ذريعه: الرساله، فروري 2017
مسلم علماء اور فقہاء کا یہ ماننا ہے کہ شتم رسول کی سزا قتل ہے(یقتل حداً)۔ یہی معاملہ ان کے نزدیک ارتداد کا بھی ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ ارتداد یا شتم رسول کی سزا قتل ہے۔ اس سلسلہ میں جو حوالے دیے جاتے ہیں ، وہ بلاشبہ نہایت ضعیف ہیں۔(ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب شتم رسول کی سزا۔ نیز حکمت اسلام کا باب، مرتد اور ارتداد)۔
تاہم بالفرض اگر کسی کے نزدیک شتم رسول یا ارتدادکی سزا قتل ہو تب بھی کوئی جرم عدالتی کارروائی سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ علماء اور فقہاء جب یہ لکھتے ہیں کہ یقتل حد اً تو اس کے ساتھ انھیں یہ اضافہ کرنا چاہیے کہ بعد المحاکمہ یعنی عدالتی کارروائی (judicial proceedings) کے بعد، نہ کہ اس کے بغیر۔ یہ حکم اتنا عام ہے کہ اس معاملے میں کوئی بھی جرم مستثنیٰ نہیں بن سکتا۔
انسان کو قتل کرنا، انسان کے لیے آخری سزا کے برابر ہے۔ اس کےبعد انسان کچھ کرنے کے لیے موجود نہیں رہتا۔ اس لیےقتل کےمعاملے میں اہل اسلام کو بے حد حساس ہونا چاہیے۔ کسی کو قتل صرف اس وقت کیا جاسکتا ہے، جب کہ اس کے لیے نص صریح موجود ہو، جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔ مزید یہ کہ قتل کا فیصلہ ایک با اختیار جج کرسکتا ہے۔ کوئی اور شخص یا گروہ کسی کو قتل کرنےکا ہرگز مجاز نہیں۔ قتل کا حکم لگانے سے پہلے لوگوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کی اس آیت کو باربار پڑھیں:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا (5:32)۔ یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔