By
Maulana Wahiduddin Khan
ذريعه: الرساله اپريل 2020، صفحه 7

فطرت کے ایک قانون کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔ أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (2:155-157)۔ یعنی اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔

دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر چیز آپ کو بالقوۃ (potential) صورت میں ملتی ہے۔ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ آپ اس مخفی امکان کو دریافت کریں، اور اس پوٹنشل کو ذاتی عمل سے اپنے لیے اکچول (actual)بنائیں۔

قرآن کی مذکورہ آیت میں مصیبت کا مطلب اعلیٰ درجے کی تربیت ہے۔ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بارے میں اللہ کا منصوبۂ تخلیق کیا ہے۔ خالق نے انسان کو غیرمعمولی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انسان کے اندر ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیت فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔لیکن انسان کے اندر جو صلاحیت ہے، وہ بالقوۃ (potential) کے روپ میں ہے۔ اس پوٹنشل کو بالفعل (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ خالق کو انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے فطری امکانات کو دریافت کرے، اور اپنے خالق کا اعتراف کرتے ہوئے زمین پر ایک ربانی تہذیب وجود میں لائے۔

اس معاملے کوسترھویں صدی کے سائنس داں نیوٹن کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔نیوٹن کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک اس کے سر پر ایک سیب گرا۔ نیوٹن کے سر پر سیب کا گرنا ایک مصیبت تھی۔مگر نیوٹن نے اس کو ایک تجربے کے طور پر لیا، اور اس سے وہ سائنسی اصول دریافت کیا، جس کو آج قوت کشش کے نام سے جانا جاتا ہے۔

خالق نے انسان کو اس زمین پر غیر معمولی عطیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ان عطیات کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے خالق نے مختلف انتظامات کیے ہیں۔ ان میںسے ایک یہ ہے کہ زمین مسلسل طور پر حرکت کی حالت میں ہے۔ مگر خالق نے زمین پر خصوصی اہتمام کرکے زمین پر استحکام (stability) قائم کردی۔ اسی استحکام کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان زمین کے اوپر ایک اعلیٰ تہذیب وجود میں لائے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ جب اس کے اوپر کوئی مصیبت آئے تو وہ اس کو شکایت کے طور پر نہ لے، بلکہ وہ اس کو وہ نیوٹن کی طرح مثبت اعتبار سے دیکھے، اوران کے ذریعے وہ عطیات خداوندی کو دریافت کرے، اور ان کو دریافت کرکے زمین پر ایک اعلیٰ تہذیب کی تشکیل کرے۔

[Highlight2]

دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر چیز آپ کو بالقوۃ (potential) صورت میں ملتی ہے۔ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ آپ اس مخفی امکان کو دریافت کریں، اور اس پوٹنشل کو ذاتی عمل سے اپنے لیے اکچول (actual)بنائیں۔ مثلاً درخت کا پھل آپ کو خود سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ زرخیر زمین (soil) میں ایک پودا لگائیں۔ اس کی نگہداشت کرتے ہوئےاس کو اگانا شروع کریں۔ اس طرح وہ وقت آتا ہے، جب کہ درخت ایک مکمل درخت بن جائے، اور اپنا پھل آپ کو دینا شروع کرے۔یہی معاملہ ربانی تہذیب کی تشکیل کا بھی ہے۔

ان بالقوۃ چیزوں کو بالفعل (actual) بنانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کے اندر تخلیقی صلاحیت موجود ہو۔ یہ دباؤ (pressure)کا تجربہ ہے، جو کسی آدمی کے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔دباؤ کے یہ حالات انسان کے اندر نئی سوچ پیدا کرتے ہیں، اس کے عمل کو نیا رخ (direction) دیتے ہیں۔ وہ انسان کو اپنے عمل کی ری پلاننگ (replanning) کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ انسان کی سوچ کو نیا زاویہ عطا کرتے ہیں۔ اس طرح انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو تخلیقی عمل بنائے۔ وہ فطرت کے نظام کو اختیار کرکے اپنے آپ کو کامیاب بنائے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ زمین پر موجود تمام امکانات کو اپنے لیے استعمال کرے، اور اپنے آپ کوخالق کا مطلوب انسان بنائے ، جس کے لیے اس کے خالق نے اس کو موجودہ دنیا میں بھیجا ہے۔

Category/Sub category

QURANIC VERSES2:155-157
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom