By
Maulana Wahiduddin Khan
ذريعه: الرساله، فروري 2017

ذہن سازی ایک اہم ترین کام ہے۔ لیکن ذہن سازی کبھی یہ کرو، وہ نہ کرو(dos and don'ts) کی زبان میں نہیں ہوتی۔ ذہن سازی کا آغاز سب سے پہلے یہاں سے ہوتاہے کہ آدمی کے اندر فکری عمل (intellectual process)جاری کیا جائے۔

فکری عمل جاری کرنا مربی کا کام ہے اور فکری عمل کو آخری حد تک پہنچانا زیر تربیت فرد کا کام ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ لِّکَیْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ(57:23) ۔

قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی زندگی میں غم کے واقعات دراصل ذہنی صدمہ (intellectual shock) کے لئے ہوتےہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ آدمی کے ذہن میں ہلچل پیداکی جائے۔ اس کے ذہن میں سوچ کا عمل (process) جاری ہو۔ آدمی کی تخلیقیت میںاضافہ ہو یہاں تک کہ وہ خود اپنی سوچ کے تحت ایک حقیقت تک پہنچے۔ آدمی کا مزاج یہ ہے کہ وہ ذاتی تجربہ سے سیکھتا ہے نہ کہ صرف بتا دینے سے۔

ذہنی تربیت ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اس کے نصف حصے کا تعلق مربی سے ہے، اوربقیہ نصف حصے کا تعلق اس سے جس کی تربیت مقصود ہے۔دو طرفہ ارادہ اور دو طرفہ کوشش کے بغیر تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔

مربی کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنے آپ کو تیار کرے، وہ زیر تربیت فرد یا افراد کے کیس کو گہرائی کے ساتھ سمجھے۔ ضروری مطالعے کے بعد وہ تربیت کی مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کرے۔ تربیت کے معاملے میں مربی کا صرف عالم ہونا کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ لازمی طور پر ضروری ہے کہ مربی زیرتربیت افراد کا مکمل خیر خواہ ہو۔ تربیت نام ہے تین چیزوں کے مجموعے کا— علم، حکمت اور خیر خواہی۔

Category/Sub category

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom