By
Maulana Wahiduddin Khan

حدیث ِ رسول

 

 

مولانا وحید الدین خاں

 

من کان فی بیتہ مجموعۃ من الاحادیث فکأنما فیہ نبی یتکلم

جس آدمی کے گھر میں احادیث کا کوئی مجموعہ ہو، گویا اس کے اندر خود نبی بات کرتے ہوئے موجود ہیں۔

حدیث ِ رسول

1

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 8؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 16)۔یعنی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ یہ گواہی دیناکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے مہینہ کا روزہ رکھنا۔

2

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَا ‌الْإِيمَانُ؟ ‌قَالَ:إِذَا ‌سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ، وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ قَالَ:يَا رَسُولَ اللهِ، فَمَا الْإِثْمُ؟ قَالَ:إِذَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ شَيْءٌ فَدَعْهُ(مسند احمد، حدیث نمبر 22166)۔ یعنی، ابو امامه رضي الله عنه كهتے هيں كه ايك شخص نے رسول صلي الله عليه وسلم سے پوچھا كه ايمان كيا هے، آپ نے فرمايا كه جب تم كو اپني نيكي سے خوشي هو اور تم كو اپني برائي سے تكليف پهنچے۔ اس وقت تم مومن هو۔ اس نے كها كه اے خدا كے رسول، گناه كيا هے۔ آپ نے فرمايا كه جب تمهارے دل ميں كوئي چيز كھٹكے تو اس كو چھوڑ دو۔

3

عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ قَالَ :قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ:الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَةُ   (مسند احمد، حدیث نمبر 19435)۔یعنی عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے کہا کہ اے خدا کے رسول ، ایمان کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ صبر اور نرم برتائو۔

4

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْأَدْيَانِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: الْحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ (مسند احمد، حدیث نمبر2107)۔ یعنی ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا دین اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ ہے؟ آپ نے کہا:خدارخی اور کشادہ دلی(والا دین)۔

5

عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا(صحیح مسلم، حدیث نمبر 34)۔یعنی عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کا مزہ چکھا اس شخص نے جو اللہ کواپنا رب بنانے پر راضی ہو گیا اور جو اسلام کو اپنا دین بنانے پر راضی ہو گیا اور جو محمدؐ کو اپنا رسول بنانے پر راضی ہو گیا۔

6

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَ: لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ(مسند احمد، حدیث نمبر 12567)۔ یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم جب ہمارے سامنے خطبہ دیتے تو یہ ضرور کہتے کہ اس کا ایمان نہیں جس کے اندر امانت نہیں اور اس کا دین نہیں جس کے اندر عہد کی پابندی نہ ہو۔

7

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالْإِيمَانُ فِي قَلْبِ عَبْدٍ أَبَدًا(سنن النسائی، حدیث نمبر 3110)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حرص اور ایمان دونوں کسی بندے کے دل میں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔

8

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ (سنن ابوداود، حدیث نمبر 4161)۔ یعنی ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک سادگی ایمان کا جزء ہے۔ بے شک سادگی ایمان کا جزء ہے۔ 

9

عَنْ  عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6689؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1907)۔ یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال کادار ومدار نیت پر ہے۔ اور کسی آدمی کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے تھی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔

10

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّكْرَ، مَالَهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا شَيْءَ لَهُ فَأَعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا شَيْءَ لَهُ ثُمَّ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا، وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ(سنن النسائی، حدیث نمبر 3140 ؛ المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7628)۔یعنی ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس آیا۔ اس نے آپ سے پوچھا کہ ایک شخص جہاد کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کو اجر ملے اور اس کو شہرت حاصل ہو۔ ایسے شخص کے لیے کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس نے یہی بات تین بار پوچھی اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ہر بار یہی کہتے رہے کہ اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ صرف وہی عمل قبول کرے گا جو خالص اسی کے لیے تھا اور جس سے صرف اسی کی رضا چاہی گئی تھی۔

11

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي المَوْتِ، فَقَالَ: «كَيْفَ تَجِدُكَ قَالَ:وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرْجُو اللَّهَ، وَإِنِّي أَخَافُ ‌ذُنُوبِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا المَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَاف(سنن الترمذی، حدیث نمبر 983)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس گئے، جب کہ وہ مرض الموت میں تھا۔ آپ نے پوچھا: تم اپنے کو کیسا پاتے ہو۔ اس نے کہا: خدا کی قسم، اےاللہ کے رسول، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں، اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، آپ نے کہا:کسی بھی بندے کے دل میں اس قسم کے موقع پر یہ دونوں باتیں جمع ہوں، تو اللہ ضرور اس کو وہ عطا کرے گا، جس کی وہ امید کرتا ہے، اور اس کو امن دے گا، جس سے وہ خوف کھاتا ہے۔

12

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْصِنِي، قَالَ:أَخْلِصْ دِينَكَ يَكْفِكَ الْعَمَلُ الْقَلِيلُ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 7844)۔ یعنی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ یمن کے حاکم بنا کر وہاں بھیجے گئے تو انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے دین کو خالص رکھو، تمہارا تھوڑا عمل بھی تمہارے لیے کافی ہو جائے گا۔

13

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَكَلَ طَيِّبًا، ‌وَعَمِلَ ‌فِي ‌سُنَّةٍ، وَأَمِنَ النَّاسُ بَوَائِقَهُ دَخَلَ الجَنَّةَ فَقَالَ رَجُلٌ:يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا اليَوْمَ فِي النَّاسِ لَكَثِيرٌ، قَالَ:وَسَيَكُونُ فِي قُرُونٍ بَعْدِي(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2520)۔ یعنی، ابو سعيد خدري رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جس شخص نےحلال رزق كھايا اور سنت پر عمل كيا اور لوگ اس كے شر سے محفوظ رهے تو وه جنت ميں جائے گا۔ ايك شخص نے كها كه اے الله كے رسول، آج تو بهت سے ايسے لوگ هيں۔ آپ نے فرمايا كه ميرے بعدكے زمانوں ميں بھي ايسے لوگ هوں گے۔

14

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ، سَقَطَ عَلَى بَعِيرِهِ، وَقَدْ أَضَلَّهُ فِي أَرْضِ فَلاَةٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر6309 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2675)۔یعنی انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں کا کوئی شخص صحرا میں اپنا اونٹ  کھودے، اور پھر اچانک وہ اپنے کھوئے ہوئے اونٹ کو وہاں پا لے۔

15

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِه(السنۃ لابن ابي عاصم، حدیث نمبر 15)۔ یعنی عبداللہ بن عَمرو رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہ ہو جائے جو میں لایا ہوں۔

16

 عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا، وَحَرَّمَ حُرُمَاتٍ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا،وَحَّدَ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا(سنن الدارقطنی، حدیث نمبر 4396)۔ یعنی ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے کچھ چیزوں کو فرض کیا ہے تو ان کو ضائع نہ کرو، اور اس نے کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے تو ان کی خلاف ورزی نہ کرو، اور کچھ حدیں مقرر کی ہیں تو ان سے آگے  نہ بڑھو، اور کچھ باتوں سے بھولے بغیر خاموشی اختیار کی ہے تو ان کی چھان بین نہ کرو۔

17

عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: العَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2621)۔یعنی بُریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہمارے اور لوگوں کے درمیان عہد نماز کا ہے۔ پس جس شخص نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔

18

عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ: إِنَّ أَهَمُّ أُمُورِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةَ، مَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا حَفِظَ دِينَهُ، وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِسِوَاهَا أَضْيَعُ (مصنف عبد الرزاق، اثر نمبر 2038)۔یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ تمہارے معاملات میں سب سے اہم میرے نزدیک نماز ہے۔ پس جو شخص نمازوں کی حفاظت اور ان کی پابندی کرے اس نے اپنے دین کی حفاظت کی۔ اور جس شخص نے اپنی نمازوں کو ضائع کیا وہ بقیہ چیزوں کو اور زیادہ ضائع کرنے والا ہو گا۔

19

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَر: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلاَةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً(صحیح البخاری، حدیث نمبر 645؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 650)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز کے مقابلہ میں جماعت کی نماز ۲۷ درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

20

 عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ ثَلَاثَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِيهِمُ الصَّلَاةُ إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ، فَعَلَيْكَ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِيَةَ (سنن ابوداود، حدیث نمبر 547)۔ یعنی ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بستی میں تین مسلمان ہوں اور وہاں جماعت کے ساتھ نماز نہ ادا کی جائے تو ان کے اوپر شیطان غلبہ پا لے گا۔ پس تم لوگ جماعت کی پابندی کرو، کیوں کہ بھیڑیا اس بکری کو کھا جاتا ہے جو گلہ سے دور ہو۔

21

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 703)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب امامت کرے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے۔ کیوں کہ نمازیوں میں کمزور بھی ہوں گے اور بیمار بھی اور بوڑھے لوگ بھی۔ البتہ جب تم میں سے کوئی شخص انفرادی نماز پڑھے تو وہ جتنا چاہے اس کو لمبا کرے۔

22

عَنْ ِ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّي لَأَقُومُ إِلَى الصَّلاَةِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 868)۔یعنی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: میں نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لمبی نماز پڑھوں۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو میں نماز کو مختصر کر دیتا ہوں۔ کیوں کہ میں اس کی ماں کو پریشانی میں ڈالنا نہیں چاہتا۔

23

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَتْ صَلَاتُهُ قَصْدًا، وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 866)۔ یعنی جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جمعہ کی)نماز پڑھتا تھا۔ آپ کی نماز بھی معتدل ہوتی تھی اور آپ کا خطبہ بھی معتدل ہوتا تھا۔

24

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ، وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ، وَالصِّيَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1745)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ہر چیز کی ایک پاکی ہے اور جسم کی پاکی روزہ ہے۔ اور روزہ آدھا صبر ہے۔

25

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1903)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جو روزہ دار جھوٹ بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پانی چھوڑ دے۔

26

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  قَالَ اللَّهُ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1904؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1151)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے۔ اور جب تم میں سے کسی کا روزہ کادن ہو تو وہ نہ فحش بات کہے اور نہ شور کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو برا کہے یا اس سے لڑائی کرے تو وہ جواب دے کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں۔

27

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1901؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 760)۔ یعنی جس نے شب ِ قدر میںایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔

28

 عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطْرَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1957)۔ یعنی سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ لوگ خیر پر رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کریں گے۔

29

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَعِبِ الصَّائِمُ عَلَى المُفْطِرِ، وَلاَ المُفْطِرُ عَلَى الصَّائِم(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1947)۔یعنی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ سفر میں ہوتے تھے۔ پس روزہ رکھنے والا روزہ نہ رکھنے والے پر کوئی عیب نہ لگاتا اور نہ روزہ نہ رکھنے والا روزہ رکھنے والے کو کچھ کہتا۔

30

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَه (جامع الترمذی، حدیث نمبر 723)۔ یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کہا: جس شخص نے رمضان کا ایک روزہ بھی عذریا بیماری کے بغیر چھوڑ دیا، وہ اگر ساری عمر روزہ رکھے تب بھی اس کی کمی پوری نہیں ہو گی۔

31

 عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَسَحَّرُوا، فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَكَةً (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1923؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1095)۔یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کہا:روزہ میں سحری کھائو، کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔

32

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 1609)۔یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فطرہ کی زکوٰۃ کو واجب قرار دیا ہے، روزہ میں ہونے والے لغو اور بے حیائی سے پاکی کے لیے اور مسکینوں کی خوراک کے لیے۔

33

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1496؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 19)۔یعنی عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ نے مسلمانوں کے اوپر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ وہ ان کے مال داروں سے لی جائے گی اور ان کے حاجت مندوں کو لوٹائی جائے گی۔

34

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ فِيهِ، وَمَنْ جَمَعَ مَالًا حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهِ لَمْ يَكُنْ لَهُ فِيهِ أَجْرٌ، وَكَانَ إِصْرُهُ عَلَيْهِ(صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر 2471؛ صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 3216)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایاکہ جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ دیدی تو تم نے اس فرض کو پورا کر دیا جو تمہارے اوپر تھا۔ اور جو شخص حرام مال جمع کرے، پھر اس میں سے صدقہ کرے تو اس میں اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے۔ بلکہ اس کے اوپر اس کا بوجھ ہو گا۔

35

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بِن عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا العُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1483)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جو زمین آسمانی بارش سے یا چشمہ سے سیراب ہوتی ہو یا دریا کے قریب ہو تو اس کی پیداوار پر عُشر (دسواں حصّہ( ہے، اور جو زمین سینچی جائے اس پر عُشر کا آدھا۔

36

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ-يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ- يَقُولُ: أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4565)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرمایا کہ جس شخص کو اللہ نے مال دیا مگر اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو اس کا مال قیامت کے دن زہریلے سانپ کی مانند ہو جائے گا جس کے سر پر دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ وہ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ پھر اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ لے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تمہارا خزانہ ہوں۔

37

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلَى جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِنًا عَلَى ظَمَإٍ سَقَاهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنَ الرَّحِيقِ المَخْتُومِ، وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ كَسَا مُؤْمِنًا عَلَى عُرْيٍ كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الجَنَّةِ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2449)۔یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:جو مومن کسی مومن کو بھوک کی حالت میں کھلائے، اللہ اس کو قیامت کے دن جنت کے پھلوں میں سے کھلائے گا۔ اور جو مومن کسی مومن کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے، اللہ اس کو قیامت کے دن مہر بند(sealed)مشروب سے پلائے گا۔ اور جو مومن کسی مومن کو کپڑا پہنائے گا جو کپڑے سے محروم ہو، اللہ اس کو قیامت کے دن جنت کی پوشاک میں سے پہنائے گا۔

38

عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ، فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، مَنْ هُمْ؟ قَالَ:هُمُ الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا- مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ-وَقَلِيلٌ  مَا هُمْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 990)۔یعنی ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس آیا۔ اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب آپ نے مجھ کو دیکھا تو فرمایا کہ وہ لوگ گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ میرے ماں باپ آپ پر قُربان، وہ کون لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ زیادہ مال والے، اِلّا یہ کہ وہ شخص جو اِس طرح اور اُس طرح دے، اپنے سامنے والوں کو اور اپنے پیچھے والوں کو اور اپنے بائیں طرف کے لوگوں کو۔ اور ایسے مال والے بہت کم ہیں۔

39

عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الصَّدَقَةَ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ، وَعَلَى ذِي الرَّحِمِ اثْنَتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ(سنن النسائی، حدیث نمبر 2582 ؛ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1844)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: غریب کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے، اور (غریب)رشتہ دار کو دینا دو نیکی ہے، صدقہ اور صلۂ رحمی۔

40

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1519 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 83)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد۔ آپ نے فرمایا کہ حجِّ مبرور (گُناہوں سے پاک حج)۔

41

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:جِهَادُ الْكَبِيرِ، وَالصَّغِيرِ، وَالضَّعِيفِ، وَالْمَرْأَةِ: الْحَجُّ، وَالْعُمْرَةُ (سنن النسائی، حدیث نمبر 2626)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کہا : بوڑھے، بچے، کمزور اور عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔

42

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ، فَلْيَتَعَجَّلْ، فَإِنَّهُ قَدْ يَمْرَضُ الْمَرِيضُ، وَتَضِلُّ الضَّالَّةُ، وَتَعْرِضُ الْحَاجَةُ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2883)۔ یعنی عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جو شخص حج کی ادائیگی کا ارادہ کرے تو اس کو جلدی کرنا چاہیے۔ کیوں کہ آدمی کبھی بیمار پڑ جاتا ہے، کبھی سواری کھو جاتی ہے اور کبھی کوئی حاجت پیش آتی ہے (جو رکاوٹ بن جاتی ہے)۔

43

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ، فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2664)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ طاقت ور مومن بہتر ہے کمزور مومن سے، اور ہر ایک کے لیے خیر ہے۔ تم اس چیز کے حریص بنو جو تم کو نفع دینے والی ہے اور اللہ سے مدد مانگو اور ہمّت نہ ہارو۔ اوراگر تمہارے اوپر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسا اور ایسا کیا ہوتا تو بچ جاتا۔ بلکہ یہ کہو کہ اللہ کا مقدّر تھا ، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیوں کہ’’اگر‘‘شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔

44

 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2516)۔یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے لڑکے، میں تم کو کچھ باتیں بتا رہا ہوں۔ تم اللہ کو یاد رکھو، اللہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کو یاد رکھو، تم اللہ کو اپنے سامنے پائو گے۔ جب تم سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو اور جب تم مدد مانگو تو اللہ سے مدد مانگو۔ اور جان لو کہ تمام لوگ مل کر تم کو کوئی فائدہ پہونچانا چاہیں تو وہ تم کو کوئی فائدہ نہیں پہونچا سکتے اِلّا یہ کہ اللہ نے اس کو تمہارے لیے لکھ دیا ہو۔ اور اگر تمام لوگ مِل کر تم کو کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اِلّا یہ کہ اللہ نے اس کو تمہارے اوپر لکھ دیا ہو۔

45

عَنْ‌جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‌لَا ‌يَرْحَمُ ‌اللهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7376)۔ یعنی، جریر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس پر رحم نہیں کرے گا، جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔

46

 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُصْبَغُ فِي النَّارِ صَبْغَةً، ثُمَّ يُقَالُ:يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيمٌ قَطُّ؟ فَيَقُولُ:لَا، وَاللهِ يَا رَبِّ وَيُؤْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِي الدُّنْيَا، مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيُصْبَغُ صَبْغَةً فِي الْجَنَّةِ، فَيُقَالُ لَهُ: يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ بُؤْسًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا، وَاللهِ يَا رَبِّ مَا مَرَّ بِي بُؤْسٌ قَطُّ، وَلَا رَأَيْتُ شِدَّةً قَطّ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2807)۔یعنی، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ قیامت کے دن جہنم کے مستحق لوگوں میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ خوش حال تھا۔ پھر اس کوایک بار جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کے بعد کہا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے،کیاتم نے کبھی اچھی حالت دیکھی ہے۔ کیا تم پر کبھی آرام کا دن گزرا ہے۔ وہ کہے گاکہ خدا کی قسم اے میرے رب ،نہیں ۔ اور جنت کے مستحق لوگوں میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھائی ہو گی۔ پھر اس کو ایک بار جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد اس سے کہاجائے گا کہ اے آدم کے بیٹے، کیا تم نے کبھی تکلیف دیکھی ہے، کیا تمہارے  اوپر کبھی سخت حالت گزری ہے۔ وہ کہے گا کہ خدا کی قسم ، نہیں ، مجھ پرکبھی تکلیف نہیں گزری اور میں نے کبھی سخت حالت نہیں دیکھی۔

47

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا" الزلزلة، قَالَ:أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا؟ قَالُوا:اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا أَنْ تَقُولَ:عَمِلَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا ، قَالَ: فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2429)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے قرآن کی ایک آیت پڑھی:اس دن زمین اپنی خبروں کو بتائے گی 99:4))،پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اس کی خبریں کیا ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ زمین کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر مرد اور عورت کے بارہ میں گواہی دے گی کہ اس نے میری پیٹھ پر ایسا اور ایسا کیا اور فلاں اور فلاں دن کیا۔ یہی زمین کا خبر دینا ہے۔

48

عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ،قَالَ  أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الأَرْضِ ظُلْمًا، فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3198 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1610 )۔یعنی سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص ایک بالشت زمین بھی ظلم کے ذریعہ لے گا تو قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔

49

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ:إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ:إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 91)۔ یعنی عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں ایک ذرّہ کے برابر بھی گھمنڈ ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اور اس کا جوتااچھا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ صاحب جمال ہے اور وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔ گھمنڈ تو یہ ہے کہ آدمی حق کونہ مانے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔

50

  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6478)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: بندہ خدا کی رضا کی ایک بات کہتا ہے، وہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ مگر اللہ اس بات کی وجہ سے اس کے درجے بلند کر دیتا ہے۔ اور بندہ خدا کی ناراضگی کی ایک بات کہتا ہے، وہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا مگروہ بات اس کو جہنم میں گرا دیتی ہے۔

51

 عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ:دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ:يَا رَسُولَ اللهِ، أَوْصِنِي. قَالَ:أَوْصَيْتُكَ بِتَقْوَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّهُ أَزْيَنُ لِأَمْرِكَ كُلِّهِ  قُلْتُ:زِدْنِي. قَالَ:عَلَيْكَ بِتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ، وَذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّهُ ذِكْرٌ لَكَ فِي السَّمَاءِ وَنُورٌ لَكَ فِي الْأَرْضِ(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 4592)۔یعنی ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس گیا۔ میں نے کہا کہ مجھ کونصیحت فرمائیے۔ آپ نے کہا: میں تم کواللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیوں کہ وہ تمہارے تمام معاملات کو درست کرنے والا ہے، میں نے کہاکہ کچھ اور نصیحت کیجیے۔ آپ نے کہا تم قرآن کو پڑھو اور اللہ کو یاد کرتے رہو، کیوں کہ اس سے تم آسمان میں یاد کیے جائو گے، اور زمین میں وہ تمہارے لیے روشنی ہو گی۔

52

 عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ العَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3537؛ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4253)۔ یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:  اللہ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہاس کی سانس نہ اکھڑ جائے۔

53

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ، كَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيدُ إِذَا أَصَابَهُ الْمَاءُ  قِيلَ:يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا جِلَاؤُهَا؟ قَالَ:كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1859)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: دلوں کو بھی زنگ  لگتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگتا ہے۔ جب کہ وہ پانی سے بھیگ جائے۔ پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول ، اس کو صاف کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ آپ نے کہا کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت۔

54

عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَيْسَ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ، وَلَا فِي إِضَاعَةِ الْمَالِ، وَلَكِنِ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِنْكَ بِمَا فِي يَدِ اللَّهِ، وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ، إِذَا أُصِبْتَ بِهَا، أَرْغَبَ مِنْكَ فِيهَا، لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4100 )۔یعنی ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ دنیا سے زہد حلال کو حرام کرنے یا مال کو ضائع کرنے کا نام نہیں، بلکہ دنیا سے زہد یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اس سے زیادہ بھروسہ تم کو اس پر ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کے ثواب کی وجہ سے اس کا باقی رہنا تمہارے لیے زیادہ مرغوب بن جائے۔

55

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ بِهِ إِلَى الْيَمَنِ قَالَ: إِيَّاكَ وَالتَّنَعُّمَ؛ فَإِنَّ عِبَادَ اللَّهِ لَيْسُوا بِالْمُتَنَعِّمِينَ(مسند احمد، حدیث نمبر 22105)۔ یعنی معاذ بن جبل رضی اللہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے جب مجھے یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو فرمایا کہ تم عیش و عشرت سے بچو، کیوں کہ اللہ کے بند ے عیش و عشرت والے نہیں ہوتے۔

56

 عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ دُنْيَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَتِهِ، وَمَنْ أَحَبَّ آخِرَتَهُ أَضَرَّ بِدُنْيَاهُ، فَآثِرُوا مَا يَبْقَى عَلَى مَا يَفْنَى (مسند احمد، حدیث نمبر 19697)۔ یعنی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جو شخص اپنی دنیا کو محبوب بنائے گا وہ اپنی آخرت کا نقصان کر لے گا، اور جو شخص اپنی آخرت کو محبوب بنائے گا وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچائے گا۔ پس تم باقی رہنے والی چیز کو فنا ہونے والی چیز پر ترجیح دو۔

57

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ ضَرَبَ ضَرْبًا اقْتُصَّ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(الادب المفرد، حدیث نمبر 185)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا۔ جس نے اپنے خادم کو( ناحق طور پر) ایک کوڑا مارا، قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے گا۔

58

عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ المَوْتِ، وَالعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2459)۔ یعنی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ہوشیار وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔ اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے۔ اور عاجز وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اپنی خواہش کے تابع کر دیا۔ اور اللہ سے غلط امید باندھی۔

59

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ، مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2582؛ جامع الترمذی، حدیث نمبر 2420)۔ یعنی  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ قیامت کے دن حقدار کو اس کا حق دلایا جائے گا، یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بے سینگ کی بکری کا بدلہ لیا جائے گا۔

60

 عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ القِيَامَةِ رَجُلٌ، عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَتَانِ، يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ كَمَا يَغْلِي المِرْجَلُ وَالقُمْقُمُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6562)۔یعنی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اہل جہنم میں سب سے ہلکا عذاب اس شخص کا ہو گا جس کے دونوں پیر کے نیچے دو چنگاریاں ہوں گی ، ان سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا جیسے چولہے کی ہانڈی کھولتی ہے۔

61

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2416)۔یعنی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ قیامت کے دن بندہ کے قدم اس کے رب کے سامنے سے نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے پانچ باتوں کا سوال نہ کر لیا جائے —  اس کی عمر کے بارے میں کہ اس کو کس چیز میں گزاری۔ اور جوانی کے بارےمیں کہ اس کو کس کام میں لگایا۔ اور مال کے بارے میں کہ کہاں سے حاصل کیا۔ اور حاصل کیے ہوئے مال کوکس طرح خرچ کیا ۔اور جو کچھ علم حاصل کیا، اس پر کتنا عمل کیا ۔

62

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَنْعَمُ لَا يَبْؤُسُ، لَا تَبْلَى ثِيَابُهُ، وَلَا يَفْنَى شَبَابُهُ، إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 9957)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص جنت میں داخل ہو گا وہ ہمیشہ نعمتوں میں رہے گا، وہ کبھی محتاجی سے دوچار نہ ہو گا۔ نہ اس کے کپڑے کبھی پرانے ہوں گے، نہ اس کی جوانی کبھی ختم ہو گی۔ جنت میں وہ چیزیں ہیں جن کونہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آیا۔

63

 عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذَكَرَ فِتْنَةَ القَبْرِ الَّتِي يَفْتَتِنُ فِيهَا المَرْءُ، فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ المُسْلِمُونَ ضَجَّةً (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1373)۔ یعنی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کھڑے ہوئے اور تقریر فرمائی۔ آپ نے قبر کی آزمائش کا ذکر کیا جس میں انسان کو آزمایا جائے گا۔ جب آپ نے یہ تقریر فرمائی تو مسلمان بلند آواز سےرونے لگے۔

64

عَنْ  أَبِيْ هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ خَافَ أَدْلَجَ، وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ المَنْزِلَ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ الجَنَّةُ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2450)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جس مسافر کو اندیشہ ہوتا ہے وہ سویرے سفر کرتا ہے، اور جو شخص سویرے سفر کرتا ہے وہ اپنی منزل پر پہونچتا ہے۔ سن لو کہ اللہ کا سودا قیمتی ہے، سن لو کہ اللہ کا سودا جنت ہے۔

65

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  يُنَادِي مُنَادٍ: إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْأَسُوا أَبَدًا  فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ:وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [الأعراف[(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2837؛ جامع الترمذی، حدیث نمبر 3246)۔یعنی ابوسعید الخدری، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ(جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے تو)ایک پکارنے والا پکارے گا:  بے شک تم ہمیشہ تندرست رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہو گے۔ اور اب تم ہمیشہ زندہ رہو گے اور کبھی نہ مرو گے۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے اورکبھی بوڑھے نہ ہو گے۔اب تم ہمیشہ خوش حال رہوگے اور کبھی محتاجی میں مبتلا نہ ہو گے۔ یہ مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول (7:43)کا : اور پکاراجائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تم جو کچھ کرتے تھے اس کے بدلے میں تم کو اس کاوارث بنا دیا گیا۔

66

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5971؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2548)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ اے خدا کے رسول، میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے، آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ۔ اس نے کہا کہ پھرکون۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں۔ اس نے کہا کہ پھر کون۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں۔ اس نے کہا کہ پھرکون۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارا باپ۔

67

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، قِيلَ: مَنْ؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2551)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو ، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو۔ پوچھا گیاکہ کون اے خدا کے رسول۔ آپ نے فرمایا وہ آدمی جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے ایک کوان کے بڑھاپے میں پایا ، پھر بھی وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔

68

 عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكِ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا؟ قَالَ:نَعَمْ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا، وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 5142)۔ یعنی ابوا سید مالک ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس تھے کہ بنو سلمہ کا ایک شخص آیا۔ اس نے کہاکہ اے خدا کے رسول ، کیا میرے والدین کی موت کے بعد بھی ان کا کوئی حق باقی رہتا ہے جس کو میں ادا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ ان کے حق میں دعا کرنا اور ان کے لیے مغفرت چاہنا۔ اور ان کے بعد ان کے عہد کو پورا کرنا۔ اور جن لوگوں سے ان کا رشتہ داری کا تعلق ہے، ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں کی عزّت کرنا۔

69

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ الوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5991)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ وہ شخص صلۂ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو جوابی صلۂ رحمی کرتا ہے۔ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع رحم کیے جانے کے باوجود صلۂ رحمی کرے۔

70

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ:قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُ أُمِّي؟ قَالَ: نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2620 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 5979)۔یعنی اسماء بنت ابوبکر کہتی ہیں کہ معاہدہ حدیبیہ کے زمانہ میں میری(رضاعی( ماں میرے پاس آئی اور وہ شرک پر تھی۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، میری مشرک ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ کچھ چاہتی ہے،کیا میں اس کو کچھ دوں ۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

71

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1631)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جب آدمی مرتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے ، سِوا تین کے۔ صدقۂ جاریہ یا ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا صالح اولاد جو اس کے حق میں دعا کرے۔

72

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي، وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَيَّ، وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَيَّ، فَقَالَ:لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ، فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2558)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے کہا کہ اے خدا کے رسول، میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔ میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرتا ہوں اور وہ قطع رحم کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں۔ میں ان سے بردباری کامعاملہ کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم ویسے ہی ہو جیسا کہ تم نے کہا تو گویا کہ تم ان کے چہرے کو خاک آلود کر رہے ہو۔ اور تمہارے ساتھ اللہ کی طرف سے ان کے خلاف ہمیشہ ایک مددگار رہے گا ، جب تک تم اپنے اس عمل پر قائم رہو۔

73

عَنْ عَلِيِّ‌بْنِ‌أَبِي طَالِبٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- خَيْرُكمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ، وَأَنا خَيْرُكُمْ لأَهْلِى، مَا‌أَكْرَمَ النِّساءَ إِلَّا ‌كَرِيمٌ، ولَا أَهَانَهُنَّ إلَّا لَئِيمٌ (تاریخ دمشق، جلد13،صفحہ 313)۔ یعنی علی بن ابو طالب روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں- عورتوں کی عزت وہی شخص کرتا ہے جو شریف ہو اور عورتوں کو وہی شخص بے عزت کرتا ہے جو کمینہ‌ہو۔

74

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ عَالَ ثَلَاثَ ‌بَنَاتٍ، فَأَدَّبَهُنَّ، وَزَوَّجَهُنَّ، وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، فَلَهُ الْجَنَّةُ(سنن ابودا ؤد، حدیث نمبر 5147)۔ یعنی، ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی‌۔ پھر اس نے ان کو ادب سکھایا اور اُ‌ن کی شادی کی اور اُ‌ن کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے ۔

75

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ، أَوْ قَالَ:"غَيْرَهُ"(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1469)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: کوئی مومن مرد اپنی مومن بیوی سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی ایک صفت شوہر کو پسند نہ ہو تو اس کی دوسری صفت اس کی پسند کے مطابق ہو گی۔

76

 عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 55 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1002 )۔یعنی ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: آدمی جب اپنے گھر والوں پر اللہ کی رضا کے جذبہ سے خرچ کرتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔

77

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قَالَ: إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2259)۔ یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہاکہ اے خدا کے رسول، میرے دو پڑوسی ہیں تو میں ان دونوں میں سے کس پڑوسی کے یہاں ہدیہ بھیجوں۔ آپ نے فرمایا کہ دونوں میں سے جس کا دروازہ تمہارے دروازہ سے زیادہ قریب ہو۔

78

عَنْ  ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ(شعب الایمان، حدیث نمبر 3117)۔یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو سیر ہو کر کھائے اور اسی کے قریب اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔

79

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَجُلٌ:يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانَةَ يُذْكَرُ مِنْ كَثْرَةِ صَلَاتِهَا، وَصِيَامِهَا، وَصَدَقَتِهَا، غَيْرَ أَنَّهَا تُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا، قَالَ: هِيَ فِي النَّارِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّ فُلَانَةَ يُذْكَرُ مِنْ قِلَّةِ صِيَامِهَا، وَصَدَقَتِهَا، وَصَلَاتِهَا، وَإِنَّهَا تَصَدَّقُ بِالْأَثْوَارِ مِنَ الْأَقِطِ، وَلَا تُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا، قَالَ: هِيَ فِي الْجَنَّةِ (مسند احمد، حدیث نمبر 9675)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا کہ اے خدا کے رسول، فلاں عورت کا چرچا کیا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ نماز اور روزہ اور صدقہ والی ہے۔ مگروہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ستاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں جائے گی۔ پھر اس آدمی نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، فلاں عورت کم نفلیں پڑھتی ہے اور کم نفل روزے رکھتی ہے اور تھوڑا صدقہ کرتی ہے ، وہ صرف پنیر کے کچھ ٹکڑے دے دیتی ہے۔ مگر وہ اپنی زبان سے پڑوسیوں کو نہیں ستاتی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ جنت میں جائے گی۔

80

 عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لاَ يُؤْمِنُ قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الَّذِي لاَ يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6016)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول،کون۔ آپ نے فرمایا کہ وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی زیادتیوں سے امن میں نہ ہو۔

81

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ، وَالْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ مِنْ حَيْثُ لَقِيَهُ يَكُفُّ عَنْهُ ضَيْعَتَهُ، وَيَحُوطُهُ مِنْ وَرَائِهِ(شعب الایمان، حدیث نمبر 7239)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: مومن مومن کا آئینہ ہے۔ اور مومن مومن کا بھائی ہے۔ وہ اس کو نقصان سے بچاتا ہے اور اس کے پیچھے اس کی حفاظت کرتا ہے۔

82

قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا بُنَيَّ، إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِيَ لَيْسَ فِي قَلْبِكَ غِشٌّ لِأَحَدٍ فَافْعَلْ" ثُمَّ قَالَ لِي:"يَا بُنَيَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِي، وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الجَنَّةِ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2678)۔ یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے، اگر تم ایسا کر سکو کہ تم اس طرح صبح کرو اور اس طرح شام کرو کہ تمہارے دل میں کسی کے لیے بدخواہی نہ ہو تو تم ایسا کرو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اے بیٹے، یہ میرا طریقہ ہے اور جس نے میرے طریقہ کو محبوب رکھا تو اس نے مجھ کو محبوب رکھا،اور جس نے مجھ کو محبوب رکھا وہ جنت میں میرے ساتھ رہے گا۔

83

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالأَمِيرُ رَاعٍ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5200 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1829)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کہا: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا—  حاکم نگہبان ہے۔ آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے۔ پس تم میں سے ہرایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

84

عَنِ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7150)۔یعنی معقل بن یساررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم سے سنا، آپ کہتے ہیں: کسی بھی بندے کو اللہ نے کوئی رعیت دی، پس اس نے خیرخواہی کے ساتھ اس کی دیکھ بھال نہیں کی تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔

85

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا خَفَّفْتَ عَنْ خَادِمِكَ مِنْ عَمَلِهِ كَانَ لَكَ أَجْرًا فِي مَوَازِينِكَ (شعب الایمان، حدیث نمبر 8226)۔ یعنی عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: تم اپنے خدمت گار سے کام لینے میں جتنی نرمی کرو گے،  اس کا اجر قیامت کے دن تمہارے پلڑے میں ڈالا جائے گا۔

86

 عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَطْعِمُوا الجَائِعَ، وَعُودُوا المَرِيضَ، وَفُكُّوا العَانِيَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر5373)۔یعنی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے کہا:تم لوگ  بھوکے آدمی کو کھانا کھلائو اور مریض کی عیادت کرو اور قیدیوں کو رہائی دلائو۔

87

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ:خَيْرُكُمْ خيركم لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1977)۔یعنی عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا سلوک کرے۔ اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔

88

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 12 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 39)۔ یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے پوچھا۔ کون سا اسلام بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کھانا کھلائو اور تم لوگوں کو سلام کرو۔ جس کو تم پہچانتے ہو اس کو بھی اور جس کو نہیں پہچانتے ہو اس کو بھی۔

89

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ:يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ، فَلَمْ تَسْقِنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2569)۔ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم! میں بیمار ہوا مگر تم نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب ،میںکس طرح تیری عیادت کرتا جب کہ تو سارے عالم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا، کیا تم نے نہیں جانا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا مگر تم نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تم نے نہیں جانا کہ تم اگر اس کی عیادت کرتے تو یقینا تم مجھ کو اس کے پاس پاتے۔ اے ابن آدم! میں نے کھانے کو مانگا مگر تم نے مجھ کو کھانا نہیں کھلایا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب،میں کس طرح تجھ کو کھانا کھلاتا، جب کہ تو سارے عالم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا، کیا تم نے نہیں جانا کہ میرا فلاں بندہ نے تم سے کھانا مانگا تھا، پس تم نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ کیا تم نے نہیں جانا کہ تم اگر اس کو کھانا کھلاتے تو یقینا تم مجھ کو اس کے پاس پاتے۔ اے ابن آدم! میں نے پانی مانگا مگر تم نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب ،میںکس طرح تجھ کو پانی پلاتا جب کہ تو سارے عالم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا، کیا تم نے نہیں جانا کہ میرا فلاں بندہ نے تم سے پانی مانگا تھا مگر تم نے اس کی پیاس نہیں بجھائی۔ کیا تم نے نہیں جانا کہ تم اگر اس کو پانی پلاتے تو یقینا تم مجھ کو اس کے پاس پاتے۔

90

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَا نِسَاءَ المُسْلِمَاتِ، لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا، وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2566 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1030)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اے مسلمان عورتو، کوئی عورت اپنی پڑوسی عورت کے لیے ہدیہ کو چھوٹا نہ سمجھے، خواہ وہ بکری کی کُھر ہی کیوں نہ ہو۔

91

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا، أَفَرَأَيْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ؟ قَالَ: تَحْجُزُهُ، أَوْ تَمْنَعُهُ، مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6952)۔ یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا۔ تم اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے کہا کہ اے خدا کے رسول، میں اس کے مظلوم ہونے پر تو اس کی مدد کر سکتا ہوں۔ مگر وہ ظالم ہو تو کیوں کر اس کی مدد کروں۔ آپ نے فرمایا۔ تم اس کو ظلم کرنے سے روک دو، یہی تمہاری طرف سے اس کی مدد ہے۔

92

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ: فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ ثَلاَثًا، كُلُّ ذَلِكَ يُجِيبُونَهُ:أَلاَ، نَعَمْ. قَالَ:وَيْحَكُمْ، أَوْ وَيْلَكُمْ، لاَ تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6785)۔ یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے حجۃ الوداع میں فرمایا۔بے شک اللہ نے تمہارے اوپر تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزّت حرام کر دی ہےسوائے اس کے حق کے، جس طرح تمہارا یہ دن محترم ہے، تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس مہینہ میں ۔ کیا میں نے تم کو پہنچا دیا(تین مرتبہ کہا)۔ لوگوں نے ہر مرتبہ جواب دیا: ہاں، بے شک ۔ آپ نے کہا: تمہارا برا ہو، میرے بعد تم لوگ کافر نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔

93

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَزَوَّجُوا النِّسَاءَ لِحُسْنِهِنَّ، فَعَسَى حُسْنُهُنَّ أَنْ يُرْدِيَهُنَّ، وَلَا تَزَوَّجُوهُنَّ لِأَمْوَالِهِنَّ، فَعَسَى أَمْوَالُهُنَّ أَنْ تُطْغِيَهُنَّ، وَلَكِنْ تَزَوَّجُوهُنَّ عَلَى الدِّينِ، وَلَأَمَةٌ خَرْمَاءُ سَوْدَاءُ ذَاتُ دِينٍ أَفْضَلُ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1859)۔ یعنی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: تم عورتوں سے ان کی خوبصورتی کے لیے نکاح نہ کرو۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی خوبصورتی انھیں تباہ کر دے۔ اور ان کے مال کی وجہ سے ان سے نکاح نہ کرو۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا مال انھیں سرکش بنا دے۔ بلکہ تم ان سے دین کی بنیاد پر نکاح کرو۔ اور دین والی سیاہ فام باندی تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔

94

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ، يُدْعَى لَهَا الأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الفُقَرَاءُ، وَمَنْ تَرَكَ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5177 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1432)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:سب سے برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اور جس شخص نے دعوت کو قبول نہ کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

95

كانَ النبيُّ صلى الله عليه وسلم يَستشيرُ حتى المرأةَ، فتُشيرُ عليه بالشيءِ فيأخُذُ به (عیُونُ الاَخبار لاِبنِ قتُیَبہ، جلد1،صفحہ 82)۔ یعنی،آپ کا طریقہ تھا کہ آپ سب سے مشورہ کرتے تھے۔یہاں تک کہ عورت سے بھی ، اور وہ کوئی مشورہ دیتی تھی تو آپ اس کو قبول کرتے تھے۔

96

عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5066)۔ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اے نوجوان گروہ، تم میں سے جو شخص نکاح کی استطاعت رکھتا ہو، تو اس کو چاہیے کہ وہ نکاح کر لے۔ کیوں کہ وہ غضِّ بصر کے لیے معاون ہے اور بے جا شہوت سے بچانے والا ہے۔ اور جو ایسا نہ کر سکے تو وہ روزہ رکھے ۔کیوں کہ روزہ بچائو ہے۔

97

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:تُنْكَحُ المَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5090)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کہا: عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کے لیے، اس کے حسب و نسب کے لیے، اس کی خوبصورتی کے لیے اور اس کے دین کے لیے۔ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں، تم دین والی کو حاصل کرو۔

98

عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 1952 )۔یعنی سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:کسی باپ کی طرف سے اس کے بیٹے کے لیے سب سے بہتر عطیہ یہ ہے کہ وہ اس کی تعلیم و تربیت کرے۔

99

 عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ، لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3667)۔ یعنی سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتائو ں کہ بہترین صدقہ کیا ہے۔ تمہاری وہ بیٹی جو تمہاری طرف لوٹا دی گئی ہو، تمہارے سوا کوئی اس کاکمانے والا نہ ہو۔

100

عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِصَبِيٍّ، فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ، وَإِنَّهُمْ لَمِنْ رَيْحَانِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر 3448)۔یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس ایک بچہ لایا گیا۔ آپ نے اس کو پیار کیا پھر فرمایا یہ بچے آدمی کے لیے بزدلی اور بخیلی کا سبب بنتے ہیں۔ اور وہ خدا کے پھول ہیں۔

101

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5885 ؛ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1904 ؛ جامع الترمذی، حدیث نمبر 2784 )۔یعنی عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جوعورتوں کے مشابہ بنیں، اور آپ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کے مشابہ بنیں۔

102

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ- أَوْ قَالَ: الْعُشْبَ (سنن ابوداود، حدیث نمبر 4903). یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا۔ تم لوگ حسد سے بچو کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے یا گھاس کو۔ 

103

 عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ: فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6077؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2560)۔ یعنی ابو ایوّب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔ دونوں ملیں تو یہ اس سے منہ پھیر لے اور وہ اِس سے منہ پھیر لے۔ اور دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کر۔

104

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَثْقَلُ شَيْءٍ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيَّ (الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر 464)۔ یعنی ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:قیامت کے دن  مومن کی ترازو میں سب سے زیادہ وزنی چیز اچھا اخلاق ہو گا۔ اور اللہ اس شخص سے نفرت کرتا ہے جو بے حیائی کی بات بولے اور بد زبانی کرے۔

105

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَالصِّدِّيقِينَ، وَالشُّهَدَاءِ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 1209 )۔یعنی ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا :سچا اور امانت دار تاجر(آخرت میں) پیغمبروں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔

106

 عَنْ جَابِرٍعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  إِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر336)۔یعنی جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ناواقف آدمی کی لاعلمی کا علاج سوال کرنا ہے۔

107

عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى، وَالصِّحَّةُ لِمَنِ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى، وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النَّعِيمِ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2141)۔ یعنی معاذ بن عبداللہ بن خبیب اپنے باپ اور وہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تقویٰ والے کے لیے مالداری میں کوئی حرج نہیں ہے، اور تقویٰ والے کے لیے صحت مندی دولت سے زیادہ بہتر ہے، اور خوشی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔

108

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:خَيْرُ الْكَسْبِ، كَسْبُ يَدِ الْعَامِلِ إِذَا نَصَحَ (مسند احمد، حدیث نمبر 8412)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:عمل کے ذریعہ کمانا سب سے بہتر کمانا ہے، بشرطیکہ اپنا کام خیر خواہی کے ساتھ کرے۔

109

عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2446 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2585)۔یعنی ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: مومن مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے۔ جس کا ایک حصّہ دوسرے حصّہ کو طاقت دیتا ہے۔ پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے بتایا۔

110

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بِئْسَ الْعَبْدُ الْمُحْتَكِرُ، إِنْ أَرْخَصَ اللهُ الْأَسْعَارَ حَزِنَ، وَإِنْ أَغْلَاهَا اللهُ فَرِحَ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 186)۔یعنی  معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو یہ کہتے ہوئے سنا: اشیاء ضرورت کو روکنے والا آدمی کتنا برا ہے۔ اگر اللہ چیزوں کا دام کم کرے تو اس کو دکھ ہوتا ہے، اور اگر چیزوں کا دام بڑھ جائے تو وہ خوش ہوتا ہے۔

111

  عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2586 ؛ صحیح البخاری، حدیث نمبر 6011)۔یعنی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:  تم دیکھو گے کہ ایمان لانے والے آپس میں رحمت اور محبت اور شفقت کرنے کے معاملہ میں جسم کی طرح ہیں۔ جسم کے ایک حصّہ میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس کو محسوس کرتا ہے۔ آدمی کی نیند چلی جاتی ہے اور وہ بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

112

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:عَلَيْكَ السَّمْعَ وَالطَّاعَةَ فِي عُسْرِكَ وَيُسْرِكَ، وَمَنْشَطِكَ وَمَكْرَهِكَ، وَأَثَرَةٍ عَلَيْكَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1836)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ تم امیر کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اپنی مشکل میں اور اپنی آسانی میں،اپنی خوشی میں اور اپنی ناپسندیدگی میں، اور یہ کہ جب تمھارے اوپر ترجیح دی جائے۔

113

عَنْ  وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَبِيعُ شَيْئًا إِلَّا بَيَّنَ فِيهِ، وَلَا يَحِلُّ لِمَنْ عَلِمَ ذَلِكَ إِلَّا بَيَّنَهُ(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 4912)۔ یعنی واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا : کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ چیز کا عیب بتائے بغیر اس کو فروخت کرے۔ اور آدمی پر لازم ہے کہ وہ جس عیب کوجانے اس کو ضرور گاہک کو بتا دے۔

114

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُكُمْ عَمَلًا أَنْ يُتْقِنَهُ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 897)۔ یعنی عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بے شک اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی ایک کام کرے تو اس کو اچھی طرح انجام دے۔

115

عَنْ سَهْلِ ابْنِ الْحَنْظَلِيَّةِ، قَالَ:مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ، فَقَالَ:اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ، فَارْكَبُوهَا صَالِحَةً، وَكُلُوهَا صَالِحَةً(سنن ابوداود، حدیث نمبر 2548)۔یعنی سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے۔ اس کی پیٹھ اس کے پیٹ سے مل گئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ان بے زبان جانوروں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو۔ پس ان پر اچھی حالت میں سواری کرو اور ان کو اچھی حالت میں چھوڑو۔  

116

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحَدِيثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6064)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: تم اپنے کو گمان سے بچائو۔ کیوں کہ گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ اور دوسرے کے بارے میں جاننے کی کوشش نہ کرو۔ اور ٹوہ میں نہ لگو۔ اور دوسرے کی بول پر بڑھا کر بولی نہ دو۔ اور آپس میں بغض نہ رکھو۔ اور ایک دوسرے کی کاٹ نہ کرو۔ اور اللہ کے بندے،بھائی بھائی بن جائو ۔

117

عَنْ  رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ  وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ(مسند احمد، حدیث نمبر 17265 )۔یعنی رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے کہا گیا اے خدا کے رسول، سب سے زیادہ اچھی کمائی کون سی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ، اور دیانت دارانہ تجارت۔

118

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ، أَمِنَ الحَلاَلِ أَمْ مِنَ الحَرَامِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2059)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب کہ آدمی اس کی پروا نہ کرے گا کہ آدمی نے جو مال حاصل کیا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔

119

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2313 ؛ مسند احمد، حدیث نمبر 6984 )۔ یعنی عبداللہ بن عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ رشوت دینے والے پر اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔

120

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ، وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2153)۔ یعنی عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اشیائے ضرورت کو نہ روکنے والا تاجر رزق پاتا ہے اور اشیائے ضرورت کو روکنے والا تاجر ملعون ہے۔

121

 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَى، وَإِذَا اقْتَضَى(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2076)۔ یعنی جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو خرید و فروخت اور قرض مانگنے میں نرمی کا طریقہ اختیار کرے۔

122

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2703)۔ یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے وارث کی میراث کو کاٹے گا ، قیامت کے دن اللہ اس کو جنت کی میراث سے کاٹ دے گا۔

123

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1886)۔یعنی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ خدا کی راہ میں قربانی دینے والے کا ہرگناہ معاف کر دیا جائے گا، مگر قرض معاف نہ ہو گا۔

124

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ، قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2443)۔ یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کہا:مزدور کی مزدوری دے دو، اس سے پہلے کہ اس کا پسینہ خشک ہو۔

125

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَدِّ الأَمَانَةَ إِلَى مَنْ ائْتَمَنَكَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 1264)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جس شخص نے اپنی امانت تمہارے سپرد کی اس کی امانت اس کو واپس کرو۔ کوئی شخص تم سے خیانت کرے تب بھی تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔

126

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:كَانَ الرَّجُلُ يُدَايِنُ النَّاسَ، فَكَانَ يَقُولُ لِفَتَاهُ: إِذَا أَتَيْتَ مُعْسِرًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا، قَالَ:فَلَقِيَ اللَّهَ فَتَجَاوَزَ عَنْهُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3480 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1562)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ایک شخص تھا۔ وہ لوگوں کو قرض دیتا تھا۔ پھر وہ اپنے کارندوں سے کہتا تھا کہ جب تم کسی تنگ دست کے پاس قرض وصول کرنے کے لیے جائو تو اس سے درگزر کا معاملہ کرو۔ شاید اللہ ہم سے بھی درگزر کا معاملہ فرمائے۔ آپ نے کہا کہ وہ شخص اللہ سے ملا تو اللہ نے اس کے ساتھ درگزر کا معاملہ فرمایا۔

127

 عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِيَّاكَ وَدَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ اللهَ حَقَّهُ، وَإِنَّ اللهَ لَا يَمْنَعُ ذَا حَقٍّ حَقَّهُ(شعب الایمان، حدیث نمبر 7061)۔ یعنی علی بن طالب رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: تم مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ سے اپنا حق مانگتا ہے۔ اور اللہ کسی صاحب حق سے اس کے حق کو نہیں روکتا۔ 

128

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2320؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1553)۔ یعنی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:کوئی مسلمان کاشت کرے یا درخت لگائے، پھر اس میں سے کوئی چڑیا یا انسان یا جانور کھا لے تو اس پر اس کو صدقہ کا ثواب ملے گا۔

129

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ، كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الإِثْمِ، أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2051 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1599)۔یعنی نعمان بن بُشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے کہا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں۔ جو شخص مشتبہ گناہ کو چھوڑ دے گا وہ کھلے گناہ کو اور بھی زیادہ چھوڑنے والا ہو گا۔ اور جو شخص مشتبہ گناہ کے معاملہ میں جری ہو گا اس کے متعلق اندیشہ ہے کہ وہ کھلے گناہ میں بھی پڑ جائے۔ اور گناہ کی حیثیت اللہ کی ممنوعہ چراگاہ کی ہے۔ جو جانور ممنوعہ چراگاہ کے کنارے چرتا ہے ، اندیشہ ہے کہ وہ اس کے اندر داخل ہوجائے۔ 

130

أَنَّ أَوْسَ بْنَ شُرَحْبِيل، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَنْ مَشَى مَعَ ظَالِمٍ لِيُعِينَهُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ ظَالِمٌ، فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 619)۔یعنی اوس بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جو شخص کسی ظالم کے ساتھ چلے تاکہ اس کوتقویت حاصل ہو، اور وہ جانتا ہوکہ وہ ظالم ہے تو ایسا شخص اسلام سے نکل گیا۔

131

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلاَفَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2387)۔یعنی  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کا مال لے اور وہ اس کو واپس کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ اس کی طرف سے ادا کرے گا۔ اور جو شخص لوگوںکا مال اس طرح لے کہ وہ اس کو واپس کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے مال کو برباد کر دے گا۔

132

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الحَدِيثَ ثُمَّ التَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 1959)۔یعنی جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جب کوئی آدمی کوئی بات کہے اور تم اس کی طرف متوجہ ہو گئے تو اس کی بات ایک امانت ہے۔

133

عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا:إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4782) یعنی  ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی شخص کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے۔ اگر اس طرح غصہ چلا جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو چاہیے کہ وہ لیٹ جائے۔ 

134

عَنْ عَطِيَّةَ سَعْدِيْ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ، فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4784)۔یعنی حضرت عطیہ سعدی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: غصّہ شیطان سے ہے۔ اور شیطان آگ سے بنایا گیا ہے۔ اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے۔

135

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ القِيَامَةِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2447 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2579)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ظالم کے لیے اس کا ظلم، قیامت کے دن، تاریکی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔

136

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ ثَوْبِي يَسْتَرْخِي، إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذَلِكَ خُيَلاَءَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3665)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جس شخص نے اپنا کپڑا تکبرّ کے لیے زمین پر گھسیٹا ، اللہ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ میرا تَہ بند لٹک جاتا ہے اِلّا یہ کہ میں اس کو سنبھالتا رہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ تم ان میں سے نہیں ہو جو تکبرّ کے تحت ایسا کرتے ہیں۔

137

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ، إِلَّا بِإِذْنِهِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُحْزِنُهُ(مسند احمد، حدیث نمبر 6338)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جب تم لوگ تین آدمی ہو تو ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں راز دارانہ بات نہ کریں۔ کیوں کہ یہ طریقہ اس کو رنج میں مبتلا کرے گا۔ 

138

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ فَيَجْلِسَ فِيهِ، وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا(مسند احمد، حدیث نمبر 4659)۔یعنی  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:کوئی آدمی دوسرے آدمی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نہ بیٹھے۔ بلکہ تم لوگ کشادگی پیدا کرو اور گنجائش دو۔

139

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2752؛ سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4845 ) ۔ یعنی عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان بیٹھ کر انھیں الگ کر دے الایہ کہ اس نے دونوں سے اجازت لی ہو۔

140

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ السُّلَمِيُّ: دَخَلْتُ عَلَی  رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  بِمَكَّةَ (یَعْنِيْ فِيْ اَوَّلِ النُّبُوَّۃ)، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ:أَنَا نَبِيٌّ، فَقُلْتُ: وَمَا نَبِيٌّ؟ قَالَ:"أَرْسَلَنِي اللهُ، فَقُلْتُ:وَبِأَيِّ شَيْءٍ أَرْسَلَكَ، قَالَ:أَرْسَلَنِي بِصِلَةِ الْأَرْحَامِ، وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ، وَأَنْ يُوَحَّدَ اللهُ لَا يُشْرَكُ بِهِ شَيْءٌ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 832)۔یعنی ابوامامہ روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نےکہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے مکہ میں ابتدائی زمانہ میں ملا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیا ہیں۔ آپ نے کہا کہ میں نبی ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ نبی کیا ہے۔ آپ نے کہا کہ اللہ نے مجھے بھیجا ہے۔ پھر میں نے کہا کہ اللہ نے آپ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے۔ آپ نے کہا کہ اللہ نے مجھ کو صلۂ رحمی اور بتوں کو توڑنے کی تعلیم کے ساتھ بھیجا ہے۔ اور یہ کہ صرف ایک اللہ کومانا جائے ، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا جائے۔

141

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثَلَاثٌ مِنْ أَخْلَاقِ الْإِيمَانِ: مَنْ إِذَا غَضِبَ لَمْ يُدْخِلْهُ غَضَبُهُ فِي بَاطِلٍ، وَمَنْ إِذَا رَضِيَ لَمْ يُخْرِجْهُ رِضَاهُ مِنْ حَقٍّ ، وَمَنْ إِذَا قَدَرَ لَمْ يَتَعَاطَ مَا لَيْسَ لَهُ(المعجم الصغیر للطبرانی، حدیث نمبر 164)۔یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:تین چیزیں (اہلِ)ایمان کے اخلاق میں سے ہیں۔ جب اس کو غصّہ آئے تو اس کا غصہ اس کو باطل کی طرف نہ لے جائے۔ اور جب وہ خوش ہو تو اس کی خوشی اس کو حق کے دائرہ سے نہ نکالے۔ اور جب وہ طاقت ور ہو تو وہ اس چیز کو لینے کی کوشش نہ کرے جو اس کی نہیں ہے۔

142

 عَنْ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَغَيَّرَهُ بِيَدِهِ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ، فَغَيَّرَهُ بِلِسَانِهِ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِلِسَانِهِ، فَغَيَّرَهُ بِقَلْبِهِ فَقَدْ بَرِئَ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ(سنن النسائی، حدیث نمبر 5009)۔یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: تم میں سے جس شخص نے برائی کو دیکھا پھر اس نے اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دیا تو وہ بری الذّمہ ہو گیا۔ اور جو شخص ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو پھر وہ زبان سے اس کو بدلنے کی کوشش کرے تو وہ بھی بری الذّمہ ہو گیا۔ اور جو شخص اپنی زبان سے بدلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، پھر وہ اپنے دل سے اس کو بدلنے کااظہار کرے تو وہ بھی بری الذّمہ ہو گیا۔ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔

143

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ،فِيْ قَوْلِهِ تَعَالَى "ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ"(فصلت)الصَّبْرُ عِنْدَ الغَضَبِ وَالعَفْوُ عِنْدَ الإِسَاءَةِ، فَإِذَا فَعَلُوهُ،عَصَمَهُمُ اللَّهُ، وَخَضَعَ لَهُمْ عَدُوُّهُمْ(صحیح البخاری،ج6 ، ص127)۔ یعنی عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ قرآن کی آیت : "تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو "(41:34) کے بارے میں کہتے ہیں—  غصّہ کے وقت صبر کرنا اور برائی کے وقت درگزر کرنا۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ ان کی حفاظت فرمائے گا اور ان کے دشمن ان کے آگے جھک جائیں گے۔

144

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِفَ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1072)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اللہ اس مومن سے محبت کرتا ہے جو محنت کر کے روزی کمائے۔

145

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : بَارَكَ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ فِيكَ، فَخُصَّنِي مِنْكَ بِخَاصَّةِ خَيْرٍ، قَالَ:مُسْتَوْصٍ أَنْتَ؟  أُرَاهُ قَالَ: ثَلَاثًا، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:اجْلِسْ، إِذَا أَرَدْتَ أَمْرًا فَتَدَبَّرْ عَاقِبَتَهُ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا فَأَمْضِهِ، وَإِنْ كَانَ شَرًّا فَانْتَهِ(الزھد والرقائق لابن المبارک، حدیث نمبر 41)۔یعنی،ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، مجھے نصیحت کیجئے۔ آپ نے فرمایا، کیا تم وا قعۃً نصیحت لینا چا ہتے ہو اس نے کہا۔ ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے انجام پر غور کرو۔ اگر اس میں بھلائی ہو تو اس کو کرو ۔ اور اگر اس میں برا ئی ہو تو اس سے رک جا ؤ۔

146

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 20)۔یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم جب لوگوں کو کوئی حکم دیتے تو آپ لوگوں کو وہی کام کرنے کا حکم دیتے تھے جس کو وہ کر سکتے ہوں۔

147

 أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَالَ فِي المَسْجِدِ، فَثَارَ إِلَيْهِ النَّاسُ ليَقَعُوا بِهِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعُوهُ، وَأَهْرِيقُوا عَلَى بَوْلِهِ ذَنُوبًا مِنْ مَاءٍ، أَوْ سَجْلًا مِنْ مَاءٍ، فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6128)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بدّو نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگ اس کو مارنے کے لیے اٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو۔ تم لوگ آسانی پیدا کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہو، تم مشکل پیدا کرنے کے لیے نہیں اٹھائے گئے ہو۔  

148

 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الحَاشِيَةِ، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً، قَالَ أَنَسٌ: فَنَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَثَّرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6088 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر1057)۔یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ چل رہا تھا۔ آپ کے اوپر موٹے کنارے کی ایک نجرانی چادر تھی۔ اس وقت ایک اعرابی آپ سے ملا۔ اس نے آپ کی چادر پکڑ کر زور سے کھینچی۔ میں نے دیکھاتو اس کی وجہ سے آپ کی گردن میں نشان پڑ گیا۔ پھر اس نے کہاکہ اے محمّد ، اللہ کا مال جو تمہارے پاس ہے اس میں سے مجھے دینے کی ہدایت کرو۔ آپ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ پھر آپ نے اس کو مال دینے کا حکم فرمایا۔

149

عَنْ أَبِي بَكْرَةَ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ(مسند البزار،حدیث نمبر 3626) ۔ یعنی،ابو بکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم علم کو جاننے والے بنو یاعلم کو سیکھنے والے یا علم کو سننے والے یا علم سے محبت کرنے والے، اور پانچویں نہ بنو ورنہ ہلاک ہو جاؤگے۔

150

عَنِ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:مَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قَطُّ فَقَالَ:لاَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6034؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2311)۔یعنی جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے جب بھی کسی نے کوئی چیز مانگی تو آپ نے کبھی انکارنہیں کیا۔

151

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا، حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6092 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 899)۔یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو کبھی اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے تالو دکھائی دیں۔ آپ صرف مسکرا دیا کرتے تھے۔

152

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:مَا عَابَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ، إِنِ اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ، وَإِنْ كَرِهَهُ تَرَكَهُ(صحیح البخاریِ، حدیث نمبر 5409 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2064)۔یعنی  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کبھی کسی کھانے پر عیب نہیں لگایا۔ اگر پسند ہوا تو اس کو کھا لیا اور اگر ناپسند ہوا تو اس کو چھوڑ دیا۔

153

عَنْ  عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:مَا رُئِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مُتَّكِئًا قَطُّ، وَلَا يَطَأُ عَقِبَهُ رَجُلَانِ (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 3770)۔یعنی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کبھی تکیہ لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے اور نہ کبھی کسی نے دیکھا کہ دو آدمی بھی آپ کے پیچھے چلتے ہوں۔

154

 عَنِ السَّائِبِ، أنّه قَالَ للنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:كُنْتَ شَرِيكِي فَنِعْمَ الشَّرِيكُ، كُنْتَ لَا تُدَارِي، وَلَا تُمَارِي(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4836)۔ یعنی سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے کہا کہ آپ(زمانہ جاہلیت میں)میرے شریکِ (تجارت)تھے۔ آپ بہترین شریک تھے۔ آپ مجھ کو نہ کبھی دھوکا دیتے اور نہ کبھی مجھ سے جھگڑا کرتے۔

155

عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2923)۔یعنی حضرت یعلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے امّ سلمہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی قرأتِ قرآن کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے آپ کی قرأت کو واضح طور پر اور ایک ایک حرف کر کے بیان کیا۔

156

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كُنَّا يَوْمَ بَدْرٍ كُلُّ ثَلَاثَةٍ عَلَى بَعِيرٍ، كَانَ أَبُو لُبَابَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، زَمِيلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانَتْ عُقْبَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:فَقَالَا نَحْنُ نَمْشِي عَنْكَ، فَقَالَ:مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي، وَلَا أَنَا بِأَغْنَى عَنِ الْأَجْرِ مِنْكُمَا (مسند احمد، حدیث نمبر 3901)۔یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بدر کے موقع پر ہم تین آدمیوں کے اوپر ایک اونٹ ہوتا تھا۔ ابو لبابہ اور علی بن ابی طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ تھے۔ جب آپ کی پیدل چلنے کی باری آتی تو دونوں کہتے کہ ہم آپ کے بدلے چلیں گے(آپ سوار ہو جائیں)آپ جواب دیتے کہ تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہو اور میں تمہارے مقابلہ میں اجر سے بے نیاز نہیں ہوں۔

157

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يُبَلِّغُنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي شَيْئًا؛ فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْهِمْ وَأَنَا سَلِيمُ الصَّدْرِ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3896)۔یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی شخص کسی شخص کے بارےمیں(کوئی شکایتی بات( نہ کہے۔ مجھے یہ پسند ہے کہ میں تمہارے پاس اس حال میں آئوں کہ میرا دل بالکل صاف ہو۔

158

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبّ ِ(سنن النسائی، حدیث نمبر 5)۔یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: مسواک کرنا منھ کی صفائی ہے اور اس میں رب کی رضا مندی ہے۔

159

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَشَجِّ أَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ:"إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللهُ: الْحِلْمُ، وَالْأَنَاةُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 17)۔یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے قبیلہ عبدالقیس کے سردار سے فرمایا: تمہارے اندر دو صفتیں ایسی ہیں جو اللہ کو پسند ہیں— بردباری اور سنجیدگی۔

160

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّحْرِيشِ بَيْنَ البَهَائِمِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 1708 )۔یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع کیا ہے۔

161

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا  وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 54)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:تم جنت میں نہیں جا سکتے یہاں تک کہ تم ایمان لائو، اور تم ایمان والے نہیں بن سکتے یہاں تک کہ تم آپس میں محبت کرو۔ کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتائوں جس کو اگر تم کرو تو تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے۔ تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔

162

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّمِيمَةِ، وَنَهَى عَنِ الْغِيبَةِ وَالِاسْتِمَاعِ إِلَى الْغِيبَةِ (حلیۃ الاولیاء، جلد4، صفحہ 93)۔یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے چغلی اورغیبت سے منع فرمایا ہے اور غیبت کی بات سننے سے بھی۔

163

عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا وَعَدَ الرَّجُلُ أَخَاهُ، وَمِنْ نِيَّتِهِ أَنْ يَفِيَ لَهُ فَلَمْ يَفِ وَلَمْ يَجِئْ لِلْمِيعَادِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4995)۔یعنی زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جب ایک شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اس کو پورا کرے گا، پھر وہ (کسی عذر کی بنا پر)وعدہ پر نہ آ سکے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔

164

عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ(سنن ابوداؤد  حدیث نمبر 5121)۔ یعنی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف پکارے۔ اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے لیے لڑے۔ اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے۔

165

 عَنْ  عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ،قَالَ:قَالَ النَّبِيُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ نَصَرَ قَوْمَهُ عَلَى غَيْرِ الْحَقِّ، فَهُوَ كَالْبَعِيرِ الَّذِي رَدَى، فَهُوَ يُنْزَعُ بِذَنَبِهِ(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 5118)۔ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:جس شخص نے حق کے خلاف بات پر اپنی قوم کی مدد کی ، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی اونٹ کنوئیں میں گر رہا ہو اور اس کو دم پکڑ کر باہر نکالا جائے۔

166

عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ الشَّامِيُّ، مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهَا:فَسِيلَةُ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ:يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ(مسند احمد، حدیث نمبر 16989)۔ یعنی ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول کیا یہ عصبیت ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے۔ آپ نے فرمایا:نہیں۔ بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم پر اپنی قوم کی مدد کرے۔

167

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟ " قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ" قِيلَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ: "إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ، فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2589)۔ یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: کیاتم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:یہ کہ تم اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرو جو اس کو پسند نہ ہو۔ سوال کیا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ چیز پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اس میں وہ چیز ہو جو تم نے کہی تو یہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ چیز نہ ہو جو تم نے کہی تو یہ جھوٹا الزام ہے۔

168

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ كَفَّارَةِ الْغِيبَةِ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِمَنِ اغْتَبْتَهُ، تَقُولُ:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَلَهُ(الدعوات الکبیر للبیہقی، حدیث نمبر 575)۔ یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:غیبت کا کفّارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کے لیے دعائےمغفرت کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔ تم کہوکہ اے اللہ، تو مجھ کو اور اس کو معاف کر دے۔

169

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَجِدُ مِنْ شَرِّ النَّاسِ يَوْمَ القِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ ذَا الوَجْهَيْنِ، الَّذِي يَأْتِي هَؤُلاَءِ بِوَجْهٍ، وَهَؤُلاَءِ بِوَجْهٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6058)۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا۔ قیامت کے دن تم لوگوں میں سب سے برا آدمی اس کو پائو گے جو دو چہرے والا تھا۔ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ ایک چہرہ سے ملتا تھا اور دوسرے لوگوں سے دوسرے چہرہ کے ساتھ۔

170

عَنْ حُذيْفَةَ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 105)۔ یعنی حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: چغلی کھانے والا آدمی جنت میں نہ جائے گا۔

171

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ:لَا يَصْلُحُ الْكَذِبُ فِي جِدٍّ وَلَا هَزْلٍ، وَلَا أَنْ يَعِدَ أَحَدُكُمْ وَلَدَهُ شَيْئًا ثُمَّ لَا يُنْجِزُ لَهُ (الادب المفرد، حدیث نمبر 387)۔ یعنی عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا نہ سنجیدہ طور پر درست ہے، اورنہ مذاق کے طور پر۔ اور یہ بات بھی درست نہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بچہ سے وعدہ کرے، پھر اس کو پورا نہ کرے۔

172

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا— إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 34 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 58)۔ یعنی عبداللہ بن عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:چار باتیں ہیں، وہ جس کے اندر ہوں وہ پورا منافق ہے۔ اور جس شخص کے اندر ان میں سے کوئی ایک صفت ہو، اس کے اندر نفاق کی ایک صفت ہو گی۔ یہاں تک کہ وہ انھیں چھوڑ دے— جب اس کو امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے۔ اور جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے۔ اور جب وہ وعدہ کرے تو اس سے پھر جائے۔ اور جب وہ کسی سے اختلاف کرے تو بدزبانی کرنے لگے۔

173

 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تُمَارِ أَخَاكَ، وَلَا تُمَازِحْهُ، وَلَا تَعِدْهُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَهُ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 1995)۔ یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:تم اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو۔ اور تم اس سے مذاق نہ کرو۔ اور ایسا نہ کرو کہ تم ایک وعدہ کرو اور اس کے بعد اس سے پھر جائو۔ 

174

 عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ:عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالْإِشْرَاكِ بِاللَّهِ -ثَلَاثَ مِرَارٍ-، ثُمَّ قَرَأَ : فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ [الحج] (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 3599)۔یعنی خُریم بن فاتک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے صبح کی نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور فرمایا:جھوٹی گواہی اللہ سے شرک کرنے کے برابر ہے۔ یہ بات آپ نے تین بار فرمائی۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی:تم بتوں کی گندگی سے بچوں اور تم جھوٹی بات سے بچو۔ اللہ کے لیے یکسو ہو جائو۔ اس کے ساتھ شرک نہ کرو( 22:30)۔

175

عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ:حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4990)۔ یعنی بہز بن حکیم اپنے باپ، اپنے دادا سے روایت کرتے  ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:خرابی ہے اس شخص کے لیے جو بات کرنے میں جھوٹ بولے تاکہ لوگ اس کو سن کر ہنسیں۔ اس کے لیے خرابی ہے، اس کے لیے خرابی ہے۔

176

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا تُظْهِرِ الشَّمَاتَةَ لِأَخِيكَ فَيَرْحَمَهُ اللَّهُ وَيَبْتَلِيكَ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2506)۔ یعنی واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مصیبت پر خوش نہ ہو کہ اللہ اس پر رحم فرمائے اور تم کو مصیبت میں ڈال دے۔ 

177

خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ: إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ يَكُونَ نُطْقِي ذِكْرًا، وَصَمْتِي فِكْرًا وَنَظَرِي عِبْرَةً (مسند الشھاب القضاعی، حدیث نمبر 1159)  یعنی، رسول اللہ صلی اللہ نے اپنے خطبہ میں کہا:مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میرابولنا ذکر کا بولنا ہو اور میری خاموشی تفکر کی خاموشی ہواور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھناہو۔

178

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا يَحِلُّ لِثَلَاثَةِ نَفَرٍ يَكُونُونَ بِأَرْضِ فَلَاةٍ إِلَّا أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُمْ(مسند احمد، حدیث نمبر 6647)۔یعنی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ تین آدمی اگر کسی بیابان میں ہوں تب بھی ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک شخص کو اپنے اوپر امیر بنا لیں۔

179

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 2608)۔یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:جب تین آدمی سفر کریں تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں۔

180

عَنْ  أَنَسٍ، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ (مسند احمد، حدیث نمبر 13875)۔ یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ انسانوں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

181

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:الدُّعَاءُ هُوَ العِبَادَةُ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 3247؛سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 1479)۔ یعنی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:دعا ہی عبادت ہے۔ 

182

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ:أَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا هُوَ ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ(مسند احمد،حدیث نمبر 10968 ؛ صحیح البخاری، جلد9،صفحہ153) ۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اس وقت اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھ کو یاد کرتا ہے، جب میرے لیے اس کے دونوں ہونٹ ہلتے ہیں۔

183

عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلاَتِي، قَالَ:قُلْ:اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 834 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2705)۔ یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے کہا کہ مجھے کوئی ایسی دعا بتائیے جس کو میں اپنی نماز میں پڑھوں۔ آپ نے فرمایا کہ کہو:اے اللہ میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔ پس تو اپنی بخشش سے مجھے معاف کر دے اور میرے اوپر رحم فرما۔ بے شک تو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

184

عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2722)۔ یعنی زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کہا کرتے تھے :اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے، اور ایسے دل سے جو نہ ڈرے اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔

185

عَنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اللهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2654)۔یعنی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ، تو ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔

186

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ:أَخَذَ بِيَدِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنِّي لَأُحِبُّكَ يَا مُعَاذُ"، فَقُلْتُ: وَأَنَا أُحِبُّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَا تَدَعْ أَنْ تَقُولَ فِي كُلِّ صَلَاةٍ:رَبِّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (سنن النسائی، حدیث نمبر 1303؛سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 1522)۔ یعنی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا: اے معاذ، خدا کی قسم میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد تم یہ کہنا نہ چھوڑنا کہ اے اللہ، تو میری مدد فرما کہ میں تیری یاد کروں اور تیرا شکر کروں اور اچھی طرح تیری عبادت کروں۔

187

عَنْ أَبِيْ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:كَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَسْلَمَ، عَلَّمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ يَدْعُوَ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2697)۔ یعنی ابومالک اشجعی رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا یہ طریقہ تھاکہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو آپ اس کو نماز سکھاتے۔ پھر آپ اس کو ہدایت کرتے کہ وہ اس طرح دعا کرے:اے اللہ، مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت دے اور مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔

188

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:اللهُمَّ إِنِّي أَتَّخِذُ عِنْدَكَ عَهْدًا لَنْ تُخْلِفَنِيهِ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ شَتَمْتُهُ، لَعَنْتُهُ، جَلَدْتُهُ، فَاجْعَلْهَا لَهُ صَلَاةً وَزَكَاةً، وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2601)۔یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم نے کہا:اے اللہ، میں نے تجھ سے ایک وعدہ لیا ہے اور تو ہرگز خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ پس میں ایک انسان ہوں۔ میں نے جس مسلمان کو ستایا ہو، یا اس کو برا کہا ہو یا اس پر لعنت کی ہو یا اس کو کوڑا مارا ہو تو میرے اس فعل کو تو قیامت کے دن اس کے لیے رحمت اور پاکی اور اپنی قربت کا ذریعہ بنا دے۔

189

عَنْ  أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالجُبْنِ وَالبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6369؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2706)۔یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلّم اس طرح کہا کرتے تھے:اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں پریشانی سے اور رنج سے۔ عجز سے اور سُستی سے۔ بزدلی سے اور بخیلی سے، اور قرض کے بوجھ سے اور اس سے کہ لوگ میرے اوپر غالب آجائیں۔

190

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي بَعْضِ صَلَاتِهِ:اللهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَسِيرًا. فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ:يَا نَبِيَّ اللهِ، مَا الْحِسَابُ الْيَسِيرُ؟ قَالَ:أَنْ يَنْظُرَ فِي كِتَابِهِ فَيَتَجَاوَزَ عَنْهُ، إِنَّهُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَوْمَئِذٍ يَا عَائِشَةُ هَلَكَ(مسند احمد، حدیث نمبر 24215)۔ یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اپنی بعض نمازوں میں اس طرح کہہ رہے ہیں:اے اللہ، مجھ سے آسان حساب لینا۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو میں نے کہا:اے خدا کے رسول، آسان حساب کیا ہے۔ آپ نے فرمایاکہ اللہ بندے کے اعمال نامہ کو دیکھے اور پھر اس سے درگزر فرمائے۔ اے عائشہ، بے شک جس سے پورا حساب لیا گیاوہ ہلاک ہوا۔

191

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ:إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا، قَالُوا:إِذًا نُكْثِرُ، قَالَ:اللَّهُ أَكْثَرُ(مسند احمد، حدیث نمبر 11133)۔یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایاکہ جب بھی کوئی مومن ایسی دعاکرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا قطع تعلق نہ ہوتو اللہ ضرور اس کو تین میں سے ایک چیز دے دیتا ہے ۔ یا تو دنیا ہی میں اسکی دعا پوری کر دی جاتی ہے۔ یا اس کو آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔ یا اس کی مانند کوئی مصیبت اس سے ٹال دی جاتی ہے۔ لوگوں نے کہا پھر تو ہم بہت دعا کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ بھی بہت دینے والا ہے۔

192

عَنْ أَبِي بَكَرَةَ،قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:دَعَوَاتُ الْمَكْرُوبِ:اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ(مسند احمد، حدیث نمبر 20430)۔یعنی ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ پریشان آدمی کی د عا یہ ہے: اے اللہ میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، تو ایک لمحہ کے لیے بھی مجھے میرے نفس کے حوالہ نہ کر۔ اور میرے تمام معاملات کو درست کر دے۔ تیرے سواکوئی معبود نہیں۔

193

 عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ العَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الآخِرِ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللَّهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3579)۔ یعنی عَمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ اپنے بندے سے سب سے زیاد ہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے۔ اگر تم سے یہ ہو سکے کہ تم اس ساعت میں اللہ کی یاد کرنے والے بنو تو تم ایساکرو۔

194

عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2759)۔ یعنی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ اپنا ہاتھ رات کے وقت پھیلاتا ہے تاکہ دن میں برائی کرنے والوں کی توبہ قبول کرے۔ اور اللہ اپنا ہاتھ دن میں پھیلاتا ہے تاکہ رات میں برائی کرنے والوں کی توبہ قبول کرے۔ یہ جاری رہے گا یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔

195

عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لاَ يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَيِّ وَالمَيِّتِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6407)۔یعنی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ کو یاد کرنے والے اور اللہ کو یاد نہ کرنے والے میں وہی فرق ہے جو زندہ میں اور مردہ میں۔  

196

 عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي صَلَاتِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ، وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ، وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ قَلْبًا سَلِيمًا، وَلِسَانًا صَادِقًا، وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَعْلَمُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا تَعْلَمُ(سنن النسائی، حدیث نمبر 1304)۔یعنی شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد کہا کرتے تھے:اے اللہ، میں تجھ سے امر(حق)پر جمنے کی توفیق مانگتا ہوں۔ اور میں تجھ سے ہدایت میں پختگی کی دعا مانگتا ہوں۔ اور میں تجھ سے تیری نعمت پر شکرکرنے کا اور تیرے لیے بہتر عبادت کی توفیق مانگتا ہوں۔ اور میں تجھ سے پاک و صاف دل  اور سچ بولنے والی زبان کی درخواست کرتا ہوں۔ اور تجھ سے خیر کا سوال کرتا ہوں، اور اس برائی سے پناہ چاہتا ہوں جس کو تو جانتا ہے،اور تیری مغفرت چاہتا ہوں اس(کوتاہی)سے جس کو تو جانتا ہے۔

197

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ:أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَعَ مَائِدَتَهُ قَالَ:الحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلاَ مُوَدَّعٍ وَلاَ مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5458)۔ یعنی ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا طریقہ یہ تھا کہ جب دسترخوان اُٹھا لیا جاتا تو آپ فرماتے کہ اللہ کی تعریف ہے، بہت ز یادہ، بہترین بابرکت تعریف، ایسی تعریف جو ہم خود کریں، ایسی تعریف جو کبھی ہم سے ترک نہ ہو اور جس سے ہم کبھی بے نیاز اور بے پروا نہ ہوں، اے ہمارے رب۔

198

عَنْ سَلْمَانَ الفَارِسِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتَيْنِ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3556)۔ یعنی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ حیا دار اور کریم ہے۔ اللہ کو اس سے حیا آتی ہے کہ کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ اس کے آگے پھیلائے اور وہ ان کو ناکام اور خالی حالت میں واپس کر دے۔  

199

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بِنْ مَسْعُوْدٍ:كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ فَأَدْمَوْهُ، وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَيَقُولُ:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3477 ؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1792)۔ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر کا حال بیان فرما رہے ہیں۔ ان کو ان کی قوم نے مارا۔ یہاں تک کہ انھیں خون آلود کر دیا۔ وہ اپنے چہرے سےخون پونچھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے میرے اللہ، میری قوم کو بخش دے، کیوں کہ وہ نہیں جانتے۔

200

عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"الدِّينُ النَّصِيحَةُ" قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: "لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ"(صحیح مسلم، حدیث نمبر 55)۔ یعنی تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:دین خیر خواہی ہے، دین خیر خواہی ہے، دین خیر خواہی ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کس کے لیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور اس کی کتاب کے لیے اور مسلمانوں کے سربراہوں کے لیے اور انکے عوام کے لیے۔ 

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom