ذريعه: الرساله، فروري 2017
قرآن میں ایک طرف یہ کہا گیاہے کہ اشداء على الکفار (48:29) ۔ دوسری طرف قرآن میں آیا ہے :فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّہِ لِنْتَ لَہُمْ ( 3:159)۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں کبھی شدت مطلوب ہوتی ہے اور کبھی نرمی۔ یہ شدت اور نرمی کافر اور مسلم کے اعتبار سے نہیں بلکہ موقع ومحل کے اعتبار سےاختیار کی جاتی ہے۔ اس فرق کا سبب حکمت کلام ہے۔ اس کا تعلق اصلاً متکلم سے نہیں ہے، بلکہ سامع (audience) سے ہے۔
اصل یہ ہے کہ لوگوں میں علم وفہم کے اعتبار سے فرق ہوتاہے (یوسف: 76)۔ اسی بنا پر کلام میں بھی فرق مطلوب ہوجاتا ہے۔ کلام میں شدت بھی اتنا ہی مطلوب ہے جتنا کہ کلام میں نرمی۔ مگر اس کا انحصار سامع کی قبولیت (acceptance) سے ہے۔ اگر سامع کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ بات کو بات کے لحاظ سے دیکھے نہ کہ اسلوب کے لحاظ سے۔ ایسے شخص کے لئے ہیمرنگ کی زبان (language of hammering) زیادہ مفید ہوگی۔ اس کے برعکس جس آدمی کے اندر شدت کو برداشت کرنے کا مادہ نہ ہو اس سے نرمی کے انداز میں بات کہی جائے گی۔
یہ اصول اجتماعی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے بے حد اہم ہے۔ ایک شخص اگر اکیلا ہو تو اس قسم کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اجتماعی زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہر ایک سے یکساں قسم کا برتاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کوئی شخص کس چیز کا تحمل کرسکتاہے، اور کس چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہ فرق حکمت پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ امتیاز پر۔ جو شخص صرف نرمی کا تحمل کرسکتا ہو، اس کے ساتھ سختی کرنا، اس پر ظلم کرنا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص نرمی اور سختی سے اوپر اٹھ کر بات کو حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے دیکھے ، اس کے ساتھ نرمی کا طریقہ اختیار کرنا ، اس کے اوپر ظلم کرنا ہے۔ اس کو ایک ایسے خیر سے محروم کرنا ہے، جس کا وہ پہلے سے انتظار کر رہا تھا۔ اسی کا نام حکمت ہے۔