مومن، متواضع انسان

روایت میں آتا ہے کہ عمر فاروق نے اپنے آخری وقت میں یہ کلمہ کہا تھا:أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ عُثْمَانَ قَالَ:آخِرُ كَلِمَةٍ قَالَهَا عُمَرُ حَتَّى قَضَى:وَيْلِي وَوَيْلُ أُمِّي إِنْ لَمْ يَغْفِرِ اللهُ لِي. وَيْلِي وَوَيْلُ أُمِّي إِنْ لَمْ يَغْفِرِ اللهُ لِي. وَيْلِي وَوَيْلُ أُمِّي إِنْ لَمْ يَغْفِرِ اللهُ لِي (الطبقات الکبریٰ، جلد3، صفحہ275)۔ یعنی ابان ، اپنے باپ عثمان بن عفان سے روایت کرتے ہیں ، آخری کلمہ، جو حضرت عمر فاروق نے اپنے آخری وقت میں کہا تھا:بربادی ہے میرے لیے ، اوربربادی ہے میری ماں کے لیے ، اگر اللہ نے میری مغفرت نہ کی۔ بربادی ہے میرے لیے ، اوربربادی ہے میری ماں کےلیے ، اگر اللہ نے میری مغفرت نہ کی۔ بربادی ہے میرے لیے ، اوربربادی ہے میری ماں کے لیے ، اگر اللہ نے میری مغفرت نہ کی۔

واقعات بتاتے ہیں کہ اکثر صحابہ کا یہی احساس تھا۔ وہ اپنے بارے میں اسی قسم کے الفاظ بولتے تھے۔ حتی کہ وہ لوگ بھی جن کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مومن آخری حد تک متواضع انسان ہوتا ہے۔ اللہ کی عظمت کا احساس اس پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے کچھ اور اللہ کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کیس سراپا عجز کا کیس ہے، اور اس کے مقابلے میں اللہ رب العالمین کا کیس سراپا قدرت ۔ اللہ رب العالمین دینے والا ہے، اور انسان اس کے مقابلے میں صرف پانے والا۔ اللہ رب العالمین پورے معنوں میں ایک کامل ہستی ہے، اس کے مقابلے میں انسان غیر کامل ہستی۔

اس قسم کی سوچ مومن کو ایک مختلف انسان بنادیتی ہے۔ وہ اللہ رب العالمین کے ذکر و دعا میں جینے والا بن جاتاہے۔ ایک مومن کی اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے اندریہ احساس ڈیولپ کرے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (35:15)۔ یعنی اے لوگو، تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بےنیاز ہے، تعریف والا ہے۔ یہ کیفیت جب انسان پر غالب آجائے، تو اس کا وہی حال ہوتا ہے، جس کی تصویر ہم کو اصحابِ رسول کے یہاں نظر آتی ہے۔

تزکیہ کیا ہے

تزکیہ دراصل شخصیت کی دینی تعمیر کا دوسرا نام ہے۔ شخصیت کی تعمیر کا یہ عمل کسی خودساختہ کورس کے ذریعہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ قرآن و سنت کے طریقہ کو اختیار کرنے سے انجام پاتا ہے۔ تزکیہ کا لفظی مطلب ہے پاک کرنا (purification)۔ پاک کرنا کیا ہے، اس کا جواب ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے۔اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے:ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی بنادیتے ہیں ، یا نصرانی یا مجوسی (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔

اس حدیث رسول میں یہودی ، نصرانی، اور مجوسی کا لفظ علامتی طور پر آیا ہے۔ اس سے مراد انسان کا پیدائشی ماحول ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ہر آدمی ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ ماحول مسلسل طور پر اس کی کنڈیشننگ (conditioning)کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کو پورے معنوں میں ایک کنڈیشنڈ انسان بنا دیتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کی طرف سے آدمی فطرت (nature) پر پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن پیدا ہونےکے بعد وہ اپنے ماحول سے متاثر ہونے لگتاہے۔ یہاں تک کہ جب وہ پختگی کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ جو انسان مسٹر نیچر کے طور پر پیدا ہوا تھا، وہ مسٹر کنڈیشنڈ انسان بن جاتا ہے۔ پیدائش کے وقت وہ ایک سادہ انسان ہوتا ہے، لیکن بعد کو ماحول کے اثر سے وہ اپنے ماحول کی پیداوار (product) بن جاتا ہے۔

تزکیہ یہ ہے کہ آدمی اپنا نگراں آپ بن جائے۔وہ اپنے اندر خود احتسابی کی صلاحیت پیدا کرے۔ وہ اپنے آپ کو ماحول کی کنڈیشننگ سے بچاکر اپنی اصل فطرت پر خود کو قائم رکھے۔ تزکیہ ایک ایسا عمل ہے جو آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے۔ آدمی کے اندر جب کوئی منفی سوچ آئے، جب وہ کسی بہکاوے (temptation) سے متاثر ہوکر فطرت کے راستے سے ہٹنے لگے تو اس کا داخلی محاسب فوراً اس کو چوکنا کردے، اور وہ دوبارہ اپنی فطرت کی طرف واپس آجائے۔ اسی عمل کا نام تزکیہ ہے، اور یہی عمل آدمی کو ابدی جنت کا مستحق انسان بناتا ہے(طٰہٰ، 20:76)۔

تین باتیں

میرے نزدیک قرآن اور حدیث میں تین باتیں ایسی ہیں ، جن کی واضح تشریح ابھی تک نہیں کی گئی۔ وہ تین باتیں یہ ہیں :

(1) سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔

(2) إِنَّ اللهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بیشک اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔

(3) فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ، لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4242)۔ یعنی (قیامت کے قریب) دہیماء کا فتنہ ہوگا، وہ اس امت میں سے کسی کو نہیں چھوڑے گا، مگر وہ اس کو ہٹ (hit)کرے گا۔

یہ تینوں باتیں پیشین گوئی کی نوعیت کی ہیں ۔ مگر آج تک اس پیشین گوئی کی تعیین نہیں ہوئی۔ جن الفاظ میں یہ تینوں پیشین گوئیاں آئی ہیں ، ان سے بظاہر یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ تینوں واقعات پیش آچکے ہیں ۔ مگر کوئی ابھی تک یہ نہ بتاسکا کہ ان پیشین گوئیوں سے متعین طور پر کیا مراد ہے۔ اس مدت میں بے شمار سطریں لکھی گئی ہیں ، اور بے شمار باتیں بولی گئی ہیں ، مگر اسلام کی مذکورہ پیشین گوئیوں کے بارے میں کوئی تحقیقی بات اب تک سامنے نہ آسکی۔ یہ قوم کے فکری افلاس کی ایک نئی قسم ہے۔ وہ یہ ہے — الفاظ کی بھرمار کے باوجود معانی کاگم ہونا۔

راقم الحروف کا تجربہ ہے کہ پرنٹنگ پریس کے دور میں جتنے کاغذ سیاہ کیے گئے ہیں ، اور جتنے الفاظ بولے یا لکھے گئے ہیں ، وہ صرف بیسویں صدی میں اتنے زیادہ ہیں ، جو پچھلی پوری تاریخ میں موجود نہ تھے۔ مگر دورِ جدید کے معیار کے مطابق، بامعنی کلام کا بظاہر وجود نظر نہیں آتا ہے۔ آپ کسی بھی تقریر یا تحریر کو دیکھیے، تو آپ خود محسوس کریں گے کہ اس میں کوئی ٹیک اوے قاری کے لیے موجود نہیں ۔

امت كا امتحان

پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم كا مشن دعوت الى الله كا مشن تھا۔اس كام كي مطلوب انجام دهي كے ليے آپ كو يه حكم دياگيا كه آپ هرگز رُكُون نه كريں ۔ اس سلسله ميں قرآن كي آيت يه هے:وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (11:113)۔ یعنی اور ان کی طرف نہ جھکو جنھوں نے ظلم کیا، ورنہ تم کو آگ پکڑ لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ، پھر تم کہیں مدد نہ پاؤ گے۔

ركون كے معني هيں جھكاؤ (tilt)، الگ ہونا۔ یعنی قوم كے تقاضے، لوگوں كا دباؤ، حالات كي مصلحت، اس قسم كي مختلف چيزيں داعي كے اندر رُكون (دعوت سے دوری)كا ذهن پيدا كرتي هيں ۔ ليكن پيغمبر كو سختي كے ساتھ حكم تھا كه وه كسي بھي دباؤ كا اثر قبول نه كرے۔وه سختي كے ساتھ دعوت كے بتائے هوئے اصولوں پر قائم رهتے هوئے اپنا دعوتي مشن جاري ركھے، وہ حالات کے اثر سے جھکاؤکا شکارنہ ہو۔

دعوت كے مشن ميں استقامت كا يه اصول جس طرح پيغمبر كے ليے تھا اسي طرح پيغمبر كي امت كے ليے بھي هے۔ اس معامله ميں امت اپنے پيغمبر كي نمائنده هے اور نمائنده كو يه حق نهيں هوتا كه وه اس معامله ميں كسي بھي جھكاؤ كو قبو ل كركے اصل مشن ميں كسي قسم كي تبديلي كرے۔ اگر وه تبديلي كا ارتكاب كرے تو اس كے ليے بھي يقيني طورپر اسي پكڑ كا انديشه هے جس كا ذكر اوپر كي آيت ميں پيغمبر كے ليے كياگيا۔دعوت الي الله كے كام كے ليے يه لازمي شرط هے۔ اس شرط كے بغير دعوت الي الله كا كام درست طور پر انجام نهيں ديا جاسكتا،اور جب دعوت الي الله كا كام درست طور پر انجام نه ديا جائے تو وه مقصد ادا نهيں هوتا جو دعوت الي الله كا مطلوب هے، يعني قوموں پر الله كي حجت ادا نهيں هوتي (النساء ، 4:165)۔

دعوت الي الله كا كام ايك مختلف نوعيت كا كام هے۔ اس ميں دوسرے تمام تقاضوں كو الگ ركھنا پڑتا هے۔ مثلاً قومي تقاضے، مادي تقاضے، عوامي تقاضے، وغيره۔ ان تقاضوں سے بچتے هوئے دعوت كاكام كرنا بلا شبه ايك سخت كام هے۔ ليكن امت كو هر حال ميں يه كرنا هے كه وه دوسرے تمام تقاضوں كا اثر قبول نه كرتے هوئے اس خدائي مشن كو جاري ركھے۔ يهي امت كا امتحان هے۔ اس امتحان ميں پورا هونا امت محمدي كو امت محمدي بناتا هے اور اگر امت اس امتحان ميں ناكام رهے تو خود يه امر مشتبه هوجائے گا كه وه الله كےيهاں امت محمدي كي حيثيت سے قبول كي جائے گي يا نهيں ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

دریافت کی عظمت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کا واقعہ ہے۔ آپ کے چچا ابو طالب نے ایک بار آپ کو بلایا اور کہا کہ قوم کے ساتھ مصالحت کا انداز اختیار کرو۔اِس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:يَا عَمِّ ‌لَوْ ‌وُضِعَتِ ‌الشَّمْسُ فِي يَمِينِي وَالْقَمَرُ فِي يَسَارِي مَا تَرَكْتُ الْأَمْر (سیرۃ ابن اسحاق، صفحہ 154)۔ یعنی اے میرے چچا، اگر یہ لوگ ایسا کریں کہ وہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور میرے بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں ، تب بھی میں اِس کام کو نہیں چھوڑ وں گا۔

اِس واقعے سے ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ— جتنی بڑی دریافت، اتنی بڑی عزیمت (determination)۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ قول بھی ایک سنتِ رسول ہے۔ وہ ایک واقعے کی صورت میں ایک عظیم حقیقت کو بتاتا ہے، وہ یہ کہ ایک بڑی دریافت تمام دوسری چیزوں کو چھوٹا کردیتی ہے۔ ایسا آدمی کسی قسم کے رکون (ہود،11:113) کا تحمل نہیں کرسکتا۔

 اگر آدمی ایک ایسی حقیقت پر کھڑا ہوا ہو جو اس کے لیے سورج اور چاند سے بھی زیادہ بڑی ہے تو ہر دوسری چیز اس کی نظر میں چھوٹی ہوجائے گی۔ ایسا آدمی کسی بھی عذر کو لے کر اپنے موقف کے معاملے میں مصالحت کا انداز اختیار نہیں کرسکتا۔اس کے برعکس، اگر آپ کسی شخص کے اندر یہ بات پائیں کہ وہ قوم کے اندر برائی دیکھتا ہے، لیکن وہ اپنے مادی انٹرسٹ کی بنا پر اس کی مذمت نہیں کرتا تو سمجھ لیجیے کہ اس کو دین کے نام پر جو چیز ملی ہے، وہ اس کے نزدیک عملاً اتنی اہم نہیں کہ مادی مصلحت اس کے لیے قربان کردی جائے۔

آفاقی معرفت

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (41:53)۔ یعنی مستقبل میں ہم ان کو دکھائیں گےاپنی نشانیاں ، آفاق میں اورانفس میں ۔ یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔

قرآن کی اس آیت میں مستقبل میں پیش آنے والے ایک واقعے کی خبر دی گئی ہے۔یہ وہی چیز ہے، جس کو تاریخ میں ایج آف ریزن (age of reason) کہا جاتا ہے۔یعنی قرآن سے پہلے جو دور تھا، وہ ایسا دور تھا، جس میں سننے اور ماننے کی بنیاد پر ایمان کو قبول کیا جاتاتھا۔ لیکن قرآن کے بعد وہ دور آنے والا تھا، جو عقلی طرز فکر کا دور ہوگا۔ اس دور میں ریزن کی بنیاد پر ایمان کو مانا جائے گا۔

کائنات میں غور و فکر کرنا اس حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ کائنات(universe) خالق کے لیے اپنا ثبوت آپ ہے۔ کائنات میں فطرت کے جن حقائق کو بیان کیا گیا تھا، وہ بعد کے مطالعے کے ذریعے عین ثابت شدہ حقیقت بن گئی ہیں ۔

 قرآن کی اس آیت میں مستقبل کے ایک واقعے کی پیشگی خبر دی گئی ہے۔ جب یہ واقعہ ظاہر ہوگا تو قرآن کا دعویٰ آخری طور پر ثابت ہوجائے گا کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے، اور انسان پر لازم ہے کہ وہ اس خالق کو مان کر دنیا میں اپنی زندگی گزارے۔ اس آیت کے نزول کے وقت یہ واقعہ پیش نہیں آیا تھا، وہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کا یہ واقعہ کب اور کہاں ظاہر ہوگا۔ ہماری تفسیروں میں اس کا جواب نہیں ملتا۔ قرآن کے قاری پر لازم ہے کہ وہ مستقبل کے اس واقعے کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔   

غور کیا جائے تو مغرب میں پیدا ہونے والی طبیعیاتی سائنس اس سوال کا جواب ہے۔ آئن اسٹائن نے کہا ہے کہ گلیلیو گلیلی طبیعیاتی سائنس کا فادر (father of modern science) ہے، یعنی اس سائنس کا آغاز کرنے والا۔ سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ آغاز گلیلیو گلیلی(1564-1642ء) کی دریافت سے ہوا ۔ اس سے پہلے بطور واقعہ(potentially) سائنس موجود تھی۔ لیکن اب تک وہ انسان کے علم میں نہیں آئی تھی۔ گلیلیو کے زمانے میں سائنس کا علم ڈیولپ ہوا۔ اس کے بعد پہلی بار دوربینی مطالعہ کے ذریعے انسان نے شمسی نظام (solar system)کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ دوربینی مطالعے کے ذریعے پہلی بار انسان نے یہ جانا کہ سورج سولر سسٹم کا مرکز ہے۔ زمین سولر سسٹم کا مرکز نہیں ہے، جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا۔

حدیث میں کہا گیا ہے کہ اللہ فاجر (سیکولر) انسان کے ذریعے دین کی مدد کرے گا (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر1096)۔ میرے اندازے کے مطابق، جدید دور میں یہ سیکولر انسان غالباً گلیلیو گلیلی ہے۔ گلیلیو گلیلی نے دوربین کے ذریعے نظام شمسی کا مطالعہ کیا تو یہ حقیقت دریافت ہوئی کہ شمسی نظام سورج مرکزی ہے، نہ کہ زمین مرکزی۔ اس دریافت کے بعد فلکیاتی علم میں ایک نیا انقلابی دور آیا۔غالباً یہ اٹلی کا سائنس داں گلیلیو گلیلی تھا، جس کے بعد فلکیاتی مشاہدے کا دروازہ کھلا۔

 اسی طرح سے برٹش سائنس داں نیوٹن (1643-1727ء) کے ذریعے سائنسی مطالعے کا سفر مزید آگےبڑھا۔ اس قسم کے تمام سائنس داں بظاہر قرآن کی مذکورہ آیت کی تائید کرتے ہیں ۔ کائنات کا یہ طریقِ مطالعہ جو شروع ہوا، اس کو سائنسی مطالعہ کہا جاتا ہے۔اس کے بعد ہی وہ دور آیا، جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے۔ اسی مطالعے کے ذریعےاعلی سطح پر آفاق اور انفس کی نشانیوں (دلائل الٰہی) کا اظہارہوا، جس کی پیشین گوئی قرآن میں کی گئی تھی (فصلت، 41:53)۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا عیسوی کیلنڈر کے مطابق 609 میں ہوئی۔ تقریباً اسی زمانے میں یورپ میں ایک اور عمل شروع ہوا، جس کانقطہ انتہا (culmination)یہ تھا کہ انگریزی زبان دنیا کی انٹرنیشنل زبان بن جائے، اور کائنات میں بالقوۃ موجود نشانیاں سائنسی تحقیق کے ذریعے سامنے آجائیں ۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اس آفاقی معرفت کا ظہور عملاً واقع ہوچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اس کو دریافت کیا جائے، اوراس کو اسلامی دعوت کے لیے استعمال کیا جائے۔

عالمی انذار

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے آگاہ کرنےوالا ہو۔ اس موضوع پر قرآن کی ایک اور آیت یہ ہے:وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ (6:19)۔ یعنی اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے کہ میں بھی اس کے ذریعہ سے تم کو آگاہ کروں ، اور وہ بھی جن کو یہ پہنچے۔

قرآن کی ان دونوں آیتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اس لیے اترا تھا کہ وہ اہل عالم کے لیے منذِر بنے، یعنی آگاہ کرنے والا۔ رسول اور اصحابِ رسول نے قرآن کے زمانۂ نزول میں براہ راست طو رپر قرآن کو اپنے معاصرین تک پہنچایا۔ اس کے بعد دوسرا مطلوب یہ تھا کہ رسول اور اصحابِ رسول کے بعد کے اہل ایمان آنے والی نسلوں تک قرآن کی تعلیمات کو پہنچائیں ۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں پرنٹنگ پریس اور اشاعت کے عالمی ذرائع وجود میں نہیں آئے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے معاصرین تک قرآن کو اس طرح پہنچایا کہ قرآن کو حافظے (memory) میں محفوظ کرلیا، اور اہل عرب تک وہ اس کو پڑھ کر پہنچاتے رہے۔ گویا کہ وہ اپنے زمانے کے عربی داں لوگوں کے لیے قرآن کے مقری (reciter) بنے رہے۔مگر بعد کے زمانے میں انذار کا یہ پراسس عملا ًرک گیا۔

 اب سوال یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے حالات کا علم اللہ رب العالمین کوبلا شبہ تھا۔ پھر اللہ رب العالمین نے ا س کے لیےکیا انتظام کیا ۔ اس سوال کا جواب احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ احادیثِ رسول کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں پیشین گوئی کے طور پر یہ بتایا گیاتھا کہ بعد کے زمانے میں غیر اہل ایمان میں دین کے مؤیدین (supporters) پیدا ہوں گے۔ یہ پیشین گوئی حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کےالفاظ یہ ہیں :إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا هُمْ مِنْ أهْلِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ یعنی، اللہ تعالیٰ ضرور اسلام کی تائید ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔

مزید مطالعہ کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سپورٹر وہ تھے، جنھوں نے بعد کے زمانے میں پرنٹنگ پریس اور کاغذ (paper) جیسی چیزیں ایجاد کیں ۔ انھوں نے ایسی ٹکنالوجی دریافت کی، جس کے ذریعے یہ ہوا کہ دنیا میں ایک نیا دور آگیا، جس کو ایج آف کمیونی کیشن کہا جاتا ہے۔   

اس معاملے میں قرآن کے ساتھ احادیثِ رسول کو شامل کرکے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے کےلوگوں نے تائید کا وہ کام انجام دیا، جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی۔اب اہل ایمان کا یہ کام تھا کہ وہ غیر اہل دین کی اس تائید کو دریافت کریں ، اور اس کو عالمی سطح پر انسانوں کو خدا کے منصوبۂ تخلیق سے باخبر کرنے کے لیے استعمال کریں ۔ یعنی بعد کے اہل ایمان کو یہ کرنا تھا کہ وہ قرآن کے محفوظ عربی متن کا قابلِ فہم ترجمہ ہر زبان میں تیار کریں ، اور بعد کے پیداشدہ ذرائع، پرنٹنگ پریس اور کمیونی کیشن کو استعمال کرکے قرآن کو لوگوں کی قابلِ فہم زبان میں ساری دنیا میں پہنچائیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دورِ اول کے اہل ایمان قرآن کے ابلاغ کے لیے مُقری (reciter)بنے تھے، بعد کے اہل ایمان مطبوعہ تراجم ِقرآن کے عالمی ڈسٹری بیوٹر بن جائیں ۔

یہ اللہ رب العالمین کی پلاننگ تھی۔ جس طرح زراعت کے لیے پہلے آسمان سے بارش ہوتی ہے، اس کے بعد کسان اس پانی کو استعمال کرکے مٹی (soil) پر زرعی عمل کرتا ہے، وہ اناج اگاتا ہے،اور پھر سارے انسان کو غذا فراہم ہوتی ہے۔ اسی طرح بعد کے اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ جب دنیا میں دورِ ابلاغ(age of communication) آئے، تو وہ احادیثِ رسول کی پیشین گوئی کو اس کے تطبیقی پہلو (applied way) کے اعتبار سے پڑھیں ، اور اللہ رب العالمین کی پلاننگ کو سمجھ کر آگے بڑھیں ، وہ ایج آف کمیو نی کیشن کو بھر پور طور پر استعمال کریں ، اور اللہ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچادیں ۔ اب آخر وقت آگیا ہے کہ اس منصوبہ کو مکمل کیا جائے، اور جدید ذرائع کو استعمال کرکے لوگوں کی قابلِ فہم زبان میں قرآن کو عالمی سطح پر پہنچا دیا جائے۔

ٹیم اسپرٹ

قرآن کا ایک اسلوب ہے— وقتی ریفرنس میں ایک ابدی اصول بتانا۔ اس کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی خدا ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔

قرآن کی اس آیت میں قتال کی بات وقتی ریفرنس کے طور پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں ایک ابدی اصول کو بتایا گیا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی نتیجہ خیز اجتماعی کام انجام دینے کے لیے ہمیشہ ٹیم اسپرٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ایسے افراد جو کامل اتحاد کے ساتھ کام کریں ۔ اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہو، اس لیے وہ باہم متحد ہوجائیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف فطرت کا لازمی حصہ ہے۔ اس لیے ٹیم اسپرٹ والا اتحاد صرف ان لوگوں کے درمیان وقوع میں آتا ہے جو اختلاف کے باوجود متحد ہونا جانتے ہوں ۔

کوئی ٹیم خواہ وہ کتنی ہی زیادہ معیاری ٹیم ہو، لیکن ٹیم کے افراد میں اختلاف کا پیدا ہونا، ایک فطری امر ہے۔ اس دنیا میں ہر ٹیم زندہ انسانوں کی ٹیم ہوتی ہے، وہ مشینی روبوٹ کی ٹیم نہیں ہوتی۔ اگر مشینی روبوٹ کی ٹیم بنائی جائے تو اس کے اندر کبھی اختلاف واقع نہیں ہوگا۔ لیکن زندہ انسانوں کی ٹیم میں اختلاف کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ ایسی حالت میں اصل ضرورت یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا نہ ہو۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگ اختلاف کے باوجود متحد ہو کر رہنا جانتے ہوں ۔

اختلاف اپنی ذات میں کوئی بری چیز نہیں ، بلکہ وہ صحت مند انسان کی علامت ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اختلاف سے نا موافق اثر نہ لے، بلکہ وہ اختلاف کو مثبت انداز میں مینج کرنا جانتا ہو۔ اختلاف سے منفی اثر لینا، معاملے کو بگاڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اختلاف کو مثبت انداز میں مینج کرنا، ٹیم کی طاقت کا ذریعہ ہے۔

امت کا زوال

موجودہ زمانے میں امت کے زوال کا اصل سبب یہ ہے کہ قرآن و حدیث ان کے لیے غیررہنما کتاب بن گئی ہے۔ آج کے مسلمانوں کے لیے قرآن بس ایک مقدس کتاب ہے۔ اور جہاں تک حدیث کا سوال ہے، حدیث ان کے لیے فقہی مسائل کا ماخذ ہے۔ مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل سبب یہی ہے۔

قرآن میں کئی مقامات پر بتایا گیا ہے کہ رسول کو خدا نے کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا ہے۔ یہ دونوں مسلمانوں کے لیے ابدی رہنمائی کا ذریعہ تھیں ۔ لیکن مسلمانوں نے اپنے دورِ زوال میں ان دونوں کو اپنے لیے رہنما بنانے کے بجائے برکت اور جزئی فقہ کا ماخذ سمجھ لیا۔ اس معاملے میں مسلمانوں کا حال وہی ہوا، جو رسول اللہ نے پیشگی طور پر آگاہ کردیا تھا:تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ(مؤطا امام مالک، حدیث نمبر 1874)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں ، تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم ان دونوں چیزوں کو پکڑے رہوگے، وہ دو چیزیں ہیں :اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔

مگر بعدکے زمانے میں جب مسلمانوں نے کتاب و سنت کو ترک کردیا، تو اس کے بعد جو ہوا ، وہ یہ تھا کہ مسلمان حقیقی خدائی رہنمائی سے محروم ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اندھیروں میں بھٹک کر صراط مستقیم سے ڈی ریل (derail)ہوگئے۔ ان کا سفر مطلوب راستے پر ہونے کے بجائے غیر مطلوب راستے پرہونے لگا۔ مطلوب راستہ تھا، مثلاً خدا کی معرفت اور دعوت۔ مگر مسلمان اس راستے سے ہٹ کر دنیوی مسائل میں لگ گئے، اور دعوت کے بجائے مدعو کو اپنا دشمن قرار دے دیا۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ مسلمان اپنے دنیوی مفاد کے لیے اسلام کو استعمال کرنے لگے۔ مثلاً علیحدہ مسلم لینڈ (seprate Muslim land)کی لڑائی کو اسلام اور ایمان کے لیے جہاد کرنا قرار دے دیا۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو مذکورہ حدیث میں گمراہی کہا گیا ہے۔

زوال کا ظاہرہ

مومن کون ہے ۔ قرآن کےمطابق، مومن وہ ہے جس کا یہ حال ہو کہ جب اس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کی ہیبت سے بندۂ مومن کا دِل دہل اُٹھے ۔ جب اس کو قرآن کی آیتیں سنائی جائیں تو اس کو اضافۂ ایمان کی غذا ملنے لگے ۔ اس کے لیے خدا ایک ایسی لازوال ہستی بن جائے جس پر وہ کامل بھروسہ کر سکتا ہو (8:2)۔ ایمان ، خدا اور بندے کا مقامِ اتصال ہے ۔ اس اتصال (communion) کا حقیقی طور پر وقوع میں آنا ہی ان کیفیات کے ظہور میں آنے کی یقینی ضمانت ہے ۔ پاور ہاؤس اور بلب کا ملاپ اگر نتیجہ پیدا کیے بغیر نہیں رہتا تو خدا اور بندے کا ملاپ کیوں کر نتیجہ سے خالی رہ جائے گا۔

مگر موجودہ زمانہ میں اسلام کی ایسی عجیب وغریب قسم وجود میں آئی ہے جس میں سب کچھ نظر آتا ہے مگر وہی چیز نہیں جس کو حقیقتاً ’’اسلام‘‘ کہا گیا ہے ۔ ہمارے زمانے کے عجائب میں یہ عجو بہ سب سے زیادہ حیرت ناک ہے کہ ہر طرف اسلام کی دھوم مچی ہوئی ہے ، مگر حقیقی اسلام کا کہیں وجود نہیں — نمازیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ، مگر ’’صلاۃِ خشوع ‘‘سے مسجدیں خالی ہیں ۔ اسلامی مدرسوں کی عمارتیں بلند ہو رہی ہیں مگر وہ لوگ نہیں پیدا ہو رہے ہیں جو اپنی زندگیوں میں بھی اسلام کی تعمیر کی ضرورت محسو س کرتے ہوں ۔ اسلام کے نعروں سے فضائیں گونج رہی ہیں مگر اس اسلام کا وجود نہیں جو تنہائیوں میں آدمی کو خدا کی یاد میں بے چین کر دے ۔ دوسروں کی پیٹھ پر اسلام کے نام پر کوڑے لگ رہے ہیں مگر اپنی ’’پیٹھ ‘‘ کو خدا کے حوالے کرنے والا کوئی نہیں ۔ اسلامی تقریروں کی بہار آرہی ہے مگر خدا کی زمین ایسے لوگوں سے خالی ہے جن کو خدا کے خوف نے بے زبان کر رکھا ہو ۔ ’’احتسابِ کائنات‘‘ کے ہنگامے ہرطرف برپاہیں مگر احتسابِ نفس کی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہوتی ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے جسم سے اس کی روح نکال دی گئی ہے ۔ اور خود ساختہ طور پر اسلام کا ایسا ایڈیشن تیار کر لیا گیا ہے جو بظاہر اسلام ہے مگر وہی چیز اس میں موجود نہیں جو خدا اور رسول کے نزدیک اسلام کا اصل مقصود تھی ۔

اس کو سمجھنے کے لیے یہود کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے ۔ کیوں کہ جو قومیں کتاب الٰہی کی حامل ہوں ، ان کے بگاڑ کے اسباب ہمیشہ یکساں ہوتے ہیں ۔ یہود کی بابت قرآن میں کہا گیا ہے کہ بعد کے دور میں ان کے اندر قساوت (سخت دلی ) آگئی(2:74)۔ قساوت کی حالت یہ نہیں ہے کہ دین اپنی صورت کے اعتبار سے باقی نہ رہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ دین کی صورتیں ہمیشہ مکمل طور پر باقی رہتی ہیں البتہ قوم کے اندر سے ان کی روح نکل جاتی ہے ۔قرآن کے مطابق، قساوت دراصل ذکر اورخشیت کے خاتمہ کا نام ہے (39:22-23)،نہ کہ ظواہرِ دین کے خاتمہ کا ۔

قوم کے اندر یہ بگاڑ انکارِ دین کے نام پر نہیں آتا ، بلکہ اقرارِ دین کےساتھ آتا ہے ۔ قرآن کے بیان کے مطابق شیطان ان کو ایسی ایسی تاویلات سمجھاتا ہے جس کی روشنی میں ان کو اپنا انحراف حقیقی دین نظر آنے لگے، اور حقیقی دین بے دینی ۔ وہ اپنے اعمال کو خوبصورت الفاظ میں بیان کر کے اس کو اپنے لیے مزین کر لیتے ہیں (فاطر، 35:8) ۔اس تزئین کی سب سے زیادہ معروف صورت وہ ہے جس کو قرآن میں يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ ‌عَن ‌مَّوَاضِعِهِ (5:13)فرمایا گیا ہے۔ یعنی، کلام میں تحریف (distortion) کرنا ۔ کلام کو اس کے محل سے پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ کلام کا ایسا مطلب ومعنی بیان کیا جائے جو متکلم کی مرادنہ ہو ۔ گویا یہود کی تزئین یہ تھی کہ وہ اپنی قساوت ، باالفاظ دیگر اپنی بے روح دین داری کو لفظی تاویلات سے ایسا خوش نما بنا لیتے تھے کہ وہی اصل دین نظر آنے لگے ۔

تحریف (لفظ کو اس کے موقع ومحل سے پھیرنے )کی صور ت عام طور پر وہی ہوتی ہے جس کو موجودہ زمانہ میں غلط تعبیر (misinterpretation) کہا جاتا ہے ۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے ۔ یہود کو یہ خبر دی گئی تھی کہ تم کو تمام اقوام عالم پر فضیلت دی گئی ہے (البقرہ، 2:47)۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے تم کو دنیا میں اپنی نمائندگی کے لیے چن لیا ہے۔یعنی تم کو اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تم خدائی تعلیمات کے حامل بنو اور اس کو خدا کی طرف سے دوسری اقوام تک پہنچاؤ۔ اپنے اصل مفہوم میں یہ فضیلت بر بنائے ذمہ داری تھی ۔ مگر یہود نے اس کو نسلی فضیلت کے معنی میں لے لیا۔ یہود کی نسل میں پیدا ہونا اس بات کے لیے کافی بن گیا کہ آدمی اس فضیلت کا مستحق ہو اور خدا کے انعامات اس کو حاصل ہوں ۔ اس تحریفکو قرآن میں ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے:وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوۡ نَصَٰرَىٰ تَهۡتَدُواْۗ قُلۡ بَلۡ مِلَّةَ إِبۡرَٰهِـۧمَ ‌حَنِيفًاۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ (2:135)۔ یعنی، وہ کہتے ہیں کہ یہودی یا نصرانی ہو جاؤ تو ہدایت یاب ہو جاؤ گے ۔ کہہ دو نہیں ۔ بلکہ ہم پیروی کرتے ہیں دینِ ابراہیم کی اور وہ شرک کرنے والوں میں نہ تھا۔

گویا ملتِ ابراہیمی کا فرد وہ ہے جو شرک سے اپنے کو بچائے اور سچی توحید پر قائم ہو ۔ محض نسل ابراہیمی میں ہونے سے کوئی ملتِ ابراہیمی کا فرد نہیں بن جاتا۔ یہود کو جو ’’فضیلت ‘‘ دی گئی وہ اپنے اصل مفہوم میں ایک سنگین ذمہ داری کو یاد دلانے والی چیز تھی مگر موقع ومحل سے ہٹانے کے بعد وہ بے خوفی کا محرک بن گئی۔ اللہ کا ایک حکم جو خشیت پیدا کرنے کا سبب بنتا ، وہ قساوت پیدا کرنے والا بن گیا— یہ تھی یہود کی تحریف ۔ اپنی اس قسم کی تحریفوں کے ذریعہ انہوں نے دینِ خداوندی کو ایک بے روح ڈھانچہ بنا کر رکھ دیا تھا۔

حدیث رسول میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ مسلمان ضرور پچھلی امتوں کے طریقوں کا اتباع کریں گے۔ قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوں گے تو یہ امت بھی وہاں داخل ہوجائے گی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7320)۔ چنانچہ مسلمانوں میں آج وہ سارے انحراف دیکھے جاسکتے ہیں جو سابق اہلِ کتاب میں پائے جاتے تھے ۔ جس طرح یہود نے سمجھ لیا تھا کہ وہ اللہ کے خصوصی بندے ہیں اور وہ ضرور نجات پائیں گے ۔ اسی طرح ہم نے بھي یہ عقید ہ قائم کر لیا کہ — مسلمان خیر امت ہیں اور وہ سب کے سب مرحوم ومغفور ہیں ۔

یہ بات بجائے خود صد فیصد درست ہے مگر وہ مسلم امت کے بارے میں ہے، نہ کہ کسی مسلم نسل کے بارے میں ۔ امت کو نسل کے معنی میں لینا بلا شبہ يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ ‌عَن ‌مَّوَاضِعِهِ (4:46) کا مصداق ہے، یعنی کلام کواس کے اصل منشا سےبدل دینا۔ اپنے نظریاتی مفہوم میں یہ بات ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے ۔ مگر جب اس کو نسلی مفہوم میں لیا گیا تو وہ صرف قلبی قساوت اور بےخوفی کا محرک بن کر رہ گئی — اسلام کا نشانہ یہ ہے کہ وہ انسان کو تربیت دے کر اس قابل بنائے کہ وہ اپنی ذاتی فکر (self-thinking) کے ذریعہ اپنے اندر مطلوب ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔

تین ادوار

انسان کی زندگی تین ادوار میں بٹی ہوئی ہے— بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ بچپن میں آدمی خود اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے مستقبل کی پلاننگ کرے۔ ماں باپ اکثر لاڈ پیار میں بچپن کے دور کو ضائع کردیتے ہیں ۔ خالق انسانوں کو پیدا کررہا ہے، تاکہ وہ زندگی میں کوئی رول ادا کریں ۔ مگر صحیح پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر لوگ اپنی زندگی کے امکان کو اویل نہیں کرپاتے۔ وہ نامکمل زندگی گزار کر مرجاتے ہیں ۔

زندگی رب العالمین کی طرف سے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس تحفے کو بھرپور طور پر استعمال کرے۔ وہ اس سے اپنے آپ کو بچائے کہ وہ رب العالمین کی طرف سے آئی ہوئی زندگی کو کھودے۔ انسان جب زندگی کو وجود میں نہیں لاسکتا تو اس کو حق بھی نہیں کہ وہ ملی ہوئی زندگی کو ضائع کردے۔

اصل یہ ہے کہ ہر انسان کو موجودہ دورِ حیات میں بھرپور طور پر یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ درست پلاننگ کے ذریعےوہ اپنے کو منصوبۂ تخلیق کے مطابق کامیاب کرسکے۔اس کی زندگی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے تجربات ہوتے ہیں ، جو دوسرے انسان کی زندگی میں نہیں ہوتے ہیں ۔ گویا کہ ہر انسان اپنے ساتھ ایک پوری لائبریری لیے ہوئے ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے زندگی کی یہ لائبریری ٹیسٹ کا پیپر ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان کو اپنے لیے ابدی کامیابی لکھنی ہے یا ابدی ناکامی۔

قیامت وہ دن ہے، جب کہ ہر انسان کی لکھی یا بغیر لکھی کتابیں ، کھل کر سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر انسان یہ جانے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کھویا ، اور کیا پایا۔ اس نے کس موقع کو اویل کیا، او ر کس موقع کو ضائع کردیا۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہوگا کہ کوئی بھی انسان اس پوزیشن میں نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی کو ری رائٹ (re-write) کرے۔ کامیاب انسان وہ ہے، جو زندگی کی اس نوعیت کو سمجھے، اور اس کے مطابق زندگی گزارے۔

تمام مسائل کا حل

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن انسانی زندگی کے تمام مسائل حل کرتا ہے۔ میں نے اس طرح کی بہت سی تحریریں پڑھی ہیں ، اور تقریریں سنی ہیں ۔ لیکن ان حضرات کی تقریروں اور تحریروں میں آج تک اس کا کوئی متعین حوالہ نہیں ملا۔ ان کے اصاغر و اکابر نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ یہ تصور قرآن کی کس آیت سے ماخوذ ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ صرف دعویٰ ہے، نہ کہ دلیل ۔ اسی طرح ان لوگوں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ دنیا کے وہ کون سے لوگ ہیں ، جنھوں نے اپنے مسائل دنیوی کو قرآن کے ذریعے حل کیا ہو۔ کم سے کم میرے علم میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ۔

 میری ملاقات ایک بار مصر کے ایک پروفیسر سے ہوئی، وہ الاخوان المسلمون کے سرگرم فرد تھے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ الاخوان المسلمون کے مشہور فرد سید قطب کی کتاب العدالۃ الاجتماعیة فی الاسلام (Social Justice in Islam) میں نے پڑھی ہے۔ اس میں سوشل جسٹس کا کوئی ڈھانچہ(well-structured system) نہیں بتایا گیا ہے۔ وہ مصری عربی اور انگریزی دونوں زبانیں جانتے تھے۔ ان سے دیر تک گفتگو ہوئی، لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ اس کتاب میں کوئی ویل اسٹرکچرڈ سسٹم واقعتاً موجود نہیں ۔ انھوں نے میرے اس اظہار کی تائید کی کہ کتاب میں کچھ انفرادی واقعات کو لے کر ان کو اجتماعی نظام کے ہم معنی بنادیا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان بجائے خود خلافِ واقعہ ہے کہ قرآن میں دنیوی مسائل کا حل موجود ہے۔ قرآن حیاتِ آخرت کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے دار الامتحان ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کس طرح زندگی گزارے کہ وہ آخرت کی دنیا میں فلاح یافتہ زندگی کا مالک بن جائے۔ قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا دارالامتحان ہے، اور آخرت کی دنیا دار الفلاح۔ یہ مسلمانوں کا خودساختہ طریقہ ہے کہ وہ فلاحِ دنیا کا ادارہ قائم کرتے ہیں ، اور اس کا اسلامی نام رکھ دیتے ہیں ۔

مذہبی رواداری، تالیف ِقلب

آج کل تالیف قلب اور مذہبی رواداری کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ مذہبی رواداری اور تالیف قلب ایک ہیں یا دونوں میں کوئی فرق ہے۔ ( سید اقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو(

جہاں تک میں سمجھتا ہوں رواداری (tolerance) اورتالیف قلب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں ۔ البتہ رواداری ایک سیکولراصطلاح (term) ہے، اور تالیف قلب ایک مذہبی اصطلاح۔تاہم دونوں میں ایک فرق ہے۔ رواداری کا لفظ صرف باہمی ٹالرنس کا مفہوم رکھتا ہے۔ جب کہ تالیف قلب (softening of the heart) یک طرفہ خیر خواہی کے اصول پر قائم ہے۔ تالیف قلب مذہبی معاملات میں رواداری کانام ہے۔ اس کے برعکس، رواداری زیادہ عام ہے۔ رواداری کا مطلب ہے ایسے طرز عمل ، اعتقاد اور خیالات، وغیرہ کو گوارا کرنا جن سے آپ کو اتفاق نہ ہو یا جو آپ کے نزدیک قابل قبول نہ ہوں ۔اس کا تعلق زندگی کے ہر معاملے سے ہے، خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔

 رواداری کا طریقہ مزاج کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، وہ قانون کے زور پر قائم نہیں ہوتا۔ یہ دراصل اپنی حقیقت کے اعتبار سے سماجی اخلاقیات کا معاملہ ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر ایک کو مکمل آزادی حاصل ہو، تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے رویے کا انتخاب کرسکے۔

 اس معاملے میں صحت مند طریقہ (healthy method) یہ ہے کہ ہر ایک آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرے،ا ور اسی کے ساتھ وہ دل سے اس پر راضی ہو کہ دوسرے کو بھی یہ حق ہے کہ وہ جس رائے کو بھی درست سمجھتا ہے، اس کو وہ آزادانہ طور پر ظاہر کرے۔ صحت مند رواداری یہ ہے کہ کسی فریق پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے۔ ہر ایک جیو اور جینے دو (live and let live) کے اصول پر قائم رہے۔ ہر ایک کا مزاج یہ ہو کہ وہ جس چیز کو اپنا حق سمجھتا ہے، وہی حق وہ دوسروں کو بھی دے ۔ ادنیٰ درجے میں بھی کسی کے ساتھ نا انصافی کا سلوک نہ کیا جائے۔

مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح

29

معاذ بن جبل رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں نے كها كه اے خدا كے رسول مجھے كوئي ايسا عمل بتائيے جو مجھ كو جنت سے قريب كردے اور مجھ كو جهنم سے دور كردے۔ آپ نے فرمايا كه تم نے بهت بڑي بات پوچھي هے۔ البته وه آسان هے جس كے لیے خدا اسے آسان كردے:تم الله كي عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسي چيز كو شريك نه ٹھهراؤ۔ اور تم نماز قائم كرو اور تم زكاة ادا كرو۔ اور تم رمضان كے روزے ركھو اور تم بيت الله كا حج كرو۔ پھر آپ نے فرمايا::كيا ميں تم كو خير كے دروازے نه بتاؤں ۔ روزه ڈھال هے۔ اور صدقه گناه كو بجھاتا هے جس طرح سے پاني آگ كو بجھاتا هے۔ اور آدمي كا رات كے وقت نماز پڑھنا۔ پھر آپ نے قرآن كي (دو)آیتیں تلاوت کیں :ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں ۔ وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈر سے اور امید سے۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو کسی کو خبر نہیں کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے (32:16-17)۔ پھر آپ نے فرمايا كه كيا ميں تم كو نه بتاؤں تمام چيزوں كا سرا اور اس كا ستون اور اس كي چوٹي۔ ميں نے كها كه هاں ، اے خدا كے رسول۔ آپ نے فرمايا كه معامله كا سرا اسلام هے اور اس كا ستون نماز هے اور اس كي چوٹي جهاد هے۔ پھر آپ نے فرمايا كه كيا ميں تم كو ان سب كي اصل نه بتادوں ۔ ميں نے كها كه هاں ، اے خدا كے رسول۔ پھر آپ نے اپني زبان پكڑي اور كها:اس سے اپنے آپ كو روكو۔ ميں نے كها كه كيا هم پكڑے جائيں گے اس پر جو هم بولتےهيں ۔ آپ نے فرمايا كه اے معاذ تم كو تمهاري ماں گم كرے۔ لوگوں كو جهنم ميں ، اوندھے منه، ان کی زبان سے نکلا ہوا بے فائدہ کلام هي گرائے گا (سنن الترمذي، حدیث نمبر 2616 ؛ سنن ابن ماجه، حدیث نمبر3973؛ مسند احمد،حدیث نمبر 10164)۔

زبان کو آپ نے کیوں اتنا زیادہ اہمیت دی۔ زبان آدمی کے پورے وجود کا خلاصہ ہے، آدمی کو چاہیے کہ زبان کی حفاظت کا آخری حد تک اہتمام کرے۔زبان آدمي كي اندروني شخصيت كي نمائنده هے۔ جو آدمي غير ذمه دارانه انداز ميں كلام كرے اور بے روك ٹوك اپني زبان كو دوسروں كے خلاف استعمال كرے وه اپنے اس عمل سے اس بات كا ثبوت ديتا هے كه اس كے اندر ايك ايسي شخصيت چھپي هوئي هے جو الله كے خوف اورآخرت كے انديشے سے خالي هے۔ ايسا انسان هر دوسري غلطي كو كرنے كے لیے بھي جري رهے گا۔

اس كے برعكس، جو آدمي اپني زبان كے استعمال ميں محتاط هو۔ جو اپني زبان سے بھلائي اور انصاف كي بات بولے ايسا آدمي اپنے اس عمل سے بتاتا هے كه وه ايك صالح انسان هے۔ وه اپنے آپ كو خدا كي ماتحتی ميں دیے هوئے هے۔ وه اپنے آپ كو خدا كے حكم كا پابند بنائے هوئے هے۔ زبان انساني شخصيت كي علامت هے جو آدمي زبان كے استعمال كے معامله ميں خدا كي مرضي كا پابند هو وه اپني زندگي كے دوسرے معاملات ميں بھي يقيني طورپر خدا كي مرضي كا پابند هوگا۔ وه هر معامله ميں خدا كا مطلوب بند ہ بنا هوا هوگا۔

30

ابوامامه رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جس نے الله كے لیے محبت كي اور الله كے لیے ناپسند كيا اور اس نے الله كے لیے ديا اور الله كے لیے روكا تو اس نے ايمان كامل كرليا (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4681)۔الترمذي نے اس حديث كو تقديم وتاخير كے ساتھ معاذ بن انس سے نقل كيا هے۔ اس كے آخر ميں يه الفاظ هيں :اس آدمي نے اپنا ايمان كامل كرليا (سنن الترمذي، حدیث نمبر 2521)۔

ايمان كا آغاز خدائي حقيقتوں كے اعتراف سے هوتا هے۔ يه اعتراف اگر سچا هے تو اس كے لازمي نتيجے كے طورپر آدمي كي زندگي ميں انقلاب آجاتاهے۔ اس كي پسند اور ناپسند پر خدا كا رنگ چھا جاتا هے(البقرہ، 2:138)۔ اس كے تعلقات اور اس كے لين دين خدائي احكام كے تابع هوجاتے هيں ۔ آدمي كي پسند اور ناپسند يا اس كے دينے يا نه دينے پر ايمان كا اثر جتنا كم هوگا اتنا هي اس كا ايمان نامكمل سمجھا جائے گا۔

ایمان کے معاملے میں اصل مطلوب چیز حق کا اتباع ہے۔ مومن وہ ہے جو حق کو شعوری طورپر دریافت کرے اور پھر عملاً اُس پر قائم ہوجائے۔ مگر یہ فیصلہ کوئی سادہ فیصلہ نہیں ۔ جب ایک شخص اتباعِ حق کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فیصلہ ایک ایسی دنیا میں ہوتا ہے جہاں طرح طرح کے مسائل ہیں ۔ کبھی کوئی خارجی چیز اس کی خواہش (desire) یا اس کی انا (ego) کو بھڑکاتی ہے اور اس کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی خواہش سے متاثر ہو کر حق کے راستے سے ہٹ جائے۔ اِسی طرح کبھی خارجی مشکلات سے اس کے ارادے میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو دوبارہ ثابت قدمی پر آمادہ کیا جائے۔ايمانِ كامل كا مطلب يه هے كه آدمي نے اپنے رب سے جو عهد كيا تھا اس كي اس نے عملي تصديق كردي۔ وه هر حال ميں اپنے ايماني اقرار پر ثابت قدم رہا۔

31

ابو ذر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: الله كے نزديك سب سے افضل عمل يه هے: الله كے لیے محبت كرنا اور الله كے لیےناپسند كرنا (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4599)۔

 آدمي كےاندر سب سے زياده طاقتور جذبه محبت اور ناپسندیدگی كا جذبه هے۔ آدمي كے تمام اعمال انهيں دونوں جذبات كے زير اثر واقع هوتے هيں ۔ يه جذبات الله كے تابع هوں تو آدمي كي زندگي اسلامي زندگي بنے گي، اور اگر يه جذبات غير خدا كے تابع هوں تو آدمي كي زندگي غيراسلامي زندگي بن جائے گي۔ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی انسان کا سب کچھ ہوجائے۔ وہ اپنی محبت ، دشمنی اور انا، وغیرہ جیسے جذبات کو مکمل طور پر اللہ کے حکم کے تابع کردے۔ یہ اللہ کے نزدیک افضل ترین عمل ہے۔

32

ابو هريره رضي الله كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:مسلم وه هے جس كي زبان سے اور اس كے هاتھ سے مسلمان محفوظ هوں ۔ اور مومن وه هے جس سے لوگ اپنے خون اور اپنے مال كے معامله ميں محفوظ هوں (سنن الترمذي، حدیث نمبر 2627؛ سنن النسائي، حدیث نمبر 4996)۔

مسند احمد (حدیث نمبر 7086)میں ’’مسلم‘‘ کی جگہ’’الناس‘‘ كا لفظ هے۔یعنی تمام انسان کی جان ومال محفوظ ہو۔ مومن ومسلم كون هے۔ يه وه انسان هے جو اس حقيقت كو دريافت كرے كه خدا اس كا خالق ومالك هے اور موت كے بعد آخرت كي دنيا ميں وه اس كے سارے كارنامهٔ حيات كا حساب لے گا۔ يه عقيده مومن كے اندر آخرت كي پكڑ كا شديد انديشه پيدا كرديتا هے۔ يه انديشه اس كو مجبور كرديتاهے كه وه لوگوں كے ساتھ معامله كرنے ميں پوري طرح محتاط رهے۔ وه اپني زبان سے لوگوں كو تكليف نه پهنچائے۔ انساني حقوق كے معامله ميں وه كسي كو شكايت كا موقع نه دے۔ اپنے آپ كو خدا كي پكڑ سے بچانے كا جذبه اس كوانسانوں كے معامله ميں آخري حد تك بے ضرر بنا ديتا هے۔

33

يه روايت البيهقي نےفضاله بن عبید كے واسطے سے نقل كيا هے۔ اس ميں يه اضافه هے:مجاهد وه هے جو الله كي اطاعت كے لیے اپنے نفس سے جهاد كرے اور مهاجروه هے جو خطاؤں اور گناهوں كو چھوڑ دے (شعب الایمان للبيهقي، حدیث نمبر10611)۔

جهاد كا اصل محرك الله كي پكڑ کاانديشه هے۔ اس لیے حقيقي مجاهد وه هے جو سب سے پهلے خود اپني ذات كے ساتھ جهاد كرے، وه اپنے نفس كو زير كركے اپني زندگي كو خدا كے تابع بنادے۔ اسي طرح هجرت (ترك) كا محرك بھي خدا كا خوف هے۔ اصلي مهاجر وه هے جس كو خدا كي پكڑ كا انديشه هرگناه كو چھوڑنے پر مجبور كردے۔

34

انس بن مالك رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم جب بھي هميں خطاب كرتے تو بهت كم ايسا هوتا كه وه يه نه فرمائيں :اس كا ايمان نهيں جس كے اندر امانت نه هو۔ اور اس كا دين دين نهيں جس كے اندر عهد كي پابندی نه هو (شعب الایمان للبيهقي،حدیث نمبر4354؛ مسند احمد، حدیث نمبر 12383)۔

جب ايك آدمي ايمان واسلام كو اختيار كرے تو اس كے لازمي نتيجے كے طورپر اس كي زندگي ميں ايك انقلاب آجاتاهے۔ وه مكمل طورپر ايك با اصول انسان بن جاتا هے۔ ايسے شخص كے لیے ناممكن هوتا هے كه وه كوئي ايسا رويه اختيار كرے جو امانت (trust)كے خلاف هو۔ عهد كرنے كے بعدعهد كا توڑنا اس كو ايسا لگتا هے جيسے اس نے خود اپنے آپ كو توڑ ڈالا۔

35

عباده بن صامت رضي الله عنه كهتےهيں كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتےهوئے سنا: جو يه گواهي دے كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور يه كه محمد الله كے رسول هيں ، اس پر الله نے جهنم كي آگ كو حرام كرديا هے(صحیح مسلم، حدیث نمبر29؛ سنن الترمذی، حدیث نمبر 2638)۔

قول اور شهادت يا كهنے اورگواهي دينے ميں يه فرق هے كه قول صرف زبان سے هوتا هے مگر شهادت وه هے جس ميں آدمي كا پورا وجود شامل هوجائے۔ جس كو دل كے پورے اطمينان اور ذهن كي كامل تصديق كے ساتھ انجام ديا جائے۔ ايسي شهادت آدمي كي پوري شخصيت كا احاطه كیے هوئے هوتي هے۔ وه جب كهتا هے كه لا إله إلا الله محمد رسول الله تو يه اس كے لیے صرف ايك زباني قول نهيں هوتا بلكه اس واقعه كا اعلان هوتا هے كه اس نے اپني زندگي كے بارے ميں ايك نيا انقلابي فيصله كيا هے۔ ايك ايسا فيصله جس سے اس كی زندگي كا كوئي بھي پہلو اور كوئي بھي شعبه خالي نهيں ۔

36

عثمان بن عفان رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:جس شخص پر موت آئے او روه جانتا هو كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں تو وه جنت ميں داخل هوگا (صحیح مسلم، حدیث نمبر26)۔

اس حديث ميں علم كا لفظ آيا هے۔ كوئي لفظ كبھي اپنے ابتدائي مفهوم ميں هوتا هے اور كبھي اپنے انتهائي مفهوم ميں ۔ يهاں علم كا يه لفظ اپنے انتهائي مفہوم ميں هے۔ اس كا مطلب يه هے كه جو آدمي اس حقيقتِ واقعه كو كامل طورپر جان لے كه اس كائنات كاخالق اور مالك اور معبود صرف ايك الله هے۔ اور يه جاننا اتنا بھر پور هو كه اسي كے مطابق اس كي زندگي گزرے اور اسي پر اس كي موت آئے تو ايسا انسان خدائي قانون كے مطابق اس كا مستحق هے كه اس كو جنت ميں داخل كيا جائے۔

37

جابر بن عبدالله رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: دو چيزيں لازم كرنے والي هيں ۔ايك شخص نے كها كه اے خدا كے رسول ،دو لازم كرنے والي چيزيں كيا هيں ۔ آپ نے فرمايا كه جو آدمي اس حال ميں مرے كه وه الله كے ساتھ كسي چيز كو شريك كرتا تھا تو وه جهنم ميں داخل هوگا۔ اور جو آدمي اس حال ميں مرے كه وه الله كے ساتھ كسي چيز كو شريک نهيں كرتا تھا تو وه جنت ميں داخل هوگا (صحیح مسلم، حدیث نمبر93)۔

خدا كے ساتھ كسي كو شريك كرنا سب سے بڑا گناه هے۔ اور خدا كے ساتھ كسي كو شريك نہ كرنا سب سے بڑي نيكي۔ اس كي حقيقت يه هے كه انسان اپني فطرت كے اعتبار سے يه چاهتا هے كه وه كسي چيز كو اپنا سب كچھ بنائے۔ اس كو اپني زندگي ميں سب سے اونچا مقام دے۔ اپنے خوف اور محبت كے جذبات كو سب سے زياده اس كے ساتھ وابسته كرے۔ وهي اس كے لیے اعتماد اور توكل كا سرچشمه هو۔ يه درجه صرف ايك خدا كو دينا توحيد هے۔

 او رخدا كے سوا كسي اور سے اس قسم كي وابستگي اختيار كرنا شرك هے۔ خدا كا يه فيصله هے كه اس كي دنيا ميں اهل توحيد كو نجات ملے اور اهل شرك فلاح ونجات سے محروم هو كر ره جائيں ۔

38

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه هم رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس بيٹھے هوئے تھے اور همارے ساتھ اس مجلس ميں ابو بكر او رعمر رضي الله عنهما بھي تھے۔پھر رسول الله صلي الله عليه وسلم همارے درميان سے اٹھے۔ پھر آپ نے واپسي ميں دير لگائي تو هم كو اندیشہ هوا كه ہماری غیر موجودگی میں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ پس هم گھبرا گئے اور هم اٹھ گئے۔اور ميں گھبرانے والوں ميں پهلا شخص تھا۔ پھر ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كو تلاش كرتےهوئے نكلا۔ يهاں تك كه ميں بنو نجارسے تعلق رکھنے والے ایک انصار كے باغ تك پهنچا ۔باغ كے چاروں طرف دیوار تھي۔ ميں دیوار كے ارد گرد گھوما كه كيا اس كا كوئي دروازه هے، مگر ميں نے نهيں پايا۔ پھر ميں نےديكھا كه ايك نالي هے جو ايك بيروني كنويں سے اندر جارهي هے۔ وه كهتےهيں كه ميں نے كوشش كي ،يهاں تك كه ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس پهنچ گيا۔ تو آپ نے فرمايا كه ابو هريره؟ تو انهوں نےكها :هاں ، اے الله كے رسول۔ آپ نے كها كه تمهارا كيا حال هے۔ ميں نے كها كه آپ همارے درميان تھے۔ پھر آپ اٹھے اور واپسي ميں دير كي۔ اس سے هم كو اندیشہ هوا كه ہماری غیر موجودگی میں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ پس هم گھبرا گئے۔اور ميں گھبرانے والوں ميں پهلا شخص تھا۔ پس ميں اس باغ تك آيا۔اس ميں ميں داخل هوا جس طرح لومڑي داخل هوتي هے۔ دوسرےلوگ ميرے پيچھے آرهےهيں ۔ آپ نے فرمايا كه اے ابو هريره— اور آپ نے اپنے دونوں جوتے مجھے دے دیے— پھر آپ نے فرمايا كه تم ميرے ان دونوں جوتوں كے ساتھ جاؤ۔ اور اس باغ كے اُدھر جو تم كو ملے جو يه گواهي ديتا هو كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں ، وه اس پر قلبي يقين ركھتا هو تو تم اس كو جنت كي خوش خبري دے دو۔ تو سب سے پهلے جن سے ميں ملا، وه عمرفاروق تھے۔ انھوں نے كها كه يه دونوں جوتے کس کے هيں ، اے ابو هريره۔ ميں نے كها كه يه دونوں رسول الله صلي الله عليه وسلم كے جوتےهيں ، آپ نے مجھے ان دونوں كے ساتھ بھيجا هےكه ميں جس ايسے شخص سے ملوں جو يه گواهي ديتا هو كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں وه اس پر قلبي ايمان ركھتا هو تو ميں اس كو جنت كي خوش خبري دے دوں ۔ (یہ سنتے ہی) عمر نے ميرے سينے پر اتنے شدت سے ماراکہ ميں پيچھے كي طرف گرگيا۔ انھوں نے كها كه اے ابوهريره واپس جاؤ۔ چنانچہ ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس واپس آيا، اور میری حالت رونے والی ہورہی تھی۔ ميں نے ديكھا كه وه ميرے پيچھے آرهے هيں ۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: اے ابو هريره تجھ كو كيا هوا۔ ميں نے كها كه ميں عمرفاروق سے ملا اور ان كو اس بات كي خبر دي جس بات كو لے كر آپ نے مجھے بھيجا تھا۔ تو انھوں نے ميرے سينه پر اتنی شدت سےمارا کہ ميں پيچھے كي طرف گرگيا۔ پھر انھوں نے كها كه واپس جاؤ۔ (یہ سن کر) ر سول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه اے عمر تم نےایسا کیوں کیا۔ انھوں نے كها كه اے خدا كے رسول آپ پر ميرے ماں باپ قربان هوں ، كيا آپ نے ابوهريره كو اپنے دونوں جوتوں كے ساتھ بھيجا تھا كه جو يه گواهي ديتا هوا ملے كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں ،وه اس پر قلبي يقين ركھتا هو تو اس كو جنت كي خوش خبري دے دو۔ آپ نے فرمايا : هاں ۔ عمر نے كها كه ايسا نه كيجیے۔ كيوں كه مجھے ڈر هے كه لوگ اس پر بھروسه كرليں گے۔ تو انھيں چھوڑ ديجیے كه وه عمل كرتے رهيں ۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه پھرانھيں چھوڑ دو (صحیح مسلم، حدیث نمبر31)۔

كوئي خارجي يا مقداري عمل جنت كي قيمت نهيں ۔ جنت كي قيمت انسان كا اپنا وجود هے۔ جو آدمي خدا كو اس طرح پائے كه اس كي هستي پوري طرح خدا كے رنگ ميں رنگ جائے۔ خدا كے سوا كوئي چيز اس كا كنسرن نه رهے۔ وه اپنے پورے دل ودماغ كے ساتھ خدا والا بن جائے تو يهي وه انسان هے جس كے لیے جنت ميں داخلے كا فيصله كيا جائے۔

حضرت عمر فاروق كا قول عوام كي نسبت سے تھا۔ انھوں نے بجا طورپر محسوس كيا كه عوام اس گہری حقيقت كو نهيں سمجھيں گے۔ اور صرف زبان سے شهادت كے الفاظ بول دينے كو نجات كے لیے كافي سمجھنے لگيں گے۔ اور پھر اپنے آپ كو گمراهي ميں مبتلا كرليں گے۔ پيغمبر اسلام كا قول اگر بيان حقيقت تھا تو عمر فاروق كا قول رعايتِ عوام۔

39

معاذ بن جبل رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى عليه وسلم نے مجھ سے فرمايا: جنت كي كنجياں هيں — يه گواهي دينا كه الله كے سوا كوئي الٰہ نهيں (مسنداحمد، حدیث نمبر 22102)۔

لا الٰہ الا الله كي گواهي (شهادت) دينا يه هے كه آدمي كا پورا وجود اس حقيقت كا زنده اعلان بن جائے كه ايك الله كے سوا كوئي نهيں جوعبادت كا حق دار هو۔ شهادت كا مطلب آدمي كي پوري هستي كا اِس رباني حقيقت ميں ڈھل جانا هے۔ جو شخص اس كي شهادت كا ثبوت دے اس كے حق ميں خدا كا يه فيصله هے كه جنت كے تمام دروازے اس كے لیے كھول دیے جائيں ۔

40

عثمان بن عفان رضي الله عنه كهتے هيں كه جب رسول الله صلى الله عليه وسلم كي وفات هوئي تو آپ كے اصحاب ميں سے كچھ لوگ بهت زیادہ غم گين هوگئے۔يهاں تك كه ان ميں سے بعض افراد كے اندر وسوسه پيداهوگيا۔عثمان كهتے هيں كه ميں ان ميں سے ايك تھا۔ پھر جب كه ميں بيٹھا هوا تھا، عمر ميرے سامنے سے گزرے۔ انھوں نے سلام كيا مگر مجھے اس كا احساس نهيں هوا۔ عمر نے اس کا ذکر ابوبكر سے كيا۔ اس کے بعد وه دونوں ميرے پاس آئے اور دونوں نے مجھ كو سلام كيا۔ ابوبكر نے كها كه كيوں ايساهوا كه تم نے اپنے بھائي عمر كے سلام كا جواب نهيں ديا۔ ميں نے كها كه ميں نے تو ايسا نهيں كيا۔ عمر نےكها كه هاں خدا كي قسم تم نے ايسا كيا ہے۔ عثمان كهتے هيں كه ميں نے كها كه خدا كي قسم، مجھے خبر نهيں هوئي كه تم گزرے اور تم نے مجھ كو سلام كيا۔ ابو بكر نے كها كه عثمان نے سچ كها۔ (پھر ابوبکر نے عثمان سے پوچھا کہ)کیا تم كو كسي چيز نے اس سے بے خبر ركھا۔ ميں نے كها:هاں ۔ انھوں نے كها كه وه كياهے۔ ميں نے كها كه الله نے اپنے نبي كو وفات دے دي، اس سے پهلے كه هم آپ سے نجات كے بارے ميں دريافت كريں ۔ ابوبكر نے كها كه ميں نےاس كے بارے ميں آپ سے پوچھا تھا۔(عثمان نے کہا کہ یہ سن کر )میں ابوبکر كے پاس گيا اور ان سے كها كه ميرے ماں باپ آپ پر قربان، اس بارے میں سوال کرنے کے لیےآپ لائق تر تھے۔ ابوبكر نے كها كه ميں نے پوچھا تھا کہ اے الله كے رسول، اس معامله میں نجات کی كيا صورت هے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه جو شخص مجھ سے كلمه توحید كو قبول كرلے— جو ميں نے اپنے چچا كے سامنے پيش كياتھامگر انھوں نے اس كو قبول كرنے سے انكاركرديا— تو يهي اس كي نجات کا ذریعہ ہوگا (مسنداحمد، حدیث نمبر20)۔

رسول الله صلى الله عليه وسلم كے چچا ابو طالب ايك مشركانه عقيده پر تھے۔ اسي سے ان كي پوري عملي زندگي بني۔ اس كے بعد رسول الله نےان كے سامنے توحيد كا عقيده پيش كيا ۔ يه ساده طورپر ايك لفظي مجموعه کو زبان سے دهرانے كا معامله نه تھا، بلكه اس كا مطلب يه تھا كه ابو طالب فكر وعمل كے ايك طریقہ كو چھوڑ كر فكر وعمل كے دوسرے طریقہ كو اختيار كرليں ۔ مگر وه اپني زندگي ميں اس قسم كي تبديلي كے لیے تيار نهيں هوئے۔يهي اصول دوسروں كي نجات كے لیے بھي هے۔ جو آدمي اپنے عقيده وعمل كو كلمهٔ توحيد كي بنياد پر تشكيل دے وهي الله كے يهاں نجات پائے گا، اور جو ايسا نه كرسكے وه نجات سے محروم رهے گا۔

41

مقداد بن اسود رضي الله عنه كهتے هيں كه انھوں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتے هوئے سنا كه زمين كي سطح پركوئي خيمه يا گھر باقي نهيں رهے گا مگر الله اس ميں اسلام كا كلمه داخل كردے گا۔ عزت والے كي عزت كے ساتھ اور ذليل كي ذلت كے ساتھ۔الله يا تو انهيں عزت دے گا اور ان كو كلمه والوں ميں سے بنادے گا۔ يا وه ان كو ذليل كرے گا پھر وه اس كي اطاعت كريں گے۔ ميں نےكها كه پھر سارا دين الله كے لیے هي هوجائے گا(مسنداحمد، حدیث نمبر 23814)۔

اس حديث ميں غالباً اُس واقعے كي پيشین گوئي هے جو صنعتي انقلاب كے بعد ظهور ميں آيا۔اس حديث كے مطابق، يه بات پيشگي طورپر مقدر تھي كه اسلام كاپيغام ساري دنيا ميں هر چھوٹے اور بڑے گھر ميں پهنچ جائے۔ اس واقعه كو ظهور ميں لانے كے لیے كميونی كيشن كے وه جديد ذرائع دركار تھے جو صرف موجوده زمانے ميں صنعتي انقلاب كے بعد ظهور ميں آئے هيں ۔چنانچه موجوده زمانه ميں پهلي بار يه ممكن هوا هے كه اسلام كي ايسي عمومي اشاعت كي جائے كه كوئي گھر اس سے بچا هوا نه هو۔ يه عمل (process)آج تيزي سے جاري هوچكا هے۔ جلد هي وه وقت آنے والا هے جب كه حديث كي پيشين گوئي لفظي طورپر پوري طرح وقوع ميں آجائے۔

اس حديث ميں جس واقعه كا ذكر هے اس سے مراد ساري دنيا ميں پيغام اسلام كي اشاعت هے، نه كه ساري دنيا كے اوپر اهل اسلام كا سياسي غلبه۔اس حدیث میں کلمۂ اسلام سے مراد قرآن ہے۔ یعنی قرآن کو ہر گھر میں اور ہر انسان تک پہنچایا جائے۔ گھر سے مراد صرف رہائش گاہ نہیں ہے،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تعلیم گاہ، ہر لائبریری ، ہر ادارہ،ہر ہوٹل، وغیرہ میں اس کو پہنچا دینا۔ اسلام كا اصل نشانه يه هے كه هر پيدا هونے والا اپنے رب كےاحكام سے باخبر هوجائے، نه يه كه سارے انسان كے اوپر كسي ايك گروه كي حكومت قائم هوجائے۔

42

وهب بن منبه سے پوچھا گيا كه كيا لا إله إلا الله جنت كي كنجي نهيں هے؟ انھوں نے كها كه هاں ۔ مگر هر كنجي كے دندانے هوتے هيں ۔ پس اگر تم ايسي كنجي لے كر آئے جس ميں دندانے هيں تو تمھارے لیے وه كھل جائے گا، ورنه وه تمھارے لیے نهيں كھلے گا (صحیح البخاري،حدیث نمبر 1237)۔

وهب بن منبه تابعي (وفات 114 ھ)نے كنجي كے ساتھ دندانه كي شرط لگائي هے۔ انھوں نے تمثيل كي زبان ميں بتايا هے كه شهادت کےكلمه سے مراد صرف اس كي لفظي ادائيگي نهيں هے بلكه كلمه كو اس كے فكري اور عملي تقاضوں كے ساتھ اختيار كرنا هے۔ ان تقاضوں كے بغير كلمه كي مثال ايسي هي هے جيسے دندانے كے بغير كنجي۔

43

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: تم ميں سے كوئي شخص جو اپنے اسلام كو درست كرے۔ تو هر وه نيكي جس كو وه كرے گا تو وه اس كے لیے دس گنا سے لے كر سات سوگنا تك لكھي جائے گي۔ اور هر وه برائي جس كو وه كرے گا تو وه اس كے لیے اسي كے برابر لكھي جائے گي، يهاں تك کہ وه الله سے جاملے (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر42؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر129)۔

ايك شخص جو دل سے مومن هو اس سے اگر كبھي كوئي برائي سرزد هوتي هے تو اس كا محرك صرف ايك هوتا هے اور وه هے وقتي طورپر نفساني جذبه سے مغلوب هوجانا ۔ گويا كه مومن كی هر برائي اپنے درجے كے اعتبار سے ايك اتفاقي برائي هوتي هے اس لیے اس كے نامهٔ اعمال ميں بھي وه صرف ايك درجه كي برائي كے طورپر لكھي جاتي هے۔

مگر مومن كی نيكي مثبت جذبه كے تحت هوتي هے۔ اس بنا پر كيفيت كے اعتبار سے اس ميں فرق هوتا رهتا هے۔ مثال كے طور پر مومن كبھي عادت كے تحت روٹين كي نماز پڑھتا هے۔ كبھي وه نماز اس طرح پڑھتا هے كه اس ميں خشوع كي كيفيت بھي شامل هوجاتي هے۔ كبھي ايسا هوتا هے كه خشوع اور انابت كي كيفيت بے حساب حد تك بڑھ جاتي هے۔ اس طرح كيفيات كے فرق كي نسبت سےمومن كي نيكي اس كے اعمال ميں كبھي معمول كي نيكي كے طورپر لكھي جاتي هے اور كبھي غير معمولي اضافوں كے ساتھ سيكڑوں گنا يا هزاروں گنا زياده بڑي نيكي كي حيثيت سے۔

44

ابو امامه رضي الله عنه كهتے هيں كه ايك شخص نے رسول صلي الله عليه وسلم سے پوچھا كه ايمان كيا هے، آپ نے فرمايا كه جب تم كو اپني نيكي سے خوشي هو اور تم كو اپني برائي سے تكليف پهنچے۔ اس وقت تم مومن هو۔ اس نے كها كه اے خدا كے رسول، گناه كيا هے۔ آپ نے فرمايا كه جب تمهارے دل ميں كوئي چيز كھٹكے تو اس كو چھوڑ دو (مسنداحمد، حدیث نمبر 22166)۔

ايمانی شعور جب حقيقي معنوں ميں كسي كے اندر پيدا هو تاہے تو وه اس كي غفلت كو توڑ ديتا هے۔ وه اس كي بے حسي كو ختم كركے اس كو ايك حساس انسان بنا ديتا هے، اس كي يه ايماني حساسيت هر لمحه اپناكام كرتي رهتي هے۔ نيكي كے فعل پر اس كو خوشي جيسے احساس كا تجربه هوتا هے اور اگر اس سے برائي سرزد هو تو اس كي اندروني حساسيت فوراً بیدار هو كر اس كو ملامت كرنے لگتي هے۔ ايسي حالت ميں بهترين طريقه يه هے كه مومن اپنے دل كو رهنما بنالے۔ جس كام پر دل مطمئن هو اس كو كرے اور جس كام پر دل مطمئن نه هو اس كو چھوڑ دے۔

45

عمروبن عبسه رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس آيا۔ ميں نے كها كه اے خدا كے رسول اس كام ميں آپ كے ساتھ كون هے۔ آپ نے فرمايا كه ايك آزاد اور ايك غلام۔ ميں نے كها كه اسلام كيا هے۔ آپ نے فرمايا كه اچھا بول بولنا اور كھانا كھلانا۔ ميں نے كها كه ايمان كيا هے۔ آپ نے فرمايا كه صبر اور رواداري۔ وه كهتےهيں كه ميں نے كها كه افضل اسلام كون سا هے۔ آپ نے فرمايا كه جس كي زبان اور هاتھ سے مسلمان محفوظ هوں ۔ وه كهتےهيں كه ميں نے كها كه كون سا ايمان افضل هے۔ آپ نے فرمايا كه اچھا اخلاق۔ وه كهتے هيں كه ميں نے كها كه كون سي نماز افضل هے۔ آپ نے فرمايا كه لمبا خشوع۔ وه كهتے هيں كه ميں نے كها كه افضل هجرت كون سي هے۔ آپ نے فرمايا كه تم اس چيز كو چھوڑ دو جس كو تمهارا رب ناپسند كرتا هے۔ وه كهتے هيں كه ميں نے كها كه كون سا جهاد افضل هے۔ آپ نے فرمايا كه جس كے گھوڑے كے پاؤں كاٹ دیے جائيں اور اس كا خون بهاديا جائے۔ وه كهتے هيں كه ميں نے كها كه افضل گھڑي كون سي هے۔ آپ نے فرمايا كه آخري رات كی تہائی (مسنداحمد، حدیث نمبر 19435)۔

اس حديث ميں افضل اعمال كي جو مختلف صورتيں بتائي گئي هيں وه ايك هي حقيقت كي مختلف علامتيں هيں ۔ ايك انسان كے اندر جب ايمان كا گهرا شعور پيدا هوجائے تو اس كے اثرات اس كي زندگي كے مختلف شعبوں ميں ظاهر هونے لگتے هيں ۔ يهاں تك كه وه اسي راه ميں قربان هوجاتا هے جو گويا اس كے ايماني عهد كا آخري ثبوت هے۔

46

معاذ بن جبل رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه كهتے هوئے سنا كه جو شخص الله سے اس حال ميں ملے كه اس نے اس كے ساتھ كسي چيز كو شريك نهيں كيا تھا اور اس نے پانچوں نمازيں پڑھي هوں اور رمضان كے روزے ركھے هوں ۔ تو اس كو بخش دياجائے گا۔ ميں نے كها كه ميں لوگوں كو اس كي خوش خبري نه دے دوں ۔ آپ نے فرمايا كه انھيں چھوڑ دو كه وه عمل كرتے رهيں (مسنداحمد، حدیث نمبر 22028)۔

اس حديث ميں اسلام كي تين بنيادي تعليمات كا ذكر هے— كلمه ، نماز اور روزه۔ كلمه كي حقيقت معرفت خدا وندي هے۔ نماز كی حقيقت خشوع وخضوع كي حد تك تعلق بالله هے۔ روزه كي حقيقت ضبطِ نفس كي حد تك جا كر مسلم بن جانا هے۔ جس آدمي كے اندر يه صفات پيدا هوجائے وه صرف تين معنوں ميں نهيں بلكه تمام معنوں ميں خدا كا سچا بنده بن جائے گا۔

47

معاذ بن جبل كهتے هيں كه انھوں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے افضل ايمان كي بابت سوال كيا۔ آپ نے فرمايا: يه كه تم الله كے لیےپسند كرو اور تم الله كے لیےناپسند کرو۔ اور اپني زبان كو الله كي ذكر ميں مشغول ركھو۔ انهوں نے كها كه اور كيا ،اے خدا كے رسول۔ آپ نے فرمايا كه تم دوسروں كے لیے وهي پسند كرو جو تم خود اپنے لیے پسند كرتے هو اور تم دوسروں كے لیے بھي اس چيز كو ناپسند كرو جس كو تم اپنے لیےناپسند كرتے هو (مسنداحمد، حدیث نمبر 22130)۔

افضل ايمان سے مراد اعلي ايمان هے۔ يه اعلى ايمان اس وقت پيدا هوتاهے جب كه آدمي كا ايمان صرف لفظي اقرار كے هم معني نه هو، بلكه وه شعوري دريافت اور داخلي انقلاب كي حيثيت ركھتا هو۔ اس قسم كا ايمان جب كسي كو ملتا هے تو اس كےاندر وهي روحاني اور اخلاقي صفات پيدا هوجاتي هيں جن كا اس حديث ميں ذكر كياگيا هے۔’’الله كے لیے ناپسند كرو اور تم الله كے لیےناپسند کرو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ محبت اور نفرت، وغیرہ کے جذبات کو اپنی خواہش کے تابع کرنے کے بجائے مکمل طور پر اللہ کے تابع کرنا۔ واقعہ افک کے موقع پر حضرت عائشہ کے خلاف الزام لگانے والوں میں ایک صاحب مسطح بن اُثاثہ تھے۔ وہ ایک مفلس مہاجر اور حضرت ابوبکر کے دور کے رشتہ دار تھے۔ حضرت ابوبکر ان کی مالی مدد کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ابوبکر کی صاحب زادی تھیں ۔ قدرتی طورپر حضرت ابو بکر کو مسطح بن اثاثہ کے عمل سے تکلیف ہوئی۔ آپ نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح کی کوئی مدد نہ کریں گے۔

لیکن قرآن میں یہ حکم اترا — تم میں سے جو لوگ صاحب مال ہیں وہ ذاتی شکایت کی بنا پر بے مال لوگوں کی امداد بند نہ کریں ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتم کو معاف کردے۔ اگر تم اپنے ليے خدا سے معافی کے امیدوار ہو تو تمھیں بھی دوسروں کے بارے میں معافی کا طریقہ اختیار کرنا چاہيے(24:22)۔ یہ آیت سن کر حضرت ابوبکر نے کہا: ہاں ، خدا کی قسم، میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کردے۔ اور دوبارہ مسطح کی امداد جاری کردی(سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 303-4)۔مومن کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت خدا کی رضا ہوتی ہے۔ خدا کا حکم سامنے آتے ہی وہ فوراً جھک جاتا ہے، خواہ خدا کا حکم اس کی خواہش کے سراسر خلاف کیوں نہ ہو۔

قول سدید یا متعین کلام

قرآن میں ایک تعلیم ان الفاظ میں آئی ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (33:70)۔ یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو۔ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک ہے سدید کلام، دوسرا ہے غیر سدید کلام۔ جس طرح تیر ٹھیک نشانہ کی طرف رخ کرکے چلایا جاتا ہے، اسی طرح سدیدکلام ٹھیک حقیقت کو سامنے رکھ کر بولا جاتا ہے۔

 سدید کلام وہ ہے جو عین مطابقِ حقیقت ہو۔ جو واقعاتی تجزیہ پر مبنی ہو۔ جو ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے۔وہ بات اصل حقیقت سے کچھ بھی ادھر یا اُدھر ہٹی ہوئی نہ ہو۔ اس کے برعکس، غیر سدید کلام وہ ہے جس میں حقیقت کی رعایت شامل نہ ہو۔ جس کی بنیاد ظن و گمان پر قائم ہو۔ جس کی حیثیت محض رائے زنی کی ہو، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کے اظہار کی۔آدمی کوئی بھی بات کہے، تو وہ بات تعین کی زبان (specific language) میں ہونی چاہیے۔

مثلاً اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ صحابہ کے دور میں جنگ صفین اور جنگ جمل کا واقعہ جو پیش آیا، وہ اسلام دشمنوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔ تو یہ بیان، سدید بیان نہیں کہا جاسکتا ۔ اس لیے کہ اس میں متعین نہیں ہے کہ اسلام دشمن کون ہے، اور اس کی سازش کیا تھی، جو اس حد تک مؤثر ہوئی کہ اس وقت کے لوگ دو متحارب گروہ بن کر آپس میں لڑ گئے۔ یعنی اس میں تعین اور صراحت کی زبان استعمال نہیں کی گئی ہے۔ اس میں ثابت شدہ حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ بیان تمام تر فرضی قیاس پر مبنی ہے، نہ کہ پختہ علم پر۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:اللَّهُمَّ سَدِّدْ ‌لِسَانِي( سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3830) ۔اے اللہ، میری زبان کو قولِ سدید کی توفیق دے۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ قولِ سدید کی اسلام میں کتنی زیادہ اہمیت ہے۔اسلام کے آداب کلام میں یہ بات لازمی طو رپر شامل ہے کہ کسی امر کے متعلق جو بات کہی جائے، وہ تعین کی زبان میں ہو۔ وہ مناسب الفاظ (appropriate words) میں کہی گئی ہو۔ وہ بیان ایسے الفاظ میں ہو کہ کوئی شخص اگر اس کی تحقیق کرنا چاہے تو وہ بآسانی تحقیق کرکے اس کی صحت کو معلوم کرسکے۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے والے نے کہہ دیا، لیکن سننے والے کے لیے وہ ایک غیر واضح کلام کی حیثیت رکھتا ہو۔

 کوئی کلام خواہ وہ دین کی بابت ہو، یا دنیا کی بابت۔ وہ ایسا ہونا چاہیے کہ سننے یا پڑھنے والا، مزید تحقیق کرکے اس کی اصلیت کو دریافت کرسکے۔ کلام میں ایسا حوالہ موجود ہو، جو کلام کی صحت کو مزید جانچنے کے لیے کافی ہو۔ کلام مشتبہ یا ایسے الفاظ پر مبنی نہ ہو، جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال پایا جائے، بلکہ ایسے الفاظ پر مبنی ہو، جو سامع کے لیے پہلے سے معلوم، اور متعین ہوں ۔ جو اپنے معنی میں اتنا واضح ہو کہ سنتے ہی سمجھ میں آجائے۔

کلامِ سدید کے لیے یہ بات بھی لازمی طور پر ضروری ہے کہ اس میں جو بات بھی کہی جائے ، خواہ وہ منفی بات ہو یا مثبت بات ، اس میں کوئی ثابت شدہ مثال موجود ہو۔ ایسا ہرگز نہ ہو کہ بات تو کہہ دی جائے لیکن سننے والے کے سامنے کوئی متعین مثال نہ آئے جس کو لے کر وہ بات کی مزید تحقیق کرسکے۔ مثال کے بغیر ہر بات بے بنیاد بات ہے، اور بے بنیاد بات کبھی وہ بات نہیں ہوسکتی ، جس کو کلام سدید کہا جائے۔

مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے کی تھی۔ اس وقت کعبہ ایک مستطیل (rectangle) عمارت کی شکل میں تھا، اور اب بھی بدستور وہی صورت قائم ہے۔ تو یہ بات کلام سدید کی مثال نہ ہوگی۔ کیوں کہ اگر کوئی شخص جاکر اس کی تحقیق کرے تو وہ پائے گا کہ آج کا کعبہ مربع (Square) صورت میں ہے، اور اس کا ایک حصہ حطیم کی صورت میں خالی پڑا ہوا ہے۔ اس وقت کوئی شخص یہ کہے کہ ابتدائی کعبہ مستطیل صورت میں تھا، اب وہ مربع صورت میں ہے۔ اب اگر کوئی شخص مکہ جاکر اس کی تصدیق کرنا چاہے تو وہ دریافت کرلے گا کہ یہ بیان درست ہے۔

اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کلام سدید کیا ہے، اور کلام غیر سدید کیا۔ کلام سدید وہ ہے، جو قابل تصدیق (verifiable ) ہو۔ اس کے برعکس، کلام غیر سدید وہ ہے، جس کو ویری فائی (verify) نہ کیا جاسکے، جس میں سامع کے لیے یہ ممکن نہ ہو کہ وہ کلام کی تحقیق کرکے یقین کے ساتھ یہ جان سکے کہ کہنے والے نے جو کہا یا لکھنے والے نے جو کچھ لکھا، وہ مطابق واقعہ کلام ہے یا مطابق واقعہ کلام نہیں ہے۔

تضاد میں جینا

لوگوں کی تحریروں کو پڑھیے، تو تقریباً تمام لوگ متضاد باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ مثلاً ہر ایک اپنی جماعت کے کارنامے بیان کرے گا، اور پھر یہ بھی بتائے گا کہ امت اپنی زبوں حالی کی آخری حد پر پہنچ چکی ہے۔ یہ بلاشبہ متضاد بیان ہے۔ اگر آپ کے لیڈر ایک عہد ساز لیڈر تھے تو انھیں لیڈر کے زمانے میں زبوں حالی کا یہ متضاد واقعہ کیوں پیش آیا۔

اس تضاد بیانی کا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنی شخصیتوں کو بڑا بڑا کریڈٹ دینا چاہتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ وہ اس واقعے کا انکار نہیں کرپاتے کہ ان شخصیتوں نے زمینی سطح پر کوئی مثبت واقعہ انجام نہیں دیا۔ یہ شخصیت پرستی کا ظاہرہ ہے۔ شخصیت پرستی میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ اپنے مزاج کی بنا پر اپنی شخصیتوں کی تعریف میں جینا چاہتے ہیں ۔لیکن جب حقیقی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں ، تو نظر آتا ہے کہ زمینی حالات اس کی تصدیق نہیں کررہے ہیں ۔ مثلاً ایک صاحب نے اپنی پسندیدہ شخصیت کو زمانہ ساز شخصیت بتایا ہے۔ مگر دوسرے مقام پر جب وہ اسی عہد کا ذکر کرتے ہیں تو ان کو نظر آتا ہے کہ وہ زمانہ ایک بُرا دور ہے۔

اس تضاد ِ ذہنی کا سبب یہ ہے کہ لوگ غلطی کا اعتراف کرنا نہیں جانتے۔ وہ مفروضہ شخصیتوں کی قصیدہ خوانی سے تو واقف ہیں ، لیکن غلطی کا اعتراف کرنے کے الفاظ ان کی ڈکشنری میں موجود نہیں ۔ عدم اعتراف کا یہ مزاج بلاشبہ ذہنی ارتقا (intellectual development)میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

غلطی کا اعتراف نہ کرنا، ذہنی ارتقا میں رکاوٹ کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب آپ ایک شخصیت کو قصیدہ خوانی کا موضوع بنالیں ، تو آپ کو صرف الفاظ ملیں گے،حقائق نہیں ملیں گے۔ اسی طرح غلطیوں کا وجود ختم نہیں ہو گا،اور غلطی خواہ کیسی بھی ہو، وہ انسان کو حقائق سے دور کردیتی ہے جو کہ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے۔

Turmoil یعنی پریشانی

10 فروری 2020 کو میرے آفس کے ای میل پر ایک پاکستانی آڈینس نے یہ پیغام بھیجا— آپ میرے لیے دعا کریں ، میں پریشانی میں مبتلا ہوں :

‘‘Pray for me, I am in turmoil.’’

 عجیب بات ہے کہ آج ہی کا واقعہ ہے کہ کسی سے بات کرتے ہوئے میں نےکہا کہ میری زندگی میں ایک ایسی پریشانی پیش آئی، جو شاید میری زندگی کی سب سے بڑی پریشانی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ پریشانی خواہ وہ کتنی بڑی ہو، وہ آپ کو دعا کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرنس دیتی ہے۔ لوگ اس راز کو جانتے نہیں ، اس لیے وہ پریشانی کو صرف پریشانی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں ، پریشانی کو دعا کے خانے میں ڈالنا جانتے ہی نہیں ۔ حالاں کہ اگر وہ اس راز کو جانیں ، تو ان کے لیے پریشانی ایک عظیم خیر کا سبب بن جائے۔

انسان کی زندگی میں پیش آنے والی پریشانی کا معاملہ پت جھڑ کی طرح کا ہے۔ پت جھڑ کا سبق یہ ہے کہ خالق انسانوں کو آکسیجن کی مسلسل سپلائی کے لیے پرانے پتوں (leaves)کی جگہ فریش اور نئے پتے لا رہا ہے۔ یہی معاملہ انسانی زندگی کا ہے، جس کو اسکاٹش رائٹر سیمویَل سمايلز (1812-1904ء) نے بجا طور پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

It is not ease, but effort, not facility, but difficulty that makes men. There is, perhaps, no station in life in which difficulties have not to be encountered and overcome before any decided measure of success can be achieved. (Samuel Smiles)

 آسانی نہیں ، بلکہ کوشش، سہولت نہیں ، بلکہ مشکل، انسان کو بناتی ہے، شاید انسان کی زندگی میں کوئی ایسا پڑاؤ نہیں ہے، جہاں انسان کو مشکلات کا سامنا نہ پیش آئے، اور کامیابی کے فیصلہ کن مقدار کو حاصل کرنے سے پہلے، اس پر غلبہ حاصل نہ کرے ۔

ڈائری 1986

11فروری 1986

آج تبلیغی جماعت کے کئی لوگ ملنے کے لیے آئے۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ سوچنے کے دو انداز ہیں ۔ایک ہے خارجی انداز فکر اور دوسرا ہے داخلی انداز فکر۔

خارجی انداز فکر کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھیں ۔مثلاً دوسروں کا تعصب،دوسروں کی سازش، دوسروں کی جارحیت وغیرہ۔جو لوگ اس طرح سوچیں ان کے لیے کام اپنے آپ سے باہر رہے گا۔وہ دوسروں کے خلاف احتجاج کریں گے۔وہ دوسروں سے مطالبات کریں گے۔چونکہ ان کے نزدیک مسئلہ اپنے آپ سے باہر پیدا ہوا ہے،اس لیے وہ باہر سے ہی حل ہو سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں داخلی اندازِ فکر کا مطلب اپنے مسائل کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھنا ہے۔اس دوسری صورت میں سارا معاملہ بدل جاتا ہے۔اب آپ کی ساری توجہ خود اپنی طرف لگ جاتی ہے۔

میں نے کہا کہ اس وقت جتنی بھی تحریکیں مسلمانوں میں چل رہی ہیں وہ سب خارجی انداز فکر پر چل رہی ہیں ۔سب کی سب دوسروں کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں ۔

اس عموم میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ تبلیغی جماعت کا ہے۔تبلیغی جماعت کا فکر یہ ہے کہ ہمارے تمام مسائل اللہ کے باب میں اپنی کوتاہی سے پیدا ہوئے ہیں ۔اپنی کوتاہی کو درست کر لو تو خدا کی رحمت تمہاری طرف مائل ہوگی اور تمہارے تمام معاملات درست ہو جائیں گے۔

میں نے کہا کہ میرے نزدیک یہی داخلی انداز فکرصحیح ہے۔اس اعتبار سے ہمارا مشن اور تبلیغ کا مشن ایک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تبلیغ کے لوگ تقریر کی راہ سے کام کر رہے ہیں اور ہم تحریر کی راہ سے۔

12فروری 1986

آج میں نے ریڈرس ڈائجسٹ(فروری1986) پڑھا۔ریڈرس ڈائجسٹ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ خالی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی عبارتیں شائع کرتا ہے جس کو آج کل کی زبان میں فلر (filler)کہتے ہیں ۔یہ عبارتیں بڑی بڑی قیمتیں دے کر لوگوں سے حاصل کی جاتی ہیں ۔

ریڈرس ڈائجسٹ کے مذکورہ شمارہ میں صفحہ152پر دو لائن کا ایک فلر حسب ذیل ہے::

Headline of an article on a controversial press censorship bill —

‘‘THE RIGHT TO WRITE.’’

اس سرخی کااردو ترجمہ کریں تو وہ یہ ہوگا’’لکھنے کا حق‘‘۔اردو سرخی میں بظاہر کوئی ایسی خصوصیت نظر نہیں آتی کہ ایک میگزین اس کو قیمت دے کر کسی سے خریدے اور اس کو اپنے ایک صفحہ میں بطور فلر استعمال کرے۔مگر انگریزی میں دیکھیے تو وہ ایک بے حد دلچسپ سرخی معلوم ہوتی ہے۔انگریزی الفاظ میں یہ سرخی اس قدر اچھوتی ہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر فوراً اصل موضوع کو پڑھنا چاہے گا۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اردو زبان کوئی کمتر زبان ہے اور انگریزی زبان ایک برتر زبان۔یہ فرق تمام تر اتفاقی ہے۔عین ممکن ہے کہ ایک اور سرخی اردو زبان میں بہت بامعنیٰ نظر آئے مگر انگریزی میں ترجمہ ہو کر وہ اپنی ندرت کو کھو دے۔

یہی معاملہ ہر چیز کا ہے۔بعض خصوصیات حقیقی ہوتی ہیں اور بعض خصوصیات اتفاقی۔کسی چیز کے بارے میں صحیح رائے وہی لوگ قائم کر سکتے ہیں جو حقیقی اور اتفاقی کے فرق کو اچھی طرح جانتے ہوں ۔

13فروری 1986

آج کل دہلی میں عالمی کتابی نمائش(ورلڈ بک فیئر) ہو رہی ہے۔آج میں نے اس کو دیکھا۔ مختلف ملکوں کے اسٹال بہت بڑے پیمانے پر لگائے گئے ہیں ۔آدمی یہاں پندرہ زبانوں میں کتابیں حاصل کر سکتا ہے۔ایک حصہ میں مختلف مذہبی مشن کے اسٹال لگے ہوئے ہیں ۔ایک ہندو مشن کے اسٹال پر ایک کتاب نظر سے گزری۔اس کا ٹائٹل یہ تھا::

‘‘Bhagvad Gita: As It Is’’

یہ ٹائٹل مجھے بہت پسند آیا۔میں نے سوچا اسی انداز پر ایک کتاب اسلام کے بارے میں چھپنا چاہیے۔اس کا ٹائٹل حسب ذیل ہو::

‘‘Islam: As It Is’’

ان شاءاللہ، اس نام سے ایک کتاب شائع کی جائے گی۔اس کتاب کے چار حصے ہوں گے۔ پہلے حصہ میں قرآن کی منتخب آیتوں کا ترجمہ،دوسرے حصہ میں منتخب احادیث کا ترجمہ،تیسرے حصہ میں رسول اللہ کے منتخب واقعات اور چوتھے حصے میں صحابہ کے منتخب واقعات۔

یہ سب چیزیں بغیر تشریح کے جمع کی جائیں ۔اپنی طرف سے صرف مختصر عنوان کا اضافہ ہو۔ اسلام کے تعارف کے لیے، ان شاءاللہ، یہ ایک بہت مفید کتاب ثابت ہوگی۔

آج کل غیر مسلموں میں اسلام کے مطالعہ کا کافی رجحان پیدا ہوا ہے۔مگر وہ اسلام کو جیسا ہے ویسا ہی (as it is) پڑھنا چاہتے ہیں ۔اس سلسلے میں ایک ضرورت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث کے ترجمے شائع کیے جائیں ۔دوسرا کام یہ ہے کہ اس انداز میں کچھ مختصر کتابیں تیار کی جائیں ۔اس دوسرے کام کے ذیل میں ’’اسلام :ایز اٹ از‘‘ ان شاءاللہ، ایک مفید کتاب ثابت ہوگی۔

نمائش میں اسلامی مرکز کا بک اسٹال بھی لگا ہوا ہے۔یہاں کافی غیر مسلم آ رہے ہیں اور زیادہ تر وہ ترجمۂ قرآن مانگتے ہیں ۔کچھ روسی بھی آئے اور انہوں نے روسی زبان میں قرآن کا ترجمہ طلب کیا۔

14فروی 1986

تذکیرالقرآن کے 26 پارے ہو گئے ہیں ۔جب میں اس کو سوچتا ہوں تو یہ سب مجھے ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔تذکیر القرآن سب سے پہلے کسی قدر مختلف شکل میں الجمعیۃ ویکلی میں شروع ہوا۔مگر چند قسطوں کے بعد اس کا سلسلہ بند ہوگیا۔اس کے بعد الرسالہ میں اس کا سلسلہ موجودہ شکل میں شروع ہوا تو اس کو میں نے اپنی ہلاکت کی قیمت پر لکھا ہے۔اس کا ہر صفحہ اس طرح لکھا گیا ہے کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب اس کا اگلا صفحہ لکھنا مجھے نصیب نہ ہوگا۔

تذکیرالقرآن سے میرا لگاؤ اتنا زیادہ رہا ہے کہ اس رات کو جب کہ میراہاتھ بجلی کے جنکشن باکس میں تھا اور بجلی کی لہریں میرے جسم میں دوڑ رہی تھیں ۔اس وقت بھی مجھے یہی فکر لاحق تھی کہ میرا تو آخر وقت آ گیا، اب تذکیرالقرآن کو کون مکمل کرے گا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، الرسالہ ، اکتوبر 1983 ،بعنوان : دوبارہ زمین پر)۔

آخرکار جب تذکیرالقرآن کے 10پارے ہو گئے تو مذکورہ بالانفسیات کی بنا پر مجھے محسوس ہوا کہ اب اس کی آخری حد آ گئی۔اب میں اس کے آگے کچھ نہ لکھ سکوں گا۔میں نے چاہا کہ میری زندگی ہی میں اس کی پہلی جلد چھپ جائے۔مگر اس وقت میرے پاس ضروری رقم موجود نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے عین اسی زمانے میں عزیزم شکیل احمد خاں کو دلی بھیجا۔ان کو جب معلوم ہوا کہ تذکیرالقرآن کی پہلی جلد چھپنے کے لیے تیار ہے تو وہ اس کی رقم فراہم کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے۔وہ فوراً کلکتہ گئے اور ہوائی جہاز سے واپس آکر 25ہزار روپے میرے حوالے کر دیا۔

اس کے بعد میری توقعات کے خلاف مزید 5پارے ہو گئے تو دوبارہ پہلی جلد15پاروں کے ساتھ چھاپی گئی۔اب خدا کے فضل سے26پارے ہو گئے ہیں اور کام تیزی سے جاری ہے۔ان شاء اللہ، امید ہے کہ 1986میں اس کی دوسری اور آخری جلد چھپ جائے گی۔کیونکہ تحریر کےساتھ اس کی کتابت کا کام بھی جاری ہے۔ایک کاتب مستقل طور پر صرف تذکیرالقرآن کی کتابت کر رہے ہیں ۔

15فروری 1986

جناب عبدالرحمٰن انتولے(سابق چیف منسٹر مہاراشٹر) کا خط مورخہ 11فروری1986 کو موصول ہوا۔یہ چھ صفحات کا خط ہے۔ان کو حال میں اتفاق سے الرسالہ اردو کا شمارہ نمبر110 (جنوری 1986) اور 111(فروری 1986)ملا۔وہ اس سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے۔وہ لکھتے ہیں ::

’’پوری طرح ہر لفظ کو باقاعدہ غور سے پڑھا۔لطف اندوز ہو کر ختم کیا۔زبان سے بے ساختہ سبحان اللہ نکل پڑا۔ اور دل نے اس زمانہ کا مجتہد پا لیا۔آپ کا قلم جہاد میں اور آپ کا دل ودماغ اجتہاد میں مشغول ہے۔پھر میں نے سوچا کہ اس قدر بڑی نعمت کو پانے میں میری زندگی کے تقریباً گیارہ مہینے صرف ہو گئے۔آپ کا انداز قرآنی ہے،پھر مخاطب کو سمجھنے میں پریشانی کیسے ہو۔حضرت مولانا ابوالکلام، حضرت مولانا مودودی اور حضرت مولانا وحیدالدین ۔پہلے کا انداز عالمانہ، دوسرے کا فاضلانہ اور تیسرے کا عاقلانہ۔اور کبھی بھی عالم ہو یا فاضل، بغیر عاقل ہوئے علم وفضل بے معنی ہیں ‘‘۔

اگلے دن انتولے صاحب کے داماد آئے۔ان کے ساتھ مہاراشٹر کے سابق ہوم سکریٹری بھی تھے۔انہوں نے کہا کہ میں نے بہت سے وزیروں اور چیف منسٹروں کو دیکھا ہے مگر جو قوت اخذ (grasp)میں نے انتولے صاحب میں دیکھا وہ کسی کے اندر نہیں پایا۔ (جناب عبد الرحمن انتولے کا 2 دسمبر 2014 کو انتقال ہوچکا ہے)۔

16فروری 1986

مسٹر پریم نارائن گپتا آج مولانا حمیداللہ ندوی کےساتھ بھوپال سے دہلی آئے۔انہوں نے آتے ہی کہا: آج میں ایک سچے انسان سے ملنے کی خوشی حاصل کر رہا ہوں ۔وہ الرسالہ اردو اور انگریزی پابندی سے پڑھ رہے ہیں اور بہت متاثر ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مسلم مسائل پر آپ جس طرح لکھتے ہیں ،اس کو مسلمان کیسے برداشت کرتے ہیں ؟اور آپ کو اس طرح لکھنے کی جرأت کیسے ہوتی ہے؟میں نے کہا کہ میں جو کچھ لکھتا ہوں دلیل سے لکھتا ہوں اور جو شخص دلیل پکڑا ہوا ہو اس کی کاٹ کسی کے لیے ممکن نہیں ۔

انہوں نے میری کتاب’’پیغمبرانقلاب‘‘ اور مولانا سیدسلیمان ندوی کی کتاب’’خطبات مدراس‘‘ حال میں پڑھی ہے۔خطبات مدراس ان کو پسند نہیں آئی۔کیوں کہ اس میں پیغمبر اسلام کو اس طرح پیش کیا گیا ہے گویاکہ وہ مسلمانوں کے قومی ہیرو ہیں ۔اس کے برعکس، میری کتاب میں رسول اللہ ایک حقیقی عالمی پیغمبر کے روپ میں نظر آتے ہیں ۔گپتا صاحب کو میں نے دو کتابیں بطور ہدیہ دیں : ایک’’اللہ اکبر‘‘ اور دوسری’’ حل یہاں ہے‘‘۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حقیقی مومن

موجودہ دنیا میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ آدمی نے بظاہر کس حال میں زندگی گزاری، اچھے حال میں یا بُرے حال میں ۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی جس حال میں بھی ہو اُس سے وہ تعلق باللہ کی غذا لے سکے۔ زندگی کا ہر تجربہ اُس کو اللہ سے قریب کرنے والا ثابت ہو۔ اُس کی روح ہر صورتِ حال سے ربّانی غذا لیتی رہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھ سکے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلائے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا رہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلائے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کردے۔

اولاد کی تربیت

جناب خورشید اکرم سوز (پیدائش 1965ء) ایک سنجیدہ اور دینی ذہن رکھنے والے انسان ہیں ۔وہ ایک طویل مدت سے الرسالہ کے قاری ہیں ۔ مولانا سے کئی مرتبہ ان کی ملاقات اورخط و کتابت رہی ہے۔فروری 2002کی بات ہے۔ انھوں نے خط کے ذریعے مولانا کو بتایا تھا کہ ’’میرا ایک ہی بیٹا ہے۔میں اپنے بیٹے کو مدرسہ کی تعلیم دینا چاہتا ہوں ، اوردین کی خدمت کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں ۔اس سلسلے میں آپ سے مشورہ درکار ہے‘‘ ۔

 مولانا نے جوابی خط میں جو بات لکھی، وہ ہر ایک والدین کےلیے ایک رہنما نصیحت ہے۔ مولانا نے لکھا تھا کہ ’’خالق کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، آپ صرف اپنے بچے کی اچھی تربیت کرسکتے ہیں ، مگر آپ اپنے جذبات کو اپنے بچے پر نافذ نہیں کرسکتے۔آپ کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے اور بچے کی زندگی کا مالک خدا ہے۔ بچہ، مال اور جائداد کی طرح وقف کرنے کی چیز نہیں ہے۔ وہ خود اپنی آزادی سے اپنا فیصلہ کرے گا جب وہ ہوش سنبھالے گا۔ اس وقت تک آپ اس کی اچھی تعلیم وتربیت کا انتظام فرمائیں اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے کسی اچھے ادارے کا انتخاب فرمائیں ‘‘ ۔

عام طور پر والدین اس فطری حقیقت کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ انس بن مالک کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول یہ ہے: أَکْرِمُوا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَہُمْ(ابن ماجہ، حدیث نمبر3671)۔ یعنی اپنی اولاد کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اور ان کو اچھا ادب سکھاؤ۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کو زندگی کا بہتر طریقہ سکھائے۔ یعنی یہ سکھانا کہ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں ، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کے لیے بوجھ (liability) نہ بنیں ، بلکہ وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں ۔تربیتِ اولاد کے تعلق سے انگریزی کا ایک قول ہے:

‘‘Parents can only give good advice or put them on the right path, but the final shaping of a person’s character lies in their own hands.’’

 یعنی والدین اپنے بچوں کو اچھی نصیحت کرسکتے ہیں ، یا درست راستے كي طرف رهنمائي كر سکتے ہیں ، لیکن انساني شخصيت کی فائنل تشکیل خود انسان کے اپنےہاتھوں میں ہوتی ہے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)

کیپچاٹسٹ

انٹرنیٹ پر آپ جب بھی کوئی نیا ای میل اکاؤنٹ یا کسی بھی طرح کا کوئی اکاؤنٹ بنانے جاتے ہیں تو کیپچا (CAPTCHA )سے آپ کا واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ یہ آڑھے ٹیڑھے حروف پر مشتمل ایک تصویر ہوتی ہے جسے پڑھ کر دیے ہوئے باکس میں لکھنا ہوتا ہے۔

کیپچا ایک آزمائش ہے ، جو ویب سائٹ پر اس بات کا یقین کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ ایک حقیقی انسان ویب سائٹ پر ہے، کوئی ہیکر، یا سسٹم کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنے والا سافٹ ویئر پروگرام تو نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہیکروں کو کسی فرد یا کمپنی، وغیرہ کے پاسورڈ والے اکاؤنٹس کے مس یوز سے روکا جائے۔ کسی سافٹ ویئر پروگرام کے لیے اس تصویر میں لکھے ہوئے حروف کو پڑھنا انتہائی مشکل ہے۔ لیکن انسان چند سیکنڈز میں ان الفاظ کی شناخت کرسکتا ہے:

A CAPTCHA  is a type of challenge–response test used in computing to determine whether or not the user is human. It is a type of security measure known as challenge-response authentication. It helps protect you from spam and password decryption by asking you to complete a simple test that proves you are human and not a computer trying to break into a password protected account.

یہ ایک مثال ہے، جس سے انسانی زندگی کی ایک فطری حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ انسانی زندگی میں پیش آنے والی مصیبتوں کی حیثیت چیلنج رسپانس ٹسٹ (challenge-response test)کی ہے۔ اس سے انسان کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے اندر اعلی انسانی صفت پیدا کرے۔ وه خود کو ذہنی ارتقا كے سفر پر گامزن كرسكے۔ وہ خود كو اور اچھا انسان بنا سكے۔ یعنی دنیا میں مشكلات كيوں پيش آتي هيں ۔ وه اس ليے كه ايك سنجیدہ انسان کو جب مشکلات پیش آئيں تو وہ صبر سے کام لے،اپنا احتساب كرے اور مثبت ذہن کے ساتھ اپنے زندگی کی ری پلاننگ كرے تاكه اس كی معرفت كا سفر بلاروك ٹوك جاري رهے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم(

اقوالِ حکمت

آدمی کے لیے ہمیشہ دو میں سے ایک کے انتخاب کا موقع ہوتا ہے۔ مگر نادان آدمی تیسرا انتخاب لینے کی کوشش کرتا ہے، جو موجودہ دنیا میں سرے سے کسی کے لیے ممکن ہی نہیں ۔

٭ ٭ ٭

ذاتی انٹرسٹ کے معاملہ میں ہر آدمی ہیرو بنا ہوا ہے اور جہاں ذاتی انٹرسٹ کا معاملہ نہ ہو وہاں ہر آدمی زیرو نظر آتا ہے۔

٭ ٭ ٭

لوگ جو کچھ چاہتے ہیں اس کو وہ پاتے نہیں ، کیوں کہ وہ اس کی قیمت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

٭ ٭ ٭

کسی مسلمان کےپاس شکایت کی باتیں ہیں اور کسی مسلمان کے پاس فخر کی باتیں ۔ ایک نے صبر کو حذف کر رکھا ہے اور دوسرے نے شکر کو۔

٭ ٭ ٭

سب سے اعلیٰ انسانی صفت سنجیدگی ہے اور سب سے پست انسانی صفت کمینگی۔

٭ ٭ ٭

حق کے آگے نہ جھکنا خدا کے آگے نہ جھکنا ہے۔ ایسے لوگ یقیناً خدا کے باغی ہیں ، خواہ بظاہر وہ رکوع اور سجدہ کر رہے ہوں ۔

٭ ٭ ٭

لوگ بولنا جانتے ہیں ، مگر وہ سننا نہیں جانتے۔ اگر وہ سننے والے بن جائیں تو وہ زیادہ بہتر طور پر بولنے والے بن سکتے ہیں ۔

بہت سے لوگ مولانا کے زیرِ بار ہیں

المورد (لاہور)میں ہفتہ وار بیٹھک تھی۔خودکشی کا موضوع زیرِ بحث تھا۔اک نوجوان اپنی آپ بیتی کہنے لگا۔ نوجوان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:’’میں خودکشی کے سارے عمل سے گزر کر آیا ہوں ۔ شدید اضطراب کی کیفیت سے دوچار، زندگی سے بیزار۔ہروقت اسی قلق میں مبتلا۔کب وہ لمحہ آئے اس قیدِ حیات سے آزاد ہو جاؤں ۔ بالآخر ایک دن میں نے یہ ٹھان لیا تھا کہ آج مجھے خودکشی کرنی ہے۔ اس کے لیے میں یوٹیوب پر سرچ کررہا تھا کہ مرنے کا آسان طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ اسی دوران اچانک مولانا وحید الدین خان کی ایک ویڈیو کلپ سامنے آگئی۔نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس ویڈیوپر کلک کردیا۔اس ویڈیو نے میری زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔وہ لمحہ!! میں جانتا ہوں ، یا میرا خدا۔کئی دنوں تک تسلسل کے ساتھ مولانا کو سنتا رہا۔اس کے بعداپنے معالج سائیکیٹرسٹ کے پاس پہنچا۔وہ حیران تھے کہ اتنے دن سے میڈیسن استعمال نہیں کی۔لیکن اس قدر ہشاش بشاش کیسے؟ میں نےبتایا کہ مولانا نے مجھے خودکشی سے بچا کر خدا سے ملوا دیا۔اگر اس وقت مولانا زندہ ہوتے تو میں ان سے ملنے ضرور جاتا‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ مولانا کے زیرِ بار ہیں ! ایک طویل فہرست کو تو میں جانتا ہوں ، گمنام پتہ نہیں کتنے ہوں گے۔یہ لوگ اپنی زندگیوں سےبیزار ہو چکے تھے۔ مولانا نے اپنی گفتگو و تحریر کے ذریعے ان کی زندگی کوایک نیا حوصلہ دیا، امید کی کرن دکھا دی، سسکیوں کو مسکراہٹوں میں تبدیل کردیا اور ایک خاص انداز سے ان کو ان کے حقیقی رب سے روشناس کرواکر حصولِ مقصد کی شاہراہ پر گامزن کردیااور کتنوں کو موت و ہلاکت کی وادی میں جانے سے بچا لیا۔

میں بھی انہی میں سے ایک ہوں ۔جب بھی ناامیدی کا شکار ہونے لگتا ہوں ،ہر بار مولانا کی تحریر لڑکھڑاتی و ڈگمگاتی زندگی کو اک نئی سمت عطا کرتی ہے، اک حوصلہ نصیب ہوتا ہے، مقصدِ حیات ترو تازہ ہوجاتا ہے، رب تعالیٰکے قرب کی جستجو پیدا ہوجاتی ہے۔ خدا مولانا کی لحد پہ رحمتوں کی برکھا برسائے اور ان کو ان کےاس عمل کا اپنی شایان شان اجر دے۔( جریر حسین ،+9230669*****(

خبرنامہ اسلامی مرکز- 279

1۔   ماشاء اللہ، الرسالہ میں موجود ایک ایک آرٹیکل موجودہ پريشان كن حالات سے نپٹنے کا خوبصورت حل پیش کرتاہے ۔ اگر الرسالہ کا پیغام ہر ہر مسلمان تک پہنچ سکے ، اوروہ اسے سمجھ جائیں تو ہماری زندگیوں میں ایک خاموش انقلاب آسکتا ہے۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا (ڈاکٹر محی الدین، آندھرا پردیش، انڈیا)۔

2۔   9 فروری 2022 ایران کلچر ہاؤس ، نئی دہلی کے زیر اہتمام ایک آن لائن پروگرام منعقد کیا گیا۔ پروگرام کا موضوع تھا، حضرت فاطمہ کی تعلیمات۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے اس پروگرام کو خطاب کیا، اور پیغام دیا کہ حضرت فاطمہ کی زندگی سے ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں کیا سبق ملتا ہے۔ اور ہم خواتین موجودہ دور میں ان کی تعلیمات کو کیسے اپنی زندگی پر اپلائی کرسکتے ہیں ۔ خطاب کافی پسند کیا گیا۔

3۔   ودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی، نئی دہلی میں سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی کی چیر پرسن،ڈاکٹر فریدہ خانم، اور سی پی ایس ممبر مولانا فرہاد احمد نے 2 ستمبر 2022 کو اسٹوڈنٹس کے سامنے قرآن، پیغمبر اسلام، اور مولانا وحید الدین خاں صاحب کی تعلیمات کے متعلق انگریزی زبان میں لکچر دیا۔ لکچر کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا، ڈاکٹر فریدہ خانم نے سوالات کے جواب دیے۔ آخر میں تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر دیا گیا۔

4۔   کیپٹن خرم قریشی ایرانڈیا میں پائلٹ ہیں ۔ اسی کے ساتھ وہ ایک سنجیدہ داعی بھی ہیں ۔ ان کی دعوت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں مقامی لوگوں سے ملاقات کرکے دعوتی مواقع تلاش کرتے ہیں ، اور دعوتی مشن کو آگے بڑھانے کا کام کرتے ہیں ۔ ذیل میں ان کے دو اسفار کا حال ان کے الفاظ میں ذکر کیا جارہا ہے:

    ‘‘On 27.07.22, I met CPS members Muhiuddin Sb and Firdous Sb in Goa. Firdous Sb is the son of Siraj Sb, our senior CPS member, who has been distributing Quran and has been engaged in dawah for an extended period in Goa. His son Firdous Sb has been focusing on Quran distribution and carrying the family contribution towards the cause of God. I also met Muhiudddin sb, who has been doing amazing work on the Quran translation in Bengali and is reaching out with peace concepts amongst Muslims. Both are doing amazing work. A team expansion initiative with monthly meetings had been agreed upon to take the Quran distribution and building of dayees. All are requested to do special dua for the Goa Team. My experience only brings a feeling of Alhamdulillah.”

    ‘‘On 28.07.22, I Met brother Sajjad. He is an administrative officer in London’s Central Mosque, one of the largest mosques in Britain. He is a great admirer of Maulana. I gifted a set of Maulana’s English books for their newly opened library. They have also been distributing the Quran, and my meeting with him went very well, Alhamdulillah. Insha Allah, many people will now benefit from the books of Maulana Wahiduddin Khan that are available in their beautiful library. All CPS members are requested to do continuous dua.”

5.   Dawah Experience: Today (28. 03.2022), I distributed Maulana’s English translation of the Quran to my Professors and Collegemates at Anjuman I Islam’s Kalsekar Technical Campus. One of my Professors said, ‘‘It is essential to read the Quran with its translation. Your work will encourage others as well.” My seniors were looking for the Quran translation a day before, and coincidentally I gave it to them today. I also gifted the book, ‘‘God Arises”, to one of my Professors. Some non-Muslim students were asking, ‘‘How can we read this? It is for your religion.” I told them, “You can read it without any hesitation. It is the book for humanity, and this copy of the Quran has been translated into clear English.” I Presented Quran copies to eight Faculties members and 40 of my collegemates from the Department of Computer Science. All of them accepted it with pleasure. I want to acknowledge CPS Team Mumbai for allowing me to do dawah work. May Allah reward everyone and accept our deeds. (Nemat Khan, CPS Mumbai)

6.   Center for Peace and Spirituality International, founded by Maulana Wahiduddin Khan, aims to promote and reinforce the culture of peace. I was recently at one of their zoom events as one of the speakers, talking about Emotional Intelligence. This group of women is hard-working, intelligent, kind, determined to spread the message of goodness and work tirelessly to leave a significant positive imprint on the minds of their viewers. Alhamdulillah, I must say they are all an inspiration. The miracle part of this story is that they have not met me or each other! And I can safely say they haven’t worked with each other as well before this coincidence. The common link is me. And both these groups decided to show their appreciation by sending me a gift each. They asked for my home address around the same time, and I was expecting the gifts to arrive around the same time. And they did. One sent me a beautiful ‘‘tree of life” inspired bookshelf. And the other sent me 22 gems from the treasure of Maulana Wahiduddin Khan’s Books. So I asked my children to assemble the bookshelf (home-schooling skills) and place these books on it. The whole picture means so much more than a bookshelf with books. It reminded me of Allah’s mercy, His plan, His love, and the love He bestows in the hearts of humans for each other. The beauty of our deen is that we gift each other to increase our love and appreciation for our brothers and sisters in Islam. I pray for their families the best of both worlds. JazakAllah Khaira to the thoughtful souls. You are loved and appreciated. May we be neighbours in Jannah al Firdous Ameen. (Sr. Iram Bint Safia, Motivational Speaker, Mentor)

7.   Interfaith Dialogue Meet: A Dawah program was organized in Chennai on the 6th and 7th of May 2022. The CPS Chennai and Bangalore CPS Teams participated in the Meet together. The details of this two-day program are as follows. On May 6, the CPS Team met the renowned Indian Soil Biologist, Ecologist and Professor Dr Sultan Ahmed Ismail, whom the Government of Tamil Nādu appointed a State Development Policy Council Member on 06.06.2021. The Chennai Team has been meeting the Professor for the last 5 years; from time to time, they have presented many books of Maulana to him. We visited his residence, and after the initial discussion, we introduced the CPS Mission. Dr Ismail, too, shared his 50 years of experience with us. And we also had the opportunity to share important things related to the CPS mission with him. Undoubtedly, this meeting proved to be a learning experience for us. Later on, a workshop on ‘The Life, Thoughts, and Peace Works of Maulana Wahiduddin Khan’ was held on May 6 at the Madras Institute of Development Studies (MIDS), Adyar, Chennai, which is a leading research institute in India. Professor Ananta Kumar Giri of MIDS assisted us in organizing this program. He presented his views on Maulana’s book ‘The Prophet of Peace’ at the beginning of the program. Scholars and intellectuals from around the country also participated in this program through Zoom. Chennai CPS member Mr Faiz Qadiri Spoke on Maulana’s Life, Thoughts and Services in Tamil, which was translated into English by writer and thinker Mr. Sridhar Subramaniam.

    Mr. Siddhartha, Founder of Fireflies Intercultural Centre in Bangalore, who participated through Zoom, commented on the importance of Maulana’s literature in the present times. Then, a few questions were asked about Maulana’s views on various aspects, especially on the intolerant attitude shown by a section of the Muslim community for which responses were given. At the end of the program, Maulana’s English books were presented to Prof. Anant Kumar Giri as a gift to the MIDS Library. The session lasted for two and a half hours. And the program ended with the prayer of Hafiz Syed Iqbal Umri.

    On May 7, 2022, in Hotel Al Noor Palace, Chennai, CPS Chennai and CPS Bangalore Teams discussed essential issues related to dawah. The Bangalore team shared their vision and made a presentation. The members present in this session also shared their views. This session proved to be very important in terms of learning.

    A meeting with Swami Shrihariprasad Ji was arranged, and on May 7 2022, the team visited his Ashram. Swamiji met Maulana a few years ago and is a supporter of CPS, and he has been holding Interfaith Dialogue on Peace and Non-Violence for the last few years. Violence, patience, peace, and political interpretation of religion were discussed in the form of questions and answers with Swamiji and the members of the Ashram. The team presented them with some essential books of CPS in English, and they received them well. They, too, gifted books to our members. Swamiji invited the CPS Team to participate in his next program on non-violence. The meeting lasted for two hours. This was the last program of the trip.  (Faiz Qadri, Tanveer Ilahi Omeri, Chennai)

8.   Request to Attend Sunday Class at CPS: Assalmuleikum! I hope my email finds you in the best of health and spirit. Two years ago, my sister sent me the videos of Maulana Wahiduddin Khn. ; This was the first time I had heard someone focus so much on the minute details of how to live in this world so that we have a good world here and an even better one in the world Hereafter. Years passed, and I got busy just living life, to tell you the truth, surviving in life. One day when I was utterly dejected and rejected from this life, I came across a video of Maulana in which he told how the Chinese built their empire. The quote, ‘‘Zindagi mein itna peeche aa gaye ki aage badhne ke seva koi raasta nahi”, stuck with me and helped me to move forward in life. I am utterly thankful to God for allowing me to be a disciple of Maulana; even though I regret not meeting him in person in this life, his preaching will always live in my memory. As a beginner in faith, while contemplating the matters of life and the Hereafter, lots of questions arise in my mind, and at times, I am unable to grasp meanings from the Quran and Hadith. That is why I would like to attend weekly classes at the CPS Center, New Delhi that will help me to become a better believer and come across many, many unknown teachings and keep the wheel of learning ever moving. Hoping to see a positive reply soon. Thanks & Regards. (Ayesha Rizvi, aye****[email protected])

9۔   پوری دنیا میں ایسے انسانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جوقرآن پڑھنا چاہتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں امریکا کے دو الگ الگ ہاسپٹل سے ای میل کے ذریعہ موصول ہونے والے پیغامات ذیل میں دیے جارہے ہیں :

To: S Khan Goodword,

Subject: Are you able to spare any free Qurans?

Dear S khan, Many of our patients are asking for Qurans in the psychiatric facility. Would you be able to send any to us, please? (Leslie Schotz, D. Min., BCC NY, Isch****@northwell.edu)

To: info@goodword,

Subject: Qurans for hospital use

I want to purchase 50 small Qurans (not hard cover) for use at our hospital (Grey Nuns Community Hospital). Could you please let me know how I could arrange this? Thanks. (Marjorie Charest, Community Hospital, marjorie****@covenanthealth.ca)

ان دونوں ہاسپٹل میں قرآن کی مطلوبہ تعداد پہنچا د ی گئی ہے۔

ख़ुदा का फ़ैज़ान

हमारे घर में पहले एक मीटर बैंड का मामूली ट्रांज़िस्टर था। वह सिर्फ़ दिल्ली रेडियो स्टेशन पकड़ता था। हम उससे दिल्ली की ख़बरें सुन लेते थे। मगर दूसरे मुल्कों के स्टेशन सुनना उसके ज़रिए मुमकिन न था। कई साल तक यही छोटा ट्रांजिस्टर हमारे लिए रेडियो प्रसारण सुनने का ज़रिया बना रहा।

उसके बाद हमने चार मीटर बैंड का बड़ा रेडियो सेट ख़रीदा। यह रेडियो सेट दुनिया भर के तमाम मुल्कों के रेडियो स्टेशन पकड़ता था। इसके ज़रिए जब हमने बी.बी.सी. और दूसरे विदेशी स्टेशनों को सुना तो मालूम हुआ कि हम कितनी बड़ी दौलत से महरूम थे। विभिन्न मुल्क हर रोज़ क़ीमती प्रोग्राम प्रसारित करते हैं। उनको सुनने से ज़बरदस्त वैचारिक और मालूमाती फ़ायदे होते हैं। मगर इस बौद्धिक ख़ज़ाने से फ़ायदा उठाना हमारे लिए उस वक़्त तक मुमकिन न हो सका, जब तक हमने बड़ा रेडियो सेट अपने लिए हासिल न कर लिया।

ख़ुदा और बन्दे का मामला भी ऐसा ही है। ख़ुदा का फ़ैज़ान (अनुग्रह) जैसे एक असीम और अनन्त प्रसारण-केन्द्र है। उससे हर लम्हा ख़ुदा के रिज़्क़ की बारिश होती रहती है। मगर आप इससे कितना पाएं, यह बात आपके अपने ‘रेडियो सेट’ पर है। अगर आपका रेडियो सेट छोटा है तो आप बहुत कम चीज़ें ग्रहण कर सकेंगे। और अगर आपका रेडियो सेट बड़ा है तो आपके ऊपर इतना ज़्यादा ख़ुदा का फ़ैज़ान बरसेगा जैसे कि आप ख़ुदाई फ़ैज़ान के अथाह समन्दर में नहा उठे हैं।

आजकल हर आदमी सीमितता का शिकार है। कोई शख़्स है जो किसी गिरोही कवच में बन्द है। कोई अपने आपको तुच्छ स्वार्थों में इस तरह गुम किए हुए है कि उसको आगे-पीछे की कोई ख़बर नहीं। किसी का सतही होना उसके लिए गहरी हक़ीक़तों को समझने में रुकावट बना हुआ है। किसी की संकुचित दृष्टि ने उसको इस क़ाबिल नहीं रखा है कि वह व्यापक दायरे को समझ सके।

बन्द कोठरी में सूरज की रोशनी नहीं पहुंचती। इसी तरह बन्द ज़ेहन ख़ुदा का फ़ैज़ान पाने से महरूम रहता है। ख़ुदा का ‘फ़ैज़ान’ उसी को मिलता है, जो अपने ज़ेहन के दरवाज़े खोलने पर राज़ी हो जाए।

कोई उस जैसा नहीं

क़ुरआन में ख़ुदा के बारे में ये शब्द आये हैं कि उस जैसी कोई चीज़ नहीं (अल-शूरा: 11)। ख़ुदा हर लिहाज़ से एक बड़ी हस्ती है। उसका बड़ा और महान होना ही उसको यह हैसियत देता है कि से वह तमाम मौजूद चीज़ों का ख़ुदा ठहरे, सबके सब उसके आगे झुक जाएं। सबके सब उसको अपना बड़ा बना कर उसके मुक़ाबले में छोटा बनने पर राज़ी हो जाएं।

ख़ुदा अपने आप क़ायम है। इन्सान पैदा किए जाने से पैदा होता है। पर ख़ुदा इससे ऊपर है कि कोई उसको पैदा करे। ख़ुदा का अस्तित्व एक स्थायी अस्तित्व है। वह हमेशा से है और हमेशा रहेगा। वह एक है। वह सबसे बेनियाज़ (निःस्पृह) है। उसका न कोई बाप है और न कोई उसका बेटा। उसके बराबर कोई नहीं।

ख़ुदा नहींसे हैको पैदा करने की ताक़त रखता है। वही है जिसने तमाम ग़ैर-मौजूद चीज़ों को मौजूद किया। पदार्थ और क्रिया और प्रकाश और ऊर्जा और चेतना के रूप में जो कुछ आज सृष्टि में दिखाई देता है वह सब उसी का पैदा किया हुआ है। उसी ने तमाम चीज़ों को अस्तित्व दिया।

ख़ुदा परोक्ष (ग़ैब) का ज्ञान रखता है। वह अतीत और वर्तमान के साथ-साथ भविष्य को भी पूरी तरह जानता है। ख़ुदा की इसी विशेषता की वजह से यह मुमकिन हुआ कि वह सृष्टि की ऐसी मन्सूबाबंदी करे कि उसके तमाम हिस्से एक-दूसरे से तालमेल रखते हों। उनमें शाश्वत रूप से कोई दोष पैदा न हो सके।

ख़ुदा एक जिन्दा हस्ती है। वह नींद और थकान और कमज़ोरी से ऊपर है। वह अपनी व्यापक सृष्टि का अनवरत संचालन कर रहा है। यही वजह है कि करोड़ों-अरबों साल गुज़रने के बाद भी यूनिवर्स की गति बराबर जारी है। उसमें कभी अंतराल नहीं आया। उसमें कोई ख़राबी पैदा नहीं हुई।

ख़ुदा एक सर्वशक्तिवान हस्ती है। ख़ुदा अगर शक्तिवान न हो तो इन्सान के पास शक्ति कहां से आए? ख़ुदा तमाम चीज़ों को देखने वाला है। ख़ुदा अगर न देखे तो इन्सान भी देखने से महरूम रहे। ख़ुदा चेतना और बोध का मालिक है। ख़ुदा अगर चेतना और बोध का मालिक न हो तो इन्सान के पास न चेतना होगी और न ही वह किसी चीज़ का बोध कर सकेगा। ख़ुदा सब कुछ है। ख़ुदा उन विशेषताओं का मालिक भी है, जिनको हम जानते हैं और उन गुणों का मालिक भी जिनको हम नहीं जानते। मौजूदा दुनिया में ख़ुदा का सृजन प्रकट हुआ है, आख़िरत में ख़ुदा शासकत्व अपने खुले हुए रूप में प्रकट हो जाएगा।

आह इन्सान

इन्सान ख़ुदा को नाराज़ करने वाले अल्फ़ाज़ बोलता है। वह भूल जाता है कि उसका ख़ुदा उसको देख रहा है। इन्सान जहन्नमी कर्म करता है, हालांकि जहन्नम की एक आंच सहने की ताक़त भी उसके अन्दर नहीं। आह, कितना ज़्यादा कमज़ोर है इन्सान, इसके बावजूद वह कितना ज़्यादा ढीट बना हुआ है!

इन्सान के सामने एक सच्चाई आती है, जिसका वह इन्कार न कर सके। इसके बावजूद वह उसको हिक़ारत के साथ नज़र अन्दाज़ कर देता है। इन्सान की ग़लती दिन की रोशनी की तरह उस पर खोल दी जाती है, फिर भी वह अपनी ग़लती को नहीं मानता। इन्सान के पास अपने नासेह (नसीहत करने वाला) की बात को ठुकराने के लिए कोई दलील नहीं होती, लेकिन वह ऐब निकाल कर और इल्ज़ाम लगा कर ज़ाहिर करता है कि नासेह (नसीहत करने वाले) इस क़ाबिल ही नहीं कि उसकी बात मानी जाए।

इन्सान ख़ुद ज़ालिम होता है और वह दूसरे के ज़ुल्म का एलान करता है। इन्सान अपने क़दमों के नीचे फ़साद बरपा किए हुए होता है और दूसरों को फ़सादी कह कर उन्हें तबाह करने की मुहिम चलाता है। इन्सान अपने हकों की अदायगी में आख़िरी हद तक ग़ाफ़िल होता है और दूसरे के हक़ों का झंडा उठा कर ज़मीन व आसमान एक कर देना चाहता है।

इन्सान अपनी क़यादत और सरदारी की ख़ातिर झूठे नारे लगाता है, चाहे इसके नतीजे में पूरी क़ौम तबाह व हलाक हो जाए। इन्सान अपने को बड़ा बनाने के लिए दूसरे को छोटा कर देना चाहता है, चाहे दूसरे को छोटा करने की यह कोशिश ख़ुदाई हक़ीक़त को छोटा करने जैसी हो। इन्सान ख़ुशख़्यालियों में जीता है, हालांकि इस दुनिया में हक़ीक़त के सिवा कोई चीज़ नहीं, जहां आदमी को ज़िन्दगी का साया मिल जाए।

इन्सान का यह हाल है कि वह बिल्कुल बेहक़ीक़त होता है और अपने को हक़ीक़त के रूप में ज़ाहिर करता है। इन्सान अपनी बड़ाई के मीनार को बाक़ी रखने के लिए अपनी सारी ताक़त लगा देता है, हालांकि आख़िरकार जो वाक़िया होने वाला है, वह यह कि वह और उस के बड़ाई का मीनार दोनों एक ही क़ब्रिस्तान में हमेशा के लिए दफ़न हो जाएं। ख़ुदा ने इन्सान को जन्नत में बसने के लिए बनाया था, मगर इन्सान को जहन्नम के रास्तों में दौड़ने के सिवा किसी और चीज़ से कोई दिलचस्पी नहीं।

कारण क्या है

क़ुरआन में अलग-अलग अन्दाज़ में यह बात कही गई है कि बहुत से इन्सान ऐसे हैं जिनका हाल यह होता है कि उनके सामने सच्चाई को हर क़िस्म की दलीलों के साथ बयान कर दिया जाए, तब भी वे उसको क़बूल नहीं करेंगे। मसलन हज़रत सालेह अलैहिस्सलाम का ज़िक्र करते हुए बताया गया है कि उन्होंने अपनी क़ौम के सामने सच्चाई को पूरी तरह खोल कर रख दिया, इसके बावजूद वे लोग मानने के लिए तैयार नहीं हुए। आख़िर में वे अपनी क़ौम से निकल गए और कहा कि ऐ मेरी क़ौम, मैंने तुमको अपने रब का पैग़ाम पहुंचा दिया और मैंने तुम्हारा भला चाहा। पर तुम भला चाहने वालों को पसन्द नहीं करते (अल-आराफ़ 79)।

दूसरी जगह अल्लाह तआला ने फ़रमाया कि मैं अपनी निशानियों से उन लोगों को फेर दूंगा जो ज़मीन में नाहक़ घमंड करते हैं। और वे हर क़िस्म की निशानियां देख लें तब भी वे उन पर ईमान न लाएं (उनका हाल यह है कि) अगर वे हिदायत का रास्ता देख लें तो उसको वे नहीं अपनाएंगे। और अगर वे गुमराही का रास्ता देखें तो उसको वे अपना लेंगे। इसकी वजह यह है कि उन्होंने हमारी निशानियों को झुठलाया और उनको अनदेखा किया (अल-आराफ़ 146)।

इन दोनों आयतों में ऐसे गिरोहों का ज़िक्र है जिनको ख़ुदा के पैग़म्बर के ज़रिए बेहतरीन शक्ल में ख़ुदा का पैगाम पहुँचा। उसके बावजूद उन्होंने हक़ की पैगाम को क़बूल नहीं किया। इस की वजह क्या थी। इसकी वजह उनकी बिगड़ी हुई मानसिकता थी। मानसिकता का यह बिगाड़ अक्सर हालात में घमंड की बुनियाद पर होता है। इसी वजह से उपरोक्त आयत में घमंड का ज़िक्र किया गया है (अल-आराफ़ 146)।

नसीहत हर इन्सान के लिए नापसन्दीदा चीज़ है। और ख़ास तौर पर घमंडी इन्सान तो नसीहत को बिल्कुल नापसन्द करता है। जो लोग घमंड की मानसिकता रखते हैं, वे कभी अपने ख़िलाफ़ किसी नसीहत को सुनने पर राज़ी नहीं होते। ऐसी कोई सच्चाई उनके लिए आख़िरी हद तक अस्वीकार्य होती है, जिसमें उन्हें अपनी शख़्सियत का इंकार दिखाई दे रहा हो।

जो लोग अपने आपको ऊंचे मुक़ाम पर बैठा हुआ मान लें वे किसी ऐसी दावत को क़बूल करने के लिए तैयार नहीं होते जिसमें उन्हें महसूस हो कि उसको क़बूल करने की हालत में उन्हें अपने ऊंचे मुक़ाम से नीचे उतरना पड़ेगा। जो लोग फ़ख़र और अकड़ की मानसिकता रखते हों उनकी यह मानसिकता उनके लिए किसी ऐसी बात को मानने की राह में रुकावट बन जाती है जिसमें उनका फ़ख़र और अकड़ उन्हें टूटता हुआ नजर आए।

जो लोग क़ौम की जांच पड़ताल करने के काम को अपना जीवन-लक्ष्य समझ बैठे हों वे अपने मिज़ाज की वजह से ऐसी किसी पुकार को नज़रअन्दाज़ कर देते हैं, जिसमें ख़ुद अपनी ही जांच पड़ताल करने पर सबसे ज़्यादा ज़ोर दिया गया हो। जो लोग कल्पनाओं और ख़ुशख़यालियों की दुनिया में जी रहे हों वे किसी ऐसे पैग़ाम को अपने लिए अजनबी महसूस करते हैं जिसमें यथार्थ और मौजूदा सच्चाई से तालमेल करके ज़िन्दगी के निर्माण का सबक़ दिया गया हो। जिन लोगों की निगाह अपनी ज़िम्मेदारियों के बजाय अपने अधिकारों पर हो, वे ऐसी किसी दावत को ग़ैरज़रूरी समझ कर रद्द कर देते हैं जिसमें उन्हें उनको ज़िम्मेदारियां याद दिलाई जाएं।

जो लोग अपने बारे में यह समझ लें कि वे बख़्शे हुए लोग हैं वे ऐसे पैग़ाम की सार्थकता को समझ नहीं पाते, जिसमें अपनी मौजूदा हालत के तहत उन्हें अपनी बख़्शिश संदिग्ध दिखाई पड़ती हो। जिन लोगों ने ख़यालों की रंगीन दुनिया में अपने क़िले बना रखे हों वे किसी ऐसे पैग़ाम को अहमियत देने में नाकाम रहते हैं, जिसको मानने की हालत में उन्हें दिखाई दे कि वे किसी सुरक्षित क़िले में नहीं बल्कि रेगिस्तान में खड़े हुए हैं। जिन लोगों ने यह आस्था बना रखी हो कि किसी अमल के बग़ैर ही उनके लिए पहले से जन्नत के महल रिज़र्व हो चुके हैं। वे किसी ऐसी तहरीक में हिस्सा लेना ग़ैरज़रूरी समझते हैं जिसमें अमल की बुनियाद पर जन्नत में दाख़िले का राज़ बताया गया हो।

सच को क़बूल करने में सबसे बड़ी रुकावट बिगड़ा हुआ मिज़ाज है। जो लोग बिगड़े हुए मिज़ाज वाले हों, उनको सिर्फ़ अपने मिज़ाज के मुताबिक़ बात ही अपील करती है। दूसरी कोई बात, चाहे वह कितनी ही दलीलों के साथ बयान कर दी जाए वह किसी तरह उन्हें अपील नहीं करती। अपने ख़ास मिज़ाज के ख़िलाफ़ किसी बात को मानना उनके लिए उतना ही कठिन हो जाता है, जितना कि बकरी के लिए गोश्त खाना और शेर के लिए घास चरना।

फ़ितरी हक़ीक़त

सी एफ डोल (C. F. Dole) ने कहा है कि – मेहरबानी का बर्ताव दुनिया में सबसे बड़ी अमली ताकत है:

Goodwill is the mightiest force in the Universe.

यह महज़ एक शख़्स का क़ौल नहीं, यह एक फ़ितरी हक़ीक़त है। इन्सान के पैदा करने वाले ने इन्सान को जिन ख़ुसूसियात और विषेशताओं के साथ पैदा किया है, उनमें से अहमतरीन ख़ुसूसियत यह है कि किसी आदमी के साथ बुरा सुलूक किया जाए तो वह बिफ़र उठता है और अगर उसके साथ अच्छा सुलूक किया जाए तो वह एहसानमन्दी के एहसास के तहत सुलूक करने वाले के आगे बिछ जाता है।

इस आम फ़ितरी उसूल में किसी भी शख़्स का कोई इस्तिस्ना (अपवाद) नहीं। यहां तक कि दोस्त और दुश्मन का भी नहीं। आप अपने एक दोस्त से कड़वा बोलिए। उसको बेइज़्ज़त कीजिए। उसको तकलीफ़ पहुंचाइए। आप देखेंगे कि उसके बाद फ़ौरन वह सारी दोस्ती को भूल गया है। उसके अन्दर अचानक इंतिक़ामी जज़्बा उठेगा। वही शख़्स जो इससे पहले आपके ऊपर फूल बरसा रहा था, अब वह आपके ऊपर कांटे और आग बरसाने के लिए आमादा हो जाएगा।

इसके बरअक्स एक शख़्स जिसको अपना दुश्मन समझते हैं, उससे मीठा बोलिए। उसकी कोई ज़रूरत पूरी कर दीजिए। उसकी किसी मुश्किल के वक़्त उसके काम आ जाइए, यहां तक की प्यास के वक़्त उसको एक गिलास ठंडा पानी पिला दीजिए। अचानक आप देखेंगे कि उसका पूरा मिज़ाज बदल गया है। जो शख़्स इससे पहले आपका दुश्मन दिखाई दे रहा था, वह आपका दोस्त और ख़ैरख़्वाह बन जाएगा।

ख़ुदा ने इन्सान की फ़ितरत में एक मिज़ाज रख कर हमारी बहुत बड़ी मदद की है। इस फ़ितरत ने एक निहत्थे आदमी को भी सबसे बड़ा तस्ख़ीरी (सम्मोहक) और असरदार हथियार दे दिया है। इस दुनिया में शेर और भेड़िये को मारने के लिए गोली की ताक़त चाहिए, मगर इन्सान को जीतने के लिए गोली की ज़रूरत नहीं। उसके लिए अच्छे सुलूक की एक फ़ुहार काफ़ी है। कितना आसान है इन्सान को अपने क़ाबू में लाना। मगर नादान लोग इस बेहद आसान काम को अपने लिए बेहद मुश्किल काम बना लेते हैं।

परिवर्तन का नियम

क़ायनाती पैटर्न का एक पहलू यह है कि यहां की पूरी व्यवस्था रूपांतरण व परिवर्तन (conversion) के नियम पर क़ायम है। यहां किसी चीज़ की उपयोगिता इसी में है कि वह परिवर्तन के सिद्धांत पर पूरी उतरे। मसलन, इस दुनिया में इंसान की सांस से तथा अन्य कारणों से बड़ी मात्रा में कार्बन डाईऑक्साइड पैदा होती है। पेड़-पौधे इसको अपने अन्दर लेते हैं।

पेड़-पौधों में जो कार्बन डाईऑक्साइड प्रवेश करती है अगर वे दोबारा उसको कार्बन डाईऑक्साइड के रूप में ही निकालें तो पूरा वातावरण ज़हरीला (प्रदूषित) हो जाए और इंसान तथा जानवरों के लिए ज़िंदा रहना असंभव हो जाए। लेकिन पेड़-पौधे इस कार्बन डाईऑक्साइड को विशेष प्रक्रिया के ज़रिए ऑक्सीजन में बदल देते हैं और उसको ऑक्सीजन के रूप में बाहर निकालते हैं। वे दूसरों से जहरीली गैस लेकर उन्हें लाभदायक गैस का तोहफ़ा पेश करते हैं।

इसी तरह गाय की मिसाल लीजिए। गाय एक तरह से क़ुदरत की इंडस्ट्री है, जो घास खाती है और उसको दूध के रूप में हमें लौटा देती है। वह इंसान के न खाने योग्य चीज़ को खाने योग्य चीज़ में बदलने का क़ुदरती कारख़ाना है। गाय अगर ऐसा करे कि वह घास खाकर घास ही देने लगे तो वह अपनी क़ीमत और उपयोगिता खो देगी।

कनवर्जन (रुपान्तरण) का यह नियम जो बाक़ी दुनिया में लागू है, वही इंसान के लिए भी आदर्श है। बांकी दुनिया की सही कार्यकुशलता का रहस्य यह है कि वह कनवर्ज़न के सिद्धान्त पर काम कर रही हो। इसी प्रकार बेहतर जिंदगी और सफल मानव समाज बनाने का गुण भी यही है कि इसके व्यक्ति ऐसा चरित्र प्रस्तुत करें कि वे घासखाएं और उसको दूधके रूप में दुनिया की तरफ़ लौटा सकें।

क़ुरान में सच्चे इंसानों के बारे में कहा गया है कि जब उन्हें ग़ुस्सा आता है तो वे माफ़ कर देते हैं यानि दूसरों की तरफ़ से उन्हें ऐसा सलूक मिलता है जो उनमें ग़ुस्सा और बदले की आग भड़काने वाला हो पर वे ग़ुस्सा और बदले की आग को अपने अन्दर ही अन्दर बुझा देते हैं। और दूसरे व्यक्ति को जो चीज़ लौटाते हैं वह क्षमा होती है और सद्व्यवहार होता है।

क़ुरान में कहा गया है कि भलाई और बुराई दोनों समान नहीं। तुम जवाब में वह कहो जो उससे बेहतर हो। फिर तुम देखोगे कि तुममें और जिसमें दुश्मनी थी, वह ऐसा हो गया जैसे कि कोई क़रीबी दोस्त (41:34)। इस आयत के बारे में हज़रत अली इब्ने अबी तालिब ने कहा:

अल्लाह ने ईमान वालों को हुक्म दिया है कि वह गुस्से के वक़्त सब्र करें कोई जहालत करे तो उसको बर्दाश्त करें। बुराई की जाए तो माफ़ करने और भुला देने का तरीक़ा अपनाएं। जब वे ऐसा करेंगे तो अल्लाह उनको शैतान से बचाएगा और उनके दुश्मन को इस तरह झुका देगा कि वह उनका करीबी दोस्त बन जाए।

यह वही ख़ूबी है, जिसको ऊपर हमने कनवर्जन का गुण कहा है। ख़ुदा-परस्त आदमी की ख़ुदा-परस्ती उसके अन्दर ऐसी ख़ूबी पैदा कर देती है कि वह बुराई को भलाई में बदल (रूपान्तरित कर) सके जो लोग उसे गाली दें उनके लिए वह दुआ करे। जो लोग उनके साथ ग़ैर इंसानी सलूक करें उनके साथ वह इंसानी सूलूक करे। जो लोग उससे कड़वा बोलें उनका स्वागत वह मीठे बोल से करे।

इससे मालूम होता है कि बेहतर समाज के निर्माण के लिए हमारी कोशिशों का रुख़ क्या होना चाहिए। वह यह होना चाहिए कि हम व्यक्तियों में कनवर्जनकी खूबी पैदा करने की कोशिश करें। मौजूदा दुनिया में आदर्श समाज इसी कनवर्ज़न के जरिए बनाया जा सकता है। इसके सिवा आदर्श समाज बनाने का कोई और तरीका नहीं।

क़ुदरत का फ़ैसला

अगर आप अमरीका जाएं और वहां से कनाडा की तरफ़ सफ़र करें तो आप देखेंगे कि अमरीका और कनाडा की सरहद (border) पर दोनों मुल्कों के झंडे एक साथ लहरा रहे हैं। पास ही एक बोर्ड है, जिसके ऊपर बड़े-बड़े अक्षरों में लिखा हुआ है– एक ही मां की औलादें:

Children of a common mother

यह बात जो अमरीका और कनाडा की सीमा पर खुले बोर्ड के ऊपर लिखी गई है, यही बात तमाम दूसरे मुल्कों की सरहदों पर ‘छुपे हुए बोर्डों’ में न दिखाई देने वाले अक्षरों में लिखी हुई है। यह दूसरा बोर्ड वह है जो क़ुदरत की तरफ़ से लगाया गया है। पहला बोर्ड इन्सानी हाथों ने लिखा है, दूसरा बोर्ड ख़ुद ख़ुदा के हाथों ने।

मॉलेक्यूलर बायोलॉजी में जो नई खोजें हुई हैं उनसे जैनेटिक सबूतों (genetic evidence) के ज़रिए ख़ालिस साइंस की सतह पर यह साबित हुआ है कि तमाम दुनिया के लोग एक ही महान ख़ानदान (Great family) का हिस्सा हैं। सब एक ही मां-बाप (common ancestor) से ताल्लुक़ रखते हैं (तफ़्सील के लिए मेरी किताब देखिए, तामीर की तरफ़  पेज 28-30)

इस एतबार से देखा जाए तो मालूम होगा के अमरीका और कनाडा की सरहद पर लगे बोर्ड पर जो बात लिखी हुई है वह फ़ितरी सच्चाई है। वही मामला तमाम क़ौमों का है जिसका ऐलान अमरीका और कनाडा ने अपने यहां किया है। जीव वैज्ञानिक सच्चाई का तक़ाज़ा है कि हर क़ौम अपने यहां वही अल्फ़ाज़ लिखे जो अमरीका और कनाडा ने अपने यहां लिख रखा है।

यही मौजूदा दुनिया में इन्सान का इम्तिहान है। यहां आदमी को अपने आज़ाद इरादे से वही काम करना है जो क़ुदरत ने लाज़िमी क़ानून के तहत पहले से तय कर दिया है। जो चीज़ क़ुदरत ने अपनी छुपी हुई क़लम से लिखी है, उसे इन्सान को अपने हाथ से अपनी ज़िन्दगी के सफ़हे पर लिखना है।

क़ुदरत के अपने मन्सूबे के तहत जगत की जो स्कीम (scheme of things) है, उसके मुताबिक़ हर इंसान को अपनी स्कीम को ढाल लेना चाहिए। क्यों की क़ुदरत के नक़्शे से तालमेल का नाम तामीर और सृजन है और क़ुदरत के नक़्शे से तालमेल न करने का नाम नाकामी और बर्बादी।

मुजरिम कौन

एक आदमी को गुलाब का फूल तोड़ना था। वह शौक़ के तहत तेज़ी से लपक कर उसके पास पहुंचा और झटके के साथ एक फूल तोड़ लिया। फूल तो उसके हाथ में आ गया, लेकिन तेज़ी के नतीजे में कई कांटे उसके हाथ में चुभ चुके थे। उसके साथी ने कहा कि तुमने बड़ी हिमाक़त की, तुमको चाहिए था कि कांटो से बचते हुए एहतियात के साथ फूल तोड़ो। तुमने एहतियात वाला काम बेएहतियाती से किया। इसी का नतीजा है कि तुम्हारा हाथ ज़ख्मी हो गया।

अब फूल तोड़ने वाला गुस्सा हो गया। उसने कहा कि सारा क़ुसूर तो इन कांटों का है। उन्होंने मेरी हथेली और मेरी उंगलियों से खून निकाल दिया। और तुम उल्टा मुझको मुजरिम ठहरा रहे हो। उसका साथी बोलाः मेरे दोस्त, यह दरख़्त के कांटों का मामला नहीं, यह क़ुदरत के निज़ाम का मामला है। क़ुदरत ने दुनिया का निज़ाम इसी तरह बनाया है कि यहां फूल के साथ कांटे हों। मेरी और तुम्हारी चीख़ और पुकार ऐसा नहीं कर सकती कि इस निज़ाम को बदल दे। फूल के साथ कांटे का यह निज़ाम तो बहरहाल इसी तरह दुनिया में रहेगा। अब मेरी और तुम्हारी कामयाबी इसमें है कि हम सच्चाई को मानते हुए इससे बचने की तदबीर तलाश करें। और वह तदबीर यह है कि कांटों से बच कर फूल को हासिल करें। कांटों में न उलझते हुए फूल तक पहुंचने की कोशिश करें।

फूल के साथ कांटे का होना कोई सादा बात नहीं। यह फ़ितरत और क़ुदरत की ज़ुबान में इन्सान के लिए सबक़ है। यह प्रकृति की भाषा में इन्सानी हक़ीक़त का ऐलान है। यह उस फ़ितरी मन्सूबे का परिचय है, जिसके मुताबिक़ ख़ुदा ने मौजूदा दुनिया को बनाया है। इसका मतलब यह कि इस दुनिया में वही क़दम कामयाब होता है जो बच कर चलने के उसूलों के मुताबिक़ हो।

जहां बचने की ज़रूरत हो वहां उलझना, जहां तदबीर की ज़रूरत हो वहां एजीटेशन करना सिर्फ़ अपनी नालायक़ी (अयोग्यता) का ऐलान करना है। ख़ुदा ने जिस मौक़े पर बच कर चलने का तरीक़ा इख़्तियार करने का हुक्म दिया हो, वहां उलझने का तरीक़ा इख़्तियार करना ख़ुद अपने आपको मुजरिम बनाना है। चाहे आदमी ने दूसरों को मुजरिम साबित करने के लिए डिक्शनरी के तमाम अल्फ़ाज़ दोहरा डाले हों।

ख़ुदा का सबूत

अगर एक इन्सान का वजूद है तो ख़ुदा का वजूद क्यों नहीं? अगर हवा और पानी, दरख़्त और पत्थर, चांद और सितारे मौजूद हैं तो उनको वजूद देने वाले का वजूद संदिग्ध क्यों? हक़ीक़त यह है कि रचना की मौजूदगी रचना-प्रक्रिया का सबूत है। और इन्सान को मौजूदगी इस बात का सबूत है कि यहां एक ऐसा सृष्टा मौजूद है, जो देखे और सुने, जो सोचे और घटनाओं को प्रकट रूप दे।

इसमें शक नहीं कि ख़ुदा ज़ाहिरी आंखों से दिखाई नहीं देता। मगर इसमें भी शक नहीं कि इस दुनिया की कोई भी चीज़ ज़ाहिरी आंखों से दिखाई नहीं देती। फिर किसी चीज़ को मानने के लिए देखने की शर्त क्यों ज़रूरी हो।

आसमान पर सितारे जगमगाते हैं। आम आदमी समझता है कि वह सितारों को देख रहा है, हालांकि ख़ालिस वैज्ञानिक नज़रिए से यह सही नहीं है। जब हम सितारों को देखते हैं तो हम सितारों को सीधे नहीं देख रहे होते हैं, बल्कि उनके उन प्रभावों को देख रहे होते हैं, जो सितारों से निकल कर करोड़ों साल के बाद हमारी आंखों तक पहुंचे हैं।

यही तमाम चीज़ों का हाल है। इस दुनिया की हर चीज़ जिसको इन्सान ‘देख’ रहा है, वह सिर्फ़ अप्रत्यक्ष तौर पर उसे देख रहा है। सीधे तौर पर इन्सान किसी चीज़ को नहीं देखता; और न अपनी मौजूदा सीमाओं के रहते हुए वह उसे देख सकता है।

फिर जब दूसरी तमाम चीज़ों के वजूद को अप्रत्यक्ष दलील की बुनियाद पर माना जाता है तो ख़ुदा के वजूद को अप्रत्यक्ष और बिलवास्ता दलील की बुनियाद पर क्यों न माना जाए?

हक़ीक़त यह है कि ख़ुदा उतना ही साबितशुदा है, जितनी इस दुनिया की कोई दूसरी चीज़। इस दुनिया की हर चीज़ अप्रत्यक्ष दलील से साबित होती है। इस दुनिया में हर चीज़ अपने प्रभाव से पहचानी जाती है। ठीक यही हालत ख़ुदा के वजूद की भी है।

ख़ुदा यक़ीनन सीधे तौर पर हमारी आंखों को दिखाई नहीं देता, मगर ख़ुदा अपनी निशानियों के ज़रिए यक़ीनन दिखाई देता है। और बेशक ख़ुदा के इल्मी सबूत के लिए यही काफ़ी है।

इन्तिक़ाम नहीं

किसी ने कहा है – “इन्तिक़ाम लेने से पहले सोच लो कि इन्तिक़ाम का भी इन्तिक़ाम लिया जाएगा।” यह ज़िन्दगी की निहायत गहरी हक़ीक़त है। और इस हक़ीक़त को समझने के बाद ही कोई शख़्स मौजूदा दुनिया में अपनी ज़िन्दगी को कामयाब बना सकता है।

एक शख़्स से आपको तकलीफ़ पहुंची। आपके दिल में उसके ख़िलाफ़ इन्तिक़ाम लेने का जज़्बा भड़क उठा। आप चाहने लगे कि उससे बदला लेकर अपने सीने की आग ठंडी करें। मगर सोचने की बात यह है कि एक शख़्स के तकलीफ़ देने से आपके अन्दर इन्तिक़ाम का जज़्बा भड़क उठा, फिर वही तकलीफ़ जब आप उस शख़्स को देंगे तो क्या उसके अन्दर दोबारा इन्तिक़ाम का जज़्बा नहीं भड़केगा। यक़ीनन ऐसा ही होगा। और फिर बुराई का एक चक्कर चल पड़ेगा। आपको एक तकलीफ़ के बाद दूसरी तकलीफ़ सहनी पड़ेगी। इसलिए अक़्लमन्दी यह है कि नज़रअन्दाज़ करने का तरीक़ा इख़्तियार करके बात को पहले ही मरहले में ख़त्म कर दिया जाए।

मेरी मुलाक़ात एक बार उत्तर प्रदेश के एक शख़्स से हुई। उसने एक नेता की साझेदारी में एक बस ख़रीदी। उस आदमी ने पैसा लगाया और नेता ने लायसेंस हासिल किया। लाइसेंस क़ानूनी तौर पर नेता के नाम था। मगर फ़ायदे में दोनों बराबर के हिस्सेदार थे।

कुछ दिनों के बाद नेता की नीयत ख़राब हो गयी। उसने सोचा कि क़ानूनी तौर पर गाड़ी मेरी है, क्योंकि लाइसेंस मेरे नाम है। फिर मैं उसका फ़ायदा दूसरों को क्यों दूं। उसने एकतरफ़ा तौर पर गाड़ी पर क़ब्ज़ा कर लिया।

अब आदमी बहुत ग़ुस्सा हुआ। उसके अन्दर इन्तिक़ाम की आग भड़क उठी। उसने इरादा किया कि नेता को क़त्ल कर डाले। वह उसके क़त्ल का मन्सूबा बनाने लगा। इस दौरान उसकी मुलाक़ात एक बूढ़े तजुर्बेकार आदमी से हुई। पूरा हाल सुनने के बाद बूढ़े आदमी ने कहा कि अगर तुम अपने मन्सूबे के मुताबिक़ नेता को मार डालो तो उसके बाद उसके बच्चे क्या तुम को जिन्दा छोड़ देंगे?

यह बात आदमी की समझ में आ गई। उसने नेता के क़त्ल का इरादा छोड़ दिया। इसके बजाय उसने यह किया कि उसके पास जो रक़म अब भी बाक़ी थी उससे छोटे पैमाने पर कारोबार शुरू कर दिया। चन्द साल बाद जब उस आदमी से मेरी मुलाक़ात हुई तो उसने कहा कि मैं बहुत ख़ुश हूं। बस की साझेदारी से मैं जितना कमाता था, अब मैं उससे ज़्यादा कमा रहा हूं और मेरा कारोबार बराबर तरक़्क़ी कर रहा है।

जब भी आपके सीने में किसी के ख़िलाफ़ इन्तिक़ाम की आग भड़के तो अपने ज़ेहन को ठंडा करके सबसे पहले यह सोचिए कि मेरा फ़ायदा इन्तिक़ाम लेने में है या इन्तिक़ाम न लेने में।

ज़ाहिर है कि दूसरे को नुक़सान पहुंचाना अपने आप में कोई मक़्सद नहीं। अस्ल मक़्सद जो हर आदमी अपने सामने रखता है या उसको रखना चाहिए, वह अपने आपको फ़ायदा पहुंचाना है। अगर दूसरे को नुक़सान पहुंचाने का नतीजा यह हो कि आख़िर में आपको ख़ुद उससे बड़ा नुक़्सान उठाना पड़े तो ऐसी हालत में अक़्लमन्दी क्या है। अगर आप ठंडे दिमाग से सोचें तो आप यह मानने पर मजबूर होंगे कि ऐसी कार्रवाई जो आख़िर में ख़ुद अपने ख़िलाफ़ पड़ने वाली हो, वह किसी भी हाल में सही नहीं कही जा सकती। ऐसी हर कार्रवाई सिर्फ़ बेवकूफ़ी है न कि वह काम जो एक अक़्लमन्द आदमी को करना चाहिए।

हमारे समाज में जो झगड़े हैं और अदालतों में जो मुक़द्दमों की भरमार है वह सब इसी इन्तिक़ामी जज़्बे का नतीजा है। लोग दूसरों की तरफ़ से होने वाली शिकायत या तकलीफ़ को भुला नहीं पाते। वे फ़ौरन प्रतिक्रिया का शिकार हो जाते हैं और जवाबी कार्रवाई करना शुरू कर देते हैं।

इस तरह जो झगड़े और मुक़द्दमे बढ़ते हैं उसका नुक़सान सिर्फ़ दूसरे आदमी को नहीं पहुंचता बल्कि उस आदमी को भी पहुंचता है जिसने जवाबी कार्रवाई करके दूसरे के ख़िलाफ़ बदला लेना चाहा था।

हर आदमी सुकून की ज़िन्दगी चाहता है। हर आदमी यह चाहता है कि उसका समाज अम्न और शान्ति का समाज हो। यह मक़्सद उसी वक़्त हल हो सकता है जबकि लोगों के अन्दर बदला न लेने का स्वभाव पैदा हो जाए। यही हमारे मसले का एकमात्र हल है। इसी से हर आदमी को सुकून हासिल हो सकता है। और पूरा समाज भी इसी के ज़रिए अम्न और शान्ति से रह सकता है।

जब भी आप किसी से इन्तिक़ाम लें तो इन्तिक़ाम लेने में आप अपनी ताक़त ख़र्च करते हैं। काफ़ी पैसा और काफ़ी वक़्त ख़र्च किए बगै़र कोई आदमी दूसरे से बदला नहीं ले सकता। मान लीजिए, अगर आदमी बदला लेने में कामयाब हो जाए तब भी बदला लेकर उसको जो चीज़ हासिल होती है वह सिर्फ़ एक टेम्परेरी सुख है, उससे ज़्यादा और कुछ नहीं।

लेकिन यही वक़्त और यही रक़म किसी पोज़िटिव चीज़ को हासिल करने में लगा दी जाए तो वह फ़ायदे के साथ आदमी की तरफ़ लौटती है। जैसा कि उपरोक्त आदमी के साथ हुआ। इन्तिक़ाम लेने में ताकत को ख़र्च करना ताक़त को खोना है, और एक पोज़िटिव काम में ताक़त लगाना, ताक़त को और भी इज़ाफ़े के साथ दोबारा पा लेना है। ऐसी हालत में यह समझना मुश्किल नहीं कि अक़्लमन्द आदमी को दोनों में कौन-सा तरीक़ा इख़्तियार करना चाहिए।

मौत की ख़बर

रोज़ाना अख़बारों में जो ख़बरें होती हैं उनमें से एक मुस्तक़िल ख़बर वह है, जिसको मौत का कॉलम (Obituary) कहा जाता है। ये ख़ुशहाल घरानों की मौत की घटनाएं हैं। मरने वाले की तस्वीर के साथ उसकी मौत की ख़बर होती है और फिर बताया जाता है कि फ़लां तारीख़ को फ़लां जगह पर उनकी आख़िरी रस्में अदा होंगी, दोस्त और रिश्तेदार वहां आकर दिवंगत की आख़िरी रस्मों में शामिल हों।

15 सितम्बर 1990 के अख़बार से दो मिसालें लीजिये। टाइम्स आफ इंडिया के आख़िरी पेज पर इसी क़िस्म की एक सचित्र ख़बर है। उसके शब्द ये हैं – रमेश गोयल का, जो कि एक बेहतरीन आदमी थे, बिल्कुल जवानी की उम्र में अचानक अमरीका में देहान्त हो गयाः

Ramesh Goel, a good man has died suddenly at a very young age in U.S.A.

हिन्दुस्तान टाइम्स के पेज 4 पर एक सचित्र ख़बर इस तरह छपी हुई है — बहुत दुख और अफसोस के साथ हम ख़बर दे रहे हैं कि हमारे प्रिय पी.एस. पाथेजा का 9 सितम्बर को एक कार दुर्घटना में अचानक और बेवक़्त निधन हो गयाः

With profound grief and sorrow, we inform the sudden and untimely demise of our beloved P.S. Patheja in a car accident on September 9, 1990.

मौत हमारी दुनिया की एक आम घटना है। किसी आदमी की मौत के बाद उसके वारिस या उसके जानने वाले अपनी ज़िम्मेदारी सिर्फ़ यह समझते हैं कि सामाजी रिवाज के मुताबिक़ उसकी आख़िरी रस्में (अंतिम संस्कार) अदा कर दें। हिन्दू अपने रिवाज के अनुसार, और मुसलमान और दूसरी क़ौमें अपने रिवाज के अनुसार।

लेकिन सिर्फ़ इतना ही काफ़ी नहीं। हक़ीक़त यह है कि दूसरे आदमी की मौत ख़ुद अपने लिए मौत की ख़बर है। मौत का असली फ़ायदा यह है कि मरने वाले की मौत को देख कर ज़िन्दा रहने वाले अपने मरने को याद करें। वे दूसरे के अंजाम को देख लें। मौत से नसीहत लेना सबसे बड़ा काम है, लेकिन यही वह काम है जिसको करने वाला आज की दुनिया में कोई नहीं।

________________

क़ुरआन में यह ख़बर दी गई है कि अख़िरकार इन्साफ़ का एक दिन आने वाला है जबकि तमाम इन्सानों को जमा करके उनके अमल के मुताबिक़ उनको सज़ा या इनाम दिया जाएगा । यह ख़बर दुनिया की मौजूदा हालत के ठीक मुताबिक़ है । इन्सान की अर्थपूर्ण रचना इस ख़बर में अपनी व्याख्या पा लेती है । इस तरह इन्सान के बोलने और अमल करने की रिकार्डिंग की व्यवस्था जो मौजूदा दुनिया में पाई जाती है वह इस ख़बर के बाद पूरी तरह समझने लायक़ बन जाती है। (तज़किर-उल-क़ुरान, तशरीह सूरह इंफीतार, नंबर 82)

सम्पादकीय टिप्पणीः बोलने और अमल करने की रिकार्डिंग की तफ़सील के लिए देखिए मौलाना वहीदुद्दीन खान की किताब मज़हब और जदीद चैलेंज

Author
Maulana Wahiduddin Khan
Author Image
Language
Urdu
Maulana book images