ذريعه: الرساله، دسمبر 2015
اسلام کی آئڈیالوجی توحید ہے۔اسلام کی تمام تعلیمات در اصل توحید کے بنیادی تصور پر مبنی ہیں۔ اسلام کی دوسری تعلیم امن ہے۔ امن کی اہمیت عملی ضرورت کے اعتبار سے ہے۔ اسلام کا اصل مقصد اصلاحِ انسان ہے۔ اور اس قسم کے مقصد کو صرف امن کے حالات میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ امن معتدل حالات کا ذریعہ ہے۔ اور معتدل حالات عمل کو ممکن بنا دیتے ہیں۔
اسلام میں جنگ کوئی مستقل اصول نہیں، اسلام میں جنگ قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت پیش آنے والاایک وقتی عمل ہے، نہ کہ کسی ابدی اصول کے تحت کیا جانے والا مستقل عمل۔ اسلام میں جنگ کا حکم سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
1 - اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ۔ (8:39) اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ یہ جنگ کی وہ قسم ہے جواسلام کے دورِ اول میں وقتی ضرورت کے تحت پیش آئی۔ اب یہ ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لیے اب ختم فتنہ کے نام پر جنگ کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ قدیم زمانے میں مذہبی آزادی (religious freedom)کو مسلمہ انسانی حق کی حیثیت حاصل نہ تھی، اب مذہبی آزادی ایک مسلمہ انسانی حق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اب دنیا میں نہ فتنہ ہے، نہ فتنے کے نام پر جنگ کا کوئی جواز۔
قرآن کی اس آیت میں فتنہ سے مراد شرکِ جارح (aggressive shirk)ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو مذہبی جبر (religious persecution)کہا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے دنیا میں شخصی بادشاہت کا نظام قائم تھا۔ اس سیاسی نظام کے تحت مذہب کے معاملے میں انسان کے لیے کوئی آزادانہ چوائس (choice) موجود نہ تھا۔ اس زمانے کا اصول یہ تھا کہ جو حکومت کا مذہب، وہی عوام کا مذہب۔ مذہب حکومت سے وفاداری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ حکومت کے آفیشیل مذہب کے سوا کوئی اور مذہب اختیارکرنا، حکومت سے بغاوت کے ہم معنی تھا۔ اس لیے وہ جرم مستوجب سزا (cognizable offence) کی حیثیت رکھتا تھا۔
یہ صورتِ حال جو قدیم بادشاہت (kingship) کے تحت قائم تھی، وہ خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God)کے خلاف تھی۔ تخلیقی نقشہ کے مطابق ہر انسان کو پوری آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنے لیے جس مذہب کو چاہے اختیار کرے (18:29)۔ مگر بادشاہی نظام کے تحت مذہب انسان کے لیے ذاتی انتخاب کا مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ جبر (compulsion)کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ یہ گویا خالق کے قائم کردہ تخلیقی نظام کو کالعدم (abolish) کرنے کے ہم معنی تھا۔ خالق کے نزدیک یہ ایک ناقابل قبول حالت تھی۔ چناں چہ اللہ نے رسول اور اصحابِ رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ اس فتنے کو بزور ختم کردیں۔ تاکہ خداکا منصوبہ اپنی اصل حالت پر قائم ہوجائے۔ یہی وہ خدائی منصوبہ ہے جس کا حکم اس آیت میں موجود ہے۔
یہ عمل (operation) پیغمبر اسلام کے زمانے میں شروع ہوا، اور خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے زمانے میں وہ اپنی تکمیل كو پهنچا۔ اس کے بعد ایک انقلابی عمل جاری ہوا جس کے نتیجے میں دنیا سے مذکورہ فتنہ کی حالت ختم ہوگئی۔ اس لیے اب اس مقصد کے لیے جنگ کی ضرورت عملا باقی نہیں رہی۔
اس معاملے کی وضاحت صحابیٔ رسول عبد اللہ ابن عمر (وفات73 ھ)کے ایک واقعے سے ہوتی ہے۔خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کی وفات سن 23 ھ میں ہوئی ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مسلم دنیا میں سیاسی انارکی کی صورت پیدا ہوگئی۔ اس زمانے میں عبد اللہ بن زبیر(وفات73 ھ) اور اموی حکوت کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ عبد اللہ بن عمر اس کے خلاف تھے، انھوں نے اس جنگ میں شرکت نہ کی۔ اس زمانے میں کچھ مسلمان آپ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ اس جنگ میں کیوں شریک نہیں ہیں، حالاں کہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ فتنہ کے خلاف جنگ کرو (8:39) ۔ عبد اللہ ابن عمر نے جواب دیا کہ تمھاری جنگ کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن کی یہ آیت جس جنگ کے بارے میں تھی، اس جنگ کی ضرورت اب ختم ہوچکی ہے۔ اس موقع پر انھوں نے کہا: قد فعلنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم (صحیح البخاری، حدیث نمبر4650) یعنی وہ جنگ ہم رسول اللہ کے زمانے میں کرچکے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ختم فتنہ کی جنگ ایک مخصوص حالت کی جنگ تھی۔ وہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے زمانے میں شروع ہوئی ۔ اور اس کے نتیجے میں مکہ سے مشرکین کا سماجی اور سیاسی غلبہ ختم ہوگیا۔یہ جنگ صحابہ کے زمانے میں مزید جاری رہی۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں وہ تکمیل تک پہنچ گئی۔ جب کہ ایک طرف ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور دوسری طرف بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد عملا دنیا میں مذہبی جبر کی جگہ مذہبی آزادی کا دور شروع ہوگیا۔ یہ عمل(process) مزید جاری رہا۔ یہاں تک کہ یورپ میں جمہوری انقلاب آنے کے بعد وہ آخری طور پر مکمل ہوگیا۔ اب نہ وہ فتنہ ہے، اور نہ اس فتنے کے نام پرکسی جنگ کی ضرورت ۔
2 - اس سلسلے میں قرآن کی دوسری آیت کے الفاظ یہ ہیں: فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ (9:7) یعنی جب تک وہ تم سے سیدھے (پر امن)رہیں تم بھی ان سے سیدھے (پر امن) رہو۔ قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں دو قوموں کے درمیان کی اس صورتِ حال کا ذکر ہے جس کو صلح و جنگ کا معاملہ کہا جاتا ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دو قوموں کے درمیان صلح اور جنگ کا معاملہ بین اقوامی قانون کے تحت فیصل ہوگا، بین اقوامی معاہدات کے ذریعے جو اصول طے ہوجائیں، وہی اصول اہل اسلام کے لیے بھی قابل قبول ہوں گے۔ یعنی بین اقوامی قانون کے مطابق صلح اور بین اقوامی قانون کے مطابق جنگ۔ صلح و جنگ کے معاملے میں مسلمانوں کا کوئی الگ اصول نہ ہوگا۔ اس کو مزید تعین کی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ موجودہ زمانے میں اقوام متحدہ (United Nations)کو تمام قوموں نے باقاعدہ طور پر قبول کرلیا ہے۔ مسلمان بھی اس تنظیم کو دوسری قوموں کی طرح قبول کریں گے۔ وہ دوسری قوموں سے صلح و جنگ کے معاملات کو اقوام متحدہ کے تحت طے کریں گے نہ کہ اس سے آزاد ہوکر۔
حقیقت یہ ہے کہ قتال فتنہ کی آیت (8:39) میں قتالِ خاص کا ذکر ہے۔ اور اس کے مقابلے میں دوسری آیت (9:7) میں حالتِ عام کا ذکر ہے۔ حالت ِخاص کا دور ختم ہوچکا، اب ہم صرف حالت عام کے دور میں ہیں۔ حالتِ عام کے زمانے میں اہل اسلام بھی دوسری قوموں کی طرح عالمی نظام کے پابند ہوں گے۔ اقوام متحدہ (UN) کے تحت جو اصول تمام قوموں کے لیے قابلِ قبول ہوں، وہی اصول اہل اسلام کے لیے بھی قابل قبول ہوں گے۔
حدیث رسول
پیغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم نے بطور تنبیہہ امت مسلمہ کو پیشگی طور پر یہ خبر دی تھی کہ امت کے اندر بڑے پیمانے پر لڑائیاں ہوں گی۔ اس سلسلے میں ایک روایت یہ ہے: ألا وإنّي أخاف على أمتي الأئمةَ المضلين، وإذا وُضِع السيف في أمتي لم يُرفع عنها إلى يوم القيامة (مسند احمد، حدیث نمبر22452) یعنی سن لو، میں ڈرتا ہوں اپنی امت پر گمراہ کرنےوالے لیڈروں سے، اور میری امت میں جب لڑائی شروع ہوجائےگی، تو وہ قیامت تک ان سےختم نہیں ہو گی۔
اس مفہوم کی اور بھی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ رسول اللہ نے جو دین امت کو دیا تھا، وہ تو امن اور رحمت کا دین تھا۔ پھر کیوں ایسا ہوگا کہ امت مسلمہ بعد کے زمانے میں جنگ و قتال میں مشغول ہوجائے گی۔ اس کا جواب خود اس حدیث میں موجود ہے۔ ایسا خود امت کے لیڈروں کی غلط رہنمائی کی بنا پر ہوگا، جو امت مسلمہ کے اندر بعد کے زمانے میں پیدا ہوں گے، اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تاویل کرکےامت کو جنگ و قتال کے راستے پر ڈال دیں گے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت ہوگا جب کہ غلط تاویل و تشریح کے ذریعے جنگ کو عقیدہ کا مسئلہ بنادیا جائے گا۔ حقیقت کے اعتبار سے جنگ ایک وقتی ضرورت کا عمل ہے، جنگ کا اسلام کےاعتقادی نظام (belief system)سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ مگر بعد کے زمانے کے بھٹکے ہوئے لیڈر جنگ کو خود ساختہ تاویل کے ذریعے اسلام کے اعتقادی نظام کاحصہ بنادیں گے۔ یہی وہ چیز ہے جو جنگ کو امت کے لیے ایک مقدس عمل کی حیثیت دے دے گی جو کبھی ختم نہ ہو۔
جنگ کو اگر حقیقی ضرورت کی چیز سمجھا جائے تو اس کا معیار (criterion) نتیجہ (result) ہوگا۔ یعنی مثبت نتیجہ نکلے تو جنگ کی جائے گی، ورنہ جنگ بند کردی جائے گی۔ لیکن جب ایسا ہو کہ جنگ کو عقیدہ کا درجہ دے دیا جائے تو وہ ہر حال میں جاری رکھی جائے گی۔ خواہ دنیا میں اس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہو یا نہ نکلتا ہو۔ کیوں کہ اب لڑنے والوں کا ذہن یہ ہوگا کہ اگر وہ لڑائی میں مارے جائیں تب بھی وہ کامیاب ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے مفروضہ کے مطابق یہ سمجھیں گے کہ مر کر وہ ’’مقتول فی سبیل اللہ‘‘ کا درجہ پائیں گے، اور موت کے بعد سیدھے جنت میں داخل ہوں گے۔
قرآن و حدیث کی مذکورہ تشریح سرتاسر بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں جنگ کا تعلق قانون ضرورت (law of necessity) سے ہے۔ جب ضرورت ختم تو لڑائی بھی ختم۔ اسلام کے اعتقادی نظام کی بنیاد صرف وہ چیزیں ہیں جن کو حدیث میں پانچ ارکان (ارکانِ خمسہ) کہا گیا ہے۔ اسلام کا اعتقادی نظام (belief system) ہمیشہ وہی رہے گا جو قرآن و حدیث میں بتادیا گیا، اس میں کوئی کمی یا اضافہ سرے سے جائز نہیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندراسلام کے نام پر جو تشدد کلچر جاری ہے، اس کا سبب یہی ہے۔ یہ گویاغلط تاویل کے ذریعے جائز کردہ تشدد (justified violence) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ خود کش بمباری (suicide bombing) کرکے قصداً اپنے کو ہلاک کرتے ہیں۔ کیوں کہ بطورِ خود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہلاک ہوتے ہی وہ فورا جنت میں پہنچ جائیں گے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو سَیف کلچر یا تشدد کلچر بڑے پیمانے پر جاری ہے، اس کو ختم کرنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلام میں جنگ کا تعلق اسلام کے اعتقادی نظام سے نہیں ہے۔ اس کا جواز وقتی طور پرصرف حقیقی ضرورت کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس لیے جنگ کو اس کے نتیجے کے اعتبار سے جانچا جائے گا، نہ کہ عقیدے کے اعتبار سے ۔اور جیسا کہ عرض کیا گیا اب جنگ مکمل طور ایک بے نتیجہ چیز بن چکی ہے۔