ذريعه: الرساله مئي، 2020، صفحه 24
قرآن میں تین مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ موت کاذائقہ چکھے (آل عمران،3:185، الانبیاء، 21:35، العنکبوت، 29:57) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو ضرور موت کا تجربہ پیش آنے والا ہے۔موت سے پہلے انسان پر بڑھاپا آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑھاپا انسان کے لیے زندگی کاصرف ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ بڑھاپا انسان کے لیے موت کا ایک پیشگی تجربہ ہے۔
بڑھاپا اس لیے آتا ہے کہ انسان تجربے کی صورت میں موت کی حقیقت کو جان لے۔ تاکہ وہ موت کے بعد پیش آنے والے دورِ حیات کی پیشگی تیاری کرلے۔ موت بہر حال ہر انسان کے لیے آتی ہے۔ مگر بڑھاپا انسان کے لیے ایک چیتاونی ہے، تاکہ وہ موت سے پہلے موت کے بعد والے حالات کی تیاری کرلے۔
ہر انسان کو موت کا ذائقہ چکھناہے، یعنی ہر انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ موت کا تجربہ کرے۔ بڑھاپے سے پہلے انسان کے لیے موت ایک خبر ہوتی ہے۔ لیکن بڑھاپا انسان کے لیے موت کا ایک تجربہ بنا رہتا ہے۔ اس لحاظ سے بڑھاپے کا زمانہ گویا فائنل کال(final call) ہے کہ انسان آخرت سے پہلے آخرت کی تیاری کرلے۔ بڑھاپے کا زمانہ آخرت کی تیاری کا آخری زمانہ ہے۔ بڑھاپے کے ساتھ یہ زمانہ ختم ہوجائے گا، اور انسان کو یہ موقع باقی نہ رہے گا کہ انسان آخرت کے لیے مزید تیاری کرسکے۔
موت انسان کے لیے ایک دورِ حیات کی پیشگی خبر ہے۔ موت سے پہلے انسان زندگی قبل از موت کا تجربہ کرتا ہے۔ موت انسان کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ موت کے بعد آنے والے دورِ آخرت کے لیے اپنے آپ کو پیشگی طور پر تیار کرلے۔وہ اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے تیار کرلے کہ آخرت کا زمانہ اچانک آجائے، اور اس کے لیے اس نے اپنی تیاری نہ کی ہو۔