اپنی تعمیر آپ (Apni Tameer Aap)
اپنی تعمیر آپ
(Leaflet)
مولانا وحید الدین خاں
قرآن کی سورہ نمبر 3 میں ایک اصول اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:إن تصبروا وتتّقوا لایضرّکم کیدہم شیئاً )آل عمران (120 یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو تو دوسروں کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔
قرآن کی یہ آیت فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں سازش (conspiracy)کا ہونا، اصل مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ صبر اور تقویٰ کا نہ ہوناہے۔ جن لوگوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود ہو، اُن کے لیے دوسروں کی سازش اور دشمنی غیر موثر ہو کر رہ جائے گی، وہ اُن کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔
صبر کوئی انفعالی صفت (inaction)نہیں۔ صبر کا مطلب وہ اعلیٰ انسانی صفت ہے جس کو سیلف کنٹرول (self-control) کہاجاتا ہے، یعنی دوسروں کے پیدا کردہ مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور خود اپنی مثبت سوچ کے تحت اپنی زندگی کا منصوبہ بنانا۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی سوچ خود رُخی سوچ (self-oriented thinking) نہ ہو، بلکہ وہ خدا رُخی سوچ (God-oriented thinking) ہو۔ سماج کے اندر اُس کا سلوک خدا کی تعلیمات کے مطابق ہو، نہ کہ اپنی خواہشات اور جذبات کے مطابق۔ جو لوگ صبر اور تقویٰ کی اِس روش کو اختیار کریں، اُن کے خلاف دوسروں کی منفی کارروائیاں اپنے آپ بے اثر ہوجائیں گی۔ کیوں کہ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی غیر مطلوب واقعہ ہمیشہ دو طرفہ کارروائی کے نتیجے میں پیش آتا ہے، نہ کہ صرف یک طرفہ کارروائی کے نتیجے میں۔
یہ فطرت کا ایک قانون ہے کہ کوئی شخص یا گروہ معتدل ذہن کے تحت کسی کے خلاف کوئی مخالفانہ کارروائی نہیں کرتا۔ ایک شخص یا گروہ کسی دوسرے کے خلاف کوئی منفی کارروائی صرف اُس وقت کرتاہے، جب کہ اُس کو بھڑکا دیا گیا ہو۔ ہر منفی کارروائی کسی اشتعال انگیز کارروائی کے نتیجے میں جوابی طورپر پیش آتی ہے۔ صبر اور تقوی آدمی کو اِس سے روکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ صبر اور تقویٰ کسی شخص یا گروہ کے لیے حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے۔ ایسا شخص یا گروہ کسی بھی حال میں دوسرے کو مشتعل کرنے والا کام نہیں کرے گا، اِس لیے فطری طور پر وہ دوسرے کی طرف سے پیش آنے والی جوابی کارروائی سے بھی محفوظ رہے گا۔
یہ فطرت کا قانون ہے جس کو خود خالقِ فطرت نے مقرر کیا ہے۔ ایسی حالت میں سازش کے خلاف چیخ و پکار کرنا ایک بے فائدہ کام ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو داخلی طورپر مستحکم بنایا جائے، خود اپنے اندر زیادہ سے زیادہ صبر اور تقویٰ کی اسپرٹ پیدا کی جائے۔ اِس کے بعد شکایت کے اسباب اِس طرح ختم ہوجائیں گے، جیسے کہ وہ تھے ہی نہیں۔
خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) کے مطابق، زندگی میں ہمیشہ دو مختلف قسم کی چیزیں موجود رہتی ہیں— مسائل (problems) اور مواقع (opportunities)۔ جس طرح زندگی میں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں، اسی طرح زندگی میں ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی کا طریقہ، اسلام کے مطابق، یہ ہے کہ — مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع کو استعمال کیا جائے(Ignore the problems, avail the opportunities)مسائل سے الجھنا، صرف اُس وقت کو ضائع کرنا ہے جو اِس دنیا میں ہم کو زندگی کی مثبت تعمیر کے لیے ملا ہوا ہے۔ یہی دانش مندی ہے اور یہی اسلام کا طریقہ بھی۔