ذريعه: الرساله مارچ 2020، صفحه 6
قرآن میں متعدد مقامات پر بتایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو دو چیزیں دے کر بھیجا ہے— کتاب اور حکمت(البقرۃ،2:129، آل عمران،3:164، النساء،4:113، الاحزاب، 33:34، الجمعۃ، 62:2، وغیرہ)۔کتاب سے مراد ہے اللہ کی آخری کتابِ ہدایت قرآن ہے، اور حکمت سے مراد یہ ہے کہ اس کتاب کو بطور مشن لے کر اٹھنے کی صورت میں جو حالات پیدا ہوں گے، ان کو کس طرح حکمت کے ساتھ مینج کرتے ہوئے آخری منزل تک پہنچایا جائے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسر سے مراد پرامن، یعنی غیر نزاعی طریقہ ہے۔ اجتماعی زندگی میں ڈیلنگ کے عملاً دو طریقے ہیں— نزاعی اور غیر نزاعی (non-confrontational method)۔ پیغمبر اسلام کا طریقہ نزاعی طریقہ نہیں تھا۔رسول اللہ کی 23 سالہ زندگی اس بات کا عملی نمونہ ہے۔ اس پیغمبرانہ وزڈم کا ایک اصول حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا: مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملے کے درمیان اختیار دیا گیا، تو آپ نے آسان تر کا انتخاب کیا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسر سے مراد پرامن، یعنی غیر نزاعی طریقہ ہے۔ اجتماعی زندگی میں ڈیلنگ کے عملاً دو طریقے ہیں— نزاعی اور غیر نزاعی (non-confrontational method)۔ پیغمبر اسلام کا طریقہ نزاعی طریقہ نہیں تھا۔ بلکہ مکمل طور پر غیر نزاعی طریقہ تھا۔ غیر نزاعی طریقے کا فائدہ یہ ہے کہ فوراً اسٹارٹنگ پوائنٹ مل جائے، اور مشن کسی رکاوٹ کا شکار ہوئے بغیر اسموتھ (smooth)انداز میں اپنے راستے پر چلتا رہے۔ [Highlight2] اس طریق کا ر کو دوسرے انداز میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ راستے کی رکاوٹ سے ٹکراؤ کرنے کے بجائے اس کو مینج کرکے اپنا راستہ نکالنا۔ مثلاً کعبہ کے بت بظاہر داعیٔ توحید کے لیے ایک رکاوٹ تھے، مگر آپ نے اس رکاوٹ کو مینج کیا۔ آپ نے کعبہ کے پاس جمع ہونے والے بت پرستوں کے مجمع کو اپنے لیے آڈینس(audience) بنا لیا، اور اس طرح سارے عرب میں نہایت پیس فل انداز میں توحید کی دعوت کو پھیلا دیا۔ اسی طریقے کا نام حکمت ہے۔