہے۔ تورات میں اصحابِ رسول کا پیشگی ذکر اِن الفاظ میں آیا ہے کہ وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا :
He came with ten thousand of saints (Deuteronomy 33:2)
بائبل کے اِس حوالے کے مطابق، اصحابِ رسول قدسی کردار (saintly character) کے حامل تھے۔ اصحابِ رسول کی یہ قدسی صفات مذکورہ قرآنی آیت کے مطابق، حسب ذیل ہیں:
والذین معہ
اِن صفات میں پہلی صفت وہ ہے جس کی طرف ’’معہ‘‘کے لفظ میں اشارہ کیاگیا ہے، یعنی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والے۔ یہ ساتھ انھوں نے کب دیا تھا۔ انھوں نے پیغمبر اسلام کا یہ ساتھ اُس وقت دیا تھا، جب کہ آپ کی ذات کے ساتھ ابھی تاریخی عظمت جمع نہیں ہوئی تھی۔ انھوں نے پیغمبر اسلام کو خالص جوہر (merit) کی بنیاد پر پہچانا، انھوں نے بظاہر ایک معمولی شخصیت کو غیر معمولی شخصیت کے روپ میں دریافت کیا، انھوں نے تاریخی اعتراف (historical recognition) کے درجے تک پہنچنے سے پہلے آپ کی حیثیت کا اعتراف کیا۔ انھوں نے دورِ عظمت سے پہلے پیغمبر کو اس وقت پہچانا، جب کہ اُس کی ذات ہر قسم کی ظاہری عظمت سے پوری طرح خالی تھی۔
انھوں نے محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب کو خدا کے نمائندہ کی حیثیت سے دریافت کرکے اُس کے آگے اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کردیا، اصحابِ رسول نے ساعتِ عُسرت (التوبۃ،9:117) میں پیغمبر اسلام کا ساتھ دیا۔ یہ ساتھ دینا اُسی وقت ممکن تھا، جب کہ اصحابِ رسول مذکورہ امتیازی صفت کے حامل ہوں۔
أشداء علی الکفار
اصحابِ رسول کی دوسری صفت کو قرآن میں ’’أشداء علی الکفار‘‘کے لفظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اہلِ کفر پر شدید ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل کے مقابلے میں غیر اثر پذیر (unyielding) کردار کے حامل تھے، مروّجہ افکار، ان کو متزلزل نہیں کرسکتے تھے، وقت کی غالب تہذیب اُن کو مرعوب کرنے والی نہ تھی، مفادات کا نظام ان کو اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ اصحابِ رسول کی دریافتِ حقیقت اتنی زیادہ گہری تھی کہ وہی اُن کی پوری شخصیت کا واحد غالب عنصر بن گئی۔
رحماء بینہم
اصحابِ رسول کی تیسری صفت کو قرآن میں ’’رحماء بینہم‘‘کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، یعنی آپس میں ایک دوسرے کے لیے آخری حد تک ہمدرد اور خیر خواہ ہونا۔ اِس صفت کی غیرمعمولی اہمیت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ اِس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ اصحابِ رسول کے درمیان وہ تمام اختلافات (differences) موجود تھے جو ہر انسانی گروہ کے درمیان فطری طورپر پائے جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود وہ بنیانِ مرصوص (الصّف،61:4) کی طرح باہم متحد رہے، انھوں نے اِس صلاحیت کا ثبوت دیا کہ وہ اختلاف کے باوجود آپس میں متحد ہوسکتے ہیں، وہ شکایتوں کے باوجود ایک دوسرے کے خیرخواہ بن سکتے ہیں، وہ منفی اسباب کے باوجود اپنے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ اصحابِ رسول کی یہی صفت تھی جس کی بنا پر وہ توحید پر مبنی وہ انقلاب لاسکے جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔
تراھم رکعاً سجداً
اصحابِ رسول کی چوتھی صفت کو ’’تراھم رکعاً سجداً‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحابِ رسول کامل طورپر اللہ کے آگے جھکے ہوئے تھے، ان کے اندر کامل درجے میں خود سپردگی کا مزاج پیدا ہوگیا تھا، اللہ کی کبریائی کی معرفت ان کو اتنے بڑے درجے میں حاصل ہوئی تھی، جب کہ انسان شعوری طورپر اللہ کی قدرتِ کاملہ کا ادراک کرلیتا ہے اور اس کے اندر اپنے عاجزِ مطلق ہونے کا شعور اِس طرح پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اللہ کے آگے جھک جاتا ہے۔ اس کے دل ودماغ میں اللہ کی بڑائی کے سوا کوئی اور بڑائی باقی نہیں رہتی، اس کا واحدکنسرن (sole concern) اللہ وحدہ لاشریک بن جاتا ہے۔ یہی توحید ِ کامل ہے، اور اصحابِ رسول اِس توحید ِ کامل میں آخری درجے پر پہنچے ہوئے تھے۔
یبتغون فضلاً من اللہ ورضواناً
اصحابِ رسول کی پانچویں صفت وہ ہے جس کو قرآن میں ’’یبتغون فضلاً من اللّٰہ ورضواناً‘‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحابِ رسول کی معرفت نے اُن کے اندر اللہ کی ذات پر کامل یقین پیدا کردیا تھا، وہ اللہ پر کامل اعتماد (confidence) والے بن گئے تھے، وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ دینے والا بھی اللہ ہے اور چھیننے والا بھی اللہ، کامیابی کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ناکامی کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ۔ وہ ہر دوسری چیز سے زیادہ اللہ پر بھروسہ کرنے والے بن گئے تھے، اُن کی امیدیں اور آرزوئیں تمام تر اللہ پر منحصر ہوگئی تھیں۔
سیماھم فی وجوھھم من أثر السجود
اصحابِ رسول کی چھٹی صفت کو قرآن میں ’’سیماہم فی وجوہہم من أثر السجود‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اصحابِ رسول کی دریافتِ حقیقت نے اُن کے اندر آخری حد تک وہ صفات پیدا کردی تھیں جن کو سنجیدگی (sincerity) اور تقویٰ اور تواضع کہاجاتا ہے۔ یہی کمالِ انسانیت کی پہچان ہے، یہی وہ صفات ہیں جو کسی انسان (man)کو اعلیٰ انسان(superman) بناتی ہیں۔ اِن صفات کی حامل شخصیت کو ربانی شخصیت (divine personality) کہا جاتا ہے۔ اصحابِ رسول بلاشبہ اِن صفات میں کمال درجے پر تھے۔
اِس کے بعد اصحابِ رسول کی اُس خصوصیت کو بیان کیاگیا ہے جس کا ذکر انجیل میں حضرت مسیح کی زبان سے اِن الفاظ میں آیا ہےکہ اُس نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کرکے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اُس رائی کے دانے کی مانند ہے جس کو کسی آدمی نے لے کراپنے کھیت میں بودیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے، مگر وہ جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آکر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں:
Another parable he put forth to them, saying: “The kingdom of heaven is like a mustard seed, which a man took and sowed in his field, which indeed is the least of all the seeds, but when it is grown, it is greater than the herbs and becomes a tree, so that the birds of the air come and nest in its branches”. (Matthew 13: 31-32)
اصحابِ رسول کی جو صفت تورات میں مختصراً اور قرآن میں تفصیلاً بیان کی گئی ہے، اُس کا تعلق اصحابِ رسول کی انفرادی خصوصیات سے ہے۔ یہ اعلیٰ خصوصیتیں ہر صحابی کے اندر کامل درجے میں پائی جاتی تھیں۔ اِن خصوصیات نے ہر صحابی کو، ایک مستشرق کے الفاظ میں ، ہیرو (hero) بنا دیا تھا۔
اصحابِ رسول کی دوسری صفت جو انجیل اور قرآن دونوں میں آئی ہے، وہ تمثیل کی صورت میں اُس اجتماعی انقلاب کو بتاتی ہے جو اصحابِ رسول کے ذریعے برپا ہوا تھا۔ یہ تمثیل ایک درخت کی صورت میں ہے۔ اِس درخت کا بیج پیغمبرِ اسلام کی پیدائش سے ڈھائی ہزار سال پہلے صحرائے عرب میں لگایا گیا تھا۔ اس کا آغاز حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی قربانیوں کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ پودا نسل درنسل بڑھتا رہا۔
اصحابِ رسول اِسی تاریخی نسل کا اگلا حصہ تھے۔ اصحابِ رسول نے غیر معمولی قربانی کے ذریعے یہ کیا کہ انھوں نے توحید کے نظریے کو فکری انقلاب کے دور تک پہنچا دیا۔ اِس فکری انقلاب کے بعد تاریخ بشری میں ایک نیا پراسس جاری ہوا۔ بعد کی عالمی تبدیلیاں اِسی انقلابی عمل کا نتیجہ تھیں۔ فرانسیسی مؤرخ ہنری پرین (وفات1935) نے اِس انقلابی واقعے کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے — اسلام نے زمین کے نقشے کو بدل دیا، تاریخ کے روایتی دور کا کامل خاتمہ ہوگیا:
Islam changed the face of the globe; the traditional order of history was overthrown.
یعجب الزرّاع
’’یعجب الزرّاع ‘‘کے لفظ میں ایک تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے پہلے کی جو دعوتی تاریخ ہے، اُس میں بار بار ایسا ہوا کہ خدا کے داعیوں نے دعوت کا بیج ڈالا، لیکن وہ بڑھ کر ایک شاداب درخت نہ بن سکا۔ یہ واقعہ پہلی بار اصحابِ رسول کے ذریعے پیش آیا۔ دعوت کے عمل میں یہ ارتقا سارے زمین وآسمان کے لیے بے پناہ مسرت کا باعث تھا،جو دعوتِ توحید کو ایک شاداب باغ کی صورت میں دیکھنے کے لیے ہزاروں سال سے اس کا انتظار کررہے تھے۔
لیغیظ بہم الکفار
’’لیغیظ بہم الکفار ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل جو حق کا فروغ دیکھنا نہیں چاہتے تھے، اُن کے لیے حق کے فروغ کا یہ عظیم واقعہ بے پناہ مایوسی کا سبب بن گیا۔ ان کی ہزاروں سال کی خوشیاں خاک میں مل کر رہ گئیں۔ ان کا یہ حوصلہ آخری طورپر ختم ہوگیا کہ وہ حق کو ہمیشہ مغلوب رکھیں گے اور اس کو کبھی ابھرنے کا موقع نہ دیں گے۔ اِس مایوسی میں دونوں گروہ یکساں طورپر شریک تھے، باطل پرست انسان بھی، اور ابلیس کا دشمن ِ حق قافلہ بھی، حق کی یہ کامیابی دونوں ہی کے لیے ان کے منصوبوں کے خاتمہ کے ہم معنی بن گئی۔
ایمان اور عمل صالح
مذکورہ آیت میں آخری بات یہ کہی گئی ہے کہ— اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا، اللہ نے ان سے معافی کا اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ یہ بشارت براہِ راست طورپر اصحابِ رسول کے لیے ہے اور بالواسطہ طورپر قیامت تک کے اُن تمام لوگوں کے لیے ہے جو اصحابِ رسول کے رول کو دریافت کریں اور بعد کے زمانوں میں اس کا تسلسل جاری رکھیں۔ تسلسل کو جاری رکھنے کا یہ عمل کوئی سادہ عمل نہیں ۔ اِس کے لیے ایسے افراد درکار ہیں جن کے اندر تخلیقی فکر ہو اور جن کے اندر مجددانہ صلاحیت ہو۔ بعد کی نسلوں میں جو لوگ ایمان اور عملِ صالح کی اِس اعلیٰ صلاحیت کا ثبوت دیں گے، وہ سب مذکورہ قرآنی بشارت میں شامل ہوتے چلے جائیں گے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭
اس ابراہیمی منصوبے پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم کی قربانی، قربانی برائے دعوت تھی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ عراق کے تجربے کی روشنی میں عرب میں ایک نیا دعوتی منصوبہ بنایا جائے، جو نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ موثر ثابت ہو۔ جانور کے ذبیحہ کی صورت میں اس منصوبہ میں شامل افراد کو پیشگی یہ بتایا گیا کہ تم کو اس منصوبہ کی کامیاب تکمیل کے لیے ایک ایسے پرمشقت کورس سے گزرنا ہوگا، جو گویا ذبیحہ (slaughter) جیسے تجربہ کےبرابر ہوگا۔اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان دوبارہ حضرت ابراہیم کی اس تاریخ کو دہرائیں ۔ موجودہ زمانہ میں وہ دوبارہ یہ کریں کہ شکایت کے ذہن کو مکمل طور پر ختم کردیں۔ وہ ردعمل کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر اپنے کو بچائیں۔ وہ تشدد کی سرگرمیوں کو چھوڑ کر پرامن دعوت کا منصوبہ بنائیں۔ وہ دوبارہ جذبات کی قربانی کا ثبوت دیں۔ موجودہ زمانے میں بھی بظاہر تمثیلی قربانی کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن اسپرٹ کے اعتبار سے ان کو اپنے آپ کو مکمل طور پر بدلنا ہوگا۔ ابراہیم اور اسماعیل کے زمانے میں اگر ڈیزرٹ تھراپی کا طریقہ اختیار کیا گیا تھا تو اب مسلمانوں کو صبر تھراپی (sabr therapy) کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔
٭ ٭ ٭ ٭٭
ایک صاحب نے لکھا ہے کہ قرآن میں ایک سے زیادہ بار اتباع ملتِ ابراہیم کا حکم دیا گیاہے۔ یہ ملتِ ابراہیم کیا ہے؟ براہ کرم واضح کریں(ایک قاری الرسالہ، لکھنؤ)۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز جس کو ہم ملتِ ابراہیم یا ابراہیمی ملت کہتے ہیں، وہ وہی ہے جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں تین بڑے آسمانی مذاہب ہیں — دین یہود، دین نصاریٰ، اور دین محمد۔ان تینوں مذاہب کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم تھے۔اسی لیے حضرت ابراہیم کوقرآن میں امام الناس (البقرۃ، 2:124) کہا گیا ہے۔ تینوں مذاہب کے بانی حضرت ابراہیم کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کی اسی جامعیت کی بنا پر قرآن میں ان کو امۃ (النحل، 16:120)کہا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم تقریباًچار ہزار سال پہلے قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔حضرت ابراہیم ایک صاحبِ کتاب پیغمبر تھے(الاعلیٰ، 87:19)۔ اگرچہ ان کی کتاب آج محفوظ نہیں۔ اسی طرح بقیہ تینوں مذاہب کے انبیامیں سے حضرت موسی، اور حضرت مسیح صاحب کتاب پیغمبر تھے۔ تاہم ان کی کتابیں بھی آج پوری طرح محفوظ حالت میں نہیں ہیں۔
حضرت محمد نے اسی بارے میں یہ کہا کہ میں اسی دین کو لے کر آیا ہوں جس دین کو لے کر حضرت ابراہیم آئے تھے(النحل، 16:123)۔ اس اعتبار سے رسول اللہ کا مشن دینِ ابراہیم کی تجدید کا مشن تھا۔ رسول اللہ کو یہ خصوصیت حاصل ہوئی کہ آپ کا لایا ہوا دین ہر اعتبار سے محفوظ دین تھا، اور اب حق کے متلاشی کو اسی دینِ محمدی کی طرف رجوع کرنا ہے۔ کیوں کہ اب اللہ کا دین اپنی محفوظ حالت میں صرف دینِ محمدی میں پایا جاتا ہے۔مکہ کے قریش اگرچہ عملاً شرک پر قائم تھے، لیکن وہ اپنے مذہب کو حضرت ابراہیم کے ساتھ وابستہ کرتے تھے۔ اس لیے وسیع تر پہلو سے قریش بھی اس خطاب میں شامل ہیں۔یہود و نصاریٰ اس خطاب میں براہ راست طور پر شامل تھے، اور قریش بالواسطہ طور پر۔
حج اسلام کی ایک نہایت اہم سالانہ عبادت ہے۔ وہ قمری کیلنڈر کے آخری ماہ ذو الحجہ میں ادا کیا جاتاہے۔ حج کی عبادت کے مراسم بیت اللہ (مکہ) میں یا اس کے آس پاس کے مقامات پر ادا کیے جاتے ہیں جو عرب میں واقع ہے۔ اس عبادت کو تمام عبادت کا جامع کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس میں ہر قسم کے عبادتی پہلو پائے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک اجتماعی پہلو بھی ہے۔ حج کی عبادت میں اجتماعیت کا پہلو بہت نمایاں طو پر موجود ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا (1984) میں حج کی تفصیل دیتے ہوئے یہ جملہ لکھاگیا ہے:
About 2,000,000 persons perform the Hajj each year, and the rite serves as a unifying force in Islam by bringing followers of diverse background together in religious celebration. (V.IV, p. 844)
تقریباً دو ملین آدمی ہر سال حج کرتے ہیں اور یہ عبادت مختلف ملکوں کے مسلمانوں کو ایک مذہبی تقریب میں یکجا کر کے اسلام میں اتحادی طاقت کا کام کرتی ہے۔
قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا(2:125)۔ یعنی خدا نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مثابہ بنایا اور اس کو امن کی جگہ بنا دیا۔ مثابہ کے معنٰی عربی زبان میں تقریباً وہی ہیں جس کو آج کل کی زبان میں مرکز کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں۔ جس کی طرف سب لوگ رجوع کریں، جو سب کا مشترک مرجع اور شیرازہ ہو۔
حج کی عبادت کے لیے ہر سال ساری دنیا کے مسلمان مکہ آتے ہیں۔ 2012 میں ان کی تعداد تقریباً3 ملین تھی۔ حج کے موسم میں مکہ اور اس کے آس پاس ہر طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ان کے حلیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ مگر یہاں آنے کے بعد سب کی سوچ ایک ہوجاتی ہے۔ سب ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ حج کے دوران وہ ان کی تمام توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس طرح حج ایک ایسی عبادت بن جاتا ہے جو اپنے تمام اعمال اور تقریبات کے ساتھ انسان کو اجتماعیت اور مرکزیت کا سبق دے رہا ہے۔
حج کی تاریخ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں ہستیاں وہ ہیں جن کو نہ صرف مسلمان خدا کا پیغمبر مانتے ہیں بلکہ دوسرے بڑے مذاہب کے لوگ بھی ان کو عظیم پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح حج کے عمل کو تاریخی طور پر تقدس اور عظمت کا وہ درجہ مل گیا ہے جو دنیا میں کسی دوسرے عمل کو حاصل نہیں۔
حضرت ابراہیم قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل ان کے صاحبزادے تھے۔ اس وقت عراق ایک شاندار تمدن کا ملک تھا۔ آزر حضرت ابراہیم کے والد اور حضرت اسماعیل کے دادا تھے۔ ان کو عراق کے سرکاری نظام میں اعلیٰ عہد یدار کی حیثیت حاصل تھی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے لیے عراق میں شاندار ترقی کے اعلیٰ مواقع کھلے ہوئے تھے۔ مگر عراق کے مشرکانہ نظام سے وہ موافقت نہ کرسکے۔ ایک خدا کی پرستش کی خاطر انہوں نے اس علاقہ کو چھوڑ دیا جو کئی خداؤں کی پرستش کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہ عراق کے سرسبز ملک کو چھوڑ کر عرب کے خشک صحرا میں چلے گئے جہاں کی سنسان دنیا میں خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ تھی۔ یہاں انہوں نے ایک خدا کے گھر کی تعمیر کی۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے اس عمل کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کئی خداؤں کو اپنا مرجع بنانے کے بجائے ایک خدا کو اپنا مرجع بنایا۔ اور اس مقصد کے لیے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کی جو خدائے واحد کی عبادت کا عالمی مرکز ہے۔ یہی مرکزِ توحید حج کے مراسم کی ادائیگی کا مرکز بھی ہے۔
حج کی عبادت میں جو مراسم ادا کیے جاتے ہیں ان کے بعض پہلوؤں کو دیکھیے۔ حج کے دوران حاجی سب سے زیادہ جو کلمہ بولتا ہے وہ یہ ہے:
لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، إن الحمد والنعمة لک والملک، لا شریک لک ( حاضر ہوں خدایا، میں حاضر ہوں۔ حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے، اور بادشاہی بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔)
حاجی کی زبان سے بار بار یہ الفاظ کہلوا کر تمام لوگوں کے اندر یہ نفسیات پیدا کی جاتی ہے کہ بڑائی صرف ایک اللہ کی ہے۔ اس کے سوا جتنی بڑائیاں ہیں سب اس لیے ہیں کہ وہ سب اسی ایک عظیم تر بڑائی میں گم ہو جائیں۔ یہ احساس اجتماعیت کا سب سے بڑا راز ہے۔ اجتماعیت اور اتحاد ہمیشہ وہاں نہیں ہوتا جہاں ہر آدمی اپنے کو بڑا سمجھ لے۔ اس کے برعکس جہاں تمام لوگ کسی ایک کے حق میں اپنی انفرادی بڑائی سے دست بردار ہو جائیں وہاں اتحاد اور اجتماعیت کے سوا کوئی اور چیز پائی نہیں جاتی ۔ بے اتحادی بڑائیوں کی تقسیم کا نام ہے اور اتحاد بڑائیوں کی وحدت کا۔
اسی طرح حج کا ایک اہم رکن طواف ہے۔ دنیا بھر کے لوگ جو حج کے موسم میں مکہ میں جمع ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا عملی اقرار ہے کہ آدمی اپنی کوششوں کا مرکز و محور صرف ایک نقطہ کو بنائے گا۔ وہ ایک ہی دائرہ میں حرکت کرے گا۔ یہ عین وہی مرکزیت ہے جو مادی سطح پر نظامِ شمسی (solar system) میں نظر آتی ہے۔ نظامِ شمسی کے تمام سیارے ایک ہی سورج کو مرکزی نقطہ بنا کر اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی طرح حج یہ سبق دیتا ہے کہ انسان ایک خدا کو اپنا مرجع بنا کر اس کے دائرے میں گھومے۔
اس کے بعد حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے۔ وہ صفا سے مروہ کی طرف جاتا ہے اور پھر مروہ سے صفا کی طرف لوٹتا ہے۔ اس طرح وہ سات چکر لگاتا ہے۔ یہ عمل کی زبان میں اس بات کا سبق ہے کہ آدمی کی دوڑ دھوپ ایک حد کے اندر بندھی ہوئی ہونی چاہیے۔ اگر آدمی کی دوڑ دھوپ کی کوئی حد نہ ہو تو کوئی ایک طرف بھاگ کر نکل جائے گا اور کوئی دوسری طرف۔ مگر جہاں دوڑ دھوپ کی حد بندی کر دی گئی ہو وہاں ہر آدمی بندھا رہتا ہے۔ وہ بار بار وہیں لوٹ کر آتا ہے جہاں اس کے دوسرے بھائی اپنی سرگرمیاں جاری کیے ہوں۔
یہی حج کے دوسرے تمام مراسم کا حال ہے۔ حج کے تمام مراسم مختلف پہلوؤں سے ایک ہی نشانہ پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ربانی مقناطیس ہے جو ’’لوہے‘‘ کے تمام ٹکڑوں کو ایک نقطہ پر کھینچتے چلا جارہا ہے۔
مختلف ملکوں کے یہ لوگ جب مقامِ حج کے قریب پہنچتے ہیں تو سب کے سب اپنا قومی لباس اتار دیتے ہیں اور سب کے سب ایک ہی مشترک لباس پہن لیتے ہیں جس کو احرام کہا جاتا ہے۔ احرام باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر سلی ہوئی ایک سفید چادر نیچے تہمد کی طرح پہن لی جائے اور اسی طرح ایک سفید چادر اوپر سے جسم پر ڈال لی جائے۔ اس طرح لاکھوں انسان ایک ہی وضع اور ایک ہی رنگ کے لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔
یہ سارے لوگ مختلف مراسم ادا کرتے ہوئے بالآخر عرفات کے وسیع میدان میں اکھٹا ہوتے ہیں۔ اس وقت ایک عجیب منظر ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انسانوں کے تمام فرق اچانک مٹ گئے ہوں۔ انسان اپنے تمام اختلافات کو کھو کر خدائی وحدت میں گم ہوگئے ہیں۔ تمام انسان ایک ہوگئے ہیں جیسے ان کا خدا ایک ہے۔
عرفات کے وسیع میدان میں جب احرام باندھے ہوئے تمام حاجی جمع ہوتے ہیں اس وقت کسی بلندی سے دیکھا جائے تو ایسا نظر آئے گا کہ زبان، رنگ، حیثیت، جنسیت کے فرق کے باوجود سب کے سب انسان بالکل ایک ہوگئے ہیں۔ اس وقت مختلف قومیتیں ایک ہی بڑی قومیت میں ضم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حج اجتماعیت کا اتنا بڑا مظاہرہ ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال غالباً دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی۔
کعبہ مسلمانوں کا قبلۂ عبادت ہے۔ مسلمان ہر روز پانچ وقت اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ گویا ساری دنیا کے مسلمانوں کا عبادتی قبلہ ایک ہی ہے۔ عام حالت میں وہ ایک تصوراتی حقیقت ہوتا ہے۔ مگر حج کے دنوں میں مکہ پہنچ کر وہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت بن جاتا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان یہاں پہنچ کر جب اس کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں تو محسوس طورپر دکھائی دینے لگتا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مشترک قبلہ ایک ہی ہے۔
کعبہ ایک چوکور قسم کی عمارت ہے۔ اس عمارت کے چاروں طرف گول دائرہ میں سارے لوگ گھومـتے ہیں جس کو طواف کہا جاتا ہے۔ وہ صف بہ صف ہو کر اس کے گرد گول دائرہ میں لوگوں کو ایک ہونے اور مل کر کام کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ وہ ایک آواز پر حرکت کرنے کا عملی مظاہرہ ہیں۔
ایکتا کے اس عظیم تربیتی نظام ہی کا یہ بھی ایک ظاہری پہلو ہے کہ تمام لوگوں سے ان کے انفرادی لباس اُتروا کر سب کو ایک ہی سادہ لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ یہاں بادشاہ اور رعایا کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہاں مشرقی لباس اور مغربی لباس کے امتیازات فضا میں گم ہو جاتے ہیں۔ احرام کے مشترک لباس میں تمام لوگ اس طرح نظر آتے ہیں جیسے کہ تمام لوگوں کی صرف ایک حیثیت ہے۔ تمام لوگ صرف ایک خدا کے بندے ہیں۔ اس کے سوا کسی کوکوئی اور حیثیت حاصل نہیں۔
حج کے مقرر ہ مراسم اگرچہ مکہ میں ختم ہو جاتے ہیں مگر بیشتر حاجی حج سے فارغ ہو کر مدینہ بھی جاتے ہیں۔ مدینہ کا قدیم نام یثرب تھا۔ مگر پیغمبر ِ اسلام نے اپنی زندگی کے آخری زمانے میں اس کو اپنا مرکز بنایا۔ اس وقت سے اس کا نام مدینۃ النبی (نبی کا شہر) پڑ گیا۔ مدینہ اسی کااختصار ہے۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی مسجد ہے۔ یہاں آپ کی قبر ہے۔ یہاں آپ کی پیغمبرانہ زندگی کے نشانات بکھرے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں حاجی جب مدینہ پہنچتے ہیں تو یہ ان کے لیے مزید اتحاد اور اجتماعیت کا عظیم سبق بن جاتا ہے۔ یہاں کی مسجد نبوی میں وہ اس یاد کو تازہ کرتے ہیں کہ ان کا رہنما صرف ایک ہے۔ وہ یہاں سے یہ احساس لے کر لوٹتے ہیں کہ ان کے اندر خواہ کتنے ہی جغرافی اور قومی فرق پائے جاتے ہوں، انہیں ایک ہی پیغمبر کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے۔ انہیں ایک مقدس ہستی کو اپنی زندگی کا رہنما بنانا ہے۔ وہ خواہ کتنے ہی زیادہ اور کتنے ہی مختلف ہوں، مگر ان کا خدا بھی ایک ہے اور ان کا پیغمبر بھی ایک۔
قرآن میں حج کے تعلق سے دو آیتیں آئی ہیں۔ ان کا ترجمہ یہ ہے: لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیں گے۔ تاکہ وہ اپنے فائدہ کی جگہوں پر پہنچیں اور چند معلوم دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں(22:27-28)۔یہاں منافع سے مرادایمانی منافع ہیں۔حج کے موقع پر ان ایمانی منافع کا ذریعہ وہ چیزیں ہیں، جن کو قرآن میں دوسرے مقام پر شعائر اللہ (البقرۃ، 2:158) کہا گیا ہے، یعنی اللہ کی یادگاریں۔ اللہ کی یادگاروں سے مراد توحید کے مشن کی وہ تاریخی یادگاریں ہیں، جو پیغمبروں کے ذریعے اس علاقے میں قائم ہوئیں۔ حج کے موقع پر جو مراسم ادا کیے جاتے ہیں، وہ سب اسی پیغمبرانہ تاریخ کی یاد دہانی کے لیے ہیں۔
احرام کا مطلب یہ ہے کہ مادی کلچر سے نکل کر آدمی ربانی کلچر میں داخل ہوگیا۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے حاجی اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اُمّ ِاسماعیل کی طرح اپنے آپ کو دینِ توحید کے لیے وقف کرے گا۔ جمرات پر کنکریاں مار کر وہ علامتی زبان میں یہ کہہ رہا ہوتاہے کہ میں اسی طرح شیطان کو اپنے آپ سے دور بھگاؤں گا، جس طرح پیغمبر ابراہیم نے شیطان کو اپنے آپ سے دور بھگایا ۔ قربانی کرکے حاجی یہ عہد کرتا ہے کہ وہ مادہ پرستی کو چھوڑ کر خدا پرستی کی زندگی اختیار کرے گا۔ عرفات کے میدان میں اکھٹا ہو کر تمام حاجی اس وقت کو یاد کرتے ہیں، جب میدانِ محشر میں اپنا حساب دینے کے لیے حاضر کیے جائیں گے۔آخر میں حاجی پیغمبر ِ اسلام کی اس پکار کو لے کر واپس ہوتا ہے ، جو پیغمبر ِ اسلام نے 1400 سال پہلے کہا تھا:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَنِی رَحْمَةً لِلنَّاسِ کَافَّةً، فَأَدُّوا عَنِّی (المعجم الکبیر للطبرانی، 20/8)۔ یعنی اللہ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، اس لیے تم میری طرف سے تمام انسانوں کو میرا پیغام پہنچادو۔ اس میں سبق کا پہلویہ ہے کہ اے مسلمانو، تم لوگ خدا کے دین کی عالمی پیغام رسانی میں سر گرم ہوجاؤ۔ تمھاری دوڑ دھوپ، تمھارا ٹھہرنا اور چلنا، تمھارا چپ ہونا اور بولنا، سب کچھ اسی دعوتی مشن کے لیے وقف ہوجائے۔
حج کو افضل عبادت کہا گیا ہے۔ یہ کوئی پراسرار بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے۔ حج کی سالانہ عبادت کے دوران جو عمل کیے جاتے ہیں، ان پر غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حج اپنے کثیر فوائد کی بنا پر اس قابل ہے کہ اس کو افضل عبادت کہا جائے۔حج میں ساری دنیا کے مسلمان مختلف علاقوں سے چل کر کعبہ کی سرزمین میں پہنچتے ہیں۔ یہ سفر پتھروں کا سفر نہیں ہوتا، بلکہ زندہ انسانوں کا سفر ہوتا ہے، ایسے انسان جو دیکھنے اور سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح جب یہ لوگ حج کے موسم میں دنیا کے مختلف علاقوں سے نکل کر حجاز کی طرف روانہ ہوتے ہیں، تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک عالمی ہل چل وجود میں آجاتی ہے۔ اس اعتبار سے حج کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر انسانوں کا ایک عبادتی موبلائزیشن ہے۔
تقریباً نصف کروڑ کی تعداد میں جب اہلِ ایمان اپنے گھروں سے نکل کر حج کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں، تو اس دوران بار بار ان کا انٹرایکشن دوسروں سے ہوتا ہے۔ اس انٹرایکشن کے دوران اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف ملکوں کے لوگوں کے درمیان اسلام کے تعارف کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ حاجی کو ا س سفر کے دوران نئی نئی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس سے اُس کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس دوران اُس کی زندگی مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ اس طرح حج کا سفر اس کے لیے دینی سیاحت کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران باربار دوسرے حاجیوں سے اس کے اختلافات ہوتے ہیں۔ مگر قرآن کی آیت (2:197)وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (حج میں لڑائی جھگڑانہیںہے) کے تحت وہ ان اختلافات پر تحمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اس طرح حج اس کے لیے اختلاف کے باوجود اتحاد کی تربیت بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حج ایک جامع عبادت ہے۔ حج کا عمل ایک ایسی تربیت ہے، جس میں وہ تمام پہلو شامل ہوجاتے ہیں، جو اسلام میں ہر فرد سے مطلوب ہیں۔ تاہم حج کے فائدے صرف اس انسان کو ملتے ہیں، جو زندہ شعور کے ساتھ حج کرے۔
پیغمبر اسلام کے طریقہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ کی نظر ہمیشہ حقائق پر ہوتی تھی،نہ کہ ظواہر پر۔ ظواہر میں اگر بے خبری کی بنا پر کوئی فرق ہوجائے تو اس کو آپ ناقابل لحاظ سمجھتے تھے۔ البتہ حقیقی اہمیت والی باتوں کے بارے میں آپ کا رویہ ہمیشہ بہت سخت ہوتا تھا۔
پیغمبر اسلام کے آخری حج کا ایک واقعہ البخاری ، مسلم، ابو داؤد میں تھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ آیا ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آپ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد منیٰ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ آپ کے پاس آتے اور حج کے مسائل دریافت کرتے۔ کوئی کہتا کہ مجھے مسئلہ معلوم نہ تھا چنانچہ میں نے ذبح کرنے سے پہلے بال منڈوا لیا۔ کوئی کہتاکہ میں نے رمی سے پہلے نحر (قربانی) کرلی، وغیرہ۔ آپ ہر ایک سے کہتے کہ کرلو، کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح بار بارلوگ آتے رہے اور تقدیم اور تاخیر کی بابت سوال کرتے رہے۔ آپ ہر ایک سے یہی کہتے کہ کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں، (لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ)مسند احمد، حدیث نمبر 1857۔
ابو داؤد کی روایت (نمبر 2015) میں مزید ان الفا ظ کا اضافہ ہے: کر لو کوئی حرج نہیں۔ حرج تواس شخص کے لیے ہے جو ایک مسلمان کو بے عزت کرے۔ ایسا ہی شخص ظالم ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے حرج کیا اور ہلاک ہوا۔
دین میں اصل اہمیت معانی کی ہے، نہ کہ ظواہر کی۔ ایک شخص ظاہری چیزوں کا زبردست اہتمام کرے مگر معنوی پہلو کے معاملے میں وہ غافل ہو تو ایسا شخص اسلام کی نظر میں بے قیمت ہوجائے گا۔اللہ ہمیشہ آدمی کی نیت کو دیکھتا ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ظاہری چیزوں میں کمی یا فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آدمی کی نیت اچھی نہ ہو تو اللہ کی نظر میں اُس کی کوئی قیمت نہیں، خواہ اُس نے ظواہر کے معاملے میں کتنا ہی زیادہ اہتمام کررکھا ہو۔ ظاہری خوش نمائی سے انسان فریب میں آسکتا ہے مگر ظاہری خوش نمائی کی خدا کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔
ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے :یأتی علی الناس زمانٌ یحجّ أغنیاء الناس للنزاہۃ، وأوساطہم للتّجارۃ، وقرّاؤہم للرّیاء والسُمعۃ، وفقراء ہم للمسئلۃ (کنز العُمّال، حدیث نمبر12363)۔ یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ مال دار لوگ تفریح کے لیے حج کریں گے، اور اُن کے درمیانی درجے کے لوگ تجارت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے علما دکھاوے اور شہرت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے حج کریں گے۔
یہ حدیث بہت ڈرا دینے والی ہے۔ اس کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو خاص طور پر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ اُنھیں غور کرنا چاہیے کہ اُن کا حج اِس حدیثِ رسول کا مصداق تونہیں بن گیا ہے۔ مال دار لوگ سوچیں کہ ان کے حج میں تقویٰ کی اسپرٹ ہے ، یا سیر و تفریح (outing) کی اسپرٹ۔ عام لوگ یہ سوچیں کہ وہ دینی فائدے کے لیے حج کرنے جاتے ہیں یا تجارتی فائدے کے لیے۔ علما غور کریں کہ وہ عبدیت کا سبق لینے کے لیے بیت اللہ جاتے ہیں، یا اپنی پیشوایانہ حیثیت کو بلند کرنے کے لیے۔ اِسی طرح غریب لوگ سوچیں کہ حج کو انھوں نے خدا سے مانگنے کا ذریعہ بنایا ہے، یا انسانوں سے مانگنے کا ذریعہ۔
اِس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ امت پر جب زوال آئے گا تو اُس وقت لوگوں کا حال کیا ہوگا۔ دورِ عروج میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ دین کا روحانی پہلو غالب رہتا ہے اور اس کا مادّی پہلو دبا ہوا ہوتا ہے۔ دورِ زوال میں برعکس طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دین کا روحانی پہلو دب جاتا ہے اور اس کا مادّی پہلو ہر طرف نمایاں ہوجاتا ہے۔ پہلے دور میں ، تقویٰ کی حیثیت اصل کی ہوتی ہے اور مادّی چیزیں صرف ضرورت کے درجے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، دورِزوال میں مادی چیزیں اصل بن جاتی ہیں اور کچھ ظاہری اور نمائشی چیزوں کا نام تقویٰ بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور اسلام کی دوسری عبادات کے ساتھ بھی۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن جب حج ادا کرکے اپنے گھر واپس لوٹتا ہے تو وہ اس دن کی طرح ہوجاتا ہے جب کہ اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا (رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 1820۔
He returns after Hajj like a new-born child.
اِس حدیث کو سمجھنے کے لیے ایک اور حدیث کو دیکھیے۔ ایک اور روایت کے مطابق، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہودی اور مجوسی اور نصرانی بنا دیتے ہیں(صحیح البخاری،حدیث نمبر 1385)۔
ان دونوں حدیثوں پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ حج کی عبادت اگر صحیح اسپرٹ کے ساتھ کی جائے تو وہ حاجی کے لیے وہی چیز بن جاتی ہے جس کو آج کل کی زبان میں ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کہا جاتاہے۔
اصل یہ ہے کہ اپنے ماحول کے اعتبار سے ہر آدمی کی کنڈیشننگ ہوتی رہتی ہے۔ حج کی عبادت اس کنڈیشننگ کو توڑنے کا ذریعہ ہے۔ حج ایک ایسا کورس ہے جو ہر آدمی کی کنڈیشننگ کو ختم کرکے اس کو دوبارہ اس کی اصل فطرت پر پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جو شخص اس سے پہلے مسٹر کنڈیشنڈ (Mr Conditioned) تھا، وہ اب مسٹر نیچر (Mr Nature) بن جاتا ہے۔حج کا یہ فائدہ صرف اس شخص کو ملتا ہے جو حج کی پوری اسپرٹ کے ساتھ حج کی عبادت انجام دے۔ جو آدمی صرف حج کے ظاہری مراسم ادا کرے، اس کے لیے حج صرف ایک آؤٹنگ (outing) ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
حج کے بعد
پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں حج ادا فرمایا۔ اس موقع پرتقریباً تمام صحابہ موجود تھے۔ حج کے دوران آپ نےیوم النحرکو ایک خطبہ دیا۔ یہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔اِس خطبہ میں آپ نے اپنے اصحاب (معاصر اہلِ ایمان) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الغَائِبَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر1741)۔یعنی جو یہاں موجود ہے، وہ ان تک پہنچادے جو یہاں نہیں ہے۔
غالباً پیغمبرِ اسلام کے اس حکم کا یہ نتیجہ تھا کہ اس کے بعد تمام لوگ دعوت الی اللہ کے پیغمبرانہ کام میں لگ گئے۔ انھوں نے اس وقت کی آباددنیا کے بڑے حصہ میں دین کا پیغام پہنچا دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا خاتمہ دراصل ایک نئے عمل کا آغاز ہے۔ جہاں حج کے مراسم ختم ہوتے ہیں، وہاں سے ایک اور زیادہ بڑا حج شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دعوت الی اللہ ہے۔ گویا کہ حج ایک ٹریننگ ہے اور دعوت الی اللہ اس ٹریننگ کا عملی استعمال۔
ایک حدیث کے مطابق، حج کے مراسم حضرت ابراہیم کی زندگی کے مختلف مراحل کا علامتی اعادہ ہیں۔ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی دعوت الی اللہ کی زندگی تھی۔ یہی طریقہ ہر مومن کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ مثلاً احرام کیا ہے۔ وہ سادہ زندگی کی علامت ہے۔ طواف سے مراد ڈیڈیکیشن (dedication) ہے۔ سعی اس بات کا پیغام ہے کہ مومن کی دوڑ دھوپ خدا کی طرف ہونی چاہیے۔ جانور کا ذبیحہ قربانی والی زندگی کی تعلیم ہے۔ رمیِ جمرات کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شیطان کو اپنے آپ سے دور بھگائے۔ لبیک لبیک کہتے ہوئے عرفات کے میدان میں پہنچنا خدا کے سامنے حاضری کو یاد دلاتا ہے، وغیرہ۔
حج بڑا حج ہے اور عمرہ چھوٹا حج۔ دونوں کا پیغام ایک ہے۔ شریعت کی یہ منشا نہیں کہ لوگ بار بار حج اور عمرہ کرتے رہیں۔ شریعت کی منشا یہ ہے کہ لوگ ایک بار حج اور عمرہ کرنے کے بعد اس کی اسپرٹ کے مطابق زندگی گزاریں اور اس کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچائیں۔
٭ ٭ ٭ ٭٭
اسلامی زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھ کر زندگی گزاری جائے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭
کچھ لوگ مجھ سے ملے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے دعا کیجیے، ہم نے بائیسکل کے ذریعہ حج کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس سے پہلے بھی حاجیوں کاکئی گروپ مجھ سےملا ہے، جو اسی قسم کی باتیں کرتا تھا۔ مثلاً کوئی بتاتا تھاکہ ہم اونٹ کے ذریعے حج کا سفر کرنے جارہے ہیں، کوئی بتاتا تھا کہ ہم پیدل حج کا سفر کرنے جارہے ہیں، وغیرہ۔ یہ لوگ حج کی صورت (form) کو جانتے ہیں، مگر وہ حج کی معنویت کو نہیں جانتے۔ قرآن میں آیا ہے کہ حج کے لیے سفر کرو، اور اس کے منافع (الحج، 22:28) کو حاصل کرو۔ منافع کا لفظی مطلب ہے فائدہ (benefit)۔ لیکن اس کا مطلب مادی فائدہ نہیں ہے، بلکہ معنوی فائدہ ہے۔ یعنی حج سے حکمت (wisdom) کا سبق حاصل کرو، حج سے زندگی کی حکمتیں دریافت کرو، حج کی عبادت پر غور کرکے اس سے رازِ حیات کو جانو۔
مثلاً آپ حج کے لیے مکہ جائیں اور کعبہ کا طواف کرتے ہوئے آپ دیکھیں کہ کعبہ کی ابراہیمی عمارت اب وہاں موجود نہیں ہے۔ پیغمبر ابراہیم نے کعبہ کو لمبی صورت میں بنایا تھا، جب کہ موجودہ کعبہ چوکور صورت میں ہے، جو کہ قدیم مکہ کے لوگوں نے بطور خود تعمیر کیا تھا۔ قدیم کعبہ کی تقریباً ایک تہائی جگہ حطیم کی صورت میں غیر مسقف پڑی ہوئی ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اِسی کعبہ کا طواف کیا۔ انھوں نے کعبہ کو دوبارہ ابراہیمی صورت میں بنانے کی کوشش نہیں کی۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی ایک سنت وہ ہے جس کو اسٹیٹس کوازم کہا جاسکتا ہے۔ یعنی موجود حالت پر تعمیرِ نو کی کوشش کرنا۔ گویا کہ موجود حالت کو بدلنے کی تحریک چلانا، سنتِ رسول نہیں ہے۔ بلکہ سنتِ رسول یہ ہے کہ موجود حالت کو چھیڑے بغیر نئی تعمیر کا منصوبہ بنایا جائے۔ موجودہ زمانے کی مسلم تحریکیں سب کی سب اس کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ ہر تحریک کے لیڈر یہ چاہتے ہیں کہ پہلے حالتِ موجودہ (statuesque) کو بدلیں ، اس کے بعد اپنے منصوبہ کے مطابق تعمیرِ نو کا کام کریں، یہ طریقہ بلاشبہ سنتِ رسول کے خلاف ہے۔
اصل یہ ہے کہ ملت کی تعمیرِ نو کا کام مکمل معنوں میں ایک مثبت کام ہے۔ جب آپ دیکھیں کہ صورت موجودہ یہ ہے کہ ملت کے معاملات پر عملاً کسی گروہ کا قبضہ قائم ہے تو ایسی حالت میں تعمیرِنو کا منصوبہ کامیاب طور پر صرف اس وقت کیا جاسکتا ہے، جب کہ اس کو غیر نزاعی منصوبہ کی بنیاد پر انجام دیا جائے۔ اگر نئے قائدین یہ چاہیں کہ پہلے قابض گروہ سےلڑ کر اس کو ہٹائیں، وہ پہلے اسٹیٹس کو کو بدلیں، اور اس کے بعد نئی تعمیر کا آغاز کریں تو ایسا منصوبہ ہمیشہ ٹکراؤ سے شروع ہوگا۔ ایسے منصوبہ کا آغاز تخریب سے شروع ہوگا، نہ کہ تعمیر سے۔ چنانچہ ایسا منصوبہ اپنے آغاز ہی میں نزاعی (controversial) بن جائے گا۔ لوگوں کی طاقت غیر ضروری قسم کے ٹکراؤ پر چلنے لگے گی۔
اس کے برعکس، اگر اسٹیٹس کو کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا کام شروع کردیا جائے تو نزاع کی نوبت نہیں آئے گی، بلکہ تعمیر کا کام اول دن سے تعمیر کے اصول پر جاری ہوجائے گا۔ اب ایک لمحہ بھی تخریب میں ضائع نہیں ہوگا۔
٭ ٭ ٭ ٭٭
مکّہ عرب کا مرکزی شہر تھا۔ قریش نے مکّہ میں دار الندوہ قائم کررکھا تھا۔ دار الندوہ گویا قبائلی پارلیامنٹ تھی۔یہاں تمام اہم اُمور کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ پیغمبرِ اسلام کے دادا عبدالمطلب دارالندوہ کے ممتاز ممبروں میں سے ایک تھے۔عام رواج کے مطابق، ایک حوصلہ مند لیڈر کے لیے پہلا ٹارگیٹ یہ تھا کہ وہ دار الندوہ کا رُکن بننے کی کوشش کرے۔ جو گویا اُس وقت کے عرب میں سیاسی طاقت کے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔لیکن پیغمبرِ اسلام نے دار الندوہ میں داخلے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حتی کہ اُنہوں نے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ اپنے دادا عبد المطلب کی خالی سیٹ اُنہیں دی جائے۔دار الندوہ کے معاملے میں پیغمبرِ اسلام نے وہ پُر امن طریقہ اختیار کیا جس کو اسٹیٹس کوازم کہا جاتا ہے۔ یعنی صورتِ موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرنا، بلکہ جو صورتِ موجودہ ہے اس کو علی حالہٖ قبول کرلینا۔ مگر پیغمبرِ اسلام کا اسٹیٹس کوازم سادہ طورپر صرف اسٹیٹس کوازم نہ تھا بلکہ وہ مثبت اسٹیٹس کوازم (positive status quoism) تھا۔ یعنی وقت کے نظام سے ٹکراؤ کیے بغیر موجود مواقع کو دریافت کرکے اُسے استعمال کریں ۔ اس طریقِ کار کو فارمولا کی زبان میں اس طرح کہاجاسکتا ہے:
Ignore the problems, avail the opportunities.
قرآن کی سورہ البقرۃمیں حج کا حکم آیا ہے، اس سلسلۂ کلام کی ایک آیت یہ ہے: فَإِذَا قَضَیْتُمْ مَنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللَّہَ کَذِکْرِکُمْ آبَاءَکُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْرًا( 2:200)۔ پھر جب تم اپنے حج کے مناسک پورے کرلو تو اﷲ کو یاد کرو جس طرح تم پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔حج کے مناسک کی ادائیگی کے بعد زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کلماتِ ذکر کا بکثرت ورد کیا جائے۔ بلکہ اس سے مراد دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی حج کی ابراہیمی سنت کی ادائیگی کے ذریعے جو اسپرٹ تم نے اپنے اندر پیدا کی ہے اس کو لے کر دنیا میں پھیل جاؤ اور اللہ کے پیغام کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچادو۔اور ہر سال حج کے بعد یہی دعوتی کام کرتے رہو۔
حج کے بعد کے عمل سے مراد دعوت یعنی تمام انسانوں کو خدا کے کریشن پلان سے آگاہ کرنا ہے۔ اس تفسیر کا ماخذ خود سنتِ رسول ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ حجۃ الوداع کا فریضہ ادا کیا۔ پھرحج سے واپسی کے بعد آپ مدینہ آئے وہاں آپ نے ایک مفصل خطاب میں اپنے اصحاب کو یہ پیغام دیا:إن اللہ بعثنی رحمة وکافة(للناس)، فأدوا عنی یرحمکم اللہ، ولاتختلفوا علی کما اختلف الحواریون على عیسى بن مریم (سیرت ابن ہشام: 2/607)۔ بیشک اللہ نے مجھے بھیجا ہے رحمت بنا کر اور تمام انسانوں کے لیے، تو تم میری طرف سے لوگوں کو پہنچادو، اللہ تمھارے اوپر رحم فرمائے، اور تم میرے ساتھ اختلاف نہ کرو جیسا عیسی بن مریم کے حواریوں نے کیا ۔
امتِ مسلمہ کا مشن دعوت الی اللہ ہے۔ حج کا مقصد یہ ہے کہ امت کے افراد ہر سال مکہ کے تاریخی مقام پر مجتمع ہوں، یہاں وہ مختلف اعمال کے علامتی اعادہ کے ذریعے پیغمبر کی دعوتی سنت کو یاد کریں۔ اور پھر دعوت الی اللہ کی اسپرٹ کو لے کر دنیا میں پھیل جائیں، جیسا کہ اصحابِ رسول اس دعوتی مقصد کے لیے دنیا میں پھیلے تھے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 570 عیسوی میں مکے میں پیدا ہوئے، اور 632 عیسوی میں مدینے میں آپ کی وفات ہوئی۔آپ کا زمانہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام سے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد کا زمانہ ہے۔ آپ پیغمبر ابراہیم کی دعا (سورۃ البقرۃ،2:129)کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ قرآن میں آپ کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو جو یکسو تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا(16:123)۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں، یہ در اصل ایک تاریخی حقیقت کا اعلان ہے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب وہ لوگ تھے، جن پر ایک تاریخ منتہی (culminate) ہوئی تھی۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی غیر معمولی قربانی کے ذریعے مکے میں ایک تاریخی عمل (historical process) کا آغاز کیا تھا۔ یہ تاریخی عمل اپنے فطری مراحل سے گزرتے ہوئےچھٹی صدی عیسوی میں اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچا تھا۔ اس وقت عرب میں وہ مخصوص افراد پیدا ہوئے، جو اپنے رول کی بنا پر رسول اور اصحابِ رسول کہے جاتے ہیں۔
رسول اور اصحابِ رسول کی قربانیوں کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں ایک اور تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا۔ اس تاریخی عمل کی تکمیل پر دوبارہ تقریباً ہزار سال کا زمانہ گزرا۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ عمل اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔ اب دوبارہ ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے، جو اس بات کا مصداق ہو کہ بعد کو بننے والا تاریخی عمل اس پر منتہی ہوا ہو۔ اصحابِ رسول کے بعد یہ دوسرا گروہ ہوگا، جس کو حدیثِ رسول میں پیشگی طور پر اخوانِ رسول (صحیح مسلم، حدیث نمبر 249) کا نام دیا گیا ہے۔ گویا کہ پیغمبرِ اسلام اور آپ کے اصحاب اخوانِ ابراہیم تھے، اور بعد کو بننے والا گروہ اخوانِ محمد ہوگا۔ اخوانِ ابراہیم نے دعوتی مشن کو آگے بڑھایا تھا، اب اخوانِ محمد اسی دعوتی مشن کو اگلے مرحلے تک پہنچائیں گے۔
òòòòòòòòò
حج کا سفر خدا کی طرف سفر ہے ۔ وہ دنیا کی زندگی میں اپنے رب سے قریب ہونے کی انتہائی شکل ہے ۔ دوسری عبادتیں اللہ تعالی کی یاد ہیں، جب کہ حج خود اللہ تعالی تک پہونچ جانا ہے ۔ عام عبادت اگر غیب کی سطح پر خدا کی عبادت ہے تو ج شہود کی سطح پر خدا کی عبادت ۔ حج حق تعالی سے ملاقات ہے ۔آدمی جب سفر کر کے مقامات حج تک پہنچتا ہے تو اس پر خاص طرح کی ربانی کیفیات طاری ہوتی ہے ۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر خدا کی دنیا‘‘ میں پہنچ گیا ہے ۔ وہ اپنے رب کو چھو رہا ہے ۔ وہ اس کے گرد گھوم رہا ہے ۔ وہ اس کی طرف دوڑ رہا ہے ۔ وہ اس کی خاطر سفر کر رہا ہے ۔ وہ اس کے حضور اپنی قربانی پیش کر رہا ہے ۔ وہ اس کے دشمن پر کنکریاں مار رہا ہے ۔ وہ اس سے مانگ رہا ہے جو کچھ وہ مانگنا چاہتا ہے ۔ وہ اس سے پارہا ہے جو کچھ اسے پانا چاہیے ۔