ذريعه: مئي اپريل، صفحه 29
قرآن میں زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185)۔ یعنی ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان پر لازماً موت کا تجربہ گزرنے والا ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے کہ اس پر موت آئے۔ ایک محدود مدت تک زمین پر رہنے کے بعد وہ مرکر ایک اور دنیا میں پہنچ جائے۔
سروے کے مطابق، اس دنیا میں انسان کی اوسط عمرتقریباً80 سال ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ ایک بچے کی حالت میں پیدا ہو۔ پھر وہ جوان ہو۔ اس کو بیماری اور حادثہ جیسے تجربات پیش آئیں۔ زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے وہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچے۔ پھر کوئی شخص کم عمری میں مرجائے، اور کوئی شخص زیادہ عمر کو پہنچ کر دنیا سے رخصت ہوجائے۔زندگی اور موت کا یہ تجربہ رب العالمین کے تخلیقی نقشے کے مطابق پیش آتا ہے۔ اس تخلیقی نقشے کوقرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً (67:2)۔ یعنی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، پیدا ہونے کے بعد انسان پر زندگی کے جو مختلف مرحلے پیش آتے ہیں، وہ ایک موقع (opportunity) کے طور پر پیش آتے ہیں۔ یعنی مختلف تجرباتِ حیات سے گزار کر انسان کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو احسن العمل (best in conduct) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔ وہ اپنے آپ کو بہترین شخصیت کی حیثیت سے تیار کرے۔اس کے بارے میں نگراں فرشتے یہ ریکارڈ کررہے ہیں کہ کن حالات میں وہ کیسا رسپانس (response) دیتا ہے۔ اگر اس کی زندگی کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہےتو اس کا انتخاب جنتی شہری کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، ورنہ اس کو کائناتی کوڑا خانے میں ڈال دیا جاتا ہے، جہاں وہ ہمیشہ کے لیے حسرت کی زندگی گزارتا رہے۔