ذريعه: مئي 2020، صفحه 37
موت کے بارے میں ایک حقیقت قرآن کی تین آیتوں میں بیان ہوئی ہے۔ ان میں سےایک آیت یہ ہے:کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185)۔ یعنی ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جو آدمی پیدا ہوتا ہے، وہ ایک ابدی خواب (eternal dream) لے کر پیدا ہوتا ہے۔ مگر ہر آدمی اپنے خواب کی تکمیل سے پہلے اچانک مرجاتا ہے۔ یہ حادثہ ہر مرد اور ہر عورت کے ساتھ پیش آرہا ہے۔اس واقعے پر غور کیجیے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر انسان کی زندگی ناکام ہے۔ انسان کو کوئی اور دنیا چاہیے، جہاں وہ اپنے خواب کے مطابق، اپنی زندگی کی تکمیل کرسکے۔
اس واقعے پر غور کیجیے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر انسان کی زندگی ناکام ہے۔ انسان کو کوئی اور دنیا چاہیے، جہاں وہ اپنے خواب کے مطابق، اپنی زندگی کی تکمیل کرسکے۔مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ناتمام خواب دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو دریافت کرے۔ اس کی زندگی کے بارے میں اس کے خالق کا جو منصوبہ ہے، اس کو وہ مکمل کرے۔ یہ ہر آدمی کا خواب ہے۔ اس میں کوئی استثنا نہیں۔ انسان کے ساتھ مزید کیا ہونے والا ہے، اس کا اشارہ قرآن میں دومقامات پر آیا ہے۔ایک آیت کےالفاظ یہ ہیں:وَلَوْ أَنَّمَا فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ (31:27)۔ دوسری آیت میں یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا (18:109)۔ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی عظمت اس سے زیادہ ہے کہ وہ لفظوں میں بیان کی جاسکے۔ ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی آرزؤں کی تکمیل اس طرح ہونے والی ہے کہ اس کو موت کے بعد کی دنیامیں دوبارہ نئے مواقع زیادہ کامل انداز میں دیے جائیں۔ انسان ایک اور تہذیب (civilization) کی تکمیل کرے۔ وہ زیادہ معیاری انداز میں یونیورسٹی اور لائبریری جیسے ادارے بنائے، وہ اپنی علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کو زیادہ اعلیٰ معیار پر قائم کرے۔ [Highlight2]